[Urdu Article] Obeying the rulers – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
حکمرانوں کی اطاعت کرنا
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شرح اصول السنۃ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’امیر المؤمنین جو خلافت پر والی ومتمکن ہوجائے اور لوگ اس پر مجتمع ہوکر راضی ہوجائیں، یاپھر جو تلوار کے زور پر غالب ہوجائے یہاں تک کہ (اپنے آپ) خلیفہ بن بیٹھے، اور امیر المؤمنین (مسلمانوں کا حکام) کہلایا جانے لگےتو اس کا حکم سننا اور اطاعت کرنا ہے خواہ نیک ہو یا بد‘‘۔
اس پر شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ کی شرح جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/hukkam_ittat_karna.pdf
حکمرانوں کی اطاعت کرنا
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شرح اصول السنۃ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’امیر المؤمنین جو خلافت پر والی ومتمکن ہوجائے اور لوگ اس پر مجتمع ہوکر راضی ہوجائیں، یاپھر جو تلوار کے زور پر غالب ہوجائے یہاں تک کہ (اپنے آپ) خلیفہ بن بیٹھے، اور امیر المؤمنین (مسلمانوں کا حکام) کہلایا جانے لگےتو اس کا حکم سننا اور اطاعت کرنا ہے خواہ نیک ہو یا بد‘‘۔
اس پر شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ کی شرح جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/hukkam_ittat_karna.pdf
[Urdu Article] The rulers lead the Jihaad, prayers and collect Zakat whether they are just or unjust – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
حکام خواہ نیک ہوں یا برے ان کی سربراہی میں جہاد ہوگا
نماز پڑھی جائے گی اور انہيں زکوٰۃ ادا کی جائے گی
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شرح اصول السنۃ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا :
’’امراء(حکام) خواہ نیک ہویابدکےساتھ مل کر(ان کی سربراہی میں)تاقیام قیامت غزوہ (جہاد)باقی رہے گا، اسے چھوڑا نہیں جائے گا۔
اسی طرح مال فئ کی تقسیم اور اقامتِ حدود ان آئمہ (حکام) کے ساتھ باقی رہے گی۔ کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ ان پر طعن کرے یا ان سے (حکومت کے معاملے میں) تنازع برتے۔ انہیں صدقات (زکوۃ) ادا کرنا جائز ونافذ رہے گا۔ جو اس (زکوۃ)کو ان (حکام)کو ادا کردے تو یہ اس کے لئے کافی ہے۔ (یہ تمام باتیں ان حکام کے حق میں باقی رہیں گی)خواہ نیک ہو یا بد۔
ان (حکام) کے پیچھے اور جنہیں یہ امام مقرر کریں ان کے پیچھے نماز جمعہ جائز ہےاورباقی ہے مکمل دو رکعتیں۔ جس نے اپنی نماز کو (ان کے پیچھے پڑھنے کے بعد) لوٹایا تو وہ بدعتی، آثار کو ترک کرنے والا اور سنت کی مخالفت کرنے والا ہے۔ اگر وہ نیک وبد آئمہ کے پیچھے نماز کو جائز نہیں سمجھتا تو اس کے لئے جمعہ کی فضیلت میں سے کچھ بھی حصہ نہیں۔ سنت یہ ہےکہ ان کے ساتھ دو رکعتیں پڑھو، اور یہ یقین رکھو کہ یہ مکمل ادا ہوگئی ہے، اور تمہارے دل میں اس بارے میں کوئی شک بھی نہ ہو‘‘۔
اس پر شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ کی شرح جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/hukkam_jihad_namaz_zakat.pdf
حکام خواہ نیک ہوں یا برے ان کی سربراہی میں جہاد ہوگا
نماز پڑھی جائے گی اور انہيں زکوٰۃ ادا کی جائے گی
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شرح اصول السنۃ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا :
’’امراء(حکام) خواہ نیک ہویابدکےساتھ مل کر(ان کی سربراہی میں)تاقیام قیامت غزوہ (جہاد)باقی رہے گا، اسے چھوڑا نہیں جائے گا۔
اسی طرح مال فئ کی تقسیم اور اقامتِ حدود ان آئمہ (حکام) کے ساتھ باقی رہے گی۔ کسی کے لئے جائز نہیں کہ وہ ان پر طعن کرے یا ان سے (حکومت کے معاملے میں) تنازع برتے۔ انہیں صدقات (زکوۃ) ادا کرنا جائز ونافذ رہے گا۔ جو اس (زکوۃ)کو ان (حکام)کو ادا کردے تو یہ اس کے لئے کافی ہے۔ (یہ تمام باتیں ان حکام کے حق میں باقی رہیں گی)خواہ نیک ہو یا بد۔
ان (حکام) کے پیچھے اور جنہیں یہ امام مقرر کریں ان کے پیچھے نماز جمعہ جائز ہےاورباقی ہے مکمل دو رکعتیں۔ جس نے اپنی نماز کو (ان کے پیچھے پڑھنے کے بعد) لوٹایا تو وہ بدعتی، آثار کو ترک کرنے والا اور سنت کی مخالفت کرنے والا ہے۔ اگر وہ نیک وبد آئمہ کے پیچھے نماز کو جائز نہیں سمجھتا تو اس کے لئے جمعہ کی فضیلت میں سے کچھ بھی حصہ نہیں۔ سنت یہ ہےکہ ان کے ساتھ دو رکعتیں پڑھو، اور یہ یقین رکھو کہ یہ مکمل ادا ہوگئی ہے، اور تمہارے دل میں اس بارے میں کوئی شک بھی نہ ہو‘‘۔
اس پر شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ کی شرح جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/hukkam_jihad_namaz_zakat.pdf
[Urdu Book] O callers to Islaam! Tawheed First - Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen Al-Albaanee
اے داعیان اسلام! توحید سب سے پہلے - شیخ محمد ناصر الدین البانی
شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ:
سوال: فضیلۃ الشیخ بلاشبہ آپ جانتے ہیں کہ امتِ مسلمہ کی دینی حالت نہایت ابتر ہے عقیدہ اور اعتقادی مسائل سے جہالت کے اعتبار سے اور اپنے مناہج میں افتراق کے اعتبار سے بھی، کہ پوری دنیا میں اکثر دعوت اسلام پہنچانے میں اس عقیدۂ اول اور منہج ِاول سے غفلت برتی جاتی ہے جس کے ذریعہ امت کے پہلےلوگوں کی اصلاح ہوئی تھی۔ یہ المناک حالت یقیناً مخلص مسلمانوں کے اندر غیرت کو ابھارتی ہے اور اس کو بدل دینے اور اس خلل کی اصلاح کرنے کی جانب رغبت دلاتی ہے، مگر جیسا کہ فضیلۃ الشیخ آپ جانتے ہیں کہ اس اصلاح کی خاطر وہ اپنے میلاناتِ عقیدۂ ومنہج میں اختلاف کی وجہ سے اپنے طریقۂ کار میں اختلاف کا شکار ہیں۔ ان مختلف تحریکوں اور اسلامی حزبی جماعتوں کوآپ جانتے ہیں جو برسوں دہائیوں سے امت کی اصلاح کا ڈنڈھورا پیٹ تو رہی ہیں، مگر اس کے باوجود ان کے لئے آج تک کوئی نجات یا فلاح رقم نہیں ہوئی، بلکہ اس کے برعکس ان تحریکوں کی وجہ سے فتنے ابھرے، آفتوں کا نزول ہوا اور عظیم مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کی وجہ ان کی اپنے عقیدہ ومنہج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم اور جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے کی مخالف کرنا ہے۔ اس بات نے مسلمانوں خصوصاً شبابِ امت میں اس صورتحال کے علاج کی کیفیت کے بارے میں ایسا گہرا اثر چھوڑا ہے کہ سب حیران وپریشان ہیں۔ ایک مسلمان داعی جو منہج ِنبوت سے تمسک کرتا ہے اور سبیل المومنین کی اتباع کرتا ہے، فہم صحابہ اور جنہوں نے بطریقۂ احسن ان کی پیروی کی کی بجاآوری کرتا ہے، وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اس صورتحال کی اصلاح یا اس کے علاج میں مشارکت کے سلسلے میں اس نے ایک عظیم امانت کا بیڑا اٹھایا ہے۔
آپ کی کیا نصیحت ہے ایسی تحریکوں یا جماعتوں کی اتباع کرنے والوں کے لئے؟
اور اس صورتحال کے علاج کا کون سا نفع بخش اور مفید طریقے ہیں؟
اور ایک مسلمان کس طرح بروز قیامت اللہ تعالی کے سامنے برئ الذمہ ہوگا؟
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/tawheed_sub_say_pehlay_albany.pdf
اے داعیان اسلام! توحید سب سے پہلے - شیخ محمد ناصر الدین البانی
شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ:
سوال: فضیلۃ الشیخ بلاشبہ آپ جانتے ہیں کہ امتِ مسلمہ کی دینی حالت نہایت ابتر ہے عقیدہ اور اعتقادی مسائل سے جہالت کے اعتبار سے اور اپنے مناہج میں افتراق کے اعتبار سے بھی، کہ پوری دنیا میں اکثر دعوت اسلام پہنچانے میں اس عقیدۂ اول اور منہج ِاول سے غفلت برتی جاتی ہے جس کے ذریعہ امت کے پہلےلوگوں کی اصلاح ہوئی تھی۔ یہ المناک حالت یقیناً مخلص مسلمانوں کے اندر غیرت کو ابھارتی ہے اور اس کو بدل دینے اور اس خلل کی اصلاح کرنے کی جانب رغبت دلاتی ہے، مگر جیسا کہ فضیلۃ الشیخ آپ جانتے ہیں کہ اس اصلاح کی خاطر وہ اپنے میلاناتِ عقیدۂ ومنہج میں اختلاف کی وجہ سے اپنے طریقۂ کار میں اختلاف کا شکار ہیں۔ ان مختلف تحریکوں اور اسلامی حزبی جماعتوں کوآپ جانتے ہیں جو برسوں دہائیوں سے امت کی اصلاح کا ڈنڈھورا پیٹ تو رہی ہیں، مگر اس کے باوجود ان کے لئے آج تک کوئی نجات یا فلاح رقم نہیں ہوئی، بلکہ اس کے برعکس ان تحریکوں کی وجہ سے فتنے ابھرے، آفتوں کا نزول ہوا اور عظیم مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ جس کی وجہ ان کی اپنے عقیدہ ومنہج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم اور جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے کی مخالف کرنا ہے۔ اس بات نے مسلمانوں خصوصاً شبابِ امت میں اس صورتحال کے علاج کی کیفیت کے بارے میں ایسا گہرا اثر چھوڑا ہے کہ سب حیران وپریشان ہیں۔ ایک مسلمان داعی جو منہج ِنبوت سے تمسک کرتا ہے اور سبیل المومنین کی اتباع کرتا ہے، فہم صحابہ اور جنہوں نے بطریقۂ احسن ان کی پیروی کی کی بجاآوری کرتا ہے، وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اس صورتحال کی اصلاح یا اس کے علاج میں مشارکت کے سلسلے میں اس نے ایک عظیم امانت کا بیڑا اٹھایا ہے۔
آپ کی کیا نصیحت ہے ایسی تحریکوں یا جماعتوں کی اتباع کرنے والوں کے لئے؟
اور اس صورتحال کے علاج کا کون سا نفع بخش اور مفید طریقے ہیں؟
اور ایک مسلمان کس طرح بروز قیامت اللہ تعالی کے سامنے برئ الذمہ ہوگا؟
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/tawheed_sub_say_pehlay_albany.pdf
[Urdu Video] #Allaah ki traf say #deen_ki_nemat uski #qudarti_nemat say bhi badi hai
https://safeshare.tv/x/O6qafdYxGJk
https://safeshare.tv/x/O6qafdYxGJk
SafeShare.tv
#Allaah ki traf say #deen_ki_nemat uski #qudarti_nemat say bhi badi hai - Safeshare.TV
SafeShare is the perfect tool for sharing YouTube videos with kids in a safe environment.
[Urdu Article] What is the difference between the Aqeedah of Sayyed Qutb and Maududee? – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
سید قطب اور ابو الاعلیٰ مودودی کے عقیدے میں کیا فرق ہے؟
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کیسٹ بعنوان: الأخذ بالكتاب والسنة۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/syed_qutb_maududee_aqeedah_farq.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: سیدقطب اور ابو الاعلیٰ مودودی کے عقیدے میں کیا فرق ہے؟
جواب: اپنی اصل میں تو دونوں کا عقیدہ یکساں ہے، دونوں ہی اشعری وجہمی ہيں، دونوں کے پاس رفض میں سے بھی کچھ پایاجاتا اور تکفیر میں سے بھی، لہذا کافی چیزوں میں ایک سے ہيں۔ البتہ سید قطب کا حال مودودی سے زیادہ بدتر ہے۔ سید قطب کی کتابیں گمراہیوں سے اٹی پڑی ہیں۔ سید قطب کی اسلامیات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ ہندوؤں کی اور فرعونی عقائد تک کی تعریف کرتا ہے۔ اور اس کی کتاب میں، اس کتاب ’’الشخصية‘‘ میں آپ صفحہ نمبر 228-242 پر جائيں اور دیکھیں کہ وہ کیسے فرعونیت کی تعریف میں رطب اللسان ہےاور مصری معاشرے کو ملامت کرتا ہے کہ کیوں انہوں نے ان کی تہذیب وآثار کی حفاظت نہيں کی جن میں سے اوثان وبت بھی تھے۔ اسی طرح سے پلید ترین ہندو عقائد اور نروان (بدھ مت وجین کا ایک تصور) کی مدح سرائی کرتے ہوئے کہتا ہے: ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کے تقدس کے آگے خشوع کے ساتھ کھڑے ہوں!
میں سید قطب سے بڑھ کر کسی بھی گمراہ شخص کو نہيں جانتا، اس نے تو تمام قدیم وجدید گمراہیوں کو چن چن کر جمع کردیاہے، پکا خرافی تھا، بارک اللہ فیک۔ روح کی ازلیت کا بھی قائل ہے، حریت ادیان کا بھی، وہ آپ کے سامنے اسلام کا یہ تصور پیش کرے گا گویا کہ اسلام آیا ہے دوسرے ادیان کی حفاظت کے لیے ہے، اور اسلام نے غیرمسلموں کے معبد خانوں کو مساجد پر ترجیح دی ہے۔ اسلام کو مکمل موم بنا کر رکھ دیا ہے۔ اور ذمی لوگوں کے بارے میں جو ہے کہ وہ ذلیل و پست ہوکر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اس ذلت کا بھی انکار کیا ہے اور یہ رائے رکھتا ہے کہ اس میں کوئی مانع نہیں کہ اگر کوئی مسلمان اپنی فوج میں داخل نہیں ہوتا تو اس پر بھی جزیہ لگادیا جائے، اور یہ رائے رکھتا ہے کہ جو کچھ یہود اور دیگر ذمیوں سے جزیہ لیا جاتا ہے وہ ان کی ذلت وپستی نہیں بلکہ وہ تو ایک فوجداری ٹیکس ہے ، جب وہ یہ فوجداری ٹیکس دے دیتے ہیں۔۔۔یعنی یہ (سید قطب اور قطبی لوگ) سیکولروں، کمیونسٹوں، روافض وباطنیوں سے تو بڑی الفت نبھاتے اور ظاہر کرتے ہيں۔ لیکن جب امت اسلامیہ پر قلم اٹھاتے ہیں تو اس کی توہین کیے جاتے ہیں اور اس کے خلاف حسد، بغض ونفرت کا بیج بوتے رہتے ہیں۔
اسی لیے آپ آج دیکھیں ان لوگوں کو انسانوں کو ذبح کرتے ہیں کسی لوگوں سے بھرے گھر پر دھاوا بول کر سب کو ذبح کرڈالتے ہیں اس سید قطب کے کلام کی بنیاد پر، یہی سب فتنہ دہشتگردی کے منظر عام پر جاری وساری ہے اور آخر تک جو فتنے ہیں اور قتل وغارت سب اس سید قطب کی فکر کی وجہ سے ہے۔ چناچہ یہ مسئلہ بہت ہی زیادہ خطرناک ہے۔۔۔بارک اللہ فیک۔
تو لازم ہے کہ یہ امت خواب غفلت سے بیدار ہو اور اس دینی، فکری اور اخلاقی تباہی کو سمجھے۔
سید قطب اور ابو الاعلیٰ مودودی کے عقیدے میں کیا فرق ہے؟
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کیسٹ بعنوان: الأخذ بالكتاب والسنة۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/syed_qutb_maududee_aqeedah_farq.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: سیدقطب اور ابو الاعلیٰ مودودی کے عقیدے میں کیا فرق ہے؟
جواب: اپنی اصل میں تو دونوں کا عقیدہ یکساں ہے، دونوں ہی اشعری وجہمی ہيں، دونوں کے پاس رفض میں سے بھی کچھ پایاجاتا اور تکفیر میں سے بھی، لہذا کافی چیزوں میں ایک سے ہيں۔ البتہ سید قطب کا حال مودودی سے زیادہ بدتر ہے۔ سید قطب کی کتابیں گمراہیوں سے اٹی پڑی ہیں۔ سید قطب کی اسلامیات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ ہندوؤں کی اور فرعونی عقائد تک کی تعریف کرتا ہے۔ اور اس کی کتاب میں، اس کتاب ’’الشخصية‘‘ میں آپ صفحہ نمبر 228-242 پر جائيں اور دیکھیں کہ وہ کیسے فرعونیت کی تعریف میں رطب اللسان ہےاور مصری معاشرے کو ملامت کرتا ہے کہ کیوں انہوں نے ان کی تہذیب وآثار کی حفاظت نہيں کی جن میں سے اوثان وبت بھی تھے۔ اسی طرح سے پلید ترین ہندو عقائد اور نروان (بدھ مت وجین کا ایک تصور) کی مدح سرائی کرتے ہوئے کہتا ہے: ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کے تقدس کے آگے خشوع کے ساتھ کھڑے ہوں!
