[Article] Using newly invented and vague expressions regarding #Aqeedah and the Fitnah of #Haddadees - Shaykh Rabee bin Hadee Al-Makhalee
#عقیدے سے متعلق نووارد و مبہم عبارات استعمال کرنا اور #حدادیوں کا فتنہ
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: بهجة القاري بفوائد منهجية و دروس تربوية من كتاب الاعتصام بالكتاب و السنة من صحيح البخاري، س 22 ص 102۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/12/aqeedah_mubham_ebaraat_istimal_haddadee_fitnah.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال:سائل کہتا ہے: میں نے آپ کے جوابات میں سے ایک پڑھا جس میں آپ فرماتے ہیں: ابن مانع اپنے پاس سلفیت ہونےکے باوجود اشعریت میں مبتلا ہوئے۔ پس کیا یہ وہی شیخ ابن مانع ہيں جنہوں نے عقیدہ طحاویہ کی شرح کی ہے اور ان سے شیخ البانی نے باتيں منقول کی ہيں رحمہم اللہ؟
جواب: ابن مانع رحمہ اللہ سلفی ہيں اس میں کوئی شک نہيں۔ لیکن میں ابھی یہ کہتا ہوں کہ: ان کے بارے میں بعض علماء نے کچھ ملاحظات پیش کی ہيں میرے خیال سے ابن سمحان رحمہ اللہ نے ، ان کی السفارینیہ کی تعلیق میں بعض اشیاء ذکر کی ہیں۔ اور وہ مجتہد تھے اللہ تعالی انہیں ثواب دے گا، اور ایک مجتہد کبھی غلطی میں واقع ہوجاتا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”بہت سے علماء سلف لاشعوری طور پر بدعت میں واقع ہوئے“۔
پس اشعریت پھیل گئی اور اہل سنت کے عقائد میں سرایت کر گئی، یہاں تک کہ السفارینی رحمہ اللہ خود بھی بعض چیزوں میں مبتلا ہوئے، اور ان سے متعلق ملاحظات پیش کیے گئے۔ لہذا کوئی بھی ان غلطیاں سے محفوظ نہيں لیکن ابن مانع رحمہ اللہ سلفیت میں امام تھے۔
البتہ حدادیوں کے نزدیک ہر وہ جو بدعت میں واقع ہو بدعتی بن جاتاہے۔
آج حدادی ایک بڑا فتنہ ہے، جن کا کوئی سروکار نہیں سوائے اس کے کہ فتنوں کو ہوا دی جائے اور سلفیوں کی صفوں میں پھوٹ ڈالی جائے۔ چناچہ اپنے بارے میں اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنے آپ کو اس بگڑے ہوئے مذہب سے بچا کر سکھ کا سانس لو، کہ جو محض فتنہ و فساد ہی برپا کرتا ہے۔ ایک حدادی یہ گمان کرتا ہےکہ میں ہدایت پر ہوں، حالانکہ خود وہ بھی اچھی طرح سے جانتا ہے کہ میں جھوٹا ہوں اور اس کے شیوخ بھی جھوٹے و کذاب ہيں، لیکن بس اپنے باطل میں جمے رہتے ہیں۔ اور یہ مشہور و معروف ہيں اپنی شدید عناد و ہٹ دھرمی میں۔ ان کا شیخ جھوٹ بھی بولتا ہے اور دسیوں بار خیانت کا مرتکب بھی ہوتا ہے، مگر ان خیانتوں کے باوجود وہ ان کے نزدیک امام ہی رہتا ہے۔
حالانکہ جھوٹ، خیانت بدعت سے بھی زیادہ خبیث، خسیس اور گندی حرکت ہے۔ کیونکہ بلاشبہ بدعت میں کبھی کوئی اچھی نیت کے ساتھ واقع ہوجاتا ہے تو اللہ تعالی اس سے درگزر فرماتا ہے، لیکن ایسا جھوٹا شخص تو علماء کرام، علم اور قواعد اسلام وغیرہ پر جھوٹ کا ارادہ و قصد رکھتے ہوئے ایسا کرتا ہے ۔ پس یہ بالکل ایک ظاہر مصیبت ہے اس فرقے کے ساتھ، اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ زمین کو اس سے اور اس کے اہل سے پاک فرمادے۔
بہت سے لوگ اس فرقے کو نہيں جانتے([1])۔ ہم نے اسے تقریباً سن 1414ھ سے جاننا شروع کیا۔ان کے جھوٹ اور خیانتوں کو جانا۔ ان کے جھوٹ، خیانت اور دھوکے بازی سے کوئی بھی بچا ہوا نہيں ہے۔ ان کا اوڑھنا بچھونا ہی بس قیل و قال ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے:
”اللہ کے شریر ترین بندوں میں سے وہ ہيں جو پیچیدہ مسائل کے پیچھے پڑتے ہيں، جس کی وجہ سے اللہ کے بندوں کو پریشانی میں مبتلا کرتے ہيں“([2])۔
آجکل وہ ”جنس العمل“ کی اصطلاح کے ساتھ دندناتے پھرتے ہيں۔ آخر یہ جنس العمل ہے کیا؟ سلف کبھی بھی اسے نہيں جانتے تھے۔ اور میں نے یہ کہا کہ اللہ تعالی نے کلمۂ جنس سے قرآن وسنت کو پاک رکھا ہے، آپ کبھی بھی اسے ان میں نہيں پائیں گے، بلکہ یہاں تک کہ یہ لغت میں بھی زبردستی داخل کیا گیا ہے۔لیکن یہ لوگ اس کلمے سے چمٹے ہوئے ہيں، لہذا یہ ان کی گمراہی پر دلالت کرتا ہے۔ اس کلمے سے اس لیے چمٹے ہوئے ہيں کیونکہ وہ اہل سنت کو گمراہ ثابت کرکے ان کو بدعتی قرار دینا چاہتے ہيں۔ میں نے ان سے کہا: اے جماعت! یہ کلام تو مبہم ہے اور تشویش کی طرف لے جاتا ہے، اور یہ کلام اہل بدعت نے محض اہل سنت کے خلاف شور وشغب ڈالنے کے لیے اختراع کیا ہے۔اسے چھوڑ دو جبکہ آپ کے پاس ایمان کے بارے میں سلف کی پیش کردہ تعریف موجود ہے کہ بلاشبہ ایمان:
”قول، اعتقاد اور عمل ہے، جو اطاعت فرمانبرداری سے بڑھتا ہے اور معصیت و نافرمانی سے گھٹتا ہے“۔
#عقیدے سے متعلق نووارد و مبہم عبارات استعمال کرنا اور #حدادیوں کا فتنہ
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: بهجة القاري بفوائد منهجية و دروس تربوية من كتاب الاعتصام بالكتاب و السنة من صحيح البخاري، س 22 ص 102۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/12/aqeedah_mubham_ebaraat_istimal_haddadee_fitnah.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال:سائل کہتا ہے: میں نے آپ کے جوابات میں سے ایک پڑھا جس میں آپ فرماتے ہیں: ابن مانع اپنے پاس سلفیت ہونےکے باوجود اشعریت میں مبتلا ہوئے۔ پس کیا یہ وہی شیخ ابن مانع ہيں جنہوں نے عقیدہ طحاویہ کی شرح کی ہے اور ان سے شیخ البانی نے باتيں منقول کی ہيں رحمہم اللہ؟
جواب: ابن مانع رحمہ اللہ سلفی ہيں اس میں کوئی شک نہيں۔ لیکن میں ابھی یہ کہتا ہوں کہ: ان کے بارے میں بعض علماء نے کچھ ملاحظات پیش کی ہيں میرے خیال سے ابن سمحان رحمہ اللہ نے ، ان کی السفارینیہ کی تعلیق میں بعض اشیاء ذکر کی ہیں۔ اور وہ مجتہد تھے اللہ تعالی انہیں ثواب دے گا، اور ایک مجتہد کبھی غلطی میں واقع ہوجاتا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”بہت سے علماء سلف لاشعوری طور پر بدعت میں واقع ہوئے“۔
پس اشعریت پھیل گئی اور اہل سنت کے عقائد میں سرایت کر گئی، یہاں تک کہ السفارینی رحمہ اللہ خود بھی بعض چیزوں میں مبتلا ہوئے، اور ان سے متعلق ملاحظات پیش کیے گئے۔ لہذا کوئی بھی ان غلطیاں سے محفوظ نہيں لیکن ابن مانع رحمہ اللہ سلفیت میں امام تھے۔
البتہ حدادیوں کے نزدیک ہر وہ جو بدعت میں واقع ہو بدعتی بن جاتاہے۔
آج حدادی ایک بڑا فتنہ ہے، جن کا کوئی سروکار نہیں سوائے اس کے کہ فتنوں کو ہوا دی جائے اور سلفیوں کی صفوں میں پھوٹ ڈالی جائے۔ چناچہ اپنے بارے میں اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنے آپ کو اس بگڑے ہوئے مذہب سے بچا کر سکھ کا سانس لو، کہ جو محض فتنہ و فساد ہی برپا کرتا ہے۔ ایک حدادی یہ گمان کرتا ہےکہ میں ہدایت پر ہوں، حالانکہ خود وہ بھی اچھی طرح سے جانتا ہے کہ میں جھوٹا ہوں اور اس کے شیوخ بھی جھوٹے و کذاب ہيں، لیکن بس اپنے باطل میں جمے رہتے ہیں۔ اور یہ مشہور و معروف ہيں اپنی شدید عناد و ہٹ دھرمی میں۔ ان کا شیخ جھوٹ بھی بولتا ہے اور دسیوں بار خیانت کا مرتکب بھی ہوتا ہے، مگر ان خیانتوں کے باوجود وہ ان کے نزدیک امام ہی رہتا ہے۔
حالانکہ جھوٹ، خیانت بدعت سے بھی زیادہ خبیث، خسیس اور گندی حرکت ہے۔ کیونکہ بلاشبہ بدعت میں کبھی کوئی اچھی نیت کے ساتھ واقع ہوجاتا ہے تو اللہ تعالی اس سے درگزر فرماتا ہے، لیکن ایسا جھوٹا شخص تو علماء کرام، علم اور قواعد اسلام وغیرہ پر جھوٹ کا ارادہ و قصد رکھتے ہوئے ایسا کرتا ہے ۔ پس یہ بالکل ایک ظاہر مصیبت ہے اس فرقے کے ساتھ، اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ زمین کو اس سے اور اس کے اہل سے پاک فرمادے۔
بہت سے لوگ اس فرقے کو نہيں جانتے([1])۔ ہم نے اسے تقریباً سن 1414ھ سے جاننا شروع کیا۔ان کے جھوٹ اور خیانتوں کو جانا۔ ان کے جھوٹ، خیانت اور دھوکے بازی سے کوئی بھی بچا ہوا نہيں ہے۔ ان کا اوڑھنا بچھونا ہی بس قیل و قال ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے:
”اللہ کے شریر ترین بندوں میں سے وہ ہيں جو پیچیدہ مسائل کے پیچھے پڑتے ہيں، جس کی وجہ سے اللہ کے بندوں کو پریشانی میں مبتلا کرتے ہيں“([2])۔
آجکل وہ ”جنس العمل“ کی اصطلاح کے ساتھ دندناتے پھرتے ہيں۔ آخر یہ جنس العمل ہے کیا؟ سلف کبھی بھی اسے نہيں جانتے تھے۔ اور میں نے یہ کہا کہ اللہ تعالی نے کلمۂ جنس سے قرآن وسنت کو پاک رکھا ہے، آپ کبھی بھی اسے ان میں نہيں پائیں گے، بلکہ یہاں تک کہ یہ لغت میں بھی زبردستی داخل کیا گیا ہے۔لیکن یہ لوگ اس کلمے سے چمٹے ہوئے ہيں، لہذا یہ ان کی گمراہی پر دلالت کرتا ہے۔ اس کلمے سے اس لیے چمٹے ہوئے ہيں کیونکہ وہ اہل سنت کو گمراہ ثابت کرکے ان کو بدعتی قرار دینا چاہتے ہيں۔ میں نے ان سے کہا: اے جماعت! یہ کلام تو مبہم ہے اور تشویش کی طرف لے جاتا ہے، اور یہ کلام اہل بدعت نے محض اہل سنت کے خلاف شور وشغب ڈالنے کے لیے اختراع کیا ہے۔اسے چھوڑ دو جبکہ آپ کے پاس ایمان کے بارے میں سلف کی پیش کردہ تعریف موجود ہے کہ بلاشبہ ایمان:
”قول، اعتقاد اور عمل ہے، جو اطاعت فرمانبرداری سے بڑھتا ہے اور معصیت و نافرمانی سے گھٹتا ہے“۔
آپ کے لیے یہی کافی ہے اور جنس العمل کے کلمے کی کوئی حاجت نہيں ہے۔ لیکن وہ اس سے چمٹے رہنے اور نہ چھوڑنے پر بضد تھے۔ کیونکہ انہیں اس میں وہ شر، فتنہ اور آزمائش میسر آتی ہے۔ حالانکہ یہ لوگ بالکل جھوٹے ہيں کہ ہماری طرف وہ باتيں منسوب کرتے ہيں جو ہم نے کبھی کہی نہيں۔ جیسا کہ اس مسئلے میں کہ (ایمان کے لیے) عمل شرط کمال ہے یا شرط صحت ہے۔ میں یہ بارہا کہہ چکا ہو ں اور ابھی آپ کے سامنے اس مجمع میں بھی کہتا ہوں کہ :
خالد العنبری نے ایک ضخیم کتاب لکھی تھی تکفیریوں کے رد پر جس کا نام تھا ”حكم التكفير“ ،تو جب میں ریاض گیا، پھر ریاض سے الخرج، ہمارے ساتھ سفر میں ساتھیوں کا ایک مجموعہ تھا، میرا خیال ہے اس میں باسم الجوابرہ اور عبدالرحمن الفریوائی اور دیگر لوگ موجود تھے۔ تو اس (العنبری) نے کہا کہ یا شیخ ہم سفر کے دوران راستے میں اسے آپ پر پڑھتے ہیں۔پس اس نے پڑھنا شروع کیا۔ پس ان باتوں میں سے جو اس نے پڑھی یہ بھی تھی کہ خوارج کے نزدیک عمل ایمان کی صحت کی شرط ہے جبکہ اہل سنت کے نزدیک اس کے کمال کی شرط ہے۔ تو میں نے اس سے کہا: اسے چھوڑ دو۔ کیونکہ یہ اہل سنت کے کلام میں سے نہيں، اسے اپنی کتاب میں سے حذف کردو، اور تمہیں چاہیے کہ اسی چیز پر اکتفاء کرو جو سلف نے ایمان کے تعلق سے کہی ہے کہ بے شک ایمان قو ل و عمل کا نام ہے جو اطاعت سے بڑھتا ہے اور معصیت سے گھٹتا ہے۔ تو اس نے کہا حاضر، میں ابھی حذف کردوں گا اسے، نہ مجھ سے کوئی جدال کیا نہ کچھ۔ لیکن کچھ دنوں بعد مجھے بات پہنچی کہ اس نے اس تعلق سے کویت میں کوئی مناظرہ کیا ہے۔ اور مجھے وہ کیسٹ موصول ہوئی جس میں شیخ البانی : سے مناظرہ کیا ہے اور اس میں شرط کمال اور شرط صحت کا ذکر کیا ہے، واللہ اعلم۔ حدادیوں نے یا کسی اور نے اسے نقل کیا اور اس کی تفریغ کرکے مجھے ارسال کی۔
