🌹دیوانِ حیدر علی آتش سے انتخاب 🌹
قسط نمبر: دو
........................................
کشکول اردو
https://tlgrm.me/kashkoleurdu
..............................
محبت سے بنا لیتے ہیں اپنا دوست دشمن کو
جھکاتی ہے ہماری عاجزی سرکش کی گردن کو
نقاب اس آفتاب حسن کا اندھیر رکھتا ہے
رخ روشن چھپا کر سب کیا ہے روز روشن کو
اڑاتے دولتِ دنیا کو ہیں ہم عشق بازی میں
طلائی رنگ پر صدقے کیا کرتے ہیں کندن کو
قبائے سرخ وہ اندامِ نازک دوست رکھتا ہے
ملانا خاک میں عاشق کا ہے شغل اُن کے دامن کو
تصور لالہ و گل کا رہا کرتا ہے آنکھوں میں
قفس میں بھی سلام شوق کر لیتے ہیں گلشن کو
سوار اس تیغ زن کو دیکھتا ہے جو وہ کہتا ہے
ہمارا خون حاضر ہے، اگر رنگواؤ توسن کو
کمی ہو گی نہ بعد مرگ بھی بے تابیِ دل میں
قیامت تک رہے گا زلزلہ سا میرے مدفن کو
تبسّم میں نظر آنا ترے دنداں کا آفت ہے
چمکنے سے لگاتی ہے یہ بجلی آگ خرمن کو
یہ قصر یار کو پیغام دینا اے صبا میرا
نگاہیں ڈھونڈتی ہیں تیری دیواروں کے روزن کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں آرزو تیری
خوشا دماغ جسے تازہ رکھّے بُو تیری
پھرے ہیں مشرق و مغرب سے تا جنوب و شمال
تلاش کی ہے صنم ہم نے چار سُو تیری
شبِ فراق میں اک دم نہیں قرار آیا
خدا گواہ ہے، شاہد ہے آرزو تیری
دماغ اپنا بھی اے گُلبدن معطّر ہے
صبا ہی کے نہیں حصّے میں آئی بُو تیری
مری طرف سے صبا کہیو میرے یوسف سے
نکل چلی ہے بہت پیرہن سے بو تیری
شبِ فراق میں، اے روزِ وصل، تا دمِ صبح
چراغ ہاتھ میں ہے اور جستجو تیری
جو ابر گریہ کناں ہے تو برق خندہ زناں
کسی میں خُو ہے ہماری، کسی میں خُو تیری
کسی طرف سے تو نکلے گا آخر اے شہِ حُسن
فقیر دیکھتے ہیں راہ کو بہ کو تیری
زمانے میں کوئی تجھ سا نہیں ہے سیف زباں
رہے گی معرکے میں آتش آبرو تیری
۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی عشق میں مُجھ سے افزوں نہ نکلا
کبھی سامنے ہو کے مجنوں نہ نکلا
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اِک قطرۂ خوں نہ نکلا
بجا کہتے آئے ہیں ہیچ اس کو شاعر
کمر کا کوئی ہم سے مضموں نہ نکلا
ہُوا کون سا روزِ روشن نہ کالا
کب افسانۂ زلفِ شب گوں نہ نکلا
پہنچتا اسے مصرعِ تازہ و تر
قدِ یار سا سروِ موزوں نہ نکلا
رہا سال ہا سال جنگل میں آتِش
مرے سامنے بیدِ مجنوں نہ نکلا
۔۔۔۔۔۔۔۔
دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے
زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
تمھارے شہیدوں میں داخل ہوئے ہیں
گل و لالہ و ارغواں کیسے کیسے
بہار آئی ہے، نشّہ میں جھومتے ہیں
مریدانِ پیرِ مغاں کیسے کیسے
نہ مڑ کر بھی بے درد قاتل نے دیکھا
تڑپتے رہے نیم جاں کیسے کیسے
نہ گورِ سکندر، نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
غم و غصہ و رنج و اندوہ و حرماں
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے
تری کلکِ قدرت کے قربان آنکھیں
دکھائے ہیں خوش رو جواں کیسے کیسے
کرے جس قدر شکرِ نعمت، وہ کم ہے
مزے لوٹتی ہے، زباں کیسے کیسے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چمن میں شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا
یقیں ہو گیا شبنم کو، آفتاب آیا
ان انکھڑیوں میں اگر نشۂ شراب آیا
سلام جھک کر کروں گا جو پھر حجاب آیا
اسیر ہونے کا اللہ رے شوق بلبل کو
جگایا نالوں سے صیاد کو جو خواب آیا
کسی کی محرم آب رواں کی یاد آئی
حباب کے جو برابر کوئی حباب آیا
شبِ فراق میں مجھ کو سلانے آیا تھا
جگایا میں نے جو افسانہ گو کو خواب آیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیمار عشق و رنج و محن سے نکل گیا
بیچارہ منہ چھپا کے کفن سے نکل گیا
دیکھا جو مجھ غریب کو بولے عدم کے لوگ
مدت سے تھا یہ اپنے وطن سے نکل گیا
عالم جو تھا مطیع ہمارے کلام کا
کیا اسم اعظم اپنے دہن سے نکل گیا؟
زنجیر کا وہ غل نہیں زنداں میں اے جنوں
دیوانہ قید خانہ تن سے نکل گیا
رتبے کو ترے سن کر سبک ہو کے ہر غزال
دیوانہ ہو کے دشت ختن سے نکل گیا
پھر طفل حیلہ کو کا بہانہ نہ مانیو
آتش وہ اب کی بار تو فن سے نکل گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوتا ہے سوز عشق سے جل جل کر دل تمام
کرتی ہے روح مرحلہ آب و گل تمام
درد فراق یار سے کہنا ہے بندنہ
اعضا ہمارے ہو گئے ہیں مضمحل تمام
ہوتا ہے پردھ فاش کلام دروغ کا
وعدے کا دن سمجھ لے وہ پیماں گسل تمام
خلوت میں ہاتھ یار کے جانا نہ تھا تمہیں
ارباب انجمن ہوئے آتش ہجل تمام
....................
جاری
قسط نمبر: دو
........................................
کشکول اردو
https://tlgrm.me/kashkoleurdu
..............................
محبت سے بنا لیتے ہیں اپنا دوست دشمن کو
جھکاتی ہے ہماری عاجزی سرکش کی گردن کو
نقاب اس آفتاب حسن کا اندھیر رکھتا ہے
رخ روشن چھپا کر سب کیا ہے روز روشن کو
اڑاتے دولتِ دنیا کو ہیں ہم عشق بازی میں
طلائی رنگ پر صدقے کیا کرتے ہیں کندن کو
قبائے سرخ وہ اندامِ نازک دوست رکھتا ہے
ملانا خاک میں عاشق کا ہے شغل اُن کے دامن کو
تصور لالہ و گل کا رہا کرتا ہے آنکھوں میں
قفس میں بھی سلام شوق کر لیتے ہیں گلشن کو
سوار اس تیغ زن کو دیکھتا ہے جو وہ کہتا ہے
ہمارا خون حاضر ہے، اگر رنگواؤ توسن کو
کمی ہو گی نہ بعد مرگ بھی بے تابیِ دل میں
قیامت تک رہے گا زلزلہ سا میرے مدفن کو
تبسّم میں نظر آنا ترے دنداں کا آفت ہے
چمکنے سے لگاتی ہے یہ بجلی آگ خرمن کو
یہ قصر یار کو پیغام دینا اے صبا میرا
نگاہیں ڈھونڈتی ہیں تیری دیواروں کے روزن کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں آرزو تیری
خوشا دماغ جسے تازہ رکھّے بُو تیری
پھرے ہیں مشرق و مغرب سے تا جنوب و شمال
تلاش کی ہے صنم ہم نے چار سُو تیری
شبِ فراق میں اک دم نہیں قرار آیا
خدا گواہ ہے، شاہد ہے آرزو تیری
دماغ اپنا بھی اے گُلبدن معطّر ہے
صبا ہی کے نہیں حصّے میں آئی بُو تیری
مری طرف سے صبا کہیو میرے یوسف سے
نکل چلی ہے بہت پیرہن سے بو تیری
شبِ فراق میں، اے روزِ وصل، تا دمِ صبح
چراغ ہاتھ میں ہے اور جستجو تیری
جو ابر گریہ کناں ہے تو برق خندہ زناں
کسی میں خُو ہے ہماری، کسی میں خُو تیری
کسی طرف سے تو نکلے گا آخر اے شہِ حُسن
فقیر دیکھتے ہیں راہ کو بہ کو تیری
زمانے میں کوئی تجھ سا نہیں ہے سیف زباں
رہے گی معرکے میں آتش آبرو تیری
۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی عشق میں مُجھ سے افزوں نہ نکلا
کبھی سامنے ہو کے مجنوں نہ نکلا
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اِک قطرۂ خوں نہ نکلا
بجا کہتے آئے ہیں ہیچ اس کو شاعر
کمر کا کوئی ہم سے مضموں نہ نکلا
ہُوا کون سا روزِ روشن نہ کالا
کب افسانۂ زلفِ شب گوں نہ نکلا
پہنچتا اسے مصرعِ تازہ و تر
قدِ یار سا سروِ موزوں نہ نکلا
رہا سال ہا سال جنگل میں آتِش
مرے سامنے بیدِ مجنوں نہ نکلا
۔۔۔۔۔۔۔۔
دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے
زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
تمھارے شہیدوں میں داخل ہوئے ہیں
گل و لالہ و ارغواں کیسے کیسے
بہار آئی ہے، نشّہ میں جھومتے ہیں
مریدانِ پیرِ مغاں کیسے کیسے
نہ مڑ کر بھی بے درد قاتل نے دیکھا
تڑپتے رہے نیم جاں کیسے کیسے
نہ گورِ سکندر، نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
غم و غصہ و رنج و اندوہ و حرماں
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے
تری کلکِ قدرت کے قربان آنکھیں
دکھائے ہیں خوش رو جواں کیسے کیسے
کرے جس قدر شکرِ نعمت، وہ کم ہے
مزے لوٹتی ہے، زباں کیسے کیسے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چمن میں شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا
یقیں ہو گیا شبنم کو، آفتاب آیا
ان انکھڑیوں میں اگر نشۂ شراب آیا
سلام جھک کر کروں گا جو پھر حجاب آیا
اسیر ہونے کا اللہ رے شوق بلبل کو
جگایا نالوں سے صیاد کو جو خواب آیا
کسی کی محرم آب رواں کی یاد آئی
حباب کے جو برابر کوئی حباب آیا
شبِ فراق میں مجھ کو سلانے آیا تھا
جگایا میں نے جو افسانہ گو کو خواب آیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیمار عشق و رنج و محن سے نکل گیا
بیچارہ منہ چھپا کے کفن سے نکل گیا
دیکھا جو مجھ غریب کو بولے عدم کے لوگ
مدت سے تھا یہ اپنے وطن سے نکل گیا
عالم جو تھا مطیع ہمارے کلام کا
کیا اسم اعظم اپنے دہن سے نکل گیا؟
زنجیر کا وہ غل نہیں زنداں میں اے جنوں
دیوانہ قید خانہ تن سے نکل گیا
رتبے کو ترے سن کر سبک ہو کے ہر غزال
دیوانہ ہو کے دشت ختن سے نکل گیا
پھر طفل حیلہ کو کا بہانہ نہ مانیو
آتش وہ اب کی بار تو فن سے نکل گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوتا ہے سوز عشق سے جل جل کر دل تمام
کرتی ہے روح مرحلہ آب و گل تمام
درد فراق یار سے کہنا ہے بندنہ
اعضا ہمارے ہو گئے ہیں مضمحل تمام
ہوتا ہے پردھ فاش کلام دروغ کا
وعدے کا دن سمجھ لے وہ پیماں گسل تمام
خلوت میں ہاتھ یار کے جانا نہ تھا تمہیں
ارباب انجمن ہوئے آتش ہجل تمام
....................
جاری
🌹دیوانِ حيدر علی آتش سے انتخاب 🌹
قسط نمبر: تین
........................................
کشکول اردو
https://tlgrm.me/kashkoleurdu
..................................................
شب برات جو زلف سیاہ یار ہوئی
جبیں سے صبح مہ عید آشکار ہوئی
گزر ہو جو کبھی مرقد غربیاں پر
گھٹائیں پھوٹ بہیں، برق بے قرار ہوئی
پیادہ پا جو چمن میں بہار کو دیکھا
ہوا کے گھوڑے کے اوپر خزاں سوار ہوئی
زمیں کو زلزلہ آئے گا چرغ کو چکر
ہماری روح لحد میں جو بے قرار ہوئی
وفا سرشت ہوں، شیوہ ہے دوستی میرا
نہ کی وہ بات جو دشمن کو ناگوار ہوئی
سنا ہے قصۂ مجنوں و وامق و فرہاد
کسی کو عاشق آتش نہ سزا وار ہوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل جو ہم سے وہ محبوب نکتہ دان سنتا
زمینِ شعر کا افسانہ آسماں سنتا
زبان کون سی مشغول ذکر خیر نہیں
کہاں کہاں نہیں میں تیری داستاں سنتا
خوشی کے مارے زمیں پر قدم نہیں پڑتے
جرس سے مژدہ منزل ہے کارواں سنتا
نہ پوچھ، کان میں کیا کیا کہا ہے ، کس کس نے
پھر ہوں تیری خبر میں کہاں کہاں سنتا
مجھے وہ روشنی خانہ یاد آتا ہے
کسی کے گھر میں ہوں دوست مہماں سنتا
نہال قد کے ہو سودے مین جب سے زرد آتش
تمہارا نام ہوں میں شاخ زعفران سنتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گستاخ بہت شمع سے پروانہ ہوا ہے
موت آئی ہے ، سر چڑھتا ہے ، دیوانہ ہوا ہے
اس عالم ایجاد میں گردش سے فلک کے
کیا کیا نہیں ہونے کا کیا کیا نہ ہوا ہے
نالوں سے مرے کون تھا تنگ مرے بعد
کس گھر میں نہیں سجدۂ شکرانہ ہوا ہے
یاد آتی ہے مجھ کو تن بے جاں کی خرابی
آباد مکاں کوئی جو ویرانہ ہوا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معشوق نہیں کوئی حسیں تم سے زیادہ
مشتاق ہیں کس ماہ کے انجم سے زیادہ
صوفی جو سنے نالہ موزوں کو ہمارے
حالت ہو مغنی کے ترنم سے زیادہ
آئینے میں دیکھا ہے کو منہ چاند سا اپنا
خود گم ہے وہ بت، عاشق خود گم سے زیادہ
بجلی کو جلا دیں گے وہ لب دانت دکھا کر
شغل آج کل ان کو ہے تبسم سے زیادہ
کہتا ہے وہ شوخ آئینے میں عکس سے آتش
تم ہم سے زیادہ ہو تو ہم تم سے زیادہ
۔۔۔۔۔۔۔۔
تری زلفوں نے بل کھایا تو ہوتا
ذرا سنبل کو لہرایا تو ہوتا
رخ بے داغ دکھلایا تو ہوتا
گل و لالہ کو شرمایا تو ہوتا
چلے گا کبک کیا رفتار تیری
یہ انداز قدم پایا تو ہوتا
نہ کیوں کر حشر ہوتا دیکھتے ہو
قیامت قد ترا لایا تو ہوتا
بجا لاتے اسے آنکھوں سے اے دوست
کبھی کچھ ہم سے فرمایا تو ہوتا
سمجھتا یا نہ اے آتش سمجھتا
دل مضطر کو سمجھایا تو ہوتا
۔۔۔۔۔۔۔۔
چاندنی میں جب تجھے یاد اے مہِ تاباں کیا
رات بھر اختر شماری نے مجھے حیراں کیا
قامتِ موزوں تصوّر میں قیامت ہو گیا
چشم کی گردش نے کارِ فتنۂ دوراں کیا
شام سے ڈھونڈا کیا زنجیر پھانسی کے لئے
صبح تک میں نے خیالِ گیسوئے پیچاں کیا
کس طرح سے میں دلِ وحشی کا کہنا مانوں
کوئی قائل نہیں دیوانے کی دانائی کا
یہی زنجیر کے نالے سے صدا آتی ہے
قید خانے میں برا حال ہے سودائی کا
بعد شاعر کے ہوا مشہور کلامِ شاعر
شہرہ البتہ کہ ہو مردے کی گویائی کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیری نے قد راست کو اپنے نگوں کیا
خراب قصر ِ تن کا ہمارے ستوں کیا
جامے سے جسم کے بھی میں دیوانہ تنگ ہوں
اب کی بہار میں اسے نذر ِ جنوں کیا
فرہاد سر کو پھوڑ کے تیشے سے مر گیا
شیریں نے ناپسند مگر بے ستوں کیا
جوہر وہ کون سا ہے جو انسان میں نہیں
دے کر خدا نے عقل اسے، ذوفنوں کیا
آنکھوں سے جائے اشک ٹپکنے لگا لہو
آتش جگر کو دل کی مصیبت نے خوں کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وحشت ِ دل نے کیا ہے وہ بیاباں پیدا
سینکڑوں کوس نہیں صورت ِ انساں پیدا
دل کے آئینے میں کر جوہر ِ پنہاں پیدا
در و دیوار سے ہو صورت ِ جاناں پیدا
باغ سنسان نہ کر، ان کو پکڑ کر صیاد
بعد مدت ہوئے ہیں مرغ ِ خوش الحاں پیدا
اب قدم سے ہے مرے خانہ ِ زنجیر آباد
مجھ کو وحدت نے کیا سلسلہ جنباں پیدا
روح کی طرح سے داخل ہو جو دیوانہ ہے
جسم ِ خاک سمجھ اس کو جو ہو زنداں پیدا
بے حجابوں کا مگر شہر ہے اقلیم ِ عدم
دیکھتا ہوں جسے، ہوتا ہے وہ عریاں پیدا
اک گل ایسا نہیں ہووے نہ خزاں جس کی بہار
کون سے وقت ہوا تھا یہ گلستاں پیدا
موجد اس کی ہے یہ روزی ہماری آتش
ہم نہ ہوتے تو نہ ہوتی شب ِ ہجراں پیدا
۔۔۔۔۔۔۔۔
روز ِ مولود سے، ساتھ اپنے ہوا، غم پیدا
لالہ ساں داغ اٹھانے کو ہوئے ہم پیدا
شبہ ہوتا ہے صدف کا مجھے ہر غنچے پر
کہیں موتی نہ کریں قطرہ ِ شبنم پیدا
چپ رہو، دور کرو، منہ نہ میرا کھلواؤ
غافلو! زخم ِ زباں کا نہیں مرہم پیدا
دوست ہی دشمن ِ جاں ہو گیا اپنا آتش
نوش وارو نے کیا یا اثر ِ سم پیدا
۔۔۔۔۔۔۔
شب وصل تھی، چاندنی کا سماں تھا
بغل میں صنم تھا، خدا مہربان تھا
مبارک شب قدر سے بھی وہ شب تھی
سمر تک مرد مشتری کا قرآن تھا
وہ شب تھی کہ تھی روشنی جس میں دن کی
زمین پر سے اک نور تا آسمان تھا
نکالے تھے دو چاند اس نے مقابل
وہ شب صبح جنت کا جس پہ گماں تھا
عروسی کی شب کی حلاوت تھی حاصل
فرحناک تھی روح، دل شادمان تھا
بیان خواب کی طرح جو کر رہا ہے
یہ قصہ ہے جب کا کہ آتش جو
قسط نمبر: تین
........................................
کشکول اردو
https://tlgrm.me/kashkoleurdu
..................................................
