Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.29K subscribers
2.49K photos
52 videos
211 files
4.94K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[Article] What is the ruling regarding using the name of #Israel for the Jewish state – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
یہودی مملکت کو ’#’اسرائیل‘‘ کہنے کا شرعی حکم!؟
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیح کی آفیشل ویب سائٹ سے لیا گیا ایک مقالہ، تاریخ اشاعت 17/04/2005۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

#SalafiUrduDawah

بسم اللہ الرحمن الرحیم
لفظ اسرائیل کی حقیقت
یہودی ریاست کو اسرائیل کہنا ؟
اسرائیل سے حقیقی نسبت کے حقدار کون؟
اللہ تعالی کی زمین مومن بندوں کے لئے ہے
موجودہ صورتحال میں مسلمانوں کی ذمہ داری
یہودی ریاست کے لئے اسرائیل کے استعمال میں حرج
یہ تمام باتیں مکمل مقالے میں پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/yahodi_state_ko_israel_kehna.pdf
[Article] Neither wealthy, nor #knowledge_of_the_unseen, nor an angel – Shaykh-ul-Islaam Imaam Ibn Taymiyyah
قُلْ لَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا َعْلَمُ_الْغَيْب
شیخ الاسلام احمد بن عبدالحلیم بن تیمیہ رحمہ اللہ المتوفی سن 728ھ
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مجموع الفتاوى
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/06/qul_la_aqolu_lakum_indi_khazainullaah.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاىِٕنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ ۚ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ ﴾ (الانعام: 50)
(آپ کہہ دیجئے میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالی کے خزانے ہیں، اور نہ میں غیب جانتا ہوں، اور نہ میں تم سے کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، میں تو پیروی نہیں کرتا ہوں مگر صرف اسی کی جو میری طرف وحی کی جاتی ہے)
اسی طرح سے سیدنا نوح علیہ الصلاۃ والسلام نے بھی فرمایا۔ یعنی جو سب سے پہلے اولوالعزم (بلند حوصلہ) اور سب سے پہلے رسول تھے جنہیں اللہ تعالی نے اہل زمین کے لیے بھیجا انہوں نے، اور خاتم الرسل اور خاتم اولی العزم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں نے اس بات سے برأت کا اظہار فرمایا۔
یہ اس لیے کیونکہ کبھی وہ رسول سے علم غیب کا مطالبہ کرتے، جیسا کہ فرمایا:
﴿وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ﴾ (الملک: 25)
(اور وہ کہتے ہیں یہ وعدہ کب (پورا) ہوگا، اگر تم سچے ہو؟)
اور:
﴿ يَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَيَّانَ مُرْسٰىهَا ۭقُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّيْ ﴾ (الاعراف: 187)
(وہ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں اس کا وقوع کب ہوگا ؟ کہہ دیجئے اس کا علم تو صرف میرے رب ہی کے پاس ہے)
کبھی (کائنات میں) تاثیر کا مطالبہ کرتے، جیساکہ فرمایا:
﴿وَقَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ يَنْۢبُوْعًا، اَوْ تَكُوْنَ لَكَ جَنَّةٌ مِّنْ نَّخِيْلٍ وَّعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَنْهٰرَ خِلٰلَهَا تَفْجِيْرًا، اَوْ تُسْقِطَ السَّمَاءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا اَوْ تَاْتِيَ بِاللّٰهِ وَالْمَلَائِكَةُ قَبِيْلًا، اَوْ يَكُوْنَ لَكَ بَيْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ اَوْ تَرْقٰى فِي السَّمَاءِ ۭ وَلَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتٰبًا نَّقْرَؤُهٗ ۭ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّيْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا﴾ (الاسراء: 90-93)
(اور انہوں نے کہا ہم ہرگز آپ پر ایمان نہ لائیں گے، یہاں تک کہ آپ ہمارے لیے زمین سے کوئی چشمہ جاری کردیں، یا آپ کےلیے کھجوروں اور انگور کا ایک باغ ہو، پس آپ اس کے درمیان خوب نہریں جاری کردیں، یا آپ آسمان کو ٹکڑے کر کے ہم پر گرا دیں، جیسا کہ آپ نے دعویٰ کیا ہے، یا آپ اللہ اور فرشتوں کو ہی ہمارے سامنے لے آئیں، یا آپ کے لیے سونے کا ایک گھر ہو، یا آپ آسمان میں چڑھ جائیں، اور ہم آپ کے چڑھنے کا بھی ہرگز یقین نہ کریں گے، یہاں تک کہ آپ ہم پر کوئی کتاب اتار لائیں جسے ہم پڑھیں ۔ آپ کہہ دیجئے میرا رب پاک ہے، میں تو ایک بشر کے سوا کچھ نہیں جو رسول ہے)
کبھی بشری حاجتوں اور تقاضوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں عیب گردانتے، جیساکہ فرمایا:
﴿وَقَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ يَاْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِيْ فِي الْاَسْوَاقِ ۭ لَوْلَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِيْرًا، اَوْ يُلْقٰٓى اِلَيْهِ كَنْزٌ اَوْ تَكُوْنُ لَهٗ جَنَّةٌ يَّاْكُلُ مِنْهَا ﴾ (الفرقان: 7-8)
(اور انہوں نے کہا اس رسول کو کیا ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے، اس کی طرف کوئی فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا کہ اس کے ساتھ ڈرانے والا ہوتا، یا اس کی طرف کوئی خزانہ اتارا جاتا، یا اس کا کوئی باغ ہوتا جس سے وہ کھایا کرتا)
پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ انہيں بتادیں کہ بے شک وہ غیب نہيں جانتے، نہ اللہ کے خزانوں کے مالک ہیں، نہ وہ کوئی فرشتے ہيں کہ جو کھانے یا مال سے بے نیاز ہوں، بلکہ وہ تو صرف اور صرف اسی کی پیروی کرتے ہيں جو ان کی طرف وحی کی جاتی ہے، اور جو کچھ ان کی طرف وحی کی جاتی ہے اس کی اتباع ہی دین ہے، اور وہ اللہ تعالی کی اطاعت اور اس کی عبادت ہے علماً وعملاً، باطناً وظاہراً۔
چناچہ ان تین چیزوں میں سے جو ذکر ہوئیں انہيں اتنا کچھ ہی حاصل ہے جتنا اللہ تعالی نے انہيں عطاء کیا، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں سے اتنا ہی علم رکھتے ہيں جتنا اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سکھلایا، اور اتنی ہی قدرت رکھتے ہیں جتنی چیزوں پر اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قدرت دی، اور انہی چیزوں سے بے نیاز ہیں جن سے اللہ تعالی نے آپ کو بے نیاز رکھاجو عام عادات سے یا غالب لوگوں کی عادات سے ہٹ کر تھے۔
[Article] How does a Muslim believe in the #keys_of_unseen mentioned at the end of Surah Luqmaan – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah Aal-Shaykh
غیب کی ان کنجیوں پر ایمان کس طرح لایا جائے جو سورۃ لقمان کے آخر میں مذکور ہيں
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ حفظہ اللہ
(مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: كيفية إيمان المسلم بمفاتح الغيب المذكورة في آخر سورة لقمان۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

