ہمیشہ لوگوں کی رضا مندی و ناراضگی کا لحاظ رکھنا اکثریت کی ہلاکت کا سبب ہے - امام ابن قدامہ
hamesha logo ki razamandi ya narazgi ka lehaz rakhna aksariyat ki halakat ka sabab hai - imaam ibn qudamah
hamesha logo ki razamandi ya narazgi ka lehaz rakhna aksariyat ki halakat ka sabab hai - imaam ibn qudamah
انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے مشن کا غلط تعین کرنا - شیخ ربیع المدخلی
anbiyah kiram k manhaj ka ghalat ta'ayyun karna - shaykh rabee al_madkhalee
anbiyah kiram k manhaj ka ghalat ta'ayyun karna - shaykh rabee al_madkhalee
[Urdu Article] Speaking kindly to the #wife and having a concern with one's appearance - Shaykh Muhammad Alee Ferkus
#بیوی سے پیاری باتيں کرنا اور اس کے لیے اپنے حلیے کو سنوارنا
فضیلۃ الشیخ ابی عبدالمعز محمد علی فرکوسحفظہ اللہ
(استاذ کلیۃ العلوم الاسلامیۃ، جامعہ الجزائر)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: المُعِينُ في بَيَانِ حُقُوقِ الزَّوْجَيْن۔
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/02/bv_pyari_baate_hulya_sanwarna.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بیوی سے پیاری باتیں کرنا اور اس کے لیے اپنا حلیہ سنوارنے کا خیال رکھنا۔ کیونکہ اسے بھی اپنے شوہر میں وہ بات پسند ہوتی ہے جو شوہر کو اپنی بیوی میں پسند ہوتی ہے۔امام ابن کثیر رحمہ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی ازواج یعنی امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کے ساتھ حال ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہيں:
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق میں سے یہ بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر والیوں کے ساتھ خوبصورت معاشرت اپناتے، اور ہمیشہ خوش مزاج رہتے، اپنی اہلیہ کے ساتھ کھیلتےاور ان پر نرمی وشفقت فرماتے، دل کھول کر ان پر خرچ کرتے ،اور اپنے عورتوں کو ہنساتے، یہاں تک کہ آپ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ دوڑ تک لگاتے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ان سے محبت کے اظہار کا طریقہ تھا‘‘([1])۔
اس میں کوئی شک نہيں کہ اپنی بیوی کو اپنے قول یا فعل سے تکلیف دینا، یاکثرت سے منہ بسورے رکھنا اور ملتے وقت تیوری چڑھائے رکھنا، اور اس سے منہ پھیر کے دوسروں میں لگے رہنا حسن معاشرت کے خلاف ہے۔ امام القرطبی رحمہ اللہ اس آیت کے معنی میں فرماتے ہیں کہ:
﴿وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ (النساء: 19)
(اور ان کے ساتھ بہترین طریقےسے گزر بسر کرو)
’’یعنی جو اللہ تعالی نے حسن معاشرت کا حکم دیا ہے ۔۔۔اور وہ اس طرح سے اس کا حق ادا کرنا ہے کہ مہر ہو یا نان نفقہ وہ دیا جائے، اور بلاقصور اس کے سامنے پیشانی پر بل لاکر برا سا منہ نہ بنایا جائے، خوش گفتاری اپنائے ترش روی او رسنگدلی اور کسی دوسری کی طرف میلان کو ظاہر نہ کرے۔۔۔پس اللہ تعالی نے عورتوں کے ساتھ حسن صحبت کا حکم دیا ہے جب ان سے عقد نکاح ہوجائے تاکہ ان کے مابین الفت وموافقت قائم رہے اور ان کا ساتھ اپنے کمال کے ساتھ قائم ودائم رہے، کیونکہ یہ بلاشبہ نفس کے اطمینان اور زندگی کے لیے سکون کا ذریعہ ہے‘‘([2])۔
اور حسن معاشرت کے خلاف یہ بات بھی ہےکہ انسان اپنے حلیے اور بننے سنورنے کا خیال نہ رکھے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
’’إِنِّي لَأُحِبُّ أَنْ أَتَزَيَّنَ لِلْمَرْأَةِ كَمَا أُحِبُّ أَنْ تَزَّيَّنَ لِي؛ لِأَنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ: ﴿وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ (البقرة: 228)‘‘([3])
(بے شک میں پسند کرتا ہوں کہ اپنی عورت کے لیے زینت اختیار کروں جیسے میں یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ میرے لیے بنے سنورے، کیونکہ بلاشبہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’’اور معروف کے مطابق ان عورتوں کے لیے اسی طرح حق ہے جیسے ان کے اوپر حق ہے ‘‘)۔
’’چناچہ مردوں کی زینت ان کے احوال اور عمر کے اعتبار سے مختلف ہوا کرتی ہے کہ وہ اس بارے میں اپنی لیاقت وفن کو استعمال کریں تو ایسا لباس پہنیں جو ان کے مناسب حال ہو، منہ صاف رکھیں اور دانتوں کے بیچ جو کھانے کے ذرات وغیرہ رہ جاتے ہیں انہيں مسواک وغیرہ سے صاف رکھیں، اور جو چیزیں انسان کے جسم پر لگ جاتی ہيں جیسے میل کچیل اسے دور کریں، اسی طرح سے غیرضروری بالوں کی صفائی، ناخن تراشنا اور بڑی عمر والوں کے لیے خضاب لگانا اور انگوٹھی پہننا وغیرہ جیسی باتيں جو اس کے حقوق کی ادائیگی کرتی ہوں، تاکہ وہ اپنی بیوی کے پاس ایسی زیب وزینت میں رہے جو اسے بھائے اور اسے دوسرے مردوں میں دلچسپی لینے سے محفوظ رکھے‘‘([4])۔
[1] «تفسير ابن كثير» (١/ ٤٦٦).
[2] «تفسير القرطبي» (٥/ ٩٧)، بتصرُّف.
[3] أخرجه البيهقي في «السنن الكبرى» (١٤٧٢٨)، وابن أبي شيبة في «مصنَّفه» (١٩٢٦٣).
[4] انظر: «تفسير القرطبي» (٣/ ١٢٤).
