RAHI HIJAZI راہی حجازی
9.19K subscribers
1.18K photos
318 videos
94 files
1.38K links
ہماری اردو موبائل ایپ

https://play.google.com/store/apps/details?id=com.arshad.rahihijaziurducalender


ٹیلی گرام رابطہ آئی ڈی
@RAHIHIJAZI
Download Telegram
حرف م سے اشعار!!


ترتیب داده: عرفان پالن پوری
تاریخ: ١٨ / ذی الحجہ ۱۴۳۷؁ھ مطابق ٢٠/ ستمبر ۲۰۱۶؁ء


1
متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی
مقام بندگی دے کر نہ لوں شان خداوندی
( علامہ اقبال )

2
مسلماں ہے توحید میں گرم جوش
مگر دل ابھی تک ہے زنار پوش
( علامہ اقبال )

3
مجھے عشق کے پر لگا کر اڑا
مری خاک جگنو بنا کر اڑا
( علامہ اقبال )

4
مرشد کی یہ تعلیم تھی اے مسلم شوریدہ سر
لازم ہے رہرو کے لیے دنیا میں سامان سفر
( علامہ اقبال )

5
میں یوں تو زاہدو! اک قطرہٴ ناچیز ہوں بیشک
مگر پی لوں تو بحرِ بیکراں معلوم ہوتا یوں
( خواجہ عزیزالحسن مجذوبؔ )

6
میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے؟
میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے؟
( علامہ اقبال )

7
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
( علامہ اقبال )

8
محمد بھی ترا ، جبریل بھی ، قرآن بھی تیرا
مگر یہ حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا؟
( علامہ اقبال )

9
محفل کون و مکاں میں سحر و شام پھرے
مئے توحید کو لے کر صفت جام پھرے
( علامہ اقبال )

10
منزل دہر سے اونٹوں کے حدی خوان گئے
اپنی بغلوں میں دبائے ہوئے قرآن گئے
( علامہ اقبال )

11
مشکلیں امت مرحوم کی آساں کر دے
مور بے مایہ کو ہمدوش سلیماں کر دے
( علامہ اقبال )

12
مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری
تهمتا نہ تها کسی سے، سیل رواں ہمارا
( علامہ اقبال )

13
مسجدِ مرثیہ خوں ہے کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحبِ اوصاف حجازی نہ رہے
( علامہ اقبال )

14
مثل انجم افق قوم پہ روشن بھی ہوئے
بت ہندی کی محبت میں برہمن بھی ہوئے
( علامہ اقبال )

15
مثل بو قید ہے غنچے میں، پریشاں ہوجا
رخت بردوش ہوائے چمنستاں ہوجا
( علامہ اقبال )

16
مضطرب باغ کے ہر غنچے میں ہے بوئے نیاز
تو ذرا چھیڑ تو دے، تشنہء مضراب ہے ساز
( علامہ اقبال )

17
مئے وحدت کا چڑهتا ہے سرور، آہستہ آہستہ
تهکا ماندہ پہنچ جاتا ہے دور ، آہستہ آہستہ


18
محروم تماشا کو پهر دیدہٴ بینا دے
دیکها ہے جو کچھ میں نے، اوروں کو بهی دکهلادے
( علامہ اقبال )

19
میں بلبل نالاں ہوں، اک اجڑے گلستاں کا
تاثیر کا سائل ہوں، محتاج کو داتا دے
( علامہ اقبال )

20
مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو میرا شوق دیکھ، مرا انتظار دیکھ
( علامہ اقبال )

21
مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اڑتے جاتے ہیں
مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں
( علامہ اقبال )

22
محبت کے لئے دل ڈھونڈ کوئی ٹوٹنے والا
یہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوں میں
( علامہ اقبال )

23
مثال پرتو مے ، طوف جام کرتے ہیں
یہی نماز ادا صبح و شام کرتے ہیں
( علامہ اقبال )

24
مسجد تو بنادی شب بهر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
( علامہ اقبال )

25
من کی دنیا ! من کی دنیا سوز و مستی ، جذب و شوق
تن کی دنیا! تن کی دنیا سود و سودا ، مکروفن
( علامہ اقبال )

26
من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھاؤں ہے ، آتا ہے دھن جاتا ہے دھن
( علامہ اقبال )

27
من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج
من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن
( علامہ اقبال )

