Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.29K subscribers
2.49K photos
52 videos
211 files
4.94K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[Urdu Article] Naseeha to graduates from Islamic universities – Shaykh Abdul Muhsin bin Hamd Al-Abbaad
جامعہ سے فارغ ہونے والے طالبعلموں کو نصیحت
فضیلۃ الشیخ عبدالمحسن بن حمد العباد البدر حفظہ اللہ
(سابق رئیس جامعہ اسلامیہ اور حالیہ مدرس مسجد نبوی، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ کی آفیشل ویب سائٹ کی خبروں سے لیا گیا۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/jamiah_farigh_tullab_ko_nasihat.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
حقیقی تحصیلِ علم تو جامعہ سے فراغت کے بعد شروع ہوتا ہے
حقیقی طلبِ علم تو جامعہ سے تخرج کے بعد ہوتا ہے۔ اور ایک طالبعلم کو چاہیے کہ جامعہ سے تخرج (فارغ التحصیل) ہونے کے بعد یہ سمجھے کہ ابھی تو میں نے حقیقی معنوں میں طلبِ علم کا آغاز کیا ہے۔ کیونکہ یہ کلیاتِ شریعہ (شریعت کالجز) اسے کوئی عالم بناکر نہیں نکالتی بلکہ اسے وہ معاون چابیاں دے دیتی ہیں جس کے ذریعہ وہ اپنے طلبِ علم میں توسیع اور اس کی متابعت کرسکتا ہے۔
علماء کا کلام نقل کرنے میں احتیاط
اسی طرح شیخ نے جامعہ اسلامیہ میں منعقدہ اپنی تقریر بعنوان ’’أثر السنة في أخلاقيات الداعية‘‘ (داعی کے اخلاق پر سنت کا اثر) میں بغیر تحقیق وتثبت کے کسی عالم کا فتوی نقل کرنایا اس میں اپنی طرف سے زیادتی وتحریف کرنےسے خبردار فرماتے ہوئے کہا کہ فتوی نقل کرنے والے کو چاہیے کہ وہ اسے اس وقت تک نقل نہ کرے جب تک مکمل طور پر باتاکید اسے اسی طرح سنا ہو جس انداز میں وہ نقل کرنا چاہتا ہے۔
جامعات سے فراغت کے بعد عصری علوم میں منہمک ہوجانا
اور عصری علوم کے تعلق سے ایک داعی کو کلیاتِ شریعہ سے فارغ ہونے کے بعد کیا کرنا چاہیے کہ بارے میں شیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک طالبعلم کو چاہیے کہ جس شعبے میں اس نے تخصص حاصل کیا ہے اسے چھوڑ کر یہاں وہاں اپنے محدود توانائی کو اپنی اصل بنیاد، ہدف ومرجع سے نہ پھیرے۔ اسے ان امور (عصری علوم وغیرہ) میں اپنی توانائی نہیں کھپانی چاہیے کہ جن میں اس سے پہلے ہی دوسرے لوگ کفایت کرچکے ہیں۔
فتویٰ واحکام جاری کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لیا جائے
نت نئے ، جدید وفوری قسم کے مسائل کے بارے میں شیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ نے نصیحت فرمائی کہ ایک داعی کو چاہیے کہ وہ شرعی علم سے خوب مسلح ہو اور چیزوں کے بارے میں حکم لگانے میں یا ایسی باتوں کا جواب دینے میں کہ جس کے بارے میں اسے کوئی علم نہ ہو جلدبازی کا مظاہرہ نہ کرے، بلکہ انتظار کرے اور جس چیز کا علم نہیں اس کے جواب کو مؤخر کردے یہاں تک کہ اس چیز کے بارے میں اور اس کے حکم کے بارے میں خوب تحقیق نہ کرلے۔
موافق ومخالف منہج رکھنے والی جماعتوں وتنظیموں کے ساتھ دعوت میں تعاون کا حکم
اور اس سوال کے جواب میں کہ ایک داعی کو اپنے سے موافق یا مخالف منہج رکھنے والوں کے ساتھ کس طرح حکمت وموعظۂ حسنہ(اچھے کلام) کے ساتھ معاملہ کرنا چاہیے کہ جواب میں فرمایا: ایک داعی کو چاہیے کہ ان کے ساتھ تعاون کرے جو منہج میں اس کی موافقت کرتے ہیں، البتہ جو مخالف ہیں انہیں حکمت وموعظۂ حسنہ کے ساتھ دعوت دے، اور انہیں صحیح طریقہ بیان کرے۔ ساتھ میں اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ اکثر اوقات محض داعی کا اپنا کردار ہی لوگوں کی ہدایت کا سبب بن جاتا ہے۔ بشرطیکہ داعی کماحقہ عمدہ اخلاق وسنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرتا ہو۔
اور اس سوال کے جواب میں کہ ایک داعی کو ان اسلامی دعوتی جماعتوں کے ساتھ مل جانا چاہیے کہ جن میں کچھ غلطیاں پائی جاتی ہیں یا پھر (ان سے علیحدہ رہ کر) اکیلے ہی دعوت کا کام کرنا چاہیے؟فضیلۃ الشیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ فرماتے ہیں: انسان کو اس بات کی حرص وتگ ودو میں رہنا چاہیے کہ ان کی معرفت حاصل کرے جو اس کے طریقے ومنہج میں مماثل ہوں تاکہ دعوت وبھلائی میں ان کے ساتھ تعاون کرے۔ البتہ وہ جماعتیں جن میں خلل وانحراف پایا جاتا ہے اگر کوئی انسان ان کے ساتھ اس لئے ہوتا ہے کہ ان پر حق کو واضح کرے تو یہ ایک قابل تعریف بات ہے، لیکن اگر وہ غلط منہج میں خود ان کے تابع فرمان بن جائے اور انہی میں گھل مل کر ان کے رنگ میں رنگ جائے تو یہ جائز نہیں([1])۔
جماعت اور جمعیت میں فرق
شیخ سے جب جماعت اور جمعیت کے درمیان فرق کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایاجہاں تک جماعت وجمعیت کے درمیان فرق کا معاملہ ہے تو مجھے ان کے درمیان کوئی فرق معلوم نہیں بلکہ دونوں الفاظ بطورِ مترادف ایک دوسرے کے لئے استعمال ہوتے رہتے ہیں۔ جو بات اہم ہے وہ تو ان کے معانی اور حقائق ہیں نہ کہ محض الفاظ یا القاب۔
[1] اس بارے میں مزید تفصیل جاننے کے لیے پڑھیں ہماری ویب سائٹ پر مقالہ: ’’جماعتوں کے اندر رہتے ہوئے ان کی اصلاح کرنا ‘‘ از شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[Urdu Article] Is graduating from Islamic University enough to become an Aalim? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
کیا اسلامی جامعہ ومدرسے کی سند ہونا کسی کے عالم ہونے کی دلیل ہے؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ سحاب السلفیہ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/kiya_jamiah_say_farigh_hona_alim_honay_ki_daleel_hai.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا کسی شخص کے لئے جو لوگوں کو دینی علوم کی تعلیم دینا چاہتا ہے یہ کافی ہے کہ اس کے پاس اسلامی جامعہ کی ڈگری ہو، یا پھر بھی ضروری ہے کہ اس کے پاس علماء کرام کےتزکیات ہوں؟
