کافر کو اپنی قربانی کے گوشت میں سے بطور صدقہ دے بشرطیکہ وہ کافر مسلمانوں سے قتال وجنگ کرنے والوں میں سے نہ ہو، پس اگروہ ان میں سے ہو جو مسلمانوں سے قتال کرتے ہیں تواسے کچھ بھی نہيں دیا جائے گا، کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
﴿لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ، اِنَّمَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ قٰتَلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَاَخْرَجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ وَظٰهَرُوْا عَلٰٓي اِخْرَاجِكُمْ اَنْ تَوَلَّوْهُمْ ۚ وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾ (الممتحنۃ: 8-9)
(اللہ تمہیں ان لوگوں سے منع نہیں کرتا جنہوں نے نہ تم سے دین کے بارے میں جنگ کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا کہ تم ان سے نیک سلوک کرو اور ان کے حق میں انصاف کرو، یقیناً اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے، اللہ تو تمہیں بس انہی لوگوں سے منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی کہ تم ان سے محبت ودوستی کرو ۔ اور جو ان سے محبت ودوستی کرتے ہیں وہی لوگ ظالم ہیں)
انسان کا اپنی قربانی سے افطار کرنا بالکل جائز ہے، جب وہ عید کی نماز پڑھ لے اور اپنی قربانی کو ذبح کرلے، اور کسی دوسری چیز کو کھانے سے پہلے اس میں سے کھائے تو کوئی حرج نہیں، بلکہ علماء فرماتے ہیں کہ یہ افضل ہے۔
(مجموع فتاوى ورسائل العثيمين ج 25 ص 133)
[1] صحیح ترمذی 1943۔
[2] المغنی 9/450۔
﴿لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ، اِنَّمَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ قٰتَلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَاَخْرَجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ وَظٰهَرُوْا عَلٰٓي اِخْرَاجِكُمْ اَنْ تَوَلَّوْهُمْ ۚ وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾ (الممتحنۃ: 8-9)
(اللہ تمہیں ان لوگوں سے منع نہیں کرتا جنہوں نے نہ تم سے دین کے بارے میں جنگ کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا کہ تم ان سے نیک سلوک کرو اور ان کے حق میں انصاف کرو، یقیناً اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے، اللہ تو تمہیں بس انہی لوگوں سے منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی کہ تم ان سے محبت ودوستی کرو ۔ اور جو ان سے محبت ودوستی کرتے ہیں وہی لوگ ظالم ہیں)
انسان کا اپنی قربانی سے افطار کرنا بالکل جائز ہے، جب وہ عید کی نماز پڑھ لے اور اپنی قربانی کو ذبح کرلے، اور کسی دوسری چیز کو کھانے سے پہلے اس میں سے کھائے تو کوئی حرج نہیں، بلکہ علماء فرماتے ہیں کہ یہ افضل ہے۔
(مجموع فتاوى ورسائل العثيمين ج 25 ص 133)
[1] صحیح ترمذی 1943۔
[2] المغنی 9/450۔
[#SalafiUrduDawah Article] For how many days animals can be #slaughtered in #Eid_ul_Adha? – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#قربانی_کتنے_دن تک کی جاسکتی ہے؟
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب أحكام الاضحية والزكاة ، الفصل الثاني في وقت الأضحية سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/09/qurabani_kitne_din.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۔۔۔قربانی کا وقت ایامِ تشریق کے آخری دن کا سورج غروب ہونے پر ختم ہوجاتا ہے جوکہ ذوالحج کی تیرہویں (13) تاریخ بنتی ہے۔ چناچہ ذبح کے چار دن ہیں: یوم العید، گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں تاریخ اور راتوں کے اعتبار سے تین راتیں: گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں کی رات۔
یہی اہل علم کے اقوال میں سےراجح قول ہے۔ اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی دو روایتوں میں سے ایک کے مطابق وہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہی مذہب اہل بصرہ کے امام حسن بصری کا ہے، اہل شام کے امام الاوزاعی کا ہے اور فقہاء اہل حدیث کے امام الشافعی کا ہے، اور اسے ہی ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہم نے اختیار فرمایا ہے۔
میں (ابن عثیمین) یہ کہتا ہوں: اسے ہی شیخ الاسلام تقی الدین بن تیمیہ رحمہ اللہ نے اختیار فرمایا ہے اور ظاہرا ًامام ابن القیم رحمہ اللہ کی بھی یہی ترجیح ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿لِيَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰي مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ﴾ (الحج: 28)
(تاکہ وہ اپنے فائدے حاصل کرنے کو آجائیں اور ان’’اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ‘‘میں اللہ کا نام لیں ان پالتو چوپایوں پر جو اس نے انہيں دیے ہیں)([1])
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’الأيام المعلومات: يوم النحر، وثلاثة أيام بعده‘‘([2])
(ایام معلومات سے مراد یوم النحر اور اس کے بعد کے تین ایام ہیں)۔
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’كُلُّ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ذَبْحٌ‘‘ اسے احمد، بیہقی نے اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت فرمایا ہے([3])۔
(تمام ایام تشریق ذبح کے ایام ہیں)۔
اور اس میں اگرچہ انقطاع کی علت ہے لیکن اس کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے ہوتی ہے کہ:
’’أَيَّامُ التَّشْرِيقِ أَيَّامُ أَكْلٍ، وَشُرْبٍ، وَذِكْرِ اللَّهِ‘‘ اسے مسلم نے روایت فرمایا ہے([4])۔
(ایام تشریق کھانے پینے اور ذکر اللہ کے ایام ہیں)۔
پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام ایام کو ایک ہی باب میں رکھا ہے کہ یہ سب ایامِ ذکر اللہ ہیں۔ چوپایوں پر ذکر میں ذکر ِمطلق اور مقید دونوں شامل ہیں۔ کیونکہ یہ ایام تمام احکام میں مشترک ہیں سوائے جس میں محل نزاع پایا جاتا ہے۔ یہ سب کے سب ایامِ منیٰ ہیں، ایام ِرمی جمار ہیں، ایامِ ذکر اللہ ہیں اور ان میں روزہ رکھنا حرام ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ اس میں سے ذبح کو خارج کردیا جائے اور اسے محض ابتدائی دو ایام تک مخصوص کردیا جائے؟۔
[1] ان پر اللہ کا نام ذکر کریں میں دونوں شامل ہیں ان کے ذبح کے وقت اور ان کے کھانے کے وقت۔ (الشیخ)
[2] رواه ابن حاتم في تفسيره (8/2489)۔
[3] رواه أحمد (4/82) والبيهقي (9/256)، وابن حبان (9/166) اور شیخ البانی السلسلة الصحيحة2476 میں فرماتے ہیں: ’’لا ينزل عن درجة الحسن بالشواهد‘‘۔
[4] رواه مسلم، كتاب الصيام/ باب تحريم صوم أيام التشريق، رقم (1141)۔
#قربانی_کتنے_دن تک کی جاسکتی ہے؟
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب أحكام الاضحية والزكاة ، الفصل الثاني في وقت الأضحية سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/09/qurabani_kitne_din.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۔۔۔قربانی کا وقت ایامِ تشریق کے آخری دن کا سورج غروب ہونے پر ختم ہوجاتا ہے جوکہ ذوالحج کی تیرہویں (13) تاریخ بنتی ہے۔ چناچہ ذبح کے چار دن ہیں: یوم العید، گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں تاریخ اور راتوں کے اعتبار سے تین راتیں: گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں کی رات۔
یہی اہل علم کے اقوال میں سےراجح قول ہے۔ اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی دو روایتوں میں سے ایک کے مطابق وہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہی مذہب اہل بصرہ کے امام حسن بصری کا ہے، اہل شام کے امام الاوزاعی کا ہے اور فقہاء اہل حدیث کے امام الشافعی کا ہے، اور اسے ہی ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہم نے اختیار فرمایا ہے۔
میں (ابن عثیمین) یہ کہتا ہوں: اسے ہی شیخ الاسلام تقی الدین بن تیمیہ رحمہ اللہ نے اختیار فرمایا ہے اور ظاہرا ًامام ابن القیم رحمہ اللہ کی بھی یہی ترجیح ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿لِيَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰي مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ﴾ (الحج: 28)
(تاکہ وہ اپنے فائدے حاصل کرنے کو آجائیں اور ان’’اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ‘‘میں اللہ کا نام لیں ان پالتو چوپایوں پر جو اس نے انہيں دیے ہیں)([1])
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’الأيام المعلومات: يوم النحر، وثلاثة أيام بعده‘‘([2])
(ایام معلومات سے مراد یوم النحر اور اس کے بعد کے تین ایام ہیں)۔
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’كُلُّ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ذَبْحٌ‘‘ اسے احمد، بیہقی نے اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت فرمایا ہے([3])۔
(تمام ایام تشریق ذبح کے ایام ہیں)۔
اور اس میں اگرچہ انقطاع کی علت ہے لیکن اس کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے ہوتی ہے کہ:
’’أَيَّامُ التَّشْرِيقِ أَيَّامُ أَكْلٍ، وَشُرْبٍ، وَذِكْرِ اللَّهِ‘‘ اسے مسلم نے روایت فرمایا ہے([4])۔
(ایام تشریق کھانے پینے اور ذکر اللہ کے ایام ہیں)۔
پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام ایام کو ایک ہی باب میں رکھا ہے کہ یہ سب ایامِ ذکر اللہ ہیں۔ چوپایوں پر ذکر میں ذکر ِمطلق اور مقید دونوں شامل ہیں۔ کیونکہ یہ ایام تمام احکام میں مشترک ہیں سوائے جس میں محل نزاع پایا جاتا ہے۔ یہ سب کے سب ایامِ منیٰ ہیں، ایام ِرمی جمار ہیں، ایامِ ذکر اللہ ہیں اور ان میں روزہ رکھنا حرام ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ اس میں سے ذبح کو خارج کردیا جائے اور اسے محض ابتدائی دو ایام تک مخصوص کردیا جائے؟۔
[1] ان پر اللہ کا نام ذکر کریں میں دونوں شامل ہیں ان کے ذبح کے وقت اور ان کے کھانے کے وقت۔ (الشیخ)
[2] رواه ابن حاتم في تفسيره (8/2489)۔
[3] رواه أحمد (4/82) والبيهقي (9/256)، وابن حبان (9/166) اور شیخ البانی السلسلة الصحيحة2476 میں فرماتے ہیں: ’’لا ينزل عن درجة الحسن بالشواهد‘‘۔
[4] رواه مسلم، كتاب الصيام/ باب تحريم صوم أيام التشريق، رقم (1141)۔
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding #staining_one's_forehead_with_the_blood of the #sacrificial_animal – #Fatwaa_Committee, Saudi Arabia
#ذبیحہ_کے_خون کے ساتھ اپنے #ماتھے_کو_خون_آلود_کرنا؟
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة > العقائد > الإيمان > الجماعة والفرقة والفرق > البدع والمحدثات > س4: ما معنى لطخ الجباه بدم الأضحية؛ لأني رأيت بعض المسلمين فاعلين ذلك، فسألتهم معناه فقال لي رجل من علماء البلد: كذلك فعل أصحاب سيدنا إبراهيم عليه السلام حيث ذبح أضحيته فطلبت منه كتاب… فتوی رقم 6667۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/09/zabiha_khoon_matha_rangna.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: قربانی کے ذبیحہ کے خون سے اپنی پیشانی کو خون آلود کرنے کا کیا معنی ہے؟ کیونکہ میں نے بعض مسلمانوں کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے، تو میں نے ان سے دریافت کیا جس پر انہوں نے بتایا کہ ان کے ملک کے کسی عالم نے یہ کہا ہے کہ: اسی طرح سے سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کے صحابہ نے کیا تھا جب انہوں نے اپنا ذبیحہ ذبح فرمایا تھا، تو میں نے ان سے وہ کتاب طلب کی جس میں یہ تاریخ لکھی ہو لیکن مجھے نہ ملی، اور میں ایک طالبعلم ہوں میرے پاس بہت زیادہ کتابیں نہیں تو میں نے یہ مناسب سمجھا کہ آپ سے اس عمل کا معنی ومراد پوچھ لوں؟
جواب: ذبیحہ کے خون سے اپنی پیشانی کو خون آلود کرنے کے عمل کی ہمیں کوئی اصل وبنیاد نہيں معلوم، نہ کتاب سےنہ ہی سنت سے، اور نہ ہی ہم کسی صحابی کو جانتے ہيں کہ انہوں نے ایسا کیا ہو۔ لہذایہ بدعت ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدّ‘‘([1])
(جس کسی نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود(ناقابل قبول) ہے)۔
اور ایک روایت میں ہے کہ:
’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ‘‘([2])
(جس کسی نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں سےنہیں، تو وہ مردود ہے)۔
وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضو عضو نائب رئيس اللجنة الرئيس
عبد الله بن قعود عبد الله بن غديان عبد الرزاق عفيفي عبد العزيز بن عبد الله بن باز
[1]البخاري الصلح (2550) ، مسلم الأقضية (1718) ، أبو داود السنة (4606) ، ابن ماجه المقدمة (14) ، أحمد (6/256).
[2] البخاري الصلح (2550)، مسلم الأقضية (1718)، أبو داود السنة (4606)، ابن ماجه المقدمة (14)، أحمد (6/270).
#ذبیحہ_کے_خون کے ساتھ اپنے #ماتھے_کو_خون_آلود_کرنا؟
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة > العقائد > الإيمان > الجماعة والفرقة والفرق > البدع والمحدثات > س4: ما معنى لطخ الجباه بدم الأضحية؛ لأني رأيت بعض المسلمين فاعلين ذلك، فسألتهم معناه فقال لي رجل من علماء البلد: كذلك فعل أصحاب سيدنا إبراهيم عليه السلام حيث ذبح أضحيته فطلبت منه كتاب… فتوی رقم 6667۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/09/zabiha_khoon_matha_rangna.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: قربانی کے ذبیحہ کے خون سے اپنی پیشانی کو خون آلود کرنے کا کیا معنی ہے؟ کیونکہ میں نے بعض مسلمانوں کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے، تو میں نے ان سے دریافت کیا جس پر انہوں نے بتایا کہ ان کے ملک کے کسی عالم نے یہ کہا ہے کہ: اسی طرح سے سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کے صحابہ نے کیا تھا جب انہوں نے اپنا ذبیحہ ذبح فرمایا تھا، تو میں نے ان سے وہ کتاب طلب کی جس میں یہ تاریخ لکھی ہو لیکن مجھے نہ ملی، اور میں ایک طالبعلم ہوں میرے پاس بہت زیادہ کتابیں نہیں تو میں نے یہ مناسب سمجھا کہ آپ سے اس عمل کا معنی ومراد پوچھ لوں؟
جواب: ذبیحہ کے خون سے اپنی پیشانی کو خون آلود کرنے کے عمل کی ہمیں کوئی اصل وبنیاد نہيں معلوم، نہ کتاب سےنہ ہی سنت سے، اور نہ ہی ہم کسی صحابی کو جانتے ہيں کہ انہوں نے ایسا کیا ہو۔ لہذایہ بدعت ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدّ‘‘([1])
(جس کسی نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود(ناقابل قبول) ہے)۔
اور ایک روایت میں ہے کہ:
’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ‘‘([2])
(جس کسی نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں سےنہیں، تو وہ مردود ہے)۔
وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضو عضو نائب رئيس اللجنة الرئيس
عبد الله بن قعود عبد الله بن غديان عبد الرزاق عفيفي عبد العزيز بن عبد الله بن باز
[1]البخاري الصلح (2550) ، مسلم الأقضية (1718) ، أبو داود السنة (4606) ، ابن ماجه المقدمة (14) ، أحمد (6/256).
[2] البخاري الصلح (2550)، مسلم الأقضية (1718)، أبو داود السنة (4606)، ابن ماجه المقدمة (14)، أحمد (6/270).
