[#SalafiUrduDawah Article] The reality of reciting a #Durood to have 80 years of sins forgiven? – #Fatwaa_committee, Saudi Arabia
ایک #درود_شریف پڑھنے سے اسّی سال کے گناہ معاف ہونے کی حقیقت؟
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة > الآداب الشرعية > الأخلاق > الأخلاق الحميدة > من الأخلاق الحميدة الذكر > الأذكار المرتبة على الأوقات والحوادث > س: حديث شريف منقول عن أبي هريرة رضي الله عنه يقول ما معناه: من صلى العصر يوم الجمعة ثم صلى على النبي صلى الله عليه وسلم وهو جالس في مكانه على النحو التالي: (اللهم صل على محمد النبي…
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/05/durood_80yrs_gunah_muaf.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فتوی رقم 19609
سوال: ایک حدیث شریف جو کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے جس کا معنی یہ ہے کہ: جس نے جمعہ کے دن عصر کی نماز پڑھی پھر اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا اس طرح سے:
’’اللهم صل على محمد النبي الأمي وعلى آله وسلم تسليمًا‘‘
(اے اللہ! درود وسلام بھیج تو محمد نبی الامی پر اور آپ کی آل پر)
اسّی (80) مرتبہ، تو اس کے اسّی سال کے گناہ معاف کردیے جاتے ہيں، اور اسّی سال کی عبادت کے بقدر نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں۔ اور اس کتاب کو تیار کرنے والے نے لکھا ہے کہ یہ حدیث الدارقطنی سے مروی ہے۔ اور حافظ العراقی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔ پس سوال یہ ہے کہ کیا یہ حدیث واقعی صحیح ہے؟ اس کی صحت کا درجہ کیا ہے؟ اور اگر یہ صحیح ہے تو اس کے اصل الفاظ کیا ہیں؟ اور بطور معلومات سماحۃ الشیخ یہ بھی عرض ہے کہ یہ حدیث پاکستانی ٹیلی وژن چینل پر کسی تجارتی کمپنی کے کمرشل اشتہار میں بھی مکرر پیش کی جاتی ہے، اور یہ سلسلہ پورے رمضان چلتا رہتا ہے؟
جواب: اس مذکورہ حدیث کی کوئی اصل نہيں ہے، لہذا اس پر عمل کرنا جائز نہیں۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا تو ہر وقت ہی مستحب ہے۔ اور جمعہ کے دن اس کی خصوصی تاکید بھی ہے مگر بغیر کسی وقت کے تعین کے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْ صَلَّى عَلَيَّ وَاحِدَةً، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرًا‘‘([1])
(جس نے مجھ پر ایک بار درود بھیجا اللہ تعالی اس پر دس بار رحمت فرماتے ہے (یا اپنی ملأ اعلی میں اس کا ذکر فرماتے ہیں))۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’خير الأيام يوم الجمعة، فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيهِ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! كَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا وَقَدْ أَرِمْتَ؟ أي: بَلِيتَ، فَقَالَ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ‘‘([2])
(بہترین دن جمعہ کا دن ہے، پس اس میں مجھ پر کثرت کے ساتھ درود بھیجا کرو، کیونکہ بلاشبہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے، انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ! ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا جبکہ آپ (فوت ہوکر) مٹی ہوچکے ہوں گے؟ یعنی: ہڈیاں تک گل چکی ہوں گی۔ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے: بے شک اللہ تعالی نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ وہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے جسموں کو کھائے)۔
وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم .
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
رکن رکن رکن نائب صدر صدر
بكر أبو زيد صالح الفوزان عبد الله بن غديان عبد العزيز آل الشيخ عبد العزيز بن عبد الله بن باز
[1] صحیح مسلم: الصلاۃ 408، سنن الترمذی: الصلاۃ 485، سنن النسائی: السہو 1296، سنن ابی داود: الصلاۃ 1530، مسند احمد بن حنبل 2/375۔
[2] سنن النسائی: الجمعۃ 1374، سنن ابی داود: الصلاۃ 1047، سنن ابن ماجہ: ماجاء فی الجنائز 1636، مسند احمد بن حنبل 4/8، سنن الدارمی: الصلاۃ 1572۔
ایک #درود_شریف پڑھنے سے اسّی سال کے گناہ معاف ہونے کی حقیقت؟
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة > الآداب الشرعية > الأخلاق > الأخلاق الحميدة > من الأخلاق الحميدة الذكر > الأذكار المرتبة على الأوقات والحوادث > س: حديث شريف منقول عن أبي هريرة رضي الله عنه يقول ما معناه: من صلى العصر يوم الجمعة ثم صلى على النبي صلى الله عليه وسلم وهو جالس في مكانه على النحو التالي: (اللهم صل على محمد النبي…
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/05/durood_80yrs_gunah_muaf.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فتوی رقم 19609
سوال: ایک حدیث شریف جو کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے جس کا معنی یہ ہے کہ: جس نے جمعہ کے دن عصر کی نماز پڑھی پھر اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا اس طرح سے:
’’اللهم صل على محمد النبي الأمي وعلى آله وسلم تسليمًا‘‘
(اے اللہ! درود وسلام بھیج تو محمد نبی الامی پر اور آپ کی آل پر)
اسّی (80) مرتبہ، تو اس کے اسّی سال کے گناہ معاف کردیے جاتے ہيں، اور اسّی سال کی عبادت کے بقدر نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں۔ اور اس کتاب کو تیار کرنے والے نے لکھا ہے کہ یہ حدیث الدارقطنی سے مروی ہے۔ اور حافظ العراقی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔ پس سوال یہ ہے کہ کیا یہ حدیث واقعی صحیح ہے؟ اس کی صحت کا درجہ کیا ہے؟ اور اگر یہ صحیح ہے تو اس کے اصل الفاظ کیا ہیں؟ اور بطور معلومات سماحۃ الشیخ یہ بھی عرض ہے کہ یہ حدیث پاکستانی ٹیلی وژن چینل پر کسی تجارتی کمپنی کے کمرشل اشتہار میں بھی مکرر پیش کی جاتی ہے، اور یہ سلسلہ پورے رمضان چلتا رہتا ہے؟
جواب: اس مذکورہ حدیث کی کوئی اصل نہيں ہے، لہذا اس پر عمل کرنا جائز نہیں۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا تو ہر وقت ہی مستحب ہے۔ اور جمعہ کے دن اس کی خصوصی تاکید بھی ہے مگر بغیر کسی وقت کے تعین کے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْ صَلَّى عَلَيَّ وَاحِدَةً، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرًا‘‘([1])
(جس نے مجھ پر ایک بار درود بھیجا اللہ تعالی اس پر دس بار رحمت فرماتے ہے (یا اپنی ملأ اعلی میں اس کا ذکر فرماتے ہیں))۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’خير الأيام يوم الجمعة، فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيهِ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! كَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا وَقَدْ أَرِمْتَ؟ أي: بَلِيتَ، فَقَالَ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ‘‘([2])
(بہترین دن جمعہ کا دن ہے، پس اس میں مجھ پر کثرت کے ساتھ درود بھیجا کرو، کیونکہ بلاشبہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے، انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ! ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا جبکہ آپ (فوت ہوکر) مٹی ہوچکے ہوں گے؟ یعنی: ہڈیاں تک گل چکی ہوں گی۔ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے: بے شک اللہ تعالی نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ وہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے جسموں کو کھائے)۔
وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم .
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
رکن رکن رکن نائب صدر صدر
بكر أبو زيد صالح الفوزان عبد الله بن غديان عبد العزيز آل الشيخ عبد العزيز بن عبد الله بن باز
[1] صحیح مسلم: الصلاۃ 408، سنن الترمذی: الصلاۃ 485، سنن النسائی: السہو 1296، سنن ابی داود: الصلاۃ 1530، مسند احمد بن حنبل 2/375۔
[2] سنن النسائی: الجمعۃ 1374، سنن ابی داود: الصلاۃ 1047، سنن ابن ماجہ: ماجاء فی الجنائز 1636، مسند احمد بن حنبل 4/8، سنن الدارمی: الصلاۃ 1572۔
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding showing our anger to those who insult the prophet through #demonstrations? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#گستاخانِ_رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذمت میں #احتجاجی_مظاہرے کرنے کا حکم؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ کی آفیشل ویب سائٹ سے فتاوی
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/01/gustakh_e_rasool_khilaf_muzahiraat_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: احسن اللہ الیکم یہ سائل کہتا ہے حال ہی جو واقعہ رونما ہوا ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں استہزاء کیا جاتا ہے اس بارے میں ایک مسلمان کا کیا مؤقف ہونا چاہیے اور اس پر کیا واجب ہے؟
الشیخ: میرے بھائی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تو اس وقت بھی مذاق اڑایا گیا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندہ تھے ان کا مقابلہ مذموم صفات کے ساتھ کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساحر(جادوگر) ہیں، کاہن ہیں، کذاب (بڑےجھوٹے) ہیں اور اس کے علاوہ اور باتیں جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یتیم ہیں اور رسالت کے مستحق نہیں۔ رسالت تو ضروری ہے کہ فرشتوں کو ملے یا پھر بڑے رئیس امیر وکبیر لوگوں کو:
﴿وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ ﴾ (الزخرف: 31)
(اور انہوں نے کہا یہ قرآن ان دوبستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا ؟)
طائف میں سے رئیسِ طائف ہوتا یا رئیسِ مکہ ہوتا تو اسے رسول ہونا چاہیے تھا جبکہ یہ یتیم، فقیر رسول ہو! یہ نازیبا بات ہے! اس طرح سے وہ کہا کرتے تھے۔ اللہ تعالی نے جواب دیا:
﴿اَهُمْ يَــقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ۭ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيْشَتَهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا﴾ (الزخرف: 32)
(کیا وہ آپ کے رب کی رحمت تقسیم کرتے ہیں؟! ہم نے خود ان کے درمیان ان کی معیشت دنیا کی زندگی میں تقسیم کی)
یہ کسی چیز کے مالک نہیں اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی رسالت کا مستحق ہے:
﴿اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ ﴾ (الانعام: 124)
(اللہ زیادہ جاننے والا ہے جہاں وہ اپنی رسالت رکھتا ہے)
تم کون ہوتے ہو تجاویز دینے والے؟! اللہ تعالی ہی جانتا ہے کہ کون اس کی رسالت کے فریضے کو ادا کرسکتا ہے اور کون اس کے لائق ہے ۔ اور وہ یہی یتیم ہیں اور وہ امین شخص ہیں جو رسالت کے لائق ہیں، انہیں اللہ سبحانہ وتعالی نے چنا ہے۔
(فتاوی نور علی الدرب 14120)
سوال: احسن اللہ الیکم حال ہی میں باتکرار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں مختلف طریقوں سےگستاخیاں کی جارہی ہیں کبھی فلموں کے ذریعے تو کبھی اخبارات وغیرہ میں۔ سوال یہ ہے کہ ان گستاخیوں کے تعلق سے کیا شرعی مؤقف ہونا چاہیے ساتھ ہی اسی کے تابع ایک اور سوال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کیے جانے پر اپنے غیض وغصے کے اظہار کے لیے احتجاجی مظاہروں کا کیا حکم ہے؟
جواب: میرےبھائیوں یہ کوئی نئی بات نہيں ہے خود عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساحر، کذاب، کاہن، شاعر وغیرہ کہا گیا لیکن نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر صبر فرمایا عجلت پسندی وجلدبازی کا مظاہرہ نہيں فرمایا، کیونکہ خود اللہ تعالی نے انہیں صبر کرنے کا حکم دیا تھا:
﴿ وَاصْبِرْ عَلٰي مَا يَقُوْلُوْنَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيْلًا﴾ (المزمل: 10)
(اور اس پر صبر کر یں جو وہ کہتے ہیں اور انہیں خوبصورت طریقے سے چھوڑ دیں)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سب سنتے تھے لیکن اس کے باوجود حکم الہی کے بموجب صبر فرمایا کرتے تھے:
﴿اِنَّا كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِيْنَ۔۔۔ وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَ، فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ ، وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ﴾ (الحجر: 95-99)
(بے شک ہم تجھے مذاق اڑانے والوں کے مقابلے میں کافی ہیں۔۔۔اور بلاشبہ یقیناً ہم جانتے ہیں کہ بے شک آپ کا سینہ اس سے تنگ ہوتا ہے جو وہ کہتے ہیں، پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کریں اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجائیں، اور مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں)
#گستاخانِ_رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذمت میں #احتجاجی_مظاہرے کرنے کا حکم؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ کی آفیشل ویب سائٹ سے فتاوی
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/01/gustakh_e_rasool_khilaf_muzahiraat_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: احسن اللہ الیکم یہ سائل کہتا ہے حال ہی جو واقعہ رونما ہوا ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں استہزاء کیا جاتا ہے اس بارے میں ایک مسلمان کا کیا مؤقف ہونا چاہیے اور اس پر کیا واجب ہے؟
الشیخ: میرے بھائی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تو اس وقت بھی مذاق اڑایا گیا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندہ تھے ان کا مقابلہ مذموم صفات کے ساتھ کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساحر(جادوگر) ہیں، کاہن ہیں، کذاب (بڑےجھوٹے) ہیں اور اس کے علاوہ اور باتیں جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یتیم ہیں اور رسالت کے مستحق نہیں۔ رسالت تو ضروری ہے کہ فرشتوں کو ملے یا پھر بڑے رئیس امیر وکبیر لوگوں کو:
﴿وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ ﴾ (الزخرف: 31)
(اور انہوں نے کہا یہ قرآن ان دوبستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا ؟)
طائف میں سے رئیسِ طائف ہوتا یا رئیسِ مکہ ہوتا تو اسے رسول ہونا چاہیے تھا جبکہ یہ یتیم، فقیر رسول ہو! یہ نازیبا بات ہے! اس طرح سے وہ کہا کرتے تھے۔ اللہ تعالی نے جواب دیا:
﴿اَهُمْ يَــقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ۭ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيْشَتَهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا﴾ (الزخرف: 32)
(کیا وہ آپ کے رب کی رحمت تقسیم کرتے ہیں؟! ہم نے خود ان کے درمیان ان کی معیشت دنیا کی زندگی میں تقسیم کی)
یہ کسی چیز کے مالک نہیں اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی رسالت کا مستحق ہے:
﴿اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ ﴾ (الانعام: 124)
(اللہ زیادہ جاننے والا ہے جہاں وہ اپنی رسالت رکھتا ہے)
تم کون ہوتے ہو تجاویز دینے والے؟! اللہ تعالی ہی جانتا ہے کہ کون اس کی رسالت کے فریضے کو ادا کرسکتا ہے اور کون اس کے لائق ہے ۔ اور وہ یہی یتیم ہیں اور وہ امین شخص ہیں جو رسالت کے لائق ہیں، انہیں اللہ سبحانہ وتعالی نے چنا ہے۔
(فتاوی نور علی الدرب 14120)
سوال: احسن اللہ الیکم حال ہی میں باتکرار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں مختلف طریقوں سےگستاخیاں کی جارہی ہیں کبھی فلموں کے ذریعے تو کبھی اخبارات وغیرہ میں۔ سوال یہ ہے کہ ان گستاخیوں کے تعلق سے کیا شرعی مؤقف ہونا چاہیے ساتھ ہی اسی کے تابع ایک اور سوال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کیے جانے پر اپنے غیض وغصے کے اظہار کے لیے احتجاجی مظاہروں کا کیا حکم ہے؟
