[Urdu Article] Who are the Dhahiriyyah? – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah bin Baaz
ظاہریہ کون ہوتے ہیں؟
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: التعريف بالطريقة الظاهرية
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/dhahiriyyah_kon_hain.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ہم طریقۂ ظاہریہ کے بارے میں سنتے ہیں، انہيں ظاہری کیوں کہا جاتا ہے؟ اور کیا یہ سنت مخالف طریقہ ہے؟
جواب: ظاہریہ طریقہ معروف ہے، جس پر امام داود الظاہری چلے تھے اسی طرح سے امام ابو محمد ابن حزم (الاندلسی) رحمہما اللہ، اور جو کوئی بھی ان دونوں جیسے اقوال کا قائل ہے۔ اس کا معنی ہے کہ نصوص کا صرف ظاہر لینا اور اس کی تعلیل وقیاس پر نظر نہ کرنا۔ ان کے نزدیک قیاس نہيں نہ ہی تعلیل موجود ہے ۔بلکہ وہ محض اوامر ونواہی کے ظاہر کے قائل ہيں، اس کی علتوں ومعانی کو نہيں دیکھتے، چناچہ اس معنی کے اعتبارسے انہيں ظاہری کہا جاتا ہے۔
کیونکہ وہ صرف ظاہر کو لیتے ہیں اور علتوں وحکمتوں و شرعی قیاس جس پرکتاب وسنت دلالت کرتے ہیں کو نہيں لیتے۔ لیکن ان کا قول بالجملۃ محض رائے والوں اہل رائے کے قول سے بہتر ہے کہ جو اپنی آراء وقیاسات کو فیصلہ کن سمجھتے ہیں، اور کتاب وسنت کے شرعی دلائل پر توجہ دینے سے روگردانی کرتے ہيں۔
لیکن بہرحال ظاہریت کا اپنا نقصان اور ان پر مؤاخذات ہیں کہ وہ ظاہر پر بالکل جمود اختیار کرلیتے ہيں، اور ان علتوں ، حکمتوں اور اسرار کی کوئی رعایت نہيں کرتے جن پر خود شارع نے تنبیہ کی ہے اور ان کا قصد فرمایا ہے۔ اسی لیے وہ بہت سے مسائل میں غلطی کرگئے ہيں جن پر کتاب وسنت دلالت کرتے ہیں([1])۔
والله ولي التوفيق۔
[1] مثال کے طور پر قرآن کریم میں ہے جو مومن عورتوں پر برائی کی تہمت لگاتے ہیں اور چار گواہ نہیں لاتے ان کے لیے یہ یہ سزا ہے، لہذا ان کے مذہب کے مطابق چونکہ مرد کا ذکر نہيں کہ جو مومن مردوں پر برائی کی تہمت لگائے تو اس کے لیے بھی یہ یہ سزا ہے لہذا نص کے مطابق صرف عورت کے تعلق سے ایسا ہوگا! حالانکہ دونوں میں علت ایک ہی ہے۔ یا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے ظاہر ہے اس کے نجس ہوجانے کے سبب سے تو ان کے نزدیک بس کھڑے پانی میں براہ راست پیشاب کرنا منع ہے پائخانہ منع نہیں! اور یہ بھی کہ کسی برتن میں بہت سا پیشاب بھر کر کھڑے پانی میں پھینک دیا جائے تو وہ بھی اس نہی میں داخل نہیں، یا پھر کانے جانور کی قربانی سے منع کیا گیا تو ظاہر ہے عیب کی وجہ سے اب چونکہ حدیث میں لفظ کانے کا ہے تو اس سے بھی بدتر اندھے کی قربانی ان کے نزدیک جائز ہوگی کیونکہ اندھے کا لفظ حدیث میں نہيں! اسی طرح سونے چاندی کے برتوں میں پینے سے منع کرنے کے الفاظ آئے ہيں جبکہ ظاہر ہے کہ کھانا پینا دونوں منع ہے مگر چونکہ لفظ صرف پینے کے آئے ہيں تو ان کے مطابق کھانا جائز ہوگا پینا نہيں وغیرہ اور اس طرح کی بہت سے مثالیں ہيں، جو شرعاً وعقلاً اس کے بطلان کو ظاہر کرتی ہے۔ تفصیل کےلیے دیکھیں شیخ الشنقیطی " کی تفسیر ’’اضواء البیان‘‘ 4/175-228۔ (توحیدخالص ڈاٹ کام)