28
مجھے تہذیب حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی
کہ ظاہر میں تو آزادی ہے ، باطن میں گرفتاری
( علامہ اقبال )

29
مارا گیا تب گذرا بوسے سے ترے لب کے
کیا میرؔ بھی لڑکا تھا باتوں میں بہل جاتا
( میر تقی میر )

30
مہر کی تجھ سے توقع تھی ستمگر نکلا
موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا
( میر تقی میر )

31
معیشت ہم فقیروں کی سی اخوان زماں سے کر
کوئی گالی بھی دے تو کہہ بھلا بھائی بھلا ہو گا
(میر تقی میر )

32
میکدے سے تو ابھی آیا ہے مسجد میں میرؔ
ہو نہ لغزش کہیں مجلس ہے یہ بیگانوں کی
( میر تقی میر )

33
مانگ پناہ خدا سے بندے دل لگنا اک آفت ہے
عشق نہ کر زنہار نہ کر واللہ نہ کر باللہ نہ کر
( میر تقی میر )

34
مکمل دو ہی دانوں پر یہ تسبیح محبت ہے
جو آئے تیسرا دانہ یہ ڈوری ٹوٹ جاتی ہے


35
مقرر وقت ہوتا ہے محبت کی نمازوں کا
ادا جن کی نکل جائے قضا بھی چھوٹ جاتی ہے


36
محبت کی کی نمازوں میں امامت ایک کو سونپو
اسے تکنے اسے تکنے سے نیت ٹوٹ جاتی ہے


37
محبت دل کا سجدہ ہے جو ہے توحید پر قائم
نظر کے شرک والوں سے محبت روٹھ جاتی ہے
( محمد کبیر )

38
میں ایسا خار نہیں ، جس نے ٹھیس پہنچائی
میں ہوں گُلاب تیری زلف میں سجا ہوں ابھی


39
مرے وجود کے ٹکڑے سبھی ہیں خاکستر
تری نظر سے گرا تو کہاں اٹھا ہوں ابھی


40
کیسی شدت سے تجھے ہم نے سراہا، آہا...،
تیری پرچھائیں کو بھی ٹوٹ کے چاہا، آہا...،
( رحمٰن فارس )

41
کل مرے حق میں تھا اور آج مخالف ہوا تُو...،
کیسے بدلا ہے بیاں تو نے ،گواہا، آہا...،
( رحمٰن فارس )

42
میں اپنی ہر اک سانس اسی رات کو دے دوں
سر رکھ کے میرے سینے پہ سوجاؤ کسی دن
(امجد اسلام امجد)

43
مدت ہوئی ہے ی
ار کو مہماں کئے ہوئے
جوشِ قدح سے بزم چراغاں کئے ہوئے
( مرزاغالب )

44
مجھ سے کترا کے نکل جا مگر اے جانِ جہاں!
دل کی لَو دیکھ رہا ہوں ترے رخساروں میں
( احمد ندیم قاسمی )

45
مجھ کو نفرت سے نہیں پیار سے مصلوب کرو
میں بھی شامل ہوں محبت کے گنہ گاروں میں
( احمد ندیم قاسمی )

46
ہم چھیڑ تو دیں گے ترا محبوب فسانہ
کھنچ آئیں گی فردوس کی مدہوش فضائیں
( احمد ندیم قاسمی )

47
محمد کی محبت ہے سند آزاد ہونے کی
خدا کے دامن توحيد میں آباد ہونے کی


48
محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
اس میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے


49
مجهے اپنی پستی کی شرم ہے تیری رفعتوں کا خیال ہے
مگر اپنے دل کو میں کیا کروں اسے پهر بهی شوقِ وصال ہے


50
ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ
اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ
( علامہ اقبال )

51
میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو
نہیں ہے بندہ حر کے لیے جہاں میں فراغ
( علامہ اقبال )

52
میری بربادی کی ہے چھوٹی سی اک تصویر تو
خوا ب میری زندگی تھی جس کی ہے تعبیر تو
( علامہ اقبال )

53
میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلماں میں اسی لئے نمازی


54
مہر کا پرتو ترے حق میں ہے پیغام اجل
محو کر دیتا ہے مجھ کو جلوۂ حسن ازل
( علامہ اقبال )

55
میرے حق میں تو نہیں تاروں کی بستی اچھی
اس بلندی سے زمیں والوں کی پستی اچھی
( علامہ اقبال )

56
میری قسمت میں ہے ہر روز کا مرنا جینا
ساقی موت کے ہاتھوں سے صبوحی پینا
( علامہ اقبال )