#غیب_کی_کنجیاں
#SalafiUrduDawah

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/05/ghaib_kunjiyo_emaan_kaisay.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: اللہ تعالی کا جو یہ فرمان ہے:
﴿اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ﴾ (لقمان: 34)
(بےشک اللہ کے ہی پاس قیامت کا علم ہے، اور وہ بارش برساتا ہے، اور وہ جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹوں میں ہے، اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائی کرے گا ، اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔ بےشک اللہ تعالی سب کچھ جاننے والا، پوری اور ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے)
عملی طور پر ایک مسلمان کس طرح ان باتوں کو دل میں بٹھائے، اور ان پر ایمان لائے؟
جواب: ایک مومن اس پر ایمان لاتا ہے کیونکہ بے شک اللہ تعالی نے اپنی کتاب عزیز میں اس کی خبر دی ہے۔
1- اللہ تعالی نے یہ بتلایا ہےکہ قیامت کے وقوع پذیر ہونے کا علم صرف اسی کے پاس ہے:
﴿يَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَيَّانَ مُرْسٰىهَا ۭقُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّيْ ۚ لَا يُجَلِّيْهَا لِوَقْتِهَآ اِلَّا هُوَ ۂ ثَقُلَتْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ لَا تَاْتِيْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً ۭ يَسْــــَٔـلُوْنَكَ كَاَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللّٰهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ﴾ (الاعراف: 187)
(وہ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہوگا ؟ کہہ دیجئے اس کا علم تو میرے رب ہی کے پاس ہے، اسے اس کے وقت پر اس کے سوا کوئی ظاہر نہیں کرے گا، وہ آسمانوں اور زمین میں بہت بھاری و بوجھل واقع ہوگی، وہ تم پر نہیں آئےگی مگر اچانک۔ آپ سے پوچھتے تو ایسے ہیں جیسے آپ اس کے بارے میں خوب تحقیق کرچکے ہيں۔ کہہ دیجئے اس کا علم تو اللہ تعالی ہی کے پاس ہے، مگر اکثر لوگ نہیں جانتے)
2- اسی طرح سے بارش بھی اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، وہی اسے برساتا ہے:
﴿وَهُوَ الَّذِيْ يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِنْۢ بَعْدِ مَا قَنَطُوْا وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهٗ ۭ وَهُوَ الْوَلِيُّ الْحَمِيْدُ﴾ (الشوریٰ: 28)
(اور وہی ہے جو بارش برساتا ہے، اس کے بعد کہ وہ ناامید ہو چکے ہوتے ہیں ،اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے، اور وہی کارساز ہے، تمام تعریفوں کے لائق ہے)
اور یہ عالم بارش نازل ہوتے وقت اور بندوں کے اس کے مستحق ہونے پر ہوتا ہے، اور وہ اسے ایک اندازے سے اتارتا ہے:
﴿وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءًۢ بِقَدَرٍ فَاَسْكَنّٰهُ فِي الْاَرْضِ ڰ وَاِنَّا عَلٰي ذَهَابٍۢ بِهٖ لَقٰدِرُوْنَ﴾ (المؤمنون: 18)
(اور ہم نے آسمان سے ایک اندازے کے ساتھ کچھ پانی اتارا، پھر اسے زمین میں ٹھہرایا، اور یقینا ًہم اسے کسی بھی طرح لے جانے پر ضرور قادر ہیں)
3- پھر فرمایا: ﴿وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ﴾
(اور وہ جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹوں میں ہے)
اور وہ رحم (ماں کے پیٹ) کا حال اور انجام جانتا ہے۔ ارحام کو بھی جانتا ہے اور رحم کے حال کو بھی۔اور اس میں پلنے والے جنین اور اس کے مختلف ادوار کو بھی، اس کا حال، حاضر اور مستقبل سب جانتا ہے اور عنقریب اس کے ساتھ کیا کچھ ہوگا وہ سب، کیونکہ بلاشبہ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا نُطفة، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ إِلَيْهِ الْمَلَكُ فَيَنْفُخُ فِيهِ الرُّوحَ وَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ: بِكَتْبِ رِزْقِهِ، وَعَمَلِهِ، وَأَجَلِهِ، وَشَقِيٌّ، أَوْ سَعِيدٌ‘‘([1])
(بے شک تمہاری پیدائش کی تیاری تمہاری ماں کے پیٹ میں چالیس دنوں تک نطفہ کی صورت میں کی جاتی ہے، پھر اتنے ہی دنوں تک ایک جمے ہوئے خون کے صورت اختیار کئے رہتا ہے، پھر وہ اتنے ہی دنوں تک ایک گوشت کو لوتھڑا رہتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے، اور اسے چار باتوں (کے لکھنے) کا حکم دیا جاتا ہے کہ وہ لکھے: اس کے رزق، اس کے عمل، اس کی مدت زندگی، اور یہ کہ بد بخت ہے یا نیک بخت)۔
کبھی لوگ جان بھی سکتے ہیں کہ رحم میں کیا ہے، اور جنین لڑکی ہے یا لڑکا ہے، تو یہ بات اللہ تعالی کے کمالِ علم کے منافی نہیں، یہ ممکن بات ہے، لیکن رحم کا حقیقی علم جیسے امور کا انجام کار کیا ہوگا تو اس کی صحیح کیفیت بتانے پر کوئی قادر نہيں، نہ اسے اس میں کوئی دخل ہے۔ اگر ہم جانتے ہیں کے رحم میں بچہ ہے یا بچی ہے تو یہ ممکن ہے، لیکن اس کے رزق، بدبخت یا نیک بخت ہونا، امراض وصحت وغیرہ یہ ہم نہيں جانتے، یہ ہیں وہ باتیں جو اللہ تعالی نے اپنے علم غیب میں خاص رکھی ہیں۔اور یہ وہ باتیں ہیں کہ ان میں سے کسی میں بھی مداخلت جائز نہيں ہے۔
4- پھر فرمایا: ﴿وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا﴾
(اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائی کرے گا)
نہیں جا نتا کہ کل وہ کیا کمائے گا، اور کل کیا کچھ ہوجائے گا۔ کیونکہ یہ مجہول ونامعلوم چیز ہے۔ اور یہ امر اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے۔ ہوسکتا ہے آپ نے لمبی امیدیں باندھ رکھی ہوں لیکن کوئی چیز آپ کے اور اس کے درمیان حائل ہوجائے۔ آپ بہت سی امیدیں وابستہ کریں اور کہیں پیسہ پھنسا دیں لیکن قضاء وقدر آپ کی امیدوں کے برخلاف آجائے۔ لہذا ہرحال میں اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہیں۔
5- پھر فرمایا: ﴿وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ﴾
(اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا)
کہا جاتا ہے وہ اس طرح کہ انسان اسی مٹی سے تخلیق ہوا ہوتا ہے جہاں عنقریب اسے موت آنی ہوتی ہے۔ اور کوئی انسان نہيں جانتا کہ وہ کہاں مرے گا، اس کی موت رب العالمین کے پاس لکھی ہوئی ہے او رعمر شمار کی جاچکی ہے۔ اس بات پر مخلوق میں سے کوئی بھی مطلع نہيں ہوسکتا، یہ صرف اللہ عزوجل کے پاس ہے۔ وہ جانتا ہےکہ کوئی نفس کل کیا کمائے گا، اور کس زمین میں اسے موت آئے گی۔ جانتا ہے کہ انسان اللہ کی کس زمین میں مرے گا، بر میں یا بحر میں، یہ سب اللہ رب العالمین ہی جانتا ہے۔ کوئی اس کا احاطہ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔
پس ہمیں چاہیے کہ اس پر بہت سچا اور پختہ ایمان رکھیں، کیونکہ ہمیں بلاشبہ رب العالمین نے ہی اس کی خبر دی ہے اور وہ تمام قائلین میں سب سے سچا ہے، اور اللہ تعالی سے بڑھ کر بات کا سچا کون ہوسکتا ہے۔
[1] رواه البخاري فى كتاب القدر، باب فى القدر، برقم (6594)، ومسلم فى كتاب القدر، باب كيفية الخلق الآدمي فى بطن أمه وكتابة رزقه وأجله وعمله وشقاوته وسعادته، برقم (2643)۔
[Article] Does Rasoolullaah (salAllaho alaihi wasallam) have the #knowledge_of_the_unseen? – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم #عالم_الغیب ہیں؟
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: التوحید أولاً
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/01/kiya_rasool_Allaah_alim_ul_ghaib_hain.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالم الغیب ہیں؟ بالکل نہیں، اللہ تعالی نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ :
﴿ قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَاءَ اللّٰهُ ۭوَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْر ِ ٻ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوْءُ ﴾ (الاعراف: 188)
(آپ کہہ دیجئے کہ میں اپنی جان کے لیے نہ کسی نفع کا مالک ہوں اور نہ کسی نقصان کا، مگر جو اللہ چاہے، اور اگر میں غیب کا علم رکھتا تو بہت سے منافع حاصل کرلیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا)
اور حکم فرمایا کہ:
﴿ قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاىِٕنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ﴾ (الانعام: 50)
(آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالی کے خزانے ہیں، اور نہ یہ کہ میں عالم الغیب ہوں، اور نہ یہ کہ میں کوئی فرشتہ ہوں)۔
#مسجد_اقصی #فلسطین میں نماز ادا کرنے کی فضیلت
#masjid_ul_aqsa #palestine may namaz ada karne ki fadeelat
#SalafiUrduDawah
[Article] Did Allaah create the universe for the #prophet_Muhammad صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ? - Various 'Ulamaa