#بیوی سے پیاری باتيں کرنا اور اس کے لیے اپنے حلیے کو سنوارنا
فضیلۃ الشیخ ابی عبدالمعز محمد علی فرکوسحفظہ اللہ
(استاذ کلیۃ العلوم الاسلامیۃ، جامعہ الجزائر)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: المُعِينُ في بَيَانِ حُقُوقِ الزَّوْجَيْن۔
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/02/bv_pyari_baate_hulya_sanwarna.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بیوی سے پیاری باتیں کرنا اور اس کے لیے اپنا حلیہ سنوارنے کا خیال رکھنا۔ کیونکہ اسے بھی اپنے شوہر میں وہ بات پسند ہوتی ہے جو شوہر کو اپنی بیوی میں پسند ہوتی ہے۔امام ابن کثیر رحمہ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی ازواج یعنی امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کے ساتھ حال ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہيں:
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق میں سے یہ بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر والیوں کے ساتھ خوبصورت معاشرت اپناتے، اور ہمیشہ خوش مزاج رہتے، اپنی اہلیہ کے ساتھ کھیلتےاور ان پر نرمی وشفقت فرماتے، دل کھول کر ان پر خرچ کرتے ،اور اپنے عورتوں کو ہنساتے، یہاں تک کہ آپ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ دوڑ تک لگاتے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ان سے محبت کے اظہار کا طریقہ تھا‘‘([1])۔
اس میں کوئی شک نہيں کہ اپنی بیوی کو اپنے قول یا فعل سے تکلیف دینا، یاکثرت سے منہ بسورے رکھنا اور ملتے وقت تیوری چڑھائے رکھنا، اور اس سے منہ پھیر کے دوسروں میں لگے رہنا حسن معاشرت کے خلاف ہے۔ امام القرطبی رحمہ اللہ اس آیت کے معنی میں فرماتے ہیں کہ:
﴿وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ (النساء: 19)
(اور ان کے ساتھ بہترین طریقےسے گزر بسر کرو)
’’یعنی جو اللہ تعالی نے حسن معاشرت کا حکم دیا ہے ۔۔۔اور وہ اس طرح سے اس کا حق ادا کرنا ہے کہ مہر ہو یا نان نفقہ وہ دیا جائے، اور بلاقصور اس کے سامنے پیشانی پر بل لاکر برا سا منہ نہ بنایا جائے، خوش گفتاری اپنائے ترش روی او رسنگدلی اور کسی دوسری کی طرف میلان کو ظاہر نہ کرے۔۔۔پس اللہ تعالی نے عورتوں کے ساتھ حسن صحبت کا حکم دیا ہے جب ان سے عقد نکاح ہوجائے تاکہ ان کے مابین الفت وموافقت قائم رہے اور ان کا ساتھ اپنے کمال کے ساتھ قائم ودائم رہے، کیونکہ یہ بلاشبہ نفس کے اطمینان اور زندگی کے لیے سکون کا ذریعہ ہے‘‘([2])۔
اور حسن معاشرت کے خلاف یہ بات بھی ہےکہ انسان اپنے حلیے اور بننے سنورنے کا خیال نہ رکھے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
’’إِنِّي لَأُحِبُّ أَنْ أَتَزَيَّنَ لِلْمَرْأَةِ كَمَا أُحِبُّ أَنْ تَزَّيَّنَ لِي؛ لِأَنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ: ﴿وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ (البقرة: 228)‘‘([3])
(بے شک میں پسند کرتا ہوں کہ اپنی عورت کے لیے زینت اختیار کروں جیسے میں یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ میرے لیے بنے سنورے، کیونکہ بلاشبہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’’اور معروف کے مطابق ان عورتوں کے لیے اسی طرح حق ہے جیسے ان کے اوپر حق ہے ‘‘)۔
’’چناچہ مردوں کی زینت ان کے احوال اور عمر کے اعتبار سے مختلف ہوا کرتی ہے کہ وہ اس بارے میں اپنی لیاقت وفن کو استعمال کریں تو ایسا لباس پہنیں جو ان کے مناسب حال ہو، منہ صاف رکھیں اور دانتوں کے بیچ جو کھانے کے ذرات وغیرہ رہ جاتے ہیں انہيں مسواک وغیرہ سے صاف رکھیں، اور جو چیزیں انسان کے جسم پر لگ جاتی ہيں جیسے میل کچیل اسے دور کریں، اسی طرح سے غیرضروری بالوں کی صفائی، ناخن تراشنا اور بڑی عمر والوں کے لیے خضاب لگانا اور انگوٹھی پہننا وغیرہ جیسی باتيں جو اس کے حقوق کی ادائیگی کرتی ہوں، تاکہ وہ اپنی بیوی کے پاس ایسی زیب وزینت میں رہے جو اسے بھائے اور اسے دوسرے مردوں میں دلچسپی لینے سے محفوظ رکھے‘‘([4])۔
[1] «تفسير ابن كثير» (١/ ٤٦٦).
[2] «تفسير القرطبي» (٥/ ٩٧)، بتصرُّف.
[3] أخرجه البيهقي في «السنن الكبرى» (١٤٧٢٨)، وابن أبي شيبة في «مصنَّفه» (١٩٢٦٣).
[4] انظر: «تفسير القرطبي» (٣/ ١٢٤).
[Urdu Article] Refutation of misleading Fatawaa of #Ahmad_bin_Qasim_Al_Ghamadee - Various 'Ulamaa
#احمد_بن_قاسم_الغامدی کے گمراہ کن فتاویٰ کا رد
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/02/ahmad_bin_qasim_ghamadi_fatawaa_gumrahkun.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال:عبداللہ کہتے ہیں کہ سماحۃ الشیخ: بعض بہنیں ملتی ہيں جو اپنے چہرے کا پردہ نہیں کرتیں اور استدلال کرتی ہیں کہ یہ بات شافعی اور حنفی مذہب میں موجود ہے؟
جواب از مفتئ اعظم سعودی عرب، شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ حفظہ اللہ:
میری بہنوں اور بھائیوں میں اللہ تعالی سے اپنے اور آپ کے لیے توفیق اور راست بازی کی دعاء کرتا ہوں۔میرے بھائیوں حجاب ایک اسلامی اخلاق ہے جس پر امہات المؤمنین اور عہد نبوی کی صحابیات رضی اللہ عنہن عمل کرتی رہيں، اور خلفائےراشدین کے دور میں بھی اور اس کے بعد سے لے کر آج تک، یہاں تک کہ گھٹیا مغربی ثقافت نے یلغار شروع کردی۔ ورنہ تو تمام مسلمانوں کی خواتین حجاب کرتی رہی ہيں اور اس حجاب کو وہ ایک ضروری عمل اور اسلامی اخلاق میں سے سمجھتی ہيں۔ جو یہ دعویٰ کرتے ہيں کہ حجاب کی کوئی اصل نہيں ، اس کے خلاف لڑتے ہيں، اس کی مذمت کرتے اور اس کا مذاق اڑاتے ہيں یہ لوگ ہدایت پر نہيں ہیں۔ ہم اللہ تعالی سے ثابت قدمی کی دعاء کرتے ہيں۔
آجکل بعض چینلز پر ایسے لوگ نمودار ہوئے ہیں جو یہ تک کہتے ہیں کہ باجماعت مسجد میں نماز پڑھنے کی کوئی اہمیت نہیں نہ قدر ومنزلت ہے، بس اپنے گھروں پر نماز پڑھو([1])۔ وہ باجماعت نماز اور گھر کی نماز کو برابر قرار دیتے ہيں۔ اپنے اس قول میں وہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کرتے ہيں۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مسجد میں باجماعت نماز گھر پر انفرادی پڑھی گئی نماز سے پچیس گنا افضل ہے۔ لیکن یہ کہتے ہيں نہیں! اپنے گھر پر نماز پڑھو، یا جہاں چاہے پڑھو دونوں میں فرق نہیں۔ بلکہ بعض تو یہ کہتے ہیں نماز باجماعت کا حکم کرنا لوگوں کی شخصی زندگی میں مداخلت ہے۔ اور بعض یوم عرفہ کی تعلق سے یہ غلط باتیں پھیلاتے ہیں کہ غیر حاجیوں کے لیے یوم عرفہ کا روزہ رکھنے کی کوئی فضیلت نہیں، نہ ہی ا س کی کوئی اصل ہے اور نہ ہی یہ ہے وہ ہے۔۔۔اور مختلف (شاذ ومنفرد ) آراء کو نشر کرتے ہيں کہ ہم ان کے اور لوگوں کے مابین آڑ نہیں رکھنا چاہتے (یعنی انہیں تمام مسائل سے نکلنے کے حیلے اور جواز کا علم ہو!)۔ یہ سب باتیں خیر سے روکنے والی ہیں۔