ظاہریہ کون ہوتے ہیں؟
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: التعريف بالطريقة الظاهرية
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/dhahiriyyah_kon_hain.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ہم طریقۂ ظاہریہ کے بارے میں سنتے ہیں، انہيں ظاہری کیوں کہا جاتا ہے؟ اور کیا یہ سنت مخالف طریقہ ہے؟
جواب: ظاہریہ طریقہ معروف ہے، جس پر امام داود الظاہری چلے تھے اسی طرح سے امام ابو محمد ابن حزم (الاندلسی) رحمہما اللہ، اور جو کوئی بھی ان دونوں جیسے اقوال کا قائل ہے۔ اس کا معنی ہے کہ نصوص کا صرف ظاہر لینا اور اس کی تعلیل وقیاس پر نظر نہ کرنا۔ ان کے نزدیک قیاس نہيں نہ ہی تعلیل موجود ہے ۔بلکہ وہ محض اوامر ونواہی کے ظاہر کے قائل ہيں، اس کی علتوں ومعانی کو نہيں دیکھتے، چناچہ اس معنی کے اعتبارسے انہيں ظاہری کہا جاتا ہے۔
کیونکہ وہ صرف ظاہر کو لیتے ہیں اور علتوں وحکمتوں و شرعی قیاس جس پرکتاب وسنت دلالت کرتے ہیں کو نہيں لیتے۔ لیکن ان کا قول بالجملۃ محض رائے والوں اہل رائے کے قول سے بہتر ہے کہ جو اپنی آراء وقیاسات کو فیصلہ کن سمجھتے ہیں، اور کتاب وسنت کے شرعی دلائل پر توجہ دینے سے روگردانی کرتے ہيں۔
لیکن بہرحال ظاہریت کا اپنا نقصان اور ان پر مؤاخذات ہیں کہ وہ ظاہر پر بالکل جمود اختیار کرلیتے ہيں، اور ان علتوں ، حکمتوں اور اسرار کی کوئی رعایت نہيں کرتے جن پر خود شارع نے تنبیہ کی ہے اور ان کا قصد فرمایا ہے۔ اسی لیے وہ بہت سے مسائل میں غلطی کرگئے ہيں جن پر کتاب وسنت دلالت کرتے ہیں([1])۔
والله ولي التوفيق۔
[1] مثال کے طور پر قرآن کریم میں ہے جو مومن عورتوں پر برائی کی تہمت لگاتے ہیں اور چار گواہ نہیں لاتے ان کے لیے یہ یہ سزا ہے، لہذا ان کے مذہب کے مطابق چونکہ مرد کا ذکر نہيں کہ جو مومن مردوں پر برائی کی تہمت لگائے تو اس کے لیے بھی یہ یہ سزا ہے لہذا نص کے مطابق صرف عورت کے تعلق سے ایسا ہوگا! حالانکہ دونوں میں علت ایک ہی ہے۔ یا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے ظاہر ہے اس کے نجس ہوجانے کے سبب سے تو ان کے نزدیک بس کھڑے پانی میں براہ راست پیشاب کرنا منع ہے پائخانہ منع نہیں! اور یہ بھی کہ کسی برتن میں بہت سا پیشاب بھر کر کھڑے پانی میں پھینک دیا جائے تو وہ بھی اس نہی میں داخل نہیں، یا پھر کانے جانور کی قربانی سے منع کیا گیا تو ظاہر ہے عیب کی وجہ سے اب چونکہ حدیث میں لفظ کانے کا ہے تو اس سے بھی بدتر اندھے کی قربانی ان کے نزدیک جائز ہوگی کیونکہ اندھے کا لفظ حدیث میں نہيں! اسی طرح سونے چاندی کے برتوں میں پینے سے منع کرنے کے الفاظ آئے ہيں جبکہ ظاہر ہے کہ کھانا پینا دونوں منع ہے مگر چونکہ لفظ صرف پینے کے آئے ہيں تو ان کے مطابق کھانا جائز ہوگا پینا نہيں وغیرہ اور اس طرح کی بہت سے مثالیں ہيں، جو شرعاً وعقلاً اس کے بطلان کو ظاہر کرتی ہے۔ تفصیل کےلیے دیکھیں شیخ الشنقیطی " کی تفسیر ’’اضواء البیان‘‘ 4/175-228۔ (توحیدخالص ڈاٹ کام)
[Urdu Article] Ruling regarding who rejects Ijma' (consensus of Muslim scholars) – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
