[Urdu Article] The reasons behind writing the book "Manhaj-ul-Anbiyah" – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
کتاب ’’منہج الانبیاء فی الدعوۃ الی اللہ‘‘ کو لکھنے کی غرض وغایت
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب منھج الأنبیاء فی الدعوۃ الی اللہ فیہ الحکمۃ والعقل، مقدمۃ طبع اول۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/kitaab_manhaj_ul_anbiyah_likhne_ka_maqsad.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ان الحمدللہ ،نحمدہ ونستعینہ ونستغرہ ونعوذباللہ من شرور انفسنا ومن سیأت اعمالنا ،من یھدہ اللہ فلا مضل لہ، ومن یضلل فلا ھادی لہ ،وأشھد ان لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ، وأشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ ولو کرہ الکافرون ،وبعد:
اس موضوع کو اختیار کرنے کے لئے مجھے چند وجوہات نے ابھارا، جن میں سے اہم یہ ہیں:
1- بلاشبہ امت اسلامیہ مختلف شعبوں میں اختلاف کا شکار ہے عقیدہ ہو یا اس کے علاوہ دوسرے شعبے، اس کے راستے جدا جدا ہو گئے ہیں،لہذا اس امت پر مصائب کی بھرمار ہے، جو کہ نتیجہ ہے اس تفرقے کا اور اختلافی مسائل میں اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو فیصلہ کن نہ بنانے کا، جس کی انتہاء وجسامت اللہ ہی جانے کہ صفوں میں پھوٹ پڑتی جائے،آپس میں اختلافات وجھگڑوں کی آگ بھڑکتی رہے، پھر دشمنان اسلام ان کے ملکوں پر غالب آتے جائيں،جو ان پر ظلم واستبداد کا راج کریں اور انہيں ذلیل کرتے جائیں۔
2- امت کی اصلاح اور ان کی نجات کے لیے مختلف فکری رجحانات کا اسلامی منظر عام پر اپنے طریقوں اور مناہج کے ساتھ درآنا۔
جن میں چند سیاسی تھے۔
چند فکری۔
اور چند روحانی ۔
ان تمام نکتہ ہائےنظر اور مکاتبِ فکر کے پیش کرنے والوں نے یہ دعویٰ کیا کہ انہی کی پیش کر دہ فکر وہ برحق اسلامی منہج ہے جس کی پیروی واجب ہے ، اور اس فکر کے علاوہ اور کوئی فکر امت کو بچا نہيں سکتی۔
ان دونوں اہم اسباب نے اور ان کے علاوہ اور کئی اسباب نے مجھے عظیم ترین اور اہم ترین واجبات میں سے ایک واجب کی ادائیگی پر ابھارا کہ میں دعوت الی اللہ میں انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کا منہج کتاب و سنت کی روشنی میں واضح کروں، اور اس منہج کی وہ خوبیاں بیان کروں جس میں کوئی اس کا ساجھی نہيں، اور یہ بیان کروں کہ صرف اس اکلوتے طریقے کی پیروی ہی لازم ہے، کیوں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ تک پہنچنے، اور اس کی رضا حاصل کرنے کا یہی ایک تنہا راستہ ہے،اور یہی امت مسلمہ کو زوال سے نکال کر دنیا کی قیادت اور آخرت کی سعادت تک پہنچانے کا واحد راستہ ہے۔
بعد ازیں عرض ہے کہ:
بے شک اللہ تعالیٰ خالق ،باری(عدم سے وجود بخشنے والا)، علیم و حکیم ہے ۔اس نے اس عظیم کائنات کو پیدا فرمایا اوراس کی تدبیر فرمائی، اپنے ہر چیز کا احاطہ کرنے والے علم،حکمت بالغہ اور قدرت کاملہ وشاملہ سے اسے منظم فرمایا، ایسی جلیل القدر حکمتوں اور قابل ستائش اغراض ومقاصد کی خاطر جو کسی بھی قسم کے بیکارکام، باطل اور کھیل تماشےسے بہت بعید ہے۔ فرمان الہٰی ہے:
﴿وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لٰعِبِيْنَ،مَا خَلَقْنٰهُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ﴾ (الدخان:٣٨- ٣٩)
( ہم نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کو کھیل کے طور پر نہیں پیدا کیا، بلکہ انہيں نہيں پیدا کیا مگر حق کے ساتھ ،لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے)
﴿حٰـم، تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ، مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَآ اِلَّا بِالْحَـقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا عَمَّآ اُنْذِرُوْا مُعْرِضُوْنَ﴾ (الاحقاف: 1-3)
(حم، اس کتاب کا اتارنا اللہ کی طرف سے ہے جو سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے، ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو ان دونوں کے درمیان ہے حق اور مقررہ میعاد ہی کے ساتھ پیدا کیا ہے، اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اس چیز سے جس سے وہ ڈرائے گئے، منہ پھیرنے والے ہیں)
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کو پیدا کر کے اس عظیم حکمت اور شریف مقصد کی نشان دہی کی جس کے لئے انہیں پیدا کیا گیا ہے ، فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ، مَآ اُرِيْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِيْدُ اَنْ يُّطْعِمُوْنِ، اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ﴾ (الذاریات: 56-58)
(میں نے جن اور انس کو نہیں پیدا کیا مگر محض اس لئے کہ وہ میری عبادت کریں، نہ میں ان سے کوئی رزق چاہتا ہوں اور نہ میری یہ چاہت ہے کہ وہ مجھے کھلائیں، بے شک خود اللہ تعالی ہی سب کو رزق دینے والا، بہت طاقت والا اورنہایت مضبوط ہے)
اور فرمایا:
﴿اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ
کتاب ’’منہج الانبیاء فی الدعوۃ الی اللہ‘‘ کو لکھنے کی غرض وغایت
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب منھج الأنبیاء فی الدعوۃ الی اللہ فیہ الحکمۃ والعقل، مقدمۃ طبع اول۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/kitaab_manhaj_ul_anbiyah_likhne_ka_maqsad.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ان الحمدللہ ،نحمدہ ونستعینہ ونستغرہ ونعوذباللہ من شرور انفسنا ومن سیأت اعمالنا ،من یھدہ اللہ فلا مضل لہ، ومن یضلل فلا ھادی لہ ،وأشھد ان لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ، وأشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ ولو کرہ الکافرون ،وبعد:
اس موضوع کو اختیار کرنے کے لئے مجھے چند وجوہات نے ابھارا، جن میں سے اہم یہ ہیں:
1- بلاشبہ امت اسلامیہ مختلف شعبوں میں اختلاف کا شکار ہے عقیدہ ہو یا اس کے علاوہ دوسرے شعبے، اس کے راستے جدا جدا ہو گئے ہیں،لہذا اس امت پر مصائب کی بھرمار ہے، جو کہ نتیجہ ہے اس تفرقے کا اور اختلافی مسائل میں اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو فیصلہ کن نہ بنانے کا، جس کی انتہاء وجسامت اللہ ہی جانے کہ صفوں میں پھوٹ پڑتی جائے،آپس میں اختلافات وجھگڑوں کی آگ بھڑکتی رہے، پھر دشمنان اسلام ان کے ملکوں پر غالب آتے جائيں،جو ان پر ظلم واستبداد کا راج کریں اور انہيں ذلیل کرتے جائیں۔
2- امت کی اصلاح اور ان کی نجات کے لیے مختلف فکری رجحانات کا اسلامی منظر عام پر اپنے طریقوں اور مناہج کے ساتھ درآنا۔