حالانکہ اس منہج (نماز باجماعت و حجاب وغیرہ) پر سلف صالحین اور آئمہ ہدایت چلتے آئے ہیں۔تمام چینلز کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالی سے ڈریں ، میں چینلز والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے بارے میں اللہ تعالی سے ڈریں اور معاشرے کے سامنے وہ چیز پیش نہ کریں جو ان کے دین، اخلاق اور تہذیب کو بگاڑ دیں۔ صرف اس چیز کو نشر کریں جس کا علم ہو، جس کے خیر اور دین کی نصرت ہونے کے بارے میں یقین ہو۔ جبکہ ایسے لوگوں کو علم کی میز پر بٹھا دیا جائے اور وہ اصول اسلام پر بھی قدح کرنے اور واجبات اسلام پر نقب زنی کرنے لگیں اور اسلام کے جو فضائل وامتیازات ہیں ان کی تنقیص شان کریں اور حقیر باور کروائيں، تو یہ سب غلط ہے۔ لہذا میں چینلز کے مالکان کو خبردار کرتا ہوں کہ کہیں وہ باطل کے داعیان نہ بن جائیں۔
یہ چینلز تو فقط لوگوں کی رہنمائی کے لیے ہونے چاہیے۔ جبکہ حال یہ ہو کہ ہر روز کوئی چینل آرہا ہے اور اسے چلانے والے ایسے لوگ ہوں کہ جو اللہ تعالی سے نہيں ڈرتے اور تقویٰ اختیار نہیں کرتے([2])۔
پس میں بھائیوں سے چاہتا ہوں کہ اس پر متنبہ ہوں اور اللہ تعالی دیکھ رہا ہے اس کا خیال کریں، اور اس فرمان باری تعالی کو یاد کریں کہ:
﴿لِيَحْمِلُوْٓا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ ۙ وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِيْنَ يُضِلُّوْنَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۭ اَلَا سَاۗءَ مَا يَزِرُوْنَ﴾
(النحل: 25)
(تاکہ وہ قیامت کے دن اپنے بوجھ پورے اٹھائیں اور کچھ ان کے بوجھ میں سے بھی جنہیں وہ علم کے بغیر گمراہ کرتے رہے۔ سن لو ! برا ہے وہ بوجھ جو وہ اٹھا رہے ہیں)
اور حدیث میں بھی ہے کہ جو گمراہی کی طرف بلائے تو اسے اس کا گناہ ہوگا اور اس کی پیروی کرنے والو ں کا گناہ بھی اسے ملے گا، جبکہ ان کے گناہوں میں سے کچھ کم نہيں کیا جائے گا۔
#احمد_بن_قاسم_الغامدی کے گمراہ کن فتاویٰ کا رد
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/02/ahmad_bin_qasim_ghamadi_fatawaa_gumrahkun.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال:عبداللہ کہتے ہیں کہ سماحۃ الشیخ: بعض بہنیں ملتی ہيں جو اپنے چہرے کا پردہ نہیں کرتیں اور استدلال کرتی ہیں کہ یہ بات شافعی اور حنفی مذہب میں موجود ہے؟
جواب از مفتئ اعظم سعودی عرب، شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ حفظہ اللہ:
میری بہنوں اور بھائیوں میں اللہ تعالی سے اپنے اور آپ کے لیے توفیق اور راست بازی کی دعاء کرتا ہوں۔میرے بھائیوں حجاب ایک اسلامی اخلاق ہے جس پر امہات المؤمنین اور عہد نبوی کی صحابیات رضی اللہ عنہن عمل کرتی رہيں، اور خلفائےراشدین کے دور میں بھی اور اس کے بعد سے لے کر آج تک، یہاں تک کہ گھٹیا مغربی ثقافت نے یلغار شروع کردی۔ ورنہ تو تمام مسلمانوں کی خواتین حجاب کرتی رہی ہيں اور اس حجاب کو وہ ایک ضروری عمل اور اسلامی اخلاق میں سے سمجھتی ہيں۔ جو یہ دعویٰ کرتے ہيں کہ حجاب کی کوئی اصل نہيں ، اس کے خلاف لڑتے ہيں، اس کی مذمت کرتے اور اس کا مذاق اڑاتے ہيں یہ لوگ ہدایت پر نہيں ہیں۔ ہم اللہ تعالی سے ثابت قدمی کی دعاء کرتے ہيں۔
آجکل بعض چینلز پر ایسے لوگ نمودار ہوئے ہیں جو یہ تک کہتے ہیں کہ باجماعت مسجد میں نماز پڑھنے کی کوئی اہمیت نہیں نہ قدر ومنزلت ہے، بس اپنے گھروں پر نماز پڑھو([1])۔ وہ باجماعت نماز اور گھر کی نماز کو برابر قرار دیتے ہيں۔ اپنے اس قول میں وہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کرتے ہيں۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مسجد میں باجماعت نماز گھر پر انفرادی پڑھی گئی نماز سے پچیس گنا افضل ہے۔ لیکن یہ کہتے ہيں نہیں! اپنے گھر پر نماز پڑھو، یا جہاں چاہے پڑھو دونوں میں فرق نہیں۔ بلکہ بعض تو یہ کہتے ہیں نماز باجماعت کا حکم کرنا لوگوں کی شخصی زندگی میں مداخلت ہے۔ اور بعض یوم عرفہ کی تعلق سے یہ غلط باتیں پھیلاتے ہیں کہ غیر حاجیوں کے لیے یوم عرفہ کا روزہ رکھنے کی کوئی فضیلت نہیں، نہ ہی ا س کی کوئی اصل ہے اور نہ ہی یہ ہے وہ ہے۔۔۔اور مختلف (شاذ ومنفرد ) آراء کو نشر کرتے ہيں کہ ہم ان کے اور لوگوں کے مابین آڑ نہیں رکھنا چاہتے (یعنی انہیں تمام مسائل سے نکلنے کے حیلے اور جواز کا علم ہو!)۔ یہ سب باتیں خیر سے روکنے والی ہیں۔
حالانکہ اس منہج (نماز باجماعت و حجاب وغیرہ) پر سلف صالحین اور آئمہ ہدایت چلتے آئے ہیں۔تمام چینلز کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالی سے ڈریں ، میں چینلز والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے بارے میں اللہ تعالی سے ڈریں اور معاشرے کے سامنے وہ چیز پیش نہ کریں جو ان کے دین، اخلاق اور تہذیب کو بگاڑ دیں۔ صرف اس چیز کو نشر کریں جس کا علم ہو، جس کے خیر اور دین کی نصرت ہونے کے بارے میں یقین ہو۔ جبکہ ایسے لوگوں کو علم کی میز پر بٹھا دیا جائے اور وہ اصول اسلام پر بھی قدح کرنے اور واجبات اسلام پر نقب زنی کرنے لگیں اور اسلام کے جو فضائل وامتیازات ہیں ان کی تنقیص شان کریں اور حقیر باور کروائيں، تو یہ سب غلط ہے۔ لہذا میں چینلز کے مالکان کو خبردار کرتا ہوں کہ کہیں وہ باطل کے داعیان نہ بن جائیں۔
یہ چینلز تو فقط لوگوں کی رہنمائی کے لیے ہونے چاہیے۔ جبکہ حال یہ ہو کہ ہر روز کوئی چینل آرہا ہے اور اسے چلانے والے ایسے لوگ ہوں کہ جو اللہ تعالی سے نہيں ڈرتے اور تقویٰ اختیار نہیں کرتے([2])۔
پس میں بھائیوں سے چاہتا ہوں کہ اس پر متنبہ ہوں اور اللہ تعالی دیکھ رہا ہے اس کا خیال کریں، اور اس فرمان باری تعالی کو یاد کریں کہ:
﴿لِيَحْمِلُوْٓا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ ۙ وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِيْنَ يُضِلُّوْنَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۭ اَلَا سَاۗءَ مَا يَزِرُوْنَ﴾
(النحل: 25)
(تاکہ وہ قیامت کے دن اپنے بوجھ پورے اٹھائیں اور کچھ ان کے بوجھ میں سے بھی جنہیں وہ علم کے بغیر گمراہ کرتے رہے۔ سن لو ! برا ہے وہ بوجھ جو وہ اٹھا رہے ہیں)
اور حدیث میں بھی ہے کہ جو گمراہی کی طرف بلائے تو اسے اس کا گناہ ہوگا اور اس کی پیروی کرنے والو ں کا گناہ بھی اسے ملے گا، جبکہ ان کے گناہوں میں سے کچھ کم نہيں کیا جائے گا۔
میزبان: شیخ جیسا کہ آپ جانتے ہیں پچھلے کچھ سالوں سے بعض ایسی آراء ظاہر ہوئی ہیں جو لوگوں کو بہت تشویش کا شکار کرتے ہيں اور ایسی باتوں کو جو لوگوں کے نزدیک دین میں مسلمہ ہیں اور شک کی گنجائش نہيں اسے متزلزل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور آپ کی طرف سے اور کبار علماء کمیٹی کی طرف سے بھی کچھ ماہ پہلے اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ اس قسم کے امور کا سدباب کیا جائے۔ اور ایسے لوگوں کو جو صحیح علم کے حاملین نہيں اجازت نہ دی جائے کہ وہ اس قسم کے انوکھے فتاویٰ کے ذریعے لوگوں میں افراتفری پھیلائیں، لہذا آپ سماحۃ الشیخ اور کبار علماء کمیٹی اس تعلق سے کیا پیش کرنا چاہتے ہیں؟
