[Urdu Article] Legislation of the punishment of stoning – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
حدِرجم کی مشروعیت
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شرح اصول السنۃ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے "اصول السںۃ" میں فرمایا :
’’رجم (سنگسار ) کرنا برحق ہے اس شخص کو جو شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کرے، جب وہ اعتراف کرے یا اس پر دلیل وگواہی قائم ہوجائے۔ یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی رجم فرمایا، اور آئمہ (خلفائے) راشدین نے بھی‘‘۔
اس پر شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ کی شرح جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/hadd_e_rajam_ki_mashroeat.pdf
حدِرجم کی مشروعیت
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شرح اصول السنۃ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے "اصول السںۃ" میں فرمایا :
’’رجم (سنگسار ) کرنا برحق ہے اس شخص کو جو شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کرے، جب وہ اعتراف کرے یا اس پر دلیل وگواہی قائم ہوجائے۔ یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی رجم فرمایا، اور آئمہ (خلفائے) راشدین نے بھی‘‘۔
اس پر شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ کی شرح جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/hadd_e_rajam_ki_mashroeat.pdf
[Urdu Article] A person can be Kharijee in spite of having immense knowledge, 'Ibaadah and asceticism – Imaam Shams-ud-Deen Ad-Dhahabi
عبادت، علم وزہد کے باوجود ایک شخص خارجی ہوسکتا ہے
أبو عبد الله شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان الذھبي رحمہ اللہ المتوفی سن 748ھ
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: "سير أعلام النبلاء" بعض ترامیم، اختصار اور اضافہ جات کے ساتھ ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/ibaadah_ilm_zuhd_bawajod_kharijee.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام محمد بن عثمان الذھبی رحمہ اللہ اپنی تاریخ وسوانح پر لکھی گئی مشہور کتاب ’’سير أعلام النبلاء‘‘ ج 7 ص 362 ط مؤسسة الرسالة، الطبقة السابعة، الحسن بن صالح میں فرماتے ہیں:
ابن صالح بن حی، اور حی کا نام: حَيَّانُ بْنُ شُفَيِّ بْنِ هُنَيِّ بْنِ رَافِعٍ تھا۔ بہت بڑے امام تھے، قدآور شخصیات میں سے ایک، ابو عبداللہ الہمدانی الثوری الکوفی، فقیہ وعابد تھے، امام علی بن صالح کے بھائی تھے۔
پھر امام الذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’هُوَ مِنْ أَئِمَّةِ الْإِسْلَامِ، لَوْلَا تَلَبُّسُهُ بِبِدْعَةٍ‘‘
(آپ آئمہ اسلام میں سے ہوتے اگر وہ اس بدعت (حکمران کے خلاف خروج کو جائز سمجھنا) میں ملوث نہ ہوتے)۔
وکیع فرماتے ہیں: ان کی ولادت سن 100ھ میں ہوئی۔
بخاری فرماتے ہیں کہ ابو نعیم نے فرمایا: الحسن بن صالح کی وفات سن 169ھ میں ہوئی۔
الذہبی فرماتے ہیں: ان کی عمر 69 برس تھی، یہ اور ان کے بھائی جڑواں تھے۔
یہ اپنے علم وعبادت میں بہت مشہور تھے۔
آئمہ سلف کے دور میں بہت سے آئمہ کے ہم عصر تھے جیسے امام سفیان الثوری رحمہ اللہ وغیرہ، اور احادیث کے راویو ں میں سے تھے۔
بلکہ ابن نعیم فرماتے ہیں کہ مجھ سے الحسن بن صالح نے بھی حدیث بیان کی ہیں اور وہ ورع وقوت میں سفیان الثوری سے کم نہيں تھے۔
(میزان الاعتدال للذھبی، ج 1 ص 496)
یہاں تک کہ امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ جو جرج وتعدیل میں شدت اپنانے میں معروف تھے ان تک نے فرمایا:
’’آپ ثقہ حافظ اور متقن ہیں‘‘۔
اسی طرح امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ نےبھی ثقہ لکھا ہے۔
خشیت اور آہ وبکاء کا یہ عالم تھے کہ یحیی بن ابی بکیر فرماتے ہیں:
’’ان سے فرمایا گیا غسل میت بیان کیجئے، تو وہ رونے کی شدت کی وجہ سے صحیح طور پر بیان ہی نہيں کرپائے‘‘۔
ان کے چہرے پر خشیت کے آثار رہتے، ابو سلیمان الدارانی فرماتے ہیں:
’’میں نے کسی کے چہرے پر خوف وخشیت کو اتنا ظاہر نہيں پایا جتنا الحسن بن صالح پر دیکھا‘‘۔
زہد وقناعت پسندی کا یہ حال تھا کہ خود فرماتے ہيں:
’’کبھی کبھار میں صبح کرتا ہوں اس حال میں کہ میرے پاس ایک درہم بھی نہيں ہوتا، تو مجھے لگتا ہے گویا کہ ساری دنیا کی خوشیاں میرے لیے سمٹ آئی ہيں‘‘۔
تقویٰ وورع ایسا کہ ایک مرتبہ ایک لونڈی فروخت کررہے تھے تو جو شخص اسے خریدنا چاہتا تھا اس کو یہ تک بتایا کہ ایک بار کبھی اس نے ہمارے پاس خون کی الٹی تھی۔
ایک مرتبہ یہ آیت ان کے سامنے تلاوت ہوئی : ﴿لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ﴾ (الانبیاء: 103) (انہیں سب سے بڑی گھبراہٹ غمگین نہ کرے گی) تو ان کا چہرہ خوف کے مارے کبھی سبز کبھی زرد ہورہا تھا۔
انہی کے بارے میں روایت کی جاتی ہے کہ جب وہ قبرستان کو دیکھتے تو چیختے اور بیہوش ہوجاتے۔
اسی طرح بازار والوں کو بھی دیکھ کر روتے کہ یہ لوگ اسی چیز میں مگن ہیں اور موت انہيں اچانک آجائے گی۔
جعفر بن محمد بن عبید اللہ بن موسیٰ نے فرمایا، میں نے اپنے دادا سےسنا انہوں نے فرمایا:
میں علی بن صالح پر قرآن پڑھ رہا تھا جب میں اس آیت پر پہنچا: ﴿فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ﴾ (مریم: 84) (پس آپ ان کے بارے میں جلدی نہ کریں) تو الحسن گر گیا اور ایسی آوازیں نکالنے لگا جیسے بیل کی آواز ہوتی ہے، تو علی اس کی طرف کھڑے ہوئے، اسے اٹھایا، اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا، پانی کے چھینٹے ماریں اور اسے ٹیک دے کربٹھایا۔
قرآن مجید پر بہت غوروتدبر کیا کرتے یہاں تک کہ ایک دفعہ وہ قیام اللیل کررہے تھے کہ سورۃ النباء شروع کی اور ان پر غشی طاری ہوگئی، یہاں تک کہ فجر طلوع ہوگئی اور وہ سورۃ مکمل نہ کرپائے۔
قیام اللیل کی پابندی کرتے یہاں تک کہ وہ ان کا بھائی اور ان کی والدہ قیام اللیل کو آپس میں تین حصوں میں تقسیم کرلیتے ، جب ان کی والدہ وفات پاگئیں تو اپنے او ربھائی کے درمیان آدھا آدھا کرلیا، اور جب بھائی بھی وفا ت پاگئے تو پوری رات قیام کرنے لگے۔
دنیا سے زہد اور شدت غم اتنا کہ احمد بن یونس فرماتے ہیں:
’’میں ان کے پاس بیس برس بیٹھا، میں نے کبھی انہيں آسما ن کی طرف سر اٹھاتے یا دنیا کا ذکر کرتے نہيں پایا‘‘۔
ابو زرعہ الرزای تک فرماتے ہیں کہ:
’’ان کی شخصیت میں اتقان، فقہ، عبادت وزہد سب جمع تھا‘‘۔
اس سب کے باوجود سلف صالحین نے ان کو بدعتی قرار دیا، بعض نے روایات تک لینا ترک کردی، اس شدت سے کہ احمد بن یونس فرماتے ہیں:
’’اگر الحسن بن صالح پیدا ہی نہ ہو
عبادت، علم وزہد کے باوجود ایک شخص خارجی ہوسکتا ہے
أبو عبد الله شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان الذھبي رحمہ اللہ المتوفی سن 748ھ
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: "سير أعلام النبلاء" بعض ترامیم، اختصار اور اضافہ جات کے ساتھ ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/ibaadah_ilm_zuhd_bawajod_kharijee.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام محمد بن عثمان الذھبی رحمہ اللہ اپنی تاریخ وسوانح پر لکھی گئی مشہور کتاب ’’سير أعلام النبلاء‘‘ ج 7 ص 362 ط مؤسسة الرسالة، الطبقة السابعة، الحسن بن صالح میں فرماتے ہیں:
ابن صالح بن حی، اور حی کا نام: حَيَّانُ بْنُ شُفَيِّ بْنِ هُنَيِّ بْنِ رَافِعٍ تھا۔ بہت بڑے امام تھے، قدآور شخصیات میں سے ایک، ابو عبداللہ الہمدانی الثوری الکوفی، فقیہ وعابد تھے، امام علی بن صالح کے بھائی تھے۔
پھر امام الذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’هُوَ مِنْ أَئِمَّةِ الْإِسْلَامِ، لَوْلَا تَلَبُّسُهُ بِبِدْعَةٍ‘‘
(آپ آئمہ اسلام میں سے ہوتے اگر وہ اس بدعت (حکمران کے خلاف خروج کو جائز سمجھنا) میں ملوث نہ ہوتے)۔
وکیع فرماتے ہیں: ان کی ولادت سن 100ھ میں ہوئی۔
بخاری فرماتے ہیں کہ ابو نعیم نے فرمایا: الحسن بن صالح کی وفات سن 169ھ میں ہوئی۔
الذہبی فرماتے ہیں: ان کی عمر 69 برس تھی، یہ اور ان کے بھائی جڑواں تھے۔
یہ اپنے علم وعبادت میں بہت مشہور تھے۔
آئمہ سلف کے دور میں بہت سے آئمہ کے ہم عصر تھے جیسے امام سفیان الثوری رحمہ اللہ وغیرہ، اور احادیث کے راویو ں میں سے تھے۔
بلکہ ابن نعیم فرماتے ہیں کہ مجھ سے الحسن بن صالح نے بھی حدیث بیان کی ہیں اور وہ ورع وقوت میں سفیان الثوری سے کم نہيں تھے۔
(میزان الاعتدال للذھبی، ج 1 ص 496)
یہاں تک کہ امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ جو جرج وتعدیل میں شدت اپنانے میں معروف تھے ان تک نے فرمایا:
’’آپ ثقہ حافظ اور متقن ہیں‘‘۔
اسی طرح امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ نےبھی ثقہ لکھا ہے۔
خشیت اور آہ وبکاء کا یہ عالم تھے کہ یحیی بن ابی بکیر فرماتے ہیں:
’’ان سے فرمایا گیا غسل میت بیان کیجئے، تو وہ رونے کی شدت کی وجہ سے صحیح طور پر بیان ہی نہيں کرپائے‘‘۔
ان کے چہرے پر خشیت کے آثار رہتے، ابو سلیمان الدارانی فرماتے ہیں:
’’میں نے کسی کے چہرے پر خوف وخشیت کو اتنا ظاہر نہيں پایا جتنا الحسن بن صالح پر دیکھا‘‘۔
زہد وقناعت پسندی کا یہ حال تھا کہ خود فرماتے ہيں:
’’کبھی کبھار میں صبح کرتا ہوں اس حال میں کہ میرے پاس ایک درہم بھی نہيں ہوتا، تو مجھے لگتا ہے گویا کہ ساری دنیا کی خوشیاں میرے لیے سمٹ آئی ہيں‘‘۔
تقویٰ وورع ایسا کہ ایک مرتبہ ایک لونڈی فروخت کررہے تھے تو جو شخص اسے خریدنا چاہتا تھا اس کو یہ تک بتایا کہ ایک بار کبھی اس نے ہمارے پاس خون کی الٹی تھی۔
ایک مرتبہ یہ آیت ان کے سامنے تلاوت ہوئی : ﴿لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ﴾ (الانبیاء: 103) (انہیں سب سے بڑی گھبراہٹ غمگین نہ کرے گی) تو ان کا چہرہ خوف کے مارے کبھی سبز کبھی زرد ہورہا تھا۔
انہی کے بارے میں روایت کی جاتی ہے کہ جب وہ قبرستان کو دیکھتے تو چیختے اور بیہوش ہوجاتے۔
اسی طرح بازار والوں کو بھی دیکھ کر روتے کہ یہ لوگ اسی چیز میں مگن ہیں اور موت انہيں اچانک آجائے گی۔
جعفر بن محمد بن عبید اللہ بن موسیٰ نے فرمایا، میں نے اپنے دادا سےسنا انہوں نے فرمایا:
میں علی بن صالح پر قرآن پڑھ رہا تھا جب میں اس آیت پر پہنچا: ﴿فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ﴾ (مریم: 84) (پس آپ ان کے بارے میں جلدی نہ کریں) تو الحسن گر گیا اور ایسی آوازیں نکالنے لگا جیسے بیل کی آواز ہوتی ہے، تو علی اس کی طرف کھڑے ہوئے، اسے اٹھایا، اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا، پانی کے چھینٹے ماریں اور اسے ٹیک دے کربٹھایا۔
قرآن مجید پر بہت غوروتدبر کیا کرتے یہاں تک کہ ایک دفعہ وہ قیام اللیل کررہے تھے کہ سورۃ النباء شروع کی اور ان پر غشی طاری ہوگئی، یہاں تک کہ فجر طلوع ہوگئی اور وہ سورۃ مکمل نہ کرپائے۔
قیام اللیل کی پابندی کرتے یہاں تک کہ وہ ان کا بھائی اور ان کی والدہ قیام اللیل کو آپس میں تین حصوں میں تقسیم کرلیتے ، جب ان کی والدہ وفات پاگئیں تو اپنے او ربھائی کے درمیان آدھا آدھا کرلیا، اور جب بھائی بھی وفا ت پاگئے تو پوری رات قیام کرنے لگے۔
دنیا سے زہد اور شدت غم اتنا کہ احمد بن یونس فرماتے ہیں:
’’میں ان کے پاس بیس برس بیٹھا، میں نے کبھی انہيں آسما ن کی طرف سر اٹھاتے یا دنیا کا ذکر کرتے نہيں پایا‘‘۔
ابو زرعہ الرزای تک فرماتے ہیں کہ:
’’ان کی شخصیت میں اتقان، فقہ، عبادت وزہد سب جمع تھا‘‘۔
اس سب کے باوجود سلف صالحین نے ان کو بدعتی قرار دیا، بعض نے روایات تک لینا ترک کردی، اس شدت سے کہ احمد بن یونس فرماتے ہیں:
’’اگر الحسن بن صالح پیدا ہی نہ ہو
تا تو یہ اس کے لیے بہتر ہوتا!‘‘۔
آخر ان کا ایسا کون سا قصور تھا جس کی وجہ سے آئمہ سلف نے ان کے ساتھ یہ سلوک کیا اور آجکل جو موازنات کا منہج اپنایا جاتا ہے اسے بروئے کار نہیں لائے کہ اس کی نیکیاں، علم، عبادت و تقویٰ پر بھی نظر کرتے؟! اور ان کے غلط منہج ونظریہ کے شدت کے ساتھ رد کو یہ کہہ کر نہیں نظرانداز کیا کہ ہم شخصیات پر کلام اور ان کو مسخ نہيں کرتے وغیرہ۔
اس کا جرم یہ تھا کہ وہ اپنے زمانے کے ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کی بس رائے رکھتا تھا، نہ خود باقاعدہ خروج کیا، نہ ہی اپنے قول کو نشر کرتا تھا، نہ لوگوں کو خروج پر ابھارتا تھا، بس یہ رائے رکھتا تھا۔
محمد بن غیلان روایت کرتے ہیں ابو نعیم سے فرمایا: الحسن بن صالح کا الثوری کے سامنے ذکر ہوا تو فرمایا:
’’یہ شخص امت محمدیہ پر تلوار کی رائے رکھتا ہے‘‘ (یعنی حکام پر خروج کی)۔
یوسف بن اسباط نے فرمایا:
’’الحسن تلوار کی رائے رکھتا تھا‘‘۔
اس کے خشوع تک سے وہ دھوکہ نہیں کھاتے تھے اسی لیے ابو سعید الاشج فرماتے ہيں میں نے ابن ادریس سے سنا کہ ان کے سامنے الحسن بن صالح کی بیہوشی کا ذکر کیا گیا تو وہ فرمانے لگے:
’’امام سفیان " کی صرف مسکراہٹ ہی ہمیں الحسن کی اس بیہوشی سے زیادہ محبوب ہے‘‘۔
ابن نعیم فرماتے ہيں جمعہ کے روز جب مسجد کے دروازے سے الثوری داخل ہوئے تو حسن بن صالح کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، اس پر انہوں نے بے ساختہ فرمایا:
’’اللہ کی پناہ! اس منافقانہ خشوع سے‘‘۔
پس اپنے جوتے اٹھائے اور دوسرے ستون کے پاس چلے گئے۔
الذہبی فرماتے ہیں کہ :
’’وہ جمعہ تک نہيں پڑھتا تھا، ظالم آئمہ وحکام کے پیچھے وہ جمعہ پڑھنے کا قائل نہیں تھا‘‘۔
امام سفیان الثوری فرماتے ہيں کہ :
’’الحسن بن صالح نے جو کچھ علم میں سے سماع کیا اور اس کو سمجھا بھی، اس کے باوجود وہ جمعہ ترک کرتا تھا!‘‘۔
پھر یہ کہہ کر وہ کھڑے ہوئے اور چل دیے۔
اسی طرح ابن ادریس فرماتے ہیں:
’’میرا ابن حی سے کیا تعلق؟! وہ تو جمعہ وجہاد تک نہیں مانتا (یعنی ظالم حکام کے ساتھ مل کر)‘‘۔
جب حفص بن غیاث نے فرمایا کہ یہ لوگ تلوار کی رائے رکھتے ہیں، یعنی ابن حی اور اس کے ساتھی۔ اس پر بشر بن الحارث فرماتے ہیں:
مجھے اپنے زمانے والوں میں سے کوئی دکھاؤ جو تلوار کی رائے نہ رکھتا ہو، سب ہی رکھتے ہیں سوائے بہت قلیل علماء کے، اور وہ ان کے پیچھے نماز کے بھی قائل نہيں۔ پھر آپ نے فرمایا:
’’امام زائدہ ابن قدامہ رحمہ اللہ مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کو ابن حی اور اس کے ساتھیوں سے تحذیر (خبردار) کرتے تھے‘‘۔
