Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.29K subscribers
2.49K photos
52 videos
211 files
4.94K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[Urdu Article] Ruling regarding saying "Ramadaan Mubarak" – Various 'Ulamaa
رمضان کی مبارکباد دینے کا حکم؟
مختلف علماء کرام
ترجمہ و ترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/06/ramadan_mubarak_kehnay_ka_hukm.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’قَدْ جَاءَكُمْ شَهْرُ رَمَضَانَ، شَهْرٌ مُبَارَكٌ، افْتَرَضَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ، يُفْتَحُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَيُغْلَقُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَحِيمِ، وَتُغَلُّ فِيهِ الشَّيَاطِينُ، فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، مَنْ حُرِمَ خَيْرَهَا فَقَدْ حُرِمَ‘‘([1])
(تمہارے پاس رمضان کا مہینہ آن پہنچا ہے، جو کہ مبارک مہینہ ہے، اللہ تعالی نے اس کا روزہ تم پر فرض قرار دیا ہے، اس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، اورشیطانوں کو جکڑ لیا جاتا ہے،اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار ماہ سے بہتر ہے جو اس کی خیر سے محروم رہا تو واقعی وہ محروم ہی رہا)۔
امام ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’یہ حدیث ایک دوسرے کو رمضان کی مبارکباد دینے کے بارے میں اصل ہے (یعنی بنیادی حیثیت رکھتی ہے)۔۔۔‘‘([2])۔
اور مسلمان آپس میں اس ماہ مبارک کی ایک دوسرے کو مبارکباد وبشارت دیتے چلے آئے ہیں، کیونکہ کسی خاص موقع وموسم کی مبارکباد دینا عادات کے باب سے تعلق رکھتا ہے اور اہل علم کے یہاں یہ شرعی قاعدہ مشہور ہے کہ:
’’أن الأصل في العادات الإباحة فلا ينكر منها إلا ما نهى عنه الشارع‘‘
(بلاشبہ عادات کے بارے میں اصل اباحت یعنی جائز ہونا ہے، ان میں سے کسی پر نکیر نہیں کی جائے گی سوائے اس کے جس سےشارع نے منع فرمایا ہے)۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ بدعت کے تعلق سے مشہور حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ‘‘
(جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات ایجاد کی جو اس میں نہیں تھی تو وہ مردود ہے)
اسے بخاری ومسلم نے روایت کیا، اور صحیح مسلم کی ایک روایت کے الفاظ ہیں:
’’مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ‘‘
(جس کسی نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود ہے)۔
آپ رحمہ اللہ نے فرمایا سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ فلاں کام عبادت ہے یا عادت، مثلاً اگر کوئی اپنے دوست کو جو مرتے مرتے بچا ہو کہے کہ: ماشاء اللہ تمہیں مبارک ہو۔ تو اسے کوئی شخص یہ کہہ دے کہ یہ تو بدعت ہے! دراصل یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ امور عادات میں سے ہے نہ کہ عبادات میں سے۔اور خود شریعت میں اس کی دلیل موجود ہے کہ ایک طویل حدیث میں ہے جب سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ([3]) کی توبہ قبول ہوئی تھی تو سب انہیں مبارکباد دے رہے تھے۔ لہذا بہت سی مبارکبادیں جو لوگوں کے درمیان رائج ہیں ان کے بارے میں کوئی بغیر دلیل کے یہ گمان نہ کرے کہ یہ بدعت ہیں ، کیونکہ یہ امور عادات میں سے ہے ناکہ عبادات میں سے۔ جیسا کہ کوئی شخص امتحان میں کامیاب ہوجائے تو اس کا ساتھی اسے کہتا ہے مبارک ہو۔ اس پر جو یہ کہے کہ یہ بدعت ہے تو اسے اس کا حق حاصل نہیں۔ اور اگر کسی پر کسی عمل کا حکم مشتبہ ہوجائے کہ آیا یہ عادت ہے یا عبادت تو اصل یہی ہے کہ وہ عادت ہے جب تک دلیل نہ ہو اسے عبادت ثابت کرنے کی([4])۔
[1] رواه الإمام أحمد في المسند ، والنسائي في سننه، قال العلامة الألباني :صحيح . انظر صحيح الترغيب 1/490۔
[2] لطائف المعارف (1/158).
