[Urdu Article] The Fitnah of photography and try to justify it by Shaykh Ibn Uthaimeen's (rahimaullaah) viewpoint
تصویر کشی کا فتنہ اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کے کلام سے استدلال کرنا
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ الآجری۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/tasweer_kashi_fitnah_ibn_uthaimeen_istadlaal.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آجکل جو فتنے عام ہیں ان ہی میں تصویر کشی کا فتنہ اور اس کی کثرت ہے۔ ان لوگوں میں بعض شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے تصویر کشی کے جواز والے فتوے کو دلیل بنارہے ہوتے ہیں، حالانکہ فی الواقع شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے اس حکم کو معلق رکھا ہے اس طور پر کہ اگر اس سے غرض مباح وجائز ہو تو یہ مباح ہوگا بصورت دیگر اگر اس سے غرض حرام اور فضولیات ہو تو اس کا حکم بھی حرام اور ممنوع ہوگا جو کہ وسائل کی تحریم کے باب میں سے ہے۔ چناچہ آپ رحمہ اللہ ریاض الصالحین کی شرح 1/1789 میں فرماتے ہیں:
یہ مباح ہے لیکن اگر اس سے غرض حرام ہو تو یہ جائز نہیں وسائل کی تحریم کے باب میں سے۔ البتہ اگر کوئی مباح غرض ہو جیسے ڈرائیونگ لائسنس کے لیے یا شناختی کارڈ یا ان جیسی ضروریات کے لیے اگر تصویر لی جائے تو جائز ہوگی۔ یہ ہے ہماری رائے اس مسئلے کے تعلق سے، لیکن فی زمانہ لوگ اس تصویر کے فتنے میں بہت زیادہ مبتلا ہيں اور یہ ہرچیز میں ہی موجود ہے۔لیکن انسان پر واجب ہے کہ وہ جانے، تحقیق کرے اور تمیز کرے اس میں جو اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے اور اس میں جس کی حرمت نہيں آئی۔ ہم اللہ کے بندوں پر بلاوجہ تنگی نہيں ڈالنا چاہتے اور ساتھ ہی انہيں اس چیز میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے جو اللہ تعالی نے حرام قرار دی ہے، جیسا کہ ذی روح کی تصویر کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
’’مَنْ صَوَّرَ صُورَةً فِي الدُّنْيَا كُلِّفَ أَنْ يَنْفُخَ فِيهَا الرُّوحَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَيْسَ بِنَافِخٍ‘‘([1])
(جس نے دنیا میں کوئی تصویر بنائی تو بروز قیامت اسے اس میں روح پھونکنے کا پابند بنایا جائے گا، حالانکہ وہ کبھی بھی اس میں روح نہيں پھونک سکے گا)۔
اسی طرح سے اپنے جریدے ’’المسلمون‘‘ کو بروز جمعہ 29/11/1410ھ شمارہ 281 میں دیے گئے انٹرویو میں کیمرے کی تصویر پر بات کرنے کے بعد واضح طور پر فرمایا کہ:
لیکن یہ بات مدنظر رکھنا بے حد ضروری ہے کہ اس تصویر سے مقصود کیا ہے؟
اگر اس سے کوئی مباح چیز مقصود ہے تو یہ عمل مباح ہوگا اس مقصود کے مباح ہونے کی وجہ سے، اور اگر اس سے مقصود کوئی غیرمباح (ناجائز) عمل ہو تو یہ حرام ہوگی۔ اس لیے نہيں کہ یہ محض تصویر ہے بلکہ اس لیے کہ اس سے مقصود حرام چیز ہے۔
سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ تصویر کے تعلق سے کون سے مباح اغراض ومقاصد ہیں اور کون سے حرام؟
جواب: مباح اغراض یہ ہيں کہ کسی چیز کے ثبوت کے لیے تصویر درکار ہو جیسے کسی کی شناخت کے لیے، یا ٹریفک حادثات وجرائم، یا کسی کام کی نگرانی وانتظام کے لیے کہ کسی سے یہ طلب کیا جائے اور اسے ثابت کرنے کے لیے اسے تصویر کا سہارا لینا پڑے۔
ناجائز اغراض کی مثال یادگار کے لیے تصاویر لینا جیسے دوستوں کی، شادی بیاہ کی تقریبات کی یا اس جیسی کیونکہ اس صورت میں تصویروں کو بلاضرورت رکھا جانا لازم آئے گا جو کہ حرام ہے۔ کیونکہ بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ بات ثابت ہے کہ بے شک فرشتے اس گھر میں داخل نہيں ہوتے جس میں تصویر ہو۔ اور انہی ناجائز تصویروں میں سے کسی کی فوت شدہ محبوب ہستی کی تصویر جیسے ماں باپ کی یا بھائی کی جسے وہ وقتاً فوقتاً دیکھا رہتا ہے، کیونکہ اس طور پر تو اس کا اس پر غم تازہ ہوجاتا ہے، اور اس کی وجہ سے میت کے ساتھ دل بہت زیادہ جڑا رہتا ہے۔
اسی طرح سے ناجائز تصاویر کی مثال نفسانی اور جنسی لذت کی خاطر تصاویر دیکھنا، کیونکہ یہ انسان کو فحاشی کی طرف لے جاتی ہیں۔
یہ کچھ مثالیں ہیں اس قاعدے کی جو ابھی ہم نے ذکر کیا، یہ بطور حصر نہيں (کہ ہم نے ساری جائز وناجائز صورتیں بیان کردی ہوں بلکہ بطور مثال ہے جس پر باقی کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے) لیکن جسے اللہ تعالی نے فہم دیا ہے تو وہ عنقریب باقی تصاویر پر بھی یہ قاعدہ منطبق کرسکتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی ہم اللہ تعالی سے تمام لوگوں کے لیے ہدایت اور اس کام کی توفیق طلب کرتے ہيں جسے وہ پسند کرتا ہے اور اس سے راضی ہوتا ہے۔
شیخ رحمہ اللہ کا کلام ختم ہوا۔
لہذا ہم شیخ رحمہ اللہ کے سابقہ کلام میں یہ بات پاتے ہيں کہ شیخ نے اس لیے ہرگز اجازت نہيں دی ہے کہ بلاوجہ یاددگار وغیرہ کے لیے ان تصاویر کو رکھا جائے حالانکہ آجکل سب سے زیادہ اسی غرض ومقصود کے لیے یہ تصاویر عام ہیں۔ واللہ المستعان۔
