شیخ #ربیع #المدخلی اس دور کے شعبہ بن الحجاج ہیں - شیخ محمد بن علی الایتھوپیوی
shaykh #rabee #al_madkhalee is daur k shuba bin al_hajjaj hain - shaykh muhammad bin alee adam al-'etyoobee
shaykh #rabee #al_madkhalee is daur k shuba bin al_hajjaj hain - shaykh muhammad bin alee adam al-'etyoobee
فی زمانہ #الحافظ #المحدث وغیرہ جیسے القاب کا بےلاگ استعمال - شیخ عبداللہ البخاری
fee zamana #al_hafidh #al_muhaddith etc alqaab ka baylaag istimaal - shaykh abdullaah al_bukharee
fee zamana #al_hafidh #al_muhaddith etc alqaab ka baylaag istimaal - shaykh abdullaah al_bukharee
[Urdu Article] Making Du'a to Allaah through the names #Al_Hannan and #Al_Mannan - Fatwaa Committee, Saudi Arabia
اللہ تعالی سے #الحنان اور #المنان ناموں کے ساتھ دعاء کرنا
علمی تحقیقات اور افتاء کی مستقل کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة، المجموعة الأولى، المجلد الرابع والعشرون (كتاب الجامع 1) الأدعية والأذكار، السؤال الأول من الفتوى رقم (18955)
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/02/alhannan_almannan_dua_krna.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: میں نے ایک خطیب کو دعاء کرتے ہوئے سنا کہ وہ کہہ رہا تھا: یا حنان یا منان! پھر اپنی دعاء کررہا تھا۔ کیا یہ نام ان اسماء الہی میں سے ہیں کہ جن کے ساتھ اس سے دعاء کی جاتی ہے یا نہیں؟
جواب: اللہ تعالی کے اسماء توقیفی (قرآن وحدیث کے تابع) ہیں۔ ہم اللہ تعالی کو کسی نام سے موسوم نہیں کرسکتےسوائے انہی ناموں کے جو قرآن مجید میں آئے ہیں یا پھر سنت میں صحیح طور پر ثابت ہوں۔ چناچہ اسی بنیاد پر ہم یہ کہتے ہیں کہ ’’الحنان‘‘ اللہ تعالی کے ناموں میں سےنہیں ہے۔ یہ تو ایک فعل کی صفت ہے جس کا معنی ہے الرحیم (رحم ومہربانی کرنے والا) نون کی تخفیف کے ساتھ جو کہ رحمت کے معنی میں ہے۔ جیسا کہ فرمان الہی ہے:
﴿وَّحَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا﴾ (مریم: 13)
(اور اپنی طرف سے انہیں شفقت ورحمت دی)
آیت کی تفسیر کے دو معنوں میں سے ایک کے مطابق یعنی ہماری طرف سے رحمت۔ البتہ بعض احادیث میں جو اللہ تعالی کا نام ’’الحنان‘‘ ذکر کیا گیا ہے تو وہ ثابت نہیں ہیں۔
جبکہ ’’المنان‘‘ (فضل واحسان کرنےوالا) اللہ تعالی کے ثابت شدہ ناموں میں سے ہے جیسا کہ سنن ابی داود اور نسائی میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دعاء کرنے والے کو یوں دعاء کرتے ہوئے سنا کہ:
’’اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنَّ لَكَ الْحَمْدُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ الْمَنَّانُ بَدِيعُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ، يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: لَقَدْ دَعَا اللَّهَ بِاسْمِهِ الْعَظِيمِ الَّذِي إِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ، وَإِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطَى‘‘([1])
(اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کیونکہ بے شک تیرے ہی لیے ہر قسم کی تعریفات ہیں، تیرے سوا کوئی معبود حقیقی نہيں، تو ’’المنان‘‘ (بڑے فضل واحسان والا ) ہے، آسمانوں اور زمین کو بنانمونے کے پیدا کرنے والا ہے، اے جلال واکرام والے، اے ہمیشہ زندہ اور قائم رہنے والے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس نے یقینا ًاللہ تعالی کے اس اسم اعظم کے ساتھ دعاء کی ہے کہ جس کے ساتھ اگر دعاء کی جائے تو وہ قبول کرتا ہے اور سوال کیا جائے تو وہ عطاء کرتا ہے)۔
وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم .
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
رکن رکن رکن نائب صدر صدر
بكر أبو زيد صالح الفوزان عبد الله بن غديان عبد العزيز آل الشيخ عبد العزيز بن بن باز
[1] رواه من حديث أنس رضي الله عنه: أحمد 3/120, 158, 245, 265, أبو داود 2/167-168 برقم 1495, والترمذي 5/550 برقم 3544, والنسائى 3/52 برقم 1300, وإبن ماجه 2/1268 برقم 3858, وإبن أبي شيبة 10/272, والحاكم 1/503-504, والضياء المقدسي في المختارة 4/351-352, 384, 385 برقم 1514, 1552, 1553.
اللہ تعالی سے #الحنان اور #المنان ناموں کے ساتھ دعاء کرنا
علمی تحقیقات اور افتاء کی مستقل کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة، المجموعة الأولى، المجلد الرابع والعشرون (كتاب الجامع 1) الأدعية والأذكار، السؤال الأول من الفتوى رقم (18955)
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/02/alhannan_almannan_dua_krna.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: میں نے ایک خطیب کو دعاء کرتے ہوئے سنا کہ وہ کہہ رہا تھا: یا حنان یا منان! پھر اپنی دعاء کررہا تھا۔ کیا یہ نام ان اسماء الہی میں سے ہیں کہ جن کے ساتھ اس سے دعاء کی جاتی ہے یا نہیں؟
جواب: اللہ تعالی کے اسماء توقیفی (قرآن وحدیث کے تابع) ہیں۔ ہم اللہ تعالی کو کسی نام سے موسوم نہیں کرسکتےسوائے انہی ناموں کے جو قرآن مجید میں آئے ہیں یا پھر سنت میں صحیح طور پر ثابت ہوں۔ چناچہ اسی بنیاد پر ہم یہ کہتے ہیں کہ ’’الحنان‘‘ اللہ تعالی کے ناموں میں سےنہیں ہے۔ یہ تو ایک فعل کی صفت ہے جس کا معنی ہے الرحیم (رحم ومہربانی کرنے والا) نون کی تخفیف کے ساتھ جو کہ رحمت کے معنی میں ہے۔ جیسا کہ فرمان الہی ہے:
﴿وَّحَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا﴾ (مریم: 13)
(اور اپنی طرف سے انہیں شفقت ورحمت دی)
آیت کی تفسیر کے دو معنوں میں سے ایک کے مطابق یعنی ہماری طرف سے رحمت۔ البتہ بعض احادیث میں جو اللہ تعالی کا نام ’’الحنان‘‘ ذکر کیا گیا ہے تو وہ ثابت نہیں ہیں۔
جبکہ ’’المنان‘‘ (فضل واحسان کرنےوالا) اللہ تعالی کے ثابت شدہ ناموں میں سے ہے جیسا کہ سنن ابی داود اور نسائی میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دعاء کرنے والے کو یوں دعاء کرتے ہوئے سنا کہ:
’’اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنَّ لَكَ الْحَمْدُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ الْمَنَّانُ بَدِيعُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ، يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: لَقَدْ دَعَا اللَّهَ بِاسْمِهِ الْعَظِيمِ الَّذِي إِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ، وَإِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطَى‘‘([1])
(اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کیونکہ بے شک تیرے ہی لیے ہر قسم کی تعریفات ہیں، تیرے سوا کوئی معبود حقیقی نہيں، تو ’’المنان‘‘ (بڑے فضل واحسان والا ) ہے، آسمانوں اور زمین کو بنانمونے کے پیدا کرنے والا ہے، اے جلال واکرام والے، اے ہمیشہ زندہ اور قائم رہنے والے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس نے یقینا ًاللہ تعالی کے اس اسم اعظم کے ساتھ دعاء کی ہے کہ جس کے ساتھ اگر دعاء کی جائے تو وہ قبول کرتا ہے اور سوال کیا جائے تو وہ عطاء کرتا ہے)۔
وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم .
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
رکن رکن رکن نائب صدر صدر
بكر أبو زيد صالح الفوزان عبد الله بن غديان عبد العزيز آل الشيخ عبد العزيز بن بن باز
[1] رواه من حديث أنس رضي الله عنه: أحمد 3/120, 158, 245, 265, أبو داود 2/167-168 برقم 1495, والترمذي 5/550 برقم 3544, والنسائى 3/52 برقم 1300, وإبن ماجه 2/1268 برقم 3858, وإبن أبي شيبة 10/272, والحاكم 1/503-504, والضياء المقدسي في المختارة 4/351-352, 384, 385 برقم 1514, 1552, 1553.
[Urdu Article] Shariah ruling regarding #liberalism - Various 'Ulamaa
#لبرل_ازم کا شرعی حکم
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ، صالح الفوزان و ربیع المدخلی حفظہما اللہ کا تفصیلی کلام جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/02/liberalism_sharae_hukm.pdf
#لبرل_ازم کا شرعی حکم
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ، صالح الفوزان و ربیع المدخلی حفظہما اللہ کا تفصیلی کلام جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/02/liberalism_sharae_hukm.pdf
ہمیشہ لوگوں کی رضا مندی و ناراضگی کا لحاظ رکھنا اکثریت کی ہلاکت کا سبب ہے - امام ابن قدامہ
hamesha logo ki razamandi ya narazgi ka lehaz rakhna aksariyat ki halakat ka sabab hai - imaam ibn qudamah
hamesha logo ki razamandi ya narazgi ka lehaz rakhna aksariyat ki halakat ka sabab hai - imaam ibn qudamah
انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے مشن کا غلط تعین کرنا - شیخ ربیع المدخلی
anbiyah kiram k manhaj ka ghalat ta'ayyun karna - shaykh rabee al_madkhalee
anbiyah kiram k manhaj ka ghalat ta'ayyun karna - shaykh rabee al_madkhalee
[Urdu Article] Speaking kindly to the #wife and having a concern with one's appearance - Shaykh Muhammad Alee Ferkus
#بیوی سے پیاری باتيں کرنا اور اس کے لیے اپنے حلیے کو سنوارنا
فضیلۃ الشیخ ابی عبدالمعز محمد علی فرکوسحفظہ اللہ
(استاذ کلیۃ العلوم الاسلامیۃ، جامعہ الجزائر)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: المُعِينُ في بَيَانِ حُقُوقِ الزَّوْجَيْن۔
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/02/bv_pyari_baate_hulya_sanwarna.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بیوی سے پیاری باتیں کرنا اور اس کے لیے اپنا حلیہ سنوارنے کا خیال رکھنا۔ کیونکہ اسے بھی اپنے شوہر میں وہ بات پسند ہوتی ہے جو شوہر کو اپنی بیوی میں پسند ہوتی ہے۔امام ابن کثیر رحمہ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی ازواج یعنی امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کے ساتھ حال ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہيں:
