Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.27K subscribers
2.49K photos
52 videos
211 files
4.94K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[#SalafiUrduDawah Article] #Criticizing_government on passing unfair resolutions? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al-Fawzaan
غیرشرعی قرارداد پاس کرنے کے سبب #حکمران_پر_تنقید کرنا؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الاجابات المھمۃ فی المشاکل المدلھمۃ، سوال 14۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/09/qarardad_hukkam_tanqeed.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا کوئی قرارداد یا بل وغیرہ پاس کرنے پر حکمران پر اعتراض کیا جاسکتا ہے اگراس قرارداد میں غلطی یا گناہ کی کوئی (غیرشرعی) بات ہو؟ اس بارے میں سلف صالحین کا کیا عمل ہوا کرتا تھا؟ ہمیں فتویٰ دیں اور اجر پائیں۔
جواب: حکمران کی اطاعت واجب ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ﴾ (النساء: 59)
(اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ تعالی کی، اور اطاعت کرو رسول اللہ کی ، اور ان کی بھی جو تمہارےحکمران ہیں)
پس جو بات واجب اور اصل ہے وہ حکمران کی اطاعت ہے لیکن اگر وہ کسی معصیت وگناہ کا حکم دے تو اس کی اس معصیت میں اطاعت نہیں کی جائےگی۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
’’لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ‘‘([1])
(خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں)۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ:
’’إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ‘‘([2])
(اطاعت تو صرف معروف کاموں میں کی جاتی ہے)۔
لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ آپ حکمران کے خلاف خروج کریں یا اس کا تختہ الٹنا چاہیں، بس یہ ہے کہ آپ وہ معصیت نہ کریں جس کا وہ حکم دے رہا ہے اور اس کے علاوہ جن باتوں کا وہ حکم دے اسے بجالائیں۔ آپ اسی کی حکومت کے ماتحت رہیں، نہ اس کے خلاف خود نکلیں اور نہ دوسروں کو اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے پر ابھاریں، نہ ہی مجلسوں میں اور لوگوں کے سامنے اس کے خلاف باتیں کریں، کیونکہ اس سے شروفتنہ پھیلتا ہے۔ اور لوگوں کو ایسے وقت میں حکام کے خلاف بغض سے بھرنا جبکہ کفار ہماری تاک لگائے بیٹھے گردش ایام کے منتظر ہیں، اور ایسا بھی ممکن ہے کہ اگر انہیں اس بات کی خبر ہوجائے تو وہ ان جذبانی مسلمانوں میں اپنا زہر سرائیت کرکے انہیں ان کے حکمرانوں کے خلاف بھڑکائیں گے، جس کے نتیجے میں فتنہ وفساد ہوگا،اور نتیجہ کافروں کا مسلمانوں پر تسلط کی صورت میں سامنے آئے گا۔
لہذا حکمران خواہ کیسے بھی ہوں ان میں خیر کثیر اور عظیم مصالح ہوتےہیں۔ وہ بھی ایک بشر ہیں معصوم نہیں بعض باتوں میں غلطی کرجاتےہیں۔ لیکن ان کی اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں خفیہ طور پر نصیحت کی جائے، یا ان تک پہنچائی جائے۔ اور ان کے سامنے صحیح بات پیش کی جائے۔لیکن مجالس میں بیٹھ کر ان پر کلام کرنا اور اس سے بھی شدید تر خطبوں اور تقاریر میں ان پر کلام کرنا اہل شقاق واہل نفاق واہل شر کا طریقہ ومنہج ہے کہ جو مسلمانوں کی حکومت میں انتشار مچانا چاہتے ہیں۔
