Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.29K subscribers
2.49K photos
52 videos
211 files
4.94K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[Book] The noble status of the prophet 'Essa (#Jesus) (alayhis-salam) in Islaam – Shaykh Rabee' bin Hadee Al-Madkhalee
اسلام میں سیدنا #عیسی علیہ السلام کا مقام ومرتبہ – شیخ ربیع بن ہادی المدخلی

#SalafiUrduDawah
#christmas
فرمان باری تعالی ہے:

(يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ وَلَا تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ ۭاِنَّمَا الْمَسِيْحُ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَكَلِمَتُهٗ ۚ اَلْقٰىهَآ اِلٰي مَرْيَمَ وَرُوْحٌ مِّنْهُ ۡ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖ ڟ وَلَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَةٌ ۭاِنْتَھُوْا خَيْرًا لَّكُمْ ۭاِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ ۭسُبْحٰنَهٗٓ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗ وَلَدٌ ۘ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭوَكَفٰي بِاللّٰهِ وَكِيْلًا، لَنْ يَّسْتَنْكِفَ الْمَسِيْحُ اَنْ يَّكُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰهِ وَلَا الْمَلٰىِٕكَةُ الْمُقَرَّبُوْنَ ۭوَمَنْ يَّسْتَنْكِفْ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَيَسْتَكْبِرْ فَسَيَحْشُرُهُمْ اِلَيْهِ جَمِيْعًا) (النساء: 171-172)

(اے اہل کتاب! اپنے دین میں غلو نہ کرو (حد سے نہ گزرو) اور اللہ پر مت کہو مگر صرف حق بات۔ نہیں ہے مسیح عیسیٰ ابن مریم مگر اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ، جو اس نے مریم کی طرف بھیجا اور اس کی طرف سے ایک روح ہیں۔ پس اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور مت کہو کہ تین (خدا) ہیں، باز آجاؤ، تمہارے لیے یہی بہتر ہے۔ اللہ تو صرف ایک ہی معبود برحق ہے، وہ اس سے پاک ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ بطور وکیل کافی ہے، مسیح ہرگز اس سے کبھی عار نہ رکھتے کہ وہ اللہ کے بندے ہوں اور نہ مقرب فرشتے ہی، اور جو بھی اس کی بندگی سے عار رکھے اور تکبر کرے تو عنقریب وہ ان سب کو اپنی طرف اکٹھا کرے گا)

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/12/essa_islaam_muqam_martaba.pdf
شرکیہ عقیدہ - نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم #حاضر_ناظر ہیں
shirkiya aqeedah - nabi kareem #hazir_nazir hain

#shirk
#SalafiUrduDawah
Photo from Tariq Ali Brohi
دشمنوں سے کھانے پینے کی اشیاء کا #بائیکاٹ کرنا سیرت کے خلاف ہے
dushmano say khanay peenay ki products ka #boycott krna seerat k khilaf hai

#SalafiUrduDawah
[Article] The arrival of #Dajjal (#Anti_Christ) and the descending of #Essa (#Jesus) Alaihi Salam – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
خروجِ #دجال اور نزول ِسیدنا #عیسی علیہ الصلاۃ والسلام – شیخ ربیع بن ہادی المدخلی

#SalafiUrduDawah
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ "اصول السنۃ" میں فرماتے ہیں:

’’ مسیح دجال کے نکلنے پر ایمان لانا، اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہوگا، اور اس بارے میں وارد احادیث پر ایمان لانا، اور یہ ایمان لانا کہ ایساضرور ہونا ہے۔ اوربے شک سیدنا عیسی علیہ الصلاۃ والسلام نازل ہوں گے اور اس (دجال) کو بابِ لُدّ کے پاس قتل کریں گے‘‘۔

اس پر شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ کی شرح جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/khurooj_e_dajjal_nuzool_e_essa.pdf
[Article] Ruling regarding participating and cooperating in #Christmas? – Various 'Ulamaa

#کرسمس میں شرکت یا کسی بھی طور پر معاونت کرنے کا حکم؟

مختلف علماء کرام

ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی

مصدر: مختلف مصادر

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

#SalafiUrduDawah

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/12/christmas_shirkat_tawun_hukm.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ رحمہ اللہ کے فتاوی جلد 3 ص 105 میں ہے:

کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کافروں کی عیدوں میں شرکت کرے۔ خواہ وہ شرکت خود اس میں حاضر ہوکر ہویا انہیں اسے منانے کی اجازت دینے کی صورت میں ہو یا پھر ان کی عید کی مناسبت سے اشیاء ومواد کی خریدوفروخت کی صورت میں ہو۔

شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ نے وزیرِ تجارت کو خط بھی لکھا کہ:

محمد بن ابراہیم کی طرف سے جناب وزیر تجارت (اللہ آپ کو سلامت رکھے) کی طرف۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، وبعد:

ہمیں یہ اطلاع دی گئی ہے کہ بعض تاجرحضرات نے گزشتہ برس سال نو کے آغاز کے قریب مسیحیوں کی عید (کرسمس) کی مناسبت سے خاص گفٹ وتحائف درآمد کئے تھے۔ اور انہی تحائف میں کرسمس ٹری بھی تھا، جبکہ وطنی لوگ انہیں خرید کر ہمارے ملک میں بسنے والے مسیحی لوگوں کو ان کی عید کی مناسبت سے پیش کرتے ہیں۔

یہ بہت منکر بات ہے۔ ان کے لئے ایسا کرنا نہایت ہی غیر مناسب ہے۔ ہمیں شک نہیں کہ یقیناً اس کا ناجائز ہونا اور اہل علم نے مشرکین واہل کتاب کے کافروں کی عیدوں میں شرکت کی ممانعت پر جواتفاق فرمایا ہےآپ پر عیاں ہوگا۔ ۔۔ پس ہم آپ سے امید کرتے ہیں کہ ایسے تحائف اور جو اس ہی کی قبیل کے ہوں کی ہمارے ملک میں درآمد ملاحظہ فرمائیں گےجو کہ ان کی عیدوں کے خصائص میں سے ہے۔

شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا:

سوال: بعض مسلمان نصاری کی عید میں شرکت کرتے ہیں، اس بارے میں آپ کیا توجیہ فرمائیں گے؟

جواب: کسی مسلمان مردوعورت کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ نصاری یا یہود یا ان کے علاوہ بھی کسی کافر کی عیدوں میں شرکت کرے۔ بلکہ اس کا ترک کرنا (بائیکاٹ کرنا) واجب ہے۔ کیونکہ :

’’مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ‘‘([1])

(جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے)۔

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ان کی مشابہت اور ان کے اخلاق وعادات کو اپنانے سے منع فرمایا ہے۔ پس ایک مومن اور مومنہ کو چاہیے کہ وہ اس سے خبردار رہے۔ اور ان کے لئے کسی بھی صورت میں ان کی خلاف شریعت عیدوں میں معاونت جائز نہیں، نہ ان میں شرکت کی صورت میں، نہ ان لوگوں سے تعاون کی صورت میں، اور نہ ہی مدد ومساعدت کے طور پر، نہ چائے، نہ قہوہ اور نہ ہی اس کے علاوہ برتنوں وغیرہ کے ذریعے۔ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۠وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ﴾ (المائدۃ: 2)

