آنکھوں میں کیسی ُاتری ہیں
کہ خواب بھی میرے ُرخصت ہیں، رتجگا بھی گیا
48
يہ جو صدوں سے وفا کرتا ہوں
ميں تيرا کون ہوا کرتا ہوں
ديکھ کر کوئ بھی رستہ
تيرے آنے کی دعا کرتا ہوں
49
یاد کا پھر کوئی دروازہ کھلا آ خر شب
دل میں بکھری کوئی خوشبوئے قبا آخر شب
50
یہ ُسخن جو ہم نے رقم کئے، یہ ہیں بس ورق تیری یاد کے
کوئی لمحہ ُصبح وصال کا، کئی شام ہجر کی ُمدّتیں
51
یہ جو سرگشتہ سے پھرتے ہیں کتابوں والے
ان سے مت مل کہ انہیں روگ ہیں خوابوں والے
52
یہی دل تھا کہ ترستا تھا مراسم کے لئے
اب یہی ترکِ تعلق کے بہانے مانگے
53
یہ کس کے سوگ میں شوریدہ حال پھرتا ھوں
وہ کون شخص تھا ایسا کہ مر گیا مجھ میں
وہ ساتھ تھا تو عجب دھوپ چھاؤں رہتی تھی
بس اب تو ایک ہی موسم ٹھہر گیا مجھ میں
54
يا د ماضی عذاب ہے يا رب
چھين لے مجھ سے حافظہ ميرا
56
یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
ان میں کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں
57
یکایک یوں نہیں ہوتے ہیں پیارے جان کے لاگو
کبھی آدم ہی سے ہوجاتی ہے تقصیر بھی آخر
58
یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
59
ہوا آج اپنے زخم پنہاں کرکے چهوڑوں گا
لہو رو رو کے محفل کو گلستاں کرکے چهوڑوں گا
( علامہ اقبال )
60
یہ کیسا جبر ہے، حد نگاہ بھی تم ہو
نظر اٹھا کے جو دیکھوں،نظر نہ آؤ مجھے
(ادا جعفری)
61
یہ میرا لہو وہ تیرا لہو، یہ میرا گھر وہ تیرا ہے
جو آگ لگی ہے دونوں میں اب جاتے جاتے بجھا جائیں
62
یہ ڈھیر نہیں ہے مٹی کا اک سالک تھک کر سویا ہے
کچھ اوس گرا دو پلکوں سے کچھ پھول یہاں لہرا جائیں
(سالک لکھنوی)
63
یوں ہی بڑھتا رہے میرا شوقِ سفر
ہم سفر کوئی آشفتہ سر چاہیے
64
یہ جی میں تھا کہ نکل جاؤں تجھ سے دور کہیں
کہ تیرے دھیان کی بانہوں نے مجھ کو گھیر لیا
65
یوں گزرتی ہے رگ و پے سے تری یاد کی لہر
جیسے زنجیر چھنک اٹھتی ہے زندانی کی
66
یہ ممکن ہی نہیں ہے عاشقی میں
کسی کی ناز برداری نہ کرنا
67
یاں جب آویزش ہی ٹہری ہے تو ذرّے چھوڑ کر
آدمی خورشید سے دست گریباں کیوں نہ ہو
68
یا محمد۔! آپ کی کچھ ایسی یاد آئی کہ بس
میری روحِ مضطرب نے وہ خوشی پائی کہ بس
( عبد العلیم شاہینؔ )
69
یوں بھی نہیں کہ پاس ہے میرے وہ ہم نفس
یہ بھی غلط کہ مجھ سے جدا ہو گیا وہ شخص
70
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا
( مرزا غالب )
71
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا
( مرزا غالب )
72
یوں تو سید بهی ہو، مرزا بهی ہو، افغاں بهی ہو
تم سبهی کچھ ہو بتاؤ تو مسلماں بهی ہو
73
یہ بھی ممکن ہے کہ اک دن وہ پشیماں ہو کر
تیرے پاس آئے، زمانے سے کنارا کر لے
74
یوں توساقی، ہرطرح کی، تیرے میخانے میں ہے
وہ بھی تھوڑی سی، جو اُن آنکھوں کے پیمانے میں ہے
75
یاد ایّامے، کہ جب تھا ہرنَفَس اِک زندگی!
زندگی اب ہر نَفَس کے ساتھ مرجانے میں ہے
76
یہ کِس کے آستاں پر مجھ کو ذوقِ سجدہ لے آیا
کہ آج اپنی جبِیں، اپنی جبِیں معلوُم ہوتی ہے
77
یہ وہ منزل ہے کہ الیاس بھی گم خضر بھی گم
ہائے آوارگیٔ شوق کدھر سے گزرے
78
یہ وفا کی سخت راہیں ، یہ تمہارے پائے نازک
نہ لو انتقام مجھ سے ، مرے ساتھ ساتھ چل کے
79
یہ عزم ہے نفرت کے کانٹوں کو کچل کر ہم
دنیا کو محبت کا گل زار بنا دیں گے
80
یہ کس کی آہ لگی، گھر کوئی نہیں ملتا
ہر اک مکان ہے خود، سب کی راہ دیکھنے کو
81
يہاں بھی تو وہاں بھی تو ، زميں تيری فلک تيرا
کہيں ہم نے پتہ پايا نہ ہر گز آج تک تيرا
82
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
( مظفر رزمی )
83
یہ طلِسمِ حُسنِ خیال ہے، کہ فریب فصلِ بہار کے
کوئی جیسے پُھولوں کی آڑ میں ابھی چُھپ گیا ہے پُکار کے
( سُرُور بارہ بنکوی )
84
یوں توساقی، ہرطرح کی، تیرے میخانے میں ہے
وہ بھی تھوڑی سی، جو اُن آنکھوں کے پیمانے میں ہے
85
یارب دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرمادے، جو روح کو تڑپادے
( علامہ اقبال )
86
یقیں مکم ، عمل پیہم ، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں، یہ مردوں کی شمسیریں
( علامہ اقبال )
87
یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مُدعی کے واسطے دارو رَسن کہاں
88
یہ پکار سارے چمن میں تھی' وہ سحر ہوئی وہ سحر ہوئی
میرے آشیاں سے دھواں اٹھا تو مجھے بھی اسکی خبر ہو
( کلیم عاجز )
89
یہ ستم کی محفل ناز ہے کلیمؔ اس کو اور سجائے جا
وہ دکھائیں رقص ستم گری تو غزل کا ساز بجائے جا
( کلیم عاجز )
90
یہ طرز خاص ہے کوئی کہاں سے لائے گا
جو ہم کہیں گے کسی سے کہا نہ جائے گا
( کلیم عاجز )
91
یہ وعظ وفاداری عاجزؔ نہ بدل دینا
وہ زخم تجھے دیں گے تم ان کو غزل دینا
( کلیم عاجز )
92
یک نظر بیش نہیں فُرصتِ ہستی غافل
گرمئِ بزم ہے اِک رقصِ شرر ہونے تک
93
یاد ہیں غالب ! تُجھے وہ دن کہ وجدِ ذوق میں
زخم سے گرتا ، تو
کہ خواب بھی میرے ُرخصت ہیں، رتجگا بھی گیا
48
يہ جو صدوں سے وفا کرتا ہوں
ميں تيرا کون ہوا کرتا ہوں
ديکھ کر کوئ بھی رستہ
تيرے آنے کی دعا کرتا ہوں
49
یاد کا پھر کوئی دروازہ کھلا آ خر شب
دل میں بکھری کوئی خوشبوئے قبا آخر شب
50
یہ ُسخن جو ہم نے رقم کئے، یہ ہیں بس ورق تیری یاد کے
کوئی لمحہ ُصبح وصال کا، کئی شام ہجر کی ُمدّتیں
51
یہ جو سرگشتہ سے پھرتے ہیں کتابوں والے
ان سے مت مل کہ انہیں روگ ہیں خوابوں والے
52
یہی دل تھا کہ ترستا تھا مراسم کے لئے
اب یہی ترکِ تعلق کے بہانے مانگے
53
یہ کس کے سوگ میں شوریدہ حال پھرتا ھوں
وہ کون شخص تھا ایسا کہ مر گیا مجھ میں
وہ ساتھ تھا تو عجب دھوپ چھاؤں رہتی تھی
بس اب تو ایک ہی موسم ٹھہر گیا مجھ میں
54
يا د ماضی عذاب ہے يا رب
چھين لے مجھ سے حافظہ ميرا
56
یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
ان میں کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں
57
یکایک یوں نہیں ہوتے ہیں پیارے جان کے لاگو
کبھی آدم ہی سے ہوجاتی ہے تقصیر بھی آخر
58
یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
59
ہوا آج اپنے زخم پنہاں کرکے چهوڑوں گا
لہو رو رو کے محفل کو گلستاں کرکے چهوڑوں گا
( علامہ اقبال )
60
یہ کیسا جبر ہے، حد نگاہ بھی تم ہو
نظر اٹھا کے جو دیکھوں،نظر نہ آؤ مجھے
(ادا جعفری)
61
یہ میرا لہو وہ تیرا لہو، یہ میرا گھر وہ تیرا ہے
جو آگ لگی ہے دونوں میں اب جاتے جاتے بجھا جائیں
62
یہ ڈھیر نہیں ہے مٹی کا اک سالک تھک کر سویا ہے
کچھ اوس گرا دو پلکوں سے کچھ پھول یہاں لہرا جائیں
(سالک لکھنوی)
63
یوں ہی بڑھتا رہے میرا شوقِ سفر
ہم سفر کوئی آشفتہ سر چاہیے
64
یہ جی میں تھا کہ نکل جاؤں تجھ سے دور کہیں
کہ تیرے دھیان کی بانہوں نے مجھ کو گھیر لیا
65
یوں گزرتی ہے رگ و پے سے تری یاد کی لہر
جیسے زنجیر چھنک اٹھتی ہے زندانی کی
66
یہ ممکن ہی نہیں ہے عاشقی میں
کسی کی ناز برداری نہ کرنا
67
یاں جب آویزش ہی ٹہری ہے تو ذرّے چھوڑ کر
آدمی خورشید سے دست گریباں کیوں نہ ہو
68
یا محمد۔! آپ کی کچھ ایسی یاد آئی کہ بس
میری روحِ مضطرب نے وہ خوشی پائی کہ بس
( عبد العلیم شاہینؔ )
69
یوں بھی نہیں کہ پاس ہے میرے وہ ہم نفس
یہ بھی غلط کہ مجھ سے جدا ہو گیا وہ شخص
70
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا
( مرزا غالب )
71
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا
( مرزا غالب )
72
یوں تو سید بهی ہو، مرزا بهی ہو، افغاں بهی ہو
تم سبهی کچھ ہو بتاؤ تو مسلماں بهی ہو
73
یہ بھی ممکن ہے کہ اک دن وہ پشیماں ہو کر
تیرے پاس آئے، زمانے سے کنارا کر لے
74
یوں توساقی، ہرطرح کی، تیرے میخانے میں ہے
وہ بھی تھوڑی سی، جو اُن آنکھوں کے پیمانے میں ہے
75
یاد ایّامے، کہ جب تھا ہرنَفَس اِک زندگی!
زندگی اب ہر نَفَس کے ساتھ مرجانے میں ہے
76
یہ کِس کے آستاں پر مجھ کو ذوقِ سجدہ لے آیا
کہ آج اپنی جبِیں، اپنی جبِیں معلوُم ہوتی ہے
77
یہ وہ منزل ہے کہ الیاس بھی گم خضر بھی گم
ہائے آوارگیٔ شوق کدھر سے گزرے
78
یہ وفا کی سخت راہیں ، یہ تمہارے پائے نازک
نہ لو انتقام مجھ سے ، مرے ساتھ ساتھ چل کے
79
یہ عزم ہے نفرت کے کانٹوں کو کچل کر ہم
دنیا کو محبت کا گل زار بنا دیں گے
80
یہ کس کی آہ لگی، گھر کوئی نہیں ملتا
ہر اک مکان ہے خود، سب کی راہ دیکھنے کو
81
يہاں بھی تو وہاں بھی تو ، زميں تيری فلک تيرا
کہيں ہم نے پتہ پايا نہ ہر گز آج تک تيرا
82
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
( مظفر رزمی )
83
یہ طلِسمِ حُسنِ خیال ہے، کہ فریب فصلِ بہار کے
کوئی جیسے پُھولوں کی آڑ میں ابھی چُھپ گیا ہے پُکار کے
( سُرُور بارہ بنکوی )
84
یوں توساقی، ہرطرح کی، تیرے میخانے میں ہے
وہ بھی تھوڑی سی، جو اُن آنکھوں کے پیمانے میں ہے
85
یارب دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرمادے، جو روح کو تڑپادے
( علامہ اقبال )
86
یقیں مکم ، عمل پیہم ، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں، یہ مردوں کی شمسیریں
( علامہ اقبال )
87
یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مُدعی کے واسطے دارو رَسن کہاں
88
یہ پکار سارے چمن میں تھی' وہ سحر ہوئی وہ سحر ہوئی
میرے آشیاں سے دھواں اٹھا تو مجھے بھی اسکی خبر ہو
( کلیم عاجز )
89
یہ ستم کی محفل ناز ہے کلیمؔ اس کو اور سجائے جا
وہ دکھائیں رقص ستم گری تو غزل کا ساز بجائے جا
( کلیم عاجز )
90
یہ طرز خاص ہے کوئی کہاں سے لائے گا
جو ہم کہیں گے کسی سے کہا نہ جائے گا
( کلیم عاجز )
91
یہ وعظ وفاداری عاجزؔ نہ بدل دینا
وہ زخم تجھے دیں گے تم ان کو غزل دینا
( کلیم عاجز )
92
یک نظر بیش نہیں فُرصتِ ہستی غافل
گرمئِ بزم ہے اِک رقصِ شرر ہونے تک
93
یاد ہیں غالب ! تُجھے وہ دن کہ وجدِ ذوق میں
زخم سے گرتا ، تو
میں پلکوں سے چُنتا تھا نمک
94
یا ہم کو تو عادی نہ بنا تیرگیوں کا
یا اس طرح یکلخت اجا لے دیا نہ کر
95
یک قلم کاغذِ آتش زدہ ہے صفحۂ دشت
نقشِ پا میں ہے تپِ گرمئ رفتار ہنوز
96
يہ گرم جوشياں تری گو دل سے ہوں ولے
تاثیرِ نالہ ہائے شرر بار ہے غلط
97
یہ بت جو دل میں بسائے ہیں ان کو دے توڑ
دنیا مطلب کی یارا اس کا پیچھا چھوڑ
98
یہ بھی دیکھا ہے کہ جب آ جائے غیرت کا مقام
اپنی سولی اپنے کاندھے پر اٹھا لیتے ہیں لوگ
( قتیل شفائی )
99
یہ خرابات ہے جا خیر سے اپنے گھر کو
منہ کی کِھلوائے نہ پھر تیز زبانی واعظ
100
تیری ہی زُلفِ ناز کا اب تک اسیر ہُوں
یعنی کسی کے دام میں آیا نہیں ہنوز
( جوش ملیح آبادی )
101
یہ بعد میں کُھلے گا کہ کس کس کا خُون ہوا
ہر اِک بیاں ختم، عدالت تمام شُد
94
یا ہم کو تو عادی نہ بنا تیرگیوں کا
یا اس طرح یکلخت اجا لے دیا نہ کر
95
یک قلم کاغذِ آتش زدہ ہے صفحۂ دشت
نقشِ پا میں ہے تپِ گرمئ رفتار ہنوز
96
يہ گرم جوشياں تری گو دل سے ہوں ولے
تاثیرِ نالہ ہائے شرر بار ہے غلط
97
یہ بت جو دل میں بسائے ہیں ان کو دے توڑ
دنیا مطلب کی یارا اس کا پیچھا چھوڑ
98
یہ بھی دیکھا ہے کہ جب آ جائے غیرت کا مقام
اپنی سولی اپنے کاندھے پر اٹھا لیتے ہیں لوگ
( قتیل شفائی )
99
یہ خرابات ہے جا خیر سے اپنے گھر کو
منہ کی کِھلوائے نہ پھر تیز زبانی واعظ
100
تیری ہی زُلفِ ناز کا اب تک اسیر ہُوں
یعنی کسی کے دام میں آیا نہیں ہنوز
( جوش ملیح آبادی )
101
یہ بعد میں کُھلے گا کہ کس کس کا خُون ہوا
ہر اِک بیاں ختم، عدالت تمام شُد
ل
49
وفائے دلبراں ہے اتّفاقی ورنہ اے ہمدم
اثر فریادِ دل ہائے حزیں کا کس نے دیکھا ہے
مرزا غالب
50
وہ پرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں
عشق سیتا ہے انھیں بے سوزن و تار رفو
اقبال
51
وہی آنکھ بے بہا ہے جو غمِ جہاں میں روئے
وہی جام جامِ ہے جو بغیرِ فرق چھلکے
خمار بارہ بنکوی
52
وادی کہسار میں غرق شفق ہے سحاب
لعل بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب
اقبال
53
وائے رے پروانہ کیسا چپکے جل کر رہ گیا
گرمی پہنچے کیا اچھلتا ہے سپند ہرزہ کوش
میر تقی میر
54
وائے احوال اس جفا کش کا
عاشق اپنا جسے وہ جان گیا
میر تقی میر
55
وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو
مرزا غالب
56
وادی ہستی میں کوئی ہم سفر تک بھی نہ ہو
جادہ دکھلانے کو جگنو کا شرر تک بھی نہ ہو
اقبال
57
وہی میری کم نصیبی ، وہی تیری بے نیازی
میرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی
اقبال
58
واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں
اقبال کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے
اقبال
59
واقف ہو اگر لذت بیداری شب سے
اونچی ہے ثریا سے بھی یہ خاک پر اسرار
اقبال
60
وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہمت سے
زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فردا
اقبال
61
وفاداری بہ شرطِ استواری اصلِ ایماں ہے
مَرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
مرزا غالب
62
وہ جان ہی گئے کہ ہمیں اُن سے پیار ہے
آنکھوں کی مخبری کا مزا ہم سے پوچھیے
خمار بارہ بنکوی
63
وہیں سے رات کو ظلمت ملی ہے
چمک تارے نے پائی ہے جہاں سے
اقبال
64
وہ شب درد و سوز و غم ، کہتے ہیں زندگی جسے
اس کی سحر ہے تو کہ میں ، اس کی اذاں ہے تو کہ میں
اقبال
65
واقف نہیں تم اپنی نگاہوں کے اثر سے
اس راز کو پوچھو کسی برباد نظر سے
خمار بارہ بنکوی
66
وہ آنکھ کہ ہے سرمۂ افرنگ سے روشن
پرکار و سخن ساز ہے ، نم ناک نہیں ہے
اقبال
67
وہی اک بات ہے جو یاں نفَس واں نکہتِ گل ہے
چمن کا جلوہ باعث ہے مری رنگیں نوائی کا
مرزا غالب
68
وقت کے افسوں سے تھمتا نالۂ ماتم نہیں
وقت زخم تیغ فرقت کا کوئی مرہم نہیں
اقبال
69
وہ ظالم میری ہر خواہش یہ کہہ کر ٹال جاتا ہے
دسمبر جنوری میں کوئی نینی تال جاتا ہے؟
منور رانا
70
وزارت کے لئے ہم دوستوں کا ساتھ مت چھوڑو
ادھر اقبال آتا ہے ادھر اقبال جاتا ہے
منور رانا
71
وہ فلسفے جو ہر اک آستاں کے دشمن تھے
عمل میں آئے تو خود وقفِ آستاں نکلے
ساحر لدھیانوی
72
ﻭﺍﻗﻒ ﮬﮯ ﺟﮭﻮﭦ ﮐﮯ ﻓﻦ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺁﺩﻣﯽ
ﯾﮧ ﺁﺩﻣﯽ ﺿﺮﻭﺭ ﺳﯿﺎﺳﺖ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ
راحت اندوری
73
وہ دشمن ہی سہی آواز دے اس کو محبت سے
سلیقے سے بٹھا کر دیکھ،ہڈی بیٹھ جاتی ہے
منور رانا
74
وحشی اُسے کہو جسے وحشت غزل سے ہے
انسان کی لازوال محبت غزل سے ہے
بشیر بدر
75
وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہمت سے
زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فردا
اقبال
76
وہ مرغزار کہ بیم خزاں نہیں جس میں
غمیں نہ ہو کہ ترے آشیاں سے دور نہیں
اقبال
77
وہ کل کے غم و عیش پہ کچھ حق نہیں رکھتا
جو آج خود افروز و جگر سوز نہیں ہے
اقبال
78
وہ قوم نہیں لائق ہنگامہ فردا
جس قوم کی تقدیر میں امروز نہیں ہے!
