Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.29K subscribers
2.49K photos
52 videos
211 files
4.94K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[Article] Ahadeeth Proving that the #Parents_of_the_Messenger (صلى الله عليه وسلم) Died Upon Kufr – Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen Al-Albaanee
#رسول_اللہ_کے_والدین کی کفر پر موت ہونے سے متعلق احادیث – شیخ محمد ناصر الدین البانی

#SalafiUrduDawah


شیخ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر کے پاس بیٹھے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےاردگرد بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر یوں ہلا رہے تھے گویا کہ کسی سے مخاطب ہوں پھر رونے لگے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آپ کے سامنے آئے اور فرمایا:
’’مَا يُبْكِيكَ؟ قَالَ: هَذَا قَبْرُ آمِنَةَ بِنْتِ وَهْبٍ، اسْتَأْذَنْتُ رَبِّي فِي أَنْ أَزُورَ قَبْرَهَا فَأَذِنَ لِي، وَاسْتَأْذَنْتُهُ فِي الاسْتِغْفَارِ لَهَا فَأَبَى عَلَيَّ، وَأَدْرَكَتْنِي رِقَّتُهَا، قَالَ: فَبَكَيْتُ فَمَا رَأَيْتُ سَاعَةً أَكْثَرَ بَاكِيًا مِنْ تِلْكَ السَّاعَةِ‘‘([1])
(کس چیز نے آپ کو رلایا یا رسول اللہ؟ فرمایا: یہ آمنہ بنت وہب کی قبر ہے۔ میں نے اپنے رب سے اجازت طلب کی کہ میں ان کی قبر کی زیارت کروں تو اس نے مجھے اجازت دے دی۔ پھر میں نے ان کے لیے بخشش کی دعاء کرنے کی اجازت طلب کی تو مجھے منع فرمادیا۔ اسی وجہ سے مجھ پر رقت طاری ہوگئی تو میں رو پڑا۔ راوی فرماتے ہیں: میں نے اس گھڑی سے بڑھ کر آپ کو روتے ہوئے نہيں دیکھا)۔
اور امام مسلم رحمہ اللہ نے صحیح مسلم (1/132-133) میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ:
’’أَنَّ رَجُلًا، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيْنَ أَبِي؟ قَالَ: فِي النَّارِ، فَلَمَّا قَفَّى، دَعَاهُ، فَقَالَ: إِنَّ أَبِي وَأَبَاكَ فِي النَّارِ‘‘
(ایک شخص نے پوچھا: یا رسول اللہ میرے والد کہاں ہیں؟ فرمایا: آگ (جہنم) میں۔ جب وہ جانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلا بھیجا اور فرمایا: بے شک خود میرے والد بھی اور تمہارے والد بھی جہنم میں ہیں)۔
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں
[1] میں یہ کہتاہوں: یہ حدیث اپنے مجموعی طرق کے اعتبار سے صحیح ہے، اس کی دوسری اسانید بھی ہیں جن میں سے ایک صحیح ہے، اور اسے ابن حبان، حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا ہے، اس کی تخریج ’’احکام الجنائز‘‘ ص188 میں ہے۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/04/nabi_walidain_kufr_pr_moat.pdf
#بدعتی کو توبہ کی توفیق کم ہی ملتی ہے اس لیے شیطان کو گناہ سے زیادہ محبوب ہے
#bidati ko toba ki tofiq kam hi milti hai, is liye shaytan ko gunha say zada mahboob hai

#SalafiUrduDawah
[Book] Brief introduction of #Qadianism – Various 'Ulamaa
#قادیانیت کا مختصر تعارف
مختلف علماء کرام
ترجمہ، ترتیب وعناوین: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر (ویب سائٹ سحاب السلفیۃ والآجری پر جمع کردہ مواد سے)
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

#SalafiUrduDawah

بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقدمہ
قادیانی صرف فرقہ ہی نہیں بلکہ ان کا درحقیقت شمار غیر مسلموں میں ہوتا ہے۔ یہ ایک گمراہ مذہب ہے جو ایسے انواع واقسام کے ظاہری وباطنی کفریات وشرکیات سے لبریز ہےکہ ایک عام مسلمان تک سے وہ مخفی نہيں چہ جائیکہ علماء کرام سے ہو۔ لیکن صدافسوس کے اس گمراہ کن دعوت کے افراد اور جگہیں مسلمانوں کے مابین خصوصاً عجم میں انگریز سامراج اور ان کے آلۂ کاروں کے ذریعے ہندوستان وپاکستان میں پائی جاتی ہيں، بلکہ عرب میں بھی بعض جہلاء اور شہوات پرست لوگ جن کے دین و دل درہم ودینار کے ساتھ بدلتے ہیں اسے قبول کرتے ہیں۔ پھر صہیونیت کے غیرمحدود مالی وغیرہ تعاون کا شاخسانہ ہے کہ ان کا باقاعدہ فضائی چینل تک نشر ہوتا ہے ظاہراًبھی اور خفیہ بھی۔ چناچہ الجزائر وغیرہ جیسے عرب ممالک میں بھی ان سے متاثرہ لوگوں کی بڑھتی تعداد کے سبب سے اس تعلق سے بہت سے سوالات پوچھے جانے لگے کہ ان کے کیا نظریات وگمراہیاں ہيں ۔ اور ہمارے خیال سے اب تک یہاں ان کی سرگرمیاں تقیہ کے ساتھ ہیں جس کے ذریعے وہ چھپ کر اپنا زہر پھیلاتے جارہے ہیں، جیساکہ ضرب المثل میں کہا جاتا ہے، بغیر آگ کے دھواں نہيں ہوتا۔ لہذا واحب ہے کہ نئے سرے سے ان کی حقیقت کو بے نقاب کیا جائے اور اہل علم کے ان کی تکفیر اور ان سے خبردار کرنے کے متعلق فتاویٰ کو نشر کیا جائے۔
عناوین
قادیانیت
شیخ عبدالقادر شیبۃ الحمدحفظہ اللہ
(مدرس، کلیۃ شرعیہ، جامعہ اسلامیہ)
قادیانیت کا آغاز
غلام احمد قادیانی کون ہے؟
مسیح موعود ہونے کا دعویٰ
نبوت کا دعویٰ
اللہ کا بیٹا ہونے کا دعویٰ
غلام احمد قادیانی کو تمام انبیاء سے افضل قرار دینا
ہمارے نبی سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیین ہيں
قادیانی کے تضادات
قادیانی کی مخبوط الحواسی
انگریزوں کا ایجنٹ جہاد کا مخالف
قادیانیوں کی تکفیر
دائمی فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب کے فتاویٰ
قادیانیوں سے شادی بیاہ کا حکم
قادیانی متفقہ طور پر کافر ہیں
مرزا غلام احمد قادیانی کا دعوئ نبوت سراسر جھوٹ ہے
مسلمانوں اور احمدیوں میں فرق
قادیانیوں کا قرآنی آیات سے استدلال اس کا جواب
از فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب
16 آیات اور ان کاجواب
شیخ محمد ناصر الالبانی رحمہ اللہ