فرماتے ہیں وہ سب تلوار کی رائے رکھتے تھے۔
ابو صالح الفراء فرماتے ہیں: میں نے یوسف بن اسباط کو وکیع سے مروی کوئی چیز فتنوں سے متعلق ذکر کی، تو انہوں نے فرمایا:
یہ اپنے استاد کی ہی طرح ہے یعنی الحسن بن حی کے، میں نے یوسف سے فرمایا: کیا تم نہيں ڈرتے کہ یہ غیبت ہوسکتی ہے؟ انہوں نے فرمایا: کیوں، اے احمق؟! میں ان کے لیے ان کے ماں باپ سے بڑھ کر بہتر ہوں کہ میں لوگوں کو منع کرتا ہوں کہ وہ اس پر عمل پیرا ہوں جو انہوں نے بدعات ایجاد کیں تو ان سب کے بوجھ ان کے سر ہوجائيں گے۔۔۔جو ان کے لیے زیادہ نقصان کی بات ہے۔
عبداللہ بن احمد بن حنبل فرماتے ہیں، ابو معمر فرماتے ہيں کہ:
’’ ہم وکیع کے پاس تھے پس جب کبھی وہ حسن بن صالح کی حدیث بیان کرتے ہم اپنے ہاتھوں کو روک دیتے اور نہيں لکھتے، انہوں نے دریافت کیا کہ کیا وجہ ہے کہ تم لوگ حسن کی حدیث نہيں لکھتے؟ تو ان کو میرے بھائی نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہ تلوار کی رائے رکھتے ہیں، تو امام وکیع خاموش ہوگئے‘‘۔
ابو اسامہ فرماتے ہیں:
’’میں حسن بن صالح کے پاس آیا تو اس کے ساتھی لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ۔۔۔ کہنے لگے! میں نے فرمایا، کیا ہوا ہے، کیا میں کافر ہوچکا ہوں؟! انہوں نے فرمایا: نہیں، لیکن یہ آپ سے مالک بن مغول اور زائدہ کی صحبت اختیار کرنے کا انتقام لے رہے ہيں۔ میں نے فرمایا: کیا تم بھی یہی فرماتے ہو؟ میں کبھی بھی تمہارے پاس نہیں بیٹھوں گا‘‘۔
زائدہ فرماتے تھے کہ:
’’وہ ایک زمانے سے اپنی غلط رائے پر ہٹ دہرمی کے ساتھ چمٹا ہوا ہے‘‘۔
بلکہ خلف بن تمیم فرماتے ہیں:
زائدہ تو ا س شخص کو توبہ کرواتے جو حسن بن صالح کے پاس سے آیا ہو۔
اور جن محدثین نے ان سے حدیث روایت کرنا تک چھوڑ دی تھی ان کے نام بھی ’’سیر اعلام ‘‘ میں ان کے ترجمے (سوانح) میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
الخریبی فرماتے ہیں کہ :
’’اصحاب الحدیث نے جو کچھ اس کی مذمت کی ہے اس نے اس کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے، اس کی کوئی وقعت نہ رہی‘‘۔
اور فرماتے کہ :
’’وہ اپنی رائے پر گھمنڈ کرتا اور خود پسندی کا شکار تھا، اور ایسا شخص تو احمق ہی ہوتا ہے‘‘۔
زبانی خروج تو کجاوہ زبان کے متعلق کہتا جیسا کہ ابو نعیم نے روایت کیا کہ میں نے الحسن بن صالح کو فرماتے سنا:
’’میں نے ورع کو کھوجا تو زبان سے کم کسی چیز میں اسے نہيں پایا‘‘۔
ابو نعیم فرماتے ہیں:
’’میں نے آٹھ سو محدثین سے لکھا ہے لیکن الحسن بن صالح سے افضل کسی کو نہيں
آخر ان کا ایسا کون سا قصور تھا جس کی وجہ سے آئمہ سلف نے ان کے ساتھ یہ سلوک کیا اور آجکل جو موازنات کا منہج اپنایا جاتا ہے اسے بروئے کار نہیں لائے کہ اس کی نیکیاں، علم، عبادت و تقویٰ پر بھی نظر کرتے؟! اور ان کے غلط منہج ونظریہ کے شدت کے ساتھ رد کو یہ کہہ کر نہیں نظرانداز کیا کہ ہم شخصیات پر کلام اور ان کو مسخ نہيں کرتے وغیرہ۔
اس کا جرم یہ تھا کہ وہ اپنے زمانے کے ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کی بس رائے رکھتا تھا، نہ خود باقاعدہ خروج کیا، نہ ہی اپنے قول کو نشر کرتا تھا، نہ لوگوں کو خروج پر ابھارتا تھا، بس یہ رائے رکھتا تھا۔
محمد بن غیلان روایت کرتے ہیں ابو نعیم سے فرمایا: الحسن بن صالح کا الثوری کے سامنے ذکر ہوا تو فرمایا:
’’یہ شخص امت محمدیہ پر تلوار کی رائے رکھتا ہے‘‘ (یعنی حکام پر خروج کی)۔
یوسف بن اسباط نے فرمایا:
’’الحسن تلوار کی رائے رکھتا تھا‘‘۔
اس کے خشوع تک سے وہ دھوکہ نہیں کھاتے تھے اسی لیے ابو سعید الاشج فرماتے ہيں میں نے ابن ادریس سے سنا کہ ان کے سامنے الحسن بن صالح کی بیہوشی کا ذکر کیا گیا تو وہ فرمانے لگے:
’’امام سفیان " کی صرف مسکراہٹ ہی ہمیں الحسن کی اس بیہوشی سے زیادہ محبوب ہے‘‘۔
ابن نعیم فرماتے ہيں جمعہ کے روز جب مسجد کے دروازے سے الثوری داخل ہوئے تو حسن بن صالح کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، اس پر انہوں نے بے ساختہ فرمایا:
’’اللہ کی پناہ! اس منافقانہ خشوع سے‘‘۔
پس اپنے جوتے اٹھائے اور دوسرے ستون کے پاس چلے گئے۔
الذہبی فرماتے ہیں کہ :
’’وہ جمعہ تک نہيں پڑھتا تھا، ظالم آئمہ وحکام کے پیچھے وہ جمعہ پڑھنے کا قائل نہیں تھا‘‘۔
امام سفیان الثوری فرماتے ہيں کہ :
’’الحسن بن صالح نے جو کچھ علم میں سے سماع کیا اور اس کو سمجھا بھی، اس کے باوجود وہ جمعہ ترک کرتا تھا!‘‘۔
پھر یہ کہہ کر وہ کھڑے ہوئے اور چل دیے۔
اسی طرح ابن ادریس فرماتے ہیں:
’’میرا ابن حی سے کیا تعلق؟! وہ تو جمعہ وجہاد تک نہیں مانتا (یعنی ظالم حکام کے ساتھ مل کر)‘‘۔
جب حفص بن غیاث نے فرمایا کہ یہ لوگ تلوار کی رائے رکھتے ہیں، یعنی ابن حی اور اس کے ساتھی۔ اس پر بشر بن الحارث فرماتے ہیں:
مجھے اپنے زمانے والوں میں سے کوئی دکھاؤ جو تلوار کی رائے نہ رکھتا ہو، سب ہی رکھتے ہیں سوائے بہت قلیل علماء کے، اور وہ ان کے پیچھے نماز کے بھی قائل نہيں۔ پھر آپ نے فرمایا:
’’امام زائدہ ابن قدامہ رحمہ اللہ مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کو ابن حی اور اس کے ساتھیوں سے تحذیر (خبردار) کرتے تھے‘‘۔
فرماتے ہیں وہ سب تلوار کی رائے رکھتے تھے۔
ابو صالح الفراء فرماتے ہیں: میں نے یوسف بن اسباط کو وکیع سے مروی کوئی چیز فتنوں سے متعلق ذکر کی، تو انہوں نے فرمایا:
یہ اپنے استاد کی ہی طرح ہے یعنی الحسن بن حی کے، میں نے یوسف سے فرمایا: کیا تم نہيں ڈرتے کہ یہ غیبت ہوسکتی ہے؟ انہوں نے فرمایا: کیوں، اے احمق؟! میں ان کے لیے ان کے ماں باپ سے بڑھ کر بہتر ہوں کہ میں لوگوں کو منع کرتا ہوں کہ وہ اس پر عمل پیرا ہوں جو انہوں نے بدعات ایجاد کیں تو ان سب کے بوجھ ان کے سر ہوجائيں گے۔۔۔جو ان کے لیے زیادہ نقصان کی بات ہے۔
عبداللہ بن احمد بن حنبل فرماتے ہیں، ابو معمر فرماتے ہيں کہ:
’’ ہم وکیع کے پاس تھے پس جب کبھی وہ حسن بن صالح کی حدیث بیان کرتے ہم اپنے ہاتھوں کو روک دیتے اور نہيں لکھتے، انہوں نے دریافت کیا کہ کیا وجہ ہے کہ تم لوگ حسن کی حدیث نہيں لکھتے؟ تو ان کو میرے بھائی نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہ تلوار کی رائے رکھتے ہیں، تو امام وکیع خاموش ہوگئے‘‘۔
ابو اسامہ فرماتے ہیں:
’’میں حسن بن صالح کے پاس آیا تو اس کے ساتھی لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ۔۔۔ کہنے لگے! میں نے فرمایا، کیا ہوا ہے، کیا میں کافر ہوچکا ہوں؟! انہوں نے فرمایا: نہیں، لیکن یہ آپ سے مالک بن مغول اور زائدہ کی صحبت اختیار کرنے کا انتقام لے رہے ہيں۔ میں نے فرمایا: کیا تم بھی یہی فرماتے ہو؟ میں کبھی بھی تمہارے پاس نہیں بیٹھوں گا‘‘۔
زائدہ فرماتے تھے کہ:
’’وہ ایک زمانے سے اپنی غلط رائے پر ہٹ دہرمی کے ساتھ چمٹا ہوا ہے‘‘۔
بلکہ خلف بن تمیم فرماتے ہیں:
زائدہ تو ا س شخص کو توبہ کرواتے جو حسن بن صالح کے پاس سے آیا ہو۔
اور جن محدثین نے ان سے حدیث روایت کرنا تک چھوڑ دی تھی ان کے نام بھی ’’سیر اعلام ‘‘ میں ان کے ترجمے (سوانح) میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
الخریبی فرماتے ہیں کہ :
’’اصحاب الحدیث نے جو کچھ اس کی مذمت کی ہے اس نے اس کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے، اس کی کوئی وقعت نہ رہی‘‘۔
اور فرماتے کہ :
’’وہ اپنی رائے پر گھمنڈ کرتا اور خود پسندی کا شکار تھا، اور ایسا شخص تو احمق ہی ہوتا ہے‘‘۔
زبانی خروج تو کجاوہ زبان کے متعلق کہتا جیسا کہ ابو نعیم نے روایت کیا کہ میں نے الحسن بن صالح کو فرماتے سنا:
’’میں نے ورع کو کھوجا تو زبان سے کم کسی چیز میں اسے نہيں پایا‘‘۔
ابو نعیم فرماتے ہیں:
’’میں نے آٹھ سو محدثین سے لکھا ہے لیکن الحسن بن صالح سے افضل کسی کو نہيں
گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے آر پار ہوجاتا ہے)۔
[1] صحیح مسلم 1066۔
[2] صحیح بخاری 3610، صحیح مسلم 1065۔
[1] صحیح مسلم 1066۔
[2] صحیح بخاری 3610، صحیح مسلم 1065۔
پایا ہے‘‘۔
وکیع فرماتے ہیں: حسن بن صالح میرے نزدیک امام ہیں۔ تو ان سے فرمایا گیا: وہ تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر ترحم (رحم کے کلمات ادا) نہيں کرتے، تو انہوں نے جواب میں فرمایا: تو کیا تم الحجاج پر ترحم کرتے ہو؟
الذہبی اس پر لکھتے ہیں کہ:
’’اللہ تعالی اس مثال میں برکت نہ دے۔ ان کی مراد یہ ہے کہ ترحم کو ترک کرنا گویا کہ سکوت ہے اور ساکت کی طرف کوئی قول منسوب نہيں کیا جاسکتا۔ لیکن میں یہ کہتا ہوں جو شہید امیر المؤمنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ جیسے پر ترحم کرنے سے سکوت اختیار کرے تو یقیناً اس میں تشیع کے کچھ اثرات پائے جاتے ہیں۔ اور جو ان کے بغض اور تنقیص شان میں باقاعدہ کلام کرے تو وہ کٹر شیعہ ہے جس کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی، اور اگر اس کی مذمت شیخین (سیدنا ابوبکر وعمررضی اللہ عنہما) تک پہنچ جاتی ہے تو وہ رافضی خبیث ہے، اسی طرح سے جو امام علی رضی اللہ عنہ کی مذمت کرنے کے درپے ہو تو وہ ناصبی ہے جس کے خلاف تعزیری کارروائی کی جائے، اور اگر وہ ان کی تکفیر کرتا ہے تو پھر وہ خارجی مارق ہے، بلکہ ہمارا راستہ ومنہج یہ ہے کہ ہم تمام صحابہ کے لیے مغفرت کی دعاء کرتے ہیں اور ان سے محبت کرتے ہیں، اور جو کچھ مشاجرات ان کے مابین ہوئے اس پر کلام سے اپنے آپ کو روک رکھتے ہيں‘‘۔
اسی طرح ایک روایت کے مطابق ان کے بھائی کی موت کے وقت جبرئیل علیہ الصلاۃ والسلام نے آکر خبر دی کہ آپ لوگ ان لوگوں میں سے ہیں جن پر انعام ہوا!
بہرحال امام الذہبی یہ نقل کرکے فرماتے ہیں:
’’الحسن اپنے زمانے کے حکمرانوں کے خلاف ان کے ظلم وجور کی وجہ سے خروج کی رائے رکھتا تھا، لیکن کبھی لڑا نہيں، اسی طرح سے فاسق کے پیچھے جمعہ کا بھی قائل نہيں تھا‘‘۔
عبداللہ بن داود الخریبی فرماتے ہیں:
’’الحسن بن صالح جمعہ ترک کرتا تھا، تو فلاں آیا اور رات سے صبح تک ان سے مناظرہ کیا، مگر الحسن اسی مؤقف پر گیا کہ ان کے ساتھ جمعہ ترک کرنا ہے اور ان پر خروج جائز ہے۔ اور یہ بات الحسن بن صالح کے بارے میں مشہور ہے، بس اللہ تعالی نے اس کے دین وعبادت کی وجہ سے شاید اسے اس بات سے محفوظ رکھا کہ پکڑا جائے اور قتل کردیا جائے‘‘۔
لیکن آئمہ سلف کی شدید جرح سے وہ محفوظ نہ رہا۔ لہذا کسی کا محدث ہونا، وسیع علم رکھنا، تقوی زہد وعبادت میں ممتاز ہونا آپ کو دھوکے میں نہ ڈالے کہ وہ خارجی تکفیری ذہنیت نہيں رکھ سکتا، یا لازما وہ سلفی عقیدہ ومنہج رکھتا ہوگا، بلکہ یہ زندہ مثال یہاں بیان ہوئی کہ کس طرح اس کے صرف حکام کے خلاف تلوار کی رائے رکھنے کی بنا پر اس پر شدید جرح سلف نے فرمائی۔ اس کی علم میں امامت کے باوجود یہ فرمادیا: امام الذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’هُوَ مِنْ أَئِمَّةِ الْإِسْلَامِ، لَوْلَا تَلَبُّسُهُ بِبِدْعَةٍ‘‘
(آپ آئمہ اسلام میں سے ہوتے اگر وہ اس بدعت (حکمران کے خلاف خروج کو جائز سمجھنا) میں ملوث نہ ہوتے)۔
اور یہ بات خود خوارج سے متعلق احادیث سے بھی ثابت ہے کہ ان کا زہد وتقویٰ اور عبادت بہت زیادہ ہوگی لیکن ان کے اس عقدی ومنہجی بگاڑ کی وجہ سے ان کی سخت ترین تردید احادیث میں موجود ہے اور قتل کردینے کا حکم اور اس کے فضائل بیان ہوئے ہيں۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ:
’’سَيَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ، سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ، يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ، فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أَجْرًا لِمَنْ قَتَلَهُمْ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ‘‘([1])
(آخری زمانے میں ایسی قوم ظاہر ہوگی جو کم سن وکم عقل ہوں گے۔ سب سے بہترین کلام سےبات کریں گے (یعنی قرآن وحدیث کی)۔ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر ہدف (شکار) سے نکل جاتا ہے۔ اگر تم انہیں پاؤ تو قتل کردو کیونکہ بلاشبہ ان کے قتل کرنے پر اللہ تعالی کے یہاں بروزقیامت اجر ہے اس شخص کے لیے جو انہیں قتل کرے)۔
اور جب ذوالخویصرہ التمیمی خارجی نے نبی رحمت e کی مال غنیمت کی تقسیم پر اعتراض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت اس کی گردن اڑانے سے روکتے ہوئے یہی صفات بیان فرمائيں کہ:
’’دَعْهُ فَإِنَّ لَهُ أَصْحَابًا يَحْقِرُ أَحَدُكُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ‘‘([2])
(اسے چھوڑ دو کیونکہ اس کی ایسے ساتھی ہوا کریں گے کہ جن کی نماز کے سامنے تم اپنی نمازوں کو ہیچ تصور کروں گے ، اور ان کے روزوں کے مقابلے میں اپنے روزوں کو کم تر محسوس کروگے۔ وہ (باکثرت) قرآن تلاوت تو کیا کریں
وکیع فرماتے ہیں: حسن بن صالح میرے نزدیک امام ہیں۔ تو ان سے فرمایا گیا: وہ تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر ترحم (رحم کے کلمات ادا) نہيں کرتے، تو انہوں نے جواب میں فرمایا: تو کیا تم الحجاج پر ترحم کرتے ہو؟
الذہبی اس پر لکھتے ہیں کہ:
’’اللہ تعالی اس مثال میں برکت نہ دے۔ ان کی مراد یہ ہے کہ ترحم کو ترک کرنا گویا کہ سکوت ہے اور ساکت کی طرف کوئی قول منسوب نہيں کیا جاسکتا۔ لیکن میں یہ کہتا ہوں جو شہید امیر المؤمنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ جیسے پر ترحم کرنے سے سکوت اختیار کرے تو یقیناً اس میں تشیع کے کچھ اثرات پائے جاتے ہیں۔ اور جو ان کے بغض اور تنقیص شان میں باقاعدہ کلام کرے تو وہ کٹر شیعہ ہے جس کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی، اور اگر اس کی مذمت شیخین (سیدنا ابوبکر وعمررضی اللہ عنہما) تک پہنچ جاتی ہے تو وہ رافضی خبیث ہے، اسی طرح سے جو امام علی رضی اللہ عنہ کی مذمت کرنے کے درپے ہو تو وہ ناصبی ہے جس کے خلاف تعزیری کارروائی کی جائے، اور اگر وہ ان کی تکفیر کرتا ہے تو پھر وہ خارجی مارق ہے، بلکہ ہمارا راستہ ومنہج یہ ہے کہ ہم تمام صحابہ کے لیے مغفرت کی دعاء کرتے ہیں اور ان سے محبت کرتے ہیں، اور جو کچھ مشاجرات ان کے مابین ہوئے اس پر کلام سے اپنے آپ کو روک رکھتے ہيں‘‘۔
اسی طرح ایک روایت کے مطابق ان کے بھائی کی موت کے وقت جبرئیل علیہ الصلاۃ والسلام نے آکر خبر دی کہ آپ لوگ ان لوگوں میں سے ہیں جن پر انعام ہوا!
