Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.17K subscribers
2.48K photos
52 videos
211 files
4.92K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
فتنوں کی گمراہیاں اور شیطان کے وساوس سے محفوظ فرمائے۔ بے شک وہ ہی سوال کئے جانے والوں میں سے سب سے بہتر ہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
(مجموع فتاوی سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ 8/246)
[1] مکمل حدیث یہ ہے ابو نعیم نے الحلیۃ (1/40)میں بیان کیا کہ: ’’أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج بعد إسلام عمر – رضي الله عنه – على رأس صفين من أصحابه، وعلى الأول منهما عمر – رضي الله عنه -، وعلى الثاني حمزة – رضي الله عنه – رغبة في إظهار قوة المسلمين، فعلمت قريش أن لهم منعة‘‘ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے بعد اپنے صحابہ کی دوصفوں کی قیادت کرتے ہوئے نکلے پہلی صف کی سربراہی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کررہے تھے جبکہ دوسری کی سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کررہے تھے تاکہ مسلمانوں کی قوت وشوکت کو ظاہر کریں، پس قریش پر ان کی قوت وشوکت کی دھاک بیٹھ گئی کہ اب ہمیں دست درازی اور ایذاء رسانی سے روکنے والے آگئے ہیں)۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[#SalafiUrduDawah Article] #Demonstrations #against_government is not from the #Salafee_Manhaj – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#حکومت_مخالف #مظاہرات #سلفی_طریقہ نہیں
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الجواب الابھر لفؤاد سراج، ص 75۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/demonstrations_salafi_manhaj_nahi.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا مظاہرات بھی شرعی وسائل دعوت میں شمار ہوسکتے ہیں؟
جواب: الحمدللہ رب العالمین وصلی اللہ علی سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم ومن تبعھم باحسان الی یوم الدین، اما بعد:
مظاہرات بلاشبہ ایک نوایجاد امور میں سے ہے،جو کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا عہد خلفائے راشدین یا پھر صحابہ کرام y کے کسی بھی عہد میں معروف نہ تھے۔اس پر مستزاد یہ کہ اس میں جو افراتفری اور دنگا فساد ہوتا ہے وہ بھی اس طریقے کو ممنوع قرار دینے پر دلالت کرتا ہے۔ جیسے اس میں شیشے اور دروازےوغیرہ توڑے جاتے ہیں، اور اس میں مردوزن، نوجوانوں اور بوڑھوں کا اختلاط ہوتا ہے اور اس جیسے دیگر مفاسد ومنکرات پائے جاتے ہیں۔ اب جہاں تک مسئلہ ہے حکومت پر دباؤ ڈالنے کا : اگر تو وہ حکومت مسلمان ہے تو اس کے لئے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ e ہی کافی ووافی واعظ ہے۔ یہ تو وہ بہترین چیز ہے کہ جو ایک مسلمان پر پیش کی جاسکتی ہے۔
لیکن اگر وہ حکومت کافر ہے تو اسے ان مظاہرین کی چنداں پرواہ نہیں اورہوسکتا ہے انہیں محض ٹالنے کے لئے بظاہر رضامندی کا اظہار کردے اور دل میں وہ جس شر پر قائم تھا اسی پر قائم رہے۔یہی وجوہات ہیں کہ جس کی بنا پر ہم ان مظاہرات کو منکرات میں شمار کرتے ہیں۔ البتہ ان لوگوں کا یہ دعویٰ کہ یہ مظاہرے پر امن ہوتے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے یہ مظاہرات ابتداء میں پرامن شروع ہوتے ہوں لیکن آخرکار تخریب کاری پر ہی منتج ہوتے ہیں (جیسا کہ امر واقع اس پر شاہد ہے)۔ آخر میں میری نوجوانوں کو نصیحت ہے کہ وہ سلف کے طریقے کی پیروی کریں کیونکہ اللہ تعالی نے مہاجرین وانصار اور جو کوئی بھی بطورِ احسن ان کے نقش قدم پر چلے ان سب کی تعریف وتوصیف بیان کی ہے۔
[#SalafiUrduDawah Article] #Muslims are being killed everywhere and you people always speak on #Tawheed? - Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan

#مسلمان ہر جگہ مررہے ہيں اور آپ بس #توحید توحید کرتے رہتے ہیں؟

فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ

(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: دروس من القرآن الكريم (الدرس الأول، التوحيد فى القرآن الكريم)۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/musalman_mar_rahay_hain_aur_aap_tawheed_krte_rehte_hain.pdf

توحید کی اہمیت اور اس سے روگردانی کرنے کا انجام

کہنے والا کہہ سکتا ہے بلکہ کہا بھی جاتا ہے کہ آپ لوگوں کا کیا مسئلہ ہے جب دیکھو توحید کا اہتمام کرتے رہتے ہو اور اس پر بہت زیادہ کلام کرتے ہو؟! اور موجودہ دور میں جو مسلمانوں کے مسائل ہيں ان پر توجہ نہيں دیتے، کہ وہ ہر طرف مارے جارہے ہيں اور بے گھر کیے جارہے ہیں، اور ہر طرف سے کفار ممالک ان کے درپے ہيں۔

اللہ کی توفیق سے ہم یہ جواب دیتے ہيں کہ:

توحید ہی وہ بنیاد ہے جس پر ملت حنیفیت قائم ہے، لہذا اس کا اہتمام کرنا دراصل اصل اصول، جڑ وبنیاد کا اہتمام کرنا ہے۔ اور اگر آپ قرآن کریم پر غور وتدبر کریں گے تو پائیں گے کہ بلاشبہ اس نے بہت کھول کھول کر مکمل طرح سے توحید کو بیان کیا ہے یہاں تک کہ قرآن کی سورتوں میں سے کوئی سورۃ بھی ایسی نہیں جس میں توحید کی بات نہ کی گئی ہو، اور اس کا بیان و وضاحت اور ساتھ ساتھ اس کی ضد (یعنی شرک) سے منع نہ کیا گیا ہو۔

امام ابن القیم رحمہ اللہ نے یہ بات مقرر فرمائی کہ:

"قرآن پورے کا پورا ہی توحید ہے، کیونکہ یا تو اس میں خبریں ہيں اللہ تعالی کے اسماء وصفات کے تعلق سے ، اور یہ توحید علمی ہے جو کہ توحید ربوبیت ہے، یا پھر ایک اللہ کی بلاشرکت عبادت کا حکم ہے اور شرک سے منع کیا گیا ہے، اور یہ توحید عملی وطلبی ہے جو کہ توحید الوہیت ہے، یا پھر اللہ تعالی کی اور اس کے رسو لﷺ کی اطاعت کا حکم ہے اور اللہ تعالی کی اور اس کے رسول ﷺ کی معصیت سے منع کیا گیا ہے ، اور یہ توحید کے حقوق اور اس کی تکمیل میں سے ہے۔

یا خبر ہے اس کی جو کچھ اللہ تعالی نے توحید پرستوں کے لیے دنیا وآخرت میں نعمتیں، فوز وفلاح، نجات ونصرت عطاء فرمائیں ہيں، یا پھر خبر ہے جو کچھ مشرکین کو عبرتناک انجام سے دنیا وآخرت میں شکار ہونا پڑا، یا پھر خبر ہے جو کچھ مشرکین کو اس دنیا میں عبرتناک انجام کا سامنا ہوا اور جو کچھ آخرت میں ان کے لیے دائمی وابدی، ہمیشہ ہمیش کا عذاب جہنم تیار ہے۔ یہ (خیر) اس کے لیے جو توحید کا حق ادا کرے اور (یہ عذاب) اس کے لیے جو توحید سے لاپرواہی برتے"([1])۔

چناچہ قرآن سارے کا سارا توحید کے گرد ہی گردش کرتا ہے۔ اورآپ اگر مکی سورتو ں پر غوروفکر کریں گے تو پائیں گے کہ ان میں غالباً توحید کا ہی ذکر ہوتا ہے۔ کیونکہ نبی اکرم ﷺ مکہ میں تیرہ برس رہے اور توحید کی جانب دعوت دیتے اور شرک سے روکتے رہے۔ زیادہ تر فرائض جیسے زکوٰۃ، روزے اور حج اور اس کے علاہ دیگر حلال وحرام کے امور، اور معاملات وغیرہ آپ ﷺ پر نازل نہیں ہوئے مگر مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد، سوائے نماز کے، وہ آپ ﷺ پر شب معراج میں فرض ہوئی کہ جب آپ ﷺ کو اسراء ومعراج ہوئی تھی([2])، لیکن یہ بھی ہجرت سے کچھ عرصہ قبل ہی ہوا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ مکی سورتیں جو نبی کریم ﷺ پر قبل از ہجرت نازل ہوئیں میں غالباً توحید کے مسائل پر ہی بات ہوتی ہے، جو اس کی اہمیت پر دلالت کرتی ہے۔ اور دیگر فرائض نازل نہيں ہوئے مگر توحید کے مقرر ہوجانے ،دلوں میں راسخ ہوجانے اور صحیح عقیدے کے ظاہر اور واضح ہوجانے کے بعد ہی، کیونکہ اعمال بغیر توحید کے صحیح نہیں ہوسکتے، اور نہیں قائم ہوسکتے مگر توحید ہی کی بنیاد پر۔

قرآن نے یہ بات واضح کی ہے کہ جتنے بھی رسول علیہم الصلاۃ والسلام تھے انہوں نے اپنے دعوت میں تمام چیزوں سے پہلے توحیدہی سے شروع فرمایا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ﴾ (النحل: 36)

(اور بلاشبہ یقینا ًہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو)

اور فرمایا:

﴿وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ﴾ (الانبیاء: 25)

(اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہی وحی فرمائی کہ بےشک حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبودبرحق نہیں، سو میری ہی عبادت کرو)

اور ہر نبی اپنی قوم کو کہتا:

﴿يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ ﴾ (الاعراف: 59)

(اے میری قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود ہونے کے لائق نہیں)

یہ تھی رسولوں کی ذمہ داری، کہ سب سے پہلے توحید سے
ابتداء۔

اسی طرح سے جو ان رسولوں کی پیروی کرنے والے ہيں داعیان ومصلحین، وہ بھی سب سے پہلے توحید کااہتمام کرتے ہيں، کیونکہ جو بھی دعوت توحید پر قائم نہ ہو تو وہ شکست خوردہ دعوت ہے، اپنے اہداف حاصل نہيں کرسکتی، اور اس کا کوئی نتیجہ نہ ہوگا۔ ہر وہ دعوت جو توحید کی شان گھٹاتی ہے اس کا اہتمام نہیں کرتی، تو وہ اپنے نتیجے میں خسارہ ہی خسارہ پانے والی ہے۔ یہ بات تو جانی پہچانی ہے او ردیکھی بھی گئی ہے۔

او رہر دعوت جو توحید پر مرکوز ہو تو وہ باذن اللہ کامیاب ہوتی ہے، اپنا پھل دیتی ہے اور معاشرے کو فائدہ پہنچاتی ہے، جیسا کہ تاریخی واقعات میں بھی یہ بات معروف ہے۔

اور ہم مسلمانوں کے مسائل سے لاپرواہ نہيں ہیں بلکہ اس کا اہتمام کرتے ہيں، ان کی نصرت کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہيں اور ہر ذریعہ استعمال کرتےہیں کہ ان پر سے تکلیف دور ہو ، ہم پر یہ بات سہل وآسان نہیں کہ ہم مسلمانوں کو قتل ہوتے بے گھر ہوتے دیکھ سکیں، لیکن مسلمانوں کے مسائل کے اہتمام کرنےکا یہ معنی نہيں کہ ہم بس روتے اور رلاتے رہیں، اور پوری دنیا کو اپنی باتوں اور تحریروں سے بس بھر دیں، اور بس چیخنا چلانا ہو! کیونکہ یہ سب کرنے کا کوئی فائدہ نہيں ہے۔