اقبال
79
وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتحِ زمانہ
جگر مراد آبادی
80
وہی چراغ بجھا جسکی لو قیامت تھی
اسی پہ ضرب پڑی جو شجر پرانا تھا
افتخار عارف
81
وہ رُلا کر ہنس نہ پایا دیر تک
جب میں رو کر مسکرایا دیر تک
نواز دیوبندی
82
وہ اور ہیں جنہیں برسات کی تمنا ہے
یہاں تو آنسؤوں کی رات دن جھما جھم ہے
83
وہ خط رقیبوں کے ہاتھ آیا،لکھا تھا جو میرے نام تو نے
کہا ں کہاں کرچکی ہے رسوا تری یہ چھوٹی سی بھول مجھ کو
قتیل شفائی
84
وہی کہیں گے جو ہوگا ہمیں بجا معلوم
بھلا کسی کو ہو معلوم یا برا معلوم
85
ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﻮ ﺁﻓﺘﺎﺏ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮬﯿﮟ
ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺭﺥ ﭘﮯ ﻧﻘﺎﺏ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮬﯿﮟ
حسرت جے پوری
86
ﻭﮦ ﭘﺎﺱ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺗﻮ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﺩﻟﺮﺑﺎ ﺧﻮﺷﺒﻮ
ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﭘﮧ ﮐﮭﻠﺘﮯ ﮔﻼﺏ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
حسرت جے پوری
87
وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی
نصیر ترابی
88
وہی ہوا نا! بچھڑنے پہ بات آ پہنچی
تمہیں کہا تھا پرانے حساب رہنے دو
89
وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے
ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گرا کر
محسن نقوی
90
ﻭﮦ ﻋﮑﺲ ﺑﻦ ﮐﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﭼﺸﻢ ِ ﺗﺮ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ
ﻋﺠﯿﺐ ﺷﺨﺺ ﮨﮯ ﭘَﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ
بسمل صابری
91
وہ فلسفے جو ہر اک آستاں کے دشمن تھے
عمل میں آئے تو خود وقفِ آستاں نکلے
ساحر لدھیانوی
92
وہ آنکھوں میں موجود اور چشم حیراں ؟
اِدھر ڈھونڈتی ہے ، اُدھر ڈھونڈتی ہے
93
وائے نادانی کہ وقت مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا،جو سنا افسانہ تھا
خواجہ میر درد
94
وہ کیا چیز ہے آہ جس کیلئے
ہر ایک چیز سے دل اٹھاکر چلے
میر تقی میر
95
وہ تیری بھی تو پہلی محبت نہ تھی قتیل
پھر کیا ہوا اگر کوئی ہرجائی بن گیا
قتیل شفائی
96
وہ
49
وفائے دلبراں ہے اتّفاقی ورنہ اے ہمدم
اثر فریادِ دل ہائے حزیں کا کس نے دیکھا ہے
مرزا غالب
50
وہ پرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں
عشق سیتا ہے انھیں بے سوزن و تار رفو
اقبال
51
وہی آنکھ بے بہا ہے جو غمِ جہاں میں روئے
وہی جام جامِ ہے جو بغیرِ فرق چھلکے
خمار بارہ بنکوی
52
وادی کہسار میں غرق شفق ہے سحاب
لعل بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب
اقبال
53
وائے رے پروانہ کیسا چپکے جل کر رہ گیا
گرمی پہنچے کیا اچھلتا ہے سپند ہرزہ کوش
میر تقی میر
54
وائے احوال اس جفا کش کا
عاشق اپنا جسے وہ جان گیا
میر تقی میر
55
وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو
مرزا غالب
56
وادی ہستی میں کوئی ہم سفر تک بھی نہ ہو
جادہ دکھلانے کو جگنو کا شرر تک بھی نہ ہو
اقبال
57
وہی میری کم نصیبی ، وہی تیری بے نیازی
میرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی
اقبال
58
واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں
اقبال کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے
اقبال
59
واقف ہو اگر لذت بیداری شب سے
اونچی ہے ثریا سے بھی یہ خاک پر اسرار
اقبال
60
وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہمت سے
زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فردا
اقبال
61
وفاداری بہ شرطِ استواری اصلِ ایماں ہے
مَرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
مرزا غالب
62
وہ جان ہی گئے کہ ہمیں اُن سے پیار ہے
آنکھوں کی مخبری کا مزا ہم سے پوچھیے
خمار بارہ بنکوی
63
وہیں سے رات کو ظلمت ملی ہے
چمک تارے نے پائی ہے جہاں سے
اقبال
64
وہ شب درد و سوز و غم ، کہتے ہیں زندگی جسے
اس کی سحر ہے تو کہ میں ، اس کی اذاں ہے تو کہ میں
اقبال
65
واقف نہیں تم اپنی نگاہوں کے اثر سے
اس راز کو پوچھو کسی برباد نظر سے
خمار بارہ بنکوی
66
وہ آنکھ کہ ہے سرمۂ افرنگ سے روشن
پرکار و سخن ساز ہے ، نم ناک نہیں ہے
اقبال
67
وہی اک بات ہے جو یاں نفَس واں نکہتِ گل ہے
چمن کا جلوہ باعث ہے مری رنگیں نوائی کا
مرزا غالب
68
وقت کے افسوں سے تھمتا نالۂ ماتم نہیں
وقت زخم تیغ فرقت کا کوئی مرہم نہیں
اقبال
69
وہ ظالم میری ہر خواہش یہ کہہ کر ٹال جاتا ہے
دسمبر جنوری میں کوئی نینی تال جاتا ہے؟
منور رانا
70
وزارت کے لئے ہم دوستوں کا ساتھ مت چھوڑو
ادھر اقبال آتا ہے ادھر اقبال جاتا ہے
منور رانا
71
وہ فلسفے جو ہر اک آستاں کے دشمن تھے
عمل میں آئے تو خود وقفِ آستاں نکلے
ساحر لدھیانوی
72
ﻭﺍﻗﻒ ﮬﮯ ﺟﮭﻮﭦ ﮐﮯ ﻓﻦ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺁﺩﻣﯽ
ﯾﮧ ﺁﺩﻣﯽ ﺿﺮﻭﺭ ﺳﯿﺎﺳﺖ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ
راحت اندوری
73
وہ دشمن ہی سہی آواز دے اس کو محبت سے
سلیقے سے بٹھا کر دیکھ،ہڈی بیٹھ جاتی ہے
منور رانا
74
وحشی اُسے کہو جسے وحشت غزل سے ہے
انسان کی لازوال محبت غزل سے ہے
بشیر بدر
75
وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہمت سے
زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فردا
اقبال
76
وہ مرغزار کہ بیم خزاں نہیں جس میں
غمیں نہ ہو کہ ترے آشیاں سے دور نہیں
اقبال
77
وہ کل کے غم و عیش پہ کچھ حق نہیں رکھتا
جو آج خود افروز و جگر سوز نہیں ہے
اقبال
78
وہ قوم نہیں لائق ہنگامہ فردا
جس قوم کی تقدیر میں امروز نہیں ہے!
اقبال
79
وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتحِ زمانہ
جگر مراد آبادی
80
وہی چراغ بجھا جسکی لو قیامت تھی
اسی پہ ضرب پڑی جو شجر پرانا تھا
افتخار عارف
81
وہ رُلا کر ہنس نہ پایا دیر تک
جب میں رو کر مسکرایا دیر تک
نواز دیوبندی
82
وہ اور ہیں جنہیں برسات کی تمنا ہے
یہاں تو آنسؤوں کی رات دن جھما جھم ہے
83
وہ خط رقیبوں کے ہاتھ آیا،لکھا تھا جو میرے نام تو نے
کہا ں کہاں کرچکی ہے رسوا تری یہ چھوٹی سی بھول مجھ کو
قتیل شفائی
84
وہی کہیں گے جو ہوگا ہمیں بجا معلوم
بھلا کسی کو ہو معلوم یا برا معلوم
85
ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﻮ ﺁﻓﺘﺎﺏ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮬﯿﮟ
ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺭﺥ ﭘﮯ ﻧﻘﺎﺏ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮬﯿﮟ
حسرت جے پوری
86
ﻭﮦ ﭘﺎﺱ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺗﻮ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﺩﻟﺮﺑﺎ ﺧﻮﺷﺒﻮ
ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﭘﮧ ﮐﮭﻠﺘﮯ ﮔﻼﺏ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
حسرت جے پوری
87
وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی
نصیر ترابی
88
وہی ہوا نا! بچھڑنے پہ بات آ پہنچی
تمہیں کہا تھا پرانے حساب رہنے دو
89
وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے
ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گرا کر
محسن نقوی
90
ﻭﮦ ﻋﮑﺲ ﺑﻦ ﮐﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﭼﺸﻢ ِ ﺗﺮ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ
ﻋﺠﯿﺐ ﺷﺨﺺ ﮨﮯ ﭘَﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ
بسمل صابری
91
وہ فلسفے جو ہر اک آستاں کے دشمن تھے
عمل میں آئے تو خود وقفِ آستاں نکلے
ساحر لدھیانوی
92
وہ آنکھوں میں موجود اور چشم حیراں ؟
اِدھر ڈھونڈتی ہے ، اُدھر ڈھونڈتی ہے
93
وائے نادانی کہ وقت مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا،جو سنا افسانہ تھا
خواجہ میر درد
94
وہ کیا چیز ہے آہ جس کیلئے
ہر ایک چیز سے دل اٹھاکر چلے
میر تقی میر
95
وہ تیری بھی تو پہلی محبت نہ تھی قتیل
پھر کیا ہوا اگر کوئی ہرجائی بن گیا
قتیل شفائی
96
وہ
کا نہیں موقع آ بیٹھ کے رو لیں
یہ فرصتِ غم بھی دلِ ناکام بہت ہے
( کلیم عاجز )
44
ہو نامِ محمد، لبِ کیفی پہ الٰہی!
جب طائرِ جاں گلشنِ ہستی سے رواں ہو
( زکی کیفی )
45
ہزاروں بار تجھ پر اے مدینہ! میں فدا ہوتا
جو بس چلتا تو مرکر بھی نہ تجھ سے میں جدا ہوتا
( مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ )
46
ہم بھلا چپ رہنے والے تھے کہیں
ہاں مگر حالات ایسے ہو گئے
( ناصر کاظمی )
47
ہائے وہ دردِ دل کہ جگر
کچھ نہیں کھلتا جس کا سبب
( جگر مرادآبادی )
48
ہجر سے شاد، وصل سے ناشاد
کیا طبیعت جگر نے پائی ہے
( جگر مرادآبادی )
49
ہمارے کارواں کو پیش ایسی رہ گزر آئی
نہ رہبر سازگار آئے نہ منزل سازگار آئی
( قمر جلال آبادی )
50
ہچکی آ آ کے کسی وقت نکل جائے گا دم
آپ کیو ں یاد کیا کرتے ہیں ہر بار مجھے
( قمر جلال آبادی )
51
ہلالِ عید بھی نکلا تھا وہ بھی آئے تھے
مگر انہی کی طرف تھی نظر زمانے کی
( قمر جلال آبادی )
52
ہوا سے جو بھی کبھی در ہلا شب وعدہ
میں سمجھا کھل گئی قسمت غریب خانے کی
( قمر جلال آبادی )
53
ہم کو تو گردشِ حالات پہ رونا آیا
رونے والے تجھے کس بات پہ رونا آیا
( سیف الدین )
54
ہر رات اپنے لطف و کرم سے ملا کرو
ہر دن کو عید جان گلے سے لگا کرو
( ولی دکنی)
55
ہر زباں پر ہے مثلِ شانہ مدام
ذکر اُس زلف کی درازی کا
( ولی دکنی )
56
ہر رنگ ترے رنگ میں ڈوبا ہوا نکلا
ہر نقش ترا نقشِ کفِ پا نظر آیا
( جگر مرادآبادی )
57
ہر جلوے کو دیکھا ترے جلووں سے منوّر
ہر بزم میں تو انجمن آرا نظر آیا
( جگر مرادآبادی )
58
ہاں سزا دے اے خدائے شوق، اے توفیقِ غم
پھر زبانِ بے ادب پر ذکر یار آ ہی گیا
( جگر مرادآبادی )
59
ہائے یہ حسنِ تصور کا فریبِ رنگ و بو
میں یہ سمجھا جیسے وہ جانِ بہار آ ہی گیا
( جگر مرادآبادی )
60
ہائے بے چارگیِ عشق کہ اس محفل میں
سر جھُکائے نہ بنے، آنکھ اٹھائے نہ بنے
( جگر مرادآبادی )
61
ہزار ترکِ تعلق کا اہتمام کیا
مگر جہاں وہ ملے دل نے اپنا کام کیا
( خمار بارہ بنکوی )
62
ہم رہے مبتلائے دیر و حرم
وہ دبے پاؤں دل میں آ بیٹھے
( خمار بارہ بنکوی )
63
ہم توبہ کر کے مر گئے قبل اجل خمار
توہینِ مے کشی کا مزا ہم سے پوچھیے
( خمار بارہ بنکوی )
64
ہزار بار ہوئے خوش بھلا کے ہم اُن کو
مزا تو یہ ہے کہ اک بار بھی بھلا نہ سکے
( خمار بارہ بنکوی )
65
ہوش جب آیا ترے جانے کے بعد
گھر میں بیابان نظر آئے ہیں
( خمار بارہ بنکوی )
66
رہنے دے انہیں ناصح تو یوں ہی اندھیرے میں
کچھ تو ہے جو دیوانے آگہی سے ڈرتے ہیں
( خمار بارہ بنکوی )
67
ہم بھی کر لیں جو روشنی گھر میں
پھر اندھیرے کہاں قیام کریں
( خمار بارہ بنکوی )
68
ہنسنے والے اب ایک کام کریں
جشن ِ گریہ کا اہتمام کریں
( خمار بارہ بنکوی )
69
ہنس کے بولے سوالِ بوسہ پر
ایسی باتوں کا یاں جواب نہیں
( مجروح )
70
ہم دل پہ یہ آفت نہ آتی اک سر مُو
پسند ہم جو نہ وہ زلفِ مشکبو کرتے
( پنڈت رتن )
71
ہوا نہ جن سے کبھی میری چشمِ تر کا علاج
وہ میرے چاک گریباں کو کیا رفو کرتے
( شعور بلگرامی )
72
ہم کو بھی ضد یہی ہے کہ تیری سحر نہ ہو
اے شب تجھے خدا کی قسم مختصر نہ ہو
( رام پرساد بسمل )
73
ہو نہ مایوس خدا سے بسملؔ
یہ بُرے دن بھی گذر جائیں گے
( رام پرساد بسمل )
74
ہم کو جب آپ بلاتے ہیں چلے آتے ہیں
آپ بھی تو کبھی آ جائیے بلوانے سے
( رام پرساد بسمل )
75
ہم اس کو دیکھ لیں گے اور وہ ہم کو نہ دیکھے گی
نگاہِ یار کیا محفل میں اتنی بے خبر ہوگی
( رام پرساد بسمل )
76
ہمارے حال پہ وہ شادماں نظر آیا
ہمیں بھی اس سے زیادہ کہاں نظر آیا
( اجمل سراج )
77
ہلاکِ بے خبری نغمۂ وجود و عدم
جہان و اہلِ جہاں سے جہاں جہاں آباد
( غالب دہلوی )
78
ہاں اس کا تقاضہ تو فقظ ایک قدم تھا
افسوس بڑھا پائے نہ ہم ایک قدم بھی
( اجمل سراج )
79
ہزار عیش قفس میں سہی وہ بات کہاں
کہ اپنا گھر ہوا کرتا ہے اپنا گھر پھر بھی!