بہرحال امام الذہبی یہ نقل کرکے فرماتے ہیں:
’’الحسن اپنے زمانے کے حکمرانوں کے خلاف ان کے ظلم وجور کی وجہ سے خروج کی رائے رکھتا تھا، لیکن کبھی لڑا نہيں، اسی طرح سے فاسق کے پیچھے جمعہ کا بھی قائل نہيں تھا‘‘۔
عبداللہ بن داود الخریبی فرماتے ہیں:
’’الحسن بن صالح جمعہ ترک کرتا تھا، تو فلاں آیا اور رات سے صبح تک ان سے مناظرہ کیا، مگر الحسن اسی مؤقف پر گیا کہ ان کے ساتھ جمعہ ترک کرنا ہے اور ان پر خروج جائز ہے۔ اور یہ بات الحسن بن صالح کے بارے میں مشہور ہے، بس اللہ تعالی نے اس کے دین وعبادت کی وجہ سے شاید اسے اس بات سے محفوظ رکھا کہ پکڑا جائے اور قتل کردیا جائے‘‘۔
لیکن آئمہ سلف کی شدید جرح سے وہ محفوظ نہ رہا۔ لہذا کسی کا محدث ہونا، وسیع علم رکھنا، تقوی زہد وعبادت میں ممتاز ہونا آپ کو دھوکے میں نہ ڈالے کہ وہ خارجی تکفیری ذہنیت نہيں رکھ سکتا، یا لازما وہ سلفی عقیدہ ومنہج رکھتا ہوگا، بلکہ یہ زندہ مثال یہاں بیان ہوئی کہ کس طرح اس کے صرف حکام کے خلاف تلوار کی رائے رکھنے کی بنا پر اس پر شدید جرح سلف نے فرمائی۔ اس کی علم میں امامت کے باوجود یہ فرمادیا: امام الذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’هُوَ مِنْ أَئِمَّةِ الْإِسْلَامِ، لَوْلَا تَلَبُّسُهُ بِبِدْعَةٍ‘‘
(آپ آئمہ اسلام میں سے ہوتے اگر وہ اس بدعت (حکمران کے خلاف خروج کو جائز سمجھنا) میں ملوث نہ ہوتے)۔
اور یہ بات خود خوارج سے متعلق احادیث سے بھی ثابت ہے کہ ان کا زہد وتقویٰ اور عبادت بہت زیادہ ہوگی لیکن ان کے اس عقدی ومنہجی بگاڑ کی وجہ سے ان کی سخت ترین تردید احادیث میں موجود ہے اور قتل کردینے کا حکم اور اس کے فضائل بیان ہوئے ہيں۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ:
’’سَيَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ، سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ، يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ، فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أَجْرًا لِمَنْ قَتَلَهُمْ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ‘‘([1])
(آخری زمانے میں ایسی قوم ظاہر ہوگی جو کم سن وکم عقل ہوں گے۔ سب سے بہترین کلام سےبات کریں گے (یعنی قرآن وحدیث کی)۔ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر ہدف (شکار) سے نکل جاتا ہے۔ اگر تم انہیں پاؤ تو قتل کردو کیونکہ بلاشبہ ان کے قتل کرنے پر اللہ تعالی کے یہاں بروزقیامت اجر ہے اس شخص کے لیے جو انہیں قتل کرے)۔
اور جب ذوالخویصرہ التمیمی خارجی نے نبی رحمت e کی مال غنیمت کی تقسیم پر اعتراض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت اس کی گردن اڑانے سے روکتے ہوئے یہی صفات بیان فرمائيں کہ:
’’دَعْهُ فَإِنَّ لَهُ أَصْحَابًا يَحْقِرُ أَحَدُكُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ‘‘([2])
(اسے چھوڑ دو کیونکہ اس کی ایسے ساتھی ہوا کریں گے کہ جن کی نماز کے سامنے تم اپنی نمازوں کو ہیچ تصور کروں گے ، اور ان کے روزوں کے مقابلے میں اپنے روزوں کو کم تر محسوس کروگے۔ وہ (باکثرت) قرآن تلاوت تو کیا کریں
[Urdu Article] Is being an Aalim, Muhaddith and Mufassir proof enough for someone bearing the correct Aqeedah and Manhaj? – Shaykh Saaleh bin Abdul Azeez Aal-Shaykh
کیا کسی کا عالم، محدث ومفسر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا عقیدہ ومنہج درست ہے؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ حفظہ اللہ
(وزیر مذہبی امور، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شرح كشف الشبهات.
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/05/alim_daleel_aqeedah_mnhj_saheeh.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ ’’کشف الشبھات‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’یہ بھی عین ممکن ہے کہ دشمنان توحید کے پاس بہت سے علوم، کتب اور حجتیں ہوں۔۔۔‘‘۔
شیخ صالح آل الشیخ حفظہ اللہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ:
ان کشف الشبہات (شبہات کے ازالے) کی راہ میں جو علماء ِمشرکین دلوں میں ڈالتے ہیں یہ بہت اہم مقدمہ ہے ۔ پس جو توحید کے دشمن ہیں خصوصا ًاس امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے جنہيں علماء میں شمار کیا جاتا ہے جو اس امت میں آئے۔ چناچہ یہ تصور نہ کیا جائے کہ توحید کا دشمن بالکل ہی علم سے کورا ہوتا ہے ، نہ ہی تصور کیا جائے کہ توحید کا دشمن فقیہ نہيں ہوسکتا، یا محّدث نہيں ہوسکتا، یا مفسر ِقرآن نہیں ہوسکتا، یا تاریخ دان نہيں ہوسکتا، بلکہ ہوسکتا ہے وہ ان بہت سے فنون میں سے کسی فن میں یا بہت سے فنون میں بہت نمایاں مقام رکھتاہو۔ جیسا کہ ان لوگوں کا حال تھا جنہوں نے اس دعوت کے امام رحمہ اللہ پر رد کیے۔ کیونکہ بلاشبہ وہ اس مرتبے کے لوگ تھے کہ لوگ انگلیوں سے ان کی جانب اشارہ کرتے تھےان علوم کی نسبت سے جن میں ان کا تخصص تھا۔ ان میں سے بعض ایسے تھے جو فقیہ تھے، بعض ایسے تھے جو تاریخ دان تھے۔ اور یہی حال ان لوگوں کا بھی تھا جن پر آئمہ دعوت نے رد فرمایا۔ لہذا یہ تصور نہ کیا جائے کہ توحید کا دشمن کوئی عالم نہیں ہوگایا نہیں ہوسکتا۔
یہ شبہہ گمراہ قسم کے لوگ عوام کے دلوں میں ڈالتے ہیں ، پس وہ ایک عالم کا دوسرے عالم پر اعتراض کرنے کو اس بات کی دلیل بناتے ہیں کہ دونوں مذاہب (یا مواقف) ہی درست ہيں اور اس کا معنی میں وسعت ہیں۔ اسی لیے ان میں سے بعض توحید کے مسائل تک کے بارے میں کہتے ہیں کہ: یہ دوسرے قول سے زیادہ صحیح ہے یا علماء کرام کے دو اقوال میں سے صحیح تر قول کے مطابق ایسا ایسا ہے۔ حالانکہ توحید کے مسائل میں ایسا کہنا بالکل بھی جائز نہیں ۔ کیونکہ جو توحید کے مسائل میں بھی مخالفت کررہا ہو وہ علماء توحید میں سے نہیں ہوسکتا، نہ ہی ان علماء اہل سنت میں سے ہوسکتا ہے جن کی طرف کوئی قول منسوب کرنا درست ہوا کرتا ہے، یا اختلاف کی صورت میں ان کے قول کو بھی لیا جاتا ہے، بلکہ توحید کا معاملہ تو ایسا ہے کہ اس پر کتاب وسنت اور اجماع سلف سے کثیر دلائل دلالت کرتے ہیں ، اور آئمہ کرام نے بھی اسے بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ اب جو کوئی بھی اس کی مخالفت کرتا ہے تو اگرچہ وہ کبار علماء میں سے ہو فقہ میں یا تاریخ میں یا حدیث میں یا اس کے علاوہ کسی چیز میں تو اس کی مخالفت اس کی ذات تک ہی ہے، یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس مسئلے میں (اصل میں کوئی) اختلاف ہے۔
لہذا اس بارے میں متنبہ رہا جائے کہ کہ بلاشبہ مشرکین کے علماء میں سے جو توحید کے دشمن ہیں ان کا حال یہ نہيں ہوتا کہ وہ عالم نہ ہوں، بلکہ ہوسکتا ہے وہ عالم ہو بلکہ فنون میں سے کسی فن میں امام ہو، تفسیر میں امام ہو، فقہ میں امام ہو، یا قضاء وفیصلوں کے لیے وہ لوگوں کا مرجع ہو، یا اس جیسے رتبے کے ہوں جیسا کہ اس دعوت کے دشمنان جنہوں نے شیخ رحمہ اللہ کی مخالفت کی اور اس دعوت کی مخالفت کی۔
یا جیسا کہ متاخرین کا حال ہے مثال کے طور پر داود بن جرجیس تو یہ بہت وسیع علم رکھنے والاشخص ہے، لیکن وہ علماء مشرکین میں سے ہے۔ یا جیسا حال ہے محمد بن حمید الشرقی مصنف کتاب ’’السحب الوابلة على ضرائح الحنابلة‘‘ کا، وہ بھی توحید کے دشمنوں میں سے تھا۔ تو اس نے مشایخ کرام پر رد لکھا اس بات پر کہ انہوں نے بوصیری کے مشہور ومعروف قصیدے المیمہ([1]) کا رد کیا تھا، تو اس نے ان کا رد کیا اور ثابت کرنا چاہا کہ اسے شرک کہنا باطل ہے، اور جو کچھ بوصیری نے کہا اس کا آخر تک اقرار کیا اور صحیح ثابت کیا۔ اور شیخ عبدالرحمن بن حسن مصنف ’’فتح المجید‘‘ جو کہ مجدد ثانی تھے کا ایک رسالہ بھی موجود ہے جس میں اس کتاب کے مصنف پر انہوں نے رد فرمایا ہے، حالانکہ وہ فقہ میں بہت نمایاں مقام رکھتا تھا، اور تفسیر وسوانح نگاری اور آخر تک جو علوم ہیں ان کے تعلق سے اس کی طرف انگلیوں سے اشارے کیے جاتے تھے۔۔۔ لیکن وہ درحقیقت علماء مشرکین میں سے اوردشمنان توحید میں سے تھا۔ کیونکہ یہ شرک کا دفاع اور پشت پناہی کرتے ہیں اور اہل توحید کا رد کرتے ہيں، اور لوگوں کو توحید وشرک کی تعریف کے بارے میں، اور کس چیز سے ایک مسلمان مشرک ومرتد ہوجاتا ہے اس تعلق سے گمراہ کرت
کیا کسی کا عالم، محدث ومفسر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا عقیدہ ومنہج درست ہے؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ حفظہ اللہ
(وزیر مذہبی امور، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شرح كشف الشبهات.