جواب: اللہ انہیں ہوش دے اور وہ اپنی اس غلطی کو جان لیں۔ ایسے لوگ ہیں کہ جو علم کی طرف منسوب ہوتے ہیں لیکن علماء نہيں ہوتے، اور علم کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ اس سے محروم ہوتے ہیں۔ لیکن ان کے دل میں مرض ہوتا ہے، اور مشہوری چاہتے ہیں، تو وہ ایسے امور جو مسلمانوں کے یہاں بالکل دلوں میں راسخ اور مسلمہ ہيں اس کے درپے ہوتے ہیں۔ جیسے نماز باجماعت کا مسئلہ ہی لے لیں، آخر یہ مساجد پھر کیوں بنائی جاتی ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿فِيْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيْهَا اسْمُهٗ ۙ يُسَبِّحُ لَهٗ فِيْهَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ، رِجَالٌ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَاِقَامِ الصَّلٰوةِ وَاِيْتَاۗءِ الزَّكٰوةِ ۽ يَخَافُوْنَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْهِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ﴾
(النور: 36-37)
(ان گھروں میں جن کے بارے میں اللہ نے حکم دیا ہے کہ وہ بلند کیے جائیں اور ان میں اس کا نام ذکر کیا جائے، اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں ان میں صبح و شام، وہ مرد جنہیں اللہ کے ذکر سے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے سے نہ کوئی تجارت غافل کرتی ہے اور نہ کوئی خریدو فروخت، وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی)
اور فرمایا:
﴿اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ وَلَمْ يَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ﴾
(التوبۃ: 18)
(اللہ کی مسجدیں تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لاتا اور نماز قائم کرتا اور زکوٰۃ ادا کرتا ہے، اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا)
لہذا اگر ہم جماعت کو معطل کردیں گے اور کہیں گے گھر پر پڑھنا یا جماعت میں برابر ہے تو ہم اپنے درمیان سے ایک عظیم دینی شعیرے سے محروم ہوجائيں گے۔یہ بہت ہی خطرناک معاملہ ہے۔ کوئی ایسا غلط شخص آئے اور کہے یہ اختلاف لوگوں سے مخفی تھا میں اس کی تجدید کے لیے آیا ہوں، اس ملک میں ہم جس فطرت اور صحیح عقیدے پر ہیں اسے بدلنا چاہے ۔ یہ ملک ایک صالح دعوت پر قائم ہے جسے مصلح شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے قائم فرمایا۔ اور اسلامی بادشاہوں کی سرپرستی میں اللہ ان کے فوت شدگان کی مغفرت فرمائے اور جو باقی ہيں ان کی اصلاح فرمائے۔ یہ سب کے سب سیدھے منہج اور صراط مستقیم پر ہیں، ا س پر چلنے کی کوشش کرتے ہيں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم اور اچھے طور پر ان کی پیروی کرنے والے چلے تھے۔ ہم پر واجب ہے کہ ہم اسے مضبوطی سے تھامے رہیں۔ اور ان کے ہاتھوں کو روکیں جو شذوذ (انوکھے منفرد مسائل و آراء) اختیار کرنا اور سیدھے منہج سے نکلنا چاہتا ہے۔
اللہ تعالی سے توفیق اور راست بازی کا سوال ہے۔
(مفہوم: برنامج : مع سماحة المفتي ، الجمعة 26-2-1433 هـ , رد المفتي على احمد الغامدي)
اسی طرح سعودی ٹی وی فتاویٰ کے پروگرام میں ایک دوسرے فتویٰ میں فرماتے ہیں:
حجاب اسلامی اخلاق میں سے ہے اور امہات المؤمنین اور ان کے بعد کے تمام مسلمان خواتین کرتی آئی ہيں۔ پھر یہ آیت پڑھی:
﴿يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ﴾ (الاحزاب: 59)
(اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے آپ پر لٹکا لیا کریں، یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انہیں تکلیف نہ پہنچائی جائے)
اسی طرح اللہ تعالی نے جو شریعت میں اس عورت کے چہرے کو دیکھنے کی اجازت دی ہے جس کے پاس رشتے کا پیغام بھیجا ہو، جس سے صاف ظاہر ہے کہ اس میں اجازت کا ملنا دلیل ہے کہ اصل حکم چہرے چھپانے کا ہے، لہذا اس صورت میں اجازت الگ سے دی گئی ہے۔
جواب: اللہ انہیں ہوش دے اور وہ اپنی اس غلطی کو جان لیں۔ ایسے لوگ ہیں کہ جو علم کی طرف منسوب ہوتے ہیں لیکن علماء نہيں ہوتے، اور علم کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ اس سے محروم ہوتے ہیں۔ لیکن ان کے دل میں مرض ہوتا ہے، اور مشہوری چاہتے ہیں، تو وہ ایسے امور جو مسلمانوں کے یہاں بالکل دلوں میں راسخ اور مسلمہ ہيں اس کے درپے ہوتے ہیں۔ جیسے نماز باجماعت کا مسئلہ ہی لے لیں، آخر یہ مساجد پھر کیوں بنائی جاتی ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿فِيْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيْهَا اسْمُهٗ ۙ يُسَبِّحُ لَهٗ فِيْهَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ، رِجَالٌ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَاِقَامِ الصَّلٰوةِ وَاِيْتَاۗءِ الزَّكٰوةِ ۽ يَخَافُوْنَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْهِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ﴾
(النور: 36-37)
(ان گھروں میں جن کے بارے میں اللہ نے حکم دیا ہے کہ وہ بلند کیے جائیں اور ان میں اس کا نام ذکر کیا جائے، اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں ان میں صبح و شام، وہ مرد جنہیں اللہ کے ذکر سے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے سے نہ کوئی تجارت غافل کرتی ہے اور نہ کوئی خریدو فروخت، وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی)
اور فرمایا:
﴿اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ وَلَمْ يَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ﴾
(التوبۃ: 18)
(اللہ کی مسجدیں تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لاتا اور نماز قائم کرتا اور زکوٰۃ ادا کرتا ہے، اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا)
لہذا اگر ہم جماعت کو معطل کردیں گے اور کہیں گے گھر پر پڑھنا یا جماعت میں برابر ہے تو ہم اپنے درمیان سے ایک عظیم دینی شعیرے سے محروم ہوجائيں گے۔یہ بہت ہی خطرناک معاملہ ہے۔ کوئی ایسا غلط شخص آئے اور کہے یہ اختلاف لوگوں سے مخفی تھا میں اس کی تجدید کے لیے آیا ہوں، اس ملک میں ہم جس فطرت اور صحیح عقیدے پر ہیں اسے بدلنا چاہے ۔ یہ ملک ایک صالح دعوت پر قائم ہے جسے مصلح شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے قائم فرمایا۔ اور اسلامی بادشاہوں کی سرپرستی میں اللہ ان کے فوت شدگان کی مغفرت فرمائے اور جو باقی ہيں ان کی اصلاح فرمائے۔ یہ سب کے سب سیدھے منہج اور صراط مستقیم پر ہیں، ا س پر چلنے کی کوشش کرتے ہيں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم اور اچھے طور پر ان کی پیروی کرنے والے چلے تھے۔ ہم پر واجب ہے کہ ہم اسے مضبوطی سے تھامے رہیں۔ اور ان کے ہاتھوں کو روکیں جو شذوذ (انوکھے منفرد مسائل و آراء) اختیار کرنا اور سیدھے منہج سے نکلنا چاہتا ہے۔