[3]ان تین صحابہ کے مشہور قصے کی طرف اشارہ ہے کہ جو جہاد سے پیچھے رہ گئے تھے پھر اللہ تعالی نے ان سے بائیکاٹ کرلینے کا حکم نازل فرمایا اور آخرکار تقریباً پچاس راتوں کے بعد ان کی توبہ کی قبولیت کی آیات نازل ہوئیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[4]مجموع فتاوى ورسائل الشيخ العثيمين رحمه الله وغفر له المجلد الخامس.
[Updated Articles] Are the Saudi 'Ulamaa pressurize by government? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
کیا سعودی علماء کرام پر حکومتی دباؤ ہوتا ہے؟ – شیخ صالح بن فوزان الفوزان
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/09/kiya_saudi_ulama_par_hukumati_dabao_hota_hai.pdf

Six conditions for an action to become according to Sunnah – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen
کسی عمل میں متابعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی چھ شرائط – شیخ محمد بن صالح العثیمین
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/11/amal_mutabiaat_rasool_6_sharait.pdf

An innovator is also a legislator – Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen Al-Albaanee
ایک بدعتی بھی شریعت سازی کرتا ہے - شیخ محمد ناصر الدین البانی
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/bidati_bhi_sharait_sazi_karta_hai.pdf

Important advice to those who wish to seek knowledge in a place where there are no scholars and are unable to travel to cities in which scholars are found – Shaykh Rabee' bin Hadee Al-Madkhalee
تحصیل علم اور تفقہ فی الدین کے تعلق سے ان لوگوں کو اہم نصیحت جن کے علاقوں میں علماء نہيں اور وہ ان شہروں تک سفر نہيں کرسکتے جہاں علماء ہیں – شیخ ربیع بن ہادی المدخلی
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/01/tehseel_e_ilm_jahan_ulama_na_ho.pdf

Is following the habits of Rasoolullah (SalAllaho alaihi wasallam) obligatory or recommended? – Shaykh Abdus Salaam bin Burjus Aal-Abdul Kareem
کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادات مبارکہ پر عمل کرنا واجب ہے یا مستحب – شیخ عبدالسلام بن برجس آل عبدالکریم
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/12/adaat_nabwi_wajib_ya_mustahab.pdf

A brief introduction of AhlusSunnah wal Jama'ah – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
اہل سنت والجماعت کا مختصر تعارف – شیخ صالح بن فوزان الفوزان
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/11/ahlesunnat_wal_jamat_mukhtasar_taruf.pdf
[Urdu Article] Warning to those who confuse people every year regarding moon-sighting – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
ان لوگوں کو تنبیہ جو ہر سال رؤیت ہلال کے بارے میں لوگوں کو پریشان کرتے ہیں – شیخ صالح بن فوزان الفوزان

شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
