[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding sending Salah (#Durood) upon the messengers other than Rasoolullaah (صلى الله عليه وسلم) and the rest of the believers? - Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ دیگر انبیاء کرام اور ان کے علاوہ مومنین پر #درود بھیجنا کیسا ہے؟
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوی نور علی الدرب آرٹیکل 654۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/anbiyah_momineen_durood.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: محمد جمیل حسین مصطفی جمہوریہ عراق سے پوچھتے ہیں کہ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ دیگر انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے اوپردرود بھیجا جاسکتا ہے؟
جواب: جی ہاں، دیگر انبیاء کرام کے اوپر بھی درود بھیجنا جائز ہے ہم کہتے ہیں علیہم الصلاۃ والسلام۔ بلکہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے علاوہ بھی دیگر مومنین جو انہی کے تحت وتابع آتے ہوں پر بھی درود بھیجنا جائز ہے جو کہ نص اور اجماع سے ثابت ہے ۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت فرمایا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ہم کس طرح سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ‘‘ ([1])
(اے اللہ تو درود بھیج محمد پر اور آل محمد پر جیسا کہ تو نے درود بھیجا ابراہیم پر اور آل ابراہیم پر، بے شک تو ہی قابل تعریف وبزرگی والا ہے)۔
اور اس جملے میں آل نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت کے تابع ہیں آپ کے رشتہ داروں میں سے ہوں یا ان کے علاوہ بھی، یہی راجح قول ہے۔ اگرچہ اس میں اول و اولیٰ وہ ہیں جو مومنین میں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رشتہ دار ہیں لیکن اس کے باوجود یہ ان تمام کو شامل ہیں جو آپ کی اتباع کرتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاتے ہیں۔ کیونکہ وہ سب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گروہ میں سے ہیں([2])۔ لہذا انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کے علاوہ ان کے تابع آنے والوں پر بھی درود جائز ہے جو نص اور اجماع سے ثابت ہے۔ لیکن انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے علاوہ کسی پر تابع ہونے سے ہٹ کر مستقل طور پر درود بھیجنے کے بارے میں علماء کرام میں اختلاف ہےکہ آیا یہ جائز ہے کہ نہیں۔ جبکہ صحیح بات یہی ہے کہ یہ جائز ہے کسی مومن شخص کے لیے کہا جائے صلی اللہ علیہ۔ کیونکہ اللہ تعالی نے خود اپنےنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ حکم فرمایا:
﴿خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَـةً تُطَهِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ﴾ (التوبۃ:103)
(آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کر دیں اور ان پر صلاۃ (درود) بھیجیں)
پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حکم کی تعمیل میں جو بھی اپنی زکوٰۃ لاتا اس پر درود بھیجتے اور جب وہ اپنے صدقات لے کر آتے ایسے کہتے کہ:
’’اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى آلِ أَبِي أَوْفَى‘‘ ([3])
(اے اللہ تو آل ابی اوفیٰ پر درود بھیج)۔
البتہ جو چیز ممنوع ہے وہ یہ کہ اسے کسی معین شخص کا باقاعدہ شعار بنادیا جائے کہ جب بھی اس کا نام لیا جائے تو صلی اللہ علیہ کہا جائے۔ تو ایسا انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں۔ مثلاً ہم جب بھی ابوبکررضی اللہ عنہ کا ذکر کریں تو کہیں صلی اللہ علیہ، یا جب بھی عمررضی اللہ عنہ کا ذکر کریں تو صلی اللہ علیہ کہیں، یا پھر جب بھی عثمان کا ذکر کریں تو صلی اللہ علیہ کہ،یں اسی طرح سے جب بھی علیرضی اللہ عنہ کا ذکر کریں تو صلی اللہ علیہ کہیں ، ایسا کرنا جائز نہیں۔ ہمارے لیے جائز نہیں کہ ہم اسے کسی معین شخص کا شعار بنادیں۔
[1] صحیح بخاری 3370۔
[2] جیسا کہ فرعون کے تابعداروں کو اللہ تعالی نے آل فرعون کہا حالانکہ وہ اس کے رشتہ دار یا اولاد میں سے نہیں تھے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[3] صحیح بخاری 6332۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ دیگر انبیاء کرام اور ان کے علاوہ مومنین پر #درود بھیجنا کیسا ہے؟
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوی نور علی الدرب آرٹیکل 654۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/anbiyah_momineen_durood.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: محمد جمیل حسین مصطفی جمہوریہ عراق سے پوچھتے ہیں کہ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ دیگر انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے اوپردرود بھیجا جاسکتا ہے؟
جواب: جی ہاں، دیگر انبیاء کرام کے اوپر بھی درود بھیجنا جائز ہے ہم کہتے ہیں علیہم الصلاۃ والسلام۔ بلکہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے علاوہ بھی دیگر مومنین جو انہی کے تحت وتابع آتے ہوں پر بھی درود بھیجنا جائز ہے جو کہ نص اور اجماع سے ثابت ہے ۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت فرمایا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ہم کس طرح سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ‘‘ ([1])
(اے اللہ تو درود بھیج محمد پر اور آل محمد پر جیسا کہ تو نے درود بھیجا ابراہیم پر اور آل ابراہیم پر، بے شک تو ہی قابل تعریف وبزرگی والا ہے)۔
اور اس جملے میں آل نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت کے تابع ہیں آپ کے رشتہ داروں میں سے ہوں یا ان کے علاوہ بھی، یہی راجح قول ہے۔ اگرچہ اس میں اول و اولیٰ وہ ہیں جو مومنین میں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رشتہ دار ہیں لیکن اس کے باوجود یہ ان تمام کو شامل ہیں جو آپ کی اتباع کرتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاتے ہیں۔ کیونکہ وہ سب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گروہ میں سے ہیں([2])۔ لہذا انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کے علاوہ ان کے تابع آنے والوں پر بھی درود جائز ہے جو نص اور اجماع سے ثابت ہے۔ لیکن انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے علاوہ کسی پر تابع ہونے سے ہٹ کر مستقل طور پر درود بھیجنے کے بارے میں علماء کرام میں اختلاف ہےکہ آیا یہ جائز ہے کہ نہیں۔ جبکہ صحیح بات یہی ہے کہ یہ جائز ہے کسی مومن شخص کے لیے کہا جائے صلی اللہ علیہ۔ کیونکہ اللہ تعالی نے خود اپنےنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ حکم فرمایا:
﴿خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَـةً تُطَهِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ﴾ (التوبۃ:103)
(آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کر دیں اور ان پر صلاۃ (درود) بھیجیں)
پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حکم کی تعمیل میں جو بھی اپنی زکوٰۃ لاتا اس پر درود بھیجتے اور جب وہ اپنے صدقات لے کر آتے ایسے کہتے کہ:
’’اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى آلِ أَبِي أَوْفَى‘‘ ([3])
(اے اللہ تو آل ابی اوفیٰ پر درود بھیج)۔
البتہ جو چیز ممنوع ہے وہ یہ کہ اسے کسی معین شخص کا باقاعدہ شعار بنادیا جائے کہ جب بھی اس کا نام لیا جائے تو صلی اللہ علیہ کہا جائے۔ تو ایسا انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں۔ مثلاً ہم جب بھی ابوبکررضی اللہ عنہ کا ذکر کریں تو کہیں صلی اللہ علیہ، یا جب بھی عمررضی اللہ عنہ کا ذکر کریں تو صلی اللہ علیہ کہیں، یا پھر جب بھی عثمان کا ذکر کریں تو صلی اللہ علیہ کہ،یں اسی طرح سے جب بھی علیرضی اللہ عنہ کا ذکر کریں تو صلی اللہ علیہ کہیں ، ایسا کرنا جائز نہیں۔ ہمارے لیے جائز نہیں کہ ہم اسے کسی معین شخص کا شعار بنادیں۔
[1] صحیح بخاری 3370۔
[2] جیسا کہ فرعون کے تابعداروں کو اللہ تعالی نے آل فرعون کہا حالانکہ وہ اس کے رشتہ دار یا اولاد میں سے نہیں تھے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[3] صحیح بخاری 6332۔
[#SalafiUrduDawah Article] #Hanging_Quranic_Verses, Names of Allaah and Rasoolullaah on the walls? - Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#دیوار_پر_قرآنی_آیات،اسمائے الہی واسمائے نبی آویزاں کرنا
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوی نور علی الدرب آرٹیکل 653۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/ayaat_asma_ilhaee_nabi_dewar_per.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: یہ خط موصول ہوئے ہیں۔ سب سے پہلا خط مخلصین جناب عبداللہ بن محمد احمد (الریاض)، منظور احمد قریشی اور احمد حسین کی طرف سے ہے، یہ بھائی کہتے ہیں کہ ایسے کارڈ ملتے ہیں کہ جن پر اللہ کا اسم جلالہ لکھا ہوتا ہے جیسا کہ اس خط کی ایک جانب لکھا ہوا ہے۔ اوراس خط میں غلاف کعبہ کی بھی ایک تصویر ہے کہ جس پر کتاب اللہ کی آیات لکھی ہوئی ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایسے لوگ اسے زمین پر پھینک دیتے ہيں جو اسلام کو جانتے ہی نہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو بس اشارے کے لیے ہے آپ اس کی خریدوفروخت کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ یا یہ کس کی ذمہ داری ہے؟
جواب: الحمدللہ یہ مسئلہ مختلف طریقوں سے لوگوں میں بہت پھیل گیاہے۔ جن میں سے کچھ ایسے کارڈز یا فریم ہوتے ہیں کہ جن میں اللہ تعالی کا اسم مبارک ہوتا ہے اور کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں اللہ کے نام کے ساتھ دوسری جانب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم گرامی لکھا ہوتا ہے۔پھر ان فریمز کودیوار پر یا بورڈوغیرہ پر بالکل متوازی طور پر ساتھ ساتھ آویزاں کردیا جاتا ہے۔ ہم سب سے پہلے اس تصویر کے بارے میں بات کرتے ہیں:
اولاً: فقط اللہ تعالی کا نام یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لٹکانے کا آخر کیا فائدہ ہے؟ اگر انسان یہ گمان کرتا ہے کہ اس سے حصول برکت کا فائدہ ہوگا ۔ تو جاننا چاہیے کہ برکت اس قسم کے عمل سے حاصل نہیں ہوتی۔ کیونکہ یہ تو کوئی مفید جملہ نہیں کہ جس سے ایسا معنی کشید کیا جاسکے جو حصول برکت کا سبب ہو([1])۔
دوسری بات یہ کہ اس طرح سے برکت حاصل کرنا صحیح نہیں۔کیونکہ اسمائے الہی سے تبرک حاصل کرنا اسی طور پر ممکن ہے کہ جو قرآن وسنت میں وارد ہو۔ کیونکہ یہ ایک عبادت ہے اور عبادت کی بنیاد توقیف (یعنی کتاب وسنت کے دلائل) ہے۔
پھر جو صورت ہم نے ابھی بیان کی کہ ایک طرف اللہ تعالی کا اسم جلالہ ہوتا ہے تو دوسری طرف بلکل متوازی اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا ہوتا ہے، اس میں اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مابین ایک قسم کی تشریک وموازنت پائی جاتی ہے۔ جبکہ یہ بات جائز نہیں کیونکہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہا کہ:
’’ مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِئْتَ‘‘
(جو اللہ تعالی اور آپ چاہیں)۔
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے ٹوکا اور فرمایا:
’’أَجَعَلْتَنِي لِلَّهِ نِدًّا، بَلْ مَا شَاءَ اللَّهُ وَحْدَهُ‘‘ ([2])
(کیا تو نے مجھے اللہ تعالی کا ساجھی بنالیا ہے، بلکہ کہہ جو اکیلا اللہ تعالی چاہے)۔
پھر یہ بات بھی ہے کہ برکت کے لیے محض نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لکھ دینا جائز نہیں، بلکہ برکت تو شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے التزام اور اس پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔
لہذا یہ تصویر جو لوگ کارڈز میں استعمال کرتے ہيں واضح ہوا کہ اس میں شرعی مخالفت پائی جاتی ہے۔
جبکہ جہاں تک معاملہ ہے دوسری تصویر کا جس کی جانب سائل بھائی نے اشارہ کیا تو اس کا جواز بھی محل نظر ہے کیونکہ قرآن کریم کو کاغذ یا بورڈ پر لکھنے کے بارے میں اصل یہی ہے کہ یہ جائز ہے۔لیکن اسے گھروں کی دیواروں پر لٹکانے کے بارے میں سلف صالحین رحمہم اللہ سے کوئی رہنمائی نہیں ملتی۔ نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے، نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اور نا ہی تابعین عظام رحمہم اللہ سے۔ اور میں باقاعدہ تحدید کے ساتھ تو نہیں جانتا کہ یہ بدعت کب ایجاد ہوئی مگر درحقیقت یہ ایک بدعت ہی ہے۔ کیونکہ قرآن مجید اس لیے نازل ہوا ہے کہ اس کی تلاوت کی جائے نہ کے اس کی دیوار وغیرہ پر تعلیق کی جائے یعنی لٹکایاجائے۔
پھر اس کا دیوار پر لٹکانا اس میں اس مفسدے کے ساتھ کے یہ سلف صالحین سے وارد نہیں ایک اور مفسدہ ہے کہ انسان اسے لٹکا کر اسی پر اعتماد کرکے بیٹھ جاتا ہے اور سمجھتا ہے یہ حفاظت کا سبب ہے۔ جس کی وجہ سے وہ حقیقی اور صحیح طور پر حفاظت کے لیے جو اذکار ہیں ان سے بے نیاز وبےپراوہ ہوجاتا ہےجو کہ زبان سے تلاوت کرنا ہے۔ کیونکہ یہی نافع حفاظت کا ذریعہ ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آیۃ الکرسی کے بارے میں فرمایا:
’’من قرأها في ليلة لم يزل عليه من الله حافظ ولا يقربه شيطان حتى يصبح‘‘ ([3])
#دیوار_پر_قرآنی_آیات،اسمائے الہی واسمائے نبی آویزاں کرنا
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوی نور علی الدرب آرٹیکل 653۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/ayaat_asma_ilhaee_nabi_dewar_per.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: یہ خط موصول ہوئے ہیں۔ سب سے پہلا خط مخلصین جناب عبداللہ بن محمد احمد (الریاض)، منظور احمد قریشی اور احمد حسین کی طرف سے ہے، یہ بھائی کہتے ہیں کہ ایسے کارڈ ملتے ہیں کہ جن پر اللہ کا اسم جلالہ لکھا ہوتا ہے جیسا کہ اس خط کی ایک جانب لکھا ہوا ہے۔ اوراس خط میں غلاف کعبہ کی بھی ایک تصویر ہے کہ جس پر کتاب اللہ کی آیات لکھی ہوئی ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایسے لوگ اسے زمین پر پھینک دیتے ہيں جو اسلام کو جانتے ہی نہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو بس اشارے کے لیے ہے آپ اس کی خریدوفروخت کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ یا یہ کس کی ذمہ داری ہے؟
جواب: الحمدللہ یہ مسئلہ مختلف طریقوں سے لوگوں میں بہت پھیل گیاہے۔ جن میں سے کچھ ایسے کارڈز یا فریم ہوتے ہیں کہ جن میں اللہ تعالی کا اسم مبارک ہوتا ہے اور کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں اللہ کے نام کے ساتھ دوسری جانب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم گرامی لکھا ہوتا ہے۔پھر ان فریمز کودیوار پر یا بورڈوغیرہ پر بالکل متوازی طور پر ساتھ ساتھ آویزاں کردیا جاتا ہے۔ ہم سب سے پہلے اس تصویر کے بارے میں بات کرتے ہیں:
اولاً: فقط اللہ تعالی کا نام یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لٹکانے کا آخر کیا فائدہ ہے؟ اگر انسان یہ گمان کرتا ہے کہ اس سے حصول برکت کا فائدہ ہوگا ۔ تو جاننا چاہیے کہ برکت اس قسم کے عمل سے حاصل نہیں ہوتی۔ کیونکہ یہ تو کوئی مفید جملہ نہیں کہ جس سے ایسا معنی کشید کیا جاسکے جو حصول برکت کا سبب ہو([1])۔
دوسری بات یہ کہ اس طرح سے برکت حاصل کرنا صحیح نہیں۔کیونکہ اسمائے الہی سے تبرک حاصل کرنا اسی طور پر ممکن ہے کہ جو قرآن وسنت میں وارد ہو۔ کیونکہ یہ ایک عبادت ہے اور عبادت کی بنیاد توقیف (یعنی کتاب وسنت کے دلائل) ہے۔
پھر جو صورت ہم نے ابھی بیان کی کہ ایک طرف اللہ تعالی کا اسم جلالہ ہوتا ہے تو دوسری طرف بلکل متوازی اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا ہوتا ہے، اس میں اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مابین ایک قسم کی تشریک وموازنت پائی جاتی ہے۔ جبکہ یہ بات جائز نہیں کیونکہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہا کہ:
’’ مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِئْتَ‘‘
(جو اللہ تعالی اور آپ چاہیں)۔
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے ٹوکا اور فرمایا:
’’أَجَعَلْتَنِي لِلَّهِ نِدًّا، بَلْ مَا شَاءَ اللَّهُ وَحْدَهُ‘‘ ([2])
(کیا تو نے مجھے اللہ تعالی کا ساجھی بنالیا ہے، بلکہ کہہ جو اکیلا اللہ تعالی چاہے)۔
پھر یہ بات بھی ہے کہ برکت کے لیے محض نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لکھ دینا جائز نہیں، بلکہ برکت تو شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے التزام اور اس پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔
لہذا یہ تصویر جو لوگ کارڈز میں استعمال کرتے ہيں واضح ہوا کہ اس میں شرعی مخالفت پائی جاتی ہے۔
جبکہ جہاں تک معاملہ ہے دوسری تصویر کا جس کی جانب سائل بھائی نے اشارہ کیا تو اس کا جواز بھی محل نظر ہے کیونکہ قرآن کریم کو کاغذ یا بورڈ پر لکھنے کے بارے میں اصل یہی ہے کہ یہ جائز ہے۔لیکن اسے گھروں کی دیواروں پر لٹکانے کے بارے میں سلف صالحین رحمہم اللہ سے کوئی رہنمائی نہیں ملتی۔ نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے، نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اور نا ہی تابعین عظام رحمہم اللہ سے۔ اور میں باقاعدہ تحدید کے ساتھ تو نہیں جانتا کہ یہ بدعت کب ایجاد ہوئی مگر درحقیقت یہ ایک بدعت ہی ہے۔ کیونکہ قرآن مجید اس لیے نازل ہوا ہے کہ اس کی تلاوت کی جائے نہ کے اس کی دیوار وغیرہ پر تعلیق کی جائے یعنی لٹکایاجائے۔
پھر اس کا دیوار پر لٹکانا اس میں اس مفسدے کے ساتھ کے یہ سلف صالحین سے وارد نہیں ایک اور مفسدہ ہے کہ انسان اسے لٹکا کر اسی پر اعتماد کرکے بیٹھ جاتا ہے اور سمجھتا ہے یہ حفاظت کا سبب ہے۔ جس کی وجہ سے وہ حقیقی اور صحیح طور پر حفاظت کے لیے جو اذکار ہیں ان سے بے نیاز وبےپراوہ ہوجاتا ہےجو کہ زبان سے تلاوت کرنا ہے۔ کیونکہ یہی نافع حفاظت کا ذریعہ ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آیۃ الکرسی کے بارے میں فرمایا:
’’من قرأها في ليلة لم يزل عليه من الله حافظ ولا يقربه شيطان حتى يصبح‘‘ ([3])
(جو اسے رات کو پڑھے گا تو اس کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے ایک محافظ مقرر ہوجائے گااور شیطان اس کے قریب نہیں آسکے گا یہاں تک کہ صبح ہوجائے)۔
اب اگر انسان کے اندر یہ شعور پیدا ہوجائے کہ ان آیات کو دیوار پر لٹکانے سے اس کی حفاظت ہوگی تو وہ محسوس کرے گا کہ اسے اب ان کی تلاوت کی ضرورت نہیں۔
پھر اس میں یہ عیب بھی ہے کہ اس میں ایک قسم کا اللہ تعالی کی آیتوں کا مذاق بنانابھی ہے۔ کیونکہ ایسی مجالس غالباً حرام اقوال جیسے غیبت، گالم گلوچ یا حرام کاموں سے پاک نہیں ہوتیں بلکہ یہ تک ہوتا ہے کہ ایسی مجالس میں آلات موسیقی موجود ہوتے ہیں کہ جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہے([4])۔ پس یہ سب باتیں موجود ہوتی ہیں اور لوگوں کے سروں پر قرآنی آیات معلق ہوتی ہیں تو گویا کہ یہ اس کا مذاق اڑانا ہوا، کیونکہ قرآن کریم نے تو ان اشیاء کو حرام قرار دیا ہے۔ خواہ جو آیت اوپر لٹکی ہے وہ اس ہونے والی برائی سے رکنے کے متعلق ہو یا کوئی بھی قرآنی آیت ہو۔ یہ بلاشبہ ایک طرح کا اللہ تعالی کی آیات کے ساتھ تمسخر کرنا ہوا۔
اسی لیے میں اپنے مسلمان بھائیوں کو یہ نصیحت کروں گا کہ ایسی تعلیقات کے استعمال سے دور رہیں چاہے وہ اسمائے الہی ہوں، یا اسمائے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں یا پھر آیات قرآنی ہوں۔ بلکہ وہی چیز استعمال کریں جو ان کے سلف صالحین نے استعمال کی تھیں کہ اسی میں خیروبرکت ہے۔