جواب: میرےبھائیوں یہ کوئی نئی بات نہيں ہے خود عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساحر، کذاب، کاہن، شاعر وغیرہ کہا گیا لیکن نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر صبر فرمایا عجلت پسندی وجلدبازی کا مظاہرہ نہيں فرمایا، کیونکہ خود اللہ تعالی نے انہیں صبر کرنے کا حکم دیا تھا:
﴿ وَاصْبِرْ عَلٰي مَا يَقُوْلُوْنَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيْلًا﴾ (المزمل: 10)
(اور اس پر صبر کر یں جو وہ کہتے ہیں اور انہیں خوبصورت طریقے سے چھوڑ دیں)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سب سنتے تھے لیکن اس کے باوجود حکم الہی کے بموجب صبر فرمایا کرتے تھے:
﴿اِنَّا كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِيْنَ۔۔۔ وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَ، فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ ، وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ﴾ (الحجر: 95-99)
(بے شک ہم تجھے مذاق اڑانے والوں کے مقابلے میں کافی ہیں۔۔۔اور بلاشبہ یقیناً ہم جانتے ہیں کہ بے شک آپ کا سینہ اس سے تنگ ہوتا ہے جو وہ کہتے ہیں، پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کریں اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجائیں، اور مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں)
جواب: میرے بھائی ان باتوں میں کوئی اختلاف ہے ہی نہیں کہ ہمیں ان میں جمع کرنے کی نوبت آئے کیونکہ ہم مشرکین سے محبت نہیں کرتے اور نہ ہی کفار سے لیکن ان پر ناحق ظلم نہیں کرتے۔ اور نہ ہی ان سے ایسا انتقام لیتے ہیں کہ جو انتقام اس سے بھی بڑے نقصان کی طرف لے جائے۔ پس تمام امور کی اپنی مناسب جگہ ہوتی ہے اور اپنی حکمتیں ہوتی ہیں۔
(فتاوی نور علی الدرب 2735)
(فتاوی نور علی الدرب 2735)
لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بھی صبر فرماتے تھے اور اپنے صحابہ کو بھی کسی قسم کی انتقامی کارروائی کرنے سے منع فرماتے تھے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ میں تھے۔ کیونکہ اگر وہ مشرکین سے انتقام لینے کی کوشش کرتے تو مکہ سے اسلام کا ہی صفایا کردیا جاتا۔ اور اس دعوت کااس کی گود میں ہی خاتمہ کردیا جاتا۔ لیکن صبر کیا یہاں تک کہ ہجرت فرمائی اور انصار (مددگاروں) کوپایا۔ تب اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مشرکین کے خلاف شرعی جہاد کرنے کا حکم دیا۔ جبکہ یہ جو مظاہرات کیے جاتے ہیں، یہ تخریبکاری، یہ بے قصور جانوں کا قتل اور جو مسلمانوں کی امان اور ان کے ذمے میں ہوتے ہیں انہیں قتل کیا جاتا ہے تو یہ خیانت ہرگز بھی جائز نہیں۔ نہ ہی بےقصور لوگوں کا قتل کرنا جائز ہے اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں یہ جائز نہیں:
﴿وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا ﴾ (المائدۃ: 2)
(اور کسی قوم کی دشمنی اس لیے کہ انہوں نے تمہیں مسجد حرام سے روکا، تمہیں اس بات پر نا ابھارے کہ تم زیادتی کرو)
کسی بے قصور پر زیادتی کرناجائز نہیں:
﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰي﴾ (الانعام: 164)
(اور نہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ اٹھائے گا)
﴿وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْهُ حَتّٰي يَسْمَعَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ اَبْلِغْهُ مَاْمَنَهٗ﴾ (التوبۃ: 6)
(اور اگر مشرکوں میں سے کوئی آپ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دیں یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سنے، پھر اسے اس کی امن کی جگہ پر پہنچا دیں)
مشرکین کے سفیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس مذاکرات کے لیے آیا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےپاس آپ کی مسجد میں ہی آجایا کرتے تھے اور مذاکرات کرتے حالانکہ وہ مشرکین وکفار تھے ۔لہذا یہ بات اچھی طرح سے جان لینی چاہیے کہ اسلام دینِ غضب وغصہ اور دینِ انتقام نہیں بلکہ دین ہدایت، رحمت اور نرمی ہے۔ جیساکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔ اور اس کا نتیجہ بھی کیا ہوا ؟ یہی ہوا کہ اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصرت فرمائی اور اپنے دین کو عزت کے ساتھ غالب کیا۔ اور جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مذاق اڑایا کرتے تھے ان میں سے بعض تو اسلام اور مجاہدین فی سبیل اللہ کے قائدین بن گئے۔ اسلام لائے اور بہت خوب اسلام پر چلے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر صبر فرمایا تھا، بردباری کا مظاہرہ فرمایا اور نرمی برتی یہاں تک کہ وہ ان سے محبت کرنے لگے فرمان باری تعالی ہے:
﴿وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ﴾ (القلم: 4)
(اور بلاشبہ یقیناً آپ اعلی اخلاق پر فائز ہیں)
یہ ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق ۔
اور یہ کافرلوگ جب اس قسم کی حرکت کرتے ہیں تو ان کا ارادہ یہی ہوتا ہے کہ لوگوں کو مشتعل کیا جائے اور دنیا کو پھر کہا جائے کہ دیکھو یہ مسلمانوں کی حرکتیں ہیں کہ سفیروں تک کو قتل کرتے ہیں، گھروں کو تباہ کرتے ہیں، عمارتوں کو منہدم کرتے ہیں یہ ہے دین اسلام! یہ چاہت ہوتی ہے کافروں کی کہ مسلمانوں میں سے جاہل لوگ یا جو دسیسہ کاری کرتے ہوئے مسلمانوں کی صفوں میں گھس جانے والے ہیں وہ یہ حرکتیں کرتے ہیں انہیں ہی پیش کرکرکے لوگوں کے دلوں کو مسلمانوں کے خلاف بھرا جائے۔
چناچہ ایسے امور میں جلدبازی جائز نہیں:
﴿وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوْا عَلٰي مَا كُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰى اَتٰىهُمْ نَصْرُنَا ۚ وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ ۚ وَلَقَدْ جَاءَكَ مِنْ نَّبَاِى الْمُرْسَلِيْنَ﴾ (الانعام: 34)
(اور بلاشبہ یقینا ًآپ سے پہلے کئی رسول جھٹلائے گئے تو انہوں نے اس پر صبر کیا کہ وہ جھٹلائے گئے اور ایذا دیے گئے، یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آگئی اور کوئی اللہ کی باتوں کو بدلنے والا نہیں
اور بلاشبہ یقیناً آپ کے پاس ان رسولوں کی کچھ خبریں آئی ہیں)
یہ ہے اسلام کا طریقہ ایسے امور کے تعلق سے نرمی، بردباری، صبر اور عدم عجلت پسندی۔ مشرکین تو اس قسم کے اعمال خود کروانا چاہتے ہیں جو بعض مسلمان حماقت، جہالت، تخریبکاری اور قتل غارت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ مسلمان ان کی وجہ سے آپس میں ہی لڑنا شروع کردیتے ہیں یہ مظاہرہ کرنے والے لوگ خود مسلمان پولیس والوں سے لڑنا شروع کردیتے ہیں اور یہی تو کفار چاہتے ہیں۔
(فتاوی نور علی الدرب 14103)
سوال: یہ سائل فرانس سے پوچھتا ہے کہ احسن اللہ الیکم آپ نے ذکر کیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ان لوگوں کے ساتھ کیا برتاؤ تھا کہ جو مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ لیکن کیسے ممکن ہے کہ ہم ان دو باتوں میں جمع کرسکیں کہ ایک طرف تو کفار سے برأت بھی کرنی ہے اور دوسری طرف ان کے لیے ہدایت کی محبت اور عدم ِظلم؟
﴿وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا ﴾ (المائدۃ: 2)
(اور کسی قوم کی دشمنی اس لیے کہ انہوں نے تمہیں مسجد حرام سے روکا، تمہیں اس بات پر نا ابھارے کہ تم زیادتی کرو)
کسی بے قصور پر زیادتی کرناجائز نہیں:
﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰي﴾ (الانعام: 164)
(اور نہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ اٹھائے گا)
﴿وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْهُ حَتّٰي يَسْمَعَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ اَبْلِغْهُ مَاْمَنَهٗ﴾ (التوبۃ: 6)
(اور اگر مشرکوں میں سے کوئی آپ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دیں یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سنے، پھر اسے اس کی امن کی جگہ پر پہنچا دیں)
مشرکین کے سفیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس مذاکرات کے لیے آیا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےپاس آپ کی مسجد میں ہی آجایا کرتے تھے اور مذاکرات کرتے حالانکہ وہ مشرکین وکفار تھے ۔لہذا یہ بات اچھی طرح سے جان لینی چاہیے کہ اسلام دینِ غضب وغصہ اور دینِ انتقام نہیں بلکہ دین ہدایت، رحمت اور نرمی ہے۔ جیساکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔ اور اس کا نتیجہ بھی کیا ہوا ؟ یہی ہوا کہ اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصرت فرمائی اور اپنے دین کو عزت کے ساتھ غالب کیا۔ اور جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مذاق اڑایا کرتے تھے ان میں سے بعض تو اسلام اور مجاہدین فی سبیل اللہ کے قائدین بن گئے۔ اسلام لائے اور بہت خوب اسلام پر چلے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر صبر فرمایا تھا، بردباری کا مظاہرہ فرمایا اور نرمی برتی یہاں تک کہ وہ ان سے محبت کرنے لگے فرمان باری تعالی ہے:
﴿وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ﴾ (القلم: 4)
(اور بلاشبہ یقیناً آپ اعلی اخلاق پر فائز ہیں)
یہ ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق ۔
اور یہ کافرلوگ جب اس قسم کی حرکت کرتے ہیں تو ان کا ارادہ یہی ہوتا ہے کہ لوگوں کو مشتعل کیا جائے اور دنیا کو پھر کہا جائے کہ دیکھو یہ مسلمانوں کی حرکتیں ہیں کہ سفیروں تک کو قتل کرتے ہیں، گھروں کو تباہ کرتے ہیں، عمارتوں کو منہدم کرتے ہیں یہ ہے دین اسلام! یہ چاہت ہوتی ہے کافروں کی کہ مسلمانوں میں سے جاہل لوگ یا جو دسیسہ کاری کرتے ہوئے مسلمانوں کی صفوں میں گھس جانے والے ہیں وہ یہ حرکتیں کرتے ہیں انہیں ہی پیش کرکرکے لوگوں کے دلوں کو مسلمانوں کے خلاف بھرا جائے۔
چناچہ ایسے امور میں جلدبازی جائز نہیں:
﴿وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوْا عَلٰي مَا كُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰى اَتٰىهُمْ نَصْرُنَا ۚ وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ ۚ وَلَقَدْ جَاءَكَ مِنْ نَّبَاِى الْمُرْسَلِيْنَ﴾ (الانعام: 34)
(اور بلاشبہ یقینا ًآپ سے پہلے کئی رسول جھٹلائے گئے تو انہوں نے اس پر صبر کیا کہ وہ جھٹلائے گئے اور ایذا دیے گئے، یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آگئی اور کوئی اللہ کی باتوں کو بدلنے والا نہیں
اور بلاشبہ یقیناً آپ کے پاس ان رسولوں کی کچھ خبریں آئی ہیں)
یہ ہے اسلام کا طریقہ ایسے امور کے تعلق سے نرمی، بردباری، صبر اور عدم عجلت پسندی۔ مشرکین تو اس قسم کے اعمال خود کروانا چاہتے ہیں جو بعض مسلمان حماقت، جہالت، تخریبکاری اور قتل غارت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ مسلمان ان کی وجہ سے آپس میں ہی لڑنا شروع کردیتے ہیں یہ مظاہرہ کرنے والے لوگ خود مسلمان پولیس والوں سے لڑنا شروع کردیتے ہیں اور یہی تو کفار چاہتے ہیں۔
(فتاوی نور علی الدرب 14103)
سوال: یہ سائل فرانس سے پوچھتا ہے کہ احسن اللہ الیکم آپ نے ذکر کیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ان لوگوں کے ساتھ کیا برتاؤ تھا کہ جو مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ لیکن کیسے ممکن ہے کہ ہم ان دو باتوں میں جمع کرسکیں کہ ایک طرف تو کفار سے برأت بھی کرنی ہے اور دوسری طرف ان کے لیے ہدایت کی محبت اور عدم ِظلم؟
[#SalafiUrduDawah Article] Can we perform #demonstrations against the ruler if he permits us? – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
کیا ہم حکومت کے خلاف #مظاہرات کرسکتے ہیں اگر خود حکمران اس کی اجازت دے؟
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ النھج الواضح سے آڈیو: المظاهرات كلها شر سواء أذن بها الحاكم أو لم يأذن۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/08/hakim_ijazat_muzahiraat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: اگر کوئی حاکم اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ حکم کرتا ہو پھر وہ بعض لوگوں کو خود ہی اجازت دیتا ہو کہ وہ مظاہرات کریں جسے وہ ذاتی جدوجہد (یا اپنے حقوق کے لیے خود آواز بلند کرنے) کا نام دیتے ہیں ان ضوابط کی پابندی کے ساتھ جسے اس حاکم نے مقرر کیا ہے، اور وہ لوگ یہ کام کرتے رہتے ہیں لیکن جب ان کے اس عمل (مظاہرات) پر انکار کیا جائے تو کہتے ہیں: ہم حکمران سے تصادم تو نہیں کررہے بلکہ خود اسی حکمران کی رائے (یا دی گئی آزادی) پر عمل کررہے ہیں، پس کیا ایسا کرنا شرعی طور پر جائز ہے حالانکہ نص کی مخالفت بھی اس میں پائی جاتی ہے؟
جواب: آپ کو سلف کی اتباع کرنی چاہیے۔ اگر یہ سلف میں موجود تھا تو یہ خیر ہے، اور اگر موجود نہ تھا تو یہ شر ہے۔ بے شک یہ جو مظاہرات ہیں شر ہيں کیونکہ اس کا نتیجہ افراتفری ہی ہے نہ مظاہرین کی طرف سے اور نہ ہی دوسروں کی طرف سے(یعنی نہیں ہونے چاہیے)، بلکہ ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ سے عزتوں، اموال وابدان پر زیادتی ہو، کیونکہ افراتفری کے بیچ میں انسان کی حالت ایسے ہوجاتی ہے جیسے وہ نشے میں ہو معلوم ہی نہیں کہ کیا بول رہا ہے، کیا کررہاہے۔ چناچہ یہ مظاہرات بہرصورت سارے کے سارے شر ہی ہیں خواہ حکمران اس کی اجازت دےیا نہ دے۔
اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکمران کا اس کی اجازت دینا کچھ نہیں سوائے ایک دکھاوے کے، ورنہ اگر واقعی آپ اس کے دل کی طرف لوٹیں اس کی حالت دیکھیں تو وہ اس سے شدید ترین کراہیت ونفرت کرتا ہوگا۔ لیکن بس ظاہر یوں کرتا ہے جسے وہ ڈیموکریسی کہتے ہيں گویا کہ اس نے لوگوں پر آزادی کا در کھلا رکھا ہے۔ اور یہ سلف کا طریقہ نہيں۔
کیا ہم حکومت کے خلاف #مظاہرات کرسکتے ہیں اگر خود حکمران اس کی اجازت دے؟
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ النھج الواضح سے آڈیو: المظاهرات كلها شر سواء أذن بها الحاكم أو لم يأذن۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/08/hakim_ijazat_muzahiraat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: اگر کوئی حاکم اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ حکم کرتا ہو پھر وہ بعض لوگوں کو خود ہی اجازت دیتا ہو کہ وہ مظاہرات کریں جسے وہ ذاتی جدوجہد (یا اپنے حقوق کے لیے خود آواز بلند کرنے) کا نام دیتے ہیں ان ضوابط کی پابندی کے ساتھ جسے اس حاکم نے مقرر کیا ہے، اور وہ لوگ یہ کام کرتے رہتے ہیں لیکن جب ان کے اس عمل (مظاہرات) پر انکار کیا جائے تو کہتے ہیں: ہم حکمران سے تصادم تو نہیں کررہے بلکہ خود اسی حکمران کی رائے (یا دی گئی آزادی) پر عمل کررہے ہیں، پس کیا ایسا کرنا شرعی طور پر جائز ہے حالانکہ نص کی مخالفت بھی اس میں پائی جاتی ہے؟
جواب: آپ کو سلف کی اتباع کرنی چاہیے۔ اگر یہ سلف میں موجود تھا تو یہ خیر ہے، اور اگر موجود نہ تھا تو یہ شر ہے۔ بے شک یہ جو مظاہرات ہیں شر ہيں کیونکہ اس کا نتیجہ افراتفری ہی ہے نہ مظاہرین کی طرف سے اور نہ ہی دوسروں کی طرف سے(یعنی نہیں ہونے چاہیے)، بلکہ ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ سے عزتوں، اموال وابدان پر زیادتی ہو، کیونکہ افراتفری کے بیچ میں انسان کی حالت ایسے ہوجاتی ہے جیسے وہ نشے میں ہو معلوم ہی نہیں کہ کیا بول رہا ہے، کیا کررہاہے۔ چناچہ یہ مظاہرات بہرصورت سارے کے سارے شر ہی ہیں خواہ حکمران اس کی اجازت دےیا نہ دے۔
اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکمران کا اس کی اجازت دینا کچھ نہیں سوائے ایک دکھاوے کے، ورنہ اگر واقعی آپ اس کے دل کی طرف لوٹیں اس کی حالت دیکھیں تو وہ اس سے شدید ترین کراہیت ونفرت کرتا ہوگا۔ لیکن بس ظاہر یوں کرتا ہے جسے وہ ڈیموکریسی کہتے ہيں گویا کہ اس نے لوگوں پر آزادی کا در کھلا رکھا ہے۔ اور یہ سلف کا طریقہ نہيں۔