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق میں سے یہ بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر والیوں کے ساتھ خوبصورت معاشرت اپناتے، اور ہمیشہ خوش مزاج رہتے، اپنی اہلیہ کے ساتھ کھیلتےاور ان پر نرمی وشفقت فرماتے، دل کھول کر ان پر خرچ کرتے ،اور اپنے عورتوں کو ہنساتے، یہاں تک کہ آپ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ دوڑ تک لگاتے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ان سے محبت کے اظہار کا طریقہ تھا‘‘([1])۔
اس میں کوئی شک نہيں کہ اپنی بیوی کو اپنے قول یا فعل سے تکلیف دینا، یاکثرت سے منہ بسورے رکھنا اور ملتے وقت تیوری چڑھائے رکھنا، اور اس سے منہ پھیر کے دوسروں میں لگے رہنا حسن معاشرت کے خلاف ہے۔ امام القرطبی رحمہ اللہ اس آیت کے معنی میں فرماتے ہیں کہ:
﴿وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ (النساء: 19)
(اور ان کے ساتھ بہترین طریقےسے گزر بسر کرو)
’’یعنی جو اللہ تعالی نے حسن معاشرت کا حکم دیا ہے ۔۔۔اور وہ اس طرح سے اس کا حق ادا کرنا ہے کہ مہر ہو یا نان نفقہ وہ دیا جائے، اور بلاقصور اس کے سامنے پیشانی پر بل لاکر برا سا منہ نہ بنایا جائے، خوش گفتاری اپنائے ترش روی او رسنگدلی اور کسی دوسری کی طرف میلان کو ظاہر نہ کرے۔۔۔پس اللہ تعالی نے عورتوں کے ساتھ حسن صحبت کا حکم دیا ہے جب ان سے عقد نکاح ہوجائے تاکہ ان کے مابین الفت وموافقت قائم رہے اور ان کا ساتھ اپنے کمال کے ساتھ قائم ودائم رہے، کیونکہ یہ بلاشبہ نفس کے اطمینان اور زندگی کے لیے سکون کا ذریعہ ہے‘‘([2])۔
اور حسن معاشرت کے خلاف یہ بات بھی ہےکہ انسان اپنے حلیے اور بننے سنورنے کا خیال نہ رکھے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
’’إِنِّي لَأُحِبُّ أَنْ أَتَزَيَّنَ لِلْمَرْأَةِ كَمَا أُحِبُّ أَنْ تَزَّيَّنَ لِي؛ لِأَنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ: ﴿وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ (البقرة: 228)‘‘([3])
(بے شک میں پسند کرتا ہوں کہ اپنی عورت کے لیے زینت اختیار کروں جیسے میں یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ میرے لیے بنے سنورے، کیونکہ بلاشبہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’’اور معروف کے مطابق ان عورتوں کے لیے اسی طرح حق ہے جیسے ان کے اوپر حق ہے ‘‘)۔
’’چناچہ مردوں کی زینت ان کے احوال اور عمر کے اعتبار سے مختلف ہوا کرتی ہے کہ وہ اس بارے میں اپنی لیاقت وفن کو استعمال کریں تو ایسا لباس پہنیں جو ان کے مناسب حال ہو، منہ صاف رکھیں اور دانتوں کے بیچ جو کھانے کے ذرات وغیرہ رہ جاتے ہیں انہيں مسواک وغیرہ سے صاف رکھیں، اور جو چیزیں انسان کے جسم پر لگ جاتی ہيں جیسے میل کچیل اسے دور کریں، اسی طرح سے غیرضروری بالوں کی صفائی، ناخن تراشنا اور بڑی عمر والوں کے لیے خضاب لگانا اور انگوٹھی پہننا وغیرہ جیسی باتيں جو اس کے حقوق کی ادائیگی کرتی ہوں، تاکہ وہ اپنی بیوی کے پاس ایسی زیب وزینت میں رہے جو اسے بھائے اور اسے دوسرے مردوں میں دلچسپی لینے سے محفوظ رکھے‘‘([4])۔
[1] «تفسير ابن كثير» (١/ ٤٦٦).
[2] «تفسير القرطبي» (٥/ ٩٧)، بتصرُّف.
[3] أخرجه البيهقي في «السنن الكبرى» (١٤٧٢٨)، وابن أبي شيبة في «مصنَّفه» (١٩٢٦٣).
[4] انظر: «تفسير القرطبي» (٣/ ١٢٤).
