چناچہ اے سائل! یہ باتیں جو آپ نے سنی ہیں محض باطل ہيں جن کی کوئی اساس نہیں۔ اللہ نے مخلوق کو، نہ جن کو، نہ انس کو، نہ ہی آسمان وزمین یا ان کے علاوہ تمام چیزوں کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پیدا فرمایا، اور نہ ہی آپ کے سوا دیگر رسولوں کے لیے۔ بلکہ اس نے صرف اور صرف مخلوق کو اس لیے پیدا فرمایا یا اس دنیا کو تخلیق فرمایا کہ اس اکیلے کی بلاشرکت عبادت ہو، اور تاکہ وہ اپنے اسماء وصفات سے جانا جائے۔یہی بات حق ہے اور اسی پر دلائل دلالت کرتے ہیں۔ اگرچہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اشرف الناس ہيں، تمام لوگوں میں سب سے افضل، خاتم الانبیاء اور سید ولد آدم ہیں، لیکن اللہ تعالی نے خود انہيں بھی اپنے رب کی عبادت کرنے کے لیے پیدا فرمایا، اور دیگر لوگوں کو بھی کہ وہ اپنے رب کی عبادت کریں۔ انہیں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پیدا نہیں فرمایا، اگرچہ آپ تمام لوگوں سے افضل ہيں۔ اس بات کو اچھی طرح سے سمجھ لیں اور دوسروں تک پہنچا دیں اے سائل۔
کیونکہ یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔ اور اس میں ایسے لوگ بھی مبتلا ہوگئے جو علم کی طرف منسوب ہوتے ہيں، جاہلوں اور غالی لوگوں میں سے، کہ جن کے پاس حقیقی علم میں سے کچھ حصہ نہيں۔ اور یہ بات عام عوام پر معاملے کو مشتبہ کردیتی ہے کہ جن کے پاس کوئی علم نہیں۔ حالانکہ جو اہل علم وبصیرت ہیں وہ اچھی طرح سے جانتے ہيں کہ یہ بات بالکل باطل ہے۔ اور اللہ تعالی نے بے شک مخلوق کو اکیلے اس کی بلاشرکت عبادت کے لیے، اور تاکہ اسے اس کے ناموں اور صفات سے جانا جائے، اور یہ کہ بے شک وہ حکیم و علیم ہے، سمیع و مجیب ہے، اور وہ علیم اور علی کل شیء قدیر ہے، اور یقیناً وہ اپنی ذات، اسماء وصفات و افعال میں کامل ہے (ان باتوں کی معرفت کے لیے پیدا فرمایا ہے)۔
(فتاوى نور على الدرب > المجلد الأول > كتاب العقيدة > باب ما جاء في التوحيد > بيان الحكمة من خلق الدنيا)
سوال 3 فتویٰ رقم 9886:
کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ: بے شک اللہ تعالی نے آسمانوں اور زمین کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پیدا فرمایا ہے، اور اس بات کا کیا معنی ہے ”لولاك لولاك لما خلق الأفلاك“ ([2])(اگر تم نہ ہوتے! اگر تم نہ ہوتے! تو یہ کائنات بھی نہ پیدا کی جاتی) کیا اصلاً یہ کوئی حدیث ہے ، اور یہ صحیح ہے یا نہیں، اس کی حقیقت ہمارے لیے واضح فرمائیں؟
جواب از فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب:
آسمان و زمین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پیدا نہیں کیے گئے، بلکہ اس چیز کے لیے پیدا کیے گئے ہیں جس کا ذکر خود اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں کیا:
﴿اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ ۭ يَـتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ڏ وَّاَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا﴾ (الطلاق: 12)
(اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے اور زمین سے بھی ان کی مانند ۔ ان کے درمیان حکم نازل ہوتا ہے، تاکہ تم جان لو کہ بےشک اللہ ہر چیز پر بھرپور قدرت رکھنے والا ہے اور یہ کہ بےشک اللہ نے یقیناً ہر چیز کو علم سے گھیر رکھا ہے)
البتہ جو حدیث سوال میں مذکور ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھوٹ باندھا گیا ہے، جس کی صحت کی کوئی اساس نہيں۔
وبالله التوفيق. وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإِفتاء
عضو نائب رئيس اللجنة الرئيس
عبد الله بن غديان عبد الرزاق عفيفي عبد العزيز بن عبد الله بن باز
(فتاوى اللجنة الدائمة > العقائد > الإيمان > أركان الإيمان > الإيمان بالأنبياء والمرسلين > التحذير من الغلو في الأنبياء > س3: هل يقال: إن الله خلق السماوات والأرض لأجل خلق النبي صلى الله عليه وسلم، وما معنى (لولاك لولاك لما خلق الأفلاك) هل هذا حديث أصلًا، هل صحيح أم لا، بيّن لنا حقيقته؟)
[1] ہمارے یہاں بھی جاہلوں کی طرح بالکل یقینی طور پر اسے بے دریغ القاب و نعتوں وغیرہ میں استعمال کیا جاتا ہے، جیسے:
آقائے نامدار وجہِ وجود کائنات۔
اے کہ تیرا وجود ہے وجہِ وجود کائنات۔
تیرے لیے ہی دنیا بنی ہے نیلے گگن کی چادر سجی ہے، تو جو نہيں تھا دنیا تھی خالی ، سارے نبی تیرے در کے سوالی (نعوذ باللہ)۔
(توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] اس کے علاوہ اس کے یہ الفاظ بھی مشہور ہیں: ”لولاك لما خلقت الأفلاك“ شیخ البانی السلسلة الضعيفة280 میں فرماتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل نہيں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
کیونکہ یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔ اور اس میں ایسے لوگ بھی مبتلا ہوگئے جو علم کی طرف منسوب ہوتے ہيں، جاہلوں اور غالی لوگوں میں سے، کہ جن کے پاس حقیقی علم میں سے کچھ حصہ نہيں۔ اور یہ بات عام عوام پر معاملے کو مشتبہ کردیتی ہے کہ جن کے پاس کوئی علم نہیں۔ حالانکہ جو اہل علم وبصیرت ہیں وہ اچھی طرح سے جانتے ہيں کہ یہ بات بالکل باطل ہے۔ اور اللہ تعالی نے بے شک مخلوق کو اکیلے اس کی بلاشرکت عبادت کے لیے، اور تاکہ اسے اس کے ناموں اور صفات سے جانا جائے، اور یہ کہ بے شک وہ حکیم و علیم ہے، سمیع و مجیب ہے، اور وہ علیم اور علی کل شیء قدیر ہے، اور یقیناً وہ اپنی ذات، اسماء وصفات و افعال میں کامل ہے (ان باتوں کی معرفت کے لیے پیدا فرمایا ہے)۔
(فتاوى نور على الدرب > المجلد الأول > كتاب العقيدة > باب ما جاء في التوحيد > بيان الحكمة من خلق الدنيا)
سوال 3 فتویٰ رقم 9886:
کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ: بے شک اللہ تعالی نے آسمانوں اور زمین کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پیدا فرمایا ہے، اور اس بات کا کیا معنی ہے ”لولاك لولاك لما خلق الأفلاك“ ([2])(اگر تم نہ ہوتے! اگر تم نہ ہوتے! تو یہ کائنات بھی نہ پیدا کی جاتی) کیا اصلاً یہ کوئی حدیث ہے ، اور یہ صحیح ہے یا نہیں، اس کی حقیقت ہمارے لیے واضح فرمائیں؟
جواب از فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب:
آسمان و زمین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پیدا نہیں کیے گئے، بلکہ اس چیز کے لیے پیدا کیے گئے ہیں جس کا ذکر خود اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں کیا:
﴿اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ ۭ يَـتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ڏ وَّاَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا﴾ (الطلاق: 12)
(اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے اور زمین سے بھی ان کی مانند ۔ ان کے درمیان حکم نازل ہوتا ہے، تاکہ تم جان لو کہ بےشک اللہ ہر چیز پر بھرپور قدرت رکھنے والا ہے اور یہ کہ بےشک اللہ نے یقیناً ہر چیز کو علم سے گھیر رکھا ہے)
البتہ جو حدیث سوال میں مذکور ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھوٹ باندھا گیا ہے، جس کی صحت کی کوئی اساس نہيں۔
وبالله التوفيق. وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإِفتاء
عضو نائب رئيس اللجنة الرئيس
عبد الله بن غديان عبد الرزاق عفيفي عبد العزيز بن عبد الله بن باز
(فتاوى اللجنة الدائمة > العقائد > الإيمان > أركان الإيمان > الإيمان بالأنبياء والمرسلين > التحذير من الغلو في الأنبياء > س3: هل يقال: إن الله خلق السماوات والأرض لأجل خلق النبي صلى الله عليه وسلم، وما معنى (لولاك لولاك لما خلق الأفلاك) هل هذا حديث أصلًا، هل صحيح أم لا، بيّن لنا حقيقته؟)
[1] ہمارے یہاں بھی جاہلوں کی طرح بالکل یقینی طور پر اسے بے دریغ القاب و نعتوں وغیرہ میں استعمال کیا جاتا ہے، جیسے:
آقائے نامدار وجہِ وجود کائنات۔
اے کہ تیرا وجود ہے وجہِ وجود کائنات۔
تیرے لیے ہی دنیا بنی ہے نیلے گگن کی چادر سجی ہے، تو جو نہيں تھا دنیا تھی خالی ، سارے نبی تیرے در کے سوالی (نعوذ باللہ)۔
(توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] اس کے علاوہ اس کے یہ الفاظ بھی مشہور ہیں: ”لولاك لما خلقت الأفلاك“ شیخ البانی السلسلة الضعيفة280 میں فرماتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل نہيں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[Article] Does #Rasoolullaah (salAllaho alaihi wasallam) have any power before Allaah? – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
کیا #رسول_اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کے مقابلے میں کوئی اختیار رکھتےہیں؟
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: التوحید اولاً
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
#توحید
#عقیدہ
#tawheed
#aqeedah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/01/kiya_rasool_Allaah_muqablay_ikhtiyar_rakhte_hain.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالی یہ فرماتے ہیں کہ:
﴿قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَاءَ اللّٰهُ﴾ (الاعراف: 188)
(آپ فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات کے لیےکسی نفع کا اختیار رکھتا ہوں اور نہ کسی نقصان کا، مگر جو اللہ تعالی چاہے)
اس کے بعد اور کس دلیل کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ یہ کلام حق ہے یا باطل؟ ان قبرپرستوں کی زبان حال تویہی جواب دیتی معلوم ہوتی ہے کہ: نہیں، یہ کلام صحیح نہیں اگرچہ وہ اپنی زبان سے لفظی طور پراس کا انکار نہیں کرتے، لیکن فی الواقع وہ اس بات کو قبول نہیں کرتے، ہرگز نہیں بلکہ کہتے ہیں کہ: اولیاء کرام نفع ونقصان پہنچاتے ہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نفع ونقصان کے مالک ہیں۔ تو پھر سن لو اے بھائی تم قرآن کریم سے عناد رکھتے ہو اگر واقعی تمہارا یہی عقیدہ ہے۔ اگر یہی تمہارا عقیدہ ہے تو جان لو اللہ کی قسم یہ کفر ہے، اللہ تعالی تو فرمائیں:
﴿قُلْ اِنِّىْ لَآ اَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا﴾ (الجن: 21)
(کہہ دیں بلاشبہ میں تمہارے لیے نہ کوئی نقصان پہنچانے کا اختیار رکھتا ہوں اور نہ کسی بھلائی کا)
اس سے زیادہ آپ کون سی دلیل چاہتے ہیں میرے بھائی؟ آپ ﷺ اپنے ذات کے لئے، اورنہ اپنی پیاری صاحبزادی کے لئے اور نہ ہی کسی اور کے لئے کسی چیز کا اختیار رکھتے ہیں، ان سب کو فرمایا کہ میں اللہ تعالی کے سامنے تمہارے بارے میں کوئی اختیار نہیں رکھتا، فرمایا:
’’يا بني عبد مناف يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا يَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَا أُغْنِي عَنْكَ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا وَيَا صَفِيَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا وَيَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مَا شِئْتِ مِنْ مَالِي لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا‘‘([1])
(اے بنی عبدمناف! اے قریش یا پھر اسی جیسا کوئی کلمہ فرمایا، کہ میں اللہ تعالی کے سامنے تمہارا کوئی اختیار نہیں رکھتا، اپنے نفسوں کو خرید لو(جہنم سے بچانے کے لئے)، میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں تمہارا کچھ اختیار نہیں رکھتا، اے بنی عبدمناف! میں اللہ تعالی کے یہاں تمہارا کوئی اختیار نہیں رکھتا(اور نہ ہی اس کے عذاب سے بچا سکتا ہوں)، اے عباس بن عبدالمطلب! میں آپ کے لئے اللہ تعالی کے سامنے کوئی اختیار نہیں رکھتا، اور اے صفیہ رسول اللہ کی پھوپھی! میں آپ کے لئے اللہ تعالی کی جناب میں کوئی اختیار نہیں رکھتا، اور اے فاطمہ بنت محمد! تم میرے مال میں سے جو چاہے مانگ لو مگراللہ تعالی کی بارگاہ میں میں تمہارے لئے کوئی اختیار نہیں رکھتا)۔
اب اس فرمان کے بعد اور کیا رہ جاتا ہے؟ اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما دیجئے:
﴿إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾ (الاعراف: 188)
(میں تو محض خبردار کرنے والا اور بشارت دینے والا ہوں، اس قوم کو جو ایمان لاتی ہے)
اوریہ فرمائیں کہ:
﴿إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ﴾ (الشعراء: 115)
(میں تو محض کھلم کھلا خبردار کرنے والا ہوں)
یہی میرا کام میری ذمہ داری ہے، اللہ تعالی نے مجھ پر قرآن حکیم نازل فرمایا اور میں اس کی تبلیغ کرتا ہوں، مومنوں کو جنت کی بشارت دیتا ہوں اور کافروں کو جہنم سے ڈراتا ہوں، یہی کچھ ہے جس کا میں اختیار رکھتا ہوں اور اس پر قدرت رکھتا ہوں، رہی بات نفع ونقصان، بدبختی وخوش بختی، ہدایت وگمراہی یہ سب کا سب اللہ تعالی رب العالمین کے اختیار میں ہے۔
[1] رواه البخاري في التفسير ، باب : وأنذر عشيرتك الأقربين ، برقم ( 4771 ) . ومسلم في الإيمان باب : وأنذر عشيرتك الأقربين، برقم ( 206 ) ، وغيرهما .
