Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.29K subscribers
2.49K photos
52 videos
211 files
4.94K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
صرف #عنوان دیکھ کر بدک جانا - شیخ محمد بازمول
sirf #unwan dekh kar bidak jana - shaykh muhammad bazmool
[Article] Is #Tawheed-ul-'Ibaadah obsolete and is it now time to emphasis on Tawheed-ul-#Hakmiyyah? - Fatwa Committee, Saudi Arabia

کیا #توحید عبادت قدیم ہوچکی ہے اورموجودہ دور توحیدِ #حاکمیت بیان کرنے کا ہے؟

مختلف علماء کرام

ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی

مصدر: مختلف مصادر

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/10/kiya_tawheed_uloohiyyat_qadeem_mojoda_daur_hakmiyyat_bayan.pdf

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سوال: کچھ داعیان نے توحید کی تین معروف اقسام کے ساتھ ساتھ توحید حاکمیت کو بہت زیادہ اہمیت دینی شروع کردی ہے۔ تو کیا یہ چوتھی قسم ان تین اقسام ہی میں داخل ہے ؟ اگر نہیں ہے تو کیا ہم اسے ایک الگ قسم قرار دے کر اس کا خصوصی اہتمام کریں؟

اور یہ بھی کہا جاتا ہے شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے توحید الوہیت کو اس لئےزیادہ اہمیت دی جب انہوں نے مشاہدہ کیا کہ لوگ اس باب میں غفلت برت رہے ہیں اور اسی طرح امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے توحید اسماء وصفات پر اس لئے خصوصی توجہ دی جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ اس باب میں غفلت برت رہے ہیں۔ اب چونکہ فی زمانہ لوگ توحید حاکمیت میں غفلت کا شکار ہیں تو ہم پر لازم ہے کہ ہم اس پر زیادہ توجہ مرکوز رکھیں، سوال یہ ہے کہ کہاں تک یہ بات درست ہے؟

جواب از فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب:

توحید کی تین اقسام ہیں: توحید ربوبیت، توحید الوہیت اور توحید اسماء وصفات اور کوئی چوتھی قسم نہیں۔ اور اللہ تعالی کی شریعت کے مطابق فیصلہ کرنا توحید الوہیت کے ضمن میں آتا ہے کیونکہ یہ تو اللہ تعالی کے لئے ادا کی جانے والی عبادات کی اقسام میں سے ایک قسم ہے اور ہر قسم کی عبادت توحید الوہیت کے تحت آتی ہیں۔ پس ’’حاکمیت‘‘ کو توحید کی ایک علیحدہ قسم قرار دینا ایک بدعت ہے جو ہماری علم کے مطابق کسی بھی عالم کا قول نہیں۔ ہاں البتہ بعض نے اسے عام رکھا اور کہا کہ توحید کی دو قسمیں ہیں:

1- توحید معرفت و اثبات، اور یہ توحید ربوبیت اور اسماء وصفات پر مشتمل ہے۔

2- توحید طلب و قصد، اور یہ توحید الوہیت ہے۔

اور کچھ نے اسے مزید مخصوص کرتے ہوئے تین اقسام کیں جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں، واللہ اعلم۔

چناچہ یہ واجب ہے کہ ہم مکمل توحید الوہیت پر توجہ دیں اور اس کی ابتداء شرک کا رد کرنے سے کریں کیونکہ یہ اکبر الکبائر ہے جس کی موجودگی میں تمام نیک اعمال ضائع ہوجاتے ہیں، اور اس کا مرتکب دائمی جہنمی ہے۔ تمام انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام نے اپنی دعوت کا آغاز ایک اللہ کی عبادت کا حکم دینے اور ہر قسم کے شرک کی نفی سے کیا، اور اللہ تعالی نے ہمیں انہی کے راستے کی پیروی کرنے اوردعوتِ دین ہو یا دیگر دینی امور ہمیں انہی کے منہج کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے([1])۔ پس توحید پر اس کی تینوں اقسام سمیت توجہ دینا ہر دور میں واجب ہے کیونکہ شرک اور اللہ تعالی کے اسماء وصفات کا انکار وتأويل آج بھی موجود ہے، بلکہ یہ تو پہلے سے زیادہ عام ہوچکے ہیں اور قرب قیامت تک ان کے خطرات میں اضافہ ہی ہوتا جائے گا، جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ ان دونوں امور کی یہ اہمیت و سنگینی بہت سے مسلمانوں پر مخفی ہے، اور ان دونوں کی طرف دعوت دینے والے بھی بہت بڑی تعداد میں ہیں اور بہت سرگرم ہیں۔ لہذا شرک کا وجود صرف شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے دور تک محدود نہ تھا اور نہ ہی اللہ تعالی کے اسماء وصفات کا انکار وتأويل امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے دور تک محدود تھی، جیسا کہ سوال میں کہا گیا۔

بلکہ اس دور میں تو اس کے خطرات دوچند ہوگئے ہیں اور یہ پہلے سے زیادہ مسلم معاشروں پھل پھول رہے ہیں۔ اسی لئے انہیں ایسے لوگوں کی سخت ضرورت ہے جو انہیں اس میں ملوث ہونے سے روکیں اور اس کے مضرات سے انہیں آگاہ کریں۔ آخر میں یہ جاننا چاہیے کہ اللہ تعالی کے احکامات کی پابندی کرنا اور اس کی منع کردہ چیزوں سے اجتناب کرنا اور اس کی شریعت کو نافذ کرکے اس کے مطابق فیصلے کرنا یہ سب توحید کو اپنانے اور شرک سے پاک رہنے ہی میں شامل ہے۔

وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم.

سماحة الشيخ عبدالعزيز بن باز، والشيخ عبدالعزيز بن عبدالله آل الشيخ، والشيخ صالح بن فوزان الفوزان، والشيخ عبدالله بن عبدالرحمن الغديان، والشيخ بكر بن عبدالله أبو زيد.

