Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.29K subscribers
2.49K photos
52 videos
211 files
4.94K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[Urdu Article] When and how to boycott someone? – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
کسی کا بائیکاٹ کب اور کیسے کیا جائے؟
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کیسٹ بعنوان: وجوب الاعتصام بالكتاب والسنة۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/11/boycott_kab_kaisay.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:کیا میرے کسی شخص سے اختلاف کا یہ معنی ہے کہ میں اسے سلام بھی نہ کروں، اور منہ بسور کر تیوری چڑھا کر اس کا سامنا کروں، اس کی کسی بھی چیز میں معاونت نہ کروں جو وہ طلب کرے، حالانکہ وہ میرا دینی بھائی ہے، جب میں اس سے پوچھوں ایسا کیوں کرتے ہو؟ تو وہ کہے: کیونکہ تم بدعتی ہو جو کہ امت کے لیے یہود ونصاریٰ سے بڑھ کر خطرناک ہوتا ہے، یا شیخ آپ ہمیں اس بارے میں رہنمائی فرمائيں، بارک اللہ فیک؟
جواب: بہرحال، جو سلف صالحین تھے وہ اہل بدعت سے ہجر (بائیکاٹ) کیا کرتے تھے۔ لیکن اس بات کا تعین عالم کرے گا کہ کب بائیکاٹ کرنا مناسب ہے اور کب نہيں۔ اگر عدم ہجر کرنے میں کوئی مصلحت ہو جیسے ممکن ہے کہ آپ اسے دعوت دیں، اس کے ساتھ افہام وتفہیم کا معاملہ کریں اور اس کے سامنے وضاحت کریں ، تو پھر ہجر نہ کریں اور اس کے سامنے وضاحت کیجئے۔ خود میرا گھر اہل بدعت تک کے لیے کھلا ہوتا ہے، اور میرے خیال سے وہ لوگ جو سلفیوں کو طعنہ دیتے ہيں کہ تم بس سب کا بائیکاٹ کرتے ہو، حقیقت میں اللہ کی قسم! خود وہ لوگ ہم سے زیادہ بائیکاٹ کرتے ہيں۔ یعنی وہ لوگ جو سلفیوں پر یہ بات چسپاں کرتے ہيں کہ وہ بائیکاٹ ہی بائیکاٹ کرتے ہيں درحقیقت وہ لوگ خود لوگوں کا بائیکاٹ کرتے اور شکل بنا کر ملتے ہیں اور آخر تک جو حرکتیں وہ کرتے ہيں۔۔۔اللہ کی قسم! یہ صفات تو خود ان میں ہيں۔ اور ہمارا گھر تو واللہ! لوگوں کے لیے کھلا رہتا ہے جو چاہتا ہے آتا ہے، ہم کسی کو نہیں روکتے خواہ تبلیغی ہو، اخوانی ہو، قطبی ہو اور آخر تک جو ہيں۔۔۔کسی کو بھی نہيں۔ انہيں ہم اللہ تعالی کی طرف دعوت دیتے ہيں ہمارے نزدیک اس میں کوئی مانع نہيں بشرطیکہ آپ کا اس سے ملنا نفع بخش ہو، اور برئ الذمہ کرنے والا ہو، لیکن بس اس لیے ملا جائے کہ اس کی بدعات کے تعلق سے خوشامدی اور چاپلوسی پر مبنی تعلق ہوتو اس کا نصیحت وخیرخواہی چاہنے سے کوئی واسطہ نہیں۔ لہذا آپ دو امور کے درمیان ہیں:
پہلا امر: یا تو آپ کے پاس قدرت ہو، شجاعت ہو، اس طرح کہ بلاشبہ اگر آپ اس کے ساتھ بیٹھیں گے تو اس کے پاس جو غلطیاں ہیں اسے واضح کریں گے، ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالی آپ کے ہاتھوں اسے ہدایت دے۔
دوسرا امر: آپ کے پاس نہ قدرت ہے نہ شجاعت۔ تو پھر اس صورت میں مصلحت کی طرف رجوع کریں گے۔ اگر مصلحت اس سے بائیکاٹ کرنے میں ہے تو پھر بائیکاٹ کیجئے، کیونکہ بائیکاٹ کرنے میں بھی بہت سی مصلحتیں ہوتی ہيں، اور لوگ یہ جان پائيں گے کہ یہ بدعتی ہے تو اس سے دور رہیں گے، لیکن اس کے برعکس اگر وہ دیکھیں گے کہ آپ طالبعلم یا عالم ہيں اور اس کے ساتھ میل ملاپ رکھتے ہیں، ہنسی مذاق کرتے ہيں اور اس کے ساتھ چلتے پھرتے ہيں تو وہ اس کے بارے میں اچھا گمان کربیٹھیں گے اور اس کے دام فریب میں آجائيں گے، اس صورت میں خود آپ اس شر کی طرف گویا کہ دعوت دینے والے بن گئے!
اور اگر مصلحت کا یہ تقاضہ ہو کہ اس کا سختی سے رد کیا جائے، تو اس سختی سے رد کرنے سے یہ مصلحت حاصل ہوتی ہے کہ لوگوں کو اس کی بدعت سے اور اس کو اپنی بدعت کی حمایت سے روکا جاتا ہے۔ تو آپ کو چاہیے کہ اس واجب کی ادائیگی کریں۔
اور اگر اس میں کوئی مصلحت نہ ہو اور اس کے نتیجے میں مرتب ہونے والا مفسدہ بہت بڑاہو، اور آپ ضعیف وکمزور ہوں، اور لوگوں کے بدعت میں مزید پختہ ہوجانے کا خدشہ ہو یا اس طرح کی دیگر باتیں تو پھر اس صورت مصلحت کی خاطر بائیکاٹ نہ کریں، جیسا کہ یہ بات شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ " وغیرہ نے مقرر فرمائی ہے۔
[Urdu Article] Ruling regarding taking part in democratic election and voting – Various 'Ulamaa
جمہوری انتخابات میں حصہ لینےاور ووٹ ڈالنے کا حکم – مختلف علماء کرام

سیدنا عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عبدالرحمن!
’’لَا تَسْأَلِ الْإِمَارَةَ، فَإِنَّكَ إِنْ أُوتِيتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ إِلَيْهَا، وَإِنْ أُوتِيتَهَا مِنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَا‘‘([1])
(کبھی بھی امارت وعہدے کا سوال مت کرنا، کیونکہ اگر یہ تجھے مانگنے پر مل گیا تو اسی کے سپرد کردیا جائے گا، اور اگر بغیر مانگے تجھے مل گیا تو اللہ تعالی اس سے بحسن خوبی عہدہ براء ہونے میں تمہاری اعانت فرمائے گا)۔
سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا: میں اور میرے چچازاد بھائیوں میں سے دو اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس داخل ہوئے ان میں سے ایک نے کہا: یا رسول اللہ! جن علاقوں پر اللہ نے آپ کو حکومت دی ہے ان میں کسی پر ہمیں بھی امیر بنادیں۔ اور دوسرے نے بھی ایسی ہی بات کی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنَّا وَاللَّهِ لَا نُوَلِّي عَلَى هَذَا الْعَمَلِ أَحَدًا سَأَلَهُ وَلَا أَحَدًا حَرَصَ عَلَيْهِ‘‘([3])
(اللہ کی قسم! بے شک ہم ہرگز بھی اس عہدے پر اسے فائز نہیں کرتے جو خود اسے طلب کرے اور نہ ہی اسے جو اس کی حرص رکھتا ہو)۔
[1] صحیح بخاری 6622، صحیح مسلم 1654۔
[2] صحیح بخاری 6409،صحیح مسلم 338۔
[3] صحیح مسلم 1826۔

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/05/jamhori_intikhabaat_may_hissa_layna.pdf⁠⁠⁠⁠
[Urdu Article] Busying 'Ummah in politics instead of calling towards Tawheed and rectification – Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen Al-Albaanee
امت کو دعوتِ توحید واصلاح کے بجائے سیاسی عمل میں لگائے رکھنا
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: التوحيد أولاً يا دعاة الإسلام
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام


http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/04/dawat_tawheed_islah_bajae_siyasat.pdf