اللہ تعالی سے توفیق اور راست بازی کا سوال ہے۔
(مفہوم: برنامج : مع سماحة المفتي ، الجمعة 26-2-1433 هـ , رد المفتي على احمد الغامدي)
اسی طرح سعودی ٹی وی فتاویٰ کے پروگرام میں ایک دوسرے فتویٰ میں فرماتے ہیں:
حجاب اسلامی اخلاق میں سے ہے اور امہات المؤمنین اور ان کے بعد کے تمام مسلمان خواتین کرتی آئی ہيں۔ پھر یہ آیت پڑھی:
﴿يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ﴾ (الاحزاب: 59)
(اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے آپ پر لٹکا لیا کریں، یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انہیں تکلیف نہ پہنچائی جائے)
اسی طرح اللہ تعالی نے جو شریعت میں اس عورت کے چہرے کو دیکھنے کی اجازت دی ہے جس کے پاس رشتے کا پیغام بھیجا ہو، جس سے صاف ظاہر ہے کہ اس میں اجازت کا ملنا دلیل ہے کہ اصل حکم چہرے چھپانے کا ہے، لہذا اس صورت میں اجازت الگ سے دی گئی ہے۔
سوال: آج کی مجلس کا تیسرا سوال، شیخ ہمارے یہاں ایک شخص نمودار ہوا ہے جس کا نام احمد بن قاسم الغامدی ہے جو سوشل میڈیا اور ٹی وی پر حجاب کو اتار دینے کی دعوت دیتا ہے اس حجت کے ساتھ کہ اس بارے میں کتاب و سنت میں کوئی نص نہیں۔ اور یہ گمان کرتا ہے کہ یہ صرف امہات المؤمنین کے ساتھ خاص تھا۔ بلکہ وہ باقاعدہ ایک چینل پر اپنی بیوی کو ننگے چہرے اور میک اپ کے ساتھ لایا اور کہا دیکھو میں اپنے فتویٰ کو اپنی گھر والی پر لاگو بھی کرتا ہوں۔ اور اس کے پیروکار ہيں جو اسی چیز کی طرف بلاتے ہيں جس کی طرف یہ بلاتا ہے اور ہمارے علماء پر تشدد کی تہمت لگاتے ہیں جبکہ غامدی ان کے نزدیک عدل وانصاف والا علامہ ہے جو دین میں میانہ روی پر چلتا ہے۔ پس ہم آپ سے اس شخص کی ان بکواسوں کا رد چاہتے ہیں کیونکہ یقینا ً اس کی وجہ سے عوام کے مابین فتنہ ہورہا ہے؟
جواب از شیخ عبید الجابری حفظہ اللہ:
اللہ تعالی ہی سے عافیت کا سوال ہے۔ یہ شخص سب سے پہلے تو مرد وزن میں اختلاط کا فتویٰ دیتا رہا یعنی بالکل مطلق فتویٰ یا ایسے مطلق دعوے کیے جو آزاد خیالی کی تحریک والے کرتے ہيں۔ پس جس نے رد کیا اس کا سو کیا۔ ہم نے سوچا شاید کہ معاملہ یہاں تک ہی رہے۔
لیکن اب تو یہ داعی اپنی اس حرکت سے فسق وفجور کی طرف کھلی دعوت دینے والا بن گیا، برائی کا داعی۔ لہذا واجب ہے کہ اس سے تحذیر (خبردار) کیا اور اس کا بائیکاٹ کیا جائے۔ وہ اپنے اس فتویٰ میں جھوٹا ہے کیونکہ محققین اہل علم و تقویٰ و تحقیق کا اس بات پر اجماع ہے کہ بے شک حجاب ہر مسلمان عورت پر عام فرض ہے ، اور جو امہات المؤمنین کا ذکر کیا گیا ہے تو وہ اس عام میں سے کہ جس کے بارے میں اہل علم کہتے ہیں:
”العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب “
(اصل اعتبار لفظ کے عموم کا ہوتا ہے ناکہ سبب کے خصوص کا)۔
تو وہ کہتے ہيں امہات المؤمنین کو حجاب کا حکم دراصل تمام مسلمان عورتوں کو حکم ہے۔
اور جب امہات المؤمنین جیسی عظیم اور پارسا شخصیات کو اس کا حکم ہے جبکہ ان کی اس زمانے میں پاکبازی و عفت مشہور و معروف تھی، تو پھر جو ان سے کم تر خواتین ہیں انہیں تو باالاولیٰ منع ہوناچاہیے۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ شخص جھوٹا اور فتنےمیں مبتلا ہے، برائی کی طرف دعوت دینے والا ہے جس سے غیرت ختم ہوچکی ہے۔ اگر وہ فتویٰ دے بھی دیتا اور اپنے اس فتویٰ کو ہی بس ظاہر کرتا تو بھی معاملہ کچھ ہلکا ہوتا، لیکن بڑی مصیبت تو یہ ہے کہ وہ باقاعدہ اپنی بیوی کو بے حجاب و میک اپ میں لے کر (ٹی وی پر) آگیا، کیا ایسا وہ شخص کرسکتا ہے جو اپنے محارم کے لیے غیرت رکھتا ہو؟!
اللہ تعالی ہی سے عافیت کا سوال ہے۔
(ویب سائٹ میراث الانبیاء: اللقاء السادس عشر من لقاءات الجمعة مع فضيلة الشيخ عبيد الجابري والذي كان 27 صفر 1436هـ)
[1] یہ فتویٰ اور اس سے پہلے حجاب والا اسی شخص احمد بن قاسم الغامدی کا ہے، اس کے علاوہ حال ہی میں ویلنٹائن ڈے کے حق میں بھی فتویٰ دے چکا ہے کہ یہ ثقافتی تہوار ہے لہذا منانے میں کوئی حرج نہيں۔ اس جیسے فتنہ باز اور بھی ابھرتے رہتے ہيں جیسے عادل الکلبانی وغیرہ۔ اور سعودی کبار علماء کمیٹی اور دیگر علماء حق ایسوں کا رد فرماتے رہتے ہيں۔ اللہ تعالی امت کو ان سے محفوظ رکھے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] ہمارے یہاں بھی چینلز پر خودساختہ علماء بناکر ظاہر کیا جاتا ہے، پھر عوام ان سے رہنمائی لینے کی کوشش کرتی ہے نتیجۃ ًگمراہی میں جاپڑتی ہے، ایسے فتنہ باز لوگوں کو جو منکرین حدیث اور بہت سے دینی احکام کے خلاف اسی طرح کی تاویلات و حیلے کرکے انتشارو گمراہی پھیلاتے ہیں لوگوں کے لیے کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے جیسے غامدی ، عامر لیاقت حسین و مفتی عبدالقوی اور آن لائن استخارہ والے عامل، نجوی و فنکار وغیرہ۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
جواب از شیخ عبید الجابری حفظہ اللہ:
اللہ تعالی ہی سے عافیت کا سوال ہے۔ یہ شخص سب سے پہلے تو مرد وزن میں اختلاط کا فتویٰ دیتا رہا یعنی بالکل مطلق فتویٰ یا ایسے مطلق دعوے کیے جو آزاد خیالی کی تحریک والے کرتے ہيں۔ پس جس نے رد کیا اس کا سو کیا۔ ہم نے سوچا شاید کہ معاملہ یہاں تک ہی رہے۔
لیکن اب تو یہ داعی اپنی اس حرکت سے فسق وفجور کی طرف کھلی دعوت دینے والا بن گیا، برائی کا داعی۔ لہذا واجب ہے کہ اس سے تحذیر (خبردار) کیا اور اس کا بائیکاٹ کیا جائے۔ وہ اپنے اس فتویٰ میں جھوٹا ہے کیونکہ محققین اہل علم و تقویٰ و تحقیق کا اس بات پر اجماع ہے کہ بے شک حجاب ہر مسلمان عورت پر عام فرض ہے ، اور جو امہات المؤمنین کا ذکر کیا گیا ہے تو وہ اس عام میں سے کہ جس کے بارے میں اہل علم کہتے ہیں:
”العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب “
(اصل اعتبار لفظ کے عموم کا ہوتا ہے ناکہ سبب کے خصوص کا)۔
تو وہ کہتے ہيں امہات المؤمنین کو حجاب کا حکم دراصل تمام مسلمان عورتوں کو حکم ہے۔
اور جب امہات المؤمنین جیسی عظیم اور پارسا شخصیات کو اس کا حکم ہے جبکہ ان کی اس زمانے میں پاکبازی و عفت مشہور و معروف تھی، تو پھر جو ان سے کم تر خواتین ہیں انہیں تو باالاولیٰ منع ہوناچاہیے۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ شخص جھوٹا اور فتنےمیں مبتلا ہے، برائی کی طرف دعوت دینے والا ہے جس سے غیرت ختم ہوچکی ہے۔ اگر وہ فتویٰ دے بھی دیتا اور اپنے اس فتویٰ کو ہی بس ظاہر کرتا تو بھی معاملہ کچھ ہلکا ہوتا، لیکن بڑی مصیبت تو یہ ہے کہ وہ باقاعدہ اپنی بیوی کو بے حجاب و میک اپ میں لے کر (ٹی وی پر) آگیا، کیا ایسا وہ شخص کرسکتا ہے جو اپنے محارم کے لیے غیرت رکھتا ہو؟!