جواب: علم کا ہونا یہ سب سے زیادہ ضروری ہے، کیونکہ ہر وہ شخص جس کے پاس ڈگری ہو ضروری نہیں کہ عالم بن جائے، لازم ہے کہ واقعی اس کے پاس علم اور اللہ کے دین کا فقہ وفہم ہو۔ یہ ڈگری علم پر دلالت نہیں کرتی، بلکہ عین ممکن ہے کہ ایسی ڈگری کا حامل شخص جاہل ترین انسان ہو، اور اس کے برعکس کسی کے پاس یہ ڈگریاں نہ ہوں مگر وہ سب سے بڑا عالم ہو۔۔ ۔کیا شیخ ابن باز رحمہ اللہ کے پاس کوئی ڈگری تھی؟! یا شیخ ابن ابراہیمرحمہ اللہ وشیخ ابن حمید حفظہ اللہ کے پاس؟!کیا ان کے پاس یہ ڈگریاں تھیں، (نہیں!)؟ اس کے باوجود اس زمانے کے آئمہ میں شمار کئے جاتے ہیں۔
اصل بات انسان کے پاس علم اور فقہ کا موجود ہونا ہے، ناکہ محض ڈگریاں یا تزکیات، ان کا کوئی اعتبار نہیں، کسی انسان کی حقیقتِ حال رونما حالات کردیتے ہیں مثلاً اگر کوئی قضیہ، حادثہ وسانحہ درپیش ہوجائے تو وہ ایک عالم کو ایک متعالم(نام نہاد عالم) وجاہل سے الگ کرکے واضح کردیتا ہے۔
[Urdu Article] Setting preferences in Dawa'ah activities – Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen Al-Albaanee
دعوتی کاموں میں ترجیحات کا تعین
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: سلسلۃ الھدی والنور 95۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/03/dawati_kaam_tarjeehaat_tayyun.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ حاضرین کو بتاتے ہيں کہ انہيں کئی بار پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش، سوڈان وغیرہ سے جمعیت اہلحدیث اور ان کے امراء کی طرف سے دعوت دی جاتی رہی ہے لیکن اپنی مشغولیت کے سبب شیخ ان کی دعوت پر نہیں جاسکتے، پھر فرماتے ہیں۔۔۔
حقیقت یہ ہے کہ خیر کے بہت سے راستے اور طریقے ہيں میں آپ کے سامنے اپنی مثال بیان کرتا ہوں۔ جب میں شام میں رہتا تھا تو میں نے یہ دو کام جمع کردیے تھے کہ میں لوگوں کو درس بھی دیتا ہفتے میں ایک یا دو یا کبھی اس سے زیادہ مرتبہ، اور ساتھ میں تحقیق، ریسرچ اور تالیف بھی کرتا۔ لہذا مجھے بعض ذہین وعقل مند سلفی اساتذہ نے نصیحت کی کہ آپ یہ درس وغیرہ نہ کیا کریں، تدریس چھوڑ دیں اور سب لوگوں کو چھوڑ کر بس تالیف کے لیے خاص ہوجائيں۔ کیونکہ بلاشبہ آپ جتنا بھی جی لیں عنقریب دوسرے زندہ لوگوں کی طرح کل وفات پاجائیں گے۔ لیکن اپنے پیچھے ایک کتاب یا بہت سے کتب چھوڑ جائيں گے جن سے لوگ آپ کی وفات کے بعد بھی کئی صدیوں تک نفع حاصل کرتے رہیں گے۔لیکن جن لوگوں کو آپ درس دیتے ہيں پندرہ ہوں، بیس، تیس، چالیس یا پچاس ہی بہرحال فوت ہوجائيں گے، اللہ ہی جانے جتنا بھی وہ جئیں یا ان کی نسل چلے مگر ممکن ہے کہ وہ خیر زائل ہوجائے جو آپ ان میں چھوڑ گئے، تو یہ ایک نکتۂ نظر ہے۔
لیکن میرے نزدیک ان دونوں امور کو جمع کردینا افضل ہے، مگر جب یہ عمر آن پہنچے کہ بس چل چلاؤ ہوتو میں اپنے نفس میں پاتا ہوں کہ وہ مشورہ جو مجھے جوانی میں دیا گیا تھا اب اس کا وقت ہے۔ اسی لیے آپ جانتے ہوں گے کہ میں کتنی بار مراکش یا برطانیہ گیا مگر اب بھی وہ ہمیں اس پر ابھارتے رہتے ہیں کہ ہم جائيں، پھر ہم معذرت کرتے رہتے ہيں خواہ مراکش ہو یا سوڈان یا یہاں وہاں، لیکن لوگ عذر قبول ہی نہيں کرتے۔ کیونکہ یہ ایسا ہے جیسے ہم نے کہا کہ: ’’الذي ما يعرف ما هو في المغرافة ما يعرف الحكاية‘‘۔ پس میں آج جتنا بھی جی لوں عنقریب موت آنی ہے جو کہ حتمی بات ہے۔ تو میں چاہتا ہوں کہ میں سامنے موجود جتنے منصوبے ہيں انہیں پورا کرلوں۔ لہذا میں ہر چیز پر انہیں ترجیح دیتا ہوں، ہر چیز پر خواہ سفر ہو بلکہ عمرے پر بھی، اگر آتا بھی ہوں تو بس ایک ہفتے کے لیے یا زیادہ سے زیادہ دس ایام کے لیے، وہ بھی ناچار ہوکر، کبھی میں اپنے نفس میں بہت کمی پاتا ہوں اور کچھ نہیں کرپاتا مگر یہ کہ جن چیزوں پر توجہ مرکوز تھی ان میں خلل آجاتا ہے، لہذا بس ہفتہ یا زیادہ سے زیادہ دس دن۔
اور آپ کی بارک اللہ فیک اگر اللہ تعالی سے اچھی لو لگی ہے، اور دعائیں قبول ہوتی ہیں تو مجھ پر یوں دباؤ ڈالتے رہيں یہاں تک کہ میں آپ کے ہمراہ ہولوں۔
سائل: میں ایسا کروں گا ان شاء اللہ۔
شیخ: تفضل۔
[Urdu Articles] Introduction of Islaam – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
تعارفِ اسلام
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: دروس من القرآن الکریم۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اسلام کے عمومی معنی
اسلامی کی لغوی اور شرعی تعریف
تمام انبیاء ورسل علیہم الصلاۃ والسلام کا دین اسلام تھا
اسلام کے خصوصی معنی
ارکانِ اسلام
جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/01/taruf_e_islaam.pdf

Introduction of Emaan – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
تعارفِ ایمان
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: دروس من القرآن الکریم۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ایمان کی تعریف
لغوی اور شرعی تعریف
فرقہ مرجئہ کے نزدیک ایمان کی تعریف
مرجئہ کی اقسام
اہل سنت والجماعت کے نزدیک ایمان کی تعریف
ارکانِ ایمان
جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/01/taruf_e_emaan.pdf
[Urdu Article] Difference between Islaam and Emaan – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
اسلام اور ایمان میں فرق