بسم اللہ الرحمن الرحیم
لہذا یہ نتیجہ ہے آج اسلام میں اس شدید غربت (اجنبیت) کا جو دور اول میں نہ تھی، بلاشبہ دور اول میں اجنبیت صریح شرک اور ہر شبہہ سے خالی خالص توحید کے درمیان تھی، کھلم کھلا کفر اور ایمان صادق کے درمیان تھی، جبکہ آج خود مسلمانوں کے اندر ہی مشکلات پائی جاتی ہیں کہ ان میں سے اکثر کی توحید ہی ملاوٹوں سےاٹی ہوئی ہے، یہ اپنی عبادات غیراللہ کے لئے ادا کرتے ہیں پھر بھی دعویٰ ایمان کا ہے۔ اولاً اس مسئلے پر متنبہ ہونا ضروری ہے، ثانیاً یہ جائز نہیں کہ بعض لوگ یہ کہیں کہ ہمارے لئے لازم ہے کہ ہم اب توحید کے مرحلے سے آگے نکل کردوسرے مرحلے میں منتقل ہوجائیں یعنی سیاسی عمل کا مرحلہ!! کیونکہ اسلام کی دعوت سب سے پہلے دعوت حق ہے، جائز نہیں کہ ہم یہ کہیں ہم عرب ہیں اور قرآن مجید ہماری زبان میں نازل ہوا ہے، حالانکہ یاد رکھیں کہ آج کے عربوں کا معاملہ عربی زبان سے دوری کے سبب ان عجمیوں سے بالکل برعکس ہوگیا ہے جو عربی سیکھتے ہیں، پس اس بات نے انہیں ان کے رب کی کتاب اور ان کے نبی ﷺ کی سنت سے دور کردیا۔ بالفرض ہم عربوں نے صحیح طور پر اسلام کافہم حاصل اگر کر بھی لیا ہےتب بھی ہم پر واجب نہیں کہ ہم سیاسی عمل میں حصہ لینا شروع کردیں، اور لوگوں کو سیاسی تحریکوں سے وابستہ کریں، اور انہیں جس چیز میں مشغول ہونا چاہیے یعنی اسلام کےعقیدے، عبادت، معاملات اور سلوک کا فہم حاصل کرناسے ہٹا کر سیاست میں مشغول رکھیں۔ مجھے نہیں یقین کے کہیں ایسےلاکھوں کی تعداد میں لوگ ہوں جنہوں نے اسلام کا صحیح فہم یعنی عقیدے، عبادت اور سلوک میں حاصل کیا ہو اور اسی پر تربیت پائی ہو۔
تبدیلی کی بنیاد منہج تصفیہ وتربیہ
اسی وجہ سے ہم ہمیشہ یہ کہتے چلے آئے ہیں اور انہی دو اساسی نکتوں پر جو تبدیلی وانقلاب کا قاعدہ ہیں پر ہمیشہ توجہ مرکوز رکھتے ہیں، اور وہ دو نکات تصفیہ (دین کو غلط باتوں سے پاک کرنا) اور تربیہ(اس پاک شدہ دین پر لوگوں کی تربیت کرنا) ہیں۔ان دونوں امور کو یکجا کرنا ضروری ہے تصفیہ اور تربیہ، کیونکہ اگر کسی ملک میں کسی طرح کا تصفیہ کا عمل ہوا جو کہ عقیدے میں ہے تو یہ اپنی حد تک واقعی ایک بہت بڑا اور عظیم کارنامہ ہےجو اتنے بڑے اسلامی معاشرے کے ایک حصہ میں رونما ہوا، لیکن جہاں تک عبادت کا معاملہ ہے تو اسے بھی مذہبی تنگ نظری سے پاک کرکے سنت صحیحہ کی جانب رجوع کا عمل ہونا چاہیے۔ ایسے بڑے جید علماء کرام ہوسکتا ہے موجود ہوں جو اسلام کا ہر زاویے سے صحیح فہم رکھتے ہوں مگر میں یہ یقین نہیں رکھتا کہ ایک فرد یا دو، تین یا دس بیس افراد اس تصفیے کے واجب کو ادا کرپائیں۔ تصفیہ کرنا (پاک کرنا) اسلام کو ہر اس چیز سے جو اس میں در آئی ہےخواہ وہ عقیدے میں ہو یا عبادت وسلوک میں۔ محض کچھ افراد کی یہ استطاعت نہیں کہ وہ اسلام سے جڑی ہر غلط چیز کا تصفیہ کرکے اور اپنے اردگرد کے لوگوں کی اس پر صحیح وسلیم تربیت کرکے سرفراز ہوسکیں۔ اسی لئے تصفیہ وتربیہ کا عمل آج مفقود ہے۔
چناچہ ان دو اہم باتوں ونکات کو متحقق کرنے سے پہلے کسی بھی اسلامی معاشرے میں جہاں شریعت کا نفاذ نہ ہو وہاں کسی سیاسی تحریک میں حصہ لینا برے اثرات مرتب کرنے کا پیش خیمہ ہوگا۔ ہاں! نصیحت وخیر خواہی کرنا سیاسی تحریک کی جگہ لے سکتا ہے کسی بھی ایسے ملک میں جہاں شریعت کی تحکیم ہو (خفیہ) مشورہ دینے کے ذریعہ یا پھر الزامی و تشہیری زبان استعمال کرنے سے پرہیز کرتے ہوئےشرعی ضوابط کے تحت بطور احسن ظاہر کرنے کے ذریعہ، پس حق بات کو پہنچا دینا حجت کو تمام کرتا ہے اور پہنچا دینے والے کو برئ الذمہ کرتا ہے۔
نصیحت وخیر خواہی میں سے یہ بھی ہے کہ ہم لوگوں کو اس چیز میں مشغول کریں جو انہیں فائدہ پہنچائے جیسے عقائد، عبادت، سلوک اور معاملات کی تصحیح،ہوسکتا ہے بعض لوگ یہ گمان کرتے ہوں کہ ہم تصفیہ وتربیہ کو تمام کے تمام اسلامی معاشروں میں نافذ ہوجانے کی امید رکھتے ہیں! ہم تو یہ بات نہ سوچتے ہیں اور نہ ہی ایسی خام خیالی میں مبتلا ہیں، کیونکہ ایسا ہوجانا تو محال ہے؛ اس لئے بھی کہ اللہ تعالی نے قرآن حکیم میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ:
﴿وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلَا يَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِيْنَ ﴾ (ھود: 118)
(اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی امت بنادیتا مگر یہ لوگ ہمیشہ اختلافات میں ہی رہیں گے)
البتہ ان لوگوں پر ہمارے رب تعالی کا یہ فرمان لاگو نہیں ہ
وگا اگر یہ اسلام کا صحیح فہم حاصل کریں اور اس صحیح اسلام پر خود اپنی، اپنے اہل وعیال اورگردونواح کے لوگوں کی تربیت کریں۔
سیاسی عمل میں کون حصہ لے؟ اور کب؟
آجکل سیاسی عمل یا سرگرمی میں حصہ لینا ایک مشغلہ بن گیا ہے! حالانکہ ہم اس کے منکر نہیں مگر ہم بیک وقت ایک شرعی ومنطقی تسلسل یہ ایمان رکھتے ہیں کہ ہم تصحیح وتربیت کے اعتبار سے عقیدے سے شروع کریں، پھر عبادت پھر سلوک پھر اس کے بعد ایک دن آئے گا جب ہم سیاسی مرحلے میں داخل ہوں گے مگر اس کے شرعی مفہوم کے مطابق۔ کیونکہ سیاست کا معنی ہے: امت کے معاملات کاانتظام کرنا انہیں چلانا، پس امت کے معاملات کون چلاتا ہے؟ نہ زید، نہ بکر، نہ عمرو، اورنہ ہی وہ جو کسی پارٹی کی بنیاد رکھے یا کسی تحریک کی سربراہی کرتا ہویا کسی جماعت کو چلاتا ہو!! یہ معاملہ تو خاص ولی امر (حکمران)سےتعلق رکھتا ہے،جس کی مسلمانوں نے بیعت کی ہے۔ یہی ہے وہ جس پر واجب ہےکہ وہ موجودہ سیاسی حالات اور ان سے نمٹنے کی معرفت حاصل کرے، لیکن اگر مسلمان متحد نہ ہوں جیسا کہ ہماری موجودہ حالت ہے تو ہر حاکم اپنی سلطنت کی حدود میں ذمہ دار ہے۔ لیکن اگر ہم اپنے آپ کو ان امور میں مشغول رکھیں جن کے بارے میں بالفرض ہم مان بھی لیں کہ ہمیں اس کی کماحقہ معرفت حاصل ہوگئی ہے تب بھی ہمیں یہ معرفت کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی، کیونکہ ہمارے لئے اسے نافذ کرنے کا امکان ہی نہیں، کیونکہ ہم امت کے امور چلانے کے بارے میں فیصلوں کا اختیارہی نہیں رکھتے۔تو محض یہ معرفت بیکار ہے جس کا کوئی فائدہ ہی نہیں۔ میں آپ کو ایک مثال بیان کرتا ہوں وہ جنگیں جو مسلمانوں کے خلاف بہت سے اسلامی ممالک میں بپا ہیں، کیا اس بات کا کوئی فائدہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے جذبات ابھاریں اور انہیں اس جانب برانگیختہ کریں جبکہ ہم اس جہاد کا کوئی اختیار ہی نہیں رکھتے جس کا انتظام ایک ایسے مسئول امام کے ذمہ ہے جس کی بیعت ہوچکی ہو؟! اس عمل کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ واجب نہیں! لیکن ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ: یہ کام اپنے مقررہ وقت سے پہلے ہے۔ اسی لئے ہم پر واجب ہے کہ ہم آپ کو اور دوسروں کو جنہیں ہم اپنی دعوت پہنچا رہے ہیں اس بات میں مشغول رکھیں کہ وہ صحیح اسلام کا فہم حاصل کرکے اس پر صحیح تربیت حاصل کریں۔ لیکن اگر ہم محض انہیں جذباتی اور ولولہ انگیز باتوں میں مشغول رکھیں گے تو یہ انہیں اس بات سے پھیر دیں گی کہ وہ اس دعوت کے فہم میں مضبوطی حاصل کرپائے جو ہر مکلف مسلمان پر واجب ہے۔ جیسے عقائد، عبادت اورسلوک کی تصحیح یہ ان فرائض عینیہ میں سے ہیں جس میں تقصیر کا عذر قابل قبول نہیں، جبکہ جو دوسرے امور ہیں ان میں سے تو بعض فرض کفایہ ہیں جیسا کہ آجکل جو کہا جاتا ہے ’’فقہ الواقع‘‘ (حالات حاضرہ کا علم) اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا جو کہ ان لوگوں کی ذمہ داری ہے جو اہل حل وعقد ہیں، جن کے لئے یہ ممکن بھی ہے کہ اس معرفت سے وہ عملی استفادہ حاصل کرپائیں۔ جہاں تک معاملہ ہے ان لوگوں کا جن کے ہاتھ میں نہ حل ہے نہ ہی عقد اور وہ لوگوں کو ان باتوں میں مشغول کررہے ہیں جو اہم تو ہیں مگر اہم ترین نہیں، تو یہ بات انہیں صحیح معرفت سے دور لے جاتی ہے! یہ بات تو ہم آج بہت سے اسلامی گروپوں اور جماعتوں کے مناہج میں باقاعدہ ہاتھوں سے چھو کر محسوس کرسکتے ہیں، کہ ہم جانتے ہیں کہ بعض ایسے داعیان جو نوجوانوں کو جو ان کے گرد اس لئے جمع ہوتے ہیں کہ وہ انہیں صحیح عقیدہ، عبادت اور سلوک کی تعلیم دیں اور سمجھائیں تو وہ انہیں اس سے پھیر دیتے ہیں۔ پھر اس کے بعد یہ داعیان سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں اوران پارلیمنٹوں میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں جو اللہ تعالی کی شریعت کے خلاف فیصلے کرتی ہے!پس وہ انہیں اس اہم ترین چیز سے پھیر دیتے ہیں اس چیز کی طرف جوان موجودہ حالات میں اہم نہیں ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کیسے ایک مسلمان ان پر الم حالات میں اپنا کردار ادا کرکے برئ الذمہ ہوسکتاہے؛ تو ہم کہتے ہیں: ہر مسلمان اپنی استطاعت کے مطابق کام کرے، ان میں سے ایک عالم کی جو ذمہ داری ہے وہ غیر عالم کی نہیں، جیسا کہ میں اس قسم کی مناسبت میں بیان کرتا ہوں کہ اللہ تعالی نے اپنی نعمت اپنی کتاب کے ذریعہ مکمل فرمادی ہےاور اسے مسلمانوں کے لئے ایک دستور بنادیا ہے۔ اسی دستور میں سے اللہ تعالی کا یہ فرمان بھی ہے کہ:
﴿… فَسْــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (الانبیاء: 7)
(اہل ذکر (علماء کرام) سے سوال کرو اگر تمہیں علم نہ ہو)
اللہ تعالی نے اسلامی معاشرے کو دو اقسام میں تقسیم فرمایا ایک عالم اور دوسرے غیر عالم، اور ان میں سے ہر ایک پر وہ واجب قراردیا جو دوسرے پر واجب نہیں، پس جو علماء نہیں ان پر واجب ہے کہ وہ اہل علم سے دریافت کریں، اور علماء کرام پر یہ واجب ہے کہ وہ جس چیز کی بابت دریافت کیا جارہا ہے اس کا جواب دیں، اسی طریقہ پر شخصیات مختلف ہونے پر واجبات بھی مختلف ہوتےہیں۔ چناچہ آج کے اس دور میں ایک ع
ات کا اہتمام تو کرتے ہیں جو حقیقتاً ان کے بس میں نہیں، اور اس بات کو چھوڑ دیتے ہیں جو ان پر واجب ہے اور آسان بھی ! اور وہ اپنے نفس کا مجاہدہ کرنا ہے جیسا کہ ایک مسلمان داعی کا قول ہے جس قول کی وصیت میں اس داعی کے پیروکاروں کو کرتا ہوں: ’’أقيموا دولة الإسلام في نفوسكم تقم لكم في أرضكم‘‘ (اپنے دلوں پر اسلامی حکومت قائم کرلو وہ تمہارے لئے تمہاری زمینوں پر بھی قائم کردی جائے گی)۔
اس کے باوجود ہم بہت سے ان کے پیروکاروں کو پاتے ہیں کہ وہ اس بات کی مخالفت کرتے ہیں، اپنی دعوت کا ایک غالب حصہ اللہ تعالی کو اس کی حاکمیت میں اکیلے ماننے پر زور دینے میں صرف کرتے ہیں، جسے وہ اس مشہورومعروف عبارت سے تعبیر کرتے ہیں کہ: ’’الحاكمية لله‘‘ (حاکمیت کا حق صرف اللہ تعالی ہی کے لئے ہے)۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حاکمیتِ اعلی صرف اللہ تعالی کے لئے ہی ہےکہ اس میں اور نہ کسی اور چیز میں اس کا کوئی شریک ہے۔ لیکن، ان میں سے کوئی مذاہب ِاربعہ میں سے کسی مذہب کا مقلد ہوتا ہے اور جب اس کے پاس کوئی بالکل صریح وصحیح سنت آتی ہےتو کہتاہے یہ میرے مذہب کے خلاف ہے! تو کہاں گیا اللہ تعالی کا حکم اتباع سنت کے بارے میں؟!۔
اور ان میں سے آپ کسی کوپائیں گے کہ وہ اللہ تعالی کی عبادت صوفیوں کی طریقت پر کررہا ہوگا! تو کہاں گیا اللہ تعالی کا حکم توحید کے بارے میں؟! تو وہ دوسروں سے وہ مطالبہ کرتے ہیں جو اپنے آپ سے نہیں کرتے، یہ تو بہت آسان کام ہے کہ اپنے عقیدے، عبادت، سلوک اور اپنے گھر، بچوں کی تربیت، خریدوفروخت میں اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت کے مطابق حکم کروجبکہ اس کے برعکس یہ بہت مشکل اور کٹھن ہے کہ تم کسی حاکم کو جبراً کہویا ایسے حاکم کو معزول کرو کہ جو اپنے بہت سے احکامات میں اللہ تعالی کی شریعت کے خلاف فیصلے کرتا ہے، تو کیا وجہ ہے کہ آسان کو چھوڑ کر مشکل راہ کو اپنایا جارہا ہے؟!۔
یہ دو میں سے ایک بات کی طرف اشارہ کناں ہے یا تو یہ بری تربیت و بری توجیہ ورہنمائی کا نتیجہ ہے، یا پھر ان کا وہ برا عقیدہ ہے جس نے انہیں اس بات سے روک کر اور پھیر کر جس کو اپنانا ان کی استطاعت میں ہے اس بات کی طرف مائل کردیا ہے جس کی وہ استطاعت نہیں رکھتے۔ آج کے اس دور میں میں تمام تر مشغولیت کا محور تصفیہ وتربیہ کے عمل کو بنادینے اور صحیح عقیدے وعبادت کی جانب دعوت دینے کے سوا اور کوئی نظریہ نہیں رکھتا۔ ہر کوئی یہ کام اپنی استطاعت بھر انجام دے، اللہ تعالی کسی جان کو اس کی وسعت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا، اور تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں۔ اور درود وسلام ہو ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی آل پر۔
[1] حديث صحيح : رواه أبو داود (4297) ، وأحمد (5/287) ، من حديث ثوبان رضي الله عنه، وصححه بطريقيه الألباني في الصحيحة (958) .ابو داود کے الفاظ ہیں: ’’يُوشِكُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ كَمَا تَدَاعَى الْأَكَلَةُ إِلَى قَصْعَتِهَا، فَقَالَ قَائِلٌ: وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: بَلْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ وَلَكِنَّكُمْ غُثَاءٌ كَغُثَاءِ السَّيْلِ وَلَيَنْزَعَنَّ اللَّهُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّكُمُ الْمَهَابَةَ مِنْكُمْ وَلَيَقْذِفَنَّ اللَّهُ فِي قُلُوبِكُمُ الْوَهْنَ، فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا الْوَهْنُ؟ قَالَ: حُبُّ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ‘‘ (توحید خالص ڈاٹ کام)۔
[2] حديث صحيح : رواه الترمذي (2507) ، وابن ماجه (4032) ، والبخاري في الأدب المفرد (388) ، وأحمد (5/365) ، من حديث شيخ من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم وصححه الألباني في الصحيحة (939) .
الم پر واجب ہے کہ وہ بقدر استطاعت حق بات کی جانب دعوت دے ، اور جو عالم نہیں ہے اسے چاہیے کہ جو بات اس سے یا اس کے زیر کفالت لوگوں جیسے بیوی بچے وغیرہ سےتعلق رکھتی ہے اس کا سوال علماء کرام سے کرے۔ اگر مسلمانوں کے یہ دونوں فریق اپنی استطاعت بھر ذمہ داری نبھاتے رہیں تو یقیناً نجات پاجائیں گے۔ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرۃ: 286)
(اللہ تعالی کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں کرتا)
ہم صد افسوس مسلمانوں کے ایک ایسے پر الم دور سے گزر رہےہیں جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، یہ کہ کفار چاروں طرف سے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے ہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک صحیح ومعروف حدیث میں اس کی خبر دی کہ:
’’تداعى عليكم الأمم كما تداعى الأكلة إلى قصعتها، قالوا : أمن قلة نحن يومئذ يا رسول الله ؟ قال : لا ، أنتم يومئذ كثير ، ولكنكم غثاء كغثاء السيل ، ولينزعن الله الرهبة من صدور عدوكم لكم ، وليقذفن في قلوبكم الوهن، قالوا: وما الوهن يارسول الله ؟ قال : حب الدنيا وكراهية الموت‘‘([1])
(تم پر چاروں طرف سے قومیں ٹوٹ پڑیں گی جیسا کہ کھانے والے ایک دوسرے کو پلیٹ کی طرف دعوت دیتے ہیں، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی:یا رسول اللہ! کیا اس زمانے میں ہماری قلتِ تعداد کی بنا پر وہ ایسا کریں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، تم اس زمانے میں بہت کثیر تعداد میں ہوگے، لیکن تمہاری حیثیت سیلابی ریلے میں بہہ جانے والے خس وخاشاک کی سی ہوگی ، اللہ تعالی ضرور تمہارا رعب وہیبت کافروں کے دلوں سے نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں ’’وہن‘‘ ڈال دے گا، انہوں نے دریافت کیا: یارسول اللہ! یہ ’’وہن‘‘ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دنیا کی محبت اور موت سے کراہیت)۔
پس علماء کرام پر جو واجب ہے وہ تصفیہ وتربیہ کا جہاد کریں، وہ اس طرح کے مسلمانوں کو صحیح توحید، صحیح عقائد، عبادت اور سلوک کی تعلیم دیں۔ ہر کوئی اپنی طاقت بھر اپنے اس ملک میں جس میں وہ رہتا ہے ۔ کیونکہ اپنی اس موجودہ حالت میں کہ وہ متفرق ہیں، نہ ہمیں کوئی ایک ملک جمع کرسکتا ہے اور نہ ہی کوئی ایک صف، اس حالت میں ہم یہودیوں کے خلاف جہاد کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ان دشمنوں کے خلاف جو چاروں طرف سے ہم پر یلغار کررہے ہیں اس قسم کے جہاد کی استطاعت نہیں رکھتے، لیکن ان پر واجب ہے کہ ہر اس قسم کا شرعی وسیلہ اختیار کریں جو ان کے بس میں ہو، کیونکہ ہمارے پاس مادی قوت تو نہیں ہے، اور اگر ہوبھی، تو ہم عملی اعتبار سے متحرک نہیں ہوسکتے، کیونکہ نہایت افسوس کی بات ہے کہ بہت سے اسلامی ممالک میں ایسی حکومتیں، قیادتیں اور حکام ہیں جن کی سیاسیات شرعی سیاست پر مبنی نہیں، لیکن باذن اللہ ہم ان دو عظیم امور پر کام کرنے کی استطاعت ضرور رکھتے ہیں جو میں نے ابھی بیا ن کئے۔ پس جب مسلمان داعیان اس اہم ترین واجب کو لے کر کھڑے ہوں گے ایسے ملک میں جہاں کی سیاست شرعی سیاست کے موافق اور اس پر مبنی نہیں، اور اس اساس پر وہ سب جمع ہوجائیں گے، تو میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ اس دن ان پر اللہ تعالی کا یہ فرمان صادق آئے گا۔
﴿ وَيَوْمَىِٕذٍ يَّفْرَحُ الْمُؤْمِنُوْنَ، بِنَصْرِ اللّٰهِ﴾ (الروم: 4-5)
(اس دن مومنین خوشیاں منائیں گے اللہ تعالی کی نصرت پر)
ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ حکم الہی اپنی زندگی کے تمام شعبوں پر حسب استطاعت نافذ کرے
چناچہ ہر مسلمان پر واجب ہےکہ وہ بقدر استطاعت کام کرے، اللہ تعالی کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں بناتا۔ صحیح توحید اور صحیح عبادت کے قیام سےلازم نہیں کہ کسی ایسے ملک میں جہاں اللہ تعالی کی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں ہوتے وہاں اسلامی ریاست قائم ہوجائے، کیونکہ وہ پہلی بات جس میں اللہ تعالی کی شریعت کے مطابق حکم ہونا چاہیے وہ اقامتِ توحید ہے، اور اس کے علاوہ بھی بے شک کچھ ایسے خاص امور ہیں جو بعض زمانوں کی پیداوارہیں جن سے الگ تھلگ رہنا اختلاط سے بہتر ہے، یعنی ایک مسلمان معاشرے سے الگ ہوکر اپنے رب کی عبادت میں لگا رہے، اور خود کو لوگوں کے شر سے بچائے اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھے، اس بارے میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں۔ اگرچہ جو اصل اصول ہے وہ تو یہی ہےجیسا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں بیان ہوا:
’’الْمُؤْمِنُ الَّذِي يُخَالِطُ النَّاسَ، وَيَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ خَيْرٌ مِنَ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لا يُخَالِطُ النَّاسَ، وَلا يَصْبِرُ عَلَى أَذَاهُمْ‘‘([2])
(وہ مومن جو لوگوں سے میل ملاپ رکھتا ہے اور ان کی جانب سے پہنچنے والی اذیتوں پر صبر کرتا ہے اس مومن سے بہتر ہے جو نہ لوگوں کے ساتھ مل کر رہتا ہے اور نہ ہی ان کی جانب سے ملنے والی اذیتوں پر صبر کرتا ہے)۔
پس ایک اسلامی ریاست بلاشبہ ایک وسیلہ ہے اللہ تعالی کا حکم زمین پر قائم کرنے کا مگر یہ بذات خود کوئی غرض وغایت نہیں۔
بہت عجیب بات ہے کہ بعض داعیان اس ب
[Urdu Article] The Manahij of religious political and revolutionary Jamaats regarding Tawheed – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
توحید کے تعلق سے شریعت کے نفاذ کا دعویٰ کرنے والی
دینی سیاسی انقلابی جماعتوں کے مناہج
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: التوحید اولا ً
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام


http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/11/tawheed_taluq_deeni_siyasi_jamat_manahij.pdf



بسم اللہ الرحمن الرحیم
۔۔۔جو اس قسم کی (سیاسی/انقلابی) دعوتوں کے علمبردار ہیں وہ اس باب (توحید وردِشرک) کا بالکل بھی التزام نہیں کرتے؛ نہ اس باب کو جانتے ہیں اور نہ ہی ان کی نگاہ میں اس کی کوئی قدروقیمت ہے، اور نہ شرک کی خطرناکی ہی سے وہ واقف ہیں، میں بالکل صراحتاً یہ بات کہتا ہوں کہ وہ ان باتوں کو بالکل بھی نہیں جانتے۔ وہ ایسے ماحول میں پرورش پاتے ہیں جہاں عقائد کی تطہیرودرستگی پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی ، (بلکہ وہ جس ماحول میں آنکھیں کھولتے ہیں وہاں) بس مختلف جماعتوں میں سیاسی کشمکش ہی پاتے ہیں، چناچہ اس قسم کے لوگ بعض جماعتوں کو اپنے میں سے سرزمین توحید (سعودی عرب) بھیجتے ہیں جو (پرکشش) اسلامی نعروں سے مزین ہوتی ہیں مگر انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی دعوت سے بالکل کورے ہوتے ہیں یہاں آکر سرزمین توحید کے نوجوانوں پر اپنی سیاست کی تطبیق کرتے ہیں۔ جبکہ حال یہ ہے کہ وہ نہ توحید کو جانتے ہیں اور نہ ہی شرک کو ، نہ توحید کی قدرومنزلت کا ادراک رکھتے ہیں اور نہ ہی شرک کی خطرناکی کا کوئی احساس ہے، مگرصدافسوس کہ منہج انبیاء کی مخالف ان کی دعوت سرزمین توحید پر پھیل گئی۔ اللہ تعالی کی قسم یہ فکری جنگ ہے جو فرزندانِ توحید پر مرکوز کی گئی ہے، اور ہم برسوں سے اس تگ ودو میں ہیں کہ تمام امور اپنی اصل حالت میں لوٹ آئیں لیکن افسوس کہ نوجوان اس دھوکہ بازی کا شکار ہوچکے ہیں، اور ان لوگوں کے پیچھے ہولئے ہیں جو انہیں میدانِ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام اور میدانِ مصلحین سے بہت دور بھگا لےجاتے ہیں۔ اسی لئے ضروری ہے کہ نوجوان اب ہوش سنبھالیں اور اور توحید کی اہمیت پہچانیں۔
توحید کی خاطر دوستی ودشمنی
اللہ تعالی کی قسم! ہم بہت سے نوجوانوں میں اللہ تعالی کی توحید کی خاطر کوئی ولا اور براء(اللہ تعالی کے لئے محبت اور اللہ تعالی کے لئے نفرت) نہیں پاتے، لہذا آپ ان میں سے بہت سوں کو پائیں گے کہ وہ قبرپرستوں اور دشمنان توحید سے دوستی ومحبت رکھتے ہیں، اور (اس کے برعکس) علمبرداران توحید سے جنگ کرتے ہیں، یہ ایک حقیقت ہے، اور اس کا سوائے اس کے اور کوئی سبب نہیں کہ ان جاہلوں نے نوجوانان اور فرزندان ِتوحید کی عقلوں سے کھلواڑ کیا ہے۔
یہ جماعتیں توحید کو کوئی اہمیت نہیں دیتیں
یہ جاہل لوگ نہ تو توحید کو جانتے ہیں اور نہ ہی دعوت انبیاء کو، اور نہ ہی اس دعوت کی قدرومنزلت ہی کا انہیں کچھ اندازہ ہے، وہ یہ سب باتیں بالکل نہیں جانتے۔ یہ اس وقت نمودار ہوئے جب انگریز سامراج نے غریب اور مسلم ممالک میں مختلف جماعتیں اور پارٹیاں بنائیں: یہ بعثی([1]) پارٹی ہے، تو یہ کمیونسٹ وسیکولر پارٹی ہے، اور یہ فلاں ہے اور وہ فلاں ہے، تب اسلام کا نام لینے والے سیاستدانوں نے کہا کہ ہم بھی سیاسی جماعتیں قائم کرکے ان مذکورہ جماعتوں اور حکومت سے نبردآزما ہوں گے، یہ سب کی سب سیاسی کشمکش ہے اور کچھ نہیں، اور اسلام ، اسلام، اسلام یہ فقط نعرے ہیں۔ دراصل انہو ں نے پایا کہ سیکولر، کمیونسٹ اور بعثی پارٹیاں مسلم ممالک میں ٹھونس دی گئی ہیں تو کہا کہ ہم بھی اسلام کا نعرہ بلند کریں گے پس انہوں نے اسلام کے نعرے تو بلند کئے مگر کھوکھلے، اللہ تعالی کی قسم بالکل کھوکھلے اور بے جان، اللہ کی قسم! یہ نعرے بالکل مردار ہیں کیونکہ یہ توحید کے اہتمام اور شرک کے خلاف جنگ سے خالی ہیں۔ لہذا آپ اس کا بھی مشاہدہ کریں گے کہ ان مختلف دعوتوں (جماعتوں وتحریکوں) کے بانیان اور کرتا دھرتا لوگ اپنے وطنوں تک میں (شرک کے خاتمے کے لئے)کچھ کرنا تو درکنار بلکہ خود شرک میں مبتلا ہیں۔ آج تک ان دعوتوں (تحریکوں) کی بڑی بڑی شخصیات کی موت بدعات و خرافات پر ہورہی ہے بلکہ (اس سے بھی زیادہ) مزاروں آستانوں پر حاضری دینا، وہاں نذر ونیاز پیش کرنا، پھول چادر چڑھانا اور ان قبروں کے آگے جھکنا (ان کے یہاں عام ہے) اور جہاں تک شرک کا معاملہ ہے تو ان کے نزدیک اس سے کبھی کوئی خطرہ نہیں رہا اور توحید کی تو کبھی کوئی قدر وقیمت ہی نہیں رہی، بلکہ اس پر مستزاد یہ کہ توحید کو امت میں تفرقہ وانتشار کا سبب گردانتے ہیں۔ تو پھر فرزاندانِ توحید کی عقلوں کو کیا ہوگیا ہے وہ کیوں نہیں ان مکروفریب اور آفتوں کو سمجھ پارہے جو ان پر حملہ آور ہیں اور انہیں تفرقہ میں ڈال کر ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کررہے ہیں محض ان کھوکھلے نعروں کی خاطر۔
[1] بعثی یعنی صدام حسین کی ملحد پارٹی۔ شیخ ابن باز رحمہ
اللہ سے پوچھا گیا:
سوال: کیا ہم عراق کے صدر اور ان کی بعثی جماعت جو کہ اس کا عقیدہ رکھتے ہيں کی تکفیر کریں گے یا نہیں؟
جواب: بعثی سب کے سب کفار ہيں، خواہ وہ عراقی صدر ہوں یا ان کے علاوہ۔ کیونکہ انہوں نے واضح طور پر شریعت کا انکار کردیا ہے اور اس سے عناد رکھتے ہيں۔ (نشر في مجلة الفرقان، العدد 100، في ربيع الثاني 1419هـ) (توحید خالص ڈاٹ کام)
[Urdu Article] The deception of religious political parties regarding Tawheed – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
دینی سیاسی جماعتوں کی توحید کے تعلق سے دھوکہ بازی
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی رحمہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: التوحید اولا ً
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام


http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/11/deeni_siyasi_jamats_tawheed_taluq_dhokabazi.pdf



بسم اللہ الرحمن الرحیم
۔۔۔آج ہم سوچتے ہیں کہ مسلمانوں کے لئے توحید کے ان واضح دلائل بیان کرنے کا فائدہ کیا ہے؟ آج یہ برے اور فتنہ پرور داعیان آتے ہیں اور اس توحید اور اس کے دلائل کو بالکل ملیا میٹ کردیتے ہيں، اللہ تعالی کی قسم! بالکل لوگوں کی نظر میں انہیں صفحۂ ہستی سے مٹا دیتے ہیں، ان کی نظر میں توحید سے تفرقہ ہوتا ہے، وہ اپنی زبان حال بلکہ کبھی زبان مقال سے بھی یہ کہتے ہیں کہ: اگر ہم توحید کی طرف دعوت دیں اور اسے اپنا منہج بنائیں گے تو کون ہمارے پاس آئے گا؟ ہم حکومت کی کرسی پر جلد ازجلد پہنچنا چاہتے ہیں، اگر ہم یہی توحید توحید کہتے رہے تو لوگ ہم سے دوربھاگ جائیں گے، اور ہم کبھی بھی اس مرتبے پر نہیں پہنچ پائیں گے۔ ہم لوگوں کو جمع کرنا چاہتے ہیں، ایک رافضی بھی ہمارا بھائی ہے، اسی طرح نصرانی، بدعتی قبرپرست بھی ہمارا بھائی ہے، یہ سب ہمارے بھائی ہیں تاکہ ہم جلد از جلد اپنے مقصد کو حاصل کرسکیں،(چلیں بالفرض)ٹھیک ہے مان لیا آپ جلدازجلد اپنے مقصد(اتحاد امت اورتخت حکومت وغیرہ) تک پہنچ گئے، اب اس کے بعدکیاکارنامہ انجام دیا آپ نے؟ وحدت ادیان اور وحدت ادیان کی کانفرنسیں وغیرہ آپ کی نظر میں یہی کافی ہے! جب اس قسم کی دعوت رکھنے والی جماعتوں میں سے کوئی جماعت کرسی حاصل کرلیتی ہے؛ تو جس چیز کا بھرم لوگوں پررکھا کرتی تھی اس سے پیٹھ پھیر دیتی ہیں، یعنی یہ آپ کو شریعت نہیں دیں گے، اور نہ ہی عقیدہ، بلکہ گرجاگھر(چرچ) اور مزارات تعمیرکرواتے ہیں، اور وحدت ادیان کی کانفرنسیں منعقد کرواتے ہیں۔ یہ مذہبی سیاسی لوگ پوری دنیا سے لوگوں کو جمع کرتے ہیں اور ان وحدت ادیان کی کانفرنسوں میں شریک ہوتے ہیں۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ دعوتیں وتحریکیں اپنی اساس سے ہی فاسد ہیں اوران کے تمام تر مقاصد واہداف برے ہیں۔ جب یہ اس چیز تک پہنچ جاتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں تو ان بلند بانگ اسلامی نعروں اور سلوگن سے پیٹھ پھیر دیتے ہیں جس کا وہ شب وروز ڈھنڈورا پیٹا کرتے تھے۔
توحید پرستوں ہوش کے ناخن لو
یہ مثالیں تو بالکل زندہ ہمارے سامنے موجود ہیں جنہیں آپ خود چھو سکتے ہیں، اللہ کی قسم! ہمارے یہاں فرزندان توحید ان باتوں کا رد وانکار نہیں کرتے، کیوں؟ کیونکہ ان کی ذہنیت تبدیل ہوچکی ہے، میں نے ایک حرف بھی ان کی جانب سےاس پوری صورتحال کے خلاف نہیں سنا ۔ بہت سے ممالک میں ایسے تماشےہمیشہ دوہرائے جاتے رہتے ہیں مگر ان دینی سیاسی جماعتوں کی جانب سے ہم کوئی حرف نکیر نہیں سنتے، اور جو اپنے دین میں یا میدان جہاد میں ان سیاسی مذہبی جماعتوں سے متاثر ہیں ان کا یہ حال ہوگیاہے کہ ان سیاسی دعوتوں کی کسی چیز کی مخالفت نہیں کرتے، خواہ یہ وحدت ادیان کی جانب دعوت دیں، یاخواہ گرجاگھر اور مزارت قائم کریں، خواہ یہ کریں خواہ وہ کریں وغیرہ۔ پس یہ ایک عبرت ہے اپنے دین کے بارے میں ہر صادق اور مخلص کے لئے کہ اگر وہ کسی قسم کے دھوکے کا شکار ہوجائے پھر بعد میں اس پر ظاہر کردیا جائے کہ جو تمہاری رہنمائی کررہا تھا وہ دراصل تمہیں ہلاکت کی جانب گمراہ کررہا تھا؛ تو وہ یقیناً اسے چھوڑ کر اسلام کے صحیح طریقے کو اپناتا ہے، لیکن اگر آپ اسے تالیاں بجاکر داددیں،اسے چھپائیں اور اس کا دفاع کریں تو یہ غلط بات ہے۔
پس یہ دعوتیں وتحریکیں انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی دعوتیں نہیں جویہ کہیں کہ: توحید سب سے پہلے، بلکہ کہتی ہیں کہ: سیاست سب سےپہلے، اقتصادومعاشیات سب سے پہلے، تصوف سب سے پہلے، خرافات وبدعات سب سے پہلے، جبکہ ان نعروں کی کوئی قدروقیمت نہیں، اور مسلمانوں کو اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا بلکہ اس کا نتیجہ سوائے موت، ہلاکت اور پوری امت کے ضائع ہوجانے کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ لہذا دنیا وآخرت میں ایک اچھی اور سعادت مند زندگی سےبہرہ ور ہونا توحیداور کلمۂ توحید ’’لا الہ الا اللہ محمدرسول اللہ‘‘ پر متوقف ہے۔ اللہ تعالی ہمیں دنیا وآخرت میں نصرت، عزت اور تکریم عطاء فرمائیں گے، لیکن اگر ہم انہی طریقوں پر ڈٹے رہے جو ان منحرف قبرپرست وبدعت پرست لوگوں نے ہمارے لئے مقرر کئے ہیں؛ تو پھر اللہ کی قسم! ہم اللہ تعالی کی جانب سے سوائے ذلت ورسوائی کے اور کسی چیز کے منتظر نہیں:
﴿ وَمَنْ يُّهِنِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ مُّكْرِمٍ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ﴾ (الحج: 18)
(جسے اللہ تعالی ہی ذلیل کردے تو اسے کوئی عزت دینے والا نہیں، اللہ تعالی جو چاہتا ہے کرتا ہے)
اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ مسلمانوں کے لئے ایسے سچے ا
ور مخلص داعیان تیار فرمادے جو دعوت انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کا احترام کریں اور اس جانب دعوت دیں، اور اپنا تمام تر قیمتی سرمایۂ حیات اس کلمۂ توحید ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کو بلند کرنے میں لگا دیں تمام درجات پر عمل کرتے ہوئے جہاد وقتال کے درجے تک اس کے لئے کام کریں، اور اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ اس امت کے لئے ایسے داعیان تیار فرمادے جو منہج انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کا صحیح فہم رکھتے ہوں اور کلمۂ توحید ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کے صحیح معنی ومفہوم سے آگاہ ہوں تاکہ ان کے ذریعہ سے اللہ تعالی مسلمانوں کو نفع پہنچائے، اور ان کی شان بلند فرمائے، اور انہیں ان کا کھویا ہوا وہ وقار واپس لوٹا دےجس کے ذریعہ اللہ تعالی نے انہیں عزت ومنزلت عطاء فرمائی تھی، اور انہیں بلندیاں عطاء فرماکر اس دنیا کا اور تمام امتوں کا سردار بنادیا تھا، اور وہ بہترین امت بنادیا تھا جو لوگوں کے لئے برپا کی گئی تھی۔ یہ سب کچھ حاصل نہیں ہوسکتا جب تک کلمۂ توحید ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کو کماحقہ نہ اپنایا جائے، اور نیکی کا حکم دیا جائے اور برائی سے روکا جائے اور اللہ تعالی پر ایمان لایا جائے، اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ ہمیں اور آپ کو انہی میں سے کردے، اور درودوسلام ہو ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی آل اور اصحاب پر۔
Photo from Tariq Ali Brohi
Photo from Tariq Ali Brohi
[Urdu Article] Confused by different groups and parties – advice to the youth by Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
مختلف جماعتوں اور احزاب کی وجہ سے حیران وپریشان نوجوانوں کو نصیحت
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: التحذير من الشر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام


http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/11/jamate_ahzaab_nojawan_heran_pareshan.pdf



بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:بعض نوجوان اپنے معاملے میں شکوک میں مبتلا رہتے ہیں! انہيں سمجھ نہيں آتی کہ آخر کیا کریں، کس کی پیروی کریں، نہ وہ ان فرقوں اور احزاب کی شر وبرائیوں کو جانتے ہيں، آپ کی ایسوں کے بارے میں کیا نصیحت ہے؟
جواب: ان کے لیے حق اور باطل میں کوئی بھی چیز تمیز نہيں کرسکتی سوائے علم کے۔ سب سے پہلے اللہ تعالی کے لیے مخلص بنو، اپنے نفس کو حق کے آگے جھکنے پر آمادہ کرو، اور حق کی جستجو کرو مگر کسی کے لیے بھی تعصب نہ کرنا خواہ وہ کوئی بھی ہو، نہ اپنے والد کے لیے! نہ اپنے بھائی کے لیے! نہ کسی کے لیے۔اگر کسی نے حق کو اس کے دلائل کے ساتھ جان لیا اور اس پر آئمہ اسلام اور سلف کو پایا تو لازم ہےکہ وہ اسے لے اور جبڑوں کے ساتھ مضبوطی سے پکڑ لے، اور اس کے برعکس اگر وہ جان جائے کہ یہ باطل ہے تو اسے ترک کردے اگرچہ اس پر اس کے آباء واجداد ہوں، اساتذہ ہوں، شیوخ ہوں بہرحال وہ اس باطل کو چھوڑ دے، اور اس سے خبردار کرے۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے تمام رسولوں کو ارسال فرمایا اور ان کے ساتھ کتب نازل فرمائيں تاکہ وہ شر وبدعات سے ڈرائیں خبردار کریں، اور شر الامور (تمام امور میں سب سے بڑھ کر شر وبرائی) تو وہ ہيں جو دین میں نئی نکالی گئی باتیں (یعنی بدعات) ہيں۔ جب وہ پائے کہ یہ بات شر ہے، اور یہ بات بدعت ہے، تو اسے چاہیے کہ اللہ رب العالمین کی خاطر اسے چھوڑ دے۔ اور اس کی ولاء اور محبت صرف اللہ تعالی کی خاطر ہو اسی طرح اس سے نفرت وبغض بھی صرف اللہ تعالی کی خاطر ہو۔
اللہ تعالی کے لیے اخلاص اپنائے طلب علم میں، اور علم کو اس کے صاف ستھرے مصادر سے حاصل کرے۔ ان میں سے آپ جو حق پائیں تو اسے اپنے جبڑوں کے ساتھ مضبوطی سے پکڑ لیں، اور جو اس میں باطل ہو اس سے اجتناب کریں، اور اس سے ایسے بھاگیں جیسے آپ شیر کو دیکھ کر بھاگتے ہيں، اور دوسروں کو بھی اس سے تحذیر وخبردار کریں۔
[Urdu Article] Famous books of Salafee Aqeedah and Manhaj – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
سلفی عقیدے کے بیان اور اہل بدعت واہوا پر رد کے سلسلے میں سلف صالحین کی اہم ترین تصانیف
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ سحاب السلفیہ سے ماخوذ 15-02-2009۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام


http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/11/salafi_aqeeday_ki_mashoor_books.pdf



بسم اللہ الرحمن الرحیم
صحیح عقیدے کی نصرت اور اہل بدعت پر رد کے بارے میں سلف صالحین کی ان گنت مؤلفات ہیں، جن میں سے کچھ کا ذکر مندرجہ ذیل ہے:
1- امام احمد بن حنبل (رحمۃ اللہ علیہ) امام اہلسنت والحدیث المتوفی سن 241ھ نے کتاب ’’الرد على الجهمية والزنادقة‘‘ اور کتاب ’’السنة‘‘ تالیف فرمائی، جبکہ ان کے صاحبزادے عبداللہ نے بھی کتاب ’’السنة‘‘ تالیف فرمائی۔
2- امام ابو بکر بن ابی شیبہ (رحمۃ اللہ علیہ)المتوفی سن 235ھ نے کتاب ’’الإيمان‘‘ تالیف فرمائی۔
3- امام بخاری (رحمۃ اللہ علیہ)المتوفی سن 256ھ نے کتاب ’’خلق أفعال العباد‘‘ تالیف فرمائی، اس کے ضمن میں جہمیہ،اللہ تعالی کی صفات کو معطل قرار دینے والوں اور خلق قرآن کے قائلین پر رد فرمایا۔ اسی طرح آپ کی کتاب ’’الجامع الصحيح‘‘ (صحیح بخاری) کے اندر بھی تین کتابیں ہیں اس بارے میں ہیں۔ ’’الإيمان‘‘ جس کے تحت مرجئہ پر رد ہے، اور کتاب ’’التوحيد‘‘، جس کے تحت معطلہ اور جہمیہ پر رد ہے، اور کتاب ’’الاعتصام‘‘ جس کے تحت اتباع کتاب وسنت کا وجوب اسی طرح ان اہل رائے پر جو قیاس میں افراط برتتے ہیں، اور خبرآحاد کی حجیت کے منکرین پر رد ہے۔
4- امام ابو داود (رحمۃ اللہ علیہ) المتوفی سن275ھ نے اپنی کتاب ’’السنن‘‘ (سنن ابی داود) تالیف فرمائی، جس میں کتاب ’’السنة‘‘ کو شامل کیا اور اس کے تحت قدریہ، مرجئہ، جہمیہ معطلہ پر رد فرمایا؛ اور آپ نے اپنے ابواب واضح طور پر ان فرقوں کا نام لے کر قائم فرمائے جیسا آپ کا یہ فرمان: ’’باب الرد على الجهمية‘‘، آپ نے کتاب ’’السنة‘‘ کے دو مواقع پر ایسا کیا، پہلے موقعہ پر ان کا رد اللہ تعالی کی صفت استواء علی العرش کے انکار کے سلسلے میں، اور دوسرے موقع پر ان کا رد نزول باری تعالی کے انکار کے سلسلے میں فرمایا۔
5- امام ابو عبداللہ محمد بن یزید بن ماجہ (رحمۃ اللہ علیہ) المتوفی سن273ھ نے اپنی کتاب ’’السنن‘‘ (سنن ابن ماجہ) کا مقدمہ اتباع سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں قائم فرمایا جو 98 صفحات پر مشتمل ہے، اس کے تحت 266 احادیث بیان فرمائیں ، جس کے ضمن میں بہت سے ابواب قائم فرمائے من جملہ ان ابواب میں سے ’’باب فيما أنكرت الجهمية‘‘بھی ہے، جس میں انہوں نے ان کا روئیت باری تعالی، کلام اور استواءعلی العرش کا انکار ذکر فرمایا ہے؛ اور اس بارے میں احادیث لاکر ان کا رد فرمایاہے، اسی طرح خوارج اور دیگر بدعتیوں کا ذکر فرمایا ہے، اور ایک باب قائم فرمایا ہے کہ رائے کی پیروی سے اجتناب کیا جائے۔
6- امام عثمان بن سعید الدارمی (رحمۃ اللہ علیہ) المتوفی سن 280ھ نے کتاب ’’الرد على الجهمية‘‘ اور کتاب ’’الرد على بشر المريسي‘‘ تصنیف فرمائی۔
7- امام ابو بکر احمد بن علی بن سعید المروزی (رحمۃ اللہ علیہ) المتوفی سن 292ھ نے کتاب ’’السنة‘‘ تصنیف فرمائی۔
8- امام ابو بکر محمدبن حسین بن عبداللہ الآجری (رحمۃ اللہ علیہ) المتوفی سن 360ھ نے کتاب’’الشريعة‘‘ اور کتاب’’التصديق بالنظر إلى وجه الله وما أعدَّه لأوليائه‘‘ تصنیف فرمائی۔
9- امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد بن ایوب اللخمی الشافعی الطبرانی (رحمۃ اللہ علیہ) المتوفی سن 360ھ جو بہت سے تصانیف کے مصنف ہیں نے کتاب ’’السنة‘‘ تالیف فرمائی۔
10- امام احمد بن محمد بن ہانی ابو بکر الاثرم (رحمۃ اللہ علیہ) المتوفی سن 273ھ نے کتاب ’’السنة‘‘ تالیف فرمائی۔
11- امام ابوعلی حنبل بن اسحاق الشیبانی (رحمۃ اللہ علیہ) المتوفی سن 273ھ جو امام احمد بن حنبل (رحمۃ اللہ علیہ)کے چچازاد بھائی اور ان کے تلمیذ ہیں نے کتاب ’’السنة‘‘ تالیف فرمائی۔
12- امام ابو بکر احمد بن محمدبن ہارون الخلال (رحمۃ اللہ علیہ) المتوفی 311ھ نے جو امام احمد (رحمۃ اللہ علیہ) کے علم کی تالیف اور اسے جمع کرنے والے ہیں، کتاب ’’السنة‘‘ تالیف فرمائی، جو کہ تین جلدوں میں ہے۔
13- امام ابوالشیخ عبداللہ بن محمد بن جعفربن حیان الاصبہانی (رحمۃ اللہ علیہ) المتوفی سن 369ھ جن کی بہت سے تصانیف ہیں نے کتاب ’’السنة‘‘ تالیف فرمائی۔
14- امام ابو بکر احمد بن عمرو بن ابی عاصم النبیل الشیبانی (رحمۃ اللہ علیہ) المتوفی سن 287ھ نے کتاب ’’السنة‘‘ تالیف فرمائی۔
15- امام ابو حفص عمربن احمد بن احمد بن عثمان البغدادی (رحمۃ اللہ علیہ) المتوفی سن 385ھ مشہور واعظ جو ابن شاہین کے نام سے مشہور ہیں بہت بڑے حافظ اور انوکھی تصانیف کی حامل شخصیت ہیں، انہوں نے کتاب ’’السنة‘‘ تصنیف فرمائی۔
1
6- امام ابو الحسن علی بن اسماعیل الاشعری (رحمۃ اللہ علیہ) المتوفی سن 324ھ کتاب ’’الإبانة‘‘ اور کتاب ’’الموجز على طريقة أهل الحديث في إثبات الصفات‘‘ تصنیف فرمائی جس کے تحت جہمیہ اور دوسرے اہل تعطیل وغیرہ فرقوں کا رد فرمایا۔
17- امام حافظ خشیش بن اصرم (رحمۃ اللہ علیہ) المتوفی سن 253ھ نے کتاب ’’الاستقامة والرد على أهل البدع‘‘ تالیف فرمائی۔
18- آئمہ کے امام محمد بن اسحاق بن خزیمہ (رحمۃ اللہ علیہ) المتوفی سن 311ھ نے کتاب ’’التوحيد وإثبات صفات الرب عزوجل‘‘ تالیف فرمائی۔
19- امام المفسرین ابو جعفرمحمد بن جریر الطبری (رحمۃ اللہ علیہ) المتوفی سن 310 ھ عقیدتاً منہج اہلحدیث پر تھے، اور اپنی مشہور اور ضخیم تفسیر میں اسی منہج کو اختیار فرمایا۔
20- امام ابو عبداللہ محمد بن یحییٰ بن مندہ (رحمۃ اللہ علیہ) بہت زیادہ سفر کرنے والے حافظ المتوفی سن 301ھ نے کتاب ’’السنة‘‘ تصنیف فرمائی۔
21- امام ابو بکر احمد بن اسحاق الشافعی النیسابوری (رحمۃ اللہ علیہ) المتوفی سن 342ھ جو امام صبغی کے نام سے مشہور ہیں نے کتاب ’’الأسماء والصفات‘‘ اور کتاب ’’الإيمان بالقدر‘‘ تصنیف فرمائی۔
22- امام ابو احمد محمد بن احمد بن ابراہیم العسال الاصبہانی (رحمۃ اللہ علیہ) المتوفی سن 349ھ نے کتاب ’’السنة‘‘ تالیف فرمائی۔
23- امام ابو الحسین محمد بن احمد بن عبدالرحمن الملطی الشافعی (رحمۃ اللہ علیہ) المتوفی سن 377ھ نے کتاب ’’التنبيه والرد على أهل الأهواء والبدع‘‘ تالیف فرمائی۔
24- امام ،حافظ کبیر، امیر المؤمنین فی الحدیث ابو الحسن علی بن عمر الدارقطنی (رحمۃ اللہ علیہ) المتوفی سن 385ھ نے کتاب ’’الصفات‘‘، کتاب ’’النزول‘‘ اور کتاب ’’الرؤية‘‘ تالیف فرمائی۔
25- امام حافظ عبیداللہ بن محمد بن بطہ العکبری (رحمۃ اللہ علیہ) المتوفی سن 387ھ نے کتاب ’’الإبانة عن شريعة الفرقة الناجية ومجانبة الفرق المذمومة‘‘، کتاب ’’الإبانة الصغرى‘‘ اور کتاب ’’السنة‘‘ تالیف فرمائی۔
26- امام حافظ بہت زیادہ سفر کرنے والے ، بہت سی تصانیف کے مصنف، محمد بن اسحاق بن یحییٰ بن مندہ (رحمۃ اللہ علیہ) المتوفی سن 395ھ نے کتاب ’’التوحيد‘‘ اور کتاب ’’الإيمان‘‘ تالیف فرمائی۔
27- امام، زاہد، شیخ الاسلام ابو الفتح نصربن ابراہیم المقدسی الشافعی (رحمۃ اللہ علیہ) المتوفی سن 490ھ نے کتاب’’الحجة‘‘ تالیف فرمائی جو ایک جلد پر مشتمل ہے۔
28- امام ابوالقاسم ھبۃ اللہ بن الحسن بن منصور الطبری الرازی اللالکائی (رحمۃ اللہ علیہ) محدث بغداد المتوفی سن 418ھ نے کتاب ’’شرح أصول السنة‘‘ تالیف فرمائی۔
29- امام ابو محمد عبداللہ بن یوسف الجوینی (رحمۃ اللہ علیہ)المتوفی سن 438 ھ نے استواء اور فوقیت باری تعالی کے اثبات میں ایک رسالہ تالیف فرمایا۔
30- امام ابو اسماعیل عبداللہ بن محمد الانصاری الہروی (رحمۃ اللہ علیہ) المتوفی سن 481ھ نے کتاب ’’الفاروق في صفات الله‘‘ اور کتاب ’’ذم الكلام‘‘ تالیف فرمائی۔
31- امام محیی السنۃ ابو محمد الحسین بن مسعود البغوی الشافعی (رحمۃ اللہ علیہ) المتوفی سن 516ھ نے اپنی کتاب ’’شرح السنة‘‘ کی ابتداء کتاب ’’الإيمان‘‘سے فرمائی: اس کے صفحہ نمبر 7 تا 231 میں یہ ابواب قائم فرمائے باب: ’’الإيـمان بالقـدر‘‘، باب: ’’وعيـد القـدريـة‘‘، باب: ’’الرد على الجهمية‘‘، باب: ’’الرد على من قال بخـلـق القــرآن‘‘، باب: ’’الاعتصـام بالكتاب والسـنـة‘‘، باب: ’’رد البدع والأهواء‘‘ اور باب: ’’مجانبة أهل الأهواء‘‘، اور اپنی کتاب ’’التفسیر‘‘ میں اہل حدیث وسنت کے منہج اثبات صفات باری تعالی کو اپنایا ہے اور اس بارے میں اہل اہوا ء مخالفین کا رد فرمایا ہے۔
32- امام علامہ ابو الحسن محمد بن عبدالملک الکرجی الشافعی (رحمۃ اللہ علیہ) شیخ الاسلام الہروی (رحمۃ اللہ علیہ) کے ساتھی، المتوفی سن 532ھ نے منہج سلف پر عقیدے کے بارے میں تالیف فرمائی۔
33- امام ابو القاسم اسماعیل بن محمد بن الفضل التیمی الطلحی الاصبہانی (رحمۃ اللہ علیہ) المتوفی سن 535ھ نے کتاب ’’الحجة في بيان المحجة على منهج أهل الحديث‘‘ تالیف فرمائی۔
34- امام حافظ محدث الاسلام عبدالغنی بن عبدالواحد بن سرور المقدسی الحنبلی (رحمۃ اللہ علیہ) جو بہت سی تصانیف کے مصنف ہیں، المتوفی سن 600ھ نے دو حصوں پر مشتمل صفات باری تعالی پر کتاب تالیف فرمائی، دیکھئے ’’تذكرة الحفاظ‘‘ (1374/3)۔
35- امام شیخ الاسلام احمد بن عبدالحلیم بن عبدالسلام بن تیمیہ (رحمۃ اللہ علیہ) المتوفی سن 728ھ نے عقیدے، کتاب وسنت کی جانب رجوع کرنے کی دعوت اور اہل بدعت کے خلاف بہت سی کتابیں تالیف فرمائیں جیسے ’’العقيدة الواسطية‘‘، ’’العقيدة الحموية‘‘،’’العقيدة التدمرية‘‘،’’اقتضاء الصراط المستقيم‘‘، ’’منهاج السنة‘‘، ’’الرد على البكري‘‘، ’’الرد على الأخنائي‘‘ اور ’’الفتاوىٰ‘‘؛ یہ سب کی سب امت اسلامیہ کو کتاب وسنت اور منہج سلف صالحین کی طرف رجوع کرنے کی دعوت پر مشتمل ہیں۔
36- آپ کے تلمیذ امام شمس الدین ابو عبداللہ محمد بن ابی بکر جو ابن القیم
(رحمۃ اللہ علیہ) کے نام سے مشہور ہیں المتوفی سن 751ھ نے کتاب ’’الصواعق المرسلة على الجهمية والمعطلة‘‘، ’’اجتماع الجيوش الإسلامية على غزو المعطلة والجهمية‘‘ اور ’’القصيدة النونية‘‘ عقیدے کے موضوع پر تالیف فرمائی، اور کتاب ’’إعلام الموقعين‘‘ سنت کو مضبوطی سے تھامنے کے بارے میں تالیف فرمائی۔
37- امام حافظ شمس الدین ابو عبداللہ محمد بن احمد بن عثمان الذہبی (رحمۃ اللہ علیہ) المتوفی سن 748ھ نے کتاب ’’العلو للعلي الغفار‘‘ تالیف فرمائی جس میں کتاب وسنت کے تمام نصوص جو علوالہی کے بارے میں ہیں جمع فرمائے، اور جو کچھ انہیں صحابہ ، تابعین، آئمہ حدیث، آئمہ فقہ اور اپنے زمانے تک جو جو ان کی اتباع کرتے چلے آئے تھے کے اقوال ملے وہ بھی جمع فرمادئے۔
38- امام قاضی صدرالدین علی بن علی بن ابی العزالحنفی الصالحی الدمشقی(رحمۃ اللہ علیہ) المتوفی سن 792ھ نے ایک رسالہ تالیف فرمایا جس کا نام ’’الاتباع‘‘ رکھا اور اس کا موضوع اتباع سنت کا وجوب ہے، اس کے علاوہ آپ نے ’’العقيدة الطحاوية‘‘ کی شرح صفات الہیہ، قرآن، تقدیر وغیرہ اسلامی عقائد کے بارے میں منہج اہلحدیث کے مطابق فرمائی۔
پھر اس کے بعد کتاب وسنت، عقائد کی تصحیح اور اہل بدعت کے خلاف دعوتیں پورے عالم اسلامی میں نشاط پذیر ہوئی، جیسا کہ امام صنعانی المتوفی سن 1182ھ اور امام شوکانی (رحمۃ اللہ علیہما)المتوفی سن1250ھ کی دعوت یمن میں، اسی طرح امام مجدد شیخ محمد بن عبدالوہاب (رحمۃ اللہ علیہ) المتوفی سن 1206ھ کی دعوت جزیرۂ عرب میں، اور ہندوستان میں دعوت اہلحدیث نے اہلحدیث کی دعوت اوران کا منہج پھیلایا؛ اور یہ آج بھی قائم ہے اور تاقیام قیامت رہے گی جیسا کہ صادق ومصدوق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’لا تزال طائفة من أمتي على الحق ظاهرين لا يضرهم من خذلهم ولا من خالفهم إلى قيام الساعة‘‘([1])
(میری امت کا ایک چھوٹا سا گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا، جو ان کا ساتھ چھوڑ دے گا یہ ان کی مخالفت کرے گا تو وہ ان کا کوئی نقصان نہیں کرپائے گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہو)۔
[1] صحیح مسلم 1925 کے الفاظ ہیں: ’’لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ، لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ كَذَلِكَ‘‘ (میری امت کا ایک چھوٹا سا گروہ حق پر غالب رہے گا، ان کا ساتھ چھوڑنے والا انہیں کوئی گزند نہیں پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اللہ تعالی کا امر (قیامت) آجائے اور وہ اسی حال میں ہوں گے) اس کے علاوہ یہ حدیث صحیح بخاری اور دیگر کتب حدیث میں بھی مروی ہے۔(توحید خالص ڈاٹ کام)
[Urdu Article] Ruling regarding congregational supplication after obligatory prayers? – Various 'Ulamaa
فرض نماز کے بعد اجتماعی دعاء کا حکم؟
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام


http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2014/11/fard_namaz_baad_ijtimae_dua_hukm.pdf



بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا جب لوگ جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں تو ان کے لیے جائز ہے کہ بعد از نماز کسی کو اپنے میں سے منتخب کرلیں کہ وہ ان سب کے لیے (اجتماعی) دعاء کرے، اور باقی سب اپنے ہاتھ اٹھا کر آمین کہیں، یعنی وہ لوگوں کی نیابت کرتا ہوا دعاء کرے اور سب اس کلمے کو دہراتے رہیں ’’اللهم آمين‘‘؟
جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازرحمہ اللہ:
اس میں کچھ تفصیل ہے اگر یہ دعاء وتر کے قنوت میں مانگ رہا ہے تو پھر کوئی حرج نہیں۔ لیکن اس کے علاوہ دعاء (کی یہ کیفیت) مشروع نہیں۔ بلکہ ہر کوئی اپنے اپنے طور پر دعاء کرے جب وہ نماز سے سلام پھیر دے اور شرعی اذکار کرلے تو وہ دعاء کرے جو اس کے اور اس کے رب کے درمیان ہو۔ ہر کوئی اپنے طور پر دعاء کرے۔
امام اپنے ہاتھ اٹھا کر دعاء نہ کرے، نہیں، یہ بدعت ہے اس کی کوئی اصل نہیں، لیکن اگر کوئی دعاء کرنا چاہتا بھی ہے تو امام اپنے لیے خود دعاء کرے جو اس کے اور اس کے رب کے مابین ہو اسی طرح سے مقتدی بھی اپنے اپنے لیے الگ سے دعاء کریں، یہ (طریقہ) مشروع ہے۔
(نور علی الدرب 20239)
سوال: سائل ابو عادل کہتے ہیں کہ وہ نماز کے بعد اجتماعی طور پر دعاء کی اور اس پر مداومت اختیار کرنے کی مشروعیت کے متعلق فتویٰ دیتے ہيں،پس میں فضیلۃ الشیخ صالح سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا میرا ایسا فتویٰ مسلمانوں میں تفریق کا سبب بنتا ہے؟
جواب از شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
نماز کے بعد دعاء تو مشروع ہے، لیکن اجتماعی طور پر نہيں بلکہ ہر کوئی الگ الگ سے اپنے لیے اور مسلمانوں کے لیے دعاء کرے۔ اور اس کے ساتھ اپنی آواز بلند نہ کرے یا دوسروں کو تشویش کا شکار کرے، اللہ عزوجل کا فرمان ہے:

(فتاوی نور علی الدرب – الدعاء عقب الصلاة، والدعاء بصفة جماعية)
﴿فَاِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلٰوةَ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰي جُنُوْبِكُمْ﴾ (النساء: 103)(پھر جب تم نماز پوری کرلو تو اللہ کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر لیٹے ہوئے کرتے رہو)
[Urdu Article] The prohibition of superstitions in Islam – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen
اسلام میں بدشگونی کی مذمت
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ وتبویب: طارق علی بروہی
مصدر: القول المفيد على كتاب التوحيد (معمولی ترمیم کے ساتھ).
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
عناوین
بدشگونی کی تعریف
بدشگونی توحید کے منافی ہے
بدشگونی کا نقصان
بدشگونی سے متعلق بعض آیات
چھوت چھات کی بیماری کی حقیقت
الو کے بولنے کی تاثیر کی حقیقت
ماہ صفر منحوس نہیں
ان چیزوں کے وجود کی نفی کی گئی ہے یا تاثیر کی؟
ان چیزوں کی نفی کرنے کی حکمت
ستاروں کی تاثیر کا عقیدہ
موسمی پیشنگوئی وغیرہ کے تعلق سے الفاظ میں احتیاط
بھوت پریت کی حقیقت
نیک فال کیا ہے؟
بدشگونی اور فال میں فرق
بدشگونی سے بچنے یا اس کے پیدا ہونے کی صورت میں پڑھی جانے والی دعاء
بدشگونی شرک ہے
شرک اصغر جاننے کا ایک مفید قاعدہ
بدشگونی کو دور کیسے کیا جاسکتا ہے؟
بدشگونی کا کفارہ
اس حدیث سے حاصل ہونے والے فوائد
بدشگونی جانچنے کا معیار

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/11/islam_badshoguni_muzammat.pdf
[Urdu Article] Sura-tul-Baqrah based on the fundamentals of Emaan and Ahkaam – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
سورۃ البقرۃ اصول ایمان واحکام پر مشتمل ہے
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: نفحات الهدى والإيمان من مجالس القرآن (المجلس الأول)۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ سورۃ بہت عظیم سورۃ ہے جو کہ احکام اور عقائد پر مشتمل ہے، اسی طرح اوامر و نواہی اور جو شرعی احکام ہیں، حلا ل اور حرام سے متعلق احکام، طلاق کی کیا شروط ہیں اور اس سے متعلقہ جو باتیں ہیں ، اور اس سے پہلے حج اورجہاد کا ذکر ہے ۔ چنانچہ ان امور کا ذ کر اس آیت میں ہے جیسے عقائد اور ایمان وغیرہ:
﴿لَيْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَكُمْ قِـبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتٰبِ وَالنَّبِيّٖنَ ۚ وَاٰتَى الْمَالَ عَلٰي حُبِّهٖ ذَوِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ ۙ وَالسَّاىِٕلِيْنَ وَفِي الرِّقَابِ ۚ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ ۚ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ اِذَا عٰھَدُوْا ۚ وَالصّٰبِرِيْنَ فِي الْبَاْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِيْنَ الْبَاْسِ ۭ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ﴾ (البقرۃ:177)
(نیکی یہی نہیں کہ بس تم اپنے چہروں کو مشرق یا مغرب کی طرف کر لو، لیکن (اصل) نیکی یہ ہے کہ جو ایمان لائے اللہ تعالیٰ پر ، یوم آخرت پر ، فرشتوں ، کتابوں اور نبیوں پر،اور مال کو وہ دے اس کی محبت کے باوجود، قرابت داروں کو ، یتیموں کو ،مساکین کو ، مسافروں کو، مانگنے والوں کواور گردنیں (یعنی غلام) آزاد کرانے میں،اور نماز قائم کرےاور زکوٰۃاداکرے،اور جو اپنے عہد سے وفا کرتے ہیں جب وہ عہد کرتے ہیں، اور جو صبر کرتے ہیں تنگ دستی میں ،اور مصیبتوں میں اور جنگ کے وقت، یہی لوگ سچے ہیں ،اور یہی لوگ متقی ہیں)۔
مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/11/surah_baqra_usool_emaan_ahkam.pdf