(تیار کردہ: ابو عبداللہ وائل اللیبی)
[1] صحیح مسلم 2113۔
تصویر کشی کا فتنہ اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کے کلام سے استدلال کرنا
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ الآجری۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/tasweer_kashi_fitnah_ibn_uthaimeen_istadlaal.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آجکل جو فتنے عام ہیں ان ہی میں تصویر کشی کا فتنہ اور اس کی کثرت ہے۔ ان لوگوں میں بعض شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے تصویر کشی کے جواز والے فتوے کو دلیل بنارہے ہوتے ہیں، حالانکہ فی الواقع شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے اس حکم کو معلق رکھا ہے اس طور پر کہ اگر اس سے غرض مباح وجائز ہو تو یہ مباح ہوگا بصورت دیگر اگر اس سے غرض حرام اور فضولیات ہو تو اس کا حکم بھی حرام اور ممنوع ہوگا جو کہ وسائل کی تحریم کے باب میں سے ہے۔ چناچہ آپ رحمہ اللہ ریاض الصالحین کی شرح 1/1789 میں فرماتے ہیں:
یہ مباح ہے لیکن اگر اس سے غرض حرام ہو تو یہ جائز نہیں وسائل کی تحریم کے باب میں سے۔ البتہ اگر کوئی مباح غرض ہو جیسے ڈرائیونگ لائسنس کے لیے یا شناختی کارڈ یا ان جیسی ضروریات کے لیے اگر تصویر لی جائے تو جائز ہوگی۔ یہ ہے ہماری رائے اس مسئلے کے تعلق سے، لیکن فی زمانہ لوگ اس تصویر کے فتنے میں بہت زیادہ مبتلا ہيں اور یہ ہرچیز میں ہی موجود ہے۔لیکن انسان پر واجب ہے کہ وہ جانے، تحقیق کرے اور تمیز کرے اس میں جو اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے اور اس میں جس کی حرمت نہيں آئی۔ ہم اللہ کے بندوں پر بلاوجہ تنگی نہيں ڈالنا چاہتے اور ساتھ ہی انہيں اس چیز میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے جو اللہ تعالی نے حرام قرار دی ہے، جیسا کہ ذی روح کی تصویر کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
’’مَنْ صَوَّرَ صُورَةً فِي الدُّنْيَا كُلِّفَ أَنْ يَنْفُخَ فِيهَا الرُّوحَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَيْسَ بِنَافِخٍ‘‘([1])
(جس نے دنیا میں کوئی تصویر بنائی تو بروز قیامت اسے اس میں روح پھونکنے کا پابند بنایا جائے گا، حالانکہ وہ کبھی بھی اس میں روح نہيں پھونک سکے گا)۔
اسی طرح سے اپنے جریدے ’’المسلمون‘‘ کو بروز جمعہ 29/11/1410ھ شمارہ 281 میں دیے گئے انٹرویو میں کیمرے کی تصویر پر بات کرنے کے بعد واضح طور پر فرمایا کہ:
لیکن یہ بات مدنظر رکھنا بے حد ضروری ہے کہ اس تصویر سے مقصود کیا ہے؟
اگر اس سے کوئی مباح چیز مقصود ہے تو یہ عمل مباح ہوگا اس مقصود کے مباح ہونے کی وجہ سے، اور اگر اس سے مقصود کوئی غیرمباح (ناجائز) عمل ہو تو یہ حرام ہوگی۔ اس لیے نہيں کہ یہ محض تصویر ہے بلکہ اس لیے کہ اس سے مقصود حرام چیز ہے۔
سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ تصویر کے تعلق سے کون سے مباح اغراض ومقاصد ہیں اور کون سے حرام؟
جواب: مباح اغراض یہ ہيں کہ کسی چیز کے ثبوت کے لیے تصویر درکار ہو جیسے کسی کی شناخت کے لیے، یا ٹریفک حادثات وجرائم، یا کسی کام کی نگرانی وانتظام کے لیے کہ کسی سے یہ طلب کیا جائے اور اسے ثابت کرنے کے لیے اسے تصویر کا سہارا لینا پڑے۔
ناجائز اغراض کی مثال یادگار کے لیے تصاویر لینا جیسے دوستوں کی، شادی بیاہ کی تقریبات کی یا اس جیسی کیونکہ اس صورت میں تصویروں کو بلاضرورت رکھا جانا لازم آئے گا جو کہ حرام ہے۔ کیونکہ بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ بات ثابت ہے کہ بے شک فرشتے اس گھر میں داخل نہيں ہوتے جس میں تصویر ہو۔ اور انہی ناجائز تصویروں میں سے کسی کی فوت شدہ محبوب ہستی کی تصویر جیسے ماں باپ کی یا بھائی کی جسے وہ وقتاً فوقتاً دیکھا رہتا ہے، کیونکہ اس طور پر تو اس کا اس پر غم تازہ ہوجاتا ہے، اور اس کی وجہ سے میت کے ساتھ دل بہت زیادہ جڑا رہتا ہے۔
اسی طرح سے ناجائز تصاویر کی مثال نفسانی اور جنسی لذت کی خاطر تصاویر دیکھنا، کیونکہ یہ انسان کو فحاشی کی طرف لے جاتی ہیں۔
یہ کچھ مثالیں ہیں اس قاعدے کی جو ابھی ہم نے ذکر کیا، یہ بطور حصر نہيں (کہ ہم نے ساری جائز وناجائز صورتیں بیان کردی ہوں بلکہ بطور مثال ہے جس پر باقی کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے) لیکن جسے اللہ تعالی نے فہم دیا ہے تو وہ عنقریب باقی تصاویر پر بھی یہ قاعدہ منطبق کرسکتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی ہم اللہ تعالی سے تمام لوگوں کے لیے ہدایت اور اس کام کی توفیق طلب کرتے ہيں جسے وہ پسند کرتا ہے اور اس سے راضی ہوتا ہے۔
شیخ رحمہ اللہ کا کلام ختم ہوا۔
لہذا ہم شیخ رحمہ اللہ کے سابقہ کلام میں یہ بات پاتے ہيں کہ شیخ نے اس لیے ہرگز اجازت نہيں دی ہے کہ بلاوجہ یاددگار وغیرہ کے لیے ان تصاویر کو رکھا جائے حالانکہ آجکل سب سے زیادہ اسی غرض ومقصود کے لیے یہ تصاویر عام ہیں۔ واللہ المستعان۔