(المسلمون رقم: 639، جمعہ 25 ذوالحج 1417ھ بمطابق 2 مئی 1997ع)

سوال: بعض ایسے لوگ ہيں جو کہتے ہیں کہ تم اپنے اوقات قدیم شرک کے بیان میں ضائع کرتے ہو جو کہ قبروں سے توسل وفریادیں کرنا ہے، جبکہ جدید شرک یعنی شرک حاکمیت یا حکام کے شرک کو بھول جاتے ہو، حالانکہ ان کے نزدیک آج حکام کی تکفیر اور ان کے خلاف بغاوت وخروج کی تحریک چلانا دعوتی عمل سے زیادہ ترجیح رکھتا ہے،کیا یہ بات صحیح ہے؟

جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:
یہ بات غلط ہے یہ بیچارے ہيں، جو بات اولیٰ ہے اور ترجیح رکھتی ہے وہ لوگوں کے عقائد کی اصلاح ہے اور انہيں بصیرت دینا ہے۔ ان کے سامنے شرک کی اور کفریہ عقائد کی حقیقت بیان کرنا ہے خواہ وہ وثنیت (بت پرستی، قبرپرستی وغیرہ) کے پہلو سے ہو، یا کمیونزم کے پہلو سے یا چاہے اباحیت کے پہلو سے ۔ لیکن جہاں تک بات حکمرانوں کے خلاف لڑنے کی ہے تو ہم ان حکام سے تنازع نہيں کریں گے۔ یہ تو خوارج اور معتزلہ کا وطیرہ ہے۔ لہذا اس قسم کے لوگوں میں خوارج سے مشابہت پائی جاتی ہے، ان کا سوائے حکام کے خلاف خروج کے اور کوئی سروکار نہيں۔

حالانکہ واجب ہے کہ ہم لوگوں کے احوال کی تصحیح و اصلاح کریں خواہ حکام ہو ں یا غیرحکام ہوں۔ ان کے احوال کی درستگی کریں، انہيں اللہ تعالی کی جانب دعوت دیں اور انہيں نصیحت کریں۔ اور عوام کو بھی نصیحت کریں اور ان کے سامنے صحیح اسلامی عقیدہ بیان کریں۔

اس خروج سے آخر کیا فائدہ ہے؟! اس میں سوائے قتل و غارت وفساد کے کچھ حاصل نہيں ہوتا۔ خروج کے لیے نکل پڑتے ہیں حالانکہ کمزور ہوتے ہيں، پس قتل کرتے ہیں اور قتل ہوتے ہیں۔ یہ راستی کا طریقہ نہيں، راست طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کو بصیرت فراہم کی جائے اور انہیں خیر کی جانب رہنمائی کی جائے، ناکہ بنا بصیرت کے حکام کے خلاف بس خروج کیاجائے، اور قتل عام مچا دیا جائے۔

سائل: آپ کی ان نوجوانوں کے لیے کیا نصیحت ہے؟

الشیخ: میری ان کے لیے یہی نصیحت ہے کہ وہ دین میں تفقہ حاصل کریں اور لوگوں کو بھی دین کا فقہ و فہم دیں، ناکہ انہيں حکام کے خلاف خروج میں مشغول رکھیں۔ کیونکہ یہ دعوت کو ختم کرنے کا سبب بن جائے گا، اور یہ خود اپنے ہاتھوں دعوت کو مار دیں گے۔کیونکہ ظاہر ہے حکومت انہيں ہرگز نہيں چھوڑے گی کہ وہ ان پر چڑھائی کریں، اگر کوئی سرکشی کرے گا تو وہ اسے قتل کردیں گے اور اس تحریک کو کچل کر رکھ دیں گے، اور دعوت کا خاتمہ کردیں گے۔

لہذا واجب ہے یہ کہ لوگ دعوت و توجیہہ و رہنمائی کرنے میں محنت کریں، اور لوگوں کو ان کے دین کا فقہ و فہم دیں۔ پہلے خود دین کا فقہ و فہم حاصل کریں تاکہ وہ وضاحت و بصیرت پر ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ بس یہی سروکار رہ جائے کہ حکام وسلطان کو برا بھلا کہو ، ان کے خلاف منصوبہ بندی کرو۔ یہ کام تو بہت بڑے فساد اور عظیم خطرے کی طرف لے جاتے ہيں۔ اور یہ دعوت اور اس دعوت کے حاملین نوجوانوں کے خاتمے کا سبب بنتے ہيں۔

پس واجب ہے کہ یہ تفقہ فی الدین، دعوت الی اللہ اور اس کی جانب رہنمائی کرنے کا خصوصی اہتمام کریں۔ اور عوام الناس کو بھی دین کی سمجھ دیں ،ساتھ میں حکمرانوں کی بھی نصیحت وخیرخواہی چاہيں خط وکتابت کے ذریعے([2])۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ انہیں ہدایت دے اور ان کے ذریعے دوسروں کو بھی ہدایت دے۔ یہ ہے راست اور صحیح طریقہ۔

(النھج الواضح سے آڈیو کلپ: الأولى تصحيح عقائد الناس و تبصيرهم و يبين لهم حقيقة الشرك أما الخروج على السلاطين فهذا شأن الخوارج)



[1] ﴿اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ﴾ (الانعام: 90) (یہ (انبیاء کرام) وہ لوگ ہيں کہ جنہيں اللہ تعالی نے ہدایت دی تھی، پس تم انہی کی ہدایت کی پیروی کرو) (توحید خالص ڈاٹ کام)



[2] نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین بار فرمایا:

’’الدِّينُ النَّصِيحَةُ (ثلاثا) قيل: لمن يا رسول الله؟ قال:لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ‘‘

(أخرجه مسلم (55) عن تميم الداري -رضي الله عنه-)

(دین تو نصیحت و خیرخواہی کا نام ہے، دریافت ہوا کہ خیرخواہی کس کے لئے؟ فرمایا: اللہ، اس کی کتاب، اس کے رسول، مسلمانوں کے حکام اور عام مسلمانوں کے لئے)۔

عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’مَنْ أَرَادَ أَنْ يَنْصَحَ لِذِي سُلْطَانٍ فَلا يُبْدِهِ عَلَانِيَةً، وَلَكِنْ يَأْخُذُ بِيَدِهِ فَيَخْلُوا بِهِ، فَإِنْ قَبِلَ مِنْهُ فَذَاكَ، وَإِلا كَانَ قَدْ أَدَّى الَّذِي عَلَيْهِ‘‘

(کتاب السنۃ لابن ابی عاصم صححہ الالبانی 1096اس کے علاوہ یہ روایت مسند احمد اور ابن عساکر میں بھی ہے)

(جو کوئی حاکم وقت کو نصیحت کرنا چاہتا ہو تو اسے علانیہ نہ کرے بلکہ اس کا ہاتھ پکڑ کر تنہائی میں لے جاکر نصیحت کرے۔ اگر وہ اس سے قبول کرلیتا ہے تو ٹھیک، ورنہ اس کے ذمے جو تھا اس نے ادا کردیا ہے)۔

تفصیل کے لیے پڑھیں ہماری ویب سائٹ پر شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی کتاب "حاکم او رمحکوم کو باہمی تعلق" ۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[Article] The origin of four #Madhahib – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah Aal-Shaykh

چار #مذاہب کا ظہور کب ہوا؟

فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ رحمہ اللہ

(مفتئ اعظم، سعودی عرب)

مصدر: ظهور المذاهب الأربعة

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/char_madahib_ka_zuhoor.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: کیا یہ چار مذاہب عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود تھے؟

جواب: میرے بھائی! یہ چار مذاہب تو نہیں بنے مگر دوسری یا تیسری صدی میں جاکر، یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں موجود نہ تھے۔ تمام مسلمان کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے تھے۔ اللہ تعالی کی عبادت کتاب وسنت کی دلیل کے موافق بجا لاتے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء فرماتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم کی پیروی کرتے:

﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًا﴾ (الاحزاب: 21)

(بلاشبہ یقیناً تمہارے لیے اللہ کے رسول میں ہر طور پر بہترین نمونہ ہے، اس کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتا ہو)

یہ مذاہب تو ظاہر ہی دوسری صدی ہجری میں ہوئے ہیں۔ اس طرح کہ ان مذاہب اربعہ کے آئمہ رحمہم اللہ امام ابوحنیفہ بن النعمان کوفہ میں، امام مالک مدینہ میں، امام الشافعی مصر میں اور امام احمد بن حنبل عراق میں تھے ،اور ان کے بہت سے شاگرد تھے جو ان کے فتاویٰ، اور سوالات کے جواب نقل کرتے ، انہیں مدون کرتے اور نشر کرتے۔ اور اللہ تعالی نے ان کے لیے زمین میں قبولیت عام عطاء رکھ دی۔

لیکن یہ بات ناممکن ہے کہ ہم ان آئمہ اربعہ کے معصوم عن الخطاء ہونے کا عقیدہ رکھیں، اور یہ کہ جو بھی قول وہ کہیں تو وہ ہمیشہ قابل قبول ہوگا ایسا نہيں، بلکہ امام مالک بن انس رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’اگر میرے کلام میں کوئی ایسی بات پاؤ جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف ہو تو میری بات کو دیوار پر دے مارو‘‘۔

امام الشافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس کے بھی نزدیک کوئی بات کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوجائے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی کے قول کی وجہ سے اسے چھوڑ دے، خواہ وہ قائل کوئی بھی ہو کہیں بھی ہو‘‘۔

اسی طرح کا قول امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی ہے۔

پس یہ آئمہ اربعہ اپنے شاگردوں کی وجہ سے مشہور ہوگئے جو ان کے سوالات پر دیے گئے جوابات کو نقل کرتے ، مدون کرتے۔ چناچہ یہ آئمہ اربعہ بنالینے کی بنیاد کوئی شریعت میں نہیں بلکہ یہ تو نتیجہ ہے ان کے شاگردوں اور طلبہ کا جنہوں نے ان کے فتاویٰ اور علم کو نشر کیا۔ اور ان مذاہب میں وسعت آتی گئی۔ اور یہ سب حق ہیں، اور سب خیر پر ہیں، لیکن کمال تو صرف اللہ تعالی کے لیے ہے، اور ہم کتاب وسنت کی اتباع کے مامور ہیں۔ ہم جس رائے کو کتاب وسنت کے مخالف پائیں گے اس سے دور ہوجائیں گے، اور جسے کتاب وسنت کے موافق پائیں گے اس کی تائید کریں گے اور اسی پر عمل کریں گے۔ ساتھ میں ان کے لیے رحمت ومغفرت کی دعاء کریں گے یعنی اگر کچھ مخالفت نظر آئے تو انہیں معذور سمجھیں گے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿وَفَوْقَ كُلِّ ذِيْ عِلْمٍ عَلِيْمٌ ﴾ (یوسف: 76)

(اور ہر علم والے سے اوپر ایک علم والا ہے)۔
[Article] When a man wants to #propose to a woman - Imaam Ahmed bin Hanbal

جب مرد عورت کو #رشتے_کا_پیغام بھیجنا چاہے

امام اہلسنت والجماعت احمد بن حنبل رحمہ اللہ المتوفی سن 241ھ

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: الإنصاف - (ج 12 / ص 206)

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/02/mard_rishta_pegham_aurat.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

(اگرچہ یہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ:

’’تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ: لِمَالِهَا، وَلِحَسَبِهَا، وَجَمَالِهَا، وَلِدِينِهَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ‘‘([1])

(عورت سے چار چیزوں کی وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے: اس کے مال کی وجہ سے، اس کے حسب نسب کی وجہ سے، اس کے حسن وجمال کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے۔ تم دین دار سے نکاح کرکے کامیابی وکامرانی حاصل کرنا، تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں)۔

اس حدیث سے اگرچہ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ سب سے پہلے جس عورت کے لیے نکاح کا پیغام بھیجا جارہاہے اس کی دینداری کے بارے میں دیکھا جائے لیکن بعض آئمہ کرام اس حدیث کا صحیح مفہوم کچھ یوں بیان کرتے ہیں)۔

امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’إذَا خَطَبَ رَجُلٌ امْرَأَةً سَأَلَ عَنْ جَمَالِهَا أَوَّلًا، فَإِنْ حُمِدَ،سَأَلَ عَنْ دِينِهَا. فَإِنْ حُمِدَ: تَزَوَّجَ، وَإِنْ لَمْ يُحْمَدْ : يَكُونُ رَدُّهُ لِأَجْلِ الدِّينِ.وَلَا يَسْأَلُ أَوَّلًا عَنْ الدِّينِ، فَإِنْ حُمِدَ سَأَلَ عَنْ الْجَمَالِ.فَإِنْ لَمْ يُحْمَدْ رَدَّهَا، فَيَكُونُ رَدُّهُ لِلْجَمَالِ لَا لِلدِّينِ‘‘

(جب کوئی مردکسی عورت کو رشتے کا پیغام بھیجے تو اس کے حسن کے بارے میں پہلے دریافت کرے۔ اگر اس کی تعریف کی گئی تو پھر اس کی دینداری کے بارے میں پوچھا جائے۔ اور اگر اس کی بھی تعریف کی گئی تو شادی کرے۔ اور اگر اس کے دینداری کی تعریف نہ کی گئی تو اس کا رشتے کو رد کرنا دین کی وجہ سے کہلائے گا۔ ایسا نہ کرے کہ پہلے پہل ہی اس کی دینداری کے بارے میں سوال کرلیا جائے اور اگر اس کی دینداری قابل تعریف ہو تو پھر اس کے حسن کی بابت پوچھا جائے۔ اگر اس کے حسن کی تعریف نہ ہو(یا اسے اچھی نہ لگے) تو وہ اسے رد کردے، لیکن اس صورت میں تو رشتے کو مسترد کرنا حسن کی وجہ سے ہوا ناکہ دینداری کی وجہ سے(یعنی گویا کہ حسن کو دینداری پر ترجیح دی گئی))۔

(اور بعض علماء کرام نے اس آیت سے ﴿فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاءِ﴾ (النساء: 3) (اور ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہیں پسند ہوں) یہی مراد لی ہے کہ جو انسان کو پسند آئے اس سے نکاح کرے، کیونکہ نکاح سے مقصود اپنے آپ کو فتنہ وحرام شہوات سے محفوظ رکھنا ہے اگر ناپسند عورت سے شادی کرلی تو اسے یہ مقصد حاصل نہ ہوگا اور دین داری کا نقصان ہوسکتا ہے، اللہ اعلم)۔