( قمر جلال آبادی )
80
ہزار کوس پہ تُو اور یہ شام غربت کی
عجیب حال تھا پر کس سے گفتگو کرتے
( عبدالحمید عدم )
81
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
( علامہ اقبال )
82
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن
گفتار میں، کردار میں، الله کی برہان
( علامہ اقبال )
83
ہوائیں ان کی ، فضائیں ان کی ، سمندر ان کے ، جہاز ان کے
گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر ، بھنور ہے تقدیر کا بہانہ
( علامہ اقبال )
84
ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مرد درویش جس کو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ
( علامہ اقبال )
85
ہر ایک سے آشنا ہوں ، لیکن جدا جدا رسم و راہ میری
کسی کا راکب ، کسی کا مرکب ، کسی کو عبرت کا تازیانہ
( علامہ اقبال )
86
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے
( علامہ اقبال )
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پی
یہ فرصتِ غم بھی دلِ ناکام بہت ہے
( کلیم عاجز )
44
ہو نامِ محمد، لبِ کیفی پہ الٰہی!
جب طائرِ جاں گلشنِ ہستی سے رواں ہو
( زکی کیفی )
45
ہزاروں بار تجھ پر اے مدینہ! میں فدا ہوتا
جو بس چلتا تو مرکر بھی نہ تجھ سے میں جدا ہوتا
( مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ )
46
ہم بھلا چپ رہنے والے تھے کہیں
ہاں مگر حالات ایسے ہو گئے
( ناصر کاظمی )
47
ہائے وہ دردِ دل کہ جگر
کچھ نہیں کھلتا جس کا سبب
( جگر مرادآبادی )
48
ہجر سے شاد، وصل سے ناشاد
کیا طبیعت جگر نے پائی ہے
( جگر مرادآبادی )
49
ہمارے کارواں کو پیش ایسی رہ گزر آئی
نہ رہبر سازگار آئے نہ منزل سازگار آئی
( قمر جلال آبادی )
50
ہچکی آ آ کے کسی وقت نکل جائے گا دم
آپ کیو ں یاد کیا کرتے ہیں ہر بار مجھے
( قمر جلال آبادی )
51
ہلالِ عید بھی نکلا تھا وہ بھی آئے تھے
مگر انہی کی طرف تھی نظر زمانے کی
( قمر جلال آبادی )
52
ہوا سے جو بھی کبھی در ہلا شب وعدہ
میں سمجھا کھل گئی قسمت غریب خانے کی
( قمر جلال آبادی )
53
ہم کو تو گردشِ حالات پہ رونا آیا
رونے والے تجھے کس بات پہ رونا آیا
( سیف الدین )
54
ہر رات اپنے لطف و کرم سے ملا کرو
ہر دن کو عید جان گلے سے لگا کرو
( ولی دکنی)
55
ہر زباں پر ہے مثلِ شانہ مدام
ذکر اُس زلف کی درازی کا
( ولی دکنی )
56
ہر رنگ ترے رنگ میں ڈوبا ہوا نکلا
ہر نقش ترا نقشِ کفِ پا نظر آیا
( جگر مرادآبادی )
57
ہر جلوے کو دیکھا ترے جلووں سے منوّر
ہر بزم میں تو انجمن آرا نظر آیا
( جگر مرادآبادی )
58
ہاں سزا دے اے خدائے شوق، اے توفیقِ غم
پھر زبانِ بے ادب پر ذکر یار آ ہی گیا
( جگر مرادآبادی )
59
ہائے یہ حسنِ تصور کا فریبِ رنگ و بو
میں یہ سمجھا جیسے وہ جانِ بہار آ ہی گیا
( جگر مرادآبادی )
60
ہائے بے چارگیِ عشق کہ اس محفل میں
سر جھُکائے نہ بنے، آنکھ اٹھائے نہ بنے
( جگر مرادآبادی )
61
ہزار ترکِ تعلق کا اہتمام کیا
مگر جہاں وہ ملے دل نے اپنا کام کیا
( خمار بارہ بنکوی )
62
ہم رہے مبتلائے دیر و حرم
وہ دبے پاؤں دل میں آ بیٹھے
( خمار بارہ بنکوی )
63
ہم توبہ کر کے مر گئے قبل اجل خمار
توہینِ مے کشی کا مزا ہم سے پوچھیے
( خمار بارہ بنکوی )
64
ہزار بار ہوئے خوش بھلا کے ہم اُن کو
مزا تو یہ ہے کہ اک بار بھی بھلا نہ سکے
( خمار بارہ بنکوی )
65
ہوش جب آیا ترے جانے کے بعد
گھر میں بیابان نظر آئے ہیں
( خمار بارہ بنکوی )
66
رہنے دے انہیں ناصح تو یوں ہی اندھیرے میں
کچھ تو ہے جو دیوانے آگہی سے ڈرتے ہیں
( خمار بارہ بنکوی )
67
ہم بھی کر لیں جو روشنی گھر میں
پھر اندھیرے کہاں قیام کریں
( خمار بارہ بنکوی )
68
ہنسنے والے اب ایک کام کریں
جشن ِ گریہ کا اہتمام کریں
( خمار بارہ بنکوی )
69
ہنس کے بولے سوالِ بوسہ پر
ایسی باتوں کا یاں جواب نہیں
( مجروح )
70
ہم دل پہ یہ آفت نہ آتی اک سر مُو
پسند ہم جو نہ وہ زلفِ مشکبو کرتے
( پنڈت رتن )
71
ہوا نہ جن سے کبھی میری چشمِ تر کا علاج
وہ میرے چاک گریباں کو کیا رفو کرتے
( شعور بلگرامی )
72
ہم کو بھی ضد یہی ہے کہ تیری سحر نہ ہو
اے شب تجھے خدا کی قسم مختصر نہ ہو
( رام پرساد بسمل )
73
ہو نہ مایوس خدا سے بسملؔ
یہ بُرے دن بھی گذر جائیں گے
( رام پرساد بسمل )
74
ہم کو جب آپ بلاتے ہیں چلے آتے ہیں
آپ بھی تو کبھی آ جائیے بلوانے سے
( رام پرساد بسمل )
75
ہم اس کو دیکھ لیں گے اور وہ ہم کو نہ دیکھے گی
نگاہِ یار کیا محفل میں اتنی بے خبر ہوگی
( رام پرساد بسمل )
76
ہمارے حال پہ وہ شادماں نظر آیا
ہمیں بھی اس سے زیادہ کہاں نظر آیا
( اجمل سراج )
77
ہلاکِ بے خبری نغمۂ وجود و عدم
جہان و اہلِ جہاں سے جہاں جہاں آباد
( غالب دہلوی )
78
ہاں اس کا تقاضہ تو فقظ ایک قدم تھا
افسوس بڑھا پائے نہ ہم ایک قدم بھی
( اجمل سراج )
79
ہزار عیش قفس میں سہی وہ بات کہاں
کہ اپنا گھر ہوا کرتا ہے اپنا گھر پھر بھی!
( قمر جلال آبادی )
80
ہزار کوس پہ تُو اور یہ شام غربت کی
عجیب حال تھا پر کس سے گفتگو کرتے
( عبدالحمید عدم )
81
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
( علامہ اقبال )
82
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن
گفتار میں، کردار میں، الله کی برہان
( علامہ اقبال )
83
ہوائیں ان کی ، فضائیں ان کی ، سمندر ان کے ، جہاز ان کے
گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر ، بھنور ہے تقدیر کا بہانہ
( علامہ اقبال )
84
ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مرد درویش جس کو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ
( علامہ اقبال )
85
ہر ایک سے آشنا ہوں ، لیکن جدا جدا رسم و راہ میری
کسی کا راکب ، کسی کا مرکب ، کسی کو عبرت کا تازیانہ
( علامہ اقبال )
86
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے
( علامہ اقبال )
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پی
حروف تہجی : ژ ..... ڑ..... اور ..... نُون غنہ ..... سے اشعار
ترتیب داده: نور محمد ابن بشیر، ممبرا
تاریخ: ۱۷ / ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۲۰ / ستمبر ۲۰۱۶ء
۔..................................................
"ں " نون غنہ سے اک شعر...............
ں میں نکتہ لگا دیا جائے تو بنتا ہے نون
اب کے بھولےسبق تو ابو کو کروں گا فون
یاسر
........................................
..... ژ ..... سے اشعار
1
ژرف بینی تری لائق تحسین ہے مگر
ژرف تخیل ہمارا بھی ژولیدہ نہیں
یاسر
2
ژولیدگئی افکار کا شکار ہے آج کا انسان
نہ محبت نہ مروت، بیکار ہے آج کا انسان
یاسر
3
ژالہ باری ایسی ہوئی مقدر پر
پیاس منڈلانے لگی سمندر پر
4
ژالہ سا ہر اک برگ لپکتا ہے زمیں کو
کیسی یہ بھلا باغ میں برسات رکی ہے
5
ژالہ باری میں جل کے دیکھوں گا
میں جو ساون میں بھی ٹھٹھرتا ہوں
6
ژالہ باری میں چائے پینے کا
لطف تم بھی لو یار جینے کا
نون میم : نورؔمحمد ابن بشیر
7
ژ سے الفاظ تک نہیں ملتے
ژ سے اشعار میں کہوں کیسے
نون میم : نورؔمحمد ابن بشیر
8
ژ سے الفاظ جب ملے ہم کو
ژ سے اشعار کیوں نہیں کہتے
ارشد ضیا
9
ژالہ باری ایسی ہوئی حرص و ہوس کی
کھیتی وفا کی کھلنے سے پہلے اجڑ گئی
10
"ژا " سے پہلے قطار میں ہے "زا"
بعد اس کے ہے "سین " ساحر کا
نون میم : نورؔمحمد ابن بشیر
11
ژالوں نے جب سے کھلتے شگوفے دئے مجھے
ماجدؔ نجانے کد ہے مجھے کیوں صبا کے ساتھ
ماجد صدیقی
..................................................
..... ڑ..... سے اشعار
1
ڑ سے کوئی شعر اردو میں نظر آتا نہیں
اس لیے ڑ اور ژ دونوں ہی یہاں ممنوع ہیں
2
ڑے خوشبو کی طرح سے پیھلی فضاؤں میں ھوں
آج کل بے اعتیبار شھر کی ھواؤں میں ھوں،
3
ڑ کو ڑ پڑھتے ہوئے اٹکتی ہے زباں میری
خدایا اب تو کردے مشکل آساں میری
4
ڑے کہیں قرآن میں آئی نہیں
اور رسول اللہ نے فرمائی نہیں
5
ڑ سے شعر بنا کر ہم نے
حیراں سب کو کر ڈالا ہے
ابن منیب
6
ڑ بھی میری طرح ہے بدقسمت
ابتدا اس کو بھی نصیب نہیں
7
ڑ جسے کہتے ہیں حروفِ ابجد میں رضا
لفظ کوئی بھی اس سے شروع نہیں ہوتا
8
ڑ سے پہلے الف ہے اور بعد میں واؤ ہے
جائیے بازار میں اور پُوچھیئے کیا بھاؤ ہے
9
ڑ آڑُو میں ہے اور ہے جھاڑُو میں ڑ
گلی کے نُکّڑ پہ کھڑے تاڑُو میں ڑ
10
ڑ سے پہلے رب لگائیں تو ربڑ بنتا ہے
جسے چاہیں مٹا دیں جسے چاہیں گھسا دیں
11
ڑ کا شعر مجھے یاد نہیں
مجھ سے بڑھ کر کوئی استاد نہیں
12
ڑ کے آگے ب لگنے سے بن جاتا ھے بڑ
چوڑےچوڑے پتے جس کے لمپی لمبی جڑ
13
ڑسے کوئی شعر ہوتا نہیں
بنانا چاہو بھی تو بنتا نہیں
14
ڑ پر رک جاتے ہیں زمانے میں الفاظ
لوڈ شیڈنگ ہے یارو بڑھا دو شعروں کی رفتار
15
ڑ کو لایا ہے پھر کون حصے میں میرے اے نصر
کیوں نہ دے جائے سزا اس کو سولی دار کی
16
"ڑ" سے سخت تر ہوتا ہے آغاز سفر
اور پھر وہ دشوار کہاں ہوتا ہے
17ئ
ڑ پہ اڑ جائے کبھی بھی جو ہماری شاعری
تب رضا جیسوں کی بن جاتی ہے اپنی شاعری
18
ڑ نرالا حرف ہے لے کر نہ ہرگز اسکی آڑ
بیت بازی کی بھری محفل کی رونق کو بگاڑ
ترتیب داده: نور محمد ابن بشیر، ممبرا
تاریخ: ۱۷ / ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۲۰ / ستمبر ۲۰۱۶ء
۔..................................................
"ں " نون غنہ سے اک شعر...............
ں میں نکتہ لگا دیا جائے تو بنتا ہے نون
اب کے بھولےسبق تو ابو کو کروں گا فون
یاسر
........................................
..... ژ ..... سے اشعار
1
ژرف بینی تری لائق تحسین ہے مگر
ژرف تخیل ہمارا بھی ژولیدہ نہیں
یاسر
2
ژولیدگئی افکار کا شکار ہے آج کا انسان
نہ محبت نہ مروت، بیکار ہے آج کا انسان
یاسر
3
ژالہ باری ایسی ہوئی مقدر پر
پیاس منڈلانے لگی سمندر پر
4
ژالہ سا ہر اک برگ لپکتا ہے زمیں کو
کیسی یہ بھلا باغ میں برسات رکی ہے
5
ژالہ باری میں جل کے دیکھوں گا
میں جو ساون میں بھی ٹھٹھرتا ہوں
6
ژالہ باری میں چائے پینے کا
لطف تم بھی لو یار جینے کا
نون میم : نورؔمحمد ابن بشیر
7
ژ سے الفاظ تک نہیں ملتے
ژ سے اشعار میں کہوں کیسے
نون میم : نورؔمحمد ابن بشیر
8
ژ سے الفاظ جب ملے ہم کو
ژ سے اشعار کیوں نہیں کہتے
ارشد ضیا
9
ژالہ باری ایسی ہوئی حرص و ہوس کی
کھیتی وفا کی کھلنے سے پہلے اجڑ گئی
10
"ژا " سے پہلے قطار میں ہے "زا"
بعد اس کے ہے "سین " ساحر کا
نون میم : نورؔمحمد ابن بشیر
11
ژالوں نے جب سے کھلتے شگوفے دئے مجھے
ماجدؔ نجانے کد ہے مجھے کیوں صبا کے ساتھ
ماجد صدیقی
..................................................