شب برات جو زلف سیاہ یار ہوئی
جبیں سے صبح مہ عید آشکار ہوئی
گزر ہو جو کبھی مرقد غربیاں پر
گھٹائیں پھوٹ بہیں، برق بے قرار ہوئی
پیادہ پا جو چمن میں بہار کو دیکھا
ہوا کے گھوڑے کے اوپر خزاں سوار ہوئی
زمیں کو زلزلہ آئے گا چرغ کو چکر
ہماری روح لحد میں جو بے قرار ہوئی
وفا سرشت ہوں، شیوہ ہے دوستی میرا
نہ کی وہ بات جو دشمن کو ناگوار ہوئی
سنا ہے قصۂ مجنوں و وامق و فرہاد
کسی کو عاشق آتش نہ سزا وار ہوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل جو ہم سے وہ محبوب نکتہ دان سنتا
زمینِ شعر کا افسانہ آسماں سنتا
زبان کون سی مشغول ذکر خیر نہیں
کہاں کہاں نہیں میں تیری داستاں سنتا
خوشی کے مارے زمیں پر قدم نہیں پڑتے
جرس سے مژدہ منزل ہے کارواں سنتا
نہ پوچھ، کان میں کیا کیا کہا ہے ، کس کس نے
پھر ہوں تیری خبر میں کہاں کہاں سنتا
مجھے وہ روشنی خانہ یاد آتا ہے
کسی کے گھر میں ہوں دوست مہماں سنتا
نہال قد کے ہو سودے مین جب سے زرد آتش
تمہارا نام ہوں میں شاخ زعفران سنتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گستاخ بہت شمع سے پروانہ ہوا ہے
موت آئی ہے ، سر چڑھتا ہے ، دیوانہ ہوا ہے
اس عالم ایجاد میں گردش سے فلک کے
کیا کیا نہیں ہونے کا کیا کیا نہ ہوا ہے
نالوں سے مرے کون تھا تنگ مرے بعد
کس گھر میں نہیں سجدۂ شکرانہ ہوا ہے
یاد آتی ہے مجھ کو تن بے جاں کی خرابی
آباد مکاں کوئی جو ویرانہ ہوا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معشوق نہیں کوئی حسیں تم سے زیادہ
مشتاق ہیں کس ماہ کے انجم سے زیادہ
صوفی جو سنے نالہ موزوں کو ہمارے
حالت ہو مغنی کے ترنم سے زیادہ
آئینے میں دیکھا ہے کو منہ چاند سا اپنا
خود گم ہے وہ بت، عاشق خود گم سے زیادہ
بجلی کو جلا دیں گے وہ لب دانت دکھا کر
شغل آج کل ان کو ہے تبسم سے زیادہ
کہتا ہے وہ شوخ آئینے میں عکس سے آتش
تم ہم سے زیادہ ہو تو ہم تم سے زیادہ
۔۔۔۔۔۔۔۔
تری زلفوں نے بل کھایا تو ہوتا
ذرا سنبل کو لہرایا تو ہوتا
رخ بے داغ دکھلایا تو ہوتا
گل و لالہ کو شرمایا تو ہوتا
چلے گا کبک کیا رفتار تیری
یہ انداز قدم پایا تو ہوتا
نہ کیوں کر حشر ہوتا دیکھتے ہو
قیامت قد ترا لایا تو ہوتا
بجا لاتے اسے آنکھوں سے اے دوست
کبھی کچھ ہم سے فرمایا تو ہوتا
سمجھتا یا نہ اے آتش سمجھتا
دل مضطر کو سمجھایا تو ہوتا
۔۔۔۔۔۔۔۔
چاندنی میں جب تجھے یاد اے مہِ تاباں کیا
رات بھر اختر شماری نے مجھے حیراں کیا
قامتِ موزوں تصوّر میں قیامت ہو گیا
چشم کی گردش نے کارِ فتنۂ دوراں کیا
شام سے ڈھونڈا کیا زنجیر پھانسی کے لئے
صبح تک میں نے خیالِ گیسوئے پیچاں کیا
کس طرح سے میں دلِ وحشی کا کہنا مانوں
کوئی قائل نہیں دیوانے کی دانائی کا
یہی زنجیر کے نالے سے صدا آتی ہے
قید خانے میں برا حال ہے سودائی کا
بعد شاعر کے ہوا مشہور کلامِ شاعر
شہرہ البتہ کہ ہو مردے کی گویائی کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیری نے قد راست کو اپنے نگوں کیا
خراب قصر ِ تن کا ہمارے ستوں کیا
جامے سے جسم کے بھی میں دیوانہ تنگ ہوں
اب کی بہار میں اسے نذر ِ جنوں کیا
فرہاد سر کو پھوڑ کے تیشے سے مر گیا
شیریں نے ناپسند مگر بے ستوں کیا
جوہر وہ کون سا ہے جو انسان میں نہیں
دے کر خدا نے عقل اسے، ذوفنوں کیا
آنکھوں سے جائے اشک ٹپکنے لگا لہو
آتش جگر کو دل کی مصیبت نے خوں کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وحشت ِ دل نے کیا ہے وہ بیاباں پیدا
سینکڑوں کوس نہیں صورت ِ انساں پیدا
دل کے آئینے میں کر جوہر ِ پنہاں پیدا
در و دیوار سے ہو صورت ِ جاناں پیدا
باغ سنسان نہ کر، ان کو پکڑ کر صیاد
بعد مدت ہوئے ہیں مرغ ِ خوش الحاں پیدا
اب قدم سے ہے مرے خانہ ِ زنجیر آباد
مجھ کو وحدت نے کیا سلسلہ جنباں پیدا
روح کی طرح سے داخل ہو جو دیوانہ ہے
جسم ِ خاک سمجھ اس کو جو ہو زنداں پیدا
بے حجابوں کا مگر شہر ہے اقلیم ِ عدم
دیکھتا ہوں جسے، ہوتا ہے وہ عریاں پیدا
اک گل ایسا نہیں ہووے نہ خزاں جس کی بہار
کون سے وقت ہوا تھا یہ گلستاں پیدا
موجد اس کی ہے یہ روزی ہماری آتش
ہم نہ ہوتے تو نہ ہوتی شب ِ ہجراں پیدا
۔۔۔۔۔۔۔۔
روز ِ مولود سے، ساتھ اپنے ہوا، غم پیدا
لالہ ساں داغ اٹھانے کو ہوئے ہم پیدا
شبہ ہوتا ہے صدف کا مجھے ہر غنچے پر
کہیں موتی نہ کریں قطرہ ِ شبنم پیدا
چپ رہو، دور کرو، منہ نہ میرا کھلواؤ
غافلو! زخم ِ زباں کا نہیں مرہم پیدا
دوست ہی دشمن ِ جاں ہو گیا اپنا آتش
نوش وارو نے کیا یا اثر ِ سم پیدا
۔۔۔۔۔۔۔
شب وصل تھی، چاندنی کا سماں تھا
بغل میں صنم تھا، خدا مہربان تھا
مبارک شب قدر سے بھی وہ شب تھی
سمر تک مرد مشتری کا قرآن تھا
وہ شب تھی کہ تھی روشنی جس میں دن کی
زمین پر سے اک نور تا آسمان تھا
نکالے تھے دو چاند اس نے مقابل
وہ شب صبح جنت کا جس پہ گماں تھا
عروسی کی شب کی حلاوت تھی حاصل
فرحناک تھی روح، دل شادمان تھا
بیان خواب کی طرح جو کر رہا ہے
یہ قصہ ہے جب کا کہ آتش جو
اخوتِ اسلام:
کچھ دیر پہلے حضرت نفیس شاہ صاحب رحمہ اللہ کے حوالے سے حضرت قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ کا ملفوظ لگایا تھا کہ قاری صاحب فرمایا کرتے تھے کہ:
""دو جگہ کی طرف سفر کرنے والے شخص پر مجھے رشک آتا ہے:
ایک حرمین شریفین کی طرف سفر کرنے والے پر اور
دوسرا پاکستان جانے والے پر۔"
مجالسِ نفیس ص 76
یہ پوسٹ پڑھ کر حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کے خادم خاص جناب بھائی رضوان نفیس صاحب کو وہ مجلس یاد آگئی.... وہ اس مجلس میں موجود تھے.... مجھے فون کیا.... اس مجلس کا حال سنایا اور کہنے لگے... کہ حضرت نفیس شاہ صاحب رحمہ اللہ نے حضرت قاری طیب صاحب رحمہ اللہ کی بات سنا کر فرمایا کہ:
"مجھے بھی دو جگہ سفر کرنے والوں پر رشک آتا ہے، ایک حرمین شریفین کا سفر کرنے والے پر اور دوسرا ہندوستان کی طرف سفر کرنے والے پر"
حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کا یہ رشک درحقیقت ہندوستان کے مسلمانوں، وہاں کے عظیم اسلامی اداروں اور وہاں کی شاندار اسلامی تاریخ سے محبت کا ایک اظہار تھا.
ہر دو اکابر کے یہ ملفوظات سن کر دل کی عجیب کیفیت ہوئی اور یہ سبق پختہ ہوا کہ ہم سب مسلمان ایک قوم ہیں اور ہماری محبتیں زمان و مکان اور سرحدوں کی حدود و قیود سے قطعی آزاد اور بالاتر ہیں۔ زمانے کی گردشوں نے اگرچہ ہمارے درمیان پابندیوں کی دیواریں قائم کردی ہیں لیکن ہمارے قلوب کی محبتوں کو دنیا کی کوئی طاقت کسی پابندی میں نہیں جکڑ سکتی.... جس طرح ہندوستان میں رہ جانے والے ہمارے اکابر ہمیں اپنی دعاؤں اور شفقتوں میں کبھی نہیں بھولے اسی طرح ہم بھی ان شاء اللہ وہاں کے اپنے اکابر، اپنے اداروں، اپنے بزرگوں کے مزارات اور اپنے مسلمان بھائیوں کو کبھی نہیں بھول سکتے..... اخوتِ اسلامی کا رشتہ ہر جغرافیائی حدبندی سے زیادہ طاقتور ہے ان شاء اللہ.....
احسن خدامی
کشکول اردو
https://tlgrm.me/kashkoleurdu
کچھ دیر پہلے حضرت نفیس شاہ صاحب رحمہ اللہ کے حوالے سے حضرت قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ کا ملفوظ لگایا تھا کہ قاری صاحب فرمایا کرتے تھے کہ:
""دو جگہ کی طرف سفر کرنے والے شخص پر مجھے رشک آتا ہے:
ایک حرمین شریفین کی طرف سفر کرنے والے پر اور
دوسرا پاکستان جانے والے پر۔"
مجالسِ نفیس ص 76
یہ پوسٹ پڑھ کر حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کے خادم خاص جناب بھائی رضوان نفیس صاحب کو وہ مجلس یاد آگئی.... وہ اس مجلس میں موجود تھے.... مجھے فون کیا.... اس مجلس کا حال سنایا اور کہنے لگے... کہ حضرت نفیس شاہ صاحب رحمہ اللہ نے حضرت قاری طیب صاحب رحمہ اللہ کی بات سنا کر فرمایا کہ:
"مجھے بھی دو جگہ سفر کرنے والوں پر رشک آتا ہے، ایک حرمین شریفین کا سفر کرنے والے پر اور دوسرا ہندوستان کی طرف سفر کرنے والے پر"
حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کا یہ رشک درحقیقت ہندوستان کے مسلمانوں، وہاں کے عظیم اسلامی اداروں اور وہاں کی شاندار اسلامی تاریخ سے محبت کا ایک اظہار تھا.
ہر دو اکابر کے یہ ملفوظات سن کر دل کی عجیب کیفیت ہوئی اور یہ سبق پختہ ہوا کہ ہم سب مسلمان ایک قوم ہیں اور ہماری محبتیں زمان و مکان اور سرحدوں کی حدود و قیود سے قطعی آزاد اور بالاتر ہیں۔ زمانے کی گردشوں نے اگرچہ ہمارے درمیان پابندیوں کی دیواریں قائم کردی ہیں لیکن ہمارے قلوب کی محبتوں کو دنیا کی کوئی طاقت کسی پابندی میں نہیں جکڑ سکتی.... جس طرح ہندوستان میں رہ جانے والے ہمارے اکابر ہمیں اپنی دعاؤں اور شفقتوں میں کبھی نہیں بھولے اسی طرح ہم بھی ان شاء اللہ وہاں کے اپنے اکابر، اپنے اداروں، اپنے بزرگوں کے مزارات اور اپنے مسلمان بھائیوں کو کبھی نہیں بھول سکتے..... اخوتِ اسلامی کا رشتہ ہر جغرافیائی حدبندی سے زیادہ طاقتور ہے ان شاء اللہ.....
احسن خدامی
کشکول اردو
https://tlgrm.me/kashkoleurdu
ایک دفعہ قلعے میں مشاعرہ تھا۔ حکیم آغا جان عیش (بادشاہی اور خاندانی طبیب)کہ کہن سال، مشاق اور نہایت زندہ دل شاعر تھے۔ استاد کے قریب ہی بیٹھے تھے۔ زمین ِغزل تھی:
’یار دے، بہار دے، روزگار دے‘ حکیم آغا جان عیش نے ایک شعر اپنی غزل میں پڑھا:
اے شمع! صبح ہوتی ہے ، روتی ہےکس لیے
تھوڑی سی رہ گئی ہے ، اسے بھی گزار دے
اُن( ذوق )کے ہاں بھی اسی مضمون کا ایک شعر تھا۔ باوجود اُس رتبے کے لحاظ اور پاسِ مروت حد سے زیادہ تھا۔ میرے (محمد حسین آزاد کے) والد مرحوم (مولوی محمد باقر) پہلو میں بیٹھے تھے، اُن سے کہنے لگے کہ مضمون لڑ گیا۔ اب میں وہ شعر نہ پڑھوں۔‘‘ اُنہوں نے کہا، ’’کیوں نہ پڑھو ۔ نہ پہلے سے اُنہوں نے آپ کا مضمون سنا تھا، نہ آپ نے اُن کا۔ ضرور پڑھنا چاہیے۔ اِس سے بھی طبیعتوں کا اندازہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک منزل پر پہنچے، مگر کس کس انداز سے پہنچے۔‘‘ چناں چہ حکیم صاحب مرحوم کے بعد میں اُن کے آگے شمع آئی ۔ اُنہوں نے پڑھا:
اے شمع! تیری عمرِ طبیعی ہے ایک رات
رو کر گزار یا اِسے ہنس کر گزار دے
*’’آبِ حیات،‘‘ محمد حسین آزاد*
۔ ..............................
’یار دے، بہار دے، روزگار دے‘ حکیم آغا جان عیش نے ایک شعر اپنی غزل میں پڑھا:
اے شمع! صبح ہوتی ہے ، روتی ہےکس لیے
تھوڑی سی رہ گئی ہے ، اسے بھی گزار دے
اُن( ذوق )کے ہاں بھی اسی مضمون کا ایک شعر تھا۔ باوجود اُس رتبے کے لحاظ اور پاسِ مروت حد سے زیادہ تھا۔ میرے (محمد حسین آزاد کے) والد مرحوم (مولوی محمد باقر) پہلو میں بیٹھے تھے، اُن سے کہنے لگے کہ مضمون لڑ گیا۔ اب میں وہ شعر نہ پڑھوں۔‘‘ اُنہوں نے کہا، ’’کیوں نہ پڑھو ۔ نہ پہلے سے اُنہوں نے آپ کا مضمون سنا تھا، نہ آپ نے اُن کا۔ ضرور پڑھنا چاہیے۔ اِس سے بھی طبیعتوں کا اندازہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک منزل پر پہنچے، مگر کس کس انداز سے پہنچے۔‘‘ چناں چہ حکیم صاحب مرحوم کے بعد میں اُن کے آگے شمع آئی ۔ اُنہوں نے پڑھا:
اے شمع! تیری عمرِ طبیعی ہے ایک رات
رو کر گزار یا اِسے ہنس کر گزار دے
*’’آبِ حیات،‘‘ محمد حسین آزاد*
۔ ..............................
غم کے ہاتھوں جو مِرے دِل پہ سماں گُزرا ہے
حادثہ ایسا ، زمانے میں کہاں گُزرا ہے
زندگی کا ہے خُلاصہ، وہی اِک لمحۂ شوق !
جو تِری یاد میں، اے جانِ جہاں ! گُزرا ہے
حالِ دِل، غم سے ہے جیسے کہ، کسی صحرا میں!
ابھی اِ ک قافلۂ نوحہ گراں گُزرا ہے
بزمِ دوشیں کو کرو یادِ کہ اُس کا ہر رِند
رونقِ بارگۂ پِیر مُغاں گُزرا ہے
پا بہ گِل جو تھے، وہ آزاد نظر آتے ہیں
شاید اِس راہ سے، وہ سرو ِرَواں گُزرا ہے
اے اجَل ! جلد کَرَم کر ، کہ تِری فُرقت میں
مجھ پہ جو لمحہ بھی گُزرا ہے ، گراں گُزرا ہے
مجھ کو نِگراِنی دِل و دِیدہ ہُوئی ہے دُشوار
کوئی جب سے مِری جانب نگراں گُزرا ہے
حالِ دِل سُن کے وہ آزردہ ہیں، شاید اُن کو!
اِس حکایت پہ شکایت کا گُماں گُزرا ہے
وہ گُل افشانیِ گُفتار کا پیکر سالؔک
آج کُوچے سے تِرے، اشک دشاں گُزرا ہے
عبدالمجید سالؔک
حادثہ ایسا ، زمانے میں کہاں گُزرا ہے
زندگی کا ہے خُلاصہ، وہی اِک لمحۂ شوق !
جو تِری یاد میں، اے جانِ جہاں ! گُزرا ہے
حالِ دِل، غم سے ہے جیسے کہ، کسی صحرا میں!
ابھی اِ ک قافلۂ نوحہ گراں گُزرا ہے
بزمِ دوشیں کو کرو یادِ کہ اُس کا ہر رِند
رونقِ بارگۂ پِیر مُغاں گُزرا ہے
پا بہ گِل جو تھے، وہ آزاد نظر آتے ہیں
شاید اِس راہ سے، وہ سرو ِرَواں گُزرا ہے
اے اجَل ! جلد کَرَم کر ، کہ تِری فُرقت میں
مجھ پہ جو لمحہ بھی گُزرا ہے ، گراں گُزرا ہے
مجھ کو نِگراِنی دِل و دِیدہ ہُوئی ہے دُشوار
کوئی جب سے مِری جانب نگراں گُزرا ہے
حالِ دِل سُن کے وہ آزردہ ہیں، شاید اُن کو!
اِس حکایت پہ شکایت کا گُماں گُزرا ہے
وہ گُل افشانیِ گُفتار کا پیکر سالؔک
آج کُوچے سے تِرے، اشک دشاں گُزرا ہے
عبدالمجید سالؔک
ڈیجیٹل عیدی:
.....................
احسن خدامی
چند روز قبل ایک ڈیجیٹل اسلامی کتب خانے "مکتبہ جبریل" کے تعارف پر ایک پوسٹ لگائی گئی تھی جسے علم دوست حلقوں میں بہت دلچسپی سے پڑھا گیا.... مکتبہ جبریل کی خاصیات کو پڑھتے ہی فوری طور پر تو ہر شخص کا جی للچاتا ہے کہ جس طرح ممکن ہو اس مکتبے کو ابھی ابھی اپنے موبائل یا کمپیوٹر میں انسٹال کرلیا جائے، لیکن اس مکتبے اور اس سے متعلقہ سوفٹ وئیرز کے لئے 128 جی بی کے میموری کارڈ اور اس کو چلا سکنے والے موبائل کا سن کر متلاطم جذبات یکایک سمندر کی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں اور خوشی سے دمکتے چہرے مایوسی سے مرجھا جاتے ہیں۔
اتنا اچھا موبائل اور اتنا بڑا میموری کارڈ اب ہر کوئی تو نہیں لے سکتا نا؟ اور لے بھی لے تو تقریبا سو جی بی ڈیٹا کو حاصل کرنا اور ان پرگرامز کو انسٹال کروانے کے پیچیدہ مراحل بھی بعض احباب کو کے ٹو پہاڑ سے زیادہ بلند اور دشوار نظر آتے ہیں۔ اس لئے پوسٹ کرنے کے فورا بعد بہت سے میسج آئے کہ جلد از جلد وہ لنک دیں جس سے یہ مکتبہ ہم فورا انسٹال کرکے استعمال کرسکیں.... جب عرض کیا گیا کہ بھیا یہ صرف ایک لنک سے انجام پانے والا کام نہیں، یہ کام کئی ہزار روپوں کے علاوہ خاصی سر کھپائی بھی مانگتا ہے، تو خوشی سے چہکتے ہوئے آکر سوال کرنے والے بھائی منہ لٹکائے ہوئے واپس ہوئے.....
لیکن اب بہت سے احباب کی یہ مشکل بھی مکتبہ جبریل کے احباب نے آسان کردی ہے....
مکتبہ جبریل نہ صرف آئن لائن دستیاب ہے بلکہ اس کی تلاش و سرچ کی سہولیات بھی آپ اس کی ویب سائٹ پر جاکر بے تکلف استعمال کرسکتے ہیں۔
فی الحال صرف حدیث اور فتاوی کے ابواب کو اس سہولت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اور باقی کتب کو اسی صورت میں پیش کرنے پر بحمدہ تعالی کام جاری ہے.
تو دوستو! اب آپ کسی بھی موبائل یا کمپیوٹر پر، چاہے وہ اینڈرائڈ کا ہو یا ایپل کا یا بلیک بیری کا، ونڈوز سسٹم سے تعلق رکھتا ہو یا کسی اور سے..... مکتبہ جبریل کی ویب سائٹ elmedeen.com پر جاکر اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
تاہم پورا مکتبہ اپنے موبائل یا کمیوٹر میں انسٹال کرکے آف لائن استعمال کرنے کا ایک اپنا ہی لطف ہے.