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: دروس من القرآن الکریم۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/01/islaam_emaan_farq.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
جب اسلام اور ایمان کا شرعی نصوص میں کسی ایک مقام پر ایک ساتھ ذکر ہو یا پھر دونوں کا علیحدہ علیحدہ مقام پر انفرادی طورپر ذکر ہو تو اس بارے میں علماء کرام نے ایک قاعدہ بیان فرمایا ہے: ’’إنما إذا اجتمعا افترقا، وإذا افترقا اجتمعا‘‘ (جب یہ دونوں ایک ساتھ ذکر ہوں تو ان کے معنی میں فرق کیا جائے گا، اور اگر انفرادی طور پر الگ مقامات پر ذکر ہو تو ایک دوسرے کے معنی کو شامل ہوں گے) یعنی جب دونوں کا ایک ساتھ ذکر ہوگا تو ان کے معنی میں فرق کیا جائے گا۔
پس اسلام کا معنی اس صورت میں دین کے ظاہری اعمال (شہادتین کا اقرار، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ) ہوگا اور ایمان کا معنی باطنی یا دلی اعمال (اللہ ، رسولوں، کتابوں، فرشتوں، یوم آخرت وتقدیر پر ایمان) ہوگا۔ جیسا کہ حدیث جبرئیل علیہ الصلاۃ والسلام میں بیان ہوا کہ انہوں نے بھی اسلام کی تفسیر اعمال ظاہرہ سے کی اور ایمان کی تفسیر اعمال باطنہ سے کی۔
لیکن اگر اسلام انفرادی طور پر کہیں مذکور ہو تو اس میں ایمان بھی داخل سمجھا جائے گا۔ اور اسی طرح سے اگر ایمان انفرادی طور پر کہیں مذکور ہو تو اس میں اسلام بھی داخل سمجھا جائے گا۔ کیونکہ اسلام ایمان کے بغیر ممکن نہیں اور ایمان اسلام کے بغیر ناممکن ہے۔
یہ ہے ایمان کی تعریف کتاب وسنت اور مذہب اہل سنت والجماعت میں۔
[Urdu Article] Is Tazkiyah always mandatory for a Salafee student to teach or translate the speech of 'Ulamaa? – Various 'Ulamaa
کیا کسی سلفی طالبعلم کے لیے درس دینے یا ترجمے کرنے کے لیے ہمیشہ تزکیہ ہونا شرط ہے؟
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ سحاب السلفیہ وغیرہ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ ابن عثیمین، عبدالمحسن العباد، ربیع المدخلی، عبداللہ الغدیان، صالح الفوزان، محمد بن ہادی، عبید الجابری، صالح آل الشیخ، زید المدخلی وغیرہ علماء کرام کے کلام سے۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2014/08/salafi_talibeilm_tazkiyah_dars_zarori.pdf
[Urdu Article] Ruling regarding delivering Duroos in the Masajid of Ahl-ul-Bida'ah – Shaykh 'Ubaid bin Abdullaah Al-Jabiree
اہل بدعت کی مساجد میں دروس دینے کا حکم
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ میراث الانبیاء
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2014/06/ahlebidat_masajid_duroos_hukm.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: اہل بدعت کی مساجد میں دروس دینے کا کیا حکم ہے؟
جواب: اولاً: یہ بات جان لیں کہ اہل بدعت دو اقسام کے ہیں:
1- پہلی قسم: منصف جو حق قبول کرتے ہیں، اگرچہ ان کا حق قبول کرنا مکمل طور پر نہیں ہوتا، لیکن اس کی طرف مائل ہوتے ہیں اعراض نہیں کرتے، اور جو مجلس میں حاضر ہوتےہیں انہیں ان کے حال پر چھوڑتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ ہی عمومی مساجد کے مسئولین ہوتے ہیں جس میں وہ اور ان کے علاوہ سب آتے جاتے ہیں۔ اس قسم کی مساجد کی دعوت قبول کرلینی چاہیے تاکہ حاضرین کو اہل سنت سے فائدہ ہو، اس میں ان کی حمایت وحوصلہ افزائی ہے، اور اس سےان کے عزم میں تقویت اور سنت پر ثابت قدمی حاصل ہوگی۔
2- دوسری قسم خود دو مزید اقسام میں تقسیم ہوتی ہے:
1- ایسی مساجد جس کے دروازے دوسروں پر بند ہوں جہاں ان کے علاوہ کوئی آتا ہی نہیں، اور نہ یہ لوگ کسی ایسے کو موقع ہی دیتے ہیں کہ جو ان کے نہج پر نہ ہو الا یہ کہ جب کوئی صاحب سنت آئے۔ پس ان کی مساجد اسی طرح سے ان کی خاص کانفرنسوں میں شرکت کرنا ان کی سب سے شدید ترین حمایت کی صورت ہے اور اہل سنت کے عزم کی توہین ہے۔ ایسوں کی دعوت قبول کرنا باطل ہے، غلطی ہے، اور اہل سنت کے لیے ضرررساں ہے۔
2- جو تقریر یا درس کے بعد اپنی بات کرتے ہیں درس دینے والے کی موجودگی میں یا اس کے بعد اور اس کے کلام پر تعلیقات کرتے ہیں جس کے ذریعے سے حاضرین کے دل میں شبہات ڈالتے ہیں۔ ان کی بھی مساجد میں درس نہ دیے جائیں۔
[Urdu Book] Brief introduction of Qadianism – Various 'Ulamaa
قادیانیت کا مختصر تعارف
مختلف علماء کرام
ترجمہ، ترتیب وعناوین: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر (ویب سائٹ سحاب السلفیۃ والآجری پر جمع کردہ مواد سے)
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقدمہ
قادیانی صرف فرقہ ہی نہیں بلکہ ان کا درحقیقت شمار غیر مسلموں میں ہوتا ہے۔ یہ ایک گمراہ مذہب ہے جو ایسے انواع واقسام کے ظاہری وباطنی کفریات وشرکیات سے لبریز ہےکہ ایک عام مسلمان تک سے وہ مخفی نہيں چہ جائیکہ علماء کرام سے ہو۔ لیکن صدافسوس کے اس گمراہ کن دعوت کے افراد اور جگہیں مسلمانوں کے مابین خصوصاً عجم میں انگریز سامراج اور ان کے آلۂ کاروں کے ذریعے ہندوستان وپاکستان میں پائی جاتی ہيں، بلکہ عرب میں بھی بعض جہلاء اور شہوات پرست لوگ جن کے دین و دل درہم ودینار کے ساتھ بدلتے ہیں اسے قبول کرتے ہیں۔ پھر صہیونیت کے غیرمحدود مالی وغیرہ تعاون کا شاخسانہ ہے کہ ان کا باقاعدہ فضائی چینل تک نشر ہوتا ہے ظاہراًبھی اور خفیہ بھی۔ چناچہ الجزائر وغیرہ جیسے عرب ممالک میں بھی ان سے متاثرہ لوگوں کی بڑھتی تعداد کے سبب سے اس تعلق سے بہت سے سوالات پوچھے جانے لگے کہ ان کے کیا نظریات وگمراہیاں ہيں ۔ اور ہمارے خیال سے اب تک یہاں ان کی سرگرمیاں تقیہ کے ساتھ ہیں جس کے ذریعے وہ چھپ کر اپنا زہر پھیلاتے جارہے ہیں، جیساکہ ضرب المثل میں کہا جاتا ہے، بغیر آگ کے دھواں نہيں ہوتا۔ لہذا واحب ہے کہ نئے سرے سے ان کی حقیقت کو بے نقاب کیا جائے اور اہل علم کے ان کی تکفیر اور ان سے خبردار کرنے کے متعلق فتاویٰ کو نشر کیا جائے۔