#بیوی سے پیاری باتيں کرنا اور اس کے لیے اپنے حلیے کو سنوارنا
فضیلۃ الشیخ ابی عبدالمعز محمد علی فرکوسحفظہ اللہ
(استاذ کلیۃ العلوم الاسلامیۃ، جامعہ الجزائر)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: المُعِينُ في بَيَانِ حُقُوقِ الزَّوْجَيْن۔
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/02/bv_pyari_baate_hulya_sanwarna.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بیوی سے پیاری باتیں کرنا اور اس کے لیے اپنا حلیہ سنوارنے کا خیال رکھنا۔ کیونکہ اسے بھی اپنے شوہر میں وہ بات پسند ہوتی ہے جو شوہر کو اپنی بیوی میں پسند ہوتی ہے۔امام ابن کثیر رحمہ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی ازواج یعنی امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کے ساتھ حال ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہيں:
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق میں سے یہ بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر والیوں کے ساتھ خوبصورت معاشرت اپناتے، اور ہمیشہ خوش مزاج رہتے، اپنی اہلیہ کے ساتھ کھیلتےاور ان پر نرمی وشفقت فرماتے، دل کھول کر ان پر خرچ کرتے ،اور اپنے عورتوں کو ہنساتے، یہاں تک کہ آپ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ دوڑ تک لگاتے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ان سے محبت کے اظہار کا طریقہ تھا‘‘([1])۔
اس میں کوئی شک نہيں کہ اپنی بیوی کو اپنے قول یا فعل سے تکلیف دینا، یاکثرت سے منہ بسورے رکھنا اور ملتے وقت تیوری چڑھائے رکھنا، اور اس سے منہ پھیر کے دوسروں میں لگے رہنا حسن معاشرت کے خلاف ہے۔ امام القرطبی رحمہ اللہ اس آیت کے معنی میں فرماتے ہیں کہ:
﴿وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ (النساء: 19)
(اور ان کے ساتھ بہترین طریقےسے گزر بسر کرو)
’’یعنی جو اللہ تعالی نے حسن معاشرت کا حکم دیا ہے ۔۔۔اور وہ اس طرح سے اس کا حق ادا کرنا ہے کہ مہر ہو یا نان نفقہ وہ دیا جائے، اور بلاقصور اس کے سامنے پیشانی پر بل لاکر برا سا منہ نہ بنایا جائے، خوش گفتاری اپنائے ترش روی او رسنگدلی اور کسی دوسری کی طرف میلان کو ظاہر نہ کرے۔۔۔پس اللہ تعالی نے عورتوں کے ساتھ حسن صحبت کا حکم دیا ہے جب ان سے عقد نکاح ہوجائے تاکہ ان کے مابین الفت وموافقت قائم رہے اور ان کا ساتھ اپنے کمال کے ساتھ قائم ودائم رہے، کیونکہ یہ بلاشبہ نفس کے اطمینان اور زندگی کے لیے سکون کا ذریعہ ہے‘‘([2])۔
اور حسن معاشرت کے خلاف یہ بات بھی ہےکہ انسان اپنے حلیے اور بننے سنورنے کا خیال نہ رکھے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
’’إِنِّي لَأُحِبُّ أَنْ أَتَزَيَّنَ لِلْمَرْأَةِ كَمَا أُحِبُّ أَنْ تَزَّيَّنَ لِي؛ لِأَنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ: ﴿وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ (البقرة: 228)‘‘([3])
(بے شک میں پسند کرتا ہوں کہ اپنی عورت کے لیے زینت اختیار کروں جیسے میں یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ میرے لیے بنے سنورے، کیونکہ بلاشبہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’’اور معروف کے مطابق ان عورتوں کے لیے اسی طرح حق ہے جیسے ان کے اوپر حق ہے ‘‘)۔
’’چناچہ مردوں کی زینت ان کے احوال اور عمر کے اعتبار سے مختلف ہوا کرتی ہے کہ وہ اس بارے میں اپنی لیاقت وفن کو استعمال کریں تو ایسا لباس پہنیں جو ان کے مناسب حال ہو، منہ صاف رکھیں اور دانتوں کے بیچ جو کھانے کے ذرات وغیرہ رہ جاتے ہیں انہيں مسواک وغیرہ سے صاف رکھیں، اور جو چیزیں انسان کے جسم پر لگ جاتی ہيں جیسے میل کچیل اسے دور کریں، اسی طرح سے غیرضروری بالوں کی صفائی، ناخن تراشنا اور بڑی عمر والوں کے لیے خضاب لگانا اور انگوٹھی پہننا وغیرہ جیسی باتيں جو اس کے حقوق کی ادائیگی کرتی ہوں، تاکہ وہ اپنی بیوی کے پاس ایسی زیب وزینت میں رہے جو اسے بھائے اور اسے دوسرے مردوں میں دلچسپی لینے سے محفوظ رکھے‘‘([4])۔
[1] «تفسير ابن كثير» (١/ ٤٦٦).
[2] «تفسير القرطبي» (٥/ ٩٧)، بتصرُّف.