اور وہ دوسری بات جس کی طرف بھائی نے اشارہ کیا کہ ان کارڈز کو جن پر قرآنی آیات لکھی ہوتی ہیں بازاروں میں، کوڑا دانوں میں اور جہاں آنے جانے والے لوگوں کے قدم پڑیں وہاں پھینک دیتے ہیں تو یہ بالکل ناجائز ہے۔ کیونکہ اس میں قرآن کریم کی اہانت آمیزی ہے۔ لیکن اس کے ذمہ دار وہ ہیں جنہوں نے اپنے ہاتھ سے اسے پھینکا ہے جبکہ اسے فروخت کرنے والےکو اگر یہ معلوم ہے کہ غالباً اس کے ساتھ یہی سلوک کیا جاتا ہے تو یہ اس کی خریدوفروخت اور تجارت کی حرمت کا سبب ہوگا۔ کیونکہ یہ ایک شرعی قاعدہ ہے کہ اگر کوئی عقد (کاروباری معاملہ) لازمی یا غالباً وسیلہ ہو کسی حرام چیز کا تو ایسا عقد بھی حرام ہوجاتا ہے کیونکہ یہ برائی اور گناہ کے کاموں میں تعاون کے باب میں سے ہے۔ میرا خیال ہے اس سوال کا جواب ختم ہوا۔
جہاں تک تعلق ہے مریض کے گلے میں شفاء کی غرض سے قرآنی آیات کی تعلیق (تعویذ) کا چاہے مرض جسمانی ہو یا نفسیاتی تو یہ مسئلہ سلف اور خلف میں مختلف فیہ رہا ہے۔ کچھ علماء اس کی اجازت دیتے ہیں کیونکہ اس سے مریض کو نفسیاتی طور پر راحت ملتی ہے کہ اس نے کلام اللہ کو پہنا ہوا ہے ۔ اور کسی مریض کا ایسی چیز کا شعور کرنے یا اپنے پاس محسوس کرنے کی اپنی تاثیر ہوتی ہے مرض کو زیادہ یا کم یا بالکل ختم کرنے میں، جیسا کہ یہ بات معلوم ہے۔
اور علماء میں سے بعض نے اسے منع فرمایا ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شفاء کے لیے تعویذ لٹکانا ثابت نہیں بلکہ مریض کو شفاء جو قرأت کتاب وسنت میں وارد ہوئی ہے اسے تلاوت کرنے سے ہوگی۔ اور اگر شارع کی جانب سے کسی چیز کو سبب نہ بنایا گیا ہو تو اسے بلادلیل سبب ثابت کرناایک قسم کا شرک ہے۔ کیونکہ ہمارے لیے یہ جائز نہیں کہ ہم کہیں کہ فلاں چیز سبب ہے الا یہ کہ اس بارے میں ہمارے پاس شریعت سے دلیل ہو ۔ اب اگر ہم کسی چیز کا سبب ہونا ثابت کرتے ہیں تو اس کا معنی ہے کہ ہم نےایک ایسا نیا کام ایجاد کیا جو کہ شریعت میں نہیں تھا اور یہ شرک کی ایک قسم ہے۔
[1] یا جیسے لوگ دکان ومکان میں خیر وبرکت کے لیے نقشہ لوح قرآنی آویزاں کرتے ہیں جس میں محض حروف مقطعات جیسےالم، حم، عسق وغیرہ لکھے ہوتے ہیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] مسند احمد 2557، السلسلۃ الصحیحۃ 1/266۔
[3] صحیح البخاری 5010 کے الفاظ ہیں کہ شیطان نے پکڑے جانے پر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ بات بتائی تھی کہ:
’’ إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشِكَ فَاقْرَأْ آيَةَ الْكُرْسِيِّ، لَنْ يَزَالَ مَعَكَ مِنَ اللَّهِ حَافِظٌ وَلَا يَقْرَبُكَ شَيْطَانٌ حَتَّى تُصْبِحَ ‘‘
(جب تم اپنے بسترے پر آؤ تو آیۃ الکرسی کی تلاوت کرو، تمہارے لیے اللہ تعالی کی طرف سے ہمیشہ ایک محافظ مقرر ہوجائے گا اور شیطان تمہارے قریب نہ آسکے گا یہاں تک کہ تم صبح کرو)۔
جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’صَدَقَكَ وَهُوَ كَذُوبٌ ذَاكَ شَيْطَانٌ‘‘
(اس نے تجھ سے سچ کہا حالانکہ وہ بہت بڑا جھوٹا ہے،وہ شیطان تھا)۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[4] ہمارے یہاں تو فسق وفجور، برائی فحاشی ونشے کے اڈوں تک پر اوپر "ماشاء اللہ" اور مختلف آیات معلق ہوتی ہیں۔ اللہ تعالی ہدایت دے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
اب اگر انسان کے اندر یہ شعور پیدا ہوجائے کہ ان آیات کو دیوار پر لٹکانے سے اس کی حفاظت ہوگی تو وہ محسوس کرے گا کہ اسے اب ان کی تلاوت کی ضرورت نہیں۔
پھر اس میں یہ عیب بھی ہے کہ اس میں ایک قسم کا اللہ تعالی کی آیتوں کا مذاق بنانابھی ہے۔ کیونکہ ایسی مجالس غالباً حرام اقوال جیسے غیبت، گالم گلوچ یا حرام کاموں سے پاک نہیں ہوتیں بلکہ یہ تک ہوتا ہے کہ ایسی مجالس میں آلات موسیقی موجود ہوتے ہیں کہ جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہے([4])۔ پس یہ سب باتیں موجود ہوتی ہیں اور لوگوں کے سروں پر قرآنی آیات معلق ہوتی ہیں تو گویا کہ یہ اس کا مذاق اڑانا ہوا، کیونکہ قرآن کریم نے تو ان اشیاء کو حرام قرار دیا ہے۔ خواہ جو آیت اوپر لٹکی ہے وہ اس ہونے والی برائی سے رکنے کے متعلق ہو یا کوئی بھی قرآنی آیت ہو۔ یہ بلاشبہ ایک طرح کا اللہ تعالی کی آیات کے ساتھ تمسخر کرنا ہوا۔
اسی لیے میں اپنے مسلمان بھائیوں کو یہ نصیحت کروں گا کہ ایسی تعلیقات کے استعمال سے دور رہیں چاہے وہ اسمائے الہی ہوں، یا اسمائے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں یا پھر آیات قرآنی ہوں۔ بلکہ وہی چیز استعمال کریں جو ان کے سلف صالحین نے استعمال کی تھیں کہ اسی میں خیروبرکت ہے۔
اور وہ دوسری بات جس کی طرف بھائی نے اشارہ کیا کہ ان کارڈز کو جن پر قرآنی آیات لکھی ہوتی ہیں بازاروں میں، کوڑا دانوں میں اور جہاں آنے جانے والے لوگوں کے قدم پڑیں وہاں پھینک دیتے ہیں تو یہ بالکل ناجائز ہے۔ کیونکہ اس میں قرآن کریم کی اہانت آمیزی ہے۔ لیکن اس کے ذمہ دار وہ ہیں جنہوں نے اپنے ہاتھ سے اسے پھینکا ہے جبکہ اسے فروخت کرنے والےکو اگر یہ معلوم ہے کہ غالباً اس کے ساتھ یہی سلوک کیا جاتا ہے تو یہ اس کی خریدوفروخت اور تجارت کی حرمت کا سبب ہوگا۔ کیونکہ یہ ایک شرعی قاعدہ ہے کہ اگر کوئی عقد (کاروباری معاملہ) لازمی یا غالباً وسیلہ ہو کسی حرام چیز کا تو ایسا عقد بھی حرام ہوجاتا ہے کیونکہ یہ برائی اور گناہ کے کاموں میں تعاون کے باب میں سے ہے۔ میرا خیال ہے اس سوال کا جواب ختم ہوا۔
جہاں تک تعلق ہے مریض کے گلے میں شفاء کی غرض سے قرآنی آیات کی تعلیق (تعویذ) کا چاہے مرض جسمانی ہو یا نفسیاتی تو یہ مسئلہ سلف اور خلف میں مختلف فیہ رہا ہے۔ کچھ علماء اس کی اجازت دیتے ہیں کیونکہ اس سے مریض کو نفسیاتی طور پر راحت ملتی ہے کہ اس نے کلام اللہ کو پہنا ہوا ہے ۔ اور کسی مریض کا ایسی چیز کا شعور کرنے یا اپنے پاس محسوس کرنے کی اپنی تاثیر ہوتی ہے مرض کو زیادہ یا کم یا بالکل ختم کرنے میں، جیسا کہ یہ بات معلوم ہے۔
اور علماء میں سے بعض نے اسے منع فرمایا ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شفاء کے لیے تعویذ لٹکانا ثابت نہیں بلکہ مریض کو شفاء جو قرأت کتاب وسنت میں وارد ہوئی ہے اسے تلاوت کرنے سے ہوگی۔ اور اگر شارع کی جانب سے کسی چیز کو سبب نہ بنایا گیا ہو تو اسے بلادلیل سبب ثابت کرناایک قسم کا شرک ہے۔ کیونکہ ہمارے لیے یہ جائز نہیں کہ ہم کہیں کہ فلاں چیز سبب ہے الا یہ کہ اس بارے میں ہمارے پاس شریعت سے دلیل ہو ۔ اب اگر ہم کسی چیز کا سبب ہونا ثابت کرتے ہیں تو اس کا معنی ہے کہ ہم نےایک ایسا نیا کام ایجاد کیا جو کہ شریعت میں نہیں تھا اور یہ شرک کی ایک قسم ہے۔
[1] یا جیسے لوگ دکان ومکان میں خیر وبرکت کے لیے نقشہ لوح قرآنی آویزاں کرتے ہیں جس میں محض حروف مقطعات جیسےالم، حم، عسق وغیرہ لکھے ہوتے ہیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] مسند احمد 2557، السلسلۃ الصحیحۃ 1/266۔
[3] صحیح البخاری 5010 کے الفاظ ہیں کہ شیطان نے پکڑے جانے پر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ بات بتائی تھی کہ:
’’ إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشِكَ فَاقْرَأْ آيَةَ الْكُرْسِيِّ، لَنْ يَزَالَ مَعَكَ مِنَ اللَّهِ حَافِظٌ وَلَا يَقْرَبُكَ شَيْطَانٌ حَتَّى تُصْبِحَ ‘‘
(جب تم اپنے بسترے پر آؤ تو آیۃ الکرسی کی تلاوت کرو، تمہارے لیے اللہ تعالی کی طرف سے ہمیشہ ایک محافظ مقرر ہوجائے گا اور شیطان تمہارے قریب نہ آسکے گا یہاں تک کہ تم صبح کرو)۔
جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’صَدَقَكَ وَهُوَ كَذُوبٌ ذَاكَ شَيْطَانٌ‘‘
(اس نے تجھ سے سچ کہا حالانکہ وہ بہت بڑا جھوٹا ہے،وہ شیطان تھا)۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[4] ہمارے یہاں تو فسق وفجور، برائی فحاشی ونشے کے اڈوں تک پر اوپر "ماشاء اللہ" اور مختلف آیات معلق ہوتی ہیں۔ اللہ تعالی ہدایت دے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[#SalafiUrduDawah Article] Our prophet (salAllaaho alaihi wa sallam) is #Khaleelullaah – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم #خلیل_اللہ ہیں
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: القول المفيد على كتاب التوحيد
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/rasoolullaah_khaleelullaah_hain.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ ’’کتاب التوحید ‘‘ میں وارد صحیح مسلم کی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ سیدنا جندب بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہيں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کی وفات سے پانچ راتیں قبل یہ فرماتے ہوئے سنا:
’’إِنِّي أَبْرَأُ إِلَى اللَّهِ، أَنْ يَكُونَ لِي مِنْكُمْ خَلِيلٌ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى، قَدِ اتَّخَذَنِي خَلِيلًا، كَمَا اتَّخَذَ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ أُمَّتِي خَلِيلًا، لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا، أَلَا وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ، أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ، إِنِّي أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ ‘‘([1])
(میں اللہ تعالی کے سامنے اس بات سے دستبردار ہوتا ہوں کہ تم میں سے کوئی میرا خلیل ہو، کیونکہ بلاشبہ خود اللہ تعالی نے یقیناً مجھے اپنا خلیل بنایا جیسے اس نے سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کو اپنا خلیل بنایا تھا۔ اور اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو خلیل بناتا تو ضرور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیل بناتا۔ اور آگاہ رہو بلاشبہ جو تم سے پہلے گزر چکے ہيں وہ اپنے انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام اور صالحین کی قبروں کو مساجد بنالیتے تھے، خبردارپس تم قبروں کو مساجد نہ بنانا، بے شک میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں)۔