قادیانی دجال کے بعض مزیدگمراہ کن عقائد
قادیانیوں کا بعض احادیث سے استدلال اور اس کا جواب
از شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ
قادیانیت کے رد پر علماء اہلحدیث کی بعض کتب
قادیانی کی تکفیر پر اجماع
مجمع الفقہ الاسلامی کی قرارداد
احمدی جماعت کا مختصر تعارف اور بعض کفریہ عقائد، ان کے ٹی وی چینل اور ان کے رد پر لکھی گئی بعض کتب کا ذکر
از شیخ محمد علی فرکوس حفظہ اللہ
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/03/qadyaniyyat.pdf
[Article] The requirements of believing in #messengers_of_Allaah and its benefits – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen
#رسولوں_پر_ایمان کے تقاضے اور فوائد – شیخ محمد بن صالح العثیمین

#SalafiUrduDawah
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
رسولوں پر ایمان میں چار باتیں آتی ہیں:
1- اس بات پر ایمان کہ اس رسول کے رسالت اللہ تعالیٰ کی طرف سے حق ہے۔
2- جن کے ہم نام جانتے ہیں ان پران کے نام کے ساتھ ایمان لانا۔
3- ان کے بارے میں جو خبریں صحیح طو رپر ثابت ہیں ان کی تصدیق کرنا۔
4- ان میں سے جو ہماری طرف بھیجے گئے ہیں اس رسول کی شریعت کے مطابق عمل کرنا، اور وہ ہیں ان کے آخری یعنی خاتم النبیین سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کہ تمام لوگوں کی طرف بھیجے گئے ہیں۔
مزید تفصیل کے لیے مقالہ پڑھیں ۔ ۔ ۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/12/rasoolon_pr_emaan_taqazay_fawaid.pdf
#بدعت، #بدعتی اور #مجرم کو پناہ دینے والے پر لعنت
#bidat, #bidati aur #mujrim ko panah dayne walay par lanat
#SalafiUrduDawah
[Article] Are “#Taha” and “#Yaseen” from among the names of the prophet (SalAllaho alayhi wasallam)? – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen
کیا’’#طہ‘‘ اور ’’#یس‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ناموں میں سے ہیں؟
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ وتبویب: طارق علی بروہی
مصدر: شرح نظم الورقات
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

#SalafiUrduDawah

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/kiya_taha_yaseen_nabi_k_naam_hain.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا ’’طہ‘‘ اسماءِرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ہے؟
نظم الورقات جو اصول فقہ پر ایک نظم ہے کی شرح (ص 141-142) میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ ایک شعر :
أفعال طه صاحب الشريعة جميعها مرضية بديعة
کی شرح میں فرماتے ہیں کہ ہمیں یہاں مؤلف (امام جوینی) رحمہ اللہ سے مناقشہ کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ انہوں نے ’’طہ‘‘ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسماء میں سے شمار کیا ہے۔ حالانکہ یہ نظر واثر دونوں کے اعتبار سے صحیح نہیں۔
’’طہ ‘‘ کا اسمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونا احادیث سے ثابت نہیں
جہاں تک اثر (حدیث) کے اعتبار سے عدم صحت کا تعلق ہے تو اس بارے میں کبھی بھی کوئی حدیث نقل نہیں ہوئی نہ صحیح اور نہ ہی ضعیف کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ناموں میں سے طہ بھی ہے۔
’’طہ ‘‘ کا اسمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونا نظری طور پر بھی صحیح نہیں
اس کا اسمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونا نظر کے اعتبار سے بھی صحیح نہیں کیونکہ:
1- ’’طہ‘‘ مرکب ہے محض دو مہمل حروفِ تہجی کا’’ط‘‘ اور ’’ہ‘‘، اور یہ بات معلوم ہے کہ حروف ِتہجی کا بذات خود کوئی معنی نہیں ہے۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام (ثابت شدہ) ناموں کا کوئی نہ کوئی اچھا معنی ضرور ہوتا ہے۔
2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام محض عَلَم نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تو تمام نام اعلام ہونے کے ساتھ ساتھ القاب بھی ہیں([1])۔ جبکہ ہم لوگوں کے نام تو مجرد عَلَم ہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کے نام عبداللہ رکھ تو لیتے ہیں خواہ وہ اللہ تعالی کا نافرمان ترین بندہ ہی کیوں نہ ہو! اسی وجہ سے یہ نام مجرد عَلَم بن کر رہ گیا گویا کہ پہاڑ کی چوٹی پر کوئی پتھر پڑا ہے جس کا کام محض راستے کی نشاندہی کرنا ہے اور کچھ نہیں۔
3- لیکن جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام ہیں وہ تمام کے تمام اعلام و(حقیقی) اوصاف ہیں اسی طرح سے اللہ تعالی اور قرآن کریم کے جتنے بھی اسماء ہیں وہ سب اعلام واوصاف ہیں۔
پس اس کلمہ ’’طہ‘‘ میں آپ کو کوئی وصف نظر نہیں آئے گا۔ چناچہ نظری اعتبار سے بھی ’’طہ‘‘ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسماء میں سے نہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔
قرآن مجید سے ’’طہ‘‘ و ’’یس‘‘ وغیرہ ناموں کے استدلال کی حقیقت
اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ : آپ یہ بات کیسے کہہ سکتے ہیں؟ حالانکہ خود اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿ طٰهٰ، اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰٓي﴾ (طہ: 1-2)
(طہ، ہم نے آپ پر قرآن اس لئے نازل نہیں فرمایا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں)
تو اس میں طہ کو پکار کر کہا گیا ہے کہ آپ پر قرآن اس لئے نازل نہیں فرمایا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں جو کہ ظاہر ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہی خطاب ہے۔