[#SalafiUrduDawah Article] The #responsibility_of_the_Muslims towards the #Buddhist_massacre of our brothers in #Burma – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#برما میں #بدھ_متوں کے ہاتھوں ہمارے #مسلم_بھائیوں_کے_قتل_عام
کے بارے میں #ہماری_ذمہ داری
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ سحاب السلفیۃ، مكة 9-8-1433هـ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/06/burma_may_muslims_qatal_aam_ummah_zimmedari.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: احسن اللہ الیکم فضیلۃ الشیخ: ہم آپ سے مسلمانوں کے لیے رہنمائی وتوجیہ پر مبنی کلام چاہتے اس بارے میں کہ فی زمانہ بدھ مت والے برما میں ہمارے مسلمان بھائیوں کا جو قتل عام کررہے ہیں، جو کہ اسی قتل وغارت ونسل کشی کی کڑی ہے جو وہ کئی دہائیوں سے کرتے آرہے ہیں، یہ بات بھی علم میں رہے کہ عالمی میڈیا بھی اس قضیہ کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے؟
الشیخ: یہ مسئلہ صرف برمیوں کے ساتھ خاص نہيں۔ بلکہ کئی علاقوں میں اسلام کو پسپا کیا جارہا ہے۔ کافر ممالک اب مسلمانوں پر مسلط ہوچکے ہیں۔ جو نہيں چاہتے کہ ان کا کوئی ملک باقی ہو بلکہ نہيں چاہتے کہ اسلام کا کوئی وجود ہی باقی ہو، جس قدر ان میں استطاعت ہے وہ یہ کرتے ہيں۔ آپ جانتے ہیں کہ اب یہ مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کررہے ہیں، یہ اسےڈیموکریسی کا نام دیتے ہیں؟! ہم پر جبراً اپنامذہب اور اپنا کافرانہ حکم نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ اپنا کفریہ حکم ہم پر نافذ کریں اور اسے نام ڈیموکریسی و سیکولرازم کا دیتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالی کچھ بھی ہو اپنا نور ضرور پورا کرکے رہے گا۔
ہمیں چاہیے کہ دعاء کو لازم پکڑیں اور کثرت کے ساتھ اللہ تعالی کے حضور الحاح وزاری کریں(گڑگڑا کر دعاء کریں) اپنے مسلمانوں بھائیوں کے لیے جہاں کہیں بھی وہ ہوں کہ اللہ تعالی ان کی نصرت فرمائے اور انہیں ان کے دشمن سے نجات بخشے۔ ہمارے ذمے دعاء کرنا ہے فی الحال تو ہم دعاء کے سوا کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے۔ اور جس کےپاس اس سے بڑھ کر کچھ قدرت ہے تو اسے چاہیے وہ اسے استعمال کرے جس قدر ہو([1])۔
[1] اس کے علاوہ علماء مسلمین کی عالمی کمیٹی نے رابطہ العالم الاسلامی میں برما میں ہونے والے مسلمانوں کے قتل عام کا سختی سے نوٹس لیا اور بیان جاری کیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: مسلمان سب آپس میں بھائی ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی جہاں کہیں بھی ہوں مدد کرنی چاہیے۔ ہم برما/میانمار کے علاقے اراکان میں جو روہنگیا مسلمان کے ساتھ قتل وغارت ، جبری ملک بدر کرنے اور گھروں، املاک ومساجد کی تباہی کی جارہی ہے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔اور مسلمان حکومتوں اور تنظیموں پرزور دیا کہ وہ پچھلے پندرہ برسوں سے جاری ان مظالم کے خلاف اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کریں۔ اور نسلی ودینی امتیاز کی اس سیاست کی بھی مذمت کی جو اس امتیازی سلوک کو روا رکھتی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی اپنی ذمہ داری یاد دلوائی کہ وہاں کے شہریوں کو برابر انسانی حقوق ملنے چاہیے۔اور رفاہی وخیراتی تنظیموں واداروں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ ان کی بھرپور مدد کریں خواہ وہ برما میں ہوں یا جنہوں نے بنگلہ دیش میں پناہ لے رکھی ہے اور بنگلہ دیشی حکومت سے اپیل کی کہ وہ اپنی سرحدوں کو اسلامی اخوت وبھائی چارے کی خاطر ان لوگوں پر بند نہ کرے۔ اور تمام اسلامی ممالک سے عموماً اور خلیجی مجلس تعاون کے ممالک سے خصوصاً اپیل کی کہ وہ بنگلہ دیش کا اس میں ساتھ دیں تاکہ وہ اس ذمہ داری سے بخوبی سبگدوش ہوسکیں۔ (تاریخ هـ 1433 / 8 / 7 الموافق :": م 2012 / 6 / 27)۔
#برما میں #بدھ_متوں کے ہاتھوں ہمارے #مسلم_بھائیوں_کے_قتل_عام
کے بارے میں #ہماری_ذمہ داری
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ سحاب السلفیۃ، مكة 9-8-1433هـ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/06/burma_may_muslims_qatal_aam_ummah_zimmedari.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: احسن اللہ الیکم فضیلۃ الشیخ: ہم آپ سے مسلمانوں کے لیے رہنمائی وتوجیہ پر مبنی کلام چاہتے اس بارے میں کہ فی زمانہ بدھ مت والے برما میں ہمارے مسلمان بھائیوں کا جو قتل عام کررہے ہیں، جو کہ اسی قتل وغارت ونسل کشی کی کڑی ہے جو وہ کئی دہائیوں سے کرتے آرہے ہیں، یہ بات بھی علم میں رہے کہ عالمی میڈیا بھی اس قضیہ کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے؟
الشیخ: یہ مسئلہ صرف برمیوں کے ساتھ خاص نہيں۔ بلکہ کئی علاقوں میں اسلام کو پسپا کیا جارہا ہے۔ کافر ممالک اب مسلمانوں پر مسلط ہوچکے ہیں۔ جو نہيں چاہتے کہ ان کا کوئی ملک باقی ہو بلکہ نہيں چاہتے کہ اسلام کا کوئی وجود ہی باقی ہو، جس قدر ان میں استطاعت ہے وہ یہ کرتے ہيں۔ آپ جانتے ہیں کہ اب یہ مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کررہے ہیں، یہ اسےڈیموکریسی کا نام دیتے ہیں؟! ہم پر جبراً اپنامذہب اور اپنا کافرانہ حکم نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ اپنا کفریہ حکم ہم پر نافذ کریں اور اسے نام ڈیموکریسی و سیکولرازم کا دیتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالی کچھ بھی ہو اپنا نور ضرور پورا کرکے رہے گا۔
ہمیں چاہیے کہ دعاء کو لازم پکڑیں اور کثرت کے ساتھ اللہ تعالی کے حضور الحاح وزاری کریں(گڑگڑا کر دعاء کریں) اپنے مسلمانوں بھائیوں کے لیے جہاں کہیں بھی وہ ہوں کہ اللہ تعالی ان کی نصرت فرمائے اور انہیں ان کے دشمن سے نجات بخشے۔ ہمارے ذمے دعاء کرنا ہے فی الحال تو ہم دعاء کے سوا کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے۔ اور جس کےپاس اس سے بڑھ کر کچھ قدرت ہے تو اسے چاہیے وہ اسے استعمال کرے جس قدر ہو([1])۔
[1] اس کے علاوہ علماء مسلمین کی عالمی کمیٹی نے رابطہ العالم الاسلامی میں برما میں ہونے والے مسلمانوں کے قتل عام کا سختی سے نوٹس لیا اور بیان جاری کیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: مسلمان سب آپس میں بھائی ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی جہاں کہیں بھی ہوں مدد کرنی چاہیے۔ ہم برما/میانمار کے علاقے اراکان میں جو روہنگیا مسلمان کے ساتھ قتل وغارت ، جبری ملک بدر کرنے اور گھروں، املاک ومساجد کی تباہی کی جارہی ہے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔اور مسلمان حکومتوں اور تنظیموں پرزور دیا کہ وہ پچھلے پندرہ برسوں سے جاری ان مظالم کے خلاف اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کریں۔ اور نسلی ودینی امتیاز کی اس سیاست کی بھی مذمت کی جو اس امتیازی سلوک کو روا رکھتی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی اپنی ذمہ داری یاد دلوائی کہ وہاں کے شہریوں کو برابر انسانی حقوق ملنے چاہیے۔اور رفاہی وخیراتی تنظیموں واداروں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ ان کی بھرپور مدد کریں خواہ وہ برما میں ہوں یا جنہوں نے بنگلہ دیش میں پناہ لے رکھی ہے اور بنگلہ دیشی حکومت سے اپیل کی کہ وہ اپنی سرحدوں کو اسلامی اخوت وبھائی چارے کی خاطر ان لوگوں پر بند نہ کرے۔ اور تمام اسلامی ممالک سے عموماً اور خلیجی مجلس تعاون کے ممالک سے خصوصاً اپیل کی کہ وہ بنگلہ دیش کا اس میں ساتھ دیں تاکہ وہ اس ذمہ داری سے بخوبی سبگدوش ہوسکیں۔ (تاریخ هـ 1433 / 8 / 7 الموافق :": م 2012 / 6 / 27)۔
[#SalafiUrduDawah Article] Displaying #Muslims_wounds_and_casualties in exhibitions is not allowed – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
فلسطین وغیرہ کے #مسلمان_مقتولین_وزخمیوں کی #تصاویر_وویڈوز_کی_نمائش جائز نہیں
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: تقریر بعنوان : التوحيد مفتاح السعادة في الدنيا والآخرة للشيخ صالح الفوزان بواسطة كتاب الإجابات المهمة في المشاكل الملمة (2/105 )
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/musalman_maqtoleen_ki_tasaweer_videos_numaish.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: بعض ایسی نمائشیں منعقد کی جاتی ہیں جن میں فلسطینی وغیرہ مسلمانوں کے زخموں کو دکھایا جاتا ہے، جو زخمیوں اور مقتولین کی تصاویر ہوتی ہیں اور بعض اوقات ویڈیوز کے ذریعے بھی دکھائے جاتے ہیں، جس کا مقصد مسلمانوں کو اپنے بھائیوں کی امداد پر ابھارنا ہوتا ہے، تو کیا یہ عمل جائز ہے؟
جواب: یہ عمل غیر مناسب ہے۔ جائز نہیں کہ ہم زخمیوں کی تصاویر کی نمائش کریں، لیکن مسلمانوں کو اس بات کی دعوت ضرور دیں کہ وہ اپنے بھائیوں پر صدقہ کریں ، اور انہیں بتائیں کہ ان کے بھائی تنگی میں ہیں اور یہودی ان کے ساتھ جو کچھ کررہے ہیں، مگر بنا تصاویر یا زخمیوں کی نمائش کےکیونکہ :
1- اس میں تصویر کا استعمال ہے۔
2- اس میں ایسا تکلف ہے جس کا اللہ تعالی نے حکم نہیں فرمایا۔
3- اس کی وجہ سے مسلمانوں کی حوصلہ شکنی کرنا بھی ہےکیونکہ اگر آپ لوگوں کے سامنے کسی مسلمان کی مثلہ شدہ لاش یا کٹے ہوئے اعضاء پیش کریں گے تو کافروں کے اس فعل سے مسلمان رعب زدہ اور دہشت زدہ ہوجائیں گے۔
پس جو چیز واجب ہے وہ یہ کہ مسلمان اپنی کمزوری، جانی نقصان یا یہ جو کچھ دکھایا جاتا ہے ظاہر نہ کریں بلکہ اسے مخفی رکھیں تاکہ مسلمانوں کی قوت اورشان وشوکت کو کمزور ثابت کرنے کا باعث نہ بنیں۔
فلسطین وغیرہ کے #مسلمان_مقتولین_وزخمیوں کی #تصاویر_وویڈوز_کی_نمائش جائز نہیں
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: تقریر بعنوان : التوحيد مفتاح السعادة في الدنيا والآخرة للشيخ صالح الفوزان بواسطة كتاب الإجابات المهمة في المشاكل الملمة (2/105 )
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/musalman_maqtoleen_ki_tasaweer_videos_numaish.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: بعض ایسی نمائشیں منعقد کی جاتی ہیں جن میں فلسطینی وغیرہ مسلمانوں کے زخموں کو دکھایا جاتا ہے، جو زخمیوں اور مقتولین کی تصاویر ہوتی ہیں اور بعض اوقات ویڈیوز کے ذریعے بھی دکھائے جاتے ہیں، جس کا مقصد مسلمانوں کو اپنے بھائیوں کی امداد پر ابھارنا ہوتا ہے، تو کیا یہ عمل جائز ہے؟
جواب: یہ عمل غیر مناسب ہے۔ جائز نہیں کہ ہم زخمیوں کی تصاویر کی نمائش کریں، لیکن مسلمانوں کو اس بات کی دعوت ضرور دیں کہ وہ اپنے بھائیوں پر صدقہ کریں ، اور انہیں بتائیں کہ ان کے بھائی تنگی میں ہیں اور یہودی ان کے ساتھ جو کچھ کررہے ہیں، مگر بنا تصاویر یا زخمیوں کی نمائش کےکیونکہ :
1- اس میں تصویر کا استعمال ہے۔
2- اس میں ایسا تکلف ہے جس کا اللہ تعالی نے حکم نہیں فرمایا۔
3- اس کی وجہ سے مسلمانوں کی حوصلہ شکنی کرنا بھی ہےکیونکہ اگر آپ لوگوں کے سامنے کسی مسلمان کی مثلہ شدہ لاش یا کٹے ہوئے اعضاء پیش کریں گے تو کافروں کے اس فعل سے مسلمان رعب زدہ اور دہشت زدہ ہوجائیں گے۔
پس جو چیز واجب ہے وہ یہ کہ مسلمان اپنی کمزوری، جانی نقصان یا یہ جو کچھ دکھایا جاتا ہے ظاہر نہ کریں بلکہ اسے مخفی رکھیں تاکہ مسلمانوں کی قوت اورشان وشوکت کو کمزور ثابت کرنے کا باعث نہ بنیں۔
#UrduSalafiDawah
تمام مسلمانان عالم کو #توحید_خالص_ڈاٹ_کام کی طرف سے #عید_مبارک
tamam musalmano ko #tawheedekhaalis.com ki traf say #eid_mubarak
تمام مسلمانان عالم کو #توحید_خالص_ڈاٹ_کام کی طرف سے #عید_مبارک
tamam musalmano ko #tawheedekhaalis.com ki traf say #eid_mubarak
[#SalafiUrduDawah Article] #Jamiat #Ihya_ut_Turath is a #Takfeeri #Qutbee organisation which splits and tears apart the ranks of the #Salafees – Shaykh #Abdullaah_Al_Bukharee
#جمعیت #احیاء_التراث ایک #تکفیری #قطبی جماعت ہے جو #سلفیوں میں تفرقہ ڈالتی ہے
فضیلۃ الشیخ #عبداللہ_البخاری رحمہ اللہ
(اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ السنۃ ومصادرھا، کلیہ الحدیث الشریف و الدسارات الاسلامیہ، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: آڈیو کلپ: جمعية احياء التراث جمعية قطبية تكفيرية۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/jamiat_ihya_turath_qutbee_salafees_tafarqa.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بارک اللہ فیکم، دراصل جمعیت احیاء التراث ایک حزبی قطبی جمعیت ہے جو عرصۂ دراز سے موجود ہے آج کی بات نہیں ہے، اور ان کی مطبوعات انڈونیشیا، ملائشیا، تھائی لینڈ اور دیگر کچھ ممالک میں پھیلی ہوئی ہيں، جن پر ان کا باقاعدہ لوگو ہوتا ہے۔ جی ہاں! سید قطب کی کتابیں "معالم في الطَّريق"وغیرہ، ان ممالک کی زبانوں میں تقسیم کی جاتی ہیں، پھر ہم کہیں کہ یہ سلفیت ہے!
یہ سب کچھ موجود ہے اور وہ خود اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں، او ربعض وہ لوگ بھی جو ان کا دفاع کیا کرتے تھے اقرار کرتے ہیں کہ یہ کتابیں اور مطبوعات واقعی موجود ہیں۔
ان کا مکمل سروکار اسی بنیاد پر ہوتا ہےکہ کسی طرح سلفیوں میں تفرقہ ڈالا جائے دنیا کے کسی بھی علاقے میں کیوں نہ ہوں!
دنیا میں کوئی بھی جگہ ہو ان کا کام بس سلفیوں میں تفرقہ ڈالنا ہے۔ جب انہیں پتہ چل جائے کہ کہیں سلفی مجتمع ہیں ان شاء اللہ تو وہاں پہنچ جاتے ہیں خواہ بحر ہند ہو یا بحر الکاہل یا اوقیانوس، کوئی بھی جگہ ہو یہ اہل سنت سلفیوں میں ایک تیر کی مانند گھس جاتے ہیں۔
اب یا تو انہیں اپنے جیسا بنا کر اپنی چھتری تلے سب کو جمع کردیتے ہیں، پس وہ انہی کے منہج پر گامزن ہوجاتے ہیں۔ یا پھر ان میں پھوٹ ڈال دیتے ہیں اور تفرقہ بازی کی آگ کو ہوا دیتے ہیں۔
جب انہوں نے شیخ مقبل رحمہ اللہ کا ارادہ کیا تو وہ انہیں اپنے دامن فریب میں لا کر اپنے اندر ضم نہ کرسکے، چناچہ پھر ان کے طلبہ جن کی شیخ رحمہ اللہ نے کبھی تعریف فرمائی تھی ان کو گھیرنے لگے جیسے عقیل المقطری اور الحاشدی اور فلاں فلاں جو ان کی بعض طلبہ میں سے تھے جن میں سے بعض قطبی بھی تھے تو وہ انہی کے ساتھ ہولیے، ہم اللہ تعالی ہی سے سلامتی اور عافیت کا سوال کرتے ہیں۔
ان کا سارا سروکار ہی سلفیوں میں پھوٹ ڈالنا ہے اسی طرح سے انہوں نے پاکستان کے اہلحدیثوں میں کیا اور ہندوستان وغیرہ میں بھی۔ گویا کہ جس بستی میں داخل ہوتے ہیں اس میں بگاڑ ہی پیدا کردیتے ہيں، اور اس میں بسنے والے سلفیوں میں پھوٹ ڈال دیتے ہیں۔
اللہ کی قسم! اگر آپ مشرق یا مغرب میں جائیں تو یہ ہر جگہ ان کے ساتھ تجربہ رہ چکا ہے۔ اور زیادہ تر یہ لوگ اپنے مال کے ذریعے لوگوں کو خرید لیتے ہيں۔ ہم اللہ تعالی ہی سے سلامتی اور عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ تو ہم انہیں پاتے ہیں کہ ان کے پاس بڑے بڑے مراکز اور عمارتیں ہوتی ہیں جبکہ بیچارے سلفیوں کے پاس کوئی جگہ تک نہیں ہوتی کہ وہ وہاں جمع ہوسکیں۔
#جمعیت #احیاء_التراث ایک #تکفیری #قطبی جماعت ہے جو #سلفیوں میں تفرقہ ڈالتی ہے
فضیلۃ الشیخ #عبداللہ_البخاری رحمہ اللہ
(اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ السنۃ ومصادرھا، کلیہ الحدیث الشریف و الدسارات الاسلامیہ، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: آڈیو کلپ: جمعية احياء التراث جمعية قطبية تكفيرية۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/jamiat_ihya_turath_qutbee_salafees_tafarqa.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بارک اللہ فیکم، دراصل جمعیت احیاء التراث ایک حزبی قطبی جمعیت ہے جو عرصۂ دراز سے موجود ہے آج کی بات نہیں ہے، اور ان کی مطبوعات انڈونیشیا، ملائشیا، تھائی لینڈ اور دیگر کچھ ممالک میں پھیلی ہوئی ہيں، جن پر ان کا باقاعدہ لوگو ہوتا ہے۔ جی ہاں! سید قطب کی کتابیں "معالم في الطَّريق"وغیرہ، ان ممالک کی زبانوں میں تقسیم کی جاتی ہیں، پھر ہم کہیں کہ یہ سلفیت ہے!