خلیل وہ ہوتا ہے جس کی محبت غایت درجے تک پہنچ جائے۔ کیونکہ اس کی محبت پورے تن بدن میں سرایت کرجاتی ہے۔ جیسا کہ شاعر اپنی محبوبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے:
قد تخللت مسلك الروح مني … وبذا سمي الخليل خليلا
اور ’’الخُلَّة‘‘ محبت کی سب سے عظیم اور اعلیٰ قسم ہے۔اور جتنا ہمیں علم ہے اس کے مطابق اللہ تعالی نے یہ کسی کے لیے ثابت نہيں فرمائی سوائے اپنی مخلوقات میں سے صرف دو شخصیات کے لیے، اور وہ ہیں:
1- سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام اپنے اس فرمان میں:
﴿وَاتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِيْمَ خَلِيْلًا﴾ (النساء: 125)
(اور اللہ تعالی نے ابراہیم کو اپنا خلیل بنالیا)۔
2- سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے ثابت ہے جو حدیث اوپر بیان ہوئی:
’’إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى، قَدِ اتَّخَذَنِي خَلِيلًا، كَمَا اتَّخَذَ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا‘‘
(بلاشبہ خود اللہ تعالی نے یقیناً مجھے اپنا خلیل بنایا جیسے اس نے سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کو اپنا خلیل بنایا تھا)۔
اس سے آپ پر وہ عظیم جہالت آشکارا ہوگی جو بعض عوام الناس کی زبان زد عام ہے کہ: سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام تو خلیل اللہ ہیں جبکہ ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حبیب اللہ ہیں! (وہ اپنے گمان میں سمجھ رہے ہوتے ہیں ہم نے زیادہ بڑے درجے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فائر کیا) حالانکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں تنقیص شان ہے۔کیونکہ اپنے اس قول کے ذریعے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا درجے سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام سے نیچے کررہے ہوتے ہیں۔ اور اس لیے بھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محض حبیب اللہ ثابت کررہے ہوتے ہیں حالانکہ اس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اور دیگر نیک لوگوں میں کیا فرق رہا، کیونکہ بلاشبہ اللہ تعالی تو محسنین اور صابرین سے بھی محبت کرتا ہے (جیساکہ قرآن کریم میں ہے یعنی وہ بھی حبیب اللہ ہیں) اور ان کے علاوہ دیگر لوگ بھی جن کے فعل کے ساتھ اللہ تعالی نے اپنی محبت کو جوڑا ہے۔ چناچہ ایسے لوگوں کی رائے کے مطابق تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اور دیگر لوگوں میں فرق ہی نہ ہوا۔ لیکن ہاں جو خلت کا درجہ ہے تو وہ اللہ تعالی نے سوائے سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کےاور کسی کے لیے ذکر نہيں فرمایا، اور ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں یہ خبر دی اپنے بارے میں کہ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اپنا خلیل بنایا ہے جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کو خلیل بنایا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم #خلیل_اللہ ہیں
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: القول المفيد على كتاب التوحيد
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/rasoolullaah_khaleelullaah_hain.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ ’’کتاب التوحید ‘‘ میں وارد صحیح مسلم کی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ سیدنا جندب بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہيں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کی وفات سے پانچ راتیں قبل یہ فرماتے ہوئے سنا:
’’إِنِّي أَبْرَأُ إِلَى اللَّهِ، أَنْ يَكُونَ لِي مِنْكُمْ خَلِيلٌ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى، قَدِ اتَّخَذَنِي خَلِيلًا، كَمَا اتَّخَذَ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ أُمَّتِي خَلِيلًا، لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا، أَلَا وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ، أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ، إِنِّي أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ ‘‘([1])
(میں اللہ تعالی کے سامنے اس بات سے دستبردار ہوتا ہوں کہ تم میں سے کوئی میرا خلیل ہو، کیونکہ بلاشبہ خود اللہ تعالی نے یقیناً مجھے اپنا خلیل بنایا جیسے اس نے سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کو اپنا خلیل بنایا تھا۔ اور اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو خلیل بناتا تو ضرور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیل بناتا۔ اور آگاہ رہو بلاشبہ جو تم سے پہلے گزر چکے ہيں وہ اپنے انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام اور صالحین کی قبروں کو مساجد بنالیتے تھے، خبردارپس تم قبروں کو مساجد نہ بنانا، بے شک میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں)۔
خلیل وہ ہوتا ہے جس کی محبت غایت درجے تک پہنچ جائے۔ کیونکہ اس کی محبت پورے تن بدن میں سرایت کرجاتی ہے۔ جیسا کہ شاعر اپنی محبوبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے:
قد تخللت مسلك الروح مني … وبذا سمي الخليل خليلا
اور ’’الخُلَّة‘‘ محبت کی سب سے عظیم اور اعلیٰ قسم ہے۔اور جتنا ہمیں علم ہے اس کے مطابق اللہ تعالی نے یہ کسی کے لیے ثابت نہيں فرمائی سوائے اپنی مخلوقات میں سے صرف دو شخصیات کے لیے، اور وہ ہیں:
1- سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام اپنے اس فرمان میں:
﴿وَاتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِيْمَ خَلِيْلًا﴾ (النساء: 125)
(اور اللہ تعالی نے ابراہیم کو اپنا خلیل بنالیا)۔
2- سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے ثابت ہے جو حدیث اوپر بیان ہوئی:
’’إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى، قَدِ اتَّخَذَنِي خَلِيلًا، كَمَا اتَّخَذَ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا‘‘
(بلاشبہ خود اللہ تعالی نے یقیناً مجھے اپنا خلیل بنایا جیسے اس نے سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کو اپنا خلیل بنایا تھا)۔
اس سے آپ پر وہ عظیم جہالت آشکارا ہوگی جو بعض عوام الناس کی زبان زد عام ہے کہ: سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام تو خلیل اللہ ہیں جبکہ ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حبیب اللہ ہیں! (وہ اپنے گمان میں سمجھ رہے ہوتے ہیں ہم نے زیادہ بڑے درجے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فائر کیا) حالانکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں تنقیص شان ہے۔کیونکہ اپنے اس قول کے ذریعے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا درجے سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام سے نیچے کررہے ہوتے ہیں۔ اور اس لیے بھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محض حبیب اللہ ثابت کررہے ہوتے ہیں حالانکہ اس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اور دیگر نیک لوگوں میں کیا فرق رہا، کیونکہ بلاشبہ اللہ تعالی تو محسنین اور صابرین سے بھی محبت کرتا ہے (جیساکہ قرآن کریم میں ہے یعنی وہ بھی حبیب اللہ ہیں) اور ان کے علاوہ دیگر لوگ بھی جن کے فعل کے ساتھ اللہ تعالی نے اپنی محبت کو جوڑا ہے۔ چناچہ ایسے لوگوں کی رائے کے مطابق تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اور دیگر لوگوں میں فرق ہی نہ ہوا۔ لیکن ہاں جو خلت کا درجہ ہے تو وہ اللہ تعالی نے سوائے سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کےاور کسی کے لیے ذکر نہيں فرمایا، اور ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں یہ خبر دی اپنے بارے میں کہ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اپنا خلیل بنایا ہے جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کو خلیل بنایا تھا۔
الغرض جو عوام الناس ہیں ان کا معاملہ بڑا مشکل ہے کہ وہ ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسی وصف سے یاد کرتے ہيں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حبیب اللہ ہیں، تو ہم ان سے کہتے ہیں: تم نے غلطی کی اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں تنقیص کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو خلیل اللہ ہیں۔ چناچہ اگر تم انہیں صرف محبت کی صفت سے موصوف کرتے ہو (یعنی حبیب اللہ) تو محبت کے غایت درجے (یعنی خلیل اللہ ہونے) سے نیچے لے آتے ہو۔
[1] صحیح مسلم 534۔
[1] صحیح مسلم 534۔
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding saying #Ya_Allaah! #Ya_Muhammad! - Shaykh #Rabee bin Hadee #Al_Madkhalee
#یا_اللہ ! #یا_محمد! لکھنے کا حکم
فضیلۃ الشیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ ربیع المدخلی کی آفیشل ویب سائٹ سے ماخوذ فتوی
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/ya_Allah_ya_muhammad_kehnay_ka_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: اکثر مساجد کے محرابوں پر لکھا ہوتا ’’یا اللہ، یامحمد‘‘ کیا اس قسم کی مساجد میں نماز پڑھنا جائز ہے؟
جواب: یہ وہ عام عادت ہے جو ہم نے پاکستان اور افغانستان میں دیکھی ہے، اور تو اور صد افسوس کی بات ہے کہ ہم نے مجاہدین کی گاڑیوں تک پر یہ لکھا ہوا دیکھا، اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو مجاہدین کہلاتے ہیں!وہ اس بارے میں کوئی نصیحت قبول نہیں کرتے اور اس قسم کے شرکیات پر مصر رہتے ہیں!ان کی دکانوں اور مساجد پر آپ یہ سب کچھ لکھا ہوا پائیں گے ’’یا اللہ، یا علی، یا غوث، یا حسین، یا عبدالقادر، یا فلاں یا فلاں‘‘ اور آخر تک جتنے شرکیات ہیں!