#SalafiUrduDawah
شیخ صالح #الفوزان حفظہ اللہ سے ان کی تقریر "اسلام میں امام (حکمران) نصب کرنے کی کیفیت" میں کیے گئے بعض سوالات جو حکومت مخالف #مظاہرات #دہرنے #احتجاج وغیرہ کے متعلق ہيں:
کیا حکومت کے خلاف مظاہرات کرنے والوں پر خوارج سے متعلق احادیث چسپاں نہ کی جائيں
سوال 1: سائل کہتا ہے بعض ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ خوارج سے متعلق حدیث کو آجکل جو لوگ کسی معین حکمران کے خلاف مظاہرات پر نکلتے ہيں ان پر چسپاں کرنا جائز نہيں، اور سائل یہ بھی کہتا ہے کہ بعض لوگ ان مظاہرات کو پرامن تحریک کہتے ہیں اور کہتے ہیں اس کا انکار سوائے اہل بدعت کے کوئی نہیں کرتا؟
جواب: مظاہرے کرنا دین اسلام میں سے نہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں شر مرتب ہوتا ہے اور مسلمانوں کے اجتماعِ کلمہ کا ضیاع ہوتا ہے، اور مسلمانوں میں تفرقہ ہوتا ہے، کیونکہ اس کے ساتھ ہی تخریبکاری، خون خرابہ ہوتا ہے، اس کے ساتھ ہی شر وفساد ہوتا ہے۔
اور یہ مظاہرات مشکلات کا صحیح حل نہيں ہیں۔ بلکہ جو صحیح حل ہے وہ کتاب وسنت کی اتباع ہے۔ سابقہ ادوار میں جو فتنے ہوئے وہ موجودہ فتنوں سے بھی بڑھ کر تھے، لیکن انہوں نے اس کا معالجہ شریعت کی روشنی میں کیا ناکہ کافروں کے نظام اور باہر سے درآمد شدہ ان مظاہرات کے ذریعے۔ ان کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اس افراتفری وہنگامہ آرائی کا اسلام سے کوئی واسطہ نہيں۔ دین اسلام تو نظم وضبط کی طرف دعوت دیتا ہے، صبر وحکمت کی طرف دعوت دیتا ہے، اور امور کو اہل حل وعقد کی طرف ، علماء کی طرف لوٹانے کی دعوت دیتا ہے:
﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا﴾ (النساء: 59)
(پھر اگر کسی چیز پر اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے، یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے)
[یا فرمایا: ﴿وَاِذَا جَاۗءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ ۭوَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ، وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا﴾ (النساء: 83) (جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے نشر کرنا شروع کر دیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول کے اور اپنے میں سےاولی الامر(حکمران وعلماء وغیرہ)کے حوالے کر دیتے تو اس کی حقیقت وہ لوگ معلوم کر لیتے جو صحیح استنباط کرتے ہیں، اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو بہت تھوڑے لوگوں کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ جاتے) (توحید خالص ڈاٹ کام)۔]
شیخ صالح #الفوزان حفظہ اللہ سے ان کی تقریر "اسلام میں امام (حکمران) نصب کرنے کی کیفیت" میں کیے گئے بعض سوالات جو حکومت مخالف #مظاہرات #دہرنے #احتجاج وغیرہ کے متعلق ہيں:
کیا حکومت کے خلاف مظاہرات کرنے والوں پر خوارج سے متعلق احادیث چسپاں نہ کی جائيں
سوال 1: سائل کہتا ہے بعض ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ خوارج سے متعلق حدیث کو آجکل جو لوگ کسی معین حکمران کے خلاف مظاہرات پر نکلتے ہيں ان پر چسپاں کرنا جائز نہيں، اور سائل یہ بھی کہتا ہے کہ بعض لوگ ان مظاہرات کو پرامن تحریک کہتے ہیں اور کہتے ہیں اس کا انکار سوائے اہل بدعت کے کوئی نہیں کرتا؟
جواب: مظاہرے کرنا دین اسلام میں سے نہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں شر مرتب ہوتا ہے اور مسلمانوں کے اجتماعِ کلمہ کا ضیاع ہوتا ہے، اور مسلمانوں میں تفرقہ ہوتا ہے، کیونکہ اس کے ساتھ ہی تخریبکاری، خون خرابہ ہوتا ہے، اس کے ساتھ ہی شر وفساد ہوتا ہے۔
اور یہ مظاہرات مشکلات کا صحیح حل نہيں ہیں۔ بلکہ جو صحیح حل ہے وہ کتاب وسنت کی اتباع ہے۔ سابقہ ادوار میں جو فتنے ہوئے وہ موجودہ فتنوں سے بھی بڑھ کر تھے، لیکن انہوں نے اس کا معالجہ شریعت کی روشنی میں کیا ناکہ کافروں کے نظام اور باہر سے درآمد شدہ ان مظاہرات کے ذریعے۔ ان کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اس افراتفری وہنگامہ آرائی کا اسلام سے کوئی واسطہ نہيں۔ دین اسلام تو نظم وضبط کی طرف دعوت دیتا ہے، صبر وحکمت کی طرف دعوت دیتا ہے، اور امور کو اہل حل وعقد کی طرف ، علماء کی طرف لوٹانے کی دعوت دیتا ہے:
﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا﴾ (النساء: 59)
(پھر اگر کسی چیز پر اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے، یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے)
[یا فرمایا: ﴿وَاِذَا جَاۗءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ ۭوَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ، وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا﴾ (النساء: 83) (جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے نشر کرنا شروع کر دیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول کے اور اپنے میں سےاولی الامر(حکمران وعلماء وغیرہ)کے حوالے کر دیتے تو اس کی حقیقت وہ لوگ معلوم کر لیتے جو صحیح استنباط کرتے ہیں، اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو بہت تھوڑے لوگوں کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ جاتے) (توحید خالص ڈاٹ کام)۔]
اگر حکومت ہی مظاہروں کی اجازت دیتی ہو تو کیا پھر انہیں کرنا جائز ہوگا
سوال 4: اگر کوئی حاکم اپنے ملک میں بعض مصلحتوں کے حصول کے لیے مظاہرات کی اجازت دیتا ہے کیا اس صورت میں انہیں کرنا مشروع ہوگا؟
جواب: ایک مسلمان حاکم جو کہ شریعت پر عمل پیرا ہو ممکن ہی نہیں کہ وہ مظاہرات کی اجازت دے، اس کی اجازت تو وہی دیتے ہيں جو انسانی بنائے گئے نظاموں پر چلتے ہیں، لہذا ان کی مظاہرات کرنے کی اس رخصت کو نہیں لینا چاہیے، اور نہ ہی یہ اسلام اور مسلمانوں کے حق میں بہتر ہے۔
کیا پولیس کو حکومتی آرڈر پر مظاہرات اور دہرنے کو روکنا چاہیے
سوال 5: کیا پولیس کے لیے جائز ہے حکمران کی سمع وطاعت کرنا اس بات میں کہ وہ ان مظاہرات، لانگ مارچ اور دھرنوں کو روکے جو مسلم ممالک میں ہوتے ہیں؟
جواب: بالکل، یہ پولیس کی ڈیوٹی میں سے ہے۔ بے شک انہیں ایسے مظاہر کی روک تھام کرنی ہے جن میں معاشرے، حکومت اور مسلمانوں کے لیے خطرہ ہوتا ہے۔ یہ ان کی ڈیوٹی اور ذمہ داری میں سے ہے کہ وہ اس کام کو انجام دیں، کسی پر زیادتی نہ کریں لیکن شر اور زیادتی سے لوگوں کو روکیں۔
جیلوں میں بند کارکنان کی رہائی کے لیے بازاروں میں مظاہرے کرنا
سوال 12: سماحۃ الشیخ آپ کی ان لوگوں کو کیا نصیحت ہے جو بازاروں کے اندر اور تجارتی مراکز میں جلوس نکالتے ہیں اور فیملیز وغیرہ کے لیے راستے او رچلنا پھرنا تنگ کردیتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے جیلوں میں بند تمام کارکنان کو نکالا جائے؟
جواب: یہ سب باتیں دین اسلام میں سے نہيں ہیں۔ مظاہرات اور دہرنے یہ سب باہر سے درآمد شدہ باتیں ہيں، اور یہ افراتفری وہنگامہ آرائی ہے، حالانکہ اسلام کبھی بھی اس افراتفری وہنگامہ آرائی کا حکم نہيں دیتا۔ اور اس میں ولی امر کی نافرمانی بھی ہے، اور مسلمانوں میں خوف وہراس پھیلانا بھی ہے۔
جو لوگ جیل میں ہیں اگر ان میں سے جو ناحق جیل میں ہے تو ولی امر کے پاس جاکر اس کی وضاحت کریں اور اس کی بےگناہی کی صفائی پیش کریں، اس سے بغیر مظاہرات اور دہرنے کے ویسے ہی بات کریں مطالبہ کریں ان کی رہائی کا۔اس کا اسلام سے کوئی تعلق ہی نہيں ہے باہر سے آئی ہوئی چیزیں ہیں یہ سب، اور یہ دراصل ولاۃ امور پر خروج کرنے کی بنیادیں ہوتی ہيں۔
جدید وسائل مواصلات کو حکومت مخالف مہم کے لیے استعمال کرنا
سوال 13: بعض داعیان کے پاس اپنی دعوت کے لیے یہ وسیلہ ہےکہ وہ جدید وسائل مواصلات کو استعمال کرکے خبریں نشر کرتے ہیں چاہے یہاں داخلی طور پر ہوں یا پھر عراق وغیرہ میں، اس کاکیا حکم ہے؟ جزاکم اللہ خیراً
جواب: یہ تو خروج کی ترغیب دینے میں سے ہے تاکہ لوگ بھی اسی کی راہ پر چلیں جو کچھ اس پر بیتی اس پر صبر کریں۔ وہ لوٹ آئے گا مگر اس سے حاصل کیا ہوگا، اور وہ نکلا اور چلا گیا اس سے بھی کیا استفادہ ہوا! مسلمانوں کو آخر اس سے فائدہ ہی کیا ہوا؟ کوئی فائدہ نہيں ہوا!۔
حکومت مخالف مظاہرات میں مر جانے والے کا حکم
سوال 20: مسلمان حکمران کے خلاف کیے جانے والے مظاہرات میں مرجانے والے کا کیا حکم ہے؟
جواب: وہ خطاء کار ہے، واللہ اعلم، اس کاحکم تو اللہ تعالی ہی کے پاس ہے، لیکن بہرحال وہ خطاء کار ہے۔
کیا جلسے جلوسوں سے اسلامی روح بیدار ہوتی اور حق کی نصرت ہوتی ہے
سوال 59: کیا وہ شخص صواب پر ہے جو کہتا ہے کہ یہ جو مظاہرات اور جلسے جلوس ہیں ان کے ذریعے اسلامی روح اور حق کی سربلندی ظاہر ہوتی ہے؟
جواب: اسلام ان مظاہرات کا حکم نہيں دیتا، نہ ہی اس افراتفری اور ہنگامہ آرائی کا حکم دیتا ہے، نہ ہی ان نوایجاد یافتہ چیزوں کا کہ جن میں بہت سے نقصانات پنہاں ہیں اور کسی مصلحت کا حصول نہیں ہوتا۔
کیا حکومت مخالف مظاہرات وغیرہ کفار سے مشابہت شمار ہوں گے
سوال 62: جو کوئی ولاۃ امور پر مظاہرات، جلسے جلوسوں اور احتساب وغیرہ کے نام پر انکار کرتے ہیں کیا وہ کافروں سے مشابہت کرنے والے شمار ہوں گے؟
جواب: بالکل، جو کوئی بھی کوئی ایسی چیز لائے گا جو اسلام کے مخالف ہو تو وہ غیرمسلموں سے ہی مشابہت اختیار کرنے والا ہوگا، جو اسلام کی مخالفت کرے تو وہ اس بات میں اور اس کے علاوہ بھی غیرمسلموں کی ہی مشابہت اختیار کرتا ہے۔
مکمل کتاب
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/04/islaam_imaam_nasab_kefiyat.pdf
سوال 4: اگر کوئی حاکم اپنے ملک میں بعض مصلحتوں کے حصول کے لیے مظاہرات کی اجازت دیتا ہے کیا اس صورت میں انہیں کرنا مشروع ہوگا؟
جواب: ایک مسلمان حاکم جو کہ شریعت پر عمل پیرا ہو ممکن ہی نہیں کہ وہ مظاہرات کی اجازت دے، اس کی اجازت تو وہی دیتے ہيں جو انسانی بنائے گئے نظاموں پر چلتے ہیں، لہذا ان کی مظاہرات کرنے کی اس رخصت کو نہیں لینا چاہیے، اور نہ ہی یہ اسلام اور مسلمانوں کے حق میں بہتر ہے۔
کیا پولیس کو حکومتی آرڈر پر مظاہرات اور دہرنے کو روکنا چاہیے
سوال 5: کیا پولیس کے لیے جائز ہے حکمران کی سمع وطاعت کرنا اس بات میں کہ وہ ان مظاہرات، لانگ مارچ اور دھرنوں کو روکے جو مسلم ممالک میں ہوتے ہیں؟
جواب: بالکل، یہ پولیس کی ڈیوٹی میں سے ہے۔ بے شک انہیں ایسے مظاہر کی روک تھام کرنی ہے جن میں معاشرے، حکومت اور مسلمانوں کے لیے خطرہ ہوتا ہے۔ یہ ان کی ڈیوٹی اور ذمہ داری میں سے ہے کہ وہ اس کام کو انجام دیں، کسی پر زیادتی نہ کریں لیکن شر اور زیادتی سے لوگوں کو روکیں۔
جیلوں میں بند کارکنان کی رہائی کے لیے بازاروں میں مظاہرے کرنا
سوال 12: سماحۃ الشیخ آپ کی ان لوگوں کو کیا نصیحت ہے جو بازاروں کے اندر اور تجارتی مراکز میں جلوس نکالتے ہیں اور فیملیز وغیرہ کے لیے راستے او رچلنا پھرنا تنگ کردیتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے جیلوں میں بند تمام کارکنان کو نکالا جائے؟
جواب: یہ سب باتیں دین اسلام میں سے نہيں ہیں۔ مظاہرات اور دہرنے یہ سب باہر سے درآمد شدہ باتیں ہيں، اور یہ افراتفری وہنگامہ آرائی ہے، حالانکہ اسلام کبھی بھی اس افراتفری وہنگامہ آرائی کا حکم نہيں دیتا۔ اور اس میں ولی امر کی نافرمانی بھی ہے، اور مسلمانوں میں خوف وہراس پھیلانا بھی ہے۔
جو لوگ جیل میں ہیں اگر ان میں سے جو ناحق جیل میں ہے تو ولی امر کے پاس جاکر اس کی وضاحت کریں اور اس کی بےگناہی کی صفائی پیش کریں، اس سے بغیر مظاہرات اور دہرنے کے ویسے ہی بات کریں مطالبہ کریں ان کی رہائی کا۔اس کا اسلام سے کوئی تعلق ہی نہيں ہے باہر سے آئی ہوئی چیزیں ہیں یہ سب، اور یہ دراصل ولاۃ امور پر خروج کرنے کی بنیادیں ہوتی ہيں۔
جدید وسائل مواصلات کو حکومت مخالف مہم کے لیے استعمال کرنا
سوال 13: بعض داعیان کے پاس اپنی دعوت کے لیے یہ وسیلہ ہےکہ وہ جدید وسائل مواصلات کو استعمال کرکے خبریں نشر کرتے ہیں چاہے یہاں داخلی طور پر ہوں یا پھر عراق وغیرہ میں، اس کاکیا حکم ہے؟ جزاکم اللہ خیراً
جواب: یہ تو خروج کی ترغیب دینے میں سے ہے تاکہ لوگ بھی اسی کی راہ پر چلیں جو کچھ اس پر بیتی اس پر صبر کریں۔ وہ لوٹ آئے گا مگر اس سے حاصل کیا ہوگا، اور وہ نکلا اور چلا گیا اس سے بھی کیا استفادہ ہوا! مسلمانوں کو آخر اس سے فائدہ ہی کیا ہوا؟ کوئی فائدہ نہيں ہوا!۔
حکومت مخالف مظاہرات میں مر جانے والے کا حکم
سوال 20: مسلمان حکمران کے خلاف کیے جانے والے مظاہرات میں مرجانے والے کا کیا حکم ہے؟
جواب: وہ خطاء کار ہے، واللہ اعلم، اس کاحکم تو اللہ تعالی ہی کے پاس ہے، لیکن بہرحال وہ خطاء کار ہے۔
کیا جلسے جلوسوں سے اسلامی روح بیدار ہوتی اور حق کی نصرت ہوتی ہے
سوال 59: کیا وہ شخص صواب پر ہے جو کہتا ہے کہ یہ جو مظاہرات اور جلسے جلوس ہیں ان کے ذریعے اسلامی روح اور حق کی سربلندی ظاہر ہوتی ہے؟
جواب: اسلام ان مظاہرات کا حکم نہيں دیتا، نہ ہی اس افراتفری اور ہنگامہ آرائی کا حکم دیتا ہے، نہ ہی ان نوایجاد یافتہ چیزوں کا کہ جن میں بہت سے نقصانات پنہاں ہیں اور کسی مصلحت کا حصول نہیں ہوتا۔
کیا حکومت مخالف مظاہرات وغیرہ کفار سے مشابہت شمار ہوں گے
سوال 62: جو کوئی ولاۃ امور پر مظاہرات، جلسے جلوسوں اور احتساب وغیرہ کے نام پر انکار کرتے ہیں کیا وہ کافروں سے مشابہت کرنے والے شمار ہوں گے؟
جواب: بالکل، جو کوئی بھی کوئی ایسی چیز لائے گا جو اسلام کے مخالف ہو تو وہ غیرمسلموں سے ہی مشابہت اختیار کرنے والا ہوگا، جو اسلام کی مخالفت کرے تو وہ اس بات میں اور اس کے علاوہ بھی غیرمسلموں کی ہی مشابہت اختیار کرتا ہے۔
مکمل کتاب
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/04/islaam_imaam_nasab_kefiyat.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] #Demonstrations against government is not from the Salafee Manhaj – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
حکومت مخالف #مظاہرات سلفی طریقہ نہیں
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الجواب الابھر لفؤاد سراج، ص 75۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/demonstrations_salafi_manhaj_nahi.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا مظاہرات بھی شرعی وسائل دعوت میں شمار ہوسکتے ہیں؟
جواب: الحمدللہ رب العالمین وصلی اللہ علی سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم ومن تبعھم باحسان الی یوم الدین، اما بعد:
مظاہرات بلاشبہ ایک نوایجاد امور میں سے ہے،جو کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا عہد خلفائے راشدین یا پھر صحابہ کرام y کے کسی بھی عہد میں معروف نہ تھے۔اس پر مستزاد یہ کہ اس میں جو افراتفری اور دنگا فساد ہوتا ہے وہ بھی اس طریقے کو ممنوع قرار دینے پر دلالت کرتا ہے۔ جیسے اس میں شیشے اور دروازےوغیرہ توڑے جاتے ہیں، اور اس میں مردوزن، نوجوانوں اور بوڑھوں کا اختلاط ہوتا ہے اور اس جیسے دیگر مفاسد ومنکرات پائے جاتے ہیں۔ اب جہاں تک مسئلہ ہے حکومت پر دباؤ ڈالنے کا : اگر تو وہ حکومت مسلمان ہے تو اس کے لئے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ e ہی کافی ووافی واعظ ہے۔ یہ تو وہ بہترین چیز ہے کہ جو ایک مسلمان پر پیش کی جاسکتی ہے۔
لیکن اگر وہ حکومت کافر ہے تو اسے ان مظاہرین کی چنداں پرواہ نہیں اورہوسکتا ہے انہیں محض ٹالنے کے لئے بظاہر رضامندی کا اظہار کردے اور دل میں وہ جس شر پر قائم تھا اسی پر قائم رہے۔یہی وجوہات ہیں کہ جس کی بنا پر ہم ان مظاہرات کو منکرات میں شمار کرتے ہیں۔ البتہ ان لوگوں کا یہ دعویٰ کہ یہ مظاہرے پر امن ہوتے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے یہ مظاہرات ابتداء میں پرامن شروع ہوتے ہوں لیکن آخرکار تخریب کاری پر ہی منتج ہوتے ہیں (جیسا کہ امر واقع اس پر شاہد ہے)۔ آخر میں میری نوجوانوں کو نصیحت ہے کہ وہ سلف کے طریقے کی پیروی کریں کیونکہ اللہ تعالی نے مہاجرین وانصار اور جو کوئی بھی بطورِ احسن ان کے نقش قدم پر چلے ان سب کی تعریف وتوصیف بیان کی ہے۔