57
میری قدرت میں جو ہوتا، تو نہ اختر بنتا
قعر دریا میں چمکتا ہوا گوہر بنتا
( علامہ اقبال )

58
میں نے کہا کہ موت کے پردے میں ہے حیات
پوشیدہ جس طرح ہو حقیقت مجاز میں
( علامہ اقبال )

59
مکاں فانی ، مکیں آنی، ازل تیرا، ابد تیرا
خدا کا آخری پیغام ہے تو، جاوداں تو ہے
( علامہ اقبال )

60
مٹایا قیصر و کسری کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا، زور حیدر، فقر بوذر، صدق سلمانی
( علامہ اقبال )

61
محبت معانی و الفاظ میں لائی نہیں جاتی
یہ وہ نازک حقیقت ہے جو سمجهائی نہیں جاتی


62
محبت کیا ہے دل درد سے معمور ہوجانا
متاع جاں کسی کو سونپ کر مجبور ہوجانا


63
مجھ کو نہ اپنا ہوش ہے نہ دنیا کا ہوش ہے
بیٹها ہوں مست ہوکے تمہارے جمال میں


64
وہ مجھ پر چهاگئے میں زمانے پر چهاگیا
میرا کمال عشق میں اتنا ہے اے جگر
( جگرؔمرادآبادی )

65
مٹا دیا مرے ساقی نے عالم من و تو
پلا کے مجھ کو مے لا الہ الا ھو
( علامہ اقبال )

66
میں نو نیاز ہوں ، مجھ سے حجاب ہی اولی
کہ دل سے بڑھ کے ہے میری نگاہ بے قابو
( علامہ اقبال )

67
محبت دونوں عالم میں یہی جاکر پکار آئی
جسے خو یار نے چاہا اسی کو یاد یار آئی


68
مجھے اے ہم نشیں رہنے دے شغل سینہ کاوی میں
کہ میں داغ محبت کو نمایاں کر کے چھوڑوں گا
( علامہ اقبال )

69
محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے
کیا ہے اپنے بخت خفتہ کو بیدار قوموں نے
( علامہ اقبال )

70
منہ نہ دکھلاوے، نہ دکھلا، پر بہ اندازِ عتاب
کھول کر پردہ ذرا آنکھیں ہی دکھلا دے مجھے
( مرزا غالب )

71
مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
جوشِ قدح سے بزم چراغاں کئے ہوئے
( مرزا غالب )

72
مقبول جو ہے شاذ ہے قابل تو بہت ہے
آئینہ کے مانند ہے کم، دل تو بہت ہے
( اکبر الہ آبادی )

73
مسجدیں چهوڑ کے جا بیٹهے میخانوں میں
واہ کیا جوشِ ترقی ہے مسلمانوں میں
( اکبر الہ آبادی )

74
میری چشمِ بصیرت نے اک ایسا دور دیکها ہے
کہ جن کا چاند تها مسکن، انہیں در گور دیکھا ہے


75
مشکل ہے اگر میرا طیبہ میں ابهی جانا
اے بادِ صبا میری آہوں کو تو جانے دو


76
مٹادو اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہو
کہ دانہ خاک میں مل کر ہی گل و گلزار ہوتا ہے


77
مایوس نہ ہو اہلِ زمیں اپنی خطا سے
تقدیر بدل جاتی ہے مضطر کی دعا سے
( حکیم اختر صاحب )

78
مستند رستے وہی مانے گئے
جن سے ہوکر تیرے دیوانے گئے
( حکیم اختر صاحب )

79
معصوم نظر کا بهولا پن للچاکے لبهانا کیا جانے
تیر آپ نشانہ بنتا ہے وہ تیر چکانا کیا جانے


80
مصائب میں الجھ کر مسکرانا میری فطرت ہے
مجھے ناکامیوں پر اشک برسانا نہیں آتا
( مولانا حسین احمد مدنی ؒ )


81
متاعِ لوح و قلم چھین گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبولی ہیں انگلیاں میں نے
( فیض احمد فیض )

82
میں بچ بھی جاؤں تو تنہائی مار ڈالے گی
مرے قبیلے کا ہر فرد قتل گاہ میں ہے
( پروین شاکر )

83
مادرِ ہند کا ہر چاک جگر سینے دو
چین کے ساتھ مجھے بھی کوئی دن جینے دو
( انور صابری )