یہ غیراللہ سے استغاثہ (فریاد) ہے۔ اگر آپ کہیں یا محمد تو یہ اللہ تعالی کے ساتھ شرک ہے۔ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو اللہ تعالی کے رسول اور اس کے بندے ہیں۔ لہذا اگر آپ کہیں یا اللہ یا محمد اس کا مطلب تو یہ ہے کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالی کی برابری والا قرار دے دیا۔ رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو آئے ہی اس قسم کی بت پرستی کو ختم کرنے کے لیے تھے تاکہ ملت ابراہیمی کا دوبارہ سے قیام ہو۔ جس میں سرفہرست شرک کا خاتمہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا کو، دلوں کو، اذہان وعقول کو شرک کی نجاست سے پاک کرنے ہی تشریف لائے تھے۔اور ہمیں نصوص قرآن وسنت اور عملی تطبیقات کے ذریعہ خالص توحید کی تعلیم فرمائی۔ اور ہمیں پکی قبروں اور اوثان کو منہدم کرنےکاحکم فرمایا:
’’لَا تَشُدُّوا الرِّحَالَ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِي هَذَا، وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَالْمَسْجِدِ الْأَقْصَى‘‘([1])
(رقت سفر باندھ کر ثواب کی نیت سے سفر سوائے تین مساجد کے جائز نہیں (نا کسی قبر کے لیے اور نہ ہی کسی اور چیز کے لیے) 1- میری یہ مسجد (مسجدنبوی)، 2- مسجدالحرام اور3- مسجد اقصیٰ)۔
کیونکہ ان مساجد کو انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام نے توحید الہی اور دین کواللہ تعالی کے لیے خالص کردینے کی خاطر تعمیر فرمایا تھا۔
اور یہ حرکتیں تو مدینہ نبویہ میں بھی شروع کردی گئی تھیں، جیسا کہ ہم ان کی حقیقت کو جانتے ہیں اس سے آپ اہل بدعت کے مکرو فریب کا اندازہ کریں، لکھتے ہیں: ’’اللہ، محمد‘‘ جامعہ اسلامیہ میں ایک شخص جس کا نام سراج الرحمن زاملنی تھا جو کہ ابو الحسن ندوی کے تلامیذ میں سے تھا۔ پتہ نہیں میں نے اسے یہ بات اس حوالے سے کی کہ کینیا میں میں نے ایسا دیکھا تھا یا پھر یہی والی بات کہ اب تو مدینہ نبویہ میں بھی ایسی حرکتیں شروع ہوگئی ہیں، بہرحال اس نے مجھے بتایا کہ ابو الحسن ندوی ([2])کہتے ہیں یہ کلمہ کہ ’’اللہ، محمد‘‘ کفر ہے یعنی اس کا مطلب ہے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے برابری والے ہیں، یعنی کہ اللہ محمد ایک سے ہیں۔ حالانکہ درحقیقت نبی کریمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منزلت تو یہ ہے کہ لا إله إلاّ الله محمد رسول الله (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کے رسول ہیں) ,أشهد أن لا إله إلاّ الله وأشهد أنّ محمدا رسول الله (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں), أشهد أن لا إله إلاّ الله وأشهد أنّ محمدا عبده ورسوله (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:
’’لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَم ، إِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ فَقُولُوا: عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُه‘‘([3])
(دیکھو میری تعریف میں غلو نہ کرنا، جس طرح نصاریٰ نے ابن مریم کی تعریف میں غلو کیا ہے، بے شک میں تو صرف ایک بندہ ہی ہوں لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہا کرو)۔
میں نے جب کبھی بھی یہ شرکیہ مظاہر دیکھے تو ان سے لڑا، اگر کسی مسجد میں دیکھا تو امامِ مسجد کو نصیحت کی۔ مسجد قبلتین مسجد عمودی میں میں نے امام سے بات کی لیکن اس نے کچھ نہ کیا! میں نے عمودی جو کہ صاحبِ مسجد ہیں سے بات کی تو انہوں نے فوراً اس پر عمل کیا (جزاہ اللہ خیراً) اور ان تمام چیزوں کو مٹا دیا۔
#یا_اللہ ! #یا_محمد! لکھنے کا حکم
فضیلۃ الشیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ ربیع المدخلی کی آفیشل ویب سائٹ سے ماخوذ فتوی
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/ya_Allah_ya_muhammad_kehnay_ka_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: اکثر مساجد کے محرابوں پر لکھا ہوتا ’’یا اللہ، یامحمد‘‘ کیا اس قسم کی مساجد میں نماز پڑھنا جائز ہے؟
جواب: یہ وہ عام عادت ہے جو ہم نے پاکستان اور افغانستان میں دیکھی ہے، اور تو اور صد افسوس کی بات ہے کہ ہم نے مجاہدین کی گاڑیوں تک پر یہ لکھا ہوا دیکھا، اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو مجاہدین کہلاتے ہیں!وہ اس بارے میں کوئی نصیحت قبول نہیں کرتے اور اس قسم کے شرکیات پر مصر رہتے ہیں!ان کی دکانوں اور مساجد پر آپ یہ سب کچھ لکھا ہوا پائیں گے ’’یا اللہ، یا علی، یا غوث، یا حسین، یا عبدالقادر، یا فلاں یا فلاں‘‘ اور آخر تک جتنے شرکیات ہیں!
یہ غیراللہ سے استغاثہ (فریاد) ہے۔ اگر آپ کہیں یا محمد تو یہ اللہ تعالی کے ساتھ شرک ہے۔ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو اللہ تعالی کے رسول اور اس کے بندے ہیں۔ لہذا اگر آپ کہیں یا اللہ یا محمد اس کا مطلب تو یہ ہے کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالی کی برابری والا قرار دے دیا۔ رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو آئے ہی اس قسم کی بت پرستی کو ختم کرنے کے لیے تھے تاکہ ملت ابراہیمی کا دوبارہ سے قیام ہو۔ جس میں سرفہرست شرک کا خاتمہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا کو، دلوں کو، اذہان وعقول کو شرک کی نجاست سے پاک کرنے ہی تشریف لائے تھے۔اور ہمیں نصوص قرآن وسنت اور عملی تطبیقات کے ذریعہ خالص توحید کی تعلیم فرمائی۔ اور ہمیں پکی قبروں اور اوثان کو منہدم کرنےکاحکم فرمایا:
’’لَا تَشُدُّوا الرِّحَالَ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِي هَذَا، وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَالْمَسْجِدِ الْأَقْصَى‘‘([1])
(رقت سفر باندھ کر ثواب کی نیت سے سفر سوائے تین مساجد کے جائز نہیں (نا کسی قبر کے لیے اور نہ ہی کسی اور چیز کے لیے) 1- میری یہ مسجد (مسجدنبوی)، 2- مسجدالحرام اور3- مسجد اقصیٰ)۔
کیونکہ ان مساجد کو انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام نے توحید الہی اور دین کواللہ تعالی کے لیے خالص کردینے کی خاطر تعمیر فرمایا تھا۔
اور یہ حرکتیں تو مدینہ نبویہ میں بھی شروع کردی گئی تھیں، جیسا کہ ہم ان کی حقیقت کو جانتے ہیں اس سے آپ اہل بدعت کے مکرو فریب کا اندازہ کریں، لکھتے ہیں: ’’اللہ، محمد‘‘ جامعہ اسلامیہ میں ایک شخص جس کا نام سراج الرحمن زاملنی تھا جو کہ ابو الحسن ندوی کے تلامیذ میں سے تھا۔ پتہ نہیں میں نے اسے یہ بات اس حوالے سے کی کہ کینیا میں میں نے ایسا دیکھا تھا یا پھر یہی والی بات کہ اب تو مدینہ نبویہ میں بھی ایسی حرکتیں شروع ہوگئی ہیں، بہرحال اس نے مجھے بتایا کہ ابو الحسن ندوی ([2])کہتے ہیں یہ کلمہ کہ ’’اللہ، محمد‘‘ کفر ہے یعنی اس کا مطلب ہے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے برابری والے ہیں، یعنی کہ اللہ محمد ایک سے ہیں۔ حالانکہ درحقیقت نبی کریمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منزلت تو یہ ہے کہ لا إله إلاّ الله محمد رسول الله (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کے رسول ہیں) ,أشهد أن لا إله إلاّ الله وأشهد أنّ محمدا رسول الله (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں), أشهد أن لا إله إلاّ الله وأشهد أنّ محمدا عبده ورسوله (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:
’’لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَم ، إِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ فَقُولُوا: عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُه‘‘([3])
(دیکھو میری تعریف میں غلو نہ کرنا، جس طرح نصاریٰ نے ابن مریم کی تعریف میں غلو کیا ہے، بے شک میں تو صرف ایک بندہ ہی ہوں لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہا کرو)۔
میں نے جب کبھی بھی یہ شرکیہ مظاہر دیکھے تو ان سے لڑا، اگر کسی مسجد میں دیکھا تو امامِ مسجد کو نصیحت کی۔ مسجد قبلتین مسجد عمودی میں میں نے امام سے بات کی لیکن اس نے کچھ نہ کیا! میں نے عمودی جو کہ صاحبِ مسجد ہیں سے بات کی تو انہوں نے فوراً اس پر عمل کیا (جزاہ اللہ خیراً) اور ان تمام چیزوں کو مٹا دیا۔
اور میرے پڑوس کی مسجد مدینہ نبویہ میں جو تھی اس میں بھی ’’اللہ، محمد‘‘ لکھا ہوا تھا میں نے امام کو نصیحت کی تو کہنے لگا ہاں ہم کردیں گے، جلد کردیں گے، پس وہ ٹالتا رہا اور اسے ہٹایا نہیں ! لیکن وہاں ایک ہونہار نوجوان تھا اس نے کہا اس امام سے بہتر ہے میں ہی اس کا کام تمام کردوں پس وہ گیا اور اسے مٹاڈالا اور معاملہ ختم کردیا الحمدللہ۔
شاہد یہ ہے کہ کسی دن میں بطحان سے آرہا تھا مدینہ پہنچنے پر میں نے اپنے آگے ایک گاڑی (یا ٹرالر) دیکھی جس پر سرخ لکھائی میں ’’یااللہ، یا محمد‘‘ لکھا ہوا تھا ، پس میں نے اپنی گاڑی اس کے پیچھے لگا دی تو اس نے گاڑی اور تیز کردی۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ میں نے یہ دیکھ لیا ہے۔ اس نے رفتار بڑھائی تو میں نے بھی بڑھا دی یہاں تک کہ میں نے اسے ’’قربان‘‘ مکان پر جاپکڑا۔اس نے گاڑی روکی اور اترتے ہی خود سے کہنے لگا: کیا میں اسے مٹا دوں؟ حالانکہ میں نے اس سے ابھی کوئی بات ہی نہیں کی تھی! وہ خود ہی سمجھ گیا اور اس بات کا اسے احساس ہوگیا۔ میں نے کہا: ہاں اسے مٹا دو۔ لہذا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس بلاد ِتوحید کے خلاف باقاعدہ جنگ جاری ہے ان قبرپرست بدعتیوں کی جانب سے!!