کیا #رسول_اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کے مقابلے میں کوئی اختیار رکھتےہیں؟
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: التوحید اولاً
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
#توحید
#عقیدہ
#tawheed
#aqeedah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/01/kiya_rasool_Allaah_muqablay_ikhtiyar_rakhte_hain.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالی یہ فرماتے ہیں کہ:
﴿قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَاءَ اللّٰهُ﴾ (الاعراف: 188)
(آپ فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات کے لیےکسی نفع کا اختیار رکھتا ہوں اور نہ کسی نقصان کا، مگر جو اللہ تعالی چاہے)
اس کے بعد اور کس دلیل کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ یہ کلام حق ہے یا باطل؟ ان قبرپرستوں کی زبان حال تویہی جواب دیتی معلوم ہوتی ہے کہ: نہیں، یہ کلام صحیح نہیں اگرچہ وہ اپنی زبان سے لفظی طور پراس کا انکار نہیں کرتے، لیکن فی الواقع وہ اس بات کو قبول نہیں کرتے، ہرگز نہیں بلکہ کہتے ہیں کہ: اولیاء کرام نفع ونقصان پہنچاتے ہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نفع ونقصان کے مالک ہیں۔ تو پھر سن لو اے بھائی تم قرآن کریم سے عناد رکھتے ہو اگر واقعی تمہارا یہی عقیدہ ہے۔ اگر یہی تمہارا عقیدہ ہے تو جان لو اللہ کی قسم یہ کفر ہے، اللہ تعالی تو فرمائیں:
﴿قُلْ اِنِّىْ لَآ اَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا﴾ (الجن: 21)
(کہہ دیں بلاشبہ میں تمہارے لیے نہ کوئی نقصان پہنچانے کا اختیار رکھتا ہوں اور نہ کسی بھلائی کا)
اس سے زیادہ آپ کون سی دلیل چاہتے ہیں میرے بھائی؟ آپ ﷺ اپنے ذات کے لئے، اورنہ اپنی پیاری صاحبزادی کے لئے اور نہ ہی کسی اور کے لئے کسی چیز کا اختیار رکھتے ہیں، ان سب کو فرمایا کہ میں اللہ تعالی کے سامنے تمہارے بارے میں کوئی اختیار نہیں رکھتا، فرمایا:
’’يا بني عبد مناف يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا يَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَا أُغْنِي عَنْكَ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا وَيَا صَفِيَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا وَيَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مَا شِئْتِ مِنْ مَالِي لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا‘‘([1])
(اے بنی عبدمناف! اے قریش یا پھر اسی جیسا کوئی کلمہ فرمایا، کہ میں اللہ تعالی کے سامنے تمہارا کوئی اختیار نہیں رکھتا، اپنے نفسوں کو خرید لو(جہنم سے بچانے کے لئے)، میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں تمہارا کچھ اختیار نہیں رکھتا، اے بنی عبدمناف! میں اللہ تعالی کے یہاں تمہارا کوئی اختیار نہیں رکھتا(اور نہ ہی اس کے عذاب سے بچا سکتا ہوں)، اے عباس بن عبدالمطلب! میں آپ کے لئے اللہ تعالی کے سامنے کوئی اختیار نہیں رکھتا، اور اے صفیہ رسول اللہ کی پھوپھی! میں آپ کے لئے اللہ تعالی کی جناب میں کوئی اختیار نہیں رکھتا، اور اے فاطمہ بنت محمد! تم میرے مال میں سے جو چاہے مانگ لو مگراللہ تعالی کی بارگاہ میں میں تمہارے لئے کوئی اختیار نہیں رکھتا)۔
اب اس فرمان کے بعد اور کیا رہ جاتا ہے؟ اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما دیجئے:
﴿إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾ (الاعراف: 188)
(میں تو محض خبردار کرنے والا اور بشارت دینے والا ہوں، اس قوم کو جو ایمان لاتی ہے)
اوریہ فرمائیں کہ:
﴿إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ﴾ (الشعراء: 115)
(میں تو محض کھلم کھلا خبردار کرنے والا ہوں)
یہی میرا کام میری ذمہ داری ہے، اللہ تعالی نے مجھ پر قرآن حکیم نازل فرمایا اور میں اس کی تبلیغ کرتا ہوں، مومنوں کو جنت کی بشارت دیتا ہوں اور کافروں کو جہنم سے ڈراتا ہوں، یہی کچھ ہے جس کا میں اختیار رکھتا ہوں اور اس پر قدرت رکھتا ہوں، رہی بات نفع ونقصان، بدبختی وخوش بختی، ہدایت وگمراہی یہ سب کا سب اللہ تعالی رب العالمین کے اختیار میں ہے۔
[1] رواه البخاري في التفسير ، باب : وأنذر عشيرتك الأقربين ، برقم ( 4771 ) . ومسلم في الإيمان باب : وأنذر عشيرتك الأقربين، برقم ( 206 ) ، وغيرهما .
[Article] Innovations and violations related to #Bayt_ul_Maqdas - Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen Al-Albaanee
#بیت_المقدس کے بارے میں کی جانے والی بدعات ومخالفات
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: عام فہم رہنمائے حج وعمرہ (قرآن ،سنت صحیحہ اور آثار سلف کے مطابق)۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/12/bayt_ul_maqdas_bidaat_mukhalifaat.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
شیخ رحمہ اللہ کی کتاب سے مختصرا ًماخوذ۔
1- حج کے ساتھ بیت المقدس کی زیارت کا بھی قصد کرنا۔
2- ’’قبة الصخرة‘‘(تاریخی چٹان پر سنہری گنبد) کا بیت اللہ کے مشابہ طواف کرنا ۔
3- اس کی تعظیم کرنا مختلف طریقوں سے جیسے مسح کرنا، چومنا، وہاں جانور لے جاکر ذبح کرنا وغیرہ۔
4- اس چٹان پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا خود نعوذ باللہ اللہ تعالی کے قدم مبارک کے آثار ہونے کا عقیدہ رکھنا۔
5- اس مکان کی زیارت جس کے بارے میں یہ اپنے گمان میں عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کے گہوارہ ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔
6- مسجد کے مشرقی جانب بنی تصاویر کو پل صراط اور میزان جنت وجہنم کے مابین والی دیوار وغیرہ سمجھنا۔
7- زنجیر کی یا اس کی جگہ کی تعظیم کرنا۔
8- ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلاۃ والسلام کی قبر کے پاس نماز پڑھنا۔
9- موسم حج میں مسجد اقصیٰ میں جمع ہوکر دف بجانا اور گیت گانا۔
#بیت_المقدس کے بارے میں کی جانے والی بدعات ومخالفات
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: عام فہم رہنمائے حج وعمرہ (قرآن ،سنت صحیحہ اور آثار سلف کے مطابق)۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/12/bayt_ul_maqdas_bidaat_mukhalifaat.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
شیخ رحمہ اللہ کی کتاب سے مختصرا ًماخوذ۔
1- حج کے ساتھ بیت المقدس کی زیارت کا بھی قصد کرنا۔
2- ’’قبة الصخرة‘‘(تاریخی چٹان پر سنہری گنبد) کا بیت اللہ کے مشابہ طواف کرنا ۔
3- اس کی تعظیم کرنا مختلف طریقوں سے جیسے مسح کرنا، چومنا، وہاں جانور لے جاکر ذبح کرنا وغیرہ۔
4- اس چٹان پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا خود نعوذ باللہ اللہ تعالی کے قدم مبارک کے آثار ہونے کا عقیدہ رکھنا۔
5- اس مکان کی زیارت جس کے بارے میں یہ اپنے گمان میں عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کے گہوارہ ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔
6- مسجد کے مشرقی جانب بنی تصاویر کو پل صراط اور میزان جنت وجہنم کے مابین والی دیوار وغیرہ سمجھنا۔
7- زنجیر کی یا اس کی جگہ کی تعظیم کرنا۔
8- ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلاۃ والسلام کی قبر کے پاس نماز پڑھنا۔
9- موسم حج میں مسجد اقصیٰ میں جمع ہوکر دف بجانا اور گیت گانا۔
[Article] The reality of #Palestinian movement #Hamas - Shaykh Muqbil bin Hadee Al-Wadaee
#فلسطین کی تحریک #حماس کی حقیقت
فضیلۃ الشیخ مقبل بن ہادی الوادعی رحمہ اللہ المتوفی سن 1422ھ
(محدث دیارِ یمن)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: تحفة المجيب على أسئلة الحاضر والغريب ۔ "جلسة مع الصحفي الألماني" س 196۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
#گمراہ_فرقے
#جہاد
#jihad
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/12/hamas_tehreek_palestine.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: آپ کی الجہاد الاسلامی و حرکۃ المقاومۃ الاسلامیۃ (حماس) کے بارے میں کیا رائے ہے جو عرب کی مقبوضہ سرزمین فلسطین میں پائی جاتی ہے؟
جواب: جہاں تک تحریک حماس کا تعلق ہے تو کبھی بھی وہ اسلام کے لیے نصرت نہيں بن سکتی۔ پس اس میں شیعہ بھی ہیں، اخوانی و حزبی بھی۔ اور یاسر عرفات نے لوگوں کے ساتھ بڑا کھلواڑ کیا تھا حالانکہ وہ خوداسرائیل کا ایجنٹ تھا، اور ہم تو شروع سے ہی یہ کہتے آئے تھے کہ وہ اسرائیل کا ایجنٹ ہے، پھر آخرکار اس نے فلسطین کو بیچ کھایا۔
اگر مسلمان حکومتیں تمام ممالک سے مسلمانوں کو چھوڑیں (افواج) تو یقیناً یہ لوگ اس بات کی استطاعت رکھتے ہیں کہ القدس کو یہود سے پاک کردیں۔
المہم جو لوگ اللہ کے دین کی نصرت کرنے والے ہیں وہ ایسے مسلمان ہیں جو کتاب وسنت پر استقامت اختیار کرتے ہیں۔ جبکہ جو تحریک حماس ہے تو یہ ایک حزبی جماعت ہے جو نہ نیکی کا حکم کرتی ہے نہ برائی سے روکتی ہے، بلکہ اہل سنت پر نکیر کرتی ہے اور اسے ہر جگہ روکتی ہے۔ اگر ان کو یہاں نصرت مل جائے تو وہی حرکت کریں گے جو افغانستان میں کی، کہ ایک دوسرے کے ہی مدمقابل بن جائیں گے اور ایک دوسرے پر ہی بارود و گولیوں کی بارش کردیں گے،واللہ المستعان۔ کیونکہ یقیناً یہ ایک دل کی مانند نہيں(ایک عقیدے پر نہیں)۔
#فلسطین کی تحریک #حماس کی حقیقت
فضیلۃ الشیخ مقبل بن ہادی الوادعی رحمہ اللہ المتوفی سن 1422ھ
(محدث دیارِ یمن)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: تحفة المجيب على أسئلة الحاضر والغريب ۔ "جلسة مع الصحفي الألماني" س 196۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
#گمراہ_فرقے
#جہاد
#jihad
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/12/hamas_tehreek_palestine.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: آپ کی الجہاد الاسلامی و حرکۃ المقاومۃ الاسلامیۃ (حماس) کے بارے میں کیا رائے ہے جو عرب کی مقبوضہ سرزمین فلسطین میں پائی جاتی ہے؟
جواب: جہاں تک تحریک حماس کا تعلق ہے تو کبھی بھی وہ اسلام کے لیے نصرت نہيں بن سکتی۔ پس اس میں شیعہ بھی ہیں، اخوانی و حزبی بھی۔ اور یاسر عرفات نے لوگوں کے ساتھ بڑا کھلواڑ کیا تھا حالانکہ وہ خوداسرائیل کا ایجنٹ تھا، اور ہم تو شروع سے ہی یہ کہتے آئے تھے کہ وہ اسرائیل کا ایجنٹ ہے، پھر آخرکار اس نے فلسطین کو بیچ کھایا۔