اجماع کا انکار کرنے والے کا حکم
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: "حكم إنكار الإجماع مطلقاً أو إنكار بعض صوره" اور شیخ کی ویب سائٹ سے دیگر فتاوی۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/ijma_inkar_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: فضیلۃ الشیخ بعض علماء کرام کہتے ہیں کہ اجماع حجت نہيں ہے، بلکہ اس کی جانب میلان صرف اور صرف اس وجہ سے ہوتا ہے کہ کوئی بھی ایسا اجماع نہیں مگر اس کے پیچھے نص ہوتی ہے جس پر اعتماد کیا گیا ہوتا ہے، پھر یہ بات بھی ہے کہ بہت سے مسائل میں اجماع کا دعویٰ کرنا خود محل نظر ہوتا ہے، آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
جواب: اجماع کا مطلقاً انکار کرنا کفر ہے اور اسلام سے ارتداد ہے، مطلقاً اجماع کا انکار کرنا جیسے کوئی کہے مطلقاً اجماع ہے ہی نہیں تو ایسا شخص کافر ہے۔ البتہ جو اجماع کی بعض صورتوں کا انکار کرتا ہے تو اس بارے میں نظر ہے، اس کے کلام کو دیکھا جائے گا، کیا وہ صحیح کہہ رہا ہے یا نہیں؟
کیونکہ بعض چیزیں ہيں جن کے بارے میں اجماع کا بس دعویٰ ہوتا ہے حالانکہ اس پر اجماع ہوا نہیں ہوتا۔ مگرجو مطلقاً اجماع کا انکاری ہو اور کہے اس سے حجت نہیں پکڑی جاتی تو ایسا شخص کافر ہے، اللہ عزوجل کے ساتھ کفر کرنے والا ہے۔ کیونکہ الحمدللہ اجماع کا وجود تو ہے۔ چناچہ علماء کا اجماع ہے عقیدے پر، اجماع ہے اللہ تعالی کی توحید پر، اجماع ہے سود کی حرمت پر، اجماع ہے زنا کی حرمت پر، اور ایسے مسائل جو ’’معلومة من الدين بالضرورة‘‘([1]) ہوتے ہیں۔ پس جو مطلقاً اجماع کا انکار کرے وہ کافر ہے۔ البتہ جو اس کی بعض صورتوں کا انکار کرے تو ہوسکتا ہے اس کی کچھ گنجائش بنتی ہو، یعنی اس کے معاملے کو پھر دیکھا جائے گا۔
سوال: احسن اللہ الیکم فضیلۃ الشیخ، یہ سائل کہتا ہے: جو اجماع وقیاس کا انکار کرتا ہے، کیا وہ بدعتی ہوگا؟
جواب: اجماع کا تو اہل سنت میں سے کوئی بھی انکار نہيں کرتا۔ یعنی صحیح اور قطعی اجماع کا اہل سنت میں سے کوئی بھی انکار نہيں کرتا۔ البتہ جو قیاس ہے تو یہ بات ٹھیک ہے کہ اس بارے میں اختلاف ہے، اگرچہ جمہور اس کے صحیح ہونے کے قائل ہيں، اور یہ احکام کے ادراک کرنے کا ایک مدرک ہے۔ لیکن اس کا انکار والے پر کفر کا حکم نہیں لگایا جاسکتا، جو کوئی بھی قیاس کا انکار کرتا ہے تو اس پر کفر کا حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ ہاں جو اجماع کی مخالفت کرے (یعنی اجماع کو مطلقاً مانتا ہی نہیں) تو دیکھیں آپ (قیاس اور اس میں) فرق ، اس پر کفر کا حکم لگایا جائے گا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاءَتْ مَصِيْرًا﴾ (النساء: 115)
(جو کوئی ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد بھی رسول کی مخالفت کرے اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر کوئی اور راہ چلے، تو ہم اسےوہیں پھیر دیں گے جہاں وہ خود پھرا اور اسے جہنم پہنچا دیں گے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے)۔