[1] صحیح بخاری 5090، صحیح مسلم 10/15۔
#مہنگائی ہوجانے پر جزع فزع اور ہنگامے کرنا
#mehangae ho janay par hangamay karna
[Article] What is the stance of a beginner student regarding the difference between the #scholars? - Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee

#علماء کرام کے مابین اختلاف میں ابتدائی طالبعلم کیا مؤقف اختیار کرے؟

فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ

(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: بهجة القاري بفوائد منهجية و دروس تربوية من كتاب الاعتصام بالكتاب و السنة من صحيح البخاري، س 4 ص 76۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سوال:ایک ابتدائی طالبعلم کا اس اختلاف کے تعلق سے کیا مؤقف ہونا چاہیے جو علماء سنت کے مابین ان کے بعض فتاویٰ میں ہوجاتا ہے، خصوصاً جبکہ ان میں سے بعض بعض علماء کے لیے تعصب کرتے ہيں اور یہ انہیں اس بات پر ابھارتا ہے کہ وہ دوسرے عالم کی شان میں تنقیص کرتے ہیں، پس آپ کس طرح نوجوانوں کی اس باب میں رہنمائی فرمائيں گے، وجزاکم اللہ خیراً؟

جواب کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/01/ulamaa_ikhtilaaf_talib_e_ilm_moaqqaf.pdf
[Urdu Audios] Explanation of #Kitaab_ul_Aetisaam of Saheeh Bukharee - Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee

شرح #کتاب_الاعتصام للبخاری - شیخ ربیع بن ہادی المدخلی

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: بهجة القاري بفوائد منهجية ودروس تربوية من كتاب الإعتصام بالكتاب والسنة من صحيح البخاري

پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام

سوال و جواب

س 1: جو کوئی ایسی مجلس میں بیٹھا جس میں اللہ تعالی اور اس کی آیات کا مذاق اڑایا جارہا ہو، پس وہ اپنے دل سے انکار کرے لیکن زبان سے انکار نہ کرے، ساتھ ہی اس مجلس سے نکلے بھی نہیں حالانکہ وہ اس پر قادر بھی تھا، تو کیا اس صورت میں وہ کافر ہوجائے گا یا نہیں؟ اور اللہ عزوجل کے اس فرمان کی کیا تفسیر ہے کہ فرمایا: (اور یقیناً ہم نے تم پر کتاب میں یہ نازل فرمایا ہے کہ اگر تم سنو کہ اللہ کی آیات سے کفر کیا جارہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جارہا ہے تو ایسوں کے ساتھ مت بیٹھو، یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے بات میں لگ جائيں، بے شک اس (بیٹھے رہنے کی) صورت میں تم بھی ان جیسے ہو، بے شک اللہ تعالی منافقوں اور کافروں ان سب کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے) (النساء: 140)؟

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/01/sharh_kitaab_ul_aetisaam_bukharee_rabee_QA_01.mp3

س 2: اللہ تعالی کے اس فرمان کی کیا تفسیر ہے، فرمایا: (اور یقیناً ہم نے تم پر کتاب میں یہ نازل فرمایا ہے کہ اگر تم سنو کہ اللہ کی آیات سے کفر کیا جارہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جارہا ہے تو ایسوں کے ساتھ مت بیٹھو، یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے بات میں لگ جائيں، بے شک اس (بیٹھے رہنے کی) صورت میں تم بھی ان جیسے ہو، بے شک اللہ تعالی منافقوں اور کافروں ان سب کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے) (النساء: 140)؟

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/01/sharh_kitaab_ul_aetisaam_bukharee_rabee_QA_02.mp3

س 3: اور آیت کے آخر میں جو فرمایا: (بے شک اس (بیٹھے رہنے کی) صورت میں تم بھی ان جیسے ہو، بے شک اللہ تعالی منافقوں اور کافروں ان سب کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے) (النساء: 140) اس کی کیا تفسیر ہے؟

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/01/sharh_kitaab_ul_aetisaam_bukharee_rabee_QA_03.mp3
[Urdu Article] The criteria for choosing a Salafee #spouse - Shaykh Muhammad bin Umar Bazmool

شادی کے لیے سلفی #رشتوں کا معیار

فضیلۃ الشیخ محمد بن عمر بازمول حفظہ اللہ

(سنئیر پروفیسر جامعہ ام القری ومدرس مسجد الحرام، مکہ مکرمہ)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: بازمول ڈاٹ کام۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/01/salafi_shaadi_rishtay_mayar.pdf

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

(شادی کے رشتے کے لیے) ایک صالحہ سلفیہ عورت (یا مرد) کے لیے یہ شرط نہيں کہ وہ تمام جماعتوں اور احزاب کو جانتی ہو۔

نہ ہی یہ شرط ہے کہ علماء اور سلف کے کلام کو بارہا ذکر کرتی ہو۔

نہ ہی یہ لازم ہے کہ وہ فلاں فلاں کی جرح کو جانتی ہو۔

نہ ہی یہ شرط ہے کہ وہ سلفی مشایخ کا علم رکھتی ہو۔

نہ ہی یہ شرط ہے کہ اسی جو کچھ (دعوتی) منظر عام پر آجکل چل رہا اس کی معلومات ہوں۔

نہ ہی یہ شرط ہے کہ وہ ایام بیض اور ہر پیر و جمعرات کے روزے رکھتی ہو، اور نہ ہی یہ کہ وہ روزانہ قیام اللیل کرتی ہو۔

بلکہ اس کے لیے بس یہی کافی ہے کہ وہ پنج وقتہ نمازوں کی پابندی کرتی ہو، رمضان کے روزے رکھتی ہو، اور اپنے اور شوہر کی عزت کی حفاظت کرتی ہو، اور اپنے گھر بار اور بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہو([1])۔

اور اس کا گھر ہی اس کی مملکت ہو، اور اس کا شوہر اس کا امیر و سربراہ ہو، اور ا س کی اولاد اس کی رعایا ہو([2])۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس (نیک بیوی) کے تعلق سے اس کے سوا کچھ نہیں فرمایا کہ:

اپنے بچوں پر شفیق ہو، اپنے شوہر کے پیچھے اس کی عزت و مال کی محافظ ہو، ساتھ میں اپنے رب کے حقوق بھی ادا کرتی ہو۔

دراصل لوگ اس (سلفی رشتے کے معیار ) میں مبالغہ کرتے ہيں اور حد سے تجاو زکرجاتے ہيں، آخر آپ مسلمانوں کی بیٹیوں سے چاہتے کیا ہيں کہ وہ کیا بن جائيں؟!