(تیار کردہ: ابو عبداللہ وائل اللیبی)
[1] صحیح مسلم 2113۔
[Urdu Article] Tawheed is the base of Deen and creed of Islaam – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah bin Baaz
توحید دین کی بنیاد اور ملت اسلامیہ کی اساس ہے
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مجموع فتاوى ومقالات متنوعة ج 28۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/tawheed_deen_o_millat_ki_bunyad.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: سماحۃ الشیخ ہم چاہتے ہیں کہ آپ توحید کی فضیلت بیان کیجئے اور خصوصاً اس تناظر میں کہ بہت سے نوجوان اس سے بے اعتنائی برتتے ہیں، اللہ تعالی آپ کو توفیق عنایت فرمائے؟
جواب: توحید کی معرفت اصل الاصول اور دین کی بنیاد ہے۔ دین کی بنیاد یہی ہے کہ آپ شہادتِ لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کے معنی کو جانیں۔ یہ سب سے اولین وبڑا واجب ہے۔ اور یہ وہ اولین چیز ہے کہ جس کی جانب تمام رسولوں علیہم الصلاۃ والسلام اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعوت دی۔ لوگوں کو شہادتین کا معنی ومفہوم سمجھایا اور بتایا کہ تمام اوثان واصنام کو چھوڑ کر صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی جائے۔
یہ وہ پہلی چیز تھی کہ جس کی جانب انبیاء ورسل علیہم الصلاۃ والسلام نے دعوت دی۔ اور یہی ہر مکلف مسلمان پر ہر چیز سے پہلے واجب ہے کہ وہ اللہ تعالی کو ایک قرار دے اور عبادت کو اس کے لیے خاص کردے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿فَاعْلَمْ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ﴾ (محمد: 19)
(جان لیں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور اپنے گناہ کی بخشش طلب کریں)
اور فرمایا:
﴿وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا﴾ (الاسراء: 23)
(اور فیصلہ کرلیا آپ کے رب نے کہ نہيں کرو عبادت مگر صرف اسی کی اور والدین کے ساتھ احسان وبھلائی کرو)
اور فرمایا:
﴿وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـيْـــــًٔـا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا﴾ (النساء: 36)
(اور اللہ تعالی کی عبادت کرو اور کسی کو بھی اس کے ساتھ شریک نہ کرو، اور والدین کے ساتھ احسان وبھلائی کرو)
اور فرمایا:
﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ﴾ (النحل: 36)
(اور تحقیق ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ صرف اللہ تعالی کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو)
لہذا ہر مکلف پر یہ واجب ہے کہ وہ دین کا تفقہ حاصل کرے، عبادت کو اللہ تعالی کے لیے خاص کردے اور لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت کے معنی کو اچھی طرح سے سمجھ لے۔ پہلے حصے کا معنی ہے کہ اللہ تعالی کی توحید اور اس کے لیے اخلاص، اور اس کے سوا ہر ایک کی عبادت کی نفی کرتے ہوئے صرف اس کی عبادت کرنا، اور ایمان لانا کہ اللہ تعالی ہی حق ہے اور یہی دین کی بنیاد اور ملت اسلامیہ کی اساس ہے، جیسا کہ فرمان الہی ہے:
﴿ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ وَاَنَّ مَا يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهِ الْبَاطِلُ﴾ (لقمان: 30)
(یہ ا س لیے کیونکہ بے شک اللہ تعالی ہی حق ہے اور بے شک جنہیں یہ اس کے سوا پکارتے ہیں وہ باطل ہیں)
ساتھ ہی (دوسرے حصے کا معنی ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا کہ وہ برحق رسول ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب اور یہ کہ ان کی اتباع کرنا اور ان کے منہج پر چلنا واجب ہے۔ اور اعمال ان دو بنیادی شرائط کے بغیر قبول نہیں ہوتے: 1- اللہ تعالی کے لیے اخلاص، 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متابعت۔
(ان سوالات کے تحت جو جامعۃ الامام محمد بن سعود، ریاض میں ایک تقریر کے بعد شیخ رحمہ اللہ کے سامنے پیش کیے گئے)
توحید دین کی بنیاد اور ملت اسلامیہ کی اساس ہے
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مجموع فتاوى ومقالات متنوعة ج 28۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/tawheed_deen_o_millat_ki_bunyad.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: سماحۃ الشیخ ہم چاہتے ہیں کہ آپ توحید کی فضیلت بیان کیجئے اور خصوصاً اس تناظر میں کہ بہت سے نوجوان اس سے بے اعتنائی برتتے ہیں، اللہ تعالی آپ کو توفیق عنایت فرمائے؟
جواب: توحید کی معرفت اصل الاصول اور دین کی بنیاد ہے۔ دین کی بنیاد یہی ہے کہ آپ شہادتِ لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کے معنی کو جانیں۔ یہ سب سے اولین وبڑا واجب ہے۔ اور یہ وہ اولین چیز ہے کہ جس کی جانب تمام رسولوں علیہم الصلاۃ والسلام اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعوت دی۔ لوگوں کو شہادتین کا معنی ومفہوم سمجھایا اور بتایا کہ تمام اوثان واصنام کو چھوڑ کر صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی جائے۔