نوٹ: بندہ مکتبہ جبریل کی ٹیم کا باقاعدہ رکن نہیں ہے. مکتبہ استعمال کیا، اچھا لگا تو اپنا تجربہ آپ دوستوں سے شئیر کردیا.... اس لئے اس مکتبے کے انسٹالیشن وغیرہ کی معلومات سے آگاہی نہیں ہے... اس قسم کے مسائل کے حل کے لئے فیس بک پر مکتبہ کی ٹیم کے رکن مولانا عثمان حبیب Usman Habib سے رابطہ کیا جاسکتا ہے.
.....................
احسن خدامی
چند روز قبل ایک ڈیجیٹل اسلامی کتب خانے "مکتبہ جبریل" کے تعارف پر ایک پوسٹ لگائی گئی تھی جسے علم دوست حلقوں میں بہت دلچسپی سے پڑھا گیا.... مکتبہ جبریل کی خاصیات کو پڑھتے ہی فوری طور پر تو ہر شخص کا جی للچاتا ہے کہ جس طرح ممکن ہو اس مکتبے کو ابھی ابھی اپنے موبائل یا کمپیوٹر میں انسٹال کرلیا جائے، لیکن اس مکتبے اور اس سے متعلقہ سوفٹ وئیرز کے لئے 128 جی بی کے میموری کارڈ اور اس کو چلا سکنے والے موبائل کا سن کر متلاطم جذبات یکایک سمندر کی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتے ہیں اور خوشی سے دمکتے چہرے مایوسی سے مرجھا جاتے ہیں۔
اتنا اچھا موبائل اور اتنا بڑا میموری کارڈ اب ہر کوئی تو نہیں لے سکتا نا؟ اور لے بھی لے تو تقریبا سو جی بی ڈیٹا کو حاصل کرنا اور ان پرگرامز کو انسٹال کروانے کے پیچیدہ مراحل بھی بعض احباب کو کے ٹو پہاڑ سے زیادہ بلند اور دشوار نظر آتے ہیں۔ اس لئے پوسٹ کرنے کے فورا بعد بہت سے میسج آئے کہ جلد از جلد وہ لنک دیں جس سے یہ مکتبہ ہم فورا انسٹال کرکے استعمال کرسکیں.... جب عرض کیا گیا کہ بھیا یہ صرف ایک لنک سے انجام پانے والا کام نہیں، یہ کام کئی ہزار روپوں کے علاوہ خاصی سر کھپائی بھی مانگتا ہے، تو خوشی سے چہکتے ہوئے آکر سوال کرنے والے بھائی منہ لٹکائے ہوئے واپس ہوئے.....
لیکن اب بہت سے احباب کی یہ مشکل بھی مکتبہ جبریل کے احباب نے آسان کردی ہے....
مکتبہ جبریل نہ صرف آئن لائن دستیاب ہے بلکہ اس کی تلاش و سرچ کی سہولیات بھی آپ اس کی ویب سائٹ پر جاکر بے تکلف استعمال کرسکتے ہیں۔
فی الحال صرف حدیث اور فتاوی کے ابواب کو اس سہولت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اور باقی کتب کو اسی صورت میں پیش کرنے پر بحمدہ تعالی کام جاری ہے.
تو دوستو! اب آپ کسی بھی موبائل یا کمپیوٹر پر، چاہے وہ اینڈرائڈ کا ہو یا ایپل کا یا بلیک بیری کا، ونڈوز سسٹم سے تعلق رکھتا ہو یا کسی اور سے..... مکتبہ جبریل کی ویب سائٹ elmedeen.com پر جاکر اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
تاہم پورا مکتبہ اپنے موبائل یا کمیوٹر میں انسٹال کرکے آف لائن استعمال کرنے کا ایک اپنا ہی لطف ہے.
نوٹ: بندہ مکتبہ جبریل کی ٹیم کا باقاعدہ رکن نہیں ہے. مکتبہ استعمال کیا، اچھا لگا تو اپنا تجربہ آپ دوستوں سے شئیر کردیا.... اس لئے اس مکتبے کے انسٹالیشن وغیرہ کی معلومات سے آگاہی نہیں ہے... اس قسم کے مسائل کے حل کے لئے فیس بک پر مکتبہ کی ٹیم کے رکن مولانا عثمان حبیب Usman Habib سے رابطہ کیا جاسکتا ہے.
حمایت و مخالفت کی حدود
. . . . . .
مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب زید مجدھم اپنے والد گرامی مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ر ح کی سوانح "میرے والد میرے شیخ " میں لکھتے ہیں :
"کسی شخص یا جماعت کی حمایت و مخالفت میں جب نفسانیت شامل ہو جاتی ہے تو نہ حمایت اپنی حدود پر قائم رہتی ہے نہ مخالفت، بلکہ ہوتا یہ ہے کہ جس شخص کی حمایت کرنی ہو اسے سراپا بے داغ اور جس کی مخالفت کرنی ہو اسے سراپا سیاہ ثابت کرنے سے کم پر بات نہیں ہوتی. آج کل حمایت و مخالفت میں اس قسم کے مظاہرے عام ہو چکے ہیں، بلکہ بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص جس زمانے میں منظور نظر ہوا تو اس کی ساری غلطیوں پر پردہ ڈال کر اسے تعریف و توصیف کے بانس پر چڑھا دیا گیا، اور جب وہی شخص کسی وجہ سے زیر عتاب آ گیا تو اس کی ساری خوبیاں ملیامیٹ ہو گئیں اور اس میں نا قابل اصلاح کیڑے پڑ گئے.
حضرت والد صاحب اس طرز فکر کے سخت مخالف تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اول تو یہ طریقہ حق و انصاف کے خلاف ہے. اس کے علاوہ اس حد سے گزری ہوئی حمایت و مخالفت کے نتیجے میں بسا اوقات انسان کو دنیا ہی میں شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے. . . . [حضرت والد صاحب کی نگاہ ] دشمنوں اور مخالفین میں بھی اچھائیوں کو تلاش کر لیتی تھی اور ان کی خوبیوں کے برملا اظہار میں بھی آپ کو کبھی باک نہیں ہوا.
بعض اوقات جب عام فضا کسی شخص یا جماعت کے خلاف ہو جاتی ہے تو اس کے بارے میں الزام تراشی اور افواہ طرازی کو عموما عیب نہیں سمجھا جاتا، بلکہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس کے عیوب کی خبریں لانے میں لطف محسوس کیا جاتا ہے اور اس میں تحقیق کی بھی ضرورت نہیں سمجھی جاتی. حضرت والد صاحب ایسے مواقع پر اپنے متعلقین کو اس طرز عمل سے سختی کے ساتھ روکتے اور فرماتے کہ اگر ایک شخص کسی جہت سے برا ہے تو اس کا یہ مطلب کہاں سے نکل آیا کہ اس کی تمام جہات لازما ہی بری ہوں گی اور اب اس کی بے ضرورت غیبت اور اس کے خلاف بہتان تراشی جائز ہو گئی ہے.
اس ذیل میں حضرت والد صاحب نے یہ واقعہ سنایا کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے ایک صحابی (غالبا حضرت عبداللہ بن عمر ) کے سامنے حجاج بن یوسف پر کوئی الزام لگایا. اس پر انھوں نے فرمایا کہ یہ مت سمجھو کہ اگر حجاج بن یوسف ظالم ہے تو اس کی آبرو تمہارے لیے حلال ہو گئی ہے. یاد رکھو کہ اگر اللہ تعالی حشر کے دن حجاج بن یوسف سے اس کے مظالم کا حساب لے گا تو تم سے اس ناجائز بہتان کا بھی حساب لے گا جو تم نے اس کے خلاف لگایا.
(ص 147-149 )
کشکول اردو
https://tlgrm.me/kashkoleurdu
. . . . . .
مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب زید مجدھم اپنے والد گرامی مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ر ح کی سوانح "میرے والد میرے شیخ " میں لکھتے ہیں :
"کسی شخص یا جماعت کی حمایت و مخالفت میں جب نفسانیت شامل ہو جاتی ہے تو نہ حمایت اپنی حدود پر قائم رہتی ہے نہ مخالفت، بلکہ ہوتا یہ ہے کہ جس شخص کی حمایت کرنی ہو اسے سراپا بے داغ اور جس کی مخالفت کرنی ہو اسے سراپا سیاہ ثابت کرنے سے کم پر بات نہیں ہوتی. آج کل حمایت و مخالفت میں اس قسم کے مظاہرے عام ہو چکے ہیں، بلکہ بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص جس زمانے میں منظور نظر ہوا تو اس کی ساری غلطیوں پر پردہ ڈال کر اسے تعریف و توصیف کے بانس پر چڑھا دیا گیا، اور جب وہی شخص کسی وجہ سے زیر عتاب آ گیا تو اس کی ساری خوبیاں ملیامیٹ ہو گئیں اور اس میں نا قابل اصلاح کیڑے پڑ گئے.
حضرت والد صاحب اس طرز فکر کے سخت مخالف تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اول تو یہ طریقہ حق و انصاف کے خلاف ہے. اس کے علاوہ اس حد سے گزری ہوئی حمایت و مخالفت کے نتیجے میں بسا اوقات انسان کو دنیا ہی میں شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے. . . . [حضرت والد صاحب کی نگاہ ] دشمنوں اور مخالفین میں بھی اچھائیوں کو تلاش کر لیتی تھی اور ان کی خوبیوں کے برملا اظہار میں بھی آپ کو کبھی باک نہیں ہوا.
بعض اوقات جب عام فضا کسی شخص یا جماعت کے خلاف ہو جاتی ہے تو اس کے بارے میں الزام تراشی اور افواہ طرازی کو عموما عیب نہیں سمجھا جاتا، بلکہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس کے عیوب کی خبریں لانے میں لطف محسوس کیا جاتا ہے اور اس میں تحقیق کی بھی ضرورت نہیں سمجھی جاتی. حضرت والد صاحب ایسے مواقع پر اپنے متعلقین کو اس طرز عمل سے سختی کے ساتھ روکتے اور فرماتے کہ اگر ایک شخص کسی جہت سے برا ہے تو اس کا یہ مطلب کہاں سے نکل آیا کہ اس کی تمام جہات لازما ہی بری ہوں گی اور اب اس کی بے ضرورت غیبت اور اس کے خلاف بہتان تراشی جائز ہو گئی ہے.
اس ذیل میں حضرت والد صاحب نے یہ واقعہ سنایا کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے ایک صحابی (غالبا حضرت عبداللہ بن عمر ) کے سامنے حجاج بن یوسف پر کوئی الزام لگایا. اس پر انھوں نے فرمایا کہ یہ مت سمجھو کہ اگر حجاج بن یوسف ظالم ہے تو اس کی آبرو تمہارے لیے حلال ہو گئی ہے. یاد رکھو کہ اگر اللہ تعالی حشر کے دن حجاج بن یوسف سے اس کے مظالم کا حساب لے گا تو تم سے اس ناجائز بہتان کا بھی حساب لے گا جو تم نے اس کے خلاف لگایا.
(ص 147-149 )
کشکول اردو
https://tlgrm.me/kashkoleurdu
======== طالب علم اور وقت کی قدر و قیمت
از: مولانا حفظ الرحمن پالن پوری
طالبان علوم نبوت کیلئے خصوصاً اپنے دور طالب علمی میں اوقات کی حفاظت نہایت ضروری ہے۔ وقت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں ایک گرانقدر نعمت ہے، پگھلتے برف کی طرح آناً فاناً گذرتا رہتا ہے، دیکھتے ہی دیکھتے تیزی کے ساتھ مہینے اور سال گذر جاتے ہیں۔
صبح ہوئی شام ہوئی
عمر یونہی تمام ہوئی
پس وقت کی قدردانی بہت ضروری ہے، وقت کو صحیح استعمال کرنا، بیکار اور فضول ضائع ہونے سے بچانا ازحد ضروری ہے، وقت کو فضول ضائع کردینے پر بعد میں جو حسرت و پچھتاوا ہوتا ہے وہ ناقابل تلافی ہوتا ہے۔ سوائے ندامت کے اس کے تدارک کی کوئی صورت نہیں رہتی۔ جو لمحہ اور گھڑی ہاتھ سے نکل گئی وہ دوبارہ ہاتھ میں نہیں آسکتی، لہٰذا عقلمندی کاکام یہ ہے کہ آغاز ہی میں انجام پر نظر رکھے، تاکہ حسرت و پچھتاوے کی نوبت نہ آئے۔
ہے وہ عاقل جو کہ آغاز میں سوچے انجام
ورنہ ناداں بھی سمجھ جاتا ہے کھوتے کھوتے
حدیث میں ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں کہ جب وہ طلوع ہوتا ہو مگر یہ کہ وہ پکار پکار کر کہتا ہے کہ اے آدم کے بیٹے! میں ایک نوپید مخلوق ہوں، میں تیرے عمل پر شاہد ہوں، مجھ سے کچھ حاصل کرنا ہو تو کرلے، میں قیامت تک لوٹ کر نہیں آؤں گا۔ دنیا کی تمام چیزیں ضائع ہوجانے کے بعد واپس آسکتی ہیں۔ لیکن ضائع شدہ وقت واپس نہیں آسکتا۔
کہنے والے نے صحیح کہا ہے ”اَلْوَقْتُ اَثْمَنُ مِنَ الذَّہَبِ“ وقت سونے سے زیادہ قیمتی ہے۔ ایک عربی شاعر کہتا ہے:
حَیَاتُکَ اَنْفَاسٌ تُعَدُّ فَکُلَّمَا * مَضٰی نَفَسٌ مِنْہَا اِنْقَضَتْ بِہ جُزْء
تیری زندگی چند محدود گھڑیوں کا نام ہے، ان میں سے جو گھڑی گذرجاتی ہے، اتنا حصہ زندگی کا کم ہوجاتا ہے۔
لہٰذا وقت کی پوری نگہداشت کرنا چاہئے، کھیل کود میں خرافات میں، ادھر ادھر کی باتوں میں اور لغویات میں قیمتی اوقات کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”مِنْ حُسْنِ اِسْلاَمِ الْمَرْءِ تَرْکُہ مَالاَ یَعْنِیْةِ“آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی کو چھوڑ دے۔
اس حدیث میں لطیف پیرایہ میں اضاعت اوقات سے ممانعت اورحفاظت اوقات کے اہتمام کی طرف اشارہ ہے کہ آدمی ہر ایسے قول وعمل اور فعل و حرکت سے احتراز کرے جس سے اس کا خاطر خواہ اورمعتد بہ دینی یا دنیوی فائدہ نہ ہو۔
وقت ایک عظیم نعمت ہے
وقت اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ قیمتی سرمایہ ہے۔ اس کی ایک ایک گھڑی اورہرسکنڈ اور منٹ اتنا قیمتی ہے کہ ساری دنیا بھی اس کی قیمت ادا نہیں کرسکتی، لیکن آج ہم وقت کی کوئی قدر نہیں کرتے کہ یونہی فضول باتوں میں اور لغو کاموں میں ضائع کردیتے ہیں۔
ایک بزرگ کہتے ہیں کہ ایک برف فروش سے مجھ کو بہت عبرت ہوئی، وہ کہتا جارہا تھا کہ اے لوگو! مجھ پر رحم کرو، میرے پاس ایسا سرمایہ ہے جو ہر لمحہ تھوڑا تھوڑا ختم ہوجاتا ہے۔ اس طرح ہماری بھی حالت ہے کہ ہر لمحہ برف کی طرح تھوڑی تھوڑی عمر ختم ہوتی جاتی ہے۔ اسے پگھلنے سے پہلے جلدی بیچنے کی فکر کرو۔
حضرت مفتی محمود الحسن صاحب کے پاس ایک طالب علم نے آکر کھیل کے متعلق سوال کیا، حضرت نے فرمایا کیوں کھیلتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ وقت پاس کرنے کو کھیلتے ہیں، اس پر فرمایا کہ وقت پاس کرنے کیلئے یہاں آجایا کریں، وقت گذارنے کا طریقہ بتلادوں گا۔ کتاب دیدوں گا کہ یہاں سے یہاں تک یاد کرکے سنائیں، اس کے بعد فرمایا وقت حق تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے، اسے غبار سمجھ کر پھینک دینا بڑی ناقدری ہے، یہ ایسا ہی ہے جیسے اشرفیوں کا ڈھیر کسی کے سامنے ہو اور وہ ایک ایک اٹھاکر پھینکتا رہے۔
تیرا ہر سانس نخل موسوی ہے
یہ جزرومد جواہر کی لڑی ہے
ہمارے اسلاف اور حفظ اوقات
ہمارے اسلاف کی زندگی میں اوقات کی اہمیت اور قدر دانی نمایاں طریقہ پر تھی، کوئی گھڑی اور لمحہ ضائع نہیں ہوتا تھا۔ یہی وہ چیز تھی جس نے ان کو اعلیٰ درجہٴ کمال پر پہنچایا تھا۔
امام محمد علیہ الرحمہ کے حالات میں لکھا ہے کہ دن و رات کتابیں لکھتے رہتے تھے۔ ایک ہزار تک ان کی تصانیف بتائی جاتی ہیں۔ اپنے تصنیف کے کمرے میں کتابوں کے ڈھیر کے درمیان بیٹھے رہتے تھے۔ مشغولیت اس درجہ تھی کہ کھانے اور کپڑے کا بھی ہوش نہ تھا۔ (انوارالباری)
حضرت مولانا عبدالحئی فرنگی محلی کی جو مطالعہ گاہ تھی، اس کے تین دروازے تھے، ان کے والد نے تینوں دروازوں پر جوتے رکھوائے تھے تاکہ اگر ضرورت کے لئے باہر جانا پڑے تو جوتے کیلئے ایک منٹ، آدھا منٹ ضائع نہ ہو۔
حضرت علامہ صدیق احمد صاحب کشمیری اپنی طالب علمی کے زمانے میں صرف روٹی لیتے تھے، سالن نہ لیتے تھے، روٹی جیب میں رکھ لیتے تھے، جب موقع ہوتا کھالیتے اور فرماتے روٹی سالن کے ساتھ کھانے میں مطالعہ کا نقصان ہوتا ہے۔
شیخ جمال الدین قاسمی کے بارے میں لکھا ہے کہ شیخ اپنی زندگی کے ایک ایک لمحہ کی قدر فرماتے تھے۔ سفر میں ہو، یا حضر میں، گھر میں ہو یا مسجد میں، مس
از: مولانا حفظ الرحمن پالن پوری
طالبان علوم نبوت کیلئے خصوصاً اپنے دور طالب علمی میں اوقات کی حفاظت نہایت ضروری ہے۔ وقت اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں ایک گرانقدر نعمت ہے، پگھلتے برف کی طرح آناً فاناً گذرتا رہتا ہے، دیکھتے ہی دیکھتے تیزی کے ساتھ مہینے اور سال گذر جاتے ہیں۔
صبح ہوئی شام ہوئی
عمر یونہی تمام ہوئی
پس وقت کی قدردانی بہت ضروری ہے، وقت کو صحیح استعمال کرنا، بیکار اور فضول ضائع ہونے سے بچانا ازحد ضروری ہے، وقت کو فضول ضائع کردینے پر بعد میں جو حسرت و پچھتاوا ہوتا ہے وہ ناقابل تلافی ہوتا ہے۔ سوائے ندامت کے اس کے تدارک کی کوئی صورت نہیں رہتی۔ جو لمحہ اور گھڑی ہاتھ سے نکل گئی وہ دوبارہ ہاتھ میں نہیں آسکتی، لہٰذا عقلمندی کاکام یہ ہے کہ آغاز ہی میں انجام پر نظر رکھے، تاکہ حسرت و پچھتاوے کی نوبت نہ آئے۔
ہے وہ عاقل جو کہ آغاز میں سوچے انجام
ورنہ ناداں بھی سمجھ جاتا ہے کھوتے کھوتے
حدیث میں ہے کہ کوئی دن ایسا نہیں کہ جب وہ طلوع ہوتا ہو مگر یہ کہ وہ پکار پکار کر کہتا ہے کہ اے آدم کے بیٹے! میں ایک نوپید مخلوق ہوں، میں تیرے عمل پر شاہد ہوں، مجھ سے کچھ حاصل کرنا ہو تو کرلے، میں قیامت تک لوٹ کر نہیں آؤں گا۔ دنیا کی تمام چیزیں ضائع ہوجانے کے بعد واپس آسکتی ہیں۔ لیکن ضائع شدہ وقت واپس نہیں آسکتا۔
کہنے والے نے صحیح کہا ہے ”اَلْوَقْتُ اَثْمَنُ مِنَ الذَّہَبِ“ وقت سونے سے زیادہ قیمتی ہے۔ ایک عربی شاعر کہتا ہے:
حَیَاتُکَ اَنْفَاسٌ تُعَدُّ فَکُلَّمَا * مَضٰی نَفَسٌ مِنْہَا اِنْقَضَتْ بِہ جُزْء
تیری زندگی چند محدود گھڑیوں کا نام ہے، ان میں سے جو گھڑی گذرجاتی ہے، اتنا حصہ زندگی کا کم ہوجاتا ہے۔
لہٰذا وقت کی پوری نگہداشت کرنا چاہئے، کھیل کود میں خرافات میں، ادھر ادھر کی باتوں میں اور لغویات میں قیمتی اوقات کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”مِنْ حُسْنِ اِسْلاَمِ الْمَرْءِ تَرْکُہ مَالاَ یَعْنِیْةِ“آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی کو چھوڑ دے۔