مجھے یاد ہے کہ سعودی عہد میں جو پہلی مسجد تعمیر ہوئی اس پر قبہ بنایا گیا، جس پر طلاب العلم نے نکیر کی اور وہ شیخ ابن حمید کےساتھ آئے اور بات ہوئی۔۔۔۔نہیں معلوم کہ یہ معاملہ پھر کیسے ختم ہوگیا۔ بہرحال، یہ جانتے ہیں کہ اس ملک میں مساجد پر قبے نہیں بنائے جاتے۔حتی کہ جب ملک سعود " نے مسجد حرام اور مسجد نبوی میں توسیع فرمائی تھی تب بھی ان میں کوئی قبہ نہیں تھا، بلکہ موجودہ توسیع میں بھی یہ قبے نہیں ہیں (بارک اللہ فیکم)۔ یہ سب سنت پر قائم ہیں کیونکہ یہ قبے بنانا نصاری کی تقلید ہے کہ جو اپنے گرجاگھروں پر قبے بناتے ہیں۔ اور شاید کے اپنے صالحین کی قبروں پر بھی یہ قبے بناتے ہیں، فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:
’’لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ‘‘([4])
(یہودو نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے انبیاء کرام کی قبروں کو مساجد بنا لیا)۔
پس آپ آج باکثرت مساجد دیکھتے ہیں کہ جن پر ملین روپے خرچ کیے جاتے ہیں پر ان پر یہی قبے تعمیر ہوتے ہیں، اور طرح طرح کے زخارف (سجاوٹیں) کی جاتی ہیں (فاللہ المستعان)! اللہ کی قسم! ممکن ہے یہ عمل کاش کے ان کے لیے کم از کم برابر ہوجائے نہ ان کے حق میں ہو نہ خلاف کیونکہ حالت تو یہ ہے کہ مسجد کی تعمیر پر ملین روپے خرچ کرتے ہیں پھر آخر میں وہ اس شکل کی بن جاتی ہے!! جو بالکل گرجاگھر معلوم ہوتی ہے۔ یہی مصائب ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا کہ قیامت کی علامات میں سےہے کہ مساجد کی اس طرح سے سجاوٹ کی جائے گی([5]) جبکہ یہ تو سجاوٹ سے بھی بدتر چیز ہے۔ الحمدللہ یہ ملک ظاہرا ًوباطناً سنت پر قائم ہے مساجد اور اس کے علاوہ بھی دیگر معاملات میں۔ لیکن اہل بدعت نے اپنے ناپاک عزائم کو کبھی یہاں اور کبھی وہاں سرائیت کرنا شروع کردیا ہے یہاں تک کہ شر اچھی طرح سے پھیل جائے (اللہ تعالی ہی سے عافیت کا سوال ہے)۔
اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ مسلمانوں کو اس دین حق کے ذریعہ سے عزت بخشے کہ جو سیدنا محمد ﷺ لے کر آئے تھے اور اس کے ذریعہ سے ہمیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف اور گمراہی سے نکال کر طریقۂ نبوی ﷺ کی طرف لے جائے۔
[1] صحیح مسلم 1339۔
[2] حالانکہ یہ ابو الحسن ندوی صاحب خود بھی صحیح عقیدے ومنہج کے حامل نہ تھے: شیخ محدث حماد الانصاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ابو الحسن ندوی ہندوستان میں تبلیغی جماعت کے امیر ہیں اور وہ نقشبندی متعصب حنفی ہیں، فصیح اللسان ہیں، میں نے اپنے ہندوستان کے سفر میں ان سے ملاقات کی تھی۔ لوگوں کا ان کی طرف مائل ہونے کا سبب فصاحت زبان اور عمدہ کتابیں ہیں، اور وہ بڑے سیاستدان بھی ہیں)۔ (المجموع في ترجمة العلامة المحدث الشيخ حماد بن محمد الأنصاري رحمه الله ص 601) خود ابو الحسن کے استاد علامہ محمد تقی الدین ہلالی رحمہ اللہ نے ان کے تصوف وماتریدیت کا رد فرمایا اور شیخ صلاح الدین مقبول حنیف نے ایک مفصل کتاب بھی لکھی ’’الأستاذ أبو الحسن الندوي والوجه الآخر من كتاباته‘‘ اس کے علاوہ علامہ شمس الدین افغانی رحمہ اللہ کے بھی ردود ہیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[3]البخاري أحاديث الأنبياء (3261).
[4]البخاري الصلاة (425) ، مسلم المساجد ومواضع الصلاة (531) ، النسائي المساجد (703) ، أحمد (6/274) ، الدارمي الصلاة (1403).
شاہد یہ ہے کہ کسی دن میں بطحان سے آرہا تھا مدینہ پہنچنے پر میں نے اپنے آگے ایک گاڑی (یا ٹرالر) دیکھی جس پر سرخ لکھائی میں ’’یااللہ، یا محمد‘‘ لکھا ہوا تھا ، پس میں نے اپنی گاڑی اس کے پیچھے لگا دی تو اس نے گاڑی اور تیز کردی۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ میں نے یہ دیکھ لیا ہے۔ اس نے رفتار بڑھائی تو میں نے بھی بڑھا دی یہاں تک کہ میں نے اسے ’’قربان‘‘ مکان پر جاپکڑا۔اس نے گاڑی روکی اور اترتے ہی خود سے کہنے لگا: کیا میں اسے مٹا دوں؟ حالانکہ میں نے اس سے ابھی کوئی بات ہی نہیں کی تھی! وہ خود ہی سمجھ گیا اور اس بات کا اسے احساس ہوگیا۔ میں نے کہا: ہاں اسے مٹا دو۔ لہذا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس بلاد ِتوحید کے خلاف باقاعدہ جنگ جاری ہے ان قبرپرست بدعتیوں کی جانب سے!!
مجھے یاد ہے کہ سعودی عہد میں جو پہلی مسجد تعمیر ہوئی اس پر قبہ بنایا گیا، جس پر طلاب العلم نے نکیر کی اور وہ شیخ ابن حمید کےساتھ آئے اور بات ہوئی۔۔۔۔نہیں معلوم کہ یہ معاملہ پھر کیسے ختم ہوگیا۔ بہرحال، یہ جانتے ہیں کہ اس ملک میں مساجد پر قبے نہیں بنائے جاتے۔حتی کہ جب ملک سعود " نے مسجد حرام اور مسجد نبوی میں توسیع فرمائی تھی تب بھی ان میں کوئی قبہ نہیں تھا، بلکہ موجودہ توسیع میں بھی یہ قبے نہیں ہیں (بارک اللہ فیکم)۔ یہ سب سنت پر قائم ہیں کیونکہ یہ قبے بنانا نصاری کی تقلید ہے کہ جو اپنے گرجاگھروں پر قبے بناتے ہیں۔ اور شاید کے اپنے صالحین کی قبروں پر بھی یہ قبے بناتے ہیں، فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:
’’لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ‘‘([4])
(یہودو نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے انبیاء کرام کی قبروں کو مساجد بنا لیا)۔
پس آپ آج باکثرت مساجد دیکھتے ہیں کہ جن پر ملین روپے خرچ کیے جاتے ہیں پر ان پر یہی قبے تعمیر ہوتے ہیں، اور طرح طرح کے زخارف (سجاوٹیں) کی جاتی ہیں (فاللہ المستعان)! اللہ کی قسم! ممکن ہے یہ عمل کاش کے ان کے لیے کم از کم برابر ہوجائے نہ ان کے حق میں ہو نہ خلاف کیونکہ حالت تو یہ ہے کہ مسجد کی تعمیر پر ملین روپے خرچ کرتے ہیں پھر آخر میں وہ اس شکل کی بن جاتی ہے!! جو بالکل گرجاگھر معلوم ہوتی ہے۔ یہی مصائب ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا کہ قیامت کی علامات میں سےہے کہ مساجد کی اس طرح سے سجاوٹ کی جائے گی([5]) جبکہ یہ تو سجاوٹ سے بھی بدتر چیز ہے۔ الحمدللہ یہ ملک ظاہرا ًوباطناً سنت پر قائم ہے مساجد اور اس کے علاوہ بھی دیگر معاملات میں۔ لیکن اہل بدعت نے اپنے ناپاک عزائم کو کبھی یہاں اور کبھی وہاں سرائیت کرنا شروع کردیا ہے یہاں تک کہ شر اچھی طرح سے پھیل جائے (اللہ تعالی ہی سے عافیت کا سوال ہے)۔
اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ مسلمانوں کو اس دین حق کے ذریعہ سے عزت بخشے کہ جو سیدنا محمد ﷺ لے کر آئے تھے اور اس کے ذریعہ سے ہمیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف اور گمراہی سے نکال کر طریقۂ نبوی ﷺ کی طرف لے جائے۔
[1] صحیح مسلم 1339۔
[2] حالانکہ یہ ابو الحسن ندوی صاحب خود بھی صحیح عقیدے ومنہج کے حامل نہ تھے: شیخ محدث حماد الانصاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ابو الحسن ندوی ہندوستان میں تبلیغی جماعت کے امیر ہیں اور وہ نقشبندی متعصب حنفی ہیں، فصیح اللسان ہیں، میں نے اپنے ہندوستان کے سفر میں ان سے ملاقات کی تھی۔ لوگوں کا ان کی طرف مائل ہونے کا سبب فصاحت زبان اور عمدہ کتابیں ہیں، اور وہ بڑے سیاستدان بھی ہیں)۔ (المجموع في ترجمة العلامة المحدث الشيخ حماد بن محمد الأنصاري رحمه الله ص 601) خود ابو الحسن کے استاد علامہ محمد تقی الدین ہلالی رحمہ اللہ نے ان کے تصوف وماتریدیت کا رد فرمایا اور شیخ صلاح الدین مقبول حنیف نے ایک مفصل کتاب بھی لکھی ’’الأستاذ أبو الحسن الندوي والوجه الآخر من كتاباته‘‘ اس کے علاوہ علامہ شمس الدین افغانی رحمہ اللہ کے بھی ردود ہیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[3]البخاري أحاديث الأنبياء (3261).
[4]البخاري الصلاة (425) ، مسلم المساجد ومواضع الصلاة (531) ، النسائي المساجد (703) ، أحمد (6/274) ، الدارمي الصلاة (1403).
