Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.29K subscribers
2.49K photos
52 videos
211 files
4.94K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[#SalafiUrduDawah Article] The #prohibition of #superstitions in #Islaam – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#اسلام میں #بدشگونی کی #مذمت
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ وتبویب: طارق علی بروہی
مصدر: القول المفيد على كتاب التوحيد (معمولی ترمیم کے ساتھ).
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
عناوین
بدشگونی کی تعریف
بدشگونی توحید کے منافی ہے
بدشگونی کا نقصان
بدشگونی سے متعلق بعض آیات
چھوت چھات کی بیماری کی حقیقت
الو کے بولنے کی تاثیر کی حقیقت
ماہ صفر منحوس نہیں
ان چیزوں کے وجود کی نفی کی گئی ہے یا تاثیر کی؟
ان چیزوں کی نفی کرنے کی حکمت
ستاروں کی تاثیر کا عقیدہ
موسمی پیشنگوئی وغیرہ کے تعلق سے الفاظ میں احتیاط
بھوت پریت کی حقیقت
نیک فال کیا ہے؟
بدشگونی اور فال میں فرق
بدشگونی سے بچنے یا اس کے پیدا ہونے کی صورت میں پڑھی جانے والی دعاء
بدشگونی شرک ہے
شرک اصغر جاننے کا ایک مفید قاعدہ
بدشگونی کو دور کیسے کیا جاسکتا ہے؟
بدشگونی کا کفارہ
اس حدیث سے حاصل ہونے والے فوائد
بدشگونی جانچنے کا معیار
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/11/islam_badshoguni_muzammat.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding saying: "#Allaah_is_everywhere!" - Various 'Ulamaa

#اللہ_ہر_جگہ_ہے “کہنے کا حکم؟

مختلف علماء کرام

ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی

مصدر: مختلف مصادر۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ

سوال: اس شخص کا کیا حکم ہے کہ جب اس سے پوچھا جائے کہ اللہ تعالی کہاں ہے تو وہ کہتا ہے ہرجگہ! شرعی دلائل کی روشنی میں صحیح جواب کیا ہونا چاہیے؟

جواب: بسم الله الرحمن الرحيم، الحمد لله، صلى الله وسلم على رسول الله وعلى آله وأصحابه ومن اهتدى بهداه أما بعد:

اس شخص پرواجب ہےکہ جس سے پوچھاجائے کہ اللہ تعالی کہاں ہے؟ کہ وہ وہی جواب دے جو اس لونڈی صحابیہ رضی اللہ عنہا نے دیا تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے یہی سوال کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک لونڈی لائی گئی جس کا آقا اسے آزاد کرنا چاہتا تھا۔ لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (اس کے ایمان کا امتحان لینے کو) پوچھا کہ:

’’أَيْنَ اللَّهُ ؟ قَالَتْ: فِي السَّمَاءِ، قَالَ: مَنْ أَنَا؟ قَالَتْ: أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ‘‘

(اللہ تعالی کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا آسمان پر، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: میں کون ہوں؟ کہا: آپ اللہ کےرسول ہیں)۔

اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو انہیں لے کر آئے تھے ان سےکہا:

’’أَعْتِقْهَا، فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ‘‘ ([1])