اس حدیث میں لطیف پیرایہ میں اضاعت اوقات سے ممانعت اورحفاظت اوقات کے اہتمام کی طرف اشارہ ہے کہ آدمی ہر ایسے قول وعمل اور فعل و حرکت سے احتراز کرے جس سے اس کا خاطر خواہ اورمعتد بہ دینی یا دنیوی فائدہ نہ ہو۔
وقت ایک عظیم نعمت ہے
وقت اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ قیمتی سرمایہ ہے۔ اس کی ایک ایک گھڑی اورہرسکنڈ اور منٹ اتنا قیمتی ہے کہ ساری دنیا بھی اس کی قیمت ادا نہیں کرسکتی، لیکن آج ہم وقت کی کوئی قدر نہیں کرتے کہ یونہی فضول باتوں میں اور لغو کاموں میں ضائع کردیتے ہیں۔
ایک بزرگ کہتے ہیں کہ ایک برف فروش سے مجھ کو بہت عبرت ہوئی، وہ کہتا جارہا تھا کہ اے لوگو! مجھ پر رحم کرو، میرے پاس ایسا سرمایہ ہے جو ہر لمحہ تھوڑا تھوڑا ختم ہوجاتا ہے۔ اس طرح ہماری بھی حالت ہے کہ ہر لمحہ برف کی طرح تھوڑی تھوڑی عمر ختم ہوتی جاتی ہے۔ اسے پگھلنے سے پہلے جلدی بیچنے کی فکر کرو۔
حضرت مفتی محمود الحسن صاحب کے پاس ایک طالب علم نے آکر کھیل کے متعلق سوال کیا، حضرت نے فرمایا کیوں کھیلتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ وقت پاس کرنے کو کھیلتے ہیں، اس پر فرمایا کہ وقت پاس کرنے کیلئے یہاں آجایا کریں، وقت گذارنے کا طریقہ بتلادوں گا۔ کتاب دیدوں گا کہ یہاں سے یہاں تک یاد کرکے سنائیں، اس کے بعد فرمایا وقت حق تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے، اسے غبار سمجھ کر پھینک دینا بڑی ناقدری ہے، یہ ایسا ہی ہے جیسے اشرفیوں کا ڈھیر کسی کے سامنے ہو اور وہ ایک ایک اٹھاکر پھینکتا رہے۔
تیرا ہر سانس نخل موسوی ہے
یہ جزرومد جواہر کی لڑی ہے
ہمارے اسلاف اور حفظ اوقات
ہمارے اسلاف کی زندگی میں اوقات کی اہمیت اور قدر دانی نمایاں طریقہ پر تھی، کوئی گھڑی اور لمحہ ضائع نہیں ہوتا تھا۔ یہی وہ چیز تھی جس نے ان کو اعلیٰ درجہٴ کمال پر پہنچایا تھا۔
امام محمد علیہ الرحمہ کے حالات میں لکھا ہے کہ دن و رات کتابیں لکھتے رہتے تھے۔ ایک ہزار تک ان کی تصانیف بتائی جاتی ہیں۔ اپنے تصنیف کے کمرے میں کتابوں کے ڈھیر کے درمیان بیٹھے رہتے تھے۔ مشغولیت اس درجہ تھی کہ کھانے اور کپڑے کا بھی ہوش نہ تھا۔ (انوارالباری)
حضرت مولانا عبدالحئی فرنگی محلی کی جو مطالعہ گاہ تھی، اس کے تین دروازے تھے، ان کے والد نے تینوں دروازوں پر جوتے رکھوائے تھے تاکہ اگر ضرورت کے لئے باہر جانا پڑے تو جوتے کیلئے ایک منٹ، آدھا منٹ ضائع نہ ہو۔
حضرت علامہ صدیق احمد صاحب کشمیری اپنی طالب علمی کے زمانے میں صرف روٹی لیتے تھے، سالن نہ لیتے تھے، روٹی جیب میں رکھ لیتے تھے، جب موقع ہوتا کھالیتے اور فرماتے روٹی سالن کے ساتھ کھانے میں مطالعہ کا نقصان ہوتا ہے۔
شیخ جمال الدین قاسمی کے بارے میں لکھا ہے کہ شیخ اپنی زندگی کے ایک ایک لمحہ کی قدر فرماتے تھے۔ سفر میں ہو، یا حضر میں، گھر میں ہو یا مسجد میں، مس
لسل مطالعہ اور تالیف کا کام جاری رکھتے تھے، سوانح نگاروں نے لکھا ہے:
مَضٰی رَحِمَہ اللّٰہ یَکْتُبُ دُوْنَ اِنْقِطَاعٍ فِی اللَّیْلِ وَفِی النَّہَارِ، وَفِی الْقِطَارِ، وَفِی النُّزْہَةِ، فِی الْعَرَبَةِ فِی الْمَسْجِدِ، فِی سُدَّتِہِ فِی بَیْتِہِ، وَاَظُّنُّ اَنَّ الطَّرِیْقَ وَحْدَہ ہُوَ الَّذِیْ خَلاَ مِنْ قَلَمِہِ وَقَدْ کَانَ فِی حَبِیْبِہِ دَفْتَرٌ صَغِیْرٌ وَقَلَمٌ، یُقَیِّدُ الْفِکْرَةَ الشَّارِدَةَ ․
(یعنی اللہ ان پر رحم فرمائے ہر وقت لکھتے رہتے تھے، کیا دن، کیا رات، کیاسفر کیا حضر، کیا مسجد، کیاگھر، میرا خیال تو یہ ہے کہ سوائے دوران رفتار کے کسی اور وقت ان کے قلم کو قرار نہیں تھا۔ ان کے جیب میں ایک نوٹ بک اور قلم پڑا رہتا تھا، جسکے ذریعہ وہ اپنے منتشر افکار کو محفوظ کرلیتے تھے۔)
جولوگ بازاروں میں، چائے خانوں میں بیٹھ کر گپ شپ کرتے رہتے تھے، ان کو دیکھ کر حسرت فرماتے اور عجیب بات فرماتے، تذکرہ نگار لکھتے ہیں:
وَقَدْ تَخَسَّرَ مَرَّةً وَہُوَ وَاقِفٌ اَمَامَ مَقْہٰی قَدْ اِمْتَلا بِاُنَاسٍ فَارِغِیْنَ یُضَیّعُوْنَ الْوَقْتَ فِی اللَّہْوِ وَالتَّسْلِیَةِ فَقَالَ لِبَعْضِ مُحَبِّیْہِ آہ! کَمْ اَتَمَنّٰی اَنْ یَّکُوْنَ الْوَقْتُ مِمَّا یُبَاعُ لَاَشْتَرِی مِنْ ہٰوُلاَءِ جَمِیْعًا اَوْقَاتِہُمْ․
(ایک دفعہ وہ قہوہ خانے کے سامنے کھڑے ہوئے تھے، جو لوگوں سے بھراہواتھا اور وہ لوگ لایعنی اور ٹھٹھے میں مشغول تھے، نہایت حسرت کے ساتھ اپنے ایک ساتھی سے فرمایا آہ! جی یوں چاہتا ہے کہ وقت کوئی ایسی شئے ہوتی جو بیچی خریدی جاسکتی تو میں ان سب لوگوں کے اوقات کو خریدلیتا۔) (اقوال سلف)
حضرت مفتی محمود الحسن صاحب کے یہاں بھی حفاظت اوقات کا بڑا اہتمام تھا، حتی کہ کھانا کھاتے ہوئے بھی کتابیں پڑھایا کرتے تھے، چوبیس گھنٹے کی زندگی مشین کی طرح متحرک رہتی تھی۔ کوئی وقت بھی بیکار نہیں جاتاتھا۔
ایک مرتبہ مغرب کے بعد ایک طالب علم حاضر خدمت ہوئے، حضرت اس وقت کھانا تناول فرمارہے تھے، وہ سلام کرکے خاموش گردن جھکاکر بیٹھ گئے، حضرت نے فرمایا نوراللہ! کیا خاموش بیٹھے ہو؟ عرض کیا جی نہیں حضرت! قرآن شریف پڑھ رہا ہوں تو فرمایا ہاں! وقت کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔
مولائی وسیدی حضرت اقدس مولانا قاری صدیق احمد صاحب باندوی دامت برکاتہم کے یہاں بھی احقر نے اوقات کا بڑا اہتمام دیکھا، ہروقت کسی نہ کسی کام میں مشغولی ہے۔
ماہ مبارک کاآخری عشرہ تھا، علالت وآپریشن کے سبب ضعف بہت تھا اس لئے ایک دو آدمی کے سہارے چلتے پھرتے تھے، چنانچہ افطار کے وقت اپنے معتکف سے مسجد کے صحن میں عام دسترخوان پر ایک صاحب کے سہارے تشریف لائے، غروب قریب تھا، حضرت نے فرمایا کتنا وقت باقی ہے؟ کہا گیا دو منٹ، تو فرمایا بھائی پہلے بتادیتے۔ اگر ایک منٹ بھی ہوتا تو کچھ کام کرلیتے، اللہ اکبر یہ ہے اکابر کے یہاں اوقات کی قدردانی۔
امام رازی اور حفظ اوقات
امام رازی کے نزدیک اوقات کی اہمیت اس درجہ تھی کہ ان کو یہ افسوس ہوتا تھا کہ کھانے کا وقت کیوں علمی مشاغل سے خالی جاتا ہے۔
چنانچہ فرمایاکرتے تھے: ”وَاللّٰہِ اِنِّی اَتَاَسَّفُ فِی الْفُوَاتِ عَنِ الْاِشْتِغَالِ بِالْعِلْمِ فِیْ وَقْتِ الْاَکْلِ فَاِنَّ الْوَقْتَ وَالزَّمَانَ عَزِیْزٌ“ یعنی خدا کی قسم! مجھ کو کھانے کے وقت علمی مشاغل کے چھوٹ جانے پر افسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ وقت متاع عزیز ہے۔
در بزم وصال تو بہنگام تماشا
نظارہ زجنبیدن مژگاں گلہ دارد
وقت کی قدر دانی نے ان کو منطق و فلسفہ کا ایسا زبردست امام بنایا کہ دنیا ان کی امامت کو تسلیم کرتی ہے۔
حافظ ابن حجر اور حفظ اوقات
حافظ ابن حجر عسقلانی کے حالات میں آتا ہے کہ وہ وقت کے بڑے قدردان تھے۔ ان کے اوقات معمور رہتے تھے۔ کسی وقت خالی نہ بیٹھتے تھے۔
تین مشغلوں میں سے کسی نہ کسی میں ضرور مصروف رہتے تھے،مطالعہٴ کتب یا تصنیف و تالیف، یا عبادت۔ (بستان المحدثین)
حتی کہ جب تصنیف و تالیف کے کام میں مشغول ہوتے اور درمیان میں قلم کا نوک خراب ہوجاتا تو اس کو درست کرنے کیلئے ایک دو منٹ کا جو وقفہ رہتا، اس کو بھی ضائع نہ کرتے، ذکر الٰہی زبان پر جاری رہتا اور نوک درست فرماتے اور فرماتے وقت کا اتنا حصہ بھی ضائع نہیں ہونا چاہئے۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی اور حفظ اوقات
حضرت اقدس تھانوی نوراللہ مرقدہ نہایت منتظم المزاج اور اصول و ضوابط کے پابند تھے۔ وقت کے لمحات ضائع نہیں ہونے دیتے تھے۔ کھانے، پینے، سونے، جاگنے اوراٹھنے بیٹھنے کے تمام اوقات مقرر تھے، جن پر سختی سے عمل فرماتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے وقت میں برکت بھی بڑی عطا فرمائی تھی۔
خود فرماتے ہیں کہ مجھے انضباط اوقات کا بچپن ہی سے بہت اہتمام ہے۔ جو اس وقت سے لے کر اب تک بدستور موجود ہے، میں ایک لمحہ بھی بیکار رہنا برداشت نہیں کرتا۔
ایک مرتبہ میرے استاذ حضرت مولانا محمود حسن صاحب دیوبندی تھانہ بھون تشریف لائے، میں نے ان کے قیام اور راحت رسانی کے
مَضٰی رَحِمَہ اللّٰہ یَکْتُبُ دُوْنَ اِنْقِطَاعٍ فِی اللَّیْلِ وَفِی النَّہَارِ، وَفِی الْقِطَارِ، وَفِی النُّزْہَةِ، فِی الْعَرَبَةِ فِی الْمَسْجِدِ، فِی سُدَّتِہِ فِی بَیْتِہِ، وَاَظُّنُّ اَنَّ الطَّرِیْقَ وَحْدَہ ہُوَ الَّذِیْ خَلاَ مِنْ قَلَمِہِ وَقَدْ کَانَ فِی حَبِیْبِہِ دَفْتَرٌ صَغِیْرٌ وَقَلَمٌ، یُقَیِّدُ الْفِکْرَةَ الشَّارِدَةَ ․
(یعنی اللہ ان پر رحم فرمائے ہر وقت لکھتے رہتے تھے، کیا دن، کیا رات، کیاسفر کیا حضر، کیا مسجد، کیاگھر، میرا خیال تو یہ ہے کہ سوائے دوران رفتار کے کسی اور وقت ان کے قلم کو قرار نہیں تھا۔ ان کے جیب میں ایک نوٹ بک اور قلم پڑا رہتا تھا، جسکے ذریعہ وہ اپنے منتشر افکار کو محفوظ کرلیتے تھے۔)
جولوگ بازاروں میں، چائے خانوں میں بیٹھ کر گپ شپ کرتے رہتے تھے، ان کو دیکھ کر حسرت فرماتے اور عجیب بات فرماتے، تذکرہ نگار لکھتے ہیں:
وَقَدْ تَخَسَّرَ مَرَّةً وَہُوَ وَاقِفٌ اَمَامَ مَقْہٰی قَدْ اِمْتَلا بِاُنَاسٍ فَارِغِیْنَ یُضَیّعُوْنَ الْوَقْتَ فِی اللَّہْوِ وَالتَّسْلِیَةِ فَقَالَ لِبَعْضِ مُحَبِّیْہِ آہ! کَمْ اَتَمَنّٰی اَنْ یَّکُوْنَ الْوَقْتُ مِمَّا یُبَاعُ لَاَشْتَرِی مِنْ ہٰوُلاَءِ جَمِیْعًا اَوْقَاتِہُمْ․
(ایک دفعہ وہ قہوہ خانے کے سامنے کھڑے ہوئے تھے، جو لوگوں سے بھراہواتھا اور وہ لوگ لایعنی اور ٹھٹھے میں مشغول تھے، نہایت حسرت کے ساتھ اپنے ایک ساتھی سے فرمایا آہ! جی یوں چاہتا ہے کہ وقت کوئی ایسی شئے ہوتی جو بیچی خریدی جاسکتی تو میں ان سب لوگوں کے اوقات کو خریدلیتا۔) (اقوال سلف)
حضرت مفتی محمود الحسن صاحب کے یہاں بھی حفاظت اوقات کا بڑا اہتمام تھا، حتی کہ کھانا کھاتے ہوئے بھی کتابیں پڑھایا کرتے تھے، چوبیس گھنٹے کی زندگی مشین کی طرح متحرک رہتی تھی۔ کوئی وقت بھی بیکار نہیں جاتاتھا۔
ایک مرتبہ مغرب کے بعد ایک طالب علم حاضر خدمت ہوئے، حضرت اس وقت کھانا تناول فرمارہے تھے، وہ سلام کرکے خاموش گردن جھکاکر بیٹھ گئے، حضرت نے فرمایا نوراللہ! کیا خاموش بیٹھے ہو؟ عرض کیا جی نہیں حضرت! قرآن شریف پڑھ رہا ہوں تو فرمایا ہاں! وقت کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔
مولائی وسیدی حضرت اقدس مولانا قاری صدیق احمد صاحب باندوی دامت برکاتہم کے یہاں بھی احقر نے اوقات کا بڑا اہتمام دیکھا، ہروقت کسی نہ کسی کام میں مشغولی ہے۔
ماہ مبارک کاآخری عشرہ تھا، علالت وآپریشن کے سبب ضعف بہت تھا اس لئے ایک دو آدمی کے سہارے چلتے پھرتے تھے، چنانچہ افطار کے وقت اپنے معتکف سے مسجد کے صحن میں عام دسترخوان پر ایک صاحب کے سہارے تشریف لائے، غروب قریب تھا، حضرت نے فرمایا کتنا وقت باقی ہے؟ کہا گیا دو منٹ، تو فرمایا بھائی پہلے بتادیتے۔ اگر ایک منٹ بھی ہوتا تو کچھ کام کرلیتے، اللہ اکبر یہ ہے اکابر کے یہاں اوقات کی قدردانی۔
امام رازی اور حفظ اوقات
امام رازی کے نزدیک اوقات کی اہمیت اس درجہ تھی کہ ان کو یہ افسوس ہوتا تھا کہ کھانے کا وقت کیوں علمی مشاغل سے خالی جاتا ہے۔
چنانچہ فرمایاکرتے تھے: ”وَاللّٰہِ اِنِّی اَتَاَسَّفُ فِی الْفُوَاتِ عَنِ الْاِشْتِغَالِ بِالْعِلْمِ فِیْ وَقْتِ الْاَکْلِ فَاِنَّ الْوَقْتَ وَالزَّمَانَ عَزِیْزٌ“ یعنی خدا کی قسم! مجھ کو کھانے کے وقت علمی مشاغل کے چھوٹ جانے پر افسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ وقت متاع عزیز ہے۔
در بزم وصال تو بہنگام تماشا
نظارہ زجنبیدن مژگاں گلہ دارد
وقت کی قدر دانی نے ان کو منطق و فلسفہ کا ایسا زبردست امام بنایا کہ دنیا ان کی امامت کو تسلیم کرتی ہے۔
حافظ ابن حجر اور حفظ اوقات
حافظ ابن حجر عسقلانی کے حالات میں آتا ہے کہ وہ وقت کے بڑے قدردان تھے۔ ان کے اوقات معمور رہتے تھے۔ کسی وقت خالی نہ بیٹھتے تھے۔
تین مشغلوں میں سے کسی نہ کسی میں ضرور مصروف رہتے تھے،مطالعہٴ کتب یا تصنیف و تالیف، یا عبادت۔ (بستان المحدثین)
حتی کہ جب تصنیف و تالیف کے کام میں مشغول ہوتے اور درمیان میں قلم کا نوک خراب ہوجاتا تو اس کو درست کرنے کیلئے ایک دو منٹ کا جو وقفہ رہتا، اس کو بھی ضائع نہ کرتے، ذکر الٰہی زبان پر جاری رہتا اور نوک درست فرماتے اور فرماتے وقت کا اتنا حصہ بھی ضائع نہیں ہونا چاہئے۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی اور حفظ اوقات
حضرت اقدس تھانوی نوراللہ مرقدہ نہایت منتظم المزاج اور اصول و ضوابط کے پابند تھے۔ وقت کے لمحات ضائع نہیں ہونے دیتے تھے۔ کھانے، پینے، سونے، جاگنے اوراٹھنے بیٹھنے کے تمام اوقات مقرر تھے، جن پر سختی سے عمل فرماتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے وقت میں برکت بھی بڑی عطا فرمائی تھی۔
خود فرماتے ہیں کہ مجھے انضباط اوقات کا بچپن ہی سے بہت اہتمام ہے۔ جو اس وقت سے لے کر اب تک بدستور موجود ہے، میں ایک لمحہ بھی بیکار رہنا برداشت نہیں کرتا۔
ایک مرتبہ میرے استاذ حضرت مولانا محمود حسن صاحب دیوبندی تھانہ بھون تشریف لائے، میں نے ان کے قیام اور راحت رسانی کے
تمام انتظامات کئے، جب تصنیف کا وقت آیا تو باادب عرض کیا کہ حضرت میں اس وقت کچھ لکھا کرتا ہوں۔ اگر حضرت اجازت دیں تو کچھ دیر لکھ کر پھر حاضر ہوجاؤں، گو میرا دل اس روز کچھ لکھنے میں لگا نہیں۔ لیکن ناغہ نہیں ہونے دیا کہ بے برکتی نہ ہو۔ تھوڑا سا لکھ کر جلد حاضر خدمت ہوگیا۔ حضرت کو تعجب بھی ہوا کہ اس قدر جلد آگئے، عرض کیا حضرت! چند سطریں لکھ لیں معمول پورا ہوگیا۔ (ملفوظات حکیم الامت)
شیخ الحدیث مولانا زکریا اور حفظ اوقات
شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریاصاحبکے متعلق صاحب آداب المتعلّمین تحریر فرماتے ہیں کہ ایک عرصہ سے صرف ایک وقت دوپہر کو کھانا کھاتے، شام کو کھانا تناول نہیں فرماتے، کہتے ہیں کہ میں نے متعدد بار حضرت سے سنا کہ میری ایک مشفق ہمشیرہ تھی۔ میں شام کو مطالعہ میں مصروف ہوتا تھا تو وہ لقمہ میرے منھ میں دیا کرتی تھی۔ اس طرح مطالعہ کا حرج نہ ہوتا تھا۔ لیکن جب سے ان کا انتقال ہوگیا۔ اب کوئی میری اتنی ناز برداری کرنے والا نہیں رہا اور مجھے اپنی کتابوں کا نقصان گوارہ نہیں، اس لئے شام کا کھانا ہی ترک کردیا۔
حضرت مولانا یوسف صاحب اور حفظ اوقات
حضرت مولانا محمد یوسف صاحب کے حالات میں لکھا ہے کہ آپ کو بہت ہی کم عمری میں تعلیم کا بہت شوق تھا۔ عام لڑکوں کی طرح وہ اپنے فرائض سے غافل نہیں رہتے تھے اور نہ کھیل کود میں اپنا وقت ضائع کرنا پسند کرتے تھے۔ جب تک فقہ اور حدیث کی کتابیں شروع نہیں کیں تو صحابہٴ کرام کے تذکرے اور خدا کی راہ میں ان کی جانبازی اور قربانی کے واقعات سے بڑی گہری دلچسپی تھی،اس سلسلہ کی جوکتابیں ملتیں بڑے ہی ذوق وشوق اور جذب و کیف سے پڑھتے، کتاب ”محاربات اسلام“ جس میں صحابہٴ کرام کے جہاد اور فتوحات کا تذکرہ ہے، بچپن ہی سے بڑے اشتیاق سے پڑھا کرتے تھے۔ جب فقہ اور حدیث کی تعلیم شروع کی تواس مبارک علم میں پوری طرح مشغول ہوگئے۔ دن کاکوئی حصہ ایسا نہ ہوتا جس میں خالی بیٹھتے اور کوئی کتاب ہاتھ میں نہ ہوتی ہو، وہ کسی ایسے کام کو پسند نہ کرتے تھے جو تعلیم میں کسی طرح مخل ہو۔ (سوانح مولانایوسف صاحب)
وقت میں عجیب برکت اور اس کے مثالی واقعات
انضباط اوقات سے وقت میں عجیب برکت ہوتی ہے۔ چنانچہ ہمارے اسلاف و اکابر کی زندگی میں برکت کی سینکڑوں مثالیں ہیں۔ تھوڑے سے عرصہ میں انھوں نے محیرالعقول کارنامے انجام دئیے ہیں۔
