یہ تو سنتِ جاہلیت (جاہلیت کا طریقہ) ہے۔ بلکہ یہ لوگ اس میں شکر الہی اور روزے رکھتے ہيں۔ پس امت سے مطلوب سنت کا احیاء کرنا ہے۔ ساتھ ہی اس روزے میں اجر عظیم ہے کہ اس سے گزشتہ برس کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
کسی مسلمان کے لائق نہیں کہ وہ اس بارے میں کوتاہی کا شکار ہو۔ البتہ جو لوگ یوم عاشوراء کو غم وحزن، رونے اور بین کرنے، نوحہ وماتم کرنے کا دن بناتے ہیں جیساکہ شیعہ لوگ اللہ ان کا بیڑہ غرق کرے مقتلِ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی نام پر ایسا کرتے ہیں کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت اسی یوم عاشوراء یعنی دسیوں محرم کو ہوئی تھی۔ لیکن مصیبت کا سامنا نوحہ کرنے یا معاصی ومنکرات سے نہيں کیاجاتا بلکہ اس کا سامنا اطاعت، صبر اور ثواب کی امید سے کیا جاتا ہے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت بلاشبہ تکلیف دہ بات ہے لیکن اللہ تعالی نے ہميں تکالیف ومصائب پر صبر کرنے اور ثواب کی امید رکھنے کا حکم دیا ہے۔
پس اس دن مسنون بات یہی ہے جو سنت انبیاء ہے کہ روزہ رکھا جائے اور کوئی دوسرا عمل ایجاد نہ کیا جائے۔ اسی طرح سے اس کے بالکل برعکس بعض جاہل مسلمان اور بعض جاہل اہل سنت ہیں جو اس دن کو خوشی کا دن تصور کرتے ہیں۔ اور بعض اسے عیدالعمر کا نام دیتے ہيں۔ کہتے ہيں یہ دن عید تو نہیں بلکہ یوم نصرت وشکر الہی ہے۔ اس دن اپنی اولاد پر کھانے پینے میں فراخی کرتے ہیں ، انہیں تحائف دیتے ہیں اورآپس میں بھی تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے۔ یہ ایک بدعت ہے اور نوایجاد کام ہے جائز نہيں۔ اور یہ شیعہ کی حرکت کا رد عمل ہے وہ اس دن غم کرتے ہیں تو یہ اس کے مقابلے میں خوشیاں مناتے ہیں۔ کیا یہ لوگ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قتل ہوجانے پر خوش ہوتے ہیں! یعنی شیعوں کے بغض نے انہيں اس پر ابھار دیا کہ وہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قتل ہوجانے پر خوش ہوتے ہيں! نہيں، یہ بالکل بھی جائز نہیں۔
مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اتباع سنت کریں اور بدعات کو چھوڑ دیں، یہ بات مطلوب ہے۔ بدعت کا مقابلہ اس سے بھی بدتر چیز یعنی دوسری بدعت ایجاد کرکے نہیں کیا جاتا، بلکہ اس کا مقابلہ اسے ترک کرکے اور سنت کو زندہ کرکے کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالی تمام لوگوں کو اس بات کی توفیق دے جسے وہ پسند کرتا ہے اور اس سے راضی ہوتا ہے۔۔۔
اے لوگو! اللہ تعالی سے ڈرو اور یہ بات اچھی طرح سے جان لو کہ کوئی بھی سنت یا نفل عبادت اس وقت تک قبول نہيں ہوتی جب تک فرائض کو ادا نہ کردیا جائے۔ پس سب سے پہلے فرائض کی ادائیگی کی حرص کرو۔ کیونکہ اللہ تعالی کو فرائض نوافل سے زیادہ محبوب ہیں۔ اللہ تعالی حدیث قدسی میں فرماتے ہیں:
’’مَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ‘‘([4])
(بندہ جن کاموں سے میرا تقرب حاصل کرتا ہے ان میں سے سب سے زیادہ محبوب مجھے وہ کام ہیں جو میں نے اس پر فرض قرار دیے ہیں۔ پھر بندہ نوافل کے ذریعے میرا تقرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں)۔
پس نوافل تو فرائض کی تکمیل ہیں۔ لیکن ایسا کرنا کہ نوافل ادا کیے جائیں اور فرائض میں تساہل برتا جائے تو یہ معاملہ بالکل برعکس ہوجائے گا۔
ایک مسلمان پر واجب ہے کہ وہ سب سے پہلے اور ہر چیز سے پہلے فرائض کی محافظت کرےپھر نوافل ادا کرے تاکہ وہ اس کی تکمیل کا باعث بنیں اور ایک مسلمان کے لیے خیر کی زیادتی ہو۔۔۔
[1] صحیح مسلم 1165۔
[2] صحیح ابن ماجہ1419، صحیح بخاری 2004۔
[3] صحیح بخاری 3943، صحیح مسلم 1131۔
[4] صحیح بخاری 6502۔
کسی مسلمان کے لائق نہیں کہ وہ اس بارے میں کوتاہی کا شکار ہو۔ البتہ جو لوگ یوم عاشوراء کو غم وحزن، رونے اور بین کرنے، نوحہ وماتم کرنے کا دن بناتے ہیں جیساکہ شیعہ لوگ اللہ ان کا بیڑہ غرق کرے مقتلِ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی نام پر ایسا کرتے ہیں کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت اسی یوم عاشوراء یعنی دسیوں محرم کو ہوئی تھی۔ لیکن مصیبت کا سامنا نوحہ کرنے یا معاصی ومنکرات سے نہيں کیاجاتا بلکہ اس کا سامنا اطاعت، صبر اور ثواب کی امید سے کیا جاتا ہے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت بلاشبہ تکلیف دہ بات ہے لیکن اللہ تعالی نے ہميں تکالیف ومصائب پر صبر کرنے اور ثواب کی امید رکھنے کا حکم دیا ہے۔
پس اس دن مسنون بات یہی ہے جو سنت انبیاء ہے کہ روزہ رکھا جائے اور کوئی دوسرا عمل ایجاد نہ کیا جائے۔ اسی طرح سے اس کے بالکل برعکس بعض جاہل مسلمان اور بعض جاہل اہل سنت ہیں جو اس دن کو خوشی کا دن تصور کرتے ہیں۔ اور بعض اسے عیدالعمر کا نام دیتے ہيں۔ کہتے ہيں یہ دن عید تو نہیں بلکہ یوم نصرت وشکر الہی ہے۔ اس دن اپنی اولاد پر کھانے پینے میں فراخی کرتے ہیں ، انہیں تحائف دیتے ہیں اورآپس میں بھی تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے۔ یہ ایک بدعت ہے اور نوایجاد کام ہے جائز نہيں۔ اور یہ شیعہ کی حرکت کا رد عمل ہے وہ اس دن غم کرتے ہیں تو یہ اس کے مقابلے میں خوشیاں مناتے ہیں۔ کیا یہ لوگ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قتل ہوجانے پر خوش ہوتے ہیں! یعنی شیعوں کے بغض نے انہيں اس پر ابھار دیا کہ وہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قتل ہوجانے پر خوش ہوتے ہيں! نہيں، یہ بالکل بھی جائز نہیں۔
مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اتباع سنت کریں اور بدعات کو چھوڑ دیں، یہ بات مطلوب ہے۔ بدعت کا مقابلہ اس سے بھی بدتر چیز یعنی دوسری بدعت ایجاد کرکے نہیں کیا جاتا، بلکہ اس کا مقابلہ اسے ترک کرکے اور سنت کو زندہ کرکے کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالی تمام لوگوں کو اس بات کی توفیق دے جسے وہ پسند کرتا ہے اور اس سے راضی ہوتا ہے۔۔۔
اے لوگو! اللہ تعالی سے ڈرو اور یہ بات اچھی طرح سے جان لو کہ کوئی بھی سنت یا نفل عبادت اس وقت تک قبول نہيں ہوتی جب تک فرائض کو ادا نہ کردیا جائے۔ پس سب سے پہلے فرائض کی ادائیگی کی حرص کرو۔ کیونکہ اللہ تعالی کو فرائض نوافل سے زیادہ محبوب ہیں۔ اللہ تعالی حدیث قدسی میں فرماتے ہیں:
’’مَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ، وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ‘‘([4])
(بندہ جن کاموں سے میرا تقرب حاصل کرتا ہے ان میں سے سب سے زیادہ محبوب مجھے وہ کام ہیں جو میں نے اس پر فرض قرار دیے ہیں۔ پھر بندہ نوافل کے ذریعے میرا تقرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں)۔
پس نوافل تو فرائض کی تکمیل ہیں۔ لیکن ایسا کرنا کہ نوافل ادا کیے جائیں اور فرائض میں تساہل برتا جائے تو یہ معاملہ بالکل برعکس ہوجائے گا۔
ایک مسلمان پر واجب ہے کہ وہ سب سے پہلے اور ہر چیز سے پہلے فرائض کی محافظت کرےپھر نوافل ادا کرے تاکہ وہ اس کی تکمیل کا باعث بنیں اور ایک مسلمان کے لیے خیر کی زیادتی ہو۔۔۔
[1] صحیح مسلم 1165۔
[2] صحیح ابن ماجہ1419، صحیح بخاری 2004۔
[3] صحیح بخاری 3943، صحیح مسلم 1131۔
[4] صحیح بخاری 6502۔
[Urdu Article] The companions رضی اللہ عنہم best of people – Shaykh Abdul Muhsin Al-Abbaad
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بہترین لوگ
فضیلۃ الشیخ عبدالمحسن بن حمد العباد البدر حفظہ اللہ
(محدثِ مدینہ و سابق رئیس، جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من كنوز القرآن الكريم ص 236-237۔
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/06/sahaba_behtareen_log.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سورۃ التوبۃ
اللہ تعالی کا فرمان:
﴿وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ﴾ (التوبۃ: 100)
(جن لوگوں نے سبقت کی(یعنی سب سے پہلے) ایمان لائے مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی ،اور جنہوں نے بطورِ احسن ان کی پیروی کی، اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں، اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، اوروہ ہمیشہ ان میں رہیں گے ، یہی بڑی کامیابی ہے)
اس آیت میں اللہ تعالی کی طرف سے سابقین اولین مہاجرین وانصار اور اچھے طریقے سے ان کی پیروی کرنے والوں سے اللہ تعالی کی رضا مندی ، اور ان کی اللہ تعالی سے رضا مندی کی خبر دی جارہی ہے ۔ اور یہ کہ بے شک اس نے ان کے لیے نعمتوں بھری جنت تیار کررکھی ہے، اور یہ کہ بلاشبہ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم ہيں وہ تمام امتوں سے بہترین امت محمدیہ میں سے سب سے بہترین لوگ ہيں ۔ یقیناً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت اور عظمت بہت سی آیات اور متواتر احادیث میں بیان ہوئی ہيں (رضی اللہ عنہم وارضاہم)۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالی نے سابقین مہاجرین وانصار اور اچھے طریقے سے ان کی پیروی کرنے والوں سے اللہ تعالی کی رضا مندی ، اور ان کی اللہ تعالی سے رضا مندی کی خبر دی ، اور جو کچھ اس نے ان کے لیے نعمتوں بھر ی جنت اور ہمیشہ رہنے والی نعمتیں تیار کررکھی ہیں ان کی بھی خبر دی۔ امام الشعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سابقین اولین مہاجرین وانصار سے مراد وہ ہیں جنہوں نے حدیبیہ والے سال بیعت رضوان کو پایا تھا، سیدنا ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ، سعید بن المسیب، محمد بن سیرین، الحسن اور قتادہ رحمہم اللہ فرماتے ہیں: یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ہے‘‘۔
مزید فرمایا:
’’یقیناً اللہ عظیم نے یہ خبر دی کہ بے شک وہ سابقین اولین مہاجرین وانصار اور جنہوں نے احسن طور پر ان کی پیروی کی ان سے راضی ہوا۔ پس ان لوگوں کے لیے ویل ہے جو ان سے بغض رکھے یا سب وشتم کرے، یا ان میں سے بعض سے بغض رکھے اور سب وشتم کرے،خصوصاً ان میں سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعدتمام صحابہ کے سید وسردار ہيں ، اور ان میں سے سب سے بہتر اور افضل ہيں یعنی صدیق اکبر وخلیفۂ اعظم ابو بکر ابن ابی قُحَافَہ رضی اللہ عنہ، کیونکہ روافض میں سے ایک گھٹیا گروہ افضل ترین صحابہ سے بغض ودشمنی رکھتا ہےاور انہيں سب وشتم کرتا ہے، ہم اس سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کی عقل ہی الٹی ہے، اور ان کے دل ہی اوندھے ہيں، پھر ایسوں کا قرآن کریم کے ساتھ کیا ایمان رہا جو ان ہی کو سب وشتم کریں جن سے اللہ تعالی راضی ہوچکا؟ جبکہ جو اہل سنت ہیں وہ ان سے راضی ہوتے ہیں جن سے اللہ تعالی راضی ہوا، اور انہیں سب وشتم کرتے ہيں جن پر اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب وشتم فرمایا، اور ان سے دوستی ومحبت کرتے ہيں جن سے اللہ تعالی محبت ودوستی فرماتا ہے، اور ان سے دشمنی وعداوت رکھتے ہيں جن سے اللہ تعالی دشمنی وعداوت فرماتا ہے۔ یہ اتبا ع وپیروی کرنے والے ہیں نہ کہ بدعات ایجاد کرنے والے، اقتداء کرتے ہيں مخالفت نہیں کرتے۔ اسی لیے یہ کامیاب ہونے والے حزب اللہ ہیں اور اس کے مومنین بندے ہیں‘‘۔
ہمارے شیخ شیخ محمد الامین الشنقیطی رحمہ اللہ ’’اضواء البیان‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ بلاشبہ جو سابقین اولین مہاجرین وانصار کی احسن طور پر پیروی کرتے ہیں تو وہ ان کے ساتھ داخل ہيں اللہ تعالی کی رضا، ہمیشہ جنت میں رہنے کے وعدے اور عظیم کامیابی میں۔ اور دوسرے مقام پر وضاحت فرمائی کہ بے شک جنہوں نے سابقین کی احسن طور پر اتباع کی وہ ان کے ساتھ اس خیر میں شریک ہیں، جیساکہ اللہ تعالی کا فرمان:
﴿وَاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ﴾ (الجمعۃ: 3)
(اور ان میں سے کچھ اور لوگوں میں بھی (آپ کو بھیجا) جو ابھی تک ان سے نہیں ملے)
اور فرمایا:
﴿وَالَّذِيْنَ جَاءُوْ مِنْۢ بَ
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بہترین لوگ
فضیلۃ الشیخ عبدالمحسن بن حمد العباد البدر حفظہ اللہ
(محدثِ مدینہ و سابق رئیس، جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من كنوز القرآن الكريم ص 236-237۔
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/06/sahaba_behtareen_log.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سورۃ التوبۃ
اللہ تعالی کا فرمان:
﴿وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ﴾ (التوبۃ: 100)
(جن لوگوں نے سبقت کی(یعنی سب سے پہلے) ایمان لائے مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی ،اور جنہوں نے بطورِ احسن ان کی پیروی کی، اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں، اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، اوروہ ہمیشہ ان میں رہیں گے ، یہی بڑی کامیابی ہے)
اس آیت میں اللہ تعالی کی طرف سے سابقین اولین مہاجرین وانصار اور اچھے طریقے سے ان کی پیروی کرنے والوں سے اللہ تعالی کی رضا مندی ، اور ان کی اللہ تعالی سے رضا مندی کی خبر دی جارہی ہے ۔ اور یہ کہ بے شک اس نے ان کے لیے نعمتوں بھری جنت تیار کررکھی ہے، اور یہ کہ بلاشبہ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم ہيں وہ تمام امتوں سے بہترین امت محمدیہ میں سے سب سے بہترین لوگ ہيں ۔ یقیناً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت اور عظمت بہت سی آیات اور متواتر احادیث میں بیان ہوئی ہيں (رضی اللہ عنہم وارضاہم)۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالی نے سابقین مہاجرین وانصار اور اچھے طریقے سے ان کی پیروی کرنے والوں سے اللہ تعالی کی رضا مندی ، اور ان کی اللہ تعالی سے رضا مندی کی خبر دی ، اور جو کچھ اس نے ان کے لیے نعمتوں بھر ی جنت اور ہمیشہ رہنے والی نعمتیں تیار کررکھی ہیں ان کی بھی خبر دی۔ امام الشعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سابقین اولین مہاجرین وانصار سے مراد وہ ہیں جنہوں نے حدیبیہ والے سال بیعت رضوان کو پایا تھا، سیدنا ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ، سعید بن المسیب، محمد بن سیرین، الحسن اور قتادہ رحمہم اللہ فرماتے ہیں: یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ہے‘‘۔
مزید فرمایا:
’’یقیناً اللہ عظیم نے یہ خبر دی کہ بے شک وہ سابقین اولین مہاجرین وانصار اور جنہوں نے احسن طور پر ان کی پیروی کی ان سے راضی ہوا۔ پس ان لوگوں کے لیے ویل ہے جو ان سے بغض رکھے یا سب وشتم کرے، یا ان میں سے بعض سے بغض رکھے اور سب وشتم کرے،خصوصاً ان میں سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعدتمام صحابہ کے سید وسردار ہيں ، اور ان میں سے سب سے بہتر اور افضل ہيں یعنی صدیق اکبر وخلیفۂ اعظم ابو بکر ابن ابی قُحَافَہ رضی اللہ عنہ، کیونکہ روافض میں سے ایک گھٹیا گروہ افضل ترین صحابہ سے بغض ودشمنی رکھتا ہےاور انہيں سب وشتم کرتا ہے، ہم اس سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کی عقل ہی الٹی ہے، اور ان کے دل ہی اوندھے ہيں، پھر ایسوں کا قرآن کریم کے ساتھ کیا ایمان رہا جو ان ہی کو سب وشتم کریں جن سے اللہ تعالی راضی ہوچکا؟ جبکہ جو اہل سنت ہیں وہ ان سے راضی ہوتے ہیں جن سے اللہ تعالی راضی ہوا، اور انہیں سب وشتم کرتے ہيں جن پر اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب وشتم فرمایا، اور ان سے دوستی ومحبت کرتے ہيں جن سے اللہ تعالی محبت ودوستی فرماتا ہے، اور ان سے دشمنی وعداوت رکھتے ہيں جن سے اللہ تعالی دشمنی وعداوت فرماتا ہے۔ یہ اتبا ع وپیروی کرنے والے ہیں نہ کہ بدعات ایجاد کرنے والے، اقتداء کرتے ہيں مخالفت نہیں کرتے۔ اسی لیے یہ کامیاب ہونے والے حزب اللہ ہیں اور اس کے مومنین بندے ہیں‘‘۔
ہمارے شیخ شیخ محمد الامین الشنقیطی رحمہ اللہ ’’اضواء البیان‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ بلاشبہ جو سابقین اولین مہاجرین وانصار کی احسن طور پر پیروی کرتے ہیں تو وہ ان کے ساتھ داخل ہيں اللہ تعالی کی رضا، ہمیشہ جنت میں رہنے کے وعدے اور عظیم کامیابی میں۔ اور دوسرے مقام پر وضاحت فرمائی کہ بے شک جنہوں نے سابقین کی احسن طور پر اتباع کی وہ ان کے ساتھ اس خیر میں شریک ہیں، جیساکہ اللہ تعالی کا فرمان:
﴿وَاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ﴾ (الجمعۃ: 3)
(اور ان میں سے کچھ اور لوگوں میں بھی (آپ کو بھیجا) جو ابھی تک ان سے نہیں ملے)
اور فرمایا:
﴿وَالَّذِيْنَ جَاءُوْ مِنْۢ بَ
عْدِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا﴾ (الحشر: 10)
(اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے)
اور فرمایا:
﴿وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا مَعَكُمْ فَأُولَئِكَ مِنْكُمْ﴾ (الانفال: 75)
(اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ مل کر جہاد کیا تو وہ بھی تم ہی سے ہیں)
یہ بات مخفی نہيں کہ اللہ تعالی نے بلاشبہ صراحت کے ساتھ اس آیت کریمہ میں فرمایا ہے کہ وہ یقیناً سابقین اولین مہاجرین وانصار سے راضی ہوگیا، اور ان سے بھی جنہوں نے اچھے طور پر ان کی پیروی کی۔ یہ قرآنی صریح دلیل ہے کہ بے شک جو ان کو سب وشتم کرتا ہے اور ان سے بغض رکھتا ہے وہ گمراہ ہے اور اللہ تعالی کی مخالفت کرنے والا ہے، کیونکہ وہ ان سے بغض رکھتا ہے جن سے اللہ راضی ہوا، لہذا اس میں کوئی شک نہيں کہ جو ان سے بغض رکھے جن سے اللہ راضی ہوا تو وہ اللہ تعالی کی واضح مخالفت وعناد کرنے والا اورسرکش ہے‘‘۔
(اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے)
اور فرمایا:
﴿وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا مَعَكُمْ فَأُولَئِكَ مِنْكُمْ﴾ (الانفال: 75)
(اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ مل کر جہاد کیا تو وہ بھی تم ہی سے ہیں)
یہ بات مخفی نہيں کہ اللہ تعالی نے بلاشبہ صراحت کے ساتھ اس آیت کریمہ میں فرمایا ہے کہ وہ یقیناً سابقین اولین مہاجرین وانصار سے راضی ہوگیا، اور ان سے بھی جنہوں نے اچھے طور پر ان کی پیروی کی۔ یہ قرآنی صریح دلیل ہے کہ بے شک جو ان کو سب وشتم کرتا ہے اور ان سے بغض رکھتا ہے وہ گمراہ ہے اور اللہ تعالی کی مخالفت کرنے والا ہے، کیونکہ وہ ان سے بغض رکھتا ہے جن سے اللہ راضی ہوا، لہذا اس میں کوئی شک نہيں کہ جو ان سے بغض رکھے جن سے اللہ راضی ہوا تو وہ اللہ تعالی کی واضح مخالفت وعناد کرنے والا اورسرکش ہے‘‘۔
[Urdu Article] The noble status of companions of the prophet and essential creed regarding them and the Madhab of of AhlusSunnah wal Jama'ah regarding disputes amongst them – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
صحابہ کرام کی فضیلت ان کے بارے میں ضروری اعتقاد اور ان کے آپسی اختلافات کے سلسلہ میں اہل سنت و جماعت کا مذہب – شیخ صالح بن فوزان الفوزان
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ﴾ (التوبۃ: 100)
(جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے پہلے ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی اور جنہوں نے بطورِ احسن ان کی پیروی کی، اللہ ان سے خوش ہے اور وہ اللہ سے خوش ہیں، اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، اوروہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، یہی بڑی کامیابی ہے)
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
﴿ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗٓ اَشِدَّاءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا ۡ سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ۭ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ، وَمَثَلُهُمْ فِي الْاِنْجِيْلِ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْــــَٔهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَــظَ فَاسْتَوٰى عَلٰي سُوْقِهٖ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ، وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا﴾ (الفتح: 29)
(محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے حق میں تو سخت ہیں پر آپس میں رحم دل ہیں۔ (اے دیکھنے والے) تو ان کو پائے گا کہ (اللہ کے آگے) رکوع و سجود میں ہیں، اور اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی طلب کر رہے ہیں، (کثرت) سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں، ان کے یہی اوصاف تورات میں (مرقوم ) ہیں،اور انجیل میں ان کی مثال یوں بیان ہوئی کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے (پہلے زمین سے) اپنی سوئی نکالی (ابھری) پھر اس کو مضبوط کیا پھر موٹی ہوئی اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہو گئی، اور کھیتی والوں کو خوش کرنے لگی تاکہ کافروں کا جی جلائے۔ جو لوگ ان میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے، ان سے اللہ نے گناہوں کی بخشش اور اجرِ عظیم کاوعدہ کیا ہے)
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/sahaba_fazail_ikhtilaaf_moaqqaf_ahlussunnah.pdf
صحابہ کرام کی فضیلت ان کے بارے میں ضروری اعتقاد اور ان کے آپسی اختلافات کے سلسلہ میں اہل سنت و جماعت کا مذہب – شیخ صالح بن فوزان الفوزان
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ﴾ (التوبۃ: 100)
(جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے پہلے ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی اور جنہوں نے بطورِ احسن ان کی پیروی کی، اللہ ان سے خوش ہے اور وہ اللہ سے خوش ہیں، اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، اوروہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، یہی بڑی کامیابی ہے)
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
﴿ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗٓ اَشِدَّاءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا ۡ سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ۭ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ، وَمَثَلُهُمْ فِي الْاِنْجِيْلِ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْــــَٔهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَــظَ فَاسْتَوٰى عَلٰي سُوْقِهٖ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ، وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا﴾ (الفتح: 29)
(محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے حق میں تو سخت ہیں پر آپس میں رحم دل ہیں۔ (اے دیکھنے والے) تو ان کو پائے گا کہ (اللہ کے آگے) رکوع و سجود میں ہیں، اور اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی طلب کر رہے ہیں، (کثرت) سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں، ان کے یہی اوصاف تورات میں (مرقوم ) ہیں،اور انجیل میں ان کی مثال یوں بیان ہوئی کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے (پہلے زمین سے) اپنی سوئی نکالی (ابھری) پھر اس کو مضبوط کیا پھر موٹی ہوئی اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہو گئی، اور کھیتی والوں کو خوش کرنے لگی تاکہ کافروں کا جی جلائے۔ جو لوگ ان میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے، ان سے اللہ نے گناہوں کی بخشش اور اجرِ عظیم کاوعدہ کیا ہے)
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/sahaba_fazail_ikhtilaaf_moaqqaf_ahlussunnah.pdf
[Urdu Article] The companions of the messenger of Allah (may Allah be pleased with them all) – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم – شیخ ربیع بن ہادی المدخلی
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ "اصول السنۃ" میں فرماتےہیں:
26- اس امت میں اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے افضل سیدنا ابو بکر الصدیق ہیں، پھر سیدنا عمر بن الخطاب، پھر سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہم ہیں۔ ہم ان تینوں کو مقدم کرتے ہیں جیسا کہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مقدم فرمایا، اس میں انہوں نے کوئی اختلاف نہیں کیا۔
پھر ان تینوں کے بعدپانچ اصحابِ شوری ہیں: سیدناعلی بن ابی طالب، الزبیر، عبدالرحمن بن عوف، سعد (بن ابی وقاص)، طلحہ رضی اللہ عنہم یہ سب خلافت کے لئے اہل تھے، اور یہ سب امام تھے۔ اس بارے میں ہم حدیث سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما پر چلتے ہیں:
’’كُنَّا نَعُدُّ، وَرَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حَيٌّ وَأَصْحَابُهُ مُتَوَافِرُونَ: أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ، ثُمَّ عُثْمَانُ، ثُمَّ نَسْكُتُ‘‘
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ہی میں جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم وافر مقدار میں موجود تھے ہم کہا کرتے تھے (بلحاظِ فضیلت ومرتبہ)ابوبکر ہیں، پھر عمر، پھر عثمان پھر خاموش ہوجاتے تھے)۔
[مسند احمد (تحقیق احمد شاکر): مسند عبداللہ بن عمر، حدیث رقم (4626)۔ رواه أحمد فى "فضائل الصحابة" (1/108، برقم 58) مثله بسنده سواءً. ورواه أحمد فى "الفضائل" عن إبن عمر من طرق، انظر: "الفضائل" برقم (53 و 54و 55و 56و 57). صحیح بخاری: کتاب فضائل الصحابہ، باب فضل ابی بکر بعد النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، حدیث رقم (3655) اس میں ’’ثم نسکت‘‘ کے الفاظ نہیں اور حافظ ابن حجر نے اس کی شرح کے وقت اس کی اسانید کی طرف اشارہ فرمایا ہے، کتاب فضائل الصحابہ، باب مناقب عثمان بن عفان ابی عمرو القرشی t، حدیث رقم (3697) اس میں بھی ’’ثم نسکت‘‘کے الفاظ نہیں ہے مگر یہ اضافہ ہے ’’ثم نترک اصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لا نفاضل بینهم‘‘ (پھر ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کوچھوڑ دیتے تھے اور ان کے درمیان کوئی امتیاز نہیں برتتے تھے)]
پھر ان اصحابِ شوریٰ کے بعد مہاجرین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اہل بدر پھر انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اہل بدر، یعنی جو ہجرت وایمان لانے میں سبقت کرنے میں اول تھے پس وہ (مرتبے میں بھی) اول ہیں۔
27- ان اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد افضل ترین لوگ اس دورکے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے۔
اور جس کسی نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اختیار کی خواہ ایک سال ہو، ایک مہینہ، ایک دن، ایک پل ہو یا صرف دیکھا ہی ہو تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ میں سے ہے، اس کا صحابیت میں سے اتنا ہی حصہ ہے جتنی اس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحبت رہی، ان کے ساتھ سبقت کی، ان سے کچھ سنا، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک جھلک بھی دیکھی ہو۔ پس ان میں سے جو ادنیٰ ترین صحبت کا بھی حامل ہو وہ اس دوروالوں سے بہتر ہے جنہوں نے انہیں نہ دیکھا ، چاہے وہ (بعد میں آنے والے) اللہ تعالی سے تمام اعمال (خیر) کے ساتھ ملاقات کریں۔ جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اختیار فرمائی، ان کا دیدار فرمایا اور ان سے سماعت فرمایا، جنہوں نے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ان پر ایمان لائے اگرچہ ایک پل کے لئے ہی کیوں نہ ہو، وہ اپنی صحبت کے اعتبار سے تابعین سے افضل ہے چاہے وہ (تابعین) تمام اعمال خیر ہی کیوں نہ بجالائیں۔
ان نکات کی شرح جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/sahaba_kiraam_rabee.pdf
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم – شیخ ربیع بن ہادی المدخلی
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ "اصول السنۃ" میں فرماتےہیں:
26- اس امت میں اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے افضل سیدنا ابو بکر الصدیق ہیں، پھر سیدنا عمر بن الخطاب، پھر سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہم ہیں۔ ہم ان تینوں کو مقدم کرتے ہیں جیسا کہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مقدم فرمایا، اس میں انہوں نے کوئی اختلاف نہیں کیا۔
پھر ان تینوں کے بعدپانچ اصحابِ شوری ہیں: سیدناعلی بن ابی طالب، الزبیر، عبدالرحمن بن عوف، سعد (بن ابی وقاص)، طلحہ رضی اللہ عنہم یہ سب خلافت کے لئے اہل تھے، اور یہ سب امام تھے۔ اس بارے میں ہم حدیث سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما پر چلتے ہیں:
’’كُنَّا نَعُدُّ، وَرَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حَيٌّ وَأَصْحَابُهُ مُتَوَافِرُونَ: أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ، ثُمَّ عُثْمَانُ، ثُمَّ نَسْكُتُ‘‘
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ہی میں جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم وافر مقدار میں موجود تھے ہم کہا کرتے تھے (بلحاظِ فضیلت ومرتبہ)ابوبکر ہیں، پھر عمر، پھر عثمان پھر خاموش ہوجاتے تھے)۔
[مسند احمد (تحقیق احمد شاکر): مسند عبداللہ بن عمر، حدیث رقم (4626)۔ رواه أحمد فى "فضائل الصحابة" (1/108، برقم 58) مثله بسنده سواءً. ورواه أحمد فى "الفضائل" عن إبن عمر من طرق، انظر: "الفضائل" برقم (53 و 54و 55و 56و 57). صحیح بخاری: کتاب فضائل الصحابہ، باب فضل ابی بکر بعد النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، حدیث رقم (3655) اس میں ’’ثم نسکت‘‘ کے الفاظ نہیں اور حافظ ابن حجر نے اس کی شرح کے وقت اس کی اسانید کی طرف اشارہ فرمایا ہے، کتاب فضائل الصحابہ، باب مناقب عثمان بن عفان ابی عمرو القرشی t، حدیث رقم (3697) اس میں بھی ’’ثم نسکت‘‘کے الفاظ نہیں ہے مگر یہ اضافہ ہے ’’ثم نترک اصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لا نفاضل بینهم‘‘ (پھر ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کوچھوڑ دیتے تھے اور ان کے درمیان کوئی امتیاز نہیں برتتے تھے)]
پھر ان اصحابِ شوریٰ کے بعد مہاجرین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اہل بدر پھر انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اہل بدر، یعنی جو ہجرت وایمان لانے میں سبقت کرنے میں اول تھے پس وہ (مرتبے میں بھی) اول ہیں۔
27- ان اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد افضل ترین لوگ اس دورکے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے۔
اور جس کسی نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اختیار کی خواہ ایک سال ہو، ایک مہینہ، ایک دن، ایک پل ہو یا صرف دیکھا ہی ہو تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ میں سے ہے، اس کا صحابیت میں سے اتنا ہی حصہ ہے جتنی اس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحبت رہی، ان کے ساتھ سبقت کی، ان سے کچھ سنا، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک جھلک بھی دیکھی ہو۔ پس ان میں سے جو ادنیٰ ترین صحبت کا بھی حامل ہو وہ اس دوروالوں سے بہتر ہے جنہوں نے انہیں نہ دیکھا ، چاہے وہ (بعد میں آنے والے) اللہ تعالی سے تمام اعمال (خیر) کے ساتھ ملاقات کریں۔ جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اختیار فرمائی، ان کا دیدار فرمایا اور ان سے سماعت فرمایا، جنہوں نے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ان پر ایمان لائے اگرچہ ایک پل کے لئے ہی کیوں نہ ہو، وہ اپنی صحبت کے اعتبار سے تابعین سے افضل ہے چاہے وہ (تابعین) تمام اعمال خیر ہی کیوں نہ بجالائیں۔
ان نکات کی شرح جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/sahaba_kiraam_rabee.pdf
[Urdu Videos] #muharram k #rozay ki #fazilat
https://safeshare.tv/x/yLweb6Q6598
3 din say zada #soag #najaiz hai siwae #shohar ki #wafat per
https://safeshare.tv/x/r_NsjQ_UsTE
#sabeel_e_hussain aur #muharram_ki_haleem
https://safeshare.tv/x/OdlkquMr9DI
https://safeshare.tv/x/yLweb6Q6598
3 din say zada #soag #najaiz hai siwae #shohar ki #wafat per
https://safeshare.tv/x/r_NsjQ_UsTE
#sabeel_e_hussain aur #muharram_ki_haleem
https://safeshare.tv/x/OdlkquMr9DI
Safeshare.TV
SafeShare allows you to safely share YouTube and Vimeo videos. It removes advertisement, related videos and other annoyances. It
[Urdu Article] Whoever disparages the Sahabah is an Innovator – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں تنقیص کرنے والا بدعتی ہے – شیخ ربیع بن ہادی المدخلی
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ’’اصول السنۃ‘‘ میں فرماتےہیں:
” جس نے کسی ایک بھی صحابئ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں تنقیص کی، یا ان سے کسی واقعے کی بناء پر جو ان سے صادر ہوا بغض کیا، یا پھر ان کی برائیاں بیان کیں، تو وہ اس وقت تک بدعتی رہےگا جب تک کہ تمام (صحابہ) پر رحم نہ فرمائے، اور اس کا دل ان کے بارےمیں (کسی بھی قسم کے کینے سے) صاف وسلیم نہ ہوجائے‘‘۔
اس نکتے کی شرح جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/sahaba_shaan_tanqees_bidati.pdf
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں تنقیص کرنے والا بدعتی ہے – شیخ ربیع بن ہادی المدخلی
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ’’اصول السنۃ‘‘ میں فرماتےہیں:
” جس نے کسی ایک بھی صحابئ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں تنقیص کی، یا ان سے کسی واقعے کی بناء پر جو ان سے صادر ہوا بغض کیا، یا پھر ان کی برائیاں بیان کیں، تو وہ اس وقت تک بدعتی رہےگا جب تک کہ تمام (صحابہ) پر رحم نہ فرمائے، اور اس کا دل ان کے بارےمیں (کسی بھی قسم کے کینے سے) صاف وسلیم نہ ہوجائے‘‘۔
اس نکتے کی شرح جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/sahaba_shaan_tanqees_bidati.pdf
[Urdu Article] Prohibition of abusing the Sahaba (RadiAllaaho 'anhum) – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہنے کی ممانعت
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
مصدر: عقیدۃ التوحید وما یضادھا۔۔۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/sahaba_sabbo_shatam_mumaniat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اہل سنت و جماعت کے نزدیک مسلمہ اصول ہے کہ صحابہ کرام سے متعلق ان کے دل صاف اور ان کی زبان ان کی ثناء خواں ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر عمل کرتے ہیں:
﴿وَالَّذِيْنَ جَاءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ﴾ (الحشر:١٠)
(اور جو ان (مہاجرین وانصار صحابہ) کے بعدآئے وہ دعاء کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں گناہ معاف فرما اور مومنوں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (و حسد) نہ پیدا ہونے دے، اے ہمارے رب! تو بڑا شفقت کرنے والا مہربان ہے)
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول کی اطاعت گزاری کرتے ہیں:
’’لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ أَنَّ أَنْفَقَ أَحَدَكُمْ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ‘‘([1])
(میرے صحابہ کو سب و شتم نہ کرو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی احد (پہاڑ) کے برابر سونا خرچ کرے تو ان میں سے کسی کے مد یا نصف مد تک بھی نہیں پہنچ سکتا)۔
وہ روافض و خوارج کے گمراہ کن طریقہ سے پاک ہیں جو صحابہ کرام کو سب و شتم کرتے ہیں، ان کے لئے بغض رکھتے ہیں ان کے فضائل کا انکار کرتے ہیں اور ان میں کے اکثر پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں۔
کتاب و سنت میں صحابہ کرام کے جو فضائل بیان ہوئے ہیں ان کو اہل سنت و الجماعت قبول کرتے ہیں اور صحابہ کرام کو امت کی سب سے اچھی جماعت کہتے ہیں، جیسے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’خَيْرُكُمْ قَرْنِي‘‘([2])
(تم میں بہتر میرے دور کے لوگ ہیں)۔
اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس امت کےتہتر (73) فرقوں میں بٹ جانے اور ایک فرقہ کے سوا سب کے جہنم جانے کے بارے میں ذکر فرمایا تو لوگوں نے اس ایک جماعت کے متعلق پوچھا تو اس پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی فرمایا کہ:
’’ھِيَ مَنْ کَانَ عَلَی مِثلِ مَا أَنَا عَلَيْهِ الْيَوْمَ وَأَصْحَابِي‘‘([3])
(یہ وہ لوگ ہیں جو اسی پر قائم رہیں گے جس پر آج میں اورمیرے صحابہ کرام قائم ہیں)۔
امام ابو زرعہ "جو امام مسلم "کے سب سے بڑے شیوخ میں شمار ہوتے ہیں نے فرمایا:
’’جب بھی کسی شخص کو دیکھو کہ وہ صحابہ کرام میں سے کسی کی کوئی خامی تلاش کر رہا ہے تو سمجھو کہ وہ زندیق (بےدین) ہے، اس لئے کہ قرآن حق ہے، رسول حق ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت حق ہے، یہ سب کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات کو ہم تک پہنچانے والے صحابہ کرام ہی ہیں۔ لہٰذا ان پر جرح کرنا دراصل اسلامی تعلیمات و کتاب و سنت کو باطل قرار دینا ہے۔ لہٰذا صحابہ کرام پر جرح کرنے والے کو زندیق و گمراہ کہنا برحق ہے‘‘۔
علامہ ابن حمدان " اپنی تصنیف ’’نہایۃ المبتدئین‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’اگر کوئی کسی صحابی کو برا بھلا کہنا جائز سمجھتا ہے تو وہ کافر ہے اور اگر سب و شتم کرتا ہے لیکن اس کو جائز نہیں سمجھتا ہے تو وہ فاسق ہے۔ انہی سے ایک روایت مطلقاً کافر ہونے کی بھی ہے اور اگر کوئی کسی صحابہ پر فسق کا حکم لگاتا یا ان کی دینداری پر طعن کرتا ہے یا ان پر کفر کا فتویٰ لگاتا ہے تو وہ بھی کافر ہے‘‘([4])۔
[1]البخاري المناقب (3470)، مسلم فضائل الصحابة (2541)، الترمذي المناقب (3861)، أبو داود السنة (4658)، ابن ماجه المقدمة (161)، أحمد (3/55).
[2]البخاري الشهادات (2508)، مسلم فضائل الصحابة (2535)، الترمذي الفتن (2221)، النسائي الأيمان والنذور (3809)، أبو داود السنة (4657)، أحمد (4/427).
[3]الترمذي الإيمان (2641).
[4]شرح عقيدة السفاريني (2/388-389).
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہنے کی ممانعت
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
مصدر: عقیدۃ التوحید وما یضادھا۔۔۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/sahaba_sabbo_shatam_mumaniat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اہل سنت و جماعت کے نزدیک مسلمہ اصول ہے کہ صحابہ کرام سے متعلق ان کے دل صاف اور ان کی زبان ان کی ثناء خواں ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر عمل کرتے ہیں:
﴿وَالَّذِيْنَ جَاءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ﴾ (الحشر:١٠)
(اور جو ان (مہاجرین وانصار صحابہ) کے بعدآئے وہ دعاء کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں گناہ معاف فرما اور مومنوں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (و حسد) نہ پیدا ہونے دے، اے ہمارے رب! تو بڑا شفقت کرنے والا مہربان ہے)
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول کی اطاعت گزاری کرتے ہیں:
’’لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ أَنَّ أَنْفَقَ أَحَدَكُمْ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ‘‘([1])
(میرے صحابہ کو سب و شتم نہ کرو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی احد (پہاڑ) کے برابر سونا خرچ کرے تو ان میں سے کسی کے مد یا نصف مد تک بھی نہیں پہنچ سکتا)۔
وہ روافض و خوارج کے گمراہ کن طریقہ سے پاک ہیں جو صحابہ کرام کو سب و شتم کرتے ہیں، ان کے لئے بغض رکھتے ہیں ان کے فضائل کا انکار کرتے ہیں اور ان میں کے اکثر پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں۔
کتاب و سنت میں صحابہ کرام کے جو فضائل بیان ہوئے ہیں ان کو اہل سنت و الجماعت قبول کرتے ہیں اور صحابہ کرام کو امت کی سب سے اچھی جماعت کہتے ہیں، جیسے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’خَيْرُكُمْ قَرْنِي‘‘([2])
(تم میں بہتر میرے دور کے لوگ ہیں)۔
اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس امت کےتہتر (73) فرقوں میں بٹ جانے اور ایک فرقہ کے سوا سب کے جہنم جانے کے بارے میں ذکر فرمایا تو لوگوں نے اس ایک جماعت کے متعلق پوچھا تو اس پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی فرمایا کہ:
’’ھِيَ مَنْ کَانَ عَلَی مِثلِ مَا أَنَا عَلَيْهِ الْيَوْمَ وَأَصْحَابِي‘‘([3])
(یہ وہ لوگ ہیں جو اسی پر قائم رہیں گے جس پر آج میں اورمیرے صحابہ کرام قائم ہیں)۔
امام ابو زرعہ "جو امام مسلم "کے سب سے بڑے شیوخ میں شمار ہوتے ہیں نے فرمایا:
’’جب بھی کسی شخص کو دیکھو کہ وہ صحابہ کرام میں سے کسی کی کوئی خامی تلاش کر رہا ہے تو سمجھو کہ وہ زندیق (بےدین) ہے، اس لئے کہ قرآن حق ہے، رسول حق ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت حق ہے، یہ سب کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیمات کو ہم تک پہنچانے والے صحابہ کرام ہی ہیں۔ لہٰذا ان پر جرح کرنا دراصل اسلامی تعلیمات و کتاب و سنت کو باطل قرار دینا ہے۔ لہٰذا صحابہ کرام پر جرح کرنے والے کو زندیق و گمراہ کہنا برحق ہے‘‘۔
علامہ ابن حمدان " اپنی تصنیف ’’نہایۃ المبتدئین‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’اگر کوئی کسی صحابی کو برا بھلا کہنا جائز سمجھتا ہے تو وہ کافر ہے اور اگر سب و شتم کرتا ہے لیکن اس کو جائز نہیں سمجھتا ہے تو وہ فاسق ہے۔ انہی سے ایک روایت مطلقاً کافر ہونے کی بھی ہے اور اگر کوئی کسی صحابہ پر فسق کا حکم لگاتا یا ان کی دینداری پر طعن کرتا ہے یا ان پر کفر کا فتویٰ لگاتا ہے تو وہ بھی کافر ہے‘‘([4])۔
[1]البخاري المناقب (3470)، مسلم فضائل الصحابة (2541)، الترمذي المناقب (3861)، أبو داود السنة (4658)، ابن ماجه المقدمة (161)، أحمد (3/55).
[2]البخاري الشهادات (2508)، مسلم فضائل الصحابة (2535)، الترمذي الفتن (2221)، النسائي الأيمان والنذور (3809)، أبو داود السنة (4657)، أحمد (4/427).
[3]الترمذي الإيمان (2641).
[4]شرح عقيدة السفاريني (2/388-389).
[Urdu Article] Purpose behind speaking against sects and Madahib – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
فرقوں اور ان کے مذہب کے بارے میں بات کرنے کی غرض وغایت
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: لمحة عن الفرق الضالة۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/11/firqo_mazahib_kalam_gharz.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللہ رب العالمین، وصلی اللہ وسلم علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین۔
اما بعد: فرقوں کے بارے میں بیان کرنا محض تاریخ نویسی نہیں کہ جس کا مقصد فرقوں کے بارے میں صرف معلومات حاصل کرنا ہو۔جیسا کہ تاریخی واقعات کے بارے میں پڑھا جاتا ہے۔ بلکہ فرقوں کے بارےمیں جاننا اس سے بڑھ کر اہمیت اور اس سے اعلیٰ مقصد کا حامل ہےاور وہ یہ کہ ان فرقوں کے شر اور ان کی بدعات سے بچا جائے اور فرقہ اہل سنت والجماعت کو لازم پکڑنے پر ابھارا جائے۔
مخالف وگمراہ فرقوں کی بدعات وگمراہیوں کو ترک کرنا محض ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے سے حاصل نہیں ہوسکتی بلکہ یہ تو ان کے بارے میں جاننے اور فرقۂناجیہ (نجات پانے والے فرقے) کے بارے میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہی ممکن ہے۔
یہ جانا جائے کہ اہل سنت والجماعت کہ جن کے ساتھ ہونا ہر مسلمان پر واجب ہے کون ہیں ان کے کیا اوصاف ہیں؟ اور ان کے مخالف فرقے کونسے ہیں؟
ان کے کیا مذاہب اور کیا شبہات ہیں ؟ تاکہ ان سے خبردار رہ کر بچا جاسکے۔
کیونکہ ’’من لا یعرف الشر یوشک ان یقع فیہ‘‘ (جو شر کو نہیں جانتا قریب ہے کہ وہ اس میں مبتلا ہوجائے)۔ جیسا کہ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عَنِ الْخَيْرِ، وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ، وَشَرٍّ فَجَاءَنَا اللَّهُ بِهَذَا الْخَيْرِ فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ؟، قَالَ: نَعَمْ، فَقُلْتُ: هَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ؟، قَالَ: نَعَمْ وَفِيهِ دَخَنٌ، قُلْتُ: وَمَا دَخَنُهُ؟، قَالَ: قَوْمٌ يَسْتَنُّونَ بِغَيْرِ سُنَّتِي، وَيَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ، فَقُلْتُ: هَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟، قَالَ: نَعَمْ دُعَاةٌ عَلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صِفْهُمْ لَنَا، قَالَ: نَعَمْ، قَوْمٌ مِنْ جِلْدَتِنَا وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَا تَرَى إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ؟، قَالَ: تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ، فَقُلْتُ: فَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلَا إِمَامٌ؟، قَالَ: فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا، وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ عَلَى أَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ‘‘([1])
(لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خیر کے متعلق پوچھا کرتے تھے جبکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شر کے متعلق پوچھا کرتا تھا اس خوف سے کہ کہیں میں ان میں مبتلا نہ ہوجاؤ۔ میں نے عرض کی: یا رسول اللہ! ہم جاہلیت اور شر میں زندگی بسر کررہے تھے تو اللہ تعالی اس خیر (اسلام) کو لے آیا، پس کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ میں نے پھر عرض کی: کیا پھر اس شر کے بعد دوبارہ سے خیر ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اور اس میں دخن(دھبہ) (دلوں میں میل) ہوگا۔ میں نے کہا: اس کا دخن کیا ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری سنت کے خلاف سنت اپنائیں گے اور میرے طریقے کے خلاف طریقے اپنائیں گے، کچھ باتوں کو تم معروف پاؤ گے اور کچھ کو منکر۔میں نے پھر دریافت کیا کہ: کیا اس خیر کے بعد پھر شر ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں، جہنم کے دروازوں کے طرف بلانے والے داعیان ہوں گے، جو بھی ان کی دعوت پر لبیک کہے گا وہ اسے جہنم رسید کروادیں گے۔ میں نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لیے ان کے اوصاف بیان کریں۔ فرمایا: وہ ہماری ہی قوم میں سے ہوں گے اور ہماری ہی زبان بولتے ہوں گے(یعنی عرب میں سے ہوں گے)۔ میں نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر میں انہیں پالوں تو مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کرنے کا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا: مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑنا۔ میں نے کہا: اگر ان کی نہ جماعت ہواور نہ ہی کوئی امام؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو پھر ان تمام فرقوں کو چھوڑ دینا اگرچہ تجھے درختوں کی جڑیں چبا کر ہی گزارا کیوں نہ کرنا پڑے یہاں تک کہ تجھے موت آجائے اور تو اسی منہج پر ہو)۔
لہذا فرقوں کے مذاہب اور ان کے شبہات اور ساتھ ہی فرقۂ ناجیہ اہل سنت والجم
فرقوں اور ان کے مذہب کے بارے میں بات کرنے کی غرض وغایت
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: لمحة عن الفرق الضالة۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/11/firqo_mazahib_kalam_gharz.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللہ رب العالمین، وصلی اللہ وسلم علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ اجمعین۔
اما بعد: فرقوں کے بارے میں بیان کرنا محض تاریخ نویسی نہیں کہ جس کا مقصد فرقوں کے بارے میں صرف معلومات حاصل کرنا ہو۔جیسا کہ تاریخی واقعات کے بارے میں پڑھا جاتا ہے۔ بلکہ فرقوں کے بارےمیں جاننا اس سے بڑھ کر اہمیت اور اس سے اعلیٰ مقصد کا حامل ہےاور وہ یہ کہ ان فرقوں کے شر اور ان کی بدعات سے بچا جائے اور فرقہ اہل سنت والجماعت کو لازم پکڑنے پر ابھارا جائے۔
مخالف وگمراہ فرقوں کی بدعات وگمراہیوں کو ترک کرنا محض ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے سے حاصل نہیں ہوسکتی بلکہ یہ تو ان کے بارے میں جاننے اور فرقۂناجیہ (نجات پانے والے فرقے) کے بارے میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہی ممکن ہے۔
یہ جانا جائے کہ اہل سنت والجماعت کہ جن کے ساتھ ہونا ہر مسلمان پر واجب ہے کون ہیں ان کے کیا اوصاف ہیں؟ اور ان کے مخالف فرقے کونسے ہیں؟
ان کے کیا مذاہب اور کیا شبہات ہیں ؟ تاکہ ان سے خبردار رہ کر بچا جاسکے۔
کیونکہ ’’من لا یعرف الشر یوشک ان یقع فیہ‘‘ (جو شر کو نہیں جانتا قریب ہے کہ وہ اس میں مبتلا ہوجائے)۔ جیسا کہ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عَنِ الْخَيْرِ، وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ، وَشَرٍّ فَجَاءَنَا اللَّهُ بِهَذَا الْخَيْرِ فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ؟، قَالَ: نَعَمْ، فَقُلْتُ: هَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ؟، قَالَ: نَعَمْ وَفِيهِ دَخَنٌ، قُلْتُ: وَمَا دَخَنُهُ؟، قَالَ: قَوْمٌ يَسْتَنُّونَ بِغَيْرِ سُنَّتِي، وَيَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ، فَقُلْتُ: هَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟، قَالَ: نَعَمْ دُعَاةٌ عَلَى أَبْوَابِ جَهَنَّمَ مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، صِفْهُمْ لَنَا، قَالَ: نَعَمْ، قَوْمٌ مِنْ جِلْدَتِنَا وَيَتَكَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَا تَرَى إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ؟، قَالَ: تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ، فَقُلْتُ: فَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلَا إِمَامٌ؟، قَالَ: فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا، وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ عَلَى أَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَى ذَلِكَ‘‘([1])
(لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خیر کے متعلق پوچھا کرتے تھے جبکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شر کے متعلق پوچھا کرتا تھا اس خوف سے کہ کہیں میں ان میں مبتلا نہ ہوجاؤ۔ میں نے عرض کی: یا رسول اللہ! ہم جاہلیت اور شر میں زندگی بسر کررہے تھے تو اللہ تعالی اس خیر (اسلام) کو لے آیا، پس کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ میں نے پھر عرض کی: کیا پھر اس شر کے بعد دوبارہ سے خیر ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اور اس میں دخن(دھبہ) (دلوں میں میل) ہوگا۔ میں نے کہا: اس کا دخن کیا ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری سنت کے خلاف سنت اپنائیں گے اور میرے طریقے کے خلاف طریقے اپنائیں گے، کچھ باتوں کو تم معروف پاؤ گے اور کچھ کو منکر۔میں نے پھر دریافت کیا کہ: کیا اس خیر کے بعد پھر شر ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں، جہنم کے دروازوں کے طرف بلانے والے داعیان ہوں گے، جو بھی ان کی دعوت پر لبیک کہے گا وہ اسے جہنم رسید کروادیں گے۔ میں نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لیے ان کے اوصاف بیان کریں۔ فرمایا: وہ ہماری ہی قوم میں سے ہوں گے اور ہماری ہی زبان بولتے ہوں گے(یعنی عرب میں سے ہوں گے)۔ میں نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر میں انہیں پالوں تو مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کرنے کا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا: مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑنا۔ میں نے کہا: اگر ان کی نہ جماعت ہواور نہ ہی کوئی امام؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو پھر ان تمام فرقوں کو چھوڑ دینا اگرچہ تجھے درختوں کی جڑیں چبا کر ہی گزارا کیوں نہ کرنا پڑے یہاں تک کہ تجھے موت آجائے اور تو اسی منہج پر ہو)۔
لہذا فرقوں کے مذاہب اور ان کے شبہات اور ساتھ ہی فرقۂ ناجیہ اہل سنت والجم
اعت اوران کے منہج کی معرفت حاصل کرنے میں ایک مسلمان کے لیے خیر ِکثیر موجود ہے۔ کیونکہ ان گمران فرقوں کے پاس شبہات اور دھوکے میں ڈالنے والی گمراہیاں ہوتی ہیں، جن دعوتوں کے دام فریب میں جاہل لوگ آکر فریب خوردہ ہوجاتےہیں، اور ان گمراہ دعوتوں (جماعتوں) کی طرف انتساب کرنے لگتے ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیثِ حذیفہ رضی اللہ عنہ میں فرمایا:
’’کیا اس خیر کے بعد پھر شر ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں، جہنم کے دروازوں کے طرف بلانے والے داعیان ہوں گے، جو بھی ان کی دعوت پر لبیک کہے گا وہ اسے جہنم رسید کروادیں گے۔ میں نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لیے ان کے اوصاف بیان کریں۔ فرمایا: ہاں، وہ ہماری ہی قوم میں سے ہوں گے، ہماری ہی بولی بولنے والے لوگ ہوں گے‘‘۔
پس (جب ہم ہی میں سے ہوں گے تو پہچان کے اعتبار سے) شدید خطرہ ہے۔ چناچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کو ایک دن وعظ فرمایا جیساکہ سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ:
’’فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً وَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ، وَذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَأَنَّهَا مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ، فَأَوْصِنَا۔ قَالَ: أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ تَأَمَّرَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ، وَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ فَسَيَرَى اخْتِلافًا كَثِيرًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ مِنْ بَعْدِي ، تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ‘‘([2])
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ایک بلیغ وعظ فرمایا جس سے دل دھل گئے اور آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔ ہم نے عرض کی: یا رسول اللہ ! گویا کہ یہ کسی الوداع کہنے والے کا وعظ لگ رہاہے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں کوئی وصیت کیجئے۔ فرمایا: میں تمہیں اللہ تعالی کا تقویٰ اختیار کرنے کی اور (اپنے حکمرانوں کی) سننے اور اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں اگرچہ تم پر کسی غلام ہی کو حاکم کیوں نہ بنادیا جائے۔ کیونکہ تم میں سے جو زیادہ عرصہ زندہ رہا تو وہ عنقریب بہت اختلاف دیکھے گا، پس تم میری اور میرے بعد خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا، اس سے تمسک اختیار کرنا، اور اسے اپنے جبڑوں سے مضبوطی سے جکڑے رہنا۔ اور دین میں نئے نئے کاموں سے بچنا، کیونکہ دین میں ہر نیا کام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے)۔
پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبردی کہ عنقریب اختلاف وتفرقہ ہوگا جس میں مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑنے کی وصیت فرمائی اور ساتھ ہی سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تمسک کرنے اور اس کے مخالف جو بھی اقوال،افکار وگمراہ مذاہب ہوں انہیں ترک کرنے کی وصیت فرمائی۔ اللہ تعالی نے بھی اجتماع(اتحاد) اور اپنی کتاب سے اعتصام (مضبوطی سے پکڑنے) کا حکم فرمایا ہے، اور تفرقہ بازی سے منع فرمایا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ﴾ (آل عمران: 103)
(تم سب مل کر اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقہ نہ کرو، اللہ تعالی کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر اس وقت کی کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے پس اس نے تمہارے دلوں میں باہم الفت ڈال دی، اور تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے، اور تم تو جہنم کے گھڑے کے کنارے پر پہنچ چکے تھے لیکن اللہ تعالی نے تمہیں اس سے بچا لیا، اسی طرح سے اللہ تعالی تمہیں اپنی آیات کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ)
اس آیت سے لے کر یہاں تک کہ:
﴿وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَأُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ، يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ﴾ (آل عمران: 105-106)
(اورکہیں ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اختلاف کیا اور تفرقہ بازی کی حالانکہ ان کے پاس واضح آیات ونشانیاں آچکی تھیں، ایسوں کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ جس دن بعض چہرے منور ہوں گے تو بعض روسیاہ)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
’’تبیض وجوہ اھل السنۃ والجماعۃ، وتسود وجوہ اھل البدعۃ والفرقۃ‘‘([3])
(اہل سنت والجماعت کے چہرے منور ہوں گے اور اہل بدعت وفرقہ پرستوں کے چہرے سیاہ ہوں گے)۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَ
’’کیا اس خیر کے بعد پھر شر ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں، جہنم کے دروازوں کے طرف بلانے والے داعیان ہوں گے، جو بھی ان کی دعوت پر لبیک کہے گا وہ اسے جہنم رسید کروادیں گے۔ میں نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لیے ان کے اوصاف بیان کریں۔ فرمایا: ہاں، وہ ہماری ہی قوم میں سے ہوں گے، ہماری ہی بولی بولنے والے لوگ ہوں گے‘‘۔
پس (جب ہم ہی میں سے ہوں گے تو پہچان کے اعتبار سے) شدید خطرہ ہے۔ چناچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کو ایک دن وعظ فرمایا جیساکہ سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ:
’’فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً وَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ، وَذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَأَنَّهَا مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ، فَأَوْصِنَا۔ قَالَ: أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ تَأَمَّرَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ، وَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ فَسَيَرَى اخْتِلافًا كَثِيرًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ مِنْ بَعْدِي ، تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ‘‘([2])
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ایک بلیغ وعظ فرمایا جس سے دل دھل گئے اور آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔ ہم نے عرض کی: یا رسول اللہ ! گویا کہ یہ کسی الوداع کہنے والے کا وعظ لگ رہاہے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں کوئی وصیت کیجئے۔ فرمایا: میں تمہیں اللہ تعالی کا تقویٰ اختیار کرنے کی اور (اپنے حکمرانوں کی) سننے اور اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں اگرچہ تم پر کسی غلام ہی کو حاکم کیوں نہ بنادیا جائے۔ کیونکہ تم میں سے جو زیادہ عرصہ زندہ رہا تو وہ عنقریب بہت اختلاف دیکھے گا، پس تم میری اور میرے بعد خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا، اس سے تمسک اختیار کرنا، اور اسے اپنے جبڑوں سے مضبوطی سے جکڑے رہنا۔ اور دین میں نئے نئے کاموں سے بچنا، کیونکہ دین میں ہر نیا کام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے)۔
پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبردی کہ عنقریب اختلاف وتفرقہ ہوگا جس میں مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑنے کی وصیت فرمائی اور ساتھ ہی سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تمسک کرنے اور اس کے مخالف جو بھی اقوال،افکار وگمراہ مذاہب ہوں انہیں ترک کرنے کی وصیت فرمائی۔ اللہ تعالی نے بھی اجتماع(اتحاد) اور اپنی کتاب سے اعتصام (مضبوطی سے پکڑنے) کا حکم فرمایا ہے، اور تفرقہ بازی سے منع فرمایا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ﴾ (آل عمران: 103)
(تم سب مل کر اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقہ نہ کرو، اللہ تعالی کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر اس وقت کی کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے پس اس نے تمہارے دلوں میں باہم الفت ڈال دی، اور تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے، اور تم تو جہنم کے گھڑے کے کنارے پر پہنچ چکے تھے لیکن اللہ تعالی نے تمہیں اس سے بچا لیا، اسی طرح سے اللہ تعالی تمہیں اپنی آیات کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ)
اس آیت سے لے کر یہاں تک کہ:
﴿وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَأُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ، يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ﴾ (آل عمران: 105-106)
(اورکہیں ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اختلاف کیا اور تفرقہ بازی کی حالانکہ ان کے پاس واضح آیات ونشانیاں آچکی تھیں، ایسوں کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ جس دن بعض چہرے منور ہوں گے تو بعض روسیاہ)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
’’تبیض وجوہ اھل السنۃ والجماعۃ، وتسود وجوہ اھل البدعۃ والفرقۃ‘‘([3])
(اہل سنت والجماعت کے چہرے منور ہوں گے اور اہل بدعت وفرقہ پرستوں کے چہرے سیاہ ہوں گے)۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَ
مْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ﴾ (الانعام: 159)
(بے شک جنہوں نے اپنے دین میں تفرقہ کیا اور مختلف جماعتیں بن گئے تمہیں ان سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے، ان کا معاملہ تو اللہ تعالی کے پاس ہے پھر وہ انہیں جتا دے گا جو حرکتیں وہ کیا کرتے تھے)
پس دین تو ایک ہے اور وہ وہی ہے جو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے تھے۔ اس میں کسی قسم کی مختلف دینی ومذہبی تقسیم کی گنجائش نہیں۔ بلکہ دین تو واحد ایک ہے اور وہ اللہ تعالی کا وہ دین برحق ہےجس پر اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کو چھوڑ گئے تھے۔ کیونکہ (حدیث کے مطابق) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو اپنی امت کو ایسی روشن شارع پر چھوڑ گئے تھے کہ جس کی راتیں بھی اس کے دن کی طرح روشن ہیں کہ جس سے منحرف نہیں ہوتا مگر وہی جو ہلاکت میں پڑنے والا ہو۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي أَبَدًا ، كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّتِي‘‘([4])
(میں تمہارے درمیان دو ایسی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم ان سے تمسک اختیار کروگے تو کبھی بھی گمراہ نہ ہوگے: کتاب اللہ اور میری سنت)۔
[1] البخاری المناقب (3411)، مسلم الامارۃ (1847)، ابو داود الفتن والملاحم (4244)، ابن ماجہ الفتن (3979)، احمد (5/406)۔ رواہ البخاری (فتح الباری) برقم (3606، 3607، 7084)، ومسلم فی (صحیحہ) ایضا برقم (1847، واحمد مطولا بلفظ مخالف (5/386، 403)، ومختصرا بلفظ مختلف (5/44)، وابوداود السجستانی (4244)، ولفظ مختلف: برقم (4246)، والنسائی فی (الکبری) (5/17، 18)، وابن ماجہ برقم (4027، 4029)، وابوداود الطیالسی فی (مسندہ) برقم (442)، وبلفظ مختلف: (443، ص 59)، وابوعوانۃ فی (الصحیح المسند) (4/474 و475)، وعبدالرزاق فی (مصنفہ) برقم (20711)، (11/341)، وابن ابی شیبۃ فی (کتاب الفتن)برقم (2449 و8960) (18969 و18980)، والحاکم فی (مستدرکہ (4/432) وصحح اسنادہ، ووافقہ الذھبی)۔
[2] الترمذی العلم (2676)، ابو داود السنۃ (4607)، وابن ماجہ المقدمۃ (42)، احمد (4/126)، الدارمی المقدمۃ (95)۔
[3] ذکرہ البغوی فی (تفسیرہ) (2/87)، وابن کثیر (2/87)، طبعۃ الاندلس۔
[4]رواہ مالک فی (الموطا) ص 648، رقم الحدیث (1619)، والحاکم فی (المستدرک) (1/93) موصلا عن ابی ھریرۃ۔ ورواہ مطولا دون لفظۃ وسنتي: مسلم برقم (1218)، وابوداود برقم (1909)، وابن ماجۃ برقم (3110)، من حدیث جابر بن عبداللہ وفیہ صفۃ حجۃ النبي وخطبتہ بھم۔
(بے شک جنہوں نے اپنے دین میں تفرقہ کیا اور مختلف جماعتیں بن گئے تمہیں ان سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے، ان کا معاملہ تو اللہ تعالی کے پاس ہے پھر وہ انہیں جتا دے گا جو حرکتیں وہ کیا کرتے تھے)
پس دین تو ایک ہے اور وہ وہی ہے جو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کر آئے تھے۔ اس میں کسی قسم کی مختلف دینی ومذہبی تقسیم کی گنجائش نہیں۔ بلکہ دین تو واحد ایک ہے اور وہ اللہ تعالی کا وہ دین برحق ہےجس پر اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کو چھوڑ گئے تھے۔ کیونکہ (حدیث کے مطابق) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو اپنی امت کو ایسی روشن شارع پر چھوڑ گئے تھے کہ جس کی راتیں بھی اس کے دن کی طرح روشن ہیں کہ جس سے منحرف نہیں ہوتا مگر وہی جو ہلاکت میں پڑنے والا ہو۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي أَبَدًا ، كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّتِي‘‘([4])
(میں تمہارے درمیان دو ایسی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم ان سے تمسک اختیار کروگے تو کبھی بھی گمراہ نہ ہوگے: کتاب اللہ اور میری سنت)۔
[1] البخاری المناقب (3411)، مسلم الامارۃ (1847)، ابو داود الفتن والملاحم (4244)، ابن ماجہ الفتن (3979)، احمد (5/406)۔ رواہ البخاری (فتح الباری) برقم (3606، 3607، 7084)، ومسلم فی (صحیحہ) ایضا برقم (1847، واحمد مطولا بلفظ مخالف (5/386، 403)، ومختصرا بلفظ مختلف (5/44)، وابوداود السجستانی (4244)، ولفظ مختلف: برقم (4246)، والنسائی فی (الکبری) (5/17، 18)، وابن ماجہ برقم (4027، 4029)، وابوداود الطیالسی فی (مسندہ) برقم (442)، وبلفظ مختلف: (443، ص 59)، وابوعوانۃ فی (الصحیح المسند) (4/474 و475)، وعبدالرزاق فی (مصنفہ) برقم (20711)، (11/341)، وابن ابی شیبۃ فی (کتاب الفتن)برقم (2449 و8960) (18969 و18980)، والحاکم فی (مستدرکہ (4/432) وصحح اسنادہ، ووافقہ الذھبی)۔
[2] الترمذی العلم (2676)، ابو داود السنۃ (4607)، وابن ماجہ المقدمۃ (42)، احمد (4/126)، الدارمی المقدمۃ (95)۔
[3] ذکرہ البغوی فی (تفسیرہ) (2/87)، وابن کثیر (2/87)، طبعۃ الاندلس۔
[4]رواہ مالک فی (الموطا) ص 648، رقم الحدیث (1619)، والحاکم فی (المستدرک) (1/93) موصلا عن ابی ھریرۃ۔ ورواہ مطولا دون لفظۃ وسنتي: مسلم برقم (1218)، وابوداود برقم (1909)، وابن ماجۃ برقم (3110)، من حدیث جابر بن عبداللہ وفیہ صفۃ حجۃ النبي وخطبتہ بھم۔
[Urdu Article] The noble status of Ahl-ul-Bayt (Prophet's family) and their rights without exaggeration or understating – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
اہلِ بیت کی فضیلت اور حق تلفی یا غلو کے بغیر ان کے ساتھ سلوک کا بیان
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
مصدر: عقیدۃ التوحید وما یضادھا۔۔۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/ahlebayt_haq_ghulu_taqseer.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اہل بیت سے کون مراد ہیں اور ان کے حقوق
اہلِ بیت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ آل و اولاد ہیں جن پر صدقہ حرام ہے، ان میں سیدناعلی کی اولاد، سیدنا جعفر کی اولاد، سیدناعقیل کی اولاد، سیدناعباس کی اولاد، بنو حارث بن عبدالمطلب اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات اور بنات طاہرات رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا﴾ (الاحزاب: 33)
(اے(پیغمبر کے) اہلِ بیت اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی (کا میل کچیل) دور کر دے اور تمہیں بالکل پاک صاف کر دے)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس ضمن میں لکھتے ہیں:
’’قرآن مجید میں جو تدبر کرے گا اس کو کبھی بھی اس بات میں شک نہیں ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواجِ مطہرات بھی مذکورہ آیتِ کریمہ کے ضمن میں داخل ہیں ۔ اس لئے کہ سیاق کلام انہی کے ساتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے فوراً بعد فرمایا:
﴿وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلٰى فِيْ بُيُوْتِكُنَّ مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ وَالْحِكْمَةِ﴾ (الاحزاب:34)
(اور تمہارے گھروں میں جو اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت (کی باتیں سنائی جاتی ہیں یعنی حدیث) ان کو یاد رکھو)
آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے گھروں میں کتاب و سنت میں سے جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ اپنے رسول پر نازل فرماتا ہے اس پر عمل کرو، سیدنا قتادہ رحمہ اللہ اور دوسرے علماء نے یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ اس نعمت کو یاد کرو جو اور لوگوں کو چھوڑ کر تمہارے لئے خاص کی گئی ہے۔ یعنی وحی تمہارے گھروں میں نازل ہوتی ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تو اس نعمت سے مالا مال تھیں اور اس عمومی رحمت میں آپ کو خاص مقام عطاء ہوا تھاکیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو چھوڑ کر کسی کے بستر پر وحی نازل نہیں ہوئی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود فرمایا بعض علماء کا کہنا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ خصوصیت اس لئے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سوا کسی بھی کنواری سے شادی نہیں کی، اور آپ کے سوا ان کے بستر پر کبھی کوئی دوسرا مرد نہیں سویا۔(یعنی دوسرے سے شادی ہی نہیں کی)۔
لہٰذا مناسب تھا کہ اس خصوصیت ورتبۂ عالیہ سے آپ نوازی جاتیں اور جب آپ کی ازواج ِ مطہرات اہلِ بیت میں داخل ہیں تو آپ کے اقارب و اعزا ء بدرجۂ اولیٰ اس میں داخل ہیں اور وہ اس نام کے زیادہ مستحق ہیں‘‘([1])۔
لہٰذا اہل سنت و الجماعت اہل بیت سے محبت کرتے ہیں اور عقیدت رکھتے ہیں ، اور ان کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس وصیت کو اپنے سامنے رکھتے ہیں جسے آپ نے غدیر خم (ایک جگہ کا نام ہے) کے موقع پر فرمایا تھا:
’’أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي‘‘([2])
(میرے اہل بیت کے (حقوق کا خیال رکھنے کے) سلسلے میں ،تمہیں میں اللہ تعالی (کے تقویٰ) کو یاد رکھنے کی وصیت کرتا ہوں)۔
اہل سنت و الجماعت ان سے محبت کرتے ہیں اور ان کی تکریم و تعظیم کرتے ہیں۔ اس لئے کہ یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و عقیدت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم کی علامت ہے۔ اس شرط کے ساتھ ہے کہ وہ سنت کی اتباع پر قائم ہوں، جیسے کہ ان کے سلف صالح سیدنا عباس اور ان کی اولاد، سیدنا علی اور ان کی آل اولاد رضی اللہ عنہم کا حال تھا، اور ان میں سے جو سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخالف ہوں اور دین پر قائم نہ ہوں، پھر ان سے عقیدت و دوستی جائز نہ ہوگی، چاہے اہل بیت (سید) میں سے ہوں۔
اہل بیت کے بارے میں اہل سنت و الجماعت کا مؤقف بہت ہی اعتدال و انصاف پر مبنی ہے اہل بیت میں سے جو دین و ایمان پر قائم ہیں ان سے گہری محبت و عقیدت رکھتے ہیں اور ان میں سے جو سنت کے مخالف اور دین سے منحرف ہوں ان سے دور رہتے ہیں، چاہے وہ نسبی طور پر اہل بیت میں داخل کیوں نہ ہوں۔ اس لئے کہ اہل بیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریبی ہونے سے کوئی فائدہ نہیں جب تک کہ اللہ تعالیٰ کے دین پر قائم نہ ہوں۔ سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:
﴿وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ﴾ (الشعراء:214)
(اور اپنے قریب کے رشتہ داروں کو ڈر سنا دیں)
تو آپ ﷺ نے کھڑے
اہلِ بیت کی فضیلت اور حق تلفی یا غلو کے بغیر ان کے ساتھ سلوک کا بیان
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
مصدر: عقیدۃ التوحید وما یضادھا۔۔۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/ahlebayt_haq_ghulu_taqseer.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اہل بیت سے کون مراد ہیں اور ان کے حقوق
اہلِ بیت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ آل و اولاد ہیں جن پر صدقہ حرام ہے، ان میں سیدناعلی کی اولاد، سیدنا جعفر کی اولاد، سیدناعقیل کی اولاد، سیدناعباس کی اولاد، بنو حارث بن عبدالمطلب اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات اور بنات طاہرات رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا﴾ (الاحزاب: 33)
(اے(پیغمبر کے) اہلِ بیت اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی (کا میل کچیل) دور کر دے اور تمہیں بالکل پاک صاف کر دے)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس ضمن میں لکھتے ہیں:
’’قرآن مجید میں جو تدبر کرے گا اس کو کبھی بھی اس بات میں شک نہیں ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواجِ مطہرات بھی مذکورہ آیتِ کریمہ کے ضمن میں داخل ہیں ۔ اس لئے کہ سیاق کلام انہی کے ساتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے فوراً بعد فرمایا:
﴿وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلٰى فِيْ بُيُوْتِكُنَّ مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ وَالْحِكْمَةِ﴾ (الاحزاب:34)
(اور تمہارے گھروں میں جو اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت (کی باتیں سنائی جاتی ہیں یعنی حدیث) ان کو یاد رکھو)
آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے گھروں میں کتاب و سنت میں سے جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ اپنے رسول پر نازل فرماتا ہے اس پر عمل کرو، سیدنا قتادہ رحمہ اللہ اور دوسرے علماء نے یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ اس نعمت کو یاد کرو جو اور لوگوں کو چھوڑ کر تمہارے لئے خاص کی گئی ہے۔ یعنی وحی تمہارے گھروں میں نازل ہوتی ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تو اس نعمت سے مالا مال تھیں اور اس عمومی رحمت میں آپ کو خاص مقام عطاء ہوا تھاکیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو چھوڑ کر کسی کے بستر پر وحی نازل نہیں ہوئی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود فرمایا بعض علماء کا کہنا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ خصوصیت اس لئے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سوا کسی بھی کنواری سے شادی نہیں کی، اور آپ کے سوا ان کے بستر پر کبھی کوئی دوسرا مرد نہیں سویا۔(یعنی دوسرے سے شادی ہی نہیں کی)۔
لہٰذا مناسب تھا کہ اس خصوصیت ورتبۂ عالیہ سے آپ نوازی جاتیں اور جب آپ کی ازواج ِ مطہرات اہلِ بیت میں داخل ہیں تو آپ کے اقارب و اعزا ء بدرجۂ اولیٰ اس میں داخل ہیں اور وہ اس نام کے زیادہ مستحق ہیں‘‘([1])۔
لہٰذا اہل سنت و الجماعت اہل بیت سے محبت کرتے ہیں اور عقیدت رکھتے ہیں ، اور ان کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس وصیت کو اپنے سامنے رکھتے ہیں جسے آپ نے غدیر خم (ایک جگہ کا نام ہے) کے موقع پر فرمایا تھا:
’’أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي‘‘([2])
(میرے اہل بیت کے (حقوق کا خیال رکھنے کے) سلسلے میں ،تمہیں میں اللہ تعالی (کے تقویٰ) کو یاد رکھنے کی وصیت کرتا ہوں)۔
اہل سنت و الجماعت ان سے محبت کرتے ہیں اور ان کی تکریم و تعظیم کرتے ہیں۔ اس لئے کہ یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و عقیدت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم کی علامت ہے۔ اس شرط کے ساتھ ہے کہ وہ سنت کی اتباع پر قائم ہوں، جیسے کہ ان کے سلف صالح سیدنا عباس اور ان کی اولاد، سیدنا علی اور ان کی آل اولاد رضی اللہ عنہم کا حال تھا، اور ان میں سے جو سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخالف ہوں اور دین پر قائم نہ ہوں، پھر ان سے عقیدت و دوستی جائز نہ ہوگی، چاہے اہل بیت (سید) میں سے ہوں۔
اہل بیت کے بارے میں اہل سنت و الجماعت کا مؤقف بہت ہی اعتدال و انصاف پر مبنی ہے اہل بیت میں سے جو دین و ایمان پر قائم ہیں ان سے گہری محبت و عقیدت رکھتے ہیں اور ان میں سے جو سنت کے مخالف اور دین سے منحرف ہوں ان سے دور رہتے ہیں، چاہے وہ نسبی طور پر اہل بیت میں داخل کیوں نہ ہوں۔ اس لئے کہ اہل بیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریبی ہونے سے کوئی فائدہ نہیں جب تک کہ اللہ تعالیٰ کے دین پر قائم نہ ہوں۔ سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:
﴿وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ﴾ (الشعراء:214)
(اور اپنے قریب کے رشتہ داروں کو ڈر سنا دیں)
تو آپ ﷺ نے کھڑے
ہو کر فرمایا:
’’فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ، لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، يَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، لَا أُغْنِي عَنْكَ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَيَا صَفِيَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَيَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مِنْ مَالِي مَا شِئْتِ، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا‘‘([3])
(اے قریش!(یا اس جیسا کوئی لفظ) اپنے آپ کو خرید لو(یعنی نیک اعمال کرکے جنت حاصل کرلو اور جہنم سے بچ جاؤ)، اللہ تعالیٰ کے سامنے میں تمہارے لئے کچھ نہیں کر سکتا، اے عباس بن عبدالمطلب! میں اللہ کے سامنے تمہارے لئے کچھ نہیں کر سکتا۔ اے صفیہ رسول اللہ کی پھوپھی! میں اللہ کے سامنے تمہارے لئے کچھ نہیں کر سکتا، اے فاطمہ بنت محمد! میرے مال میں سے جو چاہو مانگ لو لیکن اللہ کے سامنے میں تمہارے لئے کچھ نہیں کر سکتا)۔
ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں:
’’مَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ‘‘([4])
(جس کا عمل اسے پیچھے چھوڑ جائے اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکتا)۔
اہل سنت والجماعت رافضی شیعوں کے غلط عقیدہ سے پاک ہیں، جو بعض اہل بیت کے سلسلے میں غلو سے کام لیتے ہوئے ان کی عصمت کا دعویٰ کرتے ہیں، اسی طرح نواصب کے گمراہ کن طریقوں سے بھی پاک ہیں، جو اصحابِ استقامت اہل بیت سے بھی بغض ودشمنی رکھتے ہیں انہیں لعن طعن کرتے ہیں ۔الحمدللہ اہل سنت والجماعت ان بدعتیوں اور خرافیوں کی گمراہی سے بھی پاک ہیں جو اہل بیت کو وسیلہ بناتے ہیں اور اللہ کے سوا ان کو اپنا رب والہ مانتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل سنت و الجماعت اس بارے میں اور دیگر معاملات میں بھی منہجِ اعتدال اور صراطِ مستقیم پر قائم ہیں جن کے رویہ میں کوئی افراط و تفریط نہیں اور نہ ہی اہل بیت کے حق میں حق تلفی و غلو ہے۔ خود معتدل و دین پر قائم اہل بیت اپنے لئے غلو پسند نہیں کرتے ہیں، اور غلو کرنے والوں سے برأت وبیزاری کا اظہار کرتے ہیں، خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے متعلق غلو کرنے والوں کو آگ میں جلا دینے کا حکم ارشاد فرمایا تھا اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان کے قتل کو جائز قرار دیا ہے، لیکن وہ آگ کے بجائے تلوار سے قتل کے قائل تھے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے غلو کرنے والوں کے سردار عبداللہ بن سبأ کو قتل کرنے کے لئے تلاش کروایا تھا لیکن وہ بھاگ گیا تھا اور کہیں چھپ گیا تھا‘‘([5])۔
[1] دیکھیں تفسیر ابن کثیر میں ان آیات کی تفسیر۔
[2] مسلم فضائل الصحابة (2408)، أحمد (4/367)، الدارمي فضائل القرآن (3316).
[3]البخاري الوصايا (2602)، مسلم الإيمان (206)، النسائي الوصايا (3646)، أحمد (2/361)، الدارمي الرقاق (2732).
[4]مسلم الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار (2699)، الترمذي القراءات (2945)، ابن ماجه المقدمة (225)، أحمد (2/252)، الدارمي المقدمة (344).
[5] اہل بیت کے تفصیلی فضائل وحقوق کے بارے میں جاننے کے لیے شیخ عبدالمحسن العباد d کی کتاب ’’اہل سنت والجماعت کے نزدیک اہل بیت کا مقام ومرتبہ‘‘ کا مطالعہ مفید رہے گا۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
’’فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ، لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، يَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، لَا أُغْنِي عَنْكَ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَيَا صَفِيَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَيَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مِنْ مَالِي مَا شِئْتِ، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا‘‘([3])
(اے قریش!(یا اس جیسا کوئی لفظ) اپنے آپ کو خرید لو(یعنی نیک اعمال کرکے جنت حاصل کرلو اور جہنم سے بچ جاؤ)، اللہ تعالیٰ کے سامنے میں تمہارے لئے کچھ نہیں کر سکتا، اے عباس بن عبدالمطلب! میں اللہ کے سامنے تمہارے لئے کچھ نہیں کر سکتا۔ اے صفیہ رسول اللہ کی پھوپھی! میں اللہ کے سامنے تمہارے لئے کچھ نہیں کر سکتا، اے فاطمہ بنت محمد! میرے مال میں سے جو چاہو مانگ لو لیکن اللہ کے سامنے میں تمہارے لئے کچھ نہیں کر سکتا)۔
ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں:
’’مَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ‘‘([4])
(جس کا عمل اسے پیچھے چھوڑ جائے اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکتا)۔
اہل سنت والجماعت رافضی شیعوں کے غلط عقیدہ سے پاک ہیں، جو بعض اہل بیت کے سلسلے میں غلو سے کام لیتے ہوئے ان کی عصمت کا دعویٰ کرتے ہیں، اسی طرح نواصب کے گمراہ کن طریقوں سے بھی پاک ہیں، جو اصحابِ استقامت اہل بیت سے بھی بغض ودشمنی رکھتے ہیں انہیں لعن طعن کرتے ہیں ۔الحمدللہ اہل سنت والجماعت ان بدعتیوں اور خرافیوں کی گمراہی سے بھی پاک ہیں جو اہل بیت کو وسیلہ بناتے ہیں اور اللہ کے سوا ان کو اپنا رب والہ مانتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل سنت و الجماعت اس بارے میں اور دیگر معاملات میں بھی منہجِ اعتدال اور صراطِ مستقیم پر قائم ہیں جن کے رویہ میں کوئی افراط و تفریط نہیں اور نہ ہی اہل بیت کے حق میں حق تلفی و غلو ہے۔ خود معتدل و دین پر قائم اہل بیت اپنے لئے غلو پسند نہیں کرتے ہیں، اور غلو کرنے والوں سے برأت وبیزاری کا اظہار کرتے ہیں، خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے متعلق غلو کرنے والوں کو آگ میں جلا دینے کا حکم ارشاد فرمایا تھا اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان کے قتل کو جائز قرار دیا ہے، لیکن وہ آگ کے بجائے تلوار سے قتل کے قائل تھے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے غلو کرنے والوں کے سردار عبداللہ بن سبأ کو قتل کرنے کے لئے تلاش کروایا تھا لیکن وہ بھاگ گیا تھا اور کہیں چھپ گیا تھا‘‘([5])۔
[1] دیکھیں تفسیر ابن کثیر میں ان آیات کی تفسیر۔
[2] مسلم فضائل الصحابة (2408)، أحمد (4/367)، الدارمي فضائل القرآن (3316).
[3]البخاري الوصايا (2602)، مسلم الإيمان (206)، النسائي الوصايا (3646)، أحمد (2/361)، الدارمي الرقاق (2732).
[4]مسلم الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار (2699)، الترمذي القراءات (2945)، ابن ماجه المقدمة (225)، أحمد (2/252)، الدارمي المقدمة (344).
[5] اہل بیت کے تفصیلی فضائل وحقوق کے بارے میں جاننے کے لیے شیخ عبدالمحسن العباد d کی کتاب ’’اہل سنت والجماعت کے نزدیک اہل بیت کا مقام ومرتبہ‘‘ کا مطالعہ مفید رہے گا۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)