عناوین
قادیانیت
شیخ عبدالقادر شیبۃ الحمدحفظہ اللہ
(مدرس، کلیۃ شرعیہ، جامعہ اسلامیہ)
قادیانیت کا آغاز
غلام احمد قادیانی کون ہے؟
مسیح موعود ہونے کا دعویٰ
نبوت کا دعویٰ
اللہ کا بیٹا ہونے کا دعویٰ
غلام احمد قادیانی کو تمام انبیاء سے افضل قرار دینا
ہمارے نبی سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیین ہيں
قادیانی کے تضادات
قادیانی کی مخبوط الحواسی
انگریزوں کا ایجنٹ جہاد کا مخالف
قادیانیوں کی تکفیر
دائمی فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب کے فتاویٰ
قادیانیوں سے شادی بیاہ کا حکم
قادیانی متفقہ طور پر کافر ہیں
مرزا غلام احمد قادیانی کا دعوئ نبوت سراسر جھوٹ ہے
مسلمانوں اور احمدیوں میں فرق
قادیانیوں کا قرآنی آیات سے استدلال اس کا جواب
از فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب
16 آیات اور ان کاجواب
شیخ محمد ناصر الالبانی رحمہ اللہ
قادیانی دجال کے بعض مزیدگمراہ کن عقائد
قادیانیوں کا بعض احادیث سے استدلال اور اس کا جواب
از شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ
قادیانیت کے رد پر علماء اہلحدیث کی بعض کتب
قادیانی کی تکفیر پر اجماع
مجمع الفقہ الاسلامی کی قرارداد
احمدی جماعت کا مختصر تعارف اور بعض کفریہ عقائد، ان کے ٹی وی چینل اور ان کے رد پر لکھی گئی بعض کتب کا ذکر
از شیخ محمد علی فرکوس حفظہ اللہ
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/03/qadyaniyyat.pdf
[Urdu Articles] Tafseer of Surat-ul-Falaq - Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen

تفسیر سورۃ الفلق

فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ

(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: تفسیر شیخ ابن عثیمین۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/12/tafseer_surah_falaq.pdf


Tafseer of Surat-ul-Falaq – Various 'Ulamaa
تفسیر سورۃ الفلق
مختلف علماء کرام
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: التفسير المُيَسَّرُ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/03/tafseer_surat_ul_falaq_almuyassar.pdf

[Urdu Audio] Tafseer of Surat-ul-Falaq – Various 'Ulamaa
تفسیر سورۃ الفلق – مختلف علماء کرام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/03/113_falaq.mp3

[Urdu Video] 113- #Tafseer of #Surat_ul_Falaq - Various #Ulamaa
https://safeshare.tv/x/bfZjn1C2uyg
[Urdu Articles] Tafseer of Surat-un-Naas – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen
تفسیر سورۃ الناس
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: تفسیر شیخ ابن عثیمین۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/12/tafseer_surah_naas.pdf

Tafseer of Surat-un-Naas – Various 'Ulamaa
تفسیر سورۃ الناس
مختلف علماء کرام
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: التفسير المُيَسَّرُ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/03/tafseer_surat_ul_naas_almuyassar.pdf

[Urdu Audio] Tafseer of Surat-un-Naas – Various 'Ulamaa
تفسیر سورۃ الناس – مختلف علماء کرام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/03/114_naas.mp3

[Urdu Video] 114 - #Tafseer of #Surat_un_Naas - Various #Ulamaa
https://safeshare.tv/x/rMksSH1MFNg
[Urdu Article] What is the ruling upon one who's upon been given naseeha says "To you be your religion, and to me my religion"? – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah bin Baaz
نصیحت کیے جانے پر : ’’لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ‘‘ کہنے کا حکم؟
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ کی ویب سائٹ سے: حكم قول المنصوح للناصح لكم دينكم ولي دين۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/03/naseehat_pr_lakum_deenukum_kehna.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: جب میں بعض بہنوں کو نصیحت کرتی ہوں (اللہ تعالی ہمیں اور ان کو ہدایت دے) تو ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ: ﴿لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ﴾ (تمہارے لیے تمہارا دین، میرے لیے میرا دین)!! کیا ان کا یہ قول جائز ہے، اور ہم ان کو اس پر کیا نصیحت کریں؟
جواب: یہ جائز نہیں، یہ تو نصیحت کو قبول کرنے سے تکبر کی ہی ایک قسم ہے۔ یعنی اس کا مطلب ہوا کہ مجھے چھوڑو اپنے کام سے کام رکھو، اس کلام کا تو یہ معنی ہوا، اور یہ اس طور پر بالکل غلط ہے۔ یہ بات تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کافروں کو کہی تھی کہ: تمہارے لیے تمہارا دین میرے لیے میرا۔ لہذا یہ کافروں کو کہا جاتا ہے۔ البتہ جو مسلم مرد یا عورت ہو ان کا دین تو ایک ہے، اللہ کی توحید، اللہ کی اطاعت، اس لیے یہ نہيں کہا جائے گا کہ: تمہارے لیے تمہارا دین میرے لیے میرا، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کافروں کو کہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفار قریش اور بت پرستوں کو کہا: ﴿لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ﴾۔