کیا #نبی_محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے کائنات بنی ہے؟

مختلف علماء کرام

ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی

مصدر: مختلف مصادر۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

#SalafiUrduDawah
#عقیدہ
#aqeedah

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/12/kiya_nabi_k_liye_kainat_bani_hai.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: یہ بات بالکل جانی مانی اور زبان زد عام ہوچکی ہے گویا کہ یہ کوئی بدیہی حقیقت ہے کہ بلاشبہ یہ دینا ومافیہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پیدا کی گئی ہے، اگر آپ نہ ہوتے تو یہ یہ نہ پیدا ہوتی نہ اس کا کوئی وجود ہوتا۔ ہم آپ فضیلۃ الشیخ سے اپنے اس سوال کا جواب دلیل کے ساتھ چاہتے ہيں، آیا واقعی ایسا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے، وجزاکم اللہ خیراً؟

جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ :

یہ بعض عوام الناس کا قول ہے جو کچھ سمجھ بوجھ نہيں رکھتے۔ بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ: یہ دنیا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بنائی گئی ہے، اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہوتے تو یہ دنیا ہی نہ پیدا کی جاتی اور نہ ہی لوگوں کو پیدا کیا جاتا۔یہ بالکل باطل بات ہے جس کی کوئی اصل نہیں، یہ فاسد کلام ہے)[1](۔ اللہ تعالی نے یہ دنیا اس لیے پیدا کی کہ اللہ تعالی کی معرفت ہو اور اس سبحانہ وتعالی کے وجود کو جانا جائے، اور تاکہ اس کی عبادت کی جائے۔اس دنیا کو پیدا کیا اور مخلوقات کو تاکہ اسے اس کے اسماء وصفات، اور اس کے علم و فضل سے جانا جائے۔ اور تاکہ اس اکیلے کی بلاشرکت عبادت کی جائے اور اس سبحانہ وتعالی کی اطاعت کی جائے۔ نا محمد کے لیے، نہ ہی نوح ، نہ موسیٰ اور نہ عیسیٰ علیہم الصلاۃ والسلام کے لیے اور نہ ہی ان کے علاوہ دیگر انبیاء کرام کے لیے۔بلکہ اللہ تعالی نے مخلوق کو اکیلے اس کی بلاشرکت عبادت کے لیے پیدا فرمایا۔ اللہ تعالی نے اس پوری دنیا اور تمام مخلوقات کو اپنی عبادت، تعظیم کے لیے اور ا س بات کے لیے کہ پیدا فرمایا کہ لوگ جان لیں کہ وہ بے شک ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، اور بلاشبہ وہ ہر چیز پر قادر ہے، اور یقیناً وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ﴾ (الذاریات: 56)

(میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہيں کیا مگر صرف اسی لیے کہ وہ میری عبادت کریں)

پس اللہ تعالی نے واضح فرمادیا کہ بے شک اس نے انہیں اس لیے پیدا کیا ہے تاکہ وہ اس کی عبادت کریں،ناکہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منجملہ دیگر مخلوقات کی طرح اپنے رب کی عبادت کے لیے ہی پیدا فرمائے گئے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ﴾(الحجر: 99)

(اور اپنے رب کی عبادت کرو، یہاں تک کہ تمہارے پاس یقین(موت) آجائے)

اور اللہ تعالی سورۃ الطلاق میں فرماتا ہے:

﴿اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ ۭ يَـتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ڏ وَّاَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا﴾ (الطلاق: 12)

(اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے اور زمین سے بھی ان کی مانند ۔ ان کے درمیان حکم نازل ہوتا ہے، تاکہ تم جان لو کہ بےشک اللہ ہر چیز پر بھرپور قدرت رکھنے والا ہے اور یہ کہ بےشک اللہ نے یقیناً ہر چیز کو علم سے گھیر رکھا ہے)

اور اس سبحانہ وتعالی نے فرمایا:

﴿وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاۗءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا﴾ (ص: 27)

(اور ہم نے آسمان و زمین کو اور ان دونوں کے درمیان کی چیزوں کو بےکارپیدا نہیں کیا)

اللہ تعالی نے مخلوق کو اس لیے تخلیق فرمایا کہ وہ اس کی عبادت کریں، انہيں حق کے لیے اور برحق پیدا فرمایا تاکہ اس کی عبادت، اطاعت اور تعظیم ہو۔ اور تاکہ جان لیا جائے کہ بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہے، اور یہ کہ سب کام وہی کرتا ہے۔
چناچہ اے سائل! یہ باتیں جو آپ نے سنی ہیں محض باطل ہيں جن کی کوئی اساس نہیں۔ اللہ نے مخلوق کو، نہ جن کو، نہ انس کو، نہ ہی آسمان وزمین یا ان کے علاوہ تمام چیزوں کو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پیدا فرمایا، اور نہ ہی آپ کے سوا دیگر رسولوں کے لیے۔ بلکہ اس نے صرف اور صرف مخلوق کو اس لیے پیدا فرمایا یا اس دنیا کو تخلیق فرمایا کہ اس اکیلے کی بلاشرکت عبادت ہو، اور تاکہ وہ اپنے اسماء وصفات سے جانا جائے۔یہی بات حق ہے اور اسی پر دلائل دلالت کرتے ہیں۔ اگرچہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اشرف الناس ہيں، تمام لوگوں میں سب سے افضل، خاتم الانبیاء اور سید ولد آدم ہیں، لیکن اللہ تعالی نے خود انہيں بھی اپنے رب کی عبادت کرنے کے لیے پیدا فرمایا، اور دیگر لوگوں کو بھی کہ وہ اپنے رب کی عبادت کریں۔ انہیں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پیدا نہیں فرمایا، اگرچہ آپ تمام لوگوں سے افضل ہيں۔ اس بات کو اچھی طرح سے سمجھ لیں اور دوسروں تک پہنچا دیں اے سائل۔

کیونکہ یہ بہت اہم مسئلہ ہے۔ اور اس میں ایسے لوگ بھی مبتلا ہوگئے جو علم کی طرف منسوب ہوتے ہيں، جاہلوں اور غالی لوگوں میں سے، کہ جن کے پاس حقیقی علم میں سے کچھ حصہ نہيں۔ اور یہ بات عام عوام پر معاملے کو مشتبہ کردیتی ہے کہ جن کے پاس کوئی علم نہیں۔ حالانکہ جو اہل علم وبصیرت ہیں وہ اچھی طرح سے جانتے ہيں کہ یہ بات بالکل باطل ہے۔ اور اللہ تعالی نے بے شک مخلوق کو اکیلے اس کی بلاشرکت عبادت کے لیے، اور تاکہ اسے اس کے ناموں اور صفات سے جانا جائے، اور یہ کہ بے شک وہ حکیم و علیم ہے، سمیع و مجیب ہے، اور وہ علیم اور علی کل شیء قدیر ہے، اور یقیناً وہ اپنی ذات، اسماء وصفات و افعال میں کامل ہے (ان باتوں کی معرفت کے لیے پیدا فرمایا ہے)۔

(فتاوى نور على الدرب > المجلد الأول > كتاب العقيدة > باب ما جاء في التوحيد > بيان الحكمة من خلق الدنيا)