اگر مسلمان حکومتیں تمام ممالک سے مسلمانوں کو چھوڑیں (افواج) تو یقیناً یہ لوگ اس بات کی استطاعت رکھتے ہیں کہ القدس کو یہود سے پاک کردیں۔
المہم جو لوگ اللہ کے دین کی نصرت کرنے والے ہیں وہ ایسے مسلمان ہیں جو کتاب وسنت پر استقامت اختیار کرتے ہیں۔ جبکہ جو تحریک حماس ہے تو یہ ایک حزبی جماعت ہے جو نہ نیکی کا حکم کرتی ہے نہ برائی سے روکتی ہے، بلکہ اہل سنت پر نکیر کرتی ہے اور اسے ہر جگہ روکتی ہے۔ اگر ان کو یہاں نصرت مل جائے تو وہی حرکت کریں گے جو افغانستان میں کی، کہ ایک دوسرے کے ہی مدمقابل بن جائیں گے اور ایک دوسرے پر ہی بارود و گولیوں کی بارش کردیں گے،واللہ المستعان۔ کیونکہ یقیناً یہ ایک دل کی مانند نہيں(ایک عقیدے پر نہیں)۔
[Article] Wasting #Tawheed is the reason behind the wasting of the #Ummah – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
#امت کے ضائع ہونے کا سبب #توحید کا ضائع ہونا ہے
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: نفحات الهدى والإيمان من مجالس القرآن- المجلس الثاني۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
#جہاد
#حماس
#افغانستان
#jihad
#hamas
#afghanistan
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/05/ummat_zaya_sabab_tawheed_zaya_hona.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
چنانچہ ہم پر واجب ہے کہ ہم توحید کا خصوصی اہتمام کریں اور اللہ کی قسم! یہ امت ضائع نہیں ہوئی اور اس پر دشمن یہود و نصاریٰ اور مجوس اور کمیونسٹ وغیرہ مسلط نہیں ہوئے مگر اسی وجہ سے کہ انہوں نے جب توحید کو ضائع کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ ذلت مسلط کر دی، اور اللہ تعالیٰ ان سے ہرگز بھی راضی نہیں ہوگا حتی کہ وہ اپنے دین اسلام ، اس اسلام کی طرف لوٹ آئیں جس پر سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے ۔ فرمان نبوی ہے :
’’إِذَا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ وَأَخَذْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ وَرَضِيتُمْ بِالزَّرْعِ وَتَرَكْتُمْ الْجِهَادَ فِیْ سَبِیلِ اللہِ سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ ذُلًّا لَا يَنْزِعُهُ عَنْکُم حَتَّى تَرْجِعُوا إِلَى دِينِكُمْ“([1])
(جب تم بیع عینہ(جو کہ ایک سودی معاملہ ہے) کرنے لگو گے ، اور بیلوں کی دموں کو پکڑ کر اور محض زراعت اور کاشت کاری سے راضی ہوکر بیٹھ جاؤ گے ،اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ایسی ذلت مسلط فرمائے گا، جو تم پر سے ہرگز بھی نہیں اٹھائے گا یہاں تک کہ تم اپنے دین کی طرف نہ لوٹ آؤ)۔
تو اس وقت کیا حال ہو گا جب ان میں سے بہت سے لوگ شرک میں مبتلا ہوں ؟!
آج دنیا میں بہت ساری دعوتیں ہیں لیکن وہ توحید کی جانب دعوت نہیں دیتیں ۔ ہر گروہ اور حزب کا اپنا ہی ایک مبدأ ومنشور ہوتا ہے ، اور اپنا ہی منہج ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے منہج سے اور انبیاءکرام علیہم الصلاۃ والسلام کے منہج سے ہٹ کر ہوتا ہے، جس میں وہ اس چیز کے مخالف کی طرف بلا رہے ہوتے ہیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہے، اور اپنے اس منہج کے ذریعے سے وہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے منہج کی مخالفت کررہے ہوتے ہیں۔
سیدنا نوح علیہ الصلاۃ والسلام کو دیکھیے آپ پچاس کم ہزار سال تک صرف اور صرف توحید کی جانب دعوت دیتے رہے۔ اور یہ کہتے ہیں کہ تم سلفی لوگ اہل قبور (یعنی قبر پرستی) کے خلاف لڑتے ہو جب کہ ہم اہل قصور( جو محلات میں یعنی بادشاہ حکمران وغیرہ ہیں ان) کے خلاف برسرپیکار ہیں!! تم (سلفی) تو بس اوثان (جس کی بھی اللہ تعالی کے سواعبادت کی جائے خواہ بت ہو یا مزار وغیرہ) کے خلاف جنگ کرتے ہو! میرے بھائی کیا آپ کی دعوت انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی دعوت سے زیادہ بڑی ہے ! (جو سلفیوں کو یہ طعنہ دیتے ہو)
اسی لیے تو ان کی کوئی مدد اور نصرت نہیں ہوتی، اللہ عزوجل کیا فرماتے ہیں کہ:
﴿وَلَوْ قٰتَلَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَا يَجِدُوْنَ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا، سُـنَّةَ اللّٰهِ…﴾ (الفتح:22-23)
(اگر کافر تم سے لڑیں بھی تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے پھر کوئی اپنا دوست مدد گار نہیں پائیں گے، یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے)
یہ اللہ تعالیٰ کی سنت اپنے اولیاء جو کہ اہل توحید ہیں ان کے ساتھ رہی ہے ۔ لیکن آج مسلمان ہر جگہ لڑ رہے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں آپ کو سوائے شکستوں ، ذلتوں اور عار کے کچھ نہیں دکھے گا ، ان کی مدد و نصرت نہیں ہو رہی ۔چیچنیا میں قتال کیا ، یہاں وہاں انہوں نے قتال کیا ، فلسطین میں ساٹھ سال سے لڑ رہے ہیں مگر آپ کو سوائے ہزیمتوں کے اور ذلت و رسوائی و عار کے کچھ نہیں دکھائی دے گا ، کیوں کہ وہ اس وعدے کے مستحق ہی نہیں جو اللہ تعالیٰ نے بہت سی آیات میں تاکید کے ساتھ ذکر فرمایا ہے کہ:
﴿اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ يَنْصُرْكُمْ﴾ (محمد:7)
(اگر تم اللہ کی مدد کرو گے (یعنی اس کے دین اور توحید کی) تو وہ تمہاری مدد فرمائے گا)
جو وطن پرستی کی طرف دعوت دیتے ہیں اور وطن پرستی کے لیے لڑتے ہیں اور توحید کو بھول جاتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ ایسوں کی مدد کرے گا ؟!
#امت کے ضائع ہونے کا سبب #توحید کا ضائع ہونا ہے
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: نفحات الهدى والإيمان من مجالس القرآن- المجلس الثاني۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
#جہاد
#حماس
#افغانستان
#jihad
#hamas
#afghanistan
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/05/ummat_zaya_sabab_tawheed_zaya_hona.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
چنانچہ ہم پر واجب ہے کہ ہم توحید کا خصوصی اہتمام کریں اور اللہ کی قسم! یہ امت ضائع نہیں ہوئی اور اس پر دشمن یہود و نصاریٰ اور مجوس اور کمیونسٹ وغیرہ مسلط نہیں ہوئے مگر اسی وجہ سے کہ انہوں نے جب توحید کو ضائع کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ ذلت مسلط کر دی، اور اللہ تعالیٰ ان سے ہرگز بھی راضی نہیں ہوگا حتی کہ وہ اپنے دین اسلام ، اس اسلام کی طرف لوٹ آئیں جس پر سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے ۔ فرمان نبوی ہے :
’’إِذَا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ وَأَخَذْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ وَرَضِيتُمْ بِالزَّرْعِ وَتَرَكْتُمْ الْجِهَادَ فِیْ سَبِیلِ اللہِ سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ ذُلًّا لَا يَنْزِعُهُ عَنْکُم حَتَّى تَرْجِعُوا إِلَى دِينِكُمْ“([1])
(جب تم بیع عینہ(جو کہ ایک سودی معاملہ ہے) کرنے لگو گے ، اور بیلوں کی دموں کو پکڑ کر اور محض زراعت اور کاشت کاری سے راضی ہوکر بیٹھ جاؤ گے ،اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ایسی ذلت مسلط فرمائے گا، جو تم پر سے ہرگز بھی نہیں اٹھائے گا یہاں تک کہ تم اپنے دین کی طرف نہ لوٹ آؤ)۔
تو اس وقت کیا حال ہو گا جب ان میں سے بہت سے لوگ شرک میں مبتلا ہوں ؟!
آج دنیا میں بہت ساری دعوتیں ہیں لیکن وہ توحید کی جانب دعوت نہیں دیتیں ۔ ہر گروہ اور حزب کا اپنا ہی ایک مبدأ ومنشور ہوتا ہے ، اور اپنا ہی منہج ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے منہج سے اور انبیاءکرام علیہم الصلاۃ والسلام کے منہج سے ہٹ کر ہوتا ہے، جس میں وہ اس چیز کے مخالف کی طرف بلا رہے ہوتے ہیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہے، اور اپنے اس منہج کے ذریعے سے وہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے منہج کی مخالفت کررہے ہوتے ہیں۔
سیدنا نوح علیہ الصلاۃ والسلام کو دیکھیے آپ پچاس کم ہزار سال تک صرف اور صرف توحید کی جانب دعوت دیتے رہے۔ اور یہ کہتے ہیں کہ تم سلفی لوگ اہل قبور (یعنی قبر پرستی) کے خلاف لڑتے ہو جب کہ ہم اہل قصور( جو محلات میں یعنی بادشاہ حکمران وغیرہ ہیں ان) کے خلاف برسرپیکار ہیں!! تم (سلفی) تو بس اوثان (جس کی بھی اللہ تعالی کے سواعبادت کی جائے خواہ بت ہو یا مزار وغیرہ) کے خلاف جنگ کرتے ہو! میرے بھائی کیا آپ کی دعوت انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی دعوت سے زیادہ بڑی ہے ! (جو سلفیوں کو یہ طعنہ دیتے ہو)
اسی لیے تو ان کی کوئی مدد اور نصرت نہیں ہوتی، اللہ عزوجل کیا فرماتے ہیں کہ:
﴿وَلَوْ قٰتَلَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَا يَجِدُوْنَ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا، سُـنَّةَ اللّٰهِ…﴾ (الفتح:22-23)
(اگر کافر تم سے لڑیں بھی تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے پھر کوئی اپنا دوست مدد گار نہیں پائیں گے، یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے)
یہ اللہ تعالیٰ کی سنت اپنے اولیاء جو کہ اہل توحید ہیں ان کے ساتھ رہی ہے ۔ لیکن آج مسلمان ہر جگہ لڑ رہے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں آپ کو سوائے شکستوں ، ذلتوں اور عار کے کچھ نہیں دکھے گا ، ان کی مدد و نصرت نہیں ہو رہی ۔چیچنیا میں قتال کیا ، یہاں وہاں انہوں نے قتال کیا ، فلسطین میں ساٹھ سال سے لڑ رہے ہیں مگر آپ کو سوائے ہزیمتوں کے اور ذلت و رسوائی و عار کے کچھ نہیں دکھائی دے گا ، کیوں کہ وہ اس وعدے کے مستحق ہی نہیں جو اللہ تعالیٰ نے بہت سی آیات میں تاکید کے ساتھ ذکر فرمایا ہے کہ:
﴿اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ يَنْصُرْكُمْ﴾ (محمد:7)
(اگر تم اللہ کی مدد کرو گے (یعنی اس کے دین اور توحید کی) تو وہ تمہاری مدد فرمائے گا)
جو وطن پرستی کی طرف دعوت دیتے ہیں اور وطن پرستی کے لیے لڑتے ہیں اور توحید کو بھول جاتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ ایسوں کی مدد کرے گا ؟!