یہ سب کچھ موجود ہے اور وہ خود اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں، او ربعض وہ لوگ بھی جو ان کا دفاع کیا کرتے تھے اقرار کرتے ہیں کہ یہ کتابیں اور مطبوعات واقعی موجود ہیں۔
ان کا مکمل سروکار اسی بنیاد پر ہوتا ہےکہ کسی طرح سلفیوں میں تفرقہ ڈالا جائے دنیا کے کسی بھی علاقے میں کیوں نہ ہوں!
دنیا میں کوئی بھی جگہ ہو ان کا کام بس سلفیوں میں تفرقہ ڈالنا ہے۔ جب انہیں پتہ چل جائے کہ کہیں سلفی مجتمع ہیں ان شاء اللہ تو وہاں پہنچ جاتے ہیں خواہ بحر ہند ہو یا بحر الکاہل یا اوقیانوس، کوئی بھی جگہ ہو یہ اہل سنت سلفیوں میں ایک تیر کی مانند گھس جاتے ہیں۔
اب یا تو انہیں اپنے جیسا بنا کر اپنی چھتری تلے سب کو جمع کردیتے ہیں، پس وہ انہی کے منہج پر گامزن ہوجاتے ہیں۔ یا پھر ان میں پھوٹ ڈال دیتے ہیں اور تفرقہ بازی کی آگ کو ہوا دیتے ہیں۔
جب انہوں نے شیخ مقبل رحمہ اللہ کا ارادہ کیا تو وہ انہیں اپنے دامن فریب میں لا کر اپنے اندر ضم نہ کرسکے، چناچہ پھر ان کے طلبہ جن کی شیخ رحمہ اللہ نے کبھی تعریف فرمائی تھی ان کو گھیرنے لگے جیسے عقیل المقطری اور الحاشدی اور فلاں فلاں جو ان کی بعض طلبہ میں سے تھے جن میں سے بعض قطبی بھی تھے تو وہ انہی کے ساتھ ہولیے، ہم اللہ تعالی ہی سے سلامتی اور عافیت کا سوال کرتے ہیں۔
ان کا سارا سروکار ہی سلفیوں میں پھوٹ ڈالنا ہے اسی طرح سے انہوں نے پاکستان کے اہلحدیثوں میں کیا اور ہندوستان وغیرہ میں بھی۔ گویا کہ جس بستی میں داخل ہوتے ہیں اس میں بگاڑ ہی پیدا کردیتے ہيں، اور اس میں بسنے والے سلفیوں میں پھوٹ ڈال دیتے ہیں۔
اللہ کی قسم! اگر آپ مشرق یا مغرب میں جائیں تو یہ ہر جگہ ان کے ساتھ تجربہ رہ چکا ہے۔ اور زیادہ تر یہ لوگ اپنے مال کے ذریعے لوگوں کو خرید لیتے ہيں۔ ہم اللہ تعالی ہی سے سلامتی اور عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ تو ہم انہیں پاتے ہیں کہ ان کے پاس بڑے بڑے مراکز اور عمارتیں ہوتی ہیں جبکہ بیچارے سلفیوں کے پاس کوئی جگہ تک نہیں ہوتی کہ وہ وہاں جمع ہوسکیں۔
[#SalafiUrduDawah Article] #Slaughtering with the intention of #protecting oneself from #afflictions – Various #Ulamaa
#بلاؤں_کو_ٹالنے کے لیے #جان_کے_صدقہ کے طور پر#قربانی کرنا
مختلف #علماء کرام
ترجمہ، جمع وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/05/balaon_ko_talna_qurbani_jan_ka_sadqa.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ایک سوڈانی بھائی کی طرف سے سوال ہے جس میں کہتے ہیں: ہمارے ملک میں ایک عادت پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی شخص جب اپنا گھر بنانا شروع کرتا ہے تو ایک قربانی ذبح کرتا ہے، یا جب وہ نصف مکمل ہوجائے یا پھر اسے مؤخر کرکے عمارت تعمیر ہونے کے بعد کرتا ہے۔ اور جب لوگ اس گھر میں رہائش کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس میں قربانی کرکے دعوت کرتے ہیں جس میں عزیز واقارب وپڑوسیوں کو مدعو کیا جاتا ہے، آپ فضیلۃ الشیخ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟او رکیا کوئی مستحب عمل نئے گھر میں منتقل ہونے سے پہلے مشروع ہے؟ ہمیں استفادہ پہنچائیں جزاکم اللہ خیر الجزاء۔
جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:
اس عمل کے تعلق سے تفصیل ہے۔ اگر اس قربانی سے مقصود جن سے بچاؤ ہو یا کوئی اور مقصد گھر کے مالک کو مقصود ہو کہ اس ذبح کے ذریعے یہ یہ حاصل ہوگا جیسے گھر کی سلامتی یا یہاں رہنے والوں کی سلامتی تو یہ جائز نہیں۔ اور یہ بدعات میں سے ہے۔ اگر یہ جن کے لیے ہو تو شرک اکبر ہے، کیونکہ یہ غیراللہ کی عبادت ہے۔
لیکن اگر یہ شکر کےباب میں سے ہے کہ اللہ تعالی نے اس پر جو نعمت فرمائی ہے کہ اسے اپنی چھت مل گئی یا گھر کی تکمیل کے وقت وہ اپنے عزیز واقارب اور پڑوسیوں کو جمع کرتا ہے اور کھانے کی دعوت کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہيں۔ اور یہ بہت سے لوگ کرتے ہیں اللہ کے نعمتوں پر شکر کرنے کے طور پر کہ اس نے ان پر اپنا احسان فرمایا کہ انہوں نے اپنا گھر تعمیر کرلیا اور اس میں رہنا نصیب ہوا بجائے اس کے کہ وہ کہیں کرایوں پر رہتے۔
اور اسی طرح سے بعض لوگ کرتے ہیں جب وہ سفر سے واپس آتے ہیں کہ وہ اپنے عزیز واقارب اور پڑوسیوں کو دعوت دیتے ہيں اللہ تعالی کی شکرگزاری میں کہ اس نے سلامتی سے سفر کروایا اور واپسی ہوئی۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی جب سفر سے واپس آتے تو ایک اونٹ نحر (ذبح) کرکے لوگوں کی دعوت فرماتے۔
(فتاوی نور علی الدرب 1853، مجموع فتاوى الشيخ ابن باز 5 / 388 )
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ ’’الشرح الممتع على زاد المستقنع – المجلد السابع، باب الهَدي والأُضحية والعقيقة‘‘ میں فرماتے ہیں:
مسئلہ: جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں کہ جب کسی نئے گھر میں شفٹ ہوتے ہیں قربانی ذبح کرتے ہیں اور پڑوسیوں وعزیز واقارب کی دعوت کرتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں اگر اس کے ساتھ کوئی فاسد عقیدہ نہ جڑا ہوا ہو جیسا کہ بعض جگہوں پر کیا جاتا ہے کہ جب وہ کسی نئے گھر میں شفٹ ہوتے ہیں تو سب سے پہلا کام وہ یہ کرتے ہیں کہ ایک بکری لا کر اسے گھر کی دہلیز پر ذبح کرتے ہیں تاکہ اس کا خون وہاں بہے۔ اور کہتے ہیں: یہ جنات کو گھر میں داخل ہونے سے روکتا ہے، پس یہ فاسد عقیدہ ہے جس کی کوئی اصل نہیں، لیکن جو محض خوشی ومسرت میں ایسا کرتا ہے تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں۔
سوال: اس شخص کا کیا حکم ہے جس کے اہل وعیال اسے کہیں: ایک جانور ذبح کرو (قربانی کرو) اور اسے مساکین میں تقسیم کردو بلاؤں کو دور کرنے کے لیے، کیا ایسی نیت کرنا جائز ہے؟
شیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ رحمہ اللہ:
اس بارے میں تفصیل ہے۔ وہ یہ کہ اگر وہ ذبیحہ صدقے کے زاویے سے کرتا ہے، کسی متوقع چیز کو دور کرنے، یا کسی پیش آنے والی چیز کو رفع کرنے کے لیے نہیں، لیکن بس صدقے کے زاویے سے کرتا ہے، اور فقراء کو کھلانے کی نیت سے، تو اس میں کوئی حرج نہیں اور یہ ان عمومی دلائل میں داخل ہے کہ حن میں کھانے کھلانے کی ترغیب دی گئی ہے اور مساکین کو کھلانے کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔
البتہ اگر ذبح کرنا اس لیے ہو کہ گھر والے بیمار ہیں، تو اس لیے ذبح کرنا تاکہ مریض سے وہ تکلیف دور ہوجائے (جان کا صدقہ) تو یہ جائز نہیں بلکہ حرام ہے، سد ذریعہ کے طور پر۔ کیونکہ بہت سے لوگ تب ہی ذبح کرتے ہیں جب کوئی ان پر مرض آپڑے کیونکہ ان کا گمان ہوتا ہے کہ یہ کسی جن کی وجہ سے ہے، یا کسی موذی چیز کی وجہ سے، پس جب وہ ذبیحہ کو ذبح کرتے ہیں اور خون بہاتے ہیں تو اس کا شر دور ہوجاتا ہے یا پھر اس موذی چیز کی وجہ سے جو تکلیف ہے وہ رفع ہوجاتی ہے۔ بلاشبہ اس قسم کا اعتقاد حرام ہے جائز نہیں۔ لہذا جو ذبیحہ کسی مرض کو رفع کرنے یا بطور مریض کے جان کے صدقے کے دیا جاتا ہے اس حال میں علماء کرام فرماتےہیں: یہ حرام ہے جائز نہیں، سد ذریعہ کے طور پر۔
اور شیخ علامہ سعد بن حمد بن عتیق رحمہ اللہ کا اس موضوع پر کہ ’’مریض کے لیے ذبح کرنا ‘‘خاص رسالہ بھی ہے([1])۔
اسی طرح سے اگر ذبح کرنا کسی متوقع تکلیف کو روکنے کے لیے
#بلاؤں_کو_ٹالنے کے لیے #جان_کے_صدقہ کے طور پر#قربانی کرنا
مختلف #علماء کرام
ترجمہ، جمع وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/05/balaon_ko_talna_qurbani_jan_ka_sadqa.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ایک سوڈانی بھائی کی طرف سے سوال ہے جس میں کہتے ہیں: ہمارے ملک میں ایک عادت پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی شخص جب اپنا گھر بنانا شروع کرتا ہے تو ایک قربانی ذبح کرتا ہے، یا جب وہ نصف مکمل ہوجائے یا پھر اسے مؤخر کرکے عمارت تعمیر ہونے کے بعد کرتا ہے۔ اور جب لوگ اس گھر میں رہائش کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس میں قربانی کرکے دعوت کرتے ہیں جس میں عزیز واقارب وپڑوسیوں کو مدعو کیا جاتا ہے، آپ فضیلۃ الشیخ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟او رکیا کوئی مستحب عمل نئے گھر میں منتقل ہونے سے پہلے مشروع ہے؟ ہمیں استفادہ پہنچائیں جزاکم اللہ خیر الجزاء۔
جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:
اس عمل کے تعلق سے تفصیل ہے۔ اگر اس قربانی سے مقصود جن سے بچاؤ ہو یا کوئی اور مقصد گھر کے مالک کو مقصود ہو کہ اس ذبح کے ذریعے یہ یہ حاصل ہوگا جیسے گھر کی سلامتی یا یہاں رہنے والوں کی سلامتی تو یہ جائز نہیں۔ اور یہ بدعات میں سے ہے۔ اگر یہ جن کے لیے ہو تو شرک اکبر ہے، کیونکہ یہ غیراللہ کی عبادت ہے۔
لیکن اگر یہ شکر کےباب میں سے ہے کہ اللہ تعالی نے اس پر جو نعمت فرمائی ہے کہ اسے اپنی چھت مل گئی یا گھر کی تکمیل کے وقت وہ اپنے عزیز واقارب اور پڑوسیوں کو جمع کرتا ہے اور کھانے کی دعوت کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہيں۔ اور یہ بہت سے لوگ کرتے ہیں اللہ کے نعمتوں پر شکر کرنے کے طور پر کہ اس نے ان پر اپنا احسان فرمایا کہ انہوں نے اپنا گھر تعمیر کرلیا اور اس میں رہنا نصیب ہوا بجائے اس کے کہ وہ کہیں کرایوں پر رہتے۔
اور اسی طرح سے بعض لوگ کرتے ہیں جب وہ سفر سے واپس آتے ہیں کہ وہ اپنے عزیز واقارب اور پڑوسیوں کو دعوت دیتے ہيں اللہ تعالی کی شکرگزاری میں کہ اس نے سلامتی سے سفر کروایا اور واپسی ہوئی۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی جب سفر سے واپس آتے تو ایک اونٹ نحر (ذبح) کرکے لوگوں کی دعوت فرماتے۔
(فتاوی نور علی الدرب 1853، مجموع فتاوى الشيخ ابن باز 5 / 388 )
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ ’’الشرح الممتع على زاد المستقنع – المجلد السابع، باب الهَدي والأُضحية والعقيقة‘‘ میں فرماتے ہیں:
مسئلہ: جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں کہ جب کسی نئے گھر میں شفٹ ہوتے ہیں قربانی ذبح کرتے ہیں اور پڑوسیوں وعزیز واقارب کی دعوت کرتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں اگر اس کے ساتھ کوئی فاسد عقیدہ نہ جڑا ہوا ہو جیسا کہ بعض جگہوں پر کیا جاتا ہے کہ جب وہ کسی نئے گھر میں شفٹ ہوتے ہیں تو سب سے پہلا کام وہ یہ کرتے ہیں کہ ایک بکری لا کر اسے گھر کی دہلیز پر ذبح کرتے ہیں تاکہ اس کا خون وہاں بہے۔ اور کہتے ہیں: یہ جنات کو گھر میں داخل ہونے سے روکتا ہے، پس یہ فاسد عقیدہ ہے جس کی کوئی اصل نہیں، لیکن جو محض خوشی ومسرت میں ایسا کرتا ہے تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں۔
سوال: اس شخص کا کیا حکم ہے جس کے اہل وعیال اسے کہیں: ایک جانور ذبح کرو (قربانی کرو) اور اسے مساکین میں تقسیم کردو بلاؤں کو دور کرنے کے لیے، کیا ایسی نیت کرنا جائز ہے؟
شیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ رحمہ اللہ:
اس بارے میں تفصیل ہے۔ وہ یہ کہ اگر وہ ذبیحہ صدقے کے زاویے سے کرتا ہے، کسی متوقع چیز کو دور کرنے، یا کسی پیش آنے والی چیز کو رفع کرنے کے لیے نہیں، لیکن بس صدقے کے زاویے سے کرتا ہے، اور فقراء کو کھلانے کی نیت سے، تو اس میں کوئی حرج نہیں اور یہ ان عمومی دلائل میں داخل ہے کہ حن میں کھانے کھلانے کی ترغیب دی گئی ہے اور مساکین کو کھلانے کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔
البتہ اگر ذبح کرنا اس لیے ہو کہ گھر والے بیمار ہیں، تو اس لیے ذبح کرنا تاکہ مریض سے وہ تکلیف دور ہوجائے (جان کا صدقہ) تو یہ جائز نہیں بلکہ حرام ہے، سد ذریعہ کے طور پر۔ کیونکہ بہت سے لوگ تب ہی ذبح کرتے ہیں جب کوئی ان پر مرض آپڑے کیونکہ ان کا گمان ہوتا ہے کہ یہ کسی جن کی وجہ سے ہے، یا کسی موذی چیز کی وجہ سے، پس جب وہ ذبیحہ کو ذبح کرتے ہیں اور خون بہاتے ہیں تو اس کا شر دور ہوجاتا ہے یا پھر اس موذی چیز کی وجہ سے جو تکلیف ہے وہ رفع ہوجاتی ہے۔ بلاشبہ اس قسم کا اعتقاد حرام ہے جائز نہیں۔ لہذا جو ذبیحہ کسی مرض کو رفع کرنے یا بطور مریض کے جان کے صدقے کے دیا جاتا ہے اس حال میں علماء کرام فرماتےہیں: یہ حرام ہے جائز نہیں، سد ذریعہ کے طور پر۔
اور شیخ علامہ سعد بن حمد بن عتیق رحمہ اللہ کا اس موضوع پر کہ ’’مریض کے لیے ذبح کرنا ‘‘خاص رسالہ بھی ہے([1])۔
اسی طرح سے اگر ذبح کرنا کسی متوقع تکلیف کو روکنے کے لیے
ہے جیسے کسی شہر میں کوئی مخصوص بیماری پھیل گئی ہو تو اس بیماری سے دفا ع کے لیے ذبح کیا جائے۔ یا پھر اس جہت سے کہ گھر کے ارد گرد کوئی موذی چیز ہو تو اس موذی چیز کے نقصان سے بچنے کے لیے ذبح کرے خواہ مثال کے طور پر چور ڈاکو ہوں، جو گھر پر مسلط ہوگئے ہوں، یا ان کی جانب سے پہنچنے والی تکلیف ہو جو گھر پر آتے ہیں، اوروہ اس تکلیف سے دفاع کی غرض سے ذبح کرکے صدقہ کرے، تو یہ بھی جائز نہیں ہے۔ اور سد ذریعہ کے لیے اس سے منع کیاگیا ہے۔ کیونکہ لوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو جنات کی تکالیف کے سدباب کے لیے ذبح کرتے ہیں جو کہ اللہ تعالی کے ساتھ شرک ہے(یعنی جن یا ان کے سردار کو راضی کرنے کے لیے ان کے نام کی قربانی)۔