سوال 3 فتویٰ رقم 9886:

کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ: بے شک اللہ تعالی نے آسمانوں اور زمین کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پیدا فرمایا ہے، اور اس بات کا کیا معنی ہے ”لولاك لولاك لما خلق الأفلاك“ ([2])(اگر تم نہ ہوتے! اگر تم نہ ہوتے! تو یہ کائنات بھی نہ پیدا کی جاتی) کیا اصلاً یہ کوئی حدیث ہے ، اور یہ صحیح ہے یا نہیں، اس کی حقیقت ہمارے لیے واضح فرمائیں؟

جواب از فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب:

آسمان و زمین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے پیدا نہیں کیے گئے، بلکہ اس چیز کے لیے پیدا کیے گئے ہیں جس کا ذکر خود اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں کیا:

﴿اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ ۭ يَـتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ڏ وَّاَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا﴾ (الطلاق: 12)

(اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے اور زمین سے بھی ان کی مانند ۔ ان کے درمیان حکم نازل ہوتا ہے، تاکہ تم جان لو کہ بےشک اللہ ہر چیز پر بھرپور قدرت رکھنے والا ہے اور یہ کہ بےشک اللہ نے یقیناً ہر چیز کو علم سے گھیر رکھا ہے)

البتہ جو حدیث سوال میں مذکور ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھوٹ باندھا گیا ہے، جس کی صحت کی کوئی اساس نہيں۔

وبالله التوفيق. وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم.

اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإِفتاء

عضو نائب رئيس اللجنة الرئيس

عبد الله بن غديان عبد الرزاق عفيفي عبد العزيز بن عبد الله بن باز

(فتاوى اللجنة الدائمة > العقائد > الإيمان > أركان الإيمان > الإيمان بالأنبياء والمرسلين > التحذير من الغلو في الأنبياء > س3: هل يقال: إن الله خلق السماوات والأرض لأجل خلق النبي صلى الله عليه وسلم، وما معنى (لولاك لولاك لما خلق الأفلاك) هل هذا حديث أصلًا، هل صحيح أم لا، بيّن لنا حقيقته؟)



[1] ہمارے یہاں بھی جاہلوں کی طرح بالکل یقینی طور پر اسے بے دریغ القاب و نعتوں وغیرہ میں استعمال کیا جاتا ہے، جیسے:

آقائے نامدار وجہِ وجود کائنات۔

اے کہ تیرا وجود ہے وجہِ وجود کائنات۔

تیرے لیے ہی دنیا بنی ہے نیلے گگن کی چادر سجی ہے، تو جو نہيں تھا دنیا تھی خالی ، سارے نبی تیرے در کے سوالی (نعوذ باللہ)۔

(توحید خالص ڈاٹ کام)



[2] اس کے علاوہ اس کے یہ الفاظ بھی مشہور ہیں: ”لولاك لما خلقت الأفلاك“ شیخ البانی السلسلة الضعيفة280 میں فرماتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل نہيں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[Article] Does #Rasoolullaah (salAllaho alaihi wasallam) have any power before Allaah? – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
کیا #رسول_اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کے مقابلے میں کوئی اختیار رکھتےہیں؟
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: التوحید اولاً
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

#SalafiUrduDawah
#توحید
#عقیدہ
#tawheed
#aqeedah

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/01/kiya_rasool_Allaah_muqablay_ikhtiyar_rakhte_hain.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالی یہ فرماتے ہیں کہ:
﴿قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَاءَ اللّٰهُ﴾ (الاعراف: 188)
(آپ فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات کے لیےکسی نفع کا اختیار رکھتا ہوں اور نہ کسی نقصان کا، مگر جو اللہ تعالی چاہے)
اس کے بعد اور کس دلیل کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ یہ کلام حق ہے یا باطل؟ ان قبرپرستوں کی زبان حال تویہی جواب دیتی معلوم ہوتی ہے کہ: نہیں، یہ کلام صحیح نہیں اگرچہ وہ اپنی زبان سے لفظی طور پراس کا انکار نہیں کرتے، لیکن فی الواقع وہ اس بات کو قبول نہیں کرتے، ہرگز نہیں بلکہ کہتے ہیں کہ: اولیاء کرام نفع ونقصان پہنچاتے ہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نفع ونقصان کے مالک ہیں۔ تو پھر سن لو اے بھائی تم قرآن کریم سے عناد رکھتے ہو اگر واقعی تمہارا یہی عقیدہ ہے۔ اگر یہی تمہارا عقیدہ ہے تو جان لو اللہ کی قسم یہ کفر ہے، اللہ تعالی تو فرمائیں:
﴿قُلْ اِنِّىْ لَآ اَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا﴾ (الجن: 21)
(کہہ دیں بلاشبہ میں تمہارے لیے نہ کوئی نقصان پہنچانے کا اختیار رکھتا ہوں اور نہ کسی بھلائی کا)
اس سے زیادہ آپ کون سی دلیل چاہتے ہیں میرے بھائی؟ آپ ﷺ اپنے ذات کے لئے، اورنہ اپنی پیاری صاحبزادی کے لئے اور نہ ہی کسی اور کے لئے کسی چیز کا اختیار رکھتے ہیں، ان سب کو فرمایا کہ میں اللہ تعالی کے سامنے تمہارے بارے میں کوئی اختیار نہیں رکھتا، فرمایا:
’’يا بني عبد مناف يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا يَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَا أُغْنِي عَنْكَ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا وَيَا صَفِيَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا وَيَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مَا شِئْتِ مِنْ مَالِي لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا‘‘([1])
(اے بنی عبدمناف! اے قریش یا پھر اسی جیسا کوئی کلمہ فرمایا، کہ میں اللہ تعالی کے سامنے تمہارا کوئی اختیار نہیں رکھتا، اپنے نفسوں کو خرید لو(جہنم سے بچانے کے لئے)، میں اللہ تعالی کی بارگاہ میں تمہارا کچھ اختیار نہیں رکھتا، اے بنی عبدمناف! میں اللہ تعالی کے یہاں تمہارا کوئی اختیار نہیں رکھتا(اور نہ ہی اس کے عذاب سے بچا سکتا ہوں)، اے عباس بن عبدالمطلب! میں آپ کے لئے اللہ تعالی کے سامنے کوئی اختیار نہیں رکھتا، اور اے صفیہ رسول اللہ کی پھوپھی! میں آپ کے لئے اللہ تعالی کی جناب میں کوئی اختیار نہیں رکھتا، اور اے فاطمہ بنت محمد! تم میرے مال میں سے جو چاہے مانگ لو مگراللہ تعالی کی بارگاہ میں میں تمہارے لئے کوئی اختیار نہیں رکھتا)۔
اب اس فرمان کے بعد اور کیا رہ جاتا ہے؟ اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما دیجئے:
﴿إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾ (الاعراف: 188)
(میں تو محض خبردار کرنے والا اور بشارت دینے والا ہوں، اس قوم کو جو ایمان لاتی ہے)
اوریہ فرمائیں کہ:
﴿إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ﴾ (الشعراء: 115)
(میں تو محض کھلم کھلا خبردار کرنے والا ہوں)
یہی میرا کام میری ذمہ داری ہے، اللہ تعالی نے مجھ پر قرآن حکیم نازل فرمایا اور میں اس کی تبلیغ کرتا ہوں، مومنوں کو جنت کی بشارت دیتا ہوں اور کافروں کو جہنم سے ڈراتا ہوں، یہی کچھ ہے جس کا میں اختیار رکھتا ہوں اور اس پر قدرت رکھتا ہوں، رہی بات نفع ونقصان، بدبختی وخوش بختی، ہدایت وگمراہی یہ سب کا سب اللہ تعالی رب العالمین کے اختیار میں ہے۔
[1] رواه البخاري في التفسير ، باب : وأنذر عشيرتك الأقربين ، برقم ( 4771 ) . ومسلم في الإيمان باب : وأنذر عشيرتك الأقربين، برقم ( 206 ) ، وغيرهما .
[Article] Innovations and violations related to #Bayt_ul_Maqdas - Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen Al-Albaanee