(اور ایک دوسرے کے ساتھ نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں تعاون کرو، اور گناہ اورظلم وزیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کرو، اور اللہ تعالی سے ڈر جاؤ بے شک اللہ تعالی شدید عقاب والا ہے)

اورکافروں کی عیدوں میں ان کے ساتھ شرکت کرنا گناہ اور زیادتی میں تعاون ہی کی ایک قسم ہے۔

(مجموع فتاوى الشيخ ابن باز 6/405)

دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات وفتاوی، سعودی عرب سے سوال پوچھا گیا:

سوال: کیا غیر مسلموں کی عیدوں میں شرکت کی جاسکتی ہے، جیسے جشن میلاد سیدنا عیسی علیہ الصلاۃ والسلام (کرسمس)؟

جواب: کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ کافروں کی عیدوں میں ان کے ساتھ شرکت کرے اور اس مناسبت سے کسی بھی طرح کی خوشی ومسرت کا اظہار کرے، اور اپنے دینی یا دنیاوی کاموں کی چھٹی کرلے۔ کیونکہ اس میں اللہ تعالی کے دشمنوں سے مشابہت پائی جاتی ہے اور باطل میں ان کے ساتھ تعاون پایا جاتا ہے۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

’’مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ‘‘([2])

(جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے)۔

اور اللہ تعالی کا بھی فرمان ہے:

﴿وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۠وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ﴾ (المائدۃ: 2)

(اور ایک دوسرے کے ساتھ نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں تعاون کرو، اور گناہ اورظلم وزیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کرو، اور اللہ تعالی سے ڈر جاؤ بے شک اللہ تعالی شدید عقاب والا ہے)

اور ہم آپ کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ " کی کتاب ’’اقتضاء الصراط المستقيم‘‘ کی طرف رجوع کرنے کی نصیحت کرتے ہیں، جو کہ اس باب میں بہت مفید ہے۔

وبالله التوفيق ، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم۔
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء . فتوى رقم (2540).

[1] صحیح ابی داود 4031۔

[2] تخریج گذر چکی ہے۔
[Article] Ruling regarding congratulating on #Christmas? – Imaam Ibn-ul-Qayyam Al-Jawziyyah

#کرسمس کی مبارکباد دینا

شمس الدین ابو عبداللہ محمد بن ابی بکر ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ المتوفی سن 751ھ

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: أحكام أهل الذمة 1/723-724

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

#SalafiUrduDawah

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/12/christmas_mubarakbad_dayna.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

امام ابن القیم رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’أحكام أهل الذمة‘‘ میں فرماتے ہیں:

کافروں کے مخصوص شعائر وتہواروں میں انہیں مبارکباد دینا حرام ہے جیسے ان کی عید یاان کے روزوں کے موقع پر کہنا کہ آپ کو عید مبارک ہو وغیرہ ۔ ایسا کام کرنے والے پر اگرچہ کفر کا فتوی نہ بھی لگے لیکن پھر بھی بہرحال یہ محرمات میں سے تو ہے۔ یہ تو ایسا ہے کہ جیسے کسی کو صلیب کو سجدہ کرنے پر مبارکباد دی جائے اور ایسی مبارکباد تو کسی کو شراب نوشی، ناحق قتل کرنے اور زنا کرنے پر مبارکباد دینے سے بھی بدتر فعل ہے۔ لیکن بہت سے ایسے لوگ جودین کو کوئی وقعت نہیں دیتے اس قسم کے امور میں واقع ہوتے ہیں، اور اپنے اس فعل کی قباحت تک سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ چناچہ جس شخص نے بھی کسی بندے کو گناہ، بدعت یا کفر پر مبارکباد دی تو گویا اس نے اللہ کے غیض وغضب کا اپنے آپ کو حقدار ٹھہرا لیا۔

مزید فرماتے ہیں:

اہل علم كا اتفاق ہے كہ مسلمانوں كےليے مشركوں كی عيدوں ميں شركت كرنا جائزنہيں ہے، اور مذاہب اربعہ كےفقہاء نےبھی اپنی كتب ميں اس كی صراحت كی ہے…. اور امام بيہقی " نےصحيح سند كےساتھ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روايت كيا ہے كہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےكہا:

’’وَلا تَدْخُلُوا عَلَى الْمُشْرِكِينَ فِي كَنَائِسِهِمْ يَوْمَ عِيدِهِمْ، فَإِنَّ السَّخْطَةَ تَنْزِلُ عَلَيْهِمْ‘‘([1])

(مشركوں كی عيد كےدن ان كےگرجا گھروں(چرچ) ميں مشركوں كےپاس نہ جاؤ كيونكہ ان پر(اللہ کی) ناراضگی اور غصہ نازل ہوتا ہے)۔

اورسیدنا عمر رضی اللہ عنہ كا يہ بھی قول ہےكہ:

’’اجْتَنِبُوا أَعْدَاءَ اللَّهِ فِي عِيدِهِمْ‘‘([2])

(اللہ كےدشمنوں سےان كی عيدوں ميں اجتناب كيا كرو)۔

اور امام بيہقی رحمہ اللہ نے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے جيد سند كےساتھ روايت كيا ہے كہ انہوں نےفرمایا:

’’من مَرَّ ببلاد الأعاجم فصنع نيروزهم ومهرجانهم وتشبه بهم حتى يموت وهو كذلك حشر معهم يوم القيامة‘‘([3])

(جو كوئی بھی عجميوں كےملك سےگزرا اور اس نےان كے نيروز اور مہرجان([4]) كےجشن منائے اورموت تك ان سےمشابہت اختيار كئے رکھی تو وہ روز قيامت بھی ان كےساتھ اٹھايا جائےگا )۔

[1] السنن الکبری للبیھقی 9/234۔

[2] السنن الکبری للبیھقی 9/234۔

[3] السنن الکبری للبیھقی 9/234 میں یہ الفاظ ہیں: ’’مَنْ بَنَى بِبِلادِ الأَعَاجِمِ وَصَنَعَ نَيْرُوزَهُمْ وَمِهْرَجَانَهُمْ وَتَشَبَّهَ بِهِمْ، حَتَّى يَمُوتَ، وَهُوَ كَذَلِكَ حُشِرَ مَعَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ‘‘۔

[4] جسے فارسی مجوس اور ایرانی مناتے ہیں۔
[1] جیسا کہ تبلیغی جماعت والوں نے سعودی علماء کرام سے اپنی تائید میں اسی قسم کی باتيں ظاہر کرکے پہلے فتاویٰ لیے تھے، بعد ازیں ان کی حقیقت واضح کی گئی تو ان کا تفصیلی رد کیا گیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیں ہماری ویب سائٹ پر شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ کی کتاب ”تبلیغی جماعت کے بارے میں علماء اہل سنت کے اقوال“۔ (توحیدخالص ڈاٹ کام)
[Article] A detailed #criticism by the one who has knowledge is given precedence over general praise - Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee

عام تعدیل پر جاننے والے کی #جرح مقدم ہے

فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ

(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: فتاوى الشيخ ربيع المدخلي حفظه الله [ ج 1 ص 250 ]۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/12/aam_tadeel_ilmi_jarh_muqaddam.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال:سائل کہتا ہے کیا یہ قاعدہ کہ: ”الجرح المفسر (مقدم) على التعديل المبهم“ (جرح مفسر (تفصیلی تنقید) تعدیل (تعریف)مبہم پر فوقیت رکھتی ہے) علماء کے نزدیک اتفاقی قاعدہ ہے، اور کیا اس کی تطبیق اسلامی جماعتوں پر کی جاسکتی ہے، کیونکہ بعض اہل علم نے ان جماعتوں کی تعدیل کی ہے جبکہ بعض نے جرح کی ہے، پس کیا ہم جرح کرنے والے کو تعدیل کرنے والے پر مقدم کریں گے، کیونکہ اس کے پاس (ان کے حال کا) زیادہ علم ہے ؟

جواب: جی، یہ منہج قائم ہے اور تاقیامت چلتا رہے گا، ان شاء اللہ۔ کیونکہ یہ وہ صحیح اسلامی منہج ہے جس پر مسلمانوں کی حیات قائم ہے، اسی پر ان کا دین قائم ہے، اور اسی کے ذریعے ان کے دین، عزت اور اموال کی حفاظت ہوتی ہے۔ اسلام میں یہ عظیم منہج ہے، اس کی شان سوائے فاسد تصور و فکر رکھنے والے منحرف شخص کے کوئی نہيں گرا سکتا۔

جی ہاں یہ منہج آج کی جماعتوں پر بھی لاگو ہوگا۔ ہوسکتا ہے کوئی شخص ان کا تزکیہ دے ،وہ خود تو فاضل شخص ہو مگر اس تزکیے کی بنیاد بس ان کا ظاہر ہو، حالانکہ وہ اس قوم کی حقیقت پوری طرح سے نہ جانتا ہو۔ مگر کوئی دوسرا شخص آتا ہے اور وہ ان کی کتب پڑھتا ہے ان کی حقیقت حال کا مشاہدہ کرتا ہے تو پاتا ہے کہ جس نے ان کاتزکیہ دیا تھا وہ انجانے میں غلطی میں واقع ہوا ہے، پس اس نے بس ظاہر دیکھ کر تزکیہ دے دیا۔

اور ایسا ہوجاتا ہے آئمہ کبار تک کے ساتھ ہوتا ہے۔ کتنے ہی ایسے انسان ہيں جن کی امام احمد : نے تعدیل کی لیکن ان کے تلامیذ نے جو کہ ان کے مرتبے تک نہيں پہنچتے ان لوگوں کے پاس جو کچھ ہے اسے جانا اور ان کے بارے جو قدح و جرح ہے اسے بیان کیا اور انہيں ساقط قرار دیا، اگرچہ ان کا تزکیہ امام احمد : دے چکے تھے۔ اسی طرح سے امام الشافعی : نے کچھ لوگوں کا تزکیہ بیان کیا لیکن دوسروں نے ان کی جرح کی۔ لہذا ان کی جرح مفسر جو کہ حقیقت کی معرفت پر قائم ہے کو ان آئمہ کے اقوال پر مقدم کیا گیا کہ جنہوں نے جو کچھ ان کے سامنے ظاہر تھا اس بنیاد پر تزکیہ بیان فرمایا۔

آج کوئی انسان آتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ وہ طالبعلم ہے، اور بظاہر دین داری ، عبادت گزاری وعمدہ اخلاق کا مظاہرہ کرتا ہے، اور آپ کے پاس کچھ دن بیٹھتا اور ٹکتا ہے تو آپ اس کے ظاہر پر ہی حکم کی بنیاد رکھتے ہو۔ خود میں نے واللہ! اس سال کئی لوگوں کا تزکیہ بیان کیا، واللہ! میرے ساتھ وہ لگے رہے ماشاء اللہ کیا دین داری و عبادت گزاری وغیرہ آخر تک ظاہر کرتے رہے۔۔۔لیکن بعد میں میرے سامنے ان کی جرح ظاہر ہوئی۔اگر میرے سامنے کوئی نمازپڑھے گا، زکوٰة دے گا، ذکر الہی کرے گا، میرےساتھ سفر کرے گا۔۔۔الخ تو میں جو دیکھوں گا اس کے مطابق ہی گواہی دوں گا، اور اللہ تعالی کے سامنے تو ہم کسی کی پارسائی بیان نہيں کرسکتے (کیونکہ وہ ظاہر اور پوشیدہ سب کچھ جانتا ہے)۔ لیکن کوئی دوسرا شخص آتا ہے جو اسے مجھ سے زیادہ جانتا ہے، ا س کے سامنے وہ غلطیاں آشکارا ہوتی ہیں اور ایسی باتیں آشکارا ہوتی ہیں جو اس کی عدالت پر قدح کا سبب بنتی ہیں، پس وہ علم کی روشنی میں جرح کرے گا اور اپنی اس جرح کو وہ دلائل کے ساتھ ثابت کرے گا اور اپنی جرح کی تفسیر و تفصیل بیان کرے گا، تو اس کی جرح میری تعدیل پر مقدم ہوگی، اور میں اسے تسلیم کروں گا۔ اس نے اس شخص کی جرح پر دلائل پیش کیے تو فی الواقع حق اس کے ساتھ ہے۔

چناچہ کوئی جماعت علماء میں سے کسی عالم کے پاس آتی ہے اور کہتی ہے: واللہ! ہم اہل سنت میں سے ہيں، اور ہم توحید کی طرف دعوت دیتے اور شرک کے خلاف اور قبرپرستی کے خلاف لڑتے ہيں اور یہ یہ کرتے ہيں۔ اور وہ ان میں خیر و صلاح دیکھتا ہے تو ان کے لیے ایسا کچھ لکھ دیتا ہے جو ان کی معاونت کرے، جیسے بے شک وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دعوت دیتےہيں۔ لیکن پھر طلاب العلم میں سے کچھ لوگ جب ان کے ساتھ چلتے ہيں، میل ملاپ کرتے ہيں تو پاتے ہیں کہ حقیقت بالکل مختلف ہے، او ریہ لوگ اہل بدعت میں سے ہيں اور بلاشبہ یہ تو صوفیوں اور خرافیوں میں سے ہیں)[1](۔ اور وہ اپنی باتوں پر دلائل بھی پیش کرتے ہيں تو ان کی تصدیق کی جاتی ہے، اور میرے تعدیل پر یا اس عالم کی تعدیل پر اسے فوقیت دی جاتی ہے۔ یہ عمومی قاعدہ ہے اور افراد و جماعتوں کے تعلق سےتاقیامت ہمیشہ جاری و ساری رہے گا ان شاء اللہ۔
[Article] Does anyone make Shaykh #Rabee #Al_Madkhalee (hafidaullaah) to say anything?!

کیا شیخ #ربیع #المدخلی حفظہ اللہ سے کوئی بھی سوال کرکے کچھ بھی کہلوا لیتا ہے؟!

فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ

(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: بهجة القاري بفوائد منهجية و دروس تربوية من كتاب الاعتصام بالكتاب و السنة من صحيح البخاري، س 17 ص 98۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/12/sh_rabee_sawal_kuch_bhi_kehalwa_dayna.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال:آپ کی ان لوگوں کے بارے میں کیا رائے ہے کہ جو آپ سے فون کے ذریعے رابطہ کرتے ہيں اور مسائل آپ کے سامنے پیش کرتے ہيں۔ یہ بات علم میں رہے کہ وہ سوال نقل کرنے کی صحیح اہلیت نہیں رکھتے بلکہ سوال جیسا ہوتا ہے بالکل ویسے نقل ہی نہيں کرتے، پھر جو کچھ آپ جواب مرحمت فرماتے ہيں اسے وہ مختلف کتابچوں میں شائع کرتے پھرتے ہيں، یہ کہتے ہوئے کہ شیخ نے یہ یہ فرمایا۔ پس آپ ہمیں کیا نصیحت کرتے ہیں؟

جواب: میں جاننا چاہتا ہوں آخر انہوں نے کتنے مسائل مجھ سے نقل کیے ہیں۔ یہ جو کہہ رہا ہے کہ مجھ سے وہ مسائل نقل کرتے ہيں اور نشر کرتے ہيں، اگر یہ شخص مجھے بتادے تو یہ میرے لیے نصیحت ہوگی۔ (یعنی اس کے مطابق) میرے پاس مسائل (سوالات) ہیں جن کا میں نے جواب دیا ہے لیکن انہوں نے مجھ پر اس بارے میں مغالطہ کیا ہے پھر میری طرف سے اسے نشر بھی کردیا ہے، آخر انہوں نے ایسا کیا کیسے؟ لہذا میں جاننا چاہتا ہوں ، ورنہ تو سائل نے خودسے یہ چیزیں اختراع کرلی ہيں اور جو وہ کہہ رہا ہے اس کی کوئی اساس و بنیاد نہيں۔ (یعنی شیخ سے مطلبی سوال کرکے کوئی بھی کچھ بھی کہلوا لیتا ہے ایسا نہیں ہے)

میں فالح (الحربی) کے فتنے کی شروعات سے لے کر آج تک سوالات کے جواب ہی نہیں دیتا، فون کی گھنٹی بجتی رہتی ہے جواب نہیں دیتا سوائے بہت ہی شاذ و نادر جب سوال شخصیات کے متعلق نہيں ہوتا۔ لہذا اے سائل اگر تم واقعی سچے ہو تو بتاؤ فلاں فلاں مسئلہ یا سوال ہے (جو تمہارے مطابق مجھ سے کہلوا لیا جاتا ہے)، یہ خوف کیوں ہے تمہیں؟ کیا تم میرے پاس کوئی کوڑا یا ڈنڈا پڑا ہوا دیکھتے ہو؟ واللہ! میں اسے نصیحت تصور کروں گا اگر تم مجھے خبرکردو (کہ سوال کیا تھا)، مجھ جتنا کوئی بھی سوالات سے پرہیز نہيں کرتا، واللہ! بے شک میں کلام کرنا چھوڑ دیتا ہوں تاکہ فتنہ نہ بڑھے، سب سے بڑھ کر حرص رکھتا ہوں کہ فتنوں کے ابواب کو بند کردیا جائے۔

ایک زمانہ ہوا کہ جب میں ان کو جوابات دیا کرتا تھا، لیکن جب فتنے کی کثرت ہوگئی تو کبھی کبھار ہی سائل کو جواب دیتا ہوں اور کہتا ہوں: تم نے لوگوں کو فتنے میں ڈال رکھا ہے اور تمہارا فتنہ لوگوں کے لیے نقصان کا سبب بن رہا ہے، پس میں جواب ہی نہيں دیتا یا اس قسم کی بات کرتا ہوں۔ کبھی تو میں فون کی گھنٹی سنتا ہوں بجتی رہتی ہے لیکن واللہ میں اسے ریسیو ہی نہيں کرتا۔

لہذا جس کسی نے یہ کلام لکھا ہے اس کے پاس کچھ ہے نہیں ، واللہ اعلم، بلکہ وہ بس چاہتا ہے کہ مجھے مغالطے میں مبتلا رکھے، یہ مغالطہ آرائی ہے، وہ چاہتا ہے کہ میں کہہ دوں: (ہاں) لوگ مجھے پر جھوٹ باندھتے ہیں ، یا اس طرح کا کلام (یا مجھ سے کسی کے حق میں یا خلاف غلط باتيں کہلوا لیتے ہیں)۔
[Article] Ruling regarding calling a #Christian as my Christian brother – Various 'Ulamaa

ہمارے #مسیحی یا ہمارے عیسائی بھائی کہنے کا حکم

مختلف علماء کرام

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: مختلف مصادر

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

#SalafiUrduDawah

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/12/nasara_ko_bhai_kehna.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کافر مسلمان کا کبھی بھی بھائی نہیں ہوتا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ﴾ (الحجرات: 10)

(مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں یا صرف مومن ہی تو آپس میں بھائی بھائی ہیں)

اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ‘‘([1])

(مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے)۔

لہذا کافر چاہے یہودی ہو، یا نصرانی، بت پرست، مجوسی، کمیونسٹ وغیرہ مسلمان کا بھائی نہیں ہوتا، جائز نہیں کہ اسے اپنا یار ودوست بنایا جائے۔

(فتاوی شیخ ابن باز 6/392)

شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کافر کو’’بھائی‘‘ کہنا کیسا ہے؟

شیخ رحمہ اللہ نے جواب ارشاد فرمایا کہ: کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کافر کو چاہے کسی بھی نوعیت کا کافر ہو خواہ نصرانی ہو یا یہودی، مجوسی ہو یا ملحد، قطعاًجائز نہیں کہ اسے اپنا بھائی کہے۔ اے بھائی تمہیں اس قسم کی عبارت استعمال کرنے سے خبردار رہنا چاہیے، کیونکہ کبھی بھی ایک مسلمان اور کافر میں اخوت (بھائی چارگی) نہیں ہوسکتی۔ اخوت تو دراصل ایمانی اخوت ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ﴾ (الحجرات: 10)

(مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں یا صرف مومن ہی تو آپس میں بھائی بھائی ہیں)

(مجموع فتاوی الشیخ ابن عثیمین 3/43)

[1] صحیح بخاری 2442، صحیح مسلم 2565۔
[Article] Ruling regarding having more than one #ruler for Muslim ‘Ummah - Shaykh Abdus Salaam bin #Burjus Aal-Abdul Kareem

ایک سے زائد آئمہ یا خلیفہ ہونا صحیح ہے، اور ہر امام (#حکمران/خلیفہ) کا اپنے ملک میں وہی امام اعظم والا حکم ہوگا

فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بن #برجس آل عبدالکریم رحمہ اللہ المتوفی سن 1425ھ

( سابق مساعد استاد المعھد العالي للقضاء، الریاض)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: معاملۃ الحکام فی ضوء الکتاب والسنۃ۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

#SalafiUrduDawah

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/01/aik_say_zada_imam_hakim_hukm.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

’’ومن لم يفرق بين حالي الاختيار والاضطرار، فقد جهل المعقول والمنقول‘‘([1])

(جو شخص حالتِ اختیار اور اضطرار(مجبوری) میں فرق نہیں کرتا تو وہ معقول (عقل) اور منقول (شریعت) سے جہالت میں مبتلا ہے)۔

شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’الأئمة مجموعون من كل مذهب على أن من تغلب على بلد – أو بلدان – له حكم الإمام في جميع الأشياء ولولا هذا ما استقامت الدنيا، لأن الناس من زمن طويل – قبل الإمام أحمد إلي يومنا هذا – ما اجتمعوا على إمام واحد ولا يعرفون أحداً من العلماء ذكر أن شيئا من الأحكام لا يصح إلا بالإمام الأعظم‘‘([2])

(ہر مذہب کے آئمہ کرام اس بات پر متفق ہیں کہ جو کوئی بھی کسی ایک یا اس سے زائد ممالک پر غالب آجائے تو تمام چیزوں کے بارے میں اس کا حکم امام (امام اعظم/خلیفہ) کا ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کبھی بھی یہ دنیا کے امور استقامت پر نہیں آسکتے تھے، کیونکہ لوگ تو ایک زمانۂ طویل سے یعنی امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے دور سے پہلے سےلے کر اب تک کسی ایک امام وخلیفہ پر تو کبھی متفق ہوئے ہی نہیں۔ اس کے باوجود ہمیں نہیں معلوم کہ کسی عالم نے یہ کہا ہو کہ (خلیفہ یا امام کے تعلق سے دینی) احکام جب تک امام اعظم (یعنی تمام مسلم دنیا کا ایک ہی خلیفہ) نہ ہو تو ان پر عمل درست نہیں)۔

اور علامہ امیر الصنعانی رحمہ اللہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس مرفوع حدیث کے شرح میں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ e نے فرمایا:

’’مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَةِ وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ فَمَاتَ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً‘‘([3])

(جواطاعت سے نکل گیا اور جماعت کو چھوڑ دیا اور اسی حال میں مرا، تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی)۔

’’قوله : ((عن الطاعة ))، أي : طاعة الخليفة الذي وقع الاجتماع عليه ،وكأن المراد خليفة أي قطر من الأقطار، إذ لم يجمع الناس على خليفة في جميع البلاد الإسلامية من أثناء الدولة العباسية بل استقل أهل كل إقليم بقائم بأمورهم، إذ لو حمل الحديث على خليفة أجتمع عليه أهل الإسلام، لقلت فائدته. وقوله : (( وفارق الجماعة ))، أي : خرج عن الجماعة الذين اتفقوا على طاعة إمام انتظم به شملهم واجتمعت به كلمتهم وحاطهم عن عدوهم‘‘([4])

آپ e کا یہ فرمانا: ’’عن الطاعة‘‘ (اطاعت سے نکل گیا) یعنی خلیفہ کی اطاعت سے نکل گیا کہ جس پر سب کا اجتماع ہوگیا ہو اورگویا کہ اس سے مراد یہ بھی ہے کہ خطوں میں سے کسی خطے کا اپنا خلیفہ کیونکہ دولت عباسیہ کے وقت تمام اسلامی ممالک کسی ایک خلیفہ پر تو مجتمع نہ تھے۔ بلکہ ہر صوبے کے لوگ اپنے ولی امر کے ساتھ مستقل ریاست تھے۔ کیونکہ اگر اس حدیث کو ایسے خلیفہ سے ہی محدود کردیا جائے کہ جس پر تمام اہل اسلام مجتمع ومتفق ہوں تو اس کی افادیت میں کمی ہوجائے گی۔ اور آپ e کا یہ فرمانا: ’’وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ‘‘ (اور جماعت سے الگ ہوگیا) یعنی ان لوگوں کی جماعت سے نکل گیا کہ جو اس ایک حکمران وامام پر مجتمع ومتفق تھے کہ جو ان کی شان وشوکت کو منتظم، ان کے کلمے کو مجتمع اور ان کے دشمنوں سے ان کا دفاع کرنے والا تھا)۔

علامہ الشوکانی رحمہ اللہ مصنف کتاب ”الازھار“ کے اس قول کہ ”ولا يصح إمامان“ (دو امام (خلیفہ/حکمران) ہونے جائز نہیں) کی شرح میں فرماتے ہیں:
’’وأما بعد انتشار الإسلام واتساع رقعته وتباعد أطرافه، فمعلوم أنه قد صار في كل قطر – أو أقطار – الولاية إلي إمام أو سلطان، وفي القطر الآخر كذلك، ولا ينعقد لبعضهم أمر ولا نهي في قطر الآخر وأقطاره التي رجعت إلى ولايته. فلا بأس بتعدد الأئمة والسلاطين ويجب الطاعة لكل واحد منهم بعد البيعة له على أهل القطر الذي ينفذ فيه أوامره ونواهيه،وكذلك صاحب القطر الآخر. فإذا قام من ينازعه في القطر الذي ثبت فيه ولايته، وبايعه أهله، كان الحكم فيه أن يقتل إذا لم يتب. ولا تجب على أهل القطر الآخر طاعته، ولا الدخول تحت ولايته، لتباعد الأقطار، فأنه قد لا يبلغ إلي ما تباعد منها خبر إمامها أو سلطانها، ولا يدري من قام منهم أو مات، فالتكليف بالطاعة والحال هذا تكليف بما لا يطاق. وهذا معلوم لكل من له إطلاع على أحوال العباد والبلاد .... فاعرف هذا، فإنه المناسب للقواعد الشرعية، والمطابق لما تدل عليه الأدلة، ودع عنك ما يقال في مخالفته، فإن الفرق بين ما كانت عليه الولاية الإسلامية في أول الإسلام وما هي عليه الآن أوضح من شمس النهار. ومن أنكر هذا، فهو مباهت ولا يستحق أن يخاطب بالحجة لأنه لا يعقلها‘‘([5])

(لیکن اسلام کے انتشار وچار سو پھیل جانے، اس کے زیرسایہ ممالک کی توسیع ہوجانے، اور اس کے اکناف واطراف میں کافی دوری ومسافت ہوجانے کے باعث اب ہر علاقے یا ملک کی ولایت اس کے امام یا سلطان کی ہوگی، اور اسی طرح سے کسی دوسرے ملک یا علاقے کی بھی اپنی حکومت وولایت ہوگی کسی دوسرے علاقے کی حکومت کا امر یا نہی کسی غیرملک پر نافذ نہیں ہوگا بلکہ ہر ملک والے کو اپنی ولایت یا حکومت کی جانب ہی رجوع کرنا چاہیے۔ متعدد آئمہ وسلاطین ہونے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ ان میں سے ہر ایک کی اپنی بیعت ہوجانے کے بعد اس کے ملک میں اسی کے اوامر ونواہی نافذ ہوں گے، اسی طرح سے کسی دوسرے خطے یا ملک میں اس خطے کےحکمران وسلطان کے۔ اور اگر کوئی اس حاکم کے خلاف اس کے ملک میں بغاوت کرے کہ جہاں اس کی ولایت ثابت ہوچکی ہے اور وہاں کے لوگوں نے اس کی بیعت کرلی ہے، تو اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر وہ توبہ نہ کرے تو اسے قتل کردیا جائے۔ کسی دوسرے اسلامی ملک کے لوگوں پر اس کی اطاعت واجب نہیں اور نہ ہی اس کی ولایت وحکومت کے ماتحت ہونا ضروری ہے، کیونکہ ان کے مابین عظیم مسافت حائل ہے کہ جس کی وجہ سے اسے اپنے امام یا سلطان کی خبر ہی نہ ہوسکے، اور معلوم ہی نہ ہو کہ آیا وہ زندہ بھی ہے یا مرگیا ہے، اب اس حال میں اس طرح ایک ہی حکمران کی اطاعت کو سب پر لازم کرنا ایسی تکلیف یعنی شرعی فریضہ ہوگا جو کہ انسانی بساط وطاقت سے باہر ہوگا(جو کہ شریعت میں جائز نہیں)۔ اور یہ حقیقت تو ہر اس شخص پر آشکارا ہے کہ جو لوگوں اور ممالک کے حالات پر مطلع ہو۔ پس اسے اچھی طرح سے جان لیں۔ کیونکہ یہی شرعی قواعد کے اور دلائل جس بات پر دلالت کرتے ہیں کے زیادہ مناسب حال ہے۔ اور جو کوئی اس کی مخالفت میں بولے تو اس کی قطعی پرواہ نہ کرو، کیونکہ اول اسلام میں جو اسلامی ولایت وحکومت تھی اور اب جو اس کی حالت ہے اس میں واضح فرق ازہر من الشمس ہے۔ جو اس حقیقت کا انکاری ہو تو وہ بہت ہی بیکار وفضول شخص ہے کہ جو کسی حجت ودلیل سے مخاطب کیے جانے کے لائق ہی نہیں، کیونکہ وہ اسے سمجھ ہی نہیں سکتا)۔

پس مندرجہ بالا تین اقوال مجتہدین علماء امت کے اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ مجبوری واضطرار کی بیعت میں متعدد آئمہ وحکمران ہوسکتے ہیں، جسے انہوں نے شرعی ادلہ، مراعات قواعد اور مصالح کلیہ سے اخذ فرمایا ہے۔ اور ان سے پہلے بھی محققین علماء کرام کی ایک بڑی جماعت اس کی قائل گزر چکی ہے۔

ان میں سے علامہ ابن الازرق المالکی جو القدس کے قاضی تھے([6]) کا قول ہے:

’’أن شرط وحدة الإمام بحيث لا يكون هناك غيره لا يلزم مع تعذر الإمكان. قال بن عرفة – فيما حكاه الأبي عنه - : فلو بعد موضع الإمام حتى لا ينفذ حكمه في بعض الأقطار البعيدة، جاز نصب غيره في ذلك القطر. وللشيخ علم الدين – من علماء العصر بالديار المصرية - : يجوز ذلك للضرورة ...‘‘

(وحدت امام یعنی تمام مسلم دنیا کا ایک ہی حکمران ہواور اس کے علاوہ کوئی نہ ہو، اس قسم کی شرط لگانا لازم نہیں جب تک کہ یہ عذر موجود ہے کہ ہوسکتا ہے کہ کہیں اور کوئی دوسرا حاکم موجود ہو۔ ابن عرفہ سے الابی نے جو بیان کیا کہ: اگر امام جہاں موجود ہے وہاں سے کوئی علاقہ یا ملک بہت طویل مسافت پر ہو کہ اس کا حکم ان دور دراز کے علاقوں میں چل ہی نہیں سکتا تو اس ملک میں کسی دوسرے کو حاکم بنادینا جائز ہے۔ شیخ علم الدین جو مصر کے معاصرین علماء کرام میں سے ہیں بھی فرماتے ہیں کہ: ایسا ضرورت کے تحت کرنا جائز ہے۔۔۔)۔

اسی طرح سے علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اس مسئلہ پر اختلاف نقل فرمایا ہے۔ اورجمہور کا قول نقل فرمایا جو عدم جواز کے قائل ہیں، پھر فرمایا:
’’وحكي إمام الحرمين عن الأستاذ أبي إسحاق أنه جوز نصب إمامين فأكثر إذا تباعدت الأقطار، واتسعت الأقاليم بينهما، وتردد إمام الحرمين في ذلك .قلت : وهذا يشبه حال الخلفاء من بني العباس بالعراق والفاطميين بمصر والأمويين بالمغرب...“([7])

(امام الحرمین اپنے استاذ ابی اسحاق سے بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک سے زائد امام نصب کرنے کےجواز کے قائل ہیں اگر ان کے علاقوں میں بہت فاصلہ ہو اور درمیان میں بہت وسیع وعریض خطے حائل ہوں،جبکہ خود امام الحرمین اس بارے میں تردد کا شکار ہیں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ حال تو بنی عباس کے خلفاء جو عراق میں ہیں، فاطمیوں کے جو مصر میں ہیں اور امویوں کے جو مغرب میں ہیں کہ مشابہ ہے۔۔۔)۔

اور المازری ’’المعلم“ ([8]) میں فرماتے ہیں:

’’العقد لإمامين في عصر واحد لا يجوز وقد أشار بعض المتأخرين من أهل الأصول إلي أن ديار المسلمين إذا اتسعت وتباعدت، وكان بعض الأطراف لا يصل إليه خبر الإمام ولا تدبيره حتى يضطروا إلي إقامة إمام يدبرهم، فإن ذلك يسوغ لهم‘‘

(ایک ہی زمانے میں دواماموں کی بیعت کرنا جائز نہیں۔ اہل اصول میں سے بعض متاخرین نے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ جب مسلم ممالک بہت پھیل جائیں اور باہم مسافتیں کافی بڑھ جائیں۔ یہاں تک کہ مسلم دنیا کے بعض اطراف کو خبر ہی نہ ہو کہ امام کہاں ہے کیا کچھ کررہا ہے،بایں صورت وہ اس بات پر مجبور ہیں کہ اپنا کوئی امام مقرر کرلیں جو ان کے امور کی تدبیر کرے، کیونکہ ایسا کرنا اس صورت میں ان کے لیے جائز ہوگا)۔

ان واضح نقول سے ان بعض محققین اہل علم کے مؤقف کی تائید بالکل ظاہر ہوجاتی ہے جو ضرورت وحاجت کے تحت متعدد آئمہ وحکمرانوں کے جواز کے قائل ہیں۔

لہذا ان متعدد آئمہ کے لیے بھی وہی شرعی احکام نافذ ہوجاتے ہیں جو ایک امام اعظم کے ہوتے ہیں کہ وہ حدود کا نفاذ کرسکتا ہے، اور اس کی سماعت واطاعت کی جائے گی اور اس پر خروج حرام ہوگا۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’والسنة أن يكون للمسلمين إمام واحد والباقون نوابه، فإذا فرض أن الأمة خرجت عن ذلك لمعصية من بعضها، وعجز من الباقين - - فكان لها عدة أئمة، لكان يجب على كل إمام أن يقيم الحدود، ويستوفي الحقوق ....‘‘([9])

(سنت تو یہی ہے کہ مسلمانوں کا ایک ہی امام وخلیفہ ہو اور باقی سب اس کے وزراء یا نائبین ہوں۔ لیکن اگر بالفرض امت کے بعض گنہگاروں کی اور باقیوں کے عاجز ہونے کی وجہ سے امت اس ایک امام کی امامت سے نکل جاتی ہے اور اس کے متعدد آئمہ بن جاتے ہیں۔ تو پھر ہر امام وحکمران پر یہ واجب ہوگا کہ وہ حدود کو قائم کرے اور حقوق کو ادا کرے۔۔۔)۔