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/05/alim_daleel_aqeedah_mnhj_saheeh.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ ’’کشف الشبھات‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’یہ بھی عین ممکن ہے کہ دشمنان توحید کے پاس بہت سے علوم، کتب اور حجتیں ہوں۔۔۔‘‘۔
شیخ صالح آل الشیخ حفظہ اللہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ:
ان کشف الشبہات (شبہات کے ازالے) کی راہ میں جو علماء ِمشرکین دلوں میں ڈالتے ہیں یہ بہت اہم مقدمہ ہے ۔ پس جو توحید کے دشمن ہیں خصوصا ًاس امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے جنہيں علماء میں شمار کیا جاتا ہے جو اس امت میں آئے۔ چناچہ یہ تصور نہ کیا جائے کہ توحید کا دشمن بالکل ہی علم سے کورا ہوتا ہے ، نہ ہی تصور کیا جائے کہ توحید کا دشمن فقیہ نہيں ہوسکتا، یا محّدث نہيں ہوسکتا، یا مفسر ِقرآن نہیں ہوسکتا، یا تاریخ دان نہيں ہوسکتا، بلکہ ہوسکتا ہے وہ ان بہت سے فنون میں سے کسی فن میں یا بہت سے فنون میں بہت نمایاں مقام رکھتاہو۔ جیسا کہ ان لوگوں کا حال تھا جنہوں نے اس دعوت کے امام رحمہ اللہ پر رد کیے۔ کیونکہ بلاشبہ وہ اس مرتبے کے لوگ تھے کہ لوگ انگلیوں سے ان کی جانب اشارہ کرتے تھےان علوم کی نسبت سے جن میں ان کا تخصص تھا۔ ان میں سے بعض ایسے تھے جو فقیہ تھے، بعض ایسے تھے جو تاریخ دان تھے۔ اور یہی حال ان لوگوں کا بھی تھا جن پر آئمہ دعوت نے رد فرمایا۔ لہذا یہ تصور نہ کیا جائے کہ توحید کا دشمن کوئی عالم نہیں ہوگایا نہیں ہوسکتا۔
یہ شبہہ گمراہ قسم کے لوگ عوام کے دلوں میں ڈالتے ہیں ، پس وہ ایک عالم کا دوسرے عالم پر اعتراض کرنے کو اس بات کی دلیل بناتے ہیں کہ دونوں مذاہب (یا مواقف) ہی درست ہيں اور اس کا معنی میں وسعت ہیں۔ اسی لیے ان میں سے بعض توحید کے مسائل تک کے بارے میں کہتے ہیں کہ: یہ دوسرے قول سے زیادہ صحیح ہے یا علماء کرام کے دو اقوال میں سے صحیح تر قول کے مطابق ایسا ایسا ہے۔ حالانکہ توحید کے مسائل میں ایسا کہنا بالکل بھی جائز نہیں ۔ کیونکہ جو توحید کے مسائل میں بھی مخالفت کررہا ہو وہ علماء توحید میں سے نہیں ہوسکتا، نہ ہی ان علماء اہل سنت میں سے ہوسکتا ہے جن کی طرف کوئی قول منسوب کرنا درست ہوا کرتا ہے، یا اختلاف کی صورت میں ان کے قول کو بھی لیا جاتا ہے، بلکہ توحید کا معاملہ تو ایسا ہے کہ اس پر کتاب وسنت اور اجماع سلف سے کثیر دلائل دلالت کرتے ہیں ، اور آئمہ کرام نے بھی اسے بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ اب جو کوئی بھی اس کی مخالفت کرتا ہے تو اگرچہ وہ کبار علماء میں سے ہو فقہ میں یا تاریخ میں یا حدیث میں یا اس کے علاوہ کسی چیز میں تو اس کی مخالفت اس کی ذات تک ہی ہے، یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس مسئلے میں (اصل میں کوئی) اختلاف ہے۔
لہذا اس بارے میں متنبہ رہا جائے کہ کہ بلاشبہ مشرکین کے علماء میں سے جو توحید کے دشمن ہیں ان کا حال یہ نہيں ہوتا کہ وہ عالم نہ ہوں، بلکہ ہوسکتا ہے وہ عالم ہو بلکہ فنون میں سے کسی فن میں امام ہو، تفسیر میں امام ہو، فقہ میں امام ہو، یا قضاء وفیصلوں کے لیے وہ لوگوں کا مرجع ہو، یا اس جیسے رتبے کے ہوں جیسا کہ اس دعوت کے دشمنان جنہوں نے شیخ رحمہ اللہ کی مخالفت کی اور اس دعوت کی مخالفت کی۔
یا جیسا کہ متاخرین کا حال ہے مثال کے طور پر داود بن جرجیس تو یہ بہت وسیع علم رکھنے والاشخص ہے، لیکن وہ علماء مشرکین میں سے ہے۔ یا جیسا حال ہے محمد بن حمید الشرقی مصنف کتاب ’’السحب الوابلة على ضرائح الحنابلة‘‘ کا، وہ بھی توحید کے دشمنوں میں سے تھا۔ تو اس نے مشایخ کرام پر رد لکھا اس بات پر کہ انہوں نے بوصیری کے مشہور ومعروف قصیدے المیمہ([1]) کا رد کیا تھا، تو اس نے ان کا رد کیا اور ثابت کرنا چاہا کہ اسے شرک کہنا باطل ہے، اور جو کچھ بوصیری نے کہا اس کا آخر تک اقرار کیا اور صحیح ثابت کیا۔ اور شیخ عبدالرحمن بن حسن مصنف ’’فتح المجید‘‘ جو کہ مجدد ثانی تھے کا ایک رسالہ بھی موجود ہے جس میں اس کتاب کے مصنف پر انہوں نے رد فرمایا ہے، حالانکہ وہ فقہ میں بہت نمایاں مقام رکھتا تھا، اور تفسیر وسوانح نگاری اور آخر تک جو علوم ہیں ان کے تعلق سے اس کی طرف انگلیوں سے اشارے کیے جاتے تھے۔۔۔ لیکن وہ درحقیقت علماء مشرکین میں سے اوردشمنان توحید میں سے تھا۔ کیونکہ یہ شرک کا دفاع اور پشت پناہی کرتے ہیں اور اہل توحید کا رد کرتے ہيں، اور لوگوں کو توحید وشرک کی تعریف کے بارے میں، اور کس چیز سے ایک مسلمان مشرک ومرتد ہوجاتا ہے اس تعلق سے گمراہ کرت
ے ہیں، چناچہ اس بارے میں وہ لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔
چناچہ یہ مقدمہ اپنی جگہ بہت اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ: یہ گمان نہ کیا جائے کہ اس پائے کے علماء جن کی جانب انگلیوں سے اشارہ کیا جاتا ہے وہ مشرکین نہیں ہوسکتے، بلکہ شیخ رحمہ اللہ کے دور میں اور اس کے بعد بھی ایسے علماء پائے جاتے تھے جن کی جانب اشارہ کیاجاتا، لیکن وہ مشرکین تھے جیساکہ شافعیہ کے مفتی بھی جو مکہ میں تھے احمد بن زینی دحلان اور ان جیسے لوگ۔ چناچہ لوگ توان کی جانب رجوع کرتے اور فتاویٰ لیتےاوروہ انہیں ان باتوں سے پھیر دیتے۔ لہذا یہ تصور نہ کیا جائے کہ شرک کے واسطے اس کے علماء موجود نہ ہوں گے جو اس کا دفاع کرتے ہوں۔
پس بطور مقدمہ یہ بات سمجھ لیں کہ اس کتاب ’’کشف الشبہات‘‘ میں مسائل میں سے کسی بھی مسئلے کے تعلق سے جب شبہے کا ازالہ کیا جائے گا تو یہ نہ کہیں کہ یہ فلاں عالم نے بھی تو کہا ہے، فلاں امام بھی تو اس کے قائل ہیں، (اگر یہ غلط ہے تو) آخر فلاں امام کیسے یہ کرسکتا ہے۔ اس قسم کا شخص یا تو جاہل ہے جس نے اس مسئلے کو صحیح طور پر ضبط نہيں کیا جیساکہ بعض مشہور علماء جن کا خیر کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے، یا پھر اس نے جانتے بوجھتے عناد واعراض کی راہ اپناتے ہوئے شرک کو خوبصورت بناکر پیش کرنے کے لیے یہ تصنیف کی ہوگی۔ جیسا کہ فخر الدین الرازی نے کیا جو تفسیر ’’مفاتيح الغيب‘‘ کے مصنف ہیں، اس طرح کہ انہوں نے صابئہ (ستارہ پرستوں) کے دین کو خوبصورت بناکر پیش کرنے اور ان کا ستاروں سے مخاطب ہونے کے تعلق سے کتاب لکھی جسے ’’السر المكتوم في مخاطبة النجوم‘‘ کا نام دیا، اس کی وجہ سے اہل علم کی ایک جماعت نے ان کی تکفیر بھی کی([2])۔ تو انہوں نے خوبصورت بناکر پیش کیا ہے کہ وہ کیسے ستاروں سے مخاطب ہوتے ہیں ، کیسے ان سے استغاثہ (فریادیں) کرتے ہیں اور کیسے ان سے بارش طلب کرتے ہیں اور آخر تک جو وہ کرتے ہيں۔۔۔انہوں نے اس بارے میں تصنیف حران کے صابئہ کی ان کاموں کی جانب رہنمائی کے لیے کی، اور یہ بے شک پرلے درجے کی گمراہی ہے۔
لہذا ہرگز بھی یہ نہ کہا جائے جب کوئی بھی شبہہ آئے اور اس کا رد کیا جائے یا اس کا رد آئمہ سنت وتوحید کریں تو یوں نہ کہا جائے کہ فلاں عالم نے پھر اس طرح کیسے کہہ دیا؟! کیسے فلاں عالم کی نسبت سے یہ بات رواج پاسکتی ہے؟! یہ لوگ یا تو جاہل تھے کہ انہوں نے دشمنان توحید کے بارے میں نہ لکھا یا پھر انہوں نے شرک اور اسے خوبصورت بناکر پیش کرنے کے سلسلے میں تصنیف کی۔ یہاں شیخ کی مراد اس قسم کےلوگ ہیں اپنے اس فرمان سے کہ:
’’ہوسکتا ہے دشمنان توحید کے پاس بہت سے علوم، کتب اور حجتیں ہوں‘‘۔
اگر آپ ان کا کلام پڑھیں گے تو کبھی وہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن القیم ; تک سے نقول اور حوالے لے کر آتے ہیں، جیسا کہ داود بن جرجیس نے کیا جب اس نے اپنی کتاب ’’صلح الإخوان‘‘ تصنیف کی، اس میں اس نے شیخ الاسلام اور ابن القیم ; سے نقول پیش کی، ساتھ ہی مفسرین کے اقوال اور بہت سے علماء کے اقوال بھی لے کر آیا ہے۔ یا جیسا کہ فی زمانہ تصنیف کی محمد بن علوی المالکی جیسے لوگوں نے ، اس نے بھی تصنیف کی جس میں یہاں وہاں سے دوسو یا تین سو اقوال پکڑ لے آیا ہےان علماء کے جو اپنی کتب میں ان کی بعض شرکیات اور بعض واسطے وسیلوں اور اس جیسی چیزوں کے اقراری تھے، حالانکہ اصل اعتبار اس کا نہيں کیا جاتا۔
بلکہ قاعدہ یہ ہوتا ہے جس پر ایک توحید پرست کے دونوں قدم جمے رہنے چاہیے کہ: مشرکین کے علماء کے پاس بھی کبھی بہت سا علم اور حجتیں ہوا کرتی ہیں، کیونکہ شرک سبب نہيں بنتا ان سے کلی طور پر علم چھن جانے کا، جیسا کہ اللہ عزوجل کا ان کے اولین لوگوں کے بارے میں فرمان ہے کہ:
﴿فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ﴾ (غافر: 83)
(پھر جب ان کے رسول ان کے پاس واضح دلیلیں لے کر آئے تو وہ اس پر اِترا گئے جو ان کے پاس کچھ علم تھا)
ہوسکتا ہے کبھی یہ علم الہیات کے تعلق سے ہو جیسا کہ وہ کہتے تھے:
﴿اَجَعَلَ الْاٰلِـهَةَ اِلٰــهًا وَّاحِدًا﴾ (ص: 5)
(کیا اس نے تمام معبودوں کو ایک ہی معبود بنا ڈالا)
یہ اعتراض ِشبہہ تھا، اور کہا کہ:
﴿مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى﴾ (الزمر: 3)
(ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لیے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں، خوب اچھی طرح قریب کردیں)
اور کبھی وہ علم فقہیات تک سے متعلق ہوتا ہے، جیسا کہ کہا:
﴿قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ۘ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا﴾ (البقرۃ: 275)
(انہوں نے کہا بیع (تجارت) بھی تو سود ہی کی طرح ہے، حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا)
یا اس جیسی دیگر باتیں۔ پس اس امت کو مخاطب کرنے والے علوم کی جو جنس ہے وہ رسولوں کے دشمنوں کے یہاں بھی تھی، یا تو الہیات کے پہلو سے یا پھر شرعیات کے پہلو سے۔ پس انہوں نے معارضہ اور ٹکراؤ کیا رسولوں سے اس علم کے ساتھ جو ان کے پاس ت
چناچہ یہ مقدمہ اپنی جگہ بہت اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ: یہ گمان نہ کیا جائے کہ اس پائے کے علماء جن کی جانب انگلیوں سے اشارہ کیا جاتا ہے وہ مشرکین نہیں ہوسکتے، بلکہ شیخ رحمہ اللہ کے دور میں اور اس کے بعد بھی ایسے علماء پائے جاتے تھے جن کی جانب اشارہ کیاجاتا، لیکن وہ مشرکین تھے جیساکہ شافعیہ کے مفتی بھی جو مکہ میں تھے احمد بن زینی دحلان اور ان جیسے لوگ۔ چناچہ لوگ توان کی جانب رجوع کرتے اور فتاویٰ لیتےاوروہ انہیں ان باتوں سے پھیر دیتے۔ لہذا یہ تصور نہ کیا جائے کہ شرک کے واسطے اس کے علماء موجود نہ ہوں گے جو اس کا دفاع کرتے ہوں۔
پس بطور مقدمہ یہ بات سمجھ لیں کہ اس کتاب ’’کشف الشبہات‘‘ میں مسائل میں سے کسی بھی مسئلے کے تعلق سے جب شبہے کا ازالہ کیا جائے گا تو یہ نہ کہیں کہ یہ فلاں عالم نے بھی تو کہا ہے، فلاں امام بھی تو اس کے قائل ہیں، (اگر یہ غلط ہے تو) آخر فلاں امام کیسے یہ کرسکتا ہے۔ اس قسم کا شخص یا تو جاہل ہے جس نے اس مسئلے کو صحیح طور پر ضبط نہيں کیا جیساکہ بعض مشہور علماء جن کا خیر کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے، یا پھر اس نے جانتے بوجھتے عناد واعراض کی راہ اپناتے ہوئے شرک کو خوبصورت بناکر پیش کرنے کے لیے یہ تصنیف کی ہوگی۔ جیسا کہ فخر الدین الرازی نے کیا جو تفسیر ’’مفاتيح الغيب‘‘ کے مصنف ہیں، اس طرح کہ انہوں نے صابئہ (ستارہ پرستوں) کے دین کو خوبصورت بناکر پیش کرنے اور ان کا ستاروں سے مخاطب ہونے کے تعلق سے کتاب لکھی جسے ’’السر المكتوم في مخاطبة النجوم‘‘ کا نام دیا، اس کی وجہ سے اہل علم کی ایک جماعت نے ان کی تکفیر بھی کی([2])۔ تو انہوں نے خوبصورت بناکر پیش کیا ہے کہ وہ کیسے ستاروں سے مخاطب ہوتے ہیں ، کیسے ان سے استغاثہ (فریادیں) کرتے ہیں اور کیسے ان سے بارش طلب کرتے ہیں اور آخر تک جو وہ کرتے ہيں۔۔۔انہوں نے اس بارے میں تصنیف حران کے صابئہ کی ان کاموں کی جانب رہنمائی کے لیے کی، اور یہ بے شک پرلے درجے کی گمراہی ہے۔
لہذا ہرگز بھی یہ نہ کہا جائے جب کوئی بھی شبہہ آئے اور اس کا رد کیا جائے یا اس کا رد آئمہ سنت وتوحید کریں تو یوں نہ کہا جائے کہ فلاں عالم نے پھر اس طرح کیسے کہہ دیا؟! کیسے فلاں عالم کی نسبت سے یہ بات رواج پاسکتی ہے؟! یہ لوگ یا تو جاہل تھے کہ انہوں نے دشمنان توحید کے بارے میں نہ لکھا یا پھر انہوں نے شرک اور اسے خوبصورت بناکر پیش کرنے کے سلسلے میں تصنیف کی۔ یہاں شیخ کی مراد اس قسم کےلوگ ہیں اپنے اس فرمان سے کہ:
’’ہوسکتا ہے دشمنان توحید کے پاس بہت سے علوم، کتب اور حجتیں ہوں‘‘۔
اگر آپ ان کا کلام پڑھیں گے تو کبھی وہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن القیم ; تک سے نقول اور حوالے لے کر آتے ہیں، جیسا کہ داود بن جرجیس نے کیا جب اس نے اپنی کتاب ’’صلح الإخوان‘‘ تصنیف کی، اس میں اس نے شیخ الاسلام اور ابن القیم ; سے نقول پیش کی، ساتھ ہی مفسرین کے اقوال اور بہت سے علماء کے اقوال بھی لے کر آیا ہے۔ یا جیسا کہ فی زمانہ تصنیف کی محمد بن علوی المالکی جیسے لوگوں نے ، اس نے بھی تصنیف کی جس میں یہاں وہاں سے دوسو یا تین سو اقوال پکڑ لے آیا ہےان علماء کے جو اپنی کتب میں ان کی بعض شرکیات اور بعض واسطے وسیلوں اور اس جیسی چیزوں کے اقراری تھے، حالانکہ اصل اعتبار اس کا نہيں کیا جاتا۔
بلکہ قاعدہ یہ ہوتا ہے جس پر ایک توحید پرست کے دونوں قدم جمے رہنے چاہیے کہ: مشرکین کے علماء کے پاس بھی کبھی بہت سا علم اور حجتیں ہوا کرتی ہیں، کیونکہ شرک سبب نہيں بنتا ان سے کلی طور پر علم چھن جانے کا، جیسا کہ اللہ عزوجل کا ان کے اولین لوگوں کے بارے میں فرمان ہے کہ:
﴿فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ﴾ (غافر: 83)
(پھر جب ان کے رسول ان کے پاس واضح دلیلیں لے کر آئے تو وہ اس پر اِترا گئے جو ان کے پاس کچھ علم تھا)
ہوسکتا ہے کبھی یہ علم الہیات کے تعلق سے ہو جیسا کہ وہ کہتے تھے:
﴿اَجَعَلَ الْاٰلِـهَةَ اِلٰــهًا وَّاحِدًا﴾ (ص: 5)
(کیا اس نے تمام معبودوں کو ایک ہی معبود بنا ڈالا)
یہ اعتراض ِشبہہ تھا، اور کہا کہ:
﴿مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى﴾ (الزمر: 3)
(ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لیے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں، خوب اچھی طرح قریب کردیں)
اور کبھی وہ علم فقہیات تک سے متعلق ہوتا ہے، جیسا کہ کہا:
﴿قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ۘ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا﴾ (البقرۃ: 275)