اگر یہ کہا جائے: پھر اس حدیث کا کیا معنی جو ابوداود وغیرہ میں ایسی اسناد سے مروی ہے جسے بعض علماء نے حسن قرار دیا تو بعض نے ضعیف۔ وہ یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’دَاوُوا مَرْضَاكُمْ بِالصَّدَقَةِ‘‘
(اپنے مریضوں کا علاج صدقے سے کرو)۔
کیا اس میں خون بہانا بھی شامل ہے؟ کیونکہ یہ وسیلہ ہے باطل اعتقادات کی طرف۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ شریعت ان تمام ذرائع کے سدباب کے لیے آئی ہے جو شرک کی طرف لے جاتے ہوں۔ اسی طرح سے ان ذرائع کو کھولنے کے لیے آئی ہے جو خیر کی طرف لے جاتے ہوں۔ جو ذریعہ بھی شرک اور باطل اعتقاد کی طرف لے جانے کا ذریعہ ہو تو وہ ممنوع ہوگا۔
(كتاب التمهيد لشرح كتاب التوحيد)
[1] رسالے کا نام ’’حجة التحريض في تحريم الذبح للمريض‘‘ ہے۔
اگر یہ کہا جائے: پھر اس حدیث کا کیا معنی جو ابوداود وغیرہ میں ایسی اسناد سے مروی ہے جسے بعض علماء نے حسن قرار دیا تو بعض نے ضعیف۔ وہ یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’دَاوُوا مَرْضَاكُمْ بِالصَّدَقَةِ‘‘
(اپنے مریضوں کا علاج صدقے سے کرو)۔
کیا اس میں خون بہانا بھی شامل ہے؟ کیونکہ یہ وسیلہ ہے باطل اعتقادات کی طرف۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ شریعت ان تمام ذرائع کے سدباب کے لیے آئی ہے جو شرک کی طرف لے جاتے ہوں۔ اسی طرح سے ان ذرائع کو کھولنے کے لیے آئی ہے جو خیر کی طرف لے جاتے ہوں۔ جو ذریعہ بھی شرک اور باطل اعتقاد کی طرف لے جانے کا ذریعہ ہو تو وہ ممنوع ہوگا۔
(كتاب التمهيد لشرح كتاب التوحيد)
[1] رسالے کا نام ’’حجة التحريض في تحريم الذبح للمريض‘‘ ہے۔
[#SalafiUrduDawah Article] Busying #Ummah in #politics instead of calling towards #Tawheed and #rectification – Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen #Al_Albaanee
#امت کو #دعوتِ_توحید واصلاح کے بجائے #سیاسی_عمل میں لگائے رکھنا
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین #البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: التوحيد أولاً يا دعاة الإسلام
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/04/dawat_tawheed_islah_bajae_siyasat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
لہذا یہ نتیجہ ہے آج اسلام میں اس شدید غربت (اجنبیت) کا جو دور اول میں نہ تھی، بلاشبہ دور اول میں اجنبیت صریح شرک اور ہر شبہہ سے خالی خالص توحید کے درمیان تھی، کھلم کھلا کفر اور ایمان صادق کے درمیان تھی، جبکہ آج خود مسلمانوں کے اندر ہی مشکلات پائی جاتی ہیں کہ ان میں سے اکثر کی توحید ہی ملاوٹوں سےاٹی ہوئی ہے، یہ اپنی عبادات غیراللہ کے لئے ادا کرتے ہیں پھر بھی دعویٰ ایمان کا ہے۔ اولاً اس مسئلے پر متنبہ ہونا ضروری ہے، ثانیاً یہ جائز نہیں کہ بعض لوگ یہ کہیں کہ ہمارے لئے لازم ہے کہ ہم اب توحید کے مرحلے سے آگے نکل کردوسرے مرحلے میں منتقل ہوجائیں یعنی سیاسی عمل کا مرحلہ!! کیونکہ اسلام کی دعوت سب سے پہلے دعوت حق ہے، جائز نہیں کہ ہم یہ کہیں ہم عرب ہیں اور قرآن مجید ہماری زبان میں نازل ہوا ہے، حالانکہ یاد رکھیں کہ آج کے عربوں کا معاملہ عربی زبان سے دوری کے سبب ان عجمیوں سے بالکل برعکس ہوگیا ہے جو عربی سیکھتے ہیں، پس اس بات نے انہیں ان کے رب کی کتاب اور ان کے نبی ﷺ کی سنت سے دور کردیا۔ بالفرض ہم عربوں نے صحیح طور پر اسلام کافہم حاصل اگر کر بھی لیا ہےتب بھی ہم پر واجب نہیں کہ ہم سیاسی عمل میں حصہ لینا شروع کردیں، اور لوگوں کو سیاسی تحریکوں سے وابستہ کریں، اور انہیں جس چیز میں مشغول ہونا چاہیے یعنی اسلام کےعقیدے، عبادت، معاملات اور سلوک کا فہم حاصل کرناسے ہٹا کر سیاست میں مشغول رکھیں۔ مجھے نہیں یقین کے کہیں ایسےلاکھوں کی تعداد میں لوگ ہوں جنہوں نے اسلام کا صحیح فہم یعنی عقیدے، عبادت اور سلوک میں حاصل کیا ہو اور اسی پر تربیت پائی ہو۔
تبدیلی کی بنیاد منہج تصفیہ وتربیہ
اسی وجہ سے ہم ہمیشہ یہ کہتے چلے آئے ہیں اور انہی دو اساسی نکتوں پر جو تبدیلی وانقلاب کا قاعدہ ہیں پر ہمیشہ توجہ مرکوز رکھتے ہیں، اور وہ دو نکات تصفیہ (دین کو غلط باتوں سے پاک کرنا) اور تربیہ(اس پاک شدہ دین پر لوگوں کی تربیت کرنا) ہیں۔ان دونوں امور کو یکجا کرنا ضروری ہے تصفیہ اور تربیہ، کیونکہ اگر کسی ملک میں کسی طرح کا تصفیہ کا عمل ہوا جو کہ عقیدے میں ہے تو یہ اپنی حد تک واقعی ایک بہت بڑا اور عظیم کارنامہ ہےجو اتنے بڑے اسلامی معاشرے کے ایک حصہ میں رونما ہوا، لیکن جہاں تک عبادت کا معاملہ ہے تو اسے بھی مذہبی تنگ نظری سے پاک کرکے سنت صحیحہ کی جانب رجوع کا عمل ہونا چاہیے۔ ایسے بڑے جید علماء کرام ہوسکتا ہے موجود ہوں جو اسلام کا ہر زاویے سے صحیح فہم رکھتے ہوں مگر میں یہ یقین نہیں رکھتا کہ ایک فرد یا دو، تین یا دس بیس افراد اس تصفیے کے واجب کو ادا کرپائیں۔ تصفیہ کرنا (پاک کرنا) اسلام کو ہر اس چیز سے جو اس میں در آئی ہےخواہ وہ عقیدے میں ہو یا عبادت وسلوک میں۔ محض کچھ افراد کی یہ استطاعت نہیں کہ وہ اسلام سے جڑی ہر غلط چیز کا تصفیہ کرکے اور اپنے اردگرد کے لوگوں کی اس پر صحیح وسلیم تربیت کرکے سرفراز ہوسکیں۔ اسی لئے تصفیہ وتربیہ کا عمل آج مفقود ہے۔
چناچہ ان دو اہم باتوں ونکات کو متحقق کرنے سے پہلے کسی بھی اسلامی معاشرے میں جہاں شریعت کا نفاذ نہ ہو وہاں کسی سیاسی تحریک میں حصہ لینا برے اثرات مرتب کرنے کا پیش خیمہ ہوگا۔ ہاں! نصیحت وخیر خواہی کرنا سیاسی تحریک کی جگہ لے سکتا ہے کسی بھی ایسے ملک میں جہاں شریعت کی تحکیم ہو (خفیہ) مشورہ دینے کے ذریعہ یا پھر الزامی و تشہیری زبان استعمال کرنے سے پرہیز کرتے ہوئےشرعی ضوابط کے تحت بطور احسن ظاہر کرنے کے ذریعہ، پس حق بات کو پہنچا دینا حجت کو تمام کرتا ہے اور پہنچا دینے والے کو برئ الذمہ کرتا ہے۔
نصیحت وخیر خواہی میں سے یہ بھی ہے کہ ہم لوگوں کو اس چیز میں مشغول کریں جو انہیں فائدہ پہنچائے جیسے عقائد، عبادت، سلوک اور معاملات کی تصحیح،ہوسکتا ہے بعض لوگ یہ گمان کرتے ہوں کہ ہم تصفیہ وتربیہ کو تمام کے تمام اسلامی معاشروں میں نافذ ہوجانے کی امید رکھتے ہیں! ہم تو یہ بات نہ سوچتے ہیں اور نہ ہی ایسی خام خیالی میں مبتلا ہیں، کیونکہ ایسا ہوجانا تو محال ہے؛ اس لئے بھی کہ اللہ تعالی نے قرآن حکیم میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ:
﴿وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلَا يَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِيْنَ ﴾ (ھود: 118)
(اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی امت بنادیتا مگر یہ لوگ ہمیشہ اختلافات میں ہی رہیں گے)
البتہ ان لوگوں پر ہمارے رب تعالی کا یہ
#امت کو #دعوتِ_توحید واصلاح کے بجائے #سیاسی_عمل میں لگائے رکھنا
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین #البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: التوحيد أولاً يا دعاة الإسلام
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/04/dawat_tawheed_islah_bajae_siyasat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
لہذا یہ نتیجہ ہے آج اسلام میں اس شدید غربت (اجنبیت) کا جو دور اول میں نہ تھی، بلاشبہ دور اول میں اجنبیت صریح شرک اور ہر شبہہ سے خالی خالص توحید کے درمیان تھی، کھلم کھلا کفر اور ایمان صادق کے درمیان تھی، جبکہ آج خود مسلمانوں کے اندر ہی مشکلات پائی جاتی ہیں کہ ان میں سے اکثر کی توحید ہی ملاوٹوں سےاٹی ہوئی ہے، یہ اپنی عبادات غیراللہ کے لئے ادا کرتے ہیں پھر بھی دعویٰ ایمان کا ہے۔ اولاً اس مسئلے پر متنبہ ہونا ضروری ہے، ثانیاً یہ جائز نہیں کہ بعض لوگ یہ کہیں کہ ہمارے لئے لازم ہے کہ ہم اب توحید کے مرحلے سے آگے نکل کردوسرے مرحلے میں منتقل ہوجائیں یعنی سیاسی عمل کا مرحلہ!! کیونکہ اسلام کی دعوت سب سے پہلے دعوت حق ہے، جائز نہیں کہ ہم یہ کہیں ہم عرب ہیں اور قرآن مجید ہماری زبان میں نازل ہوا ہے، حالانکہ یاد رکھیں کہ آج کے عربوں کا معاملہ عربی زبان سے دوری کے سبب ان عجمیوں سے بالکل برعکس ہوگیا ہے جو عربی سیکھتے ہیں، پس اس بات نے انہیں ان کے رب کی کتاب اور ان کے نبی ﷺ کی سنت سے دور کردیا۔ بالفرض ہم عربوں نے صحیح طور پر اسلام کافہم حاصل اگر کر بھی لیا ہےتب بھی ہم پر واجب نہیں کہ ہم سیاسی عمل میں حصہ لینا شروع کردیں، اور لوگوں کو سیاسی تحریکوں سے وابستہ کریں، اور انہیں جس چیز میں مشغول ہونا چاہیے یعنی اسلام کےعقیدے، عبادت، معاملات اور سلوک کا فہم حاصل کرناسے ہٹا کر سیاست میں مشغول رکھیں۔ مجھے نہیں یقین کے کہیں ایسےلاکھوں کی تعداد میں لوگ ہوں جنہوں نے اسلام کا صحیح فہم یعنی عقیدے، عبادت اور سلوک میں حاصل کیا ہو اور اسی پر تربیت پائی ہو۔
تبدیلی کی بنیاد منہج تصفیہ وتربیہ
اسی وجہ سے ہم ہمیشہ یہ کہتے چلے آئے ہیں اور انہی دو اساسی نکتوں پر جو تبدیلی وانقلاب کا قاعدہ ہیں پر ہمیشہ توجہ مرکوز رکھتے ہیں، اور وہ دو نکات تصفیہ (دین کو غلط باتوں سے پاک کرنا) اور تربیہ(اس پاک شدہ دین پر لوگوں کی تربیت کرنا) ہیں۔ان دونوں امور کو یکجا کرنا ضروری ہے تصفیہ اور تربیہ، کیونکہ اگر کسی ملک میں کسی طرح کا تصفیہ کا عمل ہوا جو کہ عقیدے میں ہے تو یہ اپنی حد تک واقعی ایک بہت بڑا اور عظیم کارنامہ ہےجو اتنے بڑے اسلامی معاشرے کے ایک حصہ میں رونما ہوا، لیکن جہاں تک عبادت کا معاملہ ہے تو اسے بھی مذہبی تنگ نظری سے پاک کرکے سنت صحیحہ کی جانب رجوع کا عمل ہونا چاہیے۔ ایسے بڑے جید علماء کرام ہوسکتا ہے موجود ہوں جو اسلام کا ہر زاویے سے صحیح فہم رکھتے ہوں مگر میں یہ یقین نہیں رکھتا کہ ایک فرد یا دو، تین یا دس بیس افراد اس تصفیے کے واجب کو ادا کرپائیں۔ تصفیہ کرنا (پاک کرنا) اسلام کو ہر اس چیز سے جو اس میں در آئی ہےخواہ وہ عقیدے میں ہو یا عبادت وسلوک میں۔ محض کچھ افراد کی یہ استطاعت نہیں کہ وہ اسلام سے جڑی ہر غلط چیز کا تصفیہ کرکے اور اپنے اردگرد کے لوگوں کی اس پر صحیح وسلیم تربیت کرکے سرفراز ہوسکیں۔ اسی لئے تصفیہ وتربیہ کا عمل آج مفقود ہے۔
چناچہ ان دو اہم باتوں ونکات کو متحقق کرنے سے پہلے کسی بھی اسلامی معاشرے میں جہاں شریعت کا نفاذ نہ ہو وہاں کسی سیاسی تحریک میں حصہ لینا برے اثرات مرتب کرنے کا پیش خیمہ ہوگا۔ ہاں! نصیحت وخیر خواہی کرنا سیاسی تحریک کی جگہ لے سکتا ہے کسی بھی ایسے ملک میں جہاں شریعت کی تحکیم ہو (خفیہ) مشورہ دینے کے ذریعہ یا پھر الزامی و تشہیری زبان استعمال کرنے سے پرہیز کرتے ہوئےشرعی ضوابط کے تحت بطور احسن ظاہر کرنے کے ذریعہ، پس حق بات کو پہنچا دینا حجت کو تمام کرتا ہے اور پہنچا دینے والے کو برئ الذمہ کرتا ہے۔
نصیحت وخیر خواہی میں سے یہ بھی ہے کہ ہم لوگوں کو اس چیز میں مشغول کریں جو انہیں فائدہ پہنچائے جیسے عقائد، عبادت، سلوک اور معاملات کی تصحیح،ہوسکتا ہے بعض لوگ یہ گمان کرتے ہوں کہ ہم تصفیہ وتربیہ کو تمام کے تمام اسلامی معاشروں میں نافذ ہوجانے کی امید رکھتے ہیں! ہم تو یہ بات نہ سوچتے ہیں اور نہ ہی ایسی خام خیالی میں مبتلا ہیں، کیونکہ ایسا ہوجانا تو محال ہے؛ اس لئے بھی کہ اللہ تعالی نے قرآن حکیم میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ:
﴿وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلَا يَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِيْنَ ﴾ (ھود: 118)
(اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی امت بنادیتا مگر یہ لوگ ہمیشہ اختلافات میں ہی رہیں گے)
البتہ ان لوگوں پر ہمارے رب تعالی کا یہ
فرمان لاگو نہیں ہوگا اگر یہ اسلام کا صحیح فہم حاصل کریں اور اس صحیح اسلام پر خود اپنی، اپنے اہل وعیال اورگردونواح کے لوگوں کی تربیت کریں۔
سیاسی عمل میں کون حصہ لے؟ اور کب؟