ایک وضاحت:

جو کچھ میں نے بیان کیا وہ صرف اس طور پر کیا ہے کہ یہ شرط نہيں ہے۔ لیکن ظاہر ہے اگر کوئی لڑکی ان سب پر عمل پیرا ہو تو یہ بے شک افضل ہے۔

لیکن میں نے بعض نوجوانوں کو دیکھا کہ رشتے کے سلسلے میں لڑکیوں میں ان تمام صفات کا ہونا ضروری قرار دیتے ہوئے غلو سے کام لیتے ہيں۔

اسی طرح سے میں نے بعض لڑکیوں میں بھی دیکھا کہ وہ بھی (رشتے میں) یہ سب کچھ طلب کرتی ہیں اور اس قدر تعمق و گہرائی میں جاتی ہيں([3])۔

لہذا اسی وجہ سے میں نے وہ اصل بیان کردی کہ جو ایک عورت میں دیکھی جانی چاہیے، اور صرف ان کے پائے جانے سے بھی وہ ایک صالحہ سلفیہ عورت کہلائی جاسکتی ہے، یہ یہ باتیں جو ذکر ہوئیں کوئی شرائط میں سے نہيں ہے۔

جس علم کی عورت کو ضرورت ہوتی ہے وہ بس وہی ہے جو اس کے صنف نازک ہونے کے تعلق سے اس کے ساتھ خاص ہوتے ہيں۔

اور جو اس سے زائد علم ہے تو وہ مرد اس کا شوہر اسے سکھا دے گا، کیونکہ وہ ان چیزوں میں اس کے تابع ہے، او رکیونکہ بلاشبہ وہ اس کا امیر اور نگران ہے۔

واللہ اعلم۔



[1] عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’إِذَا صَلَّتْ الْمَرْأَةُ خَمْسَهَا، وَصَامَتْ شَهْرَهَا، وَحَفِظَتْ فَرْجَهَا، وَأَطَاعَتْ زَوْجَهَا، قِيلَ لَهَا ادْخُلِي الْجَنَّةَ مِنْ أَيِّ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ شِئْتِ‘‘

(مسند احمد 1664، صحیح الترغیب 1932 حسن لغیرہ)

(اگر عورت اپنی پنج وقتہ نماز پڑھے (اس کی پابندی کرے)، اور اپنے ماہ (رمضان) کے روزے رکھے، اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے، اوراپنے شوہر کی اطاعت وفرمانبرداری کرے، تو اسے (بروز قیامت) کہا جائے گا: تو جنت کے جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہوجا)۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)



[2] ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

” كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالْأَمِيرُ رَاعٍ وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ زَوْجِهَا وَوَلَدِهِ فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ “ (صحیح بخاری 4909)

(تم میں سے ہرکوئی نگہبان ہے اور ہر ایک سےاس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ ایک امیر نگہبان ہے۔ اور ایک مرد بھی نگہبان ہے اپنے گھر والوں پر، اور ایک عورت بھی نگہبان ہے اپنے شوہر کے گھر پر اور اس کی اولاد پر، پس تم میں سے ہرکوئی نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا)۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)



[3] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’إِذَا جَاءَكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ، إِلَّا تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ أو عَرِيضٌ‘‘ (صحیح ترمذی 1085 وغیرہ میں مختلف الفاظ کے ساتھ مروی ہے)
(جب تمہارے پاس کوئی ایسا (مرد کا رشتہ) آئے جس کے دین اور اخلاق سے تم راضی ہو تو اس سے شادی کروادو، اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا یا بہت وسیع وعریض فساد ہوگا)۔
[Urdu Article] Lagislated ways through which we can save our #children from Shaytaan - Shaykh Khaalid bin Dhahwee Ad-Dhafeeree

وہ شرعی طریقے جن کے ذریعے ہم اپنے #بچوں کی شیطان سے حفاظت کرسکتے ہیں

فضیلۃ الشیخ خالد بن ضحوی الظفیری حفظہ اللہ

(اہل بدعت سے خبردار کرنے کے تعلق سے مایہ ناز تصنیف "إجماع العلماء على الهجر والتحذير من أهل الأهواء" کے مصنف، کویت)

مترجم: طارق علی بروہی

مصدر: مُستفاد من سلسلة لقاءات نَصائِح في إصلاح البُيوت "اللقاء الثاني" ویب سائٹ میراث الانبیاء

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2014/08/sharae_tareeqay_bacho_shaitan_hifazat.pdf

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

1- گھر میں داخل ہوتے وقت ، کھانا یا رات کا کھانا کھاتے وقت اللہ تعالی کا ذکر ۔ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وارد ہے، فرمایا:

’’إِذَا دَخَلَ الرَّجُلُ بَيْتَهُ فَذَكَرَ اسْمَ اللَّهِ حِينَ يَدْخُلُ وَحِينَ يَطْعَمُ قَالَ الشَّيْطَانُ لَا مَبِيتَ لَكُمْ وَلَا عَشَاءَ‘‘([1])

(جب کوئی شخص اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے اور گھر میں داخل ہوتے وقت اور کھانا کھاتے وقت اللہ تعالی کا نام ذکر کرتا ہے تو شیطان کہتا ہے آج نہ تمہیں (یعنی شیاطین کو) یہاں سونا نصیب ہوگا نہ رات کا کھانا)۔

2- بچے کے پیدا ہونے سے لے کر بڑے ہونے تک اس کی حفاظت کے وسائل میں سے یہ بھی ہے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی اہلیہ کے پاس آئے یعنی جب جماع کا ارادہ کرے، تو اس بارے میں ایک سنت ہے جس سے بہت سے لوگ غافل ہیں، بہت سے جوڑے(میاں بیوی) اس سے غافل ہیں اور وہ اللہ تعالی کا ذکر کرنا ہے تو فرمایا کہ یہ کہے:

’’اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَنِّبْ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا، قال: فَإِنَّهُ إِنْ يُقَدَّرْ بَيْنَهُمَا وَلَدٌ فِي ذَلِكَ لَمْ يَضُرَّهُ شَيْطَانٌ أَبَدًا‘‘([2])

(اے اللہ ہمیں شیطان سے بچا اور جو (اولاد) تو ہمیں عطاء فرمائے اسے بھی شیطان سے بچا، فرمایا: اگر ان کے لیے اس سے اولاد ہونا مقدر ہوا تو اسے کبھی شیطان نقصان نہیں پہنچا سکے گا)۔

3- اپنے گھر میں اللہ کا ذکر کریں۔ تلاوت قرآن کا کچھ حصہ اپنے گھر کے لیے رکھیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’مَثَلُ البَيْتِ الَّذي يُذْكَرُ اللَّهُ فِيهِ، وَالبَيتِ الذي لَا يُذْكَرُ اللَّهُ فِيهِ، مَثَلُ الحَيِّ والمَيِّتِ‘‘([3])

(اس گھر کی مثال جس میں اللہ تعالی کا ذکر کیاجاتا ہے اور اس گھر کی جس میں اللہ تعالی کا ذکر نہيں کیا جاتا، زندہ اور مردے کی سی مثال ہے)۔

