[#SalafiUrduDawah Article] The #companions رضی اللہ عنہم best of people – Shaykh #Abdul_Muhsin Al-Abbaad
#صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بہترین لوگ
فضیلۃ الشیخ #عبدالمحسن بن حمد العباد البدر حفظہ اللہ
(محدثِ مدینہ و سابق رئیس، جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من كنوز القرآن الكريم ص 236-237۔
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/06/sahaba_behtareen_log.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سورۃ التوبۃ
اللہ تعالی کا فرمان:
﴿وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ﴾ (التوبۃ: 100)
(جن لوگوں نے سبقت کی(یعنی سب سے پہلے) ایمان لائے مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی ،اور جنہوں نے بطورِ احسن ان کی پیروی کی، اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں، اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، اوروہ ہمیشہ ان میں رہیں گے ، یہی بڑی کامیابی ہے)
اس آیت میں اللہ تعالی کی طرف سے سابقین اولین مہاجرین وانصار اور اچھے طریقے سے ان کی پیروی کرنے والوں سے اللہ تعالی کی رضا مندی ، اور ان کی اللہ تعالی سے رضا مندی کی خبر دی جارہی ہے ۔ اور یہ کہ بے شک اس نے ان کے لیے نعمتوں بھری جنت تیار کررکھی ہے، اور یہ کہ بلاشبہ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم ہيں وہ تمام امتوں سے بہترین امت محمدیہ میں سے سب سے بہترین لوگ ہيں ۔ یقیناً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت اور عظمت بہت سی آیات اور متواتر احادیث میں بیان ہوئی ہيں (رضی اللہ عنہم وارضاہم)۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالی نے سابقین مہاجرین وانصار اور اچھے طریقے سے ان کی پیروی کرنے والوں سے اللہ تعالی کی رضا مندی ، اور ان کی اللہ تعالی سے رضا مندی کی خبر دی ، اور جو کچھ اس نے ان کے لیے نعمتوں بھر ی جنت اور ہمیشہ رہنے والی نعمتیں تیار کررکھی ہیں ان کی بھی خبر دی۔ امام الشعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سابقین اولین مہاجرین وانصار سے مراد وہ ہیں جنہوں نے حدیبیہ والے سال بیعت رضوان کو پایا تھا، سیدنا ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ، سعید بن المسیب، محمد بن سیرین، الحسن اور قتادہ رحمہم اللہ فرماتے ہیں: یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ہے‘‘۔
مزید فرمایا:
’’یقیناً اللہ عظیم نے یہ خبر دی کہ بے شک وہ سابقین اولین مہاجرین وانصار اور جنہوں نے احسن طور پر ان کی پیروی کی ان سے راضی ہوا۔ پس ان لوگوں کے لیے ویل ہے جو ان سے بغض رکھے یا سب وشتم کرے، یا ان میں سے بعض سے بغض رکھے اور سب وشتم کرے،خصوصاً ان میں سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعدتمام صحابہ کے سید وسردار ہيں ، اور ان میں سے سب سے بہتر اور افضل ہيں یعنی صدیق اکبر وخلیفۂ اعظم ابو بکر ابن ابی قُحَافَہ رضی اللہ عنہ، کیونکہ روافض میں سے ایک گھٹیا گروہ افضل ترین صحابہ سے بغض ودشمنی رکھتا ہےاور انہيں سب وشتم کرتا ہے، ہم اس سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کی عقل ہی الٹی ہے، اور ان کے دل ہی اوندھے ہيں، پھر ایسوں کا قرآن کریم کے ساتھ کیا ایمان رہا جو ان ہی کو سب وشتم کریں جن سے اللہ تعالی راضی ہوچکا؟ جبکہ جو اہل سنت ہیں وہ ان سے راضی ہوتے ہیں جن سے اللہ تعالی راضی ہوا، اور انہیں سب وشتم کرتے ہيں جن پر اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب وشتم فرمایا، اور ان سے دوستی ومحبت کرتے ہيں جن سے اللہ تعالی محبت ودوستی فرماتا ہے، اور ان سے دشمنی وعداوت رکھتے ہيں جن سے اللہ تعالی دشمنی وعداوت فرماتا ہے۔ یہ اتبا ع وپیروی کرنے والے ہیں نہ کہ بدعات ایجاد کرنے والے، اقتداء کرتے ہيں مخالفت نہیں کرتے۔ اسی لیے یہ کامیاب ہونے والے حزب اللہ ہیں اور اس کے مومنین بندے ہیں‘‘۔
ہمارے شیخ شیخ محمد الامین الشنقیطی رحمہ اللہ ’’اضواء البیان‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ بلاشبہ جو سابقین اولین مہاجرین وانصار کی احسن طور پر پیروی کرتے ہیں تو وہ ان کے ساتھ داخل ہيں اللہ تعالی کی رضا، ہمیشہ جنت میں رہنے کے وعدے اور عظیم کامیابی میں۔ اور دوسرے مقام پر وضاحت فرمائی کہ بے شک جنہوں نے سابقین کی احسن طور پر اتباع کی وہ ان کے ساتھ اس خیر میں شریک ہیں، جیساکہ اللہ تعالی کا فرمان:
﴿وَاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ﴾ (الجمعۃ: 3)
(اور ان میں سے کچھ اور لوگوں میں بھی (آپ کو بھیجا) جو ابھی تک ان سے نہیں ملے)
اور فرمایا:
#صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بہترین لوگ
فضیلۃ الشیخ #عبدالمحسن بن حمد العباد البدر حفظہ اللہ
(محدثِ مدینہ و سابق رئیس، جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من كنوز القرآن الكريم ص 236-237۔
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/06/sahaba_behtareen_log.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سورۃ التوبۃ
اللہ تعالی کا فرمان:
﴿وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ﴾ (التوبۃ: 100)
(جن لوگوں نے سبقت کی(یعنی سب سے پہلے) ایمان لائے مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی ،اور جنہوں نے بطورِ احسن ان کی پیروی کی، اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں، اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، اوروہ ہمیشہ ان میں رہیں گے ، یہی بڑی کامیابی ہے)
اس آیت میں اللہ تعالی کی طرف سے سابقین اولین مہاجرین وانصار اور اچھے طریقے سے ان کی پیروی کرنے والوں سے اللہ تعالی کی رضا مندی ، اور ان کی اللہ تعالی سے رضا مندی کی خبر دی جارہی ہے ۔ اور یہ کہ بے شک اس نے ان کے لیے نعمتوں بھری جنت تیار کررکھی ہے، اور یہ کہ بلاشبہ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم ہيں وہ تمام امتوں سے بہترین امت محمدیہ میں سے سب سے بہترین لوگ ہيں ۔ یقیناً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت اور عظمت بہت سی آیات اور متواتر احادیث میں بیان ہوئی ہيں (رضی اللہ عنہم وارضاہم)۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالی نے سابقین مہاجرین وانصار اور اچھے طریقے سے ان کی پیروی کرنے والوں سے اللہ تعالی کی رضا مندی ، اور ان کی اللہ تعالی سے رضا مندی کی خبر دی ، اور جو کچھ اس نے ان کے لیے نعمتوں بھر ی جنت اور ہمیشہ رہنے والی نعمتیں تیار کررکھی ہیں ان کی بھی خبر دی۔ امام الشعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سابقین اولین مہاجرین وانصار سے مراد وہ ہیں جنہوں نے حدیبیہ والے سال بیعت رضوان کو پایا تھا، سیدنا ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ، سعید بن المسیب، محمد بن سیرین، الحسن اور قتادہ رحمہم اللہ فرماتے ہیں: یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ہے‘‘۔
مزید فرمایا:
’’یقیناً اللہ عظیم نے یہ خبر دی کہ بے شک وہ سابقین اولین مہاجرین وانصار اور جنہوں نے احسن طور پر ان کی پیروی کی ان سے راضی ہوا۔ پس ان لوگوں کے لیے ویل ہے جو ان سے بغض رکھے یا سب وشتم کرے، یا ان میں سے بعض سے بغض رکھے اور سب وشتم کرے،خصوصاً ان میں سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعدتمام صحابہ کے سید وسردار ہيں ، اور ان میں سے سب سے بہتر اور افضل ہيں یعنی صدیق اکبر وخلیفۂ اعظم ابو بکر ابن ابی قُحَافَہ رضی اللہ عنہ، کیونکہ روافض میں سے ایک گھٹیا گروہ افضل ترین صحابہ سے بغض ودشمنی رکھتا ہےاور انہيں سب وشتم کرتا ہے، ہم اس سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کی عقل ہی الٹی ہے، اور ان کے دل ہی اوندھے ہيں، پھر ایسوں کا قرآن کریم کے ساتھ کیا ایمان رہا جو ان ہی کو سب وشتم کریں جن سے اللہ تعالی راضی ہوچکا؟ جبکہ جو اہل سنت ہیں وہ ان سے راضی ہوتے ہیں جن سے اللہ تعالی راضی ہوا، اور انہیں سب وشتم کرتے ہيں جن پر اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب وشتم فرمایا، اور ان سے دوستی ومحبت کرتے ہيں جن سے اللہ تعالی محبت ودوستی فرماتا ہے، اور ان سے دشمنی وعداوت رکھتے ہيں جن سے اللہ تعالی دشمنی وعداوت فرماتا ہے۔ یہ اتبا ع وپیروی کرنے والے ہیں نہ کہ بدعات ایجاد کرنے والے، اقتداء کرتے ہيں مخالفت نہیں کرتے۔ اسی لیے یہ کامیاب ہونے والے حزب اللہ ہیں اور اس کے مومنین بندے ہیں‘‘۔
ہمارے شیخ شیخ محمد الامین الشنقیطی رحمہ اللہ ’’اضواء البیان‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ بلاشبہ جو سابقین اولین مہاجرین وانصار کی احسن طور پر پیروی کرتے ہیں تو وہ ان کے ساتھ داخل ہيں اللہ تعالی کی رضا، ہمیشہ جنت میں رہنے کے وعدے اور عظیم کامیابی میں۔ اور دوسرے مقام پر وضاحت فرمائی کہ بے شک جنہوں نے سابقین کی احسن طور پر اتباع کی وہ ان کے ساتھ اس خیر میں شریک ہیں، جیساکہ اللہ تعالی کا فرمان:
﴿وَاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ﴾ (الجمعۃ: 3)
(اور ان میں سے کچھ اور لوگوں میں بھی (آپ کو بھیجا) جو ابھی تک ان سے نہیں ملے)
اور فرمایا:
﴿وَالَّذِيْنَ جَاءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا﴾ (الحشر: 10)
(اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے)
اور فرمایا:
﴿وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا مَعَكُمْ فَأُولَئِكَ مِنْكُمْ﴾ (الانفال: 75)
(اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ مل کر جہاد کیا تو وہ بھی تم ہی سے ہیں)
یہ بات مخفی نہيں کہ اللہ تعالی نے بلاشبہ صراحت کے ساتھ اس آیت کریمہ میں فرمایا ہے کہ وہ یقیناً سابقین اولین مہاجرین وانصار سے راضی ہوگیا، اور ان سے بھی جنہوں نے اچھے طور پر ان کی پیروی کی۔ یہ قرآنی صریح دلیل ہے کہ بے شک جو ان کو سب وشتم کرتا ہے اور ان سے بغض رکھتا ہے وہ گمراہ ہے اور اللہ تعالی کی مخالفت کرنے والا ہے، کیونکہ وہ ان سے بغض رکھتا ہے جن سے اللہ راضی ہوا، لہذا اس میں کوئی شک نہيں کہ جو ان سے بغض رکھے جن سے اللہ راضی ہوا تو وہ اللہ تعالی کی واضح مخالفت وعناد کرنے والا اورسرکش ہے‘‘۔
(اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے)
اور فرمایا:
﴿وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا مَعَكُمْ فَأُولَئِكَ مِنْكُمْ﴾ (الانفال: 75)
(اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ مل کر جہاد کیا تو وہ بھی تم ہی سے ہیں)
یہ بات مخفی نہيں کہ اللہ تعالی نے بلاشبہ صراحت کے ساتھ اس آیت کریمہ میں فرمایا ہے کہ وہ یقیناً سابقین اولین مہاجرین وانصار سے راضی ہوگیا، اور ان سے بھی جنہوں نے اچھے طور پر ان کی پیروی کی۔ یہ قرآنی صریح دلیل ہے کہ بے شک جو ان کو سب وشتم کرتا ہے اور ان سے بغض رکھتا ہے وہ گمراہ ہے اور اللہ تعالی کی مخالفت کرنے والا ہے، کیونکہ وہ ان سے بغض رکھتا ہے جن سے اللہ راضی ہوا، لہذا اس میں کوئی شک نہيں کہ جو ان سے بغض رکھے جن سے اللہ راضی ہوا تو وہ اللہ تعالی کی واضح مخالفت وعناد کرنے والا اورسرکش ہے‘‘۔
#SalafiUrduDawah
بچوں کو یوم #عاشوراء_کا_روزہ رکھنے کی ترغیب
bacho ko yaum e #ashooraa_ka_roza rakhnay ki targheeb
بچوں کو یوم #عاشوراء_کا_روزہ رکھنے کی ترغیب
bacho ko yaum e #ashooraa_ka_roza rakhnay ki targheeb
[#SalafiUrduDawah Article] What is the #Ikhwaanee #Manhaj?! – Shaykh Muhammad Amaan #Al_Jaamee
#اخوانی #منہج آخر ہے کیا؟!