اللہ تعالی ہی سے عافیت کا سوال ہے۔
(ویب سائٹ میراث الانبیاء: اللقاء السادس عشر من لقاءات الجمعة مع فضيلة الشيخ عبيد الجابري والذي كان 27 صفر 1436هـ)
[1] یہ فتویٰ اور اس سے پہلے حجاب والا اسی شخص احمد بن قاسم الغامدی کا ہے، اس کے علاوہ حال ہی میں ویلنٹائن ڈے کے حق میں بھی فتویٰ دے چکا ہے کہ یہ ثقافتی تہوار ہے لہذا منانے میں کوئی حرج نہيں۔ اس جیسے فتنہ باز اور بھی ابھرتے رہتے ہيں جیسے عادل الکلبانی وغیرہ۔ اور سعودی کبار علماء کمیٹی اور دیگر علماء حق ایسوں کا رد فرماتے رہتے ہيں۔ اللہ تعالی امت کو ان سے محفوظ رکھے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] ہمارے یہاں بھی چینلز پر خودساختہ علماء بناکر ظاہر کیا جاتا ہے، پھر عوام ان سے رہنمائی لینے کی کوشش کرتی ہے نتیجۃ ًگمراہی میں جاپڑتی ہے، ایسے فتنہ باز لوگوں کو جو منکرین حدیث اور بہت سے دینی احکام کے خلاف اسی طرح کی تاویلات و حیلے کرکے انتشارو گمراہی پھیلاتے ہیں لوگوں کے لیے کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے جیسے غامدی ، عامر لیاقت حسین و مفتی عبدالقوی اور آن لائن استخارہ والے عامل، نجوی و فنکار وغیرہ۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[Urdu Book] The concept of #Tawheed in the current times and its reality- Shaykh Ahmed bin Muhammad Al-Feefee
عصر حاضر میں #توحید کی تصور اور اس کی حقیقت - شیخ احمد بن محمد الفیفی
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/09/asr_e_hazir_tawheed_tassawur_aur_haqeeqat.pdf
عصر حاضر میں #توحید کی تصور اور اس کی حقیقت - شیخ احمد بن محمد الفیفی
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/09/asr_e_hazir_tawheed_tassawur_aur_haqeeqat.pdf
[Urdu Article] Accepting invitations and gifts from those whose #income is Haraam (Unlawful)? - Various 'Ulamaa
جن کی #کمائی حرام کی ہو ان کی دعوت اور تحائف قبول کرنے کا حکم؟
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
۔۔۔اس وجہ سے ہم یہ رائے رکھتے ہیں کہ آپ کے بھائی جب تک سودخوری میں معاونت کرتے ہیں، اسے لکھتے اور اس کے گواہ بنتے ہیں تو وہ گنہگار ہیں اور ان پر واجب ہے کہ وہ اس سے جان چھڑائيں۔ لیکن اگر وہ اصرار کرتے ہیں اور اسی پر باقی رہتے ہیں اور آپ اس کے پاس جاتے ہیں اور اس کے کھانے میں سے کھاتے ہیں تو کوئی حرج نہیں۔ آپ کے سر کوئی گناہ نہیں۔ اگرچہ آپ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ حرام ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے یہودیوں کا کھانا کھایا اور یہود جیسا کہ آپ جانتے ہیں سودخور تھے۔ ربا لیتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے یہ تفتیش نہیں فرمائی کہ: کیا تم سود کا معاملہ کرتے ہو یا نہیں؟ جو کہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کا ایسے کی دعوت کھانا جس کی کمائی حرام ہو جائز ہے اور اس پر کوئی گناہ نہیں۔
لیکن اپنے بھائی کو بار بار نصیحت کرنے سے مایوس نہ ہوں ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالی اسے ہدایت دے دے۔ اسے خوشخبری بھی سنائیں کہ اگر وہ توبہ کرلے گا تو جو ہوگزرا وہ اس کا ہے۔۔۔
(دیگر تفصیلی احکام پر مزید علماء کرام جیسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ، ابن باز، ابن عثیمین، فتوی کمیٹی سعودی عرب، صالح الفوزان و صالح آل الشیخ کے کلام کو جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں)
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/04/haram_kamae_dawat_qubool_karna.pdf
جن کی #کمائی حرام کی ہو ان کی دعوت اور تحائف قبول کرنے کا حکم؟
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
۔۔۔اس وجہ سے ہم یہ رائے رکھتے ہیں کہ آپ کے بھائی جب تک سودخوری میں معاونت کرتے ہیں، اسے لکھتے اور اس کے گواہ بنتے ہیں تو وہ گنہگار ہیں اور ان پر واجب ہے کہ وہ اس سے جان چھڑائيں۔ لیکن اگر وہ اصرار کرتے ہیں اور اسی پر باقی رہتے ہیں اور آپ اس کے پاس جاتے ہیں اور اس کے کھانے میں سے کھاتے ہیں تو کوئی حرج نہیں۔ آپ کے سر کوئی گناہ نہیں۔ اگرچہ آپ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ یہ حرام ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے یہودیوں کا کھانا کھایا اور یہود جیسا کہ آپ جانتے ہیں سودخور تھے۔ ربا لیتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے یہ تفتیش نہیں فرمائی کہ: کیا تم سود کا معاملہ کرتے ہو یا نہیں؟ جو کہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کا ایسے کی دعوت کھانا جس کی کمائی حرام ہو جائز ہے اور اس پر کوئی گناہ نہیں۔
لیکن اپنے بھائی کو بار بار نصیحت کرنے سے مایوس نہ ہوں ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالی اسے ہدایت دے دے۔ اسے خوشخبری بھی سنائیں کہ اگر وہ توبہ کرلے گا تو جو ہوگزرا وہ اس کا ہے۔۔۔
(دیگر تفصیلی احکام پر مزید علماء کرام جیسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ، ابن باز، ابن عثیمین، فتوی کمیٹی سعودی عرب، صالح الفوزان و صالح آل الشیخ کے کلام کو جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں)
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/04/haram_kamae_dawat_qubool_karna.pdf
علماء کرام کم غلط قرار دینے میں جلدبازی نہ کریں - شیخ محمد بازمول#
#ulamaa kiraam ko ghalat qarar dayne may jaldbazi na kare - shaykh muhammad bazmool
#ulamaa kiraam ko ghalat qarar dayne may jaldbazi na kare - shaykh muhammad bazmool
[Urdu Article] Reaction upon the #disparagement of a Salafee scholar - Shaykh Muhammad bin Umar Bazmool
کسی سلفی شیخ کی #جرح ہوجانے پر رد عمل
فضیلۃ الشیخ محمد بن عمر بازمول حفظہ اللہ
(سنئیر پروفیسر جامعہ ام القری ومدرس مسجد الحرام، مکہ مکرمہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: سؤال و جواب 39-41 - على جدران الفيسبوك، الأصدار الأول۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/02/salafi_shaykh_jarh_hojanay_pr_raddemal.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال:آجکل ایک خطرناک شبہہ سلفیوں کے مابین عام ہوگیا ہے، کہتے ہیں: جب کبھی بھی ہم کسی سلفی شیخ پر اعتماد کرتے ہیں کہ اسے علماء نے تزکیہ دیا ہوتا ہے، وجہ اعتماد کی یہ ہوتی ہے کہ ہم اس کے علم پر اعتماد کرتے ہيں ناکہ شخصیت پرستی، مگر اچانک ہی اسے ساقط قرار دے دیا جاتا ہے، ہمیں سبب بھی پتہ نہیں ہوتا کہ کہ آخر ہم اس کی غلطی سے احتیاط کریں، اور ہمارے گھروں میں ذاتی مکتبات کا یہ حال ہوتا ہے جب کبھی کچھ مشایخ کے کلام سے اسے بھرتے ہيں پھر دوبارہ سے ان کے کلام سے اسے خالی کرنا پڑتا ہے۔ اس شبہہ کا ہم کس طرح رد کریں گے کہ جو اب ایک ایسی متعدی بیماری کی صورت اختیار کرگیا ہے کہ جس نے سلفیوں میں پھوٹ ڈال دی ہے اور ان پر شیطان مسلط ہوگیا ہے۔ آپ کی اپنے سلفی فرزندوں کے لیے کیا نصیحت ہے ؟
جواب: یہ بات واقعی موجود ہے اور ہم نے بھی محسوس کی ہے۔ اور شاید کہ سائل کی مراد کو صحیح طور پر مندرجہ ذیل امور واضح کریں گے:
1- سلفیت کا معنی اور اس کی طرف انتساب کرنے کا معنی یہ نہيں کہ خود سلفی غلطی میں نہيں پڑ سکتا۔ برابر ہے کہ چھوٹا طالبعلم ہو یا بہت بڑا عالم ہو، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’كُلُّ بَنِي آدَمَ خَطَّاءٌ، وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ‘‘([1])
(ہر بنی آدم خطاءکار ہے، اور بہترین خطاءکار وہ ہیں جو توبہ کرتے رہتے ہیں)۔
2- ہر غلطی کے سبب اس غلطی کرنے والے سے اہل بدعت والا معاملہ نہيں کیا جاتا، اور یہ بہت اہم مسئلہ ہے، اور سلفیوں اور اس باب میں متشدد لوگو ں کے مابین فرق کا مقام ہے، جن متشدد لوگوں میں سے حدادی لوگ بھی ہیں۔ کیونکہ جن باتوں پر ا ن (حدادیوں) کا انکار کیا جاتا ہے ان میں سے یہ بھی ہے کہ وہ ایسی غلطی جس میں سلفی مبتلا ہوا اس میں اور ایسی غلطی جس میں صاحب بدعت و ہویٰ مبتلا ہوفرق نہیں کرتے، اور ان کے نزدیک ان دونوں سے یکساں معاملہ کیا جاتا ہے! حالانکہ بے شک صاحب سنت کو تو نصیحت و رہنمائی کی جاتی ہے، اور اس کے بارے میں یہ گمان رکھا جاتا ہے کہ وہ ضرور حق کو قبول کرے گا اور اس کی طرف رجوع کرے گا۔ اور یہ کوئی کمزوری یا بزدلی نہيں بلکہ یہ ایک ادبی شجاعت و بہادری ہے کہ جس کا اعتقاد ایک مسلمان اپنے رب کے لیے رکھتا ہے۔کیونکہ حق سب سے زیادہ حقدار ہے کہ اس کی اتباع و پیروی کی جائے!