جن میں چند سیاسی تھے۔
چند فکری۔
اور چند روحانی ۔
ان تمام نکتہ ہائےنظر اور مکاتبِ فکر کے پیش کرنے والوں نے یہ دعویٰ کیا کہ انہی کی پیش کر دہ فکر وہ برحق اسلامی منہج ہے جس کی پیروی واجب ہے ، اور اس فکر کے علاوہ اور کوئی فکر امت کو بچا نہيں سکتی۔
ان دونوں اہم اسباب نے اور ان کے علاوہ اور کئی اسباب نے مجھے عظیم ترین اور اہم ترین واجبات میں سے ایک واجب کی ادائیگی پر ابھارا کہ میں دعوت الی اللہ میں انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کا منہج کتاب و سنت کی روشنی میں واضح کروں، اور اس منہج کی وہ خوبیاں بیان کروں جس میں کوئی اس کا ساجھی نہيں، اور یہ بیان کروں کہ صرف اس اکلوتے طریقے کی پیروی ہی لازم ہے، کیوں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ تک پہنچنے، اور اس کی رضا حاصل کرنے کا یہی ایک تنہا راستہ ہے،اور یہی امت مسلمہ کو زوال سے نکال کر دنیا کی قیادت اور آخرت کی سعادت تک پہنچانے کا واحد راستہ ہے۔
بعد ازیں عرض ہے کہ:
بے شک اللہ تعالیٰ خالق ،باری(عدم سے وجود بخشنے والا)، علیم و حکیم ہے ۔اس نے اس عظیم کائنات کو پیدا فرمایا اوراس کی تدبیر فرمائی، اپنے ہر چیز کا احاطہ کرنے والے علم،حکمت بالغہ اور قدرت کاملہ وشاملہ سے اسے منظم فرمایا، ایسی جلیل القدر حکمتوں اور قابل ستائش اغراض ومقاصد کی خاطر جو کسی بھی قسم کے بیکارکام، باطل اور کھیل تماشےسے بہت بعید ہے۔ فرمان الہٰی ہے:
﴿وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لٰعِبِيْنَ،مَا خَلَقْنٰهُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ﴾ (الدخان:٣٨- ٣٩)
( ہم نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کو کھیل کے طور پر نہیں پیدا کیا، بلکہ انہيں نہيں پیدا کیا مگر حق کے ساتھ ،لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے)
﴿حٰـم، تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ، مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَآ اِلَّا بِالْحَـقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا عَمَّآ اُنْذِرُوْا مُعْرِضُوْنَ﴾ (الاحقاف: 1-3)
(حم، اس کتاب کا اتارنا اللہ کی طرف سے ہے جو سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے، ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو ان دونوں کے درمیان ہے حق اور مقررہ میعاد ہی کے ساتھ پیدا کیا ہے، اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اس چیز سے جس سے وہ ڈرائے گئے، منہ پھیرنے والے ہیں)
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کو پیدا کر کے اس عظیم حکمت اور شریف مقصد کی نشان دہی کی جس کے لئے انہیں پیدا کیا گیا ہے ، فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ، مَآ اُرِيْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِيْدُ اَنْ يُّطْعِمُوْنِ، اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ﴾ (الذاریات: 56-58)
(میں نے جن اور انس کو نہیں پیدا کیا مگر محض اس لئے کہ وہ میری عبادت کریں، نہ میں ان سے کوئی رزق چاہتا ہوں اور نہ میری یہ چاہت ہے کہ وہ مجھے کھلائیں، بے شک خود اللہ تعالی ہی سب کو رزق دینے والا، بہت طاقت والا اورنہایت مضبوط ہے)
اور فرمایا:
﴿اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ
اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ، فَتَعٰلَى اللّٰهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۚ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيْمِ﴾ (المؤمنون:115-116)
( کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں یونہی فضول پیدا کیا ہے اور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے؟ پس بلند و بالا ہے اللہ جو حقیقی بادشاہ ہے، کوئی معبودِ برحق نہیں سوائے اس کے، وہ عرش عظیم کا رب ہے)
فرمان الہٰی ہے:
﴿اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ يُّتْرَكَ سُدًى﴾ (القیامۃ: 36)
( کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے اسے بیکار چھوڑ دیا جائے گا؟)
یعنی اسے کوئی حکم نہیں دیا جائے گا اور کسی چیز سے روکا نہیں جائے گا!
اور فرمایا:
﴿تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِهِ الْمُلْكُ ۡ وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرُۨ،الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ۭوَهُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُ﴾ (الملک:1-2)
(نہایت بابرکت ہے وہ جس کے ہاتھ میں (ہر قسم کی) بادشاہت ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت والا ہے، جس نے موت اور حیات کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں عمل کے اعتبار سے کون زیادہ اچھا ہے، اور وہ زبردست بھی ہے اور بخشنے والا بھی)
پس اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ اس نے بے شک انسانوں کو نہيں پیدا فرمایا مگر ایک ابتلاء وآزمائش کے لیے، تاکہ دیکھا جائے کہ کون عمل کے اعتبار سے احسن ہے سب سے بہتر ہے، اللہ تعالی کے منہج کا پیروکار رہ کر اوراس کے رسولوں کی پیروی کر کے۔
فرمانِ الہٰی ہے:
﴿يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ، الَّذِىْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَاءَ بِنَاءً، وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۚ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ (البقرۃ:21-22)
(اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تم کو پیدا کیا اور ان کو بھی جو تم سے پہلے تھے ،تاکہ تم بچ جاؤ۔ وہ وہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش بنایا اور آسمان کو چھت بنایا ،اور آسمان سے پانی اتارا پھر اس کے ذریعے سے کئی اقسام کے پھل تمہارے لئے بطور رزق نکالے، تو پھر تم جانتے بوجھتے اللہ کے برابر والے نہ بناؤ)
پھر انہیں حکم دیا کہ وہ اس مقصد کو پورا کریں جس کے لئے انہیں پیدا کیا گیا ہے۔
اور انہیں بتلایا کہ اس نے ان کے لئے وہ تمام اسباب وافر مقدار میں مہیا کئے ہیں جو ان کے لئے اس عظیم مقصد پر عمل پیرا ہونے میں معاون و مددگار ہیں، اورانہیں اس مقصد سے ہٹنے اور ان عظیم نعمتوں کی ناقدری سے یہ کہہ کر ڈرایا کہ: ’’یہ سب جانتے بوجھتے تم اللہ کے برابر والے نہ بناؤ‘‘۔
اور فرمان باری تعالی ہے:
﴿وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰهُمْ عَلٰي كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًا﴾ (الاسراء:۷۰)