حکومت مخالف #مظاہرات سلفی طریقہ نہیں
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الجواب الابھر لفؤاد سراج، ص 75۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/demonstrations_salafi_manhaj_nahi.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا مظاہرات بھی شرعی وسائل دعوت میں شمار ہوسکتے ہیں؟
جواب: الحمدللہ رب العالمین وصلی اللہ علی سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم ومن تبعھم باحسان الی یوم الدین، اما بعد:
مظاہرات بلاشبہ ایک نوایجاد امور میں سے ہے،جو کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا عہد خلفائے راشدین یا پھر صحابہ کرام y کے کسی بھی عہد میں معروف نہ تھے۔اس پر مستزاد یہ کہ اس میں جو افراتفری اور دنگا فساد ہوتا ہے وہ بھی اس طریقے کو ممنوع قرار دینے پر دلالت کرتا ہے۔ جیسے اس میں شیشے اور دروازےوغیرہ توڑے جاتے ہیں، اور اس میں مردوزن، نوجوانوں اور بوڑھوں کا اختلاط ہوتا ہے اور اس جیسے دیگر مفاسد ومنکرات پائے جاتے ہیں۔ اب جہاں تک مسئلہ ہے حکومت پر دباؤ ڈالنے کا : اگر تو وہ حکومت مسلمان ہے تو اس کے لئے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ e ہی کافی ووافی واعظ ہے۔ یہ تو وہ بہترین چیز ہے کہ جو ایک مسلمان پر پیش کی جاسکتی ہے۔
لیکن اگر وہ حکومت کافر ہے تو اسے ان مظاہرین کی چنداں پرواہ نہیں اورہوسکتا ہے انہیں محض ٹالنے کے لئے بظاہر رضامندی کا اظہار کردے اور دل میں وہ جس شر پر قائم تھا اسی پر قائم رہے۔یہی وجوہات ہیں کہ جس کی بنا پر ہم ان مظاہرات کو منکرات میں شمار کرتے ہیں۔ البتہ ان لوگوں کا یہ دعویٰ کہ یہ مظاہرے پر امن ہوتے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے یہ مظاہرات ابتداء میں پرامن شروع ہوتے ہوں لیکن آخرکار تخریب کاری پر ہی منتج ہوتے ہیں (جیسا کہ امر واقع اس پر شاہد ہے)۔ آخر میں میری نوجوانوں کو نصیحت ہے کہ وہ سلف کے طریقے کی پیروی کریں کیونکہ اللہ تعالی نے مہاجرین وانصار اور جو کوئی بھی بطورِ احسن ان کے نقش قدم پر چلے ان سب کی تعریف وتوصیف بیان کی ہے۔
[#SalafiUrduDawah rdu Article] Are #demonstrations against government a form of Dawah? – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah #bin_Baaz
کیا حکومت مخالف #مظاہرات بھی دعوت کے وسائل میں سےہیں؟
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/kiya_hukumat_mukhalif_muzahiray_wasail_dawah_hain.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ رحمہ اللہ سے شعبان سن 1412ھ جدہ میں ایک آڈیو کیسٹ میں پوچھا گیا کہ : کیا مردوں اور عورتوں کے حکمران وحکومت مخالف مظاہرات (احتجاجی جلسے جلوس، ریلیاں، مارچ ودھرنے وغیرہ) بھی دعوتی وسائل میں سے ایک وسیلہ شمار ہوں گے؟ اور کیا اس مظاہرے میں مرنے والے فی سبیل اللہ شہید کہلائے جائیں گے؟
آپ رحمہ اللہ نے یہ جواب ارشاد فرمایا:
میں ان مردوزن کے مظاہرات کو مسئلے کا علاج نہیں سمجھتا بلکہ میرے خیال میں تو یہ اسباب شروفتن اور لوگوں کے آپس میں بغض وعداوت اور ایک دوسرے پر زیادتی کا سبب ہیں۔ جبکہ شرعی اسباب تو خط لکھنا، نصیحت کرنا اور ان شرعی طریقوں کو بروئے کار لاکر خیر کی جانب دعوت دینا جن کی اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورخیر کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والے اہل علم نے تشریح فرمائی ہے کہ خط لکھا جائے یا حاکم، امیر وسلطان سے بالمشافہ بات کی جائے، یا ٹیلی فون کے ذریعہ اسے نصیحت کی جائے، ناکہ منبر پر کھڑے ہوکر اس کی تشہیر کی جائے کہ اس نے یہ کیا اس سے یہ صادر ہوا وغیرہ، واللہ المستعان۔
اور آپ رحمہ اللہ نے عبدالرحمن عبدالخالق (سابق امیر جمعیت احیاء التراث، کویت) پر لکھے گئے ردکے دوران فرمایا:
چھٹی بات یہ کہ آپ نے اپنی کتاب میں ’’فصول من السیاسۃ الشرعیۃ‘‘ (شرعی سیاست سے متعلق فصول) ص 31، 32 میں ذکر کیا کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسالیبِ دعوت میں سے مظاہرات بھی تھے!حالانکہ مجھے اس معنی پر دلالت کرنی والی کوئی دلیل نہیں ملی، امید ہے کہ آپ کسی کے کلام کی جانب ہماری رہنمائی کریں گے یا کس کتاب میں آپ نے ایسا لکھا ہوا پایا ہے؟
بصورت دیگر اگر آپ کے پاس اس بارے میں کوئی مستند نہیں تو آپ پر اس مسئلے سے رجوع کرنا واجب ہے، کیونکہ میں نصوص میں سے کوئی ایسی نص نہیں پاتا جو اس پر دلالت کرتی ہو۔ خاص طور پرجبکہ یہ بات معلوم ہے کہ ان مظاہرات سے بہت سے مفاسد جنم لیتے ہیں بایں صورت اگر واقعی کوئی صحیح دلیل اس بارے میں موجود ہے تو اسے مکمل وضاحت کے ساتھ بیان کرنا ضروری ہے تاکہ کم از کم فسادی لوگ اپنے باطل مظاہرات کی ترویج تو نہ کریں۔
اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ ہمیں اور آپ کو علم نافع اور عمل صالح کی توفیق عنایت فرمائے۔ اور یہ کہ وہ ہمارے دلوں اور اعمال کی اصلاح فرمادے۔ اور ہمیں بھٹکوں کو راہ ہدایت دکھانے والا بنادے۔ بے شک وہ جواد وکریم ہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
(مجموع فتاوی سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ 8/245)
اس خط کے جواب میں عبدالرحمن عبدالخالق کی جانب سے دئے گئے جواب پر شیخ رحمہ اللہ نے مندرجہ ذیل جواب ارسال فرمایا:
عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز کی طرف سے حضرت فرزند مکرم فضیلۃ الشیخ عبدالرحمن بن عبدالخالق کے نام خط:
اللہ تعالی آپ کو اس کام کی توفیق دے جس میں اس کی رضا ہو اور آپ کے ذریعے اپنے دین کی نصرت فرمائے۔ آمین۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، امابعد:
مجھے آپ کا عمدہ جواب موصول ہوا اور اس میں آپ کی جانب سے میری کی گئی وصیت پر موافقت سے بہت خوشی ہوئی۔ اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ آپ کو مزید توفیق عنایت فرمائے اور ہمیں اور آپ کو بھٹکوں کو راہ دکھانے والا بنادے، بے شک وہ جواد وکریم ہے۔
جو حدیث([1]) آپ نے مظاہروں کے حق میں بیان کی ہے وہ ہم سمجھ چکے ہیں لیکن ہمارےعلم کے مطابق اس کی سندضعیف ہے، کیونکہ اس کا دارومدار اسحاق بن ابی فروہ پر ہے جبکہ (اس کے بارے میں علماء جرح وتعدیل کا کلام ہے کہ ) اس سے دلیل نہیں پکڑی جاسکتی۔ اور بالفرض اس روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے تو یہ ابتدائی اسلام اور قبل از ہجرت کی بات ہے جبکہ شریعت ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی۔
حالانکہ یہ بات کسی پر مخفی نہیں کہ امر ونہی اور تمام امور دین میں بعد ازہجرت جب تمام شریعت مقرر ہوگئی تھی کا اعتبار کیا جاتا ہے۔اور جو آپ نے جمعہ وعیدین اور اس جیسے دیگر اجتماعات جن کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو بلایا جیسے سورج گرہن ونماز استسقاء وغیرہ سے دلیل پکڑی ہے تو عرض ہے کہ یہ شعائرِ اسلام کے اظہار کے لئے تھا ان کا مظاہرات سے کوئی تعلق نہیں جیسا کہ کسی پر یہ امر مخفی نہیں۔
کیا حکومت مخالف #مظاہرات بھی دعوت کے وسائل میں سےہیں؟
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/kiya_hukumat_mukhalif_muzahiray_wasail_dawah_hain.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ رحمہ اللہ سے شعبان سن 1412ھ جدہ میں ایک آڈیو کیسٹ میں پوچھا گیا کہ : کیا مردوں اور عورتوں کے حکمران وحکومت مخالف مظاہرات (احتجاجی جلسے جلوس، ریلیاں، مارچ ودھرنے وغیرہ) بھی دعوتی وسائل میں سے ایک وسیلہ شمار ہوں گے؟ اور کیا اس مظاہرے میں مرنے والے فی سبیل اللہ شہید کہلائے جائیں گے؟
آپ رحمہ اللہ نے یہ جواب ارشاد فرمایا:
میں ان مردوزن کے مظاہرات کو مسئلے کا علاج نہیں سمجھتا بلکہ میرے خیال میں تو یہ اسباب شروفتن اور لوگوں کے آپس میں بغض وعداوت اور ایک دوسرے پر زیادتی کا سبب ہیں۔ جبکہ شرعی اسباب تو خط لکھنا، نصیحت کرنا اور ان شرعی طریقوں کو بروئے کار لاکر خیر کی جانب دعوت دینا جن کی اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورخیر کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والے اہل علم نے تشریح فرمائی ہے کہ خط لکھا جائے یا حاکم، امیر وسلطان سے بالمشافہ بات کی جائے، یا ٹیلی فون کے ذریعہ اسے نصیحت کی جائے، ناکہ منبر پر کھڑے ہوکر اس کی تشہیر کی جائے کہ اس نے یہ کیا اس سے یہ صادر ہوا وغیرہ، واللہ المستعان۔
اور آپ رحمہ اللہ نے عبدالرحمن عبدالخالق (سابق امیر جمعیت احیاء التراث، کویت) پر لکھے گئے ردکے دوران فرمایا:
چھٹی بات یہ کہ آپ نے اپنی کتاب میں ’’فصول من السیاسۃ الشرعیۃ‘‘ (شرعی سیاست سے متعلق فصول) ص 31، 32 میں ذکر کیا کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسالیبِ دعوت میں سے مظاہرات بھی تھے!حالانکہ مجھے اس معنی پر دلالت کرنی والی کوئی دلیل نہیں ملی، امید ہے کہ آپ کسی کے کلام کی جانب ہماری رہنمائی کریں گے یا کس کتاب میں آپ نے ایسا لکھا ہوا پایا ہے؟
بصورت دیگر اگر آپ کے پاس اس بارے میں کوئی مستند نہیں تو آپ پر اس مسئلے سے رجوع کرنا واجب ہے، کیونکہ میں نصوص میں سے کوئی ایسی نص نہیں پاتا جو اس پر دلالت کرتی ہو۔ خاص طور پرجبکہ یہ بات معلوم ہے کہ ان مظاہرات سے بہت سے مفاسد جنم لیتے ہیں بایں صورت اگر واقعی کوئی صحیح دلیل اس بارے میں موجود ہے تو اسے مکمل وضاحت کے ساتھ بیان کرنا ضروری ہے تاکہ کم از کم فسادی لوگ اپنے باطل مظاہرات کی ترویج تو نہ کریں۔
اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ ہمیں اور آپ کو علم نافع اور عمل صالح کی توفیق عنایت فرمائے۔ اور یہ کہ وہ ہمارے دلوں اور اعمال کی اصلاح فرمادے۔ اور ہمیں بھٹکوں کو راہ ہدایت دکھانے والا بنادے۔ بے شک وہ جواد وکریم ہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
(مجموع فتاوی سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ 8/245)
اس خط کے جواب میں عبدالرحمن عبدالخالق کی جانب سے دئے گئے جواب پر شیخ رحمہ اللہ نے مندرجہ ذیل جواب ارسال فرمایا:
عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز کی طرف سے حضرت فرزند مکرم فضیلۃ الشیخ عبدالرحمن بن عبدالخالق کے نام خط:
اللہ تعالی آپ کو اس کام کی توفیق دے جس میں اس کی رضا ہو اور آپ کے ذریعے اپنے دین کی نصرت فرمائے۔ آمین۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، امابعد:
مجھے آپ کا عمدہ جواب موصول ہوا اور اس میں آپ کی جانب سے میری کی گئی وصیت پر موافقت سے بہت خوشی ہوئی۔ اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ آپ کو مزید توفیق عنایت فرمائے اور ہمیں اور آپ کو بھٹکوں کو راہ دکھانے والا بنادے، بے شک وہ جواد وکریم ہے۔
جو حدیث([1]) آپ نے مظاہروں کے حق میں بیان کی ہے وہ ہم سمجھ چکے ہیں لیکن ہمارےعلم کے مطابق اس کی سندضعیف ہے، کیونکہ اس کا دارومدار اسحاق بن ابی فروہ پر ہے جبکہ (اس کے بارے میں علماء جرح وتعدیل کا کلام ہے کہ ) اس سے دلیل نہیں پکڑی جاسکتی۔ اور بالفرض اس روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے تو یہ ابتدائی اسلام اور قبل از ہجرت کی بات ہے جبکہ شریعت ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی۔
حالانکہ یہ بات کسی پر مخفی نہیں کہ امر ونہی اور تمام امور دین میں بعد ازہجرت جب تمام شریعت مقرر ہوگئی تھی کا اعتبار کیا جاتا ہے۔اور جو آپ نے جمعہ وعیدین اور اس جیسے دیگر اجتماعات جن کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو بلایا جیسے سورج گرہن ونماز استسقاء وغیرہ سے دلیل پکڑی ہے تو عرض ہے کہ یہ شعائرِ اسلام کے اظہار کے لئے تھا ان کا مظاہرات سے کوئی تعلق نہیں جیسا کہ کسی پر یہ امر مخفی نہیں۔
اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ مجھے ، آپ کو اور تمام بھائیوں کو مزید علم نافع اور عمل صالح سے بہرہ ور فرمائے۔ اور ہمارے قلوب واعمال کی اصلاح فرمادے۔ اور ہمیں، آپ کو اور تمام مسلمانوں کو فتنوں کی گمراہیاں اور شیطان کے وساوس سے محفوظ فرمائے۔ بے شک وہ ہی سوال کئے جانے والوں میں سے سب سے بہتر ہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
(مجموع فتاوی سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ 8/246)
[1] مکمل حدیث یہ ہے ابو نعیم نے الحلیۃ (1/40)میں بیان کیا کہ: ’’أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج بعد إسلام عمر – رضي الله عنه – على رأس صفين من أصحابه، وعلى الأول منهما عمر – رضي الله عنه -، وعلى الثاني حمزة – رضي الله عنه – رغبة في إظهار قوة المسلمين، فعلمت قريش أن لهم منعة‘‘ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے بعد اپنے صحابہ کی دوصفوں کی قیادت کرتے ہوئے نکلے پہلی صف کی سربراہی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کررہے تھے جبکہ دوسری کی سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کررہے تھے تاکہ مسلمانوں کی قوت وشوکت کو ظاہر کریں، پس قریش پر ان کی قوت وشوکت کی دھاک بیٹھ گئی کہ اب ہمیں دست درازی اور ایذاء رسانی سے روکنے والے آگئے ہیں)۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
(مجموع فتاوی سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ 8/246)
[1] مکمل حدیث یہ ہے ابو نعیم نے الحلیۃ (1/40)میں بیان کیا کہ: ’’أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج بعد إسلام عمر – رضي الله عنه – على رأس صفين من أصحابه، وعلى الأول منهما عمر – رضي الله عنه -، وعلى الثاني حمزة – رضي الله عنه – رغبة في إظهار قوة المسلمين، فعلمت قريش أن لهم منعة‘‘ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے بعد اپنے صحابہ کی دوصفوں کی قیادت کرتے ہوئے نکلے پہلی صف کی سربراہی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کررہے تھے جبکہ دوسری کی سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کررہے تھے تاکہ مسلمانوں کی قوت وشوکت کو ظاہر کریں، پس قریش پر ان کی قوت وشوکت کی دھاک بیٹھ گئی کہ اب ہمیں دست درازی اور ایذاء رسانی سے روکنے والے آگئے ہیں)۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding sending Salah (#Durood) upon the messengers other than Rasoolullaah (صلى الله عليه وسلم) and the rest of the believers? - Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ دیگر انبیاء کرام اور ان کے علاوہ مومنین پر #درود بھیجنا کیسا ہے؟
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوی نور علی الدرب آرٹیکل 654۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/anbiyah_momineen_durood.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: محمد جمیل حسین مصطفی جمہوریہ عراق سے پوچھتے ہیں کہ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ دیگر انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے اوپردرود بھیجا جاسکتا ہے؟
جواب: جی ہاں، دیگر انبیاء کرام کے اوپر بھی درود بھیجنا جائز ہے ہم کہتے ہیں علیہم الصلاۃ والسلام۔ بلکہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے علاوہ بھی دیگر مومنین جو انہی کے تحت وتابع آتے ہوں پر بھی درود بھیجنا جائز ہے جو کہ نص اور اجماع سے ثابت ہے ۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت فرمایا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ہم کس طرح سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ‘‘ ([1])
(اے اللہ تو درود بھیج محمد پر اور آل محمد پر جیسا کہ تو نے درود بھیجا ابراہیم پر اور آل ابراہیم پر، بے شک تو ہی قابل تعریف وبزرگی والا ہے)۔