فضیلۃ الشیخ محمد امان #الجامی رحمہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ عقیدہ، مدینہ یونیورسٹی ومدرس مسجد نبوی)
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مقطع صوتية: سلفي العقيدة إخواني المنهج هذا مصطلح خبيث۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/ikhwanee_manhaj_aakhir_hai_kiya.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۔۔۔آپ اس اسلوب پر ذرا غور کریں جو آجکل اپنایا جاتا ہے کہ فلاں سلفی العقیدہ ہے اور اخوانی المنہج ہے، اور یہ خبیث مصطلح ہے تلبیس وتدلیس سے بھری ہوئی۔ آخر معنی کیا ہے اخوانی المنہج ہونے کا؟! آپ کو پتہ ہے منہج الاخوان ہے کیا، کیا ہے ان کا منہج! منہج الاخوان کا تو یہ حال ہے کہ انہیں خود ہی قرار حاصل نہیں ہے کہ آخر ہمارا منہج ہے کیا! شیخ حسن البنا رحمہ اللہ نے اپنی دعوت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ: یہ دعوت صوفی سلفی ہے، جبکہ وہ خود اشعری ہے۔ یہ تضادات سے بھری تعریف! اس لیے تصور ہی ممکن نہیں اخوانیوں کے کسی ایک منہج کا جس پر وہ چلتے ہوں۔ کیونکہ یہ شخص خود ایک سیاسی ماحول میں پروان چڑھا ، پھر اس نے چاہا کہ ان سیاسی جماعتوں سے کشمکش کی جائے اور معاشرہ تشکیل دیا جائے، کوشش کی کہ سب کو ان کے حال ہی پر جمع کردیا جائے اور اپنے سے جوڑا جائے، صوفیوں کو جوڑا، سلفیوں کو جوڑا، تاکہ ہمارے دوسری سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ پیروکار وکارکنان ہوں۔
لہذا یہ ایک سیاسی تحریک تھی جسے اسلامی لبادے کے ساتھ مزین کرکے ملمع سازی کرتے ہوئے پیش کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ خود انہیں اپنا منہج نہيں پتہ ، ان کا منہج تو ایک ملک سے دوسرے ملک مختلف ہوتا ہے، اور اس کا اندازہ اسے ہوسکتا ہے جو ان کے ساتھ رہا ہو، ہم کئی ایک ممالک وعلاقوں میں ان کے ساتھ رہے تو دیکھا سب مختلف ہيں، اور ہوسکتا ہے ایک ہی ملک میں مختلف ناموں کے ساتھ موجود ہوں کہ اخوان المسلمین بھی ہے اور اسی کے ساتھ اسی علاقے میں جماعت اسلامی بھی ہے۔آپ سب جانتے ہیں کہ جماعت اسلامی جو لاہور میں ہے، اور اب قاہرہ میں جماعت اسلامی پائی جاتی ہے جو اخوان المسلمین کے علاوہ ہے۔ اس طرح سے یہ متنوع ہوتی ہيں۔آپ مشرق ومغرب اگر جائیں گے تو مختلف مناہج پائیں گے، ہر جماعت اپنے اپنے منہج کی دعویدار ہے، کیونکہ یہ وضعی مناہج ہیں۔
لہذا اے نوجوانو! اپنے آپ کو کسی دھوکے کی نذر نہ کرو، یہ ایک نئی بدعت ہے جو آپ پر وارد ہوئی ہے ۔ اپنے اسی سیدھے راستے پر جمے رہو اور تم اب تک اسی پر ہو ان شاء اللہ۔ الا وہ لوگ کہ جن پر یہ ورغلانہ اثر کرگیا اور واقعی بعض پر کرگیا۔خود بھڑکائے ہوئے ورغلائے ہوئے تھے تو دوسروں کو بھی بھرتے گئے اور وہ متاثر ہوتے گئے، اسی لیے جاننا چاہیے کہ یہ لوگ مقلد ہيں ، جو اس طرح سے ورغلانے میں آتے ہيں مقلدین ہيں۔ خود انہيں کسی غیر نے بھڑکایا ، اسے متاثر کیا اور خیال پراگندہ کیے تو اب وہ چاہتے ہیں کہ نئے سرے سے تمہیں ورغلائيں۔
مگر یہ بات اچھی طرح سے جان لیں جو قدیم راستہ ہے وہی روشن ہے اور منزل پر پہنچانے والا ہے۔ آپ پر لازم ہے کہ اس قدیم روشن راستے کو پکڑے رہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’تَرَكْتُكُمْ عَلَى الْبَيْضَاءِ(نقياء) لَيْلُهَا كَنَهَارِهَا ، فَلا يَزِيغُ عَنْهَا(بَعْدِي) إِلا هَالِكٌ“ ([1])
(میں تمہیں ایسی روشن وستھری شارع پر چھوڑے جارہا ہوں کہ جس کی رات بھی دن کی طرح ہے، میرے بعد اس سے گمراہ کوئی نہيں ہوگا مگر وہی جس کا ہلاکت مقدر ہو)۔
ان جماعتوں سے کوئی تعلق نہ رکھیں ، آپ کو چاہیے کہ اصل الجماعۃ کے ساتھ ہی رہيں ‘یعنی جماعۃالام اور اس سیدھے راستے پر رہیں([2])۔
[1] اسے امام ابن ماجہ نے اپنی سنن 43 میں روایت فرمایا اور شیخ البانی نے صحیح ابن ماجہ 41 میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
[2] ایک دوسرے مقام پر آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جماعت اخوان المسلمین (جو صحیح عقیدے اور اس بنا پر الولاء والبراء کو کوئی اہمیت نہيں دیتیں) کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جو مسجد بناتا ہے ایسے بازار میں جو لوگوں سے کچھا کھچ بھرا ہوا ہے، پھر ان کے درمیان میں کھڑا ہوکر سب کو نماز کے لیے پکارتے ہوئے کہتا ہے:
ہر کوئی بس آجائے جس حال میں ہے، وضوء والا وضوء کے ساتھ آجائے، بے وضوء بے وضوء ہی آجائے، بلکہ حیض ونفاس والی عورت بھی آجائے، کیونکہ ہم کسی کو مسترد نہيں کرتے۔ اگر ہم چاہتے ہيں کہ سب لوگ ایک عام وشامل اسلامی معاشرے میں متحد ہوں اور ہم سب مسلمان بھائی بھائی ہوں، کسی سختی کی ضرورت نہيں، کیونکہ سختی کرنے سے مسلمانوں کی صفوں کی انتشار ہوتا ہے!!
#اخوانی #منہج آخر ہے کیا؟!
فضیلۃ الشیخ محمد امان #الجامی رحمہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ عقیدہ، مدینہ یونیورسٹی ومدرس مسجد نبوی)
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مقطع صوتية: سلفي العقيدة إخواني المنهج هذا مصطلح خبيث۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/ikhwanee_manhaj_aakhir_hai_kiya.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۔۔۔آپ اس اسلوب پر ذرا غور کریں جو آجکل اپنایا جاتا ہے کہ فلاں سلفی العقیدہ ہے اور اخوانی المنہج ہے، اور یہ خبیث مصطلح ہے تلبیس وتدلیس سے بھری ہوئی۔ آخر معنی کیا ہے اخوانی المنہج ہونے کا؟! آپ کو پتہ ہے منہج الاخوان ہے کیا، کیا ہے ان کا منہج! منہج الاخوان کا تو یہ حال ہے کہ انہیں خود ہی قرار حاصل نہیں ہے کہ آخر ہمارا منہج ہے کیا! شیخ حسن البنا رحمہ اللہ نے اپنی دعوت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ: یہ دعوت صوفی سلفی ہے، جبکہ وہ خود اشعری ہے۔ یہ تضادات سے بھری تعریف! اس لیے تصور ہی ممکن نہیں اخوانیوں کے کسی ایک منہج کا جس پر وہ چلتے ہوں۔ کیونکہ یہ شخص خود ایک سیاسی ماحول میں پروان چڑھا ، پھر اس نے چاہا کہ ان سیاسی جماعتوں سے کشمکش کی جائے اور معاشرہ تشکیل دیا جائے، کوشش کی کہ سب کو ان کے حال ہی پر جمع کردیا جائے اور اپنے سے جوڑا جائے، صوفیوں کو جوڑا، سلفیوں کو جوڑا، تاکہ ہمارے دوسری سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ پیروکار وکارکنان ہوں۔
لہذا یہ ایک سیاسی تحریک تھی جسے اسلامی لبادے کے ساتھ مزین کرکے ملمع سازی کرتے ہوئے پیش کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ خود انہیں اپنا منہج نہيں پتہ ، ان کا منہج تو ایک ملک سے دوسرے ملک مختلف ہوتا ہے، اور اس کا اندازہ اسے ہوسکتا ہے جو ان کے ساتھ رہا ہو، ہم کئی ایک ممالک وعلاقوں میں ان کے ساتھ رہے تو دیکھا سب مختلف ہيں، اور ہوسکتا ہے ایک ہی ملک میں مختلف ناموں کے ساتھ موجود ہوں کہ اخوان المسلمین بھی ہے اور اسی کے ساتھ اسی علاقے میں جماعت اسلامی بھی ہے۔آپ سب جانتے ہیں کہ جماعت اسلامی جو لاہور میں ہے، اور اب قاہرہ میں جماعت اسلامی پائی جاتی ہے جو اخوان المسلمین کے علاوہ ہے۔ اس طرح سے یہ متنوع ہوتی ہيں۔آپ مشرق ومغرب اگر جائیں گے تو مختلف مناہج پائیں گے، ہر جماعت اپنے اپنے منہج کی دعویدار ہے، کیونکہ یہ وضعی مناہج ہیں۔
لہذا اے نوجوانو! اپنے آپ کو کسی دھوکے کی نذر نہ کرو، یہ ایک نئی بدعت ہے جو آپ پر وارد ہوئی ہے ۔ اپنے اسی سیدھے راستے پر جمے رہو اور تم اب تک اسی پر ہو ان شاء اللہ۔ الا وہ لوگ کہ جن پر یہ ورغلانہ اثر کرگیا اور واقعی بعض پر کرگیا۔خود بھڑکائے ہوئے ورغلائے ہوئے تھے تو دوسروں کو بھی بھرتے گئے اور وہ متاثر ہوتے گئے، اسی لیے جاننا چاہیے کہ یہ لوگ مقلد ہيں ، جو اس طرح سے ورغلانے میں آتے ہيں مقلدین ہيں۔ خود انہيں کسی غیر نے بھڑکایا ، اسے متاثر کیا اور خیال پراگندہ کیے تو اب وہ چاہتے ہیں کہ نئے سرے سے تمہیں ورغلائيں۔
مگر یہ بات اچھی طرح سے جان لیں جو قدیم راستہ ہے وہی روشن ہے اور منزل پر پہنچانے والا ہے۔ آپ پر لازم ہے کہ اس قدیم روشن راستے کو پکڑے رہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’تَرَكْتُكُمْ عَلَى الْبَيْضَاءِ(نقياء) لَيْلُهَا كَنَهَارِهَا ، فَلا يَزِيغُ عَنْهَا(بَعْدِي) إِلا هَالِكٌ“ ([1])
(میں تمہیں ایسی روشن وستھری شارع پر چھوڑے جارہا ہوں کہ جس کی رات بھی دن کی طرح ہے، میرے بعد اس سے گمراہ کوئی نہيں ہوگا مگر وہی جس کا ہلاکت مقدر ہو)۔
ان جماعتوں سے کوئی تعلق نہ رکھیں ، آپ کو چاہیے کہ اصل الجماعۃ کے ساتھ ہی رہيں ‘یعنی جماعۃالام اور اس سیدھے راستے پر رہیں([2])۔
[1] اسے امام ابن ماجہ نے اپنی سنن 43 میں روایت فرمایا اور شیخ البانی نے صحیح ابن ماجہ 41 میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
[2] ایک دوسرے مقام پر آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جماعت اخوان المسلمین (جو صحیح عقیدے اور اس بنا پر الولاء والبراء کو کوئی اہمیت نہيں دیتیں) کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جو مسجد بناتا ہے ایسے بازار میں جو لوگوں سے کچھا کھچ بھرا ہوا ہے، پھر ان کے درمیان میں کھڑا ہوکر سب کو نماز کے لیے پکارتے ہوئے کہتا ہے:
ہر کوئی بس آجائے جس حال میں ہے، وضوء والا وضوء کے ساتھ آجائے، بے وضوء بے وضوء ہی آجائے، بلکہ حیض ونفاس والی عورت بھی آجائے، کیونکہ ہم کسی کو مسترد نہيں کرتے۔ اگر ہم چاہتے ہيں کہ سب لوگ ایک عام وشامل اسلامی معاشرے میں متحد ہوں اور ہم سب مسلمان بھائی بھائی ہوں، کسی سختی کی ضرورت نہيں، کیونکہ سختی کرنے سے مسلمانوں کی صفوں کی انتشار ہوتا ہے!!