ہم اس کا یہ جواب دیں گے کہ اگر یہی دلیل ہے تو پھر آپ کو چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام ’’المص‘‘ بھی رکھ لیں! کیونکہ اللہ تعالی نے یہ بھی تو فرمایا ہے:
﴿ المّص، كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَيْكَ فَلَا يَكُنْ فِيْ صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ…﴾ (الاعراف: 1-2)
(المص، یہ ایک کتاب ہے جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے سو آپ کے سینے میں اس سے کوئی تنگی نہ ہو)
کیا کبھی کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’المص‘‘ کا نام سے موسوم کیا ہے؟
اسی طرح کبھی کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’الر‘‘ کہا ہے اسے دلیل بناتے ہوئے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ الرٰ، كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِ…﴾ (ابراہیم: 1)
(الر، یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف اتاری ہے تاکہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لائیں)
پس کیاہم اس نام سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو موسوم کریں گے؟ جواب ہے ہرگز نہیں، چناچہ ان کا یہ قاعدہ یا دلیل تو ٹوٹ گئی۔
حاصل ِمناقشہ
الغرض یہ ثابت ہوا کہ ’’طہ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ناموں میں سے نہیں ہے، اور اثر ونظر دونوں اعتبار سے اس کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام ہونا صحیح نہیں([2])۔
[1] عَلَم کا معنی نشانی کے ہیں، عربی میں کسی کا نام بطور علم استعمال ہونے کا مطلب ہے کہ محض وہ اس کا نام ہے اس کے مطلب میں جو معنی پایا جاتا ہے اس سے اس کا کوئی تعلق ہویا نہ ہوجبکہ القاب واوصاف واقعی کسی شخص میں پائے جاتے ہیں تو وہ نام برمبنی حقیقت ہوتا ہے۔ جیسے کسی کا نام صالح ہو حالانکہ وہ غیرصالح وبرا انسان ہو تو اس صورت میں صالح بس اس کی پہچان کے لئے ایک نام عَلَم ہے نا یہ کہ واقعی وہ شخص نیک وصالح ہے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یا اللہ تعالی وقرآن کریم کے جتنے اسماء ہیں وہ واقعی ایسے عظیم اوصاف ہیں کہ جو ان میں پائے جاتے ہیں ناکہ محض عَلَم ہیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] اور یہی حکم ’’یس‘‘ کا بھی ہے۔ واللہ اعلم (توحید خالص ڈاٹ کام)
[Article] Warning to Yahood (#Jews) the cursed nation – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
ڈرانے والے کی پکار اس امت کی جانب جن پر ہے اللہ تعالی کی پھٹکار
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: صیحة نذیر۔۔۔الی امة الغضب [اليهود]!
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

#یہود
#SalafiUrduDawah

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/12/yahood_ko_darawa.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہود مغصوب علیہم سے خطاب
اس امت کی جانب جو مغضوب علیہم ہے، جن پر غضب ہی ہوتا رہا ہے اور جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿فَبَاءُوْ بِغَضَبٍ عَلٰي غَضَبٍ ۭ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ﴾ (البقرة : 90)
(پس وہ غضب در غضب لے کر لوٹے اور کافروں کے لئے رسوا کن عذاب ہے)
اس ذلیل ونیچ قوم کی جانب جن پر اللہ تعالی نے ان کے کفر اور انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کو قتل کرنے کے سبب سے ذلت وپسماندگی مسلط فرمادی۔
﴿ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ اَيْنَ مَا ثُـقِفُوْٓا اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰهِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَبَاءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ۭذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ كَانُوْا يَكْفُرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَيَقْتُلُوْنَ الْاَنْۢبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ۭ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُوْا يَعْتَدُوْنَ﴾ (آل عمران : 112)
(ان پر ہر جگہ ذلت کی مار پڑی الا یہ کہ اللہ تعالی کی یا لوگوں کی پناہ میں ہوں، یہ غضب الہی کے مستحق ہوگئے اور ان پر پسماندگی وفقیری ڈال دی گئی، یہ اس لیے کہ بے شک یہ لوگ اللہ تعالی کی آیتوں سے کفر کرتے تھے اور ناحق انبیاء کرام کو قتل کرتے تھے، یہ اس لیے کہ یہ نافرمانیاں کرتے اور زیادتیاں کیے جاتے)
پس یہ تمہاری بعض ایسی صفات ہیں جو تم پر واقعتاً ذلت، پسماندگی وفقیری اور اللہ تعالی کے غضب وپھٹکارکو واجب کرتی ہیں۔ تمہاری تو کوئی حکومت کبھی قائم ہو ہی نہیں سکتی آج بھی اور تاقیام قیامت سوائے اللہ تعالی کی پناہ میں یا دوسرے لوگوں (ممالک) کی پشت پناہی میں۔ چناچہ نہ تو تمہاری عقیدہ وایمان میں کوئی سندہے، اور نہ ہی مردانگی وبہادری میں کوئی ناموری ہے؛ اور آج تک تم قلعہ بند ہوکر دیوار کے پیچھے سے لڑنے والی (بزدل) قوم ہو جبکہ تم آپس میں بھی بہت پھوٹ کا شکار ہو، ان کے علاوہ بھی تمہاری گھٹیا صفات بہت زیادہ ہیں جیسے خیانت، دھوکہ بازی وغداری، فتنہ پروری، جنگ کی آگ بھڑکانا، زمین میں فساد مچانے کی تگ ودو میں رہنا مگر تم جب کبھی بھی جنگ کی آگ بھڑکاتے ہو اللہ تعالی اسے بجھا دیتے ہیں۔ تمہاری یہ سیاہ تاریخ تو تمام اقوام کے نزدیک جانی پہچانی ہے۔