(اوریقیناً تحقیق ہم نے اولادِ آدم کو عزت بخشی اور انہیں خشكی اور سمندر میں سواریاں عطاء کیں ،اور انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا، اورانہیں اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فضیلت بخشی)
اللہ تعالی نے انسان کو اس اکرام سے نہیں نوازا اور نہ ہی اسے اس بلند مقام پر فائز کیا مگر اسی مقصد کی وجہ سے جس کے لئے اس کو پیدا کیا گیا یعنی صرف اکیلے اللہ کی عبادت ،اس کی تعظیم اور تمام عیوب اور شریکوں سے اس کی تنزیہ (پاک قرار دینا) ہے ،اللہ تعالیٰ ان تمام (عیوب ،نقائص اور شریکوں) سے بہت بلند وبالا ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے انسان کے اکرام کو اور کائنات میں اس کی منزلت کو اس درجے بلند کیا، اور بلاشبہ یہ ساری کائنات اسی کی راحت اور سعادت کے لئے مسخر کردی، تاکہ وہ اپنے مقررہ کام کو انجام دے اور اپنے اس مقصد کوہر زاویے سے اکمل طور پر پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اٹھ کھڑا ہو جس کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہے۔
فرمان باری تعالی ہے:
﴿قُلْ لِّعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَيُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خِلٰلٌ،اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۚ وَسَخَّــرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِاَمْرِهٖ ۚ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْاَنْهٰرَ، وَسَخَّــرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَاۗىِٕـبَيْنِ ۚ وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ، وَاٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ ۭ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ﴾ (ابراہیم:٣١-٣٤)
(آپ میرے ان بندوں سے کہیں جو ایمان لائے ہیں کہ نماز قائم کریں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور ظاہر (اللہ تعالی کی راہ میں) خ
( کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں یونہی فضول پیدا کیا ہے اور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے؟ پس بلند و بالا ہے اللہ جو حقیقی بادشاہ ہے، کوئی معبودِ برحق نہیں سوائے اس کے، وہ عرش عظیم کا رب ہے)
فرمان الہٰی ہے:
﴿اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ يُّتْرَكَ سُدًى﴾ (القیامۃ: 36)
( کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے اسے بیکار چھوڑ دیا جائے گا؟)
یعنی اسے کوئی حکم نہیں دیا جائے گا اور کسی چیز سے روکا نہیں جائے گا!
اور فرمایا:
﴿تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِهِ الْمُلْكُ ۡ وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرُۨ،الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ۭوَهُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُ﴾ (الملک:1-2)
(نہایت بابرکت ہے وہ جس کے ہاتھ میں (ہر قسم کی) بادشاہت ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت والا ہے، جس نے موت اور حیات کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں عمل کے اعتبار سے کون زیادہ اچھا ہے، اور وہ زبردست بھی ہے اور بخشنے والا بھی)
پس اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ اس نے بے شک انسانوں کو نہيں پیدا فرمایا مگر ایک ابتلاء وآزمائش کے لیے، تاکہ دیکھا جائے کہ کون عمل کے اعتبار سے احسن ہے سب سے بہتر ہے، اللہ تعالی کے منہج کا پیروکار رہ کر اوراس کے رسولوں کی پیروی کر کے۔
فرمانِ الہٰی ہے:
﴿يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ، الَّذِىْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَاءَ بِنَاءً، وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۚ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ (البقرۃ:21-22)
(اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تم کو پیدا کیا اور ان کو بھی جو تم سے پہلے تھے ،تاکہ تم بچ جاؤ۔ وہ وہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش بنایا اور آسمان کو چھت بنایا ،اور آسمان سے پانی اتارا پھر اس کے ذریعے سے کئی اقسام کے پھل تمہارے لئے بطور رزق نکالے، تو پھر تم جانتے بوجھتے اللہ کے برابر والے نہ بناؤ)
پھر انہیں حکم دیا کہ وہ اس مقصد کو پورا کریں جس کے لئے انہیں پیدا کیا گیا ہے۔
اور انہیں بتلایا کہ اس نے ان کے لئے وہ تمام اسباب وافر مقدار میں مہیا کئے ہیں جو ان کے لئے اس عظیم مقصد پر عمل پیرا ہونے میں معاون و مددگار ہیں، اورانہیں اس مقصد سے ہٹنے اور ان عظیم نعمتوں کی ناقدری سے یہ کہہ کر ڈرایا کہ: ’’یہ سب جانتے بوجھتے تم اللہ کے برابر والے نہ بناؤ‘‘۔
اور فرمان باری تعالی ہے:
﴿وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰهُمْ عَلٰي كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًا﴾ (الاسراء:۷۰)
(اوریقیناً تحقیق ہم نے اولادِ آدم کو عزت بخشی اور انہیں خشكی اور سمندر میں سواریاں عطاء کیں ،اور انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا، اورانہیں اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فضیلت بخشی)
اللہ تعالی نے انسان کو اس اکرام سے نہیں نوازا اور نہ ہی اسے اس بلند مقام پر فائز کیا مگر اسی مقصد کی وجہ سے جس کے لئے اس کو پیدا کیا گیا یعنی صرف اکیلے اللہ کی عبادت ،اس کی تعظیم اور تمام عیوب اور شریکوں سے اس کی تنزیہ (پاک قرار دینا) ہے ،اللہ تعالیٰ ان تمام (عیوب ،نقائص اور شریکوں) سے بہت بلند وبالا ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے انسان کے اکرام کو اور کائنات میں اس کی منزلت کو اس درجے بلند کیا، اور بلاشبہ یہ ساری کائنات اسی کی راحت اور سعادت کے لئے مسخر کردی، تاکہ وہ اپنے مقررہ کام کو انجام دے اور اپنے اس مقصد کوہر زاویے سے اکمل طور پر پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اٹھ کھڑا ہو جس کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہے۔
فرمان باری تعالی ہے:
﴿قُلْ لِّعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَيُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خِلٰلٌ،اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۚ وَسَخَّــرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِاَمْرِهٖ ۚ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْاَنْهٰرَ، وَسَخَّــرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَاۗىِٕـبَيْنِ ۚ وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ، وَاٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ ۭ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ﴾ (ابراہیم:٣١-٣٤)