(انہوں نے کہا بیع (تجارت) بھی تو سود ہی کی طرح ہے، حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا)
یا اس جیسی دیگر باتیں۔ پس اس امت کو مخاطب کرنے والے علوم کی جو جنس ہے وہ رسولوں کے دشمنوں کے یہاں بھی تھی، یا تو الہیات کے پہلو سے یا پھر شرعیات کے پہلو سے۔ پس انہوں نے معارضہ اور ٹکراؤ کیا رسولوں سے اس علم کے ساتھ جو ان کے پاس ت
ھا۔ بلکہ بلاشبہ اللہ تعالی نے شبہہ کی قوت کے زاویے سے بطور تعظیم ان کے قول کو حجت بھی کہا ، پس فرمایا:
﴿ وَالَّذِيْنَ يُحَاجُّوْنَ فِي اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا اسْتُجِيْبَ لَهٗ حُجَّــتُهُمْ دَاحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ﴾ (الشوریٰ: 16)
(اور جو لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں، اس کے بعد کہ اس کی دعوت قبول کرلی گئی، ان کی دلیل ان کے رب کے نزدیک باطل ہے)
کیا اس شخصیت کی یہ بہت سی کتابیں، فقہیات وسوانح نگاری وتفسیر یا اس جیسی چیزیں اسے ایسا کردیں گی کہ وہ توحید کا دشمن نہيں ہوسکتا اگرچہ وہ توحید کی دشمنی میں لکھتا ہو، شرک کو خوبصورت بنا کر پیش کرنے کے بارے میں لکھتا ہو، اور لوگوں کو اس کی طرف بلاتا ہو؟ جواب اس کا یہی ہے کہ نہيں! بلکہ وہ توحید کا دشمن اور شرک کی نصرت کرنے والا ہی کہلائے گا ، جس کی کوئی قدر واحترام نہيں، اگرچہ اس کی پیشانی پر سجدوں کے نشان ہوں، اگرچہ اس کی تالیفات ان سے بھی بڑھ کر ہوں جو باکثرت تالیفات کرنے میں مشہور تھے جیسے السیوطی وغیرہ۔ لہذا نہ یہ معتبر ہے نہ ہی اس کا کلام۔ کیونکہ یہ علماء توحید میں سے تو نہ ہوا چناچہ اس کے علوم نقصان دہ ہے ناکہ فائدہ مند اور علم نافع۔
اس کے بعد فرمایا: ’’جب آپ نے یہ جان لیا‘‘
یعنی جو کچھ پہلے ذکر ہوا کہ دشمنان ِرسل کے پاس کبھی علم بھی ہوتا ہے، کتب بھی ہوتی ہیں جو وہ تصنیف کرتے ہیں، حجتیں بھی ہوتی ہیں جو وہ پیش کرتے ہيں، بلکہ کبھی تو وہ کتاب وسنت سے اور اہل علم میں سے جو محققین ہیں ان کے اقوال تک سے حجت پکڑتےہیں۔ جیساکہ امام احمد رحمہ اللہ سے کچھ باتیں نقل کرتے ہيں، اور کچھ شیخ الاسلام اور ابن القیم وابن حجر رحمہم اللہ سے اور بھی دوسروں سے نقل کیے جاتےہیں۔۔۔یہ سب کے سب نقصان دہ علوم ہیں ناکہ علم نافع۔
امام رحمہ اللہ فرماتے ہيں:
’’جب آپ نے یہ اچھی طرح سے جان لیا اور یہ بھی جان لیا کہ اللہ تعالی کی طرف جو راہ ہے ضروری ہے کہ اس پر دشمن بیٹھے ہوں گے جو کہ بڑے اہل فصاحت وبلاغت، اہل علم وحجت ہوں گے‘‘۔
اس کلمہ پر ذرا غور کریں کہ فرمایا ’’ضروری ہے کے اس راہ پر یہ دشمن موجود ہوں گے‘‘ یعنی توحید کی راہ میں اس کے دشمن ضرور بیٹھے ہوں گے جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا تھا۔ اب یہ جو دشمن ہیں ہوسکتا ہے علماء ہوں، اور ایسے علماء ہوں جو فصاحت وبلاغت اور علم وحجت کے اعلیٰ درجے پر ہوں۔ آپ کے پاس لازماً بچاؤ ہونا چاہیے کہ کہيں وہ آپ کو ہدایت کی راہ سے روک نہ دیں اور گمراہی کی راہ میں داخل نہ کردیں، اور کہیں وہ آپ پر دین کا معاملہ ملتبس وخلط ملط نہ کردیں۔کیونکہ یہ فصاحت کوئی معیار نہيں ہے، ورنہ تو ابلیس بھی بڑا فصیح ہوا کرتا تھا۔ اور نہ ہی علم فی نفسہ معیار ہے، بلکہ ضروری ہے علم علمِ نافع ہو۔ اور نہ ہی حجتیں، حوالہ جات اور ردود وجوابات معیار ہیں۔ جب یہ بات موجود ہے تو پھر شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی اس وصیت کو اپنے پلے باندھ لیجئے جو انہوں نے اپنے اس عظیم رسالے ’’کشف الشبہات‘‘ کے مقدمے میں بیان فرمائی ہے۔
(آخری میں فرمایا کہ ایک توحید پرست علم نافع کے ہتھیار سے لیس ہو تاکہ ان کا مقابلہ کرسکے)۔
[1] اس سے مراد مشہور ومعروف قصیدہ بردہ ہےجس کے 162 اشعار ہیں، جسے ’’الكواكب الدرية في مدح خير البرية‘‘ کا نام دیا جاتا ہے، اسے نظم کرنے والے شر ف الدین ابو عبداللہ محمد بن سعید الدولاصی پھر البوصیری المتوفی سن 664ھ۔ دیکھیں کشف الظنون 2/1331۔
[2] دیکھیں: مجموع الفتاوی 13/180-181، بیان تلبیس الجہمیۃ 1/447، تفسیر ابن کثیر 1/146 اور المغنی فی الضعفاء 2/508۔
﴿ وَالَّذِيْنَ يُحَاجُّوْنَ فِي اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا اسْتُجِيْبَ لَهٗ حُجَّــتُهُمْ دَاحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ﴾ (الشوریٰ: 16)
(اور جو لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں، اس کے بعد کہ اس کی دعوت قبول کرلی گئی، ان کی دلیل ان کے رب کے نزدیک باطل ہے)
کیا اس شخصیت کی یہ بہت سی کتابیں، فقہیات وسوانح نگاری وتفسیر یا اس جیسی چیزیں اسے ایسا کردیں گی کہ وہ توحید کا دشمن نہيں ہوسکتا اگرچہ وہ توحید کی دشمنی میں لکھتا ہو، شرک کو خوبصورت بنا کر پیش کرنے کے بارے میں لکھتا ہو، اور لوگوں کو اس کی طرف بلاتا ہو؟ جواب اس کا یہی ہے کہ نہيں! بلکہ وہ توحید کا دشمن اور شرک کی نصرت کرنے والا ہی کہلائے گا ، جس کی کوئی قدر واحترام نہيں، اگرچہ اس کی پیشانی پر سجدوں کے نشان ہوں، اگرچہ اس کی تالیفات ان سے بھی بڑھ کر ہوں جو باکثرت تالیفات کرنے میں مشہور تھے جیسے السیوطی وغیرہ۔ لہذا نہ یہ معتبر ہے نہ ہی اس کا کلام۔ کیونکہ یہ علماء توحید میں سے تو نہ ہوا چناچہ اس کے علوم نقصان دہ ہے ناکہ فائدہ مند اور علم نافع۔
اس کے بعد فرمایا: ’’جب آپ نے یہ جان لیا‘‘
یعنی جو کچھ پہلے ذکر ہوا کہ دشمنان ِرسل کے پاس کبھی علم بھی ہوتا ہے، کتب بھی ہوتی ہیں جو وہ تصنیف کرتے ہیں، حجتیں بھی ہوتی ہیں جو وہ پیش کرتے ہيں، بلکہ کبھی تو وہ کتاب وسنت سے اور اہل علم میں سے جو محققین ہیں ان کے اقوال تک سے حجت پکڑتےہیں۔ جیساکہ امام احمد رحمہ اللہ سے کچھ باتیں نقل کرتے ہيں، اور کچھ شیخ الاسلام اور ابن القیم وابن حجر رحمہم اللہ سے اور بھی دوسروں سے نقل کیے جاتےہیں۔۔۔یہ سب کے سب نقصان دہ علوم ہیں ناکہ علم نافع۔
امام رحمہ اللہ فرماتے ہيں:
’’جب آپ نے یہ اچھی طرح سے جان لیا اور یہ بھی جان لیا کہ اللہ تعالی کی طرف جو راہ ہے ضروری ہے کہ اس پر دشمن بیٹھے ہوں گے جو کہ بڑے اہل فصاحت وبلاغت، اہل علم وحجت ہوں گے‘‘۔
اس کلمہ پر ذرا غور کریں کہ فرمایا ’’ضروری ہے کے اس راہ پر یہ دشمن موجود ہوں گے‘‘ یعنی توحید کی راہ میں اس کے دشمن ضرور بیٹھے ہوں گے جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا تھا۔ اب یہ جو دشمن ہیں ہوسکتا ہے علماء ہوں، اور ایسے علماء ہوں جو فصاحت وبلاغت اور علم وحجت کے اعلیٰ درجے پر ہوں۔ آپ کے پاس لازماً بچاؤ ہونا چاہیے کہ کہيں وہ آپ کو ہدایت کی راہ سے روک نہ دیں اور گمراہی کی راہ میں داخل نہ کردیں، اور کہیں وہ آپ پر دین کا معاملہ ملتبس وخلط ملط نہ کردیں۔کیونکہ یہ فصاحت کوئی معیار نہيں ہے، ورنہ تو ابلیس بھی بڑا فصیح ہوا کرتا تھا۔ اور نہ ہی علم فی نفسہ معیار ہے، بلکہ ضروری ہے علم علمِ نافع ہو۔ اور نہ ہی حجتیں، حوالہ جات اور ردود وجوابات معیار ہیں۔ جب یہ بات موجود ہے تو پھر شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی اس وصیت کو اپنے پلے باندھ لیجئے جو انہوں نے اپنے اس عظیم رسالے ’’کشف الشبہات‘‘ کے مقدمے میں بیان فرمائی ہے۔
(آخری میں فرمایا کہ ایک توحید پرست علم نافع کے ہتھیار سے لیس ہو تاکہ ان کا مقابلہ کرسکے)۔
[1] اس سے مراد مشہور ومعروف قصیدہ بردہ ہےجس کے 162 اشعار ہیں، جسے ’’الكواكب الدرية في مدح خير البرية‘‘ کا نام دیا جاتا ہے، اسے نظم کرنے والے شر ف الدین ابو عبداللہ محمد بن سعید الدولاصی پھر البوصیری المتوفی سن 664ھ۔ دیکھیں کشف الظنون 2/1331۔
[2] دیکھیں: مجموع الفتاوی 13/180-181، بیان تلبیس الجہمیۃ 1/447، تفسیر ابن کثیر 1/146 اور المغنی فی الضعفاء 2/508۔
[Urdu Article] Tafseer of Surat-un-Nabaa – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen
تفسیر سورۃ النباء
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: تفسير العلامة محمد بن صالح العثيمين
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/08/tafseer_surat_un_nabaa_uthaimeen.pdf
Tafseer of Surat-un-Nabaa – Various 'Ulamaa
تفسیر سورۃ النباء
مختلف علماء کرام
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: التفسير المُيَسَّرُ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/tafseer_surat_un_nabaa_almuyassar.pdf
[Urdu Video] #Tafseer #Surat_un_Nabaa - Various #Ulamaa
https://safeshare.tv/x/VHB9TTyRxzs
[Urdu Audio] Tafseer of Surat-un-Nabaa – Various 'Ulamaa
تفسیر سورۃ النباء - مختلف علماء کرام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/078_an_nabaa.mp3
تفسیر سورۃ النباء
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: تفسير العلامة محمد بن صالح العثيمين
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/08/tafseer_surat_un_nabaa_uthaimeen.pdf
Tafseer of Surat-un-Nabaa – Various 'Ulamaa
تفسیر سورۃ النباء
مختلف علماء کرام
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: التفسير المُيَسَّرُ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/tafseer_surat_un_nabaa_almuyassar.pdf
[Urdu Video] #Tafseer #Surat_un_Nabaa - Various #Ulamaa
https://safeshare.tv/x/VHB9TTyRxzs
[Urdu Audio] Tafseer of Surat-un-Nabaa – Various 'Ulamaa
تفسیر سورۃ النباء - مختلف علماء کرام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/078_an_nabaa.mp3
[Urdu Article] Beware of the party of Shaytaan – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
حزب الشیطان سے بچیں
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ’’الحصانۃ الفکریۃ‘‘ مہم کے تحت منعقدہ دروس، مکتب التعاونی للدعوۃ والارشاد بمحافظۃ بقیق، 20 سے 26 صفر 1438ھ ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/hizb_ush_shaytaan_say_bache.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جماعت داعش ہو یا اس کے علاوہ جو کوئی بھی صراط مستقیم سے گمراہ ہو تو وہ بلاشبہ حزب الشیطان (شیطان کی جماعت وگروہ) میں سے ہے، چاہے خوارج سے ہوں یا ان کے علاوہ جو دیگر گمراہی کے داعیان ہيں، ان کا سدباب نہيں کیا جاسکتا مگر صرف علم نافع سے، یہ وہ لوگ ہيں کہ جن کے متعلق اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ﴾ (التحریم: 9)
(اے نبی! کفار اور منافقین سے جہاد کریں)
یہ لوگ منافقین کی صف میں شمار ہوں گے، کیونکہ یہ لوگ اسلام کا دعویٰ کرتے ہيں، اور بعض دینی شعار پر عمل بھی کرتے ہيں، لیکن یہ گمراہی کی طرف دعوت دینے والے داعیان ہيں، جن کا سدباب نہيں ہوسکتا مگر علم نافع سے اور ان کے شبہات اور اباطیل کے رد کرنے سے۔
سب کو نہيں ہونا چاہیے مگر صرف مسلمان حکمران کے جھنڈے تلے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا﴾ (آل عمران: 103)
(تم سب مل کر اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقہ نہ کرو)([1])
تفرقہ نہ کرو یعنی جماعتوں میں تقسیم نہ ہو، ہر جماعت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ حقیقی اہل اسلام تو ہم ہی ہيں، اور ان کا امیر ہی وہ امیر ہی جس کی اطاعت واجب ہے، یہ تو العیاذ باللہ بڑی بیہودہ بات ہے۔
[1] یہ معنی امام ابن جریر الطبری رحمہ اللہ نے بھی اپنی سند سے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت فرمایا ہے، کہ حبل اللہ سے مراد الجماعۃ ہے (تفسیر الطبری 3/30) اسی طرح سے جماعت اور لزوم جماعت کے متعلق فرماتے ہیں: ’’صواب بات یہی ہے کہ بے شک لزوم جماعت سے متعلق جو خبر (حدیث) ہے اس سے مراد جس امیر (حکمران) کی اطاعت پر لوگ جمع ہوں، جس کسی نے اس کی بیعت کو توڑا تو وہ جماعت سے نکل گیا‘‘ (اسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری 13/37 میں ذکر فرمایا)۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
حزب الشیطان سے بچیں
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ’’الحصانۃ الفکریۃ‘‘ مہم کے تحت منعقدہ دروس، مکتب التعاونی للدعوۃ والارشاد بمحافظۃ بقیق، 20 سے 26 صفر 1438ھ ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/hizb_ush_shaytaan_say_bache.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جماعت داعش ہو یا اس کے علاوہ جو کوئی بھی صراط مستقیم سے گمراہ ہو تو وہ بلاشبہ حزب الشیطان (شیطان کی جماعت وگروہ) میں سے ہے، چاہے خوارج سے ہوں یا ان کے علاوہ جو دیگر گمراہی کے داعیان ہيں، ان کا سدباب نہيں کیا جاسکتا مگر صرف علم نافع سے، یہ وہ لوگ ہيں کہ جن کے متعلق اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ﴾ (التحریم: 9)
(اے نبی! کفار اور منافقین سے جہاد کریں)
یہ لوگ منافقین کی صف میں شمار ہوں گے، کیونکہ یہ لوگ اسلام کا دعویٰ کرتے ہيں، اور بعض دینی شعار پر عمل بھی کرتے ہيں، لیکن یہ گمراہی کی طرف دعوت دینے والے داعیان ہيں، جن کا سدباب نہيں ہوسکتا مگر علم نافع سے اور ان کے شبہات اور اباطیل کے رد کرنے سے۔
سب کو نہيں ہونا چاہیے مگر صرف مسلمان حکمران کے جھنڈے تلے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا﴾ (آل عمران: 103)
(تم سب مل کر اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقہ نہ کرو)([1])
تفرقہ نہ کرو یعنی جماعتوں میں تقسیم نہ ہو، ہر جماعت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ حقیقی اہل اسلام تو ہم ہی ہيں، اور ان کا امیر ہی وہ امیر ہی جس کی اطاعت واجب ہے، یہ تو العیاذ باللہ بڑی بیہودہ بات ہے۔
[1] یہ معنی امام ابن جریر الطبری رحمہ اللہ نے بھی اپنی سند سے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت فرمایا ہے، کہ حبل اللہ سے مراد الجماعۃ ہے (تفسیر الطبری 3/30) اسی طرح سے جماعت اور لزوم جماعت کے متعلق فرماتے ہیں: ’’صواب بات یہی ہے کہ بے شک لزوم جماعت سے متعلق جو خبر (حدیث) ہے اس سے مراد جس امیر (حکمران) کی اطاعت پر لوگ جمع ہوں، جس کسی نے اس کی بیعت کو توڑا تو وہ جماعت سے نکل گیا‘‘ (اسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری 13/37 میں ذکر فرمایا)۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[Urdu Article] Those who oppose the followers of methodology of prophets in calling towards Allaah – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