3- سلفیت کا معنی یہ نہیں ہے کہ سلفیوں کے مابین اجتہادی علمی مسائل میں اختلاف واقع نہیں ہوسکتا ۔ اور سلفی کا کتاب و سنت کی فہم سلف صالحین کے مطابق اتباع کرنے کا یہ معنی نہیں ہے کہ اجتہادی مسائل میں ان میں اختلاف نہیں ہوسکتا۔ آپ آئمہ اربعہ کو دیکھ لیں وہ سلف صالحین کے متبعین میں سے تھے لیکن ان کے مابین علمی اجتہادی مسائل میں وہ اختلافات ہوئے جو معلوم و معروف ہیں!
4- سلفیت کا یہ معنی نہيں ہے کہ کوئی سلفی دل کے امراض جیسے خفیہ شہوات میں مبتلا نہيں ہوسکتا مثلًا شہرت پسندی، اپنے بھائیوں کے ساتھ سختی کا معاملہ۔ جب حقیقت حال یہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے بھائی کا آئینہ ہوتا ہے، تو چاہیے کہ آپس میں نصیحت و رہنمائی کرتے رہيں۔ واللہ المستعان۔
5- سلف صالحین کے منہج میں سے نہيں کہ کسی کے قول کی اتباع کو لازم قرار دیا جائے سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے، خصوصا ً اجتہادی مسائل میں۔
6- ہوسکتا ہے ایک سلفی عالم کسی دوسرے سلفی پر کلام کرے اور کسی قصور وکوتاہی کے سبب اس پر زیادتی بھی کر بیٹھے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے ساقط کردیا جائے۔ اس بارے میں مؤقف حسن ظن کا ہوتا ہے۔ تو ہم یہ اعتقاد رکھتے ہيں کہ اس عالم کا کلام اس کے اجتہاد کا نتیجہ ہے جو اسے صحیح لگتا ہے۔ لہذا وہ دو اجروں کے درمیان ہی ہے اگر صواب کو پایا تو دوہرا اجر، اور اگر غلطی کرگیا تو ایک اجر۔
7- اگر کسی ایسے پر کلام کیا گیا جس کی عدالت و ثقاہت کو آپ جانتے تھے تو ان کے بارے میں کلام اس وقت تک قبول نہ کریں جب تک اس کا سبب اور جرح کی تفسیر بیان نہ کی جائے۔ ان کے ساتھ وہ معاملہ نہيں کیا جائے گا جو اصلاً ہی متکلم فیہ ہو، یا ان جیسا جن کی عدالت و ثقاہت کو آپ جانتے ہی نہيں۔
8- حسن ظن کو مقدم رکھا جائے گا، اپنے مسلمان بھائی کے بارے میں سوء ظن نہ رکھیں جب تک خیر پر محمول رکھنے کے کوئی نہ کوئی مواقع آپ کو میسر ہوں۔
کسی سلفی شیخ کی #جرح ہوجانے پر رد عمل
فضیلۃ الشیخ محمد بن عمر بازمول حفظہ اللہ
(سنئیر پروفیسر جامعہ ام القری ومدرس مسجد الحرام، مکہ مکرمہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: سؤال و جواب 39-41 - على جدران الفيسبوك، الأصدار الأول۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/02/salafi_shaykh_jarh_hojanay_pr_raddemal.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال:آجکل ایک خطرناک شبہہ سلفیوں کے مابین عام ہوگیا ہے، کہتے ہیں: جب کبھی بھی ہم کسی سلفی شیخ پر اعتماد کرتے ہیں کہ اسے علماء نے تزکیہ دیا ہوتا ہے، وجہ اعتماد کی یہ ہوتی ہے کہ ہم اس کے علم پر اعتماد کرتے ہيں ناکہ شخصیت پرستی، مگر اچانک ہی اسے ساقط قرار دے دیا جاتا ہے، ہمیں سبب بھی پتہ نہیں ہوتا کہ کہ آخر ہم اس کی غلطی سے احتیاط کریں، اور ہمارے گھروں میں ذاتی مکتبات کا یہ حال ہوتا ہے جب کبھی کچھ مشایخ کے کلام سے اسے بھرتے ہيں پھر دوبارہ سے ان کے کلام سے اسے خالی کرنا پڑتا ہے۔ اس شبہہ کا ہم کس طرح رد کریں گے کہ جو اب ایک ایسی متعدی بیماری کی صورت اختیار کرگیا ہے کہ جس نے سلفیوں میں پھوٹ ڈال دی ہے اور ان پر شیطان مسلط ہوگیا ہے۔ آپ کی اپنے سلفی فرزندوں کے لیے کیا نصیحت ہے ؟
جواب: یہ بات واقعی موجود ہے اور ہم نے بھی محسوس کی ہے۔ اور شاید کہ سائل کی مراد کو صحیح طور پر مندرجہ ذیل امور واضح کریں گے:
1- سلفیت کا معنی اور اس کی طرف انتساب کرنے کا معنی یہ نہيں کہ خود سلفی غلطی میں نہيں پڑ سکتا۔ برابر ہے کہ چھوٹا طالبعلم ہو یا بہت بڑا عالم ہو، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’كُلُّ بَنِي آدَمَ خَطَّاءٌ، وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ‘‘([1])
(ہر بنی آدم خطاءکار ہے، اور بہترین خطاءکار وہ ہیں جو توبہ کرتے رہتے ہیں)۔
2- ہر غلطی کے سبب اس غلطی کرنے والے سے اہل بدعت والا معاملہ نہيں کیا جاتا، اور یہ بہت اہم مسئلہ ہے، اور سلفیوں اور اس باب میں متشدد لوگو ں کے مابین فرق کا مقام ہے، جن متشدد لوگوں میں سے حدادی لوگ بھی ہیں۔ کیونکہ جن باتوں پر ا ن (حدادیوں) کا انکار کیا جاتا ہے ان میں سے یہ بھی ہے کہ وہ ایسی غلطی جس میں سلفی مبتلا ہوا اس میں اور ایسی غلطی جس میں صاحب بدعت و ہویٰ مبتلا ہوفرق نہیں کرتے، اور ان کے نزدیک ان دونوں سے یکساں معاملہ کیا جاتا ہے! حالانکہ بے شک صاحب سنت کو تو نصیحت و رہنمائی کی جاتی ہے، اور اس کے بارے میں یہ گمان رکھا جاتا ہے کہ وہ ضرور حق کو قبول کرے گا اور اس کی طرف رجوع کرے گا۔ اور یہ کوئی کمزوری یا بزدلی نہيں بلکہ یہ ایک ادبی شجاعت و بہادری ہے کہ جس کا اعتقاد ایک مسلمان اپنے رب کے لیے رکھتا ہے۔کیونکہ حق سب سے زیادہ حقدار ہے کہ اس کی اتباع و پیروی کی جائے!
3- سلفیت کا معنی یہ نہیں ہے کہ سلفیوں کے مابین اجتہادی علمی مسائل میں اختلاف واقع نہیں ہوسکتا ۔ اور سلفی کا کتاب و سنت کی فہم سلف صالحین کے مطابق اتباع کرنے کا یہ معنی نہیں ہے کہ اجتہادی مسائل میں ان میں اختلاف نہیں ہوسکتا۔ آپ آئمہ اربعہ کو دیکھ لیں وہ سلف صالحین کے متبعین میں سے تھے لیکن ان کے مابین علمی اجتہادی مسائل میں وہ اختلافات ہوئے جو معلوم و معروف ہیں!