سوال: احسن اللہ الیکم فضیلۃ الشیخ، یہ سائل کہتا ہے: کیا ظاہریوں کا اختلاف کرنا اہل سنت کے اجماع کو توڑ سکتا ہے؟
جواب: نہيں، وہ ان کے اجماع کو نہيں توڑتا، بلکہ وہ اہل سنت میں سے ہی ہيں، لیکن ان کے یہاں ایک رائے پائی جاتی ہے وہ یہ کہ صرف ظاہر پر عمل ہوگا اور قیاس کو بالکل بھی تسلیم نہیں کیا جائے گا ، اس چیز میں وہ مخالفت کرتے ہيں۔ تو ان کی مخالفت کو شمار نہیں کیاجائے گا اور خاطر میں نہیں لایا جائے گا([2])، لیکن یہ نہيں کہا جائے گا کہ وہ اہل سنت میں سے نہيں۔
[1] اس کا مطلب ہوتا ہے ایسے عقائد، مسائل واحکام جو ہر خاص وعام جانتا ہے اگرچہ اس کا تفصیلی فقہی حکم نہ بھی جانتا ہو، البتہ یہ زمانے، جگہوں اور قوموں کے اعتبار سے مختلف بھی ہوسکتا ہے۔ جیسے ایک نو مسلم کو ہوسکتا ہے ارکان اسلام کا علم نہ ہو مگر ایک مسلمان معاشرے میں پلے بڑھے پیدائشی مسلمان کو ان کا علم ضرور ہوتا ہے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] شیخ سلیمان الرحیلی حفظہ اللہ سے پوچھا گیا: ظاہریوں کا اختلاف کب معتبر سمجھا جائے گا؟
جواب: ظاہریہ مسلمانوں کے فقہاء میں سے ہی ہیں، اور ان کے امام داود بن علی الظاہری ہیں او ر ان کے کبار آئمہ میں سےامام ابن حزم ابو علی رحمہما اللہ ہيں، یہ فقہاء ہيں، اور ان کے پاس عظیم فقہ ہے، لیکن یہ قیاس کی نفی کرتے ہیں، اور کہتے ہیں: بلاشبہ قیاس حجت نہیں ہے۔ حالانکہ قیاس کا انکار دراصل بدعت ہے۔ کیونکہ بلاشبہ صحابہ کرام اور سلف قیاس کا اقرار کرتے تھے، اور قیاس کو حجت مانتے تھے۔ سب سے پہلے جس نے قیاس کے انکار کی روش اپنائی وہ النظام تھا معتزلہ میں سے، اور اس میں بعض معتزلہ نے اس کی
اجماع کا انکار کرنے والے کا حکم
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: "حكم إنكار الإجماع مطلقاً أو إنكار بعض صوره" اور شیخ کی ویب سائٹ سے دیگر فتاوی۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/ijma_inkar_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: فضیلۃ الشیخ بعض علماء کرام کہتے ہیں کہ اجماع حجت نہيں ہے، بلکہ اس کی جانب میلان صرف اور صرف اس وجہ سے ہوتا ہے کہ کوئی بھی ایسا اجماع نہیں مگر اس کے پیچھے نص ہوتی ہے جس پر اعتماد کیا گیا ہوتا ہے، پھر یہ بات بھی ہے کہ بہت سے مسائل میں اجماع کا دعویٰ کرنا خود محل نظر ہوتا ہے، آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
جواب: اجماع کا مطلقاً انکار کرنا کفر ہے اور اسلام سے ارتداد ہے، مطلقاً اجماع کا انکار کرنا جیسے کوئی کہے مطلقاً اجماع ہے ہی نہیں تو ایسا شخص کافر ہے۔ البتہ جو اجماع کی بعض صورتوں کا انکار کرتا ہے تو اس بارے میں نظر ہے، اس کے کلام کو دیکھا جائے گا، کیا وہ صحیح کہہ رہا ہے یا نہیں؟
کیونکہ بعض چیزیں ہيں جن کے بارے میں اجماع کا بس دعویٰ ہوتا ہے حالانکہ اس پر اجماع ہوا نہیں ہوتا۔ مگرجو مطلقاً اجماع کا انکاری ہو اور کہے اس سے حجت نہیں پکڑی جاتی تو ایسا شخص کافر ہے، اللہ عزوجل کے ساتھ کفر کرنے والا ہے۔ کیونکہ الحمدللہ اجماع کا وجود تو ہے۔ چناچہ علماء کا اجماع ہے عقیدے پر، اجماع ہے اللہ تعالی کی توحید پر، اجماع ہے سود کی حرمت پر، اجماع ہے زنا کی حرمت پر، اور ایسے مسائل جو ’’معلومة من الدين بالضرورة‘‘([1]) ہوتے ہیں۔ پس جو مطلقاً اجماع کا انکار کرے وہ کافر ہے۔ البتہ جو اس کی بعض صورتوں کا انکار کرے تو ہوسکتا ہے اس کی کچھ گنجائش بنتی ہو، یعنی اس کے معاملے کو پھر دیکھا جائے گا۔