دعوت الی اللہ میں منہج انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام اپنانے کے مخالفین
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب منھج الأنبیاء فی الدعوۃ الی اللہ فیہ الحکمۃ والعقل، مقدمۃ طبع ثانی۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/dawat_manhaj_ul_anbiyah_mukhalifeen.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لئےہیں باکثرت، بابرکت اور پاک تعریفات ہر اس نعمت پرجو اس نے مجھ پر فرمائی اور میں ان نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتا ہوں اور اس کی ثناء بیان کرتا ہوں حالانکہ میں اس کی حقیقی ثناء خوائی کا حق ادا نہیں کرسکتا اور نہ ہی کسی اور میں یہ صلاحیت ہے۔
اللہ تعالی کی مجھ پر نعمت اور فضل وکرم میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے مجھ جیسے کمزور کو یہ توفیق عنایت فرمائی کہ میں اپنی طاقت بھر حق بات کا اظہار کروں خواہ وہ کتاب کی صورت میں ہو یا آمنے سامنے ہو۔ پس میں اس کا ایسا شکر ادا کرتا ہوں اور ایسی حمد بیان کرتا ہوں کہ جو زمین وآسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کو بھر دے، اور اس سے یہ بھی دعاء ہے کہ مجھے اس پر ثابت قدمی عطاء فرمائے یہاں تک کہ میں اس سے ملاقات کروں اس حال میں کہ وہ مجھ سے راضی ہو، ساتھ ہی میں مزید توفیق اور حفاظت کا سوال کرتا ہوں۔ میں یہ بھی نہیں بھولا (الحمدللہ) کہ جب میری کتاب ’’منھج الانبیاء في الدعوۃ الی اللہ فیہ الحکمۃ والعقل‘‘ شائع ہوئی تو ہر سچے مسلم نوجوان نے انتہائی خوشی ومسرت سے اس کا استقبال کیا۔ کیونکہ یہ کتاب ان کے سامنے دعوت انبیاء کا مکمل خاکہ اس طرح کھینچ کررکھ دیتی ہےکہ گویا نصف دن کے چمکتے سورج کی مانند ہو جو اس پر سے ایسے لکھنے والوں کی ہر قسم کی ہیرپھیر، تحریف وتلبیس (خلط ملط ودھوکہ بازی) کو زائل کردیتی ہے جو انسانی جسموں میں شیطانی دل رکھنے والے ہیں۔ جن کا اس کے سوا کوئی سروکار نہیں کہ لوگوں کو اپنے اور اپنے پرفریب نعروں کے گرد جمع کیا جائے، خواہ یہ اجتماع روافض (شیعہ) ومنافقین کی صورت میں ہو یا گمراہ خوارج و قبرپرست غالی صوفی ملحدوں کی شکل میں ہو، چاہے عوام و سادہ لوح لوگ ہوں یا بیچارے جاہل گروپ، تنظیمیں و جماعتیں ہوں۔ انہیں اس بات کی قطعاً پرواہ نہیں ہوتی کہ ان کے اور ان کے بلند بانگ نعروں کے گرد جمع ہونے والے اس قسم کے اجتماع سے دنیا وآخرت میں انہیں کتنے بھیانک نتائج سے دوچار ہونا پڑے گا۔کیونکہ ان کا حال ایسا ہےجیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا:
’’دُعَاةٌ عَلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا‘‘([1])
(جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے داعیان (دعوت دینے والے) ہوں گے، جو ان کی طرف مائل ہوگا وہ اسے بھی جہنم رسید کروادیں گے)۔
اس لئے بھی جیسا کہ امت کے سب سے بڑے خیر خواہ، صادق وامین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی صفت بیان فرمائی ہے کہ یہ:
’’الشَّيَاطِينُ فِي جُثْمَانِ إِنْسٍ‘‘([2])
یعنی انسانی روپ میں شیطان ہیں۔
ورنہ کیا سبب ہے کہ انہوں نے اور ان کے راستے پر چلنے والوں نے اس واضح وروشن منہج انبیاء سے دوری اور علیحدگی اختیار کی ہے جسے قرآن کریم نے بڑے واضح انداز میں ان (انبیاء) کی شریعت ومنہج بتلایا ہے، جوکہ دین خالص کے سوا کچھ نہیں یعنی اللہ تعالی کے اسماء وصفات، اس کی ربوبیت اور اس کی الوہیت وعبادت میں توحید، ساتھ ہی ہر قسم کے طاغوت(جس کی اللہ تعالی کے سوا عبادت کی جاتی ہے) کا انکار۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ﴾ (النحل: 36)
(تحقیق ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا (جس نے یہی دعوت دی) کہ اللہ تعالی کی عبادت کرو، اور طاغوت سے بچو)
اور فرمایا:
﴿وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ﴾ (الانبیاء: 25)
(ہم نے آپ سے پہلے بھی کوئی رسول نہیں بھیجا مگر ان کی جانب یہی وحی فرمائی کہ بے شک میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، پس تم صرف میری ہی عبادت کرنا)
آپ سلفی دعوت کے علاوہ کسی بھی فرقے اور جماعتوں کی دعوت کا تجزیہ کیجئے کیا آپ کو ان کےیہاں اس روشن منہج ِانبیاء کا کوئی اثر تک نظر آتا ہے؟! ان کی مدارس، افراد اور جماعتوں میں؟، اگر آپ واقعی سچے ہیں تو ذرا اس کی نشاندہی تو فرمائیں۔ البتہ میں تو ان تمام فرقوں اور جماعتوں میں اس (سلفی) منہج اور اس کے اہل (سلفیوں) کے خلاف ایک خونی جنگ کے سوا، اس منہج اور اس کے اہل کوحقیرسمجھنے ومذاق اڑانے کے سوا، اس منہج اور اس کے اہل سے بغض وعداوت کے سوا اور (اس منہج کے مخالف) منحرف وگمراہ دعوتوں اور ان کے
دعوت الی اللہ میں منہج انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام اپنانے کے مخالفین
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب منھج الأنبیاء فی الدعوۃ الی اللہ فیہ الحکمۃ والعقل، مقدمۃ طبع ثانی۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/dawat_manhaj_ul_anbiyah_mukhalifeen.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لئےہیں باکثرت، بابرکت اور پاک تعریفات ہر اس نعمت پرجو اس نے مجھ پر فرمائی اور میں ان نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتا ہوں اور اس کی ثناء بیان کرتا ہوں حالانکہ میں اس کی حقیقی ثناء خوائی کا حق ادا نہیں کرسکتا اور نہ ہی کسی اور میں یہ صلاحیت ہے۔
اللہ تعالی کی مجھ پر نعمت اور فضل وکرم میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے مجھ جیسے کمزور کو یہ توفیق عنایت فرمائی کہ میں اپنی طاقت بھر حق بات کا اظہار کروں خواہ وہ کتاب کی صورت میں ہو یا آمنے سامنے ہو۔ پس میں اس کا ایسا شکر ادا کرتا ہوں اور ایسی حمد بیان کرتا ہوں کہ جو زمین وآسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کو بھر دے، اور اس سے یہ بھی دعاء ہے کہ مجھے اس پر ثابت قدمی عطاء فرمائے یہاں تک کہ میں اس سے ملاقات کروں اس حال میں کہ وہ مجھ سے راضی ہو، ساتھ ہی میں مزید توفیق اور حفاظت کا سوال کرتا ہوں۔ میں یہ بھی نہیں بھولا (الحمدللہ) کہ جب میری کتاب ’’منھج الانبیاء في الدعوۃ الی اللہ فیہ الحکمۃ والعقل‘‘ شائع ہوئی تو ہر سچے مسلم نوجوان نے انتہائی خوشی ومسرت سے اس کا استقبال کیا۔ کیونکہ یہ کتاب ان کے سامنے دعوت انبیاء کا مکمل خاکہ اس طرح کھینچ کررکھ دیتی ہےکہ گویا نصف دن کے چمکتے سورج کی مانند ہو جو اس پر سے ایسے لکھنے والوں کی ہر قسم کی ہیرپھیر، تحریف وتلبیس (خلط ملط ودھوکہ بازی) کو زائل کردیتی ہے جو انسانی جسموں میں شیطانی دل رکھنے والے ہیں۔ جن کا اس کے سوا کوئی سروکار نہیں کہ لوگوں کو اپنے اور اپنے پرفریب نعروں کے گرد جمع کیا جائے، خواہ یہ اجتماع روافض (شیعہ) ومنافقین کی صورت میں ہو یا گمراہ خوارج و قبرپرست غالی صوفی ملحدوں کی شکل میں ہو، چاہے عوام و سادہ لوح لوگ ہوں یا بیچارے جاہل گروپ، تنظیمیں و جماعتیں ہوں۔ انہیں اس بات کی قطعاً پرواہ نہیں ہوتی کہ ان کے اور ان کے بلند بانگ نعروں کے گرد جمع ہونے والے اس قسم کے اجتماع سے دنیا وآخرت میں انہیں کتنے بھیانک نتائج سے دوچار ہونا پڑے گا۔کیونکہ ان کا حال ایسا ہےجیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا:
’’دُعَاةٌ عَلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا‘‘([1])
(جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے داعیان (دعوت دینے والے) ہوں گے، جو ان کی طرف مائل ہوگا وہ اسے بھی جہنم رسید کروادیں گے)۔
اس لئے بھی جیسا کہ امت کے سب سے بڑے خیر خواہ، صادق وامین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی صفت بیان فرمائی ہے کہ یہ:
’’الشَّيَاطِينُ فِي جُثْمَانِ إِنْسٍ‘‘([2])
یعنی انسانی روپ میں شیطان ہیں۔
ورنہ کیا سبب ہے کہ انہوں نے اور ان کے راستے پر چلنے والوں نے اس واضح وروشن منہج انبیاء سے دوری اور علیحدگی اختیار کی ہے جسے قرآن کریم نے بڑے واضح انداز میں ان (انبیاء) کی شریعت ومنہج بتلایا ہے، جوکہ دین خالص کے سوا کچھ نہیں یعنی اللہ تعالی کے اسماء وصفات، اس کی ربوبیت اور اس کی الوہیت وعبادت میں توحید، ساتھ ہی ہر قسم کے طاغوت(جس کی اللہ تعالی کے سوا عبادت کی جاتی ہے) کا انکار۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ﴾ (النحل: 36)
(تحقیق ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا (جس نے یہی دعوت دی) کہ اللہ تعالی کی عبادت کرو، اور طاغوت سے بچو)
اور فرمایا:
﴿وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ﴾ (الانبیاء: 25)
(ہم نے آپ سے پہلے بھی کوئی رسول نہیں بھیجا مگر ان کی جانب یہی وحی فرمائی کہ بے شک میرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، پس تم صرف میری ہی عبادت کرنا)
آپ سلفی دعوت کے علاوہ کسی بھی فرقے اور جماعتوں کی دعوت کا تجزیہ کیجئے کیا آپ کو ان کےیہاں اس روشن منہج ِانبیاء کا کوئی اثر تک نظر آتا ہے؟! ان کی مدارس، افراد اور جماعتوں میں؟، اگر آپ واقعی سچے ہیں تو ذرا اس کی نشاندہی تو فرمائیں۔ البتہ میں تو ان تمام فرقوں اور جماعتوں میں اس (سلفی) منہج اور اس کے اہل (سلفیوں) کے خلاف ایک خونی جنگ کے سوا، اس منہج اور اس کے اہل کوحقیرسمجھنے ومذاق اڑانے کے سوا، اس منہج اور اس کے اہل سے بغض وعداوت کے سوا اور (اس منہج کے مخالف) منحرف وگمراہ دعوتوں اور ان کے
اہل کی پزیرائی اور احترام کے سوا کچھ نہیں پاتا۔ اور یہ آخری بات آپ ان لوگوں سے بہت سنیں گے اور دیکھیں گے جنہوں نے فی زمانہ بظاہر سلفیت (اہلحدیثیت) کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے حالانکہ وہ اس کے مخالفین کے زیادہ ہمدرد ہیں اور ان کے مابین ایسے ایسے مضبوط روابط و تعلقات ہیں جنہیں اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
بعض وہ لوگ جو (اسلامی حکومت کی اقامت کے نام پر) بدعات، خرافات اور گمراہی (تک) کی حکومت کے عاشق ہیں ان کا یہ گمان ہے اور کیا ہی برا گمان اوربہتان طرازی ہےکہ میں دین اور حکومت (یا دین وسیاست) میں تفریق کرنا چاہتا ہوں اور میں حاکمیت الٰہی میں اختلاف پیدا کرنا چاہتا ہوں!
﴿كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ ۭ اِنْ يَّقُوْلُوْنَ اِلَّا كَذِبًا ﴾ (الکھف: 5)
(کتنا برا کلمہ ہے جو ان کی زبان سے نکلتا ہے، یہ تو محض جھوٹ بولتے ہیں)
کیونکہ اس کتاب نے انہیں ناراض کیا اور ان کی پرفریب دعوتوں کا جو اسلام ودلائلِ توحید خصوصاً دعوتِ انبیاء کی تحریف پر مبنی ہیں کا پردہ چاک کیا، اور رافضی (شیعہ) حکومت کی اقامت کو خوش آمدید کہنے میں ان کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی، اور نہ ہی ایسی (نام نہاد اسلامی) حکومتوں کی اقامت میں ان کی تائید کی جو مزار پرستی اور اولیاء کرام کے بارے میں اس اعتقاد پر قائم ہیں کہ وہ غیب کا علم رکھتے ہیں اور کائنات کے معاملات چلانے کا اختیار رکھتے ہیں۔ ان مذکوہ بالا دعوتوں کی اقامت ِحکومت میں تائید نہ کی، ساتھ ہی اس گمراہ وشرکیہ جدید سیکولرازم جس نے بظاہر اسلام کا لبادہ اوڑھا ہواہے کی بھی تائید نہ کی۔
الحمدللہ اس کتاب نے واضح کیا کہ سچی اور بااعتماد دعوت وہی ہے جو دعوت الی اللہ میں انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کا منہج اپناتی ہے، اور جو حکومت اس صحیح منہج پر قائم ہو وہی حقیقی اسلامی ریاست ہے۔ اگرچہ یہ کتاب ایک خاص موضوع یعنی دعوت الی اللہ کے سلسلے میں انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کا منہج بیان کرنے سے متعلق ہے مگر اس کے باوجود اسلامی ریاست کے تصور کا بھی اس میں ذکر بار ہا کیا گیا ہے۔ بلکہ اس کے لئے ایک باقاعدہ خاص عنوان مختص کیا گیا ہے ’’نظرة علماء الإسلام إلى الإمامة وأدلتهم على وجوبها‘‘ (خلافت وامامت کے بارے میں علماء اسلام کے نظریات اور اس کے واجب ہونے کےدلائل) پھر اس بارے میں علماء کے اقوال بیان کئے گئے ہیں ان کے دلائل کے ساتھ لیکن جس چیز نے اہل اہوا (خواہش پرستوں، بدعتیوں) اور باطل پرستوں کو غصہ دلایا وہ یہ ہے کہ میں نے امامت (خلافت) اور حکومت کو اس کا وہ حقیقی مقام دیا جو اللہ تعالی نے اس کا رکھا ہے اور علماء اسلام نے سمجھا ہے،لیکن دعوت توحید اور شرک، بدعات،تمام انواع کی ضلالت، انحراف وگمراہیوں، اوثان(بت وقبر) ومزارات کی عبادت کے خلاف جنگ کے سلسلے میں منہج انبیاء کو چھوڑنے میں ان کا ساتھ نہ دیا۔نہ ہی اس بات میں ان کی موافقت کی کہ امامت وخلافت بقول مودودی ’’مسألة المسائل‘‘ (دینی مسائل میں سب سے چوٹی کا مسئلہ) اور ’’أصل الأصول‘‘ (تمام دینی اصولوں کی اصل) قراردیا جائے جس کی وجہ سے لوگ منہج انبیاء کے منکر اور اس کے خلاف جنگ پر آمادہ ہوتے ہیں۔ اور اس بات پر بھی آمادہ ہوتے ہیں کہ رافضیوں(شیعہ) کی گود میں بیٹھ کر ان سے محبت ودوستی کا دم بھرا جائے، ان کا دفاع کیا جائے اور قرآن وسنت کے مخالف، اصحاب رسول رضی اللہ عنہم اور پاک امہات المومنین رضی اللہ عنہن، تمام مسلمانوں اور ان کے علماء وآئمہ کرام کے خلاف جنگ، بلکہ امت کی ان عظیم ترین ہستیوں پر خبیث ترین طعن کرتے ہوئےکافر تک قرار دینے والے ان کے مذہب کو مزین وخوبصورت کرکے پیش کیا جائے۔
پس میں نے ان تمام گمراہیوں اور بغض سے بھرپور غلو میں ان کی ہاں میں ہاں نہ ملائی جس کی بنا پر انہوں نے اس کتاب اور اس کے لکھنے والے کے بارے میں یہ شیطانی اور باطل باتیں کہیں تاکہ وہ حق کے پیاسے نوجوانوں اورناقابلِ تردید حق کے درمیان جو کہ اس کتاب میں پوری طرح واضح ہے حائل ایک رکاوٹ بن جائیں، جس کتاب میں عقیدہ اور ریاست دونوں کو بلاافراط وتفریط (کمی وزیادتی) کے اور بلاتحریف وتلبیس (خلط ملط ودھوکہ بازی)کےان کا وہ حقیقی مقام دیا ہے جس پر اللہ تعالی نے انہیں رکھا ہے ۔
[1] صحیح بخاری 6584، صحیح مسلم 3440۔
[2] صحیح مسلم 3441۔
بعض وہ لوگ جو (اسلامی حکومت کی اقامت کے نام پر) بدعات، خرافات اور گمراہی (تک) کی حکومت کے عاشق ہیں ان کا یہ گمان ہے اور کیا ہی برا گمان اوربہتان طرازی ہےکہ میں دین اور حکومت (یا دین وسیاست) میں تفریق کرنا چاہتا ہوں اور میں حاکمیت الٰہی میں اختلاف پیدا کرنا چاہتا ہوں!
