[#SalafiUrduDawah Article] The excellence and virtues of Ameer #Muawiyyah bin abi Sufyaan (radiAllaaho anhuma) and his defence – Various #Ulamaa
سیدنا امیر #معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے فضائل اور آپ کا دفاع – مختلف #علماء کرام
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے تعلق سے فرمایا:
’’اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِ بِهِ‘‘([1])
(اے اللہ انہيں ہادی (ہدایت کرنے والا)، مہدی (ہدایت یافتہ) بنا اور اور ان کے ذریعے سے (لوگوں کو) ہدایت دے)۔
[1] صحیح ترمذی 3842۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/ameer_muawiyyah_fazail_difa.pdf
سیدنا امیر #معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے فضائل اور آپ کا دفاع – مختلف #علماء کرام
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے تعلق سے فرمایا:
’’اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِ بِهِ‘‘([1])
(اے اللہ انہيں ہادی (ہدایت کرنے والا)، مہدی (ہدایت یافتہ) بنا اور اور ان کے ذریعے سے (لوگوں کو) ہدایت دے)۔
[1] صحیح ترمذی 3842۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/ameer_muawiyyah_fazail_difa.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] #Ikhwanee #Manhaj surely leads to destruction – Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen #Al_Albaanee
#اخوانی #منہج اپنانے کا نتیجہ خسارہ ہی ہے
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین #البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من سلسلة الهدى والنور:609۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/ikhwanee_manhaj_apnana_khasara_hai.pdf
﷽
سائل: شیخنا حفظکم اللہ، بعض داعیان ایسے ہيں جو نسبت واپنانے کے لحاظ سے عقیدے اور منہج میں فرق کرتے ہیں، پس آپ پائیں گے کہ ا س کا عقیدہ سلفی ہوگا ساتھ ہی پائیں گے کہ دعوت الی اللہ میں اس کا منہج اخوانی تحریکی حزبی سیاسی یا تبلیغی یا اسی طرح کا کچھ ہوگا، تو کیا واقعی ان کے لیے اس کی گنجائش ہے؟
جواب: میرا نہيں خیال کہ کوئی عقیدے وسلوک کے اعتبار سے سلفی ہو تو اس کے لیے یہ ممکن رہے کہ وہ اخوان المسلمین اور ان جیسوں کے منہج کو اپناتا ہو۔ ہم اخوان المسلمین حزبی جماعت کی زندگی کو جانتے ہیں کہ ان پر نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے جس میں وہ خود اپنے لیے کچھ استفادہ حاصل نہیں کرسکے چہ جائیکہ دوسروں کو کوئی فائدہ پہنچائیں۔ اس کی وجہ یہی ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ : "جس کے پاس خود کچھ نہیں وہ دوسرے کو کیا دے گا"۔ چناچہ یہ لوگ جب سے ان کے مرشد حسن البنا : نے ان کو جمع کیا اور بس بلا تمیز سب کو جمع کرتے گئے، یعنی انہیں بس جمع کرتے گئے مگر اس قرآنی حکم کے برخلاف کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا ﴾ (النساء: 59)
(پھر اگر تم کسی چیز میں تنازع کرو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے)
اخوان المسلمین کا نظام اس قاعدے پر قائم ہے جس کی تعبیر میں اپنی طرف سے کرتا ہوں اور جس کا وہ انکار نہیں کرسکتے، اور اگر کوئی انکار کی جرأت کر بھی لیتا ہےتو ہمارے لیے اس پر ان کی حقیقت حال ان کے خلاف حجت ہونے کے لیے کافی ہے۔ ان کا قاعدہ ہے بس جو ہے جیسا ہے جمع کرتے جاؤ اگرچہ ان کے مابین عقیدے یا سلوک یا فقہ میں اختلافات ہی کیوں نہ ہوں، پھر اس کے بعد ان کی تہذیب کرو، یعنی پہلے بس جیسے تیسے سب کو جمع کرتے جاؤ پھر ان کی تہذیب کا سوچو۔ اسی پر ان کی دعوت ان طویل برسوں میں قائم ہے، لیکن حقیقت حال اس بات پر شاہد ہے کہ ان کے یہاں سوائے جمع کرنے کے اور کوئی چیز نہيں پائی جاتی، ان کے یہاں وہ دوسری چیز یعنی تہذیب کے نام سے کچھ نہیں پایا جاتا ہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ اخوان المسلمین میں ان کے ممالک و براعظموں کے اختلاف کے باوجود کوئی فکری ربط نہيں پایا جاتا ، نہ اعتقادی ربط۔ حقیقت حال اس بات پر شاہد ہے جیسے جو مصر میں اخوان المسلمین ہيں وہ ان سے الگ ہيں جو اردن میں، اور وہ ان سے الگ ہيں جو شام میں ہيں۔ بلکہ خود شام ہی میں جنوبی اخوانی شمالی اخوانیوں سے الگ ہيں۔ اور میں یہ اچھی طرح سے جانتا ہوں کیونکہ میں خود شامی دمشقی ہوں جیسا کہ آپ جانتے ہيں۔ اور جیسا کہ کہا جاتا ہے: "اہل مکہ اس کی گلیوں سے سب سے زیادہ واقف ہوتے ہيں، اور گھر والے ہی جو کچھ گھر میں ہے اس سے سب سے زیادہ واقف ہوتے ہیں"۔ چناچہ میں جانتا ہوں کہ بلاشبہ دمشق میں جو اخوان المسلمین ہيں وہ بڑی حد تک سلفی دعوت سے متاثر ہیں اپنے عقیدے اور عبادت کے زاویے سے۔ اور اس کا سبب بالکل واضح ہے کہ سلفی دعوت دمشق میں پھر حلب میں بہت سرگرم رہی ہے۔ اور دمشق میں اخوان المسلمین کے خاندانی نظام میں ان میں سے بعض کتاب فقہ السنۃ سید سابق کی پڑھتے ہيں، اخوان المسلمین ایسا کرتے ہیں اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کیونکہ سید سابق حسن البنا : کے خاص ساتھیوں میں سے تھے۔ اور ان کی کتاب پر حسن البنا نے مختصر الفاظ میں تقریظ بھی لکھی ہے مقدمے میں۔
چناچہ امید تو یہ تھی کہ یہ کتاب اخوان المسلمین کا فقہ کے معاملے میں دستور ہو اخوان المسلمین کے ہر ملک اور علاقے میں۔ لیکن آپ عجیب ترین بات دیکھیں گے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ان کے یہاں کوئی فکری ثقافتی وحدت نہیں ہے۔ لہذا یہ کتاب دمشق کے بعض اخوانی گروپس میں جو کہ شمال میں لڑ رہے تھے، کہتے تھے کہ اس کتاب کا پڑھانا جائز نہيں کیونکہ اس کا مؤلف وہابی ہے۔ حالانکہ اس کا مؤلف تو اخوان المسلمین کے سرغناؤں میں سے ہے بلکہ حسن البنا کے حواریوں میں سے ہے۔
#اخوانی #منہج اپنانے کا نتیجہ خسارہ ہی ہے
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین #البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من سلسلة الهدى والنور:609۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/ikhwanee_manhaj_apnana_khasara_hai.pdf
﷽
سائل: شیخنا حفظکم اللہ، بعض داعیان ایسے ہيں جو نسبت واپنانے کے لحاظ سے عقیدے اور منہج میں فرق کرتے ہیں، پس آپ پائیں گے کہ ا س کا عقیدہ سلفی ہوگا ساتھ ہی پائیں گے کہ دعوت الی اللہ میں اس کا منہج اخوانی تحریکی حزبی سیاسی یا تبلیغی یا اسی طرح کا کچھ ہوگا، تو کیا واقعی ان کے لیے اس کی گنجائش ہے؟
جواب: میرا نہيں خیال کہ کوئی عقیدے وسلوک کے اعتبار سے سلفی ہو تو اس کے لیے یہ ممکن رہے کہ وہ اخوان المسلمین اور ان جیسوں کے منہج کو اپناتا ہو۔ ہم اخوان المسلمین حزبی جماعت کی زندگی کو جانتے ہیں کہ ان پر نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے جس میں وہ خود اپنے لیے کچھ استفادہ حاصل نہیں کرسکے چہ جائیکہ دوسروں کو کوئی فائدہ پہنچائیں۔ اس کی وجہ یہی ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ : "جس کے پاس خود کچھ نہیں وہ دوسرے کو کیا دے گا"۔ چناچہ یہ لوگ جب سے ان کے مرشد حسن البنا : نے ان کو جمع کیا اور بس بلا تمیز سب کو جمع کرتے گئے، یعنی انہیں بس جمع کرتے گئے مگر اس قرآنی حکم کے برخلاف کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا ﴾ (النساء: 59)
(پھر اگر تم کسی چیز میں تنازع کرو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے)
اخوان المسلمین کا نظام اس قاعدے پر قائم ہے جس کی تعبیر میں اپنی طرف سے کرتا ہوں اور جس کا وہ انکار نہیں کرسکتے، اور اگر کوئی انکار کی جرأت کر بھی لیتا ہےتو ہمارے لیے اس پر ان کی حقیقت حال ان کے خلاف حجت ہونے کے لیے کافی ہے۔ ان کا قاعدہ ہے بس جو ہے جیسا ہے جمع کرتے جاؤ اگرچہ ان کے مابین عقیدے یا سلوک یا فقہ میں اختلافات ہی کیوں نہ ہوں، پھر اس کے بعد ان کی تہذیب کرو، یعنی پہلے بس جیسے تیسے سب کو جمع کرتے جاؤ پھر ان کی تہذیب کا سوچو۔ اسی پر ان کی دعوت ان طویل برسوں میں قائم ہے، لیکن حقیقت حال اس بات پر شاہد ہے کہ ان کے یہاں سوائے جمع کرنے کے اور کوئی چیز نہيں پائی جاتی، ان کے یہاں وہ دوسری چیز یعنی تہذیب کے نام سے کچھ نہیں پایا جاتا ہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ اخوان المسلمین میں ان کے ممالک و براعظموں کے اختلاف کے باوجود کوئی فکری ربط نہيں پایا جاتا ، نہ اعتقادی ربط۔ حقیقت حال اس بات پر شاہد ہے جیسے جو مصر میں اخوان المسلمین ہيں وہ ان سے الگ ہيں جو اردن میں، اور وہ ان سے الگ ہيں جو شام میں ہيں۔ بلکہ خود شام ہی میں جنوبی اخوانی شمالی اخوانیوں سے الگ ہيں۔ اور میں یہ اچھی طرح سے جانتا ہوں کیونکہ میں خود شامی دمشقی ہوں جیسا کہ آپ جانتے ہيں۔ اور جیسا کہ کہا جاتا ہے: "اہل مکہ اس کی گلیوں سے سب سے زیادہ واقف ہوتے ہيں، اور گھر والے ہی جو کچھ گھر میں ہے اس سے سب سے زیادہ واقف ہوتے ہیں"۔ چناچہ میں جانتا ہوں کہ بلاشبہ دمشق میں جو اخوان المسلمین ہيں وہ بڑی حد تک سلفی دعوت سے متاثر ہیں اپنے عقیدے اور عبادت کے زاویے سے۔ اور اس کا سبب بالکل واضح ہے کہ سلفی دعوت دمشق میں پھر حلب میں بہت سرگرم رہی ہے۔ اور دمشق میں اخوان المسلمین کے خاندانی نظام میں ان میں سے بعض کتاب فقہ السنۃ سید سابق کی پڑھتے ہيں، اخوان المسلمین ایسا کرتے ہیں اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کیونکہ سید سابق حسن البنا : کے خاص ساتھیوں میں سے تھے۔ اور ان کی کتاب پر حسن البنا نے مختصر الفاظ میں تقریظ بھی لکھی ہے مقدمے میں۔
چناچہ امید تو یہ تھی کہ یہ کتاب اخوان المسلمین کا فقہ کے معاملے میں دستور ہو اخوان المسلمین کے ہر ملک اور علاقے میں۔ لیکن آپ عجیب ترین بات دیکھیں گے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ان کے یہاں کوئی فکری ثقافتی وحدت نہیں ہے۔ لہذا یہ کتاب دمشق کے بعض اخوانی گروپس میں جو کہ شمال میں لڑ رہے تھے، کہتے تھے کہ اس کتاب کا پڑھانا جائز نہيں کیونکہ اس کا مؤلف وہابی ہے۔ حالانکہ اس کا مؤلف تو اخوان المسلمین کے سرغناؤں میں سے ہے بلکہ حسن البنا کے حواریوں میں سے ہے۔