علامہ ابن الجوزی فرماتے ہیں کہ میری پہلی تصنیف اس وقت ہوئی ہے جب میری عمر تقریباً تیرہ برس کی تھی۔ آپ کے پوتے ابوالمظفر کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دادا سے آخری عمر میں برسرمنبر یہ کہتے سنا ہے کہ میری ان انگلیوں نے دوہزار جلدیں لکھی ہیں۔ میرے ہاتھ پر ایک لاکھ آدمیوں نے توبہ کی ہے اور بیس ہزار یہود ونصاریٰ مسلمان ہوئے ہیں، علامہ موصوف کی تصانیف کو دیکھ کر علامہ ذہبی کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ کسی عالم نے ایسی تصنیفات کیں جیسی آپ نے کیں، جن قلموں سے شیخ نے حدیث شریف کی کتابیں لکھی تھی، ان کاتراشہ جمع کرتے گئے تھے۔ جب وہ وفات پانے لگے تو وصیت کی کہ میرے غسل کا پانی اسی تراشے سے گرم کیا جائے چنانچہ جس پانی سے ان کو غسل دیاگیااس کے نیچے وہی پاک ایندھن جلایاگیا تھا۔
عام حالت میں بسر کی زندگی تونے تو کیا
کچھ تو ایسا کرکہ عالم بھر میں افسانہ رہے
ابن جریر طبری کے حالات میں صاحب البدایہ والنہایہ نے لکھا ہے ”رُوِیَ عَنْہ اَنَّہ مَکَثَ اَرْبِعِیْنَ سَنَةً یَکْتُبُ وَکُلَّ یَوْمٍ یَکْتُبُ اَرْبَعِیْنَ وَرَقَةً“ کہ وہ مسلسل چالیس سال تک لکھتے رہے اور روزانہ چالیس ورق لکھتے تھے۔ (البدایہ والنہایہ)
درس نظامی کی مشہور اور معروف کتاب ”تفسیر جلالین شریف“ کو اس کے مصنف علامہ سیوطی نے بیس بائیس سال کی عمر میں بہت قلیل مدت میں یعنی صرف چالیس روز میں لکھی ہے اور آج پورے سال میں بڑی مشکل سے پڑھی جاتی ہے۔
علامہ نووی نے بستان میں ایک معتمد شخص سے نقل کیا ہے کہ میں نے امام غزالی کی تصانیف اور ان کی عمر کا حساب لگایا تو روزانہ اوسط چار کراسہ پڑا، کراسہ چار صفحوں کا ہوتا ہے یعنی سولہ صفحے روزانہ ہوئے، اور علامہ طبری، ابن جوزی اور علامہ سیوطی کی تصنیفات کاروزانہ اوسط اس سے بھی زیادہ ہے۔ (ظفر المحصلین)
حضرت مولانا عبدالحئی صاحب فرنگی محلی کے حالات میں ہے کہ عنفوان شباب کی سترہ سالہ عمر ہی میں تحصیل علوم سے فراغت پاکر مسند درس پر فائز ہوگئے تھے اور ہر فن میں کامل دسترس رکھتے تھے، علم حدیث ہوکہ علم اسناد و رجال، علم تفسیر ہوکہ علم فقہ وفتاویٰ، فلسفہ ہوکہ ریاضی وہیئت ان تمام علوم میں آپ کی بیش بہا تصانیف کا ذخیرہ موجود ہیں جن کی تعداد بقول شیخ ابوالفتاح ابوغدہ کے ایک سو بیس ہے اور آپ کی عمر صرف انتالیس سال ہے، اتنی قلیل عمر میں دوسرے مشاغل کے ساتھ اس قدر تصانیف عطیہٴ خداوندی ہے، آپ کے سوانح نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر آپ کی تصانیف کے صفحات کو آپ کے ایام زندگی پر تقسیم کیاجاوے تو صفحات کتب ایام زندگی پر فوقیت لے جائیں گے۔ (ملخص از نفع المفتی
شیخ الحدیث مولانا زکریا اور حفظ اوقات
شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریاصاحبکے متعلق صاحب آداب المتعلّمین تحریر فرماتے ہیں کہ ایک عرصہ سے صرف ایک وقت دوپہر کو کھانا کھاتے، شام کو کھانا تناول نہیں فرماتے، کہتے ہیں کہ میں نے متعدد بار حضرت سے سنا کہ میری ایک مشفق ہمشیرہ تھی۔ میں شام کو مطالعہ میں مصروف ہوتا تھا تو وہ لقمہ میرے منھ میں دیا کرتی تھی۔ اس طرح مطالعہ کا حرج نہ ہوتا تھا۔ لیکن جب سے ان کا انتقال ہوگیا۔ اب کوئی میری اتنی ناز برداری کرنے والا نہیں رہا اور مجھے اپنی کتابوں کا نقصان گوارہ نہیں، اس لئے شام کا کھانا ہی ترک کردیا۔
حضرت مولانا یوسف صاحب اور حفظ اوقات
حضرت مولانا محمد یوسف صاحب کے حالات میں لکھا ہے کہ آپ کو بہت ہی کم عمری میں تعلیم کا بہت شوق تھا۔ عام لڑکوں کی طرح وہ اپنے فرائض سے غافل نہیں رہتے تھے اور نہ کھیل کود میں اپنا وقت ضائع کرنا پسند کرتے تھے۔ جب تک فقہ اور حدیث کی کتابیں شروع نہیں کیں تو صحابہٴ کرام کے تذکرے اور خدا کی راہ میں ان کی جانبازی اور قربانی کے واقعات سے بڑی گہری دلچسپی تھی،اس سلسلہ کی جوکتابیں ملتیں بڑے ہی ذوق وشوق اور جذب و کیف سے پڑھتے، کتاب ”محاربات اسلام“ جس میں صحابہٴ کرام کے جہاد اور فتوحات کا تذکرہ ہے، بچپن ہی سے بڑے اشتیاق سے پڑھا کرتے تھے۔ جب فقہ اور حدیث کی تعلیم شروع کی تواس مبارک علم میں پوری طرح مشغول ہوگئے۔ دن کاکوئی حصہ ایسا نہ ہوتا جس میں خالی بیٹھتے اور کوئی کتاب ہاتھ میں نہ ہوتی ہو، وہ کسی ایسے کام کو پسند نہ کرتے تھے جو تعلیم میں کسی طرح مخل ہو۔ (سوانح مولانایوسف صاحب)
وقت میں عجیب برکت اور اس کے مثالی واقعات
انضباط اوقات سے وقت میں عجیب برکت ہوتی ہے۔ چنانچہ ہمارے اسلاف و اکابر کی زندگی میں برکت کی سینکڑوں مثالیں ہیں۔ تھوڑے سے عرصہ میں انھوں نے محیرالعقول کارنامے انجام دئیے ہیں۔
علامہ ابن الجوزی فرماتے ہیں کہ میری پہلی تصنیف اس وقت ہوئی ہے جب میری عمر تقریباً تیرہ برس کی تھی۔ آپ کے پوتے ابوالمظفر کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دادا سے آخری عمر میں برسرمنبر یہ کہتے سنا ہے کہ میری ان انگلیوں نے دوہزار جلدیں لکھی ہیں۔ میرے ہاتھ پر ایک لاکھ آدمیوں نے توبہ کی ہے اور بیس ہزار یہود ونصاریٰ مسلمان ہوئے ہیں، علامہ موصوف کی تصانیف کو دیکھ کر علامہ ذہبی کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ کسی عالم نے ایسی تصنیفات کیں جیسی آپ نے کیں، جن قلموں سے شیخ نے حدیث شریف کی کتابیں لکھی تھی، ان کاتراشہ جمع کرتے گئے تھے۔ جب وہ وفات پانے لگے تو وصیت کی کہ میرے غسل کا پانی اسی تراشے سے گرم کیا جائے چنانچہ جس پانی سے ان کو غسل دیاگیااس کے نیچے وہی پاک ایندھن جلایاگیا تھا۔
عام حالت میں بسر کی زندگی تونے تو کیا
کچھ تو ایسا کرکہ عالم بھر میں افسانہ رہے
ابن جریر طبری کے حالات میں صاحب البدایہ والنہایہ نے لکھا ہے ”رُوِیَ عَنْہ اَنَّہ مَکَثَ اَرْبِعِیْنَ سَنَةً یَکْتُبُ وَکُلَّ یَوْمٍ یَکْتُبُ اَرْبَعِیْنَ وَرَقَةً“ کہ وہ مسلسل چالیس سال تک لکھتے رہے اور روزانہ چالیس ورق لکھتے تھے۔ (البدایہ والنہایہ)
درس نظامی کی مشہور اور معروف کتاب ”تفسیر جلالین شریف“ کو اس کے مصنف علامہ سیوطی نے بیس بائیس سال کی عمر میں بہت قلیل مدت میں یعنی صرف چالیس روز میں لکھی ہے اور آج پورے سال میں بڑی مشکل سے پڑھی جاتی ہے۔
علامہ نووی نے بستان میں ایک معتمد شخص سے نقل کیا ہے کہ میں نے امام غزالی کی تصانیف اور ان کی عمر کا حساب لگایا تو روزانہ اوسط چار کراسہ پڑا، کراسہ چار صفحوں کا ہوتا ہے یعنی سولہ صفحے روزانہ ہوئے، اور علامہ طبری، ابن جوزی اور علامہ سیوطی کی تصنیفات کاروزانہ اوسط اس سے بھی زیادہ ہے۔ (ظفر المحصلین)
حضرت مولانا عبدالحئی صاحب فرنگی محلی کے حالات میں ہے کہ عنفوان شباب کی سترہ سالہ عمر ہی میں تحصیل علوم سے فراغت پاکر مسند درس پر فائز ہوگئے تھے اور ہر فن میں کامل دسترس رکھتے تھے، علم حدیث ہوکہ علم اسناد و رجال، علم تفسیر ہوکہ علم فقہ وفتاویٰ، فلسفہ ہوکہ ریاضی وہیئت ان تمام علوم میں آپ کی بیش بہا تصانیف کا ذخیرہ موجود ہیں جن کی تعداد بقول شیخ ابوالفتاح ابوغدہ کے ایک سو بیس ہے اور آپ کی عمر صرف انتالیس سال ہے، اتنی قلیل عمر میں دوسرے مشاغل کے ساتھ اس قدر تصانیف عطیہٴ خداوندی ہے، آپ کے سوانح نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر آپ کی تصانیف کے صفحات کو آپ کے ایام زندگی پر تقسیم کیاجاوے تو صفحات کتب ایام زندگی پر فوقیت لے جائیں گے۔ (ملخص از نفع المفتی
و
السائل)
بلوغ کے بعد سے آپ کی زندگی پر تصانیف کو تقسیم کا اندازہ لگایا گیا تو ہر دو ماہ اور بارہ تیرہ روز پر ایک تصنیف ہوتی ہے جب کہ ہر تصنیف کا اوسط ایک سو اٹھارہ صفحات سے زیادہ نکلتا ہے۔
ایک جگہ شیخ جمال الدین اپنا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَقَدْ اِتَّفَقَ لِی بِحَمْدِہِ تَعَالٰی قِرَائَةَ صَحِیْح مُسْلِمْ بِتَمَامِہِ رِوَایَةً وَدرَایَةً فِی اَرْبَعِیْنَ یَوْمًا وَقِرَأةَ سُنَنِ اِبْنِ مَاجَہ کَذٰلِکَ فِی وَاحِدٍ وَعِشْرِیْنَ یَوْمًا وَقِرَأَةَ الْمُوٴَطَّا کَذٰلِکَ فِی تِسْعَةَ عَشَرَ یَوْمًا وَتَقْرِیْبَ التَّہْذِیْبِ مَعَ تَصْحِیْحِ سَہْوِ الْقَلَمِ فِیْہِ وَتَحْشِیَتِہ فِی نَحْوِ عَشَرَةِ اَیَّامٍ فَدَعْ عَنْکَ الْکَسْلَ وَاحْرِصْ عَلٰی عَزِیْزِ وَقْتِکَ بِدَرْسِ الْعِلْمَ وَاِحْسَانِ الْعَمَلِ․
یعنی اللہ کے فضل سے مجھے یہ توفیق ملی کہ میں نے پوری صحیح مسلم روایة اور درایة صرف چالیس دن میں پڑھ لی، اسی طرح سنن ابن ماجہ اکیس دن میں، امام مالک کی موٴطا انیس دن میں پڑھ لی، اسی طرح تقریب التہذیب دس روز میں پڑھ ڈالی ہے، جبکہ دوران مطالعہ اس کی قلمی غلطیوں کو درست بھی کیا اور حاشیہ بھی ساتھ ساتھ لکھتا گیا، پس اے طلبہ! میں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ سستی اور کاہلی ترک کردو اور اپنے اوقات عزیز کو حصول علم اور حسن عمل کی محنتوں میں کھپاؤ۔ (اقوال سلف)
حضرت تھانوی نوراللہ مرقدہ کی شخصیت سے کون ناواقف ہے؟ آپ کی ذات کو اللہ تعالیٰ نے اس اخیر دور میں نابغہٴ روزگار بنایاتھا، آپ سے جتنا کام لیاگیا بہت کم لوگوں سے لیاگیا ہوگا، ایک ہزار کے قریب آپ کی تصانیف ہیں، آپ کے زبردست کارناموں کو دیکھ کر بسا اوقات یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ ایسے کارنامے کسی ایک فرد کے نہیں بلکہ کسی بڑے ادارے یا اکیڈمی کے ہیں۔
بڑی مدت میں ساقی بھیجتا ہے ایسا فرزانہ
بدل دیتا ہے جو بگڑا ہوا دستور میخانہ
حضرت الاستاذ مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم تحریر فرماتے ہیں کہ ماضی قریب میں اللہ تعالیٰ نے حکیم الامت حضرت اقدس مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ کے کاموں میں جوبرکت عطا فرمائی ہے، اس کی مثال قرون اولی میں بھی خال خال ہی نظر آتی ہے، فقہ و فتاویٰ ہو یا علوم تفسیر، اسرار وحکم ہو یاآداب معاشرت، شرح حدیث ہو یا سلوک و تصوف، علم کا کونسا گوشہ ایسا ہے جس میں آنحضرت نے کتابوں کے انبار نہیں لگادئیے مواعظ وملفوظات کا تو اتنا بڑا ذخیرہ چھوڑاہے کہ عمر نوح چاہئے اس کی سرسری سیر ہی کیلئے۔
وقت میں عجیب برکت تھی، ایک رسالہ ہے ”الابتلاء“ سولہ صفحوں کا تین گھنٹے میں ایک جلسہ میں لکھا ہے جس کی جامعیت حیرت انگیز ہے۔
ایک تقریر بحیثیت صدر مدرس میرٹھ کے ایک جلسہ میں کی تھی بتیس صفحات پر ہے جو ”دعاء الامت بداة الملت“ کے نام سے شائع ہوئی ہے، وہ صرف پانچ گھنٹے میں لکھی گئی ہے۔
فرمایا کہ مکہ معظمہ میں حضرت مرشدی حاجی امداد اللہ صاحب کے حکم سے کتاب ”تنویر“ کا ترجمہ لکھا کرتا تھا، وہ حضرت کو سنا بھی دیتا تھا، ایک بار حسب معمول سنایا تو حضرت نے دریافت فرمایا کتنی دیر میں لکھا ہے؟ میں نے عرض کیا اتنے وقت میں لکھا ہے تو فرمایا کہ اتنے سے وقت میں کوئی بھی اتنا مضمون نہیں لکھ سکتا اور بہت دعائیں دیں۔
$ $ $
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ8، جلد: 90 ،رجب 1427 ہجری مطابق اگست2006ء
======
کشکول اردو
https://tlgrm.me/kashkoleurdu
السائل)
بلوغ کے بعد سے آپ کی زندگی پر تصانیف کو تقسیم کا اندازہ لگایا گیا تو ہر دو ماہ اور بارہ تیرہ روز پر ایک تصنیف ہوتی ہے جب کہ ہر تصنیف کا اوسط ایک سو اٹھارہ صفحات سے زیادہ نکلتا ہے۔
ایک جگہ شیخ جمال الدین اپنا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَقَدْ اِتَّفَقَ لِی بِحَمْدِہِ تَعَالٰی قِرَائَةَ صَحِیْح مُسْلِمْ بِتَمَامِہِ رِوَایَةً وَدرَایَةً فِی اَرْبَعِیْنَ یَوْمًا وَقِرَأةَ سُنَنِ اِبْنِ مَاجَہ کَذٰلِکَ فِی وَاحِدٍ وَعِشْرِیْنَ یَوْمًا وَقِرَأَةَ الْمُوٴَطَّا کَذٰلِکَ فِی تِسْعَةَ عَشَرَ یَوْمًا وَتَقْرِیْبَ التَّہْذِیْبِ مَعَ تَصْحِیْحِ سَہْوِ الْقَلَمِ فِیْہِ وَتَحْشِیَتِہ فِی نَحْوِ عَشَرَةِ اَیَّامٍ فَدَعْ عَنْکَ الْکَسْلَ وَاحْرِصْ عَلٰی عَزِیْزِ وَقْتِکَ بِدَرْسِ الْعِلْمَ وَاِحْسَانِ الْعَمَلِ․
یعنی اللہ کے فضل سے مجھے یہ توفیق ملی کہ میں نے پوری صحیح مسلم روایة اور درایة صرف چالیس دن میں پڑھ لی، اسی طرح سنن ابن ماجہ اکیس دن میں، امام مالک کی موٴطا انیس دن میں پڑھ لی، اسی طرح تقریب التہذیب دس روز میں پڑھ ڈالی ہے، جبکہ دوران مطالعہ اس کی قلمی غلطیوں کو درست بھی کیا اور حاشیہ بھی ساتھ ساتھ لکھتا گیا، پس اے طلبہ! میں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ سستی اور کاہلی ترک کردو اور اپنے اوقات عزیز کو حصول علم اور حسن عمل کی محنتوں میں کھپاؤ۔ (اقوال سلف)
حضرت تھانوی نوراللہ مرقدہ کی شخصیت سے کون ناواقف ہے؟ آپ کی ذات کو اللہ تعالیٰ نے اس اخیر دور میں نابغہٴ روزگار بنایاتھا، آپ سے جتنا کام لیاگیا بہت کم لوگوں سے لیاگیا ہوگا، ایک ہزار کے قریب آپ کی تصانیف ہیں، آپ کے زبردست کارناموں کو دیکھ کر بسا اوقات یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ ایسے کارنامے کسی ایک فرد کے نہیں بلکہ کسی بڑے ادارے یا اکیڈمی کے ہیں۔
بڑی مدت میں ساقی بھیجتا ہے ایسا فرزانہ
بدل دیتا ہے جو بگڑا ہوا دستور میخانہ
حضرت الاستاذ مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم تحریر فرماتے ہیں کہ ماضی قریب میں اللہ تعالیٰ نے حکیم الامت حضرت اقدس مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ کے کاموں میں جوبرکت عطا فرمائی ہے، اس کی مثال قرون اولی میں بھی خال خال ہی نظر آتی ہے، فقہ و فتاویٰ ہو یا علوم تفسیر، اسرار وحکم ہو یاآداب معاشرت، شرح حدیث ہو یا سلوک و تصوف، علم کا کونسا گوشہ ایسا ہے جس میں آنحضرت نے کتابوں کے انبار نہیں لگادئیے مواعظ وملفوظات کا تو اتنا بڑا ذخیرہ چھوڑاہے کہ عمر نوح چاہئے اس کی سرسری سیر ہی کیلئے۔
وقت میں عجیب برکت تھی، ایک رسالہ ہے ”الابتلاء“ سولہ صفحوں کا تین گھنٹے میں ایک جلسہ میں لکھا ہے جس کی جامعیت حیرت انگیز ہے۔
ایک تقریر بحیثیت صدر مدرس میرٹھ کے ایک جلسہ میں کی تھی بتیس صفحات پر ہے جو ”دعاء الامت بداة الملت“ کے نام سے شائع ہوئی ہے، وہ صرف پانچ گھنٹے میں لکھی گئی ہے۔
فرمایا کہ مکہ معظمہ میں حضرت مرشدی حاجی امداد اللہ صاحب کے حکم سے کتاب ”تنویر“ کا ترجمہ لکھا کرتا تھا، وہ حضرت کو سنا بھی دیتا تھا، ایک بار حسب معمول سنایا تو حضرت نے دریافت فرمایا کتنی دیر میں لکھا ہے؟ میں نے عرض کیا اتنے وقت میں لکھا ہے تو فرمایا کہ اتنے سے وقت میں کوئی بھی اتنا مضمون نہیں لکھ سکتا اور بہت دعائیں دیں۔
$ $ $
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ8، جلد: 90 ،رجب 1427 ہجری مطابق اگست2006ء
======
کشکول اردو
https://tlgrm.me/kashkoleurdu
🌹میاں داد خاں سیاح🌹
میاں داد خان سیاح اورنگ آباد میں1830 میں پیدا ہوئے، ابتدا میں عشاق تخلص کرتے تھے۔ غالب کے شاگرد ہوئے تو انہوں نے ان کے ذوق سفر کی مناسبت سے ان کا تخلص سیاح تجویز کیا۔ 1907میں بمبئی میں وفات پائی۔
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گذرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
جاں بلب دیکھ کے مجھ کو مرے عیسیٰ نے کہا
لا دوا درد ہے یہ، کیا کروں، مر جانے دو
لال ڈورے تری آنکھوں میں جو دیکھے تو کھُلا
مئے گُل رنگ سے لبریز ہیں پیمانے دو
ٹھہرو! تیوری کو چڑھائے ہوئے جاتے ہو کدھر
دل کا صدقہ تو ابھی سر سے اتر جانے دو
منع کیوں کرتے ہو عشقِ بُتِ شیریں لب سے
کیا مزے کا ہے یہ غم دوستو غم کھانے دو
ہم بھی منزل پہ پہنچ جائیں گے مرتے کھپتے
قافلہ یاروں کا جاتا ہے اگر جانے دو
شمع و پروانہ نہ محفل میں ہوں باہم زنہار
شمع رُو نے مجھے بھیجے ہیں یہ پروانے دو
ایک عالم نظر آئے گا گرفتار تمھیں
اپنے گیسوئے رسا تا بہ کمر جانے دو
جوشِ بارش ہے ابھی تھمتے ہو کیا اے اشکو
دامنِ کوہ و بیاباں کو تو بھر جانے دو
واعظوں کو نہ کرے منع نصیحت سے کوئی
میں نہ سمجھوں گا کسی طرح سے سمجھانے دو
رنج دیتا ہے جو وہ پاس نہ جاؤ سیّاحؔ
مانو کہنے کو مرے دُور کرو جانے دو
میاں داد خان سیّاح
..........