جیسا کہ آپ اس سورۃ کے شروع میں بھی دیکھ سکتے ہیں کہ فرمایا:
﴿قُلْ يٰٓاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ ، لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ﴾ (الکافروں: 1-2)
(آپ کہہ دیجئے کہ اے کافرو! میں اس کی عبادت نہیں کرتا جس کی تم عبادت کرتے ہو)
وہ بتو ں کی عبادت کرتے تھے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خالص اللہ تعالی کی عبادت کرتے تھے۔ لہذا اپنے مسلمان بھائی کو یہ نہ کہیں کہ: تمہارے لیے تمہارا دین میرے لیے میرا۔ کیونکہ ہمارا دین تو ایک ہی ہے، چناچہ یہ غلط بات ہے۔
بلکہ جب کسی کو نصیحت کی جائے تو اسے کہنا چاہیے: اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے، اللہ تعالی مجھے توفیق دے، اللہ تعالی میری مدد فرمائے، جزاک اللہ خیراً، اللہ تعالی سے آپ دعاء کریں کہ وہ مجھے ہدایت دے۔ اگر وہ اس سے کہے مثلاً: اے بھائی! نماز باجماعت کی پابندی کرو، اے بھا‏ئی! اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو، اے بھائی! غیبت وچغلی سے بچو، تو وہ کہے: جزاک اللہ خیراً، اللہ تعالی میری مدد فرمائے، اور آپ میرے لیے دعاء کیجئے۔ ایسے کہنا چاہیے ناکہ: تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا، یہ بالکل غلط بات ہے، یہ تو تکبر ہے۔ ہم اللہ تعالی ہی سے عافیت کا سوال کرتے ہیں([1])۔
[1] اسی طرح کی ایک او رحرکت بعض لوگ کسی مسلمان بھائی سے بحث ومناقشے کے دوران کرتے ہیں کہ: ’’السلام على من اتبع الهدى‘‘ (اس پر سلامتی ہو جو ہدایت کی پیروی کرے) استعمال کرتے ہیں۔ اس بارے میں شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ کسی مسلمان کو یوں کہنا جائز نہيں، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو غیر مسلموں کو جب دعوت دین کے لیے خطوط لکھا کرتے تھے تو اس میں اس طرح سلام فرماتے تھے۔ کیونکہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ کا بھائی آپ کے نزدیک اسلام کی ہدایت پر نہیں! (مجموع فتاوى ورسائل العثيمين، ج 3 ص 35)۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[Urdu Article] The meaning of Imaam Tahawee's (rahimaullaah) saying: "Emaan is one, and with regard to its essence all believers are equal"? – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
امام طحاوی رحمہ اللہ کے اس قول کہ: ’’ایمان ایک ہوتا ہے اور مومنین اس کی اصل میں برابر ہوتے ہیں‘‘ کا معنی؟
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: نفحات الهدى والإيمان من مجالس القرآن (المجلس الأول)۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/03/imaam_tahawee_qawl_emaan_aik_hota_hai.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: امام الطحاوی رحمہ اللہ کے اس قول کا کیا معنی ہے کہ: ’’الإیمان واحد وأهله فی أصله سواء؟ ‘‘ ( ایمان ایک ہوتا ہے اور اس کے اہل (یعنی اہل ایمان) اس کی اصل میں برابر ہیں)؟
جواب: واللہ میرا یہ گمان ہے کہ اس عبارت کا کچھ تعلق ہے ارجاء کے ساتھ۔ کیوں کہ ایمان کے تو اصول ہوتے ہیں اور اس کی فروع ہوتی ہیں۔ اور لوگوں کا ایمان کے تعلق سے بہت زیادہ باہمی تفاوت ہوتا ہے( یعنی ایمان میں کم اور زیادہ ہوتے ہیں)۔ چناچہ امام الطحاوی رحمہ اللہ کا یہ قول مرجئہ کی جو ایمان کی تعریف ہے اس کے گرد ہی گردش کرتا ہے، کہ وہ کہتے ہیں کہ ایمان تصدیق کا نام ہے۔ یعنی تمام کے تما م لوگ مشترک ہیں اس میں برابر ہیں ان کے نزدیک ، اور اعمال میں ایک دوسرے میں فرق وتفاوت نہيں، لہذا اپنے اس قول کے ذریعے وہ اہل السنۃ کی مخالفت کرتے ہیں۔ کیوں کہ اہل السنۃ کے نزدیک ایمان، قول عمل اور اعتقاد کا نام ہے جو اطاعت و فرماں برداری سے بڑھتا ہے اور معصیت ونافرمانی سے کم ہوتا ہے ۔اور لوگوں میں اس بارے میں تفاوت ہوتا ہے اور بعض بعض سے افضل ہوتے ہیں لیکن جو مرجئۃ الفقہاء ہیں ان کے نزدیک ایمان زبان سے اقرار اور دل سے تصدیق کا نام ہے۔
پس امام الطحاوی رحمہ اللہ کا یہ فرمان: ’’ایمان کے اہل اس کی اصل میں برابر ہیں‘‘غلط ہے۔ زبان کے اور دل سے تصدیق میں تو مشترک ہیں لیکن ایمان کے سرچشمے سے بہت سے اعمال پھوٹتے ہیں: اعضاء و جوارح کے اعمال ہیں ، دل کے اعمال ہیں، جن میں سے خوف ہے ، امید ہے ، محبت ہے ، رغبت ہے ، ڈر ہے ، توکل وبھروسہ ہے، یہ تمام قلبی اعمال بھی ایمان میں سے ہیں۔
چنانچہ اہل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک ایمان قول ، عمل اور اعتقاد کا نام ہے جو نیکی کرنے سے بڑھتا ہے اور گناہ کرنے سے کم ہوتا ہے۔ جب کہ جو غالی مرجئہ ہیں جن کو کرامیہ کہا جاتا ہے وہ کہتے ہیں کہ: ایمان بس زبان سے کہہ دینے کا نام ہے۔ جب کہ جو دوسرے لوگ ہیں ان ہی میں سے جن کو جہمیہ کہا جاتا ہے ان کے نزدیک: ایمان صرف معرفت کا نام ہے۔ اگر اس نے جان لیا اللہ تعالیٰ کو تو یہ اس کے لیے کافی ہے، لہذا ان کے مذہب کے مطابق تو ابلیس بھی مومن ہوا ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس جیسوں کے متعلق فرمایا:
﴿وَجَحَدُوْا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ اَنْفُسُهُمْ﴾ (النمل:14)
( انہوں نے اس کا انکار کیا حالانکہ ان کے دل اس کو مان چکے تھے )۔
یعنی انہیں یقین ہو چکا تھا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ربّ العالمین ہے اور وہ تمام لوگوں کو پیدا کرنے والا ہے، اور وہی آسمانوں اور زمینوں کا ربّ ہے۔ اس پر انہيں یقین تھا جس میں کوئی شک نہیں تھا ، لیکن تکبر نے انہیں اس بات پر ابھارا کہ اس سے عناد، ہٹ دہری اور انکار کیا ۔