(آپ میرے ان بندوں سے کہیں جو ایمان لائے ہیں کہ نماز قائم کریں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور ظاہر (اللہ تعالی کی راہ میں) خ
رچ کرتے رہیں ،اس دن کے آنے سے پہلے جس میں نہ کوئی خرید و فروخت ہوگی اور نہ ہی دوستی یاری (کام آئے گی)۔ اللہ وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اورآسمان سے پانی برسایا پھر تمہاری روزی کے لئے اس کے ذریعے ہر قسم کے پھل نکالے، اور کشتی کو تمہارے لئے مسخر کر دیا تاکہ وہ سمندر میں اس کے حکم سے چلے پھرے، اور نہروں ندیوں کو تمہارے لئے مسخر کر دیا، اور تمہارے لئے سورج اور چاند کو بھی مسخر کردیا جو لگاتار چل رہے ہیں، اور دن و رات کو بھی تمہارے لیے مسخر کردیا(تمہارے کام پر لگا دیا)۔ اور تمہیں تمہاری منہ مانگی سب چیزوں میں سے دے رکھا ہے، اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو انہیں گن تک نہیں پاؤ گے۔ یقیناً انسان بڑا ظالم اور نا شکر ا ہے)
شیخ ربیع ہادی عمیر المدخلی
(مدینہ نبویہ)
شیخ ربیع ہادی عمیر المدخلی
(مدینہ نبویہ)
[Urdu Audios] Explanation of 'Umada-tul-Ahkaam (Kitaab-us-Salaah) – 001 – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen
تنبيه الأفهام شرح عمدة الأحكام (کتاب الصلاة) 001- شیخ محمد بن صالح العثیمین
2- کتاب الصلاۃ
باب المواقیت
حدیث 1: اللہ تعالی کے نزدیک محبوب ترین اعمال۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/sharh_umadatul_ahkaam_uthaimeen_028.mp3
Explanation of 'Umada-tul-Ahkaam (Kitaab-us-Salaah) – 002 – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen
تنبيه الأفهام شرح عمدة الأحكام (کتاب الصلاة) 002- شیخ محمد بن صالح العثیمین
2- کتاب الصلاۃ
باب المواقیت
حدیث 2: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فجر کی نماز کب پڑھا کرتے تھے؟
حدیث 3: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پنج وقتہ نمازیں کن اوقات میں پڑھا کرتے تھے؟
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/sharh_umadatul_ahkaam_uthaimeen_029.mp3
Explanation of 'Umada-tul-Ahkaam (Kitaab-us-Salaah) – 003 – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen
تنبيه الأفهام شرح عمدة الأحكام (کتاب الصلاة) 003- شیخ محمد بن صالح العثیمین
2- کتاب الصلاۃ
باب المواقیت
حدیث 4: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرض نمازیں کن اوقات میں پڑھا کرتے تھے؟
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/sharh_umadatul_ahkaam_uthaimeen_030.mp3
Explanation of 'Umada-tul-Ahkaam (Kitaab-us-Salaah) – 004 – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen
تنبيه الأفهام شرح عمدة الأحكام (کتاب الصلاة) 004- شیخ محمد بن صالح العثیمین
2- کتاب الصلاۃ
باب المواقیت
حدیث 5: فوت شدہ نمازوں کی قضاء کا حکم، اور صلاۃ الوسطی سے کیا مراد ہے؟
حدیث 6: عشاء کی نماز کو اس کے اول سے مؤخر کرکے پڑھنے کا حکم؟
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/sharh_umadatul_ahkaam_uthaimeen_030b.mp3
تنبيه الأفهام شرح عمدة الأحكام (کتاب الصلاة) 001- شیخ محمد بن صالح العثیمین
2- کتاب الصلاۃ
باب المواقیت
حدیث 1: اللہ تعالی کے نزدیک محبوب ترین اعمال۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/sharh_umadatul_ahkaam_uthaimeen_028.mp3
Explanation of 'Umada-tul-Ahkaam (Kitaab-us-Salaah) – 002 – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen
تنبيه الأفهام شرح عمدة الأحكام (کتاب الصلاة) 002- شیخ محمد بن صالح العثیمین
2- کتاب الصلاۃ
باب المواقیت
حدیث 2: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فجر کی نماز کب پڑھا کرتے تھے؟
حدیث 3: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پنج وقتہ نمازیں کن اوقات میں پڑھا کرتے تھے؟
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/sharh_umadatul_ahkaam_uthaimeen_029.mp3
Explanation of 'Umada-tul-Ahkaam (Kitaab-us-Salaah) – 003 – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen
تنبيه الأفهام شرح عمدة الأحكام (کتاب الصلاة) 003- شیخ محمد بن صالح العثیمین
2- کتاب الصلاۃ
باب المواقیت
حدیث 4: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرض نمازیں کن اوقات میں پڑھا کرتے تھے؟
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/sharh_umadatul_ahkaam_uthaimeen_030.mp3
Explanation of 'Umada-tul-Ahkaam (Kitaab-us-Salaah) – 004 – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen
تنبيه الأفهام شرح عمدة الأحكام (کتاب الصلاة) 004- شیخ محمد بن صالح العثیمین
2- کتاب الصلاۃ
باب المواقیت
حدیث 5: فوت شدہ نمازوں کی قضاء کا حکم، اور صلاۃ الوسطی سے کیا مراد ہے؟
حدیث 6: عشاء کی نماز کو اس کے اول سے مؤخر کرکے پڑھنے کا حکم؟
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/sharh_umadatul_ahkaam_uthaimeen_030b.mp3
[Urdu Article] Ways to adopt the Islaamic manners – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah bin Baaz
اسلامی اخلاق سے آراستہ ہونے کے معاون ذرائع
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مجموع فتاوى ومقالات متنوعة الجزء السابع۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/islami_akhlaq_apnanay_k_muawin_zarai.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: سماحۃ الشیخ ہم آپ سے چاہتے ہیں کہ بعض ایسے اسباب بیان فرمائیں جو اسلامی اخلاق سے آراستہ ہونے میں معاون ہوں؟
جواب: اس بارے میں جو معاون ذرائع ہیں وہ باکثرت تلاوت ِقرآن اس کے معانی پر تدبر کے ساتھ۔ اور اس بات کی سخت کوشش کی جائے کہ جو کچھ اللہ تعالی نے اپنے پسندیدہ نیک بندوں کی صفات اس میں بیان کی ہیں انہیں اپنایا جائے۔ پس یہ بات اخلاقِ فاضلہ کو پانے میں معاون ہیں۔
اسی طرح سے نیک لوگوں کی صحبت اورمجلس اختیار کرنا۔ اور اخلاقیات سے متعلق صحیح احادیث کا مطالعہ کرنا۔
ساتھ ہی ماضی کی خبروں میں نیک صالح لوگوں کی صفات پرغورو تدبر کرنا جیسے سیرت ِنبوی وتاریخِ اسلامی۔
یہ سب باتیں معاون ہیں اخلاق فاضلہ کو اپنانے اور ان پر استقامت اختیار کرنے کے لیے۔ اور باکثرت قرآن کریم کی تلاوت اور حاضر دلی وسچی رغبت کے ساتھ اس کے معانی پر غوروتدبر کرنا ان تمام ذرائع میں سب سے بڑھ کر ہے۔ ساتھ ہی جو کچھ سنت صحیحہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے اس پر بھی خصوصی توجہ دی جائے۔