کہتے ہیں کہ نصاریٰ بھی ہمارے بھائی ہیں اور اس بات سے بھی ان کو کوئی حیاء نہیں آتی کہنے میں کہ : یہودیوں کی بھی دو قسمیں ہیں ایک اصلی یہودی ہیں اور ایک صیہونی یہودی ہیں، اور جو ہمارے دشمن ہیں وہ صیہونی قسم کے یہودی ہیں وہ ہیں، جنہوں نے ہماری زمین چھین لی ہے غصب کی ہے، تو ہم اس اساس اور بنیاد پر ان سے لڑتے ہیں قتال کرتے ہیں۔ اورکمیونسٹوں کے خلاف افغانستان میں لڑتے رہے اور ان کے ساتھ اہل توحید بھی جہاد کے لیے آئے، اور انہوں نے توحید کو نشر کیا، تو وہ الٹا اہل توحید کے خلاف ہی لڑنے لگے ، کہاں گیا جہادِ افغانی ؟ کتنے نوجوان اس میں کھپ گئے ضائع ہوئے، مگر اس کا ثمرہ اور پھل کہاں ہے؟!
روس نکل گیا اس کے بجائے مغربی ممالک آ گئے۔ اللہ تعالیٰ اس امت کی ہرگز بھی مدد اور نصرت نہیں فرمائے گا جب تک یہ کتاب اور سنت کا جھنڈا بلند نہیں کرتے حق وصداقت اورسنجیدگی کے ساتھ اور توحید کا عَلم بلند نہیں کرتے، مگر حال یہ ہو کہ ان کے ہاں ایسے نعرے ہوں، ایسے اصول اور مبادی ہوں جو کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت دور ہوں بلکہ جاہلیت پر مبنی ہوں، تو پھر یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سوائے ذلت اور رسوائی کے اور کسی چیز میں اضافے کا سبب نہیں ہو گا، اور دشمن کا ان پر مسلط ہو جانا اور انہیں ذلیل کرنا اس کے سوا انہیں کچھ حاصل نہیں ہو گا، جیسا کہ حدیث میں بھی ہے کہ:
’’حَتَّى تَرْجِعُوا إِلَى دِينِكُمْ‘‘
(یہاں تک کہ تم اپنے دین کی طرف نہ لوٹ آؤ)۔
اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین وہ اسلام ہے جو انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام لے کر آئے اور خاتم الانبیاء والمرسلین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے ہیں نہ کہ جو المرغنیہ یا نقشبندیہ یا اس جیسے گمراہ طرق وغیرہ سے آیا ہے ۔ اللہ کا دین حق ہے اور یہ وہی دین ہے جس سے تمسک اختیار کرنا واجب ہے مسلمانوں پر ، واجب ہے کہ ہم اس حقیقت کو جانیں اچھی طرح سے۔ اور یہ بات بھی ضروری ہے کہ ہم ان لوگوں کو اس حقیقت کی پہچان کروائیں، آشکارا کریں اور اس سے تمسک اختیار کریں۔ اللہ تعالیٰ کی قسم ! اگر وہ اللہ کے دین کی طرف پلٹ آئیں تو اللہ تعالیٰ ضرور ان کی مدد فرمائے گا یورپ کے خلاف ، امریکہ کے خلاف اور تمام ممالک کے خلاف :
﴿هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ ۙ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ ﴾ (التوبہ:33)
(وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے اپنے اس رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے تمام ادیا ن پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین بُرا ہی کیوں نہ مانیں)
اس قسم کے لوگ مدد و نصرت کے مستحق ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جیسا کہ اصحاب محمدﷺ تھے اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب فرما دیا تھا:
﴿وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا، يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا﴾ (النور:55)
(اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ وعدہ کیا ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے کہ انہیں ضرور بالضرور زمین پر خلافت (حکومت ) دے گا جس طرح سے ان سے پہلے لوگوں کو دی تھی، اور ان کے لیے اس دین کو نافذ کر دے گا، جما دے گا جس سے وہ ان کے لیے راضی ہے،اور ضرور بالضرور ان کی جو خوف کی حالت ہے اس کو امن سے بدل دے گا،وہ میری عبادت کریں اور میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کریں )
روس نکل گیا اس کے بجائے مغربی ممالک آ گئے۔ اللہ تعالیٰ اس امت کی ہرگز بھی مدد اور نصرت نہیں فرمائے گا جب تک یہ کتاب اور سنت کا جھنڈا بلند نہیں کرتے حق وصداقت اورسنجیدگی کے ساتھ اور توحید کا عَلم بلند نہیں کرتے، مگر حال یہ ہو کہ ان کے ہاں ایسے نعرے ہوں، ایسے اصول اور مبادی ہوں جو کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت دور ہوں بلکہ جاہلیت پر مبنی ہوں، تو پھر یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سوائے ذلت اور رسوائی کے اور کسی چیز میں اضافے کا سبب نہیں ہو گا، اور دشمن کا ان پر مسلط ہو جانا اور انہیں ذلیل کرنا اس کے سوا انہیں کچھ حاصل نہیں ہو گا، جیسا کہ حدیث میں بھی ہے کہ:
’’حَتَّى تَرْجِعُوا إِلَى دِينِكُمْ‘‘
(یہاں تک کہ تم اپنے دین کی طرف نہ لوٹ آؤ)۔
اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین وہ اسلام ہے جو انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام لے کر آئے اور خاتم الانبیاء والمرسلین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے ہیں نہ کہ جو المرغنیہ یا نقشبندیہ یا اس جیسے گمراہ طرق وغیرہ سے آیا ہے ۔ اللہ کا دین حق ہے اور یہ وہی دین ہے جس سے تمسک اختیار کرنا واجب ہے مسلمانوں پر ، واجب ہے کہ ہم اس حقیقت کو جانیں اچھی طرح سے۔ اور یہ بات بھی ضروری ہے کہ ہم ان لوگوں کو اس حقیقت کی پہچان کروائیں، آشکارا کریں اور اس سے تمسک اختیار کریں۔ اللہ تعالیٰ کی قسم ! اگر وہ اللہ کے دین کی طرف پلٹ آئیں تو اللہ تعالیٰ ضرور ان کی مدد فرمائے گا یورپ کے خلاف ، امریکہ کے خلاف اور تمام ممالک کے خلاف :
﴿هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ ۙ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ ﴾ (التوبہ:33)
(وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے اپنے اس رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے تمام ادیا ن پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین بُرا ہی کیوں نہ مانیں)
اس قسم کے لوگ مدد و نصرت کے مستحق ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جیسا کہ اصحاب محمدﷺ تھے اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب فرما دیا تھا:
﴿وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا، يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا﴾ (النور:55)
(اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ وعدہ کیا ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے کہ انہیں ضرور بالضرور زمین پر خلافت (حکومت ) دے گا جس طرح سے ان سے پہلے لوگوں کو دی تھی، اور ان کے لیے اس دین کو نافذ کر دے گا، جما دے گا جس سے وہ ان کے لیے راضی ہے،اور ضرور بالضرور ان کی جو خوف کی حالت ہے اس کو امن سے بدل دے گا،وہ میری عبادت کریں اور میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کریں )
سیدنا یاسر رضی اللہ عنہ کو قید کر لیا گیا، اور آپ کی زوجہ محترمہ کو قتل کر دیا گیا ۔جب اللہ تعالیٰ نے انہیں ہجرت کا حکم دیا اور اسلامی حکومت مدینہ نبویہ میں قائم ہو گئی پھر جا کر انہیں قتال کا حکم دیا گیا۔
اور آج قتال توحید کے لیے نہیں کیا جاتا ، انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے دین کے لیے نہیں کیا جاتا بلکہ وطن پرستی کے لیے کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام نے توحید کی خاطر ہجرتیں کیں، اپنا مال اور گھر توحید کی خاطر چھوڑا ،اور توحید ہی کی خاطر لڑتے رہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
’’أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ‘‘
(مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کرتا رہوں یہاں تک کہ وہ گواہی دیں لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کی)۔
چنانچہ وہ فلسطینی جو توحید پرست ہیں انہیں اذیتوں ، اہانتوں اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ساتھ رافضیت بھی چل رہی ہے اور نصرانیت بھی رواں دواں ہے، کیا اس طریقے سے ریاست محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھی ؟!
ہم نے یہ جو امور یہاں پر ذکر کیے ہیں یہ اس لیے ذکر کیے ہیں کیوں کہ یہ آج کے سلگتے ہوئے موضوعات ہیں، تاکہ ہم تنبیہ کر سکیں توحید کی اہمیت پر جس کی خاطر اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو پیدا کیا ، آسمانوں اور زمین کو ، جنت اور جہنم کو پیدا فرمایا اور اسی کی خاطر انبیاء اور رسل علیہم الصلاۃ والسلام کو مبعوث کیا گیا، اور کتابیں نازل کی گئیں۔ چنانچہ اس توحید الہیٰ کی اہمیت کو سمجھیے اس کا علم حاصل کریں اللہ تعالیٰ کی کتاب سے سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے، اور آئمہ توحید کی کتاب سے جیسا کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اور ابن القیم اور ابن عبد الوہاب رحمہم اللہ ۔ توحید کی تعلیم حاصل کریں، اسی طرح دین کے جتنے امور ہیں ان کی بھی نماز ، روزہ ، زکوٰۃ وغیرہ جتنی بھی عبادات ہیں ان تمام کی تعلیم آپ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل کریں، کیوں کہ یہ سب کی سب لوٹتی ہیں توحید کی جانب ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعاء ہے کہ وہ اس امت کی پیشانی پکڑ کر ان کو حق ، خیر اور ہدایت کی جانب رواں دواں فرمادے، اور ان کے لیے ایسے صالحین اور سچے اور موحد داعیان پیدا کرے جو مخلص ہوں جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اس امت کو باذن اللہ اس ذلت اور پستی سے نکال دے جس میں یہ مبتلا ہے۔
چنانچہ اے نوجوانو! توحید کو سیکھو اہل علم سے اور تحصیل علم کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا دو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
’’لَأَنْ يُهْدَى اللہُ بِكَ رَجُلاً وَاحِداً خَيْرٌ لَكَ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ‘‘
(اگر ایک شخص بھی تمہارے ہاتھوں ہدایت پا جاتا ہے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے )۔
تو ہم میں سے ہر کوئی کوشش کرے اپنے خاندان کی اصلاح کی اور جو ان کے ماحول میں ارد گرد لوگ ہیں بقدر استطاعت ان کی اصلاح کی کوشش کرے۔ اللہ عزوجل سے دعا ءہے کہ ہمیں اور آپ کو حق پر ثابت قدمی عطاءفرمائے اور ہمیں اور آپ کو ہدایت یافتہ لوگوں میں سے کر لے، بے شک میرا ربّ دعاؤں کو سننے والا ہے ۔
وصلی اللہ علیٰ نبینا محمد و علیٰ آلہ وصحبہ وسلم.
[1] أخرجه أبو داود،كتاب البيوع – باب فى النهي عن العينة (3003) عن إبن عمر رضی اللہ عنہما.
[2] أخرجه الحاكم (5666) عن جابر رضی اللہ عنہ.
اور آج قتال توحید کے لیے نہیں کیا جاتا ، انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے دین کے لیے نہیں کیا جاتا بلکہ وطن پرستی کے لیے کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام نے توحید کی خاطر ہجرتیں کیں، اپنا مال اور گھر توحید کی خاطر چھوڑا ،اور توحید ہی کی خاطر لڑتے رہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
’’أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ‘‘
(مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کرتا رہوں یہاں تک کہ وہ گواہی دیں لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کی)۔
چنانچہ وہ فلسطینی جو توحید پرست ہیں انہیں اذیتوں ، اہانتوں اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ساتھ رافضیت بھی چل رہی ہے اور نصرانیت بھی رواں دواں ہے، کیا اس طریقے سے ریاست محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھی ؟!