اس اللہ تعالی کی تعریفیں ہیں جس نے چاند کولوگوں کے لئے مواقیت بنایا ،یعنی جس کے ذریعہ سے وہ اپنی عبادات کے اوقات اور معاملات کی معیاد کو جان پاتے ہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبودِ حقیقی نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، ہم اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے، اسی کے لئے ملک ہے اور اسی کے لئے حمد ہے، او وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، جنہوں نے اپنی امت کے لئے روزوں کی ابتداء اور انتہاء مقرر فرمادیں، چناچہ ارشاد فرمایا:
’’صوموا لرؤيته ، وأفطروا لرؤيته ، فإن غم عليكم فأكملوا عدة شعبان ثلاثين يومًا ‘‘([1])
(چاند دیکھ کر روزے شروع کرو، اور چاند دیکھ کر ہی عید مناؤ، اور اگر مطلع ابرآلود ہو تو شعبان کے تیس(30) دن مکمل شمار کرلو)۔
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
[1] صحیح بخاری 1909، صحیح مسلم 1083، صحیح بخاری کے الفاظ ہیں: ’’صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ غُبِّيَ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ ‘‘۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/06/roeyat_e_hilal_ikhtilaf_par_tanbeh.pdf
[Urdu Article] Why those who call to the unity of moon-sighting do not call to the unity of Aqeedah and its implementation? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
وحدت روئیت ہلال کی دعوت میں شدت کرنے والے
وحدت عقیدہ اور تحکیم شریعت کی طرف دعوت کیوں نہیں دیتے؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: تسهيل الإلمام بفقه الأحاديث من بلوغ المرام
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/06/tawheed_roeyat_tawheed_aqeedah.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
فضیلۃ الشیخ حفظہ اللہ ’’تسهيل الإلمام بفقه الأحاديث من بلوغ المرام‘‘ میں رمضان کے چاند کے ثبوت کے متعلق احادیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
۔۔۔اور جو آجکل بعض جاہل لوگ، مدعئ علم اور دین بیزار کرنے والے لوگ چاند کی روئیت کے تعلق سے فلکی حساب پر مکمل اعتماد کرنے کی دعوت دے رہے ہیں تو یہ اللہ کے دین میں ایک نئی چیز کا ایجاد کرنا ہے جسے اللہ تعالی نے مشروع قرار نہیں دیا۔ اللہ تعالی نے ہمارے لیے روزوں کو شروع کرنے کے لیے دو امور مشروع کیے ہیں یا تو آنکھو ں سے چاند کو دیکھ لینا یا پھر ماہ شعبان کو مکمل کرنا یہاں تیسری کسی چیز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ فلکی حساب، علم نجوم، اور چاند کی منازل کی معرفت کا علم عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی موجود تھا بلکہ جو آجکل ہے اس سے بھی قوی تر تھا۔ اس کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس فلکی حساب پر اعتماد نہیں فرمایا کیونکہ اس میں خطاء کا اندیشہ ہمیشہ رہتا ہے۔ فلکی حساب ایک بشری کاوش ہے جس میں غلطی کا اندیشہ بہرحال رہتا ہے۔اور ماہر فلکیات حساب لگانے والا غلطی کرجاتا ہے کیونکہ وہ ایک بشر ہی ہے۔
مزید یہ کہ یہ فلکی حساب ایک مخفی امر ہے جسے بہت سے لوگ نہيں جانتے جبکہ اللہ کا دین تو بہت آسان ہے الحمدللہ۔ لہذا شارع نے روزوں کو ایک واضح اور آسان بات کے ساتھ معلق کیا جسے ہر عامی ، جاہل اور پڑھا لکھا ہر ایک بنا کسی مشقت کے بآسانی جان سکتا ہے۔ یا تو چاند کو دیکھ لیا جائے یاپھر شعبان کے تیس دن مکمل کرلیے جائیں یہ ہر انسان جانتا ہے۔ برخلاف فلکی حساب کے کہ جسے ہر کوئی نہیں جانتا۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس میں غلطی، خطاء اور جلدبازی کا اندیشہ لاحق رہتا ہے۔ وہ لوگ جو ہر سال روئیت ہلال کے متعلق لوگوں کے دلوں میں شکوک وشبہات ڈالتے ہيں اور کہتےہيں کہ یہ ماہرین فلکیات کے خلاف ہے کیونکہ انہوں نے کہا آج رات چاند کا دکھنا ممکن ہی نہيں وغیرہ۔ یہ سب جہل اور اللہ تعالی کے ذمے بلاعلم بات کرنے کی قبیل میں سے ہے۔ واجب ہے کہ ان لوگوں کو لگام دی جائے اور انہیں اس تلاعب وتماشے سے روکا جائے۔