اور اس جملے میں آل نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت کے تابع ہیں آپ کے رشتہ داروں میں سے ہوں یا ان کے علاوہ بھی، یہی راجح قول ہے۔ اگرچہ اس میں اول و اولیٰ وہ ہیں جو مومنین میں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رشتہ دار ہیں لیکن اس کے باوجود یہ ان تمام کو شامل ہیں جو آپ کی اتباع کرتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاتے ہیں۔ کیونکہ وہ سب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گروہ میں سے ہیں([2])۔ لہذا انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کے علاوہ ان کے تابع آنے والوں پر بھی درود جائز ہے جو نص اور اجماع سے ثابت ہے۔ لیکن انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے علاوہ کسی پر تابع ہونے سے ہٹ کر مستقل طور پر درود بھیجنے کے بارے میں علماء کرام میں اختلاف ہےکہ آیا یہ جائز ہے کہ نہیں۔ جبکہ صحیح بات یہی ہے کہ یہ جائز ہے کسی مومن شخص کے لیے کہا جائے صلی اللہ علیہ۔ کیونکہ اللہ تعالی نے خود اپنےنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ حکم فرمایا:
﴿خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَـةً تُطَهِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ﴾ (التوبۃ:103)
(آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کر دیں اور ان پر صلاۃ (درود) بھیجیں)
پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حکم کی تعمیل میں جو بھی اپنی زکوٰۃ لاتا اس پر درود بھیجتے اور جب وہ اپنے صدقات لے کر آتے ایسے کہتے کہ:
’’اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى آلِ أَبِي أَوْفَى‘‘ ([3])
(اے اللہ تو آل ابی اوفیٰ پر درود بھیج)۔
البتہ جو چیز ممنوع ہے وہ یہ کہ اسے کسی معین شخص کا باقاعدہ شعار بنادیا جائے کہ جب بھی اس کا نام لیا جائے تو صلی اللہ علیہ کہا جائے۔ تو ایسا انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں۔ مثلاً ہم جب بھی ابوبکررضی اللہ عنہ کا ذکر کریں تو کہیں صلی اللہ علیہ، یا جب بھی عمررضی اللہ عنہ کا ذکر کریں تو صلی اللہ علیہ کہیں، یا پھر جب بھی عثمان کا ذکر کریں تو صلی اللہ علیہ کہ،یں اسی طرح سے جب بھی علیرضی اللہ عنہ کا ذکر کریں تو صلی اللہ علیہ کہیں ، ایسا کرنا جائز نہیں۔ ہمارے لیے جائز نہیں کہ ہم اسے کسی معین شخص کا شعار بنادیں۔
[1] صحیح بخاری 3370۔
[2] جیسا کہ فرعون کے تابعداروں کو اللہ تعالی نے آل فرعون کہا حالانکہ وہ اس کے رشتہ دار یا اولاد میں سے نہیں تھے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[3] صحیح بخاری 6332۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ دیگر انبیاء کرام اور ان کے علاوہ مومنین پر #درود بھیجنا کیسا ہے؟
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوی نور علی الدرب آرٹیکل 654۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/anbiyah_momineen_durood.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: محمد جمیل حسین مصطفی جمہوریہ عراق سے پوچھتے ہیں کہ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ دیگر انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے اوپردرود بھیجا جاسکتا ہے؟
جواب: جی ہاں، دیگر انبیاء کرام کے اوپر بھی درود بھیجنا جائز ہے ہم کہتے ہیں علیہم الصلاۃ والسلام۔ بلکہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے علاوہ بھی دیگر مومنین جو انہی کے تحت وتابع آتے ہوں پر بھی درود بھیجنا جائز ہے جو کہ نص اور اجماع سے ثابت ہے ۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت فرمایا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ہم کس طرح سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ‘‘ ([1])
(اے اللہ تو درود بھیج محمد پر اور آل محمد پر جیسا کہ تو نے درود بھیجا ابراہیم پر اور آل ابراہیم پر، بے شک تو ہی قابل تعریف وبزرگی والا ہے)۔
اور اس جملے میں آل نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت کے تابع ہیں آپ کے رشتہ داروں میں سے ہوں یا ان کے علاوہ بھی، یہی راجح قول ہے۔ اگرچہ اس میں اول و اولیٰ وہ ہیں جو مومنین میں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رشتہ دار ہیں لیکن اس کے باوجود یہ ان تمام کو شامل ہیں جو آپ کی اتباع کرتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاتے ہیں۔ کیونکہ وہ سب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گروہ میں سے ہیں([2])۔ لہذا انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کے علاوہ ان کے تابع آنے والوں پر بھی درود جائز ہے جو نص اور اجماع سے ثابت ہے۔ لیکن انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے علاوہ کسی پر تابع ہونے سے ہٹ کر مستقل طور پر درود بھیجنے کے بارے میں علماء کرام میں اختلاف ہےکہ آیا یہ جائز ہے کہ نہیں۔ جبکہ صحیح بات یہی ہے کہ یہ جائز ہے کسی مومن شخص کے لیے کہا جائے صلی اللہ علیہ۔ کیونکہ اللہ تعالی نے خود اپنےنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ حکم فرمایا:
﴿خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَـةً تُطَهِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ﴾ (التوبۃ:103)
(آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کر دیں اور ان پر صلاۃ (درود) بھیجیں)
پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حکم کی تعمیل میں جو بھی اپنی زکوٰۃ لاتا اس پر درود بھیجتے اور جب وہ اپنے صدقات لے کر آتے ایسے کہتے کہ:
’’اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى آلِ أَبِي أَوْفَى‘‘ ([3])
(اے اللہ تو آل ابی اوفیٰ پر درود بھیج)۔
البتہ جو چیز ممنوع ہے وہ یہ کہ اسے کسی معین شخص کا باقاعدہ شعار بنادیا جائے کہ جب بھی اس کا نام لیا جائے تو صلی اللہ علیہ کہا جائے۔ تو ایسا انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں۔ مثلاً ہم جب بھی ابوبکررضی اللہ عنہ کا ذکر کریں تو کہیں صلی اللہ علیہ، یا جب بھی عمررضی اللہ عنہ کا ذکر کریں تو صلی اللہ علیہ کہیں، یا پھر جب بھی عثمان کا ذکر کریں تو صلی اللہ علیہ کہ،یں اسی طرح سے جب بھی علیرضی اللہ عنہ کا ذکر کریں تو صلی اللہ علیہ کہیں ، ایسا کرنا جائز نہیں۔ ہمارے لیے جائز نہیں کہ ہم اسے کسی معین شخص کا شعار بنادیں۔
[1] صحیح بخاری 3370۔
[2] جیسا کہ فرعون کے تابعداروں کو اللہ تعالی نے آل فرعون کہا حالانکہ وہ اس کے رشتہ دار یا اولاد میں سے نہیں تھے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[3] صحیح بخاری 6332۔
[#SalafiUrduDawah Article] #Hanging_Quranic_Verses, Names of Allaah and Rasoolullaah on the walls? - Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#دیوار_پر_قرآنی_آیات،اسمائے الہی واسمائے نبی آویزاں کرنا
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوی نور علی الدرب آرٹیکل 653۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/ayaat_asma_ilhaee_nabi_dewar_per.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: یہ خط موصول ہوئے ہیں۔ سب سے پہلا خط مخلصین جناب عبداللہ بن محمد احمد (الریاض)، منظور احمد قریشی اور احمد حسین کی طرف سے ہے، یہ بھائی کہتے ہیں کہ ایسے کارڈ ملتے ہیں کہ جن پر اللہ کا اسم جلالہ لکھا ہوتا ہے جیسا کہ اس خط کی ایک جانب لکھا ہوا ہے۔ اوراس خط میں غلاف کعبہ کی بھی ایک تصویر ہے کہ جس پر کتاب اللہ کی آیات لکھی ہوئی ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایسے لوگ اسے زمین پر پھینک دیتے ہيں جو اسلام کو جانتے ہی نہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو بس اشارے کے لیے ہے آپ اس کی خریدوفروخت کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ یا یہ کس کی ذمہ داری ہے؟
جواب: الحمدللہ یہ مسئلہ مختلف طریقوں سے لوگوں میں بہت پھیل گیاہے۔ جن میں سے کچھ ایسے کارڈز یا فریم ہوتے ہیں کہ جن میں اللہ تعالی کا اسم مبارک ہوتا ہے اور کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں اللہ کے نام کے ساتھ دوسری جانب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم گرامی لکھا ہوتا ہے۔پھر ان فریمز کودیوار پر یا بورڈوغیرہ پر بالکل متوازی طور پر ساتھ ساتھ آویزاں کردیا جاتا ہے۔ ہم سب سے پہلے اس تصویر کے بارے میں بات کرتے ہیں:
اولاً: فقط اللہ تعالی کا نام یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لٹکانے کا آخر کیا فائدہ ہے؟ اگر انسان یہ گمان کرتا ہے کہ اس سے حصول برکت کا فائدہ ہوگا ۔ تو جاننا چاہیے کہ برکت اس قسم کے عمل سے حاصل نہیں ہوتی۔ کیونکہ یہ تو کوئی مفید جملہ نہیں کہ جس سے ایسا معنی کشید کیا جاسکے جو حصول برکت کا سبب ہو([1])۔
دوسری بات یہ کہ اس طرح سے برکت حاصل کرنا صحیح نہیں۔کیونکہ اسمائے الہی سے تبرک حاصل کرنا اسی طور پر ممکن ہے کہ جو قرآن وسنت میں وارد ہو۔ کیونکہ یہ ایک عبادت ہے اور عبادت کی بنیاد توقیف (یعنی کتاب وسنت کے دلائل) ہے۔
پھر جو صورت ہم نے ابھی بیان کی کہ ایک طرف اللہ تعالی کا اسم جلالہ ہوتا ہے تو دوسری طرف بلکل متوازی اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا ہوتا ہے، اس میں اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مابین ایک قسم کی تشریک وموازنت پائی جاتی ہے۔ جبکہ یہ بات جائز نہیں کیونکہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہا کہ:
’’ مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِئْتَ‘‘
(جو اللہ تعالی اور آپ چاہیں)۔
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے ٹوکا اور فرمایا:
’’أَجَعَلْتَنِي لِلَّهِ نِدًّا، بَلْ مَا شَاءَ اللَّهُ وَحْدَهُ‘‘ ([2])
(کیا تو نے مجھے اللہ تعالی کا ساجھی بنالیا ہے، بلکہ کہہ جو اکیلا اللہ تعالی چاہے)۔
پھر یہ بات بھی ہے کہ برکت کے لیے محض نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لکھ دینا جائز نہیں، بلکہ برکت تو شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے التزام اور اس پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔
لہذا یہ تصویر جو لوگ کارڈز میں استعمال کرتے ہيں واضح ہوا کہ اس میں شرعی مخالفت پائی جاتی ہے۔
جبکہ جہاں تک معاملہ ہے دوسری تصویر کا جس کی جانب سائل بھائی نے اشارہ کیا تو اس کا جواز بھی محل نظر ہے کیونکہ قرآن کریم کو کاغذ یا بورڈ پر لکھنے کے بارے میں اصل یہی ہے کہ یہ جائز ہے۔لیکن اسے گھروں کی دیواروں پر لٹکانے کے بارے میں سلف صالحین رحمہم اللہ سے کوئی رہنمائی نہیں ملتی۔ نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے، نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اور نا ہی تابعین عظام رحمہم اللہ سے۔ اور میں باقاعدہ تحدید کے ساتھ تو نہیں جانتا کہ یہ بدعت کب ایجاد ہوئی مگر درحقیقت یہ ایک بدعت ہی ہے۔ کیونکہ قرآن مجید اس لیے نازل ہوا ہے کہ اس کی تلاوت کی جائے نہ کے اس کی دیوار وغیرہ پر تعلیق کی جائے یعنی لٹکایاجائے۔
پھر اس کا دیوار پر لٹکانا اس میں اس مفسدے کے ساتھ کے یہ سلف صالحین سے وارد نہیں ایک اور مفسدہ ہے کہ انسان اسے لٹکا کر اسی پر اعتماد کرکے بیٹھ جاتا ہے اور سمجھتا ہے یہ حفاظت کا سبب ہے۔ جس کی وجہ سے وہ حقیقی اور صحیح طور پر حفاظت کے لیے جو اذکار ہیں ان سے بے نیاز وبےپراوہ ہوجاتا ہےجو کہ زبان سے تلاوت کرنا ہے۔ کیونکہ یہی نافع حفاظت کا ذریعہ ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آیۃ الکرسی کے بارے میں فرمایا:
’’من قرأها في ليلة لم يزل عليه من الله حافظ ولا يقربه شيطان حتى يصبح‘‘ ([3])
#دیوار_پر_قرآنی_آیات،اسمائے الہی واسمائے نبی آویزاں کرنا
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوی نور علی الدرب آرٹیکل 653۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/ayaat_asma_ilhaee_nabi_dewar_per.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: یہ خط موصول ہوئے ہیں۔ سب سے پہلا خط مخلصین جناب عبداللہ بن محمد احمد (الریاض)، منظور احمد قریشی اور احمد حسین کی طرف سے ہے، یہ بھائی کہتے ہیں کہ ایسے کارڈ ملتے ہیں کہ جن پر اللہ کا اسم جلالہ لکھا ہوتا ہے جیسا کہ اس خط کی ایک جانب لکھا ہوا ہے۔ اوراس خط میں غلاف کعبہ کی بھی ایک تصویر ہے کہ جس پر کتاب اللہ کی آیات لکھی ہوئی ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایسے لوگ اسے زمین پر پھینک دیتے ہيں جو اسلام کو جانتے ہی نہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو بس اشارے کے لیے ہے آپ اس کی خریدوفروخت کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ یا یہ کس کی ذمہ داری ہے؟
جواب: الحمدللہ یہ مسئلہ مختلف طریقوں سے لوگوں میں بہت پھیل گیاہے۔ جن میں سے کچھ ایسے کارڈز یا فریم ہوتے ہیں کہ جن میں اللہ تعالی کا اسم مبارک ہوتا ہے اور کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں اللہ کے نام کے ساتھ دوسری جانب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم گرامی لکھا ہوتا ہے۔پھر ان فریمز کودیوار پر یا بورڈوغیرہ پر بالکل متوازی طور پر ساتھ ساتھ آویزاں کردیا جاتا ہے۔ ہم سب سے پہلے اس تصویر کے بارے میں بات کرتے ہیں:
اولاً: فقط اللہ تعالی کا نام یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لٹکانے کا آخر کیا فائدہ ہے؟ اگر انسان یہ گمان کرتا ہے کہ اس سے حصول برکت کا فائدہ ہوگا ۔ تو جاننا چاہیے کہ برکت اس قسم کے عمل سے حاصل نہیں ہوتی۔ کیونکہ یہ تو کوئی مفید جملہ نہیں کہ جس سے ایسا معنی کشید کیا جاسکے جو حصول برکت کا سبب ہو([1])۔
دوسری بات یہ کہ اس طرح سے برکت حاصل کرنا صحیح نہیں۔کیونکہ اسمائے الہی سے تبرک حاصل کرنا اسی طور پر ممکن ہے کہ جو قرآن وسنت میں وارد ہو۔ کیونکہ یہ ایک عبادت ہے اور عبادت کی بنیاد توقیف (یعنی کتاب وسنت کے دلائل) ہے۔
پھر جو صورت ہم نے ابھی بیان کی کہ ایک طرف اللہ تعالی کا اسم جلالہ ہوتا ہے تو دوسری طرف بلکل متوازی اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا ہوتا ہے، اس میں اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مابین ایک قسم کی تشریک وموازنت پائی جاتی ہے۔ جبکہ یہ بات جائز نہیں کیونکہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہا کہ:
’’ مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِئْتَ‘‘
(جو اللہ تعالی اور آپ چاہیں)۔
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے ٹوکا اور فرمایا:
’’أَجَعَلْتَنِي لِلَّهِ نِدًّا، بَلْ مَا شَاءَ اللَّهُ وَحْدَهُ‘‘ ([2])
(کیا تو نے مجھے اللہ تعالی کا ساجھی بنالیا ہے، بلکہ کہہ جو اکیلا اللہ تعالی چاہے)۔
پھر یہ بات بھی ہے کہ برکت کے لیے محض نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لکھ دینا جائز نہیں، بلکہ برکت تو شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے التزام اور اس پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔
لہذا یہ تصویر جو لوگ کارڈز میں استعمال کرتے ہيں واضح ہوا کہ اس میں شرعی مخالفت پائی جاتی ہے۔
جبکہ جہاں تک معاملہ ہے دوسری تصویر کا جس کی جانب سائل بھائی نے اشارہ کیا تو اس کا جواز بھی محل نظر ہے کیونکہ قرآن کریم کو کاغذ یا بورڈ پر لکھنے کے بارے میں اصل یہی ہے کہ یہ جائز ہے۔لیکن اسے گھروں کی دیواروں پر لٹکانے کے بارے میں سلف صالحین رحمہم اللہ سے کوئی رہنمائی نہیں ملتی۔ نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے، نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اور نا ہی تابعین عظام رحمہم اللہ سے۔ اور میں باقاعدہ تحدید کے ساتھ تو نہیں جانتا کہ یہ بدعت کب ایجاد ہوئی مگر درحقیقت یہ ایک بدعت ہی ہے۔ کیونکہ قرآن مجید اس لیے نازل ہوا ہے کہ اس کی تلاوت کی جائے نہ کے اس کی دیوار وغیرہ پر تعلیق کی جائے یعنی لٹکایاجائے۔