..... ڑ..... سے اشعار
1
ڑ سے کوئی شعر اردو میں نظر آتا نہیں
اس لیے ڑ اور ژ دونوں ہی یہاں ممنوع ہیں
2
ڑے خوشبو کی طرح سے پیھلی فضاؤں میں ھوں
آج کل بے اعتیبار شھر کی ھواؤں میں ھوں،
3
ڑ کو ڑ پڑھتے ہوئے اٹکتی ہے زباں میری
خدایا اب تو کردے مشکل آساں میری
4
ڑے کہیں قرآن میں آئی نہیں
اور رسول اللہ نے فرمائی نہیں
5
ڑ سے شعر بنا کر ہم نے
حیراں سب کو کر ڈالا ہے
ابن منیب
6
ڑ بھی میری طرح ہے بدقسمت
ابتدا اس کو بھی نصیب نہیں
7
ڑ جسے کہتے ہیں حروفِ ابجد میں رضا
لفظ کوئی بھی اس سے شروع نہیں ہوتا
8
ڑ سے پہلے الف ہے اور بعد میں واؤ ہے
جائیے بازار میں اور پُوچھیئے کیا بھاؤ ہے
9
ڑ آڑُو میں ہے اور ہے جھاڑُو میں ڑ
گلی کے نُکّڑ پہ کھڑے تاڑُو میں ڑ
10
ڑ سے پہلے رب لگائیں تو ربڑ بنتا ہے
جسے چاہیں مٹا دیں جسے چاہیں گھسا دیں
11
ڑ کا شعر مجھے یاد نہیں
مجھ سے بڑھ کر کوئی استاد نہیں
12
ڑ کے آگے ب لگنے سے بن جاتا ھے بڑ
چوڑےچوڑے پتے جس کے لمپی لمبی جڑ
13
ڑسے کوئی شعر ہوتا نہیں
بنانا چاہو بھی تو بنتا نہیں
14
ڑ پر رک جاتے ہیں زمانے میں الفاظ
لوڈ شیڈنگ ہے یارو بڑھا دو شعروں کی رفتار
15
ڑ کو لایا ہے پھر کون حصے میں میرے اے نصر
کیوں نہ دے جائے سزا اس کو سولی دار کی
16
"ڑ" سے سخت تر ہوتا ہے آغاز سفر
اور پھر وہ دشوار کہاں ہوتا ہے
17ئ
ڑ پہ اڑ جائے کبھی بھی جو ہماری شاعری
تب رضا جیسوں کی بن جاتی ہے اپنی شاعری
18
ڑ نرالا حرف ہے لے کر نہ ہرگز اسکی آڑ
بیت بازی کی بھری محفل کی رونق کو بگاڑ
حرف ذ سے اشعار!!
ترتیب دادہ: عمیر بن عبدالرحمان ممبئی، عادل سعیدی دیوبندی
تاریخ: ۷ / ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۱۰ / ستمبر ۲۰۱۶ء ۔
........................................
1
ذرا دیکھو تو دروازے پہ دستک کون دیتا ہے؟
محبت ہو تو کہہ دینا یہاں اب ہم نہیں رہتے
2
ذرا خاموش تم بیٹھو کے دم آرام سے نکلے
ادھر ہم ہچکی لیتے ہیں ادھر تم رونے لگتے ہو
3
ذرا اپنے تبسم کا نظارہ کرنا درپن میں
تمہیں معلوم ہوکیونکریہ بازی میں نےہاری ہے
4
ذرا قریب سے دیکھو تو جان جاؤ گے
وہ دور سے تو بڑا معتبر نظر آئے
5
ذہنوں میں جھانکنے کی ہے فرصت یہاں کسے
خوش پو شیوں سے اپنی نفاست جتائیے
6
ذرا سی دیر ہی ہو جائے گی تو کیا ہوگا
گھڑی گھڑی نہ اُٹھاؤ نظر گھڑی کی طرف
7
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تری جوانی تک
8
ذرا خاموش تم بیٹھو کے دم آرام سے نکلے
ادھر ہم ہچکی لیتے ہیں ادھر تم رونے لگتے ہو
9
ذوق رکھ سنت گرامی سے، ہے شرف آپ کی غلامی سے
جو کوئی پیروئے رسول نہیں،لاکھ طاعت کرے قبول نہیں
10
ذرا دیکھ تو باز ہے باب رحمت
خدا سے دعا کر، دعا کی ہے ساعت
11
ذکر اس کا ہے اور با چشم پر نم
نازاں ہے جس پر تاریخ آدم
12
ذکر اس پری وش کا، اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر، تھا جو راز دار اپنا
13
ذرہ ذرہ سے ملا کرتا تھا درس سادگی
ایک فرزانہ سکھاتا تھا مجھے دیوانگی
14
ذرا دیکھ عبرت سے سوتے ہیں غافل
مزاروں میں پہنے کفن کیسے کیسے
15
ذوق طلب میں گنبد خضری نظر میں ہے
رقصاں تصورات کی دنیا سفر میں ہے
16
ذکر جب ان کا زبان شوق پر لائیں گے ہم
پھر بسیط عالم امکاں پہ چھا جائیں گے ہم
17
ذکر حق اور ذکر رسول خدا زندگی کا ہو دلچسپ یہ مشغلہ
اک واحد طریقہ ہے بے شک یہی،روح وایماں کی تازگی کے لئے
18
ذروں کی چمک تجھ سے پھولوں کی مہک تجھ سے
تو حاضر و ناضر ہے گلشن ہو کہ ویرانہ
19
ذکر ترا کرکے الہی دور کروں میں دل کی سیاہی
چھوڑ کہ حب مالی و جاہی اب تو کروں بس فقر میں شاہی
20
ذات ہے تیری سب سے نرالی شان تیری فہم سے عالی
اس کو تیری وحدت ہے مشاہد جس کا ہے دل اغیار سے خالی
21
ذرا آواز دو دار و سن کو
جوانی اپنی ضد پر اڑ گئی ہے
22
ذرا دیر آشنا چشم کرم ہے
ستم ہی عشق میں پیہم نہ ہونگے
23
ذرا سی دیر ٹہرنے دے اے غم دنیا
بلا رہا ہے کوئی بام سے اگر کر کوئی
24
ذہنوں میں خیال چل رہے ہیں
سوچوں کے الاو سے لگے ہیں
25
ذرا پے کے دیکھا تو چاروں طرف
مکاں و مکیں سب خلاوں میں تھے
26
ذکر دوزخ ، بیان حور و قصور
بات گویا یہی کہیں کی ہے
27
ذرا سی بات تھی اندیشہ عجم نے اسے
بڑھا دیا فقط زیب داستان کے لئے
28
ذہن پہ چھائی ہوئی غم کی گھٹا ہو جیسے
درد میں ڈوبی ہو ساری فضا ہو جیسے
29
ذرا سی بات پہ ہر رسم توڑ آیا تھا
دل بیتاب نے بھی کیا مزاج پایا تھا
30
ذرا آہستہ لے چل کاروان کیف ومستی کو
کہ سطح ذہن انسان سخت ناہموار ہے ساقی
31
ذکر حبیب ،یاد خدا ،فکر دوزگار
قصہ یہ اک پل کا نہیں ،عمر بھر کا ہے
32
ذرا زلف کو سنبھالو میرا دل ڈھڑک رہا ہے
کوئی اور طائر دل تہ دام آنہ جائے
33
ذکر میرا وہ کیا کرتے ہیں کس خوبی سے
بھری محفل میں سنادیتے ہیں صلوات مجھے
34
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تیری جوانی تک
35
ذہانتوں کو کہاں کرب سے فراز ملا
جسے نگاہ ملی اس کو انتظار ملا
36
ذرا سا قطرہ کہیں آج اگر ابھرتا ہے
سمندروں ہی کے لہجے میں بات کرتا ہے
37
ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سننا چاہتا ہوں
38
ذکر ِ شب ِ فراق سے وحشت اُسے بھی تھی
میری طرح کسی سے محبت اُسے بھی تھی
39
ذرا سی بات پہ دامن چھڑا لیا ہم سے
تُما م عمر کی وابستگی کو بھول گئے
40
ذکر اس کا ہی سہی بزم میں بیٹھے رہو فراز
درد کیسا بھی اٹھے ہاتھ نہ دل پر رکھن
ا
41
ذرا سی بات پہ ہر رسم توڑ آیا تھا
دلِ تباہ نے بھی کیا مزاج پایا تھا
42
ذر ان کی شوخی تو دیکھئے،لیئے زلفِ خم شدہ ہاتھ میں
میرے پیچھے آ کے دبے دبے،مجھے سانپ کہہ کے ڈرا دیا
43
ذہن پہ چھائی ہوئی غم کی گھٹا ہو جیسے
درد میں ڈوبی ہوئی ساری فضا ہو جیسے
(کرشن ادیب)
44
ذرا آگے چلو تو اضافہ علم میں ہو گا
مُحبت پہلے پہلے بے ضرر محسوس ہوتی ہے
45
ذرا سی بات تھی اندیشہ ء عجم نے اسے
بڑ ھادیا ہے فقط زیب داستاں کے لئے
اقبال
46
ذکر دوزخ، بیانِ حور و قصور
بات گویا یہیں کہیں کی ہے
(فیض احمد فیض)
47
ذرا سی بات پہ وہ ہو گیا خفا ہم سے
ذرا سی بات کا دل کو ہوا ملال بہت
48
ذرا سی دیر ٹھہرنے دے اے غم دنیا
بلا رہا ہے کوئی بام سے اتر کے مجھے
ناصر کاظمی
49
ذرا چہرے سے زلفوں کو ہٹا لو
یہ کیسی شام ہوتی جا رہی ہے
سیف الدین
50
ذرے سرکش ہُوئے ، کہنے میں ہوائیں بھی نہیں
آسمانوں پہ کہیں تنگ نہ ہو جائے زمیں
پروین شاکر
51
ذکر آئے گا جہاں بھنوروں کا
بات ہو گی مرے ہرجائی پر
پروین شاکر
52
ذکر شاید کسی خُورشید بدن کا بھی کرے
کُو بہ کُو پھیلی ہُوئی میرے گہن کی خوشبو
پروین
ترتیب دادہ: عمیر بن عبدالرحمان ممبئی، عادل سعیدی دیوبندی
تاریخ: ۷ / ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۱۰ / ستمبر ۲۰۱۶ء ۔
........................................
1
ذرا دیکھو تو دروازے پہ دستک کون دیتا ہے؟
محبت ہو تو کہہ دینا یہاں اب ہم نہیں رہتے
2
ذرا خاموش تم بیٹھو کے دم آرام سے نکلے
ادھر ہم ہچکی لیتے ہیں ادھر تم رونے لگتے ہو
3
ذرا اپنے تبسم کا نظارہ کرنا درپن میں
تمہیں معلوم ہوکیونکریہ بازی میں نےہاری ہے
4
ذرا قریب سے دیکھو تو جان جاؤ گے
وہ دور سے تو بڑا معتبر نظر آئے
5
ذہنوں میں جھانکنے کی ہے فرصت یہاں کسے
خوش پو شیوں سے اپنی نفاست جتائیے
6
ذرا سی دیر ہی ہو جائے گی تو کیا ہوگا
گھڑی گھڑی نہ اُٹھاؤ نظر گھڑی کی طرف
7
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تری جوانی تک
8
ذرا خاموش تم بیٹھو کے دم آرام سے نکلے
ادھر ہم ہچکی لیتے ہیں ادھر تم رونے لگتے ہو
9
ذوق رکھ سنت گرامی سے، ہے شرف آپ کی غلامی سے
جو کوئی پیروئے رسول نہیں،لاکھ طاعت کرے قبول نہیں
10
ذرا دیکھ تو باز ہے باب رحمت
خدا سے دعا کر، دعا کی ہے ساعت
11
ذکر اس کا ہے اور با چشم پر نم
نازاں ہے جس پر تاریخ آدم
12
ذکر اس پری وش کا، اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر، تھا جو راز دار اپنا
13
ذرہ ذرہ سے ملا کرتا تھا درس سادگی
ایک فرزانہ سکھاتا تھا مجھے دیوانگی
14
ذرا دیکھ عبرت سے سوتے ہیں غافل
مزاروں میں پہنے کفن کیسے کیسے
15
ذوق طلب میں گنبد خضری نظر میں ہے
رقصاں تصورات کی دنیا سفر میں ہے
16
ذکر جب ان کا زبان شوق پر لائیں گے ہم
پھر بسیط عالم امکاں پہ چھا جائیں گے ہم
17
ذکر حق اور ذکر رسول خدا زندگی کا ہو دلچسپ یہ مشغلہ
اک واحد طریقہ ہے بے شک یہی،روح وایماں کی تازگی کے لئے
18
ذروں کی چمک تجھ سے پھولوں کی مہک تجھ سے
تو حاضر و ناضر ہے گلشن ہو کہ ویرانہ
19
ذکر ترا کرکے الہی دور کروں میں دل کی سیاہی
چھوڑ کہ حب مالی و جاہی اب تو کروں بس فقر میں شاہی
20
ذات ہے تیری سب سے نرالی شان تیری فہم سے عالی
اس کو تیری وحدت ہے مشاہد جس کا ہے دل اغیار سے خالی
21
ذرا آواز دو دار و سن کو
جوانی اپنی ضد پر اڑ گئی ہے
22
ذرا دیر آشنا چشم کرم ہے
ستم ہی عشق میں پیہم نہ ہونگے
23
ذرا سی دیر ٹہرنے دے اے غم دنیا
بلا رہا ہے کوئی بام سے اگر کر کوئی
24
ذہنوں میں خیال چل رہے ہیں
سوچوں کے الاو سے لگے ہیں
25
ذرا پے کے دیکھا تو چاروں طرف
مکاں و مکیں سب خلاوں میں تھے
26
ذکر دوزخ ، بیان حور و قصور
بات گویا یہی کہیں کی ہے
27
ذرا سی بات تھی اندیشہ عجم نے اسے
بڑھا دیا فقط زیب داستان کے لئے
28
ذہن پہ چھائی ہوئی غم کی گھٹا ہو جیسے
درد میں ڈوبی ہو ساری فضا ہو جیسے
29
ذرا سی بات پہ ہر رسم توڑ آیا تھا
دل بیتاب نے بھی کیا مزاج پایا تھا
30
ذرا آہستہ لے چل کاروان کیف ومستی کو
کہ سطح ذہن انسان سخت ناہموار ہے ساقی
31
ذکر حبیب ،یاد خدا ،فکر دوزگار
قصہ یہ اک پل کا نہیں ،عمر بھر کا ہے
32
ذرا زلف کو سنبھالو میرا دل ڈھڑک رہا ہے
کوئی اور طائر دل تہ دام آنہ جائے
33
ذکر میرا وہ کیا کرتے ہیں کس خوبی سے
بھری محفل میں سنادیتے ہیں صلوات مجھے
34
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تیری جوانی تک
35
ذہانتوں کو کہاں کرب سے فراز ملا
جسے نگاہ ملی اس کو انتظار ملا
36
ذرا سا قطرہ کہیں آج اگر ابھرتا ہے
سمندروں ہی کے لہجے میں بات کرتا ہے
37
ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سننا چاہتا ہوں
38
ذکر ِ شب ِ فراق سے وحشت اُسے بھی تھی
میری طرح کسی سے محبت اُسے بھی تھی
39
ذرا سی بات پہ دامن چھڑا لیا ہم سے
تُما م عمر کی وابستگی کو بھول گئے
40
ذکر اس کا ہی سہی بزم میں بیٹھے رہو فراز
درد کیسا بھی اٹھے ہاتھ نہ دل پر رکھن
ا
41
ذرا سی بات پہ ہر رسم توڑ آیا تھا
دلِ تباہ نے بھی کیا مزاج پایا تھا
42
ذر ان کی شوخی تو دیکھئے،لیئے زلفِ خم شدہ ہاتھ میں
میرے پیچھے آ کے دبے دبے،مجھے سانپ کہہ کے ڈرا دیا
43
ذہن پہ چھائی ہوئی غم کی گھٹا ہو جیسے
درد میں ڈوبی ہوئی ساری فضا ہو جیسے
(کرشن ادیب)
44
ذرا آگے چلو تو اضافہ علم میں ہو گا
مُحبت پہلے پہلے بے ضرر محسوس ہوتی ہے
45
ذرا سی بات تھی اندیشہ ء عجم نے اسے
بڑ ھادیا ہے فقط زیب داستاں کے لئے
اقبال
46
ذکر دوزخ، بیانِ حور و قصور
بات گویا یہیں کہیں کی ہے
(فیض احمد فیض)
47
ذرا سی بات پہ وہ ہو گیا خفا ہم سے
ذرا سی بات کا دل کو ہوا ملال بہت
48
ذرا سی دیر ٹھہرنے دے اے غم دنیا
بلا رہا ہے کوئی بام سے اتر کے مجھے
ناصر کاظمی
49
ذرا چہرے سے زلفوں کو ہٹا لو
یہ کیسی شام ہوتی جا رہی ہے
سیف الدین
50