84
مرے جامِ آتشیں میں وہ بلا کی شورشیں ہیں
کہ چھلک پڑے ذرا بھی تو سلگ اٹھے زمانہ
( عبدالحمید نعمانی )

85
مناسب ہے سمیٹو دامنِ دستِ دعا عاجز
زباں ہی بےاثر ہے، ہاتھ پھیلانے سے کیا ہوگا
( کلیم عاجز )

86
میں روؤں ہوں، رونا مجھے بھائے ہے
کشی کا بھلا اس میں کیا جائے ہے
( کلیم عاجز )

87
مری شاعری میں نہ رقصِ جام، نہ مئے کی رنگ
فشانیاں
وہی دکھ بھروں کی حکایتیں، وہی دل جلوں کی کہانیاں
( کلیم عاجز )

88
میری تدبیروں کی مشکل اب تو یارب سہل کر
کیا یہ ساری عمر منہ تکتی رہیں تدبیر کا
( فانی بدایونی )

89
محرابِ مصطفیٰ میں ہو معراج پھر نصیب
پھر سامنے وہ روضۂ خیر الانام ہو
( مفتی شفیع عثمانی )

90
میرے آقا کا مجھ پر تو اتنا کرم تھا
بھر دیا میرا دامن پھیلانے سے پہلے
( مولانا قاسم نانوتویؒ )

91
میں آیا ہوں مدت میں کوئی اس سے کہہ دو
تمہارا گنہ گار پیدا ہوا ہے
( مصحفی غلام ہمدانی )

92
میاں مصحفی بیچتے ہو جو دل کو
تو لاؤ خریدار پیدا ہوا ہے
( مصحفی غلام ہمدانی )

93
محتسب چن لینے دے اک اک مجھے
دل کے ٹکڑے ہیں یہ ٹکڑے جام کے
( حفیظ جونپوری )

94
میں ازل سے صبحِ محشر تک فروزاں ہی رہا
حسن سمجھا تھا چراغِ کشتۂ محفل مجھے
( جگر مرادآبادی )

95
میں گنہ گار جنوں میں نے یہ مانا لیکن
کچھ ادھر سے بھی تقاضائے نظر ہوتا ہے
( جگر مرادآبادی )

96
میں کیوں کر نہ رکھوں عزیز اپنے دل کو
کہیں دل سا بھی یار پیدا ہوا ہے
( مصحفی غلام ہمدانی )

97
مئے خانۂ یورپ کے دستور نرالے ہیں
لاتے ہیں سرور اول، دیتے ہیں شراب آخر
( علامہ اقبال )

98
میں بھی حیران ہوں ائے داغ کہ یہ بات ہے کیا
وعدہ وہ کرتے ہیں، آتا ہے تبسم مجھ کو
( داغ دہلوی )

99
میرے کہنے میں ہے دل جب تک مرے پہلو میں ہے
آپ لے لیجئے اسے، یہ آپ کا ہوجائے گا
( بیخود دہلوی )

100
میں جاتا ہوں دل کو ترے پاس چھوڑے
مری یاد تجھ کو دلاتا رہے گا
( میر درد )

101
مایوسئ مآلِ محبت نہ پوچھئے
اپنوں سے پیش آئے ہیں بیگانگی سے ہم
( ساحر لدھیانوی )

102
میں عمر بھر جواب نہیں دے سکا عدم
وہ اک نظر میں اتنے سوالات کرگئے
( عبدالحمید عدم )

103
معلوم ہوا اب مری قسمت میں نہیں تم
ملنا تھا مجھے کاتبِ تقدیر سے پہلے
( قمر جلال آبادی )

104
ملال کر دلِ مضطر نہ ان کے جانے کا
خدا نے چاہا تو آئیں گے وہ ادھر پھر بھی
( قمر جلال آبادی )

105
مُسکرانے کی ضرورت کیا ہے
مرنے والے یونہی مر جائیں گے
( رام پرساد بسمل )

106
میری دُعا کہ غیر پہ اُن کی نظر نہ ہو
وہ ہاتھ اٹھا رہے ہیں کہ یارب اثر نہ ہو
( رام پرساد بسمل )

107
محفل میں اس نے غیر کو پہلو میں دی جگہ
گزری جو دل پہ کیا کہیں بسمل کسی سے ہم
( رام پرساد بسمل )
حرف تہجی و سے اشعار

ترتیب دادہ: راہی حجازی

تاریخ: 15 ذی الحجہ 1437ھ/ مطابق 18 ستمبر 2016 ء
..............................