میں سید قطب سے بڑھ کر کسی بھی گمراہ شخص کو نہيں جانتا، اس نے تو تمام قدیم وجدید گمراہیوں کو چن چن کر جمع کردیاہے، پکا خرافی تھا، بارک اللہ فیک۔ روح کی ازلیت کا بھی قائل ہے، حریت ادیان کا بھی، وہ آپ کے سامنے اسلام کا یہ تصور پیش کرے گا گویا کہ اسلام آیا ہے دوسرے ادیان کی حفاظت کے لیے ہے، اور اسلام نے غیرمسلموں کے معبد خانوں کو مساجد پر ترجیح دی ہے۔ اسلام کو مکمل موم بنا کر رکھ دیا ہے۔ اور ذمی لوگوں کے بارے میں جو ہے کہ وہ ذلیل و پست ہوکر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اس ذلت کا بھی انکار کیا ہے اور یہ رائے رکھتا ہے کہ اس میں کوئی مانع نہیں کہ اگر کوئی مسلمان اپنی فوج میں داخل نہیں ہوتا تو اس پر بھی جزیہ لگادیا جائے، اور یہ رائے رکھتا ہے کہ جو کچھ یہود اور دیگر ذمیوں سے جزیہ لیا جاتا ہے وہ ان کی ذلت وپستی نہیں بلکہ وہ تو ایک فوجداری ٹیکس ہے ، جب وہ یہ فوجداری ٹیکس دے دیتے ہیں۔۔۔یعنی یہ (سید قطب اور قطبی لوگ) سیکولروں، کمیونسٹوں، روافض وباطنیوں سے تو بڑی الفت نبھاتے اور ظاہر کرتے ہيں۔ لیکن جب امت اسلامیہ پر قلم اٹھاتے ہیں تو اس کی توہین کیے جاتے ہیں اور اس کے خلاف حسد، بغض ونفرت کا بیج بوتے رہتے ہیں۔
اسی لیے آپ آج دیکھیں ان لوگوں کو انسانوں کو ذبح کرتے ہیں کسی لوگوں سے بھرے گھر پر دھاوا بول کر سب کو ذبح کرڈالتے ہیں اس سید قطب کے کلام کی بنیاد پر، یہی سب فتنہ دہشتگردی کے منظر عام پر جاری وساری ہے اور آخر تک جو فتنے ہیں اور قتل وغارت سب اس سید قطب کی فکر کی وجہ سے ہے۔ چناچہ یہ مسئلہ بہت ہی زیادہ خطرناک ہے۔۔۔بارک اللہ فیک۔
تو لازم ہے کہ یہ امت خواب غفلت سے بیدار ہو اور اس دینی، فکری اور اخلاقی تباہی کو سمجھے۔
[Urdu Article] The prohibition of revolting against a Muslim ruler – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
آئمۃ المسلمین (مسلم حکمرانوں) پر خروج کی حرمت
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شرح اصول السنۃ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا :
’’جو آئمہِ مسلمین(مسلمانوں کے حکام) پر خروج کریں جبکہ لوگ اس پر مجتمع ہوچکے ہوں اور اس کی خلافت (حکومت) کا اقرار کرتے ہوں کسی بھی طور پر چاہے رضامندی سے ہو یا (جبراً) غلبہ حاصل کرکے (تو ایسے حکام پر بھی خروج کرنے والا) مسلمانوں کی حکومت واتحاد کو پارہ پارہ کرنے والا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے ثابت شدہ آثار (احادیث) کی مخالفت کرنے والا ہے۔ اگر وہ اسی خروج کی حالت میں موت پاتا ہے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ سلطان (حاکم) سے قتال کرنا (تختہ الٹنا)جائز نہیں، اور نہ ہی کسی انسان کے لئے ان پر خروج جائز ہے۔ جس نے ایسا کیا تو وہ بدعتی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی سنت اور ان کےطریقے پر نہیں‘‘۔
اس پر شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ کی شرح جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/muslim_hakim_khurooj_haraam.pdf
آئمۃ المسلمین (مسلم حکمرانوں) پر خروج کی حرمت
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شرح اصول السنۃ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا :
’’جو آئمہِ مسلمین(مسلمانوں کے حکام) پر خروج کریں جبکہ لوگ اس پر مجتمع ہوچکے ہوں اور اس کی خلافت (حکومت) کا اقرار کرتے ہوں کسی بھی طور پر چاہے رضامندی سے ہو یا (جبراً) غلبہ حاصل کرکے (تو ایسے حکام پر بھی خروج کرنے والا) مسلمانوں کی حکومت واتحاد کو پارہ پارہ کرنے والا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے ثابت شدہ آثار (احادیث) کی مخالفت کرنے والا ہے۔ اگر وہ اسی خروج کی حالت میں موت پاتا ہے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے۔ سلطان (حاکم) سے قتال کرنا (تختہ الٹنا)جائز نہیں، اور نہ ہی کسی انسان کے لئے ان پر خروج جائز ہے۔ جس نے ایسا کیا تو وہ بدعتی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی سنت اور ان کےطریقے پر نہیں‘‘۔
اس پر شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ کی شرح جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/muslim_hakim_khurooj_haraam.pdf
[Urdu Book] The foundations of Sunnah – Imaam Ahmed bin Hanbal
اصول السنۃ – امام احمد بن حنبل
جس چیز پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے اس سے تمسک اختیار کرنا اور ان کی اقتداء کرنا
سنت کا مقام ومرتبہ اور قرآن مجید سے اس کا تعلق
تقدیر پر ایمان لانا خواہ اچھی ہو یا بری
دین میں جھگڑے وجدال ترک کرنا
قرآن مجید اللہ تعالی کا کلام ہے مخلوق نہيں
دارِآخرت میں روئیت باری تعالی ہوگی اس پر ایمان لانا
بروز قیامت قائم ہونے والے میزان پر ایمان لانا
اللہ تعالی کا بروز قیامت اپنے بندوں سے ہم کلام ہونا
حوضِ کوثر پر ایمان لانا اور اس کی صفات
عذاب قبر پر ایمان لانا
بروز قیامت شفاعت پر ایمان لانا
خروجِ دجال
نزولِ سیدنا عیسی علیہ الصلاۃ والسلام
ایمان قول وعمل کا نام ہےجو بڑھتا گھٹتا ہے
جس نے نماز چھوڑی تحقیق کفر کیا
اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
حکمرانوں کی اطاعت کرنا
جہاد تاقیام قیامت حکمرانوں کی سربراہی میں جاری رہے گا خواہ وہ نیک ہوں یا بد
آئمۃ المسلمین (مسلم حکمرانوں) پر خروج کی حرمت
چوروں اور خوارج کے خلاف قتال جائز ہے
ہم اہل قبلہ میں سے کسی کے لیے جنت یا جہنم کی گواہی نہیں دیتے
اقامت ِحدود کی مشروعیت
کسی بھی صحابئ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں تنقیص کرنے والے کی تبدیع
نفاق کی تفسیر
ہم نصوص کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہیں اگرچہ ہمیں اس کی تفسیر معلوم نہ بھی ہو
یہ ایمان لانا کہ بے شک جنت اور جہنم پیدا کردی گئی ہيں اور اس شخص کا حکم جو ان کا انکار کرے
اہل قبلہ میں سے جو بھی فوت ہوجائے تو اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی اگرچہ وہ گنہگار ہی کیوں نہ ہو
ان عناوین کی تفصیل کے لیے مکمل متن پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/usool_us_sunnah.pdf
اصول السنۃ – امام احمد بن حنبل
جس چیز پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے اس سے تمسک اختیار کرنا اور ان کی اقتداء کرنا
سنت کا مقام ومرتبہ اور قرآن مجید سے اس کا تعلق
تقدیر پر ایمان لانا خواہ اچھی ہو یا بری
دین میں جھگڑے وجدال ترک کرنا
قرآن مجید اللہ تعالی کا کلام ہے مخلوق نہيں
دارِآخرت میں روئیت باری تعالی ہوگی اس پر ایمان لانا
بروز قیامت قائم ہونے والے میزان پر ایمان لانا
اللہ تعالی کا بروز قیامت اپنے بندوں سے ہم کلام ہونا
حوضِ کوثر پر ایمان لانا اور اس کی صفات
عذاب قبر پر ایمان لانا
بروز قیامت شفاعت پر ایمان لانا
خروجِ دجال
نزولِ سیدنا عیسی علیہ الصلاۃ والسلام
ایمان قول وعمل کا نام ہےجو بڑھتا گھٹتا ہے
جس نے نماز چھوڑی تحقیق کفر کیا
اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
حکمرانوں کی اطاعت کرنا