4- سلفیت کا یہ معنی نہيں ہے کہ کوئی سلفی دل کے امراض جیسے خفیہ شہوات میں مبتلا نہيں ہوسکتا مثلًا شہرت پسندی، اپنے بھائیوں کے ساتھ سختی کا معاملہ۔ جب حقیقت حال یہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے بھائی کا آئینہ ہوتا ہے، تو چاہیے کہ آپس میں نصیحت و رہنمائی کرتے رہيں۔ واللہ المستعان۔
5- سلف صالحین کے منہج میں سے نہيں کہ کسی کے قول کی اتباع کو لازم قرار دیا جائے سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے، خصوصا ً اجتہادی مسائل میں۔
6- ہوسکتا ہے ایک سلفی عالم کسی دوسرے سلفی پر کلام کرے اور کسی قصور وکوتاہی کے سبب اس پر زیادتی بھی کر بیٹھے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے ساقط کردیا جائے۔ اس بارے میں مؤقف حسن ظن کا ہوتا ہے۔ تو ہم یہ اعتقاد رکھتے ہيں کہ اس عالم کا کلام اس کے اجتہاد کا نتیجہ ہے جو اسے صحیح لگتا ہے۔ لہذا وہ دو اجروں کے درمیان ہی ہے اگر صواب کو پایا تو دوہرا اجر، اور اگر غلطی کرگیا تو ایک اجر۔
7- اگر کسی ایسے پر کلام کیا گیا جس کی عدالت و ثقاہت کو آپ جانتے تھے تو ان کے بارے میں کلام اس وقت تک قبول نہ کریں جب تک اس کا سبب اور جرح کی تفسیر بیان نہ کی جائے۔ ان کے ساتھ وہ معاملہ نہيں کیا جائے گا جو اصلاً ہی متکلم فیہ ہو، یا ان جیسا جن کی عدالت و ثقاہت کو آپ جانتے ہی نہيں۔
8- حسن ظن کو مقدم رکھا جائے گا، اپنے مسلمان بھائی کے بارے میں سوء ظن نہ رکھیں جب تک خیر پر محمول رکھنے کے کوئی نہ کوئی مواقع آپ کو میسر ہوں۔
9- شخصیات کا تقدس (شخصیت پرستی ) نہيں۔ اور سائل نے (جزاہ اللہ خیراً) اپنے سوال میں ہی اس پر تنبیہ کردی تھی اپنے اس قول سے کہ: اس کی شخصیت پرستی کی وجہ سے نہیں۔
10- ہر وہ جس کے بارے میں کلام کردیا گیا ہو ساقط نہیں ہوتا، اور نہ ہی ہر کلام کسی کے حق میں جرح ہی ہوتا ہے۔
11- (جہاں تک تزکیو ں کا حوالہ ہے تو) یہ سلفیت میں سے نہیں کہ علماء سے تزکیات حاصل کرنے کے لیے الحاح و زاری کی جائے اور ان کے پیچھے پڑا جائے۔ ایک مسلمان کا اپنا علم و عمل ہر چیز سے قبل اس کا تزکیہ ہوتا ہے۔ چناچہ کوئی مقدس سرزمین کسی کو مقدس نہيں بنادیتی نہ ہی کسی کا نسب اس کو مقدس بناتا ہے، اسی طرح سے لوگوں کی جرح سے متعلق کلام بھی کسی کو مقدس نہيں بنادیتا۔
12- سلفیت میں سے نہيں کہ لوگوں کے عیوب پر اور ان کی جرح ہوجانے پر خوش ہوا جائے، اور بلاضرورت اس کے لیے دوڑ دھوپ کی جائے۔ ایک طالبعلم کو چاہیےکہ اس میں منہمک ہونے سے پرہیز کرے ، اور اس معاملے کو اہل علم کے ہاتھوں میں ہی چھوڑ دے، کسی فتنے کی آگ کو بھڑکانے اور اس کے شعلے اڑانے کا سبب نہ بنے، بلکہ فتنے کو بجھانے کا سبب بنے اس کی آگ سے دوری اختیار کرکے، صبر اور حسن ظن کے ذریعے، اور اس معاملے کو اہل علم کے سپرد کرنے کے ذریعے۔ واللہ الموفق۔
سوال: کیا جرح و تعدیل اجتہادی یا اختلافی مسائل میں سے ہے ؟
جواب: جرح وتعدیل کے بارے میں جو اصل ہے وہ یہ کہ بے شک یہ ایک خبر ہے، جسے کوئی عالم آپ کے لیے نقل کرتا ہے۔ یا وہ مجروح (جس کی جرح کی گئی) یا معدل (جس کی تعدیل کی گئی) کے متعلق خبر دیتا ہے۔ اس میں اجتہاد دو پہلوؤں سے داخل ہوتا ہے:
ایک پہلو: اسے ا س (شخص) پر مرتب ہونے والے اس کے مناسب ِحال اس پر فٹ کرنا ۔
دوسرا پہلو: ایک عالم کی اس کی عبارت سے مراد کا فہم۔
واللہ اعلم
سوال: کوئی شخص کب سلفیت سے خارج ہوتا ہے؟
جواب: سلفیت سے خروج یا تو کلی طور پر ہوتا ہے اگر وہ سلفیت کے اصول کی مخالفت کرتا ہے۔
اور اس سے خروج جزئی بھی ہوتا ہے اگر وہ سلفی منہج کے بعض جزئی مسائل کی مخالفت کرتا ہے۔
اور اگر یہ جزئی مسائل بھی باکثرت ہوتے جائيں کہ جس میں وہ سلف کی مخالفت کرتا ہے ، تو وہ کثرت مخالفت کے سبب سلفیت سے خارج ہوجاتا ہے۔
واللہ اعلم۔
[1] الترمذي صفة القيامة والرقائق والورع 2499, إبن ماجه الزهد 4251, أحمد 3/198, الدارمي برقم 2727 كلهم من حديث أنس.
10- ہر وہ جس کے بارے میں کلام کردیا گیا ہو ساقط نہیں ہوتا، اور نہ ہی ہر کلام کسی کے حق میں جرح ہی ہوتا ہے۔
11- (جہاں تک تزکیو ں کا حوالہ ہے تو) یہ سلفیت میں سے نہیں کہ علماء سے تزکیات حاصل کرنے کے لیے الحاح و زاری کی جائے اور ان کے پیچھے پڑا جائے۔ ایک مسلمان کا اپنا علم و عمل ہر چیز سے قبل اس کا تزکیہ ہوتا ہے۔ چناچہ کوئی مقدس سرزمین کسی کو مقدس نہيں بنادیتی نہ ہی کسی کا نسب اس کو مقدس بناتا ہے، اسی طرح سے لوگوں کی جرح سے متعلق کلام بھی کسی کو مقدس نہيں بنادیتا۔
12- سلفیت میں سے نہيں کہ لوگوں کے عیوب پر اور ان کی جرح ہوجانے پر خوش ہوا جائے، اور بلاضرورت اس کے لیے دوڑ دھوپ کی جائے۔ ایک طالبعلم کو چاہیےکہ اس میں منہمک ہونے سے پرہیز کرے ، اور اس معاملے کو اہل علم کے ہاتھوں میں ہی چھوڑ دے، کسی فتنے کی آگ کو بھڑکانے اور اس کے شعلے اڑانے کا سبب نہ بنے، بلکہ فتنے کو بجھانے کا سبب بنے اس کی آگ سے دوری اختیار کرکے، صبر اور حسن ظن کے ذریعے، اور اس معاملے کو اہل علم کے سپرد کرنے کے ذریعے۔ واللہ الموفق۔
سوال: کیا جرح و تعدیل اجتہادی یا اختلافی مسائل میں سے ہے ؟
جواب: جرح وتعدیل کے بارے میں جو اصل ہے وہ یہ کہ بے شک یہ ایک خبر ہے، جسے کوئی عالم آپ کے لیے نقل کرتا ہے۔ یا وہ مجروح (جس کی جرح کی گئی) یا معدل (جس کی تعدیل کی گئی) کے متعلق خبر دیتا ہے۔ اس میں اجتہاد دو پہلوؤں سے داخل ہوتا ہے:
ایک پہلو: اسے ا س (شخص) پر مرتب ہونے والے اس کے مناسب ِحال اس پر فٹ کرنا ۔
دوسرا پہلو: ایک عالم کی اس کی عبارت سے مراد کا فہم۔
واللہ اعلم
سوال: کوئی شخص کب سلفیت سے خارج ہوتا ہے؟
جواب: سلفیت سے خروج یا تو کلی طور پر ہوتا ہے اگر وہ سلفیت کے اصول کی مخالفت کرتا ہے۔
اور اس سے خروج جزئی بھی ہوتا ہے اگر وہ سلفی منہج کے بعض جزئی مسائل کی مخالفت کرتا ہے۔
اور اگر یہ جزئی مسائل بھی باکثرت ہوتے جائيں کہ جس میں وہ سلف کی مخالفت کرتا ہے ، تو وہ کثرت مخالفت کے سبب سلفیت سے خارج ہوجاتا ہے۔
واللہ اعلم۔
[1] الترمذي صفة القيامة والرقائق والورع 2499, إبن ماجه الزهد 4251, أحمد 3/198, الدارمي برقم 2727 كلهم من حديث أنس.