آجکل سیاسی عمل یا سرگرمی میں حصہ لینا ایک مشغلہ بن گیا ہے! حالانکہ ہم اس کے منکر نہیں مگر ہم بیک وقت ایک شرعی ومنطقی تسلسل یہ ایمان رکھتے ہیں کہ ہم تصحیح وتربیت کے اعتبار سے عقیدے سے شروع کریں، پھر عبادت پھر سلوک پھر اس کے بعد ایک دن آئے گا جب ہم سیاسی مرحلے میں داخل ہوں گے مگر اس کے شرعی مفہوم کے مطابق۔ کیونکہ سیاست کا معنی ہے: امت کے معاملات کاانتظام کرنا انہیں چلانا، پس امت کے معاملات کون چلاتا ہے؟ نہ زید، نہ بکر، نہ عمرو، اورنہ ہی وہ جو کسی پارٹی کی بنیاد رکھے یا کسی تحریک کی سربراہی کرتا ہویا کسی جماعت کو چلاتا ہو!! یہ معاملہ تو خاص ولی امر (حکمران)سےتعلق رکھتا ہے،جس کی مسلمانوں نے بیعت کی ہے۔ یہی ہے وہ جس پر واجب ہےکہ وہ موجودہ سیاسی حالات اور ان سے نمٹنے کی معرفت حاصل کرے، لیکن اگر مسلمان متحد نہ ہوں جیسا کہ ہماری موجودہ حالت ہے تو ہر حاکم اپنی سلطنت کی حدود میں ذمہ دار ہے۔ لیکن اگر ہم اپنے آپ کو ان امور میں مشغول رکھیں جن کے بارے میں بالفرض ہم مان بھی لیں کہ ہمیں اس کی کماحقہ معرفت حاصل ہوگئی ہے تب بھی ہمیں یہ معرفت کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی، کیونکہ ہمارے لئے اسے نافذ کرنے کا امکان ہی نہیں، کیونکہ ہم امت کے امور چلانے کے بارے میں فیصلوں کا اختیارہی نہیں رکھتے۔تو محض یہ معرفت بیکار ہے جس کا کوئی فائدہ ہی نہیں۔ میں آپ کو ایک مثال بیان کرتا ہوں وہ جنگیں جو مسلمانوں کے خلاف بہت سے اسلامی ممالک میں بپا ہیں، کیا اس بات کا کوئی فائدہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے جذبات ابھاریں اور انہیں اس جانب برانگیختہ کریں جبکہ ہم اس جہاد کا کوئی اختیار ہی نہیں رکھتے جس کا انتظام ایک ایسے مسئول امام کے ذمہ ہے جس کی بیعت ہوچکی ہو؟! اس عمل کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ واجب نہیں! لیکن ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ: یہ کام اپنے مقررہ وقت سے پہلے ہے۔ اسی لئے ہم پر واجب ہے کہ ہم آپ کو اور دوسروں کو جنہیں ہم اپنی دعوت پہنچا رہے ہیں اس بات میں مشغول رکھیں کہ وہ صحیح اسلام کا فہم حاصل کرکے اس پر صحیح تربیت حاصل کریں۔ لیکن اگر ہم محض انہیں جذباتی اور ولولہ انگیز باتوں میں مشغول رکھیں گے تو یہ انہیں اس بات سے پھیر دیں گی کہ وہ اس دعوت کے فہم میں مضبوطی حاصل کرپائے جو ہر مکلف مسلمان پر واجب ہے۔ جیسے عقائد، عبادت اورسلوک کی تصحیح یہ ان فرائض عینیہ میں سے ہیں جس میں تقصیر کا عذر قابل قبول نہیں، جبکہ جو دوسرے امور ہیں ان میں سے تو بعض فرض کفایہ ہیں جیسا کہ آجکل جو کہا جاتا ہے ’’فقہ الواقع‘‘ (حالات حاضرہ کا علم) اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا جو کہ ان لوگوں کی ذمہ داری ہے جو اہل حل وعقد ہیں، جن کے لئے یہ ممکن بھی ہے کہ اس معرفت سے وہ عملی استفادہ حاصل کرپائیں۔ جہاں تک معاملہ ہے ان لوگوں کا جن کے ہاتھ میں نہ حل ہے نہ ہی عقد اور وہ لوگوں کو ان باتوں میں مشغول کررہے ہیں جو اہم تو ہیں مگر اہم ترین نہیں، تو یہ بات انہیں صحیح معرفت سے دور لے جاتی ہے! یہ بات تو ہم آج بہت سے اسلامی گروپوں اور جماعتوں کے مناہج میں باقاعدہ ہاتھوں سے چھو کر محسوس کرسکتے ہیں، کہ ہم جانتے ہیں کہ بعض ایسے داعیان جو نوجوانوں کو جو ان کے گرد اس لئے جمع ہوتے ہیں کہ وہ انہیں صحیح عقیدہ، عبادت اور سلوک کی تعلیم دیں اور سمجھائیں تو وہ انہیں اس سے پھیر دیتے ہیں۔ پھر اس کے بعد یہ داعیان سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں اوران پارلیمنٹوں میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں جو اللہ تعالی کی شریعت کے خلاف فیصلے کرتی ہے!پس وہ انہیں اس اہم ترین چیز سے پھیر دیتے ہیں اس چیز کی طرف جوان موجودہ حالات میں اہم نہیں ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کیسے ایک مسلمان ان پر الم حالات میں اپنا کردار ادا کرکے برئ الذمہ ہوسکتاہے؛ تو ہم کہتے ہیں: ہر مسلمان اپنی استطاعت کے مطابق کام کرے، ان میں سے ایک عالم کی جو ذمہ داری ہے وہ غیر عالم کی نہیں، جیسا کہ میں اس قسم کی مناسبت میں بیان کرتا ہوں کہ اللہ تعالی نے اپنی نعمت اپنی کتاب کے ذریعہ مکمل فرمادی ہےاور اسے مسلمانوں کے لئے ایک دستور بنادیا ہے۔ اسی دستور میں سے اللہ تعالی کا یہ فرمان بھی ہے کہ:
﴿… فَسْــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (الانبیاء: 7)
(اہل ذکر (علماء کرام) سے سوال کرو اگر تمہیں علم نہ ہو)
اللہ تعالی نے اسلامی معاشرے کو دو اقسام میں تقسیم فرمایا ایک عالم اور دوسرے غیر عالم، اور ان میں سے ہر ایک پر وہ واجب قراردیا جو دوسرے پر واجب نہیں، پس جو علماء نہیں ان پر واجب ہے کہ وہ اہل علم سے دریافت کریں، اور علماء کرام پر یہ واجب ہے کہ وہ جس چیز کی بابت دریافت کیا جارہا ہے اس کا جواب دیں، اسی طریقہ پر شخصیات مختلف ہونے پر واجبات بھی مختلف ہوتےہیں۔ چناچہ آج کے
سیاسی عمل میں کون حصہ لے؟ اور کب؟
آجکل سیاسی عمل یا سرگرمی میں حصہ لینا ایک مشغلہ بن گیا ہے! حالانکہ ہم اس کے منکر نہیں مگر ہم بیک وقت ایک شرعی ومنطقی تسلسل یہ ایمان رکھتے ہیں کہ ہم تصحیح وتربیت کے اعتبار سے عقیدے سے شروع کریں، پھر عبادت پھر سلوک پھر اس کے بعد ایک دن آئے گا جب ہم سیاسی مرحلے میں داخل ہوں گے مگر اس کے شرعی مفہوم کے مطابق۔ کیونکہ سیاست کا معنی ہے: امت کے معاملات کاانتظام کرنا انہیں چلانا، پس امت کے معاملات کون چلاتا ہے؟ نہ زید، نہ بکر، نہ عمرو، اورنہ ہی وہ جو کسی پارٹی کی بنیاد رکھے یا کسی تحریک کی سربراہی کرتا ہویا کسی جماعت کو چلاتا ہو!! یہ معاملہ تو خاص ولی امر (حکمران)سےتعلق رکھتا ہے،جس کی مسلمانوں نے بیعت کی ہے۔ یہی ہے وہ جس پر واجب ہےکہ وہ موجودہ سیاسی حالات اور ان سے نمٹنے کی معرفت حاصل کرے، لیکن اگر مسلمان متحد نہ ہوں جیسا کہ ہماری موجودہ حالت ہے تو ہر حاکم اپنی سلطنت کی حدود میں ذمہ دار ہے۔ لیکن اگر ہم اپنے آپ کو ان امور میں مشغول رکھیں جن کے بارے میں بالفرض ہم مان بھی لیں کہ ہمیں اس کی کماحقہ معرفت حاصل ہوگئی ہے تب بھی ہمیں یہ معرفت کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی، کیونکہ ہمارے لئے اسے نافذ کرنے کا امکان ہی نہیں، کیونکہ ہم امت کے امور چلانے کے بارے میں فیصلوں کا اختیارہی نہیں رکھتے۔تو محض یہ معرفت بیکار ہے جس کا کوئی فائدہ ہی نہیں۔ میں آپ کو ایک مثال بیان کرتا ہوں وہ جنگیں جو مسلمانوں کے خلاف بہت سے اسلامی ممالک میں بپا ہیں، کیا اس بات کا کوئی فائدہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے جذبات ابھاریں اور انہیں اس جانب برانگیختہ کریں جبکہ ہم اس جہاد کا کوئی اختیار ہی نہیں رکھتے جس کا انتظام ایک ایسے مسئول امام کے ذمہ ہے جس کی بیعت ہوچکی ہو؟! اس عمل کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ واجب نہیں! لیکن ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ: یہ کام اپنے مقررہ وقت سے پہلے ہے۔ اسی لئے ہم پر واجب ہے کہ ہم آپ کو اور دوسروں کو جنہیں ہم اپنی دعوت پہنچا رہے ہیں اس بات میں مشغول رکھیں کہ وہ صحیح اسلام کا فہم حاصل کرکے اس پر صحیح تربیت حاصل کریں۔ لیکن اگر ہم محض انہیں جذباتی اور ولولہ انگیز باتوں میں مشغول رکھیں گے تو یہ انہیں اس بات سے پھیر دیں گی کہ وہ اس دعوت کے فہم میں مضبوطی حاصل کرپائے جو ہر مکلف مسلمان پر واجب ہے۔ جیسے عقائد، عبادت اورسلوک کی تصحیح یہ ان فرائض عینیہ میں سے ہیں جس میں تقصیر کا عذر قابل قبول نہیں، جبکہ جو دوسرے امور ہیں ان میں سے تو بعض فرض کفایہ ہیں جیسا کہ آجکل جو کہا جاتا ہے ’’فقہ الواقع‘‘ (حالات حاضرہ کا علم) اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا جو کہ ان لوگوں کی ذمہ داری ہے جو اہل حل وعقد ہیں، جن کے لئے یہ ممکن بھی ہے کہ اس معرفت سے وہ عملی استفادہ حاصل کرپائیں۔ جہاں تک معاملہ ہے ان لوگوں کا جن کے ہاتھ میں نہ حل ہے نہ ہی عقد اور وہ لوگوں کو ان باتوں میں مشغول کررہے ہیں جو اہم تو ہیں مگر اہم ترین نہیں، تو یہ بات انہیں صحیح معرفت سے دور لے جاتی ہے! یہ بات تو ہم آج بہت سے اسلامی گروپوں اور جماعتوں کے مناہج میں باقاعدہ ہاتھوں سے چھو کر محسوس کرسکتے ہیں، کہ ہم جانتے ہیں کہ بعض ایسے داعیان جو نوجوانوں کو جو ان کے گرد اس لئے جمع ہوتے ہیں کہ وہ انہیں صحیح عقیدہ، عبادت اور سلوک کی تعلیم دیں اور سمجھائیں تو وہ انہیں اس سے پھیر دیتے ہیں۔ پھر اس کے بعد یہ داعیان سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں اوران پارلیمنٹوں میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں جو اللہ تعالی کی شریعت کے خلاف فیصلے کرتی ہے!پس وہ انہیں اس اہم ترین چیز سے پھیر دیتے ہیں اس چیز کی طرف جوان موجودہ حالات میں اہم نہیں ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کیسے ایک مسلمان ان پر الم حالات میں اپنا کردار ادا کرکے برئ الذمہ ہوسکتاہے؛ تو ہم کہتے ہیں: ہر مسلمان اپنی استطاعت کے مطابق کام کرے، ان میں سے ایک عالم کی جو ذمہ داری ہے وہ غیر عالم کی نہیں، جیسا کہ میں اس قسم کی مناسبت میں بیان کرتا ہوں کہ اللہ تعالی نے اپنی نعمت اپنی کتاب کے ذریعہ مکمل فرمادی ہےاور اسے مسلمانوں کے لئے ایک دستور بنادیا ہے۔ اسی دستور میں سے اللہ تعالی کا یہ فرمان بھی ہے کہ:
﴿… فَسْــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (الانبیاء: 7)
(اہل ذکر (علماء کرام) سے سوال کرو اگر تمہیں علم نہ ہو)
اللہ تعالی نے اسلامی معاشرے کو دو اقسام میں تقسیم فرمایا ایک عالم اور دوسرے غیر عالم، اور ان میں سے ہر ایک پر وہ واجب قراردیا جو دوسرے پر واجب نہیں، پس جو علماء نہیں ان پر واجب ہے کہ وہ اہل علم سے دریافت کریں، اور علماء کرام پر یہ واجب ہے کہ وہ جس چیز کی بابت دریافت کیا جارہا ہے اس کا جواب دیں، اسی طریقہ پر شخصیات مختلف ہونے پر واجبات بھی مختلف ہوتےہیں۔ چناچہ آج کے
ہ بعض داعیان اس بات کا اہتمام تو کرتے ہیں جو حقیقتاً ان کے بس میں نہیں، اور اس بات کو چھوڑ دیتے ہیں جو ان پر واجب ہے اور آسان بھی ! اور وہ اپنے نفس کا مجاہدہ کرنا ہے جیسا کہ ایک مسلمان داعی کا قول ہے جس قول کی وصیت میں اس داعی کے پیروکاروں کو کرتا ہوں: ’’أقيموا دولة الإسلام في نفوسكم تقم لكم في أرضكم‘‘ (اپنے دلوں پر اسلامی حکومت قائم کرلو وہ تمہارے لئے تمہاری زمینوں پر بھی قائم کردی جائے گی)۔
اس کے باوجود ہم بہت سے ان کے پیروکاروں کو پاتے ہیں کہ وہ اس بات کی مخالفت کرتے ہیں، اپنی دعوت کا ایک غالب حصہ اللہ تعالی کو اس کی حاکمیت میں اکیلے ماننے پر زور دینے میں صرف کرتے ہیں، جسے وہ اس مشہورومعروف عبارت سے تعبیر کرتے ہیں کہ: ’’الحاكمية لله‘‘ (حاکمیت کا حق صرف اللہ تعالی ہی کے لئے ہے)۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حاکمیتِ اعلی صرف اللہ تعالی کے لئے ہی ہےکہ اس میں اور نہ کسی اور چیز میں اس کا کوئی شریک ہے۔ لیکن، ان میں سے کوئی مذاہب ِاربعہ میں سے کسی مذہب کا مقلد ہوتا ہے اور جب اس کے پاس کوئی بالکل صریح وصحیح سنت آتی ہےتو کہتاہے یہ میرے مذہب کے خلاف ہے! تو کہاں گیا اللہ تعالی کا حکم اتباع سنت کے بارے میں؟!۔
اور ان میں سے آپ کسی کوپائیں گے کہ وہ اللہ تعالی کی عبادت صوفیوں کی طریقت پر کررہا ہوگا! تو کہاں گیا اللہ تعالی کا حکم توحید کے بارے میں؟! تو وہ دوسروں سے وہ مطالبہ کرتے ہیں جو اپنے آپ سے نہیں کرتے، یہ تو بہت آسان کام ہے کہ اپنے عقیدے، عبادت، سلوک اور اپنے گھر، بچوں کی تربیت، خریدوفروخت میں اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت کے مطابق حکم کروجبکہ اس کے برعکس یہ بہت مشکل اور کٹھن ہے کہ تم کسی حاکم کو جبراً کہویا ایسے حاکم کو معزول کرو کہ جو اپنے بہت سے احکامات میں اللہ تعالی کی شریعت کے خلاف فیصلے کرتا ہے، تو کیا وجہ ہے کہ آسان کو چھوڑ کر مشکل راہ کو اپنایا جارہا ہے؟!۔
یہ دو میں سے ایک بات کی طرف اشارہ کناں ہے یا تو یہ بری تربیت و بری توجیہ ورہنمائی کا نتیجہ ہے، یا پھر ان کا وہ برا عقیدہ ہے جس نے انہیں اس بات سے روک کر اور پھیر کر جس کو اپنانا ان کی استطاعت میں ہے اس بات کی طرف مائل کردیا ہے جس کی وہ استطاعت نہیں رکھتے۔ آج کے اس دور میں میں تمام تر مشغولیت کا محور تصفیہ وتربیہ کے عمل کو بنادینے اور صحیح عقیدے وعبادت کی جانب دعوت دینے کے سوا اور کوئی نظریہ نہیں رکھتا۔ ہر کوئی یہ کام اپنی استطاعت بھر انجام دے، اللہ تعالی کسی جان کو اس کی وسعت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا، اور تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں۔ اور درود وسلام ہو ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی آل پر۔
[1] حديث صحيح : رواه أبو داود (4297) ، وأحمد (5/287) ، من حديث ثوبان رضي الله عنه، وصححه بطريقيه الألباني في الصحيحة (958) .ابو داود کے الفاظ ہیں: ’’يُوشِكُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ كَمَا تَدَاعَى الْأَكَلَةُ إِلَى قَصْعَتِهَا، فَقَالَ قَائِلٌ: وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: بَلْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ وَلَكِنَّكُمْ غُثَاءٌ كَغُثَاءِ السَّيْلِ وَلَيَنْزَعَنَّ اللَّهُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّكُمُ الْمَهَابَةَ مِنْكُمْ وَلَيَقْذِفَنَّ اللَّهُ فِي قُلُوبِكُمُ الْوَهْنَ، فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الْوَهْنُ؟ قَالَ: حُبُّ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ‘‘ (توحید خالص ڈاٹ کام)۔
[2] حديث صحيح : رواه الترمذي (2507) ، وابن ماجه (4032) ، والبخاري في الأدب المفرد (388) ، وأحمد (5/365) ، من حديث شيخ من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم وصححه الألباني في الصحيحة (939) .