پس مرجئہ میں سے جو جہمیہ لوگ ہیں ان کے مذہب کے مطابق تو فرعون ، نمرود اور اس جیسے جو کفار ہیں حتی کہ وہ لوگ جو ربوبیت تک سے کفر کرتے ہیں وہ بھی ایمان میں داخل ہیں، اور وہ بھی ان کے نزدیک مومنین ہیں، حالانکہ یہ بہت ہی کھلی گمراہی ہے ۔ چنانچہ اہل سنت نے ان پر سختی کی ان کی تکفیر کی اس خبیث مذہب کی بناء پر۔
اور ایک دوسرے مرجئہ بھی ہیں جنہیں مرجئۃ الفقہاء کہا جاتا ہے جو کہ امام ابو حنیفہa کے اصحاب اور بعض ان کے شیوخ ہیں۔ وہ اہل السنۃ کے ساتھ اس بات میں تو مشترک ہیں کہ ایمان زبان سے اقرار اور دل سے اعتقاد کا نام ہے لیکن جو عمل ہے وہ ان کے نزدیک ایمان میں سے نہیں ہے۔ ہاں البتہ وہ اس چیز میں بھی اہل السنۃ کے ساتھ ہیں کہ عمل بھی ضروری ہے،اور جو کوئی وہ عمل نہیں کرتا جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تو وہ اپنے آپ کو عقوبت اور سزا کے لیے پیش کرتا ہے(یعنی وعید اس پر قائم ہے اور عذاب میں پڑنے کا خدشہ ہے)۔
پس اہل سنت کے نزدیک ایمان زبان سے اقرار ، دل سے اعتقاد اور اپنے اعضاء و جوارح سے عمل کا نام ہے۔ اور اسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بہت سی آیات میں اسے ذکر کیا ہے مثلاً :
﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَاِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ اٰيٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِيْمَانًا وَّعَلٰي رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ، الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ ﴾ (الانفال:2-3)
(مومنین تو
وہی ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل دہل جاتے ہیں اور جب اس کی آیات ان پر تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ ان کے ایمان میں اضافہ کرتی ہیں، اور وہ اپنے ربّ ہی پر توکل کرتے ہیں، وہ لوگ کہ جو نماز قائم کرتے ہیں ا ور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں)۔
چنانچہ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے دلی اعمال کا ذکر کیا اور اعضاء و جوارح کے اعمال کا بھی ذکر کیا ۔ چنانچہ جو اعضاء و جوارح کے اعمال ہیں وہ بھی ایمان میں سے ہیں جب کہ یہ لوگ اس کا انکار کرتے ہیں، اور بعض تو اتنا مبالغہ کرتے ہیں کہ وہ دل کے اعمال کا بھی انکار کر دیتے ہیں ۔ البتہ بعض مرجئہ جو فقہاء میں سے ہیں وہ دل کے اعمال کو ایمان میں سے گنتے ہیں لیکن جو بعض اعضاء و جوارح کے اعمال ہیں جیسا کہ نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ تو افسوس کی بات ہے کہ ان کے نزدیک یہ ایمان میں داخل نہیں۔ اسی لیے سلف نے ان پر انکار کیا ہے اور لوگوں کے سامنے وضاحت کی ہے کہ ایمان بلاشبہ قول ہے دل کا اور زبان کا، اور عمل بھی ہے دل کا اور اعضاء و جوارح کا ، اور انہوں نے خوارج پر بھی رد کیا اس بات پر کہ وہ کبیرہ گناہوں کے مرتکب کی تکفیر کرتے ہیں۔
چنانچہ جو خوارج ہیں وہ اس چیز میں اہل سنت کے ساتھ ہیں کہ بلاشبہ جو ایمان ہے قول ، عمل اور اعتقاد ہے لیکن اس صورت میں وہ ان کے مخالف ہیں کہ جو عمل میں کسی کوتاہی اور تقصیر کا شکار ہو جیسا کہ کبیرہ گناہ کامرتکب ، وہ ان کے نزدیک کافر ہے حالانکہ اہل السنۃ کے نزدیک یہ کافر نہیں ہے اور اس بارے میں بہت سے نصوص ثابت ہیں مثلاً شفاعت سے متعلق احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جو کبیرہ گناہ کے مرتکب ہیں وہ بھی آخر کار جہنم سے نکل آئیں گے اور انہیں نکالنے والی چیز توحید اور ایمان ہی ہو گا ۔
[Urdu Article] If Asha'irah explain Kalimah with Rubobiyyah does it mean that they don't make Takfeer of those who perform 'Ibaadah for other than Allaah? – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
اگر اشاعرہ کلمہ کی تفسیر ربوبیت سے کرتے ہیں تو کیا اس کا مطلب ہے کہ وہ غیراللہ کی عبادت کرنے والے کی تکفیر نہیں کرتے؟
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ کی ویب سائٹ سے فتویٰ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/12/ashairah_kalimah_tafseer_rubobiyah_ibadah_shrik_takfeer.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: اگر اشاعرہ اور اہل الکلام توحید عبادت کو نہیں جانتے اور توحید کی تفسیر صرف توحید ربوبیت سے کرتے ہیں توکیا اس کا مطلب ہے کہ وہ اس شخص کی تکفیر کے قائل نہیں کہ جو غیراللہ کے لیے کوئی عبادت ادا کرے؟
جواب: جب وہ عبادت کا معنی نہيں جانتے تو پھر کیسے اسے کافر کہہ سکتے ہيں کہ جو غیراللہ کی عبادت میں واقع ہوجائے؟! ان کے کلام میں یہ بات ملتی ہے کہ کہتے ہيں عبادت کا مطلب ہے بت کو سجدہ کرنا بس۔ پس بت کو سجدہ کرنا غیراللہ کی عبادت کہلاتا ہے۔ جبکہ غیراللہ کو پکارنا، اس کے نام پر ذبح کرنا، نذونیاز کرنے کو وہ لا الہ الا اللہ کے منافی تصور نہیں کرتے۔ لیکن اگر آپ ان میں سے کسی کو دیکھیں کہ وہ ان باتوں کا انکار کرے اور کہے کہ یہ شرک ہیں تو وہ لا الہ الا اللہ کا معنی جانتا ہوگا۔ مگر کیا ہر اشعری اسی طرح لا الہ الا اللہ کا معنی جانتا ہے؟ وہ کیسے لا الہ الا اللہ کا معنی جان سکتا ہے جبکہ وہ کہتا ہے کہ اس کا معنی لا خالق ولا رازق الا اللہ ہے؟! اگر آپ کہیں گے کہ لا معبود بحق الا اللہ (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں) تو پھر دعاء (پکارنا) بھی عبادت ہے، غیراللہ کے لیے ذبح کرنا بھی عبادت ہے اور یہ شرک ہے اور فلاں فلاں کام شرک ہے تو وہ آپ کو کہے گا: نہیں! آپ تو مسلمانوں کی تکفیر کررہے ہیں اور اسے شرک کہہ رہے ہیں!