یہ وہ پہلی چیز تھی کہ جس کی جانب انبیاء ورسل علیہم الصلاۃ والسلام نے دعوت دی۔ اور یہی ہر مکلف مسلمان پر ہر چیز سے پہلے واجب ہے کہ وہ اللہ تعالی کو ایک قرار دے اور عبادت کو اس کے لیے خاص کردے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿فَاعْلَمْ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ﴾ (محمد: 19)
(جان لیں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور اپنے گناہ کی بخشش طلب کریں)
اور فرمایا:
﴿وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا﴾ (الاسراء: 23)
(اور فیصلہ کرلیا آپ کے رب نے کہ نہيں کرو عبادت مگر صرف اسی کی اور والدین کے ساتھ احسان وبھلائی کرو)
اور فرمایا:
﴿وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـيْـــــًٔـا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا﴾ (النساء: 36)
(اور اللہ تعالی کی عبادت کرو اور کسی کو بھی اس کے ساتھ شریک نہ کرو، اور والدین کے ساتھ احسان وبھلائی کرو)
اور فرمایا:
﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ﴾ (النحل: 36)
(اور تحقیق ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ صرف اللہ تعالی کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو)
لہذا ہر مکلف پر یہ واجب ہے کہ وہ دین کا تفقہ حاصل کرے، عبادت کو اللہ تعالی کے لیے خاص کردے اور لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت کے معنی کو اچھی طرح سے سمجھ لے۔ پہلے حصے کا معنی ہے کہ اللہ تعالی کی توحید اور اس کے لیے اخلاص، اور اس کے سوا ہر ایک کی عبادت کی نفی کرتے ہوئے صرف اس کی عبادت کرنا، اور ایمان لانا کہ اللہ تعالی ہی حق ہے اور یہی دین کی بنیاد اور ملت اسلامیہ کی اساس ہے، جیسا کہ فرمان الہی ہے:
﴿ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ وَاَنَّ مَا يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهِ الْبَاطِلُ﴾ (لقمان: 30)
(یہ ا س لیے کیونکہ بے شک اللہ تعالی ہی حق ہے اور بے شک جنہیں یہ اس کے سوا پکارتے ہیں وہ باطل ہیں)
ساتھ ہی (دوسرے حصے کا معنی ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا کہ وہ برحق رسول ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب اور یہ کہ ان کی اتباع کرنا اور ان کے منہج پر چلنا واجب ہے۔ اور اعمال ان دو بنیادی شرائط کے بغیر قبول نہیں ہوتے: 1- اللہ تعالی کے لیے اخلاص، 2- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متابعت۔
(ان سوالات کے تحت جو جامعۃ الامام محمد بن سعود، ریاض میں ایک تقریر کے بعد شیخ رحمہ اللہ کے سامنے پیش کیے گئے)
[Urdu Book] Correct Salafee stance regarding Ahl-ul-Bida’ah – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
اہلِ بدعت کے بارے میں صحیح سلفی مؤقف
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: المؤقف الصحيح من أهل البدع۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فضيلة شيخنا العلامة / الشيخ ربيع بن هادي المدخلي حفظه الله .
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته …………. وبعد
شیخ صاحب اللہ تعالی آپ کی حفاظت فرمائے، یہ بات یقیناً آپ پر مخفی نہیں ہے کہ کسی کی صحبت اختیار کرنے کی وجہ سے صحبت اختیار کرنے والے پر خواہ اچھے ہوں یا برےکیا کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
آجکل ہمارے بعض سلفی بھائی بعض ایسے لوگوں سے میل جول رکھنے میں واقع ہوگئے ہیں جو سلفی منہج کی مخالفت کرتے ہیں بطورِ صحبت یا موافقتِ طبع کی بنیاد پر؛ چناچہ کم از کم بھی جو چیز آپ اس قسم کے میل ملاپ رکھنے والے بھائی میں پائیں گے وہ یہ کہ وہ سلفی عقیدے کے مخالف افکار سے نابلد ہوگا، اور منہجی مسائل پر بات کرنے سے بھاگے گا۔
پس ہم آپ حفظہ اللہ سے یہ چاہتے ہیں کہ آپ کوئی سلفی تربیتی باتیں ہمیں نصیحت فرمائیں؛ اور ایسوں کے ساتھ میل جول رکھنے کے خطرے سے آگاہ فرمائیں، اور آیاتِ قرآنیہ، احادیثِ نبویہ اور آثارِ سلفیہ اس کی خطرناکی واضح کرنے کے سلسلے میں بیان فرمائیں، اور تاریخ میں سے ایسی مثالیں بیان فرمائیں کہ محض اہلِ اہوا کے ساتھ چلنے پھرنے کی وجہ سےکس طرح سے اہلسنت میں سے بعض بدعت کی طرف مائل ہوگئے ۔
اللہ تعالی آپ کی عمر وعلم میں برکت عطاء فرمائے، اور جزائے خیر سے نوازے۔
جواب کے لیے مکمل کتاب کا مطالعہ کیجئے۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/03/ahlebidat_khilaf_sahih_salafi_moaqqaf.pdf
اہلِ بدعت کے بارے میں صحیح سلفی مؤقف
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: المؤقف الصحيح من أهل البدع۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فضيلة شيخنا العلامة / الشيخ ربيع بن هادي المدخلي حفظه الله .