اس امت کے نام میرا اور ہر سچے مسلمان کا پیغام ہے: نہ اِتراؤ، نہ کسی خوش فہمی میں رہواور اس خود فریب فتح کے باعث کسی دھوکے میں نہ رہنا، کیونکہ اللہ تعالی کی قسم! تم کبھی بھی جیش محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر فتح یاب نہ ہوئے، اور نہ ہی عقیدۂ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عقیدۂ توحید ’’لاالہ الا اللہ‘‘ پر، اور نہ ہی ایسی فوجوں پر جن کی قیادت سیدنا خالد بن ولید، ابو عبیدہ بن الجراح، سعد بن ابی وقاص، عمروبن العاص اور نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہم جیسے قائدین نے کی، جنہوں نے عقیدہ ومنہج محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تربیت پائی تھی اور اپنی فوج کی تربیت بھی اسی عقیدے ومنہج پر کی تھی۔ جب وہ ان کی اعلائے کلمۃ اللہ پر سربراہی کرتے تھے تو ان کے سامنے تم سے کہیں گنا طاقتور ومضبوط قیصر وکسریٰ کی فوجیں بھی نہ ٹھہر سکتی تھیں۔
تم نے کبھی بھی ایسی فوج پر فتح نہ پائی جن کا ایساعقیدہ، ایسا منہج اور ایسی عظیم غایت کے اللہ تعالی کا کلمہ بلند ہو تھی۔ تم نے تو محض ایسے لوگوں پر فتح پائی ہے جو ناخلف ہیں:
﴿فَخَــلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَاتَّـبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا﴾ (مريم : 59)
(پھر ان کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے کہ انہوں نے نماز ضائع کردی اور نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑ گئے، سو وہ عنقریب اپنی گمراہی کے انجام کو پائيں گے)
ایسی فوج پر فتح پائی ہے جن کی اکثریت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اصحاب کا سا عقیدہ نہیں رکھتی، اور نہ ہی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے لشکر کا سا منہج رکھتی ہے، اور نہ ہی ان کے نزدیک وہ غایت ہوتی ہے جس کے لئے وہ جہاد کیا کرتے تھے۔ ایسے لوگوں پر فتح پائی ہے جو (حدیث کے مطابق غثاء) بے وقعت لوگ ہیں، جن کے ضیاع کاری اور پست ہمتی کی بناء پر تمہاری حکومت قائم ہوئی ہے، اور تم زمین پر بڑے بن بیٹھ کر اس پر فساد پھیلارہے ہو:
اور اہل شام کے لئے یہود ونصاریٰ پر فتح کا صادق ومصدوق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سےسچا وعدہ ہے۔ پس تم تمام تر توانائیاں اس وعدے کو پورا کرنے میں کھپا دو، اس کے علاوہ تمہیں سوائے ناامیدی وخسارے کے کچھ حاصل نہیں ہوگا، تمہیں کوئی چیز بھی فائدہ نہیں پہنچا پائے گی چاہے امریکہ کی طرف جاؤ یا اقوام متحدہ کی یا چاہے قومیت یاعصبیت سے بھری وطنیت کی طرف جاؤ۔ چناچہ لپکوحقیقی وبھرپور فتح ونصرت کے اسباب کو اپنانے کی طرف، تم بہت سے ایسے تجربات سے گزر چکے جو تمہارے لئے کوئی کارآمد ثابت نہ ہوئےاور نہ کبھی ہوسکتے ہیں، اور ایسے نہ ہوجانا جیسا کہ کہا جاتا ہے:
كالعيس في البيداء يقتله الظمأ … والماء فوق ظهورها محمول
(جیسا کہ صحراء میں اونٹ کو پیاسے قتل دیتے ہیں
حالانکہ پانی تو اس کی پشت کے اوپر (کوہان میں) محمول ہوتا ہے)
اے اللہ! اس امت کےلئے ایسی رشدورہنمائی لکھ دے جس میں تیرے اولیاء (دوستوں) کو عزت ملے اور تیرے دشمن ذلیل وخوار ہوں۔ اے اللہ! اپنے کلمے کو بلند فرما، اور اپنے دین کو غالب کر اور اس کے ذریعہ مسلمانوں کو غالب فرما۔ اور ان کی پیشانیوں سے انہیں پکڑ کر اپنے اور اپنے دین کی طرف پھیر دے۔ بے شک تو دعائوں کا سننے والا ہے۔
(ماخوذ: ویب سائٹ سحاب السلفیہ بتاریخ 2009-01-06)
﴿وَقَضَيْنَآ اِلٰى بَنِيْٓ اِسْرَاءِيْلَ فِي الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْاَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيْرًا،فَاِذَا جَاءَ وَعْدُ اُوْلٰىهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَآ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّيَارِ ۭ وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا ،ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَاَمْدَدْنٰكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِيْنَ وَجَعَلْنٰكُمْ اَكْثَرَ نَفِيْرًا، اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ ۣوَاِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَا ۭ فَاِذَا جَاءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِيَسُوْءٗا وُجُوْهَكُمْ وَلِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّلِــيُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِيْرًا﴾ (الإسراء : 4 – 7)
(ہم نے بنی اسرائیل کے لئے ان کی کتاب میں صاف فیصلہ کردیا تھا کہ تم زمین میں دوبار فساد برپا کرو گے اور تم بڑی زبردست زیادتیاں کرو گے۔ ان دونوں وعدوں میں سے پہلے کے آتے ہی ہم نے تمہارے مقابلہ پر اپنے بندے بھیج دیئے جو بڑے ہی لڑاکا تھے، پس وہ تمہارے گھروں کے اندر تک پھیل گئے اور اللہ تعالی کا یہ وعدہ پورا ہونا ہی تھا۔ پھر ہم نے ان پر تمہیں غلبہ دے کر تمہارے دن پھیرے اور مال اور اولاد سے تمہاری مدد کی اور تمہیں بڑے جتھے والا بنادیا۔ اگر تم نے اچھے کام کئے تو خود اپنے ہی فائدے کے لئے، اور اگر تم نے برائیاں کیں تو بھی اپنے ہی لئے، پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا (تو ہم نے دوسرے بندوں کو بھیج دیا تاکہ) وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور پہلی دفعہ کی طرح پھر اسی مسجد میں گھس جائیں۔ اور جس جس چیز پر قابو پائیں توڑ پھوڑ کر جڑ سے اکھاڑ دیں)
یہ ہے تمہاری تاریخ اور یہ ہے وہ معاملہ جو اللہ تعالی نے تمہارے ساتھ روا فرمایااگرچہ تمہاری یہ درگت مجوس کے ہاتھوں گزر چکی ہےلیکن اس سے زیادہ شدید قسم کی شامت تمہاری جیش (فوج) محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جیش اسلامی کے ہاتھوں آنے والی ہے ان شاء اللہ، جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے یہاں تمہارے گھٹیا پن وحقیر ہونے کے سبب تمہیں اس کا وعدہ فرمایا :