#بیت_المقدس کے بارے میں کی جانے والی بدعات ومخالفات

فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ

(محدث دیارِ شام)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: عام فہم رہنمائے حج وعمرہ (قرآن ،سنت صحیحہ اور آثار سلف کے مطابق)۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/12/bayt_ul_maqdas_bidaat_mukhalifaat.pdf

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

شیخ رحمہ اللہ کی کتاب سے مختصرا ًماخوذ۔

1- حج کے ساتھ بیت المقدس کی زیارت کا بھی قصد کرنا۔

2- ’’قبة الصخرة‘‘(تاریخی چٹان پر سنہری گنبد) کا بیت اللہ کے مشابہ طواف کرنا ۔

3- اس کی تعظیم کرنا مختلف طریقوں سے جیسے مسح کرنا، چومنا، وہاں جانور لے جاکر ذبح کرنا وغیرہ۔

4- اس چٹان پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا خود نعوذ باللہ اللہ تعالی کے قدم مبارک کے آثار ہونے کا عقیدہ رکھنا۔

5- اس مکان کی زیارت جس کے بارے میں یہ اپنے گمان میں عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کے گہوارہ ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔

6- مسجد کے مشرقی جانب بنی تصاویر کو پل صراط اور میزان جنت وجہنم کے مابین والی دیوار وغیرہ سمجھنا۔

7- زنجیر کی یا اس کی جگہ کی تعظیم کرنا۔

8- ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلاۃ والسلام کی قبر کے پاس نماز پڑھنا۔

9- موسم حج میں مسجد اقصیٰ میں جمع ہوکر دف بجانا اور گیت گانا۔
[Article] The reality of #Palestinian movement #Hamas - Shaykh Muqbil bin Hadee Al-Wadaee

#فلسطین کی تحریک #حماس کی حقیقت

فضیلۃ الشیخ مقبل بن ہادی الوادعی رحمہ اللہ المتوفی سن 1422ھ

(محدث دیارِ یمن)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: تحفة المجيب على أسئلة الحاضر والغريب ۔ "جلسة مع الصحفي الألماني" س 196۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
#گمراہ_فرقے
#جہاد
#jihad

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/12/hamas_tehreek_palestine.pdf

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سوال: آپ کی الجہاد الاسلامی و حرکۃ المقاومۃ الاسلامیۃ (حماس) کے بارے میں کیا رائے ہے جو عرب کی مقبوضہ سرزمین فلسطین میں پائی جاتی ہے؟

جواب: جہاں تک تحریک حماس کا تعلق ہے تو کبھی بھی وہ اسلام کے لیے نصرت نہيں بن سکتی۔ پس اس میں شیعہ بھی ہیں، اخوانی و حزبی بھی۔ اور یاسر عرفات نے لوگوں کے ساتھ بڑا کھلواڑ کیا تھا حالانکہ وہ خوداسرائیل کا ایجنٹ تھا، اور ہم تو شروع سے ہی یہ کہتے آئے تھے کہ وہ اسرائیل کا ایجنٹ ہے، پھر آخرکار اس نے فلسطین کو بیچ کھایا۔

اگر مسلمان حکومتیں تمام ممالک سے مسلمانوں کو چھوڑیں (افواج) تو یقیناً یہ لوگ اس بات کی استطاعت رکھتے ہیں کہ القدس کو یہود سے پاک کردیں۔

المہم جو لوگ اللہ کے دین کی نصرت کرنے والے ہیں وہ ایسے مسلمان ہیں جو کتاب وسنت پر استقامت اختیار کرتے ہیں۔ جبکہ جو تحریک حماس ہے تو یہ ایک حزبی جماعت ہے جو نہ نیکی کا حکم کرتی ہے نہ برائی سے روکتی ہے، بلکہ اہل سنت پر نکیر کرتی ہے اور اسے ہر جگہ روکتی ہے۔ اگر ان کو یہاں نصرت مل جائے تو وہی حرکت کریں گے جو افغانستان میں کی، کہ ایک دوسرے کے ہی مدمقابل بن جائیں گے اور ایک دوسرے پر ہی بارود و گولیوں کی بارش کردیں گے،واللہ المستعان۔ کیونکہ یقیناً یہ ایک دل کی مانند نہيں(ایک عقیدے پر نہیں)۔
[Article] Wasting #Tawheed is the reason behind the wasting of the #Ummah – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
#امت کے ضائع ہونے کا سبب #توحید کا ضائع ہونا ہے
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: نفحات الهدى والإيمان من مجالس القرآن- المجلس الثاني۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