مگر ہاں جو صحیح علاج ہے مسلمانوں کے مسائل کا، وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ہم ان اسباب کو تلاش کریں کہ جن کی وجہ سےان اذیتوں میں مسلمان مبتلا ہوئے ہيں، اور ان پر ان کے دشمن مسلط ہوگئے ہیں۔

دشمنوں کے مسلمانوں پر مسلط ہونے کا کیا سبب ہے؟

جب ہم عالم اسلامی پر نظر ڈالتے ہيں تو اکثر ان لوگوں میں جو اسلام کی طرف منسوب ہوتے ہيں اسلام سے تمسک (مضبوطی سے اس پرچلنا) نہيں پاتے، الا من رحم اللہ۔ وہ تو بس نام کے مسلمان ہیں، اکثر کے یہاں عقیدہ برباد ہے: غیراللہ کی عبادت کرتے ہیں، اولیاء وصالحین اور قبروں ومزاروں سے عقیدت و لَو لگاتے ہيں، نماز قائم نہيں کرتے، زکوٰۃ ادا نہیں کرتے، روزے نہیں رکھتے، اس چیز کو ادا نہيں کرتے جو اللہ تعالی نے ان پر واجب قرار دی ہے، انہی چیزوں میں سے کافروں کے خلاف جہاد کی قوت تیار کرنا بھی ہے!! یہ تو حال ہے بہت سے ان لوگوں کا جو اسلام کی طرف منسوب ہوتے ہیں، اپنا دین ضائع کردیا ہے پس اللہ تعالی نے بھی انہیں ضائع ہونے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔

اور سب سے اہم سبب جس کی وجہ سے ان پر یہ سزائیں مسلط ہیں توحید سے لاپرواہی برتنا ہے، اور شرک اکبر میں ملوث ہونا ہے، اس سے نہ روکنا اور اس پر نکیر نہ کرنا ہے! جو ان میں سے یہ (شرک) نہیں بھی کرتا تو بھی وہ اس کا انکار نہيں کرتا، بلکہ اسے شرک ہی شمار نہيں کرتا۔ جس کا بیان آگے اس کتاب میں ان شاء اللہ آئے گا([3])۔ پس یہ وہ اہم اسباب ہیں جس کی وجہ سے مسلمانوں پر یہ عقوبتیں اور سزائیں مسلط ہيں۔

اگر وہ اپنے دین سے سچا تمسک اختیار کرتے ، اپنی توحید اور اپنے عقیدے کو کتاب وسنت پر قائم کرتے، اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لیتے اور تفرقہ نہ کرتے، تو کبھی بھی ان حالات سے دوچار نہ ہوتے جس کا آج انہيں سامنا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿وَلَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ، اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ۭ وَلِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ) (الحج: 40-41)

(اور یقینا ًاللہ تعالی ضرور اس کی نصرت فرمائے گا جو اس کی مدد کرے گا، بےشک اللہ تعالی یقینا ًبہت قوت والا، سب پر غالب ہے۔وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ اداکریں گے،اور اچھے کام کا حکم دیں گے اور برے کام سے روکیں گے، اور تمام کاموں کا انجام اللہ تعالی ہی کے اختیار میں ہے)

پس یہاں واضح فرمادیا کہ مسلمانوں کو نصرت نہیں مل سکتی سوائے ان باتوں پر توجہ مرکوز کرنے سے جس کا اللہ تعالی نے ذکر فرمایا ہے، اور وہ ہیں: نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا۔

تو مسلمانوں کی موجودہ حالت میں یہ امور کہاں پائے جاتے ہیں؟ بہت سے اسلام کے دعویداروں میں نماز کہاں ہے؟!

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا﴾

(النور: 55)

(اللہ تعالی نے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اور صالح اعمال کیے، وعدہ فرمایا ہے کہ وہ انہیں زمین میں ضرور بالضرور خلافت واقتدار دے گا، جس طرح ان لوگوں کو خلافت واقتدار دیا تھا جو ان سے پہلے تھے، اور ان کے لیے ان کے اس دین کو ضرور بالضرور غلبہ دے گا جسے اس نے ان کے لیے پسند فرمایا ہے، اور ضرور بالضرور انہیں
ان کے خوف کے بعد بدل کرامن دے گا۔( لیکن اس وعدے کی شرط کہاں ہے؟) وہ میری ہی عبادت کریں گے، میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں گے)

پس واضح فرمادیا کہ یہ خلافت کے ملنےاور زمین پر غلبے کے ملنے کا وعدہ پورا نہیں ہوسکتا جب تک اس کی مذکورہ شرط کو پورا نہ کیا جائے اور وہ ہے اس اکیلے کی بلاشرکت عبادت، اور یہی توحید ہے۔ یہ خیر وبھلائی والے وعدے اس وقت تک حاصل نہيں ہوسکتے جب تک توحید کا حق ایک اللہ کی بلاشرکت عبادت کے ذریعے ادا نہ کیا جائے۔ اور اللہ کی عبادت میں نماز، روزہ، زکوٰۃ وحج اور تمام اطاعت پر مبنی کام داخل ہیں۔

اللہ تعالی نے صرف یہ نہیں فرمایا کہ میری عبادت کرو بلکہ اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ:

﴿لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا﴾

(میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں گے)

کیونکہ بلاشبہ عبادت شرک کی موجودگی میں کوئی نفع نہیں دیتی، بلکہ لازم ہے کہ شرک سے ضرور اجتناب ہو خواہ وہ کسی بھی قسم کا شرک ہو، کسی بھی شکل میں ہو، اس کا کوئی بھی نام ہو، اس کی تعریف بہرحال یہی ہے کہ:

"عبادت میں سے کسی چیز کا غیر اللہ کے لیے ادا کرنا"۔

یہ ہے نجات، سلامتی، نصرت اور زمین پر غلبے کا سبب۔ عقیدے کی اصلاح اور عمل کی اصلاح۔ اس کے سوا یہ تمام عقوبتیں، بحران اور عبرتناک انجام اسی پر مسلط ہوتا ہے جو ان چیزوں میں کوتاہی کا مرتکب ہوا ہے جسے اللہ تعالی نے بطور شرط قائم کرنےکا حکم دیا ہے، چناچہ اس بحران اوراس دشمنوں کے تسلط کا سبب یہی مسلمانوں کا محض اسلام کے نام پر اکتفاء کرکے بیٹھ جانا جبکہ اس شرط میں کوتاہی برتنا اور اپنے عقیدے ودین کے بارے میں تفریط کا شکار ہونا ہے۔



[1] دیکھیں: مدارج السالکین للامام ابن القیم رحمہ اللہ 3/468 کچھ ترمیم کے ساتھ۔



[2] جیسا کہ الاسراء سے متعلق متواتر حدیث میں ہے ، اور اس کی آحاد حدیث میں سے متفق علیہ حدیث بھی ہے جو انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے صحیح بخاری، کتاب التوحید، باب 37، رقم 7517، 13/583، ومسلم: کتاب الایمان، باب 74، رقم 162 میں۔



[3] اس کے ترجمے کے لیے ہمارا دوسرا مقالہ پڑھیں: "اہل کلام اور فلاسفہ کی توحید"۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding celebrating new #Hijree year – Various #Ulamaa
نیا #ہجری سال منانے کا شرعی حکم
مختلف #علماء کرام
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/new_hijri_saal_hukm.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ
فضیلۃ الشیخ نئے سال کی آمد آمد ہے اور بعض لوگ آپس میں مبارکبادیوں کا تبادلہ کررہے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ ’’كل عام وأنتم بخير‘‘ (آپ ہرسال یا صدا بخیر رہیں)، اس مبارکبادی کا شرعی حکم کیا ہے؟
جواب:بسم الله الرحمن الرحيم الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على عبده ورسوله، وخيرته من خلقه، وأمينه على وحيه، نبينا وإمامنا وسيدنا محمد بن عبد الله وعلى آله وأصحابه ومن سلك سبيله، واهتدى بهداه إلى يوم الدين. أما بعد:
نئے سال کی مبارکباد دینے کی ہم سلف صالحین سے کوئی اصل نہیں جانتے، اور نہ ہی سنت نبوی یا کتاب عزیز اس کی مشروعیت پر دلالت کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی آپ سے اس کی پہل کرے تو اس کے جواب میں خیرمبارک کہہ دینے میں کوئی حرج نہیں۔ اگرکوئی آپ سے کہے کہ ’’کل عام وأنت بخیر‘‘ یا ’’فی کل عام وأنت بخیر‘‘ کہے تو کوئی مانع نہیں کہ آپ بھی اسے ’’وأنت کذلک‘‘ (آپ بھی ہرسال بخیر رہیں) اور ہم اللہ تعالی سے ہر بھلائی کے اپنے اور آپ کے لئے دعاءگو ہیں یا اسی سے ملتا جلتا کوئی کلمہ کہہ دے۔ البتہ خود اس میں پہل کرنے کے بارے میں مجھے کوئی اصل بنیاد (دلیل) نہیں معلوم۔
(نور علی الدرب فتوی متن نمبر 10042 شیخ رحمہ اللہ کی آفیشل ویب سائٹ سے ماخوذ)
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ
کتاب ’’الضياء اللامع‘‘ ص 702 میں فرماتے ہیں:
یہ سنت میں سے نہیں کہ ہم نئے ہجری سال کی آمد پر عید منائیں یا مبارکبادیوں کا تبادلہ کریں۔
بعض دوسرے مواقع پر بھی شیخ رحمہ اللہ سے یہی سوال کیا گیا:
سوال: فضیلۃ الشیخ! آپ نے نئے سال کا ذکر فرمایا، ذرا یہ بھی بتادیجئے کہ نئے ہجری سال پر مبارکباد دینے کا کیا حکم ہے؟ اور مبارکباد دینے والوں سے کیسا سلوک کرنا واجب ہے؟
جواب: اگر کوئی آپ کو مبارکباد دے تو اس کا جواب دے دیجئے، لیکن خود کبھی پہل نہ کریں۔ یہی اس مسئلہ میں صواب مؤقف ہے۔ اگر کوئی شخص مثلاً آپ کو کہے، آپ کو نیا سال مبارک ہو تو آپ جواباً کہیں کہ آپ کو بھی مبارک ہو اور اللہ تعالی آپ کے اس سال کو خیر وبرکت والا بنادے۔ لیکن آپ خود سے اس کی ابتداء نہ کیجئے، کیونکہ مجھے سلف صالحین سے یہ بات نہیں ملی کہ وہ نئے سال پر ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہوں۔بلکہ یہ بات بھی معلوم ہونی چاہیے کہ سلف تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور سے قبل محرم الحرام کو نئے سال کا پہلا مہینہ ہی تصور نہیں کرتے تھے۔
(اللقاء الشھري: 44، سن 1417ھ کے آخر میں)
سوال: فضیلۃ الشیخ آپ کی کیا رائے ہے نئے ہجری سال کی مبارکبادیوں کے تبادلے کے بارے میں؟
جواب: میری رائے میں نئے سال کی مبارکباد دینے میں کوئی حرج نہیں البتہ یہ شریعت سے ثابت نہیں۔ یعنی ہم لوگوں سے یہ نہیں کہیں گے کہ آپ کے لئے یہ سنت ہے کہ نئے سال کی ایک دوسرے کو مبارکباد دیں، لیکن اگر کوئی ایسا کرلے تو کوئی حرج نہیں۔ اور چاہیے کہ جب کوئی نیا سال مبارک کہہ دے تو وہ اسے اچھا جواب دے یعنی اللہ تعالی آپ کے اس سال کو خیروبرکت والا بنادے۔ ہماری اس مسئلے میں یہی رائے ہے، اور یہ امورِ عادیہ (عام عادات) میں شمار ہوتے ہیں ناکہ امورِ تعبدیہ (عبادت) میں۔
(لقاء الباب المفتوح: 93، بروز جمعرات 25 ذی الحجۃ سن 1415ھ)
سوال: کیا نئے سال کی مبارکباد دینا جائز ہے؟
جواب: نئے سال کی مبارکباد دینے کی سلف صالحین سے کوئی اصل ثابت نہیں۔ اسی لئے آپ اس کی ابتداء نہ کریں، لیکن اگر کوئی آپ کو مبارکباد کہہ دے تو اس کا جواب دے دیجئے۔ کیونکہ فی زمانہ یہ بہت عام رواج ہوچکا ہے، اگرچہ اب اس میں کچھ کمی آرہی ہے الحمدللہ کیونکہ لوگوں کے پاس علم آنے لگا ہے، حالانکہ اس سے قبل تو نئے سال کی مبارکبادی والے کارڈوں
(new year greetings card) کا تبادلہ ہوا کرتا تھا۔
سائل: وہ کون سا صیغہ یا الفاظ ہیں کہ جس کے ساتھ لوگ نئے سال کی مبارکبادی دیتے ہیں؟
جواب: اگر وہ ایسے کہیں کہ نیا سال مبارک ہو، اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ آپ کے گزشتہ برس کے گناہوں سے درگزر فرمائے اور آئندہ برس میں آپ کی مدد فرمائے، یا اس جیسا کوئی کلمہ۔
سائل: کیا یہ کہا جائے ’’كل عام وأنتم بخير‘‘؟
جواب: نہیں ’’كل عام وأنتم بخير‘‘ نہیں کہنا چاہیے، نہ عیدالاضحی میں، نہ عیدالفطر میں اور نہ ہی اس موقع پر۔
(لقاء الباب المفتوح: 202 بروز جمعرات 6 محرم الحرام سن 1420ھ)
اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء
(دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات وفتوی نویسی، سعودی عرب)
نئے ہجری سال کی مبارکباد دینا جائز نہیں کیونکہ اس کی مبارکباد دینا غیرمشروع ہے۔
(فتوی نمبر 20795)
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الف
وزان حفظہ اللہ
سوال: اگر کوئی شخص کہے ’’کل عام وأنتم بخیر‘‘ (عرف عام میں: سال نو مبارک یا happy new year)، تو کیا ایسا کہنا مشروع (شرعاً جائز) ہے؟
جواب: نہیں یہ مشروع نہیں اور نہ ہی ایسا کہنا جائز ہے۔
(کتاب ’’الإجابات المهمة‘‘ ص 230)
#SalafiUrduDawah
نیا #ہجری سال منانے کا شرعی حکم
Naya #hijri saal mananay ka hukm
#SalafiUrduDawah
#علم کے ساتھ #فہم بھی ضروری ہے - شیخ محمد بن صالح #العثیمین
#Ilm k sath #fehm bhi zarori hai - shaykh muhammad bin saaleh #al_uthaimeen
[#SalafiUrduDawah Article] In the #end_of_a_year specially speaking about the #events that took place in that year in #Friday_sermon - Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan

#سال_کے_اختتام پر رواں سال ہونے والے #واقعات کا #خطبوں میں خصوصی ذکر کرنا

فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ

(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: الإجابات المهمة فى المشاكل الملمة، ص 195۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/saal_ikhtitam_waqiat_guzishta_saal_bayan.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال:بعض خطیب ہر ہجری سال کے اختتام پر اپنے خطبات جمعہ کو رواں سال کے واقعات ذکر کرنے اور جو کچھ اس میں خیر وشر وقوع پذیر ہوا بیان کرنے کے لیے مخصوص کردیتے ہيں ، ، بلکہ بعض مسلمان تو اسے باقاعدہ ایسا دن بنادیتے ہیں کہ ایک دوسرے کو مبارکبادیاں دیتے ہيں، پس کیا یہ عمل مشروع ہے؟

جواب: ہم اس کی کوئی اصل نہيں جانتے۔ اور جو ہجری تاریخ ہے اس سے یہ مقصود نہيں کہ سال کے آغاز کو کوئی تہوار، یادگار بنایا جائے اور اس کی باتیں ہوں، عید ہو، اور مبارکبادیں ہوں، بلکہ ہجری تاریخ تو محض مختلف عقد ومعاہدے وغیرہ کی تاریخوں میں تمیز کے لیے بنائی گئی تھی۔ جیسا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کیا کہ جب ان کے عہد میں خلافت میں کافی وسعت ہوگئی تھی، تو آپ کے پاس بِنا تاریخ کے تحریریں آتیں، لہذا انہیں اس کی ضرورت پڑی کہ وہ تاریخ مقرر کریں جن کے ذریعے ان خط وکتابت کی پہچان ہوسکے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا پس سب نے مشورہ دیا کہ ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم اپنے ہجری سال کی ابتداء مقرر کرتے ہیں۔

اور انہوں نے میلادی (عیسوی) تاریخ کو چھوڑ دیا، حالانکہ وہ اس وقت موجود تھی، لیکن انہوں نے ہجرت کو لیا اور اسے مسلمانوں کی تاریخ کی ابتداء بنائی تاکہ فقط مختلف خط وکتابت ودستاویزات کی معرفت ہوسکے، ناکہ اسے کوئی مانسبت وتہوار بنادیا جائے اور اس سے متعلق باتيں کی جائيں، یہ بات بڑھ کر بتدریج بدعت کی طرف چلے جائے گی۔
[#SalafiUrduDawah Article] Taking #accountability_of_oneself in these #fast_passing_days – Shaykh #Abdul_Azeez_Aal_Shaykh
ان #تیزی_سے_گزرتے_دنوں میں اپنے #نفس_کا_محاسبہ کرنا
فضیلۃ الشیخ #عبدالعزیز_آل_الشیخ حفظہ اللہ
(مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: كلمة توجيهية عن سرعة الأيام
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/teezi_guzarte_ayyam_nafs_muhasibah.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: امید کرتے ہيں کہ آپ حفظہ اللہ اس پروگرام کے آغاز میں ان تیزی سے گزرتے دنوں کے بارے میں ذکر کریں گے جبکہ ہم ابھی گزرے سال کو الوداع کہہ رہے ہيں اور نئے سال کا استقبال کررہے ہیں، اور اس میں کیا حکمت ہے ،ساتھ ہی ایک شخص کس طرح اپنے نفس کا محاسبہ کرسکتا ہے؟
جواب: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، اللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِكَ عَلَى عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِهِ وأصَحْابِهِ أَجْمَعِينَ، وَعَلَى مَنْ تَبِعَهُمْ بإحسانٍ إلَى يومِ الدِّينِ.
اللہ عزوجل نے ہمیں پیدا فرمایا، رزق دیا اور اپنی کتاب عزیز میں یہ خبر دی کہ وہ عنقریب تمام مخلوقات کو ایک ایسے دن میں جمع کرنے والا ہے جس میں کوئی شک نہيں:
﴿رَبَّنَآ اِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيْهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ﴾ (آل عمران: 9)
(اے ہمارے رب ! بےشک تو سب لوگوں کو اس دن کے لیے جمع کرنے والا ہے جس میں کوئی شک نہیں، بےشک اللہ وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا)
اور فرمایا:
﴿يَوْمَ تَاْتِيْ كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِهَا﴾ (النحل: 111)
(جس دن ہر شخص اس حال میں آئے گا کہ بس اپنی طرف سے جھگڑ رہا ہوگا)
اور اللہ تعالی نے ہمیں خبر دی کہ بلاشبہ یہ دنیا ختم ہونے والی ہے اور یہ حیات بھی ختم ہوجائے گی، فرمان باری تعالی ہے:
﴿وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ، كُلُّ نَفْسٍ ذَاىِٕقَةُ الْمَوْتِ ۭ وَنَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً ۭ وَاِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ﴾ (الانبیاء: 34-35)
(اور ہم نے آپ سے پہلے بھی کسی بشر کے لیے ہمیشگی نہیں رکھی، سو کیا اگر آپ مرجائیں تو یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں؟! ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور ہم تمہیں آزمانے کے لیے برائی اور بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں، اور تم ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے)
اور فرمایا:
﴿كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ، وَّيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ﴾ (الرحمن: 26-27)
(ہر ایک جو اس (زمین) پر ہے، فنا ہونے والا ہے، اور تیرے رب کا چہرہ (اور ذات) ہی باقی رہے گی، جو بڑی شان اور عزت والا ہے)
پس دنیا گزرنے کی جاہ ہے ناکہ ہمیشہ رہنے کی،دارِ عمل ہے دارِ جزاء نہیں، جبکہ آخرت ہمیشہ رہنے کی جاہ اور دارِ جزاء ہے۔ ایک شخص کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اللہ تعالی سے ملاقات کے لیے تیار رہے۔ آل فرعون میں سے جو شخص ایمان لایا تھا اس نے اپنی قوم سے کہا:
﴿يٰقَوْمِ اِنَّمَا هٰذِهِ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ ۡ وَّاِنَّ الْاٰخِرَةَ هِىَ دَارُ الْقَرَارِ، مَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً فَلَا يُجْزٰٓى اِلَّا مِثْلَهَا ۚ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فأولئك يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُوْنَ فِيْهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾ (غافر: 39-40)
(اے میری قوم! یہ دنیا کی زندگانی تو متاعِ فانی ہےاور یقینا ًآخرت: وہی رہنے کا گھر ہے، جس نے کوئی برائی کی تو اسے ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا اور جس نے کوئی نیک عمل کیا، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہوا تو یہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے، اس میں بےحساب رزق دیے جائیں گے)
پس اے بھائی! دن تو گزرتے جارہے ہیں ، اور ہر انسان کو وہ مل رہا ہے جو اس کے لیے مقدر کیا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ إِلَيْهِ مَلَكًا بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ فَيُكْتَبُ عَمَلُهُ وَأَجَلُهُ وَرِزْقُهُ وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ‘‘([1])
(بے شک تم میں سے ایک اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک (نطفے کی صورت میں) تیار ہوتا ہے، پھر وہ اتنے ہی دنوں تک ’’عَلَقَةً‘‘ یعنی غلیظ اور جامد خون کی صورت میں رہتا ہے۔ پھر اتنے ہی دنوں کے لیے ’’مُضْغَةً‘‘ (گوشت کے لوتھڑا) کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں (کے لکھنے) کا حکم دیتا ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کے عمل، اس کا رزق، اس کی مدتِ زندگی اور یہ کہ بد ہے یا نیک، لکھ لے)۔
یہ تمام باتیں واضح طور پر اللہ تعالی کی کتاب میں لکھی ہوئی ہیں جو اس کے علم کے ساتھ خاص ہیں:
﴿ اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السّ
َاعَةِ ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا، وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ، اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ ﴾ (لقمان: 34)
(بےشک اللہ، اسی کے پاس قیامت کا علم ہے، اور وہ بارش برساتا ہے، اور وہ جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹوں میں ہے، اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائی کرے گا ، اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔ بےشک اللہ سب کچھ جاننے والا، پوری خبر رکھنے والا ہے)
اور اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿ وَلَنْ يُّؤَخِّرَ اللّٰهُ نَفْسًا اِذَا جَاءَ اَجَلُهَا، وَاللّٰهُ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ﴾ (المنافقون: 11)
(اور اللہ کسی جان کو ہرگز مہلت نہیں دیتا جب اس کا وقت آجائے، اور اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے جو تم کر تے ہو)
مہینوں، سالوں اور دنوں کا گزرنا بندے کو خبردار کرنے کے لیے ہے کہ یہ دنیا کی زندگانی ختم ہونے کو ہے، اور اس زمین کی پشت پر کسی کوباقی نہيں رہنا، موت ضرور آنی ہے، فرمان باری تعالی ہے:
﴿قُلْ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِيْ تَفِرُّوْنَ مِنْهُ فَاِنَّهٗ مُلٰقِيْكُمْ ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰى عٰلِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ﴾ (الجمعۃ: 8)
(کہہ دیجئے کہ بلاشبہ وہ موت جس سے تم بھاگتے ہو، سو یقیناً وہ تم سے ملنے والی ہے، پھر تم ہر پوشیدہ اور ظاہر چیز کو جاننے والے کی طرف لوٹائے جاؤ گے، تو وہ تمہیں بتادےگا جو کچھ تم کیا کرتے تھے)
اور فرمایا:
﴿ اَيْنَ مَا تَكُوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِيْ بُرُوْجٍ مُّشَـيَّدَةٍ ﴾ (النساء: 78)
(تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تمہیں پا لے گی، خواہ تم مضبوط قلعوں میں ہو)
لہذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی اس زندگی کو غنیمت جانتے ہوئے اسے ان کاموں میں استعمال کریں جس سے اللہ تعالی ہم سے راضی ہو۔ نیک کاموں کی طرف جلدی کرو اور لپکو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
’’هَلْ يَنْتَظِرُ أَحَدُكُمْ إِلا غِنًى مُطْغِيًا، أَوْ فَقْرًا مُنْسِيًا، أَوْ مَرَضًا مُفْسِدًا، أَوْ هَرَمًا مُفَنِّدًا، أَوْ مَوْتًا مُجْهِزًا، أَوِ الدَّجَّالَ، وَالدَّجَّالُ شَرُّ غَائِبٍ يُنْتَظَر، أَوِ السَّاعَةَ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ ‘‘([2])
((نیک کام میں جلدی کرو) کیا تم میں سے کوئی انتظار کرتا ہے سرکش بنادینے والی امیری کا، یا غفلت میں ڈال دینے والی فقیری کا، یا تباہی مچانے والی بیماری کا، یا سٹھیا دینے والے بڑھاپے کا، یا ناگہانی موت کا، یا دجال کا اور دجال ایک غائب شر ہے جس کا انتظار کیا جاتا ہے، یا قیامت کا اور قیامت تو سب سے بڑی سخت اور بڑی مصیبت اوربہت کڑوی ہے)۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جاننے کا حکم بھی دیا کہ: ہم اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے، اپنی صحت کو اپنے مرض سے پہلے، اپنی امیری کو غریبی سے پہلے اور اپنی فراغت کو اپنی مصروفیت سے پہلے غنیمت جانیں۔ یہاں تک کہ ہم اپنے رب کی اطاعت پر مستقیم ہوجائيں، اور ہم اللہ تعالی سے خالص اس کی رضا کے لیے کیے گئے اعمال کے ساتھ ملاقات کرنے والے ہیں ان شاء اللہ:
﴿ يٰٓاَيُّهَا الْاِنْسَانُ اِنَّكَ كَادِحٌ اِلٰى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلٰقِيْهِ ﴾ (الانشقاق: 6)
(اے انسان! بےشک تو سخت محنت ومشقت کرتے کرتے اپنے رب کی طرف جانے والا ہے، پھر اس سے ملنے والا ہے)
لہذا اللہ تعالی سے ملاقات اور اس کے سامنے پیشی لازمی بات ہے، اسی طرح سے قیامت کی ہولناکیاں بھی ہوکر رہیں گی:
﴿يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ ۚ اِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيْمٌ ، يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكٰرٰي وَمَا هُمْ بِسُكٰرٰي وَلٰكِنَّ عَذَابَ اللّٰهِ شَدِيْدٌ﴾ (الحج: 1-2)
(اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، بےشک قیامت کا زلزلہ بہت بڑی چیز ہے، جس دن تم اسے دیکھو گے ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے سے غافل ہوکر اسےبھول جائے گی، اور ہر حمل والی اپنا حمل گرا دے گی، اور تو لوگوں کو نشے میں دیکھے گا، حالانکہ وہ ہرگز نشے میں نہیں ہوں گے اور لیکن اللہ تعالی کا عذاب بہت سخت ہے)
پس اے میرے بھائیو! نیکی اور خیر کی طرف دوڑ لگاؤ:
﴿ وَسَارِعُوْٓا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ ۙ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِيْنَ ﴾ (آل عمران: 133)
(اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دوڑو اپنے رب کی بخشش کی طرف ،اور اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین (کے برابر) ہے، جو متقی پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے)
اور حدیث میں ہے کہ:
’’ازْهَدْ فِي الدُّنْيَا يُحِبَّكَ اللَّهُ وَازْهَدْ فِيمَا فِي أَيْدِي النَّاسِ يُحِبُّوكَ‘‘([3])
(دنیا سے زہد اختیار کرو تو اللہ تعالی تم سے محبت کرے گا،
اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے زہد اختیار کرو تو لوگ تم سے محبت کرنے لگیں گے)۔
دنیا سے زہد کرنے کا معنی ہے اس سے دل نہ لگالینا، ایک شخص کو لازمی اس میں سے گزرنا تو ہے، جیساکہ حدیث بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’ كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَقُولُ: إِذَا أَمْسَيْتَ، فَلَا تَنْتَظِرِ الصَّبَاحَ، وَإِذَا أَصْبَحْتَ فَلَا تَنْتَظِرِ الْمَسَاءَ، وَخُذْ مِنْ صِحَّتِكَ لِمَرَضِكَ، وَمِنْ حَيَاتِكَ لِمَوْتِك‘‘([4])
(اس دنیا میں یوں رہو جیسے کہ تم اجنبی یا راہ چلتے مسافر ہو۔ اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ: اگر شام کرو تو صبح کے منتظر نہ رہو اور صبح کرو تو شام کے منتظر نہ رہو، اپنی صحت کو مرض سے پہلے غنیمت جانو اور زندگی کو موت سے پہلے)۔
الغرض میرے بھائیو! سال بیتتے جارہے ہیں ایک سال کے بعد دوسرا سال، یہ سن 1436ھ ہے جو قریب ہی ختم ہونے والا ہے، اس کے بعد 1437ھ آئے گا([5])، اسی طرح ایک دن کے بعد دوسرا دن گزرتا جائے گا یہاں تک کہ یہ سال اور اس کے علاوہ سب سال ختم ہوجائيں گے۔ اللہ تعالی سے خاتمہ بالخیر کی دعاء ہے اور وہ ہمیں توفیق دے کہ ہم اعمال صالحہ کا توشہ اور زادِ راہ اپنے ساتھ رکھیں:
﴿ وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى ﴾ (البقرۃ: 197)
(اور زاد راہ لے لیا کرو پس بلاشبہ بہترین زاد راہ تو اللہ تعالی کا تقویٰ وڈر ہے)۔
[1] صحیح بخاری 3207، صحیح مسلم 2645۔
[2] اسے امام الترمذی نے اپنی سنن 2306 میں روایت فرمایا اور شیخ البانی نے ضعیف الترمذی میں اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
[3] صحیح ابن ماجہ 3326۔
[4] صحیح بخاری 6416۔
[5] سبحان اللہ! اور ابھی کچھ عرصہ پہلے ہم نے اس کا ترجمہ کیا تھا اور اب 1438ھ شروع ہوا چاہتا ہے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[#SalafiUrduDawah Article] #Virtues of #Muharram ul Haraam – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#محرم الحرام کے #فضائل
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: خطبة الجمعة 27-12-1434هـ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/muharram_k_fazail.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد الله نحمده ونستعينه ونستغفره ونتوب إليه، ونشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، ونشهد أن محمدًا عبده ورسوله، صلى الله عليه وعلى آله وأصحابه، وسلم تسليما كثيرا، أما بعد:
اے لوگو! اللہ تعالی سے ڈرواس کی ظاہری وباطنی نعمتوں کا شکر ادا کرو۔ آپ پر مسلسل موسمِ خیر سایہ فگن ہورہے ہیں۔ حج کے مہینے ختم نہيں ہوئے کہ فوراً اس کے بعد اللہ کا مہینہ محرم شروع ہوگیا۔ اوراس مہینے کو اللہ تعالی نے بعض خصائص کے ساتھ خاص فرمایا ہے۔
اولاً: یہ ان حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جس میں اللہ تعالی نے قتال حرام فرمایا ہے، فرمان الہی ہے:
﴿اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَآ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ﴾ (التوبۃ: 36)
(بے شک مہینوں کی گنتی، اللہ کے نزدیک، اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہے، جس دن سےاس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور ان میں سے چار حرمت والے ہیں)
وہ چار مہینے یہ ہیں: ذوالقعدہ، ذوالحجہ، ماہ محرم اور چوتھا ماہ رجب ہے۔ ان مہینوں میں اللہ تعالی نے قتال حرام قرار دیا ہے تاکہ حجاج ومعتمرین کے حج وعمرہ کے سفر میں امن ہو۔ الحمدللہ جب اسلام آیا تو امن پھیل گیا اور کفار کو شکست ہوئی، اور ہر وقت میں جب بھی اس کے امکان پیدا ہوئےجہاد فی سبیل قائم ہوا ۔
اس مہینے کے فضائل کے تعلق سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ‘‘([1])
(رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے ہیں)۔
پس اس میں باکثرت روزے رکھنا مستحب ہے اور یہ حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہجری سال کا پہلا مہینہ منتخب فرمایا۔
اس کے فضائل ثابت ہیں۔ اس کے بڑے فضائل میں سے ہے کہ اس میں یوم عاشوراء ہے جس کےبارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی کہ اس دن کا روزہ گزشتہ سال کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ سیدنا موسی علیہ السلام نے اس روز بطور شکر الہی کے روزہ رکھا تھا کہ جب اللہ تعالی نے فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تو آپ علیہ السلام نے بطور شکر الہی روزہ رکھا۔ اور ان کے بعد بھی یہود یہ روزہ رکھتے رہے۔جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو اس دن روزہ رکھتے ہوئے پایا تو دریافت فرمایا: یہ کونسا روزہ ہے جو تم رکھتے ہو؟ کہا: یہ وہ دن ہے جب اللہ تعالی نے سیدنا موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو عزت بخشی اور فرعون اور اس کی قوم کو ذلیل کیا۔ اس شکرانے پر سیدنا موسی علیہ السلام نے روزہ رکھا تو ہم بھی رکھتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’نَحْنُ أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ‘‘([2])
(ہم تم سے زیادہ سیدنا موسی علیہ الصلاۃ والسلام کے حقدار ہیں)۔
یا فرمایا:
’’نَحْنُ أَوْلَى بِمُوسَى مِنْكُمْ‘‘([3])
(ہم سیدنا موسی علیہ السلام کے تم سے زیادہ قریب ہیں)۔
پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا اور امت کو بھی اس روزے کا حکم دیا۔ پس اس دن کا روزہ سنت مؤکدہ بن گیا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے چاہتے ہیں کہ ہم یہود کی مخالفت کریں پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ایک دن پہلے بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا یعنی نویں محرم کو۔ اور ایک روایت میں ہےکہ اس کے ایک دن بعد یعنی گیارہویں محرم کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ لیکن نویں محرم کا روزہ زیادہ مؤکد ہے۔ پس اس دن کا روزہ انبیاء کرام سیدنا موسی ومحمد علیہما الصلاۃ والسلام کی اقتداء ہے ۔ اور یہ وہ عظیم دن ہے کہ جس میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو سیدنا موسی علیہ السلام کے ہاتھوں عزت بخشی ۔ اور یہ تاقیام قیامت مسلمانوں کے لیے نصرت اور نعمت تصور ہوگی کہ جس کا شکر اس روزے کی صورت میں ادا کیا جاتا ہے۔پس یہ روزہ سنت نبویہ مؤکدہ ہے۔ ایک مسلمان نویں محرم اور دسویں محرم جو کہ یوم عاشوراء ہوتا ہے کو روزہ رکھتا ہے ۔ الحمدللہ یہ سنت اس امت میں چلتی آئی ہے لہذا اجروثواب کی طلب اور شکر الہی کے طور پراس روزے کی خاص تاکید ہے۔
انبیاء کرام اور ان کے متبعین کی سنت ہے کہ وہ اللہ تعالی کی جانب سے ملنے والی نصرتوں پر اس کا شکر ادا کرتے ہیں جس کا طریقہ اطاعت بجالانا، روزے رکھنا اور اللہ تعالی کا ذکر وشکر کرنا ہے۔ وہ اللہ تعالی کی جانب سے ملنے والی ان نصرتوں پر بدعات ومنکرات وتقریبات