﴿وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا ۘ وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِيْنَ حَصِيْرًا﴾ (الإسراء : 8)
(ہاں اگر تم پھر بھی وہی (حرکت) کرنے لگے تو ہم بھی دوبارہ ایسا ہی (تمہارا حشر) کریں گے، اور ہم نے کافروں کا قیدخانہ جہنم کوبنارکھا ہے)
پس آخرکار تم نے وہی حرکت دہرانا شروع کردی ہے، تو پھر اللہ تعالی کی بھی سخت پکڑ تم پر عنقریب لوٹ آنے والی ہےاور وہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں فرماتا،مگر یہ جیش محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں ہوگی نہ کہ تمہاری ہی جنس کے لوگوں کے ہاتھوں جو مغرب زدہ نصرانیوں اور مادہ پرستوں کے دلدادہ ہیں۔ اسی لئے کسی دھوکہ میں رہنے کی یا اِترانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ تعالی کی قسم! تم نے کبھی بھی اسلام پر، یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، فاروق، خالد اور ان کے بھائیوں رضی اللہ عنہم کی افواج جو اللہ تعالی اور اسلام کا لشکر تھے پر فتح نہیں پائی۔
مسلمانوں سے عمومی خطاب
مسلمانوں سے عموماً چاہے حکام ہوں یا محکومین، گروہ ہوں یا جماعتیں، علماء ہوں یا دانشور کو میرا یہ پیغام ہے کہ آخر کب تک اس ذلت آمیز زندگی پر اکتفاء کئے بیٹھے رہو گے!؟ کب تک ایسے بے وقعت بن کر جیو گے!؟ آخر کب تک!؟ آخر کب تک!؟ آخر کب تک!؟ کہاں ہیں تمہارے عقل مند لوگ!؟ اور کہاں ہیں تمہارے علماء!؟ اور کہاں ہیں تمہارے دانشوران وتہذیب شناساں!؟ اور کہاں ہیں تمہارے فوجی لیڈران !؟
تم نے ہزاروں مدارس (اسکول) اور جامعات (یونیورسٹیاں) قائم کردیں ان کا نتیجہ وثمرہ کیا نکلا!؟ اللہ تعالی کی قسم ! اگر ان مدارس وجامعات کا عشر عشیر بھی نبوی منہج پر عقیدۃً، اخلاقاً، شریعتاً وحکمتاً قائم ہوتا تو پوری دنیا ایمان وتوحید کے نور سے جگمگا اٹھتی اور جہالت، شرک وبدعات کے دبیز سائے چھٹ جاتےاور تمہارے دشمنان کبھی بھی تم پر ایسے مسلط نہ ہوپاتے۔ اگرچہ بعض جامعات منہج ِحق پر قائم ہیں مگر اس میں بھی ایسے عناصر سرایت کررہے ہیں جو اس منہج کو پسند نہیں کرتےاور ان پر اثر انداز ہوکر بہت سے اس(منہج) کی جانب منسوبین کے چہروں کو پھیر چکے ہیں، ہم تو اللہ تعالی ہی سے اس کا شکوہ کرسکتے ہیں۔
کیا یہ تلخ حقیقت تم پر یہ واجب نہیں کرتی کہ تم اپنے مدارس وجامعات کے مناہج (سلیبس) اور اسلوبِ تربیت پر نظر ثانی کرو۔ کیا وہ وقت نہیں آن پہنچا کہ تم ان حالات کو بدلنے کی لئے سنجیدگی سے غوروفکر کرو، اور ان کی کایا پلٹ دو ایسے صحیح اسلامی مناہج مقرر کرکے جو کتاب اللہ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور منہج سلف صالحین سے ماخوذ ہوں، (کیونکہ) اللہ تعالی کی قسم! ’’ لا يُصْلِحُ آخِرَ هَذِهِ الأُمَّةِ إِلا مَا أَصْلَحَ أَوَّلَهَا‘‘ (اس امت کے آخرکی اصلاح نہیں کرسکتی مگر وہی چیز جس سے اس کے پہلوں کی اصلاح ہوئی تھی)۔
ان مناہج کو یکسر تبدیل کردو جو تم میں سے غالب اکثریت کو سوائے غثاء (بے وقعت) ہونے کے کچھ نہیں بنارہے، اوراس منہج ربانی پر چلتے ہوئے ان (باطل) مناہج کا قلع قمع کردو جس (منہج ربانی) کے سوا دنیا وآخرت کی اصلاح، فلاح اور نجات کا کوئی تصور نہیں، اگر تم واقعی اپنی اور اپنی امت کی فلاح یابی، اصلاح اور دشمنوں جن میں سب سے بڑے وہ جن پر اللہ تعالی نے ذلت وپسماندگی مسلط کردی ہے (یہود) پر نصرت وفتح کے خواہاں ہو۔
مسلمان حکمرانوں سے خصوصی خطاب
آپ پر بہت ہی بڑی مسئولیت عائد ہوتی ہے کہ آپ:
اولاً: اپنے عقائد، عبادات، سیاست اور اپنی رعایا سے معاملہ کرنے میں کتاب اللہ ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سیرت خلفائے راشدین کا التزام کریں اور اپنی رعایا کی بھی اس پر تربیت کریں، اور آپ پر اللہ تعالی جو آپ کا رب ہے کی طرف سے یہ فرض عائد کیا گیا ہے کہ آپ تمام قدامت پرستانہ ودقیانوسی (backward) قوانین کو پھینک دیں، اور آپ کی اپنی امت میں سیاست اس کے دین ودنیا کے ہر شعبے میں کتاب اللہ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفائے راشدین کے مطابق ہونی چاہیے، کیونکہ آپ اللہ تعالی کے بندے ہیں، اور اس کی زمین پر زندگی بسر کرتے ہیں، اور اس کے دیئے ہوئے رزق میں سے کھاتے ، پیتے اور پہنتے ہیں، پس اس کا آپ پر یہ حق بنتا ہے کہ آپ اس کی عبادت کریں، اور اس کا شکر ادا کریں، اور اس کے دین وشریعت پر عمل کرکے عزت پائیں۔ اس کا خود بھی التزام کرکے اور اپنے معاشروں کو اس پر چلا کر، اور لوگ تو اپنے حکام وبادشاہوں کے دین پر ہی ہوتے ہیں، اور اللہ تعالی حاکم سے وہ کام لے لیتا ہے جو وہ قرآن سے نہیں لیتا جیسا کہ خلیفۂ راشد سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے۔
ثانیاً: ایسی اسلامی فوج تشکیل دیں جو کتاب وسنت اور اسلامی فوج کی بنیادوں پر تربیت پائے جس کے اہداف وغایات فوج محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والے ہوں۔ واجب ہے کہ ان کی تربیت عقیدہ ومنہج محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، فاروق وخالد رضی اللہ عنہم پر ہواور ان کے اغراض ومقاصد وہی ہوں جو اللہ تعالی نے اپنے رسول سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے لئے مقرر کئے تھے تاکہ وہ کماحقہ اللہ تعالی کا لشکر بن سکیں، اور اس وقت ان پر کوئی بھی غالب نہیں آسکے گا، اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿وَاِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغٰلِبُوْنَ﴾ (الصافات : 173)
(اور بے شک ہمارا لشکر ہی غالب رہے گا)