سوال: احسن اللہ الیکم فضیلۃ الشیخ، یہ سائل کہتا ہے: جو اجماع وقیاس کا انکار کرتا ہے، کیا وہ بدعتی ہوگا؟
جواب: اجماع کا تو اہل سنت میں سے کوئی بھی انکار نہيں کرتا۔ یعنی صحیح اور قطعی اجماع کا اہل سنت میں سے کوئی بھی انکار نہيں کرتا۔ البتہ جو قیاس ہے تو یہ بات ٹھیک ہے کہ اس بارے میں اختلاف ہے، اگرچہ جمہور اس کے صحیح ہونے کے قائل ہيں، اور یہ احکام کے ادراک کرنے کا ایک مدرک ہے۔ لیکن اس کا انکار والے پر کفر کا حکم نہیں لگایا جاسکتا، جو کوئی بھی قیاس کا انکار کرتا ہے تو اس پر کفر کا حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ ہاں جو اجماع کی مخالفت کرے (یعنی اجماع کو مطلقاً مانتا ہی نہیں) تو دیکھیں آپ (قیاس اور اس میں) فرق ، اس پر کفر کا حکم لگایا جائے گا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ۭ وَسَاءَتْ مَصِيْرًا﴾ (النساء: 115)
(جو کوئی ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد بھی رسول کی مخالفت کرے اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر کوئی اور راہ چلے، تو ہم اسےوہیں پھیر دیں گے جہاں وہ خود پھرا اور اسے جہنم پہنچا دیں گے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے)۔
سوال: احسن اللہ الیکم فضیلۃ الشیخ، یہ سائل کہتا ہے: کیا ظاہریوں کا اختلاف کرنا اہل سنت کے اجماع کو توڑ سکتا ہے؟
جواب: نہيں، وہ ان کے اجماع کو نہيں توڑتا، بلکہ وہ اہل سنت میں سے ہی ہيں، لیکن ان کے یہاں ایک رائے پائی جاتی ہے وہ یہ کہ صرف ظاہر پر عمل ہوگا اور قیاس کو بالکل بھی تسلیم نہیں کیا جائے گا ، اس چیز میں وہ مخالفت کرتے ہيں۔ تو ان کی مخالفت کو شمار نہیں کیاجائے گا اور خاطر میں نہیں لایا جائے گا([2])، لیکن یہ نہيں کہا جائے گا کہ وہ اہل سنت میں سے نہيں۔
[1] اس کا مطلب ہوتا ہے ایسے عقائد، مسائل واحکام جو ہر خاص وعام جانتا ہے اگرچہ اس کا تفصیلی فقہی حکم نہ بھی جانتا ہو، البتہ یہ زمانے، جگہوں اور قوموں کے اعتبار سے مختلف بھی ہوسکتا ہے۔ جیسے ایک نو مسلم کو ہوسکتا ہے ارکان اسلام کا علم نہ ہو مگر ایک مسلمان معاشرے میں پلے بڑھے پیدائشی مسلمان کو ان کا علم ضرور ہوتا ہے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] شیخ سلیمان الرحیلی حفظہ اللہ سے پوچھا گیا: ظاہریوں کا اختلاف کب معتبر سمجھا جائے گا؟
جواب: ظاہریہ مسلمانوں کے فقہاء میں سے ہی ہیں، اور ان کے امام داود بن علی الظاہری ہیں او ر ان کے کبار آئمہ میں سےامام ابن حزم ابو علی رحمہما اللہ ہيں، یہ فقہاء ہيں، اور ان کے پاس عظیم فقہ ہے، لیکن یہ قیاس کی نفی کرتے ہیں، اور کہتے ہیں: بلاشبہ قیاس حجت نہیں ہے۔ حالانکہ قیاس کا انکار دراصل بدعت ہے۔ کیونکہ بلاشبہ صحابہ کرام اور سلف قیاس کا اقرار کرتے تھے، اور قیاس کو حجت مانتے تھے۔ سب سے پہلے جس نے قیاس کے انکار کی روش اپنائی وہ النظام تھا معتزلہ میں سے، اور اس میں بعض معتزلہ نے اس کی