(کیا کوئی ادائیگی نماز کے متعلق اس نظریہ کو مان سکتا ہے، پھر کیسے توحید وعقیدے اور دعوت میں منہج انبیاء کرام کے تعلق سے اسے روا رکھا جاسکتا ہے، اور نام نہاد اعتدال کا نام دیا جاسکتا ہے!) (مجلة الجامعة الإسلامية ص383عدد1402/56) (توحید خالص ڈاٹ کام)
[#SalafiUrduDawah Article] The excellence and virtues of Ameer #Muawiyyah bin abi Sufyaan (radiAllaaho anhuma) and his defence – Various #Ulamaa
سیدنا امیر #معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے فضائل اور آپ کا دفاع – مختلف #علماء کرام
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے تعلق سے فرمایا:
’’اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِ بِهِ‘‘([1])
(اے اللہ انہيں ہادی (ہدایت کرنے والا)، مہدی (ہدایت یافتہ) بنا اور اور ان کے ذریعے سے (لوگوں کو) ہدایت دے)۔
[1] صحیح ترمذی 3842۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/ameer_muawiyyah_fazail_difa.pdf
سیدنا امیر #معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے فضائل اور آپ کا دفاع – مختلف #علماء کرام
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے تعلق سے فرمایا:
’’اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِ بِهِ‘‘([1])
(اے اللہ انہيں ہادی (ہدایت کرنے والا)، مہدی (ہدایت یافتہ) بنا اور اور ان کے ذریعے سے (لوگوں کو) ہدایت دے)۔
[1] صحیح ترمذی 3842۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/ameer_muawiyyah_fazail_difa.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] #Ikhwanee #Manhaj surely leads to destruction – Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen #Al_Albaanee
#اخوانی #منہج اپنانے کا نتیجہ خسارہ ہی ہے
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین #البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من سلسلة الهدى والنور:609۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/ikhwanee_manhaj_apnana_khasara_hai.pdf
﷽
سائل: شیخنا حفظکم اللہ، بعض داعیان ایسے ہيں جو نسبت واپنانے کے لحاظ سے عقیدے اور منہج میں فرق کرتے ہیں، پس آپ پائیں گے کہ ا س کا عقیدہ سلفی ہوگا ساتھ ہی پائیں گے کہ دعوت الی اللہ میں اس کا منہج اخوانی تحریکی حزبی سیاسی یا تبلیغی یا اسی طرح کا کچھ ہوگا، تو کیا واقعی ان کے لیے اس کی گنجائش ہے؟
جواب: میرا نہيں خیال کہ کوئی عقیدے وسلوک کے اعتبار سے سلفی ہو تو اس کے لیے یہ ممکن رہے کہ وہ اخوان المسلمین اور ان جیسوں کے منہج کو اپناتا ہو۔ ہم اخوان المسلمین حزبی جماعت کی زندگی کو جانتے ہیں کہ ان پر نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے جس میں وہ خود اپنے لیے کچھ استفادہ حاصل نہیں کرسکے چہ جائیکہ دوسروں کو کوئی فائدہ پہنچائیں۔ اس کی وجہ یہی ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ : "جس کے پاس خود کچھ نہیں وہ دوسرے کو کیا دے گا"۔ چناچہ یہ لوگ جب سے ان کے مرشد حسن البنا : نے ان کو جمع کیا اور بس بلا تمیز سب کو جمع کرتے گئے، یعنی انہیں بس جمع کرتے گئے مگر اس قرآنی حکم کے برخلاف کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا ﴾ (النساء: 59)
(پھر اگر تم کسی چیز میں تنازع کرو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے)
اخوان المسلمین کا نظام اس قاعدے پر قائم ہے جس کی تعبیر میں اپنی طرف سے کرتا ہوں اور جس کا وہ انکار نہیں کرسکتے، اور اگر کوئی انکار کی جرأت کر بھی لیتا ہےتو ہمارے لیے اس پر ان کی حقیقت حال ان کے خلاف حجت ہونے کے لیے کافی ہے۔ ان کا قاعدہ ہے بس جو ہے جیسا ہے جمع کرتے جاؤ اگرچہ ان کے مابین عقیدے یا سلوک یا فقہ میں اختلافات ہی کیوں نہ ہوں، پھر اس کے بعد ان کی تہذیب کرو، یعنی پہلے بس جیسے تیسے سب کو جمع کرتے جاؤ پھر ان کی تہذیب کا سوچو۔ اسی پر ان کی دعوت ان طویل برسوں میں قائم ہے، لیکن حقیقت حال اس بات پر شاہد ہے کہ ان کے یہاں سوائے جمع کرنے کے اور کوئی چیز نہيں پائی جاتی، ان کے یہاں وہ دوسری چیز یعنی تہذیب کے نام سے کچھ نہیں پایا جاتا ہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ اخوان المسلمین میں ان کے ممالک و براعظموں کے اختلاف کے باوجود کوئی فکری ربط نہيں پایا جاتا ، نہ اعتقادی ربط۔ حقیقت حال اس بات پر شاہد ہے جیسے جو مصر میں اخوان المسلمین ہيں وہ ان سے الگ ہيں جو اردن میں، اور وہ ان سے الگ ہيں جو شام میں ہيں۔ بلکہ خود شام ہی میں جنوبی اخوانی شمالی اخوانیوں سے الگ ہيں۔ اور میں یہ اچھی طرح سے جانتا ہوں کیونکہ میں خود شامی دمشقی ہوں جیسا کہ آپ جانتے ہيں۔ اور جیسا کہ کہا جاتا ہے: "اہل مکہ اس کی گلیوں سے سب سے زیادہ واقف ہوتے ہيں، اور گھر والے ہی جو کچھ گھر میں ہے اس سے سب سے زیادہ واقف ہوتے ہیں"۔ چناچہ میں جانتا ہوں کہ بلاشبہ دمشق میں جو اخوان المسلمین ہيں وہ بڑی حد تک سلفی دعوت سے متاثر ہیں اپنے عقیدے اور عبادت کے زاویے سے۔ اور اس کا سبب بالکل واضح ہے کہ سلفی دعوت دمشق میں پھر حلب میں بہت سرگرم رہی ہے۔ اور دمشق میں اخوان المسلمین کے خاندانی نظام میں ان میں سے بعض کتاب فقہ السنۃ سید سابق کی پڑھتے ہيں، اخوان المسلمین ایسا کرتے ہیں اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کیونکہ سید سابق حسن البنا : کے خاص ساتھیوں میں سے تھے۔ اور ان کی کتاب پر حسن البنا نے مختصر الفاظ میں تقریظ بھی لکھی ہے مقدمے میں۔
چناچہ امید تو یہ تھی کہ یہ کتاب اخوان المسلمین کا فقہ کے معاملے میں دستور ہو اخوان المسلمین کے ہر ملک اور علاقے میں۔ لیکن آپ عجیب ترین بات دیکھیں گے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ان کے یہاں کوئی فکری ثقافتی وحدت نہیں ہے۔ لہذا یہ کتاب دمشق کے بعض اخوانی گروپس میں جو کہ شمال میں لڑ رہے تھے، کہتے تھے کہ اس کتاب کا پڑھانا جائز نہيں کیونکہ اس کا مؤلف وہابی ہے۔ حالانکہ اس کا مؤلف تو اخوان المسلمین کے سرغناؤں میں سے ہے بلکہ حسن البنا کے حواریوں میں سے ہے۔
#اخوانی #منہج اپنانے کا نتیجہ خسارہ ہی ہے
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین #البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من سلسلة الهدى والنور:609۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/ikhwanee_manhaj_apnana_khasara_hai.pdf
﷽
سائل: شیخنا حفظکم اللہ، بعض داعیان ایسے ہيں جو نسبت واپنانے کے لحاظ سے عقیدے اور منہج میں فرق کرتے ہیں، پس آپ پائیں گے کہ ا س کا عقیدہ سلفی ہوگا ساتھ ہی پائیں گے کہ دعوت الی اللہ میں اس کا منہج اخوانی تحریکی حزبی سیاسی یا تبلیغی یا اسی طرح کا کچھ ہوگا، تو کیا واقعی ان کے لیے اس کی گنجائش ہے؟
جواب: میرا نہيں خیال کہ کوئی عقیدے وسلوک کے اعتبار سے سلفی ہو تو اس کے لیے یہ ممکن رہے کہ وہ اخوان المسلمین اور ان جیسوں کے منہج کو اپناتا ہو۔ ہم اخوان المسلمین حزبی جماعت کی زندگی کو جانتے ہیں کہ ان پر نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے جس میں وہ خود اپنے لیے کچھ استفادہ حاصل نہیں کرسکے چہ جائیکہ دوسروں کو کوئی فائدہ پہنچائیں۔ اس کی وجہ یہی ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ : "جس کے پاس خود کچھ نہیں وہ دوسرے کو کیا دے گا"۔ چناچہ یہ لوگ جب سے ان کے مرشد حسن البنا : نے ان کو جمع کیا اور بس بلا تمیز سب کو جمع کرتے گئے، یعنی انہیں بس جمع کرتے گئے مگر اس قرآنی حکم کے برخلاف کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا ﴾ (النساء: 59)
(پھر اگر تم کسی چیز میں تنازع کرو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے)
اخوان المسلمین کا نظام اس قاعدے پر قائم ہے جس کی تعبیر میں اپنی طرف سے کرتا ہوں اور جس کا وہ انکار نہیں کرسکتے، اور اگر کوئی انکار کی جرأت کر بھی لیتا ہےتو ہمارے لیے اس پر ان کی حقیقت حال ان کے خلاف حجت ہونے کے لیے کافی ہے۔ ان کا قاعدہ ہے بس جو ہے جیسا ہے جمع کرتے جاؤ اگرچہ ان کے مابین عقیدے یا سلوک یا فقہ میں اختلافات ہی کیوں نہ ہوں، پھر اس کے بعد ان کی تہذیب کرو، یعنی پہلے بس جیسے تیسے سب کو جمع کرتے جاؤ پھر ان کی تہذیب کا سوچو۔ اسی پر ان کی دعوت ان طویل برسوں میں قائم ہے، لیکن حقیقت حال اس بات پر شاہد ہے کہ ان کے یہاں سوائے جمع کرنے کے اور کوئی چیز نہيں پائی جاتی، ان کے یہاں وہ دوسری چیز یعنی تہذیب کے نام سے کچھ نہیں پایا جاتا ہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ اخوان المسلمین میں ان کے ممالک و براعظموں کے اختلاف کے باوجود کوئی فکری ربط نہيں پایا جاتا ، نہ اعتقادی ربط۔ حقیقت حال اس بات پر شاہد ہے جیسے جو مصر میں اخوان المسلمین ہيں وہ ان سے الگ ہيں جو اردن میں، اور وہ ان سے الگ ہيں جو شام میں ہيں۔ بلکہ خود شام ہی میں جنوبی اخوانی شمالی اخوانیوں سے الگ ہيں۔ اور میں یہ اچھی طرح سے جانتا ہوں کیونکہ میں خود شامی دمشقی ہوں جیسا کہ آپ جانتے ہيں۔ اور جیسا کہ کہا جاتا ہے: "اہل مکہ اس کی گلیوں سے سب سے زیادہ واقف ہوتے ہيں، اور گھر والے ہی جو کچھ گھر میں ہے اس سے سب سے زیادہ واقف ہوتے ہیں"۔ چناچہ میں جانتا ہوں کہ بلاشبہ دمشق میں جو اخوان المسلمین ہيں وہ بڑی حد تک سلفی دعوت سے متاثر ہیں اپنے عقیدے اور عبادت کے زاویے سے۔ اور اس کا سبب بالکل واضح ہے کہ سلفی دعوت دمشق میں پھر حلب میں بہت سرگرم رہی ہے۔ اور دمشق میں اخوان المسلمین کے خاندانی نظام میں ان میں سے بعض کتاب فقہ السنۃ سید سابق کی پڑھتے ہيں، اخوان المسلمین ایسا کرتے ہیں اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کیونکہ سید سابق حسن البنا : کے خاص ساتھیوں میں سے تھے۔ اور ان کی کتاب پر حسن البنا نے مختصر الفاظ میں تقریظ بھی لکھی ہے مقدمے میں۔