ذرے سرکش ہُوئے ، کہنے میں ہوائیں بھی نہیں
آسمانوں پہ کہیں تنگ نہ ہو جائے زمیں
پروین شاکر
51
ذکر آئے گا جہاں بھنوروں کا
بات ہو گی مرے ہرجائی پر
پروین شاکر
52
ذکر شاید کسی خُورشید بدن کا بھی کرے
کُو بہ کُو پھیلی ہُوئی میرے گہن کی خوشبو
پروین
شاکر
53
ذرا روٹھ جانے پہ اتنی خوشامد
قمرؔ تم بگاڑو گے عادت کسی کی
قمر جلال آبادی
54
ذرا بلا کے تم اپنے خلیل سے پوچھو
تمھارے گھر پہ بھی ڈھونڈ آئے تم وہاں نہ ملے
قمر جلال آبادی
55
ذرا شوقِ الفت انہیں کھینچ لانا
وہ گھبرا رہے ہوں گے تنہائیوں میں
عبدالرب حیراں
56
ذرّہ ذرّہ صحراء کا کوئی غور سے دیکھے
خامشی میں پوشیدہ زندگی کے میلے ہیں
عبدالرب حیراں
57
ذرا غور سے کوئی دیکھے تو حیراں
چھپے ہیں کئی در شہنائیوں میں
عبدالرب حیراں
58
ذرا تو پختہ شریفوں کو باغِ دہر میں دیکھ
انہیں کا حال ہر اک سے زیادہ خستہ رہا
اکبر
59
ذی علم منصف ہو رہے ہیں حامیِ ملت
ارمان نہیں کوئی اس ارمان سے بہتر
اکبر
60
ذرا ائے ناصحِ فرزانہ! چل کر سن تو دو باتیں
نہ ہوگا پھر بھی تو مجذوب کا دیوانہ دیکھوں گا
عزیز الحسن مجذوب
61
ذرا تو دیکھ تو منہ ڈال کر اپنے گریباں میں
نقابِ رخ سے ہی وابستہ ہے ہاں پاک دامانی
عزیز الحسن مجذوب
62
ذکرِ فانی بھی عبث ہے، یہ کہانی ہیچ ہے
جس کا ہو انجام، غم وہ شادمانی ہیچ ہے
عزیز الحسن مجذوب
63
ذکرِ حبیبِ رب کے تصدق میں زندگی
اپنی تو کٹ رہی ہے بڑے اطمینان سے
ماجد دیوبندی
64
ذکرِ رسول کر نہیں سکتے زبان سے
توفیق جب تلک نہ ملے آسمان سے
ماجد دیوبندی
65
ذکر نہیں قصور کا، بات ہے اعتراف کی
حیف وہ نسبتیں جو تھیں، میرے ہر ایک قصور میں
ریاست علی ظفر
66
ذرّہ ذرّہ سینہ کھولے تری طرف کیوں لپکے ہے
ہم بے چاروں کی بھی سن لو، ہم کو وہاں تک آنے دو
ریاست علی ظفر
67
ذروں کے جگر چیرے، تاروں کے نقاب الٹے
خود اپنی حقیقت ہی نادان نہ پہنچانے
ابو المجاھد زاہد
68
ذرا بھی سلیقہ ہے جن کو وفا کا
وہ تیرے ستم کو کرم جانتے ہیں
نواز دیوبندی
69
ذرا ہشیار رہنا مردِ مومن کی فراست ہے
کہ یہ بارِ دگر، ائے دوست دھوکہ کھا نہیں سکتے
ماہر القادری
70
ذہن میں ہیں جادۂ ہستی کے کچھ دھندلے نقوش
جیسے پہلے بھی کبھی گزرے ہیں اس منزل سے ہم
سیماب اکبر
71
ذوق کی توہین ہے، خاموش ہونا دار پر
وہ زباں کیوں بند ہو، جس پر تمہارا نام ہو
سیماب اکبر
72
ذرے ہوئے بلند، ہوا ان کو لے اڑی
قطرے ہوئے جو پست، گہر ہوکے رہ گئے
ماہر القادری
73
ذرے تاروں کو چھو کے لوٹ آئے
پستیوں کو ابھی کچھ اور اچھال
ماہر القادری
74
ذہنیت کے غلام ائے راہی
سب سے بڑھ کر غلام ہوتے ہیں
دواکر راہی
75
ذوقِ منزل تو ٹھیک ہے راہی
سوئے منزل، سنبھل سنبھل کے چلو
دواکر راہی
76
ذکرِ خیر البشر ہے اور میں ہوں
خوشبوؤں کا سفر ہے اور میں ہوں
نواز دیوبندی
77
ذکر سنتے ہیں نوجوانی کا
کچھ خیالوں کی یاد آتی ہے
سکندر علی واجد
78
ذرا وصال کے بعد آئینہ تو دیکھ ائے دوست
ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی
فراق
79
ذرا آہستہ لے چل کاروانِ کیف و مستی کو
کہ سطحِ ذہنِ انساں سخت ناہموار ہے ساقی
جوش
80
ذرا دیکھو یہ سرکش ذرۂ خاک
فلک کا چاند بنتا جارہا ہے
سراج لکھنوی
81
ذکر جب چھڑگیا قیامت کا
بات پہنچی تری جوانی تک
فانی بدایونی
82
ذکر اس پری وش کا، اور پھر بیاں اپنا
بن گيا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا
غالب
83
ذرّہ ذرّہ سے تجلی آشکارا
صاحبِ جلوہ مگر روپوش ہے
دلگیر
84
ذکر کو عشق کے کہتے ہیں کہ نصف العیش
ہجر میں وصل کی تقریر بہت اچھی ہے
سودا
85
ذرا دیکھو تو رنگِ لالہ و گل
لہو کی کتنی ارزانی ہوئی ہے
کلیم عاجز
86
ذکر پر میرے وہ منہ پھیر کے بولے عاجز
صورت اچھی نہیں، ہاں اچھی غزل کہتے ہیں
کلیم عاجز
87
ذرا ہماری طرف چشمِ سرمگیں کرتے
تو ہم تمہارے لئے یار کیا نہیں کرتے
کلیم عاجز
88
ذرا سا خونِ دل ان کے سخن کی پونجی ہے
ذرا سے رنگ پہ کیا رنگ لاتے پھرتے ہیں
کلیم عاجز
89
ذرا دیکھوں تو کب تک شمع میرا ساتھ دیتی ہے
کہ میں بھی انجمن میں سوزِ پنہاں لے کے آیا ہوں
کلیم عاجز
90
ذرا تلخیوں کا مزہ لو تو جانیں
ہماری طرح دل لگا لو تو جانیں
کلیم عاجز
91
ذرا دل کے زخموں سے پردہ اٹھاؤ
غضب کا اندھیرا ہے شمعیں جلاؤ
کلیم عاجز
92
ذرا دیکھ آئینہ میری وفا کا
کہ تو کیسا تھا، اب کیسا لگے ہے
کلیم عاجز
93
ذکرِ نبی کی بزم سجانا کتنا اچھا لگتا ہے
نعت کی خوشبو گھر میں بسانا کتنا اچھا لگتا ہے
تابش مہدی
94
ذرّہ ذرّہ ہے اس کے قبضے میں
جب وہ چاہےگا ہلاک کردےگا
ماجد دیوبندی
95
ذرا سی دیر میں دائیں سے بائیں
سیاست کا عجب انداز ہو تم
ملک زادہ جاوید
96
ذرا سی ٹھیس لگے ٹوٹ کر بکھر جائے
اب ایسا کانچ کا نازک گلاس کیا ہونا
ساحل فریدی
97
ذرا سا جھٹ پٹا ہوتے ہی چھپ جاتا ہے سورج بھی
مگر اک چاند ہے جو شب میں بھی تنہا نکلتا ہے
منور رانا
98
ذرّے ہیں ہوس کے بھی زرِنابِ وفا میں
ہاں جنسِ وفا کو بھی ذرا چھان پھٹک لے
ناصر کاظمی
99
ذرّے پھر مائلِ رَم ہیں ناصر
پھر اُنھیں سیرِ فلک یاد آئی
ناصر کاظمی
100
ذات کدے میں پہروں باتیں اور ملیں تو مہر بلب
جبرِ وقت نے بخشی ہم کو اب کے کیسی مجبوری
محسن بھوپالی
101
ذرا دی
53
ذرا روٹھ جانے پہ اتنی خوشامد
قمرؔ تم بگاڑو گے عادت کسی کی
قمر جلال آبادی
54
ذرا بلا کے تم اپنے خلیل سے پوچھو
تمھارے گھر پہ بھی ڈھونڈ آئے تم وہاں نہ ملے
قمر جلال آبادی
55
ذرا شوقِ الفت انہیں کھینچ لانا
وہ گھبرا رہے ہوں گے تنہائیوں میں
عبدالرب حیراں
56
ذرّہ ذرّہ صحراء کا کوئی غور سے دیکھے
خامشی میں پوشیدہ زندگی کے میلے ہیں
عبدالرب حیراں
57
ذرا غور سے کوئی دیکھے تو حیراں
چھپے ہیں کئی در شہنائیوں میں
عبدالرب حیراں
58
ذرا تو پختہ شریفوں کو باغِ دہر میں دیکھ
انہیں کا حال ہر اک سے زیادہ خستہ رہا
اکبر
59
ذی علم منصف ہو رہے ہیں حامیِ ملت
ارمان نہیں کوئی اس ارمان سے بہتر
اکبر
60
ذرا ائے ناصحِ فرزانہ! چل کر سن تو دو باتیں
نہ ہوگا پھر بھی تو مجذوب کا دیوانہ دیکھوں گا
عزیز الحسن مجذوب
61
ذرا تو دیکھ تو منہ ڈال کر اپنے گریباں میں
نقابِ رخ سے ہی وابستہ ہے ہاں پاک دامانی
عزیز الحسن مجذوب
62
ذکرِ فانی بھی عبث ہے، یہ کہانی ہیچ ہے
جس کا ہو انجام، غم وہ شادمانی ہیچ ہے
عزیز الحسن مجذوب
63
ذکرِ حبیبِ رب کے تصدق میں زندگی
اپنی تو کٹ رہی ہے بڑے اطمینان سے
ماجد دیوبندی
64
ذکرِ رسول کر نہیں سکتے زبان سے
توفیق جب تلک نہ ملے آسمان سے
ماجد دیوبندی
65
ذکر نہیں قصور کا، بات ہے اعتراف کی
حیف وہ نسبتیں جو تھیں، میرے ہر ایک قصور میں
ریاست علی ظفر
66
ذرّہ ذرّہ سینہ کھولے تری طرف کیوں لپکے ہے
ہم بے چاروں کی بھی سن لو، ہم کو وہاں تک آنے دو
ریاست علی ظفر
67
ذروں کے جگر چیرے، تاروں کے نقاب الٹے
خود اپنی حقیقت ہی نادان نہ پہنچانے
ابو المجاھد زاہد
68
ذرا بھی سلیقہ ہے جن کو وفا کا
وہ تیرے ستم کو کرم جانتے ہیں
نواز دیوبندی
69
ذرا ہشیار رہنا مردِ مومن کی فراست ہے
کہ یہ بارِ دگر، ائے دوست دھوکہ کھا نہیں سکتے
ماہر القادری
70
ذہن میں ہیں جادۂ ہستی کے کچھ دھندلے نقوش
جیسے پہلے بھی کبھی گزرے ہیں اس منزل سے ہم
سیماب اکبر
71
ذوق کی توہین ہے، خاموش ہونا دار پر
وہ زباں کیوں بند ہو، جس پر تمہارا نام ہو
سیماب اکبر
72
ذرے ہوئے بلند، ہوا ان کو لے اڑی
قطرے ہوئے جو پست، گہر ہوکے رہ گئے
ماہر القادری
73
ذرے تاروں کو چھو کے لوٹ آئے
پستیوں کو ابھی کچھ اور اچھال
ماہر القادری
74
ذہنیت کے غلام ائے راہی
سب سے بڑھ کر غلام ہوتے ہیں
دواکر راہی
75
ذوقِ منزل تو ٹھیک ہے راہی
سوئے منزل، سنبھل سنبھل کے چلو
دواکر راہی
76
ذکرِ خیر البشر ہے اور میں ہوں
خوشبوؤں کا سفر ہے اور میں ہوں
نواز دیوبندی
77
ذکر سنتے ہیں نوجوانی کا
کچھ خیالوں کی یاد آتی ہے
سکندر علی واجد
78
ذرا وصال کے بعد آئینہ تو دیکھ ائے دوست
ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی
فراق
79
ذرا آہستہ لے چل کاروانِ کیف و مستی کو
کہ سطحِ ذہنِ انساں سخت ناہموار ہے ساقی
جوش
80
ذرا دیکھو یہ سرکش ذرۂ خاک
فلک کا چاند بنتا جارہا ہے
سراج لکھنوی
81
ذکر جب چھڑگیا قیامت کا
بات پہنچی تری جوانی تک
فانی بدایونی
82
ذکر اس پری وش کا، اور پھر بیاں اپنا
بن گيا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا
غالب
83
ذرّہ ذرّہ سے تجلی آشکارا
صاحبِ جلوہ مگر روپوش ہے
دلگیر
84
ذکر کو عشق کے کہتے ہیں کہ نصف العیش
ہجر میں وصل کی تقریر بہت اچھی ہے
سودا
85
ذرا دیکھو تو رنگِ لالہ و گل
لہو کی کتنی ارزانی ہوئی ہے
کلیم عاجز
86
ذکر پر میرے وہ منہ پھیر کے بولے عاجز
صورت اچھی نہیں، ہاں اچھی غزل کہتے ہیں
کلیم عاجز
87
ذرا ہماری طرف چشمِ سرمگیں کرتے
تو ہم تمہارے لئے یار کیا نہیں کرتے
کلیم عاجز
88
ذرا سا خونِ دل ان کے سخن کی پونجی ہے
ذرا سے رنگ پہ کیا رنگ لاتے پھرتے ہیں
کلیم عاجز
89
ذرا دیکھوں تو کب تک شمع میرا ساتھ دیتی ہے
کہ میں بھی انجمن میں سوزِ پنہاں لے کے آیا ہوں
کلیم عاجز
90
ذرا تلخیوں کا مزہ لو تو جانیں
ہماری طرح دل لگا لو تو جانیں
کلیم عاجز
91
ذرا دل کے زخموں سے پردہ اٹھاؤ
غضب کا اندھیرا ہے شمعیں جلاؤ
کلیم عاجز
92
ذرا دیکھ آئینہ میری وفا کا
کہ تو کیسا تھا، اب کیسا لگے ہے
کلیم عاجز
93
ذکرِ نبی کی بزم سجانا کتنا اچھا لگتا ہے
نعت کی خوشبو گھر میں بسانا کتنا اچھا لگتا ہے
تابش مہدی
94
ذرّہ ذرّہ ہے اس کے قبضے میں
جب وہ چاہےگا ہلاک کردےگا
ماجد دیوبندی
95
ذرا سی دیر میں دائیں سے بائیں
سیاست کا عجب انداز ہو تم
ملک زادہ جاوید
96
ذرا سی ٹھیس لگے ٹوٹ کر بکھر جائے
اب ایسا کانچ کا نازک گلاس کیا ہونا
ساحل فریدی
97
ذرا سا جھٹ پٹا ہوتے ہی چھپ جاتا ہے سورج بھی
مگر اک چاند ہے جو شب میں بھی تنہا نکلتا ہے
منور رانا
98
ذرّے ہیں ہوس کے بھی زرِنابِ وفا میں
ہاں جنسِ وفا کو بھی ذرا چھان پھٹک لے
ناصر کاظمی
99
ذرّے پھر مائلِ رَم ہیں ناصر
پھر اُنھیں سیرِ فلک یاد آئی
ناصر کاظمی
100
ذات کدے میں پہروں باتیں اور ملیں تو مہر بلب
جبرِ وقت نے بخشی ہم کو اب کے کیسی مجبوری
محسن بھوپالی
101
ذرا دی
کھنا اس کی تصویر کو
خموشی بھی اُسلوبِ رُوداد ہے
سید عبدالحمید
102
ذرے کے زخم دل پہ توجہ کیے بغیر
درمانِ درد شمس و قمر کر رہے ہیں ہم
رئیس امروہوی
103
ذرا زلف کو سنبھالو میرا دل دھڑک رہا ہے
کوئی اور طائرِ دل تہِ دام آ نہ جائے
حبیب جالب
104
ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں
پھر اس کے بعد مسلسل عذاب آنکھوں میں
افتخار عارف
105
ذکرِ خدا میں ہر دم رہنا، سب کے بس کی بات نہیں
خواہشِ نفس سے بچتے رہنا، سب کے بس کی بات نہیں
قاری محمد صدیق صاحب باندوی رحمہ اللہ تعالیٰ
خموشی بھی اُسلوبِ رُوداد ہے
سید عبدالحمید
102
ذرے کے زخم دل پہ توجہ کیے بغیر
درمانِ درد شمس و قمر کر رہے ہیں ہم
رئیس امروہوی
103
ذرا زلف کو سنبھالو میرا دل دھڑک رہا ہے
کوئی اور طائرِ دل تہِ دام آ نہ جائے
حبیب جالب
104
ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں
پھر اس کے بعد مسلسل عذاب آنکھوں میں
افتخار عارف
105
ذکرِ خدا میں ہر دم رہنا، سب کے بس کی بات نہیں
خواہشِ نفس سے بچتے رہنا، سب کے بس کی بات نہیں
قاری محمد صدیق صاحب باندوی رحمہ اللہ تعالیٰ
حرف تہجی ز سے اشعار!!