#SalafiUrduDawah
#جہاد
#حماس
#افغانستان
#jihad
#hamas
#afghanistan

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/05/ummat_zaya_sabab_tawheed_zaya_hona.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
چنانچہ ہم پر واجب ہے کہ ہم توحید کا خصوصی اہتمام کریں اور اللہ کی قسم! یہ امت ضائع نہیں ہوئی اور اس پر دشمن یہود و نصاریٰ اور مجوس اور کمیونسٹ وغیرہ مسلط نہیں ہوئے مگر اسی وجہ سے کہ انہوں نے جب توحید کو ضائع کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ ذلت مسلط کر دی، اور اللہ تعالیٰ ان سے ہرگز بھی راضی نہیں ہوگا حتی کہ وہ اپنے دین اسلام ، اس اسلام کی طرف لوٹ آئیں جس پر سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے ۔ فرمان نبوی ہے :
’’إِذَا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ وَأَخَذْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ وَرَضِيتُمْ بِالزَّرْعِ وَتَرَكْتُمْ الْجِهَادَ فِیْ سَبِیلِ اللہِ سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ ذُلًّا لَا يَنْزِعُهُ عَنْکُم حَتَّى تَرْجِعُوا إِلَى دِينِكُمْ“([1])
(جب تم بیع عینہ(جو کہ ایک سودی معاملہ ہے) کرنے لگو گے ، اور بیلوں کی دموں کو پکڑ کر اور محض زراعت اور کاشت کاری سے راضی ہوکر بیٹھ جاؤ گے ،اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ایسی ذلت مسلط فرمائے گا، جو تم پر سے ہرگز بھی نہیں اٹھائے گا یہاں تک کہ تم اپنے دین کی طرف نہ لوٹ آؤ)۔
تو اس وقت کیا حال ہو گا جب ان میں سے بہت سے لوگ شرک میں مبتلا ہوں ؟!
آج دنیا میں بہت ساری دعوتیں ہیں لیکن وہ توحید کی جانب دعوت نہیں دیتیں ۔ ہر گروہ اور حزب کا اپنا ہی ایک مبدأ ومنشور ہوتا ہے ، اور اپنا ہی منہج ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے منہج سے اور انبیاءکرام علیہم الصلاۃ والسلام کے منہج سے ہٹ کر ہوتا ہے، جس میں وہ اس چیز کے مخالف کی طرف بلا رہے ہوتے ہیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہے، اور اپنے اس منہج کے ذریعے سے وہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے منہج کی مخالفت کررہے ہوتے ہیں۔
سیدنا نوح علیہ الصلاۃ والسلام کو دیکھیے آپ پچاس کم ہزار سال تک صرف اور صرف توحید کی جانب دعوت دیتے رہے۔ اور یہ کہتے ہیں کہ تم سلفی لوگ اہل قبور (یعنی قبر پرستی) کے خلاف لڑتے ہو جب کہ ہم اہل قصور( جو محلات میں یعنی بادشاہ حکمران وغیرہ ہیں ان) کے خلاف برسرپیکار ہیں!! تم (سلفی) تو بس اوثان (جس کی بھی اللہ تعالی کے سواعبادت کی جائے خواہ بت ہو یا مزار وغیرہ) کے خلاف جنگ کرتے ہو! میرے بھائی کیا آپ کی دعوت انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی دعوت سے زیادہ بڑی ہے ! (جو سلفیوں کو یہ طعنہ دیتے ہو)
اسی لیے تو ان کی کوئی مدد اور نصرت نہیں ہوتی، اللہ عزوجل کیا فرماتے ہیں کہ:
﴿وَلَوْ قٰتَلَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَا يَجِدُوْنَ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا، سُـنَّةَ اللّٰهِ…﴾ (الفتح:22-23)
(اگر کافر تم سے لڑیں بھی تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے پھر کوئی اپنا دوست مدد گار نہیں پائیں گے، یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے)
یہ اللہ تعالیٰ کی سنت اپنے اولیاء جو کہ اہل توحید ہیں ان کے ساتھ رہی ہے ۔ لیکن آج مسلمان ہر جگہ لڑ رہے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں آپ کو سوائے شکستوں ، ذلتوں اور عار کے کچھ نہیں دکھے گا ، ان کی مدد و نصرت نہیں ہو رہی ۔چیچنیا میں قتال کیا ، یہاں وہاں انہوں نے قتال کیا ، فلسطین میں ساٹھ سال سے لڑ رہے ہیں مگر آپ کو سوائے ہزیمتوں کے اور ذلت و رسوائی و عار کے کچھ نہیں دکھائی دے گا ، کیوں کہ وہ اس وعدے کے مستحق ہی نہیں جو اللہ تعالیٰ نے بہت سی آیات میں تاکید کے ساتھ ذکر فرمایا ہے کہ:
﴿اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ يَنْصُرْكُمْ﴾ (محمد:7)
(اگر تم اللہ کی مدد کرو گے (یعنی اس کے دین اور توحید کی) تو وہ تمہاری مدد فرمائے گا)
جو وطن پرستی کی طرف دعوت دیتے ہیں اور وطن پرستی کے لیے لڑتے ہیں اور توحید کو بھول جاتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ ایسوں کی مدد کرے گا ؟!
کہتے ہیں کہ نصاریٰ بھی ہمارے بھائی ہیں اور اس بات سے بھی ان کو کوئی حیاء نہیں آتی کہنے میں کہ : یہودیوں کی بھی دو قسمیں ہیں ایک اصلی یہودی ہیں اور ایک صیہونی یہودی ہیں، اور جو ہمارے دشمن ہیں وہ صیہونی قسم کے یہودی ہیں وہ ہیں، جنہوں نے ہماری زمین چھین لی ہے غصب کی ہے، تو ہم اس اساس اور بنیاد پر ان سے لڑتے ہیں قتال کرتے ہیں۔ اورکمیونسٹوں کے خلاف افغانستان میں لڑتے رہے اور ان کے ساتھ اہل توحید بھی جہاد کے لیے آئے، اور انہوں نے توحید کو نشر کیا، تو وہ الٹا اہل توحید کے خلاف ہی لڑنے لگے ، کہاں گیا جہادِ افغانی ؟ کتنے نوجوان اس میں کھپ گئے ضائع ہوئے، مگر اس کا ثمرہ اور پھل کہاں ہے؟!
روس نکل گیا اس کے بجائے مغربی ممالک آ گئے۔ اللہ تعالیٰ اس امت کی ہرگز بھی مدد اور نصرت نہیں فرمائے گا جب تک یہ کتاب اور سنت کا جھنڈا بلند نہیں کرتے حق وصداقت اورسنجیدگی کے ساتھ اور توحید کا عَلم بلند نہیں کرتے، مگر حال یہ ہو کہ ان کے ہاں ایسے نعرے ہوں، ایسے اصول اور مبادی ہوں جو کہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت دور ہوں بلکہ جاہلیت پر مبنی ہوں، تو پھر یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سوائے ذلت اور رسوائی کے اور کسی چیز میں اضافے کا سبب نہیں ہو گا، اور دشمن کا ان پر مسلط ہو جانا اور انہیں ذلیل کرنا اس کے سوا انہیں کچھ حاصل نہیں ہو گا، جیسا کہ حدیث میں بھی ہے کہ:
’’حَتَّى تَرْجِعُوا إِلَى دِينِكُمْ‘‘
(یہاں تک کہ تم اپنے دین کی طرف نہ لوٹ آؤ)۔
اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین وہ اسلام ہے جو انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام لے کر آئے اور خاتم الانبیاء والمرسلین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے ہیں نہ کہ جو المرغنیہ یا نقشبندیہ یا اس جیسے گمراہ طرق وغیرہ سے آیا ہے ۔ اللہ کا دین حق ہے اور یہ وہی دین ہے جس سے تمسک اختیار کرنا واجب ہے مسلمانوں پر ، واجب ہے کہ ہم اس حقیقت کو جانیں اچھی طرح سے۔ اور یہ بات بھی ضروری ہے کہ ہم ان لوگوں کو اس حقیقت کی پہچان کروائیں، آشکارا کریں اور اس سے تمسک اختیار کریں۔ اللہ تعالیٰ کی قسم ! اگر وہ اللہ کے دین کی طرف پلٹ آئیں تو اللہ تعالیٰ ضرور ان کی مدد فرمائے گا یورپ کے خلاف ، امریکہ کے خلاف اور تمام ممالک کے خلاف :
﴿هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ ۙ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ ﴾ (التوبہ:33)
(وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے اپنے اس رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے تمام ادیا ن پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین بُرا ہی کیوں نہ مانیں)
اس قسم کے لوگ مدد و نصرت کے مستحق ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جیسا کہ اصحاب محمدﷺ تھے اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب فرما دیا تھا:
﴿وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا، يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا﴾ (النور:55)
(اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ وعدہ کیا ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے کہ انہیں ضرور بالضرور زمین پر خلافت (حکومت ) دے گا جس طرح سے ان سے پہلے لوگوں کو دی تھی، اور ان کے لیے اس دین کو نافذ کر دے گا، جما دے گا جس سے وہ ان کے لیے راضی ہے،اور ضرور بالضرور ان کی جو خوف کی حالت ہے اس کو امن سے بدل دے گا،وہ میری عبادت کریں اور میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کریں )
سیدنا یاسر رضی اللہ عنہ کو قید کر لیا گیا، اور آپ کی زوجہ محترمہ کو قتل کر دیا گیا ۔جب اللہ تعالیٰ نے انہیں ہجرت کا حکم دیا اور اسلامی حکومت مدینہ نبویہ میں قائم ہو گئی پھر جا کر انہیں قتال کا حکم دیا گیا۔
اور آج قتال توحید کے لیے نہیں کیا جاتا ، انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے دین کے لیے نہیں کیا جاتا بلکہ وطن پرستی کے لیے کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام نے توحید کی خاطر ہجرتیں کیں، اپنا مال اور گھر توحید کی خاطر چھوڑا ،اور توحید ہی کی خاطر لڑتے رہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