[1] رواہ احمد برقم (20653)، والطبرانی فی الکبیر (18/381) واللفظ لہ عن عمران بن حصین رضی اللہ عنہ۔
[2] رواہ البخاری برقم (7145، 4340)، ومسلم برقم (1840) من حدیث علی رضی اللہ عنہ۔
[#SalafiUrduDawah Article] #Criticizing_government on passing #unfair_resolutions? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#غیرشرعی_قرارداد پاس کرنے کے سبب #حکمران_پر_تنقید کرنا؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الاجابات المھمۃ فی المشاکل المدلھمۃ، سوال 14۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/09/qarardad_hukkam_tanqeed.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: کیا کوئی قرارداد یا بل وغیرہ پاس کرنے پر حکمران پر اعتراض کیا جاسکتا ہے اگراس قرارداد میں غلطی یا گناہ کی کوئی (غیرشرعی) بات ہو؟ اس بارے میں سلف صالحین کا کیا عمل ہوا کرتا تھا؟ ہمیں فتویٰ دیں اور اجر پائیں۔
جواب: حکمران کی اطاعت واجب ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ﴾ (النساء: 59)
(اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ تعالی کی، اور اطاعت کرو رسول اللہ کی ، اور ان کی بھی جو تمہارےحکمران ہیں)
پس جو بات واجب اور اصل ہے وہ حکمران کی اطاعت ہے لیکن اگر وہ کسی معصیت وگناہ کا حکم دے تو اس کی اس معصیت میں اطاعت نہیں کی جائےگی۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
’’لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ‘‘([1])
(خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں)۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ:
’’إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ‘‘([2])
(اطاعت تو صرف معروف کاموں میں کی جاتی ہے)۔
لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ آپ حکمران کے خلاف خروج کریں یا اس کا تختہ الٹنا چاہیں، بس یہ ہے کہ آپ وہ معصیت نہ کریں جس کا وہ حکم دے رہا ہے اور اس کے علاوہ جن باتوں کا وہ حکم دے اسے بجالائیں۔ آپ اسی کی حکومت کے ماتحت رہیں، نہ اس کے خلاف خود نکلیں اور نہ دوسروں کو اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے پر ابھاریں، نہ ہی مجلسوں میں اور لوگوں کے سامنے اس کے خلاف باتیں کریں، کیونکہ اس سے شروفتنہ پھیلتا ہے۔ اور لوگوں کو ایسے وقت میں حکام کے خلاف بغض سے بھرنا جبکہ کفار ہماری تاک لگائے بیٹھے گردش ایام کے منتظر ہیں، اور ایسا بھی ممکن ہے کہ اگر انہیں اس بات کی خبر ہوجائے تو وہ ان جذبانی مسلمانوں میں اپنا زہر سرائیت کرکے انہیں ان کے حکمرانوں کے خلاف بھڑکائیں گے، جس کے نتیجے میں فتنہ وفساد ہوگا،اور نتیجہ کافروں کا مسلمانوں پر تسلط کی صورت میں سامنے آئے گا۔
لہذا حکمران خواہ کیسے بھی ہوں ان میں خیر کثیر اور عظیم مصالح ہوتےہیں۔ وہ بھی ایک بشر ہیں معصوم نہیں بعض باتوں میں غلطی کرجاتےہیں۔ لیکن ان کی اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں خفیہ طور پر نصیحت کی جائے، یا ان تک پہنچائی جائے۔ اور ان کے سامنے صحیح بات پیش کی جائے۔لیکن مجالس میں بیٹھ کر ان پر کلام کرنا اور اس سے بھی شدید تر خطبوں اور تقاریر میں ان پر کلام کرنا اہل شقاق واہل نفاق واہل شر کا طریقہ ومنہج ہے کہ جو مسلمانوں کی حکومت میں انتشار مچانا چاہتے ہیں۔