کشکول اردو
https://tlgrm.me/kashkoleurdu
میاں داد خان سیاح اورنگ آباد میں1830 میں پیدا ہوئے، ابتدا میں عشاق تخلص کرتے تھے۔ غالب کے شاگرد ہوئے تو انہوں نے ان کے ذوق سفر کی مناسبت سے ان کا تخلص سیاح تجویز کیا۔ 1907میں بمبئی میں وفات پائی۔
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گذرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
جاں بلب دیکھ کے مجھ کو مرے عیسیٰ نے کہا
لا دوا درد ہے یہ، کیا کروں، مر جانے دو
لال ڈورے تری آنکھوں میں جو دیکھے تو کھُلا
مئے گُل رنگ سے لبریز ہیں پیمانے دو
ٹھہرو! تیوری کو چڑھائے ہوئے جاتے ہو کدھر
دل کا صدقہ تو ابھی سر سے اتر جانے دو
منع کیوں کرتے ہو عشقِ بُتِ شیریں لب سے
کیا مزے کا ہے یہ غم دوستو غم کھانے دو
ہم بھی منزل پہ پہنچ جائیں گے مرتے کھپتے
قافلہ یاروں کا جاتا ہے اگر جانے دو
شمع و پروانہ نہ محفل میں ہوں باہم زنہار
شمع رُو نے مجھے بھیجے ہیں یہ پروانے دو
ایک عالم نظر آئے گا گرفتار تمھیں
اپنے گیسوئے رسا تا بہ کمر جانے دو
جوشِ بارش ہے ابھی تھمتے ہو کیا اے اشکو
دامنِ کوہ و بیاباں کو تو بھر جانے دو
واعظوں کو نہ کرے منع نصیحت سے کوئی
میں نہ سمجھوں گا کسی طرح سے سمجھانے دو
رنج دیتا ہے جو وہ پاس نہ جاؤ سیّاحؔ
مانو کہنے کو مرے دُور کرو جانے دو
میاں داد خان سیّاح
..........
کشکول اردو
https://tlgrm.me/kashkoleurdu
🌹اردو اور فارسی میں محاورات کا اشتراک🌹
اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ "فارسی اردو کی ماں ہے" برصغیر اور فارسی کا رشتہ گزشتہ آٹھ سو برسوں پر محیط ہے۔ خاندان غلامان کی مسلم حکومت کے ساتھ ہی فارسی بھی برصغیر میں آئی۔ ایران اور دیگر فارسی بولنے والے خطوں سے اہل شعر و حکمت وادب ہندوستان کا رخ کرنے لگے اور یہاں کی سرزمین نے بھی ان کے لیے اپنی باہیں کھولیں۔ اس ارتباط سے ایک نیا تہذیبی اور لسانی منظرنامہ مرتب ہونے لگا۔ یہاں فارسی کا اثر فوری ہوا اور جامع بھی اس لیے کہ فارسی زبان میں علمی اور مذہبی کتب کی فراوانی تھی اور ہندوستان میں مذہبی تعلیم کا ذوق و شوق بھی والہانہ تھا۔ فارسی ہندوستان کی واحد علمی زبان بن کر ابھری اس لیے کہ سنسکرت کوہندوستانی پنڈتوں نے صرف مقدس علمی اور عام لوگوں کے لیے متروک زبان بنا کر چھوڑ دیا تھا۔ فارسی زبان نے جہاں اس خطے میں علمی اور ادبی ترقی کی راہ ہموار کی وہاں اس خطے کی زبانوں پر بے شمار انمنٹ نقوش اور اثرات بھی چھوڑے۔
محاورے کسی بھی زبان کا وہ سرمایہ ہوتے ہیں جو صدیوں کی پیداوارہوتے ہیں اور جس سے زبان کی وسیع دامنی اور اثر پذیری کا اندازہ ہوتا ہے۔ اردو زبان دنیا کی ان چند خوش قسمت زبانوں میں سے ایک ہے جس میں محاوروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے لیکن حیرت کا مقام یہ ہے کہ اردو محاروں کی ساخت اور پرداخت میں سب سے زیادہ حصہ فارسی زبان کا ہے اس بات سے انکار نہیں ہے کہ اردو زبان الفاظ، تراکیب، صرفی نخوی ڈھانچے میں بھی فارسی سے استفادہ کرتی رہی ہے لیکن جہاں تک محاوروں کی اشتراک کا سلسلہ ہے اس میں تو یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اردو زبان نے زیادہ تر فارسی محاروں کو یا تو کاملاً اپنایا ہے یا پھر ان محاوروں کو اپنے رنگ ڈھنگ میں اپنے قالب میں ڈھالا ہے۔ اس کے محرکات کا اگر اندازہ لگایا جائے تو ہمیں تاریخ کے اوراق پلٹنا پڑیں گے۔ اردو اور فارسی کا ابتدائی ملاپ یا تو صوفیاء کے ہاں ہوا یا پھر دربار اور حراموں میں صوفیاء کو عام لوگوں سے مخاطب ہونا تھا اور انہیں فارسی زبان پر عبول حاصل ہوتا تھا وہ اپنی بات سمجھانے کےلیے فارسی محاروں کا استعمال کرتے تھے اور دربار اور حراموں میں اپنی گفتگو کو پر اثر بنانے کے لیے فارسی محاوروں کا استعمال عام تھا یوں پورے ہندوستان میں فارسی محاورے زبان زد عام ہونے لگے۔ اردو چونکہ صوفیاء اور درباردونوں کی زیر استعمال رہی اس لیے فارسی کے ان محاوروں کا بعینہ ویسا استعمال اردو میں بھی ہونے لگا یوں اس ریت اور روایت کو اردو زبان کے ادیبوں اور شعراء نے بھی قبول کیا اور پورے اردو ادب کے ذخیرے میں فارسی محاورے محفوظ ہوگئے۔ اب تو یہ حال ہے کہ ہم میں سے بیشتر لوگ یہ تفریق بھی نہیں کرپاتے کہ یہ محاورے فارسی کے ہیں بلکہ ہم نے ان محاوروں کو اتنا لوکلائز کرلیا ہے کہ ہم ان پر اپنا حق جتانے لگے ہیں۔ ذیل میں مختلف کتابوں، لغات اور تحریروں سے کچھ محاورے جمع کیے گئے ہیں، جن کےمطالعے سے اندازہ ہوگا کہ اردو اور فارسی زبان میں محاوروں کا اشتراک کتنا ہے اور کس نوعیت کا ہے۔
........................................
اردو فارسی محاورے:
آپ زندہ، جہاں زندہ، آپ مردہ، جہاں مردہ.......... خودزندہ، جہان زندہ، خود مردہ، جہان مردہ۔
آپ کو فصیحت اور کو نصیحت.......... خودرافصیحت، دیگران رانصیحت۔
آپ کا نوکر ہوں، بینگنوں کا نوکر نہیں .......... من نوکر حاکم نہ نوکر بادنجان۔
آپ ہی بی بی، آپ ہی باندی.......... آقای خودم ھستم ونوکرخودم۔
آپ ہی مارے، آپ ہی چلائے.......... خود می زند و خود فریادمی کند۔
آج کا کام کل پر مت ٹالو.......... کارامروزبہ فردامگذار۔
اپنے کیے کا علاج نہیں.......... خود کردہ راتدبیر نیست ۔
اچھے برے میں چار انگل کا فرق ہے.......... بین خیروشر چھار انگشت فاصلہ است۔
ادھار محبت کی قینچی ہے.......... قرض مقراض محبت است۔
اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں .......... کورازخداچہ می خواھد؟ دوچشم بین۔
اندھے کودن رات برابر.......... برای کور شب و روز یکی است۔
اونٹ چڑھے کتا کاٹے.......... ختِ بد با کسی کہ یار بود ر سگ گزدش گر شترسوار بود۔
بات سے بات نکلتی ہے.......... سخن از سخن خیزد۔
بنیے کا سلام بے عرض نہیں ہوتا.......... سلام روستایی بی غرض نیست۔
بہشت ماں کے قدموں تلے ہے.......... ہشت زیرپای مادران است۔
پیسہ ہاتھ کا میل ہے.......... مال دنیا چرک دست است۔
ٹوپی سے بھی مشورہ کرنا چاہیے.......... کلاھت راقاضی کن۔
جب تک دم ہے، تب تک غم ہے.......... تا دم است، غم است۔
جہاں گل ہوگا، وہاں خار بھی ضرور ہوگا .......... ھرجاگلی است خاری درپھلوی اوست۔
جہاں گنج، وہاں رنج.......... گنج بی رنج ندیدہ است کسی۔
ضرورت ایجاد کی ماں ہے.......... احتیاج مادر اختراع است۔
من میں بسے، دسپنے دسے.......... ھمہ جاش سست و مست است فقط نون دونیش درست است۔
نیم حکیم خطرہ جان، نیم ملا خطرہ ایمان .......... ن
اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ "فارسی اردو کی ماں ہے" برصغیر اور فارسی کا رشتہ گزشتہ آٹھ سو برسوں پر محیط ہے۔ خاندان غلامان کی مسلم حکومت کے ساتھ ہی فارسی بھی برصغیر میں آئی۔ ایران اور دیگر فارسی بولنے والے خطوں سے اہل شعر و حکمت وادب ہندوستان کا رخ کرنے لگے اور یہاں کی سرزمین نے بھی ان کے لیے اپنی باہیں کھولیں۔ اس ارتباط سے ایک نیا تہذیبی اور لسانی منظرنامہ مرتب ہونے لگا۔ یہاں فارسی کا اثر فوری ہوا اور جامع بھی اس لیے کہ فارسی زبان میں علمی اور مذہبی کتب کی فراوانی تھی اور ہندوستان میں مذہبی تعلیم کا ذوق و شوق بھی والہانہ تھا۔ فارسی ہندوستان کی واحد علمی زبان بن کر ابھری اس لیے کہ سنسکرت کوہندوستانی پنڈتوں نے صرف مقدس علمی اور عام لوگوں کے لیے متروک زبان بنا کر چھوڑ دیا تھا۔ فارسی زبان نے جہاں اس خطے میں علمی اور ادبی ترقی کی راہ ہموار کی وہاں اس خطے کی زبانوں پر بے شمار انمنٹ نقوش اور اثرات بھی چھوڑے۔
محاورے کسی بھی زبان کا وہ سرمایہ ہوتے ہیں جو صدیوں کی پیداوارہوتے ہیں اور جس سے زبان کی وسیع دامنی اور اثر پذیری کا اندازہ ہوتا ہے۔ اردو زبان دنیا کی ان چند خوش قسمت زبانوں میں سے ایک ہے جس میں محاوروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے لیکن حیرت کا مقام یہ ہے کہ اردو محاروں کی ساخت اور پرداخت میں سب سے زیادہ حصہ فارسی زبان کا ہے اس بات سے انکار نہیں ہے کہ اردو زبان الفاظ، تراکیب، صرفی نخوی ڈھانچے میں بھی فارسی سے استفادہ کرتی رہی ہے لیکن جہاں تک محاوروں کی اشتراک کا سلسلہ ہے اس میں تو یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اردو زبان نے زیادہ تر فارسی محاروں کو یا تو کاملاً اپنایا ہے یا پھر ان محاوروں کو اپنے رنگ ڈھنگ میں اپنے قالب میں ڈھالا ہے۔ اس کے محرکات کا اگر اندازہ لگایا جائے تو ہمیں تاریخ کے اوراق پلٹنا پڑیں گے۔ اردو اور فارسی کا ابتدائی ملاپ یا تو صوفیاء کے ہاں ہوا یا پھر دربار اور حراموں میں صوفیاء کو عام لوگوں سے مخاطب ہونا تھا اور انہیں فارسی زبان پر عبول حاصل ہوتا تھا وہ اپنی بات سمجھانے کےلیے فارسی محاروں کا استعمال کرتے تھے اور دربار اور حراموں میں اپنی گفتگو کو پر اثر بنانے کے لیے فارسی محاوروں کا استعمال عام تھا یوں پورے ہندوستان میں فارسی محاورے زبان زد عام ہونے لگے۔ اردو چونکہ صوفیاء اور درباردونوں کی زیر استعمال رہی اس لیے فارسی کے ان محاوروں کا بعینہ ویسا استعمال اردو میں بھی ہونے لگا یوں اس ریت اور روایت کو اردو زبان کے ادیبوں اور شعراء نے بھی قبول کیا اور پورے اردو ادب کے ذخیرے میں فارسی محاورے محفوظ ہوگئے۔ اب تو یہ حال ہے کہ ہم میں سے بیشتر لوگ یہ تفریق بھی نہیں کرپاتے کہ یہ محاورے فارسی کے ہیں بلکہ ہم نے ان محاوروں کو اتنا لوکلائز کرلیا ہے کہ ہم ان پر اپنا حق جتانے لگے ہیں۔ ذیل میں مختلف کتابوں، لغات اور تحریروں سے کچھ محاورے جمع کیے گئے ہیں، جن کےمطالعے سے اندازہ ہوگا کہ اردو اور فارسی زبان میں محاوروں کا اشتراک کتنا ہے اور کس نوعیت کا ہے۔
........................................
اردو فارسی محاورے:
آپ زندہ، جہاں زندہ، آپ مردہ، جہاں مردہ.......... خودزندہ، جہان زندہ، خود مردہ، جہان مردہ۔
آپ کو فصیحت اور کو نصیحت.......... خودرافصیحت، دیگران رانصیحت۔
آپ کا نوکر ہوں، بینگنوں کا نوکر نہیں .......... من نوکر حاکم نہ نوکر بادنجان۔
آپ ہی بی بی، آپ ہی باندی.......... آقای خودم ھستم ونوکرخودم۔
آپ ہی مارے، آپ ہی چلائے.......... خود می زند و خود فریادمی کند۔
آج کا کام کل پر مت ٹالو.......... کارامروزبہ فردامگذار۔
اپنے کیے کا علاج نہیں.......... خود کردہ راتدبیر نیست ۔
اچھے برے میں چار انگل کا فرق ہے.......... بین خیروشر چھار انگشت فاصلہ است۔
ادھار محبت کی قینچی ہے.......... قرض مقراض محبت است۔
اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں .......... کورازخداچہ می خواھد؟ دوچشم بین۔
اندھے کودن رات برابر.......... برای کور شب و روز یکی است۔
اونٹ چڑھے کتا کاٹے.......... ختِ بد با کسی کہ یار بود ر سگ گزدش گر شترسوار بود۔
بات سے بات نکلتی ہے.......... سخن از سخن خیزد۔
بنیے کا سلام بے عرض نہیں ہوتا.......... سلام روستایی بی غرض نیست۔
بہشت ماں کے قدموں تلے ہے.......... ہشت زیرپای مادران است۔
پیسہ ہاتھ کا میل ہے.......... مال دنیا چرک دست است۔
ٹوپی سے بھی مشورہ کرنا چاہیے.......... کلاھت راقاضی کن۔
جب تک دم ہے، تب تک غم ہے.......... تا دم است، غم است۔
جہاں گل ہوگا، وہاں خار بھی ضرور ہوگا .......... ھرجاگلی است خاری درپھلوی اوست۔
جہاں گنج، وہاں رنج.......... گنج بی رنج ندیدہ است کسی۔
ضرورت ایجاد کی ماں ہے.......... احتیاج مادر اختراع است۔
من میں بسے، دسپنے دسے.......... ھمہ جاش سست و مست است فقط نون دونیش درست است۔
نیم حکیم خطرہ جان، نیم ملا خطرہ ایمان .......... ن
یم طیب خطرجان، نیم فقیہ خطر ایمان۔
وقت نہیں رہتا بات رہ جاتی ہے.......... زمستان می گذردوروسیاھی بہ زغال می ماند۔
وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا .......... دردنیا ھمیشہ بیک پاشنہ نمی گردد۔
ہرشخص کا مزاج مختلف ہوتا ہے.......... ہرکس سلیقہ ای دارد۔
ہماری بلی اور ہمیں سے میاؤں.......... ازخودم مُلا شدی برجان من بلاشدی۔
ہیرا کیچڑ میں بھی ہیرا رہتا ہے.......... دُر دَرخلاب نیز دُراست۔
یاروہی جو بھیڑ میں کام آئے .......... دوست آن باشدکہ گیردست دوست۔
یار کا غصہ بھٹار کے اوپر .......... زورش بہ خرنمی رسد پالانش رامی زند۔
مندرجہ بالا مثالیں مشتے نمونے ازخروارے ہیں، اردو اور فارسی زبان میں اشتراکات کا سلسلہ بہ ہر پہلو مضبوط ہے۔ اس کے پیچھے دراصل صدیوں کا باہمی اختلاط ہے، دونوں زبانوں نے ایک ساتھ ایک ہی ماحول میں پرورش پائی اور لسانی قربت کی وجہ سے اشتراکات کا ہونا لازم ہے، اردو محاورہ پر فارسی محاورات کا اثر بہت زیادہ ہے بیشتر محاورے تو ہو بہو وہی ہیں جو فارسی میں ہیں اور جو باقی ماندہ ہے وہ فارسی سے اختراع کردہ ہیں۔ تہذیب وتمدن اور معاشرت پر بھی اس اختلاط کا اثر پڑا ہے اور فارسی بولنے والوں کا اثر جہاں جہاں اردو بولی جاتی ہے وہاں نظر آتی ہے۔
..................................................