(اسے آزاد کردیں کیونکہ یہ مومنہ عورت ہے)۔

تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔


[1] صحیح مسلم 540۔

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/Allaah_har_jaga_hai_kehnay_ka_hukm.pdf
#SalafiUrduDawah
#شوہر کی ضروریات کا خود خیال رکھنا - شیخ #محمد_بن_غالب العمری
#shohar ki zaroriyaat ka khud khayal rakhna - shaykh #muhammad_bin_ghaalib alumaree
[#SalafiUrduDawah Article] Types of #love and the ruling concerning them – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#محبت کی اقسام واحکام
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: القول المفيد على كتاب التوحيد
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/12/muhabbat_aqsaam_ahkaam.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ اپنی کتاب التوحید میں عنوان قائم کرتے ہیں، اللہ تعالی کا فرمان:
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَهُمْ كَحُبِّ اللّٰهِ ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ﴾
(البقرۃ: 165)
(اور لوگوں میں سے بعض وہ ہیں جو اللہ کے علاوہ غیروں میں سے کچھ اس کے برابر والے بنا لیتے ہیں، وہ ان سے اللہ کی سی محبت کرتے ہیں، جبکہ وہ لوگ جو ایمان لائے، وہ سب سے شدید ترین محبت اللہ سے ہی کرتے ہیں)
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مؤلف رحمہ اللہ نے اسی آیت کو باب کا عنوان بنالیا ہے، اور ہوسکتا ہے کہ اس عنوان سے آپ کی مراد ہو باب المحبۃ (محبت کے بارے میں باب)۔
اور جتنے بھی اعمال ہیں ان سب کی اصل بنیاد محبت ہی ہوتی ہے۔ پس انسان کسی چیز کے لیے عمل نہیں کرتا مگر صرف اسی کے لیے جس سے وہ محبت کرتا ہے، یا تو نفع حاصل کرنے کی چاہت یا پھر ضرر ونقصان کو دور کرنے کی چاہت۔ اگر وہ کوئی کام کرتا ہے تو ضرور وہ اس سے محبت کرتا ہے یا تو بذاتہ محبت جیسے کھانے کی محبت، یا پھر کسی غیر سبب کی وجہ سے جیسے دواء استعمال کرنا (یعنی دواء کی بذاتہ محبت نہيں مگر اس کے علاوہ ایک چیز یعنی شفاءیابی کی چاہت ہے جو اللہ تعالی کے حکم سے اس کے ذریعے سے ملتی ہے)۔
اور اللہ تعالی کی عبادت بھی محبت پر مبنی ہے، بلکہ یہی تو عبادت کی حقیقت ہے۔ کیونکہ اگر آپ عبادت کریں بغیر محبت کے تو وہ محض کھوکھلا جسم بن کر رہ جائے گی جس میں کوئی روح ہی نہ ہو۔اور جب انسان کے دل میں اللہ تعالی کی محبت اور اس کی جنت کے پہنچنے کی محبت ہوگی تو وہ ضرور اس تک پہنچنے کا راستہ اختیار کرنے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جو مشرکین اپنے معبودات سے محبت کرتےہیں تو وہ یہی محبت ہوتی ہے جو ان کو اس حد تک پہنچا دیتی ہےکہ وہ ان کی اللہ تعالی کے علاوہ یا اس کے ساتھ عبادت کرنے لگتے ہیں۔
محبت دو اقسام میں تقسیم ہوتی ہے:
پہلی قسم:
محبتِ عبادت: یہ وہ محبت ہے جو تذلل وتعظیم کا موجب ہوتی ہے۔اور محبوب کا ایسا اجلال وتعظیم انسان کے دل میں بیٹھ جائے جو اس کے اوامر کی بجاآوری اور نواہی سے اجتناب کا تقاضہ کرے۔اور یہ خاص ہے صرف اللہ تعالی کے لیے۔ اور جو کوئی اللہ تعالی کے ساتھ کسی غیر سے محبت ِعبادت کرتا ہے تو وہ شرک اکبر کرنے والا مشرک ہے۔ اور علماء کرام اس محبت کی تعبیر محبتِ خاصہ سے کرتے ہيں۔
دوسری قسم:
للہ فی اللہ محبت کرنا یعنی اللہ تعالی کے لیے اور اس کی وجہ سے محبت کرنا: وہ اس طرح کہ اس محبت کا سبب اللہ کی محبت ہو جیسا کہ کوئی چیز اللہ تعالی کو محبوب ہو اشخاص میں سے جیسے انبیاءورسل کرام، صدیقین، شہداء وصالحین۔
یا اعمال میں سے جیسے نماز وزکوٰۃ اور دیگر اعمال خیر یا ان کے علاوہ۔ محبت کی یہ نوع اس پہلی قسم یعنی اللہ تعالی کی محبت ہی کے تابع ہے۔
دوسری قسم میں سے دوسری نوع کی محبت شفقت ورحمت والی محبت ہے: اس کی مثال جیسا کہ اولاد کی محبت، بچوں کی، کمزوروں اور مریضوں سے محبت وشفقت۔
اسی طرح سے تیسری نوع کی محبت، اجلال وتعظیم والی محبت ہے مگر بغیر عبادت کے۔ جیسا کہ انسان والد سے محبت کرتا ہے، یا اپنے استاد سے یا اہل خیر میں سے جو بڑے ہيں ان سے۔
چوتھی نوع: طبیعی محبت جیسے کھانے پینے کی محبت، پہننے وسواری ورہائش وگھر کی محبت۔
ان تمام انواع میں سے سب سے اشرف پہلی نوع ہے، اور باقی مباح کی قسم میں سے ہيں، الا یہ کہ ان (مباح والی) کے ساتھ ایسی چیز کو جوڑا جائے جو تعبد (عبادت گزاری) کی متقاضی ہو تو پھر یہ بھی عبادت بن سکتی ہيں۔
جیسے ایک انسان اپنے والد سے اجلال وتعظیم والی محبت کرتا ہے لیکن اگر وہ اس محبت کے ذریعے اللہ تعالی کی عبادت گزاری کی نیت کرتا ہے کہ اللہ تعالی نے والد کے ساتھ نیک سلوکی کا حکم دیا ہے تو یہ بھی عبادت بن جاتی ہے۔ اسی طرح سے وہ اپنی اولاد سے شفقت والی محبت کرتا ہے لیکن اگر اس کے ساتھ اللہ تعالی کے حکم کا جو تقاضہ بنتا ہے اسے بھی پورا کرے جیساکہ اس اولاد کی اصلاح کرتا رہے تو یہ بھی عبادت بن جائے گا۔
اسی طرح سے جو طبیعی محبت ہے جیسے کھانے پینے، پہننے اور گھر کی محبت اگر اس سے نیت اللہ تعالی کی عبادت میں استعانت ومدد لینا ہو تو یہ بھی عبادت بن جائیں گے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’حُبِّبَ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا النِّسَاءُ وَالطِّيبُ‘‘([1])
(دنیا میں سے مجھے محبوب کردی گئی ہيں عورتیں اور خوشبو)۔
چناچہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عورتیں محبوب کردی گئیں کیونکہ یہ انسانی طبیعت کا تقاضہ ہے اور اس میں عظیم مصلحتیں بھی ہيں، اسی طرح سے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو خوشبو محبوب کردی گئی کیونکہ یہ بھی انسانی نفس میں تازگی لاتی، راحت دیتی اور شرح صدر کا سبب بنتی ہے۔ کیونکہ بلاشبہ طیبات طیبین کے لیے ہیں([2])، اور اللہ تعالی طیب (پاک) ہے نہيں قبول فرماتا مگر طیب([3])۔
الغرض ان چیزوں کو اگر انسان عبادت کی نیت سے لیتا ہے تو عبادت بن جاتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى‘‘([4])
(اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اور ہر شخص کو صرف وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی)۔
اور علماء کرام فرماتے ہیں:
’’جس چیز کے بغیر کوئی واجب ادا نہ ہوتا ہو تو وہ بھی واجب ہوتی ہے‘‘۔
اور فرماتے ہیں:
’’وسائل کا حکم ان کے مقاصد کا سا ہوتا ہے‘‘۔
اور اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے۔
[1] أخرجه أحمد (3/128، 199، 285)، والنسائي فى عشرة النساء، باب حب النساء، 7/61) وفى تعليق الألباني على المشكاة (3/1448) : إسناده حسن.
[2] اس آیت کی جانب اشارہ ہے: ﴿وَالطَّيِّبٰتُ لِلطَّيِّبِيْنَ وَالطَّيِّبُوْنَ لِلطَّيِّبٰتِ﴾ (النور: 26) (اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ہیں) (توحید خالص ڈاٹ کام)
[3] اس حدیث کی جانب اشارہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ’’إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا‘‘(صحیح مسلم 1016) (بے شک اللہ تعالی پاک ہے اور نہیں قبول کرتا مگر پاک(کمائی سے خرچ کیا ہوا)) (توحید خالص ڈاٹ کام)
[4] أخرجه البخاري فى بدء الوحي، باب كيف كان بدء الوحي، 1/13، ومسلم فى الإمارة، باب قوله صلی اللہ علیہ والہ وسلم: إنما الأعمال بالنيات 3/1515۔
[#SalafiUrduDawah Article] The obligation of love and respect for #Rasoolullaah (SalAllaho alayhi wa sallam) – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#رسول_اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و تعظیم کا وجوب
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
مصدر: عقیدۂ توحید اور اس کے منافی امور سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/12/nabi_muhabbat_tazeem_wujoob.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
بندہ پر سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی محبت ضروری ہے، یہ عبادت کی سب سے عظیم قسم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ ﴾ (البقرۃ:165)
(اور جو ایمان والے ہیں وہ تو اللہ تعالی ہی سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں)
اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں کا منعمِ حقیقی ہے۔ جس نے ساری ظاہری و باطنی نعمتوں سے بندوں کو نوازا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ سے محبت کے بعد اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت واجب ہے۔ اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بندوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی، اس کی معرفت سے ہمکنار کیا، اس کی شریعت کو پہنچایا اور اس کے احکامات کو بیان فرمایاہے۔ آج مسلمانوں کو جو دنیاوآخرت کی بھلائی حاصل ہے وہ اسی رسول ِرحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بدولت حاصل ہے۔کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور اتباع کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ایک حدیث کے الفاظ ہیں:
’’ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ، أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ‘‘([1])
(جس کے اندر تین چیزیں ہوں گی وہ ایمان کی مٹھاس پائے گا ، وہ یہ کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے نزدیک دوسری ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوں اور کسی شخص سے محبت کرتا ہو تو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے کرتا ہو اور کفر کی طرف لوٹنا اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس سے نکالا ہے ایسا ہی ناپسند کرتا ہو جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے کو نا پسند کرتا ہے)۔
اس حدیث سے پتہ چلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت کے تابع ہے اور اس کے ساتھ لازم ہے اور رتبہ کے اعتبار سے دوسرے درجہ پر ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ دیگر تمام محبوب چیزوں سے آپ کی محبت کو مقدم رکھنے سے متعلق حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
’’لَايُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَلَدِهِ، وَوَالِدِهِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ‘‘([2])
(تم میں سے کوئی اس وقت تک پکا مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کی اولاد اس کے والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں)۔
بلکہ ایک حدیث میں تو آیا ہے کہ ایک مومن کے لئے ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے نفس سے زیادہ محبوب رکھے۔ سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ:
’’يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: لَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْكَ مِنْ نَفْسِكَ ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: فَإِنَّهُ الْآنَ وَاللَّهِ لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: الْآنَ يَا عُمَرُ‘‘([3])
(اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ میرے نزدیک دنیا کی ہر چیز سے محبوب ہیں سوائے میرے نفس کے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب تک میں تمہارے نفس سے بھی زیادہ محبوب نہ بن جاؤں بات نہیں بنے گی۔ یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: (اگر ایسی بات ہے تو) یقیناً اللہ کی قسم! اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اب صحیح ہے اے عمر)۔
اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت واجب ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے علاوہ دنیا کی ہر چیز کی محبت پر مقدم ہے۔ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت کے تابع اور اس کو لازم ہے([4])، اس لئے یہ محبت بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہے اور اسی کے لئے ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت مومن کے دل میں جتنی بڑھے گی اتنی ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت بڑھے گی اور اللہ تعالیٰ کی محبت اگر گھٹے گی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت بھی گھٹے گی، اور جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ کا محبوب ہو گا تو اس سے اللہ تعالیٰ کی خاطر محبت رکھی جائے گی۔
اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھے جانے کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم ان کی (بنا غلو کے) تعظیم و توقیر میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں اور انہی کی اتباع کریں ان کے قول کو ہر ایک کے قول سے مقدم رکھیں اور ان کی سنت کی بہت زیادہ تعظیم کریں (اور اس پر عمل کریں)۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’انسان سے محبت اور اس کی تعظیم اگر اللہ سے محبت اور اس کی تعظیم کے تابع ہے تو وہ جائز ہے۔ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اور آپ کی تعظیم ، آپ کی یہ محبت و تعظیم دراصل آپ کو رسول بنا کر بھیجنے والے سے محبت اور اس کی تعظیم کی تکمیل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اس لئے کرتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کو محبوب ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم اس لئے کرتی ہے کہ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ عزت ومرتبہ عطاء فرمایا ہے۔ لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اللہ تعالیٰ سے محبت کا ایک جزء ہے یا اللہ تعالیٰ سے محبت کا نتیجہ ہے۔
مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت میں اتنی محبت و رعب ڈال دیا تھا ۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی انسان کسی انسان کے لئے اتنا محبوب، موقر و بارعب نہیں ہے جتنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کرام کے نزدیک محبوب و موقر و بارعب تھے۔
سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کرنے کے بعد کہا تھا کہ قبولِ اسلام سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ مبغوض شخص میرے نزدیک کوئی نہیں تھا، لیکن اب قبولِ اسلام کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبوب ترین اور موقر ترین شخص میرے نزدیک کوئی نہیں، اگر مجھ سے آپ کا حلیہ بیان کرنے کو کہا جائے تو میں کچھ نہیں بول سکتا اس لئے کہ آپ کی توقیر و اجلال میں کبھی آپ کو جی بھر کے نہیں دیکھ سکا۔
سیدناعروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے قریش سے کہا تھا، اے لوگو! اللہ کی قسم میں قیصرو کسریٰ اور دیگر شاہانِ ممالک کے دربار میں گیا ہوں لیکن کسی کو بھی ایسا نہیں پایا کہ اس کے احباب و اصحاب اس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی تعظیم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احباب و اصحاب ان کی کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم ان کی تعظیم و تکریم اور اجلال و رعب میں ان سے نظر نہیں ملاتے، جب وہ تھوکتے ہیں تو کسی صحابی کی ہتھیلی ہی میں پڑتا ہے جسے وہ اپنے چہرے اور سینے پر مل لیتے ہیں اور آپ جب وضوء کرتے ہیں تو وہ وضو کے پانی کے لئے آپس میں لڑ پڑتے ہیں‘‘([5])۔
[1]البخاري الإيمان (16) ، مسلم الإيمان (43) ، الترمذي الإيمان (2624) ، النسائي الإيمان وشرائعه (4988) ، ابن ماجه الفتن (4033).
[2]البخاري الإيمان (15) ، مسلم الإيمان (44) ، النسائي الإيمان وشرائعه (5013) ، ابن ماجه المقدمة (67)، الدارمي الرقاق (2741).
[3]البخاري الأيمان والنذور (6257) ، أحمد (4/336).
[4]جیسا کہ ارشاد ہوا: ﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ﴾ (آل عمران:31) ((اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کر دے گا) (توحید خالص ڈام کام)
[5] جلاء الافہام:120، 121۔
[#SalafiUrduDawah Article] The price of #loving_someone_for_the_sake_of_Allaah – Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen #Al-Albaanee
کسی سے #اللہ_تعالی_کی_رضا_کی_خاطر_محبت کرنے کی قیمت
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین #البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الحاوي من فتاوى الألباني ص (165-166)۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/12/Allaah_rada_muhabbat_qeemat.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سائل: جو شخص کسی سے اللہ تعالی کی رضا کے لیے محبت کرتا ہے تو کیا اس پر واجب ہے کہ وہ اس سے کہے: ’’أحبك في الله‘‘([1]) (میں اللہ تعالی کے لیے آپ سے محبت کرتا ہوں)؟
الشیخ: جی، لیکن اللہ تعالی کے لیے محبت کی بڑی بھاری قیمت ہوتی ہے، بہت کم ہی لوگ ہوتے ہیں جو اسے ادا کرپاتے ہیں۔ کیا آپ لوگ جانتے ہيں کہ اللہ تعالی کے لیے محبت کی کیا قیمت ہے؟ آپ میں سے کوئی اس کی قیمت جانتا ہے؟ جو جانتا ہے ہمیں جواب دے۔۔۔
حاضرین میں سے ایک: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سات ایسے لوگ ہيں جو اس دن اللہ تعالی کے سائے تلے ہوں گے جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا(یعنی عرش کا سایہ جیسا کہ دوسری روایات سے ثابت ہے) تو انہی میں سے وہ شخص بھی ہیں جو:
’’وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِي اللَّهِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ‘‘([2])
(اور وہ دو اشخاص جو اللہ تعالی کے لیے محبت کرتے ہیں اسی پر جمع ہوتے ہيں اور اسی پر الگ ہوتے ہيں)۔
الشیخ: یہ کلام اپنی جگہ صحیح ہے مگر ہمارے سوال کا جواب نہيں۔ یہ تو اللہ تعالی کے لیے محبت کرنے کی تقریباً تعریف ہوگئی لیکن مکمل نہیں ہوئی۔ میرا سوال یہ ہے کہ وہ کونسی قیمت ہے جو دو اللہ تعالی کے لیے آپس میں محبت کرنے والے ایک دوسرے کو دیتے ہيں۔ میرا مقصد آخرت کا اجر نہيں۔ میں اپنے سوال کے ذریعے یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ وہ کونسی عملی دلیل ہے جو دو لوگوں میں اللہ تعالی کے لیے محبت کی دلیل ہو؟ ایسا ہوسکتا ہے کہ دو لوگ آپس میں ایسی محبت کرتے ہوں، مگر ان کی محبت محض شکلی اعتبار سے محبت ہو، حقیقی نہ ہو، تو پھر آخر حقیقی محبت کیا ہوگی؟
حاضرین میں سے ایک: (جیسا کہ حدیث میں ہے کہ) :
’’يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ‘‘([3])
(اپنے بھائی کے لیے بھی وہی چیز پسند کرے جواپنے لیے کرتا ہے)۔
الشیخ: یہ تو اس محبت کی صفت ہے یا اس محبت کی بعض صفات میں سے ہے۔۔۔
حاضرین میں سے ایک: اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾ (آل عمران: 31)
(کہیں، اگر تم اللہ تعالی سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تعالی تم سے محبت فرمائے گا)
الشیخ: یہ جواب ہے کسی اور سوال کا۔۔۔(یعنی اگر پوچھا جائے اللہ تعالی سے محبت کی کیا دلیل ہے تو یہ جواب ہوگا)۔
حاضرین میں سے ایک: جواب اس صحیح حدیث سے دیا جاسکتا ہے کہ تین ایسی باتیں ہیں کہ جس میں ہوں وہ اس کے ذریعے ایمان کی حلاوت (مٹھاس وشیرینی) کو پاسکتا ہے، انہی میں سے ایک یہ ہے کہ:
’’وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ‘‘([4])
(کہ وہ کسی شخص سے محبت کرے اور وہ اس سے محبت نہيں کرتا مگر صرف اللہ تعالی کے لیے)۔
الشیخ: یہ اثر ہے اللہ تعالی کے لیے محبت کا، کیا اثر ہے؟ وہ حلاوت ہے جو وہ اپنے دل میں پاتا ہے۔
حاضرین میں سے ایک: اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿وَالْعَصْرِ، اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ، اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾ (سورۃ العصر)
(قسم ہے زمانے کی! بے شک انسان خسارے میں ہے، سوائے ان کے جو ایمان لائے اور عمل صالح کیے، اور ایک دوسرے کو حق بات کی اور صبر کی وصیت کرتے رہے)
الشیخ: بہت خوب! یہ ہے وہ جواب۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ اگر میں واقعی اللہ تعالی کے لیے آپ سے محبت کرتا ہوں تو میں ہمیشہ نصیحت کرتے ہوئے آپ کے ساتھ رہوں گا۔ اسی طرح سے آپ بھی میرے ساتھ یہی سلوک رکھیں گے۔ اسی لیے یہ جو نصیحت کرنے میں مستقل مزاجی ہے بہت کم پائی جاتی ہے ان لوگوں میں جو اللہ تعالی کے لیے محبت کے دعویدار ہيں۔ یہ جو محبت ہے ہوسکتاہے اس میں اخلاص میں سے کچھ نہ کچھ ہو لیکن یہ کامل نہیں ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی دوسرے کا لحاظ کررہا ہوتا ہے کہ کہیں وہ خفا نہ ہوجائے یا چھوڑ نہ جائے۔۔۔اورآخر تک جو مختلف خدشات ہیں۔
یہاں سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کے لیے محبت کرنے کی قیمت یہی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک دوسرے کے لیے نصیحت کرنے کی صورت میں اخلاص کا ثبوت دے۔ اسے ہمیشہ نیکی کا حکم کرے اور برائی سے روکے۔ یہاں تک کہ وہ اس کی نصیحت چاہنے میں اس کے اپنے سائے سے زیادہ اس کے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عادت مبارکہ میں سے تھا کہ جب دو ساتھی ایک دوسرے سے جدا ہورہے ہوتے تو ایک دوسرے پر یہی سورۃ العصر پڑھتے:
﴿وَالْعَصْرِ، اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ، اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾ (سورۃ العصر)
(قسم ہے زمانے کی! بے شک انسان خسارے میں ہے، سوائے ان کے جو ایمان لائے اور عمل صالح کیے، اور ایک دوسرے کو حق بات کی اور صبر کی وصیت کرتے رہے)([5])۔
[1] اس قسم کی احادیث کی جانب اشارہ ہے جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو ان کے سامنے سے ایک شخص کا گزر ہوا۔ اس بیٹھے شخص نے کہا: یا رسول اللہ! بے شک میں اس شخص سے محبت کرتا ہوں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اسے بتایا ہے اس بات کا؟ اس نے کہا: نہيں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسے بتادیں۔ پھر وہ ان سے ملا اور کہا: ’’ إِنِّي أُحِبُّكَ فِي اللَّهِ، فَقَالَ: أَحَبَّكَ الَّذِي أَحْبَبْتَنِي لَهُ ‘‘ (بے شک میں اللہ تعالی کے لیے آپ سے محبت کرتا ہوں۔ تو اس شخص نے جواب دیا: وہ ذات آپ سے محبت کرے جس کے لیے آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں) (صحیح ابی داود 5125)۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کیونکہ اس بات کے کہنے سے اس کے دل میں محبت سی بھر جائے گی۔ کیونکہ بلاشبہ جب کسی انسان کو یہ معلوم ہوجائے کہ یقیناً آپ اس سے محبت کرتے ہیں تو وہ بھی آپ سے محبت کرنا شروع کردیتاہے۔ البتہ خود دلوں کا بھی باہمی تعارف اور ایک الفت سی موجود ہوتی ہے اگرچہ زبان سے کچھ نہ بھی کہیں۔ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’الْأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ فَمَا تَعَارَفَ مِنْهَا ائْتَلَفَ وَمَا تَنَاكَرَ مِنْهَا اخْتَلَفَ‘‘ (صحیح بخاری 3336، صحیح مسلم 2639) (روحوں کے جھتے جھنڈ کے جھنڈ تھے۔ پھر وہاں جن روحوں میں آپس میں پہچان تھی ان میں یہاں بھی الفت سی ہوجاتی ہے اور جو وہاں غیر تھیں یہاں بھی وہ خلاف سی رہتی ہیں)۔ لیکن ہاں اگر انسان اپنی زبان سے بھی یہ کہہ دے تو بلاشبہ یہ اس کے دل میں محبت میں مزید اضافہ کرے گا۔ تو آپ کہیں کہ: إني أحبك في الله۔ (شرح ریاض الصالحین) (توحید خالص ڈاٹ کام)۔
[2] صحیح بخاری 660، صحیح مسلم 1033۔
[3] صحیح بخاری 13، صحیح مسلم 47۔
[4] صحیح بخاری 16، صحیح مسلم 44۔
[5] طبرانی وغیرہ کی روایت میں ہے کہ: ’’كَانَ الرَّجُلانِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إِذَا الْتَقَيَا لَمْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَقْرَأَ أَحَدُهُمَا عَلَى الآخَرِ: ﴿وَالْعَصْرِ ، إِنَّ الإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ ﴾، ثُمَّ يُسَلِّمَ أَحَدُهُمَا عَلَى الآخَرِ‘‘(سلسلہ الصحیحۃ 2648) (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جب بھی دو صحابی آپس میں ملتے تھے تو اس وقت تک جدا نہیں ہوتے تھے جب تک ایک دوسرے پر سورۃ العصر نہ پڑھ لیں پھر اس کے بعد ایک دوسرے کو سلام کرتے)۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[#SalafiUrduDawah Article] The humiliated defeat of #Maududee in a debate with an Ahlehadees scholar