زندہ گھر وہ ہے جس میں ذکر الہی ہو جبکہ مردہ گھر جس میں کوئی فائدہ نہیں وہ ہے جس میں ذکر الہی نہ ہو۔ اسی لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنی تلاوت قرآن اور ذکر الہی کا کچھ حصہ اپنے گھر کے لیے بھی رکھے۔ اس لیے بھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’اجْعَلُوا مِنْ صَلَاتِكُمْ فِي بُيُوتِكُمْ، وَلَا تَجْعَلُوهَا عَلَيْكُمْ قُبُورًا وَإِنَّ الْبَيْتَ لَيُتْلَى فِيهِ الْقُرْآنُ فَيَتَرَاءَى لأَهْلِ السَّمَاءِ كَمَا تَتَرَاءَى النُّجُومُ لأَهْلِ الأَرْضِ‘‘([4])

(اپنی نماز کا کچھ حصہ اپنے گھر کے لیے بھی رکھو، اپنے گھروں کو اپنے لیے قبرستان نہ بنالو۔ بے شک جس گھر میں قرآن کریم پڑھا جاتا ہے وہ آسمان والوں کو ایسے دکھائی دیتا ہے جیسے زمین والوں کو آسمان پر تارے نظر آتے ہیں)۔

اس حدیث کو شیخ البانی نے صحیح ([5]) کہا ہے۔ یعنی جیسے ہم آسمان پر تاروں کو چمکتا دیکھتے ہیں، اسی طرح سے اہل آسمان کو وہ زندہ گھر کہ جس میں قرآن مجید تلاوت کیا جاتا ہے اور جس میں اللہ تعالی کا ذکر کیا جاتا ہے نظر آتا ہے۔ جیسا کہ ہم ستاروں کو آسمان پر دیکھتے ہیں کہ وہ کیسے چمک دمک رہے ہوتے ہیں۔

4- گھر پر باکثرت نمازیں پڑھنا یعنی نفلی نمازیں۔ کوشش کریں کہ اس کے عادی بن جائیں اپنے نفس کو اس کی عادت ڈالیں کہ نفل نمازیں ہمیشہ گھر پر پڑھیں۔ چاہے وہ فرائض کے ساتھ والے نوافل ہوں (سنتیں) یا وتر۔ فرض نماز مسجد میں ادا کریں پھر گھر لوٹ کر عشاء کے بعد دو سنتیں، مغرب کی سنتیں، ظہر کی سنتیں، عصر کی سنتیں انہیں اپنے گھر پر ادا کریں اور کوشش کریں کہ اپنی نمازوں کاکچھ حصہ اپنے گھر کے لیے بھی رکھیں، فرمایا: اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔ اس لیے ضروری ہے کہ آپ گھر پر بھی نمازیں پڑھیں تاکہ چھوٹے آپ کو دیکھ کر عادی بنیں، اسی طرح سے دوسرے آپ کو دیکھ کر اللہ تعالی سے مدد مانگیں گے، اس کا ذکر کریں گے اور نماز پڑھیں گے۔
5- بچوں کو شیطان کے مقابلے میں اللہ تعالی کی پناہ میں دینا اور اللہ تعالی سے دعاء کرنا کہ وہ شیطان مردود سے ان کی حفاظت فرمائے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا حسن وحسین رضی اللہ عنہما کو اللہ تعالی کی پناہ میں دیا کرتے تھے اور فرماتے ہیں:

’’أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التّآمَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ‘‘

(میں اللہ تعالی کے مکمل کلمات کی پناہ طلب کرتا ہوں ہر قسم کے شیطان سے)۔

یعنی اپنا ہاتھ بچے پر رکھ کر یہ کہیں:

’’أُعِيذُكَ بِكَلِماتِ اللهِ التّآمَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطانٍ وَهآمَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لآمَّةٍ‘‘

(میں تمہیں اللہ تعالی کے مکمل کلمات کی پناہ میں دیتا ہوں، ہر شیطان سے، ہر زہریلے جانور سے اور ہر لگ جانے والی نظر سے)۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام:

’’كَانَ يُعَوِّذُ بِهَا إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ‘‘([6])

(ان کلمات کے ذریعے سیدنا اسماعیل واسحاق علیہما الصلاۃ والسلام کو اللہ تعالی کی پناہ میں دیاکرتے تھے)۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے۔

6- نماز مغرب کے وقت اور غروب آفتاب کے وقت بچوں کو گھروں میں بند کرنا۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ:

’’ كُفُّوا صِبْيَانَكُمْ عِنْدَ فَحْمَةِ الْعِشَاءِ فَإِنُّكُمْ لَا تَدْرُونَ مَا يَبُثُّ اللَّهُ مِنْ خَلْقِهِ، فَأَغْلِقُوا الْأَبْوَابَ وَأَطْفِئُوا الْمَصَابِيحَ وَأَكْفِئُوا الْإِنَاءَ وَأَوْكِئُوا السِّقَاءَ‘‘

(اپنے بچوں کو عشاء کے وقت (یعنی جب رات شروع ہوجائے) گھروں میں بند کردو، کیونکہ تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالی اپنی مخلوقات میں سے (رات کو) کیا کیا پھیلادیتا ہے، پس اپنے دروازے بند کرلیا کرو، چراغوں کو بجھا دیا کرو، برتنوں کو ڈھانک لیا کرو، اور مشکیزوں کو کس لیا کرو)۔

یعنی جب رات شروع ہو روشنیاں بجھا دیا کرو، اور کھانے کو یونہی کھلا نہ چھوڑو بلکہ ڈھانپ لیا کرو۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آیا ہے کہ اگر تمہیں کوئی چیز یا برتن نہ ملے ڈھانپنے کے لیے تو کوئی بھی چیز اس پر رکھ لیا کرو اور اللہ تعالی کا نام ذکر کرلیا کرو۔ مثلاً اس پر کوئی ٹکڑا رکھ دو یا چمچہ رکھ دو اور کہو بسم اللہ۔ اس طرح سے اللہ تعالی اس کھانے سے شیاطین کو دور رکھے گا۔

7- سورۃ البقرۃ کی تلاوت کرنا: گھر میں سورۃ البقرۃ کی تلاوت کرنا شیطان کو بھاگا دیتا ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْفِرُ مِنَ الْبَيْتِ الَّذِي تُقْرَأُ فِيهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ‘‘

(شیطان اس گھر سےبھاگ جاتا ہے جہاں سورۃالبقرۃ پڑھی جاتی ہے)۔

اور فرمایا:

’’لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ مَقَابِرَ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْفِرُ مِنَ الْبَيْتِ الَّذِي تُقْرَأُ فِيهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ‘‘([7])

(اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ شیطان اس گھر سےبھاگ جاتا ہے جہاں سورۃالبقرۃ پڑھی جاتی ہے)۔