کشکول اردو..........
https://tlgrm.me/kashkoleurdu
وقت نہیں رہتا بات رہ جاتی ہے.......... زمستان می گذردوروسیاھی بہ زغال می ماند۔
وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا .......... دردنیا ھمیشہ بیک پاشنہ نمی گردد۔
ہرشخص کا مزاج مختلف ہوتا ہے.......... ہرکس سلیقہ ای دارد۔
ہماری بلی اور ہمیں سے میاؤں.......... ازخودم مُلا شدی برجان من بلاشدی۔
ہیرا کیچڑ میں بھی ہیرا رہتا ہے.......... دُر دَرخلاب نیز دُراست۔
یاروہی جو بھیڑ میں کام آئے .......... دوست آن باشدکہ گیردست دوست۔
یار کا غصہ بھٹار کے اوپر .......... زورش بہ خرنمی رسد پالانش رامی زند۔
مندرجہ بالا مثالیں مشتے نمونے ازخروارے ہیں، اردو اور فارسی زبان میں اشتراکات کا سلسلہ بہ ہر پہلو مضبوط ہے۔ اس کے پیچھے دراصل صدیوں کا باہمی اختلاط ہے، دونوں زبانوں نے ایک ساتھ ایک ہی ماحول میں پرورش پائی اور لسانی قربت کی وجہ سے اشتراکات کا ہونا لازم ہے، اردو محاورہ پر فارسی محاورات کا اثر بہت زیادہ ہے بیشتر محاورے تو ہو بہو وہی ہیں جو فارسی میں ہیں اور جو باقی ماندہ ہے وہ فارسی سے اختراع کردہ ہیں۔ تہذیب وتمدن اور معاشرت پر بھی اس اختلاط کا اثر پڑا ہے اور فارسی بولنے والوں کا اثر جہاں جہاں اردو بولی جاتی ہے وہاں نظر آتی ہے۔
..................................................
کشکول اردو..........
https://tlgrm.me/kashkoleurdu
🌹چند محاورے 🌹
بد اچھا ، بدنام برا۔
بھاگتے چور کی لنگوٹی سہی۔
پرہیز علاج سے بہتر ہے۔
پہلے بات کو تولو پھر منہ سے بولو۔
تندرستی ہزار نعمت ہے۔
تھوتھنا چنا،باجے گھنا۔
تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو۔
جب تک سانس تب تک آس۔
اندھوں میں کانا راجا۔
اول خویش بعد درویش۔
اونچی دکان پھیکا پکوان۔
ایک پنتھ دو کاج۔
تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔
اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گیئں کھیت۔
اپنا اپنا غیر غیر۔
ایک دن مہمان،دو دن مہمان،تیسرے دن بلائے جان۔
اپنے منہ میاں مٹھو۔
ایک اکیلا دو گیارہ۔
اتفاق میں برکت ہے۔
آج کا کام کل پر مت چھوڑو۔
آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔
آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔
آنکھ اوجھل ،پہاڑ اوجھل ۔
مال مفت ،دل بے رحم۔
کر بھلا ،ہو بھلا۔
دو ملاؤں میں مرغی حرام۔
صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔
اندھا کیا جانے بسنت کی بہار۔
اوروں کو نصیحت ،خود میاں فضیحت۔
ایک مچھلی سارے تالاب کو گندہ کردیتی ہے۔
پوری نہ سہی، تو آدھی سہی۔
ہتھیلی پر سرسوں نہیںجمتی۔
رنگ روپ پر مت جاؤ۔
خالی بیٹھے شیطانی سوجھتی ہے۔
جس کا کام اسی کو ساجھے۔
اپنی گلی میں کتا بھی شیر ہوتا ہے۔
اشرفیاں لٹیں ،کوئلہ پر مہر۔
انیک آغاز انجام بخیر۔
ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔
نیکی کر دریا میں ڈال۔
سیوہ بن میوہ نہیں۔
کوٹھی والا روئے ،چھپر والا سوئے۔
بھڑوں کے چھتے کو مت چھیڑو۔
علم ایک طاقت ہے۔
غرور کا سر نیچا۔
لوہے کو لوہا کاٹتا ہے۔
صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو اس کو بھولا نہیں کہتے۔
بھولنا کام انسان کا ،بخشنا کام رحمان کا۔
ہمت کے بغیر کچھ نہیںبنتا۔
تندرستی ہزار نعمت ہے۔
ظاہری صورت پر مت جاؤ۔
وہ ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔
دولت کے بھی پر ہوتے ہیں۔
موت کا کوئی اعتبار نہیں۔
نو نقد،نہ تیرہ ادھار۔
نہیں مختاج زیور کا، جسے خوبی خدا نے دی ۔
نیم حکیم خطرہ جان، نیم ملا خطرہ ایمان۔
وقت سب زخموں کا مرہم ہے۔
لڑائی اور محبت میں سب کچھ جائز ہے۔
مصیبت کبھی اکیلی نہیں آتی۔
دریا میں رہنا اور مگرمچھ سے بیر۔
خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔
ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔
قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے۔
جتنی چادر دیکھیے اتنے پیر پیسارئیے۔
جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔
جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں۔
جہاں چاہ ، وہاں راہ۔
جھوٹ کے پاوں کہاں۔
جیسا دیس ویسا بھیس۔
چراغ تلے اندھیرا۔
چور کی ڈاڑھی میں تنکا۔
دام بنائے کام۔
دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔
دودھ کا جلا چھاچھ کوبھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔
دوست وہ جو مصیبت میں کام آئے۔
ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔
زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو۔
ضرورت ایجاد کی ماںہے۔
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا۔
کام کو کام سکھاتا ہے۔
گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا۔
مال مفت دل بے رحم۔
اناڑی باورچی اپنی ہی انگلیاں چاٹتا ہے ۔
بُری بَہُو سے ہزار بلائیں بہتر۔
مُرغ کیلئے ہیرے کی نِسبت جَو کا دانہ بہتر ہے ۔
پڑھے نہ لکھے ، نام محمد فاضل۔
مکّہ میں رہتے ہیں مگر حج نہیں کیا۔
قاضی جی کے گھر کے چوہے بھی سیانے۔
کمبختی آئے تو اونٹ چڑھے کو کتّا کاٹے۔
آگ کہنے سے منہ نہیں جلتا۔
اللہ ملائے جوڑی ، ایک اندھا ایک کوڑھی۔
بدن پر نہ لتّا ، پان کھائیں البتہ۔
اپنا عیب بھی ہنر معلوم ہوتا ہے۔
اپنا رکھ پرایا چکھ۔
لڑے سپاہی نام سرکار کا۔
اندھا ملا ٹوٹی مسجد۔
بات کا چوکا آدمی ، ڈال کا چوکا بندر ۔
خالی میدان سے جھاڑی ہی بھلی – پہاڑ نہ ہو تو تِنکے کی اوٹ بھلی۔
..................................................
کشکول اردو
https://tlgrm.me/kashkoleurdu
بد اچھا ، بدنام برا۔
بھاگتے چور کی لنگوٹی سہی۔
پرہیز علاج سے بہتر ہے۔
پہلے بات کو تولو پھر منہ سے بولو۔
تندرستی ہزار نعمت ہے۔
تھوتھنا چنا،باجے گھنا۔
تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو۔
جب تک سانس تب تک آس۔
اندھوں میں کانا راجا۔
اول خویش بعد درویش۔
اونچی دکان پھیکا پکوان۔
ایک پنتھ دو کاج۔
تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔
اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گیئں کھیت۔
اپنا اپنا غیر غیر۔
ایک دن مہمان،دو دن مہمان،تیسرے دن بلائے جان۔
اپنے منہ میاں مٹھو۔
ایک اکیلا دو گیارہ۔
اتفاق میں برکت ہے۔
آج کا کام کل پر مت چھوڑو۔
آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔
آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔
آنکھ اوجھل ،پہاڑ اوجھل ۔
مال مفت ،دل بے رحم۔
کر بھلا ،ہو بھلا۔
دو ملاؤں میں مرغی حرام۔
صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔
اندھا کیا جانے بسنت کی بہار۔
اوروں کو نصیحت ،خود میاں فضیحت۔
ایک مچھلی سارے تالاب کو گندہ کردیتی ہے۔
پوری نہ سہی، تو آدھی سہی۔
ہتھیلی پر سرسوں نہیںجمتی۔
رنگ روپ پر مت جاؤ۔
خالی بیٹھے شیطانی سوجھتی ہے۔
جس کا کام اسی کو ساجھے۔
اپنی گلی میں کتا بھی شیر ہوتا ہے۔
اشرفیاں لٹیں ،کوئلہ پر مہر۔
انیک آغاز انجام بخیر۔
ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔
نیکی کر دریا میں ڈال۔
سیوہ بن میوہ نہیں۔
کوٹھی والا روئے ،چھپر والا سوئے۔
بھڑوں کے چھتے کو مت چھیڑو۔
علم ایک طاقت ہے۔
غرور کا سر نیچا۔
لوہے کو لوہا کاٹتا ہے۔
صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو اس کو بھولا نہیں کہتے۔
بھولنا کام انسان کا ،بخشنا کام رحمان کا۔
ہمت کے بغیر کچھ نہیںبنتا۔
تندرستی ہزار نعمت ہے۔
ظاہری صورت پر مت جاؤ۔
وہ ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔
دولت کے بھی پر ہوتے ہیں۔
موت کا کوئی اعتبار نہیں۔
نو نقد،نہ تیرہ ادھار۔
نہیں مختاج زیور کا، جسے خوبی خدا نے دی ۔
نیم حکیم خطرہ جان، نیم ملا خطرہ ایمان۔
وقت سب زخموں کا مرہم ہے۔
لڑائی اور محبت میں سب کچھ جائز ہے۔
مصیبت کبھی اکیلی نہیں آتی۔
دریا میں رہنا اور مگرمچھ سے بیر۔
خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔
ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔
قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے۔
جتنی چادر دیکھیے اتنے پیر پیسارئیے۔
جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔
جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں۔
جہاں چاہ ، وہاں راہ۔
جھوٹ کے پاوں کہاں۔
جیسا دیس ویسا بھیس۔
چراغ تلے اندھیرا۔
چور کی ڈاڑھی میں تنکا۔
دام بنائے کام۔
دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔
دودھ کا جلا چھاچھ کوبھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔
دوست وہ جو مصیبت میں کام آئے۔
ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔
زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو۔
ضرورت ایجاد کی ماںہے۔
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا۔
کام کو کام سکھاتا ہے۔
گیا وقت پھر ہاتھ نہیں آتا۔
مال مفت دل بے رحم۔
اناڑی باورچی اپنی ہی انگلیاں چاٹتا ہے ۔
بُری بَہُو سے ہزار بلائیں بہتر۔
مُرغ کیلئے ہیرے کی نِسبت جَو کا دانہ بہتر ہے ۔
پڑھے نہ لکھے ، نام محمد فاضل۔
مکّہ میں رہتے ہیں مگر حج نہیں کیا۔
قاضی جی کے گھر کے چوہے بھی سیانے۔
کمبختی آئے تو اونٹ چڑھے کو کتّا کاٹے۔
آگ کہنے سے منہ نہیں جلتا۔
اللہ ملائے جوڑی ، ایک اندھا ایک کوڑھی۔
بدن پر نہ لتّا ، پان کھائیں البتہ۔
اپنا عیب بھی ہنر معلوم ہوتا ہے۔
اپنا رکھ پرایا چکھ۔
لڑے سپاہی نام سرکار کا۔
اندھا ملا ٹوٹی مسجد۔
بات کا چوکا آدمی ، ڈال کا چوکا بندر ۔
خالی میدان سے جھاڑی ہی بھلی – پہاڑ نہ ہو تو تِنکے کی اوٹ بھلی۔
..................................................
کشکول اردو
https://tlgrm.me/kashkoleurdu
🌹انتخاب حفیظ ہوشیار پوری🌹
........................................
محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے
میں اکثر سوچتا ہوں پھول کب تک
شریک ِ گریۂ شبنم نہ ہوں گے
ذرا دیر آشنا چشم ِ کرم ہے
ستم ہی عشق میں پیہم نہ ہوں گے
دلوں کی اُلجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
زمانے بھر کے غم یا اِک ترا غم
یہ غم ہو گا تو کتنے غم نہ ہوں گے
اگر تو اتفاقاً مل بھی جائے
تری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے
حفیظ اُن سے میں جتنا بدگماں ہوں
وہ مجھ سے اس قدر برہم نہ ہوں گے
........................................
مجھے کس طرح یقیں ہو کہ بدل گیا زمانہ
وہی آہ صبح گاہی، وہی گریۂ شبانہ
تب و تاب یک نفس تھا غمِ مستعارِ ہستی
غمِ عشق نے عطا کی مجھے عُمرِ جاودانہ
کوئی بات ہے ستمگر کہ میں جی رہا ہوں اب تک
تری یاد بن گئی ہے مری زیست کا بہانہ
میں ہوں اور زندگی سے گلۂ گریز پائی
کہ ابھی دراز تر ہے مرے شوق کا ترانہ
جو اسیر رنگ و بو ہوں تو مرا قصور یارب!
مجھے تو نے کیوں دیا تھا یہ فریب آب و دانہ
تو جو قہر پر ہو مائل تو ڈبو دے موجِ ساحل
ترا لطف ہو جو شامل تو بھنور بھی آشیانہ
مرے نالوں سے غرض کیا تیری نغمہ خوانیوں کو
یہ صدائے بے نوائی، وہ نوائے دولتانہ
..............................
تغافل کا کروں ان سے گلہ کیا
وہ کیا جانیں جفا کیا ہے وفا کیا؟
محبت میں تمیزِ دشمن و دوست!
یہاں ناآشنا کیا، آشنا کیا
زمانے بھر سے میںکھو گیا ہوں
تمہیں پا کر مجھے آخر ملا کیا
پھریں مجھ سے زمانے کی نگاہیں
پھری مجھ سے نگاہِ آشنا کیا
وفا کے مدّعی! افسوس افسوس!
تجھے بھی بھول جانا آگیا کیا
نہ مانی ہے نہ مانیں گے تری بات
حفیظ ان سے تقاضائے وفا کیا
....................
غم دینے والا شاد رہے، پہلو میں ہجومِ غم ہی سہی
لب اُن کے تبسّم ریز رہیں، آنکھیں میری پُر نم ہی سہی
گر جذبِ عشق سلامت ہے ، یہ فرق بھی مٹنے والا ہے
وہ حُسن کی اک دنیا ہی سہی، میں حیرت کا عالم ہی سہی
ان مست نگاہوں کے آگے، پینے کا ذکر نہ کر ساقی
میخانہ ترا جنّت ہی سہی، پیمانہ جامِ جم ہی سہی
ملتا نہیں جب مونس کوئی اس وقت یہی یاد آتا ہے
اپنا دل پھر بھی اپنا ہے خو کردہ ذوقِ رم ہی سہی
جب دونوں کا انجام ہے اک، پھر چوں و چرا سے کیا حاصل
تدبیر کا میں قائل ہی سہی، تقدیر کا تو محرم ہی سہی
بندوں کے ڈر سے تجھے پوجوں، میں ایسی ریا سے باز آیا
دل میں ہے خوف ترا یارب! سر پائے صنم پر خم ہی سہی
آغازِ محبت دیکھ لیا، انجامِ محبت کیا ہوگا!
قسمت میں حفیظِ بیکس کی آوارگی، پیہم ہی سہی
....................
غم سے گر آزاد کرو گے
اور مجھے ناشاد کرو گے
تم سے اور اُمید وفا کی؟
تم اور مجھ کو یاد کر وگے؟
ویراں ہے آغوشِ محبت
کب اس کو آباد کرو گے؟
عہدِ وفا کو بھولنے والو
تم کیا مجھ کو یاد کرو گے
آخر وہ ناشاد رہے گا
تم جس دل کو شاد کرو گے
میری وفائیں اپنی جفائیں
یاد آئیں گی یاد کرو گے
میری طرح سے تم بھی اک دن
تڑپو گے، فریاد کرو گے
ختم ہوئے انداز جفا کے
اور ابھی برباد کرو گے
کون پھر اُس کو شاد کرے گا
جس کو تم ناشاد کرو گے
رہنے بھی دو عذرِ جفا کو
اور ستم ایجاد کرو گے
دادِ وفا سمجھیں گے اس کو
ہم پر جو بیداد کرو گے
دیکھو! ہم کو بھول نہ جانا
بھولو گے تو یاد کرو گے
لے کر نام حفیظ کسی کا
کب تک یوں فریاد کرو گے
..............................
متاعِ شیشہ کا پروردگار سنگ ہی سہی
متاعِ شیشہ پہ کب تک مدار کار گہی
بہار میں بھی وہی رنگ ہے وہی انداز
ہنوز اہلِ چمن ہیں شکار کم نگہی
فسردہ شبنم و بےنور دیدۂ نرگس
دریدہ پیرہنِ گل، ایاغِ لالہ تہی
بلند بانگ بھی ہوتے گناہ کرتے اگر
نوائے زیرِ لبی ہے ثبوتِ بے گہنی
اُس ایک بات کے افسانے بن گئے کیا کیا
جو تم کو یاد رہی اور نہ مجھ کو یاد رہی
یہ میکدے میں ہے چرچا کہ متفق ہوئے پھر
غرورِ خواجگی و انکسارِ خانقہی
لرز رہا ہے مرا دل بھی تری لَو کی طرح
میرے رفیقِ شبِ غم چراغِ صُبح گہی
حفیظ دادِ سخن ایک رسم ہے ورنہ
کوئی کوئی اُسے سمجھا جو بات میں نے کہی
ختم شد
........................................
کشکول اردو
https://tlgrm.me/kashkoleurdu
........................................
محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے
میں اکثر سوچتا ہوں پھول کب تک
شریک ِ گریۂ شبنم نہ ہوں گے
ذرا دیر آشنا چشم ِ کرم ہے
ستم ہی عشق میں پیہم نہ ہوں گے
دلوں کی اُلجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
زمانے بھر کے غم یا اِک ترا غم
یہ غم ہو گا تو کتنے غم نہ ہوں گے
اگر تو اتفاقاً مل بھی جائے
تری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے
حفیظ اُن سے میں جتنا بدگماں ہوں
وہ مجھ سے اس قدر برہم نہ ہوں گے
........................................
مجھے کس طرح یقیں ہو کہ بدل گیا زمانہ
وہی آہ صبح گاہی، وہی گریۂ شبانہ
تب و تاب یک نفس تھا غمِ مستعارِ ہستی
غمِ عشق نے عطا کی مجھے عُمرِ جاودانہ
کوئی بات ہے ستمگر کہ میں جی رہا ہوں اب تک
تری یاد بن گئی ہے مری زیست کا بہانہ
میں ہوں اور زندگی سے گلۂ گریز پائی
کہ ابھی دراز تر ہے مرے شوق کا ترانہ
جو اسیر رنگ و بو ہوں تو مرا قصور یارب!
مجھے تو نے کیوں دیا تھا یہ فریب آب و دانہ
تو جو قہر پر ہو مائل تو ڈبو دے موجِ ساحل
ترا لطف ہو جو شامل تو بھنور بھی آشیانہ
مرے نالوں سے غرض کیا تیری نغمہ خوانیوں کو
یہ صدائے بے نوائی، وہ نوائے دولتانہ
..............................