ایک اہلحدیث عالم کے ساتھ مناظرے میں ابو الاعلیٰ #مودودی کی عبرتناک شکست

اختصار و تفہیم: طارق علی بروہی

مصدر: روداد مناظرہ ، درمیان حکیم محمد صادق صاحب سیالکوٹی (ادیب فاضل ومنشی فاضل) ومولوی مودودی صاحب امیر وامام جماعت اسلامی (جمال پور، پٹھان کوٹ) برمکان: چوہدری عبدالحفیظ صاحب ایڈووکیٹ، شہر سیالکوٹ۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/maududee_ahlehadees_alim_ebratnaak_shikast.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قیام پاکستان سے بھی آٹھ ماہ قبل دسمبر 1946ع میں اہلحدیث عالم حکیم محمد صادق صاحب سیالکوٹی وامیر و امام جماعت اسلامی مودودی صاحب رحمہما اللہ کے مابین امارت وبیعت کے مسئلے پر ایک مناظرہ پیش آیا جس میں مودودی صاحب لاجواب ہوکر فرار ہوگئے۔ حکیم صاحب نے متفق علیہ حدیث کہ: ”امام تو ایک ڈھال ہوتا ہے جس کے پیچھے رہ کر قتال کیا جاتا ہے“ پڑھی اور دریافت کیا کہ آپ کی امامت کی حیثیت کیا ہے، امام ِجہاد جو حکمران وامیر ہوتا ہے، یا نماز کے امام یا پھر دینی عالم ۔ چونکہ مودودی صاحب کسی علم وبصیرت پر تھے نہیں تو اس کا کوئی جواب انہيں نہيں آتا تھا، اور محض اسی سوال پر گنگ ہوکر ”سوچ کر بتا ؤ گا “ کا بہانہ کرکے چلتے بنے، اور پھر دیگر مجالس میں پکڑ سے بچ نکلنے کی کوشش کرتے رہے۔

یعنی اہل باطل کی طرح امارت وبیعت وبیت المال سب پر عمل چل رہا ہے مگر دلیل بعد میں سوچ کر، دیکھ کر بنائيں گے!