پس لا الہ الا اللہ کے معنی کے عدم فہم کی نتیجے میں یہ گمراہی مرتب ہوتی ہے۔ یہ گمراہی آج موجود ہے۔ قبروں مزاروں سے تعلق وغیرہ لا الہ الا اللہ کے معنی کی اسی قسم کی فاسد تفسیرات کا ہی شاخسانہ ہے۔آج بعض اشاعرہ لا الہ الا اللہ کا معنی جانتے بھی ہیں خصوصاً امام ابن تیمیہ وابن عبدالوہاب رحمہما اللہ کے جہاد کے بعد لیکن اپنی قوم کی گمراہی میں ان کےساتھ ہی جڑے رہتے ہیں محض دنیا کی خاطر العیاذ باللہ۔ کبھی وہ اسے یا اس میں سے کسی بات کو جان بھی لیتے ہیں اور پہچان لیتے ہیں کہ یہ شرک ہے اور جان لیتے ہيں کہ سلفی منہج ہی دعوت حق ہے لیکن پھر بھی اپنی قوم کےساتھ جڑے رہتے ہیں۔ ان کے بہت سے بڑوں نے اس کی تصریح کی ہے۔ کہتے ہیں: حق تو سلفیوں کے پاس ہے، پھر یہ کیوں انہیں نہیں چھوڑتے؟ کہتے ہیں: میں انہیں نہیں چھوڑ سکتا اور نہ انہیں یہ بیان کرسکتا ہوں،اللہ تعالی سے ہی عافیت کاسوال ہے۔
اگر اشاعرہ وصوفیہ اور یہ لوگ لا الہ الا اللہ کے معنی کے تعلق سے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ وآئمہ اسلام کے طریقے پر ہوتےتو کیا آپ کو یہ مزاروں کی بھرمار نظر آتی جس نے پوری دنیا کو بھر رکھا ہے۔ یعنی مدارس وجامعات کے بڑےاکابرین خود ان عرس ومیلوں میں شریک ہوتے ہیں جیسے بدوی اور عبدالقادر جیلانی وغیرہ کاعرس۔ ان شرکیہ عیدوں عرسوں میں شریک ہوتے ہیں۔ بڑی بڑی دستار وپگڑیوں والے اور بڑی بڑی اعلیٰ ڈگریوں والے ذرا بھی شرم نہیں کرتے جاہلوں اور عوام کے ساتھ اس شرک باللہ میں شرکت کرتے ہوئے۔
[Urdu Article] Spreading doubts regarding footnotes and benefits added to the book "Al-Ajwibah-tul-Mufeedah" of Shaykh Saaleh Al-Fawzaan
شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کی کتاب ’’الاجوبۃ المفیدۃ‘‘ کے حواشی وتعلیقات کے متعلق شکوک پھیلانا
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/03/fawzaan_alajwibah_almufeedah_taleeq_shukook.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کی منہجی سوال وجواب پر مبنی مایہ ناز کتاب ’’الأجوبة المفيدة عن أسئلة المناهج الجديدة‘‘ جسے شیخ جمال بن فریحان الحارثی حفظہ اللہ نے جمع فرمایا ہے اور ساتھ میں اس پر مفید حواشی اور تعلیقات بھی لکھی ہیں، اس کے بعض فتاویٰ کا ہماری ویب سائٹ پر ترجمہ بھی دستیاب ہے، اور باقی پر بھی کام جاری ہے۔ ان تعلیقات میں بعض مشہور داعیان اور جماعتو ں کا نام لے کر رد بھی ہے جیسے اخوان المسلمین، تبلیغی جماعت اسی طرح سے حسن البنا، سید قطب، مودودی، سلمان العودۃ، ناصر العمر ، یوسف قرضاوی اور عائض القرنی وغیرہ، لہذا بعض لوگوں کی طرف سے یہ شکوک وشبہات پھیلانے شروع کردیے گئے کہ سوال وجواب تو شیخ حفظہ اللہ کے ہيں، لیکن حواشی وغیرہ پر وہ مطلع نہيں نہ ہی وہ اس اسلوب سے راضی ہيں کہ جن داعیوں وغیرہ کا نام لے کر رد کیا گیا ہے۔ اس بارے میں شیخ حفظہ اللہ سے ایک سے زائد مواقع پر پوچھا گیا اور شیخ نے وضاحت فرمائی کہ وہ ان پر مطلع ہی نہيں بلکہ راضی بھی ہيں۔
پہلی مرتبہ:
آپ حفظہ اللہ نے اس کتاب کی تیسری بار طبع ونشر کی اجازت مرحمت فرماتے ہوئے فرمایا:
الحمد الله وبعد: میں شیخ جمال بن فریحان الحارثی کو اس کتاب ’’الأجوبة المفيدة عن أسئلة المناهج الجديدة‘‘ کی دوبارہ سے طباعت کی اجازت دیتا ہوں، جسے انہوں نے میرے ان سوالات کے جوابات سے جمع کیا ہے جو دروس کے درمیان میں طلاب کو دیا کرتا تھا۔ میں نے انہیں ان کی مع ان تعلیقات کے اضافے کے جو ان کے پاس تھیں اور جو زیادہ فوائد انہوں نے اس میں شامل کیے جو سابقہ طباعتوں میں نہيں تھے ، ان سب کے ساتھ طباعت کی اجازت دیتا ہوں۔ اللہ تعالی تمام لوگوں کو حق کی معرفت اور اس پر عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔
وصلى الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وصحبه۔
کتبہ: صالح بن فوزان بن عبدالله الفوزان في 1423/12/23ھ۔
دوسری مرتبہ (جسے چوتھی مرتبہ کہنا چاہیے کیونکہ تین مرتبہ پہلے بھی اس کی طباعت کے بارے میں شیخ حفظہ اللہ یہی بات فرماچکے ہیں) :
شیخ سے دو کتب کے بارے میں پوچھا گیا جن میں سے یہ بھی تھی۔
میزبان: دوسرا سوال؟
سائل: سماحۃ الشیخ آپ کی دو کتابیں ہيں:
اول: الأجوبة المفيدة عن أسئلة المناهج الجديدة۔
دوم: الفتاوى المهمة في المشاكل الملمة([1])۔
اور ان پر حواشی ہیں اس شخص کے جس نے انہيں جمع کیا ہے۔ کیا یہ دونوں کتابیں واقعی آ پ کی ہیں اور اس پر حواشی کا بھی آپ کو علم ہے، بارک اللہ فیک؟
میزبان سائل سے: آپ کا شکریہ۔
شیخ فوزان: جی میرے بھائی یہ دونوں کتابیں میری ہی ہیں، اور اس کے حواشی پر بھی میں مطلع ہوں اور ان صحیح سمجھتا ہوں۔
تیسری مرتبہ(جسے پانچویں بار شمار کیا جائے) :
حال ہی میں 18 جمادی الثانی سن 1438ھ بمطابق17، مارچ 2017ع میں اس کتاب سے متعلق پوچھا گیا:
سائل: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
شیخ: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
سائل: شیخ صالح آپ کا کیا حال ہے؟ امید ہے آپ بخیر ہوں گے؟
شیخ: خیر الحمدللہ۔
سائل: اللہ تعالی آپ کو برکت دے اور آپ کی حفاظت فرمائے۔
شیخ: جی۔
سائل: شیخ بارک اللہ فیک، کیا آپ مجھے سوال پوچھنے کی اجازت دیتے ہيں؟
شیخ: جی۔
سائل: بارک اللہ فیک اللہ تعالی آپ کے لیے اجر لکھ دے۔
شیخ: جی۔
سائل: شیخنا، احسن اللہ الیک، میں نے کتاب ’’الأجوبة المفيدة عن أسئلة المناهج الجديدة‘‘ پڑھی جس میں آپ کے جوابات ہیں، میں نے دیکھا کہ اس کتاب کے حاشیوں میں بعض داعیوں کے اقوال کی طرف اشارہ ہے جیسے سید قطب، مودودی، سلمان العودۃ، ناصر العمر اور عائض القرنی وغیرہ؟
شیخ: (ریکارڈنگ غیر واضح ہے) ۔۔ ۔
سائل: جی حاشیے شیخ جمال (بن فریحان الحارثی) کے ہیں۔
شیخ: جی ہاں۔
سائل: بارک اللہ فیکم بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ حاشیے آپ کی کتاب پر تقدیم لکھنے کے بعد کے ہیں(یعنی آپ کو ان کا علم نہیں نہ آ پ ان سے راضی ہیں)، کیا یہ بات صحیح ہے؟
شیخ:نہیں، جب کتاب جمع ہوگئی تو اس پر حاشیےڈالے گئے۔
سائل: تو کیا حاشیے آپ کے معلوم ہوجانے کے بعد کے ہیں؟
شیخ: ہاں بالکل، ان میں آخر ہے کیا؟!