جہاد تاقیام قیامت حکمرانوں کی سربراہی میں جاری رہے گا خواہ وہ نیک ہوں یا بد
آئمۃ المسلمین (مسلم حکمرانوں) پر خروج کی حرمت
چوروں اور خوارج کے خلاف قتال جائز ہے
ہم اہل قبلہ میں سے کسی کے لیے جنت یا جہنم کی گواہی نہیں دیتے
اقامت ِحدود کی مشروعیت
کسی بھی صحابئ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں تنقیص کرنے والے کی تبدیع
نفاق کی تفسیر
ہم نصوص کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہیں اگرچہ ہمیں اس کی تفسیر معلوم نہ بھی ہو
یہ ایمان لانا کہ بے شک جنت اور جہنم پیدا کردی گئی ہيں اور اس شخص کا حکم جو ان کا انکار کرے
اہل قبلہ میں سے جو بھی فوت ہوجائے تو اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی اگرچہ وہ گنہگار ہی کیوں نہ ہو
ان عناوین کی تفصیل کے لیے مکمل متن پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/usool_us_sunnah.pdf
[Urdu Article] Rain – Various 'Ulamaa
بارش
مختلف علماء کرام
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر (جمع وترتیب: میراث الانبیاء ڈاٹ نیٹ)۔
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/08/barish.pdf
1- بارش کے وقت کی دعاء:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بارش نازل ہوتی تو یہ فرماتے:
’’اللَّهُمَّ صَيِّبًا نَافِعًا‘‘
(اے اللہ! اسے نفع بخش بارش بنادے)۔
اسےالبخاری 1032 نے روایت کیا۔
اور ابو داود 5099 کے لفظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے:
’’اللَّهُمَّ صَيِّبًا هَنِيئًا‘‘
(اے اللہ! اسے آسانی وراحت والی بارش بنادے)۔
اسے الالبانی نے صحیح فرمایا۔
2- بارش میں جانا مستحب ہے کہ انسان کے بدن کا کچھ حصہ اس سے بھیگ جائے:
کیونکہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے یہ بات ثابت ہے کہ فرمایا:
’’أَصَابَنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مَطَرٌ، قَالَ: فَحَسَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثَوْبَهُ حَتَّى أَصَابَهُ مِنَ الْمَطَرِ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ صَنَعْتَ هَذَا؟ قَالَ: لِأَنَّهُ حَدِيثُ عَهْدٍ بِرَبِّهِ تَعَالَى‘‘
(ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے کہ ہم پر بارش برسی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا کچھ کپڑا سرکایا تاکہ اسے بارش لگے، ہم نے عرض کی: یا رسول اللہ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےفرمایا: کیونکہ بے شک یہ اپنے رب تعالی کے پاس سے تازہ تازہ آئی ہے)۔
اسے مسلم 898 نے روایت کیا۔
3- جب بارش شدت اختیار کرجاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے:
’’اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلاَ عَلَيْنَا، اللَّهُمَّ عَلَى الآكَامِ وَالظِّرَابِ ، وَبُطُونِ الأَوْدِيَةِ ، وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ‘‘
(اے اللہ! ہمارے اطراف میں بارش برسا ، ہم پر نہ برسا۔ اے اللہ! ٹیلوں،پہاڑیوں، وادیوں کے بیچ اور درخت اگنے کی جگہوں کو سیراب فرما)۔
اسے البخاری 1014 نے روایت فرمایا۔
4- بارش طلب کرنے کی دعاء:
البخاری کی اسی روایت میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ: ایک شخص بروز جمعہ مسجد میں داخل ہوا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ ارشاد فرمارہے تھے، اس نے عرض کی:
’’يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَكَتِ الْأَمْوَالُ وَانْقَطَعْتِ السُّبُلُ فَادْعُ اللَّهَ يُغِيثُنَا، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ أَغِثْنَا، اللَّهُمَّ أَغِثْنَا، اللَّهُمَّ أَغِثْنَا‘‘
(یا رسول اللہ! مال مویشی ہلاک ہوگئے اور راستے بند ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ ہم پر بارش برسائے۔ چنانچہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں ہاتھ مبارک اٹھا کر دعاء فرمائی کہ: ’’اللَّهُمَّ أَغِثْنَا، اللَّهُمَّ أَغِثْنَا، اللَّهُمَّ أَغِثْنَا‘‘ (اے اللہ! ہم پر بارش برسا، اے اللہ! ہم پر بارش برسا، اے اللہ! ہم پر بارش برسا))۔
5- کیا بارش کے برستے وقت دعاء قبول ہوتی ہے؟
مکحول رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’اطْلُبُوا اسْتِجَابَةَ الدُّعَاءِ عِنْدَ الْتِقَاءِ الْجُيُوشِ، وَإِقَامَةِ الصَّلَاةِ، وَنُزُولِ الْغَيْثِ‘‘
(دعاء کی قبولیت کو تلاش کرو جہاد کے موقع پر جب فوجیں باہم ملتی ہيں، اقامتِ صلاۃ کے وقت اور بارش نازل ہوتے وقت)۔
شیخ البانی نے صحیح الجامع 1026 میں اسے صحیح فرمایا۔
ایک اور روایت سیدنا سہل بن سعد السعدی رضی اللہ عنہ سے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’ ثِنتَانِ مَا تُرَدَّانِ: الدُّعَاءُ عِنْدَ النِّدَاءِ وَتَحْتَ الْمَطَرِ‘‘
(دو دعائیں رد نہیں ہوتیں: اذان کے وقت اور برستی بارش کے نیچے)۔
اسے شیخ البانی نے صحیح الجامع 3078 میں حسن فرمایا ہے۔
7- ہر سال بارش کی مقدار یکساں ہوتی ہے لیکن اس کی تقسیم مختلف ہوتی رہتی ہے:
شیخ البانی السلسلۃ الصحیحۃ میں یہ حدیث ذکر فرماتے ہیں:
’’مَا مِنْ عَامٍ بِأَكْثَرَ مَطَرًا مِنْ عَامٍ، وَلَكِنَّ اللَّهَ يُصَرِّفُهُ بَيْنَ خَلْقِهِ [حَيْثُ يَشَاءُ] ثُمَّ قَرَأَ: ﴿وَلَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَيْنَهُمْ [لِيَذَّكَّرُوْا]﴾‘‘
(کوئی بھی سال دوسرے سال کی نسبت زیادہ بارشوں والا نہیں ہوتا لیکن اللہ تعالی اپنی مخلوق میں اس کی الٹ پھیر فرماتا رہتا ہے [جیسے چاہتا ہے] پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: اور بلاشبہ یقیناً ہم نے اسے ان کے درمیان پھیر پھیر کر نازل کیا، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں([1]))۔
اسے شیخ البانی السلسلۃ الصحیحۃ 2461 میں لائے ہیں ، فرماتے ہیں: اسے ابن جریر نے اپنی تفسیر 19/15 میں اور الحاکم 2/403 نے مستدرک میں روایت کیا اور فرمایا: ’’صحيح على شرط الشيخين‘‘ اور الذھبی نے ان کی موافقت فرمائی، شیخ البانی فرماتے ہيں کہ یہ واقعی ایسی ہے جیسا کہ انہو ں نے فرما
بارش
مختلف علماء کرام
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر (جمع وترتیب: میراث الانبیاء ڈاٹ نیٹ)۔
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/08/barish.pdf
1- بارش کے وقت کی دعاء:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بارش نازل ہوتی تو یہ فرماتے:
’’اللَّهُمَّ صَيِّبًا نَافِعًا‘‘
(اے اللہ! اسے نفع بخش بارش بنادے)۔
اسےالبخاری 1032 نے روایت کیا۔
اور ابو داود 5099 کے لفظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے:
’’اللَّهُمَّ صَيِّبًا هَنِيئًا‘‘
(اے اللہ! اسے آسانی وراحت والی بارش بنادے)۔
اسے الالبانی نے صحیح فرمایا۔
2- بارش میں جانا مستحب ہے کہ انسان کے بدن کا کچھ حصہ اس سے بھیگ جائے:
کیونکہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے یہ بات ثابت ہے کہ فرمایا:
’’أَصَابَنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مَطَرٌ، قَالَ: فَحَسَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثَوْبَهُ حَتَّى أَصَابَهُ مِنَ الْمَطَرِ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ صَنَعْتَ هَذَا؟ قَالَ: لِأَنَّهُ حَدِيثُ عَهْدٍ بِرَبِّهِ تَعَالَى‘‘
(ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے کہ ہم پر بارش برسی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا کچھ کپڑا سرکایا تاکہ اسے بارش لگے، ہم نے عرض کی: یا رسول اللہ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےفرمایا: کیونکہ بے شک یہ اپنے رب تعالی کے پاس سے تازہ تازہ آئی ہے)۔
اسے مسلم 898 نے روایت کیا۔
3- جب بارش شدت اختیار کرجاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے:
’’اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلاَ عَلَيْنَا، اللَّهُمَّ عَلَى الآكَامِ وَالظِّرَابِ ، وَبُطُونِ الأَوْدِيَةِ ، وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ‘‘
(اے اللہ! ہمارے اطراف میں بارش برسا ، ہم پر نہ برسا۔ اے اللہ! ٹیلوں،پہاڑیوں، وادیوں کے بیچ اور درخت اگنے کی جگہوں کو سیراب فرما)۔
اسے البخاری 1014 نے روایت فرمایا۔
4- بارش طلب کرنے کی دعاء:
البخاری کی اسی روایت میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ: ایک شخص بروز جمعہ مسجد میں داخل ہوا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ ارشاد فرمارہے تھے، اس نے عرض کی:
’’يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَكَتِ الْأَمْوَالُ وَانْقَطَعْتِ السُّبُلُ فَادْعُ اللَّهَ يُغِيثُنَا، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم يَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ أَغِثْنَا، اللَّهُمَّ أَغِثْنَا، اللَّهُمَّ أَغِثْنَا‘‘
(یا رسول اللہ! مال مویشی ہلاک ہوگئے اور راستے بند ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ ہم پر بارش برسائے۔ چنانچہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں ہاتھ مبارک اٹھا کر دعاء فرمائی کہ: ’’اللَّهُمَّ أَغِثْنَا، اللَّهُمَّ أَغِثْنَا، اللَّهُمَّ أَغِثْنَا‘‘ (اے اللہ! ہم پر بارش برسا، اے اللہ! ہم پر بارش برسا، اے اللہ! ہم پر بارش برسا))۔
5- کیا بارش کے برستے وقت دعاء قبول ہوتی ہے؟
مکحول رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’اطْلُبُوا اسْتِجَابَةَ الدُّعَاءِ عِنْدَ الْتِقَاءِ الْجُيُوشِ، وَإِقَامَةِ الصَّلَاةِ، وَنُزُولِ الْغَيْثِ‘‘
(دعاء کی قبولیت کو تلاش کرو جہاد کے موقع پر جب فوجیں باہم ملتی ہيں، اقامتِ صلاۃ کے وقت اور بارش نازل ہوتے وقت)۔
شیخ البانی نے صحیح الجامع 1026 میں اسے صحیح فرمایا۔
ایک اور روایت سیدنا سہل بن سعد السعدی رضی اللہ عنہ سے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’ ثِنتَانِ مَا تُرَدَّانِ: الدُّعَاءُ عِنْدَ النِّدَاءِ وَتَحْتَ الْمَطَرِ‘‘
(دو دعائیں رد نہیں ہوتیں: اذان کے وقت اور برستی بارش کے نیچے)۔
اسے شیخ البانی نے صحیح الجامع 3078 میں حسن فرمایا ہے۔
7- ہر سال بارش کی مقدار یکساں ہوتی ہے لیکن اس کی تقسیم مختلف ہوتی رہتی ہے:
شیخ البانی السلسلۃ الصحیحۃ میں یہ حدیث ذکر فرماتے ہیں:
’’مَا مِنْ عَامٍ بِأَكْثَرَ مَطَرًا مِنْ عَامٍ، وَلَكِنَّ اللَّهَ يُصَرِّفُهُ بَيْنَ خَلْقِهِ [حَيْثُ يَشَاءُ] ثُمَّ قَرَأَ: ﴿وَلَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَيْنَهُمْ [لِيَذَّكَّرُوْا]﴾‘‘
(کوئی بھی سال دوسرے سال کی نسبت زیادہ بارشوں والا نہیں ہوتا لیکن اللہ تعالی اپنی مخلوق میں اس کی الٹ پھیر فرماتا رہتا ہے [جیسے چاہتا ہے] پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: اور بلاشبہ یقیناً ہم نے اسے ان کے درمیان پھیر پھیر کر نازل کیا، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں([1]))۔
اسے شیخ البانی السلسلۃ الصحیحۃ 2461 میں لائے ہیں ، فرماتے ہیں: اسے ابن جریر نے اپنی تفسیر 19/15 میں اور الحاکم 2/403 نے مستدرک میں روایت کیا اور فرمایا: ’’صحيح على شرط الشيخين‘‘ اور الذھبی نے ان کی موافقت فرمائی، شیخ البانی فرماتے ہيں کہ یہ واقعی ایسی ہے جیسا کہ انہو ں نے فرما
یا۔
اور البغوی ’’معالم التنزیل‘‘ 6/184 ط منار میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس حدیث کے بعد فرماتے ہیں:
اور یہ حدیث ایک مرفوع روایت کی طرح ہے کہ فرمایا:
’’مَا مِنْ سَاعَةٍ مِنْ لَيْلٍ وَلَا نَهَارٍ إِلَّا السَّمَاءُ تُمْطِرُ فِيهَا، يُصَرِّفُهُ اللَّهُ حَيْثُ يَشَاءُ ‘‘
(رات اور دن کی کوئی گھڑی ایسی نہيں ہوتی کہ جس میں آسمان بارش نہ برساتا ہو، لیکن اللہ تعالی اسے پھیرتا رہتا ہے جہاں چاہتا ہے)۔
اور ابن اسحاق وابن جریج ومُقَاتِل نے ذکر کیا اور اسے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ تک لے گئے کہ وہ اسے مرفوع بیان کرتے ہوئے فرماتے:
’’ليس من سنة بأمطر من أخرى ، ولكن الله قسم هذه الأرزاق ، فجعلها في السماء الدنيا، في هذا القطر ينزل منه كل سنة بكيل معلوم ووزن معلوم، وإذا عمل قوم بالمعاصي حول الله ذلك إلى غيرهم، فإذا عصوا جميعا صرف الله ذلك إلى الفيافي والبحار‘‘
(کوئی سال بارش میں دوسرے سے مختلف نہیں ہوتا، لیکن اللہ تعالی اس رزق کو تقسیم فرماتا ہے، تو وہ آسمان دنیا میں اس بارش کو رکھ دیتا ہے، اور اس میں سے ہر سال معلوم مقدار ووزن میں نازل فرماتا رہتا ہے۔ اگر کوئی قوم نافرمانی کرتی ہے تو اللہ تعالی ان سے اسے پھیر کر دوسروں کی طرف لے جاتا ہے۔ اور اگر سب کے سب ہی نافرمانی پر اترآتے ہیں تو اللہ تعالی اسے پھیر کر صحراؤں اور سمندروں کی طرف لے جاتا ہے)۔
میں (الالبانی) یہ کہتا ہوں: جو کچھ بیان ہوا اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حدیث اگرچہ موقوف ہے، لیکن اس کا حکم مرفوع کا ہے کیونکہ بلاشبہ اس قسم کی بات اپنی رائے اور اجتہاد سے نہیں کہی جاسکتی، اور اس لیے بھی کہ یہ مرفوعاً بھی روایت کی گئی ہے، واللہ اعلم۔
امام البربہاری رحمہ اللہ کے اس قول:
’’والإيمانُ بأنّ مع كلِّ قطرةٍ مَلَكٌ يَنزِلُ من السّماء، حتّى يضعها حيث أمره الله عز وجل‘‘
(اور ایمان رکھنا کہ بے شک ہر قطرے کے ساتھ جو آسمان سے برستا ہے ایک فرشتہ ہوتا ہے، جو اسے وہاں رکھتا ہے جہاں اللہ تعالی اسے حکم دے)۔
کی تشریح میں شیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
البتہ جو مؤلف رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا کہ ہر قطرے کے ساتھ ایک فرشتہ ہوتا ہے تو یہ بات اللہ تعالی کی قدرت، اس کی وسیع بادشاہت اور اس کے فرشتوں وغیرہ کے کثیر لشکر ہونے سے کچھ بعید نہيں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَلِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِــيْمًا حَكِـيْمًا﴾ (الفتح: 4)
(اور آسمانوں اور زمین کے لشکر اللہ ہی کے ہیں، اور اللہ تعالی سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے)