دیکھیں سورۃ البقرۃ کی قوت کہ اللہ تعالی نے اسے شیاطین کے بھاگنے کا سبب بنایا۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’اِقْرَءُوا سُورَةَ الْبَقَرَةِ فَإِنَّ أَخْذَهَا بَرَكَةٌ وَتَرْكَهَا حَسْرَةٌ وَلا تَسْتَطِيعُهَا الْبَطَلَةُ‘‘([8])

(سورۃ البقرۃ پڑھا کرو کیونکہ اسے پانا برکت ہے، جبکہ ترک کرنا حسرت ہے، اور جادوگر لوگ اس کی استطاعت نہیں رکھتے یا اس کی تاب نہیں لا سکتے)۔

یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ایک مسلمان کو کوشش کرکے یہ تلاوت ضرور کرنی چاہیے۔ اگر وہ سورۃ البقرۃ اپنے گھر میں پڑھے گا تو شیطان اس سے ، اس کے اہل وعیال سے اور اس کے گھر سے دور بھاگے گا جو کہ اس کے گھر کی اصلاح اور خیریت کا سبب بنے گا۔

8- ان مسائل میں سے جو شیاطین کے بھاگنے کا سبب ہیں یا اس کے برعکس انہیں لانے کا سبب ہیں یہ بھی ہیں کہ تصاویر لٹکانا، کسی بھی ذی روح کی تصاویر جیسے حیوانات کی یا انسانوں اور شخصیات کی، ان تصاویر کو گھر پر لٹکانے سے شیاطین کی آمد ہوتی ہے اور فرشتے دور چلے جاتے ہیں۔ پس جس گھر میں فرشتہ نہ ہو، اور اس میں فرشتے داخل نہ ہوسکتے ہوں تو وہ شیاطین کے آماجگاہ بن جاتے ہیں۔

9- کتے کو پالنا بھی گھر میں فرشتوں کو داخل ہونے سے روکنے کا سبب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سیدنا جبرئیل علیہ الصلاۃ والسلام آئے اور فرمایا:

’’إِنَّا لاَ نَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ صُورَةٌ وَلاَ كَلْبٌ‘‘([9])

(ہم اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں کوئی تصویر یا کتا ہو)۔
یعنی ایسا گھر جس میں کتا پایا جاتا ہو۔ بعض لوگ کتوں کو پالتے ہیں ایسے شخص کے اجر میں سے روزانہ ایک قیراط کم ہوجاتا ہے، ایک قیراط کے برابر نیکیاں جو کہ پہاڑوں کے برابر احد پہاڑ کے برابر ہوتی ہیں۔ ہر روز اس کے نیکیوں کے میزان سے ایک احد پہاڑ کے برابر نیکیاں کم کردی جاتی ہیں۔ کیونکہ اس نے اپنے گھر میں بلاحاجت کتاپال رکھا ہے۔ ظاہر ہے اس میں سے شکاری کتے اور چوکیداری کے لیے کتے مستثنی ہیں، یہ تو ایک جائز بات ہے۔ لیکن بعض لوگ مغربی لوگوں کی عادت کی طرح، اہل مغرب کی تقلید میں کتے پالنے کا شوق رکھتے ہیں تو یہ شیاطین کو لانے کا سبب ہے۔

10- اسی طرح سے بچوں کی اور کسی بھی مسلمان کی حفاظت کے اسباب میں سے یہ بھی ہے کہ وہ انہیں اس ذکر کی عادت ڈالے اور یاد کروائے جو گھر سے نکلتے وقت پڑھنا چاہیے جو کہ آسان سا ذکر ہے۔ اگر آپ اپنے بیٹے کے ساتھ گاڑی میں نکلتے ہیں یا کسی بھی جگہ جاتے ہیں تو انہیں یہ دعاء یاد کروائیں، اور وہ یہ قول رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ:

’’إِذَا خَرَجَ الرَّجُلُ مِنْ بَيْتِهِ فَقَالَ: بِسْمِ اللَّهِ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ‘‘

(جب کوئی شخص اپنے گھر سے نکلے تو یوں کہے: اللہ تعالی کے نام سے، میں نے اللہ تعالی پر توکل کیا، نہیں ہے نیکی کرنے کی اور برائی سے بچنے کی طاقت مگر صرف اللہ تعالی کی مدد سے)۔

بہت آسان سی چھوٹی سی دعاء ہے زیادہ طویل بھی نہیں، تین ہی کلمات ہیں:

’’بِسْمِ اللَّهِ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ‘‘

لیکن اس دعاء کی قوت اور اثر تو دیکھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’قَالَ: يُقَالُ حِينَئِذٍ: هُدِيتَ، وَكُفِيتَ، وَوُقِيتَ‘‘

(جب وہ یہ دعاء پڑھ لیتا ہے تو کہا جاتا ہے: تو نے ہدایت پالی، تجھے کفایت کردی گئی او رتو بچالیا گیا)۔

یعنی تجھے ہدایت مل گئی، اللہ تعالی تجھے ہر شر کے خلاف کافی ہوگیا، اور تجھے شیاطین سے بچا لیا۔ صرف تین کلمات ہیں جن سے یہ اجر حاصل ہوتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بعد فرماتے ہیں:

’’فَتَتَنَحَّى لَهُ الشَّيَاطِينُ، فَيَقُولُ لَهُ شَيْطَانٌ آخَرُ: كَيْفَ لَكَ بِرَجُلٍ قَدْ هُدِيَ وَكُفِيَ وَوُقِيَ‘‘([10])

(پس اس سے شیاطین دور ہٹ جاتے ہیں، تو اس سے دوسرا شیطان کہتا ہے: تم اس شخص پر کیونکر قابو پاسکتے ہو جسے ہدایت دے دی گئی، کفایت کی گئی اور بچا لیاگیا)۔

یعنی اس شخص تک پہنچنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اس شخص تک پہنچے کی طاقت نہیں رکھتے کہ جس نے یہ دعاء پڑھی ہو کیونکہ وہ کفایت کیا گیا، بچالیا گیا اور ہدایت پاگیا۔



[1] صحیح مسلم 2020 اور یہ الفاظ مسند احمد 14435 کے ہیں۔

[2] صحیح بخاری 6388، صحیح مسلم 1436۔

[3] صحیح مسلم 782۔

[4] مسند احمد 37844۔

[5] سلسلہ احادیث صحیحہ 3112۔

[6] صحیح بخاری 3371۔

[7] صحیح مسلم 782۔

[8] صحیح مسلم 807۔

[9] صحیح بخاری 3227۔

[10] صحیح ابی داود 5095۔
[Urdu Article] How to seek refuge on behalf of our #children? – Shaykh Ubaid bin Abdullaah Al-Jabiree