ترتیب دادہ: عادل سعیدی دیوبندی
تاریخ: ۸ / ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۱۱ / ستمبر ۲۰۱۶ء ۔
........................................
1
زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم
صحبتِ مادر میں طفلِ سادہ رہ جاتے ہیں ہم
اقبال
2
زلزلے ہیں، بجلیاں ہیں، قحط ہیں آلام ہیں
کیسی کیسی دخترانِ مادرِ ایام ہیں
اقبال
3
زمیں سے نوریانِ آسماں پرواز کرتے تھے
یہ خاکی زندہ تر، پائندہ تر، تا بندہ تر نکلے
اقبال
4
زبانیں شاخِ طوبیٰ اور دل غفلت کے تھالے ہیں
بہت ہے اللہ اللہ، کم مگر اللہ والے ہیں
اکبر
5
زندگی کردے نبی پر جو نثار
ہے وہی بس کامیابِ زندگی
مفتی محمود گنگوہی ؒ
6
زندگی سے زندگی محجوب ہے
مرگ اٹھاتی ہے نقابِ زندگی
مفتی محمود گنگوہی ؒ
7
زندگی مھبطِ الہام نظر آتی ہے
تیرے نادیدہ اشارات کو سمجھاتی ہے
ریاست علی طفر بجنوری
8
زلفِ گیتی کو عطا کرتا ہوں تابِ جاوداں
موج کو رفتار، گل کو بو، ستاروں کو زباں
ریاست علی ظفر بجنوری
9
زندگی زیرِ فلک فتنے جگانے کےلئے
زخم کھانے کےلئے ہے خوں بہانے کےلئے
کاشف الہاشمی
10
زندگی کے بتکدے سے سینکڑوں آزر اٹھے
عزم ابراہیم کا دم آزمانے کےلئے
کاشف الہاشمی
11
زبانِ اہلِ زباں میں ہے مرگ خاموشی
یہ بات بزم میں روشن ہوئی زبانئیِ شمع
غالب
12
زخم پر چھڑکیں کہاں طفلانِ بے پروا نمک
کیا مزہ ہوتا اگر پتھر میں بھی ہوتا نمک
غالب
13
زخم سلوانے سے مجھ پر چارہ جوئی کا ہے طعن
غیر سمجھا ہے کہ لذت، زخم سوزن میں نہیں
غالب
14
زور قسمت سے چل نہیں سکتا
دل سنبھالے سنبھل نہیں سکتا
داغ دہلوی
15
زاہد نہ کہہ برے، یہ مستانے آدمی ہیں
تجھ کو لپٹ پڑیں گے، دیوانے آدمی ہیں
داغ دہلوی
16
زیست سے تنگ ہو ائے داغ! تو جیتے کیوں ہو
جان پیاری بھی نہیں، جان سے جاتے بھی نہیں
داغ دہلوی
17
زمیں ہے دشمن، زماں ہے دشمن، جو اپنے تھے پرائے ہیں
سنوگے داستاں کیا تم مرے حالِ پریشاں کی
شہید اشفاق اللہ خان
18
زندگی کیا تری آہٹ کی صدا ہو جیسے
بندگی کیا، ترے ملنے کی دعا ہو جیسے
19
زندگی کو نہ بنا لیں وہ سزا میرے بعد
حوصلہ دینا انہیں میرے خدا میرے بعد
(حکیم ناصر)
20
زندگی ہے سو گزر رہی ہے ورنہ
ہمیں گزرے تو زمانے ہوئے
21
زندگی تُو ہی مختصر ہو جا
شبِ غم مختصر نہیں ہوتی
22
زندہ دلان شہر کو کیا ہوگیا فراز
آنکھیں بجھی بجھی ہیں تو چہرے مرے مرے
23
زندگی تیری عطا تھی تو ترے نام کی ہے
ہم نے جیسی بھی بسر کی ترا احساں جاناں
احمد فراز
24
زعمِ عقل و فہم اِک نادانئ معصوم ہے
اے گرفتارِ فریبِ ہوش، اے دل! دیکھ کر
عبد الحمید عدم
25
زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے
تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے
26
زندگانی تیرے شکوے بھی بجا ہیں لیکن
کیسے جھک جائیں کہ ہم لوگ انا والے ہیں
27
زباں پہ مصلحت،دل ڈرنے والا
بڑا آیا محبت کرنے والا
28
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانےکس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
ساغر صدیقی
29
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار ِیار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا
اقبالؒ
30
زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں
کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا
ذوق
31
زمین شورہ سنبل برنیارد
درو تخم عمل ضائع مگرداں
32
زر از بہرِ خوردن بُوَد اے پسر!
برائے نہادن چہ سنگ و چہ زر
33
ز ہر کلام، کلامِ عرب فصیح تر است
بجز کلامِ خموشی کہ افصح از عرب است
34
زاھد نہ داشت تابِ جمالِ پری رُخاں
کنجے گرفت و یادِ خدا را بہانہ ساخت
35
زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم
چہ خوش بودے اگر بودے زبانش در دہانِ من
36
زندگی کب تک حریفِ شورشِ دریا رہے
اس سفینے کو کسی دن غرق دریا کیجیے
37
زلفیں سینہ ناف کمر
ایک ندی میں کتنے بھنور
38
زندگی یہ تو نہیں تجھ کو سنوارا ہی نہ ہو
کچھ نہ کچھ تیرا احسان اُتارا ہی نہ ہو
39
زندگی کو ہے ضرورت میری
اور ضرورت بھی اشد ہے، حد ہے
40
زندگی کے حسین ترکش میں
کتنے بے رحم تیر ہوتے ہیں
41
زندگی یوں تو مکمل تھی اپنی فراز
نجانے کیوں اس کو دیکھا تو کسی شے کی کمی لگی
42
زخم خريد لايا ہُوں بازارِ مُحبت سے
دل ضِد كر رہا تها مُجهے كُچھ لے كر دو
43
زندگی آگاہ تھی صیّاد کی تدبیر سے
ہم، اسیرِ دامِ گُل اپنی خوشی سے ہو گئے
44
زندگی نام ہے جہد و جنگ کا
موت کیا ہے؟ بھول جانا چاھئے
45
ز بیگانہ پرہیز کردن نکو ست
کہ دشمن تواں بود در زیِّ دوست
56
زمانہ درد کے صحرا تک آج لے آیا
گُزار کر تِری زُلفوں کے سائے سائے مجھے
47
زلف خالی ہاتھ خالی کس جگہ ڈھونڈھیں اُسے
تم نے دل لے کر کہاں اے بندہ پرور رکھ دیا؟
48
زندگی میں پاس سے دم بھر نہ ہوتے تھےجدا
قبر میں تنہا مجھے یاروں نے کیونکر رکھ دیا
49
زخموں سے بدن گلزار سہی پر ان کے شکستہ تیر گنو
خود ترکش والے کہہ دیں گے یہ بازی کس نے ہاری ہے
50
زباں سے تو کہہ کیا ارادہ ہے تیرا
اشاروں اشاروں میں دھمکانے
ترتیب دادہ: عادل سعیدی دیوبندی
تاریخ: ۸ / ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۱۱ / ستمبر ۲۰۱۶ء ۔
........................................
1
زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم
صحبتِ مادر میں طفلِ سادہ رہ جاتے ہیں ہم
اقبال
2
زلزلے ہیں، بجلیاں ہیں، قحط ہیں آلام ہیں
کیسی کیسی دخترانِ مادرِ ایام ہیں
اقبال
3
زمیں سے نوریانِ آسماں پرواز کرتے تھے
یہ خاکی زندہ تر، پائندہ تر، تا بندہ تر نکلے
اقبال
4
زبانیں شاخِ طوبیٰ اور دل غفلت کے تھالے ہیں
بہت ہے اللہ اللہ، کم مگر اللہ والے ہیں
اکبر
5
زندگی کردے نبی پر جو نثار
ہے وہی بس کامیابِ زندگی
مفتی محمود گنگوہی ؒ
6
زندگی سے زندگی محجوب ہے
مرگ اٹھاتی ہے نقابِ زندگی
مفتی محمود گنگوہی ؒ
7
زندگی مھبطِ الہام نظر آتی ہے
تیرے نادیدہ اشارات کو سمجھاتی ہے
ریاست علی طفر بجنوری
8
زلفِ گیتی کو عطا کرتا ہوں تابِ جاوداں
موج کو رفتار، گل کو بو، ستاروں کو زباں
ریاست علی ظفر بجنوری
9
زندگی زیرِ فلک فتنے جگانے کےلئے
زخم کھانے کےلئے ہے خوں بہانے کےلئے
کاشف الہاشمی
10
زندگی کے بتکدے سے سینکڑوں آزر اٹھے
عزم ابراہیم کا دم آزمانے کےلئے
کاشف الہاشمی
11
زبانِ اہلِ زباں میں ہے مرگ خاموشی
یہ بات بزم میں روشن ہوئی زبانئیِ شمع
غالب
12
زخم پر چھڑکیں کہاں طفلانِ بے پروا نمک
کیا مزہ ہوتا اگر پتھر میں بھی ہوتا نمک
غالب
13
زخم سلوانے سے مجھ پر چارہ جوئی کا ہے طعن
غیر سمجھا ہے کہ لذت، زخم سوزن میں نہیں
غالب
14
زور قسمت سے چل نہیں سکتا
دل سنبھالے سنبھل نہیں سکتا
داغ دہلوی
15
زاہد نہ کہہ برے، یہ مستانے آدمی ہیں
تجھ کو لپٹ پڑیں گے، دیوانے آدمی ہیں
داغ دہلوی
16
زیست سے تنگ ہو ائے داغ! تو جیتے کیوں ہو
جان پیاری بھی نہیں، جان سے جاتے بھی نہیں
داغ دہلوی
17
زمیں ہے دشمن، زماں ہے دشمن، جو اپنے تھے پرائے ہیں
سنوگے داستاں کیا تم مرے حالِ پریشاں کی
شہید اشفاق اللہ خان
18
زندگی کیا تری آہٹ کی صدا ہو جیسے
بندگی کیا، ترے ملنے کی دعا ہو جیسے
19
زندگی کو نہ بنا لیں وہ سزا میرے بعد
حوصلہ دینا انہیں میرے خدا میرے بعد
(حکیم ناصر)
20
زندگی ہے سو گزر رہی ہے ورنہ
ہمیں گزرے تو زمانے ہوئے
21
زندگی تُو ہی مختصر ہو جا
شبِ غم مختصر نہیں ہوتی
22
زندہ دلان شہر کو کیا ہوگیا فراز
آنکھیں بجھی بجھی ہیں تو چہرے مرے مرے
23
زندگی تیری عطا تھی تو ترے نام کی ہے
ہم نے جیسی بھی بسر کی ترا احساں جاناں
احمد فراز
24
زعمِ عقل و فہم اِک نادانئ معصوم ہے
اے گرفتارِ فریبِ ہوش، اے دل! دیکھ کر
عبد الحمید عدم
25
زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے
تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے
26
زندگانی تیرے شکوے بھی بجا ہیں لیکن
کیسے جھک جائیں کہ ہم لوگ انا والے ہیں
27
زباں پہ مصلحت،دل ڈرنے والا
بڑا آیا محبت کرنے والا
28
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانےکس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
ساغر صدیقی
29
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار ِیار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا
اقبالؒ
30
زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں
کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا
ذوق
31
زمین شورہ سنبل برنیارد
درو تخم عمل ضائع مگرداں
32
زر از بہرِ خوردن بُوَد اے پسر!
برائے نہادن چہ سنگ و چہ زر
33
ز ہر کلام، کلامِ عرب فصیح تر است
بجز کلامِ خموشی کہ افصح از عرب است
34
زاھد نہ داشت تابِ جمالِ پری رُخاں
کنجے گرفت و یادِ خدا را بہانہ ساخت
35
زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم
چہ خوش بودے اگر بودے زبانش در دہانِ من
36
زندگی کب تک حریفِ شورشِ دریا رہے
اس سفینے کو کسی دن غرق دریا کیجیے
37
زلفیں سینہ ناف کمر
ایک ندی میں کتنے بھنور
38
زندگی یہ تو نہیں تجھ کو سنوارا ہی نہ ہو
کچھ نہ کچھ تیرا احسان اُتارا ہی نہ ہو
39
زندگی کو ہے ضرورت میری
اور ضرورت بھی اشد ہے، حد ہے
40
زندگی کے حسین ترکش میں
کتنے بے رحم تیر ہوتے ہیں
41
زندگی یوں تو مکمل تھی اپنی فراز
نجانے کیوں اس کو دیکھا تو کسی شے کی کمی لگی
42
زخم خريد لايا ہُوں بازارِ مُحبت سے
دل ضِد كر رہا تها مُجهے كُچھ لے كر دو
43
زندگی آگاہ تھی صیّاد کی تدبیر سے
ہم، اسیرِ دامِ گُل اپنی خوشی سے ہو گئے
44
زندگی نام ہے جہد و جنگ کا
موت کیا ہے؟ بھول جانا چاھئے
45
ز بیگانہ پرہیز کردن نکو ست
کہ دشمن تواں بود در زیِّ دوست
56
زمانہ درد کے صحرا تک آج لے آیا
گُزار کر تِری زُلفوں کے سائے سائے مجھے
47
زلف خالی ہاتھ خالی کس جگہ ڈھونڈھیں اُسے
تم نے دل لے کر کہاں اے بندہ پرور رکھ دیا؟
48
زندگی میں پاس سے دم بھر نہ ہوتے تھےجدا
قبر میں تنہا مجھے یاروں نے کیونکر رکھ دیا
49
زخموں سے بدن گلزار سہی پر ان کے شکستہ تیر گنو
خود ترکش والے کہہ دیں گے یہ بازی کس نے ہاری ہے
50
زباں سے تو کہہ کیا ارادہ ہے تیرا
اشاروں اشاروں میں دھمکانے
والے
51
زبانوں پر الجھتے دوستوں کو کون سمجھائے
محبت کی زباں ممتاز ہے ساری زبانوں میں
52
زندگی گزرے محبت کے بغیر
اس سے بڑھ کر تو غضب کوئی نہیں
53
زندگی تیرے تعقب میں ہم
اتنا چلتے ہیں کہ مر جاتے ہیں
54
زندگی میں آ گیا جب کوئی وقتِ امتحاں
اس نے دیکھا ہے جگرؔ بے اختیارانہ مجھے
55
زمانے والوں کے ڈر سے اٹھا نہ ہاتھ مگر
نظر سے اس نے بصد معذرت سلام کیا
56
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اِس جینے کے ہاتھوں مرچلے
57
زندگی کا ساز بھی کیا ساز ہے
بج رہا ہے، اور بے آواز ہے
58
زیست میری عذاب کربیٹھے
گھر، وہ مجھ سے حجاب کربیٹھے
59
زیست کی اس کتاب میں جاناں
ذکر ہر باب میں تمہارا ہے
60
زیست کے ہیں یہی مزے ، وللہ
چار دن شاد ، چار دن نا شاد
61
زندگی ہے، یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اِس جینے کے ہاتھوں مر چلے