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته …………. وبعد
شیخ صاحب اللہ تعالی آپ کی حفاظت فرمائے، یہ بات یقیناً آپ پر مخفی نہیں ہے کہ کسی کی صحبت اختیار کرنے کی وجہ سے صحبت اختیار کرنے والے پر خواہ اچھے ہوں یا برےکیا کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
آجکل ہمارے بعض سلفی بھائی بعض ایسے لوگوں سے میل جول رکھنے میں واقع ہوگئے ہیں جو سلفی منہج کی مخالفت کرتے ہیں بطورِ صحبت یا موافقتِ طبع کی بنیاد پر؛ چناچہ کم از کم بھی جو چیز آپ اس قسم کے میل ملاپ رکھنے والے بھائی میں پائیں گے وہ یہ کہ وہ سلفی عقیدے کے مخالف افکار سے نابلد ہوگا، اور منہجی مسائل پر بات کرنے سے بھاگے گا۔
پس ہم آپ حفظہ اللہ سے یہ چاہتے ہیں کہ آپ کوئی سلفی تربیتی باتیں ہمیں نصیحت فرمائیں؛ اور ایسوں کے ساتھ میل جول رکھنے کے خطرے سے آگاہ فرمائیں، اور آیاتِ قرآنیہ، احادیثِ نبویہ اور آثارِ سلفیہ اس کی خطرناکی واضح کرنے کے سلسلے میں بیان فرمائیں، اور تاریخ میں سے ایسی مثالیں بیان فرمائیں کہ محض اہلِ اہوا کے ساتھ چلنے پھرنے کی وجہ سےکس طرح سے اہلسنت میں سے بعض بدعت کی طرف مائل ہوگئے ۔
اللہ تعالی آپ کی عمر وعلم میں برکت عطاء فرمائے، اور جزائے خیر سے نوازے۔
جواب کے لیے مکمل کتاب کا مطالعہ کیجئے۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/03/ahlebidat_khilaf_sahih_salafi_moaqqaf.pdf
[Urdu Pamphlet] Suicide attacks are Haraam (Unlawful) (Pamphlet) – Various 'Ulamaa
خود کش اور فدائی حملے حرام ہیں (پمفلٹ)
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/03/khudkash_fidai_hamlay_haram_hain_pamphlet.pdf
خود کش اور فدائی حملے حرام ہیں (پمفلٹ)
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/03/khudkash_fidai_hamlay_haram_hain_pamphlet.pdf
[Urdu Video] #ahlebidat kay baray may saheeh #salafi_moaqqaf
https://safeshare.tv/x/NxHTugKuXr4
[Urdu Audio] Correct Salafee stance regarding Ahl-ul-Bida’ah – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
اہلِ بدعت کے بارے میں صحیح سلفی مؤقف – شیخ ربیع بن ہادی المدخلی
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/10/ahlebidat_khilaf_sahih_salafi_moaqqaf.mp3
https://safeshare.tv/x/NxHTugKuXr4
[Urdu Audio] Correct Salafee stance regarding Ahl-ul-Bida’ah – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
اہلِ بدعت کے بارے میں صحیح سلفی مؤقف – شیخ ربیع بن ہادی المدخلی
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/10/ahlebidat_khilaf_sahih_salafi_moaqqaf.mp3
SafeShare.tv
SafeShare.tv - #ahlebidat kay baray may saheeh #salafi_...
#اہل_بدعت کے بارے میں صحیح #سلفی_مؤقف...
[Urdu Article] Abul 'Alaa Maududee and his exaggeration in the meaning of Shirk in rulership and obedience – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah bin Baaz
ابو الاعلیٰ مودودی اور حاکمیت واطاعت میں شرک کے معنی میں غلو
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ وترتیب وفوائد: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/03/mawdudee_hakimiyyat_shirk_mana_ghulo.pdf
ابو الاعلیٰ مودودی اور حاکمیت واطاعت میں شرک کے معنی میں غلو
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ وترتیب وفوائد: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/03/mawdudee_hakimiyyat_shirk_mana_ghulo.pdf
[Urdu Article] The correct meaning of testimony and its false Interpretations – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
شہادتین کا صحیح مطلب اور اس کی باطل تفسیرات
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب عقیدۂ توحید اور اس کے منافی امور
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/shahadatain_sahi_mana_batil_tafseer.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
1- ’’شھادۃ ان لا الہ الا اللہ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ :
’’الاعتقاد والإقرار أنه لا يستحقُّ العبادةَ إلا الله ، والتزام ذلك والعمل به ‘‘
(اس بات کا اقرار کرنا اور اعتقاد رکھنا کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، اس کا التزام کرنا اوراس پرعمل کرنا)۔
چناچہ ’’لا الہ ‘‘ اس بات کی نفی ہے کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی عبادت کا مستحق ہو خواہ کوئی بھی ہو ، ’’الا اللہ‘‘ اس بات کا اثبات ہے کہ عبادت کا مستحق صرف اللہ تعالی ہے ، اور اس کلمہ کا اجمالی مطلب یہ ہے کہ: ’’لا معبودَ بحقٍّ إلا الله‘‘ (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں) ، اور ’’لا‘‘ کی خبر کو ’’بحقٍّ‘‘ (برحق) سے ہی تعبیر کیا جائے گا ، اس کو موجود سے تعبیر کرنا درست نہیں ([1])، کیونکہ یہ حقیقتِ حال کے خلاف ہے ، کیونکہ اللہ تعالی کے سوا معبودات تو باکثرت موجود ہیں اور اس سے یہ بات لازم آتی ہے کہ ان معبودات کی عبادت کرنا بھی گویا اللہ تعالی کی ہی عبادت ہے ،جبکہ یہ باطل ترین بات ہوگی۔ اور یہ وحدة الوجود کے قائل لوگوں کا مذہب ہے جوکہ اس زمین کے سب سے بڑے کافر لوگ ہیں ۔