اس بات پر خصوصی توجہ دینی چاہیے اور ایسے لوگوں کو جو لوگوں کے امور عبادت کے تعلق سے یہ تماشہ کرتے ہیں اور شک میں ڈالتے ہیں بالکل بھی موقع نہیں دیناچاہیے۔ امور عبادت الحمدللہ واضح نشانیوں کے ساتھ معلق ہيں۔ نمازوں کے اوقات واضح ہيں۔ صبح کی نماز طلوع فجر پر پڑھی جاتی ہے جو واضح نشانی ہے، نماز ظہر زوال شمس کے بعد جب سایہ مشرق کی جانب سے ظاہر ہوتا ہے اس وقت پڑھی جاتی ہے یہ نشانی بھی واضح ہے جسے ہر انسان جانتا ہے،نماز عصر کا وقت اس وقت داخل ہوتا ہے جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوجاتا ہے، نماز مغرب غروب شمس کے بعد پڑھی جاتی ہے، اور نماز عشاء شفق احمر (مغرب کے بعدکی سرخی) کے غائب ہونے کے بعد پڑھی جاتی ہے۔ یہ سب بہت واضح امور ونشانیاں ہیں۔ اسی طرح سے روزوں کا معاملہ ہے۔ روزے روئیت ہلال پر شروع کیے جاتے ہیں اور چاند تو ایک واضح چیز ہے۔ یا پھر اگر چاند نہ دکھے توشعبان کے تیس روز مکمل کیے جاتے ہیں ۔ یہ اللہ تعالی کی جانب سے ایک آسانی ہے۔
﴿ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ ﴾ (الحج: 78)
(اور اس (اللہ تعالی ) نے تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی)
یہ لوگ کانفرنسیں اور سیمینارز منعقد کرتے ہيں تاکہ امت کو روئیت ہلال پر اکھٹا کردیا جائے اور کہتے ہیں یہی بات مسلمانوں کے اختلاف اور تفرقے کا سبب ہے۔ سبحان اللہ! مسلمان عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر آج تک روزے رکھتے چلے آئے ہیں ان میں کوئی اختلاف واقع نہیں ہوا یہاں تک کہ جب یہ مغربی لوگ آوارد ہوئے۔
پھر دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ وہ کیا چیز ہے جو مسلمانوں کو متحد کرسکتی ہے، کیا یہ روئیت ہلال ہے؟! جو بات مسلمانوں کو متحد کرسکتی ہے وہ کتاب اللہ کے حکم پر عمل ہے۔ پس ان میں سے اکثر کے یہاں کہاں ہے کتاب اللہ کا حکم اور اس پر عمل؟ نہیں ہے ان کے پاس کتاب اللہ کا حکم۔ یہ لوگ کتاب اللہ کی تحکیم کی طرف کیوں نہیں بلاتے تاکہ مسلمانوں میں حقیقی اتحاد قائم ہو۔ انہيں سوائے چاند کے اور کچھ نہیں ملا کہ جس پر تمام تر توجہ مرکوز رکھیں۔ یہ جہالت ہے اور دین میں وہ سختی اپنانا ہے جس کی اللہ تعالی نے کوئی دلیل نازل نہيں فرمائ
ی۔ مسلمان سوائے تصحیح عقیدہ کے متحد نہیں ہوسکتے۔ یہ لوگ تصحیح عقیدہ کی جانب کیوں دعوت نہيں دیتےتاکہ حقیقی وحدۃ المسلمین قائم ہوجائے؟ مسلمان سوائے صحیح عقیدے کے جمع نہیں ہوسکتے، عقیدۂ توحید کے سواان کا جمع ہونا محال ہے۔ لیکن حالت اگر یہی ہو کہ ہرکسی کا اپنا طریقہ، اپنا مسلک اور اپنا عقیدہ ہے تو ممکن ہی نہيں کہ مسلمان متحد ہوسکیں۔ لازماً ان کے درمیان عداوت، قطع تعلقی اور جنگ وجدل واقع ہوگا۔ پس یہ لوگ کیوں تصحیح عقیدہ کی طرف نہیں بلاتے تاکہ مسلمانوں میں حقیقی اتحاد پیدا ہو؟ کیوں یہ لوگ کتاب اللہ کی تحکیم اور طاغوتی قوانین کو پھینک دینے کی طرف نہيں بلاتے؟ جبکہ جو روزوں کا معاملہ ہے اگرچہ سب لوگ مل کر ہی روزے کیوں نہ رکھ لیں اس سے اتحاد نہيں ہوسکتا۔