ہم نے یہ جو امور یہاں پر ذکر کیے ہیں یہ اس لیے ذکر کیے ہیں کیوں کہ یہ آج کے سلگتے ہوئے موضوعات ہیں، تاکہ ہم تنبیہ کر سکیں توحید کی اہمیت پر جس کی خاطر اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو پیدا کیا ، آسمانوں اور زمین کو ، جنت اور جہنم کو پیدا فرمایا اور اسی کی خاطر انبیاء اور رسل علیہم الصلاۃ والسلام کو مبعوث کیا گیا، اور کتابیں نازل کی گئیں۔ چنانچہ اس توحید الہیٰ کی اہمیت کو سمجھیے اس کا علم حاصل کریں اللہ تعالیٰ کی کتاب سے سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے، اور آئمہ توحید کی کتاب سے جیسا کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اور ابن القیم اور ابن عبد الوہاب رحمہم اللہ ۔ توحید کی تعلیم حاصل کریں، اسی طرح دین کے جتنے امور ہیں ان کی بھی نماز ، روزہ ، زکوٰۃ وغیرہ جتنی بھی عبادات ہیں ان تمام کی تعلیم آپ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل کریں، کیوں کہ یہ سب کی سب لوٹتی ہیں توحید کی جانب ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعاء ہے کہ وہ اس امت کی پیشانی پکڑ کر ان کو حق ، خیر اور ہدایت کی جانب رواں دواں فرمادے، اور ان کے لیے ایسے صالحین اور سچے اور موحد داعیان پیدا کرے جو مخلص ہوں جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اس امت کو باذن اللہ اس ذلت اور پستی سے نکال دے جس میں یہ مبتلا ہے۔
چنانچہ اے نوجوانو! توحید کو سیکھو اہل علم سے اور تحصیل علم کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا دو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
’’لَأَنْ يُهْدَى اللہُ بِكَ رَجُلاً وَاحِداً خَيْرٌ لَكَ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ‘‘
(اگر ایک شخص بھی تمہارے ہاتھوں ہدایت پا جاتا ہے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے )۔
تو ہم میں سے ہر کوئی کوشش کرے اپنے خاندان کی اصلاح کی اور جو ان کے ماحول میں ارد گرد لوگ ہیں بقدر استطاعت ان کی اصلاح کی کوشش کرے۔ اللہ عزوجل سے دعا ءہے کہ ہمیں اور آپ کو حق پر ثابت قدمی عطاءفرمائے اور ہمیں اور آپ کو ہدایت یافتہ لوگوں میں سے کر لے، بے شک میرا ربّ دعاؤں کو سننے والا ہے ۔
وصلی اللہ علیٰ نبینا محمد و علیٰ آلہ وصحبہ وسلم.
[1] أخرجه أبو داود،كتاب البيوع – باب فى النهي عن العينة (3003) عن إبن عمر رضی اللہ عنہما.
[2] أخرجه الحاكم (5666) عن جابر رضی اللہ عنہ.
تو یہ جتنی بھی صفات ہیں وہ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں موجود تھیں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں زمین پر خلافت عطاء فرمائی تو وہ اسلام کے ذریعے اور اس توحید کے ذریعے دنیا کی سیادت وقیادت کرنے والے بن گئے۔اور آج روافض کو دیکھیں جو شرک میں مبتلا ہیں اور اپنی اس حکومت کو اسلامی ریاست کہتے ہیں،کتنا کچھ شرک ان کے پاس ہے اور کس کس قسم کے کفریات وگمراہیاں ان کے پاس موجود ہیں، اور جو گمراہ لوگ ہیں وہ اس بات کی گواہی دیتے پھرتے ہیں کہ ان کی (مثالی) اسلامی ریاست ہے، اور ان کے لیے طبل بجاتے ہیں اخوان المسلمین قسم کے لوگ کہ وہ جہاد کا عَلم بلند کرتے ہیں، جس میں حماس کی تنظیم بھی ہے ، پس وہ اس حکومت کے لیے طبل بجاتے ہیں خوشیاں مناتے ہیں جو کہ یہود و نصاریٰ سے بھی زیادہ گمراہ ترین لوگ ہیں اور قدیم تاریخ سے ہی آج کے دور تک دشمنان اسلام کے یہ ہرکارے ہیں اور انہی کے ایجنٹس ہیں، اور بظاہر ان کے یعنی ان روافض کے اور یہود و نصاریٰ کے درمیان جو چپقلش دکھائی جاتی ہے یا جھڑپیں یہ ساری کی ساری جھوٹ درجھوٹ پر مبنی ہیں، یہ سب تماشے مسلمانوں کو دھوکے میں رکھنے کے لیے ہیں، بظاہر دشمنی دکھاتے ہیں یہود سے تاکہ اپنے حزب الشیطان کے وجود کو باقی رکھ سکیں جسے وہ عربی ممالک میں گمراہ کرنے کے لیے ’’حزب اللہ‘‘ نام دیتے ہیں ، اسی طرح سے ایک حماس بھی فلسطین میں گروہ موجود ہےو اور اس جیسے جتنے بھی اس قبیل کے گروہ ہیں جو کہ تفرقے پر اور مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لیے اور بلاء اور آزمائش کے لیے بنے ہوئے ہیں ۔
واجب ہے حماس کے اوپر بھی کہ وہ توحید کا جھنڈا بلند کرے اور روافض کے ساتھ تعلقات نہ رکھے، ان کا توحید سے کوئی تعلق نہیں، نہ ہی سنت سے اگرچہ جتنے بھی بلند و بانگ دعوے کرتے رہیں ۔ پہلے پہلی جب انہو ں نے اپنی کاروائیاں شروع کی تو وہ یہ دعویٰ کیا کرتے تھے کہ وہ سلفی ہیں، لیکن ہم اسی وقت جان گئے کہ یہ لوگ منحرف ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہی ان کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ وہ کہتے تھے کہ: ہم طائفہ منصورہ ہیں ۔ چنانچہ جو حماس ہے اس پر واجب ہے اور تمام امت اسلامیہ پر واجب ہے کہ وہ اپنے اللہ تعالی کے اس دین ِحق کی جانب لوٹ آئیں جس پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے ۔
سیدنا نوح علیہ الصلاۃ والسلام کو دیکھیں کہ ہزار سال تک توحید کی جانب دعوت دیتے رہے ، سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام توحید کی جانب دعوت دیتے رہے یہاں تک کہ ان کی وفات ہوئی ، سیدنا موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام اور ان کے علاوہ کتنے انبیاء والمرسلین علیہم الصلاۃ والسلام سب کی دعوتیں اسی پر مبنی تھیں ۔ سیدنا موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کو دیکھیں آپ مصر میں تھے اور بنی اسرائیل فرعونیوں کی حکومت کے تحت ذلت کی زندگی گزار رہے تھے، آپ نےیہ نہیں کہا انہیں کہ آؤ وطن پرستی یا قومیت کے لیے لڑتے ہيں ، حالانکہ انہوں نے کہا تھا کہ:
﴿قَالُوْٓا اُوْذِيْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِيَنَا وَمِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا﴾ (الاعراف:129)
(ہمیں آپ کے آنے سے پہلے بھی اذیت دی جاتی رہی اور آپ کے آنے کے بعد بھی )
تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے انہیں وصیت کی صبر کی، جب بھی وہ شکوٰہ شکایت کرتے تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے کہ صبر کرو، حالانکہ وہ ان کے بیٹوں کو ذبح کرتے اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتے۔ سیدنا موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرعون کو بھی توحید کی جانب دعوت دی مگر اس نے اسے قبول نہ کیا، اور جب اللہ تعالیٰ نے ان کےو ہاں سے نکلنے کا ارادہ فرمایا تو وہ راتوں رات نکلے ، حالانکہ ممکن تھا کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام ان سے مقابلہ کرتے، جہاد کرتے اور خون بہایا جاتا ، اور یہ بھی ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ زلزلے سے فرعون اور فرعونیوں کو ختم کر دیتا لیکن اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا تھا، اللہ سبحانہ و تعالیٰ توحید کو چاہتا تھا ۔ اس کے بعد آپ دیکھیں سیدنا موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام انہیں پیچھے چھوڑ کر وادی سیناء کی طرف نکلے اور اور بنی اسرائیل کو جہاد کی جانب دعوت دی کہ آؤ لیکن وہ اس سے پیچھے رہے اور اس پر لبیک نہیں کہا، کیوں کہ فرعونی تربیت کے کچھ آثار ان کے اندر اب بھی موجود تھے۔ چنانچہ انہوں نے فلسطین کو بعد میں فتح کیا سیدنا یوشع بن نون علیہ الصلاۃ والسلام کے ہاتھوں جنہیں اللہ تعالیٰ نے نبی کے طور پر چن لیا تھا سیدنا موسیٰ اور ہارون علیہما الصلاۃ والسلام کے بعد ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت دیکھیں خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تیرہ سال تک مکہ میں رہے اور اذیتیں برداشت کرتے رہے مشرکین کی طرف سے، اور ماریں سہتے رہے ، یہ نہیں کہا کہ آؤ انقلاب برپا کرتے ہیں تحریک چلاتے ہیں بلکہ کہا کہ:
’’اصْبِرُوا آلَ يَاسِرٍ‘‘([2])
(اے آل یاسر صبر کرو )۔
واجب ہے حماس کے اوپر بھی کہ وہ توحید کا جھنڈا بلند کرے اور روافض کے ساتھ تعلقات نہ رکھے، ان کا توحید سے کوئی تعلق نہیں، نہ ہی سنت سے اگرچہ جتنے بھی بلند و بانگ دعوے کرتے رہیں ۔ پہلے پہلی جب انہو ں نے اپنی کاروائیاں شروع کی تو وہ یہ دعویٰ کیا کرتے تھے کہ وہ سلفی ہیں، لیکن ہم اسی وقت جان گئے کہ یہ لوگ منحرف ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہی ان کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ وہ کہتے تھے کہ: ہم طائفہ منصورہ ہیں ۔ چنانچہ جو حماس ہے اس پر واجب ہے اور تمام امت اسلامیہ پر واجب ہے کہ وہ اپنے اللہ تعالی کے اس دین ِحق کی جانب لوٹ آئیں جس پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے ۔
سیدنا نوح علیہ الصلاۃ والسلام کو دیکھیں کہ ہزار سال تک توحید کی جانب دعوت دیتے رہے ، سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام توحید کی جانب دعوت دیتے رہے یہاں تک کہ ان کی وفات ہوئی ، سیدنا موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام اور ان کے علاوہ کتنے انبیاء والمرسلین علیہم الصلاۃ والسلام سب کی دعوتیں اسی پر مبنی تھیں ۔ سیدنا موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کو دیکھیں آپ مصر میں تھے اور بنی اسرائیل فرعونیوں کی حکومت کے تحت ذلت کی زندگی گزار رہے تھے، آپ نےیہ نہیں کہا انہیں کہ آؤ وطن پرستی یا قومیت کے لیے لڑتے ہيں ، حالانکہ انہوں نے کہا تھا کہ:
﴿قَالُوْٓا اُوْذِيْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِيَنَا وَمِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا﴾ (الاعراف:129)
(ہمیں آپ کے آنے سے پہلے بھی اذیت دی جاتی رہی اور آپ کے آنے کے بعد بھی )
تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے انہیں وصیت کی صبر کی، جب بھی وہ شکوٰہ شکایت کرتے تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے کہ صبر کرو، حالانکہ وہ ان کے بیٹوں کو ذبح کرتے اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتے۔ سیدنا موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرعون کو بھی توحید کی جانب دعوت دی مگر اس نے اسے قبول نہ کیا، اور جب اللہ تعالیٰ نے ان کےو ہاں سے نکلنے کا ارادہ فرمایا تو وہ راتوں رات نکلے ، حالانکہ ممکن تھا کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام ان سے مقابلہ کرتے، جہاد کرتے اور خون بہایا جاتا ، اور یہ بھی ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ زلزلے سے فرعون اور فرعونیوں کو ختم کر دیتا لیکن اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا تھا، اللہ سبحانہ و تعالیٰ توحید کو چاہتا تھا ۔ اس کے بعد آپ دیکھیں سیدنا موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام انہیں پیچھے چھوڑ کر وادی سیناء کی طرف نکلے اور اور بنی اسرائیل کو جہاد کی جانب دعوت دی کہ آؤ لیکن وہ اس سے پیچھے رہے اور اس پر لبیک نہیں کہا، کیوں کہ فرعونی تربیت کے کچھ آثار ان کے اندر اب بھی موجود تھے۔ چنانچہ انہوں نے فلسطین کو بعد میں فتح کیا سیدنا یوشع بن نون علیہ الصلاۃ والسلام کے ہاتھوں جنہیں اللہ تعالیٰ نے نبی کے طور پر چن لیا تھا سیدنا موسیٰ اور ہارون علیہما الصلاۃ والسلام کے بعد ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت دیکھیں خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تیرہ سال تک مکہ میں رہے اور اذیتیں برداشت کرتے رہے مشرکین کی طرف سے، اور ماریں سہتے رہے ، یہ نہیں کہا کہ آؤ انقلاب برپا کرتے ہیں تحریک چلاتے ہیں بلکہ کہا کہ:
’’اصْبِرُوا آلَ يَاسِرٍ‘‘([2])
(اے آل یاسر صبر کرو )۔
[Article] Responsibilities of #Muslims in these painful circumstances – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