اس کے باوجود ہم بہت سے ان کے پیروکاروں کو پاتے ہیں کہ وہ اس بات کی مخالفت کرتے ہیں، اپنی دعوت کا ایک غالب حصہ اللہ تعالی کو اس کی حاکمیت میں اکیلے ماننے پر زور دینے میں صرف کرتے ہیں، جسے وہ اس مشہورومعروف عبارت سے تعبیر کرتے ہیں کہ: ’’الحاكمية لله‘‘ (حاکمیت کا حق صرف اللہ تعالی ہی کے لئے ہے)۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حاکمیتِ اعلی صرف اللہ تعالی کے لئے ہی ہےکہ اس میں اور نہ کسی اور چیز میں اس کا کوئی شریک ہے۔ لیکن، ان میں سے کوئی مذاہب ِاربعہ میں سے کسی مذہب کا مقلد ہوتا ہے اور جب اس کے پاس کوئی بالکل صریح وصحیح سنت آتی ہےتو کہتاہے یہ میرے مذہب کے خلاف ہے! تو کہاں گیا اللہ تعالی کا حکم اتباع سنت کے بارے میں؟!۔
اور ان میں سے آپ کسی کوپائیں گے کہ وہ اللہ تعالی کی عبادت صوفیوں کی طریقت پر کررہا ہوگا! تو کہاں گیا اللہ تعالی کا حکم توحید کے بارے میں؟! تو وہ دوسروں سے وہ مطالبہ کرتے ہیں جو اپنے آپ سے نہیں کرتے، یہ تو بہت آسان کام ہے کہ اپنے عقیدے، عبادت، سلوک اور اپنے گھر، بچوں کی تربیت، خریدوفروخت میں اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت کے مطابق حکم کروجبکہ اس کے برعکس یہ بہت مشکل اور کٹھن ہے کہ تم کسی حاکم کو جبراً کہویا ایسے حاکم کو معزول کرو کہ جو اپنے بہت سے احکامات میں اللہ تعالی کی شریعت کے خلاف فیصلے کرتا ہے، تو کیا وجہ ہے کہ آسان کو چھوڑ کر مشکل راہ کو اپنایا جارہا ہے؟!۔
یہ دو میں سے ایک بات کی طرف اشارہ کناں ہے یا تو یہ بری تربیت و بری توجیہ ورہنمائی کا نتیجہ ہے، یا پھر ان کا وہ برا عقیدہ ہے جس نے انہیں اس بات سے روک کر اور پھیر کر جس کو اپنانا ان کی استطاعت میں ہے اس بات کی طرف مائل کردیا ہے جس کی وہ استطاعت نہیں رکھتے۔ آج کے اس دور میں میں تمام تر مشغولیت کا محور تصفیہ وتربیہ کے عمل کو بنادینے اور صحیح عقیدے وعبادت کی جانب دعوت دینے کے سوا اور کوئی نظریہ نہیں رکھتا۔ ہر کوئی یہ کام اپنی استطاعت بھر انجام دے، اللہ تعالی کسی جان کو اس کی وسعت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا، اور تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں۔ اور درود وسلام ہو ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی آل پر۔
[1] حديث صحيح : رواه أبو داود (4297) ، وأحمد (5/287) ، من حديث ثوبان رضي الله عنه، وصححه بطريقيه الألباني في الصحيحة (958) .ابو داود کے الفاظ ہیں: ’’يُوشِكُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ كَمَا تَدَاعَى الْأَكَلَةُ إِلَى قَصْعَتِهَا، فَقَالَ قَائِلٌ: وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: بَلْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ وَلَكِنَّكُمْ غُثَاءٌ كَغُثَاءِ السَّيْلِ وَلَيَنْزَعَنَّ اللَّهُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّكُمُ الْمَهَابَةَ مِنْكُمْ وَلَيَقْذِفَنَّ اللَّهُ فِي قُلُوبِكُمُ الْوَهْنَ، فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الْوَهْنُ؟ قَالَ: حُبُّ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ‘‘ (توحید خالص ڈاٹ کام)۔
[2] حديث صحيح : رواه الترمذي (2507) ، وابن ماجه (4032) ، والبخاري في الأدب المفرد (388) ، وأحمد (5/365) ، من حديث شيخ من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم وصححه الألباني في الصحيحة (939) .
اس دور میں ایک عالم پر واجب ہے کہ وہ بقدر استطاعت حق بات کی جانب دعوت دے ، اور جو عالم نہیں ہے اسے چاہیے کہ جو بات اس سے یا اس کے زیر کفالت لوگوں جیسے بیوی بچے وغیرہ سےتعلق رکھتی ہے اس کا سوال علماء کرام سے کرے۔ اگر مسلمانوں کے یہ دونوں فریق اپنی استطاعت بھر ذمہ داری نبھاتے رہیں تو یقیناً نجات پاجائیں گے۔ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرۃ: 286)
(اللہ تعالی کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں کرتا)
ہم صد افسوس مسلمانوں کے ایک ایسے پر الم دور سے گزر رہےہیں جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، یہ کہ کفار چاروں طرف سے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے ہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک صحیح ومعروف حدیث میں اس کی خبر دی کہ:
’’تداعى عليكم الأمم كما تداعى الأكلة إلى قصعتها، قالوا : أمن قلة نحن يومئذ يا رسول الله ؟ قال : لا ، أنتم يومئذ كثير ، ولكنكم غثاء كغثاء السيل ، ولينزعن الله الرهبة من صدور عدوكم لكم ، وليقذفن في قلوبكم الوهن، قالوا: وما الوهن يارسول الله ؟ قال : حب الدنيا وكراهية الموت‘‘([1])
(تم پر چاروں طرف سے قومیں ٹوٹ پڑیں گی جیسا کہ کھانے والے ایک دوسرے کو پلیٹ کی طرف دعوت دیتے ہیں، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی:یا رسول اللہ! کیا اس زمانے میں ہماری قلتِ تعداد کی بنا پر وہ ایسا کریں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، تم اس زمانے میں بہت کثیر تعداد میں ہوگے، لیکن تمہاری حیثیت سیلابی ریلے میں بہہ جانے والے خس وخاشاک کی سی ہوگی ، اللہ تعالی ضرور تمہارا رعب وہیبت کافروں کے دلوں سے نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں ’’وہن‘‘ ڈال دے گا، انہوں نے دریافت کیا: یارسول اللہ! یہ ’’وہن‘‘ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دنیا کی محبت اور موت سے کراہیت)۔
پس علماء کرام پر جو واجب ہے وہ تصفیہ وتربیہ کا جہاد کریں، وہ اس طرح کے مسلمانوں کو صحیح توحید، صحیح عقائد، عبادت اور سلوک کی تعلیم دیں۔ ہر کوئی اپنی طاقت بھر اپنے اس ملک میں جس میں وہ رہتا ہے ۔ کیونکہ اپنی اس موجودہ حالت میں کہ وہ متفرق ہیں، نہ ہمیں کوئی ایک ملک جمع کرسکتا ہے اور نہ ہی کوئی ایک صف، اس حالت میں ہم یہودیوں کے خلاف جہاد کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ان دشمنوں کے خلاف جو چاروں طرف سے ہم پر یلغار کررہے ہیں اس قسم کے جہاد کی استطاعت نہیں رکھتے، لیکن ان پر واجب ہے کہ ہر اس قسم کا شرعی وسیلہ اختیار کریں جو ان کے بس میں ہو، کیونکہ ہمارے پاس مادی قوت تو نہیں ہے، اور اگر ہوبھی، تو ہم عملی اعتبار سے متحرک نہیں ہوسکتے، کیونکہ نہایت افسوس کی بات ہے کہ بہت سے اسلامی ممالک میں ایسی حکومتیں، قیادتیں اور حکام ہیں جن کی سیاسیات شرعی سیاست پر مبنی نہیں، لیکن باذن اللہ ہم ان دو عظیم امور پر کام کرنے کی استطاعت ضرور رکھتے ہیں جو میں نے ابھی بیا ن کئے۔ پس جب مسلمان داعیان اس اہم ترین واجب کو لے کر کھڑے ہوں گے ایسے ملک میں جہاں کی سیاست شرعی سیاست کے موافق اور اس پر مبنی نہیں، اور اس اساس پر وہ سب جمع ہوجائیں گے، تو میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ اس دن ان پر اللہ تعالی کا یہ فرمان صادق آئے گا۔
﴿ وَيَوْمَىِٕذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ، بِنَصْرِ اللّٰهِ﴾ (الروم: 4-5)
(اس دن مومنین خوشیاں منائیں گے اللہ تعالی کی نصرت پر)
ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ حکم الہی اپنی زندگی کے تمام شعبوں پر حسب استطاعت نافذ کرے
چناچہ ہر مسلمان پر واجب ہےکہ وہ بقدر استطاعت کام کرے، اللہ تعالی کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا۔ صحیح توحید اور صحیح عبادت کے قیام سےلازم نہیں کہ کسی ایسے ملک میں جہاں اللہ تعالی کی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں ہوتے وہاں اسلامی ریاست قائم ہوجائے، کیونکہ وہ پہلی بات جس میں اللہ تعالی کی شریعت کے مطابق حکم ہونا چاہیے وہ اقامتِ توحید ہے، اور اس کے علاوہ بھی بے شک کچھ ایسے خاص امور ہیں جو بعض زمانوں کی پیداوارہیں جن سے الگ تھلگ رہنا اختلاط سے بہتر ہے، یعنی ایک مسلمان معاشرے سے الگ ہوکر اپنے رب کی عبادت میں لگا رہے، اور خود کو لوگوں کے شر سے بچائے اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھے، اس بارے میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں۔ اگرچہ جو اصل اصول ہے وہ تو یہی ہےجیسا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں بیان ہوا:
’’الْمُؤْمِنُ الَّذِي يُخَالِطُ النَّاسَ، وَيَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ خَيْرٌ مِنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لا يُخَالِطُ النَّاسَ، وَلا يَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ‘‘([2])
(وہ مومن جو لوگوں سے میل ملاپ رکھتا ہے اور ان کی جانب سے پہنچنے والی اذیتوں پر صبر کرتا ہے اس مومن سے بہتر ہے جو نہ لوگوں کے ساتھ مل کر رہتا ہے اور نہ ہی ان کی جانب سے ملنے والی اذیتوں پر صبر کرتا ہے)۔
پس ایک اسلامی ریاست بلاشبہ ایک وسیلہ ہے اللہ تعالی کا حکم زمین پر قائم کرنے کا مگر یہ بذات خود کوئی غرض وغایت نہیں۔
بہت عجیب بات ہے ک
﴿لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرۃ: 286)
(اللہ تعالی کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں کرتا)
ہم صد افسوس مسلمانوں کے ایک ایسے پر الم دور سے گزر رہےہیں جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، یہ کہ کفار چاروں طرف سے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے ہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک صحیح ومعروف حدیث میں اس کی خبر دی کہ:
’’تداعى عليكم الأمم كما تداعى الأكلة إلى قصعتها، قالوا : أمن قلة نحن يومئذ يا رسول الله ؟ قال : لا ، أنتم يومئذ كثير ، ولكنكم غثاء كغثاء السيل ، ولينزعن الله الرهبة من صدور عدوكم لكم ، وليقذفن في قلوبكم الوهن، قالوا: وما الوهن يارسول الله ؟ قال : حب الدنيا وكراهية الموت‘‘([1])
(تم پر چاروں طرف سے قومیں ٹوٹ پڑیں گی جیسا کہ کھانے والے ایک دوسرے کو پلیٹ کی طرف دعوت دیتے ہیں، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی:یا رسول اللہ! کیا اس زمانے میں ہماری قلتِ تعداد کی بنا پر وہ ایسا کریں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، تم اس زمانے میں بہت کثیر تعداد میں ہوگے، لیکن تمہاری حیثیت سیلابی ریلے میں بہہ جانے والے خس وخاشاک کی سی ہوگی ، اللہ تعالی ضرور تمہارا رعب وہیبت کافروں کے دلوں سے نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں ’’وہن‘‘ ڈال دے گا، انہوں نے دریافت کیا: یارسول اللہ! یہ ’’وہن‘‘ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دنیا کی محبت اور موت سے کراہیت)۔
پس علماء کرام پر جو واجب ہے وہ تصفیہ وتربیہ کا جہاد کریں، وہ اس طرح کے مسلمانوں کو صحیح توحید، صحیح عقائد، عبادت اور سلوک کی تعلیم دیں۔ ہر کوئی اپنی طاقت بھر اپنے اس ملک میں جس میں وہ رہتا ہے ۔ کیونکہ اپنی اس موجودہ حالت میں کہ وہ متفرق ہیں، نہ ہمیں کوئی ایک ملک جمع کرسکتا ہے اور نہ ہی کوئی ایک صف، اس حالت میں ہم یہودیوں کے خلاف جہاد کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ان دشمنوں کے خلاف جو چاروں طرف سے ہم پر یلغار کررہے ہیں اس قسم کے جہاد کی استطاعت نہیں رکھتے، لیکن ان پر واجب ہے کہ ہر اس قسم کا شرعی وسیلہ اختیار کریں جو ان کے بس میں ہو، کیونکہ ہمارے پاس مادی قوت تو نہیں ہے، اور اگر ہوبھی، تو ہم عملی اعتبار سے متحرک نہیں ہوسکتے، کیونکہ نہایت افسوس کی بات ہے کہ بہت سے اسلامی ممالک میں ایسی حکومتیں، قیادتیں اور حکام ہیں جن کی سیاسیات شرعی سیاست پر مبنی نہیں، لیکن باذن اللہ ہم ان دو عظیم امور پر کام کرنے کی استطاعت ضرور رکھتے ہیں جو میں نے ابھی بیا ن کئے۔ پس جب مسلمان داعیان اس اہم ترین واجب کو لے کر کھڑے ہوں گے ایسے ملک میں جہاں کی سیاست شرعی سیاست کے موافق اور اس پر مبنی نہیں، اور اس اساس پر وہ سب جمع ہوجائیں گے، تو میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ اس دن ان پر اللہ تعالی کا یہ فرمان صادق آئے گا۔
﴿ وَيَوْمَىِٕذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ، بِنَصْرِ اللّٰهِ﴾ (الروم: 4-5)
(اس دن مومنین خوشیاں منائیں گے اللہ تعالی کی نصرت پر)
ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ حکم الہی اپنی زندگی کے تمام شعبوں پر حسب استطاعت نافذ کرے
چناچہ ہر مسلمان پر واجب ہےکہ وہ بقدر استطاعت کام کرے، اللہ تعالی کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا۔ صحیح توحید اور صحیح عبادت کے قیام سےلازم نہیں کہ کسی ایسے ملک میں جہاں اللہ تعالی کی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں ہوتے وہاں اسلامی ریاست قائم ہوجائے، کیونکہ وہ پہلی بات جس میں اللہ تعالی کی شریعت کے مطابق حکم ہونا چاہیے وہ اقامتِ توحید ہے، اور اس کے علاوہ بھی بے شک کچھ ایسے خاص امور ہیں جو بعض زمانوں کی پیداوارہیں جن سے الگ تھلگ رہنا اختلاط سے بہتر ہے، یعنی ایک مسلمان معاشرے سے الگ ہوکر اپنے رب کی عبادت میں لگا رہے، اور خود کو لوگوں کے شر سے بچائے اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھے، اس بارے میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں۔ اگرچہ جو اصل اصول ہے وہ تو یہی ہےجیسا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں بیان ہوا:
’’الْمُؤْمِنُ الَّذِي يُخَالِطُ النَّاسَ، وَيَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ خَيْرٌ مِنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لا يُخَالِطُ النَّاسَ، وَلا يَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ‘‘([2])
(وہ مومن جو لوگوں سے میل ملاپ رکھتا ہے اور ان کی جانب سے پہنچنے والی اذیتوں پر صبر کرتا ہے اس مومن سے بہتر ہے جو نہ لوگوں کے ساتھ مل کر رہتا ہے اور نہ ہی ان کی جانب سے ملنے والی اذیتوں پر صبر کرتا ہے)۔
پس ایک اسلامی ریاست بلاشبہ ایک وسیلہ ہے اللہ تعالی کا حکم زمین پر قائم کرنے کا مگر یہ بذات خود کوئی غرض وغایت نہیں۔
بہت عجیب بات ہے ک
[#SalafiUrduDawah Article] If #Salafees do not participate in #parliament then #secular people will always be in power? – Shaykh #Rabee bin Hadee #Al_Madkhalee
اگر #سلفی #پارلیمنٹ میں شرکت نہیں کریں گے تو ہمیشہ #سیکولر ہی #اقتدار میں رہیں گے؟
فضیلۃ الشیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کیسٹ بعنوان: وقفات في المنهج الكويت 02-1423۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/09/salafee_parliament_secular_bachao_khatir.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: بعض کہتے ہيں کہ اگر سلفی پارلیمنٹ اور انتخابات میں حصہ نہيں لیں گے تو وہ انہیں سیکولروں کے لیے چھوڑ دیں گے، آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