کافی ٹال مٹول کے بعد بھی ایسا وقت وجگہ منتخب کی کہ جماعتی کارکنان کو پتہ نہ چلے اور سب میری شکست فاش دیکھ کر بدک نہ جائيں۔

بہرحال حکیم صاحب نے احادیث صحیحہ پیش کیں اور دوٹوک الفاظ میں فرمایا:

”وہ امیریا امام جہاد اور اقامت دین کی بیعت لے سکتا ہے، اور بیت المال قائم کرنے کی اس امام کو شریعت کی طرف سے اجازت ہے، جس کے پاس حکومت ہو، سیاست ہو، کفار کے ساتھ جنگ کرے، اسلامی لشکر اور فوجیں رکھے، حدود شریعہ کا نفاذ کرسکے۔ ایسے امیر کی اطاعت اور بیعت واجب ہوتی ہے، اس کی جماعت سے باہر رہنا جاہلیت ہے۔ اس کے بالکل برعکس جو شخص یہ اوصاف نہ رکھتا ہو، صاحب سیف وسیاست نہ ہو، یہاں تک کہ طاغوت نے اس کو راشن کارڈ دیکر راتب بندی کردی ہو۔ ایسا شخص اگر اپنی اطاعت دوسروں پر واجب قرار دے، امیر یا امام بنے، جہاد کی بیعت لے، اور بیت المال قائم کرے، تو بفرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے شخص کی بیعت ناجائز ، امارت باطل اور بیت المال قائم کرنا منع ہے۔ اور اس کی جماعت میں اس کی اطاعت واجب جان کر داخل ہونا پوری جاہلیت اور گناہ ہے“۔

مودودی صاحب کے مناظرے سے بھاگتے رہنے پر حکیم صاحب فرماتے ہیں:

”خود کو امام جہاد کہنے والا باہر میدان میں نکل کر بات نہيں کرسکتا! اچھا جاؤ اپنے امام جہاد کو کہہ دو کہ محمد صادق اس کی چاردیواری، اس کی اپنی مجلس، اور اس کے خاص مریدوں کے اندر بحول اللہ القدیر اس امارت کا ابطال کرنے کو تیار ہے“۔

پھر مودودی صاحب دن تاریخ مقرر کرنے کے بجائے شارٹ نوٹس پر بات کرنے کو تیار ہوئے یہ کہتے ہوئے کہ پھر تو شہر میں لوگوں کو پتہ لگ جائے گا، تو زیادہ لوگ جمع ہوجائیں گے!

مولانا محمد صادق صاحب نے فرمایا:

”سبحان اللہ! یہ ہے امیر جہاد طاغوت بحر وبر سے ٹکر لینے کا عزم کجا، اور مسلمان بھائیوں سے خائف ہوکر ایک سائل سے بات کرنے کے لیے مریدوں کی چاردیواری کی پناہ لینا، استغفراللہ! “

خیر جب مودودی صاحب قابو میں آہی گئی تو مولانا صاحب نے وہ آیات قرآنیہ پڑھیں جن میں مومنین کو حکمِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے سرتسلیم خم کرنے کا حکم ہے، اور فرمایا:

”یہاں امارت مودودی کا جھگڑا درپیش ہے۔ ہم میں سے جو فیصلۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سن کر فوراً عملی طور پر قبول نہ کرےگا، اس کو ایمان اپنے کی خیر منانا چاہیے۔ تو بتائيں آپ کی امارت کی نوعیت کیا ہے۔ امامت نماز ہے، امامت علم ہے یا امامت جہاد ہے۔ واضح ہو کہ امامت جہاد کی پہچان اور معرفت کے لیے میں پھر وہی حدیث اس وقت پڑھتا ہوں جو مسجد مبارک میں پڑھی تھی کہ: امام ایک سپر (ڈھال) ہوتا ہے، جس کو آگے کرکے جنگ کی جاتی ہے۔ امام صاحبِ سیف وسیاست ہوتا ہے، حدود شرعیہ کو نافذ کرتا ہے، دیوانی وفوجداری عدالتیں بناتا ہے، لشکر اور فوجیں رکھتا ہے، اسلامی مملکت کی سرحدوں پر چھاؤنیاں قائم کرتا ہے، اور شریعت کی طرف سے ایسے ہی امام کو حکم اور اجازت ہے کہ بیت المال قائم کرے، امور سلطنت کا انتظام کرے، ہاں تو فرمائيں: آپ کیسے امام ہیں، سوچ سمجھ کر کہيں“۔

اس پر مودودی صاحب یہاں وہاں کی ہانکنے لگے کہ میں تو بکھرے مسلمانوں کو جمع کرنے والا ہوں، پھر سفر میں ایک کو امیر بنانے والی بات سے استدلال کرنے لگے کہ اسی طرح دین کا کام لینے کے لیے لوگوں نے مجھے امیر بنایا ہے۔
مولانا صاحب نے جواب دیا کہ پھر تو آپ کی امامت امیر سفر والی ہوئی! کیا سفری یا نماز کا امام بھی جہاد کی بیعت لیتا ہے، بیت المال قائم کرتا ہے؟!

مودودی صاحب نفی میں جواب دیتے ہيں۔

مولانا صاحب انہیں پھر کہتے ہیں کہ:

” (یعنی آپ امامت کبریٰ سے ہٹ کر) امام صغریٰ کا اقرار کرتے ہيں، اور جہاد کی بیعت لیتے ہیں، اپنی اطاعت اولیٰ الامر کی طرح دوسروں پر واجب کہتے ہیں، اور امیر المؤمنین ابو بکر t کی طرح بیت المال قائم کررکھا ہے، اور مریدوں کو حکم دے رکھا ہے کہ ان کی زکوٰۃ تو سوائے بیت المال مودودی کے قبول نہ ہوگی۔ فرمائیں، امام بامامۃ صغریٰ کس آیت یا حدیث کی رو سے جہاد کی بیعت لے سکتا ہے، اپنی اطاعت دوسروں پر واجب کرسکتا ہے، اور بیت المال قائم کرسکتا ہے، حالانکہ یہ کام امام جہاد سے متعلق ہیں“۔

مودودی صاحب بالآخر کہہ اٹھتے ہیں کہ:

”اچھا تو آپ مجھے امام جہاد ہی کہہ لیں“۔

مولانا صاحب :

” میں آپ کو کیوں کہوں، جب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی امامت جہاد کو باطل اور ناجائز کہتے ہيں، تو پھر کون آپ کو امام جہاد کہہ کر اللہ اور رسول e کا نافرمان بن سکتا ہے، اور پھر کافر طاغوتی حکومت کی رعایا کے ایک فرد( مودودی) کو کیسے امام جہاد کہہ سکتا ہوں، خود فرمائيں! “

مودودی مصر رہے ہیں ہاں میں امام جہادہوں۔

مولانا صاحب نے عرض کی:

” مولانا! راشن کارڈ ہاتھ میں لے کر طاغوت کے حضور جاکر عرض کرنا: یا طاغوت! (امام جہاد کو) چائے کے لیے چینی دو۔ یا طاغوت! (امام جہاد کو) کپڑا تن ڈھانپنے کے لیے عطاء ہو۔ یا طاغوت! (امام جہاد کو) آٹا دو۔ مولانا! جس طرح دوسرے لوگ طاغوت کے حکم کی زنجیر میں کسے ہوئے ہيں، اسی طرح آپ بھی اسی زنجیر میں بندھے ہوئے کراہ رہے ہيں۔ فرمائیں کس منہ سے آپ اپنے تئیں امام جہاد کہتے ہيں“۔

مودودی:

”اگرچہ مجھے اختیار واقتدار حاصل نہيں لیکن ہوں امام جہاد، اور دعوت ہے اقامت دین“۔

مولانا صادق:

”مولانا! سنیں ایک شخص دیہات میں جاکر کہے کہ میری حیثیت تحصیلدار کی ہے، حکومت نے مجھے تحصیلدار مقرر نہیں کیالیکن میں تم کو حکم دیتا ہوں کہ مجھے مالیہ دو۔ اس سر پھرے جھوٹے کو کون مالیہ دے گا؟! اسی طرح سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو امامت جہاد کا منصب تفویض نہیں کیا، آپ خود اپنی طرف سے لوگوں کو کہہ رہے ہيں کہ میری حیثیت امام جہاد کی نہیں اور نہ شریعت کی طرف سے مجھ کو بیعت جہاد کی اجازت ہے، لیکن میں اپنے ذاتی حکم سے تمہیں کہتا ہوں کہ میرے بیت المال میں زکوٰۃ دو۔ میری اطاعت تم پر واجب ہے!