الغرض اخوان المسلمین جب سے اس کا وجود ہوا ہے اس وقت سے اب تک اس فوجی نظام پر گویا کہ چل رہے کہ: اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہونا، وہی کھڑے مارچ کرتے رہنا۔ حالانکہ یہ اپنی آپ کو تحریکی کہتے ہیں اور تمام جماعتوں اور احزاب سے اس نسبت کی وجہ سے ممتاز ہوتے ہیں کہ ہم تحریکی ہیں، میں بھی کہتا ہوں ہاں تحریکی (حرکت کرنے والے) تو ہو لیکن فوجی نظام کی طرح اپنی ہی جگہ پرکھڑے کھڑے مارچ کرتے رہنا۔آپ جانتے ہیں فوجی نظام کو اپنی جگہ پر کھڑے رہو بس ٹانگوں کو ہلاؤ مگر آگے نہ بڑھو۔ تو پھر اس حرکت کا کیا فائدہ! بیکار ہے۔
لہذا میرا نہيں گمان کہ سلفیوں کی کوئی جماعت دنیا کے ممالک میں سے کسی بھی ملک میں ہو تو ان کے لیے ایسا ممکن ہو کہ وہ اخوان المسلمین کا منہج اپنائے، کیونکہ ان کا منہج تو یہ ہے جو میں نے ابھی آپ کو بتایا کہ بس جیسے تیسے سب کوجمع کرو پھر ان کی تہذیب کا سوچو پھر اس تہذیب میں سے بھی کچھ نہ ہو! اور حقیقت حال اس کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
چناچہ واقعی اگر حقیقی سلفیوں کی کوئی جماعت خواہ بڑی ہو یا چھوٹی اپنی دعوت میں اخوان المسلمین کا منہج اپناتے ہیں تو ان کا انجام اور لازمی انجام یہ ہوگا کہ:
﴿وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَاَهٗ بَعْدَ حِيْنٍ﴾ (سورۃ ص: 88)
(اور یقینا ًتم اس کا حال کچھ ہی عرصے بعد ضرور جان لو گے)
دو باتوں میں سے ایک ہوگی تیسری کوئی بات نہیں۔یا تو ناچاہتے ہوئے بھی انہیں سلفی دعوت کی گود میں واپس لوٹ کر آنا ہی ہوگا اور یہ ان کے لیے خیر ہے اور باقی رہنے والا ہے۔ یا پھر وہ اس پورے ورثے کو ضائع کردیں گے جو انہوں نے اتنے سالوں میں کمایا ہے ، اس اخوان المسلمین کے منہج کی تطبیق کرنے میں مشغول ہوکر، جو کہ یہ ہے کہ: بس جو ہے جیسے ہے جمع کرو، یکساں فکر کی اساس پر نہيں۔ تو پھر دو ہی باتیں ممکن ہیں کوئی تیسری نہيں، کبھی نہيں۔
ہم آج جانتے ہيں کہ سلفی دعوت فی زمانہ اولاً: اللہ کے فضل وکرم سے، ثانیاً: اس کی جانب دعوت دینے والے داعیان کے ذریعے بہت پھیلی ہے ، ایسی پھیلی ہی کہ اس قسم کا پھیلاؤ اسلامی معاشرہ ایک تہائی صدی یا اس جیسے عرصے سے پہلے جانتا نہ تھا۔
اس بات کی گواہی بعض وہ سلفی دیتے ہیں جو آج سلفی دعوت کے ساتھ کلام کرتے ہیں اور شاید کہ اس میں کچھ اخوانی منہج کی آمیزش ہوتی ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ بلاشبہ اخوان المسلمین کی دعوت جب اس اساس پر قائم ہے کہ بس جمع کرو پھر تہذیب سکھانے میں سے کچھ بھی نہيں، تو اس کے مدمقابل سلفی دعوت تہذیب سکھانے کی بنیادپر قائم ہے ناکہ جو ہے جیسا ہے بس جمع کیے جاؤ پر، اسی لیے اس دعوت کے لیے نصرت مشروط ہے اسی منہج کے ساتھ جہاں کہیں بھی وہ جاتی ہے۔ اور آج اس زمانے میں یہ غالب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سلفی دعوت اور سلفی منہج ہر جگہ اور ہر زبان پر عام ہے۔ اور بعض وہ جماعتیں جو علی الاعلان سلفی دعوت کے خلاف لڑتی تھیں اور اب تک لڑرہی ہیں باطنی اور خفیہ طور پرانہوں نے اپنی سلفیت کی سی شکل بنا کر پیش کی ہے، کیونکہ انہوں نے پایا کہ ان تحریکوں کو قبول عام حاصل نہیں ہورہا جو اسی اساس پر قائم ہیں کہ اپنی جگہ پر ٹکے رہو، نہ علم ہے نہ سلوک، نہ کوئی جدید نفع بخش چیز۔
پس میں یہ خیال کرتا ہوں کہ کوئی سلفی جماعت اگر اپنا سابقہ منہج اخوان المسلمین کے اسلوب سے متاثر ہوکر چھوڑتی ہے اس کوشش میں کہ اپنے اردگرد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جمع کردیاجائے، تو پھر اللہ کی سنت اپنی مخلوق میں نہ بدلتی ہے نہ متغیر ہوتی ہے، میری مراد اس سے اللہ کا یہ فرمان ہے کہ:
﴿وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا﴾ (النساء: 28)
(اور انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے)
تو وہ ہر کام کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا، اس کی طاقت نہیں رکھتا کہ تمام شعبوں کو سنبھال لے علم کا بھی حق ادا کرے، سیاست کا، اقتصادیات اور اجتماعیت وغیرہ کا، تو ضروری ہے کہ ہر علم کا اختصاص ہو جو کم از کم فرض کفایہ میں شمار ہوتا ہے۔ اگر کوئی جماعت علم کے شعبے میں کام کررہی ہے جسے ہم تصفیہ کا نام دیتے ہیں، یعنی اس اسلام کو پاک وصاف کرنا ہر اس چیز سے جس سے یہ بَری ہے، اور تصفیہ کے بارے میں جیسا کہ آپ ایک سے زائد بار سن چکے ہيں، اور اس کے ساتھ تربیت کو ملے لیں ان قلیل جماعتوں کی جو ان کے ارد گرد ہوں۔ کیونکہ اگر وہ اس لوگوں کو جمع کرنے وبھر دینے کے دائرۂ کار کو وسعت دیتے ہيں تو تصفیہ کی زمام کار ان کے ہاتھوں سے چھوٹ جائے گی، اور لوگوں کا جم غفیر اور بہت بڑی تعداد ان سے چھوٹتی جائے گی، کیونکہ ایک، دو، پانچ یا دس جنہيں ہم کبار علماء شمار کریں ان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ لاکھوں کروڑوں لوگوں کو صحیح علم پرپروان چڑھائیں اور ان کی صحیح تربیت کرپائیں۔
لہذا میرا نہيں گمان کہ سلفیوں کی کوئی جماعت دنیا کے ممالک میں سے کسی بھی ملک میں ہو تو ان کے لیے ایسا ممکن ہو کہ وہ اخوان المسلمین کا منہج اپنائے، کیونکہ ان کا منہج تو یہ ہے جو میں نے ابھی آپ کو بتایا کہ بس جیسے تیسے سب کوجمع کرو پھر ان کی تہذیب کا سوچو پھر اس تہذیب میں سے بھی کچھ نہ ہو! اور حقیقت حال اس کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
چناچہ واقعی اگر حقیقی سلفیوں کی کوئی جماعت خواہ بڑی ہو یا چھوٹی اپنی دعوت میں اخوان المسلمین کا منہج اپناتے ہیں تو ان کا انجام اور لازمی انجام یہ ہوگا کہ:
﴿وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَاَهٗ بَعْدَ حِيْنٍ﴾ (سورۃ ص: 88)
(اور یقینا ًتم اس کا حال کچھ ہی عرصے بعد ضرور جان لو گے)
دو باتوں میں سے ایک ہوگی تیسری کوئی بات نہیں۔یا تو ناچاہتے ہوئے بھی انہیں سلفی دعوت کی گود میں واپس لوٹ کر آنا ہی ہوگا اور یہ ان کے لیے خیر ہے اور باقی رہنے والا ہے۔ یا پھر وہ اس پورے ورثے کو ضائع کردیں گے جو انہوں نے اتنے سالوں میں کمایا ہے ، اس اخوان المسلمین کے منہج کی تطبیق کرنے میں مشغول ہوکر، جو کہ یہ ہے کہ: بس جو ہے جیسے ہے جمع کرو، یکساں فکر کی اساس پر نہيں۔ تو پھر دو ہی باتیں ممکن ہیں کوئی تیسری نہيں، کبھی نہيں۔
ہم آج جانتے ہيں کہ سلفی دعوت فی زمانہ اولاً: اللہ کے فضل وکرم سے، ثانیاً: اس کی جانب دعوت دینے والے داعیان کے ذریعے بہت پھیلی ہے ، ایسی پھیلی ہی کہ اس قسم کا پھیلاؤ اسلامی معاشرہ ایک تہائی صدی یا اس جیسے عرصے سے پہلے جانتا نہ تھا۔
اس بات کی گواہی بعض وہ سلفی دیتے ہیں جو آج سلفی دعوت کے ساتھ کلام کرتے ہیں اور شاید کہ اس میں کچھ اخوانی منہج کی آمیزش ہوتی ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ بلاشبہ اخوان المسلمین کی دعوت جب اس اساس پر قائم ہے کہ بس جمع کرو پھر تہذیب سکھانے میں سے کچھ بھی نہيں، تو اس کے مدمقابل سلفی دعوت تہذیب سکھانے کی بنیادپر قائم ہے ناکہ جو ہے جیسا ہے بس جمع کیے جاؤ پر، اسی لیے اس دعوت کے لیے نصرت مشروط ہے اسی منہج کے ساتھ جہاں کہیں بھی وہ جاتی ہے۔ اور آج اس زمانے میں یہ غالب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سلفی دعوت اور سلفی منہج ہر جگہ اور ہر زبان پر عام ہے۔ اور بعض وہ جماعتیں جو علی الاعلان سلفی دعوت کے خلاف لڑتی تھیں اور اب تک لڑرہی ہیں باطنی اور خفیہ طور پرانہوں نے اپنی سلفیت کی سی شکل بنا کر پیش کی ہے، کیونکہ انہوں نے پایا کہ ان تحریکوں کو قبول عام حاصل نہیں ہورہا جو اسی اساس پر قائم ہیں کہ اپنی جگہ پر ٹکے رہو، نہ علم ہے نہ سلوک، نہ کوئی جدید نفع بخش چیز۔
پس میں یہ خیال کرتا ہوں کہ کوئی سلفی جماعت اگر اپنا سابقہ منہج اخوان المسلمین کے اسلوب سے متاثر ہوکر چھوڑتی ہے اس کوشش میں کہ اپنے اردگرد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جمع کردیاجائے، تو پھر اللہ کی سنت اپنی مخلوق میں نہ بدلتی ہے نہ متغیر ہوتی ہے، میری مراد اس سے اللہ کا یہ فرمان ہے کہ:
﴿وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا﴾ (النساء: 28)
(اور انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے)
تو وہ ہر کام کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا، اس کی طاقت نہیں رکھتا کہ تمام شعبوں کو سنبھال لے علم کا بھی حق ادا کرے، سیاست کا، اقتصادیات اور اجتماعیت وغیرہ کا، تو ضروری ہے کہ ہر علم کا اختصاص ہو جو کم از کم فرض کفایہ میں شمار ہوتا ہے۔ اگر کوئی جماعت علم کے شعبے میں کام کررہی ہے جسے ہم تصفیہ کا نام دیتے ہیں، یعنی اس اسلام کو پاک وصاف کرنا ہر اس چیز سے جس سے یہ بَری ہے، اور تصفیہ کے بارے میں جیسا کہ آپ ایک سے زائد بار سن چکے ہيں، اور اس کے ساتھ تربیت کو ملے لیں ان قلیل جماعتوں کی جو ان کے ارد گرد ہوں۔ کیونکہ اگر وہ اس لوگوں کو جمع کرنے وبھر دینے کے دائرۂ کار کو وسعت دیتے ہيں تو تصفیہ کی زمام کار ان کے ہاتھوں سے چھوٹ جائے گی، اور لوگوں کا جم غفیر اور بہت بڑی تعداد ان سے چھوٹتی جائے گی، کیونکہ ایک، دو، پانچ یا دس جنہيں ہم کبار علماء شمار کریں ان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ لاکھوں کروڑوں لوگوں کو صحیح علم پرپروان چڑھائیں اور ان کی صحیح تربیت کرپائیں۔
لہذا اگر وہ اپنے آپ کو بس لوگوں کو جمع کرنے میں مشغول رکھیں گے اخوان المسلمین کے منہج کے مطابق تو عنقریب وہ کتاب وسنت اور جس چیز پر ہمارے سلف صالحین y تھے کے مطابق تہذیب سکھلانے کو کھودیں گے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ میں کسی جماعت کا کسی جماعت پر انکار نہيں کرتا کہ جو کسی فرض کفایہ کو ادا کررہی ہو، اس کا انکار نہیں کرتا کیونکہ بلاشبہ اس کے سوا کچھ ممکن ہی نہيں۔ مثال کے طور پر میں کسی مسلمان کا اس بات پر انکار نہیں کرتا کہ وہ عربی لغت میں تخصص حاصل کرلے مگر وہ کتاب وسنت کی فقہ میں سے کچھ نہ جانتا ہو، اسی طرح اس پر انکار نہيں کرتا کہ کوئی شخص کسی اور علم میں تخصص حاصل کرلے جو کہ فرض کفایہ میں سے ہو، لیکن اس بات پر انکار کرتا ہوں کہ یہ اختصاص والے آپس میں تفرقہ کریں اور ساتھ جمع نہ ہوں اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کریں۔ اس کا ہم انکار کرتے ہيں، اگر ہم فرض کریں کہ اخوان المسلمین نے ان فرائض کفایہ میں سے کوئی جانب لے لی ہے اور اس میں تخصص حاصل کیا ہے، لیکن ساتھ ہی وہ دوسرے گروہ سے جس نے ان کے تخصص کے علاوہ کسی چیز میں تخصص کیا ہے عداوت نہيں رکھتے، جیسا کہ خود یہ تخصص والے اخوان المسلمین سے اس وجہ سے عداوت نہیں رکھتے کہ انہو ں نے کسی دوسرے واجب میں تخصص کیا ہے، وہ تو بس لوگوں کا ایک اجتماع ہے ، اور سب کے سب اس صاف ستھرے اسلام کے تحت کام کررہے ہیں۔