چناچہ امید تو یہ تھی کہ یہ کتاب اخوان المسلمین کا فقہ کے معاملے میں دستور ہو اخوان المسلمین کے ہر ملک اور علاقے میں۔ لیکن آپ عجیب ترین بات دیکھیں گے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ان کے یہاں کوئی فکری ثقافتی وحدت نہیں ہے۔ لہذا یہ کتاب دمشق کے بعض اخوانی گروپس میں جو کہ شمال میں لڑ رہے تھے، کہتے تھے کہ اس کتاب کا پڑھانا جائز نہيں کیونکہ اس کا مؤلف وہابی ہے۔ حالانکہ اس کا مؤلف تو اخوان المسلمین کے سرغناؤں میں سے ہے بلکہ حسن البنا کے حواریوں میں سے ہے۔
الغرض اخوان المسلمین جب سے اس کا وجود ہوا ہے اس وقت سے اب تک اس فوجی نظام پر گویا کہ چل رہے کہ: اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہونا، وہی کھڑے مارچ کرتے رہنا۔ حالانکہ یہ اپنی آپ کو تحریکی کہتے ہیں اور تمام جماعتوں اور احزاب سے اس نسبت کی وجہ سے ممتاز ہوتے ہیں کہ ہم تحریکی ہیں، میں بھی کہتا ہوں ہاں تحریکی (حرکت کرنے والے) تو ہو لیکن فوجی نظام کی طرح اپنی ہی جگہ پرکھڑے کھڑے مارچ کرتے رہنا۔آپ جانتے ہیں فوجی نظام کو اپنی جگہ پر کھڑے رہو بس ٹانگوں کو ہلاؤ مگر آگے نہ بڑھو۔ تو پھر اس حرکت کا کیا فائدہ! بیکار ہے۔
لہذا میرا نہيں گمان کہ سلفیوں کی کوئی جماعت دنیا کے ممالک میں سے کسی بھی ملک میں ہو تو ان کے لیے ایسا ممکن ہو کہ وہ اخوان المسلمین کا منہج اپنائے، کیونکہ ان کا منہج تو یہ ہے جو میں نے ابھی آپ کو بتایا کہ بس جیسے تیسے سب کوجمع کرو پھر ان کی تہذیب کا سوچو پھر اس تہذیب میں سے بھی کچھ نہ ہو! اور حقیقت حال اس کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
چناچہ واقعی اگر حقیقی سلفیوں کی کوئی جماعت خواہ بڑی ہو یا چھوٹی اپنی دعوت میں اخوان المسلمین کا منہج اپناتے ہیں تو ان کا انجام اور لازمی انجام یہ ہوگا کہ:
﴿وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَاَهٗ بَعْدَ حِيْنٍ﴾ (سورۃ ص: 88)
(اور یقینا ًتم اس کا حال کچھ ہی عرصے بعد ضرور جان لو گے)
دو باتوں میں سے ایک ہوگی تیسری کوئی بات نہیں۔یا تو ناچاہتے ہوئے بھی انہیں سلفی دعوت کی گود میں واپس لوٹ کر آنا ہی ہوگا اور یہ ان کے لیے خیر ہے اور باقی رہنے والا ہے۔ یا پھر وہ اس پورے ورثے کو ضائع کردیں گے جو انہوں نے اتنے سالوں میں کمایا ہے ، اس اخوان المسلمین کے منہج کی تطبیق کرنے میں مشغول ہوکر، جو کہ یہ ہے کہ: بس جو ہے جیسے ہے جمع کرو، یکساں فکر کی اساس پر نہيں۔ تو پھر دو ہی باتیں ممکن ہیں کوئی تیسری نہيں، کبھی نہيں۔
ہم آج جانتے ہيں کہ سلفی دعوت فی زمانہ اولاً: اللہ کے فضل وکرم سے، ثانیاً: اس کی جانب دعوت دینے والے داعیان کے ذریعے بہت پھیلی ہے ، ایسی پھیلی ہی کہ اس قسم کا پھیلاؤ اسلامی معاشرہ ایک تہائی صدی یا اس جیسے عرصے سے پہلے جانتا نہ تھا۔
اس بات کی گواہی بعض وہ سلفی دیتے ہیں جو آج سلفی دعوت کے ساتھ کلام کرتے ہیں اور شاید کہ اس میں کچھ اخوانی منہج کی آمیزش ہوتی ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ بلاشبہ اخوان المسلمین کی دعوت جب اس اساس پر قائم ہے کہ بس جمع کرو پھر تہذیب سکھانے میں سے کچھ بھی نہيں، تو اس کے مدمقابل سلفی دعوت تہذیب سکھانے کی بنیادپر قائم ہے ناکہ جو ہے جیسا ہے بس جمع کیے جاؤ پر، اسی لیے اس دعوت کے لیے نصرت مشروط ہے اسی منہج کے ساتھ جہاں کہیں بھی وہ جاتی ہے۔ اور آج اس زمانے میں یہ غالب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سلفی دعوت اور سلفی منہج ہر جگہ اور ہر زبان پر عام ہے۔ اور بعض وہ جماعتیں جو علی الاعلان سلفی دعوت کے خلاف لڑتی تھیں اور اب تک لڑرہی ہیں باطنی اور خفیہ طور پرانہوں نے اپنی سلفیت کی سی شکل بنا کر پیش کی ہے، کیونکہ انہوں نے پایا کہ ان تحریکوں کو قبول عام حاصل نہیں ہورہا جو اسی اساس پر قائم ہیں کہ اپنی جگہ پر ٹکے رہو، نہ علم ہے نہ سلوک، نہ کوئی جدید نفع بخش چیز۔
پس میں یہ خیال کرتا ہوں کہ کوئی سلفی جماعت اگر اپنا سابقہ منہج اخوان المسلمین کے اسلوب سے متاثر ہوکر چھوڑتی ہے اس کوشش میں کہ اپنے اردگرد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جمع کردیاجائے، تو پھر اللہ کی سنت اپنی مخلوق میں نہ بدلتی ہے نہ متغیر ہوتی ہے، میری مراد اس سے اللہ کا یہ فرمان ہے کہ:
﴿وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا﴾ (النساء: 28)
(اور انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے)
تو وہ ہر کام کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا، اس کی طاقت نہیں رکھتا کہ تمام شعبوں کو سنبھال لے علم کا بھی حق ادا کرے، سیاست کا، اقتصادیات اور اجتماعیت وغیرہ کا، تو ضروری ہے کہ ہر علم کا اختصاص ہو جو کم از کم فرض کفایہ میں شمار ہوتا ہے۔ اگر کوئی جماعت علم کے شعبے میں کام کررہی ہے جسے ہم تصفیہ کا نام دیتے ہیں، یعنی اس اسلام کو پاک وصاف کرنا ہر اس چیز سے جس سے یہ بَری ہے، اور تصفیہ کے بارے میں جیسا کہ آپ ایک سے زائد بار سن چکے ہيں، اور اس کے ساتھ تربیت کو ملے لیں ان قلیل جماعتوں کی جو ان کے ارد گرد ہوں۔ کیونکہ اگر وہ اس لوگوں کو جمع کرنے وبھر دینے کے دائرۂ کار کو وسعت دیتے ہيں تو تصفیہ کی زمام کار ان کے ہاتھوں سے چھوٹ جائے گی، اور لوگوں کا جم غفیر اور بہت بڑی تعداد ان سے چھوٹتی جائے گی، کیونکہ ایک، دو، پانچ یا دس جنہيں ہم کبار علماء شمار کریں ان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ لاکھوں کروڑوں لوگوں کو صحیح علم پرپروان چڑھائیں اور ان کی صحیح تربیت کرپائیں۔
لہذا میرا نہيں گمان کہ سلفیوں کی کوئی جماعت دنیا کے ممالک میں سے کسی بھی ملک میں ہو تو ان کے لیے ایسا ممکن ہو کہ وہ اخوان المسلمین کا منہج اپنائے، کیونکہ ان کا منہج تو یہ ہے جو میں نے ابھی آپ کو بتایا کہ بس جیسے تیسے سب کوجمع کرو پھر ان کی تہذیب کا سوچو پھر اس تہذیب میں سے بھی کچھ نہ ہو! اور حقیقت حال اس کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
چناچہ واقعی اگر حقیقی سلفیوں کی کوئی جماعت خواہ بڑی ہو یا چھوٹی اپنی دعوت میں اخوان المسلمین کا منہج اپناتے ہیں تو ان کا انجام اور لازمی انجام یہ ہوگا کہ:
﴿وَلَتَعْلَمُنَّ نَبَاَهٗ بَعْدَ حِيْنٍ﴾ (سورۃ ص: 88)
(اور یقینا ًتم اس کا حال کچھ ہی عرصے بعد ضرور جان لو گے)
دو باتوں میں سے ایک ہوگی تیسری کوئی بات نہیں۔یا تو ناچاہتے ہوئے بھی انہیں سلفی دعوت کی گود میں واپس لوٹ کر آنا ہی ہوگا اور یہ ان کے لیے خیر ہے اور باقی رہنے والا ہے۔ یا پھر وہ اس پورے ورثے کو ضائع کردیں گے جو انہوں نے اتنے سالوں میں کمایا ہے ، اس اخوان المسلمین کے منہج کی تطبیق کرنے میں مشغول ہوکر، جو کہ یہ ہے کہ: بس جو ہے جیسے ہے جمع کرو، یکساں فکر کی اساس پر نہيں۔ تو پھر دو ہی باتیں ممکن ہیں کوئی تیسری نہيں، کبھی نہيں۔
ہم آج جانتے ہيں کہ سلفی دعوت فی زمانہ اولاً: اللہ کے فضل وکرم سے، ثانیاً: اس کی جانب دعوت دینے والے داعیان کے ذریعے بہت پھیلی ہے ، ایسی پھیلی ہی کہ اس قسم کا پھیلاؤ اسلامی معاشرہ ایک تہائی صدی یا اس جیسے عرصے سے پہلے جانتا نہ تھا۔
اس بات کی گواہی بعض وہ سلفی دیتے ہیں جو آج سلفی دعوت کے ساتھ کلام کرتے ہیں اور شاید کہ اس میں کچھ اخوانی منہج کی آمیزش ہوتی ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ بلاشبہ اخوان المسلمین کی دعوت جب اس اساس پر قائم ہے کہ بس جمع کرو پھر تہذیب سکھانے میں سے کچھ بھی نہيں، تو اس کے مدمقابل سلفی دعوت تہذیب سکھانے کی بنیادپر قائم ہے ناکہ جو ہے جیسا ہے بس جمع کیے جاؤ پر، اسی لیے اس دعوت کے لیے نصرت مشروط ہے اسی منہج کے ساتھ جہاں کہیں بھی وہ جاتی ہے۔ اور آج اس زمانے میں یہ غالب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سلفی دعوت اور سلفی منہج ہر جگہ اور ہر زبان پر عام ہے۔ اور بعض وہ جماعتیں جو علی الاعلان سلفی دعوت کے خلاف لڑتی تھیں اور اب تک لڑرہی ہیں باطنی اور خفیہ طور پرانہوں نے اپنی سلفیت کی سی شکل بنا کر پیش کی ہے، کیونکہ انہوں نے پایا کہ ان تحریکوں کو قبول عام حاصل نہیں ہورہا جو اسی اساس پر قائم ہیں کہ اپنی جگہ پر ٹکے رہو، نہ علم ہے نہ سلوک، نہ کوئی جدید نفع بخش چیز۔
پس میں یہ خیال کرتا ہوں کہ کوئی سلفی جماعت اگر اپنا سابقہ منہج اخوان المسلمین کے اسلوب سے متاثر ہوکر چھوڑتی ہے اس کوشش میں کہ اپنے اردگرد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جمع کردیاجائے، تو پھر اللہ کی سنت اپنی مخلوق میں نہ بدلتی ہے نہ متغیر ہوتی ہے، میری مراد اس سے اللہ کا یہ فرمان ہے کہ:
﴿وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا﴾ (النساء: 28)
(اور انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے)
تو وہ ہر کام کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا، اس کی طاقت نہیں رکھتا کہ تمام شعبوں کو سنبھال لے علم کا بھی حق ادا کرے، سیاست کا، اقتصادیات اور اجتماعیت وغیرہ کا، تو ضروری ہے کہ ہر علم کا اختصاص ہو جو کم از کم فرض کفایہ میں شمار ہوتا ہے۔ اگر کوئی جماعت علم کے شعبے میں کام کررہی ہے جسے ہم تصفیہ کا نام دیتے ہیں، یعنی اس اسلام کو پاک وصاف کرنا ہر اس چیز سے جس سے یہ بَری ہے، اور تصفیہ کے بارے میں جیسا کہ آپ ایک سے زائد بار سن چکے ہيں، اور اس کے ساتھ تربیت کو ملے لیں ان قلیل جماعتوں کی جو ان کے ارد گرد ہوں۔ کیونکہ اگر وہ اس لوگوں کو جمع کرنے وبھر دینے کے دائرۂ کار کو وسعت دیتے ہيں تو تصفیہ کی زمام کار ان کے ہاتھوں سے چھوٹ جائے گی، اور لوگوں کا جم غفیر اور بہت بڑی تعداد ان سے چھوٹتی جائے گی، کیونکہ ایک، دو، پانچ یا دس جنہيں ہم کبار علماء شمار کریں ان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ لاکھوں کروڑوں لوگوں کو صحیح علم پرپروان چڑھائیں اور ان کی صحیح تربیت کرپائیں۔