62
زمانہ سارا ہُوا ہے تمھارا محرمِ راز
نہ ہو سکا تو مِرا اعتبار ہو نہ سکا
63
زمینِ چمن گُل کِھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
64
زبان پر تو بظاہر خوشی کے جُملے ہیں
دہک رہا ہے حسد کا الاؤ لہجے میں
65
زندگی میں پاس سے دم بھر نہ ہوتے تھے جُدا
قبر میں تنہا مُجھے یاروں نے کیونکر رکھ دیا
66
زندگی کیا ہے، عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے، اِنھی اجزا کا پریشاں ہونا
67
زرپرستوں سے کوئ پوچھے کہ زر کے واسطے
دلہنوں کو ملک میں کب تک جلایا جائےگا
68
زمیں کا دل بھی یقیناً کسی نے چِیرا ہے
بلا سبب تو یہ چشمے اُبل نہیں پڑتے
69
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
70
زندگی جس سے عبارت ہے سو وہ زیست کہاں
یوں تو کہنے کےلئے کہدے کہ ہاں جیتے ہیں
میر درد
71
زندہ ہوں اس طرح کہ غمِ زندگی نہیں
جلتا ہوا دیا ہوں، مگر روشنی نہیں
بہزاد لکھنوی
72
زخم پہ زخم کھا کے جی اپنے لہو کے گھونٹ پی
آہ نہ کر، لبوں کو سی عشق ہے دل لگی نہیں
احسان دانش
73
زلفِ ہستی کو سنوارا ترے گیسو کی طرح
کام تھا گرچہ بہت سخت، مگر ہم نے کیا
آل احمد سرور
74
زباں پہ نامِ محبت بھی جرم تھا یعنی
ہم ان سے جرمِ محبت بھی بخشوا نہ سکے
میکش اکبرآبادی
75
زندگی اک مستقل شرحِ تمنا تھی مگر
عمر بھر تیری تمنا سے رہے بیگانہ ہم
روش صديقی
76
زندگی زہر کا اک جام ہوا جاتی ہے
کیا سے کیا یہ مئے گلفام ہوئی جاتی ہے
نہال
77
زندگی بھر دور رہنے کی سزائیں رہ گئیں
میرے کیسہ میں مری ساری وفائیں رہ گئیں
راحت اندوری
78
زاہدوں کو کسی کا خوف نہیں
صرف کالی گھٹا سے ڈرتے ہیں
شکیل بدایونی
79
زوالِ حسن بدلتا ہے عشق کی نظریں
بجھی جو شمع پتنگے نہ آئے شمع کے پاس
قمر جلال آبادی
80
زمانہ دیکھ رہا ہے نہ جانے کیا سمجھے
میرے جنازے پہ کیوں تم کھڑے ہوئے ہو اداس
قمر جلال آبادی
81
زمانہ جان گیا حسن و عشق کی فطرت
مری دعا سے تمہاری نگاہِ برہم سے
قمر جلال آبادی
82
زمانہ پی تو رہا ہے شرابِ دانش کو
خدا کرے کہ یہی زہر کارگر ہو جائے
رئیس امروہوی
83
زاہد سبھی ہے نعمتِ حق جو ہے اکل و شرب
لیکن عجب مزہ ہے شراب و کباب کا
سودا
84
زہے وہ معنیِ قرآں، کہے جو تُو واعظ
پھٹے دہن کے تئیں اپنے، کر رفو واعظ
سودا
85
زبان کون سی مشغول ذکر خیر نہیں
کہاں کہاں نہیں میں تیری داستاں سنتا
حیدر علی آتش
86
زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
حیدر علی آتش
87
زمانے میں کوئی تجھ سا نہیں ہے سیف زباں
رہے گی معرکے میں آتش آبرو تیری
حیدر علی آتش
88
زیرِ زمین سے آتا ہے جو گل سو زر بکف
قاروں نے راستے میں خزانہ لٹایا کیا؟
حیدر علی آتش
89
زلف میں دل کو تو الجھاتے ہو
پھر اسے آپ ہی سلجھائیے گا
میر درد
90
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
میر درد
91
زمانہ تو یونہی روٹھا رہے گا
چلو جالب انہیں چل کر منا لیں
حبیب جالب
92
زمانہ ایک سا جالب صدا نہیں رہتا
چلیں گے ہم بھی کبھی سر اُٹھا کے رستے میں
حبیب جالب
93
زندگی کٹ رہی ہے بڑے چین سے
اور غم ہوں تو وہ بھی عطا کیجیے
خمار بارہ بنکوی
94
زمانے والوں کے ڈر سے اٹھا نہ ہاتھ مگر
نظر سے اس نے بصد معذرت سلام کیا
خمار بارہ بنکوی
95
زاہد کچھ اور ہو نہ ہو مے خانے میں مگر
کیا کم یہ ہے کہ فتنۂ دیر و حرم نہیں
جگر
96
زخم وہ دل پہ لگا ہے کہ دکھائے نہ بنے
اور چاہیں کہ چھُپا لیں تو چھُپائے نہ بنے
جگر
97
زباں خموش، نظر بیقرار، چہرہ فق
تجھے بھی کیا تری کافر ادا نے لوٹ لیا
جگر
98
زمانے پر قیامت بن کے چھا جا
بنا بیٹھا ہے طوفاں در نفس کیا؟
جگر
99
زندگی ہے مگر پرائی ہے
مرگِ غیرت! تری دہائی ہے
جگر
100
زندگی اک خلش دے کے نہ رہ جا مجھ کو
درد وہ دے جو کسی صورت گوارا ہی نہ ہو
جاں نثار اختر
101
زندگی یہ تو نہیں تجھ کو سنوارا ہی نہ ہو
کچھ نہ کچھ تیرا احسان اُتارا ہی نہ ہو
جاں نثار اختر
102
زندگی تنہا سفر کی رات ہے
اپنے اپنے حوصلے کی بات ہے
جاں نثار اختر
103
زنجیر و دیوار ہی دیکھی تم نے تو مجروحؔ، مگر ہم
کوچہ کوچہ دیکھ رہے ہ
51
زبانوں پر الجھتے دوستوں کو کون سمجھائے
محبت کی زباں ممتاز ہے ساری زبانوں میں
52
زندگی گزرے محبت کے بغیر
اس سے بڑھ کر تو غضب کوئی نہیں
53
زندگی تیرے تعقب میں ہم
اتنا چلتے ہیں کہ مر جاتے ہیں
54
زندگی میں آ گیا جب کوئی وقتِ امتحاں
اس نے دیکھا ہے جگرؔ بے اختیارانہ مجھے
55
زمانے والوں کے ڈر سے اٹھا نہ ہاتھ مگر
نظر سے اس نے بصد معذرت سلام کیا
56
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اِس جینے کے ہاتھوں مرچلے
57
زندگی کا ساز بھی کیا ساز ہے
بج رہا ہے، اور بے آواز ہے
58
زیست میری عذاب کربیٹھے
گھر، وہ مجھ سے حجاب کربیٹھے
59
زیست کی اس کتاب میں جاناں
ذکر ہر باب میں تمہارا ہے
60
زیست کے ہیں یہی مزے ، وللہ
چار دن شاد ، چار دن نا شاد
61
زندگی ہے، یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اِس جینے کے ہاتھوں مر چلے
62
زمانہ سارا ہُوا ہے تمھارا محرمِ راز
نہ ہو سکا تو مِرا اعتبار ہو نہ سکا
63
زمینِ چمن گُل کِھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
64
زبان پر تو بظاہر خوشی کے جُملے ہیں
دہک رہا ہے حسد کا الاؤ لہجے میں
65
زندگی میں پاس سے دم بھر نہ ہوتے تھے جُدا
قبر میں تنہا مُجھے یاروں نے کیونکر رکھ دیا
66
زندگی کیا ہے، عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے، اِنھی اجزا کا پریشاں ہونا
67
زرپرستوں سے کوئ پوچھے کہ زر کے واسطے
دلہنوں کو ملک میں کب تک جلایا جائےگا
68
زمیں کا دل بھی یقیناً کسی نے چِیرا ہے
بلا سبب تو یہ چشمے اُبل نہیں پڑتے
69
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
70
زندگی جس سے عبارت ہے سو وہ زیست کہاں
یوں تو کہنے کےلئے کہدے کہ ہاں جیتے ہیں
میر درد
71
زندہ ہوں اس طرح کہ غمِ زندگی نہیں
جلتا ہوا دیا ہوں، مگر روشنی نہیں
بہزاد لکھنوی
72
زخم پہ زخم کھا کے جی اپنے لہو کے گھونٹ پی
آہ نہ کر، لبوں کو سی عشق ہے دل لگی نہیں
احسان دانش
73
زلفِ ہستی کو سنوارا ترے گیسو کی طرح
کام تھا گرچہ بہت سخت، مگر ہم نے کیا
آل احمد سرور
74
زباں پہ نامِ محبت بھی جرم تھا یعنی
ہم ان سے جرمِ محبت بھی بخشوا نہ سکے
میکش اکبرآبادی
75
زندگی اک مستقل شرحِ تمنا تھی مگر
عمر بھر تیری تمنا سے رہے بیگانہ ہم
روش صديقی
76
زندگی زہر کا اک جام ہوا جاتی ہے
کیا سے کیا یہ مئے گلفام ہوئی جاتی ہے
نہال
77
زندگی بھر دور رہنے کی سزائیں رہ گئیں
میرے کیسہ میں مری ساری وفائیں رہ گئیں
راحت اندوری
78
زاہدوں کو کسی کا خوف نہیں
صرف کالی گھٹا سے ڈرتے ہیں
شکیل بدایونی
79
زوالِ حسن بدلتا ہے عشق کی نظریں
بجھی جو شمع پتنگے نہ آئے شمع کے پاس
قمر جلال آبادی
80
زمانہ دیکھ رہا ہے نہ جانے کیا سمجھے
میرے جنازے پہ کیوں تم کھڑے ہوئے ہو اداس
قمر جلال آبادی
81
زمانہ جان گیا حسن و عشق کی فطرت
مری دعا سے تمہاری نگاہِ برہم سے
قمر جلال آبادی
82
زمانہ پی تو رہا ہے شرابِ دانش کو
خدا کرے کہ یہی زہر کارگر ہو جائے
رئیس امروہوی
83
زاہد سبھی ہے نعمتِ حق جو ہے اکل و شرب
لیکن عجب مزہ ہے شراب و کباب کا
سودا
84
زہے وہ معنیِ قرآں، کہے جو تُو واعظ
پھٹے دہن کے تئیں اپنے، کر رفو واعظ
سودا
85
زبان کون سی مشغول ذکر خیر نہیں
کہاں کہاں نہیں میں تیری داستاں سنتا
حیدر علی آتش
86
زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
حیدر علی آتش
87
زمانے میں کوئی تجھ سا نہیں ہے سیف زباں
رہے گی معرکے میں آتش آبرو تیری
حیدر علی آتش
88
زیرِ زمین سے آتا ہے جو گل سو زر بکف
قاروں نے راستے میں خزانہ لٹایا کیا؟
حیدر علی آتش
89
زلف میں دل کو تو الجھاتے ہو
پھر اسے آپ ہی سلجھائیے گا
میر درد
90
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
میر درد
91
زمانہ تو یونہی روٹھا رہے گا
چلو جالب انہیں چل کر منا لیں
حبیب جالب
92
زمانہ ایک سا جالب صدا نہیں رہتا
چلیں گے ہم بھی کبھی سر اُٹھا کے رستے میں
حبیب جالب
93
زندگی کٹ رہی ہے بڑے چین سے
اور غم ہوں تو وہ بھی عطا کیجیے
خمار بارہ بنکوی
94
زمانے والوں کے ڈر سے اٹھا نہ ہاتھ مگر
نظر سے اس نے بصد معذرت سلام کیا
خمار بارہ بنکوی
95
زاہد کچھ اور ہو نہ ہو مے خانے میں مگر
کیا کم یہ ہے کہ فتنۂ دیر و حرم نہیں
جگر
96
زخم وہ دل پہ لگا ہے کہ دکھائے نہ بنے
اور چاہیں کہ چھُپا لیں تو چھُپائے نہ بنے
جگر
97
زباں خموش، نظر بیقرار، چہرہ فق
تجھے بھی کیا تری کافر ادا نے لوٹ لیا
جگر
98
زمانے پر قیامت بن کے چھا جا
بنا بیٹھا ہے طوفاں در نفس کیا؟
جگر
99
زندگی ہے مگر پرائی ہے
مرگِ غیرت! تری دہائی ہے
جگر
100
زندگی اک خلش دے کے نہ رہ جا مجھ کو
درد وہ دے جو کسی صورت گوارا ہی نہ ہو
جاں نثار اختر
101
زندگی یہ تو نہیں تجھ کو سنوارا ہی نہ ہو
کچھ نہ کچھ تیرا احسان اُتارا ہی نہ ہو
جاں نثار اختر
102
زندگی تنہا سفر کی رات ہے
اپنے اپنے حوصلے کی بات ہے
جاں نثار اختر
103
زنجیر و دیوار ہی دیکھی تم نے تو مجروحؔ، مگر ہم
کوچہ کوچہ دیکھ رہے ہ
یں، عالم زنداں تم سے زیادہ
مجروح سلطان پوری
104
زخم یہ وصل کے مرہم سے بھی شاید نہ بھرے
ہجر میں ایسی ملی اب کے مسافت ہم کو
امجد اسلام امجد
105
زیرِ لب یہ جو تبسّم کا دِیا رکھا ہے
ہے کوئی بات جسے تم نے چھپا رکھا ہے
امجد اسلام امجد
106
زلف تیری کیوں نہ کھاوے پیچ و تاب
حال مجھ دل کا پریشاں بُوجھ کر
ولی دکنی
107
زخمی کیا ہے مجھ تری پلکوں کی انی نے
یہ زخم ترا خنجر و بھالاں سوں کہوں گا
ولی دکنی
108
زخم دل کے چھپا رہا ہوں میں
کوئی میری ہنسی کو کیا جانے
وجاہت عندلیب
109
زاہد وہ بادہ کش ہوں کہ مانگوں اگر دعا
اٹھیں ابھی شراب سے بادل بھرے ہوئے
ناسخ
110
زمیں کے چہرے پہ بارش کے پہلے پیار کے بعد
خوشی کے ساتھ تھی حیرانگی کی آمیزش
پروین شاکر
....................
مجروح سلطان پوری
104
زخم یہ وصل کے مرہم سے بھی شاید نہ بھرے
ہجر میں ایسی ملی اب کے مسافت ہم کو
امجد اسلام امجد
105
زیرِ لب یہ جو تبسّم کا دِیا رکھا ہے
ہے کوئی بات جسے تم نے چھپا رکھا ہے
امجد اسلام امجد
106
زلف تیری کیوں نہ کھاوے پیچ و تاب
حال مجھ دل کا پریشاں بُوجھ کر
ولی دکنی
107
زخمی کیا ہے مجھ تری پلکوں کی انی نے
یہ زخم ترا خنجر و بھالاں سوں کہوں گا
ولی دکنی
108
زخم دل کے چھپا رہا ہوں میں
کوئی میری ہنسی کو کیا جانے
وجاہت عندلیب
109
زاہد وہ بادہ کش ہوں کہ مانگوں اگر دعا
اٹھیں ابھی شراب سے بادل بھرے ہوئے
ناسخ
110
زمیں کے چہرے پہ بارش کے پہلے پیار کے بعد
خوشی کے ساتھ تھی حیرانگی کی آمیزش
پروین شاکر
....................
بتائیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نانی محترمہ کا نام کیا تھا؟؟؟
anonymous poll
برہ – 87
👍👍👍👍👍👍👍 83%
فاطمہ – 14
👍 13%
آمنہ – 4
▫️ 4%
👥 105 people voted so far.
anonymous poll
برہ – 87
👍👍👍👍👍👍👍 83%
فاطمہ – 14
👍 13%
آمنہ – 4
▫️ 4%
👥 105 people voted so far.
اپنا کام "مائی پرائر" پر ڈال!