اپنے #بچوں کے لیے اللہ تعالی کی پناہ کس طرح طلب کی جائے؟

فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ الجابری حفظہ اللہ

(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: ویب سائٹ میراث الانبیاء فتوی: كيف أحصن أولادي؟ هل لابد أن أضع يدي على رأسهم حين القراءة؟ أو من بعيد؟ أو ما هو الأمر أو السنة في ذلك؟

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/08/bacho_ko_panah_kaisay_dee_jaye.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: احسن اللہ الیکم شیخنا ، سائلہ پوچھتی ہے کہ: میں اپنے بچوں کو (اللہ تعالی کی) پناہ میں کس طرح دوں؟ کیا ضروری ہے کہ میں پڑھتے وقت ان کے سر پر ہاتھ رکھوں؟ یا پھر دور سے ہی؟ یا پھر اس بارے میں کیا امر (واجب) یا سنت ہے؟

جواب: اللہ تعالی آپ کے بچوں کی آپ کے لیے اصلاح فرمائے اور آپ کے لیے انہیں اپنے رضا ومحبت پر جمع رکھے، اگر وہ بول سکتے ہیں تو انہیں تعلیم دے کر خود پڑھوائیں:

’’بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ‘‘([1])

(اللہ تعالی کے نام کے ساتھ (میں پناہ طلب کرتا ہوں )کہ جس کے نام (کی برکت )سے کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی، نہ زمین (کی طرف )سے او رنہ ہی آسمان (کی طرف )سے، اور وہ ہر چیز کا سننے والا ہے اور ہر بات کا مکمل علم رکھتا ہے) تین مرتبہ۔

’’أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ‘‘([2])

(میں اللہ تعالی کے کامل کلمات کے ساتھ پناہ طلب کرتا ہوں ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا فرمائی)۔ تین مرتبہ۔

اور انہیں ﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ﴾ اور معوذتین (سورۃ الفلق والناس) حفظ کروائیں۔ اور ان سورتوں کو صبح وشام تین بار پڑھنے کا انہيں عادی بنائیں۔ یہ جو کچھ میں نے آپ کو بتایا ہے یہ صبح وشام کے اذکار میں سے ہے۔

ہاں اگر وہ ابھی بول نہ سکتے ہوں تو آپ خود انہيں اللہ کی پناہ میں دیں یعنی آپ نیت کرلیں کہ آپ انہيں اللہ تعالی کی پناہ میں دے رہی ہیں، اور اگر نیت کے ساتھ ساتھ پناہ طلب کرتے وقت ان سب کے سروں پر ہاتھ بھی رکھ دیں تو امید ہے کہ اس میں بھی کوئی حرج نہيں، کیونکہ ایسا کرنا توجہ کو زیادہ مرکوز کرتا ہے۔ البتہ اس بارے میں مجھے کوئی اثر تو یاد نہيں آرہا لیکن امید ہے یعنی میں کہہ رہا ہوں کہ امید ہے بلاشبہ اس میں کوئی مضائقہ وحرج نہيں۔

[1] صحیح الترمذی 3388، صحیح ابی داود 5088۔

[2] مختصر مسلم 1453۔
ایک روزہ علمی دورہ #مسجد_السلف_الصالح
مانجھند ضلع جامشورو، سندھ

جس میں #طہارت کے مسائل (پانی سے متعلقہ مسائل)
کتاب "بداية العابد وكفاية الزاهد" علامہ عبدالرحمن بن عبداللہ البعلی الحنبلی رحمہ اللہ سے شیخ عبداللہ النجمی حفظہ اللہ کی شرح سے پڑھائے جائیں گے۔

13 جنوری، 2018ع ہفتہ رات بعد نماز مغرب

[طلبہ کا مختصر امتحان بھی لیا جائے گا]

یہاں ایک حقیقت کا بھی مشاہدہ کرنا چاہیے جیسا کہ بہت سے مخالفین و حزبیات سے متعلقہ لوگ عرب و عجم میں ہمارے علماء اور طلبہ کے بارے میں یہی تہمت مشہور کیے رکھتے ہيں کہ انہیں سوائے حزبیوں کے رد کے اور کوئی سروکار نہيں یہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے، اور اپنے تمام تر اوقات اس میں صرف کرتے ہيں۔

حالانکہ یہ سراسر جھوٹ و افتراء ہے آپ خود دیکھ سکتے ہيں ہماری ویب سائٹ، منشورات اور دروس جو منعقد کیے جاتے ہيں تمام تر بنیادی عقائد، عبادات و معاملات سے متعلقہ مسائل پر ہوتے ہيں۔ اور ردود وہ بھی علمی اور عدل پر مبنی علماء کرام کے ردود نسبتاً بہت کم پیش کیے جاتے ہیں۔ جبکہ اس قسم کا افتراء کرنے والے حزبیوں کا معاملہ اگر بغور دیکھا جائے تو وہ خود اس مرض میں مبتلا ہوتے ہيں۔
اور یہ موجودہ درس بھی عبادات سے پہلے بنیادی فقہی مسئلے طہارت پر ہے۔
اور جو امتحان طلبہ کا پہلے لیا گیا اور جو اب لیا جائے گا وہ اس دی گئی تعلیم کے متعلق ہوگا جسے آپ دیکھ سکتے ہيں کہ بنیادی عقیدے توحید و رسالت وغیرہ کی باتيں ہیں، ناکہ ان کی تہمت کے مطابق کہ قرآن و کلمے سے بھی پہلے یہ سلفی (ان کے بقول مدخلی) لوگ بس شخصیات اور جماعتوں کا رد سکھاتے ہيں!!
[طلبہ سے جو امتحان لیا جائے گا اس کے سوالات ساتھ منسلک ہيں دیکھے جاسکتے ہیں]

اسی طرح کی تہمت یہ بھی ہے کہ یہ دلیل کے بغیر اندھی تقلید کی دعوت دیتے ہيں!

حالانکہ آپ ہمارے اس ہونے والے درس میں دیکھیں گے کہ جو ہم نے اپنے شیخ عبداللہ النجمی حفظہ اللہ سے یہ کتاب پڑھی ہے، حالانکہ یہ فقہ حنبلی پر ہے مگر اس طرح سے طلبہ محض تہذیب و ترتیب کے لیے فقہی مذاہب کی کتب پڑھتےپڑھاتے ہيں، جن دروس میں کہيں بھی اندھی تقلید و تعصب مذہبی کی دعوت نہيں ہوتی بلکہ اس کا رد ہوتا ہے۔ اس درس میں بھی شیخ نے مصنف کی عبارات سے ہٹ کر راجح اقوال ذکر فرمائے۔ اور احادیث سے دلائل بھی ذکر فرمائے جو کتاب میں مذکور نہیں، الحمدللہ۔

مسجد السلف الصالح، جامشورو، سندھ سے متعلق اپ ڈیٹس جاننے کے لیے ٹوئیٹر پر مسجد کا اکاؤنٹ فولو کریں:
@MasjidSalafSind

کتبہ:
طارق علی بروہی
12، جنوری 2018ع