’’أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ‘‘
(مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کرتا رہوں یہاں تک کہ وہ گواہی دیں لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کی)۔
چنانچہ وہ فلسطینی جو توحید پرست ہیں انہیں اذیتوں ، اہانتوں اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ساتھ رافضیت بھی چل رہی ہے اور نصرانیت بھی رواں دواں ہے، کیا اس طریقے سے ریاست محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھی ؟!
ہم نے یہ جو امور یہاں پر ذکر کیے ہیں یہ اس لیے ذکر کیے ہیں کیوں کہ یہ آج کے سلگتے ہوئے موضوعات ہیں، تاکہ ہم تنبیہ کر سکیں توحید کی اہمیت پر جس کی خاطر اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو پیدا کیا ، آسمانوں اور زمین کو ، جنت اور جہنم کو پیدا فرمایا اور اسی کی خاطر انبیاء اور رسل علیہم الصلاۃ والسلام کو مبعوث کیا گیا، اور کتابیں نازل کی گئیں۔ چنانچہ اس توحید الہیٰ کی اہمیت کو سمجھیے اس کا علم حاصل کریں اللہ تعالیٰ کی کتاب سے سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے، اور آئمہ توحید کی کتاب سے جیسا کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اور ابن القیم اور ابن عبد الوہاب رحمہم اللہ ۔ توحید کی تعلیم حاصل کریں، اسی طرح دین کے جتنے امور ہیں ان کی بھی نماز ، روزہ ، زکوٰۃ وغیرہ جتنی بھی عبادات ہیں ان تمام کی تعلیم آپ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل کریں، کیوں کہ یہ سب کی سب لوٹتی ہیں توحید کی جانب ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعاء ہے کہ وہ اس امت کی پیشانی پکڑ کر ان کو حق ، خیر اور ہدایت کی جانب رواں دواں فرمادے، اور ان کے لیے ایسے صالحین اور سچے اور موحد داعیان پیدا کرے جو مخلص ہوں جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اس امت کو باذن اللہ اس ذلت اور پستی سے نکال دے جس میں یہ مبتلا ہے۔
چنانچہ اے نوجوانو! توحید کو سیکھو اہل علم سے اور تحصیل علم کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا دو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
’’لَأَنْ يُهْدَى اللہُ بِكَ رَجُلاً وَاحِداً خَيْرٌ لَكَ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ‘‘
(اگر ایک شخص بھی تمہارے ہاتھوں ہدایت پا جاتا ہے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے )۔
تو ہم میں سے ہر کوئی کوشش کرے اپنے خاندان کی اصلاح کی اور جو ان کے ماحول میں ارد گرد لوگ ہیں بقدر استطاعت ان کی اصلاح کی کوشش کرے۔ اللہ عزوجل سے دعا ءہے کہ ہمیں اور آپ کو حق پر ثابت قدمی عطاءفرمائے اور ہمیں اور آپ کو ہدایت یافتہ لوگوں میں سے کر لے، بے شک میرا ربّ دعاؤں کو سننے والا ہے ۔
وصلی اللہ علیٰ نبینا محمد و علیٰ آلہ وصحبہ وسلم.
[1] أخرجه أبو داود،كتاب البيوع – باب فى النهي عن العينة (3003) عن إبن عمر رضی اللہ عنہما.
[2] أخرجه الحاكم (5666) عن جابر رضی اللہ عنہ.
تو یہ جتنی بھی صفات ہیں وہ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں موجود تھیں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں زمین پر خلافت عطاء فرمائی تو وہ اسلام کے ذریعے اور اس توحید کے ذریعے دنیا کی سیادت وقیادت کرنے والے بن گئے۔اور آج روافض کو دیکھیں جو شرک میں مبتلا ہیں اور اپنی اس حکومت کو اسلامی ریاست کہتے ہیں،کتنا کچھ شرک ان کے پاس ہے اور کس کس قسم کے کفریات وگمراہیاں ان کے پاس موجود ہیں، اور جو گمراہ لوگ ہیں وہ اس بات کی گواہی دیتے پھرتے ہیں کہ ان کی (مثالی) اسلامی ریاست ہے، اور ان کے لیے طبل بجاتے ہیں اخوان المسلمین قسم کے لوگ کہ وہ جہاد کا عَلم بلند کرتے ہیں، جس میں حماس کی تنظیم بھی ہے ، پس وہ اس حکومت کے لیے طبل بجاتے ہیں خوشیاں مناتے ہیں جو کہ یہود و نصاریٰ سے بھی زیادہ گمراہ ترین لوگ ہیں اور قدیم تاریخ سے ہی آج کے دور تک دشمنان اسلام کے یہ ہرکارے ہیں اور انہی کے ایجنٹس ہیں، اور بظاہر ان کے یعنی ان روافض کے اور یہود و نصاریٰ کے درمیان جو چپقلش دکھائی جاتی ہے یا جھڑپیں یہ ساری کی ساری جھوٹ درجھوٹ پر مبنی ہیں، یہ سب تماشے مسلمانوں کو دھوکے میں رکھنے کے لیے ہیں، بظاہر دشمنی دکھاتے ہیں یہود سے تاکہ اپنے حزب الشیطان کے وجود کو باقی رکھ سکیں جسے وہ عربی ممالک میں گمراہ کرنے کے لیے ’’حزب اللہ‘‘ نام دیتے ہیں ، اسی طرح سے ایک حماس بھی فلسطین میں گروہ موجود ہےو اور اس جیسے جتنے بھی اس قبیل کے گروہ ہیں جو کہ تفرقے پر اور مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لیے اور بلاء اور آزمائش کے لیے بنے ہوئے ہیں ۔
واجب ہے حماس کے اوپر بھی کہ وہ توحید کا جھنڈا بلند کرے اور روافض کے ساتھ تعلقات نہ رکھے، ان کا توحید سے کوئی تعلق نہیں، نہ ہی سنت سے اگرچہ جتنے بھی بلند و بانگ دعوے کرتے رہیں ۔ پہلے پہلی جب انہو ں نے اپنی کاروائیاں شروع کی تو وہ یہ دعویٰ کیا کرتے تھے کہ وہ سلفی ہیں، لیکن ہم اسی وقت جان گئے کہ یہ لوگ منحرف ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہی ان کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ وہ کہتے تھے کہ: ہم طائفہ منصورہ ہیں ۔ چنانچہ جو حماس ہے اس پر واجب ہے اور تمام امت اسلامیہ پر واجب ہے کہ وہ اپنے اللہ تعالی کے اس دین ِحق کی جانب لوٹ آئیں جس پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے ۔
سیدنا نوح علیہ الصلاۃ والسلام کو دیکھیں کہ ہزار سال تک توحید کی جانب دعوت دیتے رہے ، سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام توحید کی جانب دعوت دیتے رہے یہاں تک کہ ان کی وفات ہوئی ، سیدنا موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام اور ان کے علاوہ کتنے انبیاء والمرسلین علیہم الصلاۃ والسلام سب کی دعوتیں اسی پر مبنی تھیں ۔ سیدنا موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کو دیکھیں آپ مصر میں تھے اور بنی اسرائیل فرعونیوں کی حکومت کے تحت ذلت کی زندگی گزار رہے تھے، آپ نےیہ نہیں کہا انہیں کہ آؤ وطن پرستی یا قومیت کے لیے لڑتے ہيں ، حالانکہ انہوں نے کہا تھا کہ:
﴿قَالُوْٓا اُوْذِيْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِيَنَا وَمِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا﴾ (الاعراف:129)
(ہمیں آپ کے آنے سے پہلے بھی اذیت دی جاتی رہی اور آپ کے آنے کے بعد بھی )
تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے انہیں وصیت کی صبر کی، جب بھی وہ شکوٰہ شکایت کرتے تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے کہ صبر کرو، حالانکہ وہ ان کے بیٹوں کو ذبح کرتے اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتے۔ سیدنا موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرعون کو بھی توحید کی جانب دعوت دی مگر اس نے اسے قبول نہ کیا، اور جب اللہ تعالیٰ نے ان کےو ہاں سے نکلنے کا ارادہ فرمایا تو وہ راتوں رات نکلے ، حالانکہ ممکن تھا کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام ان سے مقابلہ کرتے، جہاد کرتے اور خون بہایا جاتا ، اور یہ بھی ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ زلزلے سے فرعون اور فرعونیوں کو ختم کر دیتا لیکن اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتا تھا، اللہ سبحانہ و تعالیٰ توحید کو چاہتا تھا ۔ اس کے بعد آپ دیکھیں سیدنا موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام انہیں پیچھے چھوڑ کر وادی سیناء کی طرف نکلے اور اور بنی اسرائیل کو جہاد کی جانب دعوت دی کہ آؤ لیکن وہ اس سے پیچھے رہے اور اس پر لبیک نہیں کہا، کیوں کہ فرعونی تربیت کے کچھ آثار ان کے اندر اب بھی موجود تھے۔ چنانچہ انہوں نے فلسطین کو بعد میں فتح کیا سیدنا یوشع بن نون علیہ الصلاۃ والسلام کے ہاتھوں جنہیں اللہ تعالیٰ نے نبی کے طور پر چن لیا تھا سیدنا موسیٰ اور ہارون علیہما الصلاۃ والسلام کے بعد ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت دیکھیں خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تیرہ سال تک مکہ میں رہے اور اذیتیں برداشت کرتے رہے مشرکین کی طرف سے، اور ماریں سہتے رہے ، یہ نہیں کہا کہ آؤ انقلاب برپا کرتے ہیں تحریک چلاتے ہیں بلکہ کہا کہ:
’’اصْبِرُوا آلَ يَاسِرٍ‘‘([2])
(اے آل یاسر صبر کرو )۔
[Article] Responsibilities of #Muslims in these painful circumstances – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
ان پرالم حالات میں ہماری ذمہ داریاں
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کی آفیشل ویب سائٹ سے لیا گیا۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