مولانا مکالمہ شروع ہوئے قریبا ًایک گھنٹہ ہونے کو ہے میں نے آپ کی زبان سے نہ کوئی آیت سنی ہے اور نہ کوئی حدیث،اور نہ آئمہ حدیث وفقہ کا کوئی قول۔اب میں آپ کی زبان سے آپ کی امامت جہاد کے ثبوت میں کوئی دلیل شرعی سننا چاہتا ہوں۔ فرمائیں کیسے ہوئے آپ امام جہاد؟“

مودودی صاحب:

”اچھا میں امام جہاد کے الفاظ واپس لیتا ہوں!! “

محمد صادق:

” امام جہادکے الفاظ تو واپس لے لیے، تو مطلب یہ ہوا کہ نام نہاد دعوت اقامت دین (جہاد) بھی ختم۔ جہاد کی بیعت بھی باطل ٹھہری اور قیام بیت المال بھی شرعاً ناجائز ہوا۔ اور آپ کی حیثیت صرف ایک عالم اور مبلغ کی ہوگئی۔ اب آپ کی حیثیت نہ امیر باصطلاح معروف رہی اور نہ آپ کی اطاعت دوسروں کے لیے باصطلاح شرعی واجب رہی“۔

مودودی:

”بیعت تو ہم ایسی ویسی نہیں لیتے صرف اقرار کرتے ہیں کہ دین کی خدمت کرنا ہوگی۔ یہ اقرار ہے، اچھا اسے بیعت کہہ لیجئے۔ اور بیت المال دینی ضروریات کے لیے ہے“۔

محمد صادق:

”واہ، مودودی صاحب! کتاب ”دستور جماعت اسلامی“ میں تو آپ نے لکھا ہے جان ، مال، اولاد، خویش،اقارب، دوست سب جماعت کے حوالے کردینا ہوگا، (امیر کے ہاتھ پر) یہی تو جہاد کی بیعت ہے۔اور ایسی جہاد کی بیعت بحکم رسول امین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف امام سیاست جس کے ہاتھ میں اقتدار اور حکومت ہو لے سکتا ہے، او ربیت المال بھی وہی امام قائم کرنے کا مجاز ہے، نہ کہ طاغوت کا غلام اور محکوم (مودودی صاحب) “

مودودی:

”اچھا تو ایسی بیعت میں کیا حرج ہے؟“

محمد صادق:

” سب سے بڑا حرج تو یہ ہے کہ ایسا کرنے والا اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نافرمان ہے، کتاب وسنت کا مخالف ہے، کیونکہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف وہ جہاد کی بیعت لیتا ہے، اور اپنی اطاعت دوسروں کے لیے واجب کہتا ہے، اور بیت المال قائم کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ناراض کرتاہے۔ جب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں ناراض ہوجائيں تو اس سے بڑا اور کیا حرج ہے۔

ایک بات اور توجہ سے سنیں۔

مرزا بشیر گدی نشین کہتا ہے:

میں امیر ہوں میری اطاعت واجب ہے، میرے بیت المال میں سب زکوٰۃ دو۔

لاہوری پارٹی کا مولوی محمد علی کہتا ہے :

میں امیر ہوں، میری اطاعت واجب ہے، میرے بیت المال میں زکوٰۃ دو۔
مولوی عبدالوہاب دہلوی(جماعت غرباء اہلحدیث) نے بھی یہی کہا کہ:

میں امیر ہوں، میری اطاعت واجب، اور زکوٰۃ میرے بیت المال میں میں لگے گی۔

بالکل ان امیروں کی طرح آپ بھی فرماتے ہیں:

میں امیر ہوں، میری اطاعت واجب ہے، زکوٰۃ میرے بیت المال میں دو۔

مولانا! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے جو امیر برحق شریعت کی شرائط کے مطابق ہو، اس کو مسلمان امیر بنالیں، اس کے ہوتے ہوئے اگر کوئی اور امیر کھڑا ہو تو امام جہاد برحق کا فرض ہے کہ دوسرے باطل امیر کو قتل کرے۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ موجودہ امارتیں جو اس وقت مع آپ کے ہندوستان میں موجود ہيں،ان میں سے کون سی امارت برحق ہے؟ اور بحکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کون کون سی واجب القتل ہیں؟“

مودودی:

”معاف کریں! میرے پاس کوئی جواب نہیں، اور نہ جواب دوں گا“۔

(ختم شد!)

حکیم صادق صاحب سیالکوٹی : کی آخری نصیحت

حکیم صاحب نے ان تین مریدوں کو جنہوں نے انتہائی کوشش سے یہ مکالمہ اور مناظرہ کرایا تھا مودودی صاحب کے سامنے کہا کہ: بھائی عبدالواحد صاحب بتاؤ، کیا کوئی کسر باقی رہ گئی ہے، دیکھ لو، مودودی صاحب تو اب کہتے ہیں: نہ میرے پاس ہے اور نہ ہی آئندہ آپ کے سوال کا جواب دوں گا۔ تین بار مریدوں کو توجہ دلائی، افسوس ان تینوں مریدوں نے یہ عہد کیا تھا کہ اگر مودودی صاحب تسلی بخش جواب نہ دے سکے تو ہم وہاں سے اٹھ کر چلے آئيں گے، لیکن برا ہو عصبیت اور دھڑا بندی (حزبیت) کا کہ ان تین مریدوں نے بھی یہی سمجھا کہ دھرم سے دھڑا پیارا رکھنا۔ اور مودودی صاحب کی شخصیت کی پرستش کرنا ہی عین ایمان ہے۔