دنیاوی اغراض ومقاصد کے لئے نہیں اور نہ ہی قومیت، وطنیت، براعظمیت جیسےجاہلیت کے نعروں کے لئے یا جو اس سے بھی گرے ہوئے ہوں۔ ان شاء اللہ کافی ہو چکا آپ کے اور آپ کی عوام کے ساتھ جو ہوا۔ سب سے زیادہ نیچ و ذلیل ترین قوم کی جانب سے استخفاف، ان کا تمہیں دھمکانا اور ان کا تم پر بڑائی،سرکشی اور تکبر کرنا۔ اللہ تعالی ان کی یہ برائیاں اور یہ بڑاپن تم پر سے نہیں اٹھائے گا یہاں تک کہ تم اسلام سے تمسک اختیار کرو، اور اپنی قوم وافواج کو اس کے اصول ومبادی پر تربیت دو، ساتھ ہی ساتھ ہر قسم کے ایسے نعروں، افکار اور عقائد کو ڈھا کر جو مسلمانوں کو ان تلخ حالات سے دوچار کرنے کا سبب بنے ہیں۔
فلسطینی معاشرے سے خصوصی خطاب
ان لوگوں کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ فلسطین کبھی فتح نہیں ہوا مگر اسلام سے اور فاروقِ اسلام کے ہاتھوں جیش فاروقی کے ذریعہ، اور یہ کبھی بھی یہود کی نجاست سے پاک نہیں ہوسکتا سوائے اس حقیقی اسلام کے جس کے ذریعہ فاروق رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں فتح ہوا۔ تم بہت زورآزمائی کرچکے ہواور میں نے تم لوگوں جیسا صبر اور کہیں نہیں دیکھا لیکن (حقیقت یہ ہے کہ) تم میں سے بہت سے لوگ عقیدہ ومنہج فاروقی کے حامل نہیں۔ اگر تمہارا جہاد اسی پر استوار ہوجائے تو تمہاری یہ مشکل حل ہوجائے اور تمہیں نصرت وکامرانی نصیب ہو۔ پس تمہیں چاہیے کہ اپنے عقائد، مناہج اور جہاد کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قائم کرو اور اللہ تعالی کی رسی کو تم سب مل کر مضبوطی سے تھامے رہو، اور تفرقہ بازی مت کرو۔ یہ سب کام انتھک محنت واخلاص سے بجا لاؤ اپنی مساجد، مدارس اور جامعات میں ، اور ان تمام کاموں میں تم اللہ تعالی کے ساتھ سچے ہو تو ان شاء اللہ تمہیں بندروں اور سوروں کے بھائیوں (یہود) پربھرپور فتح نصیب ہوگی ۔
[Article] What is the ruling regarding using the name of #Israel for the Jewish state – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
یہودی مملکت کو ’#’اسرائیل‘‘ کہنے کا شرعی حکم!؟
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیح کی آفیشل ویب سائٹ سے لیا گیا ایک مقالہ، تاریخ اشاعت 17/04/2005۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

#SalafiUrduDawah

بسم اللہ الرحمن الرحیم
لفظ اسرائیل کی حقیقت
یہودی ریاست کو اسرائیل کہنا ؟
اسرائیل سے حقیقی نسبت کے حقدار کون؟
اللہ تعالی کی زمین مومن بندوں کے لئے ہے
موجودہ صورتحال میں مسلمانوں کی ذمہ داری
یہودی ریاست کے لئے اسرائیل کے استعمال میں حرج
یہ تمام باتیں مکمل مقالے میں پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/yahodi_state_ko_israel_kehna.pdf
[Article] Neither wealthy, nor #knowledge_of_the_unseen, nor an angel – Shaykh-ul-Islaam Imaam Ibn Taymiyyah
قُلْ لَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا َعْلَمُ_الْغَيْب
شیخ الاسلام احمد بن عبدالحلیم بن تیمیہ رحمہ اللہ المتوفی سن 728ھ
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مجموع الفتاوى
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/06/qul_la_aqolu_lakum_indi_khazainullaah.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاىِٕنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ ۚ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ ﴾ (الانعام: 50)
(آپ کہہ دیجئے میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالی کے خزانے ہیں، اور نہ میں غیب جانتا ہوں، اور نہ میں تم سے کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، میں تو پیروی نہیں کرتا ہوں مگر صرف اسی کی جو میری طرف وحی کی جاتی ہے)
اسی طرح سے سیدنا نوح علیہ الصلاۃ والسلام نے بھی فرمایا۔ یعنی جو سب سے پہلے اولوالعزم (بلند حوصلہ) اور سب سے پہلے رسول تھے جنہیں اللہ تعالی نے اہل زمین کے لیے بھیجا انہوں نے، اور خاتم الرسل اور خاتم اولی العزم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں نے اس بات سے برأت کا اظہار فرمایا۔
یہ اس لیے کیونکہ کبھی وہ رسول سے علم غیب کا مطالبہ کرتے، جیسا کہ فرمایا:
﴿وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ﴾ (الملک: 25)
(اور وہ کہتے ہیں یہ وعدہ کب (پورا) ہوگا، اگر تم سچے ہو؟)
اور:
﴿ يَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَيَّانَ مُرْسٰىهَا ۭقُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّيْ ﴾ (الاعراف: 187)
(وہ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں اس کا وقوع کب ہوگا ؟ کہہ دیجئے اس کا علم تو صرف میرے رب ہی کے پاس ہے)
کبھی (کائنات میں) تاثیر کا مطالبہ کرتے، جیساکہ فرمایا:
﴿وَقَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ يَنْۢبُوْعًا، اَوْ تَكُوْنَ لَكَ جَنَّةٌ مِّنْ نَّخِيْلٍ وَّعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَنْهٰرَ خِلٰلَهَا تَفْجِيْرًا، اَوْ تُسْقِطَ السَّمَاءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا اَوْ تَاْتِيَ بِاللّٰهِ وَالْمَلَائِكَةُ قَبِيْلًا، اَوْ يَكُوْنَ لَكَ بَيْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ اَوْ تَرْقٰى فِي السَّمَاءِ ۭ وَلَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتٰبًا نَّقْرَؤُهٗ ۭ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّيْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا﴾ (الاسراء: 90-93)