لہذا اگر وہ اپنے آپ کو بس لوگوں کو جمع کرنے میں مشغول رکھیں گے اخوان المسلمین کے منہج کے مطابق تو عنقریب وہ کتاب وسنت اور جس چیز پر ہمارے سلف صالحین y تھے کے مطابق تہذیب سکھلانے کو کھودیں گے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ میں کسی جماعت کا کسی جماعت پر انکار نہيں کرتا کہ جو کسی فرض کفایہ کو ادا کررہی ہو، اس کا انکار نہیں کرتا کیونکہ بلاشبہ اس کے سوا کچھ ممکن ہی نہيں۔ مثال کے طور پر میں کسی مسلمان کا اس بات پر انکار نہیں کرتا کہ وہ عربی لغت میں تخصص حاصل کرلے مگر وہ کتاب وسنت کی فقہ میں سے کچھ نہ جانتا ہو، اسی طرح اس پر انکار نہيں کرتا کہ کوئی شخص کسی اور علم میں تخصص حاصل کرلے جو کہ فرض کفایہ میں سے ہو، لیکن اس بات پر انکار کرتا ہوں کہ یہ اختصاص والے آپس میں تفرقہ کریں اور ساتھ جمع نہ ہوں اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کریں۔ اس کا ہم انکار کرتے ہيں، اگر ہم فرض کریں کہ اخوان المسلمین نے ان فرائض کفایہ میں سے کوئی جانب لے لی ہے اور اس میں تخصص حاصل کیا ہے، لیکن ساتھ ہی وہ دوسرے گروہ سے جس نے ان کے تخصص کے علاوہ کسی چیز میں تخصص کیا ہے عداوت نہيں رکھتے، جیسا کہ خود یہ تخصص والے اخوان المسلمین سے اس وجہ سے عداوت نہیں رکھتے کہ انہو ں نے کسی دوسرے واجب میں تخصص کیا ہے، وہ تو بس لوگوں کا ایک اجتماع ہے ، اور سب کے سب اس صاف ستھرے اسلام کے تحت کام کررہے ہیں۔
مجھے بالجزم پورا یقین ہے کہ ایک خالص اسلامی ریاست کا قیام جس کا نعرہ مشترک ہے سلفی گروہ طائفہ منصورہ اور اخوان المسلمین وحزب التحریر غیر منصورہ کے مابین! کیونکہ سنت میں (طائفہ منصورہ کی) جو صفات آئیں ہیں وہ ان(اخوانیوں) پر منطبق نہیں ہوتیں۔ تو ایسی اسلامی ریاست کا قیام ممکن نہیں جب تک ان تمام جماعتوں میں تعاون نہ ہو، لیکن ہاں وہ تعاون کتاب وسنت اور منہج سلف صالحین کی اساس پر ہو۔ میں یہ کہتا ہوں کہ سلفی متخصص ہیں کتاب وسنت کے فقہ وفہم میں منہج سلف صالحین کے مطابق۔ اور وہ بھرپور کوشش کرتے ہیں کہ اپنے ہر چھوٹے بڑے کام میں کتاب وسنت کی پیروی کریں، وہ فرق نہیں کرتے کہ فلاں کام فرض ہے، یا سنت ہے یا مستحب ہے، بلکہ اپنی استطاعت بھر یہ سارے کام ہی کرتے ہیں، برخلاف دوسروں کے کہ جنہوں نے اسی پر قناعت کرلی ہے کہ وہ ان مذاہب میں سے کسی مذہب کی پیروی کرلیں بنایہ جانے کہ لوگوں کا جس بات میں اختلاف ہے اس میں صواب بات کون سی ہے۔ تو یہ جو سلفی ہيں اگر یہ بھی صرف اس جانب کو لیتے ہيں پھر جو دیگر فرائض ہيں کو اگرچہ دیگر گروہوں سے تعاون کرکے ہی کیوں نہ ہو نہيں لیتے، تو یہ بھی اسی پر ہوں گے کہ اپنی جگہ ٹکے رہو۔
لہذا ضروری ہے کہ ان تمام جماعتوں میں اپنے اپنے اختصاص کے مطابق تعاون ہو، اور بلاشبہ اصلاح کے سلسلے میں وہ سب سے اہم بات جس کا اہتمام کرنا چاہیے اس پر سلفی کاربند ہيں پوری دنیا میں اور وہ ہے اسلام کا تصفیہ یعنی اسے پاک وصاف کرنا ان چیزوں سے جو اس میں داخل ہوگئی ہيں۔ اور اس اساس پر مسلمانوں کی تربیت کرنا۔
ہم فرائض کفایہ کی ادائیگی کے منکر نہيں لیکن اس میں مبالغہ نہیں کرتے جیسا کہ دوسرے لوگ کرتے ہيں۔ پس اگر اس اساس پر جماعتیں متحد ہوجائيں، ہر جماعت اپنے اختصاص کے ساتھ دوسری جماعت سے اپنے دائرۂ کار میں مل کر کام کریں مگر کتاب وسنت کی حدود میں جیسا کہ ہم نے ابھی شروع میں یہ بات ذکر کی کہ اللہ تعالی کا فرمان:
﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا ﴾ (النساء: 59)
(پھر اگر تم کسی چیز میں تنازع کرو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے)
تو میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ پھر اس دن مومنین اللہ تعالی کی جانب سے ملنے والی نصرت پر خوشی منائيں گے۔ لیکن حال یہ ہو جیساکہ بہت سے اخوان المسلمین والوں کا ہے کہ کہتے ہیں: ارے بھائی یہ دعوت تو مسلمانوں میں تفرقہ ڈالتی ہے جمع نہیں کرتی، تو ہم یہ کہیں گے: تمہاری یہی رٹ اور وطیرہ ہم پہلے سے ہی جانتے ہیں۔ مشکل ہی یہی ہے کہ یہ لوگ ان لوگوں کے ساتھ تعاون کریں گے ہی نہيں کہ جو تصفیہ کے واجب کو ادا کررہے ہیں، اور انہیں تہمت دیتے ہیں کہ تم لوگوں میں تفرقہ ڈالتے ہو۔
تو بات بس یہی ہے کہ اگر تمام گروہ باہمی تعاون کریں ہر کوئی اپنے اختصاص کی حدود میں تو میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ یہی مسلمانوں کی کامیابی کی راہ ہے، اور انہيں اس کمزوری سے نکالنے والی ہے جس میں وہ مبتلا ہيں۔
مجھے بالجزم پورا یقین ہے کہ ایک خالص اسلامی ریاست کا قیام جس کا نعرہ مشترک ہے سلفی گروہ طائفہ منصورہ اور اخوان المسلمین وحزب التحریر غیر منصورہ کے مابین! کیونکہ سنت میں (طائفہ منصورہ کی) جو صفات آئیں ہیں وہ ان(اخوانیوں) پر منطبق نہیں ہوتیں۔ تو ایسی اسلامی ریاست کا قیام ممکن نہیں جب تک ان تمام جماعتوں میں تعاون نہ ہو، لیکن ہاں وہ تعاون کتاب وسنت اور منہج سلف صالحین کی اساس پر ہو۔ میں یہ کہتا ہوں کہ سلفی متخصص ہیں کتاب وسنت کے فقہ وفہم میں منہج سلف صالحین کے مطابق۔ اور وہ بھرپور کوشش کرتے ہیں کہ اپنے ہر چھوٹے بڑے کام میں کتاب وسنت کی پیروی کریں، وہ فرق نہیں کرتے کہ فلاں کام فرض ہے، یا سنت ہے یا مستحب ہے، بلکہ اپنی استطاعت بھر یہ سارے کام ہی کرتے ہیں، برخلاف دوسروں کے کہ جنہوں نے اسی پر قناعت کرلی ہے کہ وہ ان مذاہب میں سے کسی مذہب کی پیروی کرلیں بنایہ جانے کہ لوگوں کا جس بات میں اختلاف ہے اس میں صواب بات کون سی ہے۔ تو یہ جو سلفی ہيں اگر یہ بھی صرف اس جانب کو لیتے ہيں پھر جو دیگر فرائض ہيں کو اگرچہ دیگر گروہوں سے تعاون کرکے ہی کیوں نہ ہو نہيں لیتے، تو یہ بھی اسی پر ہوں گے کہ اپنی جگہ ٹکے رہو۔
لہذا ضروری ہے کہ ان تمام جماعتوں میں اپنے اپنے اختصاص کے مطابق تعاون ہو، اور بلاشبہ اصلاح کے سلسلے میں وہ سب سے اہم بات جس کا اہتمام کرنا چاہیے اس پر سلفی کاربند ہيں پوری دنیا میں اور وہ ہے اسلام کا تصفیہ یعنی اسے پاک وصاف کرنا ان چیزوں سے جو اس میں داخل ہوگئی ہيں۔ اور اس اساس پر مسلمانوں کی تربیت کرنا۔
ہم فرائض کفایہ کی ادائیگی کے منکر نہيں لیکن اس میں مبالغہ نہیں کرتے جیسا کہ دوسرے لوگ کرتے ہيں۔ پس اگر اس اساس پر جماعتیں متحد ہوجائيں، ہر جماعت اپنے اختصاص کے ساتھ دوسری جماعت سے اپنے دائرۂ کار میں مل کر کام کریں مگر کتاب وسنت کی حدود میں جیسا کہ ہم نے ابھی شروع میں یہ بات ذکر کی کہ اللہ تعالی کا فرمان:
﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا ﴾ (النساء: 59)
(پھر اگر تم کسی چیز میں تنازع کرو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے)
تو میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ پھر اس دن مومنین اللہ تعالی کی جانب سے ملنے والی نصرت پر خوشی منائيں گے۔ لیکن حال یہ ہو جیساکہ بہت سے اخوان المسلمین والوں کا ہے کہ کہتے ہیں: ارے بھائی یہ دعوت تو مسلمانوں میں تفرقہ ڈالتی ہے جمع نہیں کرتی، تو ہم یہ کہیں گے: تمہاری یہی رٹ اور وطیرہ ہم پہلے سے ہی جانتے ہیں۔ مشکل ہی یہی ہے کہ یہ لوگ ان لوگوں کے ساتھ تعاون کریں گے ہی نہيں کہ جو تصفیہ کے واجب کو ادا کررہے ہیں، اور انہیں تہمت دیتے ہیں کہ تم لوگوں میں تفرقہ ڈالتے ہو۔
تو بات بس یہی ہے کہ اگر تمام گروہ باہمی تعاون کریں ہر کوئی اپنے اختصاص کی حدود میں تو میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ یہی مسلمانوں کی کامیابی کی راہ ہے، اور انہيں اس کمزوری سے نکالنے والی ہے جس میں وہ مبتلا ہيں۔
#SalafiUrduDawah
#صحابہ کرام اور #اہل_بیت کے متعلق عقیدہ
#sahaba kiraam aur #ahl_e_bayt say mutaliq aqeedah
#صحابہ کرام اور #اہل_بیت کے متعلق عقیدہ
#sahaba kiraam aur #ahl_e_bayt say mutaliq aqeedah
[#SalafiUrduDawah Article] The status of Umm-ul-Mo'mineen #Khadeejah bint Khuwaylid (radiAllaaho anha) and her excellence – tawheedekhaalis.com
ام المؤمنین سیدہ #خدیجہ بنت خویلدرضی اللہ عنہا کا مرتبہ اور فضائل
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/khadeejah_bint_khuwaylid_martaba_fazail.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ ام المؤمنین خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزی بن قصی ہیں ، آپ کا نسب چوتھی پڑی قصی بن کلاب میں جاکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے۔ آپ تمام امہات المؤمنین میں نسب کے اعتبار سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریب تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہا کے علاوہ قصی کی ذریت میں سے کسی سے شادی نہيں فرمائی سوائے سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے۔ آپ رضی اللہ عنہا نسب کے اعتبار سے قریش میں اوسط، شرف میں اعظم اور مال میں اکثر تھیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہا سے جب شادی کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 25 برس تھی ۔ آپ رضی اللہ عنہا کے سابقہ خاوند ابوہالہ بن النباش بن زرارہ التمیمی تھے جو کہ بنی عبدالدار کے حلیف تھے۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے رسالت سے نوازا تو آپ سب سےپہلے ایمان لائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت فرمائی، اور ایک سچی وزیر کی ذمہ داری نبھائی۔ آپ رضی اللہ عنہا ان کامل خواتین میں سے تھیں جو عقل مند، جلیل القدر، دین دار، شرافت وکرامت میں مثالی اور جنتی خاتون تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ رضی اللہ عنہا کی بےحد تعریف فرماتے اور اپنی تمام بیویوں پر انہیں فضیلت دیتے اور بہت تعظیم فرماتےتھے۔ یہاں تک کہ نہ آپ رضی اللہ عنہا سے پہلے کسی سے شادی فرمائی اورنہ آپ رضی اللہ عنہا کے ہوتے ہوئے کسی دوسری عورت سے شادی فرمائی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد انہیں سے ہوئیں، سوائے ابراہیم رضی اللہ عنہ کے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لونڈی سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہا کی وفات ہجرت سے تین برس قبل یعنی نبوت کے دسویں سال ہوئی اور کچھ ہی دنوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کی بھی وفات ہوئی۔ بعض متأخرین نے یہ بات بیان کی ہے کہ اس وجہ سے اس سال کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’عام الحزن‘‘ (غم کا سال) قرار دیا، حالانکہ محققین علماء کرام رحمہم اللہ کے نزدیک یہ بات ثابت نہیں۔ اللہ اعلم
ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے فضائل اور مرتبے سے متعلق احادیث مبارکہ
1- سیدناعفیف بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
میں ایک تاجر شخص تھا اور جاہلیت میں میں سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کا دوست ہوا کرتا تھا۔ میں ایک بار تجارت کی غرض سے آیا اور سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے پاس منیٰ کے مقام پر ٹھہرا۔ تو ایک شخص آیا اور اس نے سورج کو زوال ہوتے دیکھا پھر کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگا، پھر ایک عورت آئی اور کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگی، پھر ایک لڑکا آیا جونوجوانی کے قریب تھا اس نے بھی کھڑے ہوکر نماز پڑھی۔ میں نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے کہا یہ کون ہیں؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’هَذَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ابْنِ أَخِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، وَلَمْ يُتَابِعْهُ عَلَى أَمْرِهِ غَيْرُ هَذِهِ الْمَرْأَةِ وَهَذَا الْغُلامُ، وَهَذِهِ الْمَرْأَةُ خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ امْرَأَتُهُ، وَهَذَا الْغُلامُ ابْنُ عَمِّهِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ‘‘([1])
(یہ محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہے میرا بھتیجا، اس کا دعویٰ ہے کہ یہ یقیناً نبی ہے، لیکن اس کی یہ بات کوئی نہيں مانتا سوائے اس عورت اور اس لڑکے کے، اور یہ عورت خدیجہ بنت خویلدہے اس کی بیوی، اور یہ لڑکا اس کا چچازاد بھائی ہےعلی بن ابی طالب)۔
خود سیدنا عفیف الکندی رضی اللہ عنہ کہتےہیں: وہ تو اسلام لے آئے اور بحسن خوبی اسے نبھایا۔ اور میں حسرت کرتا ہوں کہ کاش میں بھی اگر اس وقت مسلمان ہوچکا ہوتا تو ایک چوتھائی اسلام حاصل کرلیتا(یعنی آپ دیر سے ایمان لائے)۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری 7/137 میں فرماتےہیں کہ :
آپ رضی اللہ عنہا اپنی اس فضیلت کی بنا پر امت کی تمام عورتوں پر فائق ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہا سب سے پہلے خواتین میں سے ایمان لائیں جیسے مردوں میں سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایمان لائے اور حدیث کے مطابق جو خیر کا کام شروع کرتا ہے پھر جو بھی اس کے بعد اس کی اس میں پیروی کرتا ہے ان سب کا اجر انہیں بھی ملتا ہے، لہذا سیدنا ابوبکر وخدیجہ رضی اللہ عنہما کا بے پناہ اجروثواب سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا۔
2- سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
ام المؤمنین سیدہ #خدیجہ بنت خویلدرضی اللہ عنہا کا مرتبہ اور فضائل
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/khadeejah_bint_khuwaylid_martaba_fazail.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ ام المؤمنین خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزی بن قصی ہیں ، آپ کا نسب چوتھی پڑی قصی بن کلاب میں جاکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے۔ آپ تمام امہات المؤمنین میں نسب کے اعتبار سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریب تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہا کے علاوہ قصی کی ذریت میں سے کسی سے شادی نہيں فرمائی سوائے سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے۔ آپ رضی اللہ عنہا نسب کے اعتبار سے قریش میں اوسط، شرف میں اعظم اور مال میں اکثر تھیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہا سے جب شادی کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 25 برس تھی ۔ آپ رضی اللہ عنہا کے سابقہ خاوند ابوہالہ بن النباش بن زرارہ التمیمی تھے جو کہ بنی عبدالدار کے حلیف تھے۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے رسالت سے نوازا تو آپ سب سےپہلے ایمان لائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت فرمائی، اور ایک سچی وزیر کی ذمہ داری نبھائی۔ آپ رضی اللہ عنہا ان کامل خواتین میں سے تھیں جو عقل مند، جلیل القدر، دین دار، شرافت وکرامت میں مثالی اور جنتی خاتون تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ رضی اللہ عنہا کی بےحد تعریف فرماتے اور اپنی تمام بیویوں پر انہیں فضیلت دیتے اور بہت تعظیم فرماتےتھے۔ یہاں تک کہ نہ آپ رضی اللہ عنہا سے پہلے کسی سے شادی فرمائی اورنہ آپ رضی اللہ عنہا کے ہوتے ہوئے کسی دوسری عورت سے شادی فرمائی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد انہیں سے ہوئیں، سوائے ابراہیم رضی اللہ عنہ کے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لونڈی سیدہ ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہا کی وفات ہجرت سے تین برس قبل یعنی نبوت کے دسویں سال ہوئی اور کچھ ہی دنوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کی بھی وفات ہوئی۔ بعض متأخرین نے یہ بات بیان کی ہے کہ اس وجہ سے اس سال کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’عام الحزن‘‘ (غم کا سال) قرار دیا، حالانکہ محققین علماء کرام رحمہم اللہ کے نزدیک یہ بات ثابت نہیں۔ اللہ اعلم
ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے فضائل اور مرتبے سے متعلق احادیث مبارکہ
1- سیدناعفیف بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
میں ایک تاجر شخص تھا اور جاہلیت میں میں سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کا دوست ہوا کرتا تھا۔ میں ایک بار تجارت کی غرض سے آیا اور سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے پاس منیٰ کے مقام پر ٹھہرا۔ تو ایک شخص آیا اور اس نے سورج کو زوال ہوتے دیکھا پھر کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگا، پھر ایک عورت آئی اور کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگی، پھر ایک لڑکا آیا جونوجوانی کے قریب تھا اس نے بھی کھڑے ہوکر نماز پڑھی۔ میں نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے کہا یہ کون ہیں؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’هَذَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ابْنِ أَخِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، وَلَمْ يُتَابِعْهُ عَلَى أَمْرِهِ غَيْرُ هَذِهِ الْمَرْأَةِ وَهَذَا الْغُلامُ، وَهَذِهِ الْمَرْأَةُ خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ امْرَأَتُهُ، وَهَذَا الْغُلامُ ابْنُ عَمِّهِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ‘‘([1])
(یہ محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہے میرا بھتیجا، اس کا دعویٰ ہے کہ یہ یقیناً نبی ہے، لیکن اس کی یہ بات کوئی نہيں مانتا سوائے اس عورت اور اس لڑکے کے، اور یہ عورت خدیجہ بنت خویلدہے اس کی بیوی، اور یہ لڑکا اس کا چچازاد بھائی ہےعلی بن ابی طالب)۔
خود سیدنا عفیف الکندی رضی اللہ عنہ کہتےہیں: وہ تو اسلام لے آئے اور بحسن خوبی اسے نبھایا۔ اور میں حسرت کرتا ہوں کہ کاش میں بھی اگر اس وقت مسلمان ہوچکا ہوتا تو ایک چوتھائی اسلام حاصل کرلیتا(یعنی آپ دیر سے ایمان لائے)۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری 7/137 میں فرماتےہیں کہ :
آپ رضی اللہ عنہا اپنی اس فضیلت کی بنا پر امت کی تمام عورتوں پر فائق ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہا سب سے پہلے خواتین میں سے ایمان لائیں جیسے مردوں میں سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایمان لائے اور حدیث کے مطابق جو خیر کا کام شروع کرتا ہے پھر جو بھی اس کے بعد اس کی اس میں پیروی کرتا ہے ان سب کا اجر انہیں بھی ملتا ہے، لہذا سیدنا ابوبکر وخدیجہ رضی اللہ عنہما کا بے پناہ اجروثواب سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا۔
2- سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’لَمْ يَتَزَوَّجْ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم عَلَى خَدِيجَةَ حَتَّى مَاتَتْ‘‘([2])
(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے اوپر دوسری شادی نہیں کی یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہا وفات پاگئیں)۔
3- صحیح بخاری میں امام بخاری رحمہ اللہ باب قائم کرتے ہیں: ’’بَابُ تَزْوِيجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَدِيجَةَ، وَفَضْلُهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا‘‘ (باب: خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی اور ان کی فضیلت کا بیان)۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا:
