Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.17K subscribers
2.48K photos
52 videos
211 files
4.92K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[Urdu Article] Brief Seerah of grandsons of the prophet Hasan and Husayn (RadiAllaho anhuma) – tawheedekhaalis.com
مختصر سیرت نواسان ِرسول حسن وحسین رضی اللہ عنہما – توحید خالص ڈاٹ کام

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’الْحَسَنُ، وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ‘‘([1])
(حسن اور حسین اہل جنت نوجوانوں کے سردار ہیں)۔
[1] صحیح ترمذی 3768۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/seerat_hasan_o_husain.pdf
Aaj ka dars baaz nuguzeer wujuhaat ki bina par nahi ho paye ga. جزاكم الله خيرا
[Urdu Article] Regarding Yazeed bin Mu'awiyyah people are on two opposite extremes or on the moderate path – Fatwa Committee, Saudi Arabia
یزید بن معاویہ کے بارے میں لوگوں کی دو مختلف انتہائیں اور معتدل مؤقف – فتوی کمیٹی، سعودی عرب

فتوی کمیٹی، سعودی عرب کہتی ہے کہ:
۔ ۔ ۔ البتہ جہاں تک یزید بن معاويہ کا تعلق ہے تو لوگ اس کے بارے میں دو طرف اور اعتدال پر ہیں، تینوں میں سے درمیانہ ومعتدل قول یہ ہے کہ : بلاشبہ وہ مسلمانوں کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تھا اس کی کچھ نیکیاں ہیں اور برائیاں بھی ہیں اور وہ تو پیدا ہی نہیں ہوا مگر سیدنا عثمان رضی الله عنہ کے دور خلافت میں۔ کافر نہیں تھا لیکن اس کی وجہ سے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا قتل واقع ہوا، اور اہل حرہ کے ساتھ جو کیا سو کیا وہ بھی ، وہ نہ تو صحابی تھا اور نہ ہی صالحین اولیاء اللہ میں سے تھا۔ ۔ ۔
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/yazeed_do_intihaye_aur_eitidaal.pdf
[Urdu Articles] The status of Umm-ul-Mo'mineen Khadeejah bint Khuwaylid (radiAllaaho anha) and her excellence – tawheedekhaalis.com
ام المؤمنین سیدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا کا مرتبہ اور فضائل – توحید خالص ڈاٹ کام

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا:

’’يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ خَدِيجَةُ قَدْ أَتَتْ مَعَهَا إِنَاءٌ فِيهِ إِدَامٌ أَوْ طَعَامٌ أَوْ شَرَابٌ،‌‌‌‏ فَإِذَا هِيَ أَتَتْكَ فَاقْرَأْ عَلَيْهَا السَّلَامَ مِنْ رَبِّهَا وَمِنِّي،‌‌‌‏ وَبَشِّرْهَا بِبَيْتٍ فِي الْجَنَّةِ مِنْ قَصَبٍ لَا صَخَبَ فِيهِ وَلَا نَصَبَ‘‘(صحیح بخاری 3820۔)(یا رسول اللہ! خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس ایک برتن لیے آ رہی ہیں جس میں سالن یا (فرمایا) کھانا یا (فرمایا) پینے کی چیز ہے جب وہ آپ کے پاس آئیں تو ان کے رب کی جانب سے انہیں سلام پہنچا دیجیے گا اور میری طرف سے بھی! اور انہیں جنت میں موتیوں کے ایک محل کی بشارت دے دیجیے گا جہاں نہ شور و ہنگامہ ہو گا اور نہ تکلیف و تھکن ہو گی)۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/khadeejah_bint_khuwaylid_martaba_fazail.pdf

The status of Fatimah bint Rasoolillaah (radiAllaaho anha) and her excellence – tawheedekhaalis.com
سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ رضی اللہ عنہا کا مرتبہ اور فضائل – توحید خالص ڈاٹ کام
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا کہ آپ تمام مومن عورتوں کی سردار وسیدہ ہیں اور جنتی خواتین کی بھی سردار ہیں۔ (صحیح بخاری 3824، 6285، صحیح مسلم 2452، ، صحیح ترمذی 3781)۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/fatimah_bint_rasoolillaah_martaba_fazail.pdf

In Defense of Umm-ul-Mo'mineen A’aeshah RadiAllaho Anhaa – Fatwaa Committee, Saudi Arabia
دفاع ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا – فتوی کمیٹی، سعودی عرب
سیدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور دریافت کیا کہ:
’’أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْكَ ؟ قَالَ: عَائِشَةُ، فَقُلْتُ: مِنَ الرِّجَالِ، فَقَالَ: أَبُوهَا ‘‘([1])
(لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب شخصیت آپ کے نزدیک کونسی ہے؟ فرمایا: عائشہ رضی اللہ عنہا، پھر دریافت کیا کہ مردوں میں سے، فرمایا: ان کے والد (یعنی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ))۔
[1] صحیح بخاری 3662، صحیح مسلم 2387۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/difa_e_umm_ul_momineen_ayesha.pdf
[Urdu Article] Ruling regarding today's Shia? Various 'Ulamaa
موجودہ روافض (شیعوں) کا حکم؟ مختلف علماء کرام

شیعہ کا عقیدہ کیا ہے؟
شیعہ فرقے کے عقائد کی وضاحت اور انہیں دعوت دینا
کیا ہر شیعہ کافر ہے؟
شیعہ فرقوں کی تفصیل
شیعہ اثنا عشریہ رافضہ کا حکم
کیا تمام موجودہ شیعہ کفار ہیں؟
جو یہ کہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبوت کے مرتبے پر ہیں اور سیدنا جبرئیل علیہ السلام نے غلطی کی
کیا شیعہ فرقے کا اسلام سے کوئی تعلق ہے؟
کیا شیعہ عوام اور علماء کے حکم میں فرق ہے؟
کیاشیعہ ہمارے بھائی ہیں؟
رافضہ کے کفر میں شک کرنا
کیا شیعہ فرقے کا بانی عبداللہ بن سباء یہودی تھا؟
شیعہ کے پیچھے نماز کا حکم
شیعہ سے دنیاوی معاملات کا حکم؟
کیا ایرانی انقلاب یا حکومت اسلامی ہے؟
خمینی کا حکم
ان تمام سوالات کے جوابات جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/mojoda_rawafid_shia_hukm.pdf
[Urdu Audios] "La ilaha illa Allaah" its status, virtue, pillars, conditions and meaning – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan – 01
“لا الہ الا اللہ” کی منزلت، فضیلت، ارکان، شرائط ومعنی – شیخ صالح بن فوزان الفوزان – 01

مقدمہ از دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی حفظہ اللہ
مقدمہ از شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
زندگی میں لا الہ الا اللہ مقام ومنزلت
لا الہ الا اللہ کی فضیلت
لا الہ الا اللہ کے اعراب، ارکان وشرائط
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/kalimah_tafseer_fawzaan_01.mp3

part 2
لا الہ الا اللہ کا معنی اور اس کے تقاضے
کب لا الہ الا اللہ اپنے پڑھنے والے کو فائدہ دیتا ہے اور کب نہيں
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/kalimah_tafseer_fawzaan_02.mp3

part 3
کب لا الہ الا اللہ اپنے پڑھنے والے کو فائدہ دیتا ہے اور کب نہيں
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کا قول
حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ کا قول
لا الہ الا اللہ کے فرد اور معاشرے پر اہم ترین اثرات
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/kalimah_tafseer_fawzaan_03.mp3
[Urdu Article] The excellence and virtues of Ameer Mu'awiyyah bin abi Sufyaan (radiAllaaho anhuma) and his defence – Various 'Ulamaa
سیدنا امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے فضائل اور آپ کا دفاع – مختلف علماء کرام
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے تعلق سے فرمایا:
’’اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِ بِهِ‘‘([1])
(اے اللہ انہيں ہادی (ہدایت کرنے والا)، مہدی (ہدایت یافتہ) بنا اور اور ان کے ذریعے سے (لوگوں کو) ہدایت دے)۔
[1] صحیح ترمذی 3842۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/ameer_muawiyyah_fazail_difa.pdf
[Urdu Article] Brief biography of Sahabi Abdullah bin 'Abbaas (radiAllaho anhuma) – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen
مختصر سوانح حیات عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: اصول تفسیر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/02/sawanah_hayat_abdullaah_bin_abbaas.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہما ہجرت سے تین سال قبل پیدا ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملازمت (خدمت میں حاضری) اختیار کی کیونکہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچازاد بھائی ہونےکےساتھ ساتھ ان کی خالہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ بھی تھیں۔ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سینے سے چمٹا کر یہ دعاء فرمائی:
’’اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْحِكْمَةَ‘‘
(اےاللہ اسے حکمت کی تعلیم دے)۔
اورایک روایت میں ہے :
’’اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْكِتَابَ‘‘([1])
(اسے کتاب کی تعلیم دے)۔
اور جب آپ رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضوء کاپانی رکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لیے یہ بھی دعاء فرمائی:
’’اللَّهُمَّ فَقِّهُّ فِي الدِّينِ‘‘([2])
(اے اللہ اسے دین کی فقاہت عطاء فرما)۔
پس آپ رضی اللہ عنہما اس مبارک دعاء کے سبب سے اس امت کے تفسیر اور فقہ میں حبر (بہت بڑے عالم) ہوئے۔ کیونکہ اللہ تعالی نے آپ کو حصول علم کی حرص ،اس کی طلب میں محنت اور اس کی تعلیم دینے میں صبر کی توفیق عنایت فرمائی تھی۔ لہذا اس وجہ سے آپ رضی اللہ عنہما کو وہ بلند درجہ حاصل ہوا کہ امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ انہیں اپنی مجالس میں بلاتے اور ان کے قول کو لیتے۔جس پر مہاجروں نےعرض کی:
’’أَلا تَدْعُو أَبْنَاءَنَا كَمَا تَدْعُو ابْنَ عَبَّاسٍ؟ قَالَ: ذَاكُمْ فَتَى الْكُهُولِ، إِنَّ لَهُ لِسَانًا سَئُولًا، وَقَلْبًا عَقُولًا‘‘([3])
(آپ ہمارے بیٹوں کو اس طرح کیوں نہیں بلاتے جیسے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بلاتے ہیں؟! اس پر انہوں نے جواب دیا: یہ نوجوان تو پختہ عمر والوں جیسی دانائی رکھتا ہے، جس کی (طلب علم کی خاطر) باکثرت سوال کرنے والی زبان اور بہت اچھی طرح سمجھنے والا دل ہے)۔
بعدازیں آپ رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو ایک دن بلایا پھر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کوبھی بلابھیجاتاکہ سب لوگ اس نوجوان کی ذہانت وعلم دیکھ لیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے سب سے پوچھا تم سب لوگ اللہ تعالی کےاس فرمان کہ متعلق کیا کہتے ہو:
﴿اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُ﴾ (النصر: 1)
(جب اللہ تعالی کی طرف سے نصرت اور فتح آپہنچے)
یہاں تک کہ پوری سورۃ تلاوت فرمائی۔ اس پر بعض نے کہا: اس میں اللہ تعالی نے ہمیں حکم دیا ہےکہ جب ہمیں وہ فتح نصیب فرمائے توہم اس کی حمدبیان کریں اوراستغفارکریں۔ اوربعض خاموش رہے۔ اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا: کیا تم بھی ایسا ہی کہتے ہو؟ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا: نہیں۔ اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا تو پھر کیا کہتے ہو؟ فرمایا:
’’هُوَ أَجَلُ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَعْلَمَهُ اللَّهُ لَهُ ﴿إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ﴾ فَتْحُ مَكَّةَ، فَذَاكَ عَلَامَةُ أَجَلِكَ ﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا﴾، قَالَ عُمَرُ: مَا أَعْلَمُ مِنْهَا إِلَّا مَا تَعْلَمُ‘‘([4])
(اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موت کی خبر ہے۔ اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر دے رہا ہے کہ جب اللہ تعالی کی نصرت آن پہنچے اور فتح سے مراد فتح مکہ ہے،تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہونے کی علامت ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چاہیے کہ اپنے رب کی حمد کےساتھ تسبیح بیان کریں اور استغفار کریں بے شک وہ تو بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں بھی اس کی یہی تفسیر جانتا ہوں جو تم جانتے ہو)۔
اور سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’لَنِعْمَ تُرْجُمَانُ الْقُرْآنِ ابْنُ عَبَّاسٍ‘‘([5])
(ابن عباس رضی اللہ عنہما کیا ہی خوب ترجمان القرآن ہیں)۔
اور فرمایا:
’’لَوْ أَدْرَكَ أَسْنَانَنَا مَا عَاشَرَهُ مِنَّا أَحَدٌ‘‘([6])
( اگر وہ ہماری عمر کو پہنچ جائے تو ہم سے کوئی ان کے ہم پلہ نہ ہو)۔
یعنی ان کی کوئی نظیر نہ ہو حالانکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ان کے بعد 36 سال حیات رہے اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ کتنا کچھ علم اس عرصہ میں حاصل کرلیا ہوگا۔
اسی طرح سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک سائل کو جو ان سے ا
یک آیت سے متعلق سوال کررہا تھافرمایا:
’’انْطَلِقْ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَاسْأَلْهُ، فَإِنَّهُ أَعْلَمُ مَنْ بَقِيَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ‘‘([7])
(ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس جاؤ اور ان سے سوال کروکیونکہ جو لوگ باقی ہیں ان میں سے سب سے زیادہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل شدہ وحی کے بارے میں انہیں ہی علم ہے)۔
اور امام عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’مَا رَأَيْتُ مَجْلِسًا أَكْرَمَ مِنْ مَجْلِسِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَكْثَرَ فِقْهًا، وَأَعْظَمَ خَشیَۃً([8])، إِنَّ أَصْحَابَ الْفِقْهِ عِنْدَهُ، وَأَصْحَابَ الْقُرْآنِ عِنْدَهُ، وَأَصْحَابَ الشِّعْرِ عِنْدَهُ، يُصْدِرُهُمْ كُلَّهُمْ مِنْ وَادٍ وَاسِعٍ‘‘
(میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مجلس سے بڑھ کر فقہ میں اکرم تر اور خشیت میں اعظم تر مجلس نہیں دیکھی، فقہ والے بھی ان کے پاس ہوتےہیں، قرآن والے بھی ان کے پاس ہوتے ہیں اور شعر والے تک ان کے پاس ہوتے ہیں، اوروہ اپنے علم کی وسیع تر وادی سےہر ایک کی علمی پیاس بجھاتے ہیں)۔
اور امام ابو وائل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’خَطَبَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَهُوَ عَلَى الْمَوْسِمِ، فَافْتَتَحَ سُورَةَ النُّورِ، فَجَعَلَ يَقْرَأُ وَيُفَسِّرُ، فَجَعَلْتُ أَقُولُ: مَا رَأَيْتُ وَلَا سَمِعْتُ كَلامَ رَجُلٍ مِثْلَهُ، لَوْ سَمِعَتْهُ فَارِسٌ وَالرُّومُ لأَسْلَمَتْ‘‘([9])
(ہمیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے موسم حج میں خطبہ ارشاد فرمایا (آپ کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی جانب سے موسم حج میں متولی(نگران) بناکر بھیجا گیا تھا)۔ پس آپ رضی اللہ عنہما نے سورۂ نور شروع کی اور آیات پڑھتے جاتے اورتفسیر کرتے جاتے، پس میں بے ساختہ کہہ اٹھا کہ میں نے ان جیسا شخص نہ سنا نہ دیکھا۔ اگر انہیں فارس و روم والے سن لیں تو سب اسلام قبول کرلیں)۔
آپ رضی اللہ عنہما کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما نے موسم حج سن 35ھ میں متولی بناکر بھیجا ۔ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے انہیں بصرہ کا والی بناکر بھیجا۔ اور جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے تو آپ رضی اللہ عنہما حجاز واپس آگئے اور مکہ مکرمہ ہی میں رہنے لگے۔ پھر وہاں سے طائف کی جانب چلے گئے اور وہیں پر آپ رضی اللہ عنہما اکہتر (71) برس کی عمر پاکر سن68ھ میں وفات پاگئے۔۔
[1] اخرجہ البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب ذکر ابن عباس رضی اللہ عنہما۔ حدیث رقم (3756)۔
[2] اخرجہ البخاری، کتاب الوضوء، باب وضع الماء عند الماء عند الخلاء۔ حدیث رقم (143)۔
[3] مستدرک حاکم ج 3 ص 540۔
[4] صحیح بخاری 4294۔
[5] مستدرک حاکم ج 3 ص 537، مصنف ابن ابی شیبہ 32757۔
[6] مستدرک حاکم ج 3 ص 537۔
[7] تہذیب الآثار للطبری 275، الاصابۃ 2/333۔
[8] الثالث والعشرون من المشیخۃ البغدادیۃ لابی طاھر السلفی ص 52 اور الشریعۃ للآجری ص 2007 میں خَشیَۃً کی جگہ جَفْنَةً کے الفاظ ہیں یعنی مہمان نوازی میں ان کا دسترخوان بہت بڑا ہوا کرتا تھا۔(توحید خالص ڈاٹ کام)
[9] مستدرک حاکم 3/537۔
[Urdu Article] Brief biography of Sahabi Ali bin abi Taalib (radiAllaho anhu) – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen
مختصر سوانح حیات سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: اصول تفسیر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/02/sawanah_hayat_ali_bin_abi_talib.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچازاد بھائی ہیں، اور ان کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے شوہر ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رشتہ داروں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں، آپ رضی اللہ عنہ اسی نام کے بطور مشہور ہیں۔ البتہ آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو الحسن اور ابوتراب ہیں۔
آپ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے دس برس قبل پیدا ہوئے۔اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آغوش شفقت میں پرورش پائی۔ اور تمام مقامات ومعرکوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حاضر رہے، جن میں سے اکثر میں آپ رضی اللہ عنہ علمبردار ہوتے تھے۔ اور کسی غزوہ میں پیچھے نہیں رہےسوائے غزوۂ تبوک کے، کہ جس میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنے اہل وعیال کی حفاظت کی غرض سے پیچھے چھوڑا تھا اورانہیں فرمایا:
’’أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى ، إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي‘‘([1])
(کیا تم اس بات سے راضی نہیں کہ تمہیں مجھ سےوہی نسبت ہوجو سیدنا ہارون علیہ السلام کو سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے تھی الا یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں)۔
آپ کے ایسے ایسے مناقب وفضائل منقول ہیں جو آپ رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی دوسرے کے نہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کےبارے میں دو گروہ ہلاکت میں پڑگئے: ایک تو نواصب جنہوں نے آپ رضی اللہ عنہ سے عداوت کی،اورآپ رضی اللہ عنہ کے مناقب کو چھپانے کی کوشش کی۔ اور دوسرا گروہ روافض (شیعہ) کا ،کہ جنہوں نے اپنے زعم میں محبت کی مگر اس میں غلو کے مرتکب ہوئے، اور آپ رضی اللہ عنہ کے ایسے ایسے مناقب گڑھ لیےجن سے آپ بےنیاز تھے، بلکہ اگرکوئی غورکیا جائے تو وہ مناقب کےبجائےالٹا معایب بن جاتے ہیں۔
آپ رضی اللہ عنہ علم کے ساتھ بہادری، شجاعت ،عقل، فہم وذکاء میں مشہور تھے۔ یہاں تک کہ امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ایسی مشکل سے پناہ طلب کرتے تھے جسے حل کرنے کےلیے ابو الحسن (علی رضی اللہ عنہ) موجود نہ ہوں۔ اور نحویوں کی ضرب المثل میں سےہے کہ فلاں معاملہ ایسا ہے کہ جسے سلجھانے والے ابوالحسن رضی اللہ عنہ موجود نہیں۔ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ وہ فرمایا کرتے تھے:
’’سلونی سلونی وسلونی عن کتاب اللہ تعالی، فواللہ ما من آیۃ الا وانا اعلم انزلت بلیل اونھار‘‘
(مجھ سے پوچھو، مجھ سے پوچھو، اور مجھ سےکتاب اللہ سے متعلق سوال کرو، کیونکہ اللہ کی قسم مجھے ہر آیت کے بارے میں علم ہے کہ وہ رات میں نازل ہوئی کہ دن میں)۔
اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
’’إِذَا جَاءَنَا الثَّبْتُ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، لَمْ نَعْدِلْ بِهِ‘‘
(اگر ہمارے پاس سیدنا علی رضی اللہ عنہ سےکوئی تفسیر ثابت ہو تو ہم اسے چھوڑ کردوسری طرف نہیں جاتے)۔
اور آپ رضی اللہ عنہما سے ہی روایت ہے کہ:
’’ما اخذت من تفسیر القرآن فعن علی بن ابی طالب‘‘
(میں نے جو کچھ تفسیر قرآن سیکھا تو وہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سےہی سیکھا)۔
آپ رضی اللہ عنہ ان اہل شوریٰ میں سے ایک تھے جنہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد خلیفہ کے تعین کے لیے نامزد فرمایا تھا۔ پس سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اسے سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر پیش کیا مگر آپ رضی اللہ عنہ نے بعض شروط پیش فرمائی کہ جن کی عدم قبولیت پر آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے معذوری ظاہر فرمائی۔ پھر انہوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت فرمالی جس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور دیگر مسلمانوں نے آپ رضی اللہ عنہ کی بیعت فرمائی۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کےبعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بطور خلیفہ بیعت کی گئی۔ آخر میں آپ رضی اللہ عنہ کو 17 رمضان المبارک، سن 40 ھ میں کوفہ میں شہید کردیا گیا۔ رضی اللہ عنہ۔
[1] اخرجہ البخاری، کتاب المغازی،باب غزوۃ تبوک۔ حدیث رقم (4416)، ومسلم کتاب الفضائل الصحابۃ، باب فضائل علی بن ابی طالب۔ حدیث رقم (6218)۔