پھر یہ بھی دیکھیں کہ کیوں تمام علاقوں اور ممالک والے مختلف اوقات میں نماز ادا کرتے ہیں، کیوں یہ سب پوری دنیا میں ایک ہی منٹ اور ایک ہی وقت میں نماز نہیں پڑھتے ہیں۔ ہمارے یہاں جب رات ہوتی ہے تو دوسروں کے وہاں دن ہوتا ہے ممکن ہی نہیں کہ وہ ایک ہی وقت میں نماز پڑھ سکیں۔ کیونکہ مطالع مختلف ہوتے ہيں اور زمین مختلف ہوتی ہیں جن کی وجہ سے ہمارے اور دوسروں کے مابین اوقات میں تفاوت واختلاف ہوتا ہے۔ ممکن نہيں کہ ہم ایک ہی وقت میں نماز پڑھ سکیں۔ یہ لوگ پھر یہ کیوں نہیں کہتےکہ ہم سب پر واجب ہے کہ پوری دنیا میں ایک ہی وقت میں نماز پڑھیں۔ ظہر کی نماز ہو یا عصر کی تاکہ سب مسلمان متحدہوجائیں۔ کیا اس طریقے سے نماز صحیح ہوگی؟ یہ عصر پڑھ رہے ہوں گے تو ان کے وہاں رات ہوگی یا فجر کا وقت ہوگا یا پھر یہ عشاء پڑھ رہے ہوں گے اور ان کے وہاں دن ہوگا، یہ جائز نہیں۔ اگر نماز میں ایسا ہے تو پھر روزوں میں بھی ایسا ہی ہے۔ یہ ایک ضروری بات ہے یعنی نمازوں، عیدین اور روزوں میں یہ اختلاف ِاوقات ایک ضروری امر ہے۔ اللہ تعالی نے کائنات ایسے ہی بنائی ہے۔ ان کے پاس رات ہوگی تو دوسروں کے پاس دن، ان کے پاس عصر کا وقت ہوگا تو دوسروں کے پاس ظہر کا۔ الحمدللہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کے لیے دین میں کوئی تنگی نہيں رکھی۔ ہرکوئی اپنے جائے وقوع اور اوقات کے مطابق چلے،اللہ تعالی نے اس تنگی ومشقت کا مسلمانوں کو حکم نہيں دیا۔ چناچہ وہ لوگ جو کوشش کررہے ہيں کہ روئیت ہلال، روزے اور عید تمام مسلمانوں کی ایک ساتھ ہو، اور یہ کہنا کہ اس میں بغیر فلکی حساب کے نظم وضبط نہیں آسکتا۔ یہ سب کچھ بیوقوفی اور جہالت در جہالت ہے۔ اور لوگوں کو ایسی بات کا مکلف کرنا ہے جس کی اللہ تعالی نے کوئی دلیل نازل نہيں فرمائی۔
پھر شیخ حفظہ اللہ نے اس کے بعد ایک اہم مسئلے پر تنبیہ فرمائی وہ یہ کہ کیا کسی ایک ملک میں چاند دکھنے پر تمام مسلمان اس روئیت کا اعتبار کرکے روزہ رکھنا شروع کردیں گے؟
آپ نے جواب ارشاد فرمایا:اگر ان ممالک میں مطالع مختلف نہیں تو ان سب پر روزہ رکھنا واجب ہوگا لیکن اگر ایک ملک یاخطے سے دوسرے ملک یا خطے کے مطالع مختلف ہوں ان کے مابین طویل مسافت کے باعث تو دوسرے خطے کے لوگوں پر روزہ رکھنا واجب نہيں جب تک کہ وہ خود چاند نہ دیکھ لیں۔ ہر قوم کی اپنی روئیت ہوگی۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ‘‘([1])
(اسے (چاند کو) دیکھ کر روزے شروع کرو، اور اسے دیکھ کر ہی عید مناؤ)۔
لہذا جب مطالع مختلف ہوں تو ہر قوم کی اپنی روئیت کا اعتبار کیا جائے گا کیونکہ مطالع ایک خطے سے دوسرے خطے اور ایک براعظم سے دوسرے براعظم کےمختلف ہوتے ہیں۔ ایک خطے کے لوگوں پر دوسرے دور دراز کے خطے کی لوگوں کی روئیت کی بنا پر روزے رکھنا واجب نہیں کیونکہ ان کے مابین عظیم مسافت کے باعث ان کے مطالع بدل جاتے ہيں۔
یہ اہل علم کا ایک قول ہے اور یہی محققین کے نزدیک راجح ہے ۔ کیونکہ مطالع کے علم کے ماہرین کا بھی اس بات پر اتفاق ہےکہ مختلف خطوں میں مطالع مختلف ہوتے ہيں۔
دوسرا قول یہ ہے کہ تمام اقطار واکناف کے مسلمانوں پر ایک ہی روئیت ہلال پر روزہ رکھناواجب ہے۔