اس کلمہ کی بہت سی باطل تفسیرات بھی کی گئیں ، ان میں سے بعض درج ذیل ہیں :
1. اس کا مطلب ہے : ’’لا معبودَ إلا الله‘‘ (کوئی معبود نہیں سوائے اللہ تعالی کے )۔
جبکہ یہ باطل تفسیر ہے ، اس لیے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ : ہر معبودخواہ حق ہو یا باطل وہ اللہ ہے ، جیسا کہ ہم نے پہلے کچھ اس کا بیان کیا ہے۔
2. اس کا مطلب ہے :’’لا خالقَ إلا الله‘‘ (کوئی پیدا کرنے والا نہیں سوائے اللہ تعالی کے)۔
یہ اس کلمہ کے معنی کا صرف ایک جزء ہے ،حالانکہ یہ اصل مقصود نہیں ، کیونکہ اس سے صرف توحیدِ ربوبیت ثابت ہوتی ہے ، اور محض یہ توحید کافی نہیں یہ تو مشرکین کی بھی توحید ہے۔
3- اس کا مطلب ہے :’’لا حاكميّةَ إلا لله‘‘ (کسی کی حاکمیتِ اعلیٰ نہیں سوائے اللہ تعالی کے)۔
یہ بھی در حقیقت اس کلمہ کے معنی کا صرف ایک جزء ہے ، اصل مقصود نہیں ، اور نا ہی یہ کافی ہے ،کیونکہ اگر کوئی اللہ تعالی کو صرف حاکمیتِ اعلی میں اکیلا تسلیم بھی کرلے لیکن ساتھ ہی اللہ تعالی کے سوا کسی اور کو پکارے، اس سے دعاء کرے یا کچھ عبادت اس کے لیے ادا کرے تو وہ موحد نہیں ہوگا۔ پس اس قسم کی تمام تفسیرات باطل یا ناقص ہیں ، ہم نے اس پر اس لئے تنبیہ کی ہےکیونکہ یہ بعض عام طور پر پڑھی جانے والی کتابوں میں موجود ہے ۔
چناچہ اس کلمے کی صحیح تفسیر سلف صالحین اور محققین کی نظر میں یہ ہے کہ اس طرح کہا جائے : ’’لا معبود بحق إلا الله ‘‘ (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں) جیسا کہ اس کاپہلے ذکر ہوچکا ہے([2]) ۔
2- ’’شھادۃ ان محمدا رسول اللہ‘‘ کا مطلب یہ ہے: اس بات کا اعتراف باطن اور ظاہر میں کیا جائے کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کے بندے اور اس کے رسول ہیں جو تمام لوگوں کی طرف بھیجے گئے ہیں ، اور اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کیا جائے اس طرح کہ:
’’طاعته فيما أمر ، وتصديقه فيما أخبر ، واجتناب ما نهى عنه وزجر ، وألا يُعبدَ الله إلا بما شرع‘‘
(جن باتوں کا وہ حکم فرمائیں ان کی اطاعت کی جائے، جن باتوں کی وہ خبر فرمائیں ان کی تصدیق کی جائے، جن باتوں سے منع اور خبردار فرمائیں ان سے اجتناب کیا جائے اور اللہ تعالی کی عبادت نہ کی جائے مگر صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق)۔
[1]یعنی ’’لاالہ الا اللہ‘‘ کا معنی ’’لامعبود بحق الا اللہ‘‘ (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبودِ حقیقی نہیں) کیا جائے گا نہ کہ ’’لامعبودالااللہ‘‘ (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں) یا پھر ’’لامعبود موجود الا اللہ‘‘ (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود موجود نہیں)۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] اسکی تفصیل جاننے کے لیے پڑھیں کتاب ’’فتح الملک الوھاب فی رد شبہ المرتاب‘‘ از شیخ عبداللطیف بن عبدالرحمن بن حسن بن محمد بن عبدالوہابs ، ’’دروس من القرآن الکریم‘‘ از شیخ صالح الفوزان﷾، ’’دینی سیاسی جماعتوں کا انبیاء کرام کے منہج سے انحراف‘‘ از شیخ ربیع المدخلی ﷾وغیرہ۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
شہادتین کا صحیح مطلب اور اس کی باطل تفسیرات
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب عقیدۂ توحید اور اس کے منافی امور
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/shahadatain_sahi_mana_batil_tafseer.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
1- ’’شھادۃ ان لا الہ الا اللہ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ :
’’الاعتقاد والإقرار أنه لا يستحقُّ العبادةَ إلا الله ، والتزام ذلك والعمل به ‘‘
(اس بات کا اقرار کرنا اور اعتقاد رکھنا کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، اس کا التزام کرنا اوراس پرعمل کرنا)۔
چناچہ ’’لا الہ ‘‘ اس بات کی نفی ہے کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی عبادت کا مستحق ہو خواہ کوئی بھی ہو ، ’’الا اللہ‘‘ اس بات کا اثبات ہے کہ عبادت کا مستحق صرف اللہ تعالی ہے ، اور اس کلمہ کا اجمالی مطلب یہ ہے کہ: ’’لا معبودَ بحقٍّ إلا الله‘‘ (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں) ، اور ’’لا‘‘ کی خبر کو ’’بحقٍّ‘‘ (برحق) سے ہی تعبیر کیا جائے گا ، اس کو موجود سے تعبیر کرنا درست نہیں ([1])، کیونکہ یہ حقیقتِ حال کے خلاف ہے ، کیونکہ اللہ تعالی کے سوا معبودات تو باکثرت موجود ہیں اور اس سے یہ بات لازم آتی ہے کہ ان معبودات کی عبادت کرنا بھی گویا اللہ تعالی کی ہی عبادت ہے ،جبکہ یہ باطل ترین بات ہوگی۔ اور یہ وحدة الوجود کے قائل لوگوں کا مذہب ہے جوکہ اس زمین کے سب سے بڑے کافر لوگ ہیں ۔