پھر اس کا دیوار پر لٹکانا اس میں اس مفسدے کے ساتھ کے یہ سلف صالحین سے وارد نہیں ایک اور مفسدہ ہے کہ انسان اسے لٹکا کر اسی پر اعتماد کرکے بیٹھ جاتا ہے اور سمجھتا ہے یہ حفاظت کا سبب ہے۔ جس کی وجہ سے وہ حقیقی اور صحیح طور پر حفاظت کے لیے جو اذکار ہیں ان سے بے نیاز وبےپراوہ ہوجاتا ہےجو کہ زبان سے تلاوت کرنا ہے۔ کیونکہ یہی نافع حفاظت کا ذریعہ ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آیۃ الکرسی کے بارے میں فرمایا:
’’من قرأها في ليلة لم يزل عليه من الله حافظ ولا يقربه شيطان حتى يصبح‘‘ ([3])
(جو اسے رات کو پڑھے گا تو اس کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے ایک محافظ مقرر ہوجائے گااور شیطان اس کے قریب نہیں آسکے گا یہاں تک کہ صبح ہوجائے)۔
اب اگر انسان کے اندر یہ شعور پیدا ہوجائے کہ ان آیات کو دیوار پر لٹکانے سے اس کی حفاظت ہوگی تو وہ محسوس کرے گا کہ اسے اب ان کی تلاوت کی ضرورت نہیں۔
پھر اس میں یہ عیب بھی ہے کہ اس میں ایک قسم کا اللہ تعالی کی آیتوں کا مذاق بنانابھی ہے۔ کیونکہ ایسی مجالس غالباً حرام اقوال جیسے غیبت، گالم گلوچ یا حرام کاموں سے پاک نہیں ہوتیں بلکہ یہ تک ہوتا ہے کہ ایسی مجالس میں آلات موسیقی موجود ہوتے ہیں کہ جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہے([4])۔ پس یہ سب باتیں موجود ہوتی ہیں اور لوگوں کے سروں پر قرآنی آیات معلق ہوتی ہیں تو گویا کہ یہ اس کا مذاق اڑانا ہوا، کیونکہ قرآن کریم نے تو ان اشیاء کو حرام قرار دیا ہے۔ خواہ جو آیت اوپر لٹکی ہے وہ اس ہونے والی برائی سے رکنے کے متعلق ہو یا کوئی بھی قرآنی آیت ہو۔ یہ بلاشبہ ایک طرح کا اللہ تعالی کی آیات کے ساتھ تمسخر کرنا ہوا۔
اسی لیے میں اپنے مسلمان بھائیوں کو یہ نصیحت کروں گا کہ ایسی تعلیقات کے استعمال سے دور رہیں چاہے وہ اسمائے الہی ہوں، یا اسمائے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں یا پھر آیات قرآنی ہوں۔ بلکہ وہی چیز استعمال کریں جو ان کے سلف صالحین نے استعمال کی تھیں کہ اسی میں خیروبرکت ہے۔
اور وہ دوسری بات جس کی طرف بھائی نے اشارہ کیا کہ ان کارڈز کو جن پر قرآنی آیات لکھی ہوتی ہیں بازاروں میں، کوڑا دانوں میں اور جہاں آنے جانے والے لوگوں کے قدم پڑیں وہاں پھینک دیتے ہیں تو یہ بالکل ناجائز ہے۔ کیونکہ اس میں قرآن کریم کی اہانت آمیزی ہے۔ لیکن اس کے ذمہ دار وہ ہیں جنہوں نے اپنے ہاتھ سے اسے پھینکا ہے جبکہ اسے فروخت کرنے والےکو اگر یہ معلوم ہے کہ غالباً اس کے ساتھ یہی سلوک کیا جاتا ہے تو یہ اس کی خریدوفروخت اور تجارت کی حرمت کا سبب ہوگا۔ کیونکہ یہ ایک شرعی قاعدہ ہے کہ اگر کوئی عقد (کاروباری معاملہ) لازمی یا غالباً وسیلہ ہو کسی حرام چیز کا تو ایسا عقد بھی حرام ہوجاتا ہے کیونکہ یہ برائی اور گناہ کے کاموں میں تعاون کے باب میں سے ہے۔ میرا خیال ہے اس سوال کا جواب ختم ہوا۔
جہاں تک تعلق ہے مریض کے گلے میں شفاء کی غرض سے قرآنی آیات کی تعلیق (تعویذ) کا چاہے مرض جسمانی ہو یا نفسیاتی تو یہ مسئلہ سلف اور خلف میں مختلف فیہ رہا ہے۔ کچھ علماء اس کی اجازت دیتے ہیں کیونکہ اس سے مریض کو نفسیاتی طور پر راحت ملتی ہے کہ اس نے کلام اللہ کو پہنا ہوا ہے ۔ اور کسی مریض کا ایسی چیز کا شعور کرنے یا اپنے پاس محسوس کرنے کی اپنی تاثیر ہوتی ہے مرض کو زیادہ یا کم یا بالکل ختم کرنے میں، جیسا کہ یہ بات معلوم ہے۔
اور علماء میں سے بعض نے اسے منع فرمایا ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شفاء کے لیے تعویذ لٹکانا ثابت نہیں بلکہ مریض کو شفاء جو قرأت کتاب وسنت میں وارد ہوئی ہے اسے تلاوت کرنے سے ہوگی۔ اور اگر شارع کی جانب سے کسی چیز کو سبب نہ بنایا گیا ہو تو اسے بلادلیل سبب ثابت کرناایک قسم کا شرک ہے۔ کیونکہ ہمارے لیے یہ جائز نہیں کہ ہم کہیں کہ فلاں چیز سبب ہے الا یہ کہ اس بارے میں ہمارے پاس شریعت سے دلیل ہو ۔ اب اگر ہم کسی چیز کا سبب ہونا ثابت کرتے ہیں تو اس کا معنی ہے کہ ہم نےایک ایسا نیا کام ایجاد کیا جو کہ شریعت میں نہیں تھا اور یہ شرک کی ایک قسم ہے۔
[1] یا جیسے لوگ دکان ومکان میں خیر وبرکت کے لیے نقشہ لوح قرآنی آویزاں کرتے ہیں جس میں محض حروف مقطعات جیسےالم، حم، عسق وغیرہ لکھے ہوتے ہیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] مسند احمد 2557، السلسلۃ الصحیحۃ 1/266۔
[3] صحیح البخاری 5010 کے الفاظ ہیں کہ شیطان نے پکڑے جانے پر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ بات بتائی تھی کہ:
’’ إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشِكَ فَاقْرَأْ آيَةَ الْكُرْسِيِّ، لَنْ يَزَالَ مَعَكَ مِنَ اللَّهِ حَافِظٌ وَلَا يَقْرَبُكَ شَيْطَانٌ حَتَّى تُصْبِحَ ‘‘
(جب تم اپنے بسترے پر آؤ تو آیۃ الکرسی کی تلاوت کرو، تمہارے لیے اللہ تعالی کی طرف سے ہمیشہ ایک محافظ مقرر ہوجائے گا اور شیطان تمہارے قریب نہ آسکے گا یہاں تک کہ تم صبح کرو)۔
جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’صَدَقَكَ وَهُوَ كَذُوبٌ ذَاكَ شَيْطَانٌ‘‘
(اس نے تجھ سے سچ کہا حالانکہ وہ بہت بڑا جھوٹا ہے،وہ شیطان تھا)۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[4] ہمارے یہاں تو فسق وفجور، برائی فحاشی ونشے کے اڈوں تک پر اوپر "ماشاء اللہ" اور مختلف آیات معلق ہوتی ہیں۔ اللہ تعالی ہدایت دے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
اب اگر انسان کے اندر یہ شعور پیدا ہوجائے کہ ان آیات کو دیوار پر لٹکانے سے اس کی حفاظت ہوگی تو وہ محسوس کرے گا کہ اسے اب ان کی تلاوت کی ضرورت نہیں۔
پھر اس میں یہ عیب بھی ہے کہ اس میں ایک قسم کا اللہ تعالی کی آیتوں کا مذاق بنانابھی ہے۔ کیونکہ ایسی مجالس غالباً حرام اقوال جیسے غیبت، گالم گلوچ یا حرام کاموں سے پاک نہیں ہوتیں بلکہ یہ تک ہوتا ہے کہ ایسی مجالس میں آلات موسیقی موجود ہوتے ہیں کہ جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہے([4])۔ پس یہ سب باتیں موجود ہوتی ہیں اور لوگوں کے سروں پر قرآنی آیات معلق ہوتی ہیں تو گویا کہ یہ اس کا مذاق اڑانا ہوا، کیونکہ قرآن کریم نے تو ان اشیاء کو حرام قرار دیا ہے۔ خواہ جو آیت اوپر لٹکی ہے وہ اس ہونے والی برائی سے رکنے کے متعلق ہو یا کوئی بھی قرآنی آیت ہو۔ یہ بلاشبہ ایک طرح کا اللہ تعالی کی آیات کے ساتھ تمسخر کرنا ہوا۔
اسی لیے میں اپنے مسلمان بھائیوں کو یہ نصیحت کروں گا کہ ایسی تعلیقات کے استعمال سے دور رہیں چاہے وہ اسمائے الہی ہوں، یا اسمائے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں یا پھر آیات قرآنی ہوں۔ بلکہ وہی چیز استعمال کریں جو ان کے سلف صالحین نے استعمال کی تھیں کہ اسی میں خیروبرکت ہے۔
اور وہ دوسری بات جس کی طرف بھائی نے اشارہ کیا کہ ان کارڈز کو جن پر قرآنی آیات لکھی ہوتی ہیں بازاروں میں، کوڑا دانوں میں اور جہاں آنے جانے والے لوگوں کے قدم پڑیں وہاں پھینک دیتے ہیں تو یہ بالکل ناجائز ہے۔ کیونکہ اس میں قرآن کریم کی اہانت آمیزی ہے۔ لیکن اس کے ذمہ دار وہ ہیں جنہوں نے اپنے ہاتھ سے اسے پھینکا ہے جبکہ اسے فروخت کرنے والےکو اگر یہ معلوم ہے کہ غالباً اس کے ساتھ یہی سلوک کیا جاتا ہے تو یہ اس کی خریدوفروخت اور تجارت کی حرمت کا سبب ہوگا۔ کیونکہ یہ ایک شرعی قاعدہ ہے کہ اگر کوئی عقد (کاروباری معاملہ) لازمی یا غالباً وسیلہ ہو کسی حرام چیز کا تو ایسا عقد بھی حرام ہوجاتا ہے کیونکہ یہ برائی اور گناہ کے کاموں میں تعاون کے باب میں سے ہے۔ میرا خیال ہے اس سوال کا جواب ختم ہوا۔
جہاں تک تعلق ہے مریض کے گلے میں شفاء کی غرض سے قرآنی آیات کی تعلیق (تعویذ) کا چاہے مرض جسمانی ہو یا نفسیاتی تو یہ مسئلہ سلف اور خلف میں مختلف فیہ رہا ہے۔ کچھ علماء اس کی اجازت دیتے ہیں کیونکہ اس سے مریض کو نفسیاتی طور پر راحت ملتی ہے کہ اس نے کلام اللہ کو پہنا ہوا ہے ۔ اور کسی مریض کا ایسی چیز کا شعور کرنے یا اپنے پاس محسوس کرنے کی اپنی تاثیر ہوتی ہے مرض کو زیادہ یا کم یا بالکل ختم کرنے میں، جیسا کہ یہ بات معلوم ہے۔
اور علماء میں سے بعض نے اسے منع فرمایا ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شفاء کے لیے تعویذ لٹکانا ثابت نہیں بلکہ مریض کو شفاء جو قرأت کتاب وسنت میں وارد ہوئی ہے اسے تلاوت کرنے سے ہوگی۔ اور اگر شارع کی جانب سے کسی چیز کو سبب نہ بنایا گیا ہو تو اسے بلادلیل سبب ثابت کرناایک قسم کا شرک ہے۔ کیونکہ ہمارے لیے یہ جائز نہیں کہ ہم کہیں کہ فلاں چیز سبب ہے الا یہ کہ اس بارے میں ہمارے پاس شریعت سے دلیل ہو ۔ اب اگر ہم کسی چیز کا سبب ہونا ثابت کرتے ہیں تو اس کا معنی ہے کہ ہم نےایک ایسا نیا کام ایجاد کیا جو کہ شریعت میں نہیں تھا اور یہ شرک کی ایک قسم ہے۔
[1] یا جیسے لوگ دکان ومکان میں خیر وبرکت کے لیے نقشہ لوح قرآنی آویزاں کرتے ہیں جس میں محض حروف مقطعات جیسےالم، حم، عسق وغیرہ لکھے ہوتے ہیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] مسند احمد 2557، السلسلۃ الصحیحۃ 1/266۔
[3] صحیح البخاری 5010 کے الفاظ ہیں کہ شیطان نے پکڑے جانے پر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ بات بتائی تھی کہ:
’’ إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشِكَ فَاقْرَأْ آيَةَ الْكُرْسِيِّ، لَنْ يَزَالَ مَعَكَ مِنَ اللَّهِ حَافِظٌ وَلَا يَقْرَبُكَ شَيْطَانٌ حَتَّى تُصْبِحَ ‘‘
(جب تم اپنے بسترے پر آؤ تو آیۃ الکرسی کی تلاوت کرو، تمہارے لیے اللہ تعالی کی طرف سے ہمیشہ ایک محافظ مقرر ہوجائے گا اور شیطان تمہارے قریب نہ آسکے گا یہاں تک کہ تم صبح کرو)۔
جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’صَدَقَكَ وَهُوَ كَذُوبٌ ذَاكَ شَيْطَانٌ‘‘
(اس نے تجھ سے سچ کہا حالانکہ وہ بہت بڑا جھوٹا ہے،وہ شیطان تھا)۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[4] ہمارے یہاں تو فسق وفجور، برائی فحاشی ونشے کے اڈوں تک پر اوپر "ماشاء اللہ" اور مختلف آیات معلق ہوتی ہیں۔ اللہ تعالی ہدایت دے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[#SalafiUrduDawah Article] Our prophet (salAllaaho alaihi wa sallam) is #Khaleelullaah – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم #خلیل_اللہ ہیں
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: القول المفيد على كتاب التوحيد
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/rasoolullaah_khaleelullaah_hain.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ ’’کتاب التوحید ‘‘ میں وارد صحیح مسلم کی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ سیدنا جندب بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہيں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کی وفات سے پانچ راتیں قبل یہ فرماتے ہوئے سنا:
’’إِنِّي أَبْرَأُ إِلَى اللَّهِ، أَنْ يَكُونَ لِي مِنْكُمْ خَلِيلٌ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى، قَدِ اتَّخَذَنِي خَلِيلًا، كَمَا اتَّخَذَ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ أُمَّتِي خَلِيلًا، لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا، أَلَا وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ، أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ، إِنِّي أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ ‘‘([1])
(میں اللہ تعالی کے سامنے اس بات سے دستبردار ہوتا ہوں کہ تم میں سے کوئی میرا خلیل ہو، کیونکہ بلاشبہ خود اللہ تعالی نے یقیناً مجھے اپنا خلیل بنایا جیسے اس نے سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کو اپنا خلیل بنایا تھا۔ اور اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو خلیل بناتا تو ضرور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیل بناتا۔ اور آگاہ رہو بلاشبہ جو تم سے پہلے گزر چکے ہيں وہ اپنے انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام اور صالحین کی قبروں کو مساجد بنالیتے تھے، خبردارپس تم قبروں کو مساجد نہ بنانا، بے شک میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں)۔
خلیل وہ ہوتا ہے جس کی محبت غایت درجے تک پہنچ جائے۔ کیونکہ اس کی محبت پورے تن بدن میں سرایت کرجاتی ہے۔ جیسا کہ شاعر اپنی محبوبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے:
قد تخللت مسلك الروح مني … وبذا سمي الخليل خليلا
اور ’’الخُلَّة‘‘ محبت کی سب سے عظیم اور اعلیٰ قسم ہے۔اور جتنا ہمیں علم ہے اس کے مطابق اللہ تعالی نے یہ کسی کے لیے ثابت نہيں فرمائی سوائے اپنی مخلوقات میں سے صرف دو شخصیات کے لیے، اور وہ ہیں:
1- سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام اپنے اس فرمان میں:
﴿وَاتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِيْمَ خَلِيْلًا﴾ (النساء: 125)
(اور اللہ تعالی نے ابراہیم کو اپنا خلیل بنالیا)۔
2- سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے ثابت ہے جو حدیث اوپر بیان ہوئی:
’’إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى، قَدِ اتَّخَذَنِي خَلِيلًا، كَمَا اتَّخَذَ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا‘‘
(بلاشبہ خود اللہ تعالی نے یقیناً مجھے اپنا خلیل بنایا جیسے اس نے سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کو اپنا خلیل بنایا تھا)۔
اس سے آپ پر وہ عظیم جہالت آشکارا ہوگی جو بعض عوام الناس کی زبان زد عام ہے کہ: سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام تو خلیل اللہ ہیں جبکہ ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حبیب اللہ ہیں! (وہ اپنے گمان میں سمجھ رہے ہوتے ہیں ہم نے زیادہ بڑے درجے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فائر کیا) حالانکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں تنقیص شان ہے۔کیونکہ اپنے اس قول کے ذریعے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا درجے سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام سے نیچے کررہے ہوتے ہیں۔ اور اس لیے بھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محض حبیب اللہ ثابت کررہے ہوتے ہیں حالانکہ اس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اور دیگر نیک لوگوں میں کیا فرق رہا، کیونکہ بلاشبہ اللہ تعالی تو محسنین اور صابرین سے بھی محبت کرتا ہے (جیساکہ قرآن کریم میں ہے یعنی وہ بھی حبیب اللہ ہیں) اور ان کے علاوہ دیگر لوگ بھی جن کے فعل کے ساتھ اللہ تعالی نے اپنی محبت کو جوڑا ہے۔ چناچہ ایسے لوگوں کی رائے کے مطابق تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اور دیگر لوگوں میں فرق ہی نہ ہوا۔ لیکن ہاں جو خلت کا درجہ ہے تو وہ اللہ تعالی نے سوائے سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کےاور کسی کے لیے ذکر نہيں فرمایا، اور ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں یہ خبر دی اپنے بارے میں کہ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اپنا خلیل بنایا ہے جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کو خلیل بنایا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم #خلیل_اللہ ہیں
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: القول المفيد على كتاب التوحيد
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/rasoolullaah_khaleelullaah_hain.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ ’’کتاب التوحید ‘‘ میں وارد صحیح مسلم کی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ سیدنا جندب بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہيں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کی وفات سے پانچ راتیں قبل یہ فرماتے ہوئے سنا:
’’إِنِّي أَبْرَأُ إِلَى اللَّهِ، أَنْ يَكُونَ لِي مِنْكُمْ خَلِيلٌ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى، قَدِ اتَّخَذَنِي خَلِيلًا، كَمَا اتَّخَذَ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ أُمَّتِي خَلِيلًا، لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا، أَلَا وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ، أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ، إِنِّي أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ ‘‘([1])
(میں اللہ تعالی کے سامنے اس بات سے دستبردار ہوتا ہوں کہ تم میں سے کوئی میرا خلیل ہو، کیونکہ بلاشبہ خود اللہ تعالی نے یقیناً مجھے اپنا خلیل بنایا جیسے اس نے سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کو اپنا خلیل بنایا تھا۔ اور اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو خلیل بناتا تو ضرور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیل بناتا۔ اور آگاہ رہو بلاشبہ جو تم سے پہلے گزر چکے ہيں وہ اپنے انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام اور صالحین کی قبروں کو مساجد بنالیتے تھے، خبردارپس تم قبروں کو مساجد نہ بنانا، بے شک میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں)۔
خلیل وہ ہوتا ہے جس کی محبت غایت درجے تک پہنچ جائے۔ کیونکہ اس کی محبت پورے تن بدن میں سرایت کرجاتی ہے۔ جیسا کہ شاعر اپنی محبوبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے:
قد تخللت مسلك الروح مني … وبذا سمي الخليل خليلا
اور ’’الخُلَّة‘‘ محبت کی سب سے عظیم اور اعلیٰ قسم ہے۔اور جتنا ہمیں علم ہے اس کے مطابق اللہ تعالی نے یہ کسی کے لیے ثابت نہيں فرمائی سوائے اپنی مخلوقات میں سے صرف دو شخصیات کے لیے، اور وہ ہیں:
1- سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام اپنے اس فرمان میں:
﴿وَاتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِيْمَ خَلِيْلًا﴾ (النساء: 125)
(اور اللہ تعالی نے ابراہیم کو اپنا خلیل بنالیا)۔
2- سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے ثابت ہے جو حدیث اوپر بیان ہوئی:
’’إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى، قَدِ اتَّخَذَنِي خَلِيلًا، كَمَا اتَّخَذَ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا‘‘
(بلاشبہ خود اللہ تعالی نے یقیناً مجھے اپنا خلیل بنایا جیسے اس نے سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کو اپنا خلیل بنایا تھا)۔
اس سے آپ پر وہ عظیم جہالت آشکارا ہوگی جو بعض عوام الناس کی زبان زد عام ہے کہ: سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام تو خلیل اللہ ہیں جبکہ ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حبیب اللہ ہیں! (وہ اپنے گمان میں سمجھ رہے ہوتے ہیں ہم نے زیادہ بڑے درجے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فائر کیا) حالانکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں تنقیص شان ہے۔کیونکہ اپنے اس قول کے ذریعے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا درجے سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام سے نیچے کررہے ہوتے ہیں۔ اور اس لیے بھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محض حبیب اللہ ثابت کررہے ہوتے ہیں حالانکہ اس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اور دیگر نیک لوگوں میں کیا فرق رہا، کیونکہ بلاشبہ اللہ تعالی تو محسنین اور صابرین سے بھی محبت کرتا ہے (جیساکہ قرآن کریم میں ہے یعنی وہ بھی حبیب اللہ ہیں) اور ان کے علاوہ دیگر لوگ بھی جن کے فعل کے ساتھ اللہ تعالی نے اپنی محبت کو جوڑا ہے۔ چناچہ ایسے لوگوں کی رائے کے مطابق تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اور دیگر لوگوں میں فرق ہی نہ ہوا۔ لیکن ہاں جو خلت کا درجہ ہے تو وہ اللہ تعالی نے سوائے سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کےاور کسی کے لیے ذکر نہيں فرمایا، اور ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں یہ خبر دی اپنے بارے میں کہ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اپنا خلیل بنایا ہے جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کو خلیل بنایا تھا۔
الغرض جو عوام الناس ہیں ان کا معاملہ بڑا مشکل ہے کہ وہ ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسی وصف سے یاد کرتے ہيں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حبیب اللہ ہیں، تو ہم ان سے کہتے ہیں: تم نے غلطی کی اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں تنقیص کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو خلیل اللہ ہیں۔ چناچہ اگر تم انہیں صرف محبت کی صفت سے موصوف کرتے ہو (یعنی حبیب اللہ) تو محبت کے غایت درجے (یعنی خلیل اللہ ہونے) سے نیچے لے آتے ہو۔
[1] صحیح مسلم 534۔
[1] صحیح مسلم 534۔
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding saying #Ya_Allaah! #Ya_Muhammad! - Shaykh #Rabee bin Hadee #Al_Madkhalee
#یا_اللہ ! #یا_محمد! لکھنے کا حکم
فضیلۃ الشیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ ربیع المدخلی کی آفیشل ویب سائٹ سے ماخوذ فتوی
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/ya_Allah_ya_muhammad_kehnay_ka_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: اکثر مساجد کے محرابوں پر لکھا ہوتا ’’یا اللہ، یامحمد‘‘ کیا اس قسم کی مساجد میں نماز پڑھنا جائز ہے؟
جواب: یہ وہ عام عادت ہے جو ہم نے پاکستان اور افغانستان میں دیکھی ہے، اور تو اور صد افسوس کی بات ہے کہ ہم نے مجاہدین کی گاڑیوں تک پر یہ لکھا ہوا دیکھا، اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو مجاہدین کہلاتے ہیں!وہ اس بارے میں کوئی نصیحت قبول نہیں کرتے اور اس قسم کے شرکیات پر مصر رہتے ہیں!ان کی دکانوں اور مساجد پر آپ یہ سب کچھ لکھا ہوا پائیں گے ’’یا اللہ، یا علی، یا غوث، یا حسین، یا عبدالقادر، یا فلاں یا فلاں‘‘ اور آخر تک جتنے شرکیات ہیں!
یہ غیراللہ سے استغاثہ (فریاد) ہے۔ اگر آپ کہیں یا محمد تو یہ اللہ تعالی کے ساتھ شرک ہے۔ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو اللہ تعالی کے رسول اور اس کے بندے ہیں۔ لہذا اگر آپ کہیں یا اللہ یا محمد اس کا مطلب تو یہ ہے کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالی کی برابری والا قرار دے دیا۔ رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو آئے ہی اس قسم کی بت پرستی کو ختم کرنے کے لیے تھے تاکہ ملت ابراہیمی کا دوبارہ سے قیام ہو۔ جس میں سرفہرست شرک کا خاتمہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا کو، دلوں کو، اذہان وعقول کو شرک کی نجاست سے پاک کرنے ہی تشریف لائے تھے۔اور ہمیں نصوص قرآن وسنت اور عملی تطبیقات کے ذریعہ خالص توحید کی تعلیم فرمائی۔ اور ہمیں پکی قبروں اور اوثان کو منہدم کرنےکاحکم فرمایا:
’’لَا تَشُدُّوا الرِّحَالَ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِي هَذَا، وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَالْمَسْجِدِ الْأَقْصَى‘‘([1])
(رقت سفر باندھ کر ثواب کی نیت سے سفر سوائے تین مساجد کے جائز نہیں (نا کسی قبر کے لیے اور نہ ہی کسی اور چیز کے لیے) 1- میری یہ مسجد (مسجدنبوی)، 2- مسجدالحرام اور3- مسجد اقصیٰ)۔
کیونکہ ان مساجد کو انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام نے توحید الہی اور دین کواللہ تعالی کے لیے خالص کردینے کی خاطر تعمیر فرمایا تھا۔
اور یہ حرکتیں تو مدینہ نبویہ میں بھی شروع کردی گئی تھیں، جیسا کہ ہم ان کی حقیقت کو جانتے ہیں اس سے آپ اہل بدعت کے مکرو فریب کا اندازہ کریں، لکھتے ہیں: ’’اللہ، محمد‘‘ جامعہ اسلامیہ میں ایک شخص جس کا نام سراج الرحمن زاملنی تھا جو کہ ابو الحسن ندوی کے تلامیذ میں سے تھا۔ پتہ نہیں میں نے اسے یہ بات اس حوالے سے کی کہ کینیا میں میں نے ایسا دیکھا تھا یا پھر یہی والی بات کہ اب تو مدینہ نبویہ میں بھی ایسی حرکتیں شروع ہوگئی ہیں، بہرحال اس نے مجھے بتایا کہ ابو الحسن ندوی ([2])کہتے ہیں یہ کلمہ کہ ’’اللہ، محمد‘‘ کفر ہے یعنی اس کا مطلب ہے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے برابری والے ہیں، یعنی کہ اللہ محمد ایک سے ہیں۔ حالانکہ درحقیقت نبی کریمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منزلت تو یہ ہے کہ لا إله إلاّ الله محمد رسول الله (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کے رسول ہیں) ,أشهد أن لا إله إلاّ الله وأشهد أنّ محمدا رسول الله (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں), أشهد أن لا إله إلاّ الله وأشهد أنّ محمدا عبده ورسوله (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:
’’لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَم ، إِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ فَقُولُوا: عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُه‘‘([3])
(دیکھو میری تعریف میں غلو نہ کرنا، جس طرح نصاریٰ نے ابن مریم کی تعریف میں غلو کیا ہے، بے شک میں تو صرف ایک بندہ ہی ہوں لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہا کرو)۔
میں نے جب کبھی بھی یہ شرکیہ مظاہر دیکھے تو ان سے لڑا، اگر کسی مسجد میں دیکھا تو امامِ مسجد کو نصیحت کی۔ مسجد قبلتین مسجد عمودی میں میں نے امام سے بات کی لیکن اس نے کچھ نہ کیا! میں نے عمودی جو کہ صاحبِ مسجد ہیں سے بات کی تو انہوں نے فوراً اس پر عمل کیا (جزاہ اللہ خیراً) اور ان تمام چیزوں کو مٹا دیا۔
#یا_اللہ ! #یا_محمد! لکھنے کا حکم
فضیلۃ الشیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ ربیع المدخلی کی آفیشل ویب سائٹ سے ماخوذ فتوی
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/ya_Allah_ya_muhammad_kehnay_ka_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: اکثر مساجد کے محرابوں پر لکھا ہوتا ’’یا اللہ، یامحمد‘‘ کیا اس قسم کی مساجد میں نماز پڑھنا جائز ہے؟
جواب: یہ وہ عام عادت ہے جو ہم نے پاکستان اور افغانستان میں دیکھی ہے، اور تو اور صد افسوس کی بات ہے کہ ہم نے مجاہدین کی گاڑیوں تک پر یہ لکھا ہوا دیکھا، اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو مجاہدین کہلاتے ہیں!وہ اس بارے میں کوئی نصیحت قبول نہیں کرتے اور اس قسم کے شرکیات پر مصر رہتے ہیں!ان کی دکانوں اور مساجد پر آپ یہ سب کچھ لکھا ہوا پائیں گے ’’یا اللہ، یا علی، یا غوث، یا حسین، یا عبدالقادر، یا فلاں یا فلاں‘‘ اور آخر تک جتنے شرکیات ہیں!
یہ غیراللہ سے استغاثہ (فریاد) ہے۔ اگر آپ کہیں یا محمد تو یہ اللہ تعالی کے ساتھ شرک ہے۔ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو اللہ تعالی کے رسول اور اس کے بندے ہیں۔ لہذا اگر آپ کہیں یا اللہ یا محمد اس کا مطلب تو یہ ہے کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالی کی برابری والا قرار دے دیا۔ رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو آئے ہی اس قسم کی بت پرستی کو ختم کرنے کے لیے تھے تاکہ ملت ابراہیمی کا دوبارہ سے قیام ہو۔ جس میں سرفہرست شرک کا خاتمہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا کو، دلوں کو، اذہان وعقول کو شرک کی نجاست سے پاک کرنے ہی تشریف لائے تھے۔اور ہمیں نصوص قرآن وسنت اور عملی تطبیقات کے ذریعہ خالص توحید کی تعلیم فرمائی۔ اور ہمیں پکی قبروں اور اوثان کو منہدم کرنےکاحکم فرمایا:
’’لَا تَشُدُّوا الرِّحَالَ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِي هَذَا، وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَالْمَسْجِدِ الْأَقْصَى‘‘([1])
(رقت سفر باندھ کر ثواب کی نیت سے سفر سوائے تین مساجد کے جائز نہیں (نا کسی قبر کے لیے اور نہ ہی کسی اور چیز کے لیے) 1- میری یہ مسجد (مسجدنبوی)، 2- مسجدالحرام اور3- مسجد اقصیٰ)۔
کیونکہ ان مساجد کو انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام نے توحید الہی اور دین کواللہ تعالی کے لیے خالص کردینے کی خاطر تعمیر فرمایا تھا۔
اور یہ حرکتیں تو مدینہ نبویہ میں بھی شروع کردی گئی تھیں، جیسا کہ ہم ان کی حقیقت کو جانتے ہیں اس سے آپ اہل بدعت کے مکرو فریب کا اندازہ کریں، لکھتے ہیں: ’’اللہ، محمد‘‘ جامعہ اسلامیہ میں ایک شخص جس کا نام سراج الرحمن زاملنی تھا جو کہ ابو الحسن ندوی کے تلامیذ میں سے تھا۔ پتہ نہیں میں نے اسے یہ بات اس حوالے سے کی کہ کینیا میں میں نے ایسا دیکھا تھا یا پھر یہی والی بات کہ اب تو مدینہ نبویہ میں بھی ایسی حرکتیں شروع ہوگئی ہیں، بہرحال اس نے مجھے بتایا کہ ابو الحسن ندوی ([2])کہتے ہیں یہ کلمہ کہ ’’اللہ، محمد‘‘ کفر ہے یعنی اس کا مطلب ہے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے برابری والے ہیں، یعنی کہ اللہ محمد ایک سے ہیں۔ حالانکہ درحقیقت نبی کریمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منزلت تو یہ ہے کہ لا إله إلاّ الله محمد رسول الله (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کے رسول ہیں) ,أشهد أن لا إله إلاّ الله وأشهد أنّ محمدا رسول الله (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں), أشهد أن لا إله إلاّ الله وأشهد أنّ محمدا عبده ورسوله (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:
’’لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَم ، إِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ فَقُولُوا: عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُه‘‘([3])
(دیکھو میری تعریف میں غلو نہ کرنا، جس طرح نصاریٰ نے ابن مریم کی تعریف میں غلو کیا ہے، بے شک میں تو صرف ایک بندہ ہی ہوں لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہا کرو)۔
میں نے جب کبھی بھی یہ شرکیہ مظاہر دیکھے تو ان سے لڑا، اگر کسی مسجد میں دیکھا تو امامِ مسجد کو نصیحت کی۔ مسجد قبلتین مسجد عمودی میں میں نے امام سے بات کی لیکن اس نے کچھ نہ کیا! میں نے عمودی جو کہ صاحبِ مسجد ہیں سے بات کی تو انہوں نے فوراً اس پر عمل کیا (جزاہ اللہ خیراً) اور ان تمام چیزوں کو مٹا دیا۔
اور میرے پڑوس کی مسجد مدینہ نبویہ میں جو تھی اس میں بھی ’’اللہ، محمد‘‘ لکھا ہوا تھا میں نے امام کو نصیحت کی تو کہنے لگا ہاں ہم کردیں گے، جلد کردیں گے، پس وہ ٹالتا رہا اور اسے ہٹایا نہیں ! لیکن وہاں ایک ہونہار نوجوان تھا اس نے کہا اس امام سے بہتر ہے میں ہی اس کا کام تمام کردوں پس وہ گیا اور اسے مٹاڈالا اور معاملہ ختم کردیا الحمدللہ۔
شاہد یہ ہے کہ کسی دن میں بطحان سے آرہا تھا مدینہ پہنچنے پر میں نے اپنے آگے ایک گاڑی (یا ٹرالر) دیکھی جس پر سرخ لکھائی میں ’’یااللہ، یا محمد‘‘ لکھا ہوا تھا ، پس میں نے اپنی گاڑی اس کے پیچھے لگا دی تو اس نے گاڑی اور تیز کردی۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ میں نے یہ دیکھ لیا ہے۔ اس نے رفتار بڑھائی تو میں نے بھی بڑھا دی یہاں تک کہ میں نے اسے ’’قربان‘‘ مکان پر جاپکڑا۔اس نے گاڑی روکی اور اترتے ہی خود سے کہنے لگا: کیا میں اسے مٹا دوں؟ حالانکہ میں نے اس سے ابھی کوئی بات ہی نہیں کی تھی! وہ خود ہی سمجھ گیا اور اس بات کا اسے احساس ہوگیا۔ میں نے کہا: ہاں اسے مٹا دو۔ لہذا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس بلاد ِتوحید کے خلاف باقاعدہ جنگ جاری ہے ان قبرپرست بدعتیوں کی جانب سے!!