﴿كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ ۭ اِنْ يَّقُوْلُوْنَ اِلَّا كَذِبًا ﴾ (الکھف: 5)
(کتنا برا کلمہ ہے جو ان کی زبان سے نکلتا ہے، یہ تو محض جھوٹ بولتے ہیں)
کیونکہ اس کتاب نے انہیں ناراض کیا اور ان کی پرفریب دعوتوں کا جو اسلام ودلائلِ توحید خصوصاً دعوتِ انبیاء کی تحریف پر مبنی ہیں کا پردہ چاک کیا، اور رافضی (شیعہ) حکومت کی اقامت کو خوش آمدید کہنے میں ان کی ہاں میں ہاں نہیں ملائی، اور نہ ہی ایسی (نام نہاد اسلامی) حکومتوں کی اقامت میں ان کی تائید کی جو مزار پرستی اور اولیاء کرام کے بارے میں اس اعتقاد پر قائم ہیں کہ وہ غیب کا علم رکھتے ہیں اور کائنات کے معاملات چلانے کا اختیار رکھتے ہیں۔ ان مذکوہ بالا دعوتوں کی اقامت ِحکومت میں تائید نہ کی، ساتھ ہی اس گمراہ وشرکیہ جدید سیکولرازم جس نے بظاہر اسلام کا لبادہ اوڑھا ہواہے کی بھی تائید نہ کی۔
الحمدللہ اس کتاب نے واضح کیا کہ سچی اور بااعتماد دعوت وہی ہے جو دعوت الی اللہ میں انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کا منہج اپناتی ہے، اور جو حکومت اس صحیح منہج پر قائم ہو وہی حقیقی اسلامی ریاست ہے۔ اگرچہ یہ کتاب ایک خاص موضوع یعنی دعوت الی اللہ کے سلسلے میں انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کا منہج بیان کرنے سے متعلق ہے مگر اس کے باوجود اسلامی ریاست کے تصور کا بھی اس میں ذکر بار ہا کیا گیا ہے۔ بلکہ اس کے لئے ایک باقاعدہ خاص عنوان مختص کیا گیا ہے ’’نظرة علماء الإسلام إلى الإمامة وأدلتهم على وجوبها‘‘ (خلافت وامامت کے بارے میں علماء اسلام کے نظریات اور اس کے واجب ہونے کےدلائل) پھر اس بارے میں علماء کے اقوال بیان کئے گئے ہیں ان کے دلائل کے ساتھ لیکن جس چیز نے اہل اہوا (خواہش پرستوں، بدعتیوں) اور باطل پرستوں کو غصہ دلایا وہ یہ ہے کہ میں نے امامت (خلافت) اور حکومت کو اس کا وہ حقیقی مقام دیا جو اللہ تعالی نے اس کا رکھا ہے اور علماء اسلام نے سمجھا ہے،لیکن دعوت توحید اور شرک، بدعات،تمام انواع کی ضلالت، انحراف وگمراہیوں، اوثان(بت وقبر) ومزارات کی عبادت کے خلاف جنگ کے سلسلے میں منہج انبیاء کو چھوڑنے میں ان کا ساتھ نہ دیا۔نہ ہی اس بات میں ان کی موافقت کی کہ امامت وخلافت بقول مودودی ’’مسألة المسائل‘‘ (دینی مسائل میں سب سے چوٹی کا مسئلہ) اور ’’أصل الأصول‘‘ (تمام دینی اصولوں کی اصل) قراردیا جائے جس کی وجہ سے لوگ منہج انبیاء کے منکر اور اس کے خلاف جنگ پر آمادہ ہوتے ہیں۔ اور اس بات پر بھی آمادہ ہوتے ہیں کہ رافضیوں(شیعہ) کی گود میں بیٹھ کر ان سے محبت ودوستی کا دم بھرا جائے، ان کا دفاع کیا جائے اور قرآن وسنت کے مخالف، اصحاب رسول رضی اللہ عنہم اور پاک امہات المومنین رضی اللہ عنہن، تمام مسلمانوں اور ان کے علماء وآئمہ کرام کے خلاف جنگ، بلکہ امت کی ان عظیم ترین ہستیوں پر خبیث ترین طعن کرتے ہوئےکافر تک قرار دینے والے ان کے مذہب کو مزین وخوبصورت کرکے پیش کیا جائے۔
پس میں نے ان تمام گمراہیوں اور بغض سے بھرپور غلو میں ان کی ہاں میں ہاں نہ ملائی جس کی بنا پر انہوں نے اس کتاب اور اس کے لکھنے والے کے بارے میں یہ شیطانی اور باطل باتیں کہیں تاکہ وہ حق کے پیاسے نوجوانوں اورناقابلِ تردید حق کے درمیان جو کہ اس کتاب میں پوری طرح واضح ہے حائل ایک رکاوٹ بن جائیں، جس کتاب میں عقیدہ اور ریاست دونوں کو بلاافراط وتفریط (کمی وزیادتی) کے اور بلاتحریف وتلبیس (خلط ملط ودھوکہ بازی)کےان کا وہ حقیقی مقام دیا ہے جس پر اللہ تعالی نے انہیں رکھا ہے ۔
[1] صحیح بخاری 6584، صحیح مسلم 3440۔
[2] صحیح مسلم 3441۔
[Urdu Article] The Rulership of Allaah and the state – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
حاکمیت الہی اور ریاست
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب منھج الأنبیاء فی الدعوۃ الی اللہ فیہ الحکمۃ والعقل، مقدمۃ طبع ثانی۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/hakmiyyat_e_ilaahee_aur_riasat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہاں پر لازم ہے کہ میں نوجوانوں کے لئے حاکمیتِ الہی اور ریاست میں فرق کی وضاحت کروں: جہاں تک ریاست کا تعلق ہے تو وہ ایک انسانی افراد کے مجموعے کا نام ہے جو کافر بھی ہوسکتا ہے، گمراہ اور منحرف بھی ، اور مومن بھی جیسا کہ خلافت راشدہ میں تھا، اور اس کے بعد جیسا کہ اسلامی حکومتوں میں کوتاہی پر مبنی ملوکیت (بادشاہت) میں تھا۔پس جن افراد پر ایک مومن ریاست مشتمل ہے وہ محض اللہ کی شریعت کو نافذ کرنے کے وسائل ہیں جو اس کی شریعت کے نفاذ، جہاد، امربالمعروف ونہی عن المنکر(نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا)، اقامت حدود(حدود الہی کو نافذ کرنا)، قصاص(قتل کا بدلہ قتل)، امت کو دشمنوں کی سازشوں اور مسلمانوں کی سرزمین، جان، مال اور عزت پر کی جانے والی زیادتیوں سے حفاظت کے ذرائع ہیں۔ اسی لئے لازم ہے کہ وہ ایک حکومت کو تشکیل دیں تاکہ ان عظیم واجبات کی ادائیگی بحسن خوبی انجام پائے خواہ ایک خلیفہ کی بیعت کے ذریعہ ہو کہ جس پر تمام مسلمانوں کا اجتماع ہو، یا پھر امت کا کوئی فرد طاقت کے زور پر غالب آجائے جس کے پاس شان وشوکت، فوج اور غلبہ ہو توامت کی (شرعی) مصلحت کا تقاضہ ہے کے اسے بھی تسلیم کیا جائے، جب تک وہ ظاہرا اسلام کا دعویدار ہےاور اسلام کی شریعت اور عقائد کے نفاذ کا التزام کرتا ہے، اور دشمنوں کے خلاف ان کا دفاع کرتا ہے اور آخر تک جو معروف تفصیلات اسلامی کتب میں اپنے اپنے مقام پر ذکر کی گئی ہیں۔یا پھر بعض لوگوں کا بعض علاقوں پر قابض ہوجانا جیسا کہ خلافت کی کمزوری کے بعد مسلم علاقوں میں وقوع پذیر ہوا، اور (شرعی) مصلحت نے اس بات کا تقاضہ کیا کہ اسے (ان اسلامی ممالک کو) اسی وضع وشکل میں تسلیم کرلیا جائے۔
جبکہ جو حاکمیت یا حکم ہے تو یہ اللہ تعالی کی صفات اور اس کی ان خصوصیات میں سے ہے جس میں وہ منفرد ہے، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ ۭ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ﴾ (یوسف: 40)
(حکم تو صرف ایک اللہ ہی کا ہے، اس نے یہی حکم دیا ہے کہ عبادت نہ کرو مگر صرف اسی کی، یہی مضبوط دین ہے)
اس حاکمیت کا منکر اور جھٹلانے والا وہی ہوسکتا ہے جو اللہ تعالی سے کفر کرنے والا، اللہ تعالی، اس کے رسولوں اور اس کی کتابوں سے شدید عداوت ودشمنی رکھنے والا ہو۔ بلکہ جو شخص دین کی فروعی جزئیات ومسائل میں سے بھی کسی ایک جزء یا مسئلے میں اللہ تعالی کی حاکمیت کا منکر ہو تو وہ کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے، اگر اس کا یہ انکار علم ہونے کے باوجود ہو، البتہ اگر کوئی جاہل ہو تو وہ معذور ہوگا یہاں تک کہ اس پر دلیل واضح کرکے اس کا عذر ختم کردیا جائے۔
یہ جو کچھ میں نے بیان کیا حکام ہوں یا محکومین، افراد ہوں یا جماعتیں سب پر لاگو ہوتا ہے۔ اسی بات کا اقرار معتبر علماء اسلام نے فرمایا ہے جیسے امام ابن تیمیہ([1]) اور ان کے شاگرد رشید حافظ ابن القیم([2]) رحمہما اللہ۔
جو اس حاکمیت کا اصول دین اور اس کے فروع میں، عقائد، عبادات، معاملات، سیاست، اقتصادومعاشیات، اخلاق اور اجتماع میں التزام کرے تو وہ مومن ہے۔ اور جو اس کا التزام نہ کرے (یعنی وہ انہیں اپنے اوپر لازم نہیں مانتا) خواہ تمام امور میں ہو یا بعض میں اور چاہے فرد ہو یا جماعت، حاکم ہو یا محکوم، داعی(دعوت دینے والا) ہو یا مدعو(جس کو دعوت دی جارہی ہے) کافر ہیں۔ اللہ کی قسم! مجھے ڈر ہے کہ بہت سے فرقے، جماعتیں اور افراد اس طور پر کفر میں مبتلا ہیں کہ وہ حاکمیت الہی کا اصول دین میں بلکہ فروع میں بھی التزام نہیں کرتے، لہٰذا ان میں سے بہت سے ایسوں پر جن پر حجت تمام ہوچکی ہے اور حق ان کے سامنے واضح ہوچکا ہےاس کے باوجود وہ دعوت توحید کی مخالفت، شرک وبدعات کے خلاف جنگ کی مخالفت، اور نہ صرف اہل توحیداور دعوت انبیاء ومرسلین و مخلص وصادق مصلحین کی مخالفت اور بائیکاٹ بلکہ لوگوں کو ان سے دور بھگانا اور متنفر کرنے پر ڈٹے ہوئے ہیں،ان پر خدشہ ہے کہ قیام ِحجت کے بعد یہ کفر کے گڑھے میں گر پڑیں گے۔
میں پوری امت کو دعوت دیتا ہوں خواہ حکام ہوں یا محکومین، افراد ہوں یا فرقے وجماعتیں کہ وہ اصول دین اور اس کی فروعات میں اللہ تعالی کی حاکمیت جو کہ عام اور (ہر چیز کو) شامل ہے پر کماحقہ(جیسا کہ اس کا حق بنتا ہے) ایمان لائیں۔ اوراصول دین اور اس کی فروعات میں اس کا بھرپور التزام کریں۔ اور تمام مسلم ریاستوں کے حکمرانوں کو بھی دعوت دیتا ہوں چاہے وہ حاکم
حاکمیت الہی اور ریاست
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب منھج الأنبیاء فی الدعوۃ الی اللہ فیہ الحکمۃ والعقل، مقدمۃ طبع ثانی۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/hakmiyyat_e_ilaahee_aur_riasat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہاں پر لازم ہے کہ میں نوجوانوں کے لئے حاکمیتِ الہی اور ریاست میں فرق کی وضاحت کروں: جہاں تک ریاست کا تعلق ہے تو وہ ایک انسانی افراد کے مجموعے کا نام ہے جو کافر بھی ہوسکتا ہے، گمراہ اور منحرف بھی ، اور مومن بھی جیسا کہ خلافت راشدہ میں تھا، اور اس کے بعد جیسا کہ اسلامی حکومتوں میں کوتاہی پر مبنی ملوکیت (بادشاہت) میں تھا۔پس جن افراد پر ایک مومن ریاست مشتمل ہے وہ محض اللہ کی شریعت کو نافذ کرنے کے وسائل ہیں جو اس کی شریعت کے نفاذ، جہاد، امربالمعروف ونہی عن المنکر(نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا)، اقامت حدود(حدود الہی کو نافذ کرنا)، قصاص(قتل کا بدلہ قتل)، امت کو دشمنوں کی سازشوں اور مسلمانوں کی سرزمین، جان، مال اور عزت پر کی جانے والی زیادتیوں سے حفاظت کے ذرائع ہیں۔ اسی لئے لازم ہے کہ وہ ایک حکومت کو تشکیل دیں تاکہ ان عظیم واجبات کی ادائیگی بحسن خوبی انجام پائے خواہ ایک خلیفہ کی بیعت کے ذریعہ ہو کہ جس پر تمام مسلمانوں کا اجتماع ہو، یا پھر امت کا کوئی فرد طاقت کے زور پر غالب آجائے جس کے پاس شان وشوکت، فوج اور غلبہ ہو توامت کی (شرعی) مصلحت کا تقاضہ ہے کے اسے بھی تسلیم کیا جائے، جب تک وہ ظاہرا اسلام کا دعویدار ہےاور اسلام کی شریعت اور عقائد کے نفاذ کا التزام کرتا ہے، اور دشمنوں کے خلاف ان کا دفاع کرتا ہے اور آخر تک جو معروف تفصیلات اسلامی کتب میں اپنے اپنے مقام پر ذکر کی گئی ہیں۔یا پھر بعض لوگوں کا بعض علاقوں پر قابض ہوجانا جیسا کہ خلافت کی کمزوری کے بعد مسلم علاقوں میں وقوع پذیر ہوا، اور (شرعی) مصلحت نے اس بات کا تقاضہ کیا کہ اسے (ان اسلامی ممالک کو) اسی وضع وشکل میں تسلیم کرلیا جائے۔
جبکہ جو حاکمیت یا حکم ہے تو یہ اللہ تعالی کی صفات اور اس کی ان خصوصیات میں سے ہے جس میں وہ منفرد ہے، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ ۭ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ﴾ (یوسف: 40)
(حکم تو صرف ایک اللہ ہی کا ہے، اس نے یہی حکم دیا ہے کہ عبادت نہ کرو مگر صرف اسی کی، یہی مضبوط دین ہے)
اس حاکمیت کا منکر اور جھٹلانے والا وہی ہوسکتا ہے جو اللہ تعالی سے کفر کرنے والا، اللہ تعالی، اس کے رسولوں اور اس کی کتابوں سے شدید عداوت ودشمنی رکھنے والا ہو۔ بلکہ جو شخص دین کی فروعی جزئیات ومسائل میں سے بھی کسی ایک جزء یا مسئلے میں اللہ تعالی کی حاکمیت کا منکر ہو تو وہ کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے، اگر اس کا یہ انکار علم ہونے کے باوجود ہو، البتہ اگر کوئی جاہل ہو تو وہ معذور ہوگا یہاں تک کہ اس پر دلیل واضح کرکے اس کا عذر ختم کردیا جائے۔
یہ جو کچھ میں نے بیان کیا حکام ہوں یا محکومین، افراد ہوں یا جماعتیں سب پر لاگو ہوتا ہے۔ اسی بات کا اقرار معتبر علماء اسلام نے فرمایا ہے جیسے امام ابن تیمیہ([1]) اور ان کے شاگرد رشید حافظ ابن القیم([2]) رحمہما اللہ۔
جو اس حاکمیت کا اصول دین اور اس کے فروع میں، عقائد، عبادات، معاملات، سیاست، اقتصادومعاشیات، اخلاق اور اجتماع میں التزام کرے تو وہ مومن ہے۔ اور جو اس کا التزام نہ کرے (یعنی وہ انہیں اپنے اوپر لازم نہیں مانتا) خواہ تمام امور میں ہو یا بعض میں اور چاہے فرد ہو یا جماعت، حاکم ہو یا محکوم، داعی(دعوت دینے والا) ہو یا مدعو(جس کو دعوت دی جارہی ہے) کافر ہیں۔ اللہ کی قسم! مجھے ڈر ہے کہ بہت سے فرقے، جماعتیں اور افراد اس طور پر کفر میں مبتلا ہیں کہ وہ حاکمیت الہی کا اصول دین میں بلکہ فروع میں بھی التزام نہیں کرتے، لہٰذا ان میں سے بہت سے ایسوں پر جن پر حجت تمام ہوچکی ہے اور حق ان کے سامنے واضح ہوچکا ہےاس کے باوجود وہ دعوت توحید کی مخالفت، شرک وبدعات کے خلاف جنگ کی مخالفت، اور نہ صرف اہل توحیداور دعوت انبیاء ومرسلین و مخلص وصادق مصلحین کی مخالفت اور بائیکاٹ بلکہ لوگوں کو ان سے دور بھگانا اور متنفر کرنے پر ڈٹے ہوئے ہیں،ان پر خدشہ ہے کہ قیام ِحجت کے بعد یہ کفر کے گڑھے میں گر پڑیں گے۔
میں پوری امت کو دعوت دیتا ہوں خواہ حکام ہوں یا محکومین، افراد ہوں یا فرقے وجماعتیں کہ وہ اصول دین اور اس کی فروعات میں اللہ تعالی کی حاکمیت جو کہ عام اور (ہر چیز کو) شامل ہے پر کماحقہ(جیسا کہ اس کا حق بنتا ہے) ایمان لائیں۔ اوراصول دین اور اس کی فروعات میں اس کا بھرپور التزام کریں۔ اور تمام مسلم ریاستوں کے حکمرانوں کو بھی دعوت دیتا ہوں چاہے وہ حاکم
یت الہی کا التزام (پابندی) کرتے ہوں یا کسی بھی چیز کی تطبیق ونفاذ میں کسی کوتاہی کا شکار ہوں کہ وہ تمام میدان زندگی خواہ عقائد ہوں یا عبادات، معاملات، اقتصادومعاشیات، سیاست اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہو میں حاکمیت وشریعت الہی کا مکمل نفاذ کریں اور شرک وبدعات اور ہر قسم کی معاصی (گناہ) منکرات (برائیاں) خصوصاً سود اور دیگر تمام کبیرہ گناہ جو امت اور اس کے اخلاق کے لئے نقصان دہ ہیں کے خاتمے کی کوشش کریں۔ کیونکہ اللہ تعالی (شریعت کا نفاذ کرنے والے) حکمران کے ذریعہ ان باتوں سے رکوا لیتا ہے جو (محض) قرآن (کے پڑھنے) کے ذریعہ نہیں رکتی، اور وہ دل میں پوری طرح اس بات کا شعور رکھیں کہ اللہ تعالی ان کی مسئولیت(ذمہ داری) کے تحت ہر چھوٹی بڑی چیز کے بارے میں سوال کرے گا، جیسا کہ حدیث میں ہے :
’’كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ‘‘([3])
(تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت (رعایا) کے متعلق سوال کیا جائے گا)۔
اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث بھی یاددلاتا ہوں کہ:
’’مَا مِنْ وَالٍ يَلِي رَعِيَّةً مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَيَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لَهُمْ إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ‘‘([4])
(کوئی بھی حاکم جس کے تحت مسلم رعایا ہو اور اسے موت اس حال میں آئے کہ وہ ان کے ساتھ دھوکہ بازی کرتا تھا تو اللہ تعالی اس پر جنت کو حرام قرار دے دیتے ہیں)۔
اور فرمایا :
’’مَا مِنْ عَبْدٍ اسْتَرْعَاهُ اللَّهُ رَعِيَّةً فَلَمْ يَحُطْهَا بِنَصِيحَةٍ إِلَّا لَمْ يَجِدْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ‘‘