اور اللہ تعالی ہی توفیق دینے والا ہے۔
اسلامی اخلاق سے آراستہ ہونے کے معاون ذرائع
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مجموع فتاوى ومقالات متنوعة الجزء السابع۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/islami_akhlaq_apnanay_k_muawin_zarai.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: سماحۃ الشیخ ہم آپ سے چاہتے ہیں کہ بعض ایسے اسباب بیان فرمائیں جو اسلامی اخلاق سے آراستہ ہونے میں معاون ہوں؟
جواب: اس بارے میں جو معاون ذرائع ہیں وہ باکثرت تلاوت ِقرآن اس کے معانی پر تدبر کے ساتھ۔ اور اس بات کی سخت کوشش کی جائے کہ جو کچھ اللہ تعالی نے اپنے پسندیدہ نیک بندوں کی صفات اس میں بیان کی ہیں انہیں اپنایا جائے۔ پس یہ بات اخلاقِ فاضلہ کو پانے میں معاون ہیں۔
اسی طرح سے نیک لوگوں کی صحبت اورمجلس اختیار کرنا۔ اور اخلاقیات سے متعلق صحیح احادیث کا مطالعہ کرنا۔
ساتھ ہی ماضی کی خبروں میں نیک صالح لوگوں کی صفات پرغورو تدبر کرنا جیسے سیرت ِنبوی وتاریخِ اسلامی۔
یہ سب باتیں معاون ہیں اخلاق فاضلہ کو اپنانے اور ان پر استقامت اختیار کرنے کے لیے۔ اور باکثرت قرآن کریم کی تلاوت اور حاضر دلی وسچی رغبت کے ساتھ اس کے معانی پر غوروتدبر کرنا ان تمام ذرائع میں سب سے بڑھ کر ہے۔ ساتھ ہی جو کچھ سنت صحیحہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے اس پر بھی خصوصی توجہ دی جائے۔
اور اللہ تعالی ہی توفیق دینے والا ہے۔
[Urdu Article] Islaamic ruling regarding celebrating valentine's day – Various 'Ulamaa
ویلنٹائین ڈے منانے کا شرعی حکم
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/02/valentine_day_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد لله وحده والصلاة والسلام على من لا نبي بعده وبعد:
مستقل کمیٹی برائے علمی تحقیقات وافتاء اس استفتاء (سوال)پر مطلع ہوئی جو سماحۃ الشیخ مفتی مملکت سے عبداللہ آل ربیعہ نے دریافت کیا، فتوی رقم (5324) بتاریخ 1420/11/3ھ۔
سوال: بعض لوگ 14 فروری کو ہر سال عید الحب (عید ِمحبت) ویلنٹائین ڈے (valentine day) مناتے ہیں۔ جس میں سرخ گلاب کے ایک دوسرے کو تحفے دیئے جاتے ہیں اور سرخ لباس پہنے جاتے ہیں، اسی طرح بعض مبارکبادیں بھی دیتے ہیں، یہاں تک کہ کچھ بیکری والے کیک مٹھائی وغیرہ بھی سرخ رنگ میں بناتے ہیں اور اس پر دل کی شکل بناتے ہیں، اس کےعلاوہ بعض دکانیں اپنی پروڈکٹس پر جو اس دن کی مناسبت سے ہوتی ہیں اعلانات وپیغامات پرنٹ کرتی ہیں۔آپ کی مندرجہ ذیل باتوں کے بارے میں کیا رائے ہے:
اولاً: یہ دن منانا؟
ثانیاً: اس دن دکانوں سے خریداری کرنا؟
ثالثاً: ایسے دکاندار جو یہ دن نہیں مناتے ان کا ایسے لوگوں کو جو یہ دن مناتےہیں ایسی چیزیں فروخت کرنا جنہیں وہ بطورِ تحفہ پیش کرتے ہیں؟ وجزاکم اللہ خیراً
جواب: اس سوال کو مکمل پڑھنے کے بعد فتوی کمیٹی یہ جواب دیتی ہے کہ کتاب وسنت کے ادلہ صریحہ اور جس پر سلف امت کا اجماع ہے وہ یہ ہے کہ اسلام میں فقط دو عیدیں ہیں جو عید الفطر اور عید الاضحی ہیں ، ان کے علاوہ جو بھی عیدیں ہیں خواہ وہ کسی شخصیت ، یا کسی جماعت ، یا کسی واقعہ سے متعلق ہوں یا پھر کسی بھی معنی میں ہوں تو یہ بدعتی عیدیں ہیں ، اہل اسلام کے لئے بالکل بھی جائز نہیں کہ وہ اسے منائیں، یا اسے مانیں ، نہ ہی اس میں کسی قسم کی خوشی کا اظہار کریں اور نہ ہی کسی بھی چیز سے اس میں اعانت کریں، کیونکہ یہ اللہ تعالی کی حدود کو پامال کرنا ہے اور جو کوئی بھی حدودِ الہی کو پامال کرتا ہے تو وہ اپنے ہی نفس پر ظلم کرتا ہے۔
مزید برآں اس اختراع شدہ عیدپر اگر یہ بھی اضافہ ہوجائے کہ وہ کافروں کی عیدوں میں سے ہے(ساتھ ہی اس کی بنیاد بیہودگی پرہے)، تو یہ گناہ درگناہ کی موجب ہے، کیونکہ اس میں ان سے مشابہت ہے اور ان سے ایک طرح کی محبت ہےجبکہ اللہ تعالی نے مومنین کو ان سے مشابہت اختیار کرنے اور ان سے محبت کرنے سے اپنی کتاب عزیز میں منع فرمایا ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ‘‘([1])
(جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے)۔
ویلنٹائین ڈے بھی انہی عیدوں میں سے ہے جو بیان ہوئی کیونکہ یہ بت پرستوں اور نصاریٰ کی عید ہے، کسی مسلمان کے لئے جو اللہ تعالی اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے حلال نہیں کہ وہ اسے منائے ،یا اسے مانے، یا پھر اس کی مبارکباد دے، بلکہ اسے اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات مانتے ہوئے اور اللہ تعالی کی ناراضگی وعقوبت کے اسباب سے بچتے ہوئے اسے ترک کرنا واجب ہے۔
اسی طرح ایک مسلمان پر یہ بھی حرام ہے کہ وہ اس عید یا کسی بھی حرام عیدوں میں کسی بھی چیز کے ذریعہ تعاون کرے چاہے وہ کھانے، پینے، خرید، فروخت، صناعت، تحفہ، خط وکتابت، اعلان یا پھر اس کے علاوہ جس بھی طریقے سے ہو، کیونکہ یہ سب گناہ وزیادتی اور اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی میں تعاون ہوگا جبکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۠وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَاب﴾ (المائدۃ: 2)
(اور نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو، اور برائی اور زیادتی کی کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کرو، اور اللہ تعالی سے ڈرو بےشک اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے)
ایک مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنے تمام حالات میں خصوصاً فتنوں کے اوقات اور اور فساد کی کثرت کے موقع پر کتاب وسنت سے اعتصام وتمسک اختیارکرے، اسے چاہیے کہ ہوش کے ناخن لے اورڈرے کہ کہیں ان مغضوب علیہم، ضالین اور فاسقین جن کی نظر میں اللہ تعالی کا کوئی وقار نہیں اور جو اسلام سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے کی گمراہیوں میں واقع نہ ہوجائیں۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالی کی ہدایت کو طلب کرنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے لئے اسی سے لو لگائے، کیونکہ اللہ تعالی کے سوا کوئی ہدایت دینے والا اور ثابت قدمی بخشنے والا نہیں۔
اللہ تعالی ہی توفیق دینے والا ہے اور درود وسلام ہو ہمارے نبی محمد اور آپ کی آل واصحاب پر۔
مستقل کمیٹی برائے علمی تحقیقات وافتاء، سعودی عرب
رئیس: عبدالعزیز بن عبدالل
ویلنٹائین ڈے منانے کا شرعی حکم