تغافل کا کروں ان سے گلہ کیا
وہ کیا جانیں جفا کیا ہے وفا کیا؟
محبت میں تمیزِ دشمن و دوست!
یہاں ناآشنا کیا، آشنا کیا
زمانے بھر سے میںکھو گیا ہوں
تمہیں پا کر مجھے آخر ملا کیا
پھریں مجھ سے زمانے کی نگاہیں
پھری مجھ سے نگاہِ آشنا کیا
وفا کے مدّعی! افسوس افسوس!
تجھے بھی بھول جانا آگیا کیا
نہ مانی ہے نہ مانیں گے تری بات
حفیظ ان سے تقاضائے وفا کیا
....................
غم دینے والا شاد رہے، پہلو میں ہجومِ غم ہی سہی
لب اُن کے تبسّم ریز رہیں، آنکھیں میری پُر نم ہی سہی
گر جذبِ عشق سلامت ہے ، یہ فرق بھی مٹنے والا ہے
وہ حُسن کی اک دنیا ہی سہی، میں حیرت کا عالم ہی سہی
ان مست نگاہوں کے آگے، پینے کا ذکر نہ کر ساقی
میخانہ ترا جنّت ہی سہی، پیمانہ جامِ جم ہی سہی
ملتا نہیں جب مونس کوئی اس وقت یہی یاد آتا ہے
اپنا دل پھر بھی اپنا ہے خو کردہ ذوقِ رم ہی سہی
جب دونوں کا انجام ہے اک، پھر چوں و چرا سے کیا حاصل
تدبیر کا میں قائل ہی سہی، تقدیر کا تو محرم ہی سہی
بندوں کے ڈر سے تجھے پوجوں، میں ایسی ریا سے باز آیا
دل میں ہے خوف ترا یارب! سر پائے صنم پر خم ہی سہی
آغازِ محبت دیکھ لیا، انجامِ محبت کیا ہوگا!
قسمت میں حفیظِ بیکس کی آوارگی، پیہم ہی سہی
....................
غم سے گر آزاد کرو گے
اور مجھے ناشاد کرو گے
تم سے اور اُمید وفا کی؟
تم اور مجھ کو یاد کر وگے؟
ویراں ہے آغوشِ محبت
کب اس کو آباد کرو گے؟
عہدِ وفا کو بھولنے والو
تم کیا مجھ کو یاد کرو گے
آخر وہ ناشاد رہے گا
تم جس دل کو شاد کرو گے
میری وفائیں اپنی جفائیں
یاد آئیں گی یاد کرو گے
میری طرح سے تم بھی اک دن
تڑپو گے، فریاد کرو گے
ختم ہوئے انداز جفا کے
اور ابھی برباد کرو گے
کون پھر اُس کو شاد کرے گا
جس کو تم ناشاد کرو گے
رہنے بھی دو عذرِ جفا کو
اور ستم ایجاد کرو گے
دادِ وفا سمجھیں گے اس کو
ہم پر جو بیداد کرو گے
دیکھو! ہم کو بھول نہ جانا
بھولو گے تو یاد کرو گے
لے کر نام حفیظ کسی کا
کب تک یوں فریاد کرو گے
..............................
متاعِ شیشہ کا پروردگار سنگ ہی سہی
متاعِ شیشہ پہ کب تک مدار کار گہی
بہار میں بھی وہی رنگ ہے وہی انداز
ہنوز اہلِ چمن ہیں شکار کم نگہی
فسردہ شبنم و بےنور دیدۂ نرگس
دریدہ پیرہنِ گل، ایاغِ لالہ تہی
بلند بانگ بھی ہوتے گناہ کرتے اگر
نوائے زیرِ لبی ہے ثبوتِ بے گہنی
اُس ایک بات کے افسانے بن گئے کیا کیا
جو تم کو یاد رہی اور نہ مجھ کو یاد رہی
یہ میکدے میں ہے چرچا کہ متفق ہوئے پھر
غرورِ خواجگی و انکسارِ خانقہی
لرز رہا ہے مرا دل بھی تری لَو کی طرح
میرے رفیقِ شبِ غم چراغِ صُبح گہی
حفیظ دادِ سخن ایک رسم ہے ورنہ
کوئی کوئی اُسے سمجھا جو بات میں نے کہی
ختم شد
........................................
کشکول اردو
https://tlgrm.me/kashkoleurdu
الکوحل کیا ہے؟
👈فتاوی دار العلوم (ترتیب جدید از حضرت مولانا مفتی محمد امین صاحب پالن پوری استاد حدیث و فقہ و مرتب فتاوی دار العلوم دیوبند ) جلد اول، ص:423، سوال نمبر :(440) رقم الحاشية :2 میں حضرت اقدس شیخ الحدیث و صدر المدرسین دار العلوم دیوبند مفتی سعید احمد پالن پوری صاحب ارقام فرماتے ہیں کہ اب تحقیق یہ آئی ہے کہ اسپرٹ کیمیکل سے بنائی جاتی ہے، شرابوں سے نہیں بنائی جاتی، پس اگر الکوحل نشہ آور ہے تو اس کا پینا حرام ہے مگر وہ پاک ہے، اگر الکوحل بدن پر لگایا گیا تو بدن کا دھونا ضروری نہیں اور عطر و ادویہ میں ملایا گیا تو عطر وغیرہ پاک ہیں. فافہم!
........................................
کشکول اردو
https://tlgrm.me/kashkoleurdu
👈فتاوی دار العلوم (ترتیب جدید از حضرت مولانا مفتی محمد امین صاحب پالن پوری استاد حدیث و فقہ و مرتب فتاوی دار العلوم دیوبند ) جلد اول، ص:423، سوال نمبر :(440) رقم الحاشية :2 میں حضرت اقدس شیخ الحدیث و صدر المدرسین دار العلوم دیوبند مفتی سعید احمد پالن پوری صاحب ارقام فرماتے ہیں کہ اب تحقیق یہ آئی ہے کہ اسپرٹ کیمیکل سے بنائی جاتی ہے، شرابوں سے نہیں بنائی جاتی، پس اگر الکوحل نشہ آور ہے تو اس کا پینا حرام ہے مگر وہ پاک ہے، اگر الکوحل بدن پر لگایا گیا تو بدن کا دھونا ضروری نہیں اور عطر و ادویہ میں ملایا گیا تو عطر وغیرہ پاک ہیں. فافہم!
........................................
کشکول اردو
https://tlgrm.me/kashkoleurdu
🌹 مجاہدین ختم نبوت 🌹
چینل جوائن کیجئے @kashkoleurdu
تحریک ختم نبوت میں لاہور کی سڑکوں پر ایک مسلمان دیوانہ وار ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگا رہا تھا۔ ایک پولیس والے نے پکڑ کر تھپڑ مارا۔ اس پر اس نے پھر ختم نبوت زندہ باد کا نعرہ لگایا۔ پولیس والے نے بندوق کا بٹ مارا، اس نے پھر نعرہ لگایا۔ وہ مارتے رہے، یہ نعرہ لگاتا رہا۔ اسے اٹھا کر گاڑی میں ڈالا، یہ زخموں سے چُور چُور پھر بھی ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگاتا رہا۔ اسے گاڑی سے اتارا گیا تو بھی وہ نعرہ لگاتا رہا۔ اسے فوجی عدالت میں لایا گیا اس نے عدالت میں آتے ہی ختم نبوت کا نعرہ لگایا۔ میجر نے کہا ایک سال سزا۔ اس نے سال کی سزا سن کر پھر ختم نبوت کا نعرہ لگایا۔ اس نے سزا دو سال کر دی، اس نے پھر نعرہ لگا دیا غرضیکہ میجر سزا بڑھاتا رہا اور یہ مسلمان نعرہ ختم نبوت بلند کرتا رہا۔ فوجی عدالت جب بیس سال پر پہنچی، دیکھا کہ بیس سال کی سزا سن کر یہ پھر بھی نعرہ سے باز نہیں آ رہا۔ تو میجر نے کہا کہ عدالت سے باہر لے جا کر ابھی اسے گولی مار دو۔ اس نے گولی کا سن کر دیوانہ وار رقص کرنا شروع کر دیا اور ساتھ ختم نبوت زندہ باد، ختم نبوت زندہ باد کے فلک شگاف ترانہ سے ایمان پرور اور وجد آفریں کیفیت طاری کر دی۔ یہ حالت دیکھ کر عدالت نے کہا کہ اسے رہا کر دو، یہ دیوانہ ہے، اس نے رہائی کا سن کر پھر نعرہ لگایا۔ ختم نبوت زندہ باد۔
(قارئینِ کرام! میں یہ ایمان پرور واقعہ لکھتے ہوئے نعرہ لگاتا ہوں اور آپ پڑھتے ہوئے نعرہ لگائیں۔ ختم نبوت زندہ باد، ختم نبوت زندہ باد، ختم نبوت زندہ باد)
تحریک ختم نبوت 53ء میں دہلی دروازہ لاہور کے باہر صبح سے عصر تک جلوس نکلتے رہے اور دیوانہ وار سینوں پر گولیاں کھا کر آقائے نامدارصلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس پر جان قربان کرتے رہے۔ عصر کے بعد جب جلوس نکلنے بند ہو گئے تو ایک اسّی سالہ بوڑھا اپنے معصوم پانچ سالہ بچے کو اپنے کندھے پر اٹھا کر لایا۔ باپ نے ختم نبوت کا نعرہ لگایا۔ معصوم بچے نے جو باپ سے سبق پڑھا تھا، اس کے مطابق زندہ باد کہا۔ دو گولیاں آئیں، اسّی سالہ بوڑھے باپ اور پانچ سالہ معصوم بچے کے سینے سے شائیں کر کے گزر گئیں، دونوں شہید ہو گئے۔ مگر تاریخ میں اس نئے باب کا اضافہ کر گئے کہ اگر آقائے نامدارصلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس پر مشکل وقت آئے تو مسلمان قوم کے اسّی سالہ بوڑھے خمیدہ کمر سے لے کر پانچ سالہ معصوم بچے تک سب جان دے کر اپنے پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کا تحفظ کرتے ہیں۔
مسافروں سے کہو رات سے شکست نہ کھائیں
میں لا رہا ہوں خود اپنے لہو سے بھر کے چراغ
حضرت مولانا عزیز الرحمن جالندھری راوی ہیں:
’’1953ء کی تحریکِ ختم نبوت میں گرفتاری کے لیے پیش ہونے والے مجاہدینِ ختمِ نبوت کو پولیس پکڑ کر کراچی سے بلوچستان کی طرف تقریباً سو میل دُور ایک مقام پر چھوڑ کر آئی، لیکن پولیس والوں کی حیرت کی انتہا نہ رہتی جب ٹھیک تین چار گھنٹوں بعد انہی کارکنوں کو وہ کراچی میں پھر جلوس نکالتے ہوئے پاتے۔ پولیس انکوائری کر کر کے تھک گئی کہ کونسی طاقت ان کو اس دُور کے جنگل سے اتنی جلدی کراچی میں پہنچا دیتی ہے؟ زمین سمیٹ دی جاتی ہے؟ غائبانہ سواری کا انتظام ہوتا ہے؟ یا اس گروہ کو لانے والی کوئی مستقل تنظیم ہے؟ بہرحال پولیس کے لیے یہ معمہ رہا، اور واقعہ یہ ہے کہ تمام کارکنوں کو جونہی دُور دراز کے جنگل میں چھوڑا جاتا، اللہ رَبّ العزّت ان کے لیے فی الفور کراچی پہنچانے کا انتظام فرما دیتے، وہ کارکن کراچی آتے ہی پھر تحریک کے الائو کو روشن کر نے میں لگ جاتے، بالآخر پولیس نے تھک کر یہ پروگرام ترک کر دیا۔‘‘
مولانا مزید فرماتے ہیں: ’’ایک دفعہ پولیس والے مجاہدینِ ختمِ نبوت کے ایک جتھے کو رات کے وقت گرفتار کر کے دُور کے ایک جنگل میں چھوڑ آئے، پولیس کے جانے کے بعد یہ مجاہد چند قدم چلے تو روشنی نظر آئی، وہاں گئے تو جنگل میں چند گھرانے آباد دیکھے، ان گھرانوں میں سے ایک آدمی باہر آیا، ان مجاہدین کو بلایا، دُعا دی، راستہ اور حفاظت کا وظیفہ بتلایا، یہ حضرات چند گھنٹوں میں کراچی پہنچ گئے۔ پولیس والے سو کر بھی نہ اُٹھے ہوں گے کہ یہ حضرات کراچی میں پھر ختمِ نبوت کے جلوس نکالنے میں مصروف ہو گئے۔ جنگل میں کونسی قوم آباد تھی؟ وہ آدمی از خود بغیر آواز دیے، کیسے رات کے وقت باہر آیا؟ کراچی کا راستہ اور حفاظت کا وظیفہ کیوں بتلایا؟ دُعا کیوں دی؟ وہ کون تھا؟ ان مجاہدین کے ساتھ ان کا یہ شفیق برتائو کیوں؟ آج تک اہلِ دُنیا کے لیے یہ معمہ ہے، مگر اہلِ نظر خوب جانتے ہیں کہ ان حضرات پر ختم نبوت کی وجہ سے اللہ رَبّ العزّت کے اِنعامات کی بارش ہو رہی تھی۔‘‘
مولانا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’تحریک ختم نبوت میں ایک طالب علم کتابیں ہاتھ میں لیے کالج جا رہا تھا۔ سامنے تحریک میں شامل لوگوں پر گولیاں چل رہی تھیں۔ کتابیں رکھ کر جلوس کی طرف
چینل جوائن کیجئے @kashkoleurdu
تحریک ختم نبوت میں لاہور کی سڑکوں پر ایک مسلمان دیوانہ وار ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگا رہا تھا۔ ایک پولیس والے نے پکڑ کر تھپڑ مارا۔ اس پر اس نے پھر ختم نبوت زندہ باد کا نعرہ لگایا۔ پولیس والے نے بندوق کا بٹ مارا، اس نے پھر نعرہ لگایا۔ وہ مارتے رہے، یہ نعرہ لگاتا رہا۔ اسے اٹھا کر گاڑی میں ڈالا، یہ زخموں سے چُور چُور پھر بھی ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگاتا رہا۔ اسے گاڑی سے اتارا گیا تو بھی وہ نعرہ لگاتا رہا۔ اسے فوجی عدالت میں لایا گیا اس نے عدالت میں آتے ہی ختم نبوت کا نعرہ لگایا۔ میجر نے کہا ایک سال سزا۔ اس نے سال کی سزا سن کر پھر ختم نبوت کا نعرہ لگایا۔ اس نے سزا دو سال کر دی، اس نے پھر نعرہ لگا دیا غرضیکہ میجر سزا بڑھاتا رہا اور یہ مسلمان نعرہ ختم نبوت بلند کرتا رہا۔ فوجی عدالت جب بیس سال پر پہنچی، دیکھا کہ بیس سال کی سزا سن کر یہ پھر بھی نعرہ سے باز نہیں آ رہا۔ تو میجر نے کہا کہ عدالت سے باہر لے جا کر ابھی اسے گولی مار دو۔ اس نے گولی کا سن کر دیوانہ وار رقص کرنا شروع کر دیا اور ساتھ ختم نبوت زندہ باد، ختم نبوت زندہ باد کے فلک شگاف ترانہ سے ایمان پرور اور وجد آفریں کیفیت طاری کر دی۔ یہ حالت دیکھ کر عدالت نے کہا کہ اسے رہا کر دو، یہ دیوانہ ہے، اس نے رہائی کا سن کر پھر نعرہ لگایا۔ ختم نبوت زندہ باد۔
(قارئینِ کرام! میں یہ ایمان پرور واقعہ لکھتے ہوئے نعرہ لگاتا ہوں اور آپ پڑھتے ہوئے نعرہ لگائیں۔ ختم نبوت زندہ باد، ختم نبوت زندہ باد، ختم نبوت زندہ باد)
تحریک ختم نبوت 53ء میں دہلی دروازہ لاہور کے باہر صبح سے عصر تک جلوس نکلتے رہے اور دیوانہ وار سینوں پر گولیاں کھا کر آقائے نامدارصلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس پر جان قربان کرتے رہے۔ عصر کے بعد جب جلوس نکلنے بند ہو گئے تو ایک اسّی سالہ بوڑھا اپنے معصوم پانچ سالہ بچے کو اپنے کندھے پر اٹھا کر لایا۔ باپ نے ختم نبوت کا نعرہ لگایا۔ معصوم بچے نے جو باپ سے سبق پڑھا تھا، اس کے مطابق زندہ باد کہا۔ دو گولیاں آئیں، اسّی سالہ بوڑھے باپ اور پانچ سالہ معصوم بچے کے سینے سے شائیں کر کے گزر گئیں، دونوں شہید ہو گئے۔ مگر تاریخ میں اس نئے باب کا اضافہ کر گئے کہ اگر آقائے نامدارصلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس پر مشکل وقت آئے تو مسلمان قوم کے اسّی سالہ بوڑھے خمیدہ کمر سے لے کر پانچ سالہ معصوم بچے تک سب جان دے کر اپنے پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کا تحفظ کرتے ہیں۔
مسافروں سے کہو رات سے شکست نہ کھائیں
میں لا رہا ہوں خود اپنے لہو سے بھر کے چراغ
حضرت مولانا عزیز الرحمن جالندھری راوی ہیں:
’’1953ء کی تحریکِ ختم نبوت میں گرفتاری کے لیے پیش ہونے والے مجاہدینِ ختمِ نبوت کو پولیس پکڑ کر کراچی سے بلوچستان کی طرف تقریباً سو میل دُور ایک مقام پر چھوڑ کر آئی، لیکن پولیس والوں کی حیرت کی انتہا نہ رہتی جب ٹھیک تین چار گھنٹوں بعد انہی کارکنوں کو وہ کراچی میں پھر جلوس نکالتے ہوئے پاتے۔ پولیس انکوائری کر کر کے تھک گئی کہ کونسی طاقت ان کو اس دُور کے جنگل سے اتنی جلدی کراچی میں پہنچا دیتی ہے؟ زمین سمیٹ دی جاتی ہے؟ غائبانہ سواری کا انتظام ہوتا ہے؟ یا اس گروہ کو لانے والی کوئی مستقل تنظیم ہے؟ بہرحال پولیس کے لیے یہ معمہ رہا، اور واقعہ یہ ہے کہ تمام کارکنوں کو جونہی دُور دراز کے جنگل میں چھوڑا جاتا، اللہ رَبّ العزّت ان کے لیے فی الفور کراچی پہنچانے کا انتظام فرما دیتے، وہ کارکن کراچی آتے ہی پھر تحریک کے الائو کو روشن کر نے میں لگ جاتے، بالآخر پولیس نے تھک کر یہ پروگرام ترک کر دیا۔‘‘
مولانا مزید فرماتے ہیں: ’’ایک دفعہ پولیس والے مجاہدینِ ختمِ نبوت کے ایک جتھے کو رات کے وقت گرفتار کر کے دُور کے ایک جنگل میں چھوڑ آئے، پولیس کے جانے کے بعد یہ مجاہد چند قدم چلے تو روشنی نظر آئی، وہاں گئے تو جنگل میں چند گھرانے آباد دیکھے، ان گھرانوں میں سے ایک آدمی باہر آیا، ان مجاہدین کو بلایا، دُعا دی، راستہ اور حفاظت کا وظیفہ بتلایا، یہ حضرات چند گھنٹوں میں کراچی پہنچ گئے۔ پولیس والے سو کر بھی نہ اُٹھے ہوں گے کہ یہ حضرات کراچی میں پھر ختمِ نبوت کے جلوس نکالنے میں مصروف ہو گئے۔ جنگل میں کونسی قوم آباد تھی؟ وہ آدمی از خود بغیر آواز دیے، کیسے رات کے وقت باہر آیا؟ کراچی کا راستہ اور حفاظت کا وظیفہ کیوں بتلایا؟ دُعا کیوں دی؟ وہ کون تھا؟ ان مجاہدین کے ساتھ ان کا یہ شفیق برتائو کیوں؟ آج تک اہلِ دُنیا کے لیے یہ معمہ ہے، مگر اہلِ نظر خوب جانتے ہیں کہ ان حضرات پر ختم نبوت کی وجہ سے اللہ رَبّ العزّت کے اِنعامات کی بارش ہو رہی تھی۔‘‘
مولانا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’تحریک ختم نبوت میں ایک طالب علم کتابیں ہاتھ میں لیے کالج جا رہا تھا۔ سامنے تحریک میں شامل لوگوں پر گولیاں چل رہی تھیں۔ کتابیں رکھ کر جلوس کی طرف