اس مسئلے میں اہل علم کے مابین اختلاف ہے۔ پس یہ مسئلہ محل نظر وترجیح ہے۔اس میں اس ملک کے اہل علم کی جانب رجوع کیا جائے گا۔ اگر وہ ایک ہی مطالع کو سب پر لاگو مانتے ہیں تو وہ اپنے اجتہاد کے مطابق عمل کریں لیکن اگر وہ اختلاف مطالع کا اعتبار کرنے کے قائل ہيں تو یہی صحیح اور راجح ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما مدینہ نبویہ میں رہتے ہوئے اہل شام کی روئیت پر عمل نہيں کرتے تھے۔ اہل شام نے جمعے کے روز چاند دیکھا اور روزہ رکھا جبکہ اہل مدینہ نے ہفتے کے روز چاند دیکھا اور ہفتے کے دن سے ہی روزوں کاآغاز کیا۔ لہذا ان کے مابین ایک دن کا تفاوت ہوگیامگر سیدنا ابن عباس wنے فرمایا:
’’لكنا لا نفطر حتى نرى الهلال، ولم يعمل برؤية أهل الشام‘‘([2])
(لیکن ہم تو اس وقت تک عید نہیں منائیں گے جب تک چاند نہ دیکھ لیں، اور ہم اہل شام کی روئیت پر عمل نہیں کریں گے)۔
یہ دلیل ہے کہ اختلاف مطالع کے قول کو لیا ج
ائے کیونکہ یہی راجح قول ہے۔
اور یہ بات اس کے متعارض نہيں جو ہم نے شروع میں بیان کی کہ علم فلکیات کا اعتبار نہ کیا جائے۔ بلکہ یہاں تو معاملہ روئیت ہلال (یعنی آنکھوں سے چاند دیکھنے) پر عمل کا ہے۔ہم جس چیز کا رد کرتے ہيں وہ فلکی حساب پر عمل کرنا ہے یہاں تک کہ ان کے بعض غالی لوگ (العیاذ باللہ) یہ تک کہہ دیتے ہیں کہ: اگر روئیت اور فلکی حساب میں تعارض ہوجائے تو روئیت پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ یعنی احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ٹھکرا دیا جائے گا۔ ہمارا کلام ان پر تھا جو کہتے ہیں واجب ہے کہ حساب فلکی کے مطابق روئیت کا اعتبار کیا جائے اور اس پر تمام دنیا کے مسلمان ایک ساتھ روزے رکھیں۔ لیکن جو یہ کہتا ہے کہ صحیح اسلامی روئیت جو آنکھوں سے چاند دیکھنے کی ہوتی ہے اس کے اعتبار سے ایک علاقے کی روئیت کا اعتبار کرکے تمام مسلمانوں پر روزہ رکھنا واجب ہے تو یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے علماء کرام کے دو اقوال ہیں جو میں نے بیان کیے۔ چناچہ اس مسئلے کو دوسرے کے ساتھ خلط ملط نہ کیا جائے۔ اور توفیق دینے والا تو اللہ تعالی ہی ہے۔
[1] صحیح بخاری 1909، صحیح مسلم 1081۔
[2] صحیح مسلم 1089 کے الفاظ ہیں: ’’عَنْ كُرَيْبٍ، أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بِنْتَ الْحَارِثِ بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالشَّامِ، قَالَ: فَقَدِمْتُ الشَّامَ فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا، وَاسْتُهِلَّ عَلَيَّ رَمَضَانُ وَأَنَا بِالشَّامِ، فَرَأَيْتُ الْهِلَالَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرِ، فَسَأَلَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلَالَ، فَقَالَ: مَتَى رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ؟، فَقُلْتُ: رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ: أَنْتَ رَأَيْتَهُ؟، فَقُلْتُ: نَعَمْ وَرَآهُ النَّاسُ، وَصَامُوا وَصَامَ مُعَاوِيَةُ ، فَقَالَ: لَكِنَّا رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ فَلَا نَزَالُ نَصُومُ حَتَّى نُكْمِلَ ثَلَاثِينَ أَوْ نَرَاهُ، فَقُلْتُ: أَوَ لَا تَكْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَصِيَامِهِ، فَقَالَ: لَا هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، وَشَكَّ يَحْيَى بْنُ يَحْيَى فِي نَكْتَفِي أَوْ تَكْتَفِي‘‘ (توحید خالص ڈاٹ کام)