اس کلمہ کی بہت سی باطل تفسیرات بھی کی گئیں ، ان میں سے بعض درج ذیل ہیں :
1. اس کا مطلب ہے : ’’لا معبودَ إلا الله‘‘ (کوئی معبود نہیں سوائے اللہ تعالی کے )۔
جبکہ یہ باطل تفسیر ہے ، اس لیے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ : ہر معبودخواہ حق ہو یا باطل وہ اللہ ہے ، جیسا کہ ہم نے پہلے کچھ اس کا بیان کیا ہے۔
2. اس کا مطلب ہے :’’لا خالقَ إلا الله‘‘ (کوئی پیدا کرنے والا نہیں سوائے اللہ تعالی کے)۔
یہ اس کلمہ کے معنی کا صرف ایک جزء ہے ،حالانکہ یہ اصل مقصود نہیں ، کیونکہ اس سے صرف توحیدِ ربوبیت ثابت ہوتی ہے ، اور محض یہ توحید کافی نہیں یہ تو مشرکین کی بھی توحید ہے۔
3- اس کا مطلب ہے :’’لا حاكميّةَ إلا لله‘‘ (کسی کی حاکمیتِ اعلیٰ نہیں سوائے اللہ تعالی کے)۔
یہ بھی در حقیقت اس کلمہ کے معنی کا صرف ایک جزء ہے ، اصل مقصود نہیں ، اور نا ہی یہ کافی ہے ،کیونکہ اگر کوئی اللہ تعالی کو صرف حاکمیتِ اعلی میں اکیلا تسلیم بھی کرلے لیکن ساتھ ہی اللہ تعالی کے سوا کسی اور کو پکارے، اس سے دعاء کرے یا کچھ عبادت اس کے لیے ادا کرے تو وہ موحد نہیں ہوگا۔ پس اس قسم کی تمام تفسیرات باطل یا ناقص ہیں ، ہم نے اس پر اس لئے تنبیہ کی ہےکیونکہ یہ بعض عام طور پر پڑھی جانے والی کتابوں میں موجود ہے ۔
چناچہ اس کلمے کی صحیح تفسیر سلف صالحین اور محققین کی نظر میں یہ ہے کہ اس طرح کہا جائے : ’’لا معبود بحق إلا الله ‘‘ (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں) جیسا کہ اس کاپہلے ذکر ہوچکا ہے([2]) ۔
2- ’’شھادۃ ان محمدا رسول اللہ‘‘ کا مطلب یہ ہے: اس بات کا اعتراف باطن اور ظاہر میں کیا جائے کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کے بندے اور اس کے رسول ہیں جو تمام لوگوں کی طرف بھیجے گئے ہیں ، اور اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کیا جائے اس طرح کہ:
’’طاعته فيما أمر ، وتصديقه فيما أخبر ، واجتناب ما نهى عنه وزجر ، وألا يُعبدَ الله إلا بما شرع‘‘
(جن باتوں کا وہ حکم فرمائیں ان کی اطاعت کی جائے، جن باتوں کی وہ خبر فرمائیں ان کی تصدیق کی جائے، جن باتوں سے منع اور خبردار فرمائیں ان سے اجتناب کیا جائے اور اللہ تعالی کی عبادت نہ کی جائے مگر صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق)۔
[1]یعنی ’’لاالہ الا اللہ‘‘ کا معنی ’’لامعبود بحق الا اللہ‘‘ (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبودِ حقیقی نہیں) کیا جائے گا نہ کہ ’’لامعبودالااللہ‘‘ (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں) یا پھر ’’لامعبود موجود الا اللہ‘‘ (اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود موجود نہیں)۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] اسکی تفصیل جاننے کے لیے پڑھیں کتاب ’’فتح الملک الوھاب فی رد شبہ المرتاب‘‘ از شیخ عبداللطیف بن عبدالرحمن بن حسن بن محمد بن عبدالوہابs ، ’’دروس من القرآن الکریم‘‘ از شیخ صالح الفوزان﷾، ’’دینی سیاسی جماعتوں کا انبیاء کرام کے منہج سے انحراف‘‘ از شیخ ربیع المدخلی ﷾وغیرہ۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[Urdu Article] Refuting the deviant groups and organizations – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
منحرف جماعتوں کا رد کرنا
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ سحاب السلفیہ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/03/munharif_jamato_ka_rad_karna.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: میں بعض گمراہ جماعتوں کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں اور ان سے خبردار کرنا چاہتا ہوں، لیکن یہ جماعتیں اپنی گمراہی کے باوجود ملت اسلامیہ سے خارج نہیں ہیں، اور بعض علماء نے ان کی مدح وتعریف بھی کی ہوئی ہے۔ لہذا میں ڈرتا ہوں کہیں یہ مجھ پر بددعاء نہ کرلیں۔ آپ اس بارے میں کیا رہنمائی فرمائیں گے یہ بات علم میں رہے کہ یہ یقیناً ایک گمراہ جماعت ہےجس کا رد مقصود ہے؟
الشیخ: آپ پر حق بات بیان کرنا واجب ہے۔ اگر آپ کو ان کے پاس موجود غلطیوں اور گمراہیوں کے بارے میں سو فیصد یقین ہے اور آپ کے پاس اس کی قدرت وصلاحیت اور ایسا علم ہے جس سے اسے بیان کرسکیں تو آپ پر واجب ہے کہ بیان کریں۔
فرمان الہی ہے:
﴿وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَتُبَيِّنُنَّهٗ لِلنَّاسِ وَلَاتَكْتُمُوْنَهٗ﴾ (آل عمران: 187)
(اور یا د کرو اللہ تعالیٰ نے جب اہل کتاب سے عہد لیا کہ تم اسے سب لوگوں سے ضرور بیان کرو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں)