مجھے بالجزم پورا یقین ہے کہ ایک خالص اسلامی ریاست کا قیام جس کا نعرہ مشترک ہے سلفی گروہ طائفہ منصورہ اور اخوان المسلمین وحزب التحریر غیر منصورہ کے مابین! کیونکہ سنت میں (طائفہ منصورہ کی) جو صفات آئیں ہیں وہ ان(اخوانیوں) پر منطبق نہیں ہوتیں۔ تو ایسی اسلامی ریاست کا قیام ممکن نہیں جب تک ان تمام جماعتوں میں تعاون نہ ہو، لیکن ہاں وہ تعاون کتاب وسنت اور منہج سلف صالحین کی اساس پر ہو۔ میں یہ کہتا ہوں کہ سلفی متخصص ہیں کتاب وسنت کے فقہ وفہم میں منہج سلف صالحین کے مطابق۔ اور وہ بھرپور کوشش کرتے ہیں کہ اپنے ہر چھوٹے بڑے کام میں کتاب وسنت کی پیروی کریں، وہ فرق نہیں کرتے کہ فلاں کام فرض ہے، یا سنت ہے یا مستحب ہے، بلکہ اپنی استطاعت بھر یہ سارے کام ہی کرتے ہیں، برخلاف دوسروں کے کہ جنہوں نے اسی پر قناعت کرلی ہے کہ وہ ان مذاہب میں سے کسی مذہب کی پیروی کرلیں بنایہ جانے کہ لوگوں کا جس بات میں اختلاف ہے اس میں صواب بات کون سی ہے۔ تو یہ جو سلفی ہيں اگر یہ بھی صرف اس جانب کو لیتے ہيں پھر جو دیگر فرائض ہيں کو اگرچہ دیگر گروہوں سے تعاون کرکے ہی کیوں نہ ہو نہيں لیتے، تو یہ بھی اسی پر ہوں گے کہ اپنی جگہ ٹکے رہو۔
لہذا ضروری ہے کہ ان تمام جماعتوں میں اپنے اپنے اختصاص کے مطابق تعاون ہو، اور بلاشبہ اصلاح کے سلسلے میں وہ سب سے اہم بات جس کا اہتمام کرنا چاہیے اس پر سلفی کاربند ہيں پوری دنیا میں اور وہ ہے اسلام کا تصفیہ یعنی اسے پاک وصاف کرنا ان چیزوں سے جو اس میں داخل ہوگئی ہيں۔ اور اس اساس پر مسلمانوں کی تربیت کرنا۔
ہم فرائض کفایہ کی ادائیگی کے منکر نہيں لیکن اس میں مبالغہ نہیں کرتے جیسا کہ دوسرے لوگ کرتے ہيں۔ پس اگر اس اساس پر جماعتیں متحد ہوجائيں، ہر جماعت اپنے اختصاص کے ساتھ دوسری جماعت سے اپنے دائرۂ کار میں مل کر کام کریں مگر کتاب وسنت کی حدود میں جیسا کہ ہم نے ابھی شروع میں یہ بات ذکر کی کہ اللہ تعالی کا فرمان:
﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا ﴾ (النساء: 59)
(پھر اگر تم کسی چیز میں تنازع کرو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے)
تو میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ پھر اس دن مومنین اللہ تعالی کی جانب سے ملنے والی نصرت پر خوشی منائيں گے۔ لیکن حال یہ ہو جیساکہ بہت سے اخوان المسلمین والوں کا ہے کہ کہتے ہیں: ارے بھائی یہ دعوت تو مسلمانوں میں تفرقہ ڈالتی ہے جمع نہیں کرتی، تو ہم یہ کہیں گے: تمہاری یہی رٹ اور وطیرہ ہم پہلے سے ہی جانتے ہیں۔ مشکل ہی یہی ہے کہ یہ لوگ ان لوگوں کے ساتھ تعاون کریں گے ہی نہيں کہ جو تصفیہ کے واجب کو ادا کررہے ہیں، اور انہیں تہمت دیتے ہیں کہ تم لوگوں میں تفرقہ ڈالتے ہو۔
تو بات بس یہی ہے کہ اگر تمام گروہ باہمی تعاون کریں ہر کوئی اپنے اختصاص کی حدود میں تو میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ یہی مسلمانوں کی کامیابی کی راہ ہے، اور انہيں اس کمزوری سے نکالنے والی ہے جس میں وہ مبتلا ہيں۔
مجھے بالجزم پورا یقین ہے کہ ایک خالص اسلامی ریاست کا قیام جس کا نعرہ مشترک ہے سلفی گروہ طائفہ منصورہ اور اخوان المسلمین وحزب التحریر غیر منصورہ کے مابین! کیونکہ سنت میں (طائفہ منصورہ کی) جو صفات آئیں ہیں وہ ان(اخوانیوں) پر منطبق نہیں ہوتیں۔ تو ایسی اسلامی ریاست کا قیام ممکن نہیں جب تک ان تمام جماعتوں میں تعاون نہ ہو، لیکن ہاں وہ تعاون کتاب وسنت اور منہج سلف صالحین کی اساس پر ہو۔ میں یہ کہتا ہوں کہ سلفی متخصص ہیں کتاب وسنت کے فقہ وفہم میں منہج سلف صالحین کے مطابق۔ اور وہ بھرپور کوشش کرتے ہیں کہ اپنے ہر چھوٹے بڑے کام میں کتاب وسنت کی پیروی کریں، وہ فرق نہیں کرتے کہ فلاں کام فرض ہے، یا سنت ہے یا مستحب ہے، بلکہ اپنی استطاعت بھر یہ سارے کام ہی کرتے ہیں، برخلاف دوسروں کے کہ جنہوں نے اسی پر قناعت کرلی ہے کہ وہ ان مذاہب میں سے کسی مذہب کی پیروی کرلیں بنایہ جانے کہ لوگوں کا جس بات میں اختلاف ہے اس میں صواب بات کون سی ہے۔ تو یہ جو سلفی ہيں اگر یہ بھی صرف اس جانب کو لیتے ہيں پھر جو دیگر فرائض ہيں کو اگرچہ دیگر گروہوں سے تعاون کرکے ہی کیوں نہ ہو نہيں لیتے، تو یہ بھی اسی پر ہوں گے کہ اپنی جگہ ٹکے رہو۔
لہذا ضروری ہے کہ ان تمام جماعتوں میں اپنے اپنے اختصاص کے مطابق تعاون ہو، اور بلاشبہ اصلاح کے سلسلے میں وہ سب سے اہم بات جس کا اہتمام کرنا چاہیے اس پر سلفی کاربند ہيں پوری دنیا میں اور وہ ہے اسلام کا تصفیہ یعنی اسے پاک وصاف کرنا ان چیزوں سے جو اس میں داخل ہوگئی ہيں۔ اور اس اساس پر مسلمانوں کی تربیت کرنا۔
ہم فرائض کفایہ کی ادائیگی کے منکر نہيں لیکن اس میں مبالغہ نہیں کرتے جیسا کہ دوسرے لوگ کرتے ہيں۔ پس اگر اس اساس پر جماعتیں متحد ہوجائيں، ہر جماعت اپنے اختصاص کے ساتھ دوسری جماعت سے اپنے دائرۂ کار میں مل کر کام کریں مگر کتاب وسنت کی حدود میں جیسا کہ ہم نے ابھی شروع میں یہ بات ذکر کی کہ اللہ تعالی کا فرمان:
﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا ﴾ (النساء: 59)
(پھر اگر تم کسی چیز میں تنازع کرو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے)
تو میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ پھر اس دن مومنین اللہ تعالی کی جانب سے ملنے والی نصرت پر خوشی منائيں گے۔ لیکن حال یہ ہو جیساکہ بہت سے اخوان المسلمین والوں کا ہے کہ کہتے ہیں: ارے بھائی یہ دعوت تو مسلمانوں میں تفرقہ ڈالتی ہے جمع نہیں کرتی، تو ہم یہ کہیں گے: تمہاری یہی رٹ اور وطیرہ ہم پہلے سے ہی جانتے ہیں۔ مشکل ہی یہی ہے کہ یہ لوگ ان لوگوں کے ساتھ تعاون کریں گے ہی نہيں کہ جو تصفیہ کے واجب کو ادا کررہے ہیں، اور انہیں تہمت دیتے ہیں کہ تم لوگوں میں تفرقہ ڈالتے ہو۔
تو بات بس یہی ہے کہ اگر تمام گروہ باہمی تعاون کریں ہر کوئی اپنے اختصاص کی حدود میں تو میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ یہی مسلمانوں کی کامیابی کی راہ ہے، اور انہيں اس کمزوری سے نکالنے والی ہے جس میں وہ مبتلا ہيں۔
#SalafiUrduDawah
#صحابہ کرام اور #اہل_بیت کے متعلق عقیدہ
#sahaba kiraam aur #ahl_e_bayt say mutaliq aqeedah
#صحابہ کرام اور #اہل_بیت کے متعلق عقیدہ
#sahaba kiraam aur #ahl_e_bayt say mutaliq aqeedah
[#SalafiUrduDawah Article] The status of Umm-ul-Mo'mineen #Khadeejah bint Khuwaylid (radiAllaaho anha) and her excellence – tawheedekhaalis.com
ام المؤمنین سیدہ #خدیجہ بنت خویلدرضی اللہ عنہا کا مرتبہ اور فضائل
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/khadeejah_bint_khuwaylid_martaba_fazail.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ ام المؤمنین خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزی بن قصی ہیں ، آپ کا نسب چوتھی پڑی قصی بن کلاب میں جاکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے۔ آپ تمام امہات المؤمنین میں نسب کے اعتبار سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریب تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہا کے علاوہ قصی کی ذریت میں سے کسی سے شادی نہيں فرمائی سوائے سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے۔ آپ رضی اللہ عنہا نسب کے اعتبار سے قریش میں اوسط، شرف میں اعظم اور مال میں اکثر تھیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہا سے جب شادی کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 25 برس تھی ۔ آپ رضی اللہ عنہا کے سابقہ خاوند ابوہالہ بن النباش بن زرارہ التمیمی تھے جو کہ بنی عبدالدار کے حلیف تھے۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے رسالت سے نوازا تو آپ سب سےپہلے ایمان لائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت فرمائی، اور ایک سچی وزیر کی ذمہ داری نبھائی۔ آپ رضی اللہ عنہا ان کامل خواتین میں سے تھیں جو عقل مند، جلیل القدر، دین دار، شرافت وکرامت میں مثالی اور جنتی خاتون تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ رضی اللہ عنہا کی بےحد تعریف فرماتے اور اپنی تمام بیویوں پر انہیں فضیلت دیتے اور بہت تعظیم فرماتےتھے۔ یہاں تک کہ نہ آپ رضی اللہ عنہا سے پہلے کسی سے شادی فرمائی اورنہ آپ رضی اللہ عنہا کے ہوتے ہوئے کسی دوسری عورت سے شادی فرمائی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد انہیں سے ہوئیں، سوائے ابراہیم رضی اللہ عنہ کے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لونڈی سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہا کی وفات ہجرت سے تین برس قبل یعنی نبوت کے دسویں سال ہوئی اور کچھ ہی دنوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کی بھی وفات ہوئی۔ بعض متأخرین نے یہ بات بیان کی ہے کہ اس وجہ سے اس سال کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’عام الحزن‘‘ (غم کا سال) قرار دیا، حالانکہ محققین علماء کرام رحمہم اللہ کے نزدیک یہ بات ثابت نہیں۔ اللہ اعلم
ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے فضائل اور مرتبے سے متعلق احادیث مبارکہ
1- سیدناعفیف بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
میں ایک تاجر شخص تھا اور جاہلیت میں میں سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کا دوست ہوا کرتا تھا۔ میں ایک بار تجارت کی غرض سے آیا اور سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے پاس منیٰ کے مقام پر ٹھہرا۔ تو ایک شخص آیا اور اس نے سورج کو زوال ہوتے دیکھا پھر کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگا، پھر ایک عورت آئی اور کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگی، پھر ایک لڑکا آیا جونوجوانی کے قریب تھا اس نے بھی کھڑے ہوکر نماز پڑھی۔ میں نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے کہا یہ کون ہیں؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’هَذَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ابْنِ أَخِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، وَلَمْ يُتَابِعْهُ عَلَى أَمْرِهِ غَيْرُ هَذِهِ الْمَرْأَةِ وَهَذَا الْغُلامُ، وَهَذِهِ الْمَرْأَةُ خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ امْرَأَتُهُ، وَهَذَا الْغُلامُ ابْنُ عَمِّهِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ‘‘([1])