جواب: اللہ کی قسم! میں نے تو انہیں دیکھا ہے کہ جب وہ پارلیمنٹ میں داخل ہوتے ہيں تو وہ ان سیکولروں کے ہاتھ میں آلۂ کار بن کر رہ جاتے ہيں۔ جو لوگ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ اگر وہ پارلیمنٹ میں داخل ہوں گے اور انہیں ان کرسیوں سے اٹھا پھینکیں گے اور ان کی جگہ خود قابض ہوجائيں گے، تو کیا پارلیمنٹ میں حصہ لینے والوں کو یہ حاصل ہوپایا؟ کیا انہوں نے سیکولروں کو ان کی کرسیوں سے اٹھا پھینکا؟ یا پھر اس کے برعکس الٹا سیکولروں کو مزید رسوخ حاصل ہوگیا۔ کیونکہ جب یہ مد مقابل آئے تو انہوں نے بھرپور تیاری کرلی اور شدت کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ٹھان لی، اب آپ ان پر غالب آنا چاہتے ہیں اور وہ آپ پر، اور آخری نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ وہ آپ پر غالب آجاتے ہیں۔ کیونکہ آپ نے وہ شرعی راستہ اختیار کیا ہی نہيں جو اللہ تعالی کی طرف سے نصرت کو لازم کرتاہے۔یہ بات تو بالکل معروف وجانی پہچانی ہے۔ کیا اخوان المسلمین کامیاب ہوئی جب وہ شام، عراق اور مصر وغیرہ کی پارلیمنٹ میں داخل ہوئی، کیا وہ کامیاب ہوئی اور اسلام کو قائم کردیا؟ یا الٹا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بعثی، کمیونسٹ اور ان کے شرکاء نصاریٰ وغیرہ میں سے اس وجہ سے مزید طاقت میں آگئے اور دوسری طرف یہ لوگ مزید کمزور پڑ گئے، پھر کون سے مقاصد کی تکمیل ہوپائی؟
میرے بھائی ہم تو یہ کہتے ہیں: آپ دعوت الی اللہ میں حکمت اور اچھے پیرائے میں وعظ ونصیحت کا راستہ اختیار کریں اور لوگوں کی اس پر تربیت کریں، جیسا کہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام نے کیا تھا۔ وہ ایسے لوگوں کی طرف بھیجے گئے جو طواغیت تھے اور ہوسکتا ہے ان کے وہاں پارلیمنٹ یا اس پارلیمنٹ کے قائم مقام کوئی نظام موجود ہو۔ پس وہ جاتے ہی ان سے کرسی کے لیے مقابلہ نہيں کرنے لگے کہ اس طرح نفسوں کی اصلاح ہوگی، انہوں نے ایسا نہیں کہا۔ سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام آئے جبکہ وہاں ایک بادشاہ تھا، اللہ کی قسم! انہوں نے یہ نہيں کہا کہ میں پارلیمنٹ میں داخل ہوتا ہوں اس کے بعد اصلاح کروں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھیں انہیں تو مکہ کی بادشاہت کی پیشکش بھی کی گئی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ ٹھکرا دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے ٹھکرا دیا اور دعوت الی اللہ کے راستے پر چلتے رہے اور لوگوں کو شرک وگمراہی سے بچانے کی مہم پر گامزن رہے۔ پس کیا آپ لوگ سیکولروں سے لڑائی میں شرک اور گمراہی کو مزید تقویت نہيں دیتے، کیونکہ ایسا نہ کرنے پر آپ اس کے مخالف کہلائے جائيں گے؟! میرے بھائی آپ کفریہ مواد پر حلف اٹھاتے ہیں ، حلف اٹھاتے ہیں کہ آپ اس کا احترام کریں گے، اس کی تصدیق کرتے رہیں گے اور اس پر عمل پیرا رہیں گے۔ پس اس صورت میں آپ شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں العیاذ باللہ، نعوذ باللہ۔ پھر اسلام کے لیے کچھ بھی پیش نہيں کرپاتے۔
میں یہ سوال کرتاہوں: جب ان کی حکومت ہوئی مصر میں تو انہوں نے اسلام میں سے کوئی چیز نافذ کی؟ تاکہ ہم بھی انہیں اپنا نمونہ بنائيں، انہیں سیکولروں کے مقابلے میں غلبہ ملا، انہيں کرسیوں سے اتار پھینک کر خود قابض ہوئے، جب وہ ایسا کرلیتے ہیں اور واقعی اسلام نافذ کردکھاتے ہيں تو پھر ہم بھی اس معاملے پر ذرا دیکھ سکتے ہيں، ہوسکتا ہے ہم ان کے نقش قدم پر چلنے کا سوچیں یہ کہتے ہوئے کہ ان جیسوں کو اس طرح سے وہاں کامیابی حاصل ہوئی تو ہمیں بھی یہاں حاصل ہوجائے گی۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں سوائے شکست کے، سوائے ضیاع کے، سوائے نوجوانوں کو دعوت الی اللہ سے ہٹا کر اس میں مشغول کرنے کے کچھ نظر نہيں آتا ، بلکہ انہیں جھوٹ کی تعلیم دیتے ہيں اور جھوٹے پروپیگنڈہ پھیلانے کی تاکہ جسے انہوں نے کرسی کے لیے بطور امیدوار منتخب کیا ہے اس کی جیت ہوسکے، بلکہ انہیں تعلیم دیتے ہیں کہ کیسے رشوت کا لین دین کریں، پس وہ ان کے اخلاق برباد کردیتے ہيں۔ کتنا ہی ان انتخابات، امیدوار بننے اور مزاحمت ومقابلے نے اخلاق کو تباہ وبرباد کیا ہے۔ کتنا ہی انہوں نے اخلاق کوبگاڑا اور جھوٹ، رشوت، خیانت اور دھوکہ بازی اورآخر تک برائیوں کی تعلیم دی ہے۔ پھر ان اعمال کی وجہ سے دعوت مر جاتی ہے، دعوت کی موت واقع ہو
اگر #سلفی #پارلیمنٹ میں شرکت نہیں کریں گے تو ہمیشہ #سیکولر ہی #اقتدار میں رہیں گے؟
فضیلۃ الشیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کیسٹ بعنوان: وقفات في المنهج الكويت 02-1423۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/09/salafee_parliament_secular_bachao_khatir.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: بعض کہتے ہيں کہ اگر سلفی پارلیمنٹ اور انتخابات میں حصہ نہيں لیں گے تو وہ انہیں سیکولروں کے لیے چھوڑ دیں گے، آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
جواب: اللہ کی قسم! میں نے تو انہیں دیکھا ہے کہ جب وہ پارلیمنٹ میں داخل ہوتے ہيں تو وہ ان سیکولروں کے ہاتھ میں آلۂ کار بن کر رہ جاتے ہيں۔ جو لوگ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ اگر وہ پارلیمنٹ میں داخل ہوں گے اور انہیں ان کرسیوں سے اٹھا پھینکیں گے اور ان کی جگہ خود قابض ہوجائيں گے، تو کیا پارلیمنٹ میں حصہ لینے والوں کو یہ حاصل ہوپایا؟ کیا انہوں نے سیکولروں کو ان کی کرسیوں سے اٹھا پھینکا؟ یا پھر اس کے برعکس الٹا سیکولروں کو مزید رسوخ حاصل ہوگیا۔ کیونکہ جب یہ مد مقابل آئے تو انہوں نے بھرپور تیاری کرلی اور شدت کے ساتھ مقابلہ کرنے کی ٹھان لی، اب آپ ان پر غالب آنا چاہتے ہیں اور وہ آپ پر، اور آخری نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ وہ آپ پر غالب آجاتے ہیں۔ کیونکہ آپ نے وہ شرعی راستہ اختیار کیا ہی نہيں جو اللہ تعالی کی طرف سے نصرت کو لازم کرتاہے۔یہ بات تو بالکل معروف وجانی پہچانی ہے۔ کیا اخوان المسلمین کامیاب ہوئی جب وہ شام، عراق اور مصر وغیرہ کی پارلیمنٹ میں داخل ہوئی، کیا وہ کامیاب ہوئی اور اسلام کو قائم کردیا؟ یا الٹا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بعثی، کمیونسٹ اور ان کے شرکاء نصاریٰ وغیرہ میں سے اس وجہ سے مزید طاقت میں آگئے اور دوسری طرف یہ لوگ مزید کمزور پڑ گئے، پھر کون سے مقاصد کی تکمیل ہوپائی؟
میرے بھائی ہم تو یہ کہتے ہیں: آپ دعوت الی اللہ میں حکمت اور اچھے پیرائے میں وعظ ونصیحت کا راستہ اختیار کریں اور لوگوں کی اس پر تربیت کریں، جیسا کہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام نے کیا تھا۔ وہ ایسے لوگوں کی طرف بھیجے گئے جو طواغیت تھے اور ہوسکتا ہے ان کے وہاں پارلیمنٹ یا اس پارلیمنٹ کے قائم مقام کوئی نظام موجود ہو۔ پس وہ جاتے ہی ان سے کرسی کے لیے مقابلہ نہيں کرنے لگے کہ اس طرح نفسوں کی اصلاح ہوگی، انہوں نے ایسا نہیں کہا۔ سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام آئے جبکہ وہاں ایک بادشاہ تھا، اللہ کی قسم! انہوں نے یہ نہيں کہا کہ میں پارلیمنٹ میں داخل ہوتا ہوں اس کے بعد اصلاح کروں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھیں انہیں تو مکہ کی بادشاہت کی پیشکش بھی کی گئی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ ٹھکرا دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے ٹھکرا دیا اور دعوت الی اللہ کے راستے پر چلتے رہے اور لوگوں کو شرک وگمراہی سے بچانے کی مہم پر گامزن رہے۔ پس کیا آپ لوگ سیکولروں سے لڑائی میں شرک اور گمراہی کو مزید تقویت نہيں دیتے، کیونکہ ایسا نہ کرنے پر آپ اس کے مخالف کہلائے جائيں گے؟! میرے بھائی آپ کفریہ مواد پر حلف اٹھاتے ہیں ، حلف اٹھاتے ہیں کہ آپ اس کا احترام کریں گے، اس کی تصدیق کرتے رہیں گے اور اس پر عمل پیرا رہیں گے۔ پس اس صورت میں آپ شرک میں مبتلا ہوجاتے ہیں العیاذ باللہ، نعوذ باللہ۔ پھر اسلام کے لیے کچھ بھی پیش نہيں کرپاتے۔
میں یہ سوال کرتاہوں: جب ان کی حکومت ہوئی مصر میں تو انہوں نے اسلام میں سے کوئی چیز نافذ کی؟ تاکہ ہم بھی انہیں اپنا نمونہ بنائيں، انہیں سیکولروں کے مقابلے میں غلبہ ملا، انہيں کرسیوں سے اتار پھینک کر خود قابض ہوئے، جب وہ ایسا کرلیتے ہیں اور واقعی اسلام نافذ کردکھاتے ہيں تو پھر ہم بھی اس معاملے پر ذرا دیکھ سکتے ہيں، ہوسکتا ہے ہم ان کے نقش قدم پر چلنے کا سوچیں یہ کہتے ہوئے کہ ان جیسوں کو اس طرح سے وہاں کامیابی حاصل ہوئی تو ہمیں بھی یہاں حاصل ہوجائے گی۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں سوائے شکست کے، سوائے ضیاع کے، سوائے نوجوانوں کو دعوت الی اللہ سے ہٹا کر اس میں مشغول کرنے کے کچھ نظر نہيں آتا ، بلکہ انہیں جھوٹ کی تعلیم دیتے ہيں اور جھوٹے پروپیگنڈہ پھیلانے کی تاکہ جسے انہوں نے کرسی کے لیے بطور امیدوار منتخب کیا ہے اس کی جیت ہوسکے، بلکہ انہیں تعلیم دیتے ہیں کہ کیسے رشوت کا لین دین کریں، پس وہ ان کے اخلاق برباد کردیتے ہيں۔ کتنا ہی ان انتخابات، امیدوار بننے اور مزاحمت ومقابلے نے اخلاق کو تباہ وبرباد کیا ہے۔ کتنا ہی انہوں نے اخلاق کوبگاڑا اور جھوٹ، رشوت، خیانت اور دھوکہ بازی اورآخر تک برائیوں کی تعلیم دی ہے۔ پھر ان اعمال کی وجہ سے دعوت مر جاتی ہے، دعوت کی موت واقع ہو
جاتی ہے، یعنی دعوت الی اللہ تبارک وتعالی۔ جب داعیان ہی جھوٹے ، فتنے کی آگ بھڑکانے والے فتنہ باز ہوں گے تو اللہ کی قسم! لوگ ان پر اعتماد کرنا چھوڑ دیں گے اور ان کی دعوت کو قبول نہيں کریں گے۔ لیکن وہ آپ کو دیکھتے ہیں کہ آپ ایک ایسے انسان ہیں ۔ ۔ ۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿قُلْ مَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِيْنَ﴾ (ص : 86)
(کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس (تبلیغ حق) پر کوئی اجر (اجرت وبدلہ) نہیں مانگتا، اور نہ میں تکلف وبناوٹ کرنے والوں میں سے ہوں)
پھر یہ تکلف کیوں کرتے ہیں؟ آپ کو اجر چاہیں، آپ کو کرسی چاہیے جس پر آپ کا قبضہ ہو، اور لوگوں کا ماشاء اللہ آپ کے گرد حلقہ ہو، یہ سب تو جلد مل جانے والا اجر ہے، بارک اللہ فیکم۔ جبکہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام اللہ تعالی کی قسم! کرسیوں کی خاطر نہيں لڑے، انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام نے تو لوگوں کو اللہ تعالی کی عبادت کی طرف دعوت دی اور شرک و گناہوں سے نکلنے کی طرف دعوت دی، چناچہ وہ اس کے پیچھے نہیں بھاگے۔ اگر یہ واقعی صحیح طریقہ ہوتا تو اللہ کی قسم! ضرور ہمارا رب سبحانہ وتعالی اپنے انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کو یہ سیاست سکھاتا اور انہیں سیاسیات ومنصوبوں میں سے وہ کچھ سکھلاتا جسے کوئی نہیں جانتا سوائے اللہ تعالی کے، پھر وہ بے دین (سیکولروں ) اور مشرکین سے کرسیاں چھین لیتے۔ لیکن جو صحیح طریقہ وراستہ ہے وہ یہی ہے کہ اللہ تعالی کی راہ کی طرف صحیح دعوت دی جائے، عقائد کی تصحیح ہو، لوگوں کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جوڑا جائے، لوگوں کے اندر یہ شعور بٹھایا جائے کہ آپ کو ان کی دنیا میں سے کچھ نہیں چاہیے، آپ نہیں چاہتے مگر صرف وہی چیز جو خود ان لوگوں کو فائدہ دے۔ یہاں تک کہ خود اس کرسی پر براجمان سیکولر کے پاس جائيں اس سے کہیں واللہ! مجھے کچھ نہيں چاہیے، تمہاری کرسی تمہیں مبارک ہو، اس کے خلاف اس کی کرسی کی خاطر لڑنے اور مقابلہ کرنے کے بجائے اس کے پاس اس کے گھر جائيں اس کے سامنے نصیحت پیش کریں جس میں دلائل ہوں ہوسکتا ہے اللہ تعالی آپ کے ہاتھوں اسے ہدایت عطاء فرمائے۔ یہ بہت بہترین واحسن طریقہ ہےبنسبت اس کے کہ اس کا مقابلہ اور جنگ کی جائے اور اس معرکہ آرائی میں رشوت وجھوٹ کے ساتھ داخل ہوا جائے۔ کبھی بھی یہ سیکولر آپ کی بات نہیں مانے گا اور نہ وہ سیکولر، جب اسے یہ اچھی طرح معلوم ہوگا کہ آپ تو اس کی کرسی کے پیچھے پڑے ہیں، اور مال کے اور دنیا کے اور مناصب کی پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ جب پاک صاف دعوت آئے گی جو لوگوں سے ان کی تجارتوں میں مزاحمت نہیں کرتی نا ہی ان کی حکومت میں، نہ ہی ان کی کرسیوں پر لڑتی ہے، ہم تو بس انہیں خیر کی جانب رہنمائی کرنے اور ان کے سامنے حق پیش کرنے والے ہیں، ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالی ان سے راضی ہوجائے تو وہ دنیا وآخرت کی سعادت مندی سے ہمکنار ہوجائيں([1])۔
لیکن اگر ہم آئيں اور ان سے مقابلہ کریں اس دوڑ میں ان کے ساتھ شریک ہوجائيں تو وہ آپ کو نہيں چاہیں گے، اگر لوگ دیکھیں گے کہ آپ ان سے کرسی کے بارے میں مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو وہ کبھی بھی آپ کو نہیں چاہیں گے۔ پس کیا اس طرح سے سلفی دعوت کمزور نہیں ہوئی یہاں کویت میں کہ جب سلفیوں نے یا جو سلفی کہلاتے تھے انہوں نے انتخابات ، پارلیمنٹ اور اس قسم کی جھنجھٹ میں حصہ لینا شروع کیا، تو سلفی دعوت کمزور پڑ گئی، اگر وہ اپنی پہلی ڈگر پر ہی چلتے رہتے تو عین ممکن تھا کہ خود حکام ہی حق پر آجاتے اور ایسی حکومت راشدہ بن جاتی جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق حکومت کرتی۔
[1] جیسا کہ شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ اپنی مایہ ناز کتاب ’’منہج الانبیاء فی الدعوۃ الی اللہ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے سیدنا موسی علیہ الصلاۃ والسلام کو سرکش بادشاہ وخدائی کے دعویدار فرعون کی طرف بھیجا تو یہ ہدایت فرمائی:
آپ کو رسالت کے آغاز ہی میں عقیدۂ توحید بتلایا گیا اور شخصی طور پر آپ کو مکلف کیا گیا کہ اسے دل میں اچھی طرح بٹھا لیں، پھر آپ کو حکم ہوا کہ اسی دعوت کو لے کر فرعون کے پاس جائیں، ساتھ ہی اللہ نے آپ کو دعوت کا حکمت بھرا طریقہ بھی بتایا، جس سے آپ نے فرعون کا سامنا کیا۔اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے: ﴿اِذْهَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى، فَقُلْ هَلْ لَّكَ اِلٰٓى اَنْ تَـزَكّٰى، وَاَهْدِيَكَ اِلٰى رَبِّكَ فَتَخْشٰى﴾ (النازعات:17-19) (آپ فرعون کے پاس جائیں اس نے سرکشی اختیار کر رکھی ہے، اور اس سے کہیں کہ کیا تو اپنی درستگی اور اصلاح چاہتا ہے؟ اور میں تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں تاکہ تیرے اندر اس کا خوف پیدا ہو) پھر آپ کے (بڑے) بھائی سیدنا ہارون علیہ الصلاۃ والسلام کو نبوت عطا کر کے آپ کے ہاتھوں کو مضبوط کیا گیا تاکہ اچھی طرح حجت قائم کی جا سکے، پھر دونوں کو دعوت الی اللہ میں نرمی کی تعلیم دی گئی کیوں کہ یہ اس شخص کی ہدایت کا قریب ترین وسیلہ ہے جسے
اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿قُلْ مَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِيْنَ﴾ (ص : 86)
(کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس (تبلیغ حق) پر کوئی اجر (اجرت وبدلہ) نہیں مانگتا، اور نہ میں تکلف وبناوٹ کرنے والوں میں سے ہوں)