پھر جب وہ میرے پاس آیا اور میں اس کے ساتھ بیٹھا تو میں نے کہا: اے بھائی خالد العنبری کیا میں نے تمہیں اس کلام سے منع نہیں کیا تھا شرط کمال و شرط صحت؟ تو اس نے کہا: میں نے تو اسے حذف کردیا تھا جیسا کہ میں نے آپ کے سامنے ذکر کیا۔ تو میں نے اس سے کہا: پھر کیوں جب تم کویت اور اردن گئے تو اس بارے میں جدال کیا؟
پھر میں مسلسل اس چیز کا انکار کرتا آیا ہمارے آج کے اس دن تک۔ کیونکہ یہ فتنے کی طرف لے جاتا ہے اور اس سے اہل فتن خوش ہوتے ہيں اور چمٹے رہتے ہيں، اور اس کو لے کر ان لوگوں پر تہمت لگاتے ہيں جو اس سے بری ہيں بلکہ (جن پر تہمت لگاتے ہيں وہ تو خود ) اس کے خلاف نبردآزما ہيں۔ لہذا وہ کہتے ہیں: ربیع کہتا ہے کہ عمل شرط کمال ہے اور یہ مرجئہ کے مذہب میں سے ہے اور اس کے علاوہ دیگر کلام۔ حالانکہ میں نے ہی تو سب سے پہلے اس کے خلاف جنگ کی تھی تو پھر کس طرح تم اسے میری طرف منسوب کرتے ہیں؟!! وجہ یہی ہے کہ جھوٹ میں ان سے کوئی مقابلہ نہيں کرسکتا۔
اے بھائی! اگر کوئی ایسی بات ہو جس سے مسلمانوں کو نقصان ہوتا ہو تو اسے چھوڑ دو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بسا اوقات ایسی چیزیں بھی چھوڑ دیا کرتے تھے جو خیرو فضیلت میں اس مرتبے پر ہوا کرتی تھیں کہ جسے اللہ کے سوا کوئی نہيں جانتا مگر چونکہ اس سے مسلمانوں کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہيں چھوڑ دیتے۔ تو پھر کیسے تم اسے نہيں چھوڑتے حالانکہ اس میں شر ہے؟
اور صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےفرمایا:
خالد العنبری نے ایک ضخیم کتاب لکھی تھی تکفیریوں کے رد پر جس کا نام تھا ”حكم التكفير“ ،تو جب میں ریاض گیا، پھر ریاض سے الخرج، ہمارے ساتھ سفر میں ساتھیوں کا ایک مجموعہ تھا، میرا خیال ہے اس میں باسم الجوابرہ اور عبدالرحمن الفریوائی اور دیگر لوگ موجود تھے۔ تو اس (العنبری) نے کہا کہ یا شیخ ہم سفر کے دوران راستے میں اسے آپ پر پڑھتے ہیں۔پس اس نے پڑھنا شروع کیا۔ پس ان باتوں میں سے جو اس نے پڑھی یہ بھی تھی کہ خوارج کے نزدیک عمل ایمان کی صحت کی شرط ہے جبکہ اہل سنت کے نزدیک اس کے کمال کی شرط ہے۔ تو میں نے اس سے کہا: اسے چھوڑ دو۔ کیونکہ یہ اہل سنت کے کلام میں سے نہيں، اسے اپنی کتاب میں سے حذف کردو، اور تمہیں چاہیے کہ اسی چیز پر اکتفاء کرو جو سلف نے ایمان کے تعلق سے کہی ہے کہ بے شک ایمان قو ل و عمل کا نام ہے جو اطاعت سے بڑھتا ہے اور معصیت سے گھٹتا ہے۔ تو اس نے کہا حاضر، میں ابھی حذف کردوں گا اسے، نہ مجھ سے کوئی جدال کیا نہ کچھ۔ لیکن کچھ دنوں بعد مجھے بات پہنچی کہ اس نے اس تعلق سے کویت میں کوئی مناظرہ کیا ہے۔ اور مجھے وہ کیسٹ موصول ہوئی جس میں شیخ البانی : سے مناظرہ کیا ہے اور اس میں شرط کمال اور شرط صحت کا ذکر کیا ہے، واللہ اعلم۔ حدادیوں نے یا کسی اور نے اسے نقل کیا اور اس کی تفریغ کرکے مجھے ارسال کی۔
پھر جب وہ میرے پاس آیا اور میں اس کے ساتھ بیٹھا تو میں نے کہا: اے بھائی خالد العنبری کیا میں نے تمہیں اس کلام سے منع نہیں کیا تھا شرط کمال و شرط صحت؟ تو اس نے کہا: میں نے تو اسے حذف کردیا تھا جیسا کہ میں نے آپ کے سامنے ذکر کیا۔ تو میں نے اس سے کہا: پھر کیوں جب تم کویت اور اردن گئے تو اس بارے میں جدال کیا؟
پھر میں مسلسل اس چیز کا انکار کرتا آیا ہمارے آج کے اس دن تک۔ کیونکہ یہ فتنے کی طرف لے جاتا ہے اور اس سے اہل فتن خوش ہوتے ہيں اور چمٹے رہتے ہيں، اور اس کو لے کر ان لوگوں پر تہمت لگاتے ہيں جو اس سے بری ہيں بلکہ (جن پر تہمت لگاتے ہيں وہ تو خود ) اس کے خلاف نبردآزما ہيں۔ لہذا وہ کہتے ہیں: ربیع کہتا ہے کہ عمل شرط کمال ہے اور یہ مرجئہ کے مذہب میں سے ہے اور اس کے علاوہ دیگر کلام۔ حالانکہ میں نے ہی تو سب سے پہلے اس کے خلاف جنگ کی تھی تو پھر کس طرح تم اسے میری طرف منسوب کرتے ہیں؟!! وجہ یہی ہے کہ جھوٹ میں ان سے کوئی مقابلہ نہيں کرسکتا۔
اے بھائی! اگر کوئی ایسی بات ہو جس سے مسلمانوں کو نقصان ہوتا ہو تو اسے چھوڑ دو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بسا اوقات ایسی چیزیں بھی چھوڑ دیا کرتے تھے جو خیرو فضیلت میں اس مرتبے پر ہوا کرتی تھیں کہ جسے اللہ کے سوا کوئی نہيں جانتا مگر چونکہ اس سے مسلمانوں کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہيں چھوڑ دیتے۔ تو پھر کیسے تم اسے نہيں چھوڑتے حالانکہ اس میں شر ہے؟
اور صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےفرمایا:
” کُنَّا قُعُودًا حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَنَا أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ فِي نَفَرٍ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْنِ أَظْهُرِنَا فَأَبْطَأَ عَلَيْنَا وَخَشِينَا أَنْ يُقْتَطَعَ دُونَنَا وَفَزِعْنَا فَقُمْنَا، فَکُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ فَخَرَجْتُ أَبْتَغِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی أَتَيْتُ حَائِطًا لِلْأَنْصَارِ لِبَنِي النَّجَّارِ فَدُرْتُ بِهِ هَلْ أَجِدُ لَهُ بَابًا فَلَمْ أَجِدْ فَإِذَا رَبِيعٌ يَدْخُلُ فِي جَوْفِ حَائِطٍ مِنْ بِئْرٍ خَارِجَةٍ - وَالرَّبِيعُ الْجَدْوَلُ- فَاحْتَفَزْتُ کَمَا يَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ فَدَخَلْتُ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ؟ فَقُلْتُ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَالَ مَا شَأْنُکَ؟ قُلْتُ: کُنْتَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا فَقُمْتَ فَأَبْطَأْتَ عَلَيْنَا فَخَشِينَا أَنْ تُقْتَطَعَ دُونَنَا فَفَزِعْنَا فَکُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ فَأَتَيْتُ هَذَا الْحَائِطَ فَاحْتَفَزْتُ کَمَا يَحْتَفِزُ الثَّعْلَبُ، وَهَؤُلَاءِ النَّاسُ وَرَائِی. فَقَالَ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ وَأَعْطَانِي نَعْلَيْهِ قَالَ اذْهَبْ بِنَعْلَيَّ هَاتَيْنِ فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطِ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، فَکَانَ أَوَّلَ مَنْ لَقِيتُ عُمَرُ فَقَالَ: مَا هَاتَانِ النَّعْلَانِ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟ فَقُلْتُ: هَاتَانِ نَعْلَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَنِي بِهِمَا مَنْ لَقِيتُ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ، فَضَرَبَ عُمَرُ بِيَدِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ فَخَرَرْتُ لِاسْتِي، فَقَالَ: ارْجِعْ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ. فَرَجَعْتُ إِلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَجْهَشْتُ بُکَاءً وَرَکِبَنِي عُمَرُ فَإِذَا هُوَ عَلَی أَثَرِي، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَکَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟ قُلْتُ: لَقِيتُ عُمَرَ فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي بَعَثْتَنِي بِهِ فَضَرَبَ بَيْنَ ثَدْيَيَّ ضَرْبَةً خَرَرْتُ لِاسْتِي قَالَ ارْجِعْ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ: يَا عُمَرُ مَا حَمَلَکَ عَلَی مَا فَعَلْتَ؟ قَال:َ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي أَبَعَثْتَ أَبَا هُرَيْرَةَ بِنَعْلَيْکَ مَنْ لَقِيَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ بَشَّرَهُ بِالْجَنَّة؟ ِ قَالَ: نَعَمْ قَالَ فَلَا تَفْعَلْ فَإِنِّي أَخْشَی أَنْ يَتَّکِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُونَ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَخَلِّهِمْ “([3])
پس اے بھائیو! آپ لوگ ایسے الفاظ، کلمات، افعال و اقوال جن کی کتاب و سنت سے کوئی سند نہيں چھوڑ دو۔ میں کئی ایک بار بھائیوں کو کہہ چکا ہوں: اے بھائی! اگر تمہارے پاس کوئی رائے ہے جسے تم مستحسن و اچھا سمجھتے ہو اور علماء سے بھی پوچھا انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے، لیکن اگر وہ ضرر رساں ہے اور تفرقے کی طرف لے جاتی ہے تو اسے چھوڑ دو۔ البتہ اگر تمہارے پاس کوئی نص ہے تو اس سے تمسک اختیار کیے رکھو اور اس سے تمسک کی دعوت دیتے رہو۔
اے بھائیو! تفرقے کے اسباب سے بچو، باہمی اخوت و بھائی چارہ اپناؤ، ایک دوسرے سے ہمدردی ، رحمت و شفقت کرو اور اللہ کے لیے محبت کرو۔ ان مطلوبہ باتوں کو ہرگز بھی فراموش نہ کرو۔ کیونکہ شیطان تمہارے درمیان یہ تشویش و فتنے و آزماشیں داخل کرتا رہتا ہے تاکہ تم سے یہ خیر چھن جائے ضائع ہوجائے، یعنی محبت و بھائی چارے کی نعمت۔ یہ ایک ایسی بات ہے کہ جس پر ایسی ایسی جزاء ملتی ہے کہ جسے اللہ کے سوا کوئی نہيں جانتا، جن میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ کے لیے آپس میں محبت کرنے والوں کو اللہ تعالی اپنا سایہ دے گا اس دن جس دن اس کے (عرش کے) سایے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ پس شیطان چاہتا ہے کہ آپ کو اس خیر سے محروم کردے۔ اگر آپ کا کوئی بھائی غلطی کرتا ہے تو اسے نرمی سے نصیحت کرو اور اس نرمی کے ساتھ حجت و برہان پیش کرو، اللہ تعالی اسے اس کے ذریعے نفع پہنچائے گا۔ لیکن حال یہ ہو کہ تم اس کی گھات لگائے بیٹھے ہو کہ کب وہ غلطی کرے اور میں یہاں وہاں سے دنیا اس پر جمع کردوں گے دیکھو فلاں نے یہ یہ کیا ہے۔ یہ شیطانی طریقے ہیں سلفی طریقے نہیں۔ ان چیزوں کو چھوڑ دو، اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو توفیق عطاء فرمائے۔ آپ کو چاہیے عمل کرو نہ کہ کثرت سے کلام، کیونکہ کثرت کلام شرعی طور پر مطلوب نہيں۔ جو مطلوب ہے وہ بس ایک کلمہ بھی کافی ہے جس سے لوگوں کو نفع ہو، اور ایسا ایک کلمہ آپ کے لیے کئی جلدوں پر مبنی بس کلام ہی کلام سے بہتر ہے۔
[1] اس کا مختصر تعارف ہماری ویب سائٹ پر موجود ہے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] جامع العلوم والحكم، ص 174.
[3] أخرجه مسلم، كتاب الإيمان، باب: من لقي الله بالإيمان وهو غير شاك فيه دخل الجنة وحرم على النار 156.
[4] متفق عليه: أخرجه البخاري، كتاب الجهاد والسير، باب: اسم الفرس والحمار 2701، ومسلم، كتاب الإيمان، باب: من لقي الله بالإيمان وهو غير شاك فيه دخل الجنة وحرم على النار 153.