قریب ہے یار روز محشر چھپے گا کشتوں کا خون کیوں کر

جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستین کا

30، محرم 1322ھ مطابق 25، دسمبر 1946ع
[#SalafiUrduDawah Article] The #noble_lineage of #prophet_Muhammad (SalAllaaho alaihi wasallam) – Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen #Al_Albaanee
#رسول_اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا #نسب_شریف
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین #البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: صحيح السيرة النبوية (ما صح من سيرة رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وذكر أيامه وغزواته وسراياه والوفود إليه- للحافظ إبن کثیر)
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/12/nabi_nasab_shareef.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب شریف اور عالی رتبہ اصل کا بیان
فرمان الہی ہے:
﴿اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ﴾ (الانعام: 124)
(اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتا ہے کہ کہاں وہ اپنی پیغمبری رکھے)
اور جب روم کے بادشاہ ہرقل نے سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات کے متعلق سوالات کیے تو کہا کہ:
’’كَيْفَ نَسَبُهُ فِيكُمْ؟‘‘
(ان کا تمہارے درمیان نسب کیسا ہے؟)
انہوں نے جواب دیا:
’’هُوَ فِينَا ذُو نَسَبٍ‘‘
(وہ ہمارے درمیان بڑے حسب نسب والے ہیں)۔
اس نے کہا:
’’وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي أنْسَابِ قَوْمِهَا‘‘
(اسی طرح سے رسول اپنی قوم کے نسب میں سے ہوتا ہے)۔
یعنی وہ حسب نسب کے اعتبار سے بڑے معزز اور قبیلے کے اعتبار سے بہت کثیر ہوتے ہیں (صلوات الله عليهم أجمعين)۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سید ولد آدم ہیں اور دنیا وآخرت میں ان کے لیے باعث فخر ہیں۔اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوالقاسم، ابو ابراہیم، محمد، احمد، الماحی (جس سے اللہ تعالی کفر کو مٹا دیتا ہے)، العاقب (جس کے بعد کوئی نبی نہیں)، الحاشر (کہ جن کے قدم مبارک ([1])پر لوگوں کا حشر ہوگا)، المقفی، نبی الرحمۃ، نبی التوبۃ، نبی الملحمۃ، خاتم النبیین اور عبداللہ ہیں([2])۔
امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتےہیں: بعض علماء نے ان القاب میں اضافہ فرمایا ہے اور بتایا کہ: اللہ تعالی نے آپ کو قرآن کریم میں رسول، نبی، اُمِّی، شاہد، مبشر، نذیر، داعی الی اللہ باذنہ، سراج منیر، رؤوف ورحیم، مذکر نام دیا اور آپ کو رحمت، نعمت اور ہادی بنایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابن عبداللہ بن عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف بن قصي بن كلاب ابن مرة بن كعب بن لؤي بن غالب بن فهر بن مالك بن النضر بن كنانة بن خزيمة بن مدركة بن إلياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان جو کہ لامحالہ سیدنا اسماعیل علیہ الصلاۃ والسلام کی اولاد میں سے ہیں البتہ اس میں اختلاف ہے کہ ان کے درمیان کتنے آباء پڑتے ہيں۔
اور یہ جو نسب اس طور پر بیان ہوا ہے اس میں علماء کرام میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا([3])۔ پس عرب حجاز کے تمام قبائل اس نسب کی جانب ہی منسوب ہوتے ہیں۔ اسی لیے سیدنا ابن عباس w وغیرہ نے اس فرمان الہی کی تفسیر میں فرمایا: ﴿قُلْ لَّآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰى﴾ (الشوری: 23) (تو کہہ دیجئے! کہ میں اس پر تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا سوائے محبت رشتہ داری کی) کہ قریش کے قبائل میں سے کوئی بھی قبیلہ ایسا نہیں تھا کہ جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نسب نہ ملتا ہو([4])۔
اسی طرح سے مرسل اور موقوف دونوں طور پر روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’خَرَجْتُ مِنْ نِكَاحٍ، وَلَمْ أَخْرُجْ مِنْ سِفَاحٍ، مِنْ لَدُنْ آدَمَ إِلَى أَنْ وَلَدَنِي أَبِي وَأُمِّي،وَلَمْ يُصِبْنِي مِنْ سِفَاحِ الْجَاهِلِيَّةِ شَيْءٌ‘‘([5])
(سیدنا آدم علیہ الصلاۃ والسلام سے لے کر میرے پورے نسب کے اعتبار سے میں نکاح کے ذریعے آیا ہوں بدکاری کے ذریعے نہیں یہاں تک کہ میرے ماں باپ نے مجھے پیدا کیا، مجھے جاہلیت کی گندگی میں سے کوئی چیز نہیں پہنچی)۔
اسے ابن عدی نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اس کی مرسل سند جید ہے۔
صحیح بخاری میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’بُعِثْتُ مِنْ خَيْرِ قُرُونِ بَنِي آدَمَ قَرْنًا فَقَرْنًا، حَتَّى بُعِثْتُ مِنَ الْقَرْنِ الَّذِي كُنْتُ فِيهِ‘‘([6])
(میں بنی آدم کی بہترین نسل سے نسب کے اعتبار سے نسل در نسل چلتا آیا ہوں یہاں تک کہ میں اس نسل یا زمانے میں پیدا ہوا جس میں میں اب ہوں)۔
اور صحیح مسلم میں ہےسیدنا واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى مِنْ وَلَدِ إِبْرَاهِيمَ إِسْمَاعِيلَ، وَاصْطَفَى مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ بَنِي كِنَانَةَ، وَاصْطَفَى مِنْ بَنِي كِنَانَةَ قُرَيْشًا، وَاصْطَفَى مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي هَاشِمٍ، وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ ‘‘([7])
(اللہ تعالی نے ولد ابراہیم میں سے اسماعیل کو چنا، پھر ولد اسماعیل میں سے بنی کنانہ کو چنا، پھر بنی کنانہ میں سے قریش کو چنا، پھر قریش میں سے بنی ہاشم کو چنا، پھر مجھے بنی ہاشم میں سے چنا)۔
امام احمد رحمہ اللہ نے المطلب بن ابی وداعہ سے روایت کیا انہیں سیدنا العباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ:
’’بَلَغَهُ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بَعْضُ مَا يَقُولُ النَّاسُ، قَالَ: فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَقَالَ: مَنْ أَنَا، قَالُوا: أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ: أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِ خَلْقِهِ، وَجَعَلَهُمْ فِرْقَتَيْنِ، فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِ فِرْقَةٍ، وَخَلَقَ الْقَبَائِلَ، فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِ قَبِيلَةٍ، وَجَعَلَهُمْ بُيُوتًا، فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ بَيْتًا، فَأَنَا خَيْرُكُمْ بَيْتًا، وَخَيْرُكُمْ نَفْسًا‘‘([8])
(نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بعض باتیں پہنچی کہ لوگ (ایسا ایسا ) کہتے ہیں اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر چڑھے اور پوچھا: میں کون ہوں؟ لوگوں نے کہا: آپ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں۔ اللہ تعالی نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو مجھے اپنی بہترین مخلوق میں رکھا۔ اور انہیں دو فرقوں میں تقسیم کیا تو مجھے بہترین فرقے میں رکھا۔ اور انہيں قبائل میں تقسیم کیا تو مجھے بہترین قبیلے میں رکھا۔ اور ان کے گھرانے بنائے تو مجھے بہترین گھرانے والا بنایا۔ پس میں تم میں سےگھرانے کے اعتبار سے اور شخصیت کے اعتبار سے بہترین ہوں)۔ (صلوات الله وسلامه عليه دائما أبدا إلى يوم الدين)۔
اور الصحیح (بخاری) میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ‘‘([9])
(میں بروز قیامت ولد آدم کا سردار ہوں کوئی فخر نہیں(یعنی بطور فخر نہیں بلکہ اللہ کے فضل کے بیان، تحدیث نعمت اور اللہ کے حکم سے ایسا کہہ رہا ہوں))۔
[1] یعنی نقش قدم پر۔
[2] میں یہ کہتا ہوں کہ یہ دو آخری اسماء اور احمد قرآن کریم میں ہیں۔ اور یہ تمام مختلف احادیث میں آئےہیں جن میں سے بعض ’’تخریخ الطحاویۃ‘‘ ص 292، ’’الاحادیث الصحیحۃ‘‘ (1571، 1628) اور ’’الروض النضیر‘‘ (401، 1017)میں ہیں۔