پیروی کی، اور ظاہریوں نے بھی یہی قول اپنایا۔ پس ان کا یہ قول بے شک غلطی پر مبنی ہے۔ لہذا وہ مسائل جن میں قیاس کی ضرورت پڑتی ہے ان میں ظاہریوں کا اجتہاد معتبر نہيں۔ لیکن جو دوسرے مسائل ہيں تو ان کا قول ایسے ہی معتبر ہے جیسے دیگر فقہاء اسلام کا، حسب ادلہ انہیں دیکھا جائے گا۔ اور ظاہریہ نے بہت سے ان مسائل میں صواب کو پایا ہے جو کہ ظاہری دلائل سے متعلق ہوتے ہيں، اگرچہ بہت سے ان مسائل میں غلطی کرگئے ہيں جن میں قیاس کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور عدل وانصاف کا تقاضہ ہے کہ ہر چیز کو اس کے لائق مقام پر رکھا جائے۔
سوال: کیا انہيں ظاہری کے وصف سے متصف کرنا بطور مذمت ہوتا ہے؟
جواب: نہیں مذمت نہيں، لیکن ظاہریہ خود اسی سے پہچانے جاتے ہیں کیونکہ وہ نصوص کا صرف ظاہر لیتے ہيں۔ بلکہ وہ خود بھی اپنے آپ کو ظاہری کہتے ہیں امام ابن حزم رحمہ اللہ کے بہت سے اشعار ہيں اس بارے میں کہ وہ خود کو ظاہری کہتے ہيں۔ الغرض یہ لوگ ظاہر نص کو لیتے ہيں۔ اور اس میں وہ بہت اچھے رہتے ہيں جن میں واقعی مسئلہ ظاہری نص کے مطابق ہوتا ہے اور ایسے دلائل نہیں ہوتے جو اس کے ظاہر کو پھیر سکیں، لیکن ان مسائل میں ظاہر سے چمٹے رہنے میں غلطی کرجاتے ہيں جن میں ان کے ظاہر کو پھیرنے والے دلائل موجود ہوتے ہيں۔ اور ظاہریوں کی خطرناکی وغلطیوں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالی کی شریعت اور اس کے افعال میں حکمت وتعلیل کی نفی کرتے ہيں۔ لہذا ظاہریہ کو ان کے حسب حال ہی دیکھا جاتا ہے۔
(من شرح الأصول الثلاثة في درسه في المسجد النبوي في موسم حج 1429-1430هـ)
سوال: کیا انہيں ظاہری کے وصف سے متصف کرنا بطور مذمت ہوتا ہے؟
جواب: نہیں مذمت نہيں، لیکن ظاہریہ خود اسی سے پہچانے جاتے ہیں کیونکہ وہ نصوص کا صرف ظاہر لیتے ہيں۔ بلکہ وہ خود بھی اپنے آپ کو ظاہری کہتے ہیں امام ابن حزم رحمہ اللہ کے بہت سے اشعار ہيں اس بارے میں کہ وہ خود کو ظاہری کہتے ہيں۔ الغرض یہ لوگ ظاہر نص کو لیتے ہيں۔ اور اس میں وہ بہت اچھے رہتے ہيں جن میں واقعی مسئلہ ظاہری نص کے مطابق ہوتا ہے اور ایسے دلائل نہیں ہوتے جو اس کے ظاہر کو پھیر سکیں، لیکن ان مسائل میں ظاہر سے چمٹے رہنے میں غلطی کرجاتے ہيں جن میں ان کے ظاہر کو پھیرنے والے دلائل موجود ہوتے ہيں۔ اور ظاہریوں کی خطرناکی وغلطیوں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالی کی شریعت اور اس کے افعال میں حکمت وتعلیل کی نفی کرتے ہيں۔ لہذا ظاہریہ کو ان کے حسب حال ہی دیکھا جاتا ہے۔
(من شرح الأصول الثلاثة في درسه في المسجد النبوي في موسم حج 1429-1430هـ)
[Urdu Article] Mankind has been blessed with intellect, Fitrah (natural inclination to the truth), sending of messengers and the revealed books – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
عقل و فطرت ، پیغمبروں کے ارسال اور کتابوں کے نزول کے ذریعے انسان کی عزت افزائی