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/02/valentine_day_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد لله وحده والصلاة والسلام على من لا نبي بعده وبعد:
مستقل کمیٹی برائے علمی تحقیقات وافتاء اس استفتاء (سوال)پر مطلع ہوئی جو سماحۃ الشیخ مفتی مملکت سے عبداللہ آل ربیعہ نے دریافت کیا، فتوی رقم (5324) بتاریخ 1420/11/3ھ۔
سوال: بعض لوگ 14 فروری کو ہر سال عید الحب (عید ِمحبت) ویلنٹائین ڈے (valentine day) مناتے ہیں۔ جس میں سرخ گلاب کے ایک دوسرے کو تحفے دیئے جاتے ہیں اور سرخ لباس پہنے جاتے ہیں، اسی طرح بعض مبارکبادیں بھی دیتے ہیں، یہاں تک کہ کچھ بیکری والے کیک مٹھائی وغیرہ بھی سرخ رنگ میں بناتے ہیں اور اس پر دل کی شکل بناتے ہیں، اس کےعلاوہ بعض دکانیں اپنی پروڈکٹس پر جو اس دن کی مناسبت سے ہوتی ہیں اعلانات وپیغامات پرنٹ کرتی ہیں۔آپ کی مندرجہ ذیل باتوں کے بارے میں کیا رائے ہے:
اولاً: یہ دن منانا؟
ثانیاً: اس دن دکانوں سے خریداری کرنا؟
ثالثاً: ایسے دکاندار جو یہ دن نہیں مناتے ان کا ایسے لوگوں کو جو یہ دن مناتےہیں ایسی چیزیں فروخت کرنا جنہیں وہ بطورِ تحفہ پیش کرتے ہیں؟ وجزاکم اللہ خیراً
جواب: اس سوال کو مکمل پڑھنے کے بعد فتوی کمیٹی یہ جواب دیتی ہے کہ کتاب وسنت کے ادلہ صریحہ اور جس پر سلف امت کا اجماع ہے وہ یہ ہے کہ اسلام میں فقط دو عیدیں ہیں جو عید الفطر اور عید الاضحی ہیں ، ان کے علاوہ جو بھی عیدیں ہیں خواہ وہ کسی شخصیت ، یا کسی جماعت ، یا کسی واقعہ سے متعلق ہوں یا پھر کسی بھی معنی میں ہوں تو یہ بدعتی عیدیں ہیں ، اہل اسلام کے لئے بالکل بھی جائز نہیں کہ وہ اسے منائیں، یا اسے مانیں ، نہ ہی اس میں کسی قسم کی خوشی کا اظہار کریں اور نہ ہی کسی بھی چیز سے اس میں اعانت کریں، کیونکہ یہ اللہ تعالی کی حدود کو پامال کرنا ہے اور جو کوئی بھی حدودِ الہی کو پامال کرتا ہے تو وہ اپنے ہی نفس پر ظلم کرتا ہے۔
مزید برآں اس اختراع شدہ عیدپر اگر یہ بھی اضافہ ہوجائے کہ وہ کافروں کی عیدوں میں سے ہے(ساتھ ہی اس کی بنیاد بیہودگی پرہے)، تو یہ گناہ درگناہ کی موجب ہے، کیونکہ اس میں ان سے مشابہت ہے اور ان سے ایک طرح کی محبت ہےجبکہ اللہ تعالی نے مومنین کو ان سے مشابہت اختیار کرنے اور ان سے محبت کرنے سے اپنی کتاب عزیز میں منع فرمایا ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ‘‘([1])
(جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے)۔
ویلنٹائین ڈے بھی انہی عیدوں میں سے ہے جو بیان ہوئی کیونکہ یہ بت پرستوں اور نصاریٰ کی عید ہے، کسی مسلمان کے لئے جو اللہ تعالی اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے حلال نہیں کہ وہ اسے منائے ،یا اسے مانے، یا پھر اس کی مبارکباد دے، بلکہ اسے اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات مانتے ہوئے اور اللہ تعالی کی ناراضگی وعقوبت کے اسباب سے بچتے ہوئے اسے ترک کرنا واجب ہے۔
اسی طرح ایک مسلمان پر یہ بھی حرام ہے کہ وہ اس عید یا کسی بھی حرام عیدوں میں کسی بھی چیز کے ذریعہ تعاون کرے چاہے وہ کھانے، پینے، خرید، فروخت، صناعت، تحفہ، خط وکتابت، اعلان یا پھر اس کے علاوہ جس بھی طریقے سے ہو، کیونکہ یہ سب گناہ وزیادتی اور اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی میں تعاون ہوگا جبکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۠وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَاب﴾ (المائدۃ: 2)
(اور نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو، اور برائی اور زیادتی کی کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کرو، اور اللہ تعالی سے ڈرو بےشک اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے)
ایک مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنے تمام حالات میں خصوصاً فتنوں کے اوقات اور اور فساد کی کثرت کے موقع پر کتاب وسنت سے اعتصام وتمسک اختیارکرے، اسے چاہیے کہ ہوش کے ناخن لے اورڈرے کہ کہیں ان مغضوب علیہم، ضالین اور فاسقین جن کی نظر میں اللہ تعالی کا کوئی وقار نہیں اور جو اسلام سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے کی گمراہیوں میں واقع نہ ہوجائیں۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالی کی ہدایت کو طلب کرنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے لئے اسی سے لو لگائے، کیونکہ اللہ تعالی کے سوا کوئی ہدایت دینے والا اور ثابت قدمی بخشنے والا نہیں۔
اللہ تعالی ہی توفیق دینے والا ہے اور درود وسلام ہو ہمارے نبی محمد اور آپ کی آل واصحاب پر۔
مستقل کمیٹی برائے علمی تحقیقات وافتاء، سعودی عرب
رئیس: عبدالعزیز بن عبدالل
ہ بن محمد آل الشیخ
رکن: صالح بن فوزان الفوزان
رکن: عبداللہ بن عبدالرحمن الغدیان
رکن: بکر بن عبداللہ ابو زید
سوال: آخر کچھ برسوں میں عید الحب (ویلنٹائن ڈے) منانا بہت عام ہوتا جارہا ہے خصوصاً طالبات میں، جو کہ نصاریٰ کی عیدوں میں سے ایک عید ہے، جس میں وہ مکمل حلیہ لال رنگ کا اختیار کرتے ہيں کپڑے ہوں یا جوتے، اور لال پھول ایک دوسرے کو دیے جاتے ہیں، ہم آپ فضیلۃ الشیخ سے امید کرتے ہيں کہ اس عید کے منانے کا حکم بیان فرمائیں، اور اس قسم کے امور کے تعلق سے آپ مسلمانوں کی کیا رہنمائی کرنا چاہیں گے، اللہ تعالی آپ کی حفاظت ورعایت فرمائے؟
جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:
عید الحب منانا جائز نہیں مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر:
1- بلاشبہ یہ ایک بدعتی عید ہے جس کی شریعت میں کوئی اساس نہیں۔
2- بلاشبہ یہ عشق اور شہوت کی طرف دعوت دیتی ہے۔
3- بلاشبہ یہ دل کو اس قسم کے فضول وبیہودہ کاموں کی طرف دعوت دیتی ہے جو سلف صالحین کے طریقے کے خلاف ہیں۔
حلال نہیں کہ اس دن کسی بھی قسم کی ایسی حرکت کی جائے جو عید کے شعائر میں شمار ہو چاہے کھانے پینے کے تعلق سے ہو یا پہننے اور تحائف دینے وغیرہ کے تعلق سے ہو۔
ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے دین کے ذریعے عزت دار بنے، اور ہر ہانکنے والے کےپیچھے بھیڑ چال چلتا نہ پھرے۔ اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ مسلمانوں کو ہر قسم کے فتنوں سے خواہ ظاہر ہوں یا باطن محفوظ فرمائے، اور اپنی نگہبانی وتوفیق کے ساتھ ہماری نگہبانی فرمائے۔
(مجموع فتاوى و رسائل الشيخ محمد صالح العثيمين – المجلد السادس عشر – باب صلاة العيدين)
سوال: محترم سائل کہتا ہے کہ: شیخنا! کل اتوار کا روز بمطابق 14 فروری مغر ب میں عید الحب (ویلنٹائن ڈے) کہلاتا ہے جس سے متعلق کلام کیا جاتا رہا ہے۔۔۔
شیخ صالح بن سعد السحیمی حفظہ اللہ: جی، سبحان اللہ!
سائل کہتا ہے: یقیناً ہمارے بعض نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس عید کے فتنے میں مبتلا ہوچکے ہيں، پس آپ اس بارے میں کچھ فرمائیں اور نصیحت کیجئے؟
الشیخ: یہی تو میرے خطبۂ جمعہ کا موضوع تھا یعنی سابقہ جمعے کا۔ اگر طلبہ میں سے کسی نے اسے ریکارڈ کیا ہو، میرے خیال سے مسجد الامیر سلطان میں وہ ریکارڈ ہوا ہے، لہذا میں نے اس مسئلے پر تفصیل کے ساتھ وہاں بحث کی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جسے یہ عید الحب کا نام دیتے ہیں اس میں سات ممنوعہ باتیں پائی جاتی ہیں:
1- بلاشبہ اس کی اصل رومانیہ سے ہے ، ان کے وہاں اسے ایک خدا کی عید کہا جاتا ہے یعنی محبت کے خدا کی! پس اس سے تعلق رکھنا گویا کہ وثنیت (بت پرستی) سے تعلق رکھنا ہے۔ کیونکہ بے شک یہ تقلید ہے کن کی؟ اوثان(بت یا کوئی بھی غیراللہ) پرستوں کی۔
2- بلاشبہ اس میں یہود ونصاری کی تقلید ہے۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے متعلق ہمیں خبر دی ہے کہ:
’’لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ ۔۔۔ قِيلَ:الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى؟ فَقَالَ: وَمَنِ القَومُ إِلَّا أُولَئِكَ!‘‘([2])
(تم ضرور گذشتہ قوموں کے طریقوں کی اتباع کرو گے۔۔۔ کہا گیا: کیا یہود ونصاری کی؟! فرمایا: اور نہیں تو کیا ، ان کے علاوہ اور کونسی قومیں مراد ہیں(یعنی انہی کی کروگے))۔
اور ایک روایت میں ہے:
’’فَارِسُ وَالرُّومُ‘‘
(فارس وروم کی)۔
3- بلاشبہ اس میں مطلقا ًکفار کی مشابہت ہے۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا ہے:
’’مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ‘‘([3])
(جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے)۔
4- بلاشبہ یہ ان بدعات میں سے ہے جو لوگوں نے ایجاد کی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ‘‘([4])
(جس کسی نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں نہ تھی، تو وہ مردود ہے)۔
5- بلاشبہ یہ ایک منکر ہے اور جو کچھ بھی اس میں کیا جاتا ہے وہ بھی منکر ہے، جیسے لڑکے لڑکیوں سے ملتے ہيں(جسے وہ ڈیٹ کا نام دیتے ہیں)، آپس میں مراسلات (خط ومیسج وغیرہ)، دل کی تصویر بھیجنا اور اس قسم کے دیگر بیہودگیاں ہوتی ہیں۔ اور یہ سب مغرب کی تقلید میں کیا جاتا ہے، جبکہ ہمیں ان کے ساتھ مشابہت سے منع کیا گیا ہے۔
6- بلاشبہ خود ان میں سے جو عقل رکھنے والے لوگ ہیں وہ اس عید سے منع کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ میرے خیال سے ویٹیکن سٹی کے بڑے پاپ یعنی تحریف کرنے والے نصرانی نے بھی اس سے شدت کے ساتھ منع کیا ہے۔
7- بلاشبہ یہ ایک عظیم خرافت پر مبنی ہے یعنی وہ چیز جیسے یہ محبت کا نام دیتے ہيں، پھر اسے فاسد معانی کی طرف لے جاتے ہیں، کیونکہ محبت ان کے نزدیک صرف زنا اور اس کے مقدمات (یعنی جو چیزیں اسے سازگار بنانے کے لیے ہوتی ہیں) کا نام ہے۔
لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم ان کفار سے مشابہت کرنے سے بچیں۔ اور میرے خیال سے یہ جواب کافی ہے۔ میں نے اس کی تفصیل اس خطبے میں بیان کردی تھی جو میں نے آپ کے سامنے ذکر کیا۔ تو ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں، اور کل کے درس تک
رکن: صالح بن فوزان الفوزان
رکن: عبداللہ بن عبدالرحمن الغدیان
رکن: بکر بن عبداللہ ابو زید
سوال: آخر کچھ برسوں میں عید الحب (ویلنٹائن ڈے) منانا بہت عام ہوتا جارہا ہے خصوصاً طالبات میں، جو کہ نصاریٰ کی عیدوں میں سے ایک عید ہے، جس میں وہ مکمل حلیہ لال رنگ کا اختیار کرتے ہيں کپڑے ہوں یا جوتے، اور لال پھول ایک دوسرے کو دیے جاتے ہیں، ہم آپ فضیلۃ الشیخ سے امید کرتے ہيں کہ اس عید کے منانے کا حکم بیان فرمائیں، اور اس قسم کے امور کے تعلق سے آپ مسلمانوں کی کیا رہنمائی کرنا چاہیں گے، اللہ تعالی آپ کی حفاظت ورعایت فرمائے؟
جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:
عید الحب منانا جائز نہیں مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر:
1- بلاشبہ یہ ایک بدعتی عید ہے جس کی شریعت میں کوئی اساس نہیں۔
2- بلاشبہ یہ عشق اور شہوت کی طرف دعوت دیتی ہے۔
3- بلاشبہ یہ دل کو اس قسم کے فضول وبیہودہ کاموں کی طرف دعوت دیتی ہے جو سلف صالحین کے طریقے کے خلاف ہیں۔
حلال نہیں کہ اس دن کسی بھی قسم کی ایسی حرکت کی جائے جو عید کے شعائر میں شمار ہو چاہے کھانے پینے کے تعلق سے ہو یا پہننے اور تحائف دینے وغیرہ کے تعلق سے ہو۔
ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے دین کے ذریعے عزت دار بنے، اور ہر ہانکنے والے کےپیچھے بھیڑ چال چلتا نہ پھرے۔ اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ مسلمانوں کو ہر قسم کے فتنوں سے خواہ ظاہر ہوں یا باطن محفوظ فرمائے، اور اپنی نگہبانی وتوفیق کے ساتھ ہماری نگہبانی فرمائے۔
(مجموع فتاوى و رسائل الشيخ محمد صالح العثيمين – المجلد السادس عشر – باب صلاة العيدين)
سوال: محترم سائل کہتا ہے کہ: شیخنا! کل اتوار کا روز بمطابق 14 فروری مغر ب میں عید الحب (ویلنٹائن ڈے) کہلاتا ہے جس سے متعلق کلام کیا جاتا رہا ہے۔۔۔
شیخ صالح بن سعد السحیمی حفظہ اللہ: جی، سبحان اللہ!