🖋 راہی حجازی
کہتے ہیں کہ انسان غلطی اور خطا کا پتلا ہے، مرکب من الخطاء و النسیان ہے۔ انسان کے تشکیلی عناصر میں ایک عنصر بھول چوک کا بھی رکھا گیا ہے، یہ بھول چوک اپنے مقام پر ہو تو تو محمود ہے،لیکن اگر یہ غیر مقام ہونے لگے تو پھر مسئلہ ہے جس کا علاج و درماں کیا جانا ضروری ہے ۔ غیر مقام میں سے ایک نماز ہے، مسجد میں آئے دن یہ دیکھا جاتا ہے کہ بندہ اپنا موبائل سائلنٹ کرنا بھول جاتا ہے۔باوجودیکہ مسجد میں جلی حروف میں نمایاں جگہ پر انتباہی اعلانِ عام لگا ہوتا ہے پھر بھی سائلنٹ کرنا طاقِ نسیاں کی یادگار بن جاتا ہے۔ ویسے تو عام طور سے وہ سائلنٹ کردیا کرتا تھا مگر انسان ہے ذہول طاری ہوجاتا ہے اور بوجوہ آدمی اپنا موبائل سائلنٹ نہیں کرپاتا اور نورمل موڈ پر ہوتے ہوئے نماز میں شامل ہوجاتا ہے..........نیز المیہ یہ بھی دیکھیے کہ اتنے دنوں تک موبائل سائلنٹ پر رہا کبھی دوران نماز کال نہیں آئی، جس دن بندہ بھول جاتا ہے اسی دن موبائل ٹُنٹنا جاتا ہے.......... اپنی بھی نماز خراب دوسروں کی بھی خراب.......... پھر نماز کے بعد چشم ہائے مصلیان کی ناوَک فِگْنی اور انکھیوں سے گولی مارنا،کسی بھی خود دار شخص کے شیشہء دل کو کِرچی کرچی کردینے اور خیمہء جاں کو دھجی دھجی کردینے کیلیے از بس کہ کافی ہوتا ہے۔ زیر نظر اپلیکیشن اسی مسئلے کی چارہ سازی کیلئے مَنَصَّہء پلے اسٹور پر لائی گئی ہے۔ کام اس ایپ کا وہ یہ ہے کہ ایک بار سیٹنگ کرنے کے بعد بندہ اپنا کام اس پر ڈال سکتا ہے اور یہ ایپ اپنا کام بہ احسنِ وجوہ اور کمال سگھڑاپے کے ساتھ انجام دیتی رہتی ہے۔ اس اطلاقیے کی تنصیب کے بعد صارفِ موبائل کو اپنا موبائل بدستِ خود سائلنٹ کرنا ضروری نہیں ہوتا، ایپ از خود یہ کام انجام دیتی ہے۔ پھر نماز کے بعد بھی بہ ذاتِ خود نورمل موڈ پر موبائل کو لانا ضروری نہیں ہوتا۔ ایپ از خود نورمل موڈ پہ بھی کئے دیتی ہے۔ لب لباب یہ ہے کہ آپ اپنا کام مائی پرائر/صلاتی پر ڈال کر آرام کے پہلو کے ساتھ نماز میں شامل ہوسکتے ہیں.........ایپ کا پلے اسٹوری ڈاؤنلوڈ لنک ⬇
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.haz.prayer
انسٹال کرنے کے بعد ایپ کی سیٹنگ کس طور سے کرنی ہے اسےجاننے کیلیے ویڈیو ملاحظہ فرما لیں ⬇
🖋 راہی حجازی
کہتے ہیں کہ انسان غلطی اور خطا کا پتلا ہے، مرکب من الخطاء و النسیان ہے۔ انسان کے تشکیلی عناصر میں ایک عنصر بھول چوک کا بھی رکھا گیا ہے، یہ بھول چوک اپنے مقام پر ہو تو تو محمود ہے،لیکن اگر یہ غیر مقام ہونے لگے تو پھر مسئلہ ہے جس کا علاج و درماں کیا جانا ضروری ہے ۔ غیر مقام میں سے ایک نماز ہے، مسجد میں آئے دن یہ دیکھا جاتا ہے کہ بندہ اپنا موبائل سائلنٹ کرنا بھول جاتا ہے۔باوجودیکہ مسجد میں جلی حروف میں نمایاں جگہ پر انتباہی اعلانِ عام لگا ہوتا ہے پھر بھی سائلنٹ کرنا طاقِ نسیاں کی یادگار بن جاتا ہے۔ ویسے تو عام طور سے وہ سائلنٹ کردیا کرتا تھا مگر انسان ہے ذہول طاری ہوجاتا ہے اور بوجوہ آدمی اپنا موبائل سائلنٹ نہیں کرپاتا اور نورمل موڈ پر ہوتے ہوئے نماز میں شامل ہوجاتا ہے..........نیز المیہ یہ بھی دیکھیے کہ اتنے دنوں تک موبائل سائلنٹ پر رہا کبھی دوران نماز کال نہیں آئی، جس دن بندہ بھول جاتا ہے اسی دن موبائل ٹُنٹنا جاتا ہے.......... اپنی بھی نماز خراب دوسروں کی بھی خراب.......... پھر نماز کے بعد چشم ہائے مصلیان کی ناوَک فِگْنی اور انکھیوں سے گولی مارنا،کسی بھی خود دار شخص کے شیشہء دل کو کِرچی کرچی کردینے اور خیمہء جاں کو دھجی دھجی کردینے کیلیے از بس کہ کافی ہوتا ہے۔ زیر نظر اپلیکیشن اسی مسئلے کی چارہ سازی کیلئے مَنَصَّہء پلے اسٹور پر لائی گئی ہے۔ کام اس ایپ کا وہ یہ ہے کہ ایک بار سیٹنگ کرنے کے بعد بندہ اپنا کام اس پر ڈال سکتا ہے اور یہ ایپ اپنا کام بہ احسنِ وجوہ اور کمال سگھڑاپے کے ساتھ انجام دیتی رہتی ہے۔ اس اطلاقیے کی تنصیب کے بعد صارفِ موبائل کو اپنا موبائل بدستِ خود سائلنٹ کرنا ضروری نہیں ہوتا، ایپ از خود یہ کام انجام دیتی ہے۔ پھر نماز کے بعد بھی بہ ذاتِ خود نورمل موڈ پر موبائل کو لانا ضروری نہیں ہوتا۔ ایپ از خود نورمل موڈ پہ بھی کئے دیتی ہے۔ لب لباب یہ ہے کہ آپ اپنا کام مائی پرائر/صلاتی پر ڈال کر آرام کے پہلو کے ساتھ نماز میں شامل ہوسکتے ہیں.........ایپ کا پلے اسٹوری ڈاؤنلوڈ لنک ⬇
https://play.google.com/store/apps/details?id=com.haz.prayer
انسٹال کرنے کے بعد ایپ کی سیٹنگ کس طور سے کرنی ہے اسےجاننے کیلیے ویڈیو ملاحظہ فرما لیں ⬇
Google Play
My Prayer - Apps on Google Play
Calculates Muslims prayer times لحساب مواقيت الصلوات
RAHI HIJAZI راہی حجازی via @vote
بتائیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نانی محترمہ کا نام کیا تھا؟؟؟ anonymous poll برہ – 87 👍👍👍👍👍👍👍 83% فاطمہ – 14 👍 13% آمنہ – 4 ▫️ 4% 👥 105 people voted so far.
#صحیح_جواب
آپ ﷺ کی نانی محترمہ کا نام: برہ تھا
تا دم تحریر اسی 80 فیصد حضرات نے صحیح اوپشن پر کلک کیا۔۔۔ یہ سوال اب بند
آپ ﷺ کی نانی محترمہ کا نام: برہ تھا
تا دم تحریر اسی 80 فیصد حضرات نے صحیح اوپشن پر کلک کیا۔۔۔ یہ سوال اب بند
والدہ محترمہ کے انتقال کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک کتنی تھی؟؟؟
anonymous poll
چھ سال – 134
👍👍👍👍👍👍👍 96%
دس سال – 3
▫️ 2%
پانچ سال – 1
▫️ 1%
نو سال – 1
▫️ 1%
چودہ سال – 1
▫️ 1%
👥 140 people voted so far.
anonymous poll
چھ سال – 134
👍👍👍👍👍👍👍 96%
دس سال – 3
▫️ 2%
پانچ سال – 1
▫️ 1%
نو سال – 1
▫️ 1%
چودہ سال – 1
▫️ 1%
👥 140 people voted so far.
فیس بک اکاؤنٹ کیسے ڈیلیٹ کریں؟
🖋 راہی حجازی
فیس بک اکاؤنٹ ڈیلیٹ/ڈی ایکٹویٹ کرنے کیلیے جائیے
❶ اکاؤنٹ سیٹنگز (Account Settings) میں
پھر
❷ سیکورٹی( Security) >
پھر
❸ اکاؤنٹ ڈی ایکٹیویشن (Account Deactivation) میں
نوٹ :اکاؤنٹ ڈی ایکٹویٹ کرنے کے بعد پندرہ دن سے پہلے لاگ ان نہ کریں،نہیں تو وہ از خود فعال ہوجائے گا
🖋 راہی حجازی
فیس بک اکاؤنٹ ڈیلیٹ/ڈی ایکٹویٹ کرنے کیلیے جائیے
❶ اکاؤنٹ سیٹنگز (Account Settings) میں
پھر
❷ سیکورٹی( Security) >
پھر
❸ اکاؤنٹ ڈی ایکٹیویشن (Account Deactivation) میں
نوٹ :اکاؤنٹ ڈی ایکٹویٹ کرنے کے بعد پندرہ دن سے پہلے لاگ ان نہ کریں،نہیں تو وہ از خود فعال ہوجائے گا
🌹اھل مدارس کے لیےایک چشم کشا بات🌹
حضرت مفتی احمد صاحب خابپوری دامت برکاتھم نے اپنی ایک مجلس میں فرمایا:
میرا جب جامعہ ڈابھیل میں تدریس کے لیے تقرر ھوا تو پہلے سال مکمل عربی اول پڑھانے کو دی گئ...جس میں باون طلبہ تھے..میں ھرھر طالب علم سے فرداً فرداً تمام کتابوں کا سبق سنتا تھا اور پھر نیا سبق پڑھاتا تھا...نیز اسی کے ساتھ ساتھ پہلے گھنٹے میں جماعت عربی دوم میں نور الایضاح وقدوری یکے بعد دیگرے پوری پڑھای.
مزید فرمایا:
اسی سال یعنی 1969 میں احمدآباد میں زبردست فرقہ وارانہ فساد ھوا جس کی وجہ سے اس وقت کے جامعہ کے ناظم کتب خانہ مولانا عبدالعزیز صاحب مدرسہ چھوڑ کر چلے گئے...اخیر سال میں مھتمم مدرسہ مولانا سعید بزرگ رحمة اللہ علیہ بڑے پریشان ھوے کہ مولانا عبدالعزیز کے اچانک چلے جانے سے امتحانی پرچوں کی تیاری مشکل ھوگئ ھے...مفتی اسمعیل کچھولوی صاحب نے مھتمم ص سے ذکر کیا کہ یہ پرچوں کی تیاری کا کام بھی مفتی احمد کوسپرد کیاجاے..چنانچہ مھتمم ص نے یہ کام بھی مجھے دیا اور میں نے بخوشی اس کام کو بھی انجام دیا..اس زمانے میں پرچے سائیکلوجیکل طریقے سے تیار ھوتے تھے جو بڑا محنت طلب کام ھوتا تھا..اور اس کو لکھنے میں انگلیاں شل سی ھوجایا کرتی تھیں....اس طرح 35پرچے اس سال تیار کیے...اسوقت مجھے اس مشین کوچلانا بھی نھیں آتا تھا..خود حضرت مھتمم ص بنفس نفیس میرا ھاتھ بٹاتے تھے..بعد میں میں نے سیکھ لیا...اس طرح پرچوں کی تیاری میں آدھی آدھی رات گزرجاتی تھی ..
.نیز ناظم کتب خانہ ص کی جگہ مجھے ھی کتب خانے کا تمام کام...یعنی تمام طلبہ واساتذہ کی کتابوں کو جمع کرنا اور رجسٹر میں حذف واندراج کا کام تن تنھا کرنا پڑا...کبھی میں نے ہہ نھیں کہا کہ فلاں کام میں نھیں کروں گا......میرے کاموں کی خوبی کودیکھ کر آئندہ سال مجھے ھی ناظم کتب خانہ بنانا طے ھوا...مھتمم ص نے میرے حضرت یعنی فقیہ الامت رح سے بنگلے والے کمرے میں کہا کہ ھم ان کو ناظم کتب خانہ بنانا چاھتے ھیں..تو مفتی ص نے مجھے کہا کہ آپ کو مھتمم ص کتابوں کی تدریس سے تھوڑی منع کرتے ھیں..اس لیے قبول کرلو.گویا اب ذمہ داری تدریس کے ساتھ ناظم کتب خانہ کی بھی ھوگئ..میں کتب خانہ ھی میں بیٹھ کر طلبہ کو سبق پڑھادیاکرتا تھا....
ان سب کاموں کے ساتھ اطراف وجوانب کے گاوں اور دیھاتوں میں جاکر..گھر گھر اور مسجد سے اعلان کرکے غلہ کا چندہ اکٹھاکرتا تھا..اور سالہاسال اس خدمت کوانجام دیا..کبھی ان کاموں کواپنے لیے عار نھیں سمجھا...
مزید فرمایا...اھل مدرسہ اور اساتذہ کو چاھئیے کہ وہ مدرسہ کے ھرکام کواپناکام سمجھیں..یہ نہ کہیں کہ فلاں کام مجھے ھی کیوں سپرد کیا جارھا ھے؟؟ جسطرح ادمی اپنے گھر کے کاموں کی انجام دھی کے لیے کسی کے کہنے سننے کا انتظار نھیں کرتا اسی طرح مدرسہ کواپنا گھر سمجھنا چاھئیے..اور اپنے آپ کو ایک خاندان کا فرد تصور کرنا چاھئیے.....
اللہ ھم سب کو ان باتوں پرعمل کرنے کی توفیق عطافرماے...آمین
ع.ملیگی
حضرت مفتی احمد صاحب خابپوری دامت برکاتھم نے اپنی ایک مجلس میں فرمایا:
میرا جب جامعہ ڈابھیل میں تدریس کے لیے تقرر ھوا تو پہلے سال مکمل عربی اول پڑھانے کو دی گئ...جس میں باون طلبہ تھے..میں ھرھر طالب علم سے فرداً فرداً تمام کتابوں کا سبق سنتا تھا اور پھر نیا سبق پڑھاتا تھا...نیز اسی کے ساتھ ساتھ پہلے گھنٹے میں جماعت عربی دوم میں نور الایضاح وقدوری یکے بعد دیگرے پوری پڑھای.
مزید فرمایا:
اسی سال یعنی 1969 میں احمدآباد میں زبردست فرقہ وارانہ فساد ھوا جس کی وجہ سے اس وقت کے جامعہ کے ناظم کتب خانہ مولانا عبدالعزیز صاحب مدرسہ چھوڑ کر چلے گئے...اخیر سال میں مھتمم مدرسہ مولانا سعید بزرگ رحمة اللہ علیہ بڑے پریشان ھوے کہ مولانا عبدالعزیز کے اچانک چلے جانے سے امتحانی پرچوں کی تیاری مشکل ھوگئ ھے...مفتی اسمعیل کچھولوی صاحب نے مھتمم ص سے ذکر کیا کہ یہ پرچوں کی تیاری کا کام بھی مفتی احمد کوسپرد کیاجاے..چنانچہ مھتمم ص نے یہ کام بھی مجھے دیا اور میں نے بخوشی اس کام کو بھی انجام دیا..اس زمانے میں پرچے سائیکلوجیکل طریقے سے تیار ھوتے تھے جو بڑا محنت طلب کام ھوتا تھا..اور اس کو لکھنے میں انگلیاں شل سی ھوجایا کرتی تھیں....اس طرح 35پرچے اس سال تیار کیے...اسوقت مجھے اس مشین کوچلانا بھی نھیں آتا تھا..خود حضرت مھتمم ص بنفس نفیس میرا ھاتھ بٹاتے تھے..بعد میں میں نے سیکھ لیا...اس طرح پرچوں کی تیاری میں آدھی آدھی رات گزرجاتی تھی ..
.نیز ناظم کتب خانہ ص کی جگہ مجھے ھی کتب خانے کا تمام کام...یعنی تمام طلبہ واساتذہ کی کتابوں کو جمع کرنا اور رجسٹر میں حذف واندراج کا کام تن تنھا کرنا پڑا...کبھی میں نے ہہ نھیں کہا کہ فلاں کام میں نھیں کروں گا......میرے کاموں کی خوبی کودیکھ کر آئندہ سال مجھے ھی ناظم کتب خانہ بنانا طے ھوا...مھتمم ص نے میرے حضرت یعنی فقیہ الامت رح سے بنگلے والے کمرے میں کہا کہ ھم ان کو ناظم کتب خانہ بنانا چاھتے ھیں..تو مفتی ص نے مجھے کہا کہ آپ کو مھتمم ص کتابوں کی تدریس سے تھوڑی منع کرتے ھیں..اس لیے قبول کرلو.گویا اب ذمہ داری تدریس کے ساتھ ناظم کتب خانہ کی بھی ھوگئ..میں کتب خانہ ھی میں بیٹھ کر طلبہ کو سبق پڑھادیاکرتا تھا....
ان سب کاموں کے ساتھ اطراف وجوانب کے گاوں اور دیھاتوں میں جاکر..گھر گھر اور مسجد سے اعلان کرکے غلہ کا چندہ اکٹھاکرتا تھا..اور سالہاسال اس خدمت کوانجام دیا..کبھی ان کاموں کواپنے لیے عار نھیں سمجھا...
مزید فرمایا...اھل مدرسہ اور اساتذہ کو چاھئیے کہ وہ مدرسہ کے ھرکام کواپناکام سمجھیں..یہ نہ کہیں کہ فلاں کام مجھے ھی کیوں سپرد کیا جارھا ھے؟؟ جسطرح ادمی اپنے گھر کے کاموں کی انجام دھی کے لیے کسی کے کہنے سننے کا انتظار نھیں کرتا اسی طرح مدرسہ کواپنا گھر سمجھنا چاھئیے..اور اپنے آپ کو ایک خاندان کا فرد تصور کرنا چاھئیے.....
اللہ ھم سب کو ان باتوں پرعمل کرنے کی توفیق عطافرماے...آمین
ع.ملیگی
کتب خانہ گروپ میں مطلوبہ کتاب کیسے تلاش کریں؟
از: المکتبۃ الاسلامیہ انتظامیہ
❶ سب سے پہلے گروپ میں جائیں اور جو اوپر گروپ کا نام ہے اس کو ٹچ کیجیے۔ اسکرین شاٹ 1
❷ پھر Shared Mediaکو ٹچ کیجیے۔ اسکرین شاٹ 2
❸ دوبارہ Shared Media کو ٹچ کیجیے۔ اسکرین شاٹ3
❹ اس کے بعد Shared Files کو ٹچ کیجیے۔ اسکرین شاٹ 4
❺ اس کے بعد Search کے آئکن کو ٹچ کیجیے اور اپنی مطلوبہ کتاب کا نام رومن اردو، یا اردو میں لکھ کر تلاش کریں اور ڈاؤنلوڈ کریں۔ اسکرین شاٹ 5.......... اسکرین شاٹس ⬇
از: المکتبۃ الاسلامیہ انتظامیہ
❶ سب سے پہلے گروپ میں جائیں اور جو اوپر گروپ کا نام ہے اس کو ٹچ کیجیے۔ اسکرین شاٹ 1
❷ پھر Shared Mediaکو ٹچ کیجیے۔ اسکرین شاٹ 2
❸ دوبارہ Shared Media کو ٹچ کیجیے۔ اسکرین شاٹ3
❹ اس کے بعد Shared Files کو ٹچ کیجیے۔ اسکرین شاٹ 4
❺ اس کے بعد Search کے آئکن کو ٹچ کیجیے اور اپنی مطلوبہ کتاب کا نام رومن اردو، یا اردو میں لکھ کر تلاش کریں اور ڈاؤنلوڈ کریں۔ اسکرین شاٹ 5.......... اسکرین شاٹس ⬇