مجھے یاد ہے کہ سعودی عہد میں جو پہلی مسجد تعمیر ہوئی اس پر قبہ بنایا گیا، جس پر طلاب العلم نے نکیر کی اور وہ شیخ ابن حمید کےساتھ آئے اور بات ہوئی۔۔۔۔نہیں معلوم کہ یہ معاملہ پھر کیسے ختم ہوگیا۔ بہرحال، یہ جانتے ہیں کہ اس ملک میں مساجد پر قبے نہیں بنائے جاتے۔حتی کہ جب ملک سعود " نے مسجد حرام اور مسجد نبوی میں توسیع فرمائی تھی تب بھی ان میں کوئی قبہ نہیں تھا، بلکہ موجودہ توسیع میں بھی یہ قبے نہیں ہیں (بارک اللہ فیکم)۔ یہ سب سنت پر قائم ہیں کیونکہ یہ قبے بنانا نصاری کی تقلید ہے کہ جو اپنے گرجاگھروں پر قبے بناتے ہیں۔ اور شاید کے اپنے صالحین کی قبروں پر بھی یہ قبے بناتے ہیں، فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:
’’لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ‘‘([4])
(یہودو نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے انبیاء کرام کی قبروں کو مساجد بنا لیا)۔
پس آپ آج باکثرت مساجد دیکھتے ہیں کہ جن پر ملین روپے خرچ کیے جاتے ہیں پر ان پر یہی قبے تعمیر ہوتے ہیں، اور طرح طرح کے زخارف (سجاوٹیں) کی جاتی ہیں (فاللہ المستعان)! اللہ کی قسم! ممکن ہے یہ عمل کاش کے ان کے لیے کم از کم برابر ہوجائے نہ ان کے حق میں ہو نہ خلاف کیونکہ حالت تو یہ ہے کہ مسجد کی تعمیر پر ملین روپے خرچ کرتے ہیں پھر آخر میں وہ اس شکل کی بن جاتی ہے!! جو بالکل گرجاگھر معلوم ہوتی ہے۔ یہی مصائب ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا کہ قیامت کی علامات میں سےہے کہ مساجد کی اس طرح سے سجاوٹ کی جائے گی([5]) جبکہ یہ تو سجاوٹ سے بھی بدتر چیز ہے۔ الحمدللہ یہ ملک ظاہرا ًوباطناً سنت پر قائم ہے مساجد اور اس کے علاوہ بھی دیگر معاملات میں۔ لیکن اہل بدعت نے اپنے ناپاک عزائم کو کبھی یہاں اور کبھی وہاں سرائیت کرنا شروع کردیا ہے یہاں تک کہ شر اچھی طرح سے پھیل جائے (اللہ تعالی ہی سے عافیت کا سوال ہے)۔
اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ مسلمانوں کو اس دین حق کے ذریعہ سے عزت بخشے کہ جو سیدنا محمد ﷺ لے کر آئے تھے اور اس کے ذریعہ سے ہمیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف اور گمراہی سے نکال کر طریقۂ نبوی ﷺ کی طرف لے جائے۔
[1] صحیح مسلم 1339۔
[2] حالانکہ یہ ابو الحسن ندوی صاحب خود بھی صحیح عقیدے ومنہج کے حامل نہ تھے: شیخ محدث حماد الانصاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ابو الحسن ندوی ہندوستان میں تبلیغی جماعت کے امیر ہیں اور وہ نقشبندی متعصب حنفی ہیں، فصیح اللسان ہیں، میں نے اپنے ہندوستان کے سفر میں ان سے ملاقات کی تھی۔ لوگوں کا ان کی طرف مائل ہونے کا سبب فصاحت زبان اور عمدہ کتابیں ہیں، اور وہ بڑے سیاستدان بھی ہیں)۔ (المجموع في ترجمة العلامة المحدث الشيخ حماد بن محمد الأنصاري رحمه الله ص 601) خود ابو الحسن کے استاد علامہ محمد تقی الدین ہلالی رحمہ اللہ نے ان کے تصوف وماتریدیت کا رد فرمایا اور شیخ صلاح الدین مقبول حنیف نے ایک مفصل کتاب بھی لکھی ’’الأستاذ أبو الحسن الندوي والوجه الآخر من كتاباته‘‘ اس کے علاوہ علامہ شمس الدین افغانی رحمہ اللہ کے بھی ردود ہیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[3]البخاري أحاديث الأنبياء (3261).
[4]البخاري الصلاة (425) ، مسلم المساجد ومواضع الصلاة (531) ، النسائي المساجد (703) ، أحمد (6/274) ، الدارمي الصلاة (1403).
شاہد یہ ہے کہ کسی دن میں بطحان سے آرہا تھا مدینہ پہنچنے پر میں نے اپنے آگے ایک گاڑی (یا ٹرالر) دیکھی جس پر سرخ لکھائی میں ’’یااللہ، یا محمد‘‘ لکھا ہوا تھا ، پس میں نے اپنی گاڑی اس کے پیچھے لگا دی تو اس نے گاڑی اور تیز کردی۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ میں نے یہ دیکھ لیا ہے۔ اس نے رفتار بڑھائی تو میں نے بھی بڑھا دی یہاں تک کہ میں نے اسے ’’قربان‘‘ مکان پر جاپکڑا۔اس نے گاڑی روکی اور اترتے ہی خود سے کہنے لگا: کیا میں اسے مٹا دوں؟ حالانکہ میں نے اس سے ابھی کوئی بات ہی نہیں کی تھی! وہ خود ہی سمجھ گیا اور اس بات کا اسے احساس ہوگیا۔ میں نے کہا: ہاں اسے مٹا دو۔ لہذا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس بلاد ِتوحید کے خلاف باقاعدہ جنگ جاری ہے ان قبرپرست بدعتیوں کی جانب سے!!
مجھے یاد ہے کہ سعودی عہد میں جو پہلی مسجد تعمیر ہوئی اس پر قبہ بنایا گیا، جس پر طلاب العلم نے نکیر کی اور وہ شیخ ابن حمید کےساتھ آئے اور بات ہوئی۔۔۔۔نہیں معلوم کہ یہ معاملہ پھر کیسے ختم ہوگیا۔ بہرحال، یہ جانتے ہیں کہ اس ملک میں مساجد پر قبے نہیں بنائے جاتے۔حتی کہ جب ملک سعود " نے مسجد حرام اور مسجد نبوی میں توسیع فرمائی تھی تب بھی ان میں کوئی قبہ نہیں تھا، بلکہ موجودہ توسیع میں بھی یہ قبے نہیں ہیں (بارک اللہ فیکم)۔ یہ سب سنت پر قائم ہیں کیونکہ یہ قبے بنانا نصاری کی تقلید ہے کہ جو اپنے گرجاگھروں پر قبے بناتے ہیں۔ اور شاید کے اپنے صالحین کی قبروں پر بھی یہ قبے بناتے ہیں، فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے:
’’لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ‘‘([4])
(یہودو نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے انبیاء کرام کی قبروں کو مساجد بنا لیا)۔
پس آپ آج باکثرت مساجد دیکھتے ہیں کہ جن پر ملین روپے خرچ کیے جاتے ہیں پر ان پر یہی قبے تعمیر ہوتے ہیں، اور طرح طرح کے زخارف (سجاوٹیں) کی جاتی ہیں (فاللہ المستعان)! اللہ کی قسم! ممکن ہے یہ عمل کاش کے ان کے لیے کم از کم برابر ہوجائے نہ ان کے حق میں ہو نہ خلاف کیونکہ حالت تو یہ ہے کہ مسجد کی تعمیر پر ملین روپے خرچ کرتے ہیں پھر آخر میں وہ اس شکل کی بن جاتی ہے!! جو بالکل گرجاگھر معلوم ہوتی ہے۔ یہی مصائب ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا کہ قیامت کی علامات میں سےہے کہ مساجد کی اس طرح سے سجاوٹ کی جائے گی([5]) جبکہ یہ تو سجاوٹ سے بھی بدتر چیز ہے۔ الحمدللہ یہ ملک ظاہرا ًوباطناً سنت پر قائم ہے مساجد اور اس کے علاوہ بھی دیگر معاملات میں۔ لیکن اہل بدعت نے اپنے ناپاک عزائم کو کبھی یہاں اور کبھی وہاں سرائیت کرنا شروع کردیا ہے یہاں تک کہ شر اچھی طرح سے پھیل جائے (اللہ تعالی ہی سے عافیت کا سوال ہے)۔
اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ مسلمانوں کو اس دین حق کے ذریعہ سے عزت بخشے کہ جو سیدنا محمد ﷺ لے کر آئے تھے اور اس کے ذریعہ سے ہمیں اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف اور گمراہی سے نکال کر طریقۂ نبوی ﷺ کی طرف لے جائے۔
[1] صحیح مسلم 1339۔
[2] حالانکہ یہ ابو الحسن ندوی صاحب خود بھی صحیح عقیدے ومنہج کے حامل نہ تھے: شیخ محدث حماد الانصاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ابو الحسن ندوی ہندوستان میں تبلیغی جماعت کے امیر ہیں اور وہ نقشبندی متعصب حنفی ہیں، فصیح اللسان ہیں، میں نے اپنے ہندوستان کے سفر میں ان سے ملاقات کی تھی۔ لوگوں کا ان کی طرف مائل ہونے کا سبب فصاحت زبان اور عمدہ کتابیں ہیں، اور وہ بڑے سیاستدان بھی ہیں)۔ (المجموع في ترجمة العلامة المحدث الشيخ حماد بن محمد الأنصاري رحمه الله ص 601) خود ابو الحسن کے استاد علامہ محمد تقی الدین ہلالی رحمہ اللہ نے ان کے تصوف وماتریدیت کا رد فرمایا اور شیخ صلاح الدین مقبول حنیف نے ایک مفصل کتاب بھی لکھی ’’الأستاذ أبو الحسن الندوي والوجه الآخر من كتاباته‘‘ اس کے علاوہ علامہ شمس الدین افغانی رحمہ اللہ کے بھی ردود ہیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[3]البخاري أحاديث الأنبياء (3261).
[4]البخاري الصلاة (425) ، مسلم المساجد ومواضع الصلاة (531) ، النسائي المساجد (703) ، أحمد (6/274) ، الدارمي الصلاة (1403).
[5] ’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: مَا أُمِرْتُ بِتَشْيِيدِ الْمَسَاجِدِ۔ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَتُزَخْرِفُنَّهَا كَمَا زَخْرَفَتْ الْيَهُودُ، وَالنَّصَارَى‘‘ )صحیح سنن ابی داود 448) (سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ مساجدکو بہت زیادہ پختہ تعمیر کروں۔ جناب ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: تم انہیں ضرور مزین کروگے جیسے کہ یہودونصاری نے (اپنےعبادت خانے) مزین کیے)۔ ’’عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قَالَ: لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَتَبَاهَى النَّاسُ فِي الْمَسَاجِدِ‘‘ (صحیح سنن ابی داود 449) (سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک لوگ مساجد میں باہم فخر نہیں کرنے لگیں گے)۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[#SalafiUrduDawah Article] #Criticizing_government on passing #unfair_resolutions? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#غیرشرعی_قرارداد پاس کرنے کے سبب #حکمران_پر_تنقید کرنا؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الاجابات المھمۃ فی المشاکل المدلھمۃ، سوال 14۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/09/qarardad_hukkam_tanqeed.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا کوئی قرارداد یا بل وغیرہ پاس کرنے پر حکمران پر اعتراض کیا جاسکتا ہے اگراس قرارداد میں غلطی یا گناہ کی کوئی (غیرشرعی) بات ہو؟ اس بارے میں سلف صالحین کا کیا عمل ہوا کرتا تھا؟ ہمیں فتویٰ دیں اور اجر پائیں۔
جواب: حکمران کی اطاعت واجب ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ﴾ (النساء: 59)
(اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ تعالی کی، اور اطاعت کرو رسول اللہ کی ، اور ان کی بھی جو تمہارےحکمران ہیں)
پس جو بات واجب اور اصل ہے وہ حکمران کی اطاعت ہے لیکن اگر وہ کسی معصیت وگناہ کا حکم دے تو اس کی اس معصیت میں اطاعت نہیں کی جائےگی۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
’’لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ‘‘([1])
(خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں)۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ:
’’إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ‘‘([2])
(اطاعت تو صرف معروف کاموں میں کی جاتی ہے)۔
لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ آپ حکمران کے خلاف خروج کریں یا اس کا تختہ الٹنا چاہیں، بس یہ ہے کہ آپ وہ معصیت نہ کریں جس کا وہ حکم دے رہا ہے اور اس کے علاوہ جن باتوں کا وہ حکم دے اسے بجالائیں۔ آپ اسی کی حکومت کے ماتحت رہیں، نہ اس کے خلاف خود نکلیں اور نہ دوسروں کو اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے پر ابھاریں، نہ ہی مجلسوں میں اور لوگوں کے سامنے اس کے خلاف باتیں کریں، کیونکہ اس سے شروفتنہ پھیلتا ہے۔ اور لوگوں کو ایسے وقت میں حکام کے خلاف بغض سے بھرنا جبکہ کفار ہماری تاک لگائے بیٹھے گردش ایام کے منتظر ہیں، اور ایسا بھی ممکن ہے کہ اگر انہیں اس بات کی خبر ہوجائے تو وہ ان جذبانی مسلمانوں میں اپنا زہر سرائیت کرکے انہیں ان کے حکمرانوں کے خلاف بھڑکائیں گے، جس کے نتیجے میں فتنہ وفساد ہوگا،اور نتیجہ کافروں کا مسلمانوں پر تسلط کی صورت میں سامنے آئے گا۔
لہذا حکمران خواہ کیسے بھی ہوں ان میں خیر کثیر اور عظیم مصالح ہوتےہیں۔ وہ بھی ایک بشر ہیں معصوم نہیں بعض باتوں میں غلطی کرجاتےہیں۔ لیکن ان کی اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں خفیہ طور پر نصیحت کی جائے، یا ان تک پہنچائی جائے۔ اور ان کے سامنے صحیح بات پیش کی جائے۔لیکن مجالس میں بیٹھ کر ان پر کلام کرنا اور اس سے بھی شدید تر خطبوں اور تقاریر میں ان پر کلام کرنا اہل شقاق واہل نفاق واہل شر کا طریقہ ومنہج ہے کہ جو مسلمانوں کی حکومت میں انتشار مچانا چاہتے ہیں۔
[1] رواہ احمد برقم (20653)، والطبرانی فی الکبیر (18/381) واللفظ لہ عن عمران بن حصین رضی اللہ عنہ۔
[2] رواہ البخاری برقم (7145، 4340)، ومسلم برقم (1840) من حدیث علی رضی اللہ عنہ۔
#غیرشرعی_قرارداد پاس کرنے کے سبب #حکمران_پر_تنقید کرنا؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الاجابات المھمۃ فی المشاکل المدلھمۃ، سوال 14۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/09/qarardad_hukkam_tanqeed.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا کوئی قرارداد یا بل وغیرہ پاس کرنے پر حکمران پر اعتراض کیا جاسکتا ہے اگراس قرارداد میں غلطی یا گناہ کی کوئی (غیرشرعی) بات ہو؟ اس بارے میں سلف صالحین کا کیا عمل ہوا کرتا تھا؟ ہمیں فتویٰ دیں اور اجر پائیں۔
جواب: حکمران کی اطاعت واجب ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ﴾ (النساء: 59)
(اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ تعالی کی، اور اطاعت کرو رسول اللہ کی ، اور ان کی بھی جو تمہارےحکمران ہیں)
پس جو بات واجب اور اصل ہے وہ حکمران کی اطاعت ہے لیکن اگر وہ کسی معصیت وگناہ کا حکم دے تو اس کی اس معصیت میں اطاعت نہیں کی جائےگی۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
’’لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ‘‘([1])
(خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں)۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ:
’’إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ‘‘([2])
(اطاعت تو صرف معروف کاموں میں کی جاتی ہے)۔
لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ آپ حکمران کے خلاف خروج کریں یا اس کا تختہ الٹنا چاہیں، بس یہ ہے کہ آپ وہ معصیت نہ کریں جس کا وہ حکم دے رہا ہے اور اس کے علاوہ جن باتوں کا وہ حکم دے اسے بجالائیں۔ آپ اسی کی حکومت کے ماتحت رہیں، نہ اس کے خلاف خود نکلیں اور نہ دوسروں کو اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے پر ابھاریں، نہ ہی مجلسوں میں اور لوگوں کے سامنے اس کے خلاف باتیں کریں، کیونکہ اس سے شروفتنہ پھیلتا ہے۔ اور لوگوں کو ایسے وقت میں حکام کے خلاف بغض سے بھرنا جبکہ کفار ہماری تاک لگائے بیٹھے گردش ایام کے منتظر ہیں، اور ایسا بھی ممکن ہے کہ اگر انہیں اس بات کی خبر ہوجائے تو وہ ان جذبانی مسلمانوں میں اپنا زہر سرائیت کرکے انہیں ان کے حکمرانوں کے خلاف بھڑکائیں گے، جس کے نتیجے میں فتنہ وفساد ہوگا،اور نتیجہ کافروں کا مسلمانوں پر تسلط کی صورت میں سامنے آئے گا۔
لہذا حکمران خواہ کیسے بھی ہوں ان میں خیر کثیر اور عظیم مصالح ہوتےہیں۔ وہ بھی ایک بشر ہیں معصوم نہیں بعض باتوں میں غلطی کرجاتےہیں۔ لیکن ان کی اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں خفیہ طور پر نصیحت کی جائے، یا ان تک پہنچائی جائے۔ اور ان کے سامنے صحیح بات پیش کی جائے۔لیکن مجالس میں بیٹھ کر ان پر کلام کرنا اور اس سے بھی شدید تر خطبوں اور تقاریر میں ان پر کلام کرنا اہل شقاق واہل نفاق واہل شر کا طریقہ ومنہج ہے کہ جو مسلمانوں کی حکومت میں انتشار مچانا چاہتے ہیں۔
[1] رواہ احمد برقم (20653)، والطبرانی فی الکبیر (18/381) واللفظ لہ عن عمران بن حصین رضی اللہ عنہ۔
[2] رواہ البخاری برقم (7145، 4340)، ومسلم برقم (1840) من حدیث علی رضی اللہ عنہ۔