[1] رواہ احمد برقم (20653)، والطبرانی فی الکبیر (18/381) واللفظ لہ عن عمران بن حصین رضی اللہ عنہ۔

[2] رواہ البخاری برقم (7145، 4340)، ومسلم برقم (1840) من حدیث علی رضی اللہ عنہ۔
[Article] Ruling regarding having more than one #ruler for Muslim ‘Ummah - Shaykh Abdus Salaam bin #Burjus Aal-Abdul Kareem

ایک سے زائد آئمہ یا خلیفہ ہونا صحیح ہے، اور ہر امام (#حکمران/خلیفہ) کا اپنے ملک میں وہی امام اعظم والا حکم ہوگا

فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بن #برجس آل عبدالکریم رحمہ اللہ المتوفی سن 1425ھ

( سابق مساعد استاد المعھد العالي للقضاء، الریاض)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: معاملۃ الحکام فی ضوء الکتاب والسنۃ۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

#SalafiUrduDawah

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/01/aik_say_zada_imam_hakim_hukm.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

’’ومن لم يفرق بين حالي الاختيار والاضطرار، فقد جهل المعقول والمنقول‘‘([1])

(جو شخص حالتِ اختیار اور اضطرار(مجبوری) میں فرق نہیں کرتا تو وہ معقول (عقل) اور منقول (شریعت) سے جہالت میں مبتلا ہے)۔

شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’الأئمة مجموعون من كل مذهب على أن من تغلب على بلد – أو بلدان – له حكم الإمام في جميع الأشياء ولولا هذا ما استقامت الدنيا، لأن الناس من زمن طويل – قبل الإمام أحمد إلي يومنا هذا – ما اجتمعوا على إمام واحد ولا يعرفون أحداً من العلماء ذكر أن شيئا من الأحكام لا يصح إلا بالإمام الأعظم‘‘([2])

(ہر مذہب کے آئمہ کرام اس بات پر متفق ہیں کہ جو کوئی بھی کسی ایک یا اس سے زائد ممالک پر غالب آجائے تو تمام چیزوں کے بارے میں اس کا حکم امام (امام اعظم/خلیفہ) کا ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کبھی بھی یہ دنیا کے امور استقامت پر نہیں آسکتے تھے، کیونکہ لوگ تو ایک زمانۂ طویل سے یعنی امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے دور سے پہلے سےلے کر اب تک کسی ایک امام وخلیفہ پر تو کبھی متفق ہوئے ہی نہیں۔ اس کے باوجود ہمیں نہیں معلوم کہ کسی عالم نے یہ کہا ہو کہ (خلیفہ یا امام کے تعلق سے دینی) احکام جب تک امام اعظم (یعنی تمام مسلم دنیا کا ایک ہی خلیفہ) نہ ہو تو ان پر عمل درست نہیں)۔

اور علامہ امیر الصنعانی رحمہ اللہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس مرفوع حدیث کے شرح میں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ e نے فرمایا:

’’مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَةِ وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ فَمَاتَ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً‘‘([3])

(جواطاعت سے نکل گیا اور جماعت کو چھوڑ دیا اور اسی حال میں مرا، تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی)۔

’’قوله : ((عن الطاعة ))، أي : طاعة الخليفة الذي وقع الاجتماع عليه ،وكأن المراد خليفة أي قطر من الأقطار، إذ لم يجمع الناس على خليفة في جميع البلاد الإسلامية من أثناء الدولة العباسية بل استقل أهل كل إقليم بقائم بأمورهم، إذ لو حمل الحديث على خليفة أجتمع عليه أهل الإسلام، لقلت فائدته. وقوله : (( وفارق الجماعة ))، أي : خرج عن الجماعة الذين اتفقوا على طاعة إمام انتظم به شملهم واجتمعت به كلمتهم وحاطهم عن عدوهم‘‘([4])

آپ e کا یہ فرمانا: ’’عن الطاعة‘‘ (اطاعت سے نکل گیا) یعنی خلیفہ کی اطاعت سے نکل گیا کہ جس پر سب کا اجتماع ہوگیا ہو اورگویا کہ اس سے مراد یہ بھی ہے کہ خطوں میں سے کسی خطے کا اپنا خلیفہ کیونکہ دولت عباسیہ کے وقت تمام اسلامی ممالک کسی ایک خلیفہ پر تو مجتمع نہ تھے۔ بلکہ ہر صوبے کے لوگ اپنے ولی امر کے ساتھ مستقل ریاست تھے۔ کیونکہ اگر اس حدیث کو ایسے خلیفہ سے ہی محدود کردیا جائے کہ جس پر تمام اہل اسلام مجتمع ومتفق ہوں تو اس کی افادیت میں کمی ہوجائے گی۔ اور آپ e کا یہ فرمانا: ’’وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ‘‘ (اور جماعت سے الگ ہوگیا) یعنی ان لوگوں کی جماعت سے نکل گیا کہ جو اس ایک حکمران وامام پر مجتمع ومتفق تھے کہ جو ان کی شان وشوکت کو منتظم، ان کے کلمے کو مجتمع اور ان کے دشمنوں سے ان کا دفاع کرنے والا تھا)۔

علامہ الشوکانی رحمہ اللہ مصنف کتاب ”الازھار“ کے اس قول کہ ”ولا يصح إمامان“ (دو امام (خلیفہ/حکمران) ہونے جائز نہیں) کی شرح میں فرماتے ہیں: