Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.12K subscribers
2.48K photos
52 videos
211 files
4.91K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[#SalafiUrduDawah Article] #Biography of Shaykh Ahmed bin Yahyaa #An_Najmee - Shaykh #Muhammad_bin_Hadee Al-Madkhalee

#سیرت ِشیخ علامہ احمد بن یحیی #النجمی رحمہ اللہ سن 1346 – 1429ھ

فضیلۃ الشیخ #محمد_بن_ہادی المدخلی حفظہ اللہ

(رکن تعلیمی کمیٹی، کلیۃ حدیث شریف ودراسات اسلامیہ، مدینہ نبویہ)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: شیخ کی ویب سائٹ سے (سيرة العلامة أحمد النجمي - رحمه الله - بقلم الشيخ الفاضل محمد بن هادي المدخلي)

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نام ونسب

ولادت

آپ کی علمی سرگرمیاں

آپ کے مشایخ

آپ کے تلامیذ

آپ کی ذہانت

آپ کے اعمال وکارنامے

آپ کے علمی آثار

آپ کی وفات
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/biography_ahmed_najmee.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] Does #Saudi_government work against #Deen and banning the #Duaat? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
کیا #سعودی_حکومت #دین اور #داعیان کے خلاف جنگ اور سختی کرتی ہے
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الإجابات المهمة فى المشاكل الملمة ص 27.
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/04/kiya_saudi_hukumat_deen_daiyan_jang.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: آپ کی ان لوگوں کے لیے کیا نصیحت ہے جو کہتے ہیں کہ یہ مملکت (سعودی عرب) دین کے خلاف جنگ کرتی ہے اور داعیان دین پر سختی اور تنگی کرتی ہے؟
جواب: ابتداء ہی سے مملکت سعودی عرب دین اور اہلیان دین کی نصرت کرتی آئی ہے۔ یہ تو قائم ہی اسی اساس پر ہوئی تھی۔ اور اب بھی دنیا کے مختلف کونوں میں جو مسلمانوں کی مختلف انداز میں مدد کرتی ہے جیسے مالی معاونت، اسلامی مراکز ومساجد کا قیام، داعیان ارسال کرنا، کتابوں کی طباعت جن میں سرفہرست قرآن کریم، علمی مراکز اور شرعی کالجز کا قیام، شریعت اسلامیہ کا نفاذ، اورہر علاقے میں ایک مستقل ادارہ برائے امر بالمعروف ونہی عن المنکر بنانا یہ سب باتیں واضح دلیل ہیں کہ یہ مملکت اسلام اور اہلیان اسلام کی مدد ونصرت کرتی ہے۔ اور اہل نفاق واہل شر پھوٹ ڈالنے والوں کے حلق کا کانٹا بنی ہوئی ہے۔ اللہ تعالی اپنے دین کی مدد ونصرت ضرور فرمائے گا خواہ مشرکین اور مغرضین لوگ برا منائیں۔ ہم نہیں کہتے کہ یہ مملکت ہر زاویے سے کامل ہے اور اس کی کوئی غلطی نہیں۔ غلطیاں تو ہر ایک سے ہوجاتی ہیں اور ہم اللہ تعالی سے دعاء کرتے ہيں کہ وہ ہمیں غلطیوں کی اصلاح کرنے میں اعانت فرمائے۔
اور ایسی بات کہنے والا اگر خود اپنے ہی گریبان میں جھانک کر دیکھے گا تو ایسی ایسی غلطیاں ملیں گی کہ جو اس کی زبان کو دوسروں پر طعن دراز کرنے سے روک دیں گی، اور وہ لوگوں کا سامنا تک کرنے سے شرمائے گا([1])۔
[1] میں (محمد بن فہد الحصین) یہ کہتا ہوں: حکمرانوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ ہر اس شخص پر پابندی لگائیں جو کبھی نصیحت واصلاح کے نام پر تو کبھی آزادی کلام اور کبھی کسی اور پرفریب نعرے کے تحت باطل، تفرقہ بازی اور حکمرانوں کے خلاف خروج کی دعوت دیتا ہے۔ کیونکہ اس میں وہ عظیم مصالح ہیں جو کسی بھی عقل رشید رکھنے والے سے مخفی نہیں۔ اسی لیے سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’حکمرانوں کے لیے جائز نہيں کہ لوگوں اور ان منابر کے درمیان حائل ہوجائیں الا یہ کہ انہیں معلوم ہو کہ کوئی شخص باطل کی جانب دعوت دے رہا ہے، یا وہ دعوت دینے کا اہل نہيں، تو ایسے کو چاہے وہ کہیں بھی ہو روکا جائے گا‘‘ (مجموع الفتاوی 5/81)۔
اور علامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جب مسجد میں پیاز لہسن کھا کر آنے کو منع کیا جاتا ہے تو پھر جو لوگوں کا دین خراب کرے اس کا کیا حکم ہوگا! کیا ایسا شخص منع کیے جانے کا زیادہ حقدار نہيں ہوگا؟ کیوں نہيں، اللہ کی قسم! لیکن بہت سے لوگ غافل ہیں‘‘۔
( دیکھیں شرح الاربعین النوویۃ ص 38)
اسی طرح سے دوسرے مقام پر فرمایا:
’’اگر حکمران اپنے رائے میں یہ بہتر سمجھے مثلاً ہم میں سے کسی ایک کو بولنے سے منع کردے، تو یہ اللہ کے یہاں ہمارا عذر ہے کہ اس نے مجھے منع کیا تو میں نہ بولا۔ کیونکہ حق بیان کرنا فرض کفایہ ہے جو کسی مخصوص شخص زید وعمر میں محصور نہیں۔ اگر ہم حق کو اشخاص کے ساتھ معلق کردیں گے تو حق اس شخص کی موت کے ساتھ مر جائے گا۔ حق کبھی بھی مخصوص افراد سے معلق نہیں ہوتا۔ فرض کریں وہ مجھے منع کرتے ہیں اور کہتے ہیں: ہماری سمع وطاعت کرتے ہوئے کلام نہ کرو، خطبہ نہ دو، شرح نہ کرو، تعلیم نہ دو۔ میں جاؤں گا نماز پڑھنے اگر وہ مجھے اجازت دیں گے امام بننے کی تو میں امام بن جاؤں گا۔ اگر کہیں گے: تم لوگوں کی امامت نہ کراؤ تو میں لوگوں کی امامت نہیں کرواؤ گا البتہ مقتدی بن جاؤں گا کیونکہ اب حق کسی دوسرے کے ساتھ قائم تو ہورہا ہے۔ ان کا مجھے منع کرنے کا یہ معنی نہیں کہ انہوں نے تمام لوگوں کو ہی منع کردیا ہے۔ ہمارے لیے اس بارے میں اچھا نمونہ موجود ہے کہ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث بیان کرتے تھے کہ آپ نے جنبی شخص کو تیمم کا حکم دیا جبکہ (خلیفۂ وقت) سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس کے قائل نہیں تھے۔ پس انہیں ایک دن بلابھیجا اور کہا: یہ کونسی حدیث ہے جو تم لوگوں کو بیان کرتے رہتے ہو کہ اگر جنبی شخص کو پانی نہ ملے تو وہ تیمم کرلے؟ انہوں نے کہا: آپ کو یاد نہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اور آپ کو کسی کام کے لیے بھیجا تھا تو مجھے جنابت لاحق ہوگئی تھی اور میں مٹی میں لوٹ پوٹ ہوا تھا پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر آپ کو خبر دی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا:
’’إِنَّمَا ك
َانَ يَكْفِيكَ أَنْ تَقُولَ بِيَدَيْكَ هَكَذَا‘‘ (صحیح مسلم 370، صحیح ابی داود 322)
(تمہارے لیے کافی تھا کہ بس اپنے دونوں ہاتھوں کو اس طرح زمین پر مارتے ) پھر تیمم کا بیان فرمایا۔
لیکن اے امیر المومنین! آپ کے اس حق کی وجہ سے کہ اللہ تعالی نے مجھ پر آپ کی اطاعت فرض کی ہے اگر آپ چاہیں کہ میں یہ حدیث بیان نہ کروں تو میں ایسا ہی کروں گا۔ اللہ اکبر! جلیل القدر صحابی خلیفہ کے حکم پر جس کی اطاعت فرض ہے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرنے سے رک رہے ہیں۔ پس آپ نے فرمایا: نہیں، میں تمہیں اس سے نہیں روکتا لیکن اپنی ہی ذمہ داری پر بیان کرو اگر سمجھتے ہو۔ یعنی اگر حکمران یہ بہتر سمجھے کہ ابن عثیمین یا ابن باز یا کسی اور کی کیسٹیں روک دی جائیں تو ہم رک جائیں گے۔ لیکن ہم اس قسم کی باتوں کو لوگوں میں اور خصوصاً نوجوانوں میں فتنے کی آگ بھڑکانے کا اور لوگوں کے دلوں میں حکمرانوں کی نفرت بھرنے کا سبب بنادیں تو یہ اللہ کی قسم میرے بھائیوں خود عین معصیت ہے، اور یہ لوگوں کے مابین فتنہ پھیلنے کی بنیادوں میں ایک اساس ہے۔ اور ہمارا یہ ملک کوئی چھوٹا سا ملک تو ہے نہیں اس میں لاکھوں علاقے پھیلے ہوئے ہیں مختلف قبائل آباد ہیں۔ اگر اللہ تعالی عبدالعزیز بن سعود کے ہاتھوں ہمارے کلمے کو جمع نہ فرماتا تو ہم ایسے ہی متفرق وایک دوسرے کے دست وگربیاں رہتے۔ ہمارے بزرگ ہمیں بتاتے ہيں کہ شہر کے بیچوں بیچ رمضان کے دنوں میں خوف کی وجہ سے تراویح پڑھنے تک بغیر اسلحہ کے نہيں جاسکتے تھے۔ لیکن اب الحمدللہ امن ہے۔ آپ کا کیا گمان ہے اگر حالات بدل جائیں اللہ نہ کرے! تو کیا یہ امن باقی رہے گا؟ اب کوئی گھر سے نکلتا ہے اور اس کی گاڑی ہر آسائش سے بھری ہوتی ہے کہیں مغرب کی اذان ہوجاتی ہے اترتا ہے اور نماز ادا کرتا ہے جبکہ اس کی گاڑی ایک پتھر پھینکنے کے فاصلے پر یا اس سے کچھ قریب کھڑی ہوتی ہے اور اسے اس وقت سوائے اللہ تعالی کے کسی کا خوف نہیں ہوتا۔ پھر ہم کیوں اس امن وامان کی قدر نہیں کرتے؟ کیا ہم یہ بات نہیں سمجھتے کہ جب دلوں میں نفرتیں پنپیں گی تو امن تباہ ہوجائے گا اور لوگ باغی ہوجائے گے؟ حتی کہ اگر وہ فلاں فلاں کی کیسٹوں پر پابندی بھی لگادیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہم ہدایت کی دعاء کریں گے، کیا ہم امام احمد رحمہ اللہ سے بڑھ کر علم رکھنے والے، دیندار اور فقہ وفہم رکھتے ہیں؟ امام احمد رحمہ اللہ کو مارا جاتا، خچر سے باندھ کر گھسیٹا جاتا، اور اتنے کوڑے مارے جاتے کہ آپ بے ہوش ہوجاتے اس کے باوجود فرماتے:
’’لو اعلم ان لی دعوۃ مستجابۃ لصرفتھا للسطان‘‘
(اگر میں جان لوں کہ میری کوئی لازماً قبول ہونے والی دعاء ہے تو میں اسے حکمران وقت کے لیے مخصوص کردوں)۔
اور آپ مامون کو امیر المومنین ہی کہا کرتے تھے اور مامون بہت عظیم بدعت کی طرف باقاعدہ دعوت دیتا تھا یعنی خلق قرآن کے عقیدے کی طرف یہاں تک کہ اسے مدارس میں پڑھانا شروع کردیا تھا۔ اور کیا ہم اپنے حکمرانوں سے ایسی حرکت صادر ہوتے دیکھتے ہیں؟ کیا آپ کے علم میں ہے ایسی کوئی بات کے وہ کسی بدعت کی طرف دعوت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو ہماری مخالفت کرے گا ہم اسےقتل کردیں گے، یا جیل میں ڈال دیں گے یا ماریں گے؟ میرے علم میں تو ایسی کوئی بات نہيں۔جو بھائی اس قسم کی باتوں کو پھیلاتے ہیں وہ سوائے بے دین ملحدوں کے کسی کی خدمت نہیں کررہے۔ کیونکہ کیا یہ بے دین ملحد لوگ چاہیں گے کہ یہ مملکت باقی رہے؟ نہیں، کیونکہ انہیں اسلام نہیں چاہیے، انہیں ملحد (سیکولر)کمیونسٹ ریاست چاہیے جس میں یہودی، نصرانی، بت پرست اور مسلمان اور ہر کوئی مساوی وبرابر ہوں۔ وہ اس بات سے خوش ہیں کہ اس مملکت پر اس قسم کے نعرے مسلط ہوجائیں یہاں تک کہ تمہارا صفایہ کردیا جائے اور اس مملکت کا بھی خاتمہ کردیا جائے۔ کیونکہ جب عامۃ الناس کے دلوں میں نفرت کا بیج بودیا جائے گاتو وہ حکمرانوں کو برا جانیں گے اور ان کے خلاف باغی ہوجائیں گے اور قوت کے ذریعے ان کا تختہ الٹنے کی کوشش کریں گے،اور خود اس کے بعد حکومت کے منصب پر فائز ہوجائیں گے، اللہ نہ کرے ایسا ہو۔ موجودہ انقلابات کو ہی دیکھ لیں مصر ہو یا عراق یا شام لوگوں کا کیا حال ہوا، کیا بری حالت سے بہتر حالت ہوگئی؟ یا پھر بری سے برتر حالت ہوگئی۔ لہذا وہ نوجوان جو اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں وہ صرف سیکولر ملحد لوگوں کو بلواسطہ مفت خدمات فراہم کررہے ہيں‘‘۔
(المرجع: کیسٹ طاعۃ ولاۃ الامر – تسجیلات منھاج السنۃ)
#مسجد_السلف_الصالح، #مانجھند ضلع #جامشورو، #سندھ کا ایک روزہ مختصر دورہ ستمبر 2017ع
الحمدللہ، اللہ تعالی کے فضل وکرم سے سندھ کے اس تقریباً ریگستانی علاقے گوٹھ بلاول کھوسو، (مانجھند) ضلع جامشورو میں اللہ تعالی نے اپنی ہدایت کا نور توحید وسنت و صحیح سلفی عقیدے ومنہج کی صورت پہنجایا۔ جس میں بڑا کردار ہمارے عزیز بھائی زاہد اور نعیم اور دیگر ساتھیوں کا ہے، اللہ تعالی اسے ان کے لیے صدقۂ جاریہ بنائے، اور ہم سب کو استقامت واخلاص عطاء فرمائے۔
اس چھوٹے سے گاؤں میں تقریباً 20 -25کے لگ بھگ خاندان آباد ہیں، اور یہ گاؤں اس علاقے میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے، جغرافیائی اعتبار سے بھی اور عقائد کے اعتبار سے بھی کہ اس کے آس پاس شیعہ اور بریلوی، اسی طرح سے کچھ فاصلے پر دیوبندی مذہب رکھنے والی آبادی موجود ہے۔ خود اس علاقے کے لوگ بھی پہلے بریلویت اور قبرپرستی جیسے عقائد میں مبتلا تھے، بلکہ بتاتے ہیں کہ درخت تک کی پوجا کرتے تھے، مگر اللہ تعالی نے انہیں توحید کی جانب ہدایت عطاء فرمائی جو ایک خاندان سے دوسرے خاندان تک بڑھتی گئی، اور وہاں موجود ایک خستہ حال بریلوی مسجد ہی کو اہل توحید کی مسجد بنادیا گیا۔
ہمارے کچھ عرصے کے تعلقات اور آمد ورفت سے اب وہاں دیگر سلفی بھائیوں کے تعاون سے ازسر نو مسجد کی تعمیر کا کام شروع ہوکر تقریباً تکمیل کے مراحل میں ہے۔ اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ اسے توحید وسنت اور منہج سلف کا منارۂ نور بنادے۔ اس مسجد کا ذکر خیر ہم نے بیرون ملک مشایخ وطلاب تک بھی پہنچایا ہے جس سے ہر ایک نے اظہار مسرت فرمایا۔ جیسے شیخ محمد بن غالب حفظہ اللہ (دبئی) ان کی خیر خبر پوچھتے رہتے ہیں اور مفید نصیحتیں ارشاد فرماتے ہیں، بلکہ اس مسجد کا نام "مسجد السلف الصالح" بھی آپ حفظہ اللہ نے ہی تجویز فرمایا ہے۔ اسی طرح سے ڈاکٹر مرتضی بن بخش حفظہ اللہ (جدہ) بھی اس میں ذاتی دلچسپی لیتے ہيں اور اس دورے کے موقع پر آپ نے یہاں کے لوگوں کے لیے خصوصی خطاب بطور عید کا تحفہ بھی ارشاد فرمایا جس کا عنوان تھا: "طلب علم میں خشیت الہی اور ہمت" جو اس لنک پر سنا جاسکتا ہے۔
http://ashabulhadith.com/main/talab-ilm-mein-khashyat-ellahi-aur-himmat/
مسجد ھذا میں سنت کے مطابق امور کا خصوصی خیال رکھا گیا ہے، جیسے اس مسجد میں نہ محراب ہے نہ مینار۔ تفصیل کے لیے پڑھیں:
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/11/masjid_sunnah_tareeqa_behtareen.pdf
بلکہ اس بات کو لے کر بہت سے گاؤں میں چہ ماگوئیاں چلتی رہتی ہیں، ہر بات میں کتاب وسنت کی دلیل لانے کا دعوی کرنے والے بھی بغیر دلیل اس بارے میں اعتراض لے کر آتے رہتے ہیں۔ جیسے: "ارے بھائی! کیسے معلوم ہو کہ مسجد ہے۔۔۔" مگر اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ اس میں یہ چیزیں نہ ہونا ہی اس کی پورے علاقے میں وجۂ شہرت بن گئی، اب انگلیوں کے اشارے کرکے ہر کوئی بتادیتا ہے وہ ہے سلفیوں والی مسجد، الحمدللہ۔
اللہ تعالی کی قدرت کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے ان گاؤں والوں کو صحیح راہ اور نور توحید کی ہدایت دی حالانکہ یہ ان پڑھ اور کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے ہيں، ان اندھیروں میں بھی رب تعالی نے نور کی کرن پہنچا دی۔ اللہ تعالی اس کے ذریعے سے ان کو عزت دے جیسا کہ صادق ومصدوق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"لَيَبْلُغَنَّ هَذَا الْأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ، وَلَا يَتْرُكُ اللَّهُ بَيْتَ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَهُ اللَّهُ هَذَا الدِّينَ، بِعِزِّ عَزِيزٍ، أَوْ بِذُلِّ ذَلِيلٍ، عِزًّا يُعِزُّ اللَّهُ بِهِ الْإِسْلَامَ، وَذُلًّا يُذِلُّ اللَّهُ بِهِ الْكُفْرَ"
[ مسند احمد 16509، شیخ البانی تحذير الساجد 158 میں فرماتے ہیں: على شرط مسلم وله شاهد على شرط مسلم أيضا]
(یہ امر (دین) ضرور بالضرور وہاں وہاں تک پہنچ کر رہے گا جہاں تک دن ورات پہنچتے ہیں، اللہ تعالی کسی بھی گھر کو خواہ وہ مٹی کا ہو یا بالوں کا نہیں چھوڑے گا مگر اس میں اللہ تعالی اس دین کو ضرور داخل کردے گا، عزیز کی عزت کے ساتھ یا ذلیل کی ذلت کے ساتھ، عزت اس کے لیے جسے اللہ تعالی قبول واسلام سے سرفراز کرکے عزت افزائی فرمائے، اور ذلت اس کے لیے جسے اللہ تعالی کفروانکار کے سبب ذلیل فرمائے)۔
حدیث کے راوی تمیم داری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"قَدْ عَرَفْتُ ذَلِكَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، لَقَدْ أَصَابَ مَنْ أَسْلَمَ مِنْهُمْ الْخَيْرُ، وَالشَّرَفُ، وَالْعِزُّ، وَلَقَدْ أَصَابَ مَنْ كَانَ مِنْهُمْ كَافِرًا الذُّلُّ، وَالصَّغَارُ، وَالْجِزْيَةُ"
(یہ بات میں نے اپنے خاندان میں ہی دیکھ لی، پس جو اسلام لایا تو اسے خیر، شرف اور عزت نصیب ہوئی، اور جو کافر رہا تو اسے ذلت، پستی اور جزیہ دینا نصیب ہوا)۔
ہم نے وہاں کے طلبہ جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے کا مختصر امتحان بھی لیا، کہ ہمارے زاہد بھائی نے انہيں علماء کرام کا کلام پڑھ پڑھ کر تعلیم دی تھی، تو ماشاء اللہ بارک اللہ فیھم بہت اچھے طور پر ا
نہوں نے شرعی عبارات اور الفاظ تک کا لحاظ کرتے ہوئے ہمیں عقیدے کی بنیادی باتیں بتائی۔ اللہ تعالی ہم سب کے علم وعمل میں برکت دے۔
گاؤں کے لوگ ایمان سے متعلق باتوں کے شیدائی اور علم کے پیاسے ہيں، اور کسی بھی گمراہی میں پڑنے سے ہمیشہ بچنے کی کوشش کرتے ہيں۔ جس بات کا علم نہیں تو سوال کرنے سے نہيں کتراتے۔ ساتھ ہی بہت سادگی وقناعت پسند، ملنسار، مہمان نواز، مخلص، خوددار اور محنت کش ہیں۔ کتاب وسنت کی دلیل کے آگے سرتسلیم خم کرنے والے ہيں خواہ کتنی ہی مخالفتیں برداشت کرنی پڑے۔
اسی طرح سے ہميں بتایا گیا کہ وہاں کی خواتین کو بھی تعلیم دی گئی ہے، اور جہاں سب بے پردہ رہتے تھے، اب شرعی احکام اور پردے کا انتظام و اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ سب دعوت توحید اور شرک کے رد کرنے کی برکتیں ہیں کہ دیگر احکام پر عمل کرنا بھی ایسے لوگوں کے لیے آسان ہوجاتا ہے، اس میں ایسی جماعتوں کے لیے عبرت ہے جو توحید کی دعوت اور شرک کے رد کو تفرقے کا سبب سمجھ کر، اور لوگوں کے متنفر ہونے کا سبب باور کرواکر اس کی دعوت میں مداہنت کرتے ہيں اور سمجھتے ہيں کہ ہم اسے چھوڑ کر اخلاق اور دیگر احکام وفضائل کی طرف دعوت دیں گے تو لوگوں کی زیادہ اصلاح متوقع ہے۔ ایسے لوگ اس زندہ مثال کو بھی دیکھ سکتے ہیں اور اس سے پہلے عرب میں جاہلیت کے معاشرے کو بھی کہ ہر قسم کا گناہ اور برائی عروج پر تھا مگر دعوت کا آغاز کس سے کیا اور کس چیز پر تاحیات زور دیا جاتا رہا۔
جہاں تک مخالفتوں کا تعلق ہے تو دیگر اہل شرکیات وبدعات کے ساتھ ساتھ مختلف جماعتوں او رحزبیات کی طرف سے مخالفتوں کا سامنا ہے۔ اور یہ کوئی نئی بات نہيں ہر زمان ومکان میں انبیاء کرام اور ان کے سچے پیروکاروں کو ایسے مصائب ومخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، اسی حالت کے لیے تواصی بالصبر کی وصیت الہی اور سیرت انبیاء وسلف صالحین بطور رہنما ہمیشہ مدنظر رہنی چاہیے۔ اللہ تعالی سب کو استقامت دے اور ہم جیسے کمزوروں کو آزمائشوں سے محفوظ ہی رکھے۔ اور اللہ تعالی ان مخالفین کو بھی ہدایت دے۔
الحمدللہ ساتھ ہی ہم نے وہاں علماء کرام کی ترجمہ شدہ کتب ولٹریچر پہنچایا جس سے گاؤں والے تمام ساتھی مستفید ہوتے ہیں۔
مسجد السلف الصالح، جامشورو، سندھ سے متعلق اپ ڈیٹس جاننے کے لیے ٹوئیٹر پر مسجد کا اکاؤنٹ فولو کریں:
@MasjidSalafSind
کتبہ:
طارق علی بروہی
11، ستمبر 2017ع
[#SalafiUrduDawah Article] #Deviated_claim that speaking on #Tawheed_ul_Asmaa_was_Sifaat #divides_the_Ummah – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah #bin_Baaz
#گمراہ_کن_دعوی کہ #توحید_اسماء_وصفات بیان کرنے سے #امت_میں_تفرقہ ہوتا ہے
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ ابن باز کی آفیشل ویب سائٹ سے فتوی 1741۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2014/02/gumrah_dawa_asma_sifat_tawheed_tafriqa_ummah_sabab.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ایک گروہ ہے جو دعوتِ اسلام کی طرف منسوب ہوتا ہےوہ یہ نظریہ رکھتا ہے کہ توحید اسماء وصفات کو بیان نہيں کرنا چاہیے اس دعوے کے ساتھ کہ اس کی وجہ سے مسلمانوں میں تفرقہ ہوتا ہے اور یہ مسلمانوں کو جو ان پر زیادہ اہم واجب ہے یعنی جہادِ اسلامی سے مشغول کردیتا ہے، اس نظریے کی صحت کہاں تک درست ہے؟
جواب:یہ نظریہ غلط ہے۔ اللہ تعالی نے اپنی کتاب کریم میں اپنے اسماء وصفات کو واضح فرمایا ہے اور ان کی نشاندہی فرمائی ہے تاکہ مومنین انہيں جان لیں اور ان ناموں اور صفات سے اللہ تعالی کو موسوم وموصوف کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تواتر کے ساتھ احادیث آئی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اپنے خطبات میں اور صحابہ کے ساتھ بات کرنے میں اللہ تعالی کے اسماء وصفات ذکر کرتے تھے اور ان اسماء وصفات کے ساتھ اللہ تعالی کی ثناء بیان کرتے اور اس پر دوسروں کو بھی ابھارتے۔
پس اہل علم وایمان پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالی کے اسماء وصفات کو زیادہ سے زیادہ نشر کریں، انہیں اپنے خطبات، تألیفات، وعظ ونصیحت میں ضرور ذکر کریں۔ کیونکہ انہی کے ذریعے تو اللہ تعالی کی پہچان ہوتی ہے اور اس کی عبادت کی جاتی ہے۔ اس سے غفلت یا اعراض کرنا اس دعوے کے ساتھ کہ بعض عوام پر معاملہ خلط ملط ہوجائے گا یا بعض اہل بدعت عوام میں تشویش پھیلائیں گے جائز نہیں۔ بلکہ واجب ہے اس شبہہ کا ازالہ کیا جائے اور کا بطلان واضح کیاجائے۔ اور یہ بیان کرنا بھی واجب ہے کہ ہم اللہ تعالی کے اسماء وصفات پر اس کی شایان شان ایمان لائیں ، نہ اس میں تحریف کریں، نہ تعطیل(انکار)، نہ تکییف (کیفیت بیان کرنا) اور نہ تمثیل(مماثلت بیان کرنا) یہاں تک کہ جاہل کو اس بارے میں حکم معلوم ہوجائے، اور یہاں تک کہ یہ بدعتی لوگ اپنے حد میں رہیں اور ان پر حجت تمام ہوجائے۔
اہل سنت والجماعت نے اپنی کتب میں یہ بات بیان کی ہے کہ مسلمانوں پر خصوصاً اہل علم پر یہ واجب ہے کہ وہ اللہ تعالی کی صفات سے متعلق آیات و احادیث کو جیسے وہ آئی ہیں اسی طرح سے مانیں، نہ اس کی تأویل کریں نہ ہی تکییف بلکہ واجب ہے کہ جیسی وارد ہوئی ہیں ایسے ہی ایمان لایا جائے۔ اس ایمان کے ساتھ کہ یہ برحق ہیں اور یہ اللہ تعالی کی صفات اور اس کے اسماء ہیں۔ ان کا جو بھی معنی ہے وہ حق ہے وہ واقعی اس کے ساتھ حقیقت میں موصوف ہے جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔جیسا کہ الرحمن، الرحیم، العزیز، الحکیم، القدیر، السمیع اور البصیر وغیرہ۔
واجب ہے کہ یہ جیسے آئی ہیں ویسے ہی ان پر ایمان لایا جائے اور یہ اعتقاد ہو کہ اللہ تعالی کے مثل، اس کے مشابہ، اس کی ہمسری کرنے والا کوئی نہیں لیکن ہم اس کی صفات کی کیفیت بیان نہيں کرتے کیونکہ اس کی حقیقی کیفیت اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ جیساکہ اللہ تعالی کی ذات دیگر ذاتوں کے مشابہ نہیں اور اس کی کیفیت بیان کرنا جائز نہیں اسی طرح سے اللہ تعالی کی صفات میں بھی کسی سے مشابہت نہيں اور اس کی کیفیت بیان کرنا جائز نہيں۔ لہذا اللہ تعالی کی صفات میں کلام کرنا ایسا ہی ہے جیسے اس کی ذات میں کلام کرنا، دونوں بالکل برابر ہیں، اِس کو اُس پر قیاس کیا جاسکتاہے۔
یہی بات اہل سنت کہتے آئے ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر بعد کے تمام لوگوں تک سب کے سب۔ فرمان الہی ہے:
﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ، اَللّٰهُ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ ڏ وَلَمْ يُوْلَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ﴾ (الاخلاص)
(کہہ دیں وہ اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا، اور نہ ہی کوئی اس کا ہمسر ہے)
اور فرمایا:
﴿لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ﴾ (الشوری: 11)
(اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے)
اور فرمایا:
﴿فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَالَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (النحل: 74)
(پس اللہ کے لیے مثالیں بیان نہ کرو۔ بے شک اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے)
اورفرمایا:
﴿وَلِلّٰهِ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا﴾ (الاعراف: 180)
(اور اللہ تعالی کے لیے ہیں اسماءِ حسنی (اچھے نام)، سو اسے ان کے ساتھ پکارو)
اور اس معنی میں بہت ساری آیات وارد ہیں۔
(مجلة المجاهد ـ السنة الأولى ـ عدد 10 شهر صفر 1410هـ
– مجموع فتاوى ومقالات متنوعة الجزء الخامس.)
[#SalafiUrduDawah Article] Can we #unite in spite of #differences in #Aqeedah and #Manhaj? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
کیا #عقیدے_ومنہج میں #اختلاف کے باوجود #اتحاد ہوسکتا ہے؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الأجوبة المفيدة عن أسئلة المناهج الجديدة، س 93۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/aqeedah_manhaj_ikhtilaaf_bawajod_ittehad.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا منہج اور عقیدے میں اختلاف کے باوجود اتحاد واجتماع ہوسکتا ہے؟
جواب: منہج اور عقیدے کے اختلاف کے ساتھ اتحاد واجتماع ممکن نہيں ہے۔ اس کی سب سے بہترین دلیل بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے عرب کی حالت ہے، کہ وہ سب دست وگریباں اور متفرق تھے، لیکن وہ اسلام میں توحید کے جھنڈے تلے داخل ہوئے اور ان کا عقیدہ ایک ہوگیا اور منہج بھی ایک ہوگیا، اور ان کی حکومت وریاست قائم ہوگئی۔ اللہ تعالی نے انہیں اپنے اس فرمان میں یاد دہانی کروائی ہے کہ:
﴿وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِھٖٓ اِخْوَانًا﴾ (آل عمران: 103)
(اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو، جب تم دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں کے درمیان الفت ڈال دی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے)
اور اللہ تعالی نے اپنےنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا:
﴿لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوْبِهِمْ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ اَلَّفَ بَيْنَهُمْ ۭاِنَّهٗ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ﴾ (الانفال: 63)
(اگر تم زمین میں جو کچھ ہے سب خرچ کر دیتے پھر بھی ان کے دلوں کے درمیان الفت نہ ڈال سکتے، اور لیکن اللہ نے ان کے درمیان الفت ڈال دی، بےشک وہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے)
اللہ تعالی کافروں ، مرتدوں اور گمراہ فرقوں کے مابین باہمی الفت نہیں ڈالتا([1])۔ بلکہ صرف اور صرف مومنین توحید پرستوں کے دلوں میں باہمی الفت ڈالتا ہے۔ اللہ تعالی کافروں اور منافقوں کے متعلق فرماتا ہے کہ جو اسلام کے منہج اور عقیدے کے مخالفین ہیں:
﴿تَحْسَبُهُمْ جَمِيْعًا وَّقُلُوْبُهُمْ شَتّٰى ۭذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُوْنَ﴾ (الحشر: 14)
(تم خیال کرو گے کہ وہ اکٹھے ہیں، حالانکہ ان کے دل الگ الگ ہیں، یہ اس لیے کہ بےشک وہ ایسے لوگ ہیں جو عقل نہیں رکھتے)
اور اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿وَلَا يَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِيْنَ، اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ﴾ (ھود: 118-119)
(وہ تو برابر اختلاف کرتے رہیں گے، مگر جس پر تیرا رب رحم کرے)
تو یہ فرمانا کہ: ﴿اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ﴾ یہ صحیح عقیدے والے لوگ ہیں اور صحیح منہج والے، یہ وہ لوگ ہيں جو اختلاف سے بچے رہتے ہیں۔
جو لوگ یہ کوشش کرتے ہیں کہ لوگوں کو عقیدے کے بگاڑ اور منہج کے اختلاف کے ساتھ جمع کردیں تو وہ ایک محال چیز کی کوشش کرتے ہیں، کیونکہ دو متضاد چیزوں میں جمع کرنا محال ہے۔
دل جڑ نہيں سکتے، نہ کلمہ یکجا ہوسکتا ہے سوائے کلمۂ توحید کے([2])، جب اس کا معنی صحیح طور پر جانا جائے اور اس کے تقاضے پر ظاہراً وباطناً عمل کیا جائے، ناکہ محض زبان سے اسے ادا کیا جائے جبکہ جس بات پر یہ کلمہ دلالت کرتا ہے اس کی مخالفت کی جائے، اس صورت میں یہ کوئی فائدہ نہيں دے گا۔
[1] جیسا کہ ان موجودہ فرقوں اور احزاب کا حال ہے جو منظر عام پر موجود ہيں جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ یہ سب سےبڑی دلیل اور شاہد ہے کہ وہ کتاب اللہ کے تعلق سے مختلف ہیں اور کتاب اللہ کی مخالفت کرتے ہیں۔ حالانکہ جب دل متفق ہوتے ہیں اور باہم مانوس ہوتے ہیں تو یقیناً جڑ جاتے ہیں جبکہ اس کے برعکس کا معاملہ برعکس ہوتا ہے۔ جیسا کہ یہ وصف ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی ایک صحیح حدیث میں بیان ہوا کہ فرمایا:
"الْأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ فَمَا تَعَارَفَ مِنْهَا ائْتَلَفَ وَمَا تَنَاكَرَ مِنْهَا اخْتَلَفَ " (البخاری : 3158)
(روحوں کے جھتے جھنڈ کے جھنڈ الگ الگ تھے۔ پھر وہاں جن روحوں میں آپس میں پہچان تھی ان میں یہاں بھی لگاؤ ہوتا ہے اور جو وہاں غیر تھیں یہاں بھی وہ خلاف رہتی ہیں ) (الحارثی)۔
[2] ہمارے اس دور میں جو لوگ عقیدے کے بگاڑ اور منہج کے اختلاف کے باوجو دلوگوں کو جمع کرنا چاہتے ہيں ان میں سے ایک کا بطور مثال ناکہ بطور حصر ذکر کرتے ہیں کہ وہ فرقہ اخوان المسلمین ہیں، کہ یہ لوگ اپنے صفوں میں ہر ایک کو ضم کرلیتے ہیں خواہ رافضی ہو یا جہمی، اشعری، خارجی، معتزلی بلکہ اسی طرح سے نصرانی کو بھی ، مت بھولیں گا۔ محترم قاری آپ پہلے بھی اس کتاب میں پڑھ چکے ہيں بعض اہل علم کے اقوال اس فرقے اخوان المسلمین کے تعلق سے کہ بلاشبہ یہ توحید کی جانب دعوت کا کوئی اہتمام نہيں کرتے، ناہی شرک سے ڈراتے وخبردار کرتے ہيں۔ اور یہی صفت وخصو
صیت فرقہ تبلیغی جماعت میں بھی پائی جاتی ہے ، اور اخوانیت اور اخوانی قطبیت بھی اس سے کچھ بعید نہیں۔ (الحارثی)
[#SalafiUrduDawah Article] Can we #unite in the presence of #Hizbiyyah (#blameworthy_partisanship)? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
کیا #حزبیت کے ہوتے ہوئے #اتحاد ہوسکتا ہے؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الأجوبة المفيدة عن أسئلة المناهج الجديدة، س 94۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/hizbiyyat_bawajod_ittehad.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیاحزبیت کے ہوتے ہوئے اتحاد واجتماع ہوسکتا ہے؟ اور کس منہج پر اجتماع کرنا واجب ہے؟
جواب: حزبیت کے ساتھ اجتماع ممکن نہيں، کیونکہ یہ احزاب ایک دوسرے کی ضد میں ہوتے ہیں، او ردو متضاد چیزوں میں جمع کرنا محال ہوتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ﴾ (آل عمران: 103)
(اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو)
پس اللہ سبحانہ وتعالی نے تفرقے سے منع فرمایا ہے اور ایک ہی حزب میں مجتمع ہونے کا حکم دیا ہے، جوکہ حزب اللہ ہے:
﴿ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ (المجادلۃ: 22)
(یاد رکھو! یقیناً حزب اللہ (اللہ کے گروہ) والے ہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں)
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَاِنَّ هٰذِهٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً ﴾ (المؤمنون: 52)
(اور بے شک تمہاری یہ امت ایک ہی امت ہے)
چناچہ ان مختلف احزاب، فرقوں اور جماعتوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہيں ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِيْ شَيْءٍ﴾ (الانعام: 159)
(بےشک وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کو جدا جدا کرلیا اور گروہ گروہ بن گئے، تمہارا ان سے کوئی سروکار نہیں)
اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کے تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجانے کی خبر دی تو فرمایا:
"كُلُّهَا فِي النَّارِ، إِلَّا وَاحِدَةً"
(وہ سب کے سب آگ میں جائيں گے، سوائے ایک کے)
(پھر اس نجات پانے والے فرقے کےبارے میں پوچھنے پر بتایا)
"مَنْ كَانَ عَلَى مِثْلِ مَا أَنَا عَلَيْهِ الْيَوْمَ وَأَصْحَابِي "([1])
(جو اس چیز پر ہوگا جس پر آج میں اور میرے صحابہ ہیں)۔
لہذا کوئی فرقۂ ناجیہ نہيں ہے سوائے اس ایک کے، جس کا منہج یہ ہے کہ:
" جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم تھے"۔
اور جو بھی اس کے سوا ہے تو وہ (امت میں) تفرقے کا سبب ہے جمع نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے(اگر یہ صحابہ جیسا ایمان لائیں تو ہدایت یاب ہیں):
﴿ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِيْ شِقَاقٍ ﴾ (البقرۃ: 137)
(اور اگر یہ منہ موڑیں تو یہ صریح اختلاف ومخالفت میں پڑے ہیں)
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اس امت کے آخری حصے کی اصلاح نہيں ہوسکتی مگر اسی چیز سے جس نے اس کے اول حصے کی اصلاح کی تھی"([2])۔
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ۔۔۔﴾ (التوبۃ: 100)
(اور جو مہاجرین اور انصار سابقین اولین میں سے ہیں اور جنہوں نے بہترین طور پر ان کی پیروی کی ، اللہ تعالی ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے، اور اللہ تعالی نے ان کے لئے جنتیں (باغات) تیار کیے ہیں)
پس ہمارے لیے سوائے منہج سلف صالحین کے کسی چیز پر اجتماع واتحاد نہيں([3])۔
[1] اس حدیث کی تخریج کتاب میں کئی جگہ گزر چکی ہے۔
[2] یہ اثر وہب بن کیسان سے آیا ہے اور ان سے روایت کرنے والے امام مالک رحمہما اللہ ہیں، دیکھیں: التمہید 23/10، اس کی تخریج مجھ سے چھوٹ گئی ہے۔ (الحارثی)
[3] اور یہی اہل سنت والجماعت کی تعریف وامتیاز ہے، جیسا کہ اسی کتاب میں آگے چل کر شیخ سے یہ سوال ہوا کہ:
سوال 109: اہل سنت والجماعت کو اس نام سے کیوں موسوم کیا جاتا ہے؟
جواب: کیونکہ بلاشبہ وہ مجتمع رہتے ہيں باہم مخالف نہیں رہتے۔ کیونکہ ان کا منہج ایک ہوتا ہے اور وہ ہے کتاب وسنت، وہ حق پرجمع ہوتے ہیں، اور ایک امام (حکمران) پر جمع ہوتے ہیں۔ پس ان کے تمام معاملاتِ عامہ اجتماع، تعاون اور محبت پر قائم ہوتے ہيں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[#SalafiUrduDawah Aricle] Are #demonstrations #against_government a form of #Dawah? – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah #bin_Baaz
کیا #حکومت_مخالف #مظاہرات بھی #دعوت کے وسائل میں سےہیں؟
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/kiya_hukumat_mukhalif_muzahiray_wasail_dawah_hain.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ رحمہ اللہ سے شعبان سن 1412ھ جدہ میں ایک آڈیو کیسٹ میں پوچھا گیا کہ : کیا مردوں اور عورتوں کے حکمران وحکومت مخالف مظاہرات (احتجاجی جلسے جلوس، ریلیاں، مارچ ودھرنے وغیرہ) بھی دعوتی وسائل میں سے ایک وسیلہ شمار ہوں گے؟ اور کیا اس مظاہرے میں مرنے والے فی سبیل اللہ شہید کہلائے جائیں گے؟
آپ رحمہ اللہ نے یہ جواب ارشاد فرمایا:
میں ان مردوزن کے مظاہرات کو مسئلے کا علاج نہیں سمجھتا بلکہ میرے خیال میں تو یہ اسباب شروفتن اور لوگوں کے آپس میں بغض وعداوت اور ایک دوسرے پر زیادتی کا سبب ہیں۔ جبکہ شرعی اسباب تو خط لکھنا، نصیحت کرنا اور ان شرعی طریقوں کو بروئے کار لاکر خیر کی جانب دعوت دینا جن کی اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورخیر کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والے اہل علم نے تشریح فرمائی ہے کہ خط لکھا جائے یا حاکم، امیر وسلطان سے بالمشافہ بات کی جائے، یا ٹیلی فون کے ذریعہ اسے نصیحت کی جائے، ناکہ منبر پر کھڑے ہوکر اس کی تشہیر کی جائے کہ اس نے یہ کیا اس سے یہ صادر ہوا وغیرہ، واللہ المستعان۔
اور آپ رحمہ اللہ نے عبدالرحمن عبدالخالق (سابق امیر جمعیت احیاء التراث، کویت) پر لکھے گئے ردکے دوران فرمایا:
چھٹی بات یہ کہ آپ نے اپنی کتاب میں ’’فصول من السیاسۃ الشرعیۃ‘‘ (شرعی سیاست سے متعلق فصول) ص 31، 32 میں ذکر کیا کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسالیبِ دعوت میں سے مظاہرات بھی تھے!حالانکہ مجھے اس معنی پر دلالت کرنی والی کوئی دلیل نہیں ملی، امید ہے کہ آپ کسی کے کلام کی جانب ہماری رہنمائی کریں گے یا کس کتاب میں آپ نے ایسا لکھا ہوا پایا ہے؟
بصورت دیگر اگر آپ کے پاس اس بارے میں کوئی مستند نہیں تو آپ پر اس مسئلے سے رجوع کرنا واجب ہے، کیونکہ میں نصوص میں سے کوئی ایسی نص نہیں پاتا جو اس پر دلالت کرتی ہو۔ خاص طور پرجبکہ یہ بات معلوم ہے کہ ان مظاہرات سے بہت سے مفاسد جنم لیتے ہیں بایں صورت اگر واقعی کوئی صحیح دلیل اس بارے میں موجود ہے تو اسے مکمل وضاحت کے ساتھ بیان کرنا ضروری ہے تاکہ کم از کم فسادی لوگ اپنے باطل مظاہرات کی ترویج تو نہ کریں۔
اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ ہمیں اور آپ کو علم نافع اور عمل صالح کی توفیق عنایت فرمائے۔ اور یہ کہ وہ ہمارے دلوں اور اعمال کی اصلاح فرمادے۔ اور ہمیں بھٹکوں کو راہ ہدایت دکھانے والا بنادے۔ بے شک وہ جواد وکریم ہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
(مجموع فتاوی سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ 8/245)
اس خط کے جواب میں عبدالرحمن عبدالخالق کی جانب سے دئے گئے جواب پر شیخ رحمہ اللہ نے مندرجہ ذیل جواب ارسال فرمایا:
عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز کی طرف سے حضرت فرزند مکرم فضیلۃ الشیخ عبدالرحمن بن عبدالخالق کے نام خط:
اللہ تعالی آپ کو اس کام کی توفیق دے جس میں اس کی رضا ہو اور آپ کے ذریعے اپنے دین کی نصرت فرمائے۔ آمین۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، امابعد:
مجھے آپ کا عمدہ جواب موصول ہوا اور اس میں آپ کی جانب سے میری کی گئی وصیت پر موافقت سے بہت خوشی ہوئی۔ اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ آپ کو مزید توفیق عنایت فرمائے اور ہمیں اور آپ کو بھٹکوں کو راہ دکھانے والا بنادے، بے شک وہ جواد وکریم ہے۔
جو حدیث([1]) آپ نے مظاہروں کے حق میں بیان کی ہے وہ ہم سمجھ چکے ہیں لیکن ہمارےعلم کے مطابق اس کی سندضعیف ہے، کیونکہ اس کا دارومدار اسحاق بن ابی فروہ پر ہے جبکہ (اس کے بارے میں علماء جرح وتعدیل کا کلام ہے کہ ) اس سے دلیل نہیں پکڑی جاسکتی۔ اور بالفرض اس روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے تو یہ ابتدائی اسلام اور قبل از ہجرت کی بات ہے جبکہ شریعت ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی۔
حالانکہ یہ بات کسی پر مخفی نہیں کہ امر ونہی اور تمام امور دین میں بعد ازہجرت جب تمام شریعت مقرر ہوگئی تھی کا اعتبار کیا جاتا ہے۔اور جو آپ نے جمعہ وعیدین اور اس جیسے دیگر اجتماعات جن کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو بلایا جیسے سورج گرہن ونماز استسقاء وغیرہ سے دلیل پکڑی ہے تو عرض ہے کہ یہ شعائرِ اسلام کے اظہار کے لئے تھا ان کا مظاہرات سے کوئی تعلق نہیں جیسا کہ کسی پر یہ امر مخفی نہیں۔
اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ مجھے ، آپ کو اور تمام بھائیوں کو مزید علم نافع اور عمل صالح سے بہرہ ور فرمائے۔ اور ہمارے قلوب واعمال کی اصلاح فرمادے۔ اور ہمیں، آپ کو اور تمام مسلمانوں کو
فتنوں کی گمراہیاں اور شیطان کے وساوس سے محفوظ فرمائے۔ بے شک وہ ہی سوال کئے جانے والوں میں سے سب سے بہتر ہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
(مجموع فتاوی سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ 8/246)
[1] مکمل حدیث یہ ہے ابو نعیم نے الحلیۃ (1/40)میں بیان کیا کہ: ’’أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج بعد إسلام عمر – رضي الله عنه – على رأس صفين من أصحابه، وعلى الأول منهما عمر – رضي الله عنه -، وعلى الثاني حمزة – رضي الله عنه – رغبة في إظهار قوة المسلمين، فعلمت قريش أن لهم منعة‘‘ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے بعد اپنے صحابہ کی دوصفوں کی قیادت کرتے ہوئے نکلے پہلی صف کی سربراہی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کررہے تھے جبکہ دوسری کی سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کررہے تھے تاکہ مسلمانوں کی قوت وشوکت کو ظاہر کریں، پس قریش پر ان کی قوت وشوکت کی دھاک بیٹھ گئی کہ اب ہمیں دست درازی اور ایذاء رسانی سے روکنے والے آگئے ہیں)۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[#SalafiUrduDawah Article] #Demonstrations #against_government is not from the #Salafee_Manhaj – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#حکومت_مخالف #مظاہرات #سلفی_طریقہ نہیں
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الجواب الابھر لفؤاد سراج، ص 75۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/demonstrations_salafi_manhaj_nahi.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا مظاہرات بھی شرعی وسائل دعوت میں شمار ہوسکتے ہیں؟
جواب: الحمدللہ رب العالمین وصلی اللہ علی سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم ومن تبعھم باحسان الی یوم الدین، اما بعد:
مظاہرات بلاشبہ ایک نوایجاد امور میں سے ہے،جو کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا عہد خلفائے راشدین یا پھر صحابہ کرام y کے کسی بھی عہد میں معروف نہ تھے۔اس پر مستزاد یہ کہ اس میں جو افراتفری اور دنگا فساد ہوتا ہے وہ بھی اس طریقے کو ممنوع قرار دینے پر دلالت کرتا ہے۔ جیسے اس میں شیشے اور دروازےوغیرہ توڑے جاتے ہیں، اور اس میں مردوزن، نوجوانوں اور بوڑھوں کا اختلاط ہوتا ہے اور اس جیسے دیگر مفاسد ومنکرات پائے جاتے ہیں۔ اب جہاں تک مسئلہ ہے حکومت پر دباؤ ڈالنے کا : اگر تو وہ حکومت مسلمان ہے تو اس کے لئے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ e ہی کافی ووافی واعظ ہے۔ یہ تو وہ بہترین چیز ہے کہ جو ایک مسلمان پر پیش کی جاسکتی ہے۔
لیکن اگر وہ حکومت کافر ہے تو اسے ان مظاہرین کی چنداں پرواہ نہیں اورہوسکتا ہے انہیں محض ٹالنے کے لئے بظاہر رضامندی کا اظہار کردے اور دل میں وہ جس شر پر قائم تھا اسی پر قائم رہے۔یہی وجوہات ہیں کہ جس کی بنا پر ہم ان مظاہرات کو منکرات میں شمار کرتے ہیں۔ البتہ ان لوگوں کا یہ دعویٰ کہ یہ مظاہرے پر امن ہوتے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے یہ مظاہرات ابتداء میں پرامن شروع ہوتے ہوں لیکن آخرکار تخریب کاری پر ہی منتج ہوتے ہیں (جیسا کہ امر واقع اس پر شاہد ہے)۔ آخر میں میری نوجوانوں کو نصیحت ہے کہ وہ سلف کے طریقے کی پیروی کریں کیونکہ اللہ تعالی نے مہاجرین وانصار اور جو کوئی بھی بطورِ احسن ان کے نقش قدم پر چلے ان سب کی تعریف وتوصیف بیان کی ہے۔
[#SalafiUrduDawah Article] #Muslims are being killed everywhere and you people always speak on #Tawheed? - Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan

#مسلمان ہر جگہ مررہے ہيں اور آپ بس #توحید توحید کرتے رہتے ہیں؟

فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ

(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: دروس من القرآن الكريم (الدرس الأول، التوحيد فى القرآن الكريم)۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/musalman_mar_rahay_hain_aur_aap_tawheed_krte_rehte_hain.pdf

توحید کی اہمیت اور اس سے روگردانی کرنے کا انجام

کہنے والا کہہ سکتا ہے بلکہ کہا بھی جاتا ہے کہ آپ لوگوں کا کیا مسئلہ ہے جب دیکھو توحید کا اہتمام کرتے رہتے ہو اور اس پر بہت زیادہ کلام کرتے ہو؟! اور موجودہ دور میں جو مسلمانوں کے مسائل ہيں ان پر توجہ نہيں دیتے، کہ وہ ہر طرف مارے جارہے ہيں اور بے گھر کیے جارہے ہیں، اور ہر طرف سے کفار ممالک ان کے درپے ہيں۔

اللہ کی توفیق سے ہم یہ جواب دیتے ہيں کہ:

توحید ہی وہ بنیاد ہے جس پر ملت حنیفیت قائم ہے، لہذا اس کا اہتمام کرنا دراصل اصل اصول، جڑ وبنیاد کا اہتمام کرنا ہے۔ اور اگر آپ قرآن کریم پر غور وتدبر کریں گے تو پائیں گے کہ بلاشبہ اس نے بہت کھول کھول کر مکمل طرح سے توحید کو بیان کیا ہے یہاں تک کہ قرآن کی سورتوں میں سے کوئی سورۃ بھی ایسی نہیں جس میں توحید کی بات نہ کی گئی ہو، اور اس کا بیان و وضاحت اور ساتھ ساتھ اس کی ضد (یعنی شرک) سے منع نہ کیا گیا ہو۔

امام ابن القیم رحمہ اللہ نے یہ بات مقرر فرمائی کہ:

"قرآن پورے کا پورا ہی توحید ہے، کیونکہ یا تو اس میں خبریں ہيں اللہ تعالی کے اسماء وصفات کے تعلق سے ، اور یہ توحید علمی ہے جو کہ توحید ربوبیت ہے، یا پھر ایک اللہ کی بلاشرکت عبادت کا حکم ہے اور شرک سے منع کیا گیا ہے، اور یہ توحید عملی وطلبی ہے جو کہ توحید الوہیت ہے، یا پھر اللہ تعالی کی اور اس کے رسو لﷺ کی اطاعت کا حکم ہے اور اللہ تعالی کی اور اس کے رسول ﷺ کی معصیت سے منع کیا گیا ہے ، اور یہ توحید کے حقوق اور اس کی تکمیل میں سے ہے۔

یا خبر ہے اس کی جو کچھ اللہ تعالی نے توحید پرستوں کے لیے دنیا وآخرت میں نعمتیں، فوز وفلاح، نجات ونصرت عطاء فرمائیں ہيں، یا پھر خبر ہے جو کچھ مشرکین کو عبرتناک انجام سے دنیا وآخرت میں شکار ہونا پڑا، یا پھر خبر ہے جو کچھ مشرکین کو اس دنیا میں عبرتناک انجام کا سامنا ہوا اور جو کچھ آخرت میں ان کے لیے دائمی وابدی، ہمیشہ ہمیش کا عذاب جہنم تیار ہے۔ یہ (خیر) اس کے لیے جو توحید کا حق ادا کرے اور (یہ عذاب) اس کے لیے جو توحید سے لاپرواہی برتے"([1])۔

چناچہ قرآن سارے کا سارا توحید کے گرد ہی گردش کرتا ہے۔ اورآپ اگر مکی سورتو ں پر غوروفکر کریں گے تو پائیں گے کہ ان میں غالباً توحید کا ہی ذکر ہوتا ہے۔ کیونکہ نبی اکرم ﷺ مکہ میں تیرہ برس رہے اور توحید کی جانب دعوت دیتے اور شرک سے روکتے رہے۔ زیادہ تر فرائض جیسے زکوٰۃ، روزے اور حج اور اس کے علاہ دیگر حلال وحرام کے امور، اور معاملات وغیرہ آپ ﷺ پر نازل نہیں ہوئے مگر مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد، سوائے نماز کے، وہ آپ ﷺ پر شب معراج میں فرض ہوئی کہ جب آپ ﷺ کو اسراء ومعراج ہوئی تھی([2])، لیکن یہ بھی ہجرت سے کچھ عرصہ قبل ہی ہوا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ مکی سورتیں جو نبی کریم ﷺ پر قبل از ہجرت نازل ہوئیں میں غالباً توحید کے مسائل پر ہی بات ہوتی ہے، جو اس کی اہمیت پر دلالت کرتی ہے۔ اور دیگر فرائض نازل نہيں ہوئے مگر توحید کے مقرر ہوجانے ،دلوں میں راسخ ہوجانے اور صحیح عقیدے کے ظاہر اور واضح ہوجانے کے بعد ہی، کیونکہ اعمال بغیر توحید کے صحیح نہیں ہوسکتے، اور نہیں قائم ہوسکتے مگر توحید ہی کی بنیاد پر۔

قرآن نے یہ بات واضح کی ہے کہ جتنے بھی رسول علیہم الصلاۃ والسلام تھے انہوں نے اپنے دعوت میں تمام چیزوں سے پہلے توحیدہی سے شروع فرمایا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ﴾ (النحل: 36)

(اور بلاشبہ یقینا ًہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو)

اور فرمایا:

﴿وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ﴾ (الانبیاء: 25)

(اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہی وحی فرمائی کہ بےشک حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبودبرحق نہیں، سو میری ہی عبادت کرو)

اور ہر نبی اپنی قوم کو کہتا:

﴿يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ ﴾ (الاعراف: 59)

(اے میری قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود ہونے کے لائق نہیں)

یہ تھی رسولوں کی ذمہ داری، کہ سب سے پہلے توحید سے
ابتداء۔

اسی طرح سے جو ان رسولوں کی پیروی کرنے والے ہيں داعیان ومصلحین، وہ بھی سب سے پہلے توحید کااہتمام کرتے ہيں، کیونکہ جو بھی دعوت توحید پر قائم نہ ہو تو وہ شکست خوردہ دعوت ہے، اپنے اہداف حاصل نہيں کرسکتی، اور اس کا کوئی نتیجہ نہ ہوگا۔ ہر وہ دعوت جو توحید کی شان گھٹاتی ہے اس کا اہتمام نہیں کرتی، تو وہ اپنے نتیجے میں خسارہ ہی خسارہ پانے والی ہے۔ یہ بات تو جانی پہچانی ہے او ردیکھی بھی گئی ہے۔