#SalafiUrduDawah
#امت
#مسلمان
#ummah

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/07/puralam_halat_muslims_zimedari.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
وقت حاضر میں مسلمان انتہائی پرالم وپرخطر حالات سے دوچار ہیں کہ ہرجانب سے دشمنوں کا ان پر تسلط ہوتا چلا جارہا ہےکہیں افغانستان میں جنگ تو کہیں عراق میں کہیں فلسطین میں جنگ تو کہیں لبنان میں۔ جوکچھ ہم سنتے یا پڑھتے ہیں اپنے خطباء اور قلم کاروں سے وہ بس دشمنوں پر لعنت ملامت کرنا، ان کے جرائم بیان کرنا اور اسی کا شکوہ کرنا ہوتا ہے۔ بلاشبہ یہ امور موجود ہیں، لیکن کیا کافر دشمن اس قسم کی محض چیخ وپکار اور واویلا کرنے سے بھاگ جائے گا!؟
کافر تو شروع زمانے سے ہی اسلام کا وجود صفحۂ ہستی سے مٹا دینا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ وَلَا يَزَالُوْنَ يُقَاتِلُوْنَكُمْ حَتّٰى يَرُدُّوْكُمْ عَنْ دِيْنِكُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا﴾ (البقرۃ: 217)
(وہ تم سے لڑتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ اگر ان کے بس میں ہو تو تمہیں تمہارے دین اسلام سے پھیر دیں)
لیکن کام کی بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں نے ان کے مقابلے میں اور ان کی زیادتیوں کو روکنے کے لئے کیا تیاری کر رکھی ہے!؟
ان پر واجب ہے کہ:
اولاً: دین کے تعلق سےاور اس کے ساتھ تمسک اختیار کرنے کے اعتبارسےاپنی موجودہ صورتحال پر غور کریں ، کیونکہ جو کچھ مصائب کا انہیں سامنا ہے وہ ان کی دین میں کوتاہی کے سبب ہی ہے۔ ایک اثر میں ہے:
’’إِذَا عَصَانِي مَنْ يَعْرِفُنِي سَلَّطْتُ عَلَيْهِ مَنْ لا يَعْرِفُنِي‘‘(1)
(اگر وہ میری نافرمانی کرے جو مجھے جانتا ہے (یعنی مسلمان اور نیکوکار) تو میں اس پر اسے مسلط کردوں گا جو مجھے نہیں جانتا (یعنی کافر اور فاسق وفاجر))۔
بنی اسرائیل کے ساتھ کیا ہوا جب انہوں نے اپنے دین سے لاتعلقی اختیار کی اور زمین میں فساد برپا کیا؛ اللہ تعالی نے ان پر مجوسی کافروں کو مسلط کردیا جنہوں نے ان کے گھروں تک کے اندر گھس کر تباہی مچائی جس کا ذکر اللہ تعالی نے سورۂ بنی اسرائیل کے شروع میں فرمایا۔ اللہ تعالی نے انہیں یہ بھی وعید سنائی کہ اگر تم اپنی اس (نافرمانی والی)حالت میں واپس لوٹو گے تو اللہ تعالی بھی تم پر پھر سے یہ غضب ڈھائیں گے۔ اسی لئے ہم پر واجب ہے کہ ہم اپنی موجودہ صورتحال پر نظر کریں اور ہمارے دین کے تعلق سے ہمارے اعمال میں جو فساد آگیا ہے اس کی اصلاح کریں کیونکہ اللہ تعالی کی سنت تبدیل نہیں ہوتی۔ اللہ تعالی کافرمان ہے:
﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ۭ وَاِذَآ اَرَادَ اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗ ۚ وَمَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّالٍ﴾ (الرعد: 11)
(بے شک کسی قوم کی حالت اللہ تعالی نہیں بدلتے جب تک کہ وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے اندر (خرابیاں) ہیں۔ اللہ تعالی جب کسی قوم کی سزا کا ارادہ فرمالیتے ہیں تو وہ بدلا نہیں کرتا، اور سوائے اس کے کوئی ان کا کارساز بھی نہیں ہوتا)
ثانیاً: ہمیں چاہیے کہ ایسی قوت واسباب تیار کریں جس کے ذریعہ ہم اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرسکیں جیسا کہ اللہ تعالی نے حکم ارشاد فرمایا ہے:
﴿ وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْـتَـطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمْ وَاٰخَرِيْنَ مِنْ دُوْنِهِمْ ۚ لَا تَعْلَمُوْنَهُمْ ۚ اَللّٰهُ يَعْلَمُهُمْ﴾ (الانفال: 60)
(تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو اور گھوڑوں کے تیار رکھنے کی کہ اس سے تم اللہ تعالی کے دشمنوں کو خوفزدہ رکھ سکو اور ان کے سوا اوروں کو بھی، جنہیں تم نہیں جانتے، اللہ تعالی انہیں خوب جانتا ہے)
بہترین فوج، مناسب اسلحہ اور کارگر قوت مدافعت پیدا کرکے یہ تیاری کی جائے۔
ثالثاً: مسلمانوں کے کلمے کو مجتمع کرنا عقیدۂ توحید اور تحکیم شریعت پر، اور اپنے معاملات واخلاق غرض ہر امور میں اسلام کا التزام کرنا، کتاب اللہ کی تحکیم کرنا، نیکی کا حکم کرنا اور برائیوں سے روکنا، اور اللہ تعالی کی راہ کی طرف علم وبصیرت واخلاص کے ساتھ دعوت دینا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا﴾ (آل عمران: 103)
(اور تم سب مل کر اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقہ بازی نہ کرو)
اور فرمایا:
﴿ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيْحُكُمْ وَاصْبِرُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ﴾ (الانفال: 46)
(اور آپس میں تنازع نہ کرو ورنہ بزدل ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر سے کام لو بے شک اللہ تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے)
یہ اجتماع، اتحاد ویگانگت حاصل نہیں ہوسکتی اگر عقیدے، مقاصد واہداف میں اختلاف ہو۔ یہ حقیقی اتحاد تب ہوگا جب عقیدہ صحیح ہواور اہداف اس طور پر یکساں ہوں کہ حق کی نصرت اور اللہ تعالی کا کلمہ بلند کرنا مقصد ہو۔
کاش کہ ہمارے خطباء وواعظین اپنے خطبوں اور واعظوں میں اس نکتے پر توجہ مرکوز رکھیں ساتھ ہی ساتھ دشمن اورزیادتی کرنے والے پر تنقید بھی کریں، اور اس کے خبیث مقاصد بھی بیان کریں، کیونکہ وہ دشمن محض مسلمانوں کو کمزور کرکے ان کے مال وثروت ہی لوٹنا نہیں چاہتا بلکہ اس کا اولین مقصد ان کے عقیدے میں بگاڑ پیدا کرکے انہیں ان کے دین سے برگشتہ کرنا ہے یہاں تک کہ وہ انہیں ٹکڑے ٹکڑے کرکے تباہ وبرباد کردے۔
یہی کچھ تنبیہات تھی جو میں ان ناگفتہ بہ حالات کے بارے میں کرنا چاہتا تھا۔
حلیۃ الاولیاء لابی نعیم 91:8۔