لیکن مجھے اس کی کوئی دلیل قرآن یا سنت میں سے نہیں ملی، جبکہ یہ امورِ غیبیہ میں سے ہے۔ البتہ اس کے قریب قریب الحسن اور الحکم بن عتیبہ سے روایت نقل کی گئی ہے۔ اور مجھے خدشہ ہے کہ یہ اسرائیلیات میں سے ہو۔ خدشہ ہے کہ ان دونوں نے اسرائیلی روایات میں سے اسے لیا ہو۔ اللہ اعلم۔ لیکن اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث ثابت نہيں۔
(عون الباري بيان ماتضمّنه شرح السّنّة للبربهاري م 1 ص 390-391)
[1] ان آیات کی طرف اشارہ ہے: ﴿ وَهُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ الرِّيٰحَ بُشْرًۢا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهٖ ۚ وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُوْرًا ، لِّنُحْيِۦ بِهٖ بَلْدَةً مَّيْتًا وَّنُسْقِيَهٗ مِمَّا خَلَقْنَآ اَنْعَامًا وَّاَنَاسِيَّ كَثِيْرًا، وَلَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوْا، فَاَبٰٓى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرً﴾ (الفرقان: 48-50) (اور وہی ہے جس نے ہواؤں کو اپنی رحمت سے پہلے خوشخبری کے لیے بھیجا اور ہم نے آسمان سے پاک پانی برسایا، تاکہ ہم اس کے ذریعے ایک مردہ شہر کو زندہ کریں اور اسے اس مخلوق میں سے جو ہم نے پیدا کی ہے، بہت سے جانوروں اور انسانوں کو پلائيں، اور بلاشبہ یقیناً ہم نے اسے ان کے درمیان پھیر پھیر کر نازل کیا، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں، مگر اکثر لوگوں نے ناشکری کرنے کے سوا کچھ نہیں مانا) (توحید خالص ڈاٹ کام)۔
اور البغوی ’’معالم التنزیل‘‘ 6/184 ط منار میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس حدیث کے بعد فرماتے ہیں:
اور یہ حدیث ایک مرفوع روایت کی طرح ہے کہ فرمایا:
’’مَا مِنْ سَاعَةٍ مِنْ لَيْلٍ وَلَا نَهَارٍ إِلَّا السَّمَاءُ تُمْطِرُ فِيهَا، يُصَرِّفُهُ اللَّهُ حَيْثُ يَشَاءُ ‘‘
(رات اور دن کی کوئی گھڑی ایسی نہيں ہوتی کہ جس میں آسمان بارش نہ برساتا ہو، لیکن اللہ تعالی اسے پھیرتا رہتا ہے جہاں چاہتا ہے)۔
اور ابن اسحاق وابن جریج ومُقَاتِل نے ذکر کیا اور اسے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ تک لے گئے کہ وہ اسے مرفوع بیان کرتے ہوئے فرماتے:
’’ليس من سنة بأمطر من أخرى ، ولكن الله قسم هذه الأرزاق ، فجعلها في السماء الدنيا، في هذا القطر ينزل منه كل سنة بكيل معلوم ووزن معلوم، وإذا عمل قوم بالمعاصي حول الله ذلك إلى غيرهم، فإذا عصوا جميعا صرف الله ذلك إلى الفيافي والبحار‘‘
(کوئی سال بارش میں دوسرے سے مختلف نہیں ہوتا، لیکن اللہ تعالی اس رزق کو تقسیم فرماتا ہے، تو وہ آسمان دنیا میں اس بارش کو رکھ دیتا ہے، اور اس میں سے ہر سال معلوم مقدار ووزن میں نازل فرماتا رہتا ہے۔ اگر کوئی قوم نافرمانی کرتی ہے تو اللہ تعالی ان سے اسے پھیر کر دوسروں کی طرف لے جاتا ہے۔ اور اگر سب کے سب ہی نافرمانی پر اترآتے ہیں تو اللہ تعالی اسے پھیر کر صحراؤں اور سمندروں کی طرف لے جاتا ہے)۔
میں (الالبانی) یہ کہتا ہوں: جو کچھ بیان ہوا اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حدیث اگرچہ موقوف ہے، لیکن اس کا حکم مرفوع کا ہے کیونکہ بلاشبہ اس قسم کی بات اپنی رائے اور اجتہاد سے نہیں کہی جاسکتی، اور اس لیے بھی کہ یہ مرفوعاً بھی روایت کی گئی ہے، واللہ اعلم۔
امام البربہاری رحمہ اللہ کے اس قول:
’’والإيمانُ بأنّ مع كلِّ قطرةٍ مَلَكٌ يَنزِلُ من السّماء، حتّى يضعها حيث أمره الله عز وجل‘‘
(اور ایمان رکھنا کہ بے شک ہر قطرے کے ساتھ جو آسمان سے برستا ہے ایک فرشتہ ہوتا ہے، جو اسے وہاں رکھتا ہے جہاں اللہ تعالی اسے حکم دے)۔
کی تشریح میں شیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
البتہ جو مؤلف رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا کہ ہر قطرے کے ساتھ ایک فرشتہ ہوتا ہے تو یہ بات اللہ تعالی کی قدرت، اس کی وسیع بادشاہت اور اس کے فرشتوں وغیرہ کے کثیر لشکر ہونے سے کچھ بعید نہيں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَلِلّٰهِ جُنُوْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِــيْمًا حَكِـيْمًا﴾ (الفتح: 4)
(اور آسمانوں اور زمین کے لشکر اللہ ہی کے ہیں، اور اللہ تعالی سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے)
لیکن مجھے اس کی کوئی دلیل قرآن یا سنت میں سے نہیں ملی، جبکہ یہ امورِ غیبیہ میں سے ہے۔ البتہ اس کے قریب قریب الحسن اور الحکم بن عتیبہ سے روایت نقل کی گئی ہے۔ اور مجھے خدشہ ہے کہ یہ اسرائیلیات میں سے ہو۔ خدشہ ہے کہ ان دونوں نے اسرائیلی روایات میں سے اسے لیا ہو۔ اللہ اعلم۔ لیکن اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث ثابت نہيں۔
(عون الباري بيان ماتضمّنه شرح السّنّة للبربهاري م 1 ص 390-391)
[1] ان آیات کی طرف اشارہ ہے: ﴿ وَهُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ الرِّيٰحَ بُشْرًۢا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهٖ ۚ وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُوْرًا ، لِّنُحْيِۦ بِهٖ بَلْدَةً مَّيْتًا وَّنُسْقِيَهٗ مِمَّا خَلَقْنَآ اَنْعَامًا وَّاَنَاسِيَّ كَثِيْرًا، وَلَقَدْ صَرَّفْنٰهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوْا، فَاَبٰٓى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرً﴾ (الفرقان: 48-50) (اور وہی ہے جس نے ہواؤں کو اپنی رحمت سے پہلے خوشخبری کے لیے بھیجا اور ہم نے آسمان سے پاک پانی برسایا، تاکہ ہم اس کے ذریعے ایک مردہ شہر کو زندہ کریں اور اسے اس مخلوق میں سے جو ہم نے پیدا کی ہے، بہت سے جانوروں اور انسانوں کو پلائيں، اور بلاشبہ یقیناً ہم نے اسے ان کے درمیان پھیر پھیر کر نازل کیا، تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں، مگر اکثر لوگوں نے ناشکری کرنے کے سوا کچھ نہیں مانا) (توحید خالص ڈاٹ کام)۔
[Urdu Article] The reality of Ar-Ra'ad – Various 'Ulamaa
الرعد کی حقیقت
مختلف علماء کرام
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر (جمع وترتیب: میراث الانبیاء ڈاٹ نیٹ)۔
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/raad_ki_haqeeqat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
1- صحیح الادب المفرد للبخاری ص 262 میں باب ہے کہ’’إِذَا سَمِعَ الرَّعْدَ‘‘ (جب بجلی کی کڑک کی آواز سنیں تو کیا کہیں)۔
عکرمہ فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما جب الرعد (بجلی کی کڑک) کی آواز سنتے تو فرماتے:
’’سُبْحَانَ الَّذِي سَبَّحْتَ لَهُ‘‘
(پاک ہے وہ ذات جس کی تم نے تسبیح بیان کی)۔
اور فرماتے:
’’إِنَّ الرَّعْدَ مَلَكٌ يَنْعِقُ بِالْغَيْثِ، كَمَا يَنْعِقُ الرَّاعِي بِغَنَمِهِ‘‘
(بے شک الرعد ایک فرشتہ ہے جو بارش کو یوں ہانک کر لے جاتا ہے، جیسے چرواہا اپنے بکریوں کو)۔
شیخ البانی نے اس حدیث کو صحیح الادب المفرد میں ’’حسن‘‘ قرار دیا ہے۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ یہود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور کہا:
’’أَخْبِرْنَا مَا هَذَا الرَّعْدُ؟ قَالَ: مَلَكٌ مِنْ مَلَائِكَةِ اللَّهِ مُوَكَّلٌ بِالسَّحَابِ، بِيَدِهِ أَوْ فِي يَدِهِ مِخْرَاقٌ([1]) مِنْ نَارٍ، يَزْجُرُ بِهِ السَّحَابَ، يَسُوقُهُ حَيْثُ أَمَرَ هُ اللَّهُ، قَالُوا: فَمَا هَذَا الصَّوْتُ الَّذِي يُسْمَعُ؟ قَالَ: صَوْتُهُ ، قَالُوا: صَدَقْتَ‘‘
(ہمیں بتائيں یہ الرعد کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی کے فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے جو بادلوں پر مقرر ہے، اس کے ہاتھ میں آگ کی تلوار ہے، جس کے ذریعے سے وہ بادلوں کو لگام دیتا ہے، انہیں وہاں ہانک کر لےجاتا ہے جہاں اللہ تعالی اسے حکم دیتا ہے۔ پھر انہوں نے سوال کیا: تو پھر وہ آواز کیا ہوتی ہے جو سنائی دیتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ اس کی آواز ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ فرمایا)۔
مسند احمد 2479 اور الترمذی 3117 نے اسے روایت کیا اور شیخ البانی نے السلسلۃ الصحیحۃ 4/491 میں اسے ’’حسن‘‘ قرار دیا۔
[1] ابن الاثیر النھایۃ 2/26 میں فرماتے ہیں: ’’المخاريق‘‘ جمع ہے ’’مخراق‘‘ کی، جو کہ اصل میں وہ لپٹا ہوا کپڑا ہوتا ہے جس سے بچے ایک دوسرے کو مارتے ہیں، یہاں مراد وہ آلہ ہے جس کے ذریعے بادلوں کے فرشتے انہیں مارتے ہانکتے لے جاتے ہیں، اور اس کی تفسیر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث بھی کرتی ہے کہ: ’’البرق سوط من نور تزجر به الملائكة السحاب‘‘ (بجلی دراصل ایک نور کا کوڑا ہوتا ہے جس سے فرشتے بادلوں کو مارتے ہانکتے ہیں)۔ انتھی کلامہ۔
الرعد کی حقیقت
مختلف علماء کرام
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر (جمع وترتیب: میراث الانبیاء ڈاٹ نیٹ)۔
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/raad_ki_haqeeqat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
1- صحیح الادب المفرد للبخاری ص 262 میں باب ہے کہ’’إِذَا سَمِعَ الرَّعْدَ‘‘ (جب بجلی کی کڑک کی آواز سنیں تو کیا کہیں)۔
عکرمہ فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما جب الرعد (بجلی کی کڑک) کی آواز سنتے تو فرماتے:
’’سُبْحَانَ الَّذِي سَبَّحْتَ لَهُ‘‘
(پاک ہے وہ ذات جس کی تم نے تسبیح بیان کی)۔
اور فرماتے:
’’إِنَّ الرَّعْدَ مَلَكٌ يَنْعِقُ بِالْغَيْثِ، كَمَا يَنْعِقُ الرَّاعِي بِغَنَمِهِ‘‘
(بے شک الرعد ایک فرشتہ ہے جو بارش کو یوں ہانک کر لے جاتا ہے، جیسے چرواہا اپنے بکریوں کو)۔
شیخ البانی نے اس حدیث کو صحیح الادب المفرد میں ’’حسن‘‘ قرار دیا ہے۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ یہود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور کہا:
’’أَخْبِرْنَا مَا هَذَا الرَّعْدُ؟ قَالَ: مَلَكٌ مِنْ مَلَائِكَةِ اللَّهِ مُوَكَّلٌ بِالسَّحَابِ، بِيَدِهِ أَوْ فِي يَدِهِ مِخْرَاقٌ([1]) مِنْ نَارٍ، يَزْجُرُ بِهِ السَّحَابَ، يَسُوقُهُ حَيْثُ أَمَرَ هُ اللَّهُ، قَالُوا: فَمَا هَذَا الصَّوْتُ الَّذِي يُسْمَعُ؟ قَالَ: صَوْتُهُ ، قَالُوا: صَدَقْتَ‘‘
(ہمیں بتائيں یہ الرعد کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی کے فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے جو بادلوں پر مقرر ہے، اس کے ہاتھ میں آگ کی تلوار ہے، جس کے ذریعے سے وہ بادلوں کو لگام دیتا ہے، انہیں وہاں ہانک کر لےجاتا ہے جہاں اللہ تعالی اسے حکم دیتا ہے۔ پھر انہوں نے سوال کیا: تو پھر وہ آواز کیا ہوتی ہے جو سنائی دیتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ اس کی آواز ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ فرمایا)۔
مسند احمد 2479 اور الترمذی 3117 نے اسے روایت کیا اور شیخ البانی نے السلسلۃ الصحیحۃ 4/491 میں اسے ’’حسن‘‘ قرار دیا۔
[1] ابن الاثیر النھایۃ 2/26 میں فرماتے ہیں: ’’المخاريق‘‘ جمع ہے ’’مخراق‘‘ کی، جو کہ اصل میں وہ لپٹا ہوا کپڑا ہوتا ہے جس سے بچے ایک دوسرے کو مارتے ہیں، یہاں مراد وہ آلہ ہے جس کے ذریعے بادلوں کے فرشتے انہیں مارتے ہانکتے لے جاتے ہیں، اور اس کی تفسیر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث بھی کرتی ہے کہ: ’’البرق سوط من نور تزجر به الملائكة السحاب‘‘ (بجلی دراصل ایک نور کا کوڑا ہوتا ہے جس سے فرشتے بادلوں کو مارتے ہانکتے ہیں)۔ انتھی کلامہ۔
[Urdu Article] Wind – Various 'Ulamaa
ہوا
مختلف علماء کرام
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر (جمع وترتیب: میراث الانبیاء ڈاٹ نیٹ)۔
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/hawa.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
1- اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی:
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَّاءٍ فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيْهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ ، وَّتَـصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ﴾ (البقرۃ: 164)
(بےشک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے، اور رات اور دن کے بدلنے میں، اور ان کشتیوں میں جو سمندر میں وہ چیزیں لے کر چلتی ہیں جو لوگوں کو نفع دیتی ہیں، اور اس پانی میں جو اللہ نے آسمان سے اتارا، پھر اس کے ساتھ زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کردیا، اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیے، اور ہواؤں کے پھیرنے اوربدلنے میں، اور اس بادل میں جو آسمان و زمین کے درمیان مسخر کیا ہوا ہے، ان لوگوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں جو سمجھتے ہیں)
﴿وَتَـصْرِيْفِ الرِّيٰحِ﴾ (اور ہواؤں کے پھیرنے اوربدلنے میں) یعنی ٹھنڈی، گرم، جنوباً، شمالاًاور شرقاً اور کبھی مغربی آندھیاں، کبھی یہ بادلوں کو اٹھاتی ہیں اورکبھی یہ بادلوں کو اکٹھا کرتی اور ملاتی ہیں، کبھی یہ بادلوں کو پانی سے بھر دیتی ہیں، کبھی یہ بادلوں کو موسلادھار برساتی ہیں، کبھی یہ بادلوں کویہاں وہاں بکھیر کر ان کے ضرر کو زائل کرتی ہیں، اورکبھی یہ رحمت ہوتی ہیں اور کبھی ان کو عذاب کے ساتھ بھیجاجاتا ہے۔
(تيسير الكريم الرحمن في تفسير كلام المنان 1/78)
2- ہوا کو گالی مت دو:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’الرِّيحُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ، فَرَوْحُ اللَّهِ تَأْتِي بِالرَّحْمَةِ وَتَأْتِي بِالْعَذَابِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهَا فَلَا تَسُبُّوهَا، وَسَلُوا اللَّهَ خَيْرَهَا، وَاسْتَعِيذُوا بِاللَّهِ مِنْ شَرِّهَا‘‘
(ہوا اللہ کی رحمت میں سے ہے۔اللہ کی یہ روح کبھی رحمت لاتی ہے اور کبھی عذاب بھی لے آتی ہے۔ جب تم اسے دیکھو تو اسے گالی نہ دو برا مت کہو، بلکہ اللہ تعالی سے اس کی خیر کا سوال کرو اور اس کے شر سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرو)۔
اسے ابو داود 5097 نے روایت کیا اور شیخ البانی نے صحیح ابی داود میں صحیح قرار دیا ہے۔