اے بھائیو! تفرقے کے اسباب سے بچو، باہمی اخوت و بھائی چارہ اپناؤ، ایک دوسرے سے ہمدردی ، رحمت و شفقت کرو اور اللہ کے لیے محبت کرو۔ ان مطلوبہ باتوں کو ہرگز بھی فراموش نہ کرو۔ کیونکہ شیطان تمہارے درمیان یہ تشویش و فتنے و آزماشیں داخل کرتا رہتا ہے تاکہ تم سے یہ خیر چھن جائے ضائع ہوجائے، یعنی محبت و بھائی چارے کی نعمت۔ یہ ایک ایسی بات ہے کہ جس پر ایسی ایسی جزاء ملتی ہے کہ جسے اللہ کے سوا کوئی نہيں جانتا، جن میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ کے لیے آپس میں محبت کرنے والوں کو اللہ تعالی اپنا سایہ دے گا اس دن جس دن اس کے (عرش کے) سایے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ پس شیطان چاہتا ہے کہ آپ کو اس خیر سے محروم کردے۔ اگر آپ کا کوئی بھائی غلطی کرتا ہے تو اسے نرمی سے نصیحت کرو اور اس نرمی کے ساتھ حجت و برہان پیش کرو، اللہ تعالی اسے اس کے ذریعے نفع پہنچائے گا۔ لیکن حال یہ ہو کہ تم اس کی گھات لگائے بیٹھے ہو کہ کب وہ غلطی کرے اور میں یہاں وہاں سے دنیا اس پر جمع کردوں گے دیکھو فلاں نے یہ یہ کیا ہے۔ یہ شیطانی طریقے ہیں سلفی طریقے نہیں۔ ان چیزوں کو چھوڑ دو، اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو توفیق عطاء فرمائے۔ آپ کو چاہیے عمل کرو نہ کہ کثرت سے کلام، کیونکہ کثرت کلام شرعی طور پر مطلوب نہيں۔ جو مطلوب ہے وہ بس ایک کلمہ بھی کافی ہے جس سے لوگوں کو نفع ہو، اور ایسا ایک کلمہ آپ کے لیے کئی جلدوں پر مبنی بس کلام ہی کلام سے بہتر ہے۔
[1] اس کا مختصر تعارف ہماری ویب سائٹ پر موجود ہے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] جامع العلوم والحكم، ص 174.
[3] أخرجه مسلم، كتاب الإيمان، باب: من لقي الله بالإيمان وهو غير شاك فيه دخل الجنة وحرم على النار 156.
[4] متفق عليه: أخرجه البخاري، كتاب الجهاد والسير، باب: اسم الفرس والحمار 2701، ومسلم، كتاب الإيمان، باب: من لقي الله بالإيمان وهو غير شاك فيه دخل الجنة وحرم على النار 153.
(ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے ہمارے ساتھ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے، اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے سامنے سے اٹھ کھڑے ہوئے اور دیر تک تشریف نہ لائے ،ہم ڈر گئے کہ کہیں آپ کو کوئی تکلیف نہ پہنچی ہو، اس لئے ہم گھبرا کر کھڑے ہوگئے سب سے پہلے مجھے گھبراہٹ ہوئی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں نکلا یہاں تک کہ بنی نجار کے باغ تک پہنچ گیا۔ میں باغ کے چاروں طرف بہت گھوما مگر اندر جانے کا کوئی دروازہ نہ ملا۔ اتفاقاً ایک نالہ دکھائی دیا جو بیرونی کنوئیں سے باغ کے اندر جارہا تھا، میں اسی نالہ میں ایسے سمٹ کر اندر داخل ہوا جیسے لومڑی سمٹ کر داخل ہوتی ہے، اور آپ کی خدمت میں پہنچ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ابوہریرہ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں اے اللہ کے رسول ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیا بات ہے؟ میں نے عرض کی: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے سامنے تشریف فرما تھے اور اچانک اٹھ کر تشریف لے گئے اور دیر ہوگئی تو ہمیں ڈر ہوا کہ کہیں کوئی حادثہ نہ پیش آگیا ہو اس لئے ہم گھبرا گئے،اور سب سے پہلے مجھے ہی گھبراہٹ ہوئی، پس میں (تلاش کرتے کرتے) اس باغ تک پہنچ گیا اور لومڑی کی طرح سمٹ کر (نالہ کے راستہ سے) اندر آگیا اور باقی لوگ بھی میرے پیچھے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے نعلین (جوتیاں) مجھے دے کر فرمایا: ابوہریرہ ! میری یہ دونوں جوتیاں لے جاؤ اور جو شخص باغ کے باہر دل کے یقین کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہتا ہوا ملے اس کو جنت کی بشارت دے دو ۔ لہذا سب سے پہلےجن سے میری ملاقات ہوئی وہ عمر رضی اللہ عنہ تھے۔ انہوں نے کہا اے ابوہریرہ ! یہ جوتیاں کیسی ہیں ؟ میں نے کہا یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جوتیاں ہیں،اور آپ نے مجھے یہ جوتیاں دے کر بھیجا ہے کہ جو مجھے دل کے یقین کے ساتھ اس بات کی گواہی دیتا ہوا ملے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبودحقیقی نہیں، اس کو جنت کی بشارت دے دوں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر ہاتھ سے میرے سینےکے درمیان ایک ضرب رسید کی جس کی وجہ سے میں کولہوں کے بل گرپڑا۔ کہنے لگے اے ابوہریرہ! لوٹ جا۔ میں لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اور میں رو پڑنے کے قریب تھا۔ میرے پیچھے عمر رضی اللہ عنہ بھی آپہنچے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابوہریرہ ! کیا بات ہے ؟ میں نے عرض کیا میری ملاقات عمر رضی اللہ عنہ سے ہوئی اور جو پیغام آپ نے مجھے دے کر بھیجا تھا میں نے ان کو پہنچادیا۔ پس انہوں نے میرے سینے کے درمیان ایسی ضرب رسید کی جس کی وجہ سے میں کولہوں کے بل گرپڑا اور کہنے لگے: لوٹ جا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عمرتم نے ایسا کیوں کیا ؟ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ! کیا آپ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو جوتیاں دے کر حکم دیا تھا کہ جو شخص دل کے یقین کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہے اس کو جنت کی بشارت دے دینا۔ فرمایا ہاں ! عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا آپ ایسا نہ کریں کیونکہ مجھے خوف ہے کہ لوگ (عمل چھوڑ کر محض) اسی فرمان پر تکیہ کر بیٹھیں گے، ان کو چھوڑ دیں کہ عمل کرتے رہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : (اچھا تو) رہنے دو )۔
جنت کی بشارت کو صرف اس لیے چھوڑ دیا تاکہ لوگ محض اس پر تکیہ کرنے کے بجائے عمل کریں۔
اسی طرح سے حدیث معاذ رضی اللہ عنہ ہے (جس میں ہے کہ جو شرک نہ کرے اسے عذاب سے نجات کی بشارت ہے) تو صحابی نے عرض کی:
کیا میں لوگوں کو بشارت و خوشخبری نہ دے دوں؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
”لا تُبَشِّرْهُمْ فَيَتَّكِلُوا“([4])
(انہيں بشارت نہ دو کہ اسی پر بھروسہ کرکے بیٹھ جائيں گے (اور عمل ترک کردیں گے))۔
چناچہ بڑے عظیم امور، فضائل و امتیازات کو چھوڑ دیا گیا جب ان کے نتیجے میں ایک ضرر کا خدشہ ہوا جو کہ تکیہ و بھروسہ کرکے بیٹھ جانا تھا۔کہ ان میں سے کوئی بس کہہ دے کہ أشهد أن لا إله إلا الله واشهد أن محمدا رسول الله پھر کہے کہ یہی میرے لیے کافی ہے لہذا میں عمل نہيں کروں گا۔ پس اگر وہ سب کچھ چھوڑ دے اور کوتاہی کرے تو اسےیہ نقصان و ضرر پہنچائے گا۔
ہم نے ان سے کہا، انہيں تنبیہ کی اور انہیں یہ دلائل وغیرہ بھی دیے کہ وہ اس خبیث لفظ کو چھوڑ دیں کہ جو فتنے کی طرف لے جاتا ہے۔ اور ہم نے کہا کہ ہمارے پاس قرآن و سنت و سلف کے الفاظ موجود ہيں، لہذا اس لفظ کو چھوڑ دو کیونکہ اس میں شر و فتنہ ہے۔ لیکن وہ باز نہ آئے، کیونکہ وہ ایک ایسا فرقہ ہے جو فتنے کے لیے ہی وجود میں آیا ہے، اللہ ہی جانے اس کے پیچھے کون ہے؟
جنت کی بشارت کو صرف اس لیے چھوڑ دیا تاکہ لوگ محض اس پر تکیہ کرنے کے بجائے عمل کریں۔
اسی طرح سے حدیث معاذ رضی اللہ عنہ ہے (جس میں ہے کہ جو شرک نہ کرے اسے عذاب سے نجات کی بشارت ہے) تو صحابی نے عرض کی:
کیا میں لوگوں کو بشارت و خوشخبری نہ دے دوں؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
”لا تُبَشِّرْهُمْ فَيَتَّكِلُوا“([4])
(انہيں بشارت نہ دو کہ اسی پر بھروسہ کرکے بیٹھ جائيں گے (اور عمل ترک کردیں گے))۔
چناچہ بڑے عظیم امور، فضائل و امتیازات کو چھوڑ دیا گیا جب ان کے نتیجے میں ایک ضرر کا خدشہ ہوا جو کہ تکیہ و بھروسہ کرکے بیٹھ جانا تھا۔کہ ان میں سے کوئی بس کہہ دے کہ أشهد أن لا إله إلا الله واشهد أن محمدا رسول الله پھر کہے کہ یہی میرے لیے کافی ہے لہذا میں عمل نہيں کروں گا۔ پس اگر وہ سب کچھ چھوڑ دے اور کوتاہی کرے تو اسےیہ نقصان و ضرر پہنچائے گا۔
ہم نے ان سے کہا، انہيں تنبیہ کی اور انہیں یہ دلائل وغیرہ بھی دیے کہ وہ اس خبیث لفظ کو چھوڑ دیں کہ جو فتنے کی طرف لے جاتا ہے۔ اور ہم نے کہا کہ ہمارے پاس قرآن و سنت و سلف کے الفاظ موجود ہيں، لہذا اس لفظ کو چھوڑ دو کیونکہ اس میں شر و فتنہ ہے۔ لیکن وہ باز نہ آئے، کیونکہ وہ ایک ایسا فرقہ ہے جو فتنے کے لیے ہی وجود میں آیا ہے، اللہ ہی جانے اس کے پیچھے کون ہے؟
[Book] Some characteristics of Neo-#Khawarij and the reality of #ISIS - Various 'Ulamaa
موجودہ دور کے #خوارج کی بعض نمایاں صفات اور فرقہ #داعش کی حقیقت
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تعارف
1- حکمرانوں پر خروج اور معروف میں ان کی سمع وطاعت نہ کرنے کو بطور دین اپنانا
2- کبیرہ گناہ کے مرتکب کی تکفیر کرنا
3- لوگوں کے سامنے حکمرانوں کے عیب بیان کرنا، ان پر طعن کرکے ان کے ضد میں اپنی مخالفت ظاہر کرنا جس کے ذریعے سے لوگوں کو ان کے خلاف ابھارنا اور ان کے سینوں کو نفرت آمیز جذبات سے بھرنا
4- جو کوئی اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت کے مطابق حکم نہیں کرتا کی مطلقاً تکفیر کرنا
5- حکمران کی تکفیر کرنا اس دلیل کے ساتھ کہ انہوں نے جہاد کو معطل کردیا ہے
حکومت و ریاست کی افواج کے علاوہ اپنی جہادی تنظیمیں بنا کر جہاد کرنا
6- دھماکے وخود کش حملے کرنا
7- پولیس، رینجرز وفوج کے قتل کو جائز قرار دینا
8- ان کے اقوال میں سے ہے کہ امام (شرعی حاکم) جس کا احادیث میں ذکر ہے وہ وہی ہے جس پر تمام مسلمان مشرق تا مغرب مجتمع ہوں یعنی پوری مسلم دنیا کا ایک خلیفہ ہو
9- معاہد ومستأمن (غیر ملکی سفیر وسیاح وغیرہ) کے خون کی حرمت کا کوئی پاس نہ کرنا
کیا اس زمانے میں خوارج پائے جاتے ہیں؟!
خوارج سے متعلق چند صحیح احادیث
داعش، اخوان المسلمین، القاعدہ اور دیگر خلافتی، تکفیری و خارجی جماعتو ں کی مختصر تاریخ
ان جماعتوں و قائدین کی مشترکہ حالت و نظریات
سلفی عقیدے و منہج پر چلنے والے قدیم و موجودہ علماء کتاب وسنت پر فہم سلف کے مطابق مجتمع رہتے ہيں
مسلم حکمرانوں کی تکفیر دہشتگردی کے اہم اسباب میں سے ہے
تکفیر ایک شرعی حکم ہے
تکفیر کے لئے واضح دلیل درکار ہے
ناجائز تکفیر کا وبال
موانعِ تکفیر کے امکانات
تکفیر میں جلد بازی کے پرخطر نتائج
تکفیر حکام کی شرائط
ناجائز تکفیر اللہ تعالی پر قول بلاعلم کے مترادف ہے
ناجائز تکفیر کے نقصانات
مسلمانوں کے خون بہانے کا وبال
کافر کو ناجائز قتل کرنے کا وبال
اسلام موجودہ دہشتگردی سے بری ہے
ایسے تخریبکارانہ افکار رکھنے والوں کی صحبت اختیار کرنا بھی منع ہے
اخوت اسلامی کے صحیح طریقے کو اپنایا جائے
خوارج کا غلو اور فی زمانہ اس کے مظاہر
فرقہ داعش کا مختصر تعارف
داعش سے متعلق بعض علماء کرام کے اقوال
شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ حفظہ اللہ
شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
شیخ عبدالمحسن بن حمد العباد حفظہ اللہ
شیخ صالح بن سعد السحیمی حفظہ اللہ
شیخ محمد بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
شیخ سلیمان الرحیلی حفظہ اللہ
کیا داعش جیسی جماعتیں سلفی ہیں؟!
صرف نام سے دھوکہ نہ کھائیں!