(کسی بھی بندے کے ماتحت جب اللہ تعالی رعایا دیتا ہے، اور وہ ان کی نصیحت وخیرخواہی نہیں چاہتا، تو وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا)۔
امت کی خیرخواہی اور نصیحت چاہنے میں سے یہ بھی ہے کہ انہیں احکامات وشریعت الٰہی کے التزام پر تعلیم ووضاحت، ترغیب دینا اور تنبیہ کرنا، امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور اقامتِ حدود کے ذریعہ گامزن کیا جائے، اور ہر وہ تدابیر اپنائی جائیں جو انہیں شریعت الہی کے احترام کی طرف دعوت دے خواہ عقیدے کے اعتبار سے ہو یا عبادات، سیاست اور اخلاق کے اعتبار سے۔
میں اسلامی ممالک کے سربراہان کو دعوت دیتا ہوں کہ جو شریعت الہی کا التزام نہیں کرتے کہ وہ اللہ تعالی کی جانب رجوع کریں اور اس کے دین کا احترام کریں جو کہ قرآن وسنت پر مشتمل ہے، اور اس دین کے عقائد واحکامات کو اپناکر سرخرو وسرفراز اور کامیاب ہوجائیں کیونکہ اسی میں ان کی حقیقی عزت وکرامت ہے۔
یہ ذلت ورسوائی کی انتہاء ہے کہ ایسے قوانین کے آگے جھکا جائے جنہیں نیچ ترین انسانوں اور اس امت کے کھلے دشمنوں نے وضع کیا ہے، چاہے وہ یہود ہوں یا نصاریٰ (عیسائی) ، مجوس (آتش پرست) ہوں یا ملحدین (کمیونسٹ/سیکولر)۔ وہ امت کے جذبات کا لحاظ کریں کہ جنہوں نے بہت جدوجہد ومحنتیں کیں اور اپنے لاکھوں جوانوں کی قربانی دی فقط اس عظیم ومقدس مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر کہ اس امت پر اسلام کی حاکمیت قائم ہو۔ اور اسلام کیا ہے؟ وہ اللہ تعالی کا دینِ حق ہے وہ اللہ کہ جو اس کائنات کا خالق ہے اور جس نے جن وانس کو اکیلے اپنی عبادت کے لئے ہی پیدا فرمایااور تاکہ وہ اس اکیلے کی شریعت کے آگے سرتسلیم خم کریں۔ پس آپ خوداپنے عقیدے، اخلاق، تعلیم اور اس اسلامی نصاب کے مقرر کرنے میں کہ جس پر تعلیم وتربیت کا دارومدار ہے شریعت کا التزام کریں اور امت کو بھی اس پر کاربند کریں۔
میں علماء وداعیان امت اور تمام جماعتوں اور فرقوں سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ پوری امت خواہ بوڑھے ہوں یا جوان، مردہوں یا عورت کی خیر خواہی کا ثبوت دیتے ہوئے انہیں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور منہج وفہم سلف صالحین یعنی صحابہ، تابعین اور آئمہ ہدایت میں سےوہ فقہاء ومحدثین ومفسرین جنہوں نے بھلائی کے ساتھ ان کی اتباع کی پر عقیدے، عبادت، اخلاق، معاملات، اقتصاد ومعاشیات اور اسلام وایمان کے تمام امور کے اعتبار سے جمع کریں۔ اور اللہ تعالی کے اس فرمان کا کماحقہ ادراک وفہم حاصل کریں کہ:
﴿وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ﴾ (المائدۃ: 44)
(اور جو کوئی اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، پس یہی لوگ کافر ہیں)
﴿وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾ (المائدۃ: 45)
(اور جو کوئی اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، پس یہی لوگ ظالم ہیں)
﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾ (المائدۃ: 47)
(اور جو کوئی اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، پس یہی لوگ فاسق ہیں)
یہ آیات ہر ایک کو شامل ہے چاہے وہ افراد ہوں یا جماعتیں، حکمران ہوں یا محکومین۔ مگر اسےمحض حکمرانوں تک محدود کردینا اوران اہل اہوا وبدعت اور گمراہوں پر اسے نافذ نہ کرنا کہ جو اپن
’’كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ‘‘([3])
(تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت (رعایا) کے متعلق سوال کیا جائے گا)۔
اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث بھی یاددلاتا ہوں کہ:
’’مَا مِنْ وَالٍ يَلِي رَعِيَّةً مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَيَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لَهُمْ إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ‘‘([4])
(کوئی بھی حاکم جس کے تحت مسلم رعایا ہو اور اسے موت اس حال میں آئے کہ وہ ان کے ساتھ دھوکہ بازی کرتا تھا تو اللہ تعالی اس پر جنت کو حرام قرار دے دیتے ہیں)۔
اور فرمایا :
’’مَا مِنْ عَبْدٍ اسْتَرْعَاهُ اللَّهُ رَعِيَّةً فَلَمْ يَحُطْهَا بِنَصِيحَةٍ إِلَّا لَمْ يَجِدْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ‘‘
(کسی بھی بندے کے ماتحت جب اللہ تعالی رعایا دیتا ہے، اور وہ ان کی نصیحت وخیرخواہی نہیں چاہتا، تو وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا)۔
امت کی خیرخواہی اور نصیحت چاہنے میں سے یہ بھی ہے کہ انہیں احکامات وشریعت الٰہی کے التزام پر تعلیم ووضاحت، ترغیب دینا اور تنبیہ کرنا، امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور اقامتِ حدود کے ذریعہ گامزن کیا جائے، اور ہر وہ تدابیر اپنائی جائیں جو انہیں شریعت الہی کے احترام کی طرف دعوت دے خواہ عقیدے کے اعتبار سے ہو یا عبادات، سیاست اور اخلاق کے اعتبار سے۔
میں اسلامی ممالک کے سربراہان کو دعوت دیتا ہوں کہ جو شریعت الہی کا التزام نہیں کرتے کہ وہ اللہ تعالی کی جانب رجوع کریں اور اس کے دین کا احترام کریں جو کہ قرآن وسنت پر مشتمل ہے، اور اس دین کے عقائد واحکامات کو اپناکر سرخرو وسرفراز اور کامیاب ہوجائیں کیونکہ اسی میں ان کی حقیقی عزت وکرامت ہے۔
یہ ذلت ورسوائی کی انتہاء ہے کہ ایسے قوانین کے آگے جھکا جائے جنہیں نیچ ترین انسانوں اور اس امت کے کھلے دشمنوں نے وضع کیا ہے، چاہے وہ یہود ہوں یا نصاریٰ (عیسائی) ، مجوس (آتش پرست) ہوں یا ملحدین (کمیونسٹ/سیکولر)۔ وہ امت کے جذبات کا لحاظ کریں کہ جنہوں نے بہت جدوجہد ومحنتیں کیں اور اپنے لاکھوں جوانوں کی قربانی دی فقط اس عظیم ومقدس مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر کہ اس امت پر اسلام کی حاکمیت قائم ہو۔ اور اسلام کیا ہے؟ وہ اللہ تعالی کا دینِ حق ہے وہ اللہ کہ جو اس کائنات کا خالق ہے اور جس نے جن وانس کو اکیلے اپنی عبادت کے لئے ہی پیدا فرمایااور تاکہ وہ اس اکیلے کی شریعت کے آگے سرتسلیم خم کریں۔ پس آپ خوداپنے عقیدے، اخلاق، تعلیم اور اس اسلامی نصاب کے مقرر کرنے میں کہ جس پر تعلیم وتربیت کا دارومدار ہے شریعت کا التزام کریں اور امت کو بھی اس پر کاربند کریں۔
میں علماء وداعیان امت اور تمام جماعتوں اور فرقوں سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ پوری امت خواہ بوڑھے ہوں یا جوان، مردہوں یا عورت کی خیر خواہی کا ثبوت دیتے ہوئے انہیں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور منہج وفہم سلف صالحین یعنی صحابہ، تابعین اور آئمہ ہدایت میں سےوہ فقہاء ومحدثین ومفسرین جنہوں نے بھلائی کے ساتھ ان کی اتباع کی پر عقیدے، عبادت، اخلاق، معاملات، اقتصاد ومعاشیات اور اسلام وایمان کے تمام امور کے اعتبار سے جمع کریں۔ اور اللہ تعالی کے اس فرمان کا کماحقہ ادراک وفہم حاصل کریں کہ:
﴿وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ﴾ (المائدۃ: 44)
(اور جو کوئی اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، پس یہی لوگ کافر ہیں)
﴿وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾ (المائدۃ: 45)
(اور جو کوئی اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، پس یہی لوگ ظالم ہیں)
﴿وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾ (المائدۃ: 47)
(اور جو کوئی اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، پس یہی لوگ فاسق ہیں)
یہ آیات ہر ایک کو شامل ہے چاہے وہ افراد ہوں یا جماعتیں، حکمران ہوں یا محکومین۔ مگر اسےمحض حکمرانوں تک محدود کردینا اوران اہل اہوا وبدعت اور گمراہوں پر اسے نافذ نہ کرنا کہ جو اپن
ے عقائد، عبادات اور اخلاق میں اللہ تعالی کی شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے پرلے درجے کی جہالت، گمراہی اور بیوقوفی ہے۔ حالانکہ یہ آیات تو اللہ تعالی نے یہود سے متعلق نازل فرمائی تھیں جن کی صدیوں سے کوئی حکومت وریاست تھی ہی نہیں، ایسوں کے بارے میں نازل فرمائی کہ جن پر ذلت، محتاجی ومسکینی لکھ دی گئی تھی۔
لہذا میں نے حاکمیت الہی کو اسی وسیع تر اور کامل وشامل معنی کے ساتھ اپنی کتاب میں بیان کیا تھا، دیکھئے عربی کتاب کی طبع ھذا کا (ص: 133 اور اس کے بعد کے اوراق) اور (ص:196)۔
[1] (( منهاج السنَّة النبويَّة )) (3/32) اور اس کے بعد جو کلام ہے، جس میں بیان کیا گیا ہے کہ جو اللہ تعالی کی حاکمیت کا التزام نہیں کرتا وہ کافر ہے، اور ساتھ ہی علمی اور عملی دونوں امور میں اس کا عموم بیان فرمایا ہے۔
[2] (( مدارج السالكين )) ( 1/336).
[3] صحیح بخاری 849۔
[4] یہ اور اس کے بعد والی حدیث ((صحيح البخاري))، كتاب الأحكام (رقم:7150-7151)۔
لہذا میں نے حاکمیت الہی کو اسی وسیع تر اور کامل وشامل معنی کے ساتھ اپنی کتاب میں بیان کیا تھا، دیکھئے عربی کتاب کی طبع ھذا کا (ص: 133 اور اس کے بعد کے اوراق) اور (ص:196)۔
[1] (( منهاج السنَّة النبويَّة )) (3/32) اور اس کے بعد جو کلام ہے، جس میں بیان کیا گیا ہے کہ جو اللہ تعالی کی حاکمیت کا التزام نہیں کرتا وہ کافر ہے، اور ساتھ ہی علمی اور عملی دونوں امور میں اس کا عموم بیان فرمایا ہے۔
[2] (( مدارج السالكين )) ( 1/336).
[3] صحیح بخاری 849۔
[4] یہ اور اس کے بعد والی حدیث ((صحيح البخاري))، كتاب الأحكام (رقم:7150-7151)۔
[Urdu Book] Explanation of the foudations of Sunnah Imaam Ahmed bin Hanbal (rahimaullaah) - Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
شرح أصول السنة امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ - شیخ ربیع بن ہادی المدخلی
شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ فرماتےہیں:
بلاشبہ وہ اسلامی عقیدہ جسے لے کر تمام رسالتیں آئیں اس کی اسلام میں بڑی عظیم منزلت ہے، کیوں کہ یہ ہی اسلام کی اصل وبنیاد ہے ، اور یہی وہ کسوٹی ومعیار ہے جو صحیح دین اور فاسد دین کے درمیان فرق کرتا ہے۔
اسی وجہ سے علماء اسلام (علماء اہل السنۃ والجماعۃ ) نے اس کا خاص اہتمام فرمایاہے کہ وہ اس عقیدے کو بیان کرتے ہیں، اس کی شرح ووضاحت کرتے ہیں، اس کی جانب دعوت دیتے ہیں، اس کا دفاع کرتے ہیں اور اسی سلسلے میں تالیفات بھی لکھتے ہیں ۔ اور عقیدے کے باب میں چھوٹی بڑی ہر قسم کی کتابیں اور تالیفات لکھی گئی ہیں اور ان ہی مؤلفات میں سے ’’السنۃ‘‘کے نام سے جو کتابیں ہوتی ہیں وہ بھی سرفہرست ہیں۔
کیوں کہ یہ جلیل القدر علماء جانتے تھے کہ عقیدے کی کیا قدر ومنزلت اور شان ہے، اور یہ کہ اس میں سے کسی چیز میں ، یااصول میں سے کسی اصل میں جو گمراہ ومنحرف ہوتو وہ کفر سے لے کر بدعات وگمراہی تک کے بہت بڑے خطرے میں ہے۔
طلاب العلم پر واجب ہے کہ وہ اس عقیدے کے پڑھنے کا اہتمام کریں ،اور ان اصول کا جن پر یہ عقیدہ قائم ہے ۔
اور جو مختصر رسائل عقیدے کے بیان میں لکھے گئے ہیں ان ہی میں سے یہ امام اہل السنۃ والجماعۃ احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی کتاب ’’اصول السنۃ‘ہے۔ اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائيں کہ خود امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ان لازمی سنتوں (عقائد) میں سے جن میں سے کسی ایک خصلت کو بھی کوئی اس طور پر ترک کرے کہ نہ تو اسے قبول کرےاور نہ ہی اس پر ایمان رکھے تو وہ ان (اہل سنت والجماعت) میں سے نہیں‘‘۔
اس کے بعد آپ عقیدۂ اہل سنت والجماعت ذکر کرتے ہيں کہ اس کے مطابق اعتقاد نہ رکھنے والا اہل سنت والجماعت میں سے نہيں ہوسکتا اگرچہ وہ اس کا دعویٰ ہی کرتا رہے۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/sharh_usool_us_sunnah_rabee.pdf
شرح أصول السنة امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ - شیخ ربیع بن ہادی المدخلی
شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ فرماتےہیں:
بلاشبہ وہ اسلامی عقیدہ جسے لے کر تمام رسالتیں آئیں اس کی اسلام میں بڑی عظیم منزلت ہے، کیوں کہ یہ ہی اسلام کی اصل وبنیاد ہے ، اور یہی وہ کسوٹی ومعیار ہے جو صحیح دین اور فاسد دین کے درمیان فرق کرتا ہے۔
اسی وجہ سے علماء اسلام (علماء اہل السنۃ والجماعۃ ) نے اس کا خاص اہتمام فرمایاہے کہ وہ اس عقیدے کو بیان کرتے ہیں، اس کی شرح ووضاحت کرتے ہیں، اس کی جانب دعوت دیتے ہیں، اس کا دفاع کرتے ہیں اور اسی سلسلے میں تالیفات بھی لکھتے ہیں ۔ اور عقیدے کے باب میں چھوٹی بڑی ہر قسم کی کتابیں اور تالیفات لکھی گئی ہیں اور ان ہی مؤلفات میں سے ’’السنۃ‘‘کے نام سے جو کتابیں ہوتی ہیں وہ بھی سرفہرست ہیں۔
کیوں کہ یہ جلیل القدر علماء جانتے تھے کہ عقیدے کی کیا قدر ومنزلت اور شان ہے، اور یہ کہ اس میں سے کسی چیز میں ، یااصول میں سے کسی اصل میں جو گمراہ ومنحرف ہوتو وہ کفر سے لے کر بدعات وگمراہی تک کے بہت بڑے خطرے میں ہے۔
طلاب العلم پر واجب ہے کہ وہ اس عقیدے کے پڑھنے کا اہتمام کریں ،اور ان اصول کا جن پر یہ عقیدہ قائم ہے ۔
اور جو مختصر رسائل عقیدے کے بیان میں لکھے گئے ہیں ان ہی میں سے یہ امام اہل السنۃ والجماعۃ احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی کتاب ’’اصول السنۃ‘ہے۔ اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائيں کہ خود امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ان لازمی سنتوں (عقائد) میں سے جن میں سے کسی ایک خصلت کو بھی کوئی اس طور پر ترک کرے کہ نہ تو اسے قبول کرےاور نہ ہی اس پر ایمان رکھے تو وہ ان (اہل سنت والجماعت) میں سے نہیں‘‘۔
اس کے بعد آپ عقیدۂ اہل سنت والجماعت ذکر کرتے ہيں کہ اس کے مطابق اعتقاد نہ رکھنے والا اہل سنت والجماعت میں سے نہيں ہوسکتا اگرچہ وہ اس کا دعویٰ ہی کرتا رہے۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/sharh_usool_us_sunnah_rabee.pdf
[Urdu Article] The definition of hypocrisy – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
نفاق کی تفسیر
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شرح اصول السنۃ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ "اصول السنۃ" میں فرماتے ہیں:
’’نفاق کفر ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی کا کفر کرے اور غیر کی عبادت کرے، (لیکن) ظاہر میں اسلام کا اظہار کرے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں منافقین تھے‘‘۔
اس پر شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ کی شرح جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/nifaaq_ki_tafseer.pdf
نفاق کی تفسیر
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شرح اصول السنۃ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ "اصول السنۃ" میں فرماتے ہیں:
’’نفاق کفر ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی کا کفر کرے اور غیر کی عبادت کرے، (لیکن) ظاہر میں اسلام کا اظہار کرے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں منافقین تھے‘‘۔
اس پر شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ کی شرح جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/nifaaq_ki_tafseer.pdf