’’خَيْرُ نِسَائِهَا مَرْيَمُ، وَخَيْرُ نِسَائِهَا خَدِيجَةُ‘‘([3])
((اپنے زمانے میں) مریم علیہاالسلام سب سے افضل عورت تھیں اور (اس امت میں) خدیجہ رضی اللہ عنہا سب سے افضل ہیں)۔
4- سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
’’مَا غِرْتُ عَلَى امْرَأَةٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا غِرْتُ عَلَى خَدِيجَةَ هَلَكَتْ قَبْلَ أَنْ يَتَزَوَّجَنِي لِمَا كُنْتُ أَسْمَعُهُ يَذْكُرُهَا وَأَمَرَهُ اللَّهُ أَنْ يُبَشِّرَهَا بِبَيْتٍ مِنْ قَصَبٍ، وَإِنْ كَانَ لَيَذْبَحُ الشَّاةَ فَيُهْدِي فِي خَلَائِلِهَا مِنْهَا مَا يَسَعُهُنَّ‘‘([4])
(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی کے معاملہ میں، میں نے اتنی غیرت نہیں محسوس کی جتنی غیرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے معاملہ میں محسوس کرتی تھی (دوسری روایت میں ہے حالانکہ میں نے انہیں دیکھا نہیں) وہ میرے نکاح سے پہلے ہی وفات پا چکی تھیں (دوسری روایت میں ہے کہ ان کی وفات کے تین سال بعد مجھ سے نکاح فرمایا) لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے میں ان کا ذکر سنتی رہتی تھی۔ اور اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا تھا کہ انہیں (جنت میں) موتی کے محل کی خوشخبری سنا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر کبھی بکری ذبح کرتے تو ان سے میل محبت رکھنے والی خواتین کو اس میں سے اتنا ہدیہ بھیجتے جو ان کے لیے کافی ہو جاتا)۔ [یہ عورت کی اپنی سوکن سے وہ فطری غیرت ہے جس پر ملامت نہیں، جیساکہ ان احادیث کی تشریح میں سلف صالحین کا کلام پڑھا جاسکتا ہے]۔
دوسری روایت میں ہے کہ:
’’فَرُبَّمَا، قُلْتُ: لَهُ كَأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ فِي الدُّنْيَا امْرَأَةٌ إِلَّا خَدِيجَةُ، فَيَقُولُ: إِنَّهَا كَانَتْ وَكَانَتْ وَكَانَ لِي مِنْهَا وَلَدٌ‘‘([5])
(میں کبھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ دیتی جیسے دنیا میں خدیجہ رضی اللہ عنہا کے سوا کوئی عورت ہے ہی نہیں! اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ وہ ایسی تھیں اور ایسی تھیں اور ان سے میرے اولاد ہے)۔
5- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا:
’’يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ خَدِيجَةُ قَدْ أَتَتْ مَعَهَا إِنَاءٌ فِيهِ إِدَامٌ أَوْ طَعَامٌ أَوْ شَرَابٌ، فَإِذَا هِيَ أَتَتْكَ فَاقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلَامَ مِنْ رَبِّهَا وَمِنِّي، وَبَشِّرْهَا بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ لَا صَخَبَ فِيهِ وَلَا نَصَبَ‘‘([6])
(یا رسول اللہ! خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس ایک برتن لیے آ رہی ہیں جس میں سالن یا (فرمایا) کھانا یا (فرمایا) پینے کی چیز ہے جب وہ آپ کے پاس آئیں تو ان کے رب کی جانب سے انہیں سلام پہنچا دیجیے گا اور میری طرف سے بھی! اور انہیں جنت میں موتیوں کے ایک محل کی بشارت دے دیجیے گا جہاں نہ شور و ہنگامہ ہو گا اور نہ تکلیف و تھکن ہو گی)۔
6- سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہالہ بنت خویلد نے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدیجہ رضی اللہ عنہا کی اجازت لینے کی ادا یاد آ گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چونک اٹھے اور فرمایا: اللہ! یہ تو ہالہ ہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مجھے اس پر بڑی غیرت آئی، میں نے کہا:
’’مَا تَذْكُرُ مِنْ عَجُوزٍ مِنْ عَجَائِزِ قُرَيْشٍ حَمْرَاءِ الشِّدْقَيْنِ هَلَكَتْ فِي الدَّهْرِ قَدْ أَبْدَلَكَ اللَّهُ خَيْرًا مِنْهَا‘‘([7])
(آپ قریش کی کس بوڑھی کا ذکر کیا کرتے ہیں جس کے مسوڑوں پر بھی دانتوں کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے (صرف سرخی باقی رہ گئی تھی) اور جسے مرے ہوئے بھی ایک زمانہ گزر چکا ہے، یقیناً اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلمکو اس سے بہتر بیوی دے دی ہے)۔
جبکہ مسند احمد کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر جواب دیا کہ:
(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے اوپر دوسری شادی نہیں کی یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہا وفات پاگئیں)۔
3- صحیح بخاری میں امام بخاری رحمہ اللہ باب قائم کرتے ہیں: ’’بَابُ تَزْوِيجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَدِيجَةَ، وَفَضْلُهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا‘‘ (باب: خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی اور ان کی فضیلت کا بیان)۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا:
’’خَيْرُ نِسَائِهَا مَرْيَمُ، وَخَيْرُ نِسَائِهَا خَدِيجَةُ‘‘([3])
((اپنے زمانے میں) مریم علیہاالسلام سب سے افضل عورت تھیں اور (اس امت میں) خدیجہ رضی اللہ عنہا سب سے افضل ہیں)۔
4- سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
’’مَا غِرْتُ عَلَى امْرَأَةٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا غِرْتُ عَلَى خَدِيجَةَ هَلَكَتْ قَبْلَ أَنْ يَتَزَوَّجَنِي لِمَا كُنْتُ أَسْمَعُهُ يَذْكُرُهَا وَأَمَرَهُ اللَّهُ أَنْ يُبَشِّرَهَا بِبَيْتٍ مِنْ قَصَبٍ، وَإِنْ كَانَ لَيَذْبَحُ الشَّاةَ فَيُهْدِي فِي خَلَائِلِهَا مِنْهَا مَا يَسَعُهُنَّ‘‘([4])
(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی کے معاملہ میں، میں نے اتنی غیرت نہیں محسوس کی جتنی غیرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے معاملہ میں محسوس کرتی تھی (دوسری روایت میں ہے حالانکہ میں نے انہیں دیکھا نہیں) وہ میرے نکاح سے پہلے ہی وفات پا چکی تھیں (دوسری روایت میں ہے کہ ان کی وفات کے تین سال بعد مجھ سے نکاح فرمایا) لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے میں ان کا ذکر سنتی رہتی تھی۔ اور اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا تھا کہ انہیں (جنت میں) موتی کے محل کی خوشخبری سنا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر کبھی بکری ذبح کرتے تو ان سے میل محبت رکھنے والی خواتین کو اس میں سے اتنا ہدیہ بھیجتے جو ان کے لیے کافی ہو جاتا)۔ [یہ عورت کی اپنی سوکن سے وہ فطری غیرت ہے جس پر ملامت نہیں، جیساکہ ان احادیث کی تشریح میں سلف صالحین کا کلام پڑھا جاسکتا ہے]۔
دوسری روایت میں ہے کہ:
’’فَرُبَّمَا، قُلْتُ: لَهُ كَأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ فِي الدُّنْيَا امْرَأَةٌ إِلَّا خَدِيجَةُ، فَيَقُولُ: إِنَّهَا كَانَتْ وَكَانَتْ وَكَانَ لِي مِنْهَا وَلَدٌ‘‘([5])
(میں کبھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ دیتی جیسے دنیا میں خدیجہ رضی اللہ عنہا کے سوا کوئی عورت ہے ہی نہیں! اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ وہ ایسی تھیں اور ایسی تھیں اور ان سے میرے اولاد ہے)۔
5- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا:
’’يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ خَدِيجَةُ قَدْ أَتَتْ مَعَهَا إِنَاءٌ فِيهِ إِدَامٌ أَوْ طَعَامٌ أَوْ شَرَابٌ، فَإِذَا هِيَ أَتَتْكَ فَاقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلَامَ مِنْ رَبِّهَا وَمِنِّي، وَبَشِّرْهَا بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ لَا صَخَبَ فِيهِ وَلَا نَصَبَ‘‘([6])
(یا رسول اللہ! خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس ایک برتن لیے آ رہی ہیں جس میں سالن یا (فرمایا) کھانا یا (فرمایا) پینے کی چیز ہے جب وہ آپ کے پاس آئیں تو ان کے رب کی جانب سے انہیں سلام پہنچا دیجیے گا اور میری طرف سے بھی! اور انہیں جنت میں موتیوں کے ایک محل کی بشارت دے دیجیے گا جہاں نہ شور و ہنگامہ ہو گا اور نہ تکلیف و تھکن ہو گی)۔
6- سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن ہالہ بنت خویلد نے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدیجہ رضی اللہ عنہا کی اجازت لینے کی ادا یاد آ گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چونک اٹھے اور فرمایا: اللہ! یہ تو ہالہ ہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مجھے اس پر بڑی غیرت آئی، میں نے کہا:
’’مَا تَذْكُرُ مِنْ عَجُوزٍ مِنْ عَجَائِزِ قُرَيْشٍ حَمْرَاءِ الشِّدْقَيْنِ هَلَكَتْ فِي الدَّهْرِ قَدْ أَبْدَلَكَ اللَّهُ خَيْرًا مِنْهَا‘‘([7])
(آپ قریش کی کس بوڑھی کا ذکر کیا کرتے ہیں جس کے مسوڑوں پر بھی دانتوں کے ٹوٹ جانے کی وجہ سے (صرف سرخی باقی رہ گئی تھی) اور جسے مرے ہوئے بھی ایک زمانہ گزر چکا ہے، یقیناً اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلمکو اس سے بہتر بیوی دے دی ہے)۔
جبکہ مسند احمد کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر جواب دیا کہ:
’’مَا أَبْدَلَنِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ خَيْرًا مِنْهَا قَدْ آمَنَتْ بِي إِذْ كَفَرَ بِي النَّاسُ وَصَدَّقَتْنِي إِذْ كَذَّبَنِي النَّاسُ وَوَاسَتْنِي بِمَالِهَا إِذْ حَرَمَنِي النَّاسُ وَرَزَقَنِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَدَهَا إِذْ حَرَمَنِي أَوْلَادَ النِّسَاءِ‘‘([8])
(اللہ نے مجھے اس کے بدلے میں اس سے بہتر کوئی بیوی نہیں دی، وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب لوگ کفر کررہے تھے، میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ میری تکذیب کررہے تھے، اپنے مال سے میری ہمدردی اس وقت کی جب کہ لوگوں نے مجھے اس سے محروم رکھا ،اور اللہ تعالی نے مجھے ان سے اولاد عطا فرمائی جب کہ میں دوسری بیویوں میں سے اولاد ہونے سے محروم رہا)۔