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’لَا تَسُبُّوا الرِّيحَ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ مَا تَكْرَهُونَ، فَقُولُوا: اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ هَذِهِ الرِّيحِ وَخَيْرِ مَا فِيهَا وَخَيْرِ مَا أُمِرَتْ بِهِ، وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ هَذِهِ الرِّيحِ وَشَرِّ مَا فِيهَا وَشَرِّ مَا أُمِرَتْ بِهِ‘‘
(ہوا کو گالی مت دو، اگر تم کچھ ایسا دیکھو جو تمہیں ناپسند ہو تو کہو: اے اللہ! ہم تجھ سے اس ہوا کے خیر کا، اور جو اس میں ہے اس کے خیر کا، اور جو حکم دے کر یہ بھیجی گئی ہے اس کے خیر کا سوال کرتے ہيں، اور ہم اس ہوا کے شرسے، اور جو اس میں ہے اس کے شر سے، اور جو حکم دے کر یہ بھیجی گئی ہے اس کے شر سےتیری پناہ طلب کرتے ہيں )۔
اسے الترمذی 2252 نے روایت کیا ہے اور شیخ البانی نے صحیح الترمذی میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ہوا کو گالی دی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’لَا تَلْعَنِ الرِّيحَ، فَإِنَّهَا مَأْمُورَةٌ، وَإِنَّهُ مَنْ لَعَنَ شَيْئًا لَيْسَ لَهُ بِأَهْلٍ رَجَعَتِ اللَّعْنَةُ عَلَيْهِ‘‘
(ہوا کو گالی مت دو، کیونکہ یہ تو بلاشبہ اللہ تعالی کے حکم پر مامور ہے، اور یقیناً جس کسی نے کسی چیز کو گالی دی جو کہ اس کی اہل نہيں تھی تو وہ لعنت اسی پر لوٹ آتی ہے)۔
اسے الترمذی نے 1978 نے روایت کیا اور شیخ البانی نے صحیح الترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔
امام الشافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’لائق نہیں کہ ہوا کو سب وشتم کیا جائے کیونکہ یہ تو ایک مخلوق ہے جو اللہ تعالی کی مطیع وفرمانبردار ہے، اور اس کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہے، اللہ تعالی اسے چاہتا ہے تو رحمت بنادیتا ہے اور چاہتا ہے تو نقمت وعذاب بنا دیتا ہے‘‘۔
(مجموع شرح المہذب 5/92)
علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اور یہ نہی تحریم کے لیے ہے۔ کیونکہ اسے گالی دینا گویا کہ اسے گالی دینا ہے جس نے اسے پیدا کیا اور بھیجا۔ اور بارش کے نزول کی نسبت ہوایا موسم کی طرف نہیں بلکہ ان امور کو اکیلے اللہ تعالی کی طرف منسوب کرنا چاہیے۔
(مجموع فت
ہوا
مختلف علماء کرام
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر (جمع وترتیب: میراث الانبیاء ڈاٹ نیٹ)۔
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/hawa.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
1- اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی:
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَّاءٍ فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيْهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ ، وَّتَـصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ﴾ (البقرۃ: 164)
(بےشک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے، اور رات اور دن کے بدلنے میں، اور ان کشتیوں میں جو سمندر میں وہ چیزیں لے کر چلتی ہیں جو لوگوں کو نفع دیتی ہیں، اور اس پانی میں جو اللہ نے آسمان سے اتارا، پھر اس کے ساتھ زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کردیا، اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیے، اور ہواؤں کے پھیرنے اوربدلنے میں، اور اس بادل میں جو آسمان و زمین کے درمیان مسخر کیا ہوا ہے، ان لوگوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں جو سمجھتے ہیں)
﴿وَتَـصْرِيْفِ الرِّيٰحِ﴾ (اور ہواؤں کے پھیرنے اوربدلنے میں) یعنی ٹھنڈی، گرم، جنوباً، شمالاًاور شرقاً اور کبھی مغربی آندھیاں، کبھی یہ بادلوں کو اٹھاتی ہیں اورکبھی یہ بادلوں کو اکٹھا کرتی اور ملاتی ہیں، کبھی یہ بادلوں کو پانی سے بھر دیتی ہیں، کبھی یہ بادلوں کو موسلادھار برساتی ہیں، کبھی یہ بادلوں کویہاں وہاں بکھیر کر ان کے ضرر کو زائل کرتی ہیں، اورکبھی یہ رحمت ہوتی ہیں اور کبھی ان کو عذاب کے ساتھ بھیجاجاتا ہے۔
(تيسير الكريم الرحمن في تفسير كلام المنان 1/78)
2- ہوا کو گالی مت دو:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’الرِّيحُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ، فَرَوْحُ اللَّهِ تَأْتِي بِالرَّحْمَةِ وَتَأْتِي بِالْعَذَابِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهَا فَلَا تَسُبُّوهَا، وَسَلُوا اللَّهَ خَيْرَهَا، وَاسْتَعِيذُوا بِاللَّهِ مِنْ شَرِّهَا‘‘
(ہوا اللہ کی رحمت میں سے ہے۔اللہ کی یہ روح کبھی رحمت لاتی ہے اور کبھی عذاب بھی لے آتی ہے۔ جب تم اسے دیکھو تو اسے گالی نہ دو برا مت کہو، بلکہ اللہ تعالی سے اس کی خیر کا سوال کرو اور اس کے شر سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرو)۔
اسے ابو داود 5097 نے روایت کیا اور شیخ البانی نے صحیح ابی داود میں صحیح قرار دیا ہے۔
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’لَا تَسُبُّوا الرِّيحَ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ مَا تَكْرَهُونَ، فَقُولُوا: اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ هَذِهِ الرِّيحِ وَخَيْرِ مَا فِيهَا وَخَيْرِ مَا أُمِرَتْ بِهِ، وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ هَذِهِ الرِّيحِ وَشَرِّ مَا فِيهَا وَشَرِّ مَا أُمِرَتْ بِهِ‘‘
(ہوا کو گالی مت دو، اگر تم کچھ ایسا دیکھو جو تمہیں ناپسند ہو تو کہو: اے اللہ! ہم تجھ سے اس ہوا کے خیر کا، اور جو اس میں ہے اس کے خیر کا، اور جو حکم دے کر یہ بھیجی گئی ہے اس کے خیر کا سوال کرتے ہيں، اور ہم اس ہوا کے شرسے، اور جو اس میں ہے اس کے شر سے، اور جو حکم دے کر یہ بھیجی گئی ہے اس کے شر سےتیری پناہ طلب کرتے ہيں )۔
اسے الترمذی 2252 نے روایت کیا ہے اور شیخ البانی نے صحیح الترمذی میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ہوا کو گالی دی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’لَا تَلْعَنِ الرِّيحَ، فَإِنَّهَا مَأْمُورَةٌ، وَإِنَّهُ مَنْ لَعَنَ شَيْئًا لَيْسَ لَهُ بِأَهْلٍ رَجَعَتِ اللَّعْنَةُ عَلَيْهِ‘‘
(ہوا کو گالی مت دو، کیونکہ یہ تو بلاشبہ اللہ تعالی کے حکم پر مامور ہے، اور یقیناً جس کسی نے کسی چیز کو گالی دی جو کہ اس کی اہل نہيں تھی تو وہ لعنت اسی پر لوٹ آتی ہے)۔
اسے الترمذی نے 1978 نے روایت کیا اور شیخ البانی نے صحیح الترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔
امام الشافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’لائق نہیں کہ ہوا کو سب وشتم کیا جائے کیونکہ یہ تو ایک مخلوق ہے جو اللہ تعالی کی مطیع وفرمانبردار ہے، اور اس کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہے، اللہ تعالی اسے چاہتا ہے تو رحمت بنادیتا ہے اور چاہتا ہے تو نقمت وعذاب بنا دیتا ہے‘‘۔
(مجموع شرح المہذب 5/92)
علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اور یہ نہی تحریم کے لیے ہے۔ کیونکہ اسے گالی دینا گویا کہ اسے گالی دینا ہے جس نے اسے پیدا کیا اور بھیجا۔ اور بارش کے نزول کی نسبت ہوایا موسم کی طرف نہیں بلکہ ان امور کو اکیلے اللہ تعالی کی طرف منسوب کرنا چاہیے۔
(مجموع فت