﴿اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَالْهُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَيَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتٰبِ ۙاُولٰىِٕكَ يَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَ، اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَبَيَّنُوْا فَاُولٰىِٕكَ اَتُوْبُ عَلَيْهِمْ ۚوَاَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ﴾ (البقرۃ: 159-160)
(بے شک جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم اسے اپنی کتاب میں لوگوں کے لئے بیان کر چکے ہیں، ان لوگوں پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے۔مگر وہ لوگ جو توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں اور بیان کر دیں تو میں ان کی توبہ قبول کر لیتا ہوں اور میں توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں)
کتمانِ علم (علم کو چھپانا) جائز نہیں۔ اگر آپ کے پاس علم ہے اور آپ کسی جماعتوں کی گمراہی کے بارے میں متیقن ہیں تو ضرور اسے لوگوں کے سامنے بیان کریں تاکہ وہ ان سے خبردار رہیں اور یہ تو مسلمانوں کی نصیحت وخیرخواہی چاہنے کے باب میں سے ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’الدِّينُ النَّصِيحَةُ. قُلْنَا: لِمَنْ؟ قَالَ لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِرَسُولِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ ‘‘([1])
(دین تو نصیحت وخیرخواہی کا نام ہے؟ ہم نے کہا: کس کے لیے؟ فرمایا: اللہ تعالی کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے حکمرانوں کے لیے اور ان کی عوام کے لیے)۔
لوگوں سے نہ ڈریں۔ آپ پر واجب ہے کہ صرف اللہ تعالی سے ڈریں اور حق کو بیان کریں ،باطل کا رد کریں، اورلوگوں سے نہ ڈریں۔
[1] صحیح مسلم 55۔
منحرف جماعتوں کا رد کرنا
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ سحاب السلفیہ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/03/munharif_jamato_ka_rad_karna.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: میں بعض گمراہ جماعتوں کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں اور ان سے خبردار کرنا چاہتا ہوں، لیکن یہ جماعتیں اپنی گمراہی کے باوجود ملت اسلامیہ سے خارج نہیں ہیں، اور بعض علماء نے ان کی مدح وتعریف بھی کی ہوئی ہے۔ لہذا میں ڈرتا ہوں کہیں یہ مجھ پر بددعاء نہ کرلیں۔ آپ اس بارے میں کیا رہنمائی فرمائیں گے یہ بات علم میں رہے کہ یہ یقیناً ایک گمراہ جماعت ہےجس کا رد مقصود ہے؟
الشیخ: آپ پر حق بات بیان کرنا واجب ہے۔ اگر آپ کو ان کے پاس موجود غلطیوں اور گمراہیوں کے بارے میں سو فیصد یقین ہے اور آپ کے پاس اس کی قدرت وصلاحیت اور ایسا علم ہے جس سے اسے بیان کرسکیں تو آپ پر واجب ہے کہ بیان کریں۔
فرمان الہی ہے:
﴿وَاِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَتُبَيِّنُنَّهٗ لِلنَّاسِ وَلَاتَكْتُمُوْنَهٗ﴾ (آل عمران: 187)
(اور یا د کرو اللہ تعالیٰ نے جب اہل کتاب سے عہد لیا کہ تم اسے سب لوگوں سے ضرور بیان کرو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں)
﴿اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنٰتِ وَالْهُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَيَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتٰبِ ۙاُولٰىِٕكَ يَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَ، اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَبَيَّنُوْا فَاُولٰىِٕكَ اَتُوْبُ عَلَيْهِمْ ۚوَاَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ﴾ (البقرۃ: 159-160)
(بے شک جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم اسے اپنی کتاب میں لوگوں کے لئے بیان کر چکے ہیں، ان لوگوں پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے۔مگر وہ لوگ جو توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں اور بیان کر دیں تو میں ان کی توبہ قبول کر لیتا ہوں اور میں توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں)
کتمانِ علم (علم کو چھپانا) جائز نہیں۔ اگر آپ کے پاس علم ہے اور آپ کسی جماعتوں کی گمراہی کے بارے میں متیقن ہیں تو ضرور اسے لوگوں کے سامنے بیان کریں تاکہ وہ ان سے خبردار رہیں اور یہ تو مسلمانوں کی نصیحت وخیرخواہی چاہنے کے باب میں سے ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’الدِّينُ النَّصِيحَةُ. قُلْنَا: لِمَنْ؟ قَالَ لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِرَسُولِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ ‘‘([1])
(دین تو نصیحت وخیرخواہی کا نام ہے؟ ہم نے کہا: کس کے لیے؟ فرمایا: اللہ تعالی کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے حکمرانوں کے لیے اور ان کی عوام کے لیے)۔
لوگوں سے نہ ڈریں۔ آپ پر واجب ہے کہ صرف اللہ تعالی سے ڈریں اور حق کو بیان کریں ،باطل کا رد کریں، اورلوگوں سے نہ ڈریں۔
[1] صحیح مسلم 55۔