(یہ محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہے میرا بھتیجا، اس کا دعویٰ ہے کہ یہ یقیناً نبی ہے، لیکن اس کی یہ بات کوئی نہيں مانتا سوائے اس عورت اور اس لڑکے کے، اور یہ عورت خدیجہ بنت خویلدہے اس کی بیوی، اور یہ لڑکا اس کا چچازاد بھائی ہےعلی بن ابی طالب)۔
خود سیدنا عفیف الکندی رضی اللہ عنہ کہتےہیں: وہ تو اسلام لے آئے اور بحسن خوبی اسے نبھایا۔ اور میں حسرت کرتا ہوں کہ کاش میں بھی اگر اس وقت مسلمان ہوچکا ہوتا تو ایک چوتھائی اسلام حاصل کرلیتا(یعنی آپ دیر سے ایمان لائے)۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری 7/137 میں فرماتےہیں کہ :
آپ رضی اللہ عنہا اپنی اس فضیلت کی بنا پر امت کی تمام عورتوں پر فائق ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہا سب سے پہلے خواتین میں سے ایمان لائیں جیسے مردوں میں سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایمان لائے اور حدیث کے مطابق جو خیر کا کام شروع کرتا ہے پھر جو بھی اس کے بعد اس کی اس میں پیروی کرتا ہے ان سب کا اجر انہیں بھی ملتا ہے، لہذا سیدنا ابوبکر وخدیجہ رضی اللہ عنہما کا بے پناہ اجروثواب سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا۔
2- سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
ام المؤمنین سیدہ #خدیجہ بنت خویلدرضی اللہ عنہا کا مرتبہ اور فضائل
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/khadeejah_bint_khuwaylid_martaba_fazail.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ ام المؤمنین خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزی بن قصی ہیں ، آپ کا نسب چوتھی پڑی قصی بن کلاب میں جاکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے۔ آپ تمام امہات المؤمنین میں نسب کے اعتبار سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریب تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہا کے علاوہ قصی کی ذریت میں سے کسی سے شادی نہيں فرمائی سوائے سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے۔ آپ رضی اللہ عنہا نسب کے اعتبار سے قریش میں اوسط، شرف میں اعظم اور مال میں اکثر تھیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہا سے جب شادی کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 25 برس تھی ۔ آپ رضی اللہ عنہا کے سابقہ خاوند ابوہالہ بن النباش بن زرارہ التمیمی تھے جو کہ بنی عبدالدار کے حلیف تھے۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے رسالت سے نوازا تو آپ سب سےپہلے ایمان لائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت فرمائی، اور ایک سچی وزیر کی ذمہ داری نبھائی۔ آپ رضی اللہ عنہا ان کامل خواتین میں سے تھیں جو عقل مند، جلیل القدر، دین دار، شرافت وکرامت میں مثالی اور جنتی خاتون تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ رضی اللہ عنہا کی بےحد تعریف فرماتے اور اپنی تمام بیویوں پر انہیں فضیلت دیتے اور بہت تعظیم فرماتےتھے۔ یہاں تک کہ نہ آپ رضی اللہ عنہا سے پہلے کسی سے شادی فرمائی اورنہ آپ رضی اللہ عنہا کے ہوتے ہوئے کسی دوسری عورت سے شادی فرمائی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد انہیں سے ہوئیں، سوائے ابراہیم رضی اللہ عنہ کے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لونڈی سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہا کی وفات ہجرت سے تین برس قبل یعنی نبوت کے دسویں سال ہوئی اور کچھ ہی دنوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کی بھی وفات ہوئی۔ بعض متأخرین نے یہ بات بیان کی ہے کہ اس وجہ سے اس سال کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’عام الحزن‘‘ (غم کا سال) قرار دیا، حالانکہ محققین علماء کرام رحمہم اللہ کے نزدیک یہ بات ثابت نہیں۔ اللہ اعلم
ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے فضائل اور مرتبے سے متعلق احادیث مبارکہ
1- سیدناعفیف بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
میں ایک تاجر شخص تھا اور جاہلیت میں میں سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کا دوست ہوا کرتا تھا۔ میں ایک بار تجارت کی غرض سے آیا اور سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے پاس منیٰ کے مقام پر ٹھہرا۔ تو ایک شخص آیا اور اس نے سورج کو زوال ہوتے دیکھا پھر کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگا، پھر ایک عورت آئی اور کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگی، پھر ایک لڑکا آیا جونوجوانی کے قریب تھا اس نے بھی کھڑے ہوکر نماز پڑھی۔ میں نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے کہا یہ کون ہیں؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’هَذَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ابْنِ أَخِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، وَلَمْ يُتَابِعْهُ عَلَى أَمْرِهِ غَيْرُ هَذِهِ الْمَرْأَةِ وَهَذَا الْغُلامُ، وَهَذِهِ الْمَرْأَةُ خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ امْرَأَتُهُ، وَهَذَا الْغُلامُ ابْنُ عَمِّهِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ‘‘([1])
(یہ محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہے میرا بھتیجا، اس کا دعویٰ ہے کہ یہ یقیناً نبی ہے، لیکن اس کی یہ بات کوئی نہيں مانتا سوائے اس عورت اور اس لڑکے کے، اور یہ عورت خدیجہ بنت خویلدہے اس کی بیوی، اور یہ لڑکا اس کا چچازاد بھائی ہےعلی بن ابی طالب)۔
خود سیدنا عفیف الکندی رضی اللہ عنہ کہتےہیں: وہ تو اسلام لے آئے اور بحسن خوبی اسے نبھایا۔ اور میں حسرت کرتا ہوں کہ کاش میں بھی اگر اس وقت مسلمان ہوچکا ہوتا تو ایک چوتھائی اسلام حاصل کرلیتا(یعنی آپ دیر سے ایمان لائے)۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری 7/137 میں فرماتےہیں کہ :
آپ رضی اللہ عنہا اپنی اس فضیلت کی بنا پر امت کی تمام عورتوں پر فائق ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہا سب سے پہلے خواتین میں سے ایمان لائیں جیسے مردوں میں سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایمان لائے اور حدیث کے مطابق جو خیر کا کام شروع کرتا ہے پھر جو بھی اس کے بعد اس کی اس میں پیروی کرتا ہے ان سب کا اجر انہیں بھی ملتا ہے، لہذا سیدنا ابوبکر وخدیجہ رضی اللہ عنہما کا بے پناہ اجروثواب سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا۔
2- سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’لَمْ يَتَزَوَّجْ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم عَلَى خَدِيجَةَ حَتَّى مَاتَتْ‘‘([2])
(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے اوپر دوسری شادی نہیں کی یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہا وفات پاگئیں)۔
3- صحیح بخاری میں امام بخاری رحمہ اللہ باب قائم کرتے ہیں: ’’بَابُ تَزْوِيجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَدِيجَةَ، وَفَضْلُهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا‘‘ (باب: خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی اور ان کی فضیلت کا بیان)۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا:
’’خَيْرُ نِسَائِهَا مَرْيَمُ، وَخَيْرُ نِسَائِهَا خَدِيجَةُ‘‘([3])
((اپنے زمانے میں) مریم علیہاالسلام سب سے افضل عورت تھیں اور (اس امت میں) خدیجہ رضی اللہ عنہا سب سے افضل ہیں)۔
4- سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
’’مَا غِرْتُ عَلَى امْرَأَةٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا غِرْتُ عَلَى خَدِيجَةَ هَلَكَتْ قَبْلَ أَنْ يَتَزَوَّجَنِي لِمَا كُنْتُ أَسْمَعُهُ يَذْكُرُهَا وَأَمَرَهُ اللَّهُ أَنْ يُبَشِّرَهَا بِبَيْتٍ مِنْ قَصَبٍ، وَإِنْ كَانَ لَيَذْبَحُ الشَّاةَ فَيُهْدِي فِي خَلَائِلِهَا مِنْهَا مَا يَسَعُهُنَّ‘‘([4])
(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی کے معاملہ میں، میں نے اتنی غیرت نہیں محسوس کی جتنی غیرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے معاملہ میں محسوس کرتی تھی (دوسری روایت میں ہے حالانکہ میں نے انہیں دیکھا نہیں) وہ میرے نکاح سے پہلے ہی وفات پا چکی تھیں (دوسری روایت میں ہے کہ ان کی وفات کے تین سال بعد مجھ سے نکاح فرمایا) لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے میں ان کا ذکر سنتی رہتی تھی۔ اور اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا تھا کہ انہیں (جنت میں) موتی کے محل کی خوشخبری سنا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر کبھی بکری ذبح کرتے تو ان سے میل محبت رکھنے والی خواتین کو اس میں سے اتنا ہدیہ بھیجتے جو ان کے لیے کافی ہو جاتا)۔ [یہ عورت کی اپنی سوکن سے وہ فطری غیرت ہے جس پر ملامت نہیں، جیساکہ ان احادیث کی تشریح میں سلف صالحین کا کلام پڑھا جاسکتا ہے]۔
دوسری روایت میں ہے کہ:
’’فَرُبَّمَا، قُلْتُ: لَهُ كَأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ فِي الدُّنْيَا امْرَأَةٌ إِلَّا خَدِيجَةُ، فَيَقُولُ: إِنَّهَا كَانَتْ وَكَانَتْ وَكَانَ لِي مِنْهَا وَلَدٌ‘‘([5])
(میں کبھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ دیتی جیسے دنیا میں خدیجہ رضی اللہ عنہا کے سوا کوئی عورت ہے ہی نہیں! اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ وہ ایسی تھیں اور ایسی تھیں اور ان سے میرے اولاد ہے)۔
5- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا:
’’يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ خَدِيجَةُ قَدْ أَتَتْ مَعَهَا إِنَاءٌ فِيهِ إِدَامٌ أَوْ طَعَامٌ أَوْ شَرَابٌ، فَإِذَا هِيَ أَتَتْكَ فَاقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلَامَ مِنْ رَبِّهَا وَمِنِّي، وَبَشِّرْهَا بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ لَا صَخَبَ فِيهِ وَلَا نَصَبَ‘‘([6])
(یا رسول اللہ! خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس ایک برتن لیے آ رہی ہیں جس میں سالن یا (فرمایا) کھانا یا (فرمایا) پینے کی چیز ہے جب وہ آپ کے پاس آئیں تو ان کے رب کی جانب سے انہیں سلام پہنچا دیجیے گا اور میری طرف سے بھی! اور انہیں جنت میں موتیوں کے ایک محل کی بشارت دے دیجیے گا جہاں نہ شور و ہنگامہ ہو گا اور نہ تکلیف و تھکن ہو گی)۔
6- سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہالہ بنت خویلد نے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدیجہ رضی اللہ عنہا کی اجازت لینے کی ادا یاد آ گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چونک اٹھے اور فرمایا: اللہ! یہ تو ہالہ ہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مجھے اس پر بڑی غیرت آئی، میں نے کہا:
’’مَا تَذْكُرُ مِنْ عَجُوزٍ مِنْ عَجَائِزِ قُرَيْشٍ حَمْرَاءِ الشِّدْقَيْنِ هَلَكَتْ فِي الدَّهْرِ قَدْ أَبْدَلَكَ اللَّهُ خَيْرًا مِنْهَا‘‘([7])
(آپ قریش کی کس بوڑھی کا ذکر کیا کرتے ہیں جس کے مسوڑوں پر بھی دانتوں کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے (صرف سرخی باقی رہ گئی تھی) اور جسے مرے ہوئے بھی ایک زمانہ گزر چکا ہے، یقیناً اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلمکو اس سے بہتر بیوی دے دی ہے)۔
جبکہ مسند احمد کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر جواب دیا کہ:
(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے اوپر دوسری شادی نہیں کی یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہا وفات پاگئیں)۔
3- صحیح بخاری میں امام بخاری رحمہ اللہ باب قائم کرتے ہیں: ’’بَابُ تَزْوِيجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَدِيجَةَ، وَفَضْلُهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا‘‘ (باب: خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی اور ان کی فضیلت کا بیان)۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا:
’’خَيْرُ نِسَائِهَا مَرْيَمُ، وَخَيْرُ نِسَائِهَا خَدِيجَةُ‘‘([3])
((اپنے زمانے میں) مریم علیہاالسلام سب سے افضل عورت تھیں اور (اس امت میں) خدیجہ رضی اللہ عنہا سب سے افضل ہیں)۔
4- سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
’’مَا غِرْتُ عَلَى امْرَأَةٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا غِرْتُ عَلَى خَدِيجَةَ هَلَكَتْ قَبْلَ أَنْ يَتَزَوَّجَنِي لِمَا كُنْتُ أَسْمَعُهُ يَذْكُرُهَا وَأَمَرَهُ اللَّهُ أَنْ يُبَشِّرَهَا بِبَيْتٍ مِنْ قَصَبٍ، وَإِنْ كَانَ لَيَذْبَحُ الشَّاةَ فَيُهْدِي فِي خَلَائِلِهَا مِنْهَا مَا يَسَعُهُنَّ‘‘([4])
(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی کے معاملہ میں، میں نے اتنی غیرت نہیں محسوس کی جتنی غیرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے معاملہ میں محسوس کرتی تھی (دوسری روایت میں ہے حالانکہ میں نے انہیں دیکھا نہیں) وہ میرے نکاح سے پہلے ہی وفات پا چکی تھیں (دوسری روایت میں ہے کہ ان کی وفات کے تین سال بعد مجھ سے نکاح فرمایا) لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے میں ان کا ذکر سنتی رہتی تھی۔ اور اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا تھا کہ انہیں (جنت میں) موتی کے محل کی خوشخبری سنا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر کبھی بکری ذبح کرتے تو ان سے میل محبت رکھنے والی خواتین کو اس میں سے اتنا ہدیہ بھیجتے جو ان کے لیے کافی ہو جاتا)۔ [یہ عورت کی اپنی سوکن سے وہ فطری غیرت ہے جس پر ملامت نہیں، جیساکہ ان احادیث کی تشریح میں سلف صالحین کا کلام پڑھا جاسکتا ہے]۔
دوسری روایت میں ہے کہ:
’’فَرُبَّمَا، قُلْتُ: لَهُ كَأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ فِي الدُّنْيَا امْرَأَةٌ إِلَّا خَدِيجَةُ، فَيَقُولُ: إِنَّهَا كَانَتْ وَكَانَتْ وَكَانَ لِي مِنْهَا وَلَدٌ‘‘([5])
(میں کبھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ دیتی جیسے دنیا میں خدیجہ رضی اللہ عنہا کے سوا کوئی عورت ہے ہی نہیں! اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ وہ ایسی تھیں اور ایسی تھیں اور ان سے میرے اولاد ہے)۔
5- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا:
’’يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ خَدِيجَةُ قَدْ أَتَتْ مَعَهَا إِنَاءٌ فِيهِ إِدَامٌ أَوْ طَعَامٌ أَوْ شَرَابٌ، فَإِذَا هِيَ أَتَتْكَ فَاقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلَامَ مِنْ رَبِّهَا وَمِنِّي، وَبَشِّرْهَا بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ لَا صَخَبَ فِيهِ وَلَا نَصَبَ‘‘([6])
(یا رسول اللہ! خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس ایک برتن لیے آ رہی ہیں جس میں سالن یا (فرمایا) کھانا یا (فرمایا) پینے کی چیز ہے جب وہ آپ کے پاس آئیں تو ان کے رب کی جانب سے انہیں سلام پہنچا دیجیے گا اور میری طرف سے بھی! اور انہیں جنت میں موتیوں کے ایک محل کی بشارت دے دیجیے گا جہاں نہ شور و ہنگامہ ہو گا اور نہ تکلیف و تھکن ہو گی)۔
6- سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہالہ بنت خویلد نے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدیجہ رضی اللہ عنہا کی اجازت لینے کی ادا یاد آ گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چونک اٹھے اور فرمایا: اللہ! یہ تو ہالہ ہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مجھے اس پر بڑی غیرت آئی، میں نے کہا:
’’مَا تَذْكُرُ مِنْ عَجُوزٍ مِنْ عَجَائِزِ قُرَيْشٍ حَمْرَاءِ الشِّدْقَيْنِ هَلَكَتْ فِي الدَّهْرِ قَدْ أَبْدَلَكَ اللَّهُ خَيْرًا مِنْهَا‘‘([7])
(آپ قریش کی کس بوڑھی کا ذکر کیا کرتے ہیں جس کے مسوڑوں پر بھی دانتوں کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے (صرف سرخی باقی رہ گئی تھی) اور جسے مرے ہوئے بھی ایک زمانہ گزر چکا ہے، یقیناً اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلمکو اس سے بہتر بیوی دے دی ہے)۔
جبکہ مسند احمد کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر جواب دیا کہ:
’’مَا أَبْدَلَنِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ خَيْرًا مِنْهَا قَدْ آمَنَتْ بِي إِذْ كَفَرَ بِي النَّاسُ وَصَدَّقَتْنِي إِذْ كَذَّبَنِي النَّاسُ وَوَاسَتْنِي بِمَالِهَا إِذْ حَرَمَنِي النَّاسُ وَرَزَقَنِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَدَهَا إِذْ حَرَمَنِي أَوْلَادَ النِّسَاءِ‘‘([8])
(اللہ نے مجھے اس کے بدلے میں اس سے بہتر کوئی بیوی نہیں دی، وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب لوگ کفر کررہے تھے، میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ میری تکذیب کررہے تھے، اپنے مال سے میری ہمدردی اس وقت کی جب کہ لوگوں نے مجھے اس سے محروم رکھا ،اور اللہ تعالی نے مجھے ان سے اولاد عطا فرمائی جب کہ میں دوسری بیویوں میں سے اولاد ہونے سے محروم رہا)۔
انہی کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید غصہ آیا اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:
’’فَتَمَعَّرَ وَجْهُهُ تَمَعُّرًا مَا كُنْتُ أَرَاهُ إِلَّا عِنْدَ نُزُولِ الْوَحْيِ، أَوْ عِنْدَ الْمَخِيلَةِ حَتَّى يَنْظُرَ أَرَحْمَةٌ أَمْ عَذَابٌ‘‘([9])
(نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ اس طرح سرخ ہو گیا جس طرح صرف نزول وحی کے وقت ہوتا تھا، یا بادل چھا جانے کے وقت جس میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دیکھتے تھے کہ یہ باعث رحمت ہے یا باعث عذاب)۔
7- ایک روایت میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے غیرت دکھانے کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنِّي قَدْ رُزِقْتُ حُبَّهَا‘‘([10])
(بے شک مجھے ان کی محبت عطاء کی گئی ہے)۔
امام نووی رحمہ اللہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں:
اس میں اشارہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا کی محبت ایک فضیلت ہے جو حاصل ہوچکی ہے۔
[1] مستدرک امام حاکم ، کتاب معرفۃ الصحابۃ 3/183 اور کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن شیخین اسے نہیں لائے، اور ذہبی نے ان کی موافقت فرمائی۔
[2] صحیح مسلم 2439۔
[3] صحیح بخاری 3815۔
[4] صحیح بخاری 3816۔
[5] صحیح بخاری 3818۔
[6] صحیح بخاری 3820۔
[7] صحیح بخاری 3821۔
[8] مسند احمد 24341۔
[9] مسند احمد 24644۔
[10] صحیح مسلم 2437۔
8- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’حَسْبُكَ مِنْ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ: مَرْيَمُ ابْنَةُ عِمْرَانَ، وَخَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ، وَفَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ، وَآسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ‘‘([1])
(دنیا کی عورتوں میں (کمالِ فضیلت وولایت کے اعتبار سے) تجھے چار ہی کافی ہیں: سیدہ مریم بنت عمران ، خدیجہ بنت خویلد ، فاطمہ بنت محمد اور فرعون کی بیوی آسیہ رضی اللہ عنہن)۔
9- سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمین پر چار لکیریں کھینچیں اور فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ کیا ہیں؟ تو لوگوں نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’أَفْضَلُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ، وَفَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ، وَمَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ، وَآسِيَةُ بِنْتُ مُزَاحِمٍ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ‘‘([2])
(اہل جنت کی عورتوں میں سب سے افضل عورتیں (چار ہوں گی) :
1- خدیجہ بنت خویلد، 2- فاطمہ بنت محمد ، 3- مریم بنت عمران ، 4- آسیہ بنت مزاحم ، جو فرعون کی بیوی تھیں رضی اللہ عنہن)۔
[1] صحیح ترمذی 3878۔
[2] مسند احمد 2896، السلسلة الصحيحة 1508۔
(اللہ نے مجھے اس کے بدلے میں اس سے بہتر کوئی بیوی نہیں دی، وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب لوگ کفر کررہے تھے، میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ میری تکذیب کررہے تھے، اپنے مال سے میری ہمدردی اس وقت کی جب کہ لوگوں نے مجھے اس سے محروم رکھا ،اور اللہ تعالی نے مجھے ان سے اولاد عطا فرمائی جب کہ میں دوسری بیویوں میں سے اولاد ہونے سے محروم رہا)۔