سائل: شیخ دراصل بعض لوگ کہتے ہيں کہ شیخ جمال نے اسے آپ پر پیش کرنے کے بعد ان حاشیوں کا اضافہ کیا ہے؟
شیخ: اس میں آخر مسئلہ کیا ہے۔
سائل: (مسئلہ ان لوگوں کو یہ ہے کہ) اس میں بعض داعیان کا نام لے کر تحذیر وخبردار کیا گیا ہے یا شیخ، تو کیایہ تحذیر درست ہے؟
شیخ: ہاں بالکل
صحیح ہے۔
سائل: بارک اللہ فیکم، اللہ تعالی آپ کے لیے اجروثواب لکھ دے یا شیخ۔
شیخ: حياكم الله أهلاً وسهلاً۔
سائل: الله يحفظكم۔
(یہ مکالمہ فضیلۃ الشیخ العلامۃ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ کے ساتھ بروز جمعہ الموافق 18 جمادی الثانی سن 1438ھ کا ہے)۔
[1] اس کتاب کے بھی بہت سے ترجمہ شدہ فتاوی ہماری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[Urdu Article] Innovations of Rajab and the night of Me'raaj – Various 'Ulamaa
ماہ ِرجب کی بدعات اور شب ِمعراج
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2014/05/mah_e_rajab_bidaat_shab_e_meraaj.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: بعض لوگ ماہ رجب کو بعض عبادات کے لئے خاص کرتے ہیں جیسے صلاۃ الرغائب، اور 27ویں شب کو شب بیداری (شبِ معراج)، پس کیا ان کی شریعت میں کوئی بنیاد واصل ہے؟ جزاکم اللہ خیراً
جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:
رجب کو صلاۃ الرغائب ادا کرنے کے لئے اور 27 شب کو لیلۃ الاسراء اور شب معراج سمجھتے ہوئے شب بیداری کرنا بدعت ہے جائز نہیں، اور شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں، اس بارے میں بہت سے محققین علماء کرام نے تنبیہ فرمائی ہے۔ ہم نے بھی کئی بار اس بار ےمیں لکھا ہے اور لوگوں پر یہ واضح کیا ہے کہ صلاۃ الرغائب بدعت ہے جو کہ بعض لوگ رجب کی پہلی شبِ جمعہ کو ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح سے 27ویں شب کو یہ اعتقاد رکھتے ہوئے کہ یہ لیلۃ الاسراء اور شب معراج ہے مناتے ہیں، یہ سب بدعات ہیں جن کی شریعت میں کوئی اصل نہیں۔ شبِ معراج کی رات کا تعین ہی ثابت نہیں اور اگر بالفرض معلوم بھی ہوجائے تو اسے منانا جائز نہیں؛ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے نہیں منایا اور نہ ہی خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام y نے۔ پس ’’لو كان ذلك سنة لسبقونا إليها‘‘ (اگر یہ سنت ہوتی تو وہ اس پر عمل پیرا ہونے میں ہم پر سبقت لے جاتے) اور ساری کی ساری خیر وبھلائی ان کی اتباع کرنے اور ان کے منہج کی پیروی کرنے میں ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ﴾ (التوبۃ: 100)
(اور جو مہاجرین اور انصار سابقین اولین میں سے ہیں اور جنہوں نے بطور احسن ان کی پیروی کی اللہ تعالی ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ تعالی نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کررکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، اور یہ بڑی کامیابی ہے)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحیح طور پر یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’ مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ ‘‘([1])
(جس کسی نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات ایجاد کی جو اس میں نہیں تھی تو وہ مردود ہے)۔
اور فرمایا:
’’ مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ ‘‘([2])
(جس کسی نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود ہے)۔
یہاں ’’ فَهُوَ رَدٌّ ‘‘ (وہ مردود ہے) کا معنی ہے ’’مردود على صاحبه‘‘ (اس عمل کرنے والے سے قبول نہیں کیا جائے گا یا منہ پر مار دیا جائے گا) اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے خطبات میں فرمایا کرتے تھے کہ:
’’أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ، وَخَيْرُ الْهُدَى هُدَى مُحَمَّدٍ، وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ‘‘([3])
(بہترین بات کتاب اللہ ہے اور بہترین ہدایت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت ہے، اور بدترین امور وہ ہیں جو دین میں نوایجاد یافتہ(بدعت) ہوں، اور ہر بدعت گمراہی ہے)۔
پس ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ سنت کی اتباع کرے اور اس پر استقامت کا مظاہرہ کرے، ساتھ ہی اس کی دوسروں کو وصیت کرے اور ہر قسم کی بدعات سے خبردار کرے اللہ تعالی کے اس قول کو عملی جامہ پہناتے ہوئے:
﴿وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى﴾ (المائدۃ: 2)
(اور نیکی وبھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو)
اور اللہ تعالی کا یہ فرمان:
﴿وَالْعَصْرِ، اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ، اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾ (سورۃ العصر)
(قسم ہے زمانے کی، بے شک انسان خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے، اور حق بات کی وصیت ، اور صبر کی وصیت کرتے رہے)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان:
’’الدِّينُ النَّصِيحَةُ، قُلْنَا: لِمَنْ؟ قَالَ: لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِرَسُولِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ، وَعَامَّتِهِمْ ‘‘([4])
(دین تو خیر خواہی کا نام ہے، ہم نے دریافت کیا: کس کی (خیرخواہی )؟ فرمایا: اللہ تعالی کے لئے، اس کی کتاب کے لئے، اس کے رسول کے لئے، مسلمانوں کے حکمرانوں اور عام مسلمانو ں کے لئے)۔
رہا سوال اس مہینے میں عمرے کا تو اس میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ صحیحین میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یہ ثابت