پھر یہ تکلف کیوں کرتے ہیں؟ آپ کو اجر چاہیں، آپ کو کرسی چاہیے جس پر آپ کا قبضہ ہو، اور لوگوں کا ماشاء اللہ آپ کے گرد حلقہ ہو، یہ سب تو جلد مل جانے والا اجر ہے، بارک اللہ فیکم۔ جبکہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام اللہ تعالی کی قسم! کرسیوں کی خاطر نہيں لڑے، انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام نے تو لوگوں کو اللہ تعالی کی عبادت کی طرف دعوت دی اور شرک و گناہوں سے نکلنے کی طرف دعوت دی، چناچہ وہ اس کے پیچھے نہیں بھاگے۔ اگر یہ واقعی صحیح طریقہ ہوتا تو اللہ کی قسم! ضرور ہمارا رب سبحانہ وتعالی اپنے انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کو یہ سیاست سکھاتا اور انہیں سیاسیات ومنصوبوں میں سے وہ کچھ سکھلاتا جسے کوئی نہیں جانتا سوائے اللہ تعالی کے، پھر وہ بے دین (سیکولروں ) اور مشرکین سے کرسیاں چھین لیتے۔ لیکن جو صحیح طریقہ وراستہ ہے وہ یہی ہے کہ اللہ تعالی کی راہ کی طرف صحیح دعوت دی جائے، عقائد کی تصحیح ہو، لوگوں کو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جوڑا جائے، لوگوں کے اندر یہ شعور بٹھایا جائے کہ آپ کو ان کی دنیا میں سے کچھ نہیں چاہیے، آپ نہیں چاہتے مگر صرف وہی چیز جو خود ان لوگوں کو فائدہ دے۔ یہاں تک کہ خود اس کرسی پر براجمان سیکولر کے پاس جائيں اس سے کہیں واللہ! مجھے کچھ نہيں چاہیے، تمہاری کرسی تمہیں مبارک ہو، اس کے خلاف اس کی کرسی کی خاطر لڑنے اور مقابلہ کرنے کے بجائے اس کے پاس اس کے گھر جائيں اس کے سامنے نصیحت پیش کریں جس میں دلائل ہوں ہوسکتا ہے اللہ تعالی آپ کے ہاتھوں اسے ہدایت عطاء فرمائے۔ یہ بہت بہترین واحسن طریقہ ہےبنسبت اس کے کہ اس کا مقابلہ اور جنگ کی جائے اور اس معرکہ آرائی میں رشوت وجھوٹ کے ساتھ داخل ہوا جائے۔ کبھی بھی یہ سیکولر آپ کی بات نہیں مانے گا اور نہ وہ سیکولر، جب اسے یہ اچھی طرح معلوم ہوگا کہ آپ تو اس کی کرسی کے پیچھے پڑے ہیں، اور مال کے اور دنیا کے اور مناصب کی پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ جب پاک صاف دعوت آئے گی جو لوگوں سے ان کی تجارتوں میں مزاحمت نہیں کرتی نا ہی ان کی حکومت میں، نہ ہی ان کی کرسیوں پر لڑتی ہے، ہم تو بس انہیں خیر کی جانب رہنمائی کرنے اور ان کے سامنے حق پیش کرنے والے ہیں، ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالی ان سے راضی ہوجائے تو وہ دنیا وآخرت کی سعادت مندی سے ہمکنار ہوجائيں([1])۔
لیکن اگر ہم آئيں اور ان سے مقابلہ کریں اس دوڑ میں ان کے ساتھ شریک ہوجائيں تو وہ آپ کو نہيں چاہیں گے، اگر لوگ دیکھیں گے کہ آپ ان سے کرسی کے بارے میں مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو وہ کبھی بھی آپ کو نہیں چاہیں گے۔ پس کیا اس طرح سے سلفی دعوت کمزور نہیں ہوئی یہاں کویت میں کہ جب سلفیوں نے یا جو سلفی کہلاتے تھے انہوں نے انتخابات ، پارلیمنٹ اور اس قسم کی جھنجھٹ میں حصہ لینا شروع کیا، تو سلفی دعوت کمزور پڑ گئی، اگر وہ اپنی پہلی ڈگر پر ہی چلتے رہتے تو عین ممکن تھا کہ خود حکام ہی حق پر آجاتے اور ایسی حکومت راشدہ بن جاتی جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق حکومت کرتی۔
[1] جیسا کہ شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ اپنی مایہ ناز کتاب ’’منہج الانبیاء فی الدعوۃ الی اللہ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے سیدنا موسی علیہ الصلاۃ والسلام کو سرکش بادشاہ وخدائی کے دعویدار فرعون کی طرف بھیجا تو یہ ہدایت فرمائی:
آپ کو رسالت کے آغاز ہی میں عقیدۂ توحید بتلایا گیا اور شخصی طور پر آپ کو مکلف کیا گیا کہ اسے دل میں اچھی طرح بٹھا لیں، پھر آپ کو حکم ہوا کہ اسی دعوت کو لے کر فرعون کے پاس جائیں، ساتھ ہی اللہ نے آپ کو دعوت کا حکمت بھرا طریقہ بھی بتایا، جس سے آپ نے فرعون کا سامنا کیا۔اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے: ﴿اِذْهَبْ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى، فَقُلْ هَلْ لَّكَ اِلٰٓى اَنْ تَـزَكّٰى، وَاَهْدِيَكَ اِلٰى رَبِّكَ فَتَخْشٰى﴾ (النازعات:17-19) (آپ فرعون کے پاس جائیں اس نے سرکشی اختیار کر رکھی ہے، اور اس سے کہیں کہ کیا تو اپنی درستگی اور اصلاح چاہتا ہے؟ اور میں تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں تاکہ تیرے اندر اس کا خوف پیدا ہو) پھر آپ کے (بڑے) بھائی سیدنا ہارون علیہ الصلاۃ والسلام کو نبوت عطا کر کے آپ کے ہاتھوں کو مضبوط کیا گیا تاکہ اچھی طرح حجت قائم کی جا سکے، پھر دونوں کو دعوت الی اللہ میں نرمی کی تعلیم دی گئی کیوں کہ یہ اس شخص کی ہدایت کا قریب ترین وسیلہ ہے جسے
اللہ ہدایت دینا چاہتا ہے، فرمایا: ﴿اِذْهَبَآ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰى، فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى﴾ (طہ:43-44) (آپ دونوں فرعون کے پاس جائیں اس نے بڑی سرکشی کی ہے اسے نرمی سے سمجھائیں شاید کہ وہ سمجھ لے یا ڈر جائے)۔ آپ دونوں نے اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے، فرعون کی ہدایت اور توبہ کی امید کرتے ہوئے اس کو اللہ کی طرف بلایا تاکہ وہ اللہ سے ڈر جائے اور ظلم و شرک کے بھیانک انجام سے بچ جائے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding taking part in #democratic_election and #voting – Various #Ulamaa
#جمہوری_انتخابات میں حصہ لینے اور #ووٹ ڈالنے کا حکم
مختلف #علماء کرام
مصدر: (ویب سائٹ البیضاء العلمیۃ) سے کچھ تصرفات کے ساتھ منقول
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیدنا عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عبدالرحمن!
’’لَا تَسْأَلِ الْإِمَارَةَ، فَإِنَّكَ إِنْ أُوتِيتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ إِلَيْهَا، وَإِنْ أُوتِيتَهَا مِنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَا‘‘([1])
(کبھی بھی امارت وعہدے کا سوال مت کرنا، کیونکہ اگر یہ تجھے مانگنے پر مل گیا تو اسی کے سپرد کردیا جائے گا، اور اگر بغیر مانگے تجھے مل گیا تو اللہ تعالی اس سے بحسن خوبی عہدہ براء ہونے میں تمہاری اعانت فرمائے گا)۔
سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا: میں اور میرے چچازاد بھائیوں میں سے دو اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس داخل ہوئے ان میں سے ایک نے کہا: یا رسول اللہ! جن علاقوں پر اللہ نے آپ کو حکومت دی ہے ان میں کسی پر ہمیں بھی امیر بنادیں۔ اور دوسرے نے بھی ایسی ہی بات کی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنَّا وَاللَّهِ لَا نُوَلِّي عَلَى هَذَا الْعَمَلِ أَحَدًا سَأَلَهُ وَلَا أَحَدًا حَرَصَ عَلَيْهِ‘‘([3])
(اللہ کی قسم! بے شک ہم ہرگز بھی اس عہدے پر اسے فائز نہیں کرتے جو خود اسے طلب کرے اور نہ ہی اسے جو اس کی حرص رکھتا ہو)۔
اس مقالے میں پڑھیں:
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/05/jamhori_intikhabaat_may_hissa_layna.pdf
انتخابات کی تعریف
انتخابات کا ہمارے دین سے کوئی تعلق نہیں
کیا انتخابات شریعت الہی کے موافق ہیں یا اس سے متصادم ہیں
کیا انتخابات شرعی وسائل میں سے ہے؟
انتخابات کے بعض مفاسد
منصب کے لیے خود کو منتخب کرنے کے لیے پیش کرنا یا عہدہ طلب کرنے کی ممانعت میں احادیث نبویہ اور ان پر تعلیق
انتخابات ، اس میں حصہ لینے یا ووٹ ڈالنے کا حکم
اس شخص کا حکم جو الیکشن کی طرف بلائے، حصہ لے اور ووٹ دے
ان لوگوں کا حکم جو بعض علماء کرام کے فتاوی سے دلیل پکڑتےہیں کہ وہ انتخابات کو جائز کہتے ہیں
کیا انتخابات اجتہادی مسائل میں سے ہے
آخرکار پھر اس نظا م کا نعم البدل کیا ہے؟
[1] صحیح بخاری 6622، صحیح مسلم 1654۔
[2] صحیح بخاری 6409،صحیح مسلم 338۔
[3] صحیح مسلم 1826۔
#جمہوری_انتخابات میں حصہ لینے اور #ووٹ ڈالنے کا حکم
مختلف #علماء کرام
مصدر: (ویب سائٹ البیضاء العلمیۃ) سے کچھ تصرفات کے ساتھ منقول
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیدنا عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عبدالرحمن!
’’لَا تَسْأَلِ الْإِمَارَةَ، فَإِنَّكَ إِنْ أُوتِيتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ إِلَيْهَا، وَإِنْ أُوتِيتَهَا مِنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَا‘‘([1])
(کبھی بھی امارت وعہدے کا سوال مت کرنا، کیونکہ اگر یہ تجھے مانگنے پر مل گیا تو اسی کے سپرد کردیا جائے گا، اور اگر بغیر مانگے تجھے مل گیا تو اللہ تعالی اس سے بحسن خوبی عہدہ براء ہونے میں تمہاری اعانت فرمائے گا)۔
سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا: میں اور میرے چچازاد بھائیوں میں سے دو اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس داخل ہوئے ان میں سے ایک نے کہا: یا رسول اللہ! جن علاقوں پر اللہ نے آپ کو حکومت دی ہے ان میں کسی پر ہمیں بھی امیر بنادیں۔ اور دوسرے نے بھی ایسی ہی بات کی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنَّا وَاللَّهِ لَا نُوَلِّي عَلَى هَذَا الْعَمَلِ أَحَدًا سَأَلَهُ وَلَا أَحَدًا حَرَصَ عَلَيْهِ‘‘([3])
(اللہ کی قسم! بے شک ہم ہرگز بھی اس عہدے پر اسے فائز نہیں کرتے جو خود اسے طلب کرے اور نہ ہی اسے جو اس کی حرص رکھتا ہو)۔
اس مقالے میں پڑھیں:
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/05/jamhori_intikhabaat_may_hissa_layna.pdf
انتخابات کی تعریف
انتخابات کا ہمارے دین سے کوئی تعلق نہیں
کیا انتخابات شریعت الہی کے موافق ہیں یا اس سے متصادم ہیں
کیا انتخابات شرعی وسائل میں سے ہے؟
انتخابات کے بعض مفاسد
منصب کے لیے خود کو منتخب کرنے کے لیے پیش کرنا یا عہدہ طلب کرنے کی ممانعت میں احادیث نبویہ اور ان پر تعلیق
انتخابات ، اس میں حصہ لینے یا ووٹ ڈالنے کا حکم
اس شخص کا حکم جو الیکشن کی طرف بلائے، حصہ لے اور ووٹ دے
ان لوگوں کا حکم جو بعض علماء کرام کے فتاوی سے دلیل پکڑتےہیں کہ وہ انتخابات کو جائز کہتے ہیں
کیا انتخابات اجتہادی مسائل میں سے ہے
آخرکار پھر اس نظا م کا نعم البدل کیا ہے؟
[1] صحیح بخاری 6622، صحیح مسلم 1654۔
[2] صحیح بخاری 6409،صحیح مسلم 338۔
[3] صحیح مسلم 1826۔
[#SalafiUrduDawwah Booklet] Our booklet "#Salafi_Manhaj" has been published once again, contact us to get your copy.
ہمارا کتابچہ "#سلفی_منہج" دوبارہ شائع ہوکر آچکا ہے، جو ساتھی لینا چاہیں وہ رابطہ کریں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/07/salafi_manhaj_booklet1.pdf
ہمارا کتابچہ "#سلفی_منہج" دوبارہ شائع ہوکر آچکا ہے، جو ساتھی لینا چاہیں وہ رابطہ کریں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/07/salafi_manhaj_booklet1.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] Is #visiting the #grave_of_the_prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) obligatory for the #pilgrims? – #Fatwaa_committee, Saudi Arabia
کیا #قبر_رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی #زیارت #حجاج کرام پر لازمی ہے؟
- #فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجم: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء>المجموعة الأولى>المجلد الحادي عشر (الحج والعمرة) > الحج والعمرة>آداب الزيارة>هل يلزم الحجاج زيارة قبر الرسول صلى الله عليه وسلم۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/qabr_rasool_ziyarat_hajj_zarori.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فتوی رقم 10768 سوال 7:
کیا حجاج پر خواہ مرد ہوں یا عورتیں قبر رسول ﷺ کی زیارت واجب ہے اسی طرح بقیع(قبرستان)، (شہداء)اُحد اور (مسجد) قباء کی، یا پھر یہ صرف مردوں پر واجب ہے؟
جواب: حجاج مرد ہوں یا عورتيں کسی پر بھی قبر ِرسول ﷺ کی زیارت لازم نہيں ہے، نا ہی البقیع کی([1])۔ بلکہ قبروں کی زیارت کے لیے شد رحال (باقاعدہ ثواب کی نیت سے رختِ سفر باندھنا) مطلقا ًحرام ہے۔ اور خواتین پر تو شد رحال کے علاوہ بھی حرام ہے، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ، وَمَسْجِدِي هَذَا وَالْمَسْجِدِ الْأَقْصَى‘‘([2])
(کجاوے نہ کسے جائیں (یعنی ثواب کے نیت سے باقاعدہ رخت ِسفر نہ باندھی جائے) سوائے تین مساجد کی طرف سفر کے لیے، مسجد الحرام، میری یہ مسجد (یعنی مسجد نبوی) اور مسجد الاقصیٰ)۔
اور اس لیے بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے([3])۔ لہذا عورتوں کے لیے کافی ہے کہ وہ مسجد نبوی میں نماز ادا کریں، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر باکثرت درود وسلام بھجیں خواہ مسجد میں ہوں یا اس کے علاوہ۔
وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضو نائب رئيس اللجنة الرئيس
عبد الله بن غديان عبد الرزاق عفيفي عبد العزيز بن عبد الله بن باز
[1] البتہ جو مرد حضرات مسجد نبوی کے لیے شد رحال کرکے جائیں تو ساتھ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر جاکر درود وسلام پڑھ سکتے ہیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] صحیح بخاری 1189، صحیح مسلم 1399۔
[3] صحیح ابن ماجہ 1291، صحیح الترمذی 1056 وغیرہ۔
کیا #قبر_رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی #زیارت #حجاج کرام پر لازمی ہے؟
- #فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجم: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء>المجموعة الأولى>المجلد الحادي عشر (الحج والعمرة) > الحج والعمرة>آداب الزيارة>هل يلزم الحجاج زيارة قبر الرسول صلى الله عليه وسلم۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/qabr_rasool_ziyarat_hajj_zarori.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فتوی رقم 10768 سوال 7:
کیا حجاج پر خواہ مرد ہوں یا عورتیں قبر رسول ﷺ کی زیارت واجب ہے اسی طرح بقیع(قبرستان)، (شہداء)اُحد اور (مسجد) قباء کی، یا پھر یہ صرف مردوں پر واجب ہے؟
جواب: حجاج مرد ہوں یا عورتيں کسی پر بھی قبر ِرسول ﷺ کی زیارت لازم نہيں ہے، نا ہی البقیع کی([1])۔ بلکہ قبروں کی زیارت کے لیے شد رحال (باقاعدہ ثواب کی نیت سے رختِ سفر باندھنا) مطلقا ًحرام ہے۔ اور خواتین پر تو شد رحال کے علاوہ بھی حرام ہے، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ، وَمَسْجِدِي هَذَا وَالْمَسْجِدِ الْأَقْصَى‘‘([2])
(کجاوے نہ کسے جائیں (یعنی ثواب کے نیت سے باقاعدہ رخت ِسفر نہ باندھی جائے) سوائے تین مساجد کی طرف سفر کے لیے، مسجد الحرام، میری یہ مسجد (یعنی مسجد نبوی) اور مسجد الاقصیٰ)۔
اور اس لیے بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے([3])۔ لہذا عورتوں کے لیے کافی ہے کہ وہ مسجد نبوی میں نماز ادا کریں، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر باکثرت درود وسلام بھجیں خواہ مسجد میں ہوں یا اس کے علاوہ۔
وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضو نائب رئيس اللجنة الرئيس
عبد الله بن غديان عبد الرزاق عفيفي عبد العزيز بن عبد الله بن باز
[1] البتہ جو مرد حضرات مسجد نبوی کے لیے شد رحال کرکے جائیں تو ساتھ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر جاکر درود وسلام پڑھ سکتے ہیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] صحیح بخاری 1189، صحیح مسلم 1399۔
[3] صحیح ابن ماجہ 1291، صحیح الترمذی 1056 وغیرہ۔