ان پرالم حالات میں ہماری ذمہ داریاں
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کی آفیشل ویب سائٹ سے لیا گیا۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
#امت
#مسلمان
#ummah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/07/puralam_halat_muslims_zimedari.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وقت حاضر میں مسلمان انتہائی پرالم وپرخطر حالات سے دوچار ہیں کہ ہرجانب سے دشمنوں کا ان پر تسلط ہوتا چلا جارہا ہےکہیں افغانستان میں جنگ تو کہیں عراق میں کہیں فلسطین میں جنگ تو کہیں لبنان میں۔ جوکچھ ہم سنتے یا پڑھتے ہیں اپنے خطباء اور قلم کاروں سے وہ بس دشمنوں پر لعنت ملامت کرنا، ان کے جرائم بیان کرنا اور اسی کا شکوہ کرنا ہوتا ہے۔ بلاشبہ یہ امور موجود ہیں، لیکن کیا کافر دشمن اس قسم کی محض چیخ وپکار اور واویلا کرنے سے بھاگ جائے گا!؟
کافر تو شروع زمانے سے ہی اسلام کا وجود صفحۂ ہستی سے مٹا دینا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ وَلَا يَزَالُوْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰى يَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِيْنِكُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا﴾ (البقرۃ: 217)
(وہ تم سے لڑتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ اگر ان کے بس میں ہو تو تمہیں تمہارے دین اسلام سے پھیر دیں)
لیکن کام کی بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں نے ان کے مقابلے میں اور ان کی زیادتیوں کو روکنے کے لئے کیا تیاری کر رکھی ہے!؟
ان پر واجب ہے کہ:
اولاً: دین کے تعلق سےاور اس کے ساتھ تمسک اختیار کرنے کے اعتبارسےاپنی موجودہ صورتحال پر غور کریں ، کیونکہ جو کچھ مصائب کا انہیں سامنا ہے وہ ان کی دین میں کوتاہی کے سبب ہی ہے۔ ایک اثر میں ہے:
’’إِذَا عَصَانِي مَنْ يَعْرِفُنِي سَلَّطْتُ عَلَيْهِ مَنْ لا يَعْرِفُنِي‘‘(1)
(اگر وہ میری نافرمانی کرے جو مجھے جانتا ہے (یعنی مسلمان اور نیکوکار) تو میں اس پر اسے مسلط کردوں گا جو مجھے نہیں جانتا (یعنی کافر اور فاسق وفاجر))۔
بنی اسرائیل کے ساتھ کیا ہوا جب انہوں نے اپنے دین سے لاتعلقی اختیار کی اور زمین میں فساد برپا کیا؛ اللہ تعالی نے ان پر مجوسی کافروں کو مسلط کردیا جنہوں نے ان کے گھروں تک کے اندر گھس کر تباہی مچائی جس کا ذکر اللہ تعالی نے سورۂ بنی اسرائیل کے شروع میں فرمایا۔ اللہ تعالی نے انہیں یہ بھی وعید سنائی کہ اگر تم اپنی اس (نافرمانی والی)حالت میں واپس لوٹو گے تو اللہ تعالی بھی تم پر پھر سے یہ غضب ڈھائیں گے۔ اسی لئے ہم پر واجب ہے کہ ہم اپنی موجودہ صورتحال پر نظر کریں اور ہمارے دین کے تعلق سے ہمارے اعمال میں جو فساد آگیا ہے اس کی اصلاح کریں کیونکہ اللہ تعالی کی سنت تبدیل نہیں ہوتی۔ اللہ تعالی کافرمان ہے:
﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ۭ وَاِذَآ اَرَادَ اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗ ۚ وَمَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّالٍ﴾ (الرعد: 11)
(بے شک کسی قوم کی حالت اللہ تعالی نہیں بدلتے جب تک کہ وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے اندر (خرابیاں) ہیں۔ اللہ تعالی جب کسی قوم کی سزا کا ارادہ فرمالیتے ہیں تو وہ بدلا نہیں کرتا، اور سوائے اس کے کوئی ان کا کارساز بھی نہیں ہوتا)
ثانیاً: ہمیں چاہیے کہ ایسی قوت واسباب تیار کریں جس کے ذریعہ ہم اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرسکیں جیسا کہ اللہ تعالی نے حکم ارشاد فرمایا ہے:
﴿ وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمْ وَاٰخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِهِمْ ۚ لَا تَعْلَمُوْنَهُمْ ۚ اَللّٰهُ يَعْلَمُهُمْ﴾ (الانفال: 60)
(تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو اور گھوڑوں کے تیار رکھنے کی کہ اس سے تم اللہ تعالی کے دشمنوں کو خوفزدہ رکھ سکو اور ان کے سوا اوروں کو بھی، جنہیں تم نہیں جانتے، اللہ تعالی انہیں خوب جانتا ہے)
بہترین فوج، مناسب اسلحہ اور کارگر قوت مدافعت پیدا کرکے یہ تیاری کی جائے۔
ثالثاً: مسلمانوں کے کلمے کو مجتمع کرنا عقیدۂ توحید اور تحکیم شریعت پر، اور اپنے معاملات واخلاق غرض ہر امور میں اسلام کا التزام کرنا، کتاب اللہ کی تحکیم کرنا، نیکی کا حکم کرنا اور برائیوں سے روکنا، اور اللہ تعالی کی راہ کی طرف علم وبصیرت واخلاص کے ساتھ دعوت دینا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا﴾ (آل عمران: 103)
(اور تم سب مل کر اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقہ بازی نہ کرو)
اور فرمایا:
﴿ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيْحُكُمْ وَاصْبِرُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ﴾ (الانفال: 46)
ان پرالم حالات میں ہماری ذمہ داریاں
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کی آفیشل ویب سائٹ سے لیا گیا۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
#امت
#مسلمان
#ummah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/07/puralam_halat_muslims_zimedari.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وقت حاضر میں مسلمان انتہائی پرالم وپرخطر حالات سے دوچار ہیں کہ ہرجانب سے دشمنوں کا ان پر تسلط ہوتا چلا جارہا ہےکہیں افغانستان میں جنگ تو کہیں عراق میں کہیں فلسطین میں جنگ تو کہیں لبنان میں۔ جوکچھ ہم سنتے یا پڑھتے ہیں اپنے خطباء اور قلم کاروں سے وہ بس دشمنوں پر لعنت ملامت کرنا، ان کے جرائم بیان کرنا اور اسی کا شکوہ کرنا ہوتا ہے۔ بلاشبہ یہ امور موجود ہیں، لیکن کیا کافر دشمن اس قسم کی محض چیخ وپکار اور واویلا کرنے سے بھاگ جائے گا!؟
کافر تو شروع زمانے سے ہی اسلام کا وجود صفحۂ ہستی سے مٹا دینا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ وَلَا يَزَالُوْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰى يَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِيْنِكُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا﴾ (البقرۃ: 217)
(وہ تم سے لڑتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ اگر ان کے بس میں ہو تو تمہیں تمہارے دین اسلام سے پھیر دیں)
لیکن کام کی بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں نے ان کے مقابلے میں اور ان کی زیادتیوں کو روکنے کے لئے کیا تیاری کر رکھی ہے!؟
ان پر واجب ہے کہ:
اولاً: دین کے تعلق سےاور اس کے ساتھ تمسک اختیار کرنے کے اعتبارسےاپنی موجودہ صورتحال پر غور کریں ، کیونکہ جو کچھ مصائب کا انہیں سامنا ہے وہ ان کی دین میں کوتاہی کے سبب ہی ہے۔ ایک اثر میں ہے:
’’إِذَا عَصَانِي مَنْ يَعْرِفُنِي سَلَّطْتُ عَلَيْهِ مَنْ لا يَعْرِفُنِي‘‘(1)
(اگر وہ میری نافرمانی کرے جو مجھے جانتا ہے (یعنی مسلمان اور نیکوکار) تو میں اس پر اسے مسلط کردوں گا جو مجھے نہیں جانتا (یعنی کافر اور فاسق وفاجر))۔
بنی اسرائیل کے ساتھ کیا ہوا جب انہوں نے اپنے دین سے لاتعلقی اختیار کی اور زمین میں فساد برپا کیا؛ اللہ تعالی نے ان پر مجوسی کافروں کو مسلط کردیا جنہوں نے ان کے گھروں تک کے اندر گھس کر تباہی مچائی جس کا ذکر اللہ تعالی نے سورۂ بنی اسرائیل کے شروع میں فرمایا۔ اللہ تعالی نے انہیں یہ بھی وعید سنائی کہ اگر تم اپنی اس (نافرمانی والی)حالت میں واپس لوٹو گے تو اللہ تعالی بھی تم پر پھر سے یہ غضب ڈھائیں گے۔ اسی لئے ہم پر واجب ہے کہ ہم اپنی موجودہ صورتحال پر نظر کریں اور ہمارے دین کے تعلق سے ہمارے اعمال میں جو فساد آگیا ہے اس کی اصلاح کریں کیونکہ اللہ تعالی کی سنت تبدیل نہیں ہوتی۔ اللہ تعالی کافرمان ہے:
﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ۭ وَاِذَآ اَرَادَ اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗ ۚ وَمَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّالٍ﴾ (الرعد: 11)
(بے شک کسی قوم کی حالت اللہ تعالی نہیں بدلتے جب تک کہ وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے اندر (خرابیاں) ہیں۔ اللہ تعالی جب کسی قوم کی سزا کا ارادہ فرمالیتے ہیں تو وہ بدلا نہیں کرتا، اور سوائے اس کے کوئی ان کا کارساز بھی نہیں ہوتا)
ثانیاً: ہمیں چاہیے کہ ایسی قوت واسباب تیار کریں جس کے ذریعہ ہم اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرسکیں جیسا کہ اللہ تعالی نے حکم ارشاد فرمایا ہے:
﴿ وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمْ وَاٰخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِهِمْ ۚ لَا تَعْلَمُوْنَهُمْ ۚ اَللّٰهُ يَعْلَمُهُمْ﴾ (الانفال: 60)
(تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو اور گھوڑوں کے تیار رکھنے کی کہ اس سے تم اللہ تعالی کے دشمنوں کو خوفزدہ رکھ سکو اور ان کے سوا اوروں کو بھی، جنہیں تم نہیں جانتے، اللہ تعالی انہیں خوب جانتا ہے)
بہترین فوج، مناسب اسلحہ اور کارگر قوت مدافعت پیدا کرکے یہ تیاری کی جائے۔
ثالثاً: مسلمانوں کے کلمے کو مجتمع کرنا عقیدۂ توحید اور تحکیم شریعت پر، اور اپنے معاملات واخلاق غرض ہر امور میں اسلام کا التزام کرنا، کتاب اللہ کی تحکیم کرنا، نیکی کا حکم کرنا اور برائیوں سے روکنا، اور اللہ تعالی کی راہ کی طرف علم وبصیرت واخلاص کے ساتھ دعوت دینا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا﴾ (آل عمران: 103)
(اور تم سب مل کر اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقہ بازی نہ کرو)
اور فرمایا:
﴿ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيْحُكُمْ وَاصْبِرُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ﴾ (الانفال: 46)
(اور آپس میں تنازع نہ کرو ورنہ بزدل ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر سے کام لو بے شک اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے)
یہ اجتماع، اتحاد ویگانگت حاصل نہیں ہوسکتی اگر عقیدے، مقاصد واہداف میں اختلاف ہو۔ یہ حقیقی اتحاد تب ہوگا جب عقیدہ صحیح ہواور اہداف اس طور پر یکساں ہوں کہ حق کی نصرت اور اللہ تعالی کا کلمہ بلند کرنا مقصد ہو۔
کاش کہ ہمارے خطباء وواعظین اپنے خطبوں اور واعظوں میں اس نکتے پر توجہ مرکوز رکھیں ساتھ ہی ساتھ دشمن اورزیادتی کرنے والے پر تنقید بھی کریں، اور اس کے خبیث مقاصد بھی بیان کریں، کیونکہ وہ دشمن محض مسلمانوں کو کمزور کرکے ان کے مال وثروت ہی لوٹنا نہیں چاہتا بلکہ اس کا اولین مقصد ان کے عقیدے میں بگاڑ پیدا کرکے انہیں ان کے دین سے برگشتہ کرنا ہے یہاں تک کہ وہ انہیں ٹکڑے ٹکڑے کرکے تباہ وبرباد کردے۔
یہی کچھ تنبیہات تھی جو میں ان ناگفتہ بہ حالات کے بارے میں کرنا چاہتا تھا۔
حلیۃ الاولیاء لابی نعیم 91:8۔
یہ اجتماع، اتحاد ویگانگت حاصل نہیں ہوسکتی اگر عقیدے، مقاصد واہداف میں اختلاف ہو۔ یہ حقیقی اتحاد تب ہوگا جب عقیدہ صحیح ہواور اہداف اس طور پر یکساں ہوں کہ حق کی نصرت اور اللہ تعالی کا کلمہ بلند کرنا مقصد ہو۔
کاش کہ ہمارے خطباء وواعظین اپنے خطبوں اور واعظوں میں اس نکتے پر توجہ مرکوز رکھیں ساتھ ہی ساتھ دشمن اورزیادتی کرنے والے پر تنقید بھی کریں، اور اس کے خبیث مقاصد بھی بیان کریں، کیونکہ وہ دشمن محض مسلمانوں کو کمزور کرکے ان کے مال وثروت ہی لوٹنا نہیں چاہتا بلکہ اس کا اولین مقصد ان کے عقیدے میں بگاڑ پیدا کرکے انہیں ان کے دین سے برگشتہ کرنا ہے یہاں تک کہ وہ انہیں ٹکڑے ٹکڑے کرکے تباہ وبرباد کردے۔
یہی کچھ تنبیہات تھی جو میں ان ناگفتہ بہ حالات کے بارے میں کرنا چاہتا تھا۔
حلیۃ الاولیاء لابی نعیم 91:8۔