سائل کہتا ہے: یقیناً ہمارے بعض نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس عید کے فتنے میں مبتلا ہوچکے ہيں، پس آپ اس بارے میں کچھ فرمائیں اور نصیحت کیجئے؟
الشیخ: یہی تو میرے خطبۂ جمعہ کا موضوع تھا یعنی سابقہ جمعے کا۔ اگر طلبہ میں سے کسی نے اسے ریکارڈ کیا ہو، میرے خیال سے مسجد الامیر سلطان میں وہ ریکارڈ ہوا ہے، لہذا میں نے اس مسئلے پر تفصیل کے ساتھ وہاں بحث کی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جسے یہ عید الحب کا نام دیتے ہیں اس میں سات ممنوعہ باتیں پائی جاتی ہیں:
1- بلاشبہ اس کی اصل رومانیہ سے ہے ، ان کے وہاں اسے ایک خدا کی عید کہا جاتا ہے یعنی محبت کے خدا کی! پس اس سے تعلق رکھنا گویا کہ وثنیت (بت پرستی) سے تعلق رکھنا ہے۔ کیونکہ بے شک یہ تقلید ہے کن کی؟ اوثان(بت یا کوئی بھی غیراللہ) پرستوں کی۔
2- بلاشبہ اس میں یہود ونصاری کی تقلید ہے۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے متعلق ہمیں خبر دی ہے کہ:
’’لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ ۔۔۔ قِيلَ:الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى؟ فَقَالَ: وَمَنِ القَومُ إِلَّا أُولَئِكَ!‘‘([2])
(تم ضرور گذشتہ قوموں کے طریقوں کی اتباع کرو گے۔۔۔ کہا گیا: کیا یہود ونصاری کی؟! فرمایا: اور نہیں تو کیا ، ان کے علاوہ اور کونسی قومیں مراد ہیں(یعنی انہی کی کروگے))۔
اور ایک روایت میں ہے:
’’فَارِسُ وَالرُّومُ‘‘
(فارس وروم کی)۔
3- بلاشبہ اس میں مطلقا ًکفار کی مشابہت ہے۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا ہے:
’’مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ‘‘([3])
(جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے)۔
4- بلاشبہ یہ ان بدعات میں سے ہے جو لوگوں نے ایجاد کی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ‘‘([4])
(جس کسی نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں نہ تھی، تو وہ مردود ہے)۔
5- بلاشبہ یہ ایک منکر ہے اور جو کچھ بھی اس میں کیا جاتا ہے وہ بھی منکر ہے، جیسے لڑکے لڑکیوں سے ملتے ہيں(جسے وہ ڈیٹ کا نام دیتے ہیں)، آپس میں مراسلات (خط ومیسج وغیرہ)، دل کی تصویر بھیجنا اور اس قسم کے دیگر بیہودگیاں ہوتی ہیں۔ اور یہ سب مغرب کی تقلید میں کیا جاتا ہے، جبکہ ہمیں ان کے ساتھ مشابہت سے منع کیا گیا ہے۔
6- بلاشبہ خود ان میں سے جو عقل رکھنے والے لوگ ہیں وہ اس عید سے منع کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ میرے خیال سے ویٹیکن سٹی کے بڑے پاپ یعنی تحریف کرنے والے نصرانی نے بھی اس سے شدت کے ساتھ منع کیا ہے۔
7- بلاشبہ یہ ایک عظیم خرافت پر مبنی ہے یعنی وہ چیز جیسے یہ محبت کا نام دیتے ہيں، پھر اسے فاسد معانی کی طرف لے جاتے ہیں، کیونکہ محبت ان کے نزدیک صرف زنا اور اس کے مقدمات (یعنی جو چیزیں اسے سازگار بنانے کے لیے ہوتی ہیں) کا نام ہے۔
لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم ان کفار سے مشابہت کرنے سے بچیں۔ اور میرے خیال سے یہ جواب کافی ہے۔ میں نے اس کی تفصیل اس خطبے میں بیان کردی تھی جو میں نے آپ کے سامنے ذکر کیا۔ تو ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں، اور کل کے درس تک
آپ کو الوادع کہتے ہيں۔
وصلَّى الله وسلَّم وبارك على نبيِّنا محمَّدٍ وعلَى آلِهِ وصحبِهِ۔
(بواسطہ ویب سائٹ البیضاء العلمیۃ)
[1] صحیح ابی داود 4031۔
[2]البخاري أحاديث الأنبياء (3269) ، مسلم العلم (2669) ، أحمد (3/89).
[3] صحیح ابی داود 4031۔
[4] البخاري الصلح (2550)، مسلم الأقضية (1718)، أبو داود السنة (4606)، ابن ماجه المقدمة (14)، أحمد (6/270).
وصلَّى الله وسلَّم وبارك على نبيِّنا محمَّدٍ وعلَى آلِهِ وصحبِهِ۔
(بواسطہ ویب سائٹ البیضاء العلمیۃ)
[1] صحیح ابی داود 4031۔
[2]البخاري أحاديث الأنبياء (3269) ، مسلم العلم (2669) ، أحمد (3/89).
[3] صحیح ابی داود 4031۔
[4] البخاري الصلح (2550)، مسلم الأقضية (1718)، أبو داود السنة (4606)، ابن ماجه المقدمة (14)، أحمد (6/270).