(اور انہوں نے کہا ہم ہرگز آپ پر ایمان نہ لائیں گے، یہاں تک کہ آپ ہمارے لیے زمین سے کوئی چشمہ جاری کردیں، یا آپ کےلیے کھجوروں اور انگور کا ایک باغ ہو، پس آپ اس کے درمیان خوب نہریں جاری کردیں، یا آپ آسمان کو ٹکڑے کر کے ہم پر گرا دیں، جیسا کہ آپ نے دعویٰ کیا ہے، یا آپ اللہ اور فرشتوں کو ہی ہمارے سامنے لے آئیں، یا آپ کے لیے سونے کا ایک گھر ہو، یا آپ آسمان میں چڑھ جائیں، اور ہم آپ کے چڑھنے کا بھی ہرگز یقین نہ کریں گے، یہاں تک کہ آپ ہم پر کوئی کتاب اتار لائیں جسے ہم پڑھیں ۔ آپ کہہ دیجئے میرا رب پاک ہے، میں تو ایک بشر کے سوا کچھ نہیں جو رسول ہے)
کبھی بشری حاجتوں اور تقاضوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں عیب گردانتے، جیساکہ فرمایا:
﴿وَقَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ يَاْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِيْ فِي الْاَسْوَاقِ ۭ لَوْلَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِيْرًا، اَوْ يُلْقٰٓى اِلَيْهِ كَنْزٌ اَوْ تَكُوْنُ لَهٗ جَنَّةٌ يَّاْكُلُ مِنْهَا ﴾ (الفرقان: 7-8)
(اور انہوں نے کہا اس رسول کو کیا ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے، اس کی طرف کوئی فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا کہ اس کے ساتھ ڈرانے والا ہوتا، یا اس کی طرف کوئی خزانہ اتارا جاتا، یا اس کا کوئی باغ ہوتا جس سے وہ کھایا کرتا)
پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ انہيں بتادیں کہ بے شک وہ غیب نہيں جانتے، نہ اللہ کے خزانوں کے مالک ہیں، نہ وہ کوئی فرشتے ہيں کہ جو کھانے یا مال سے بے نیاز ہوں، بلکہ وہ تو صرف اور صرف اسی کی پیروی کرتے ہيں جو ان کی طرف وحی کی جاتی ہے، اور جو کچھ ان کی طرف وحی کی جاتی ہے اس کی اتباع ہی دین ہے، اور وہ اللہ تعالی کی اطاعت اور اس کی عبادت ہے علماً وعملاً، باطناً وظاہراً۔
چناچہ ان تین چیزوں میں سے جو ذکر ہوئیں انہيں اتنا کچھ ہی حاصل ہے جتنا اللہ تعالی نے انہيں عطاء کیا، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں سے اتنا ہی علم رکھتے ہيں جتنا اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سکھلایا، اور اتنی ہی قدرت رکھتے ہیں جتنی چیزوں پر اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قدرت دی، اور انہی چیزوں سے بے نیاز ہیں جن سے اللہ تعالی نے آپ کو بے نیاز رکھاجو عام عادات سے یا غالب لوگوں کی عادات سے ہٹ کر تھے۔
[Article] How does a Muslim believe in the #keys_of_unseen mentioned at the end of Surah Luqmaan – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah Aal-Shaykh
غیب کی ان کنجیوں پر ایمان کس طرح لایا جائے جو سورۃ لقمان کے آخر میں مذکور ہيں
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ حفظہ اللہ
(مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: كيفية إيمان المسلم بمفاتح الغيب المذكورة في آخر سورة لقمان۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

#غیب_کی_کنجیاں
#SalafiUrduDawah

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/05/ghaib_kunjiyo_emaan_kaisay.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: اللہ تعالی کا جو یہ فرمان ہے:
﴿اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ﴾ (لقمان: 34)
(بےشک اللہ کے ہی پاس قیامت کا علم ہے، اور وہ بارش برساتا ہے، اور وہ جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹوں میں ہے، اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائی کرے گا ، اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔ بےشک اللہ تعالی سب کچھ جاننے والا، پوری اور ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے)
عملی طور پر ایک مسلمان کس طرح ان باتوں کو دل میں بٹھائے، اور ان پر ایمان لائے؟
جواب: ایک مومن اس پر ایمان لاتا ہے کیونکہ بے شک اللہ تعالی نے اپنی کتاب عزیز میں اس کی خبر دی ہے۔
1- اللہ تعالی نے یہ بتلایا ہےکہ قیامت کے وقوع پذیر ہونے کا علم صرف اسی کے پاس ہے:
﴿يَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَيَّانَ مُرْسٰىهَا ۭقُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّيْ ۚ لَا يُجَلِّيْهَا لِوَقْتِهَآ اِلَّا هُوَ ۂ ثَقُلَتْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ لَا تَاْتِيْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً ۭ يَسْــــَٔـلُوْنَكَ كَاَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللّٰهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ﴾ (الاعراف: 187)
(وہ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہوگا ؟ کہہ دیجئے اس کا علم تو میرے رب ہی کے پاس ہے، اسے اس کے وقت پر اس کے سوا کوئی ظاہر نہیں کرے گا، وہ آسمانوں اور زمین میں بہت بھاری و بوجھل واقع ہوگی، وہ تم پر نہیں آئےگی مگر اچانک۔ آپ سے پوچھتے تو ایسے ہیں جیسے آپ اس کے بارے میں خوب تحقیق کرچکے ہيں۔ کہہ دیجئے اس کا علم تو اللہ تعالی ہی کے پاس ہے، مگر اکثر لوگ نہیں جانتے)
2- اسی طرح سے بارش بھی اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے، وہی اسے برساتا ہے:
﴿وَهُوَ الَّذِيْ يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِنْۢ بَعْدِ مَا قَنَطُوْا وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهٗ ۭ وَهُوَ الْوَلِيُّ الْحَمِيْدُ﴾ (الشوریٰ: 28)
(اور وہی ہے جو بارش برساتا ہے، اس کے بعد کہ وہ ناامید ہو چکے ہوتے ہیں ،اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے، اور وہی کارساز ہے، تمام تعریفوں کے لائق ہے)
اور یہ عالم بارش نازل ہوتے وقت اور بندوں کے اس کے مستحق ہونے پر ہوتا ہے، اور وہ اسے ایک اندازے سے اتارتا ہے:
﴿وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءًۢ بِقَدَرٍ فَاَسْكَنّٰهُ فِي الْاَرْضِ ڰ وَاِنَّا عَلٰي ذَهَابٍۢ بِهٖ لَقٰدِرُوْنَ﴾ (المؤمنون: 18)
(اور ہم نے آسمان سے ایک اندازے کے ساتھ کچھ پانی اتارا، پھر اسے زمین میں ٹھہرایا، اور یقینا ًہم اسے کسی بھی طرح لے جانے پر ضرور قادر ہیں)
3- پھر فرمایا: ﴿وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ﴾
(اور وہ جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹوں میں ہے)
اور وہ رحم (ماں کے پیٹ) کا حال اور انجام جانتا ہے۔ ارحام کو بھی جانتا ہے اور رحم کے حال کو بھی۔اور اس میں پلنے والے جنین اور اس کے مختلف ادوار کو بھی، اس کا حال، حاضر اور مستقبل سب جانتا ہے اور عنقریب اس کے ساتھ کیا کچھ ہوگا وہ سب، کیونکہ بلاشبہ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا نُطفة، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ إِلَيْهِ الْمَلَكُ فَيَنْفُخُ فِيهِ الرُّوحَ وَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ: بِكَتْبِ رِزْقِهِ، وَعَمَلِهِ، وَأَجَلِهِ، وَشَقِيٌّ، أَوْ سَعِيدٌ‘‘([1])
(بے شک تمہاری پیدائش کی تیاری تمہاری ماں کے پیٹ میں چالیس دنوں تک نطفہ کی صورت میں کی جاتی ہے، پھر اتنے ہی دنوں تک ایک جمے ہوئے خون کے صورت اختیار کئے رہتا ہے، پھر وہ اتنے ہی دنوں تک ایک گوشت کو لوتھڑا رہتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجتا ہے جو اس میں روح پھونکتا ہے، اور اسے چار باتوں (کے لکھنے) کا حکم دیا جاتا ہے کہ وہ لکھے: اس کے رزق، اس کے عمل، اس کی مدت زندگی، اور یہ کہ بد بخت ہے یا نیک بخت)۔
کبھی لوگ جان بھی سکتے ہیں کہ رحم میں کیا ہے، اور جنین لڑکی ہے یا لڑکا ہے، تو یہ بات اللہ تعالی کے کمالِ علم کے منافی نہیں، یہ ممکن بات ہے، لیکن رحم کا حقیقی علم جیسے امور کا انجام کار کیا ہوگا تو اس کی صحیح کیفیت بتانے پر کوئی قادر نہيں، نہ اسے اس میں کوئی دخل ہے۔ اگر ہم جانتے ہیں کے رحم میں بچہ ہے یا بچی ہے تو یہ ممکن ہے، لیکن اس کے رزق، بدبخت یا نیک بخت ہونا، امراض وصحت وغیرہ یہ ہم نہيں جانتے، یہ ہیں وہ باتیں جو اللہ تعالی نے اپنے علم غیب میں خاص رکھی ہیں۔اور یہ وہ باتیں ہیں کہ ان میں سے کسی میں بھی مداخلت جائز نہيں ہے۔
4- پھر فرمایا: ﴿وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا﴾
(اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائی کرے گا)
نہیں جا نتا کہ کل وہ کیا کمائے گا، اور کل کیا کچھ ہوجائے گا۔ کیونکہ یہ مجہول ونامعلوم چیز ہے۔ اور یہ امر اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے۔ ہوسکتا ہے آپ نے لمبی امیدیں باندھ رکھی ہوں لیکن کوئی چیز آپ کے اور اس کے درمیان حائل ہوجائے۔ آپ بہت سی امیدیں وابستہ کریں اور کہیں پیسہ پھنسا دیں لیکن قضاء وقدر آپ کی امیدوں کے برخلاف آجائے۔ لہذا ہرحال میں اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہیں۔
5- پھر فرمایا: ﴿وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ﴾
(اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا)
کہا جاتا ہے وہ اس طرح کہ انسان اسی مٹی سے تخلیق ہوا ہوتا ہے جہاں عنقریب اسے موت آنی ہوتی ہے۔ اور کوئی انسان نہيں جانتا کہ وہ کہاں مرے گا، اس کی موت رب العالمین کے پاس لکھی ہوئی ہے او رعمر شمار کی جاچکی ہے۔ اس بات پر مخلوق میں سے کوئی بھی مطلع نہيں ہوسکتا، یہ صرف اللہ عزوجل کے پاس ہے۔ وہ جانتا ہےکہ کوئی نفس کل کیا کمائے گا، اور کس زمین میں اسے موت آئے گی۔ جانتا ہے کہ انسان اللہ کی کس زمین میں مرے گا، بر میں یا بحر میں، یہ سب اللہ رب العالمین ہی جانتا ہے۔ کوئی اس کا احاطہ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔
پس ہمیں چاہیے کہ اس پر بہت سچا اور پختہ ایمان رکھیں، کیونکہ ہمیں بلاشبہ رب العالمین نے ہی اس کی خبر دی ہے اور وہ تمام قائلین میں سب سے سچا ہے، اور اللہ تعالی سے بڑھ کر بات کا سچا کون ہوسکتا ہے۔
[1] رواه البخاري فى كتاب القدر، باب فى القدر، برقم (6594)، ومسلم فى كتاب القدر، باب كيفية الخلق الآدمي فى بطن أمه وكتابة رزقه وأجله وعمله وشقاوته وسعادته، برقم (2643)۔
[Article] Does Rasoolullaah (salAllaho alaihi wasallam) have the #knowledge_of_the_unseen? – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم #عالم_الغیب ہیں؟
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: التوحید أولاً
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/01/kiya_rasool_Allaah_alim_ul_ghaib_hain.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالم الغیب ہیں؟ بالکل نہیں، اللہ تعالی نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ :
﴿ قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَاءَ اللّٰهُ ۭوَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْر ِ ٻ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوْءُ ﴾ (الاعراف: 188)
(آپ کہہ دیجئے کہ میں اپنی جان کے لیے نہ کسی نفع کا مالک ہوں اور نہ کسی نقصان کا، مگر جو اللہ چاہے، اور اگر میں غیب کا علم رکھتا تو بہت سے منافع حاصل کرلیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا)
اور حکم فرمایا کہ:
﴿ قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاىِٕنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ﴾ (الانعام: 50)
(آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالی کے خزانے ہیں، اور نہ یہ کہ میں عالم الغیب ہوں، اور نہ یہ کہ میں کوئی فرشتہ ہوں)۔