[Article] Why #Salafee #Ulamaa don't support current Jihaadi movements? – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
#سلفی #علماء موجودہ جہادی تحریکوں کی حمایت کیوں نہيں کرتے؟ – شیخ ربیع بن ہادی المدخلی
#SalafiUrduDawah
#جہاد
#jihad
شیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ سے سوال ہوا:
سوال: ان دنوں بہت سے نوجوان اس بارے میں سوال کرتے ہيں کہ جو مسلمانوں کے ساتھ یہاں وہاں حالت زار ہورہی ہے فلسطین، کشمیر وچیچنیا میں تو کیا ہمارے لیے وہاں جہاد کرنا مشروع ہے یا نہیں؟ ان سوالات میں سے ایک بطور نمونہ یہ ہے کہ سائل کہتا ہے: میں کوئی طالب علم نہيں ہوں لیکن مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ یہاں وہاں فلسطین، چیچنیا وکشمیر میں ہورہا ہے اس کی وجہ سے بہت غمگین وپریشان ہوں۔ میں جہاد کرنا چاہتا ہوں آپ کی میرے لیے کیا نصیحت ہے، اور میں کس چیز سے شروع کروں، اور کس طرح جہاد مکمل ہوگا، اور کیا فی زمانہ جہاد واقعی ہو بھی رہا ہے؟
جوابات جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/salafee_ulama_mojoda_jihadi_tehreeko_himayat_nahi.pdf
#سلفی #علماء موجودہ جہادی تحریکوں کی حمایت کیوں نہيں کرتے؟ – شیخ ربیع بن ہادی المدخلی
#SalafiUrduDawah
#جہاد
#jihad
شیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ سے سوال ہوا:
سوال: ان دنوں بہت سے نوجوان اس بارے میں سوال کرتے ہيں کہ جو مسلمانوں کے ساتھ یہاں وہاں حالت زار ہورہی ہے فلسطین، کشمیر وچیچنیا میں تو کیا ہمارے لیے وہاں جہاد کرنا مشروع ہے یا نہیں؟ ان سوالات میں سے ایک بطور نمونہ یہ ہے کہ سائل کہتا ہے: میں کوئی طالب علم نہيں ہوں لیکن مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ یہاں وہاں فلسطین، چیچنیا وکشمیر میں ہورہا ہے اس کی وجہ سے بہت غمگین وپریشان ہوں۔ میں جہاد کرنا چاہتا ہوں آپ کی میرے لیے کیا نصیحت ہے، اور میں کس چیز سے شروع کروں، اور کس طرح جہاد مکمل ہوگا، اور کیا فی زمانہ جہاد واقعی ہو بھی رہا ہے؟
جوابات جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/salafee_ulama_mojoda_jihadi_tehreeko_himayat_nahi.pdf
[Article] It is not allowed to cooperate with Islaamic groups and #deviant_sects - Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
اسلامی جماعتوں اور #گمراہ_فرقوں سے تعاون جائز نہیں
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ النھج الواضح
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2014/12/islamee_jamats_firqa_say_tawun_najaiz.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: احسن اللہ الیکم سائل کہتا ہے کہ میں نے ایک اسلامی چینل پر مفکرین میں سے ایک کو یہ کہتے ہوا سنا کہ وہ اسلامی جماعتوں کو سیکولرزم لادینیت وغیرہ کے خلاف تعاون کرنے کے فتنے کا ذکر کررہا تھا، تو کیا یہ کلام صحیح ہے؟ (یعنی وہ اس بات کا قائل ہے کہ تمام دینی جماعتوں کو لادینی قوتوں کے خلاف تعاون کرنا چاہیے)۔
جواب: نہیں یہ بات صحیح نہیں۔ ہم اہل باطل کے ساتھ ہرگز بھی تعاون نہیں کریں گے، نہ ہی گمراہ فرقوں کے ساتھ، ہم ایسا کبھی بھی نہیں کریں گے۔ ہم تو بس اپنے بھائیوں کےساتھ تعاون کریں گے جو اللہ تعالی کی اطاعت اور منہج سلیم پر مستقیم ہوں، صرف ان سے تعاون کریں گے۔ جبکہ منحرف، گمراہ اور اہل سنت والجماعت کے مخالفین کے ساتھ ہم تعاون نہیں کریں گے۔ کیونکہ یہ گناہ اور زیادتی میں تعاون شمار ہوگا اور جس گمراہی پر وہ ہیں اسے گویا کے صحیح قرار دینے کے مترادف تصور کیا جائے گا۔
اور ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ وہ ویسے بھی ہمیں کوئی نفع نہیں پہنچانے والے جیسا کہ عوام میں یہ مثال مشہور ہے کہ ’’اللي مو على دينك ما يعينك‘‘ (جو کوئی آپ کے دین پر نہیں وہ آپ کی کوئی مدد نہيں کرسکتا) اگرچہ یہ عامیانہ محاورہ ہے مگر سچ ہے۔
اسلامی جماعتوں اور #گمراہ_فرقوں سے تعاون جائز نہیں
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ النھج الواضح
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2014/12/islamee_jamats_firqa_say_tawun_najaiz.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: احسن اللہ الیکم سائل کہتا ہے کہ میں نے ایک اسلامی چینل پر مفکرین میں سے ایک کو یہ کہتے ہوا سنا کہ وہ اسلامی جماعتوں کو سیکولرزم لادینیت وغیرہ کے خلاف تعاون کرنے کے فتنے کا ذکر کررہا تھا، تو کیا یہ کلام صحیح ہے؟ (یعنی وہ اس بات کا قائل ہے کہ تمام دینی جماعتوں کو لادینی قوتوں کے خلاف تعاون کرنا چاہیے)۔
جواب: نہیں یہ بات صحیح نہیں۔ ہم اہل باطل کے ساتھ ہرگز بھی تعاون نہیں کریں گے، نہ ہی گمراہ فرقوں کے ساتھ، ہم ایسا کبھی بھی نہیں کریں گے۔ ہم تو بس اپنے بھائیوں کےساتھ تعاون کریں گے جو اللہ تعالی کی اطاعت اور منہج سلیم پر مستقیم ہوں، صرف ان سے تعاون کریں گے۔ جبکہ منحرف، گمراہ اور اہل سنت والجماعت کے مخالفین کے ساتھ ہم تعاون نہیں کریں گے۔ کیونکہ یہ گناہ اور زیادتی میں تعاون شمار ہوگا اور جس گمراہی پر وہ ہیں اسے گویا کے صحیح قرار دینے کے مترادف تصور کیا جائے گا۔
اور ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ وہ ویسے بھی ہمیں کوئی نفع نہیں پہنچانے والے جیسا کہ عوام میں یہ مثال مشہور ہے کہ ’’اللي مو على دينك ما يعينك‘‘ (جو کوئی آپ کے دین پر نہیں وہ آپ کی کوئی مدد نہيں کرسکتا) اگرچہ یہ عامیانہ محاورہ ہے مگر سچ ہے۔
[Article] #Boycotting products of the Kuffaar- Various 'Ulamaa
کافروں کی مصنوعات کا #بائیکاٹ کرنا
مختلف علماء کرام
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس بارے میں رافضیوں کی حماقت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ان کی حماقتیں بہت سی ہیں منجملہ ان حماقتوں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ یزید کے بنائے ہوئے کنویں میں سے نہیں پیتے حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جو ان کے ساتھ تھے وہ ان کنوؤں اور نہروں سے پی لیا کرتے تھے جو کہ کافروں نے کھودی ہوتی تھیں۔ اسی طرح سے بعض ان میں سےشامی بیری نہیں کھاتے جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جو آپ کے ساتھ تھے وہ کافرممالک سے آیا ہوا پنیر کھالیا کرتے تھے اور کافروں کے سلے ہوئے کپڑے پہن لیا کرتے تھے بلکہ زیادہ تران کے کپڑے کافروں ہی کے سلے ہوئے تھے۔۔۔
(منہاج السنۃ 1/38)
مزید علماء کرام کا کلام پڑھنے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/10/kafiro_ki_masnoaat_boycott.pdf
کافروں کی مصنوعات کا #بائیکاٹ کرنا
مختلف علماء کرام
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس بارے میں رافضیوں کی حماقت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
ان کی حماقتیں بہت سی ہیں منجملہ ان حماقتوں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ یزید کے بنائے ہوئے کنویں میں سے نہیں پیتے حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جو ان کے ساتھ تھے وہ ان کنوؤں اور نہروں سے پی لیا کرتے تھے جو کہ کافروں نے کھودی ہوتی تھیں۔ اسی طرح سے بعض ان میں سےشامی بیری نہیں کھاتے جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جو آپ کے ساتھ تھے وہ کافرممالک سے آیا ہوا پنیر کھالیا کرتے تھے اور کافروں کے سلے ہوئے کپڑے پہن لیا کرتے تھے بلکہ زیادہ تران کے کپڑے کافروں ہی کے سلے ہوئے تھے۔۔۔
(منہاج السنۃ 1/38)
مزید علماء کرام کا کلام پڑھنے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/10/kafiro_ki_masnoaat_boycott.pdf
[Article] Sending Salah (#Durood) upon the prophet, its occasions, benefits and wordings - Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen Al-Albaanee
#درود شریف کے مواقع،صیغےاور فوائد
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ واضافہ جات: طارق علی بروہی
مصدر: تلخیص صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نماز میں تشہد میں درود
درود کے 7 صیغے
نبی امت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کے 6 عظیم الشان فوائد
نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کے وجوب کا بیان
درود شریف کی مشروعیت کے بعض دیگر مواقع
اذان کے بعد:
جمعے کے دن:
مجالس میں:
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم گرامی ذکر ہونے پر:
مسجد میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت:
نماز جنازہ میں دوسری تکبیر کے بعد وغیرہ
غیر ثابت شدہ اور خودساختہ درود
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/12/durood_mawaqay_seeghay.pdf
#درود شریف کے مواقع،صیغےاور فوائد
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ واضافہ جات: طارق علی بروہی
مصدر: تلخیص صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نماز میں تشہد میں درود
درود کے 7 صیغے
نبی امت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کے 6 عظیم الشان فوائد
نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کے وجوب کا بیان
درود شریف کی مشروعیت کے بعض دیگر مواقع
اذان کے بعد:
جمعے کے دن:
مجالس میں:
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم گرامی ذکر ہونے پر:
مسجد میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت:
نماز جنازہ میں دوسری تکبیر کے بعد وغیرہ
غیر ثابت شدہ اور خودساختہ درود
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/12/durood_mawaqay_seeghay.pdf
[Article] Was Rasoolullaah (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) #Noor? - Fatwaa Committee, Saudi Arabia
کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم #نور تھے؟
علمی تحقیقات اور افتاء کی مستقل کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة > المجموعة الأولى > المجلد الأول (العقيدة 1) > العقائد > الغلو في الرسول صلى الله عليه وسلم > الدعوى بأن رسول الله عليه الصلاة والسلام خلق من نور الله۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/12/kiya_nabi_noor_thay.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
فتویٰ رقم 7529:
سوال: بہت سے لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہيں کہ تمام اشیاء نور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بنی ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور اللہ کے نور سے بنا ہے، اوروہ یہ روایت کرتے ہيں کہ:
” أنا نور الله وكل شيء من نوري“
(میں اللہ کا نور ہوں، اور ہر چیز میرے نور سے ہے)
اور یہ بھی روایت کرتے ہیں:
” أول ما خلق الله نور محمد صلى الله عليه وسلم “
(سب سے پہلی چیز جو اللہ تعالی نے پیدا کی وہ نور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھی)۔
کیا ان کی کوئی اصل ہے؟
اور یہ بھی روایت کرتے ہیں:
" أنا عرب بلا عين أي رب أنا أحمد بلا ميم أي أحد“
(میں بغیر ع کے عرب ہوں یعنی رب، اور بلا میم کے احمد ہوں یعنی احد)۔
پس کیا اس کی بھی کوئی اصل ہے؟