انہی کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید غصہ آیا اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:
’’فَتَمَعَّرَ وَجْهُهُ تَمَعُّرًا مَا كُنْتُ أَرَاهُ إِلَّا عِنْدَ نُزُولِ الْوَحْيِ، أَوْ عِنْدَ الْمَخِيلَةِ حَتَّى يَنْظُرَ أَرَحْمَةٌ أَمْ عَذَابٌ‘‘([9])
(نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ اس طرح سرخ ہو گیا جس طرح صرف نزول وحی کے وقت ہوتا تھا، یا بادل چھا جانے کے وقت جس میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دیکھتے تھے کہ یہ باعث رحمت ہے یا باعث عذاب)۔
7- ایک روایت میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے غیرت دکھانے کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنِّي قَدْ رُزِقْتُ حُبَّهَا‘‘([10])
(بے شک مجھے ان کی محبت عطاء کی گئی ہے)۔
امام نووی رحمہ اللہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں:
اس میں اشارہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا کی محبت ایک فضیلت ہے جو حاصل ہوچکی ہے۔
[1] مستدرک امام حاکم ، کتاب معرفۃ الصحابۃ 3/183 اور کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن شیخین اسے نہیں لائے، اور ذہبی نے ان کی موافقت فرمائی۔
[2] صحیح مسلم 2439۔
[3] صحیح بخاری 3815۔
[4] صحیح بخاری 3816۔
[5] صحیح بخاری 3818۔
[6] صحیح بخاری 3820۔
[7] صحیح بخاری 3821۔
[8] مسند احمد 24341۔
[9] مسند احمد 24644۔
[10] صحیح مسلم 2437۔
8- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’حَسْبُكَ مِنْ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ: مَرْيَمُ ابْنَةُ عِمْرَانَ، وَخَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ، وَفَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ، وَآسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ‘‘([1])
(دنیا کی عورتوں میں (کمالِ فضیلت وولایت کے اعتبار سے) تجھے چار ہی کافی ہیں: سیدہ مریم بنت عمران ، خدیجہ بنت خویلد ، فاطمہ بنت محمد اور فرعون کی بیوی آسیہ رضی اللہ عنہن)۔
9- سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمین پر چار لکیریں کھینچیں اور فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ کیا ہیں؟ تو لوگوں نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’أَفْضَلُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ، وَفَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ، وَمَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ، وَآسِيَةُ بِنْتُ مُزَاحِمٍ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ‘‘([2])
(اہل جنت کی عورتوں میں سب سے افضل عورتیں (چار ہوں گی) :
1- خدیجہ بنت خویلد، 2- فاطمہ بنت محمد ، 3- مریم بنت عمران ، 4- آسیہ بنت مزاحم ، جو فرعون کی بیوی تھیں رضی اللہ عنہن)۔
[1] صحیح ترمذی 3878۔
[2] مسند احمد 2896، السلسلة الصحيحة 1508۔
[#SalafiUrduDawah Article] In Defense of Umm-ul-Mo'mineen #Aaeshah RadiAllaho Anhaa – #Fatwaa_Committee, Saudi Arabia
دفاعِ ام المؤمنین سیدہ #عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الرئاسۃ العامۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ کی آفیشل ویب سائٹ سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور دریافت کیا کہ:
’’أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْكَ ؟ قَالَ: عَائِشَةُ، فَقُلْتُ: مِنَ الرِّجَالِ، فَقَالَ: أَبُوهَا ‘‘([1])
(لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب شخصیت آپ کے نزدیک کونسی ہے؟ فرمایا: عائشہ رضی اللہ عنہا، پھر دریافت کیا کہ مردوں میں سے، فرمایا: ان کے والد (یعنی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ))۔
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
[1] صحیح بخاری 3662، صحیح مسلم 2387۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/difa_e_umm_ul_momineen_ayesha.pdf
دفاعِ ام المؤمنین سیدہ #عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الرئاسۃ العامۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ کی آفیشل ویب سائٹ سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور دریافت کیا کہ:
’’أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْكَ ؟ قَالَ: عَائِشَةُ، فَقُلْتُ: مِنَ الرِّجَالِ، فَقَالَ: أَبُوهَا ‘‘([1])
(لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب شخصیت آپ کے نزدیک کونسی ہے؟ فرمایا: عائشہ رضی اللہ عنہا، پھر دریافت کیا کہ مردوں میں سے، فرمایا: ان کے والد (یعنی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ))۔
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
[1] صحیح بخاری 3662، صحیح مسلم 2387۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/difa_e_umm_ul_momineen_ayesha.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] The status of #Fatimah bint Rasoolillaah (radiAllaaho anha) and her excellence – tawheedekhaalis.com
سیدہ #فاطمہ بنت رسول اللہ رضی اللہ عنہا کا مرتبہ اور فضائل
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا کہ آپ تمام مومن عورتوں کی سردار وسیدہ ہیں اور جنتی خواتین کی بھی سردار ہیں۔
(صحیح بخاری 3824، 6285، صحیح مسلم 2452، ، صحیح ترمذی 3781)۔
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/fatimah_bint_rasoolillaah_martaba_fazail.pdf
سیدہ #فاطمہ بنت رسول اللہ رضی اللہ عنہا کا مرتبہ اور فضائل
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا کہ آپ تمام مومن عورتوں کی سردار وسیدہ ہیں اور جنتی خواتین کی بھی سردار ہیں۔
(صحیح بخاری 3824، 6285، صحیح مسلم 2452، ، صحیح ترمذی 3781)۔
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/fatimah_bint_rasoolillaah_martaba_fazail.pdf
[#SalafiUrduDawah Pamphlet] Warning against the spread of the #Raafidah's religion in Muslim lands - Shaykh #Rabee bin Hadee #Al_Madkhalee
اسلامی ممالک میں #روافض کے دین کے انتشار سے خبردار کرنا - شیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/rawafid_tehzeer_intishaar_muslim_mumalik_blk.pdf
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/rawafid_tehzeer_intishaar_muslim_mumalik_brw.pdf
اسلامی ممالک میں #روافض کے دین کے انتشار سے خبردار کرنا - شیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/rawafid_tehzeer_intishaar_muslim_mumalik_blk.pdf
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/rawafid_tehzeer_intishaar_muslim_mumalik_brw.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] The wisdom and intellect necessitate the #rectification of the #creeds and refuting #Shirk – Shaykh #Rabee bin Hadee #Al_Madkhalee
#اصلاحِ #عقائد اور مخالفت #شرک ہی عقل و حکمت کا تقاضہ ہے
فضیلۃ الشیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب منھج الأنبیاء فی الدعوۃ الی اللہ فیہ الحکمۃ والعقل۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ حفظہ اللہ اپنی کتاب میں مختلف انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی توحید کی جانب دعوت اور شرک کے رد کے سلسلے میں نمونے ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔
اب ہم اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ جب انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کی دعوت اپنے پہلو میں دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیاں سمیٹے ہوئے ہے اسی طرح انہوں نے ہر برائی سے ڈرایا ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ جب ہم دیکھتے ہیں جو قصے اللہ تعالی نے ہمارے لیے اپنی کتاب میں بیان فرمائے اور جب ہم اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت وسنت کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی دعوتِ توحید ، شرک و مظاہر ووسائل و اسبابِ شرک کے خلاف جنگ میں ان کی عمر اور دعوت کا ایک بڑا حصہ بیت گیا ۔ یہاں تک کہ یوں لگتا ہے گویا کہ وہ بس اسی کام کو سر انجام دینے کے لئے دنیا میں تشریف لائے۔
پس کہاں ہیں ان کے سر کش اور ظالم حکمرانوں کے خلاف مواقف؟
جواب: انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام نے جو مؤقف اختیار فرمایا وہی عین حکمت وصواب اور عقل سلیم کا تقاضہ تھا۔
کیونکہ انسانوں کی سیاست، اقتصادیات اور اجتماعیت سے متعلق خطرات کی شرک اور اس کے نقصانات کے برابر تو کجا اس کے قریب تک کی حیثیت نہیں۔ فرمان باری تعالی ہے:
﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاءُ﴾ (النساء: 48)
(بے شک اللہ اس (گناہ) کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے اور اس کے علاوہ جو (گناہ) ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے بخش دیتا ہے)
﴿ ۭاِنَّهٗ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَاْوٰىهُ النَّارُ﴾ (المائدہ: 72)
(بے شک جو اللہ کے ساتھ شریک کرے گا اللہ نے یقیناً اس پر جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے)
﴿وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ اَوْ تَهْوِيْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ مَكَانٍ سَحِيْقٍ﴾ (الحج: 31)
(اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے گویا وہ آسمان سے گر پڑا ،پھر پرندوں نے اسے اچک لیا ،یا تیز و تند ہوا نے اسے کسی دور مقام پر پھینک دیا)
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/islah_aqaid_mukhalifat_shirk_aqal_hikmat_taqaza.pdf
#اصلاحِ #عقائد اور مخالفت #شرک ہی عقل و حکمت کا تقاضہ ہے
فضیلۃ الشیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب منھج الأنبیاء فی الدعوۃ الی اللہ فیہ الحکمۃ والعقل۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ حفظہ اللہ اپنی کتاب میں مختلف انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی توحید کی جانب دعوت اور شرک کے رد کے سلسلے میں نمونے ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔
اب ہم اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ جب انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کی دعوت اپنے پہلو میں دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیاں سمیٹے ہوئے ہے اسی طرح انہوں نے ہر برائی سے ڈرایا ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ جب ہم دیکھتے ہیں جو قصے اللہ تعالی نے ہمارے لیے اپنی کتاب میں بیان فرمائے اور جب ہم اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت وسنت کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی دعوتِ توحید ، شرک و مظاہر ووسائل و اسبابِ شرک کے خلاف جنگ میں ان کی عمر اور دعوت کا ایک بڑا حصہ بیت گیا ۔ یہاں تک کہ یوں لگتا ہے گویا کہ وہ بس اسی کام کو سر انجام دینے کے لئے دنیا میں تشریف لائے۔
پس کہاں ہیں ان کے سر کش اور ظالم حکمرانوں کے خلاف مواقف؟
جواب: انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام نے جو مؤقف اختیار فرمایا وہی عین حکمت وصواب اور عقل سلیم کا تقاضہ تھا۔
کیونکہ انسانوں کی سیاست، اقتصادیات اور اجتماعیت سے متعلق خطرات کی شرک اور اس کے نقصانات کے برابر تو کجا اس کے قریب تک کی حیثیت نہیں۔ فرمان باری تعالی ہے:
﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاءُ﴾ (النساء: 48)
(بے شک اللہ اس (گناہ) کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے اور اس کے علاوہ جو (گناہ) ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے بخش دیتا ہے)
﴿ ۭاِنَّهٗ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَاْوٰىهُ النَّارُ﴾ (المائدہ: 72)
(بے شک جو اللہ کے ساتھ شریک کرے گا اللہ نے یقیناً اس پر جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے)
﴿وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ اَوْ تَهْوِيْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ مَكَانٍ سَحِيْقٍ﴾ (الحج: 31)
(اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے گویا وہ آسمان سے گر پڑا ،پھر پرندوں نے اسے اچک لیا ،یا تیز و تند ہوا نے اسے کسی دور مقام پر پھینک دیا)
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/islah_aqaid_mukhalifat_shirk_aqal_hikmat_taqaza.pdf
#SalafiUrduDawah
#مہاجرین #انصار #صحابہ کرام اور ان کے بعد آنے والوں کی صفات
#muhajireen #ansaar #sahaba kiraam aur un k baad anay walo ki sifaat
#مہاجرین #انصار #صحابہ کرام اور ان کے بعد آنے والوں کی صفات
#muhajireen #ansaar #sahaba kiraam aur un k baad anay walo ki sifaat
[#SalafiUrduDawah Article] The noble status of #Ahl_ul_Bayt (Prophet's family) and their rights without exaggeration or understating – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#اہلِ_بیت کی فضیلت اور حق تلفی یا غلو کے بغیر ان کے ساتھ سلوک کا بیان
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
مصدر: عقیدۃ التوحید وما یضادھا۔۔۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/ahlebayt_haq_ghulu_taqseer.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اہل بیت سے کون مراد ہیں اور ان کے حقوق
اہلِ بیت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ آل و اولاد ہیں جن پر صدقہ حرام ہے، ان میں سیدناعلی کی اولاد، سیدنا جعفر کی اولاد، سیدناعقیل کی اولاد، سیدناعباس کی اولاد، بنو حارث بن عبدالمطلب اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات اور بنات طاہرات رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا﴾ (الاحزاب: 33)
(اے(پیغمبر کے) اہلِ بیت اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی (کا میل کچیل) دور کر دے اور تمہیں بالکل پاک صاف کر دے)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس ضمن میں لکھتے ہیں:
’’قرآن مجید میں جو تدبر کرے گا اس کو کبھی بھی اس بات میں شک نہیں ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواجِ مطہرات بھی مذکورہ آیتِ کریمہ کے ضمن میں داخل ہیں ۔ اس لئے کہ سیاق کلام انہی کے ساتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے فوراً بعد فرمایا:
﴿وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلٰى فِيْ بُيُوْتِكُنَّ مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ وَالْحِكْمَةِ﴾ (الاحزاب:34)
(اور تمہارے گھروں میں جو اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت (کی باتیں سنائی جاتی ہیں یعنی حدیث) ان کو یاد رکھو)
آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے گھروں میں کتاب و سنت میں سے جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ اپنے رسول پر نازل فرماتا ہے اس پر عمل کرو، سیدنا قتادہ رحمہ اللہ اور دوسرے علماء نے یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ اس نعمت کو یاد کرو جو اور لوگوں کو چھوڑ کر تمہارے لئے خاص کی گئی ہے۔ یعنی وحی تمہارے گھروں میں نازل ہوتی ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تو اس نعمت سے مالا مال تھیں اور اس عمومی رحمت میں آپ کو خاص مقام عطاء ہوا تھاکیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو چھوڑ کر کسی کے بستر پر وحی نازل نہیں ہوئی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود فرمایا بعض علماء کا کہنا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ خصوصیت اس لئے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سوا کسی بھی کنواری سے شادی نہیں کی، اور آپ کے سوا ان کے بستر پر کبھی کوئی دوسرا مرد نہیں سویا۔(یعنی دوسرے سے شادی ہی نہیں کی)۔
لہٰذا مناسب تھا کہ اس خصوصیت ورتبۂ عالیہ سے آپ نوازی جاتیں اور جب آپ کی ازواج ِ مطہرات اہلِ بیت میں داخل ہیں تو آپ کے اقارب و اعزا ء بدرجۂ اولیٰ اس میں داخل ہیں اور وہ اس نام کے زیادہ مستحق ہیں‘‘([1])۔
لہٰذا اہل سنت و الجماعت اہل بیت سے محبت کرتے ہیں اور عقیدت رکھتے ہیں ، اور ان کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس وصیت کو اپنے سامنے رکھتے ہیں جسے آپ نے غدیر خم (ایک جگہ کا نام ہے) کے موقع پر فرمایا تھا:
’’أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي‘‘([2])
(میرے اہل بیت کے (حقوق کا خیال رکھنے کے) سلسلے میں ،تمہیں میں اللہ تعالی (کے تقویٰ) کو یاد رکھنے کی وصیت کرتا ہوں)۔
اہل سنت و الجماعت ان سے محبت کرتے ہیں اور ان کی تکریم و تعظیم کرتے ہیں۔ اس لئے کہ یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و عقیدت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم کی علامت ہے۔ اس شرط کے ساتھ ہے کہ وہ سنت کی اتباع پر قائم ہوں، جیسے کہ ان کے سلف صالح سیدنا عباس اور ان کی اولاد، سیدنا علی اور ان کی آل اولاد رضی اللہ عنہم کا حال تھا، اور ان میں سے جو سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخالف ہوں اور دین پر قائم نہ ہوں، پھر ان سے عقیدت و دوستی جائز نہ ہوگی، چاہے اہل بیت (سید) میں سے ہوں۔
اہل بیت کے بارے میں اہل سنت و الجماعت کا مؤقف بہت ہی اعتدال و انصاف پر مبنی ہے اہل بیت میں سے جو دین و ایمان پر قائم ہیں ان سے گہری محبت و عقیدت رکھتے ہیں اور ان میں سے جو سنت کے مخالف اور دین سے منحرف ہوں ان سے دور رہتے ہیں، چاہے وہ نسبی طور پر اہل بیت میں داخل کیوں نہ ہوں۔ اس لئے کہ اہل بیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریبی ہونے سے کوئی فائدہ نہیں جب تک کہ اللہ تعالیٰ کے دین پر قائم نہ ہوں۔ سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:
﴿وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ﴾ (الشعراء:214)
(اور اپنے قریب کے رشتہ داروں کو ڈر سنا دیں)
#اہلِ_بیت کی فضیلت اور حق تلفی یا غلو کے بغیر ان کے ساتھ سلوک کا بیان
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
مصدر: عقیدۃ التوحید وما یضادھا۔۔۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/ahlebayt_haq_ghulu_taqseer.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اہل بیت سے کون مراد ہیں اور ان کے حقوق
اہلِ بیت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ آل و اولاد ہیں جن پر صدقہ حرام ہے، ان میں سیدناعلی کی اولاد، سیدنا جعفر کی اولاد، سیدناعقیل کی اولاد، سیدناعباس کی اولاد، بنو حارث بن عبدالمطلب اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات اور بنات طاہرات رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا﴾ (الاحزاب: 33)
(اے(پیغمبر کے) اہلِ بیت اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی (کا میل کچیل) دور کر دے اور تمہیں بالکل پاک صاف کر دے)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس ضمن میں لکھتے ہیں:
’’قرآن مجید میں جو تدبر کرے گا اس کو کبھی بھی اس بات میں شک نہیں ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواجِ مطہرات بھی مذکورہ آیتِ کریمہ کے ضمن میں داخل ہیں ۔ اس لئے کہ سیاق کلام انہی کے ساتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے فوراً بعد فرمایا:
﴿وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلٰى فِيْ بُيُوْتِكُنَّ مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ وَالْحِكْمَةِ﴾ (الاحزاب:34)
(اور تمہارے گھروں میں جو اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت (کی باتیں سنائی جاتی ہیں یعنی حدیث) ان کو یاد رکھو)
آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے گھروں میں کتاب و سنت میں سے جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ اپنے رسول پر نازل فرماتا ہے اس پر عمل کرو، سیدنا قتادہ رحمہ اللہ اور دوسرے علماء نے یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ اس نعمت کو یاد کرو جو اور لوگوں کو چھوڑ کر تمہارے لئے خاص کی گئی ہے۔ یعنی وحی تمہارے گھروں میں نازل ہوتی ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تو اس نعمت سے مالا مال تھیں اور اس عمومی رحمت میں آپ کو خاص مقام عطاء ہوا تھاکیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو چھوڑ کر کسی کے بستر پر وحی نازل نہیں ہوئی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود فرمایا بعض علماء کا کہنا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ خصوصیت اس لئے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سوا کسی بھی کنواری سے شادی نہیں کی، اور آپ کے سوا ان کے بستر پر کبھی کوئی دوسرا مرد نہیں سویا۔(یعنی دوسرے سے شادی ہی نہیں کی)۔