[3] أخرجه البيهقي في «السنن الكبرى» (١٤٧٢٨)، وابن أبي شيبة في «مصنَّفه» (١٩٢٦٣).
[4] انظر: «تفسير القرطبي» (٣/ ١٢٤).
[Urdu Article] Refutation of misleading Fatawaa of #Ahmad_bin_Qasim_Al_Ghamadee - Various 'Ulamaa
#احمد_بن_قاسم_الغامدی کے گمراہ کن فتاویٰ کا رد
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/02/ahmad_bin_qasim_ghamadi_fatawaa_gumrahkun.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال:عبداللہ کہتے ہیں کہ سماحۃ الشیخ: بعض بہنیں ملتی ہيں جو اپنے چہرے کا پردہ نہیں کرتیں اور استدلال کرتی ہیں کہ یہ بات شافعی اور حنفی مذہب میں موجود ہے؟
جواب از مفتئ اعظم سعودی عرب، شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ حفظہ اللہ:
میری بہنوں اور بھائیوں میں اللہ تعالی سے اپنے اور آپ کے لیے توفیق اور راست بازی کی دعاء کرتا ہوں۔میرے بھائیوں حجاب ایک اسلامی اخلاق ہے جس پر امہات المؤمنین اور عہد نبوی کی صحابیات رضی اللہ عنہن عمل کرتی رہيں، اور خلفائےراشدین کے دور میں بھی اور اس کے بعد سے لے کر آج تک، یہاں تک کہ گھٹیا مغربی ثقافت نے یلغار شروع کردی۔ ورنہ تو تمام مسلمانوں کی خواتین حجاب کرتی رہی ہيں اور اس حجاب کو وہ ایک ضروری عمل اور اسلامی اخلاق میں سے سمجھتی ہيں۔ جو یہ دعویٰ کرتے ہيں کہ حجاب کی کوئی اصل نہيں ، اس کے خلاف لڑتے ہيں، اس کی مذمت کرتے اور اس کا مذاق اڑاتے ہيں یہ لوگ ہدایت پر نہيں ہیں۔ ہم اللہ تعالی سے ثابت قدمی کی دعاء کرتے ہيں۔
آجکل بعض چینلز پر ایسے لوگ نمودار ہوئے ہیں جو یہ تک کہتے ہیں کہ باجماعت مسجد میں نماز پڑھنے کی کوئی اہمیت نہیں نہ قدر ومنزلت ہے، بس اپنے گھروں پر نماز پڑھو([1])۔ وہ باجماعت نماز اور گھر کی نماز کو برابر قرار دیتے ہيں۔ اپنے اس قول میں وہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کرتے ہيں۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مسجد میں باجماعت نماز گھر پر انفرادی پڑھی گئی نماز سے پچیس گنا افضل ہے۔ لیکن یہ کہتے ہيں نہیں! اپنے گھر پر نماز پڑھو، یا جہاں چاہے پڑھو دونوں میں فرق نہیں۔ بلکہ بعض تو یہ کہتے ہیں نماز باجماعت کا حکم کرنا لوگوں کی شخصی زندگی میں مداخلت ہے۔ اور بعض یوم عرفہ کی تعلق سے یہ غلط باتیں پھیلاتے ہیں کہ غیر حاجیوں کے لیے یوم عرفہ کا روزہ رکھنے کی کوئی فضیلت نہیں، نہ ہی ا س کی کوئی اصل ہے اور نہ ہی یہ ہے وہ ہے۔۔۔اور مختلف (شاذ ومنفرد ) آراء کو نشر کرتے ہيں کہ ہم ان کے اور لوگوں کے مابین آڑ نہیں رکھنا چاہتے (یعنی انہیں تمام مسائل سے نکلنے کے حیلے اور جواز کا علم ہو!)۔ یہ سب باتیں خیر سے روکنے والی ہیں۔
حالانکہ اس منہج (نماز باجماعت و حجاب وغیرہ) پر سلف صالحین اور آئمہ ہدایت چلتے آئے ہیں۔تمام چینلز کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالی سے ڈریں ، میں چینلز والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے بارے میں اللہ تعالی سے ڈریں اور معاشرے کے سامنے وہ چیز پیش نہ کریں جو ان کے دین، اخلاق اور تہذیب کو بگاڑ دیں۔ صرف اس چیز کو نشر کریں جس کا علم ہو، جس کے خیر اور دین کی نصرت ہونے کے بارے میں یقین ہو۔ جبکہ ایسے لوگوں کو علم کی میز پر بٹھا دیا جائے اور وہ اصول اسلام پر بھی قدح کرنے اور واجبات اسلام پر نقب زنی کرنے لگیں اور اسلام کے جو فضائل وامتیازات ہیں ان کی تنقیص شان کریں اور حقیر باور کروائيں، تو یہ سب غلط ہے۔ لہذا میں چینلز کے مالکان کو خبردار کرتا ہوں کہ کہیں وہ باطل کے داعیان نہ بن جائیں۔
یہ چینلز تو فقط لوگوں کی رہنمائی کے لیے ہونے چاہیے۔ جبکہ حال یہ ہو کہ ہر روز کوئی چینل آرہا ہے اور اسے چلانے والے ایسے لوگ ہوں کہ جو اللہ تعالی سے نہيں ڈرتے اور تقویٰ اختیار نہیں کرتے([2])۔
پس میں بھائیوں سے چاہتا ہوں کہ اس پر متنبہ ہوں اور اللہ تعالی دیکھ رہا ہے اس کا خیال کریں، اور اس فرمان باری تعالی کو یاد کریں کہ:
﴿لِيَحْمِلُوْٓا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ ۙ وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِيْنَ يُضِلُّوْنَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۭ اَلَا سَاۗءَ مَا يَزِرُوْنَ﴾
(النحل: 25)
(تاکہ وہ قیامت کے دن اپنے بوجھ پورے اٹھائیں اور کچھ ان کے بوجھ میں سے بھی جنہیں وہ علم کے بغیر گمراہ کرتے رہے۔ سن لو ! برا ہے وہ بوجھ جو وہ اٹھا رہے ہیں)
اور حدیث میں بھی ہے کہ جو گمراہی کی طرف بلائے تو اسے اس کا گناہ ہوگا اور اس کی پیروی کرنے والو ں کا گناہ بھی اسے ملے گا، جبکہ ان کے گناہوں میں سے کچھ کم نہيں کیا جائے گا۔
#احمد_بن_قاسم_الغامدی کے گمراہ کن فتاویٰ کا رد
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/02/ahmad_bin_qasim_ghamadi_fatawaa_gumrahkun.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال:عبداللہ کہتے ہیں کہ سماحۃ الشیخ: بعض بہنیں ملتی ہيں جو اپنے چہرے کا پردہ نہیں کرتیں اور استدلال کرتی ہیں کہ یہ بات شافعی اور حنفی مذہب میں موجود ہے؟
جواب از مفتئ اعظم سعودی عرب، شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ حفظہ اللہ:
میری بہنوں اور بھائیوں میں اللہ تعالی سے اپنے اور آپ کے لیے توفیق اور راست بازی کی دعاء کرتا ہوں۔میرے بھائیوں حجاب ایک اسلامی اخلاق ہے جس پر امہات المؤمنین اور عہد نبوی کی صحابیات رضی اللہ عنہن عمل کرتی رہيں، اور خلفائےراشدین کے دور میں بھی اور اس کے بعد سے لے کر آج تک، یہاں تک کہ گھٹیا مغربی ثقافت نے یلغار شروع کردی۔ ورنہ تو تمام مسلمانوں کی خواتین حجاب کرتی رہی ہيں اور اس حجاب کو وہ ایک ضروری عمل اور اسلامی اخلاق میں سے سمجھتی ہيں۔ جو یہ دعویٰ کرتے ہيں کہ حجاب کی کوئی اصل نہيں ، اس کے خلاف لڑتے ہيں، اس کی مذمت کرتے اور اس کا مذاق اڑاتے ہيں یہ لوگ ہدایت پر نہيں ہیں۔ ہم اللہ تعالی سے ثابت قدمی کی دعاء کرتے ہيں۔