کیا بعض سلف کے حکام کے خلاف خروج کو دلیل بنایا جاسکتا ہے؟
کوئی سچا مومن مساجد میں یا دیگر امان دیے گئے مذاہب کی عبادت گاہوں میں دھماکے نہیں کرسکتا
آگ سے جاندار کو جلانا حرام ہے اور داعش کا کوئی دین نہیں
پاکستان میں طلبہ اور اساتذہ کا سفاکانہ قتل عظیم جرم اور زیادتی ہے
اپنی اولاد کو خارجی افکار والوں کی صحبت سے بچانا
ہوشیار! خوارج صرف داعش نہیں
داعیان فتنہ کی کہانی کا خلاصہ
نوجوانوں کا گمراہ جماعتوں کےفریب میں مبتلا ہونا
ان گمراہ جماعتوں کی تائید کرنے والے ، یا جواز پیش کرنے، یا ان پر خاموش رہنے والے بھی انہی میں سے ہے
نوجوانان ِاسلام کی رہنمائی پر مبنی ایک پیغام
ماضی اور حال میں خوارج کا خواتین کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنا
حزب الشیطان سے بچیں
ان عبرتناک حالات و مسائل کا حل
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/12/mojoda_daur_khawarij_numaya_sifaat_daish_haqeeqat.pdf
موجودہ دور کے #خوارج کی بعض نمایاں صفات اور فرقہ #داعش کی حقیقت
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تعارف
1- حکمرانوں پر خروج اور معروف میں ان کی سمع وطاعت نہ کرنے کو بطور دین اپنانا
2- کبیرہ گناہ کے مرتکب کی تکفیر کرنا
3- لوگوں کے سامنے حکمرانوں کے عیب بیان کرنا، ان پر طعن کرکے ان کے ضد میں اپنی مخالفت ظاہر کرنا جس کے ذریعے سے لوگوں کو ان کے خلاف ابھارنا اور ان کے سینوں کو نفرت آمیز جذبات سے بھرنا
4- جو کوئی اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت کے مطابق حکم نہیں کرتا کی مطلقاً تکفیر کرنا
5- حکمران کی تکفیر کرنا اس دلیل کے ساتھ کہ انہوں نے جہاد کو معطل کردیا ہے
حکومت و ریاست کی افواج کے علاوہ اپنی جہادی تنظیمیں بنا کر جہاد کرنا
6- دھماکے وخود کش حملے کرنا
7- پولیس، رینجرز وفوج کے قتل کو جائز قرار دینا
8- ان کے اقوال میں سے ہے کہ امام (شرعی حاکم) جس کا احادیث میں ذکر ہے وہ وہی ہے جس پر تمام مسلمان مشرق تا مغرب مجتمع ہوں یعنی پوری مسلم دنیا کا ایک خلیفہ ہو
9- معاہد ومستأمن (غیر ملکی سفیر وسیاح وغیرہ) کے خون کی حرمت کا کوئی پاس نہ کرنا
کیا اس زمانے میں خوارج پائے جاتے ہیں؟!
خوارج سے متعلق چند صحیح احادیث
داعش، اخوان المسلمین، القاعدہ اور دیگر خلافتی، تکفیری و خارجی جماعتو ں کی مختصر تاریخ
ان جماعتوں و قائدین کی مشترکہ حالت و نظریات
سلفی عقیدے و منہج پر چلنے والے قدیم و موجودہ علماء کتاب وسنت پر فہم سلف کے مطابق مجتمع رہتے ہيں
مسلم حکمرانوں کی تکفیر دہشتگردی کے اہم اسباب میں سے ہے
تکفیر ایک شرعی حکم ہے
تکفیر کے لئے واضح دلیل درکار ہے
ناجائز تکفیر کا وبال
موانعِ تکفیر کے امکانات
تکفیر میں جلد بازی کے پرخطر نتائج
تکفیر حکام کی شرائط
ناجائز تکفیر اللہ تعالی پر قول بلاعلم کے مترادف ہے
ناجائز تکفیر کے نقصانات
مسلمانوں کے خون بہانے کا وبال
کافر کو ناجائز قتل کرنے کا وبال
اسلام موجودہ دہشتگردی سے بری ہے
ایسے تخریبکارانہ افکار رکھنے والوں کی صحبت اختیار کرنا بھی منع ہے
اخوت اسلامی کے صحیح طریقے کو اپنایا جائے
خوارج کا غلو اور فی زمانہ اس کے مظاہر
فرقہ داعش کا مختصر تعارف
داعش سے متعلق بعض علماء کرام کے اقوال
شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ حفظہ اللہ
شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
شیخ عبدالمحسن بن حمد العباد حفظہ اللہ
شیخ صالح بن سعد السحیمی حفظہ اللہ
شیخ محمد بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
شیخ سلیمان الرحیلی حفظہ اللہ
کیا داعش جیسی جماعتیں سلفی ہیں؟!
صرف نام سے دھوکہ نہ کھائیں!
کیا بعض سلف کے حکام کے خلاف خروج کو دلیل بنایا جاسکتا ہے؟
کوئی سچا مومن مساجد میں یا دیگر امان دیے گئے مذاہب کی عبادت گاہوں میں دھماکے نہیں کرسکتا
آگ سے جاندار کو جلانا حرام ہے اور داعش کا کوئی دین نہیں
پاکستان میں طلبہ اور اساتذہ کا سفاکانہ قتل عظیم جرم اور زیادتی ہے
اپنی اولاد کو خارجی افکار والوں کی صحبت سے بچانا
ہوشیار! خوارج صرف داعش نہیں
داعیان فتنہ کی کہانی کا خلاصہ
نوجوانوں کا گمراہ جماعتوں کےفریب میں مبتلا ہونا
ان گمراہ جماعتوں کی تائید کرنے والے ، یا جواز پیش کرنے، یا ان پر خاموش رہنے والے بھی انہی میں سے ہے
نوجوانان ِاسلام کی رہنمائی پر مبنی ایک پیغام
ماضی اور حال میں خوارج کا خواتین کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنا
حزب الشیطان سے بچیں
ان عبرتناک حالات و مسائل کا حل
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/12/mojoda_daur_khawarij_numaya_sifaat_daish_haqeeqat.pdf
[Article] Preceding and opposing the #scholars in Ummah affairs – Shaykh Ubaid bin Abdullaah Al-Jabiree
درپیش امور میں نوجوانوں کا #علماء پر سبقت اور مخالفت کرنا
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: عمر طارق
مصدر: جناية التميّع على المنهج السلفي س 3۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/darpaish_umoor_nojawan_ulamaa_sabqat_mukhalifat.pdf
﷽
سوال : بعض طلبہ علم اپنے آپ کو منہج کے درپيش امور، اور لوگوں کی معرفت والے معاملات ميں آگے کرکے پيش کرتے ہيں( اور اس ميں کلام کرتے ہيں)، اور وہ اس ميں کبار علماء کی مخالفت کرتے ہيں جن کے پاس ان امور کی صحيح معرفت ہوتی ہے۔ وہ يہ کام يہ حجت بيان کرتے ہوئے کرتے ہيں کہ ہم کسی بھی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں۔ آپ اس معاملے ميں ہماری کيا رہنمائی فرماتے ہيں؟بارک اللہ فيکم۔
جواب: يہاں پر بعض چيزوں کی وضاحت کرنا ضروری ہے تاکہ اس مقولہ يا اس مسلک کا جواب جو اس سوال ميں ذکر کیا گیا بلکل واضح ہو:
پہلی بات: اللہ عز وجل کے اس فرمان کی ياددہانی کرانا:
﴿وَاِذَا جَاءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ ۭوَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا﴾ (النساء : 83)
)جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کردیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول کے اور اپنے حکمرانوں (جو ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں) کے حوالے کردیتے، تو ان میں سےنتیجہ اخذ کرنےوالے لوگ اس کی حقیقت معلوم کرلیتے ، او راگر اللہ تعالی کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو ضرور سوائے چند لوگوں کے تم سب شیطان کی پیروی کرنے لگتے )
يہ آيت مسلمانوں کی ايک ایسے شريف قاعدے پر تربيت کرتی ہے، کہ جب بھی ان کا سامنا کسی بھی قسم کے مصائب، مشکل اور کٹھن امور سے ہو تو اسے اپناکر اس پر چلنا ان پر واجب ہے ۔ اور وہ قاعدہ يہ ہے کہ ایسی درپيش مشکلات اور بڑے معاملات کو جو ايک حلم وبردبار شخص تک کو حيرت ميں ڈال ديتے ہيں، ان لوگوں کی طرف لوٹائيں جو ان پر کلام کرنے اور ان کو حل کرنے کے اہل ہيں، اور يہ لوگوں ميں سے دو قسم کے گروہ ہيں:
پہلا گروہ: رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– ہيں، اور اب اس سے مراد ان امور کو آپ -صلی اللہ عليہ و سلم– کی سنت کی طرف لوٹانا ہے۔
دوسرا گروہ: وہ لوگ جو حکومت ميں ہيں، کيونکہ بے شک حاکم وقت اور اس کے ساتھ جو اہل شوریٰ ہيں، علماء اور تجربہ کار لوگ، اہل حل و عقد، اور شرعی اور سياسی امور کی معرفت رکھنے والے، يہی لوگ ان درپيش مشکلات کو حل کرنے کے اہل ہيں ناکہ عام عوام۔
اور اس بات کی مزید وضاحت اس روايت سے ہو جاتی ہے جو امام مسلم نے اپنی صحيح ميں روايت کی ہے کہ لوگوں کے درميان یہ بات پھیل گئی کہ رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– نے اپنی بيويوں کو طلاق دے دی ہے، سيدنا عمر ۔رضی اللہ عنہ۔ نے فرمايا:
’’فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ -صلی الله عليه و سلم– فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ ؟! قَالَ: لَا! قَالَ عُمَرُ لَمَّا نَزَلَتْ الْآيَةُ: فَكُنْتُ أَنَا اسْتَنْبَطْتُ ذَلِكَ الْأَمْرَ ‘‘ ([1])۔
(ميں نے نبی -صلی اللہ عليہ و سلم– کے پاس آکر کہا: يا رسول اللہ، کيا آپ نے اپنی بيويوں کو طلاق دے دی ہے؟
آپ -صلی اللہ عليہ و سلم– نے فرمايا: نہيں۔ سيدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہيں جب يہ آيت نازل ہوئی تو ميں نے ہی اس معاملے کا استنباط کیا)۔
دوسری بات: ان کا يہ کہنا کہ ہم کسی بھی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں یا جیسا کہ وہ کہتے ہیں۔
ہم يہ کہتے ہيں کہ آپ واقعی ميں کسی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں، یہ بات صحیح ہے، ليکن آپ کا يہ قول مجمل ہے، کيونکہ يہ خطاء و صواب اور حق و باطل دونوں کا احتمال رکھتا ہے، آپ کو يہ چاہيے تھا کہ اس بات کو تفصيل اور فصاحت کے ساتھ بيان کرتے،کيونکہ اصل اعتبار کسی بھی فلاں فلاں شخص کے قول کا بذاتہ نہیں کیا جاتا(کہ بس یہ فلاں کا قول ہے)، بلکہ اصل اعتبار تو تو دليل کا ہوتا ہے۔ پس جب بھی لوگوں کا کسی بھی معاملے ميں اختلاف واقع ہو جائے تو اس صورت ميں ان پر واجب ہے کہ وہ اس معاملے کو جس ميں اختلاف واقع ہوا ہے اس کو اللہ اور اس کے رسول -صلی اللہ عليہ و سلم– کی طرف لوٹائيں جيسا کہ اللہ کا فرمان ہے:
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ (النساء: 59)
درپیش امور میں نوجوانوں کا #علماء پر سبقت اور مخالفت کرنا
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: عمر طارق
مصدر: جناية التميّع على المنهج السلفي س 3۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/darpaish_umoor_nojawan_ulamaa_sabqat_mukhalifat.pdf
﷽
سوال : بعض طلبہ علم اپنے آپ کو منہج کے درپيش امور، اور لوگوں کی معرفت والے معاملات ميں آگے کرکے پيش کرتے ہيں( اور اس ميں کلام کرتے ہيں)، اور وہ اس ميں کبار علماء کی مخالفت کرتے ہيں جن کے پاس ان امور کی صحيح معرفت ہوتی ہے۔ وہ يہ کام يہ حجت بيان کرتے ہوئے کرتے ہيں کہ ہم کسی بھی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں۔ آپ اس معاملے ميں ہماری کيا رہنمائی فرماتے ہيں؟بارک اللہ فيکم۔
جواب: يہاں پر بعض چيزوں کی وضاحت کرنا ضروری ہے تاکہ اس مقولہ يا اس مسلک کا جواب جو اس سوال ميں ذکر کیا گیا بلکل واضح ہو:
پہلی بات: اللہ عز وجل کے اس فرمان کی ياددہانی کرانا:
﴿وَاِذَا جَاءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ ۭوَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا﴾ (النساء : 83)
)جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کردیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول کے اور اپنے حکمرانوں (جو ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں) کے حوالے کردیتے، تو ان میں سےنتیجہ اخذ کرنےوالے لوگ اس کی حقیقت معلوم کرلیتے ، او راگر اللہ تعالی کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو ضرور سوائے چند لوگوں کے تم سب شیطان کی پیروی کرنے لگتے )
يہ آيت مسلمانوں کی ايک ایسے شريف قاعدے پر تربيت کرتی ہے، کہ جب بھی ان کا سامنا کسی بھی قسم کے مصائب، مشکل اور کٹھن امور سے ہو تو اسے اپناکر اس پر چلنا ان پر واجب ہے ۔ اور وہ قاعدہ يہ ہے کہ ایسی درپيش مشکلات اور بڑے معاملات کو جو ايک حلم وبردبار شخص تک کو حيرت ميں ڈال ديتے ہيں، ان لوگوں کی طرف لوٹائيں جو ان پر کلام کرنے اور ان کو حل کرنے کے اہل ہيں، اور يہ لوگوں ميں سے دو قسم کے گروہ ہيں:
پہلا گروہ: رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– ہيں، اور اب اس سے مراد ان امور کو آپ -صلی اللہ عليہ و سلم– کی سنت کی طرف لوٹانا ہے۔
دوسرا گروہ: وہ لوگ جو حکومت ميں ہيں، کيونکہ بے شک حاکم وقت اور اس کے ساتھ جو اہل شوریٰ ہيں، علماء اور تجربہ کار لوگ، اہل حل و عقد، اور شرعی اور سياسی امور کی معرفت رکھنے والے، يہی لوگ ان درپيش مشکلات کو حل کرنے کے اہل ہيں ناکہ عام عوام۔