[1] العواصم والقواصم فی الذب عن سنۃ ابی القاسم: (8/174)، ط۔ مؤسسۃ الرسالۃ، انہوں نے اس جملے کی تائید میں جو عقلی اور نقلی دلائل بیان کیے ہیں ان کی جانب رجوع کیا جائے۔

[2] الدرر السنیۃ فی الاجوبۃ النجدیۃ 7/239۔

[3] اخرجہ مسلم فی "صحیحہ" – کتاب الامارۃ-: (3/1472)۔

[4] سبل السلام شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام: (3/499)، ط۔ جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیۃ۔

[5] السیل الجرار المتدفق علی حدائق الازھار: (4/512)۔

[6] فی کتابہ "بدائع السلک فی طبائع الملک": (1/76-77) ط۔ العراق، تحقیق الدکتور علی النشار۔

[7] تفسیر ابن کثیر: (1/74)، ط 1۔ مکتبۃ النھضۃ بمکۃ المکرمۃ۔

[8] المعلم بفوائد مسلم (3/35-36)۔

[9] مجموع الفتاوی: (35/175-176)۔
[Article] #Christians are the #blasphemers of Allaah and His messengers – Imaam Ibn-ul-Qayyam Al-Jawziyyah

#نصاری کی اللہ تعالی اور انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی شان میں #گستاخی

شمس الدین ابو عبداللہ محمد بن ابی بکر ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ المتوفی سن 751ھ

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: إغاثة اللهفان من مصايد الشيطان ص 282-284۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

#SalafiUrduDawah

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/12/nasara_gustakh_e_ilahee.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یہ بات معلوم ہے کہ اس امت نصاری نے دو ایسی عظیم برائیوں کا ارتکاب کیا ہے، جس سے کوئی بھی عقل ومعرفت رکھنے والے راضی نہیں ہوسکتے۔

اول: مخلوق کے بارے میں غلو کرنا یہاں تک کہ اسے خالق کا شریک اور اس کا جزء بنادینا اور اس کے ساتھ ایک اور معبود بنادینا، ساتھ ہی اس بات کا انکار کیا کہ وہ اس کے بندے ہیں۔

دوم: خالق کی تنقیص کرنا اور اسے گالی دینا، اور بہت ہی غلیظ وگندی باتوں سے اسے متصف کرنا، جیسا کہ ان کا باطل گمان ہے (اور اللہ تعالی تو ان کے اس قول سے بہت پاک وبلند ہے) کہ اللہ تعالی عرش و اپنی عظمت والی کرسی سے نازل ہوا اور ایک عورت کی فرج میں داخل ہوا، اور وہاں نوماہ پیشاب وخون وگندگی میں لپ پت رہا۔ پھر اس کے سبب سے رحم مادر کو نفاس لاحق ہوا، پھر جہاں سے داخل ہوا تھا وہیں سے خارج ہوا۔ نومولود بچہ تھا جو ماں کی چھاتیوں سے دودھ پیتا تھا، بچوں کے کپڑوں میں لپیٹا گیا، بستر پر لیٹا، جو روتا ہے اور بھوکا ہوتا ہے، پیاسا ہوتا ہے، بول وبراز کرتا ہے، جسے ہاتھوں اور کاندھوں پر اٹھایا جاتا ہے۔پھر یہود نے اسے تھپڑ تک رسید کرکے اس کے ہاتھ باندھ کر اس کے چہرے پر تھوک کر بندھے ہاتھوں دھکا دیتے ہوئے کھلم کھلا سب چور ڈاکوؤں کے سامنے پھانسی پر چڑھا دیا۔انہی کانٹوں بھرا تاج پہنا دیا، بڑی سخت اذیت کا مزہ چکھایا، یہ ہے ان کے نزدیک معبود برحق جس کے ہاتھ میں تمام جہانوں کی باگ ڈور ہے! یہ ہے ان کا معبود ومسجود!

اللہ کی قسم! یہ تو ایسی قبیح ترین گالی ہے جو ان سے پہلے انسانیت میں سے کسی نے نہ دی ہوگی اور نہ بعد میں۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا، أَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا ﴾ (مریم: 90-91)

(قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑے اور زمین پھٹ پڑے اور پہاڑ ٹل جائیں کہ انہوں نے رحمن کی اولاد قرارد ی)

اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رب کی نسبت سے اسے پاک قرار دیتے ہوئے فرمایا جیسا کہ ان کے بھائی مسیح علیہ الصلاۃ والسلام نے بھی اس باطل کا ردفرماتے ہوئے اپنے رب کو پاک قرار دیا تھا،فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:

’’شَتَمَنِي ابْنُ آدَمَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ ذَلِكَ. وَ كَذَّبَنِي ابْنُ آدَمَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ ذَلِكَ. أَمَّا شَتْمُهُ إِيَّايَ ، فَقَوْلُهُ: اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا، وَأَنَا الأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ أَلِدْ وَلَمْ أُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لِي كَفُّوا أَحَدٌ،وَأَمَّا تَكْذِيبُهُ إِيَّايَ. فَقَوْلُهُ: لَنْ يُعِيدَنِي كَمَا بَدأنِي. وَلَيْسَ أَوَّلُ الْخَلْقِ بِأَهْوَنَ عَلَيَّ مِنْ إِعَادَتِهِ‘‘([1])

(مجھے ابن آدم گالی دیتا ہے حالانکہ اسے یہ قطعاً زیب نہیں دیتا۔ اور ابن آدم مجھے جھٹلاتا ہے حالانکہ یہ بھی اسے بالکل زیب نہیں دیتا۔ مجھے گالی دینا یہ ہےکہ وہ کہتا ہے: اللہ نے اولاد اختیار کی، جبکہ میں تو احد (اکیلا)، صمد(بےنیاز) ہوں، جس نے نہ کسی کو جنا اور نہ کسی سے جنا گیا، اور میرا ہمسر بھی کوئی نہیں۔ اور مجھے جھٹلانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے وہ مجھے دوبارہ اس طرح زندہ نہیں کرے گا جیسے پہلے پیدا کیا تھا، حالانکہ دوبارہ تخلیق کرنا پہلی دفعہ پیدا کرنے سے زیادہ مشکل تو نہیں)۔

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس امت نصاری کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’أهينوهم، ولا تظلموهم، فلقد سبوا الله عز وجل مسبة ما سبه إياها أحد من البشر‘‘ (ان کی اہانت کرو (یعنی ذلیل سمجھو انہیں) اوران پر ظلم نہ کرو، بے شک انہوں نے اللہ تعالی کو ایسی گالی دی ہے جو انسانیت میں سے کبھی کسی نے نہیں دی)۔
اسی لئے عقل مند مسلم بادشاہوں نے کہا کہ: ’’ إن جهاد هؤلاء واجب شرعا وعقلا، فإنهم عار على بنى آدم، مفسدون للعقول والشرائع‘‘ (ان لوگوں کے خلاف جہاد شرعاً وعقلاً واجب ہے، کیونکہ یہ بنی آدم کے لئے عار کا سبب ہیں، جو عقل وشریعت میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں)۔