[5] ’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: مَا أُمِرْتُ بِتَشْيِيدِ الْمَسَاجِدِ۔ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَتُزَخْرِفُنَّهَا كَمَا زَخْرَفَتْ الْيَهُودُ، وَالنَّصَارَى‘‘ )صحیح سنن ابی داود 448) (سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ مساجدکو بہت زیادہ پختہ تعمیر کروں۔ جناب ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: تم انہیں ضرور مزین کروگے جیسے کہ یہودونصاری نے (اپنےعبادت خانے) مزین کیے)۔ ’’عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَتَبَاهَى النَّاسُ فِي الْمَسَاجِدِ‘‘ (صحیح سنن ابی داود 449) (سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک لوگ مساجد میں باہم فخر نہیں کرنے لگیں گے)۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[#SalafiUrduDawah Article] #Criticizing_government on passing #unfair_resolutions? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#غیرشرعی_قرارداد پاس کرنے کے سبب #حکمران_پر_تنقید کرنا؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الاجابات المھمۃ فی المشاکل المدلھمۃ، سوال 14۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/09/qarardad_hukkam_tanqeed.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا کوئی قرارداد یا بل وغیرہ پاس کرنے پر حکمران پر اعتراض کیا جاسکتا ہے اگراس قرارداد میں غلطی یا گناہ کی کوئی (غیرشرعی) بات ہو؟ اس بارے میں سلف صالحین کا کیا عمل ہوا کرتا تھا؟ ہمیں فتویٰ دیں اور اجر پائیں۔
جواب: حکمران کی اطاعت واجب ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ﴾ (النساء: 59)
(اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ تعالی کی، اور اطاعت کرو رسول اللہ کی ، اور ان کی بھی جو تمہارےحکمران ہیں)
پس جو بات واجب اور اصل ہے وہ حکمران کی اطاعت ہے لیکن اگر وہ کسی معصیت وگناہ کا حکم دے تو اس کی اس معصیت میں اطاعت نہیں کی جائےگی۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
’’لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ‘‘([1])
(خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں)۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ:
’’إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ‘‘([2])
(اطاعت تو صرف معروف کاموں میں کی جاتی ہے)۔
لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ آپ حکمران کے خلاف خروج کریں یا اس کا تختہ الٹنا چاہیں، بس یہ ہے کہ آپ وہ معصیت نہ کریں جس کا وہ حکم دے رہا ہے اور اس کے علاوہ جن باتوں کا وہ حکم دے اسے بجالائیں۔ آپ اسی کی حکومت کے ماتحت رہیں، نہ اس کے خلاف خود نکلیں اور نہ دوسروں کو اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے پر ابھاریں، نہ ہی مجلسوں میں اور لوگوں کے سامنے اس کے خلاف باتیں کریں، کیونکہ اس سے شروفتنہ پھیلتا ہے۔ اور لوگوں کو ایسے وقت میں حکام کے خلاف بغض سے بھرنا جبکہ کفار ہماری تاک لگائے بیٹھے گردش ایام کے منتظر ہیں، اور ایسا بھی ممکن ہے کہ اگر انہیں اس بات کی خبر ہوجائے تو وہ ان جذبانی مسلمانوں میں اپنا زہر سرائیت کرکے انہیں ان کے حکمرانوں کے خلاف بھڑکائیں گے، جس کے نتیجے میں فتنہ وفساد ہوگا،اور نتیجہ کافروں کا مسلمانوں پر تسلط کی صورت میں سامنے آئے گا۔
لہذا حکمران خواہ کیسے بھی ہوں ان میں خیر کثیر اور عظیم مصالح ہوتےہیں۔ وہ بھی ایک بشر ہیں معصوم نہیں بعض باتوں میں غلطی کرجاتےہیں۔ لیکن ان کی اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں خفیہ طور پر نصیحت کی جائے، یا ان تک پہنچائی جائے۔ اور ان کے سامنے صحیح بات پیش کی جائے۔لیکن مجالس میں بیٹھ کر ان پر کلام کرنا اور اس سے بھی شدید تر خطبوں اور تقاریر میں ان پر کلام کرنا اہل شقاق واہل نفاق واہل شر کا طریقہ ومنہج ہے کہ جو مسلمانوں کی حکومت میں انتشار مچانا چاہتے ہیں۔
[1] رواہ احمد برقم (20653)، والطبرانی فی الکبیر (18/381) واللفظ لہ عن عمران بن حصین رضی اللہ عنہ۔
[2] رواہ البخاری برقم (7145، 4340)، ومسلم برقم (1840) من حدیث علی رضی اللہ عنہ۔
#غیرشرعی_قرارداد پاس کرنے کے سبب #حکمران_پر_تنقید کرنا؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الاجابات المھمۃ فی المشاکل المدلھمۃ، سوال 14۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/09/qarardad_hukkam_tanqeed.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا کوئی قرارداد یا بل وغیرہ پاس کرنے پر حکمران پر اعتراض کیا جاسکتا ہے اگراس قرارداد میں غلطی یا گناہ کی کوئی (غیرشرعی) بات ہو؟ اس بارے میں سلف صالحین کا کیا عمل ہوا کرتا تھا؟ ہمیں فتویٰ دیں اور اجر پائیں۔
جواب: حکمران کی اطاعت واجب ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ﴾ (النساء: 59)
(اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ تعالی کی، اور اطاعت کرو رسول اللہ کی ، اور ان کی بھی جو تمہارےحکمران ہیں)
پس جو بات واجب اور اصل ہے وہ حکمران کی اطاعت ہے لیکن اگر وہ کسی معصیت وگناہ کا حکم دے تو اس کی اس معصیت میں اطاعت نہیں کی جائےگی۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
’’لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ‘‘([1])
(خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں)۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ:
’’إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ‘‘([2])
(اطاعت تو صرف معروف کاموں میں کی جاتی ہے)۔
لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ آپ حکمران کے خلاف خروج کریں یا اس کا تختہ الٹنا چاہیں، بس یہ ہے کہ آپ وہ معصیت نہ کریں جس کا وہ حکم دے رہا ہے اور اس کے علاوہ جن باتوں کا وہ حکم دے اسے بجالائیں۔ آپ اسی کی حکومت کے ماتحت رہیں، نہ اس کے خلاف خود نکلیں اور نہ دوسروں کو اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے پر ابھاریں، نہ ہی مجلسوں میں اور لوگوں کے سامنے اس کے خلاف باتیں کریں، کیونکہ اس سے شروفتنہ پھیلتا ہے۔ اور لوگوں کو ایسے وقت میں حکام کے خلاف بغض سے بھرنا جبکہ کفار ہماری تاک لگائے بیٹھے گردش ایام کے منتظر ہیں، اور ایسا بھی ممکن ہے کہ اگر انہیں اس بات کی خبر ہوجائے تو وہ ان جذبانی مسلمانوں میں اپنا زہر سرائیت کرکے انہیں ان کے حکمرانوں کے خلاف بھڑکائیں گے، جس کے نتیجے میں فتنہ وفساد ہوگا،اور نتیجہ کافروں کا مسلمانوں پر تسلط کی صورت میں سامنے آئے گا۔
لہذا حکمران خواہ کیسے بھی ہوں ان میں خیر کثیر اور عظیم مصالح ہوتےہیں۔ وہ بھی ایک بشر ہیں معصوم نہیں بعض باتوں میں غلطی کرجاتےہیں۔ لیکن ان کی اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں خفیہ طور پر نصیحت کی جائے، یا ان تک پہنچائی جائے۔ اور ان کے سامنے صحیح بات پیش کی جائے۔لیکن مجالس میں بیٹھ کر ان پر کلام کرنا اور اس سے بھی شدید تر خطبوں اور تقاریر میں ان پر کلام کرنا اہل شقاق واہل نفاق واہل شر کا طریقہ ومنہج ہے کہ جو مسلمانوں کی حکومت میں انتشار مچانا چاہتے ہیں۔
[1] رواہ احمد برقم (20653)، والطبرانی فی الکبیر (18/381) واللفظ لہ عن عمران بن حصین رضی اللہ عنہ۔
[2] رواہ البخاری برقم (7145، 4340)، ومسلم برقم (1840) من حدیث علی رضی اللہ عنہ۔
[#SalafiUrduDawah Article] Is it allowed to #criticize_the_corrupt_government institutes publicly? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
کیا معاشرے میں منکرات پھیلانے والے یا #حکومتی_اداروں_پر_سرعام_تنقید کرنا صحیح ہے؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الاجابات المھمۃ فی المشاکل المدلھمۃ س 23۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/04/munkiraat_hukumat_idaro_tanqeed_sareaam.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: جو کوئی معاشرے میں پھیلی منکرات کا رد ان کے کرنے والوں پر سرعام کرتا ہے یا کسی مخصوص حکومتی ادارے ووزارت کے مسئولین پر تنقید کرتا ہے، تو کیا اس کا یہ عمل صحیح ہے یا غلط؟
جواب: منکر بات کا انکار کرنا اس کا رد کرنا نصیحت، خیرخواہی اور موعظت ہے ناکہ تشہیر اور عار دلانا ہے۔ ایسا نہيں، بلکہ یہ تو خوفِ الہی کے ذریعے یا اچھے کلام کے ذریعے نصیحت ووعظ کرنا ہے۔ یہی طریقے دلوں کو پھیر سکتا ہے۔ ناکہ سخت روی سے کلام کرنا یا تشہیر کرنا یا عار دلانے وغیرہ سے۔ ایسے نہ کہو فلاں وزارت یا حکومتی ادارے میں تو یہ یہ ہے، اور فلاں جگہ یا دکان پر تو یہ یہ ہوتا ہے بلکہ اس کے پاس جاؤ اور جو شرعی مخالفت کا مرتکب ہے اسے وعظ ونصیحت کرو۔ اگر وہ شرعی مخالفت عوام میں عام ہوچکی ہو تو جب لوگ مسجد میں جمع ہوتے ہیں اس وقت اس کی یاددہانی کرائی جائے اور اللہ تعالی سے ڈرایا جائے۔
کیا معاشرے میں منکرات پھیلانے والے یا #حکومتی_اداروں_پر_سرعام_تنقید کرنا صحیح ہے؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الاجابات المھمۃ فی المشاکل المدلھمۃ س 23۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/04/munkiraat_hukumat_idaro_tanqeed_sareaam.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: جو کوئی معاشرے میں پھیلی منکرات کا رد ان کے کرنے والوں پر سرعام کرتا ہے یا کسی مخصوص حکومتی ادارے ووزارت کے مسئولین پر تنقید کرتا ہے، تو کیا اس کا یہ عمل صحیح ہے یا غلط؟
جواب: منکر بات کا انکار کرنا اس کا رد کرنا نصیحت، خیرخواہی اور موعظت ہے ناکہ تشہیر اور عار دلانا ہے۔ ایسا نہيں، بلکہ یہ تو خوفِ الہی کے ذریعے یا اچھے کلام کے ذریعے نصیحت ووعظ کرنا ہے۔ یہی طریقے دلوں کو پھیر سکتا ہے۔ ناکہ سخت روی سے کلام کرنا یا تشہیر کرنا یا عار دلانے وغیرہ سے۔ ایسے نہ کہو فلاں وزارت یا حکومتی ادارے میں تو یہ یہ ہے، اور فلاں جگہ یا دکان پر تو یہ یہ ہوتا ہے بلکہ اس کے پاس جاؤ اور جو شرعی مخالفت کا مرتکب ہے اسے وعظ ونصیحت کرو۔ اگر وہ شرعی مخالفت عوام میں عام ہوچکی ہو تو جب لوگ مسجد میں جمع ہوتے ہیں اس وقت اس کی یاددہانی کرائی جائے اور اللہ تعالی سے ڈرایا جائے۔
#SalafiUrduDawah
#سردی #گرمی #دن و #رات بھی #اللہ_کی_نعمتیں
#sardi #garmi, #din o #raat bhi #Allaah_ki_nematein hain
#سردی #گرمی #دن و #رات بھی #اللہ_کی_نعمتیں
#sardi #garmi, #din o #raat bhi #Allaah_ki_nematein hain
[#SalafiUrduDawah Article] Shari'ah ruling regarding #celebrating_birthdays – Various 'Ulamaa
#سالگرہ_منانے کا شرعی حکم؟
مختلف علماء کرام
ترجمع، جمع وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/12/saalgirah_manana_sharae_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ہر ایک سال یا دو سال یا اس سے کم وبیش گزرنے پر کسی شخص کی یوم پیدائش کی خوشی میں تقریب منانا جسے وہ سالگرہ کہتے ہيں کا کیا حکم ہے؟ اور اس سالگرہ کی دعوت میں شرکت اور کھانا کا کیا حکم ہے؟ اگر کسی شخص کو سالگرہ کی دعوت دی جائے کیا وہ اسے قبول کرے یا نہيں؟ ہمیں افادہ پہنچائيں اللہ تعالی آپ کو ثواب سے نوازے۔
جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:
کتاب وسنت کے شرعی دلائل اس بات پر دلالت کرتے ہيں کہ سالگرہ منانا دین میں بدعات ومحدثات میں سے ہے، جس کی شریعت مطہرہ میں کوئی اصل و بنیاد نہيں۔ اس قسم کی دعوت کو قبول نہيں کرنا چاہیے، کیونکہ اس میں بدعت کی تائید اور حوصلہ افزائی پائی جاتی ہے۔۔۔اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا:
﴿أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ﴾ (الشوری: 21)
(کیا ان کے لیے کچھ ایسے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین کا وہ طریقہ مقرر ومشروع کیا ہے جس کی اللہ تعالی نے اجازت نہیں دی)
اور فرمایا:
﴿ثُمَّ جَعَلْنٰكَ عَلٰي شَرِيْعَةٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاءَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ، اِنَّهُمْ لَنْ يُّغْنُوْا عَنْكَ مِنَ اللّٰهِ شَيْـــــًٔا ۭ وَاِنَّ الظّٰلِمِيْنَ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَاللّٰهُ وَلِيُّ الْمُتَّقِيْنَ﴾ (الجاثیۃ: 18-19)
(پھر ہم نے آپ کو دین شریعت کے معاملے میں ایک واضح راستے پر لگا دیا، سو اسی کی اتباع وپیروی کریں، اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلیں جو نہیں جانتے، بلاشبہ وہ اللہ کے مقابلے میں ہرگز آپ کے کسی کام نہ آئیں گے اور یقیناً ظالم لوگ ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور اللہ تعالی متقی لوگوں کا دوست ہے)
اور فرمایا:
﴿ اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِيَاءَ، قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ﴾ (الاعراف: 3)
(اس کے پیچھے چلو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے، اور اس کے سوا اور اولیاء وپیشواؤں کے پیچھے مت چلو، بہت کم تم نصیحت قبول کرتے ہو)
اور یہ حدیث بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحیح طور پر ثابت ہےکہ فرمایا:
’’مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدّ‘‘([1])
(جس کسی نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود(ناقابل قبول) ہے)۔
اسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت فرمایا ہے۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ، وَخَيْرُ الْهُدَى هُدَى مُحَمَّدٍ، وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ‘‘([2])
(بے شک سب سے بہترین بات اللہ تعالی کی کتاب ہے، اور سب سے بہترین ہدایت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت ہے، اور سب سے بدترین کام وہ ہیں جو دین میں نئے نکالے گئے ہوں، اور ہر بدعت گمراہی ہے)۔
اور اس معنی کی بہت زیادہ احادیث آئی ہيں۔
پھر ان تقریبات کا بدعت ومنکر ہونے کے ساتھ ساتھ اور یہ کہ اس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں، اس کے ساتھ یہ یہود ونصاریٰ کی بھی مشابہت ہے کہ وہ سالگرہیں مناتے ہیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے طریقوں اور سنتوں سے ڈراتے اور خبردار کرتے ہوئے فرمایا:
’’لتتبعن سَنن من كان قبلكم حذو القذة بالقذة حتى لو دخلوا جحر ضب لدخلتموه ، قالوا : يا رسول الله! اليهود والنصارى ؟ قال : فمن؟‘‘([3])
(تم ضرور بالضرور ان لوگوں کے طریقوں پر چلو گے جو تم سے پہلے ہوگزرے ہیں جیسا کہ تیر کا ایک پر دوسرے کے برابر ہوتا ہے، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کےبل میں داخل ہوئے تھے تو تم بھی اس میں داخل ہوجاؤ گے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی: یارسول اللہ ! کیا اس سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو اور کون؟)۔
اسے صحیح بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے۔۔۔ او رآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمانا: ’’فَمَنْ‘‘ (تو اور کون؟!) کا مطلب ہے کہ واقعی اس کلام سے یہی لوگ مراد ہیں۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:
’’مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ‘‘([4])
(جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے)۔
اور اس معنی کی احادیث بھی بہت کثیر تعداد میں ہيں اور معلوم ہيں۔
اللہ تعالی سب کو اس کام کی توفیق دے جس سے وہ راضی ہوتا ہے۔
(شیخ رحمہ اللہ کی ویب سائٹ سے ’’حكم الاحتفال بمرور سنة أو سنتين لولادة الشخص‘‘)
#سالگرہ_منانے کا شرعی حکم؟
مختلف علماء کرام
ترجمع، جمع وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/12/saalgirah_manana_sharae_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ہر ایک سال یا دو سال یا اس سے کم وبیش گزرنے پر کسی شخص کی یوم پیدائش کی خوشی میں تقریب منانا جسے وہ سالگرہ کہتے ہيں کا کیا حکم ہے؟ اور اس سالگرہ کی دعوت میں شرکت اور کھانا کا کیا حکم ہے؟ اگر کسی شخص کو سالگرہ کی دعوت دی جائے کیا وہ اسے قبول کرے یا نہيں؟ ہمیں افادہ پہنچائيں اللہ تعالی آپ کو ثواب سے نوازے۔
جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:
کتاب وسنت کے شرعی دلائل اس بات پر دلالت کرتے ہيں کہ سالگرہ منانا دین میں بدعات ومحدثات میں سے ہے، جس کی شریعت مطہرہ میں کوئی اصل و بنیاد نہيں۔ اس قسم کی دعوت کو قبول نہيں کرنا چاہیے، کیونکہ اس میں بدعت کی تائید اور حوصلہ افزائی پائی جاتی ہے۔۔۔اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا:
﴿أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ اللَّهُ﴾ (الشوری: 21)
(کیا ان کے لیے کچھ ایسے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین کا وہ طریقہ مقرر ومشروع کیا ہے جس کی اللہ تعالی نے اجازت نہیں دی)
اور فرمایا:
﴿ثُمَّ جَعَلْنٰكَ عَلٰي شَرِيْعَةٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاءَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ، اِنَّهُمْ لَنْ يُّغْنُوْا عَنْكَ مِنَ اللّٰهِ شَيْـــــًٔا ۭ وَاِنَّ الظّٰلِمِيْنَ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَاللّٰهُ وَلِيُّ الْمُتَّقِيْنَ﴾ (الجاثیۃ: 18-19)
(پھر ہم نے آپ کو دین شریعت کے معاملے میں ایک واضح راستے پر لگا دیا، سو اسی کی اتباع وپیروی کریں، اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلیں جو نہیں جانتے، بلاشبہ وہ اللہ کے مقابلے میں ہرگز آپ کے کسی کام نہ آئیں گے اور یقیناً ظالم لوگ ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور اللہ تعالی متقی لوگوں کا دوست ہے)
اور فرمایا:
﴿ اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِيَاءَ، قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ﴾ (الاعراف: 3)
(اس کے پیچھے چلو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے، اور اس کے سوا اور اولیاء وپیشواؤں کے پیچھے مت چلو، بہت کم تم نصیحت قبول کرتے ہو)
اور یہ حدیث بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحیح طور پر ثابت ہےکہ فرمایا:
’’مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدّ‘‘([1])
(جس کسی نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود(ناقابل قبول) ہے)۔
اسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت فرمایا ہے۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ، وَخَيْرُ الْهُدَى هُدَى مُحَمَّدٍ، وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ‘‘([2])
(بے شک سب سے بہترین بات اللہ تعالی کی کتاب ہے، اور سب سے بہترین ہدایت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت ہے، اور سب سے بدترین کام وہ ہیں جو دین میں نئے نکالے گئے ہوں، اور ہر بدعت گمراہی ہے)۔
اور اس معنی کی بہت زیادہ احادیث آئی ہيں۔
پھر ان تقریبات کا بدعت ومنکر ہونے کے ساتھ ساتھ اور یہ کہ اس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں، اس کے ساتھ یہ یہود ونصاریٰ کی بھی مشابہت ہے کہ وہ سالگرہیں مناتے ہیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے طریقوں اور سنتوں سے ڈراتے اور خبردار کرتے ہوئے فرمایا:
’’لتتبعن سَنن من كان قبلكم حذو القذة بالقذة حتى لو دخلوا جحر ضب لدخلتموه ، قالوا : يا رسول الله! اليهود والنصارى ؟ قال : فمن؟‘‘([3])
(تم ضرور بالضرور ان لوگوں کے طریقوں پر چلو گے جو تم سے پہلے ہوگزرے ہیں جیسا کہ تیر کا ایک پر دوسرے کے برابر ہوتا ہے، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کےبل میں داخل ہوئے تھے تو تم بھی اس میں داخل ہوجاؤ گے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی: یارسول اللہ ! کیا اس سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو اور کون؟)۔
اسے صحیح بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے۔۔۔ او رآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمانا: ’’فَمَنْ‘‘ (تو اور کون؟!) کا مطلب ہے کہ واقعی اس کلام سے یہی لوگ مراد ہیں۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا:
’’مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ‘‘([4])
(جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے)۔
اور اس معنی کی احادیث بھی بہت کثیر تعداد میں ہيں اور معلوم ہيں۔
اللہ تعالی سب کو اس کام کی توفیق دے جس سے وہ راضی ہوتا ہے۔
(شیخ رحمہ اللہ کی ویب سائٹ سے ’’حكم الاحتفال بمرور سنة أو سنتين لولادة الشخص‘‘)
شیخ ابن باز، الالبانی، صالح الفوزان اور فتوی کمیٹی سعودی عرب کے مزید فتاوی جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
[1]البخاري الصلح (2550) ، مسلم الأقضية (1718) ، أبو داود السنة (4606) ، ابن ماجه المقدمة (14) ، أحمد (6/256).
[2] صحیح مسلم 870۔
[3] صحیح بخاری 7320 کے الفاظ ہیں: ’’لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ شِبْرًا شِبْرًا، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْيَهُودُ، وَالنَّصَارَى، قَالَ: فَمَنْ‘‘۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[4] صحیح سنن ابی داود 4031، صحیح الجامع 2831۔
[1]البخاري الصلح (2550) ، مسلم الأقضية (1718) ، أبو داود السنة (4606) ، ابن ماجه المقدمة (14) ، أحمد (6/256).
[2] صحیح مسلم 870۔
[3] صحیح بخاری 7320 کے الفاظ ہیں: ’’لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ شِبْرًا شِبْرًا، وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوهُمْ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْيَهُودُ، وَالنَّصَارَى، قَالَ: فَمَنْ‘‘۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[4] صحیح سنن ابی داود 4031، صحیح الجامع 2831۔