آجکل بعض چینلز پر ایسے لوگ نمودار ہوئے ہیں جو یہ تک کہتے ہیں کہ باجماعت مسجد میں نماز پڑھنے کی کوئی اہمیت نہیں نہ قدر ومنزلت ہے، بس اپنے گھروں پر نماز پڑھو([1])۔ وہ باجماعت نماز اور گھر کی نماز کو برابر قرار دیتے ہيں۔ اپنے اس قول میں وہ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کرتے ہيں۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مسجد میں باجماعت نماز گھر پر انفرادی پڑھی گئی نماز سے پچیس گنا افضل ہے۔ لیکن یہ کہتے ہيں نہیں! اپنے گھر پر نماز پڑھو، یا جہاں چاہے پڑھو دونوں میں فرق نہیں۔ بلکہ بعض تو یہ کہتے ہیں نماز باجماعت کا حکم کرنا لوگوں کی شخصی زندگی میں مداخلت ہے۔ اور بعض یوم عرفہ کی تعلق سے یہ غلط باتیں پھیلاتے ہیں کہ غیر حاجیوں کے لیے یوم عرفہ کا روزہ رکھنے کی کوئی فضیلت نہیں، نہ ہی ا س کی کوئی اصل ہے اور نہ ہی یہ ہے وہ ہے۔۔۔اور مختلف (شاذ ومنفرد ) آراء کو نشر کرتے ہيں کہ ہم ان کے اور لوگوں کے مابین آڑ نہیں رکھنا چاہتے (یعنی انہیں تمام مسائل سے نکلنے کے حیلے اور جواز کا علم ہو!)۔ یہ سب باتیں خیر سے روکنے والی ہیں۔
حالانکہ اس منہج (نماز باجماعت و حجاب وغیرہ) پر سلف صالحین اور آئمہ ہدایت چلتے آئے ہیں۔تمام چینلز کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالی سے ڈریں ، میں چینلز والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے بارے میں اللہ تعالی سے ڈریں اور معاشرے کے سامنے وہ چیز پیش نہ کریں جو ان کے دین، اخلاق اور تہذیب کو بگاڑ دیں۔ صرف اس چیز کو نشر کریں جس کا علم ہو، جس کے خیر اور دین کی نصرت ہونے کے بارے میں یقین ہو۔ جبکہ ایسے لوگوں کو علم کی میز پر بٹھا دیا جائے اور وہ اصول اسلام پر بھی قدح کرنے اور واجبات اسلام پر نقب زنی کرنے لگیں اور اسلام کے جو فضائل وامتیازات ہیں ان کی تنقیص شان کریں اور حقیر باور کروائيں، تو یہ سب غلط ہے۔ لہذا میں چینلز کے مالکان کو خبردار کرتا ہوں کہ کہیں وہ باطل کے داعیان نہ بن جائیں۔
یہ چینلز تو فقط لوگوں کی رہنمائی کے لیے ہونے چاہیے۔ جبکہ حال یہ ہو کہ ہر روز کوئی چینل آرہا ہے اور اسے چلانے والے ایسے لوگ ہوں کہ جو اللہ تعالی سے نہيں ڈرتے اور تقویٰ اختیار نہیں کرتے([2])۔
پس میں بھائیوں سے چاہتا ہوں کہ اس پر متنبہ ہوں اور اللہ تعالی دیکھ رہا ہے اس کا خیال کریں، اور اس فرمان باری تعالی کو یاد کریں کہ:
﴿لِيَحْمِلُوْٓا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ ۙ وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِيْنَ يُضِلُّوْنَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۭ اَلَا سَاۗءَ مَا يَزِرُوْنَ﴾
(النحل: 25)
(تاکہ وہ قیامت کے دن اپنے بوجھ پورے اٹھائیں اور کچھ ان کے بوجھ میں سے بھی جنہیں وہ علم کے بغیر گمراہ کرتے رہے۔ سن لو ! برا ہے وہ بوجھ جو وہ اٹھا رہے ہیں)
اور حدیث میں بھی ہے کہ جو گمراہی کی طرف بلائے تو اسے اس کا گناہ ہوگا اور اس کی پیروی کرنے والو ں کا گناہ بھی اسے ملے گا، جبکہ ان کے گناہوں میں سے کچھ کم نہيں کیا جائے گا۔