[1] صحیح بخاری 4974۔
اللہ کی قسم! بت پرست لوگ باوجویکہ درحقیقت اللہ تعالی اور اس کے رسولوں علیہم الصلاۃ والسلام کے دشمن ہیں اور کفر میں سب سے بدتر ہیں مگر پھر بھی وہ اس بات سے بالکل بھی راضی نہیں کہ ان کے معبودات جو کہ شجر وحجر اور لوہا وغیرہ ہیں کو ایسے قبیح اوصاف سے متصف کریں جس سے اس امت نے رب العالمین الہ السماوات والارضین کو متصف کیا۔ ان بت پرست مشرکوں کے دلوں میں اللہ تعالی کی شان وعظمت اس سے بہت بلند ہے کہ اس قوم کے جیسے اوصاف سے بلکہ جو اس کے قریب تک بھی ہوں سے متصف کیا جائے۔ ان مشرکین کا شرک تو محض یہ تھا کہ وہ اللہ کی ہی مخلوق ومربوب کی عبادت اس زعم میں کرتے تھے کہ یہ انہیں اللہ تعالی کے قریب کردیں گی۔اپنے ان معبودوں کی کسی بھی چیز کو وہ اللہ تعالی کا ہمسر، نظیر یا اس کی اولاد نہیں گردانتے تھے۔ لہذا جو لعنت اللہ تعالی کی اس قوم پر ہوئی وہ کسی اور کے مقدر میں نہیں آئی۔

اس بارے میں جو ان کا عذر ہے وہ تو ان کے اس قول سے بھی زیادہ قبیح ترین ہے کیونکہ ان کے اس اعتقاد کی اصل یہ ہے کہ سیدنا آدم علیہ الصلاۃ والسلام سے لے کر سیدنا مسیح علیہ الصلاۃ والسلام تک انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی روحیں جہنم میں ابلیس کی جیل میں تھیں، اورآدم علیہ الصلاۃ والسلام کی اس ممنوعہ درخت کو کھا لینے کی غلطی کی بناء پر سیدنا ابراہیم، موسی، نوح، صالح وھود علیہم الصلاۃ والسلام اس جہنم کی جیل میں مبتلائے عذاب تھے۔ پھر اس کے بعد جب کبھی بھی بنی آدم میں سے کوئی فوت ہوتا تو اسے ابلیس پکڑ کر اس جیل میں بند کردیتا ان کے والد سیدنا آدم علیہ الصلاۃ والسلام کے گناہ کی سزا میں۔ پھر جب اللہ تعالی نے اپنی رحمت فرمانے اور انہیں اس عذاب سے نجات دلانےکا ارادہ فرمایا تو ابلیس کے خلاف ایک حیلہ سازی کی۔ پس وہ اپنی عظمت والی کرسی سے نازل ہوا۔اور سیدہ مریم [ کے پیٹ میں جاگھسا یہاں تک کہ وہیں سے پیدا ہوا پل بڑھ کر بڑا آدمی بن گیا۔ اور پھر اسی (اللہ) نے اپنے دشمنوں یہود کو اپنے آپ کو پکڑوا دینے یہاں تک کہ سولی پر چڑھا دینے اور سر پر کانٹوں بھرا تاج سجادینے کی توفیق دی۔ پس اس کے ذریعہ انبیاء ورسل کو نجات بخشی اور ان پر اپنی جان وخون کو فدا کردیا اور اس نے اولاد آدم کی رضا کی خاطر اپنا خون بہا دیاکیونکہ آدم کا گناہ ان سب کی گردنوں میں باقی تھا۔ پس ان سب کو اس گناہ وعذاب سے نجات دلوانے کے لئے اس نے اپنے دشمنوں یہود کے ذریعہ اپنے آپ کو پھانسی دلوائی، ہاتھ پیر بندھوائے، تھپڑ کھائے وغیرہ۔(نعوذباللہ من ذلک)۔ الا یہ کہ جو ان کے سولی چڑھنے کا انکار کرتے ہیں یا اس بارے میں شک میں مبتلا ہیں یا کہتےہیں کہ معبود تو ان باتوں سے پاک وبلند ہوتا ہے۔ تو ان کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ وہ بھی ابلیس کے قیدخانے میں مبتلائے عذاب رہے گا یہاں تک کہ اس بات کا اقرار کرے کہ معبود برحق خود پھانسی چڑھا، تھپڑ کھائے اور ہاتھ پیر بندھوائے۔

چناچہ انہوں نے معبود برحق کی جانب ایسی ایسی گندی باتیں منسوب کی جو ایک ذلیل ترین ونیچ ترین انسان کے لئے بھی سننے کو کوئی گوارا نہیں کرتا کہ وہ اپنے غلاموں یا زیردست لوگوں سے ایسا سلوک کرے، یہاں تک کہ بت پرست بھی اپنے بتوں کے لئے ایسی باتیں منسوب کرنا گستاخی خیال کرتے ہیں۔ انہوں نے اللہ تعالی کو اس بات میں بھی جھٹلایا کہ اس نے سیدنا آدم علیہ الصلاۃ والسلام کی توبہ قبول فرماکر ان کی غلطی کو معاف فرمادیا تھا۔ اور اللہ تعالی کی جانب قبیح ترین ظلم کو منسوب کیا کہ اس نے اپنے انبیاء ورسل اور اپنے اولیاء کو ان کے باپ آدم علیہ الصلاۃ والسلام کی غلطی کی پاداش میں جہنم رسید کیا ہوا ہے۔اور اس قدر جہالت پر مبنی گری ہوئی بات اللہ تعالی کی طرف منسوب کی کہ اس نے ان سب کو نجات دلوانے کے لئے پہلے اپنے آپ کو دشمنوں کے ہاتھوں پکڑوایا یہاں تک کہ انہوں نے اسے قتل کردیا، سولی پر چڑھا دیا، اس کا خون بہا دیا۔ یعنی معبود برحق کے لئے اس درجہ عاجز ہونا منسوب کیا کہ وہ محض اپنی قدرت سے انہیں نجات نہیں دلاسکتا تھا کہ اسے مجبوراً شیطان کے ساتھ یہ حیلہ کرنا پڑا!اور غایت درجہ نقص کو اس کی طرف منسوب کیا کہ وہ اپنے آپ کو اور اپنے بیٹے کو دشمنوں کے ہاتھوں میں دے دے اور وہ جو چاہیں ان کے ساتھ سلوک کریں!۔

الغرض، ہم کسی امت کو اس امت سے بدتر نہیں پاتے کہ جو اپنے معبود کو ایسی گالی دے جو اس امت نے دی ہے، جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ’’إنهم سبوا الله مسبة ما سبه إياها أحد من البشر‘‘ (انہوں نے اللہ تعالی کو ایسی گالی دی ہے جیسی انسانیت میں سے کسی نے اسے گالی نہیں دی ہوگی)۔

بعض آئمہ اسلام اگر کسی صلیبی کو دیکھ لیتے تو اس سے اپنی آنکھیں پھیر لیتے، اور فرماتے: ’’لا أستطيع أن أملأ عينى ممن سب إلهه ومعبوده بأقبح السب‘‘ (میں ایسے شخص کے چہرے کو دیکھنے کی تاب نہیں رکھتا کہ جو اپنے معبود والہ کو قبیح ترین گالی دیتا ہو)۔