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب منھج الأنبیاء فی الدعوۃ الی اللہ فیہ الحکمۃ والعقل۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ان عظیم نعمتوں اور انسان کے اس عالیشان اکرام کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اسے عقل جیسی نعمت عطاء فرمائی جو اسے تمام مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے اور اسی کی وجہ سے وہ احکامات الہیہ پر عمل کرنے کا مکلف(پابند) بنا اور ان احکام کے ادراک، فہم وسمجھ کا اہل قرار پایا، ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اس کو فطرتِ سلیمہ سے نوازا جو کہ اس چیز کی جڑواں وساتھی ہے جو کچھ اللہ کے رسل علیہم الصلاۃ والسلام لے کر آئےیعنی وہ وحئ کریم اور دین حق جسے اللہ تعالی نے شریعت بنا کر بھیجا اور اس انسان کے لیے اپنے رسولوں کی زبانی یہ نہج مقرر فرمایا۔ فرمان الہٰی ہے:
﴿فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا ۭ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ، وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ﴾ (الروم:۳۰)
(پس آپ یکسو ہو کر اپنے چہرے کو دین کی طرف کر دیں ،اللہ کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ،اللہ کی بناوٹ کو بدلنا نہیں ، یہی سیدھا دین ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے)
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/aqal_fitrat_rasool_kutub_insan_izaat_afzae.pdf
عقل و فطرت ، پیغمبروں کے ارسال اور کتابوں کے نزول کے ذریعے انسان کی عزت افزائی
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب منھج الأنبیاء فی الدعوۃ الی اللہ فیہ الحکمۃ والعقل۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ان عظیم نعمتوں اور انسان کے اس عالیشان اکرام کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اسے عقل جیسی نعمت عطاء فرمائی جو اسے تمام مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے اور اسی کی وجہ سے وہ احکامات الہیہ پر عمل کرنے کا مکلف(پابند) بنا اور ان احکام کے ادراک، فہم وسمجھ کا اہل قرار پایا، ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اس کو فطرتِ سلیمہ سے نوازا جو کہ اس چیز کی جڑواں وساتھی ہے جو کچھ اللہ کے رسل علیہم الصلاۃ والسلام لے کر آئےیعنی وہ وحئ کریم اور دین حق جسے اللہ تعالی نے شریعت بنا کر بھیجا اور اس انسان کے لیے اپنے رسولوں کی زبانی یہ نہج مقرر فرمایا۔ فرمان الہٰی ہے:
﴿فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا ۭ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ، وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ﴾ (الروم:۳۰)
(پس آپ یکسو ہو کر اپنے چہرے کو دین کی طرف کر دیں ،اللہ کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ،اللہ کی بناوٹ کو بدلنا نہیں ، یہی سیدھا دین ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے)
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/aqal_fitrat_rasool_kutub_insan_izaat_afzae.pdf