[3] میں یہ کہتا ہوں: اسی لیے میں اسے اس ’’الصحیح‘‘ میں لایا ہوں اس منہج کا التزام کرتے ہوئے جو میں نے مقرر کیا تھا، جیسا کہ میں نے مقدمے میں اس کی وضاحت کی ہے۔ اس کے لیے شیخ ابو زہرہ نے اپنی کتاب (1/87) میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس روایت سے استدلال کیا ہے کہ: (نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب عدنان تک پہنچتے تھے تو رک جاتے تھے۔ پھر کہتے نسب نگاروں نے جھوٹ بولا، فرمان الہی ہے: ﴿وَقُرُوْنًــۢا بَيْنَ ذٰلِكَ كَثِيْرًا﴾ (الفرقان: 38) (ان کے مابین بہت سی نسلیں گزری ہیں))۔ ان پر یہ بات مخفی رہی کہ یہ ایک موضوع حدیث ہے۔ اس میں ایک کذاب ہے جو اس بات کا خود اعتراف کرتا ہے جیسا کہ ’’الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ‘‘ (111) میں اس کی وضاحت ہے۔
[4] رواہ البخاری فی ’’التفسیر/ الشوری‘‘۔
[5] میں کہتا ہوں کہ: میں نے اس کے طرق پر ’’ارواء الغلیل‘‘ (1972) میں کلام کیا ہے یہ حدیث اپنے مجموعی طرق کی بنا پر حسن کے درجے پر پہنچ جاتی ہے، اسی لیے میں اسے ’’صحیح الجامع الصغیر‘‘ (3218-3220) میں لایا ہوں۔
[6] یہ ’’الاحادیث الصحیحۃ‘‘ (809) میں بھی مخرج ہے۔
[7] سابقہ مصدر کے (302) میں بھی یہ حدیث مخرج ہے۔ اس کا پہلا جملہ صحیح مسلم میں نہیں ہے بلکہ یہ ترمذی وغیرہ میں ضعیف سند کے ساتھ موجود ہے۔ اس کی جانب رجوع کیا جائے۔ لہذا اس کی جانب اسے منسوب کرنے میں جو بات ہے کسی پر مخفی نہيں، اگر چہ ابو زہرہ نے اپنی کتاب میں اس کی تقلید کی ہے (1/81)۔
[8] اسے ’’تخریج المشکوۃ‘‘ (5757) اور ’’صحیح الجامع‘‘ (1485) میں دیکھیں ۔
[9] بلاشبہ یہ حدیث بالکل صحیح ہے لیکن اسے ان تمام الفاظ کے ساتھ ’’الصحیح‘‘ کی طرف منسوب کرنے میں نظر ہے۔ یہاں الصحیح سے مراد صحیح مسلم ہے۔ کیونکہ اس میں یہ حدیث (7/59) میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بنا اس زیادت کے مرفوعاً مروی ہے کہ: ’’ولا فخر‘‘ اسی طرح کے شیخین کے یہاں انہی سے ان الفاظ کے ساتھ روایت ہے کہ: ’’انا سید الناس یوم القیامۃ۔۔۔‘‘ طویل حدیث الشفاعۃ کے تحت بیان ہوئی ہے۔ اور یہ مخرج ہے ’’ظلال الجنۃ فی تخریج السنۃ‘‘ (811)۔ جبکہ اس زیادت کو ابن حبان وغیرہ نے روایت کیا ہے سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ وغیرہ سے جو کہ ’’الصحیحۃ‘‘ (1571) میں مخرج ہے۔
[#SalafiUrduDawah Article] Refutation of those who believe that #the_prophet_is_alive as of a worldly life after his death – Various 'Ulamaa
ان لوگوں کا رد جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی وفات کے بعد
دنیاوی حیات کی طرح حیات ہیں (عقیدۂ #حیات_النبی)
مختلف علماء کرام
ترجمہ واضافہ جات: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء، القول البليغ في التحذير من جماعة التبليغ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بعض لوگوں خصوصاً بریلویوں اور دیوبندی حیاتیوں کا یہ گمراہ کن عقیدہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلکہ دیگر انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام پر بھی محض وعدۂ الہی کی وفاء کے لیے ایک آن کو موت طاری ہوئی اب وہ قبر کی برزخی نہیں بلکہ دنیاوی زندگی کی مانند حسی طور پر زندہ ہیں اور تصرف فرماتےہیں۔ اور بدعتیانہ محفل میلاد یا ہمارے بزرگوں وغیرہ کے پاس تشریف لاتے ہیں۔ بلکہ انہیں فوت شدہ سمجھنا گستاخی ہے اور یوں کہنا چاہیے کہ ان پر ظاہری موت طاری ہوئی تھی بس انہوں نے دنیا سے پردہ فرمالیا ہے۔ اس غلط عقیدے کے رد میں علماء کرام کا کلام پیش خدمت ہے۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/12/rad_aqeedah_hayat_un_nabi.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] The one who doesn’t accept #the_messenger (SalAllaho alayhi wasallam) as a human being – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah #bin_Baaz
جو شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو #بشر نہ سمجھے اس کا حکم؟ (#نبی_بشر_نہیں بلکہ #نور_من_نور_اللہ ہیں کا عقیدہ)
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ کی ویب سائٹ سے فتوی رقم 1801، مجموع فتاوى ومقالات متنوعة الجزء الخامس۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/12/jo_nabi_ko_bashar_na_manay.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: اگر کوئی ایسا شخص فوت ہوجاتا ہے جو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشر نہیں، اور وہ عالم الغیب ہیں اور یہ کہ زندہ وفوت شدگان اولیاء کا وسیلہ پکڑنا اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا ہے۔ کیا ایسا شخص جہنم میں جائے گا اور مشرک متصور ہوگا۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ وہ اس عقیدے کے علاوہ اور کوئی عقیدہ جانتا ہی نہیں اور ایسے علاقے میں رہا کہ جہاں کہ تمام علماء وباشندے یہی عقیدہ رکھتے ہیں۔ ایسے شخص کا کیا حکم ہے؟ اور ایسے شخص کی وفات کے بعد اس کی طرف سے صدقہ کرنے یا احسان کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: جو کوئی اس عقیدے پر فوت ہوتا ہے کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشر نہیں تھے یعنی کہ وہ بنی آدم میں سے نہ تھے۔ یا یہ عقیدہ رکھے کہ وہ عالم الغیب ہیں۔ تو ایسا عقیدہ کفر ہے اور ایسا عقیدہ رکھنے والا کفر اکبر کا مرتکب کافر ہے([1])۔ اسی طرح سے اگر وہ انہیں پکارتا ہے، ان سے فریاد کرتا ہے، ان کے یا کسی اور انبیاء وصالحین یا جن وفرشتے واصنام کے نام کی نذرونیاز کرتا ہےتو یہ سب اولین مشرکین کے اعمال ہیں جیسے ابوجہل اور اس جیسے دیگر مشرکین، اور یہ سب شرک اکبر ہے۔ اور بعض لوگ ان کو شرک بطور وسائل شرک کے قرار دیتے ہیں یعنی جو (براہ راست) شرک اکبر نہیں ہوتے۔
جیسے اس وسیلے کی ایک دوسری قسم ہے جو شرک نہیں بلکہ بدعت ہے اور شرک کے وسائل میں سے ہے اور وہ انبیاء وصالحین کی جاہ ومرتبت یا انبیاء وصالحین کے حق یا ان کی ذات کے حق کے وسیلے سے اللہ تعالی سے دعاء کرنا ہے۔ واجب ہےکہ ہم ان دونوں اقسام سے بچیں۔
جو پہلی قسم پر فوت ہو تو نہ اسے غسل دیا جائے، نہ اس کا جنازہ پڑھا جائے، اور نہ ہی اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے۔ نہ ہی اس کے لیے دعاء کی جائے اور نہ ہی اس کی طرف سے صدقہ کیا جائے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ﴾ (التوبۃ: 113)
(نبی کے لیے اور جو ایمان لائے ان کےلیے کبھی بھی یہ جائز نہیں کہ مشرکین کے لئے مغفرت کی دعاء مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں، اس بات کےظاہر ہو جانے کے بعد کہ یہ لوگ بے شک جہنمی ہیں)
جبکہ اللہ تعالی کے اسماء وصفات اور اس کی توحید وایمان کا توسل اختیار کرنا جائز وشرعی توسل ہے اور دعائوں کی قبولیت کے اسباب میں سے ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَلِلّٰهِ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا﴾ (الاعراف: 180)
(اور اللہ تعالی کے لیے اسماءِ حسنیٰ ہیں پس تم اسے انہی سے پکارو اور دعاء کرو)
اور جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کو یہ دعاء کرتے ہوئے سنا :
’’اللهم إني أسألك بأنك أنت الله لا إله إلا أنت الفرد الصمد، الذي لم يلد ولم يولد، ولم يكن له كفوا أحد‘‘ (اے اللہ میں بے شک تجھ سے سوال کرتا ہوں کیونکہ بلاشبہ تو ہی اللہ ہے کہ تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، اکیلا ہے، بے نیاز ہے، کہ جس نے نہ کسی کو جنا اور نہ جنا گیا، اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے)
اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’لقد سأل الله باسمه الذي إذا سئل به أعطى، وإذا دعي به أجاب‘‘([2])
(یقیناً اس نے اللہ تعالی کے اس نام کے ساتھ سوال کیا ہے کہ جس کے ذریعہ اگر سوال کیا جائے تو وہ عطاء کرتا ہے، اور اگر دعاء کی جائے تو وہ قبول کرتا ہے)۔