انہی کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید غصہ آیا اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:
’’فَتَمَعَّرَ وَجْهُهُ تَمَعُّرًا مَا كُنْتُ أَرَاهُ إِلَّا عِنْدَ نُزُولِ الْوَحْيِ، أَوْ عِنْدَ الْمَخِيلَةِ حَتَّى يَنْظُرَ أَرَحْمَةٌ أَمْ عَذَابٌ‘‘([9])
(نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ اس طرح سرخ ہو گیا جس طرح صرف نزول وحی کے وقت ہوتا تھا، یا بادل چھا جانے کے وقت جس میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دیکھتے تھے کہ یہ باعث رحمت ہے یا باعث عذاب)۔
7- ایک روایت میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے غیرت دکھانے کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنِّي قَدْ رُزِقْتُ حُبَّهَا‘‘([10])
(بے شک مجھے ان کی محبت عطاء کی گئی ہے)۔
امام نووی رحمہ اللہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں:
اس میں اشارہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا کی محبت ایک فضیلت ہے جو حاصل ہوچکی ہے۔
[1] مستدرک امام حاکم ، کتاب معرفۃ الصحابۃ 3/183 اور کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن شیخین اسے نہیں لائے، اور ذہبی نے ان کی موافقت فرمائی۔
[2] صحیح مسلم 2439۔
[3] صحیح بخاری 3815۔
[4] صحیح بخاری 3816۔
[5] صحیح بخاری 3818۔
[6] صحیح بخاری 3820۔
[7] صحیح بخاری 3821۔
[8] مسند احمد 24341۔
[9] مسند احمد 24644۔
[10] صحیح مسلم 2437۔
8- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’حَسْبُكَ مِنْ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ: مَرْيَمُ ابْنَةُ عِمْرَانَ، وَخَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ، وَفَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ، وَآسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ‘‘([1])
(دنیا کی عورتوں میں (کمالِ فضیلت وولایت کے اعتبار سے) تجھے چار ہی کافی ہیں: سیدہ مریم بنت عمران ، خدیجہ بنت خویلد ، فاطمہ بنت محمد اور فرعون کی بیوی آسیہ رضی اللہ عنہن)۔
9- سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمین پر چار لکیریں کھینچیں اور فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ کیا ہیں؟ تو لوگوں نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’أَفْضَلُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ، وَفَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ، وَمَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ، وَآسِيَةُ بِنْتُ مُزَاحِمٍ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ‘‘([2])
(اہل جنت کی عورتوں میں سب سے افضل عورتیں (چار ہوں گی) :
1- خدیجہ بنت خویلد، 2- فاطمہ بنت محمد ، 3- مریم بنت عمران ، 4- آسیہ بنت مزاحم ، جو فرعون کی بیوی تھیں رضی اللہ عنہن)۔
[1] صحیح ترمذی 3878۔
[2] مسند احمد 2896، السلسلة الصحيحة 1508۔
(اللہ نے مجھے اس کے بدلے میں اس سے بہتر کوئی بیوی نہیں دی، وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب لوگ کفر کررہے تھے، میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ میری تکذیب کررہے تھے، اپنے مال سے میری ہمدردی اس وقت کی جب کہ لوگوں نے مجھے اس سے محروم رکھا ،اور اللہ تعالی نے مجھے ان سے اولاد عطا فرمائی جب کہ میں دوسری بیویوں میں سے اولاد ہونے سے محروم رہا)۔
انہی کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید غصہ آیا اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:
’’فَتَمَعَّرَ وَجْهُهُ تَمَعُّرًا مَا كُنْتُ أَرَاهُ إِلَّا عِنْدَ نُزُولِ الْوَحْيِ، أَوْ عِنْدَ الْمَخِيلَةِ حَتَّى يَنْظُرَ أَرَحْمَةٌ أَمْ عَذَابٌ‘‘([9])
(نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ اس طرح سرخ ہو گیا جس طرح صرف نزول وحی کے وقت ہوتا تھا، یا بادل چھا جانے کے وقت جس میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دیکھتے تھے کہ یہ باعث رحمت ہے یا باعث عذاب)۔
7- ایک روایت میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے غیرت دکھانے کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنِّي قَدْ رُزِقْتُ حُبَّهَا‘‘([10])
(بے شک مجھے ان کی محبت عطاء کی گئی ہے)۔
امام نووی رحمہ اللہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں:
اس میں اشارہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا کی محبت ایک فضیلت ہے جو حاصل ہوچکی ہے۔
[1] مستدرک امام حاکم ، کتاب معرفۃ الصحابۃ 3/183 اور کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن شیخین اسے نہیں لائے، اور ذہبی نے ان کی موافقت فرمائی۔
[2] صحیح مسلم 2439۔
[3] صحیح بخاری 3815۔
[4] صحیح بخاری 3816۔
[5] صحیح بخاری 3818۔
[6] صحیح بخاری 3820۔
[7] صحیح بخاری 3821۔
[8] مسند احمد 24341۔
[9] مسند احمد 24644۔
[10] صحیح مسلم 2437۔
8- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’حَسْبُكَ مِنْ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ: مَرْيَمُ ابْنَةُ عِمْرَانَ، وَخَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ، وَفَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ، وَآسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ‘‘([1])
(دنیا کی عورتوں میں (کمالِ فضیلت وولایت کے اعتبار سے) تجھے چار ہی کافی ہیں: سیدہ مریم بنت عمران ، خدیجہ بنت خویلد ، فاطمہ بنت محمد اور فرعون کی بیوی آسیہ رضی اللہ عنہن)۔
9- سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زمین پر چار لکیریں کھینچیں اور فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ کیا ہیں؟ تو لوگوں نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’أَفْضَلُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ، وَفَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ، وَمَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ، وَآسِيَةُ بِنْتُ مُزَاحِمٍ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ‘‘([2])
(اہل جنت کی عورتوں میں سب سے افضل عورتیں (چار ہوں گی) :
1- خدیجہ بنت خویلد، 2- فاطمہ بنت محمد ، 3- مریم بنت عمران ، 4- آسیہ بنت مزاحم ، جو فرعون کی بیوی تھیں رضی اللہ عنہن)۔
[1] صحیح ترمذی 3878۔
[2] مسند احمد 2896، السلسلة الصحيحة 1508۔
[#SalafiUrduDawah Article] In Defense of Umm-ul-Mo'mineen #Aaeshah RadiAllaho Anhaa – #Fatwaa_Committee, Saudi Arabia
دفاعِ ام المؤمنین سیدہ #عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الرئاسۃ العامۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ کی آفیشل ویب سائٹ سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور دریافت کیا کہ:
’’أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْكَ ؟ قَالَ: عَائِشَةُ، فَقُلْتُ: مِنَ الرِّجَالِ، فَقَالَ: أَبُوهَا ‘‘([1])
(لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب شخصیت آپ کے نزدیک کونسی ہے؟ فرمایا: عائشہ رضی اللہ عنہا، پھر دریافت کیا کہ مردوں میں سے، فرمایا: ان کے والد (یعنی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ))۔
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
[1] صحیح بخاری 3662، صحیح مسلم 2387۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/difa_e_umm_ul_momineen_ayesha.pdf
دفاعِ ام المؤمنین سیدہ #عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الرئاسۃ العامۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ کی آفیشل ویب سائٹ سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور دریافت کیا کہ:
’’أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْكَ ؟ قَالَ: عَائِشَةُ، فَقُلْتُ: مِنَ الرِّجَالِ، فَقَالَ: أَبُوهَا ‘‘([1])
(لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب شخصیت آپ کے نزدیک کونسی ہے؟ فرمایا: عائشہ رضی اللہ عنہا، پھر دریافت کیا کہ مردوں میں سے، فرمایا: ان کے والد (یعنی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ))۔
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
[1] صحیح بخاری 3662، صحیح مسلم 2387۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/difa_e_umm_ul_momineen_ayesha.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] The status of #Fatimah bint Rasoolillaah (radiAllaaho anha) and her excellence – tawheedekhaalis.com
سیدہ #فاطمہ بنت رسول اللہ رضی اللہ عنہا کا مرتبہ اور فضائل
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا کہ آپ تمام مومن عورتوں کی سردار وسیدہ ہیں اور جنتی خواتین کی بھی سردار ہیں۔
(صحیح بخاری 3824، 6285، صحیح مسلم 2452، ، صحیح ترمذی 3781)۔
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/fatimah_bint_rasoolillaah_martaba_fazail.pdf
سیدہ #فاطمہ بنت رسول اللہ رضی اللہ عنہا کا مرتبہ اور فضائل
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا کہ آپ تمام مومن عورتوں کی سردار وسیدہ ہیں اور جنتی خواتین کی بھی سردار ہیں۔
(صحیح بخاری 3824، 6285، صحیح مسلم 2452، ، صحیح ترمذی 3781)۔
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/fatimah_bint_rasoolillaah_martaba_fazail.pdf