لہٰذا مناسب تھا کہ اس خصوصیت ورتبۂ عالیہ سے آپ نوازی جاتیں اور جب آپ کی ازواج ِ مطہرات اہلِ بیت میں داخل ہیں تو آپ کے اقارب و اعزا ء بدرجۂ اولیٰ اس میں داخل ہیں اور وہ اس نام کے زیادہ مستحق ہیں‘‘([1])۔
لہٰذا اہل سنت و الجماعت اہل بیت سے محبت کرتے ہیں اور عقیدت رکھتے ہیں ، اور ان کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس وصیت کو اپنے سامنے رکھتے ہیں جسے آپ نے غدیر خم (ایک جگہ کا نام ہے) کے موقع پر فرمایا تھا:
’’أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي‘‘([2])
(میرے اہل بیت کے (حقوق کا خیال رکھنے کے) سلسلے میں ،تمہیں میں اللہ تعالی (کے تقویٰ) کو یاد رکھنے کی وصیت کرتا ہوں)۔
اہل سنت و الجماعت ان سے محبت کرتے ہیں اور ان کی تکریم و تعظیم کرتے ہیں۔ اس لئے کہ یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و عقیدت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم کی علامت ہے۔ اس شرط کے ساتھ ہے کہ وہ سنت کی اتباع پر قائم ہوں، جیسے کہ ان کے سلف صالح سیدنا عباس اور ان کی اولاد، سیدنا علی اور ان کی آل اولاد رضی اللہ عنہم کا حال تھا، اور ان میں سے جو سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخالف ہوں اور دین پر قائم نہ ہوں، پھر ان سے عقیدت و دوستی جائز نہ ہوگی، چاہے اہل بیت (سید) میں سے ہوں۔
اہل بیت کے بارے میں اہل سنت و الجماعت کا مؤقف بہت ہی اعتدال و انصاف پر مبنی ہے اہل بیت میں سے جو دین و ایمان پر قائم ہیں ان سے گہری محبت و عقیدت رکھتے ہیں اور ان میں سے جو سنت کے مخالف اور دین سے منحرف ہوں ان سے دور رہتے ہیں، چاہے وہ نسبی طور پر اہل بیت میں داخل کیوں نہ ہوں۔ اس لئے کہ اہل بیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریبی ہونے سے کوئی فائدہ نہیں جب تک کہ اللہ تعالیٰ کے دین پر قائم نہ ہوں۔ سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:
﴿وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ﴾ (الشعراء:214)
(اور اپنے قریب کے رشتہ داروں کو ڈر سنا دیں)
تو آپ ﷺ نے کھڑے ہو کر فرمایا:
’’فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ، لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، يَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، لَا أُغْنِي عَنْكَ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَيَا صَفِيَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَيَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مِنْ مَالِي مَا شِئْتِ، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا‘‘([3])
(اے قریش!(یا اس جیسا کوئی لفظ) اپنے آپ کو خرید لو(یعنی نیک اعمال کرکے جنت حاصل کرلو اور جہنم سے بچ جاؤ)، اللہ تعالیٰ کے سامنے میں تمہارے لئے کچھ نہیں کر سکتا، اے عباس بن عبدالمطلب! میں اللہ کے سامنے تمہارے لئے کچھ نہیں کر سکتا۔ اے صفیہ رسول اللہ کی پھوپھی! میں اللہ کے سامنے تمہارے لئے کچھ نہیں کر سکتا، اے فاطمہ بنت محمد! میرے مال میں سے جو چاہو مانگ لو لیکن اللہ کے سامنے میں تمہارے لئے کچھ نہیں کر سکتا)۔
ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں:
’’مَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ‘‘([4])
(جس کا عمل اسے پیچھے چھوڑ جائے اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکتا)۔
اہل سنت والجماعت رافضی شیعوں کے غلط عقیدہ سے پاک ہیں، جو بعض اہل بیت کے سلسلے میں غلو سے کام لیتے ہوئے ان کی عصمت کا دعویٰ کرتے ہیں، اسی طرح نواصب کے گمراہ کن طریقوں سے بھی پاک ہیں، جو اصحابِ استقامت اہل بیت سے بھی بغض ودشمنی رکھتے ہیں انہیں لعن طعن کرتے ہیں ۔الحمدللہ اہل سنت والجماعت ان بدعتیوں اور خرافیوں کی گمراہی سے بھی پاک ہیں جو اہل بیت کو وسیلہ بناتے ہیں اور اللہ کے سوا ان کو اپنا رب والہ مانتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل سنت و الجماعت اس بارے میں اور دیگر معاملات میں بھی منہجِ اعتدال اور صراطِ مستقیم پر قائم ہیں جن کے رویہ میں کوئی افراط و تفریط نہیں اور نہ ہی اہل بیت کے حق میں حق تلفی و غلو ہے۔ خود معتدل و دین پر قائم اہل بیت اپنے لئے غلو پسند نہیں کرتے ہیں، اور غلو کرنے والوں سے برأت وبیزاری کا اظہار کرتے ہیں، خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے متعلق غلو کرنے والوں کو آگ میں جلا دینے کا حکم ارشاد فرمایا تھا اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان کے قتل کو جائز قرار دیا ہے، لیکن وہ آگ کے بجائے تلوار سے قتل کے قائل تھے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے غلو کرنے والوں کے سردار عبداللہ بن سبأ کو قتل کرنے کے لئے تلاش کروایا تھا لیکن وہ بھاگ گیا تھا اور کہیں چھپ گیا تھا‘‘([5])۔
[1] دیکھیں تفسیر ابن کثیر میں ان آیات کی تفسیر۔
[2] مسلم فضائل الصحابة (2408)، أحمد (4/367)، الدارمي فضائل القرآن (3316).
[3]البخاري الوصايا (2602)، مسلم الإيمان (206)، النسائي الوصايا (3646)، أحمد (2/361)، الدارمي الرقاق (2732).
[4]مسلم الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار (2699)، الترمذي القراءات (2945)، ابن ماجه المقدمة (225)، أحمد (2/252)، الدارمي المقدمة (344).
[5] اہل بیت کے تفصیلی فضائل وحقوق کے بارے میں جاننے کے لیے شیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ کی کتاب ’’اہل سنت والجماعت کے نزدیک اہل بیت کا مقام ومرتبہ‘‘ کا مطالعہ مفید رہے گا۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
’’فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ، لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، يَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، لَا أُغْنِي عَنْكَ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَيَا صَفِيَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَيَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مِنْ مَالِي مَا شِئْتِ، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا‘‘([3])
(اے قریش!(یا اس جیسا کوئی لفظ) اپنے آپ کو خرید لو(یعنی نیک اعمال کرکے جنت حاصل کرلو اور جہنم سے بچ جاؤ)، اللہ تعالیٰ کے سامنے میں تمہارے لئے کچھ نہیں کر سکتا، اے عباس بن عبدالمطلب! میں اللہ کے سامنے تمہارے لئے کچھ نہیں کر سکتا۔ اے صفیہ رسول اللہ کی پھوپھی! میں اللہ کے سامنے تمہارے لئے کچھ نہیں کر سکتا، اے فاطمہ بنت محمد! میرے مال میں سے جو چاہو مانگ لو لیکن اللہ کے سامنے میں تمہارے لئے کچھ نہیں کر سکتا)۔
ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں:
’’مَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ‘‘([4])
(جس کا عمل اسے پیچھے چھوڑ جائے اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکتا)۔
اہل سنت والجماعت رافضی شیعوں کے غلط عقیدہ سے پاک ہیں، جو بعض اہل بیت کے سلسلے میں غلو سے کام لیتے ہوئے ان کی عصمت کا دعویٰ کرتے ہیں، اسی طرح نواصب کے گمراہ کن طریقوں سے بھی پاک ہیں، جو اصحابِ استقامت اہل بیت سے بھی بغض ودشمنی رکھتے ہیں انہیں لعن طعن کرتے ہیں ۔الحمدللہ اہل سنت والجماعت ان بدعتیوں اور خرافیوں کی گمراہی سے بھی پاک ہیں جو اہل بیت کو وسیلہ بناتے ہیں اور اللہ کے سوا ان کو اپنا رب والہ مانتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل سنت و الجماعت اس بارے میں اور دیگر معاملات میں بھی منہجِ اعتدال اور صراطِ مستقیم پر قائم ہیں جن کے رویہ میں کوئی افراط و تفریط نہیں اور نہ ہی اہل بیت کے حق میں حق تلفی و غلو ہے۔ خود معتدل و دین پر قائم اہل بیت اپنے لئے غلو پسند نہیں کرتے ہیں، اور غلو کرنے والوں سے برأت وبیزاری کا اظہار کرتے ہیں، خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے متعلق غلو کرنے والوں کو آگ میں جلا دینے کا حکم ارشاد فرمایا تھا اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان کے قتل کو جائز قرار دیا ہے، لیکن وہ آگ کے بجائے تلوار سے قتل کے قائل تھے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے غلو کرنے والوں کے سردار عبداللہ بن سبأ کو قتل کرنے کے لئے تلاش کروایا تھا لیکن وہ بھاگ گیا تھا اور کہیں چھپ گیا تھا‘‘([5])۔
[1] دیکھیں تفسیر ابن کثیر میں ان آیات کی تفسیر۔
[2] مسلم فضائل الصحابة (2408)، أحمد (4/367)، الدارمي فضائل القرآن (3316).
[3]البخاري الوصايا (2602)، مسلم الإيمان (206)، النسائي الوصايا (3646)، أحمد (2/361)، الدارمي الرقاق (2732).
[4]مسلم الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار (2699)، الترمذي القراءات (2945)، ابن ماجه المقدمة (225)، أحمد (2/252)، الدارمي المقدمة (344).
[5] اہل بیت کے تفصیلی فضائل وحقوق کے بارے میں جاننے کے لیے شیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ کی کتاب ’’اہل سنت والجماعت کے نزدیک اہل بیت کا مقام ومرتبہ‘‘ کا مطالعہ مفید رہے گا۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[#SalafiUrduDawah Article] Brief Seerah of grandsons of the prophet #Hasan and #Husayn (RadiAllaho anhuma) – tawheedekhaalis.com
مختصر سیرت نواسان ِرسول #حسن و #حسین رضی اللہ عنہما
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’الْحَسَنُ، وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ‘‘([1])
(حسن اور حسین اہل جنت نوجوانوں کے سردار ہیں)۔
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
[1] صحیح ترمذی 3768۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/seerat_hasan_o_husain.pdf
مختصر سیرت نواسان ِرسول #حسن و #حسین رضی اللہ عنہما
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’الْحَسَنُ، وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ‘‘([1])
(حسن اور حسین اہل جنت نوجوانوں کے سردار ہیں)۔
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
[1] صحیح ترمذی 3768۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/seerat_hasan_o_husain.pdf