اور اس بات کی مزید وضاحت اس روايت سے ہو جاتی ہے جو امام مسلم نے اپنی صحيح ميں روايت کی ہے کہ لوگوں کے درميان یہ بات پھیل گئی کہ رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– نے اپنی بيويوں کو طلاق دے دی ہے، سيدنا عمر ۔رضی اللہ عنہ۔ نے فرمايا:
’’فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ -صلی الله عليه و سلم– فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ ؟! قَالَ: لَا! قَالَ عُمَرُ لَمَّا نَزَلَتْ الْآيَةُ: فَكُنْتُ أَنَا اسْتَنْبَطْتُ ذَلِكَ الْأَمْرَ ‘‘ ([1])۔
(ميں نے نبی -صلی اللہ عليہ و سلم– کے پاس آکر کہا: يا رسول اللہ، کيا آپ نے اپنی بيويوں کو طلاق دے دی ہے؟
آپ -صلی اللہ عليہ و سلم– نے فرمايا: نہيں۔ سيدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہيں جب يہ آيت نازل ہوئی تو ميں نے ہی اس معاملے کا استنباط کیا)۔
دوسری بات: ان کا يہ کہنا کہ ہم کسی بھی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں یا جیسا کہ وہ کہتے ہیں۔
ہم يہ کہتے ہيں کہ آپ واقعی ميں کسی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں، یہ بات صحیح ہے، ليکن آپ کا يہ قول مجمل ہے، کيونکہ يہ خطاء و صواب اور حق و باطل دونوں کا احتمال رکھتا ہے، آپ کو يہ چاہيے تھا کہ اس بات کو تفصيل اور فصاحت کے ساتھ بيان کرتے،کيونکہ اصل اعتبار کسی بھی فلاں فلاں شخص کے قول کا بذاتہ نہیں کیا جاتا(کہ بس یہ فلاں کا قول ہے)، بلکہ اصل اعتبار تو تو دليل کا ہوتا ہے۔ پس جب بھی لوگوں کا کسی بھی معاملے ميں اختلاف واقع ہو جائے تو اس صورت ميں ان پر واجب ہے کہ وہ اس معاملے کو جس ميں اختلاف واقع ہوا ہے اس کو اللہ اور اس کے رسول -صلی اللہ عليہ و سلم– کی طرف لوٹائيں جيسا کہ اللہ کا فرمان ہے:
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ (النساء: 59)
(اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو ،اور اپنے میں سے ولاۃ امور (حکمرانوں) کی، اگر تم آپس میں کسی معاملے میں اختلاف کرلو تو اسے اللہ او ر رسول کی طرف پھیر دو ،اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے)
اہل علم نے فرمايا کہ اللہ تعالی کی طرف لوٹانے کا مطلب يہ ہے اللہ کی کتاب کی طرف لوٹانا اور رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– کی طرف لوٹانے کا مطلب ہے کہ آپ کی طرف بذات خود لوٹانا آپ کی زندگی ميں اور آپ کی سنت کی طرف لوٹانا آپ کی وفات کے بعد([2])۔
لہذا آپ کا يہ قول غایت درجے فساد اور بطلان پر مبنی ہے، اور اس قول سے صرف يہ ہی اخذ کيا جا سکتا ہے کہ آپ کا مقصد لوگوں کو اپنے آپ سے اور آپ جيسے دوسرے لوگوں سے جوڑنا ہے جو علم اور دعوت کے ميدان ميں اپنے آپ کو آگے بڑھ کر پيش کرتے ہيں۔ جبکہ آپ پر تو يہ واجب تھاکہ آپ لوگوں کو آئمہِ ہدايت اور ان اہل علم سے جوڑيں جو صحيح وسلیم وسیدھے عقيدہ ومنہج، علم ميں رسوخ اور امت کی خيرخواہی کے بارے ميں معروف ہيں([3])۔
کيونکہ يہی لوگ انبياء کے وارث ہيں، جب بھی يہ لوگ کسی درپيش مسئلے کے بارے ميں کلام کرتے ہيں([4])، يا کسی اور معاملے ميں کوئی بات کرتے ہيں، يا کسی شخص سے خبردار کرتے ہيں، اور اس ميں وہ اس کے فاسد منہج اور برے اصولوں کو دليل کے ساتھ بيان کرتے ہيں تو ان صورتوں ميں ان کے قول کو قبول کرنا واجب ہے، کيونکہ وہ حق ہے جب تک کہ وہ دليل اور برہان پر قائم ہے۔ چناچہ ان سب باتوں سے يہ واضح ہو جاتا ہے کہ يہ مقولہ بلکل باطل اور فاسدہے۔
[1] امام مسلم نے اسے صحيح مسلم ميں، کتاب: الطلاق، باب في الإيلاء واعتزال النساء، وتخييرهن، وقوله تعالى: {وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ}، حديث نمبر ۱۴۷۹ ميں سيدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روايت فرمایا ہے۔
[2] امام ابن القيم رحمہ اللہ اس آيت کے متعلق فرماتے ہيں: ’’مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہو گيا ہے کہ اللہ کی طرف لوٹانے کا مطلب يہ ہے کہ اس کی کتاب کی طرف لوٹايا جائے، اور رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– کی طرف لوٹانے کا مطلب ہے کہ آپ کی طرف بذات خود آپ کے لوگوں کے درميان موجود ہونے ميں يا آپ کی زندگی ميں لوٹایا جائے، اور آپ کی سنت کی طرف آپ کے لوگوں کے درميان موجود نا ہونے ميں يا آپ کی وفات کے بعد لوٹایاجائے‘‘۔ (اعلام الموقعين 1/174)۔
اور امام ابن کثير رحمہ اللہ فرماتے ہيں: ’’اور يہ اللہ کی طرف سے حکم ہے کہ کوئی بھی معاملہ جس ميں لوگ اختلاف کر جائيں چاہے وہ دين کے اصول ميں سے ہو يا فروع ميں سے، تو اس اختلاف کو کتاب و سنت کی طرف لوٹايا جائے‘‘۔ (تفسير ابن کثير 2/304)۔
[3] یحییٰ بن معاذ الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہيں: ’’علماء کرام امت محمد -صلی اللہ عليہ و سلم– پر ان کے اپنے ماں باپ سے زيادہ رحم دل ہيں۔ ان سے پوچھا گيا: ايسا کیسے؟انہوں نے فرمايا: کيونکہ بے شک ان کے ماں باپ ان کی دنيا کی آگ سے حفاظت کرتے ہيں، جبکہ علماء ان کو آخرت کی آگ سے بچاتے ہيں‘‘۔ (مختصر نصيحة أهل الحديث- 167)۔
[4] امام الحسن البصری رحمہ اللہ فرماتے ہيں: ’’بے شک يہ فتنہ جب بھی آنے لگتا تو اس کو ہر عالم جان ليتا ہے، اور جب وہ نکل جاتا ہے تب اس کو ہر جاہل بھی جان ليتا ہے‘‘۔(ابن سعد – 7/166) ۔
اہل علم نے فرمايا کہ اللہ تعالی کی طرف لوٹانے کا مطلب يہ ہے اللہ کی کتاب کی طرف لوٹانا اور رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– کی طرف لوٹانے کا مطلب ہے کہ آپ کی طرف بذات خود لوٹانا آپ کی زندگی ميں اور آپ کی سنت کی طرف لوٹانا آپ کی وفات کے بعد([2])۔
لہذا آپ کا يہ قول غایت درجے فساد اور بطلان پر مبنی ہے، اور اس قول سے صرف يہ ہی اخذ کيا جا سکتا ہے کہ آپ کا مقصد لوگوں کو اپنے آپ سے اور آپ جيسے دوسرے لوگوں سے جوڑنا ہے جو علم اور دعوت کے ميدان ميں اپنے آپ کو آگے بڑھ کر پيش کرتے ہيں۔ جبکہ آپ پر تو يہ واجب تھاکہ آپ لوگوں کو آئمہِ ہدايت اور ان اہل علم سے جوڑيں جو صحيح وسلیم وسیدھے عقيدہ ومنہج، علم ميں رسوخ اور امت کی خيرخواہی کے بارے ميں معروف ہيں([3])۔
کيونکہ يہی لوگ انبياء کے وارث ہيں، جب بھی يہ لوگ کسی درپيش مسئلے کے بارے ميں کلام کرتے ہيں([4])، يا کسی اور معاملے ميں کوئی بات کرتے ہيں، يا کسی شخص سے خبردار کرتے ہيں، اور اس ميں وہ اس کے فاسد منہج اور برے اصولوں کو دليل کے ساتھ بيان کرتے ہيں تو ان صورتوں ميں ان کے قول کو قبول کرنا واجب ہے، کيونکہ وہ حق ہے جب تک کہ وہ دليل اور برہان پر قائم ہے۔ چناچہ ان سب باتوں سے يہ واضح ہو جاتا ہے کہ يہ مقولہ بلکل باطل اور فاسدہے۔
[1] امام مسلم نے اسے صحيح مسلم ميں، کتاب: الطلاق، باب في الإيلاء واعتزال النساء، وتخييرهن، وقوله تعالى: {وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ}، حديث نمبر ۱۴۷۹ ميں سيدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روايت فرمایا ہے۔
[2] امام ابن القيم رحمہ اللہ اس آيت کے متعلق فرماتے ہيں: ’’مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہو گيا ہے کہ اللہ کی طرف لوٹانے کا مطلب يہ ہے کہ اس کی کتاب کی طرف لوٹايا جائے، اور رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– کی طرف لوٹانے کا مطلب ہے کہ آپ کی طرف بذات خود آپ کے لوگوں کے درميان موجود ہونے ميں يا آپ کی زندگی ميں لوٹایا جائے، اور آپ کی سنت کی طرف آپ کے لوگوں کے درميان موجود نا ہونے ميں يا آپ کی وفات کے بعد لوٹایاجائے‘‘۔ (اعلام الموقعين 1/174)۔
اور امام ابن کثير رحمہ اللہ فرماتے ہيں: ’’اور يہ اللہ کی طرف سے حکم ہے کہ کوئی بھی معاملہ جس ميں لوگ اختلاف کر جائيں چاہے وہ دين کے اصول ميں سے ہو يا فروع ميں سے، تو اس اختلاف کو کتاب و سنت کی طرف لوٹايا جائے‘‘۔ (تفسير ابن کثير 2/304)۔
[3] یحییٰ بن معاذ الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہيں: ’’علماء کرام امت محمد -صلی اللہ عليہ و سلم– پر ان کے اپنے ماں باپ سے زيادہ رحم دل ہيں۔ ان سے پوچھا گيا: ايسا کیسے؟انہوں نے فرمايا: کيونکہ بے شک ان کے ماں باپ ان کی دنيا کی آگ سے حفاظت کرتے ہيں، جبکہ علماء ان کو آخرت کی آگ سے بچاتے ہيں‘‘۔ (مختصر نصيحة أهل الحديث- 167)۔
[4] امام الحسن البصری رحمہ اللہ فرماتے ہيں: ’’بے شک يہ فتنہ جب بھی آنے لگتا تو اس کو ہر عالم جان ليتا ہے، اور جب وہ نکل جاتا ہے تب اس کو ہر جاہل بھی جان ليتا ہے‘‘۔(ابن سعد – 7/166) ۔
[Article] Acknowledgment of few #scholars from Arab and subcontinent - Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen Al-Albaanee
عرب و برصغیر کے بعض #علماء کرام کا تذکرہ
فضیلۃ الشیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ
(محدث دیار شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: سلسلة الهدى والنور 301۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/01/arab_barr_e_sagheer_baaz_ulamaa_tazkirah.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال:اس زمانے میں علماء، فقہاء و مجتہدین میں سے آپ کن کو جانتے ہیں؟
جواب: میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ شیخ ابن باز (اللہ تعالی آپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کے ذریعے مسلمانوں کو نفع پہنچائے)([1]) بہت سے مسائل میں اجتہاد کرتے ہيں، اگرچہ ہم جانتے ہيں کہ وہ حنبلی المذہب ہیں اور کسی بھی مذہب کے پڑھنے والی کی طبیعت کچھ یوں ہوتی ہے کہ جب وہ اسی پر تربیت پاتا ہے، پھر وہ متنبہ ہوتا ہے بعض ایسے مسائل کے موجود ہونے پر کہ جو شرعی دلائل کے مخالف ہوتے ہيں، لیکن اس کا یہ متنبہ ہونا ایک عرصے کے بعد ہوتا ہے، لہذا اس سبب سے یعنی دلیل کی اتباع کرتے ہوئے اس کی اس تنبیہ یا مذہب کی مخالفت کرلینا دو باتوں پر دلالت کرتا ہے:
پہلی بات: کہ وہ اجتہاد کرتا ہے مقلد نہيں۔
دوسری بات: جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا تھا اس اجتہاد کا تناسب بہت کم ہوتا ہے([2])۔
پھر ان کے ساتھ فاضل شیخ ابن عثیمین کا بھی اضافہ کرلیں، آپ بھی افاضل سعودی علماء میں سے ہيں کہ جن کے بارے میں ہم یہی گمان کرتے ہيں کہ اگر ان کے سامنے کتاب وسنت سے ثابت شدہ دلائل کے ساتھ حقیقت سامنے آتی ہے تو وہ اس کی طرف رجوع کرتے ہيں، بلاشبہ وہ ایسا نہيں کرتے جیسے دوسروں لوگ کرتے ہيں کہ اپنے اس مذہب پر جمود اختیار کرتے ہيں کہ جس پر وہ رہتے آئے ہيں، بلکہ یہ دلیل کی پیروی کرتے ہیں۔
لیکن ان کے تعلق سے بھی اس کا تناسب بہت کم ہوتا ہے۔
یعنی جیسا کہ میں نے ابھی کہا کہ افسوس مجھے اتنوں کا معلوم نہیں (یعنی مجتہدین کا) یا تو جن کے بارے میں سوال کیا گیا (یعنی مجتہدین علماء) ان کے قلت وجود کی وجہ سے یا میرے حافظے کی کمزوری کی وجہ سے یا پھر میرے تنگ علمی دائرے کی وجہ سے کہ اس قسم کی شخصیات کا وجود ملک کے اکناف و اطراف میں ہو۔لہذا میں اپنے حافظے کو کمزور پاتا ہوں کہ ان دو فاضل شخصیات جیسی کوئی دیگر مثالیں یا نمونے پیش کروں۔
البتہ میں یہ یقین رکھتا ہوں جیسا کہ آجکل کہا جاتا ہے کہ ایک علمی بیداری کی لہر اٹھی ہے کہ جو اس بات کی جانب رہنمائی کرتی ہے کہ ہمیں ضرور کتاب وسنت اور جس چیز پر سلف صالحین تھے کے شرعی دلائل کی جانب رجوع کرنا چاہیے اور کسی مذہب پر جمود اختیار نہيں کرنا چاہیے۔لہذا ان جیسے بہت سے نمونے بہت سے اسلامی ممالک میں پائے جاتے ہيں سعودی میں، کویت، امارات میں اور خاص کر پاک و ہندمیں، اگرچہ وہ اتنے مشہور نہ بھی ہوئے ہوں یعنی ان میں سے وہ علمی شعبے میں مستقل طور پر ظاہر نہ ہوئے ہوں۔ لیکن بلاشبہ پاکستان میں اور ہندوستان کے مسلم علاقوں میں ایک بڑی جماعت یا گروہ پایا جاتا ہے جو علماء حدیث کہلاتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جنہوں نے درحقیقت ان ممالک میں عمل بالحدیث کے منہج کو نشر کیا، بلکہ کبھی تو ان کی دعوت دیگر اسلامی ممالک تک سرایت کرگئی۔ چناچہ انہوں نے عمل بالحدیث اور مذاہب کی عدم تقلید کو نشر کیا خصوصاً ہندوستانیوں اور پاکستانیوں میں غالب ترین مذہب یعنی مذہب حنفی (کی عدم تقلید)۔لہذا ان ممالک میں ایک مستقل مذہب مذہب اہل حدیث بن گیا۔ اور اس جماعت کو مذہب اہل حدیث کہاگیا۔
لیکن ہم اس زمانے میں ان (اہل حدیثوں) میں ایسے علماء نہيں جانتے کہ جن کی جانب انگلیوں سے اشارہ کیا جائے کہ وہ خود محنت و اجتہاد کرتے ہیں اور (اور اپنے سے پہلوں کی) تقلید نہيں کرتے۔ البتہ ہم بعض ایسے علمی آثار پاتے ہیں کہ جو ان علماء اہل حدیث میں سے بعض چھوڑ گئے ہيں کہ ان کے یہ آثار اس بات پر دلالت کناں ہیں کہ وہ ایک بلند علمی درجے پر تھے اور تقلید سے دور تھے۔ مثال کے طور پر شمس الدین، کیا نام تھا؟
سائل: عبدالحق آبادی۔
شیخ: عبدالحق آبادی(شیخ کی مراد صاحب عون المعبود شرح سنن ابی داود شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ ہیں) اور تحفہ الاحوذی (شرح جامع الترمذی) والے (یعنی شیخ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ) اور ان کے علاوہ دیگر لوگ۔ یعنی ان کے بارے میں ہم یقین رکھتے ہیں کہ کتاب وسنت پر عمل کرنے کے منہج کو نشر کرنے اور مذہب کی اتباع سے روکنے میں ان کے احسانات ہیں۔ یا جیسا میں نے شاعر کا قول ذکر کیا کہ:
”وكانوا إذا عدوا قليلا فصاروا اليوم أقل من القليل“
(جب انہيں گننے پر آئیں تو قلیل نکلتے ہيں اور آج تو یہ اقل القلیل ہوگئے ہیں)۔
عرب و برصغیر کے بعض #علماء کرام کا تذکرہ
فضیلۃ الشیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ
(محدث دیار شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: سلسلة الهدى والنور 301۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/01/arab_barr_e_sagheer_baaz_ulamaa_tazkirah.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال:اس زمانے میں علماء، فقہاء و مجتہدین میں سے آپ کن کو جانتے ہیں؟
جواب: میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ شیخ ابن باز (اللہ تعالی آپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کے ذریعے مسلمانوں کو نفع پہنچائے)([1]) بہت سے مسائل میں اجتہاد کرتے ہيں، اگرچہ ہم جانتے ہيں کہ وہ حنبلی المذہب ہیں اور کسی بھی مذہب کے پڑھنے والی کی طبیعت کچھ یوں ہوتی ہے کہ جب وہ اسی پر تربیت پاتا ہے، پھر وہ متنبہ ہوتا ہے بعض ایسے مسائل کے موجود ہونے پر کہ جو شرعی دلائل کے مخالف ہوتے ہيں، لیکن اس کا یہ متنبہ ہونا ایک عرصے کے بعد ہوتا ہے، لہذا اس سبب سے یعنی دلیل کی اتباع کرتے ہوئے اس کی اس تنبیہ یا مذہب کی مخالفت کرلینا دو باتوں پر دلالت کرتا ہے:
پہلی بات: کہ وہ اجتہاد کرتا ہے مقلد نہيں۔
دوسری بات: جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا تھا اس اجتہاد کا تناسب بہت کم ہوتا ہے([2])۔
پھر ان کے ساتھ فاضل شیخ ابن عثیمین کا بھی اضافہ کرلیں، آپ بھی افاضل سعودی علماء میں سے ہيں کہ جن کے بارے میں ہم یہی گمان کرتے ہيں کہ اگر ان کے سامنے کتاب وسنت سے ثابت شدہ دلائل کے ساتھ حقیقت سامنے آتی ہے تو وہ اس کی طرف رجوع کرتے ہيں، بلاشبہ وہ ایسا نہيں کرتے جیسے دوسروں لوگ کرتے ہيں کہ اپنے اس مذہب پر جمود اختیار کرتے ہيں کہ جس پر وہ رہتے آئے ہيں، بلکہ یہ دلیل کی پیروی کرتے ہیں۔
لیکن ان کے تعلق سے بھی اس کا تناسب بہت کم ہوتا ہے۔
یعنی جیسا کہ میں نے ابھی کہا کہ افسوس مجھے اتنوں کا معلوم نہیں (یعنی مجتہدین کا) یا تو جن کے بارے میں سوال کیا گیا (یعنی مجتہدین علماء) ان کے قلت وجود کی وجہ سے یا میرے حافظے کی کمزوری کی وجہ سے یا پھر میرے تنگ علمی دائرے کی وجہ سے کہ اس قسم کی شخصیات کا وجود ملک کے اکناف و اطراف میں ہو۔لہذا میں اپنے حافظے کو کمزور پاتا ہوں کہ ان دو فاضل شخصیات جیسی کوئی دیگر مثالیں یا نمونے پیش کروں۔
البتہ میں یہ یقین رکھتا ہوں جیسا کہ آجکل کہا جاتا ہے کہ ایک علمی بیداری کی لہر اٹھی ہے کہ جو اس بات کی جانب رہنمائی کرتی ہے کہ ہمیں ضرور کتاب وسنت اور جس چیز پر سلف صالحین تھے کے شرعی دلائل کی جانب رجوع کرنا چاہیے اور کسی مذہب پر جمود اختیار نہيں کرنا چاہیے۔لہذا ان جیسے بہت سے نمونے بہت سے اسلامی ممالک میں پائے جاتے ہيں سعودی میں، کویت، امارات میں اور خاص کر پاک و ہندمیں، اگرچہ وہ اتنے مشہور نہ بھی ہوئے ہوں یعنی ان میں سے وہ علمی شعبے میں مستقل طور پر ظاہر نہ ہوئے ہوں۔ لیکن بلاشبہ پاکستان میں اور ہندوستان کے مسلم علاقوں میں ایک بڑی جماعت یا گروہ پایا جاتا ہے جو علماء حدیث کہلاتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جنہوں نے درحقیقت ان ممالک میں عمل بالحدیث کے منہج کو نشر کیا، بلکہ کبھی تو ان کی دعوت دیگر اسلامی ممالک تک سرایت کرگئی۔ چناچہ انہوں نے عمل بالحدیث اور مذاہب کی عدم تقلید کو نشر کیا خصوصاً ہندوستانیوں اور پاکستانیوں میں غالب ترین مذہب یعنی مذہب حنفی (کی عدم تقلید)۔لہذا ان ممالک میں ایک مستقل مذہب مذہب اہل حدیث بن گیا۔ اور اس جماعت کو مذہب اہل حدیث کہاگیا۔
لیکن ہم اس زمانے میں ان (اہل حدیثوں) میں ایسے علماء نہيں جانتے کہ جن کی جانب انگلیوں سے اشارہ کیا جائے کہ وہ خود محنت و اجتہاد کرتے ہیں اور (اور اپنے سے پہلوں کی) تقلید نہيں کرتے۔ البتہ ہم بعض ایسے علمی آثار پاتے ہیں کہ جو ان علماء اہل حدیث میں سے بعض چھوڑ گئے ہيں کہ ان کے یہ آثار اس بات پر دلالت کناں ہیں کہ وہ ایک بلند علمی درجے پر تھے اور تقلید سے دور تھے۔ مثال کے طور پر شمس الدین، کیا نام تھا؟
سائل: عبدالحق آبادی۔
شیخ: عبدالحق آبادی(شیخ کی مراد صاحب عون المعبود شرح سنن ابی داود شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ ہیں) اور تحفہ الاحوذی (شرح جامع الترمذی) والے (یعنی شیخ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ) اور ان کے علاوہ دیگر لوگ۔ یعنی ان کے بارے میں ہم یقین رکھتے ہیں کہ کتاب وسنت پر عمل کرنے کے منہج کو نشر کرنے اور مذہب کی اتباع سے روکنے میں ان کے احسانات ہیں۔ یا جیسا میں نے شاعر کا قول ذکر کیا کہ:
”وكانوا إذا عدوا قليلا فصاروا اليوم أقل من القليل“
(جب انہيں گننے پر آئیں تو قلیل نکلتے ہيں اور آج تو یہ اقل القلیل ہوگئے ہیں)۔
افسوس ہے کہ اصول العلم اور مختلف اقوال میں ترجیح دینے سے جہالت کی بنا پر آج بعض ایسے بھی پھیل گئے ہيں جنہيں الفقهاء بالتلفيق (یعنی جو مختلف مذاہب کی صرف آسانیوں اور رخصتوں کو لیتے ہیں) کہا جاتا ہے۔ پس آپ بہت سے مشہور علماء کو پائيں گے خصوصاً مصر کے علاقوں میں کہ جو کسی مذہب کی پابندی نہيں کرتے لیکن افسوس کہ وہ کسی مذہب کی پابندی اپنی اہواء وخواہش پرستی کی وجہ سے نہيں کرتے ناکہ کسی ایسی دلیل کی اتباع یا اس کے آگے سرتسلیم خم کرنے کی وجہ سے جو انہیں ان کے مذہب کی مخالفت پر مجبور کرتی ہو۔
اسی کیسٹ میں شیخ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
سائل: شیخنا کیا آپ کی شیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ ([3])سے کوئی علمی یا عام ملاقات ہوئی ہے؟
شیخ: ہم ان کی زیارت سے مشرف ہوئے جبکہ ہم مکہ میں اپنے سسر دکتور رضا نعسان کے یہاں تھے۔ میرے خیال سے کسی حج وعمرے میں ہماری ملاقات رہی۔
سائل: کیا اس کے علاوہ بھی آپ کبھی ان سے ملے؟
الشیخ : واللہ! مجھے تو اس دفعہ کے علاوہ یاد نہيں۔
سائل: مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ آپ عنیزہ وبریدہ (یعنی شیخ عثیمین رحمہ اللہ کے علاقے) کی طرف سے کسی زمانے میں گزرے تھے۔۔۔
شیخ: یہ بات تو صحیح ہے، لیکن میرا نہيں خیال کہ میں ان سے ملا تھا۔
سائل: شاید کہ آپ نے ان کے گھر پر قہوہ پیا تھا؟
شیخ: مجھے یہ یاد نہيں، کیا انہوں نے بالکل واضح طور پرایسا کہا؟
سائل: ہاں انہوں نے ایسا ہی کہا، اور یہ بھی کہا کہ آپ کے ساتھ زہیر الشاویش تھے۔
شیخ: ہاں میں نے کہا ناں آپ کو کہ میں ان علاقوں سے گزرا تھا اور واقعی زہیر الشاویش کے ساتھ ہی گزرا تھا، لیکن شاید ان دنوں شیخ کے بارے میں مجھے اتنا علم نہيں تھا جتنا ان کی لائق شان ہے، بہرحال میری یادداشت میں یہ نہیں، برخلاف اس ملاقات کے جو یہاں ہوئی (جس کا میں نے پہلے ذکر کیا)۔ تو مجھے وہ اچھی طرح سے یاد ہے، اور آپ کے ساتھ بعض طلبہ بھی تھے اور ان میں سے ایک نے مجھ سے علم الحدیث و المصطلح سے متعلق سوال کیا۔
اور درحقیقت میں شیخ کے طریقۂ کار اور جب کبھی ان کو موقع ملے ادب و سہولت کے ساتھ تقلید سے نکل جانے سے بہت متاثر ہوا، وہ تقلید کہ جس نے ہر ملک میں علماء کی بڑی اکثریت کو زنگ آلود کررکھا ہے۔
[1] اس وقت شیخ حیات تھے رحمہ اللہ۔ (توحیدخالص ڈاٹ کام)
[2] شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا اس بارے میں کلام جاننے کے لیے پڑھیں ہماری ویب سائٹ پر مقالہ "آپ کا فقہی مذہب کیا ہے؟" از شیخ ابن باز رحمہ اللہ ۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[3] اس وقت آپ حیات تھے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
اسی کیسٹ میں شیخ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
سائل: شیخنا کیا آپ کی شیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ ([3])سے کوئی علمی یا عام ملاقات ہوئی ہے؟
شیخ: ہم ان کی زیارت سے مشرف ہوئے جبکہ ہم مکہ میں اپنے سسر دکتور رضا نعسان کے یہاں تھے۔ میرے خیال سے کسی حج وعمرے میں ہماری ملاقات رہی۔
سائل: کیا اس کے علاوہ بھی آپ کبھی ان سے ملے؟
الشیخ : واللہ! مجھے تو اس دفعہ کے علاوہ یاد نہيں۔
سائل: مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ آپ عنیزہ وبریدہ (یعنی شیخ عثیمین رحمہ اللہ کے علاقے) کی طرف سے کسی زمانے میں گزرے تھے۔۔۔
شیخ: یہ بات تو صحیح ہے، لیکن میرا نہيں خیال کہ میں ان سے ملا تھا۔
سائل: شاید کہ آپ نے ان کے گھر پر قہوہ پیا تھا؟
شیخ: مجھے یہ یاد نہيں، کیا انہوں نے بالکل واضح طور پرایسا کہا؟
سائل: ہاں انہوں نے ایسا ہی کہا، اور یہ بھی کہا کہ آپ کے ساتھ زہیر الشاویش تھے۔
شیخ: ہاں میں نے کہا ناں آپ کو کہ میں ان علاقوں سے گزرا تھا اور واقعی زہیر الشاویش کے ساتھ ہی گزرا تھا، لیکن شاید ان دنوں شیخ کے بارے میں مجھے اتنا علم نہيں تھا جتنا ان کی لائق شان ہے، بہرحال میری یادداشت میں یہ نہیں، برخلاف اس ملاقات کے جو یہاں ہوئی (جس کا میں نے پہلے ذکر کیا)۔ تو مجھے وہ اچھی طرح سے یاد ہے، اور آپ کے ساتھ بعض طلبہ بھی تھے اور ان میں سے ایک نے مجھ سے علم الحدیث و المصطلح سے متعلق سوال کیا۔
اور درحقیقت میں شیخ کے طریقۂ کار اور جب کبھی ان کو موقع ملے ادب و سہولت کے ساتھ تقلید سے نکل جانے سے بہت متاثر ہوا، وہ تقلید کہ جس نے ہر ملک میں علماء کی بڑی اکثریت کو زنگ آلود کررکھا ہے۔
[1] اس وقت شیخ حیات تھے رحمہ اللہ۔ (توحیدخالص ڈاٹ کام)
[2] شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا اس بارے میں کلام جاننے کے لیے پڑھیں ہماری ویب سائٹ پر مقالہ "آپ کا فقہی مذہب کیا ہے؟" از شیخ ابن باز رحمہ اللہ ۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[3] اس وقت آپ حیات تھے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[Article] In the end of a year specially speaking about the events that took place in that year in #Friday_sermon – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
سال کے اختتام پر رواں سال ہونے والے واقعات کا #خطبوں میں خصوصی ذکر کرنا
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الإجابات المهمة فى المشاكل الملمة، ص 195۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/saal_ikhtitam_waqiat_guzishta_saal_bayan.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:بعض خطیب ہر ہجری سال کے اختتام پر اپنے خطبات جمعہ کو رواں سال کے واقعات ذکر کرنے اور جو کچھ اس میں خیر وشر وقوع پذیر ہوا بیان کرنے کے لیے مخصوص کردیتے ہيں ، ، بلکہ بعض مسلمان تو اسے باقاعدہ ایسا دن بنادیتے ہیں کہ ایک دوسرے کو مبارکبادیاں دیتے ہيں، پس کیا یہ عمل مشروع ہے؟
جواب: ہم اس کی کوئی اصل نہيں جانتے۔ اور جو ہجری تاریخ ہے اس سے یہ مقصود نہيں کہ سال کے آغاز کو کوئی تہوار، یادگار بنایا جائے اور اس کی باتیں ہوں، عید ہو، اور مبارکبادیں ہوں، بلکہ ہجری تاریخ تو محض مختلف عقد ومعاہدے وغیرہ کی تاریخوں میں تمیز کے لیے بنائی گئی تھی۔ جیسا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کیا کہ جب ان کے عہد میں خلافت میں کافی وسعت ہوگئی تھی، تو آپ کے پاس بِنا تاریخ کے تحریریں آتیں، لہذا انہیں اس کی ضرورت پڑی کہ وہ تاریخ مقرر کریں جن کے ذریعے ان خط وکتابت کی پہچان ہوسکے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا پس سب نے مشورہ دیا کہ ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم اپنے ہجری سال کی ابتداء مقرر کرتے ہیں۔
اور انہوں نے میلادی (عیسوی) تاریخ کو چھوڑ دیا، حالانکہ وہ اس وقت موجود تھی، لیکن انہوں نے ہجرت کو لیا اور اسے مسلمانوں کی تاریخ کی ابتداء بنائی تاکہ فقط مختلف خط وکتابت ودستاویزات کی معرفت ہوسکے، ناکہ اسے کوئی مانسبت وتہوار بنادیا جائے اور اس سے متعلق باتيں کی جائيں، یہ بات بڑھ کر بتدریج بدعت کی طرف چلے جائے گی۔
سال کے اختتام پر رواں سال ہونے والے واقعات کا #خطبوں میں خصوصی ذکر کرنا
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الإجابات المهمة فى المشاكل الملمة، ص 195۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/saal_ikhtitam_waqiat_guzishta_saal_bayan.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:بعض خطیب ہر ہجری سال کے اختتام پر اپنے خطبات جمعہ کو رواں سال کے واقعات ذکر کرنے اور جو کچھ اس میں خیر وشر وقوع پذیر ہوا بیان کرنے کے لیے مخصوص کردیتے ہيں ، ، بلکہ بعض مسلمان تو اسے باقاعدہ ایسا دن بنادیتے ہیں کہ ایک دوسرے کو مبارکبادیاں دیتے ہيں، پس کیا یہ عمل مشروع ہے؟
جواب: ہم اس کی کوئی اصل نہيں جانتے۔ اور جو ہجری تاریخ ہے اس سے یہ مقصود نہيں کہ سال کے آغاز کو کوئی تہوار، یادگار بنایا جائے اور اس کی باتیں ہوں، عید ہو، اور مبارکبادیں ہوں، بلکہ ہجری تاریخ تو محض مختلف عقد ومعاہدے وغیرہ کی تاریخوں میں تمیز کے لیے بنائی گئی تھی۔ جیسا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کیا کہ جب ان کے عہد میں خلافت میں کافی وسعت ہوگئی تھی، تو آپ کے پاس بِنا تاریخ کے تحریریں آتیں، لہذا انہیں اس کی ضرورت پڑی کہ وہ تاریخ مقرر کریں جن کے ذریعے ان خط وکتابت کی پہچان ہوسکے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا پس سب نے مشورہ دیا کہ ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم اپنے ہجری سال کی ابتداء مقرر کرتے ہیں۔
اور انہوں نے میلادی (عیسوی) تاریخ کو چھوڑ دیا، حالانکہ وہ اس وقت موجود تھی، لیکن انہوں نے ہجرت کو لیا اور اسے مسلمانوں کی تاریخ کی ابتداء بنائی تاکہ فقط مختلف خط وکتابت ودستاویزات کی معرفت ہوسکے، ناکہ اسے کوئی مانسبت وتہوار بنادیا جائے اور اس سے متعلق باتيں کی جائيں، یہ بات بڑھ کر بتدریج بدعت کی طرف چلے جائے گی۔
[Article] The status of "#La_ilaha_illa_Allaah" in life - Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
زندگی میں”#لاالہ_الااللہ “کامقام اورمرتبہ
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: لا إله إلا الله مكانتها، فضلها، وأركانها، شروطها، معناها۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/01/kalimah_zindagi_athar.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
یہ وہ کلمہ ہےکہ جس کااعلان مسلمان اپنی اذانوں اوراقامتوں میں کرتےہیں، اپنےخطبوں اور اپنے کلام(دروس وغیرہ) میں کرتےہیں، یہ وہ کلمہ ہےکہ جس کےذریعےزمین اورسارےآسمان قائم ہیں، اورجس کےلئےتمام مخلوقات کوپیداکیاگیاہے،اورجس کے ساتھ اللہ تعالی نے تمام رسولوں کوبھیجا، اور اپنی کتابیں نازل فرمائيں، اوراپنی شریعتوں کومشروع فرمایا،اسی کےلئےمیزان قائم کیےجائیں گےاور(اعمال کے) دفاترو دواوین رکھےجائیں گے، اورجنت اورجہنم کابازارسجےگا،اوراسی کےذریعےمخلوق کوتقسیم کیاجائےگامومنین اورکفارمیں، اوریہ ہی منشائےخلق وامر اورثواب وعقاب ہے، اوریہی وہ حق ہےجس کے لئےمخلوق کوپیداکیاگیا،اوراس کے اوراس کےحقوق کےمتعلق ہی سوال اورحساب ہوگا،اوراسی پر ثواب اورعقاب مرتب ہوگا، اسی کےلئےقبلہ مقررکیاگیا اورملت کی بنیادبھی اسی پر ہے،اسی کےلئےتلواریں بےنیام ہوئیں، اوریہ اللہ تعالی کاحق ہےاپنےبندوں پر،یہ کلمۂ اسلام ہے،اوردارالسلام (سلامتی کے گھر جنت) کی چابی ہے، اسی کےمتعلق اولین وآخرین سےسوال ہوگااورکسی بندےسےدوقدم اللہ سبحانہ وتعالی کےسامنےاٹھنےناپائیں گے،یہاں تک کہ وہ اس سے یہ دو سوال نہ کرلیے جائيں:
”ماذاکنتم تعبدون“
(تم کس کی عبادت کیاکرتےتھے؟)
اور
”ماذاأجبتم المرسلین“
(رسولوں کوتم نےکیاجواب دیا؟)۔
پہلےکاجواب لاالہ الااللہ کا معرفت، اقرار و عمل کے اعتبار سے حق ادا کرنے سے بنتا ہے۔
اوردوسرےکاجواب ”أن محمداً رسول الله“ کا معرفت، انقیاد واطاعت کے اعتبار سے حق ادا کرنے سے بنتا ہے۔
یہ وہ کلمہ ہےجوکفراوراسلام کےدرمیان فرق کرنےوالاہے، یہ ہی کلمۂ تقویٰ اورعروۃالوثقیٰ (سب سےمضبوط کڑا)ہے، اوریہ ہی وہ کلمہ ہےجوابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام اپنےپیچھےلوگوں کےلیے چھوڑگئے:
﴿وَجَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِيَةً فِيْ عَقِبِهٖ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ﴾ (الزخرف: 28)
(اور انہوں نے اس کلمے(توحید) کو اپنے پچھلوں میں باقی رہنے والی بات بنادیا، تاکہ وہ رجوع کریں)
یہ ہی وہ کلمہ ہےجس کہ ساتھ اللہ تعالی نےاپنےلئےگواہی دی اورمخلوقات میں سےفرشتوں اوراہلِ علم نے۔فرمان باری تعالی ہے:
﴿شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۙ وَالْمَلٰىِٕكَةُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَاىِٕمًۢا بِالْقِسْطِ ۭ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ﴾ (آل عمران: 18)
(گواہی دی اللہ تعالی نےکہ بے شک نہیں ہےکوئی معبودحقیقی مگرصرف وہ اورفرشتوں اوراہل علم نےبھی، وہ عدل و انصاف پرقائم ہے،نہیں ہےکوئی معبودحقیقی سوائے اس کے، وہ غالب ہےحکمت والا ہے)
دیکھیں مجموعۃالتوحید۔
اوریہ ہی کلمۂ اخلاص ،شہادتِ حق ودعوت حق اورشرک سےبرأت ہے، اوراسی کےلئےمخلوق کوپیداکیاگیا۔فرمان باری تعالی ہے:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ﴾ (الذاریات: 56)
( میں نےنہیں پیداکیاجن وانس کومگراسی لئےکہ وہ میری عبادات کریں)
اسی کےلئےرسولوں کوبھیجاگیااورکتابیں نازل کی گئیں:
﴿وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ﴾ (الانبیاء: 25)
(اورہم نےنہیں بھیجاآپ سےپہلےکسی رسول کومگراس کی جانب یہ ہی وحی کی کہ بے شک نہیں ہےکوئی معبودحقیقی سوائےمیرے، پس تم میری ہی عبادت کرنا)
اوراللہ تعالی کایہ فرمان:
﴿يُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖٓ اَنْ اَنْذِرُوْٓا اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاتَّقُوْنِ﴾ (النحل: 2)
(وہ فرشتوں کو روح (وحی) کےساتھ اپنےحکم سےاپنےبندوں میں سےجس پرچاہتاہےنازل فرماتاہے،کہ خبردارکردوکہ بے شک حقیقت یہ ہےکہ میرےسواکوئی عبادت کےلائق نہیں، سومجھ ہی سے ڈرو)
امام ابن عیینہ رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ:
” اللہ تعالی نےاپنےبندوں میں سےکسی بندےپرکوئی نعمت اس سے بڑھ کر نہیں کی کہ انہیں لاالہ الا اللہ کی معرفت و پہچان کروائی، اوربے شک جولاالہ الااللہ ہے یہ اہل جنت کےلئےایساہےجیسےاہل دنیاکے لئےٹھنڈا پانی ہوتاہے“۔
پس جس نےیہ کہہ دیا تواس کے جان اورمال محفوظ ہوگئے،اورجس نےاس کا انکارکیاتواس کی جان اورمال رائیگاں ہے۔چناچہ الصحیح میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ فرماتےہیں:
زندگی میں”#لاالہ_الااللہ “کامقام اورمرتبہ
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: لا إله إلا الله مكانتها، فضلها، وأركانها، شروطها، معناها۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/01/kalimah_zindagi_athar.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
یہ وہ کلمہ ہےکہ جس کااعلان مسلمان اپنی اذانوں اوراقامتوں میں کرتےہیں، اپنےخطبوں اور اپنے کلام(دروس وغیرہ) میں کرتےہیں، یہ وہ کلمہ ہےکہ جس کےذریعےزمین اورسارےآسمان قائم ہیں، اورجس کےلئےتمام مخلوقات کوپیداکیاگیاہے،اورجس کے ساتھ اللہ تعالی نے تمام رسولوں کوبھیجا، اور اپنی کتابیں نازل فرمائيں، اوراپنی شریعتوں کومشروع فرمایا،اسی کےلئےمیزان قائم کیےجائیں گےاور(اعمال کے) دفاترو دواوین رکھےجائیں گے، اورجنت اورجہنم کابازارسجےگا،اوراسی کےذریعےمخلوق کوتقسیم کیاجائےگامومنین اورکفارمیں، اوریہ ہی منشائےخلق وامر اورثواب وعقاب ہے، اوریہی وہ حق ہےجس کے لئےمخلوق کوپیداکیاگیا،اوراس کے اوراس کےحقوق کےمتعلق ہی سوال اورحساب ہوگا،اوراسی پر ثواب اورعقاب مرتب ہوگا، اسی کےلئےقبلہ مقررکیاگیا اورملت کی بنیادبھی اسی پر ہے،اسی کےلئےتلواریں بےنیام ہوئیں، اوریہ اللہ تعالی کاحق ہےاپنےبندوں پر،یہ کلمۂ اسلام ہے،اوردارالسلام (سلامتی کے گھر جنت) کی چابی ہے، اسی کےمتعلق اولین وآخرین سےسوال ہوگااورکسی بندےسےدوقدم اللہ سبحانہ وتعالی کےسامنےاٹھنےناپائیں گے،یہاں تک کہ وہ اس سے یہ دو سوال نہ کرلیے جائيں:
”ماذاکنتم تعبدون“
(تم کس کی عبادت کیاکرتےتھے؟)
اور
”ماذاأجبتم المرسلین“
(رسولوں کوتم نےکیاجواب دیا؟)۔
پہلےکاجواب لاالہ الااللہ کا معرفت، اقرار و عمل کے اعتبار سے حق ادا کرنے سے بنتا ہے۔
اوردوسرےکاجواب ”أن محمداً رسول الله“ کا معرفت، انقیاد واطاعت کے اعتبار سے حق ادا کرنے سے بنتا ہے۔
یہ وہ کلمہ ہےجوکفراوراسلام کےدرمیان فرق کرنےوالاہے، یہ ہی کلمۂ تقویٰ اورعروۃالوثقیٰ (سب سےمضبوط کڑا)ہے، اوریہ ہی وہ کلمہ ہےجوابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام اپنےپیچھےلوگوں کےلیے چھوڑگئے:
﴿وَجَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِيَةً فِيْ عَقِبِهٖ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ﴾ (الزخرف: 28)
(اور انہوں نے اس کلمے(توحید) کو اپنے پچھلوں میں باقی رہنے والی بات بنادیا، تاکہ وہ رجوع کریں)
یہ ہی وہ کلمہ ہےجس کہ ساتھ اللہ تعالی نےاپنےلئےگواہی دی اورمخلوقات میں سےفرشتوں اوراہلِ علم نے۔فرمان باری تعالی ہے:
﴿شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۙ وَالْمَلٰىِٕكَةُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَاىِٕمًۢا بِالْقِسْطِ ۭ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ﴾ (آل عمران: 18)
(گواہی دی اللہ تعالی نےکہ بے شک نہیں ہےکوئی معبودحقیقی مگرصرف وہ اورفرشتوں اوراہل علم نےبھی، وہ عدل و انصاف پرقائم ہے،نہیں ہےکوئی معبودحقیقی سوائے اس کے، وہ غالب ہےحکمت والا ہے)
دیکھیں مجموعۃالتوحید۔
اوریہ ہی کلمۂ اخلاص ،شہادتِ حق ودعوت حق اورشرک سےبرأت ہے، اوراسی کےلئےمخلوق کوپیداکیاگیا۔فرمان باری تعالی ہے:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ﴾ (الذاریات: 56)
( میں نےنہیں پیداکیاجن وانس کومگراسی لئےکہ وہ میری عبادات کریں)
اسی کےلئےرسولوں کوبھیجاگیااورکتابیں نازل کی گئیں:
﴿وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ﴾ (الانبیاء: 25)
(اورہم نےنہیں بھیجاآپ سےپہلےکسی رسول کومگراس کی جانب یہ ہی وحی کی کہ بے شک نہیں ہےکوئی معبودحقیقی سوائےمیرے، پس تم میری ہی عبادت کرنا)
اوراللہ تعالی کایہ فرمان:
﴿يُنَزِّلُ الْمَلٰۗىِٕكَةَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰي مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖٓ اَنْ اَنْذِرُوْٓا اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاتَّقُوْنِ﴾ (النحل: 2)
(وہ فرشتوں کو روح (وحی) کےساتھ اپنےحکم سےاپنےبندوں میں سےجس پرچاہتاہےنازل فرماتاہے،کہ خبردارکردوکہ بے شک حقیقت یہ ہےکہ میرےسواکوئی عبادت کےلائق نہیں، سومجھ ہی سے ڈرو)
امام ابن عیینہ رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ:
” اللہ تعالی نےاپنےبندوں میں سےکسی بندےپرکوئی نعمت اس سے بڑھ کر نہیں کی کہ انہیں لاالہ الا اللہ کی معرفت و پہچان کروائی، اوربے شک جولاالہ الااللہ ہے یہ اہل جنت کےلئےایساہےجیسےاہل دنیاکے لئےٹھنڈا پانی ہوتاہے“۔
پس جس نےیہ کہہ دیا تواس کے جان اورمال محفوظ ہوگئے،اورجس نےاس کا انکارکیاتواس کی جان اورمال رائیگاں ہے۔چناچہ الصحیح میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ فرماتےہیں:
’’مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَكَفَرَ بِمَا يُعْبَدُ مِنْ دُونِ اللَّهِ، حَرُمَ مَالُهُ، وَدَمُهُ، وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ‘‘([1])
(جس شخص نے لا الہ الا اللہ کا اقرار کر لیا اور اللہ تعالی کے سوا جن کی بھی عبادت کی جاتی ہےان سے کفر (انکار) کیا تو اس کا مال اور خون حرام ہوگیا اور اس کا (باقی) حساب اللہ تعالی کے سپرد ہے)۔
تویہ وہ اوّل چیزہےجس کامطالبہ کفارسےکیاجاتاہےجب اسلام کی طرف انہیں دعوت دی جاتی ۔نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےجب معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کویمن کی جانب (دعوت کی غرض سے) ارسال فرمایا، تو انہيں یہی ہدایت فرمائیں:
’’إِنَّكَ تَأْتِي قَوْمًا مِنْ أَهْلِ الكِتَابِ، فَلْيَكُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ‘‘([2])
(یقیناً تم اہل کتاب کی ایک قوم کے پاس جا رہے ہیں،وہ سب سے پہلی بات جس کی طرف تم انہيں دعوت دو وہ لا الہ الا اللہ کی شہادت (گواہی ) ہو) ۔
اس سےمعلوم ہواآپ کوکہ دین میں اس کاکیامقام اورمرتبہ ہے،اورزندگی میں اس کی کیااہمیت ہے، اور یہ بندوں پرسب سےپہلاواجب ہے،کیوں کہ یہ وہ اساس اوربنیادہےجس پرتمام اعمال کی عمارت قائم ہوتی ہے۔
[1] أخرجه مسلم 23، وأحمد 6/394.
[2] أخرجه البخاري 1389، ومسلم 19، والترمذي 625، والنسائي 2435، وأبوداود 1584، وإبن ماجه 1783، وأحمد 1/233، والدارمي 1614.
(جس شخص نے لا الہ الا اللہ کا اقرار کر لیا اور اللہ تعالی کے سوا جن کی بھی عبادت کی جاتی ہےان سے کفر (انکار) کیا تو اس کا مال اور خون حرام ہوگیا اور اس کا (باقی) حساب اللہ تعالی کے سپرد ہے)۔
تویہ وہ اوّل چیزہےجس کامطالبہ کفارسےکیاجاتاہےجب اسلام کی طرف انہیں دعوت دی جاتی ۔نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےجب معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کویمن کی جانب (دعوت کی غرض سے) ارسال فرمایا، تو انہيں یہی ہدایت فرمائیں:
’’إِنَّكَ تَأْتِي قَوْمًا مِنْ أَهْلِ الكِتَابِ، فَلْيَكُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ‘‘([2])
(یقیناً تم اہل کتاب کی ایک قوم کے پاس جا رہے ہیں،وہ سب سے پہلی بات جس کی طرف تم انہيں دعوت دو وہ لا الہ الا اللہ کی شہادت (گواہی ) ہو) ۔
اس سےمعلوم ہواآپ کوکہ دین میں اس کاکیامقام اورمرتبہ ہے،اورزندگی میں اس کی کیااہمیت ہے، اور یہ بندوں پرسب سےپہلاواجب ہے،کیوں کہ یہ وہ اساس اوربنیادہےجس پرتمام اعمال کی عمارت قائم ہوتی ہے۔
[1] أخرجه مسلم 23، وأحمد 6/394.
[2] أخرجه البخاري 1389، ومسلم 19، والترمذي 625، والنسائي 2435، وأبوداود 1584، وإبن ماجه 1783، وأحمد 1/233، والدارمي 1614.
[Audios] Lessons from #Quraan Kareem 01 – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
پہلا درس: قرآن کریم میں توحید کا بیان
توحید کی اہمیت اور اس سے روگردانی کرنے کا انجام
Lessons from Qura'an Kareem 02 – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
توحید کا معنی
توحید کی اقسام
متکلمین اور فلاسفہ کی توحید
توحید کی تقسیم میں غلطی
انسانیت سے مطلوب توحید
Lessons from Qura'an Kareem 03 – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
قرآن کریم سے توحید کی تین اقسام کا بیان
توحید ربوبیت کو قرآن کریم میں بار بار دہرانے کی حکمت
Lessons from Qura'an Kareem 04 – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
آیۃ الکرسی میں توحید کا بیان
سورۃ الکافرون اور الاخلاص میں توحید کا بیان
سورۃ الزمر میں توحید کی انواع کا بیان
Lessons from Qura'an Kareem 05 – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
دوسرا درس: سورۃ الفاتحۃ
سورۂ فاتحہ کامقام ومنزلت
نماز میں اس کی قرأت کا حکم
سورۂ فاتحہ کے نام
تعداد ِآیات
استعاذہ (اعوذ باللہ) اور بسملہ (بسم اللہ) کی شرح
Lessons from Qura'an Kareem 06 – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
تفسیر آیات الفاتحہ
اس سورۃ کی فضیلت میں جو کچھ مروی ہے
اس سے مستنبط ہونے والے فوائد
Lessons from Qura'an Kareem 07 – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
تیسرا درس: سورۃ البقرۃ کی ابتدائی 20 آیات کی تفسیر
تمہید
قرآن کی ہدایت کے تعلق سے لوگوں کی 3 اقسام
اسلام میں نفاق کب آیا
Lessons from Qura'an Kareem 08 – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
چوتھادرس: قرآن کریم میں اسلام کے عمومی معنی کا بیان
اسلام کا معنی
ارکان اسلام
Lessons from Qura'an Kareem 09 – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
قرآن کریم میں اجمالی طور پر بیان کردہ ارکان اسلام کی سنت میں تفصیل
Lessons from Qura'an Kareem 10 – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
پانچواں درس: قرآن کریم میں ایمان کا بیان
دین کے مراتب کے بارے میں تمہید
ایمان کی تعریف
ارکان ایمان (تمہید)
Lessons from Qura'an Kareem 11 – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
ارکان ایمان (تفصیل)
ایمان واسلام سے متعلق مسائل
اسلام وایمان میں فرق
کس چیز سے ایمان مکمل ختم ہوجاتا ہے اور کس سے ناقص ہوتا ہے
Lessons from Qura'an Kareem 12 – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
چھٹا درس: قرآن کریم میں کفر وشرک کا بیان
تمہید
لغت اور شریعت میں کفر کا معنی
کفر کی اقسام وانواع
Lessons from Qura'an Kareem 13 – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
نفاق کی اقسام
شرک کا معنی
شرک کی انواع واقسام
شرک سے ڈرنے کا اور اس سے پرہیز کا وجوب اور اس کے دنیا وآخرت میں عظیم خطرات کا بیان
Lessons from Qura'an Kareem 14 – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
شرک وکفر میں فرق
نواقض الاسلام
ارتداد
Lessons from Qura'an Kareem 15 – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
ساتواں درس: امر بالمعروف ونہی عن المنکر
اس کی اہمیت کے بارے میں تمہید
قرآن کریم سے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے وجوب کے دلائل
Lessons from Qura'an Kareem 16 – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
قرآن کریم سے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے وجوب کے مزید دلائل
امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے مراتب
http://tawheedekhaalis.com/ftsermons/%D8%AF%D8%B1%D8%B3-%D9%82%D8%B1%D8%A2%D9%86-%DA%A9%D8%B1%DB%8C%D9%85-01-%D8%B4%DB%8C%D8%AE-%D8%B5%D8%A7%D9%84%D8%AD-%D8%A8%D9%86-%D9%81%D9%88%D8%B2%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%84%D9%81%D9%88%D8%B2%D8%A7/
پہلا درس: قرآن کریم میں توحید کا بیان
توحید کی اہمیت اور اس سے روگردانی کرنے کا انجام
Lessons from Qura'an Kareem 02 – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
توحید کا معنی
توحید کی اقسام
متکلمین اور فلاسفہ کی توحید
توحید کی تقسیم میں غلطی
انسانیت سے مطلوب توحید
Lessons from Qura'an Kareem 03 – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
قرآن کریم سے توحید کی تین اقسام کا بیان
توحید ربوبیت کو قرآن کریم میں بار بار دہرانے کی حکمت
Lessons from Qura'an Kareem 04 – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
آیۃ الکرسی میں توحید کا بیان
سورۃ الکافرون اور الاخلاص میں توحید کا بیان
سورۃ الزمر میں توحید کی انواع کا بیان
Lessons from Qura'an Kareem 05 – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
دوسرا درس: سورۃ الفاتحۃ
سورۂ فاتحہ کامقام ومنزلت
نماز میں اس کی قرأت کا حکم
سورۂ فاتحہ کے نام
تعداد ِآیات
استعاذہ (اعوذ باللہ) اور بسملہ (بسم اللہ) کی شرح
Lessons from Qura'an Kareem 06 – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
تفسیر آیات الفاتحہ
اس سورۃ کی فضیلت میں جو کچھ مروی ہے
اس سے مستنبط ہونے والے فوائد
Lessons from Qura'an Kareem 07 – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
تیسرا درس: سورۃ البقرۃ کی ابتدائی 20 آیات کی تفسیر
تمہید
قرآن کی ہدایت کے تعلق سے لوگوں کی 3 اقسام
اسلام میں نفاق کب آیا
Lessons from Qura'an Kareem 08 – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
چوتھادرس: قرآن کریم میں اسلام کے عمومی معنی کا بیان
اسلام کا معنی
ارکان اسلام
Lessons from Qura'an Kareem 09 – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
قرآن کریم میں اجمالی طور پر بیان کردہ ارکان اسلام کی سنت میں تفصیل
Lessons from Qura'an Kareem 10 – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
پانچواں درس: قرآن کریم میں ایمان کا بیان
دین کے مراتب کے بارے میں تمہید
ایمان کی تعریف
ارکان ایمان (تمہید)
Lessons from Qura'an Kareem 11 – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
ارکان ایمان (تفصیل)
ایمان واسلام سے متعلق مسائل
اسلام وایمان میں فرق
کس چیز سے ایمان مکمل ختم ہوجاتا ہے اور کس سے ناقص ہوتا ہے
Lessons from Qura'an Kareem 12 – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
چھٹا درس: قرآن کریم میں کفر وشرک کا بیان
تمہید
لغت اور شریعت میں کفر کا معنی
کفر کی اقسام وانواع
Lessons from Qura'an Kareem 13 – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
نفاق کی اقسام
شرک کا معنی
شرک کی انواع واقسام
شرک سے ڈرنے کا اور اس سے پرہیز کا وجوب اور اس کے دنیا وآخرت میں عظیم خطرات کا بیان
Lessons from Qura'an Kareem 14 – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
شرک وکفر میں فرق
نواقض الاسلام
ارتداد
Lessons from Qura'an Kareem 15 – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
ساتواں درس: امر بالمعروف ونہی عن المنکر
اس کی اہمیت کے بارے میں تمہید
قرآن کریم سے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے وجوب کے دلائل
Lessons from Qura'an Kareem 16 – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
قرآن کریم سے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے وجوب کے مزید دلائل
امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے مراتب
http://tawheedekhaalis.com/ftsermons/%D8%AF%D8%B1%D8%B3-%D9%82%D8%B1%D8%A2%D9%86-%DA%A9%D8%B1%DB%8C%D9%85-01-%D8%B4%DB%8C%D8%AE-%D8%B5%D8%A7%D9%84%D8%AD-%D8%A8%D9%86-%D9%81%D9%88%D8%B2%D8%A7%D9%86-%D8%A7%D9%84%D9%81%D9%88%D8%B2%D8%A7/