جواب: ہم نے اس سے پہلے فتویٰ رقم 2871 میں تفصیلی جواب دیا تھا ،جس کا متن یہ ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نور من نور اللہ (اللہ کے نور میں سے نور) سے موصوف کرنے سے اگر مراد یہ ہے کہ آپ ذات کے اعتبار سے اللہ کے نور میں سے نور ہیں تو یہ قرآن مجید کے خلاف ہے کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشریت پر دلالت کرتا ہے، اور اگر نور سے مراد جو کچھ وحی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے کہ جو لوگوں میں سے جس کی اللہ تعالی چاہے ہدایت کا سبب ہے، تو یہ بات صحیح ہے۔ اس تعلق سے فتویٰ کمیٹی نے پہلے بھی فتویٰ صادر کیا تھا جس کا متن یہ تھا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے نور ہے جو کہ نور رسالت و ہدایت ہے کہ جس کے ذریعے اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے جس کی بصیرت کو چاہے ہدایت دیتا ہے۔ بلاشبہ نور رسالت و ہدایت اللہ تعالی کی طرف سے ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَاۗئِ حِجَابٍ اَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا فَيُوْحِيَ بِاِذْنِهٖ مَا يَشَاۗءُ ۭ اِنَّهٗ عَلِيٌّ حَكِيْمٌ، وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ۭ مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِيْمَانُ وَلٰكِنْ جَعَلْنٰهُ نُوْرًا نَّهْدِيْ بِهٖ مَنْ نَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِنَا ۭ وَاِنَّكَ لَـــتَهْدِيْٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ، صِرَاطِ اللّٰهِ الَّذِيْ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ اَلَآ اِلَى اللّٰهِ تَصِيْرُ الْاُمُوْرُ﴾ (الشوریٰ: 51-53)
(اور کسی بشر کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی کے ذریعے، یا پردے کے پیچھے سے، یایہ کہ وہ کوئی پیغامبر بھیجے، پھر اپنے حکم کے ساتھ وحی کرے جو چاہے، بےشک وہ بےحد بلند، کمال حکمت والا ہے، اور اسی طرح ہم نے تمہاری طرف اپنے حکم سے ایک روح کی وحی کی، تم نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ یہ کہ ایمان کیا ہے ،اور لیکن ہم نے اسے ایک ایسی روشنی بنا دیا ہے جس کے ساتھ ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں راہ دکھا تے ہیں، اور بلاشبہ تم یقیناً سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرنے والے ہو، اس اللہ کے راستے کی طرف کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اسی کا ہے، سن لو ! تمام معاملات اللہ ہی کی طرف لوٹتے ہیں)
یہ نور خاتم الاولیاء سے حاصل کردہ نہیں ہے جیسا کہ بعض ملحدوں کا خیال ہے۔ البتہ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم تھا وہ تو خون، گوشت وہڈیاں وغیرہ ہی سے بنا ہوا تھا۔ ایک ماں باپ سے پیدا ہوئے، پیدائش سے پہلے آپ پیدا شدہ نہ تھے۔ یہ جو روایت کی جاتی ہے کہ سب سے پہلے اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کو پیدا کیا یا اللہ تعالی نے اپنے چہرے کے نور سے ایک مٹھی بھر ی اور وہ بھری گئی مٹھی یہی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں، پھر اس کی طرف دیکھا تو اس سے قطرے گرے اور ہر قطرے سے ایک نبی پیدا ہوا یا پوری مخلوق کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے پیدا فرمایا۔ یہ اور اس قسم کی دیگر باتوں میں سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ بھی ثابت نہيں ہے۔
اور سابقہ فتویٰ کی روشنی میں یہ بات واضح ہوئی کہ یہ باطل عقیدہ ہے۔ اور جو یہ روایت کیا جاتا ہے:
" أنا عرب بلا عين “
(میں بغیر عین کے عرب ہوں)۔
اس کی صحت کی بھی کوئی اساس نہيں۔ اور یہی حال :
" أنا أحمد بلا ميم “
(میں بغیر میم کے احمد ہوں)۔
کا ہے۔
کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم #نور تھے؟
علمی تحقیقات اور افتاء کی مستقل کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة > المجموعة الأولى > المجلد الأول (العقيدة 1) > العقائد > الغلو في الرسول صلى الله عليه وسلم > الدعوى بأن رسول الله عليه الصلاة والسلام خلق من نور الله۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/12/kiya_nabi_noor_thay.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
فتویٰ رقم 7529:
سوال: بہت سے لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہيں کہ تمام اشیاء نور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بنی ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور اللہ کے نور سے بنا ہے، اوروہ یہ روایت کرتے ہيں کہ:
” أنا نور الله وكل شيء من نوري“
(میں اللہ کا نور ہوں، اور ہر چیز میرے نور سے ہے)
اور یہ بھی روایت کرتے ہیں:
” أول ما خلق الله نور محمد صلى الله عليه وسلم “
(سب سے پہلی چیز جو اللہ تعالی نے پیدا کی وہ نور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھی)۔
کیا ان کی کوئی اصل ہے؟
اور یہ بھی روایت کرتے ہیں:
" أنا عرب بلا عين أي رب أنا أحمد بلا ميم أي أحد“
(میں بغیر ع کے عرب ہوں یعنی رب، اور بلا میم کے احمد ہوں یعنی احد)۔
پس کیا اس کی بھی کوئی اصل ہے؟
جواب: ہم نے اس سے پہلے فتویٰ رقم 2871 میں تفصیلی جواب دیا تھا ،جس کا متن یہ ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نور من نور اللہ (اللہ کے نور میں سے نور) سے موصوف کرنے سے اگر مراد یہ ہے کہ آپ ذات کے اعتبار سے اللہ کے نور میں سے نور ہیں تو یہ قرآن مجید کے خلاف ہے کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشریت پر دلالت کرتا ہے، اور اگر نور سے مراد جو کچھ وحی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے کہ جو لوگوں میں سے جس کی اللہ تعالی چاہے ہدایت کا سبب ہے، تو یہ بات صحیح ہے۔ اس تعلق سے فتویٰ کمیٹی نے پہلے بھی فتویٰ صادر کیا تھا جس کا متن یہ تھا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے نور ہے جو کہ نور رسالت و ہدایت ہے کہ جس کے ذریعے اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے جس کی بصیرت کو چاہے ہدایت دیتا ہے۔ بلاشبہ نور رسالت و ہدایت اللہ تعالی کی طرف سے ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَاۗئِ حِجَابٍ اَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا فَيُوْحِيَ بِاِذْنِهٖ مَا يَشَاۗءُ ۭ اِنَّهٗ عَلِيٌّ حَكِيْمٌ، وَكَذٰلِكَ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا ۭ مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِيْمَانُ وَلٰكِنْ جَعَلْنٰهُ نُوْرًا نَّهْدِيْ بِهٖ مَنْ نَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِنَا ۭ وَاِنَّكَ لَـــتَهْدِيْٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ، صِرَاطِ اللّٰهِ الَّذِيْ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ اَلَآ اِلَى اللّٰهِ تَصِيْرُ الْاُمُوْرُ﴾ (الشوریٰ: 51-53)
(اور کسی بشر کے لیے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی کے ذریعے، یا پردے کے پیچھے سے، یایہ کہ وہ کوئی پیغامبر بھیجے، پھر اپنے حکم کے ساتھ وحی کرے جو چاہے، بےشک وہ بےحد بلند، کمال حکمت والا ہے، اور اسی طرح ہم نے تمہاری طرف اپنے حکم سے ایک روح کی وحی کی، تم نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ یہ کہ ایمان کیا ہے ،اور لیکن ہم نے اسے ایک ایسی روشنی بنا دیا ہے جس کے ساتھ ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں راہ دکھا تے ہیں، اور بلاشبہ تم یقیناً سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرنے والے ہو، اس اللہ کے راستے کی طرف کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اسی کا ہے، سن لو ! تمام معاملات اللہ ہی کی طرف لوٹتے ہیں)
یہ نور خاتم الاولیاء سے حاصل کردہ نہیں ہے جیسا کہ بعض ملحدوں کا خیال ہے۔ البتہ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم تھا وہ تو خون، گوشت وہڈیاں وغیرہ ہی سے بنا ہوا تھا۔ ایک ماں باپ سے پیدا ہوئے، پیدائش سے پہلے آپ پیدا شدہ نہ تھے۔ یہ جو روایت کی جاتی ہے کہ سب سے پہلے اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کو پیدا کیا یا اللہ تعالی نے اپنے چہرے کے نور سے ایک مٹھی بھر ی اور وہ بھری گئی مٹھی یہی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں، پھر اس کی طرف دیکھا تو اس سے قطرے گرے اور ہر قطرے سے ایک نبی پیدا ہوا یا پوری مخلوق کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور سے پیدا فرمایا۔ یہ اور اس قسم کی دیگر باتوں میں سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ بھی ثابت نہيں ہے۔
اور سابقہ فتویٰ کی روشنی میں یہ بات واضح ہوئی کہ یہ باطل عقیدہ ہے۔ اور جو یہ روایت کیا جاتا ہے:
" أنا عرب بلا عين “
(میں بغیر عین کے عرب ہوں)۔
اس کی صحت کی بھی کوئی اساس نہيں۔ اور یہی حال :
" أنا أحمد بلا ميم “
(میں بغیر میم کے احمد ہوں)۔
کا ہے۔
ربوبیت اور وحدانیت کی صفت ان صفات میں سے ہیں جو اللہ تعالی کے ساتھ مخصوص ہیں، جائز نہيں کہ کسی مخلوق کو اس سے موصوف کیا جائے کہ وہ رب ہے نہ ہی علی الاطلاق وہ احد ہے۔ پس یہ صفات اللہ تعالی کے اختصاص میں سے ہيں۔ چناچہ ان سے رسولوں یا انسانوں میں سے کسی کو بھی موصوف نہيں کیا جاسکتا۔
وبالله التوفيق. وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإِفتاء
عضو عضو نائب رئيس اللجنة الرئيس
عبد الله بن قعود عبد الله بن غديان عبد الرزاق عفيفي عبد العزيز بن عبد الله بن باز
وبالله التوفيق. وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإِفتاء
عضو عضو نائب رئيس اللجنة الرئيس
عبد الله بن قعود عبد الله بن غديان عبد الرزاق عفيفي عبد العزيز بن عبد الله بن باز
[Book] The love for the #prophet, and ruling regarding sending Durood & Salaam upon him, praising him and celebrating his birthday - Various 'Ulamaa
محبتِ #رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، آپ پر درود وسلام، نعت خوانی اور عید میلاد النبی کی شرعی حیثیت
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
____________________________________
بسم اللہ الرحمن الرحیم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و تعظیم کا وجوب
محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف میں افراط و تفریط کی ممانعت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قدرو منزلت کا بیان
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود سلام بھیجنے کی مشروعیت کا بیان
درود شریف کے مواقع،صیغےاور فوائد
غیر ثابت شدہ اور خودساختہ درود
نعت خوانی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خلیل اللہ ہیں
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرعی حیثیت
جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا نصاریٰ کی کرسمس کی مشابہت اوربدعت ہے
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/12/muhabbat_rasool_durood_melaad.pdf
محبتِ #رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، آپ پر درود وسلام، نعت خوانی اور عید میلاد النبی کی شرعی حیثیت
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
____________________________________
بسم اللہ الرحمن الرحیم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و تعظیم کا وجوب
محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف میں افراط و تفریط کی ممانعت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قدرو منزلت کا بیان
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود سلام بھیجنے کی مشروعیت کا بیان
درود شریف کے مواقع،صیغےاور فوائد
غیر ثابت شدہ اور خودساختہ درود
نعت خوانی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خلیل اللہ ہیں
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرعی حیثیت
جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا نصاریٰ کی کرسمس کی مشابہت اوربدعت ہے
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/12/muhabbat_rasool_durood_melaad.pdf