او رہر دعوت جو توحید پر مرکوز ہو تو وہ باذن اللہ کامیاب ہوتی ہے، اپنا پھل دیتی ہے اور معاشرے کو فائدہ پہنچاتی ہے، جیسا کہ تاریخی واقعات میں بھی یہ بات معروف ہے۔

اور ہم مسلمانوں کے مسائل سے لاپرواہ نہيں ہیں بلکہ اس کا اہتمام کرتے ہيں، ان کی نصرت کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہيں اور ہر ذریعہ استعمال کرتےہیں کہ ان پر سے تکلیف دور ہو ، ہم پر یہ بات سہل وآسان نہیں کہ ہم مسلمانوں کو قتل ہوتے بے گھر ہوتے دیکھ سکیں، لیکن مسلمانوں کے مسائل کے اہتمام کرنےکا یہ معنی نہيں کہ ہم بس روتے اور رلاتے رہیں، اور پوری دنیا کو اپنی باتوں اور تحریروں سے بس بھر دیں، اور بس چیخنا چلانا ہو! کیونکہ یہ سب کرنے کا کوئی فائدہ نہيں ہے۔

مگر ہاں جو صحیح علاج ہے مسلمانوں کے مسائل کا، وہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ہم ان اسباب کو تلاش کریں کہ جن کی وجہ سےان اذیتوں میں مسلمان مبتلا ہوئے ہيں، اور ان پر ان کے دشمن مسلط ہوگئے ہیں۔

دشمنوں کے مسلمانوں پر مسلط ہونے کا کیا سبب ہے؟

جب ہم عالم اسلامی پر نظر ڈالتے ہيں تو اکثر ان لوگوں میں جو اسلام کی طرف منسوب ہوتے ہيں اسلام سے تمسک (مضبوطی سے اس پرچلنا) نہيں پاتے، الا من رحم اللہ۔ وہ تو بس نام کے مسلمان ہیں، اکثر کے یہاں عقیدہ برباد ہے: غیراللہ کی عبادت کرتے ہیں، اولیاء وصالحین اور قبروں ومزاروں سے عقیدت و لَو لگاتے ہيں، نماز قائم نہيں کرتے، زکوٰۃ ادا نہیں کرتے، روزے نہیں رکھتے، اس چیز کو ادا نہيں کرتے جو اللہ تعالی نے ان پر واجب قرار دی ہے، انہی چیزوں میں سے کافروں کے خلاف جہاد کی قوت تیار کرنا بھی ہے!! یہ تو حال ہے بہت سے ان لوگوں کا جو اسلام کی طرف منسوب ہوتے ہیں، اپنا دین ضائع کردیا ہے پس اللہ تعالی نے بھی انہیں ضائع ہونے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔

اور سب سے اہم سبب جس کی وجہ سے ان پر یہ سزائیں مسلط ہیں توحید سے لاپرواہی برتنا ہے، اور شرک اکبر میں ملوث ہونا ہے، اس سے نہ روکنا اور اس پر نکیر نہ کرنا ہے! جو ان میں سے یہ (شرک) نہیں بھی کرتا تو بھی وہ اس کا انکار نہيں کرتا، بلکہ اسے شرک ہی شمار نہيں کرتا۔ جس کا بیان آگے اس کتاب میں ان شاء اللہ آئے گا([3])۔ پس یہ وہ اہم اسباب ہیں جس کی وجہ سے مسلمانوں پر یہ عقوبتیں اور سزائیں مسلط ہيں۔

اگر وہ اپنے دین سے سچا تمسک اختیار کرتے ، اپنی توحید اور اپنے عقیدے کو کتاب وسنت پر قائم کرتے، اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لیتے اور تفرقہ نہ کرتے، تو کبھی بھی ان حالات سے دوچار نہ ہوتے جس کا آج انہيں سامنا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿وَلَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ، اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ۭ وَلِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ) (الحج: 40-41)

(اور یقینا ًاللہ تعالی ضرور اس کی نصرت فرمائے گا جو اس کی مدد کرے گا، بےشک اللہ تعالی یقینا ًبہت قوت والا، سب پر غالب ہے۔وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ اداکریں گے،اور اچھے کام کا حکم دیں گے اور برے کام سے روکیں گے، اور تمام کاموں کا انجام اللہ تعالی ہی کے اختیار میں ہے)

پس یہاں واضح فرمادیا کہ مسلمانوں کو نصرت نہیں مل سکتی سوائے ان باتوں پر توجہ مرکوز کرنے سے جس کا اللہ تعالی نے ذکر فرمایا ہے، اور وہ ہیں: نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا۔

تو مسلمانوں کی موجودہ حالت میں یہ امور کہاں پائے جاتے ہیں؟ بہت سے اسلام کے دعویداروں میں نماز کہاں ہے؟!

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا﴾

(النور: 55)

(اللہ تعالی نے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اور صالح اعمال کیے، وعدہ فرمایا ہے کہ وہ انہیں زمین میں ضرور بالضرور خلافت واقتدار دے گا، جس طرح ان لوگوں کو خلافت واقتدار دیا تھا جو ان سے پہلے تھے، اور ان کے لیے ان کے اس دین کو ضرور بالضرور غلبہ دے گا جسے اس نے ان کے لیے پسند فرمایا ہے، اور ضرور بالضرور انہیں
ان کے خوف کے بعد بدل کرامن دے گا۔( لیکن اس وعدے کی شرط کہاں ہے؟) وہ میری ہی عبادت کریں گے، میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں گے)

پس واضح فرمادیا کہ یہ خلافت کے ملنےاور زمین پر غلبے کے ملنے کا وعدہ پورا نہیں ہوسکتا جب تک اس کی مذکورہ شرط کو پورا نہ کیا جائے اور وہ ہے اس اکیلے کی بلاشرکت عبادت، اور یہی توحید ہے۔ یہ خیر وبھلائی والے وعدے اس وقت تک حاصل نہيں ہوسکتے جب تک توحید کا حق ایک اللہ کی بلاشرکت عبادت کے ذریعے ادا نہ کیا جائے۔ اور اللہ کی عبادت میں نماز، روزہ، زکوٰۃ وحج اور تمام اطاعت پر مبنی کام داخل ہیں۔

اللہ تعالی نے صرف یہ نہیں فرمایا کہ میری عبادت کرو بلکہ اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ:

﴿لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا﴾

(میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں گے)

کیونکہ بلاشبہ عبادت شرک کی موجودگی میں کوئی نفع نہیں دیتی، بلکہ لازم ہے کہ شرک سے ضرور اجتناب ہو خواہ وہ کسی بھی قسم کا شرک ہو، کسی بھی شکل میں ہو، اس کا کوئی بھی نام ہو، اس کی تعریف بہرحال یہی ہے کہ:

"عبادت میں سے کسی چیز کا غیر اللہ کے لیے ادا کرنا"۔

یہ ہے نجات، سلامتی، نصرت اور زمین پر غلبے کا سبب۔ عقیدے کی اصلاح اور عمل کی اصلاح۔ اس کے سوا یہ تمام عقوبتیں، بحران اور عبرتناک انجام اسی پر مسلط ہوتا ہے جو ان چیزوں میں کوتاہی کا مرتکب ہوا ہے جسے اللہ تعالی نے بطور شرط قائم کرنےکا حکم دیا ہے، چناچہ اس بحران اوراس دشمنوں کے تسلط کا سبب یہی مسلمانوں کا محض اسلام کے نام پر اکتفاء کرکے بیٹھ جانا جبکہ اس شرط میں کوتاہی برتنا اور اپنے عقیدے ودین کے بارے میں تفریط کا شکار ہونا ہے۔



[1] دیکھیں: مدارج السالکین للامام ابن القیم رحمہ اللہ 3/468 کچھ ترمیم کے ساتھ۔



[2] جیسا کہ الاسراء سے متعلق متواتر حدیث میں ہے ، اور اس کی آحاد حدیث میں سے متفق علیہ حدیث بھی ہے جو انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے صحیح بخاری، کتاب التوحید، باب 37، رقم 7517، 13/583، ومسلم: کتاب الایمان، باب 74، رقم 162 میں۔



[3] اس کے ترجمے کے لیے ہمارا دوسرا مقالہ پڑھیں: "اہل کلام اور فلاسفہ کی توحید"۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)