1

وہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا
پھر اسکے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
مہاراج بہادر برق
2

وہ شیفتہ کہ دھوم ہے حضرت کے زہد کی
میں کیا کہوں کہ رات مجھے کس کے گھر ملے
مصطفی خاں شیفتہ
3

وہ جب چلے تو قیامت بپا تھی چار طرف
ٹھہر گئے تو زمانے کو انقلاب نہ تھا
داغ دہلوی
4

وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
گئے تو کیا تری بزم خیال سے بھی گئے
عزیز حامد مدنی
5

وصالِ یار سے دُونا ہوا عشق
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
6

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
قابل اجمیری
7

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
اقبال
8

وائے ناکامی! متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
اقبال
9

واعظ! کمال ترک سے ملتی ہے یاں مراد
دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبی بھی چھوڑ دے
اقبال
10

وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسم شاہبازی
اقبال

11
وہ آئیں(/آئے) گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
غالب

12
ویراں ہے میکدہ،خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
فیض احمد فیض

13

وہ سجدہ ،روح زمیں جس سے کانپ جاتی تھی
اسی کو آج ترستے ہیں منبر و محراب
اقبال

14وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ،ضرب ہے کاری
اقبال

15
وہ مرد مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستی کردار
اقبال

16
وہی سجدہ ہے لائق اہتمام
کہ ہو جس سے ہر سجدہ تجھ پر حرام
اقبال

17
وہ مہرباں ہے تو اقرار کیوں نہیں کرتا
وہ بدگماں ہے تو سو بار آزمائے مجھے
قتیل شفائی

18
وائے ناکامی ، فلک نے تاک کر توڑا اسے
میں نے جس ڈالی کو تاڑا آشیانے کے لیے
اقبال

19
وہ جب سے گیا، شہر میں ہے قحط رقیباں
اس شہر کی رونق تھی اسی شخص کے دم سے
قتیل شفائی


20
وہ جس کے نین ہیں گہرے سمندروں جیسے
وہ اپنی ذات میں مجھ کو ڈبونے آیا ہے
قتیل شفائی

21
وہ تیری جدائی کے دن توبہ توبہ
کہ راتیں بھی شرما گئیں تیرگی سے
خمار بارہ بنکوی

22
واعظ! نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو
کیا بات ہے تمہاری شرابِ طہور کی!
مرزا غالب

23
وہی تو سب سے زیادہ ہے نکتہ چیں میرا
جو مسکرا کے ہمیشہ گلے لگائے مجھے
قتیل شفائی

24
وہ میرا دوست ہے سارے جہاں‌کو ہے معلوم
دغا کرے وہ کسی سے تو شرم آئے مجھے
قتیل شفائی


25
وہ مجھ سے میں اُس سے جدا ہو گیا
زمانے کا قرضہ ادا ہو گیا
خمار بارہ بنکوی

26
وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
اقبال

27
وہ اک عورت کی خاطر لڑ رے ہیں
مِرے احباب پُورے مرد نکلے
قتیل شفائی

28
وہی پھر مجھے یاد آنے لگے ہیں
جنہیں بھولنے میں زمانے لگے ہیں
خمار بارہ بنکوی

29
وہی زمانے کی گردش پہ غالب آتا ہے
جو ہر نفس سے کرے عمر جاوداں پیدا
اقبال

30
وہی جہاں ہے ترا جس کو تو کرے پیدا
یہ سنگ و خشت نہیں ، جو تری نگاہ میں ہے
اقبال


31
وہ ہیں پاس اور یاد آنے لگے ہیں
محبت کے ہوش اب ٹھکانے لگے ہیں
خمار بارہ بنکوی

32
وہ کیا تشخیص کرتے میرے غم کی
معالج خود سراپا درد نکلے
قتیل شفائی

33
وہ اور ہوں گے جو خنجر چھپا کے لائے ہیں
ہم اپنے ساتھ پھٹی آستین لائے ہیں
راحت اندوری

34
وہی سجدہ ہے لائق اہتمام
کہ ہو جس سے ہر سجدہ تجھ پر حرام
اقبال

35
واقف ہو اگر لذت بیداری شب سے
اونچی ہے ثریا سے بھی یہ خاک پر اسرار
اقبال

36
وہ کس نازو انداز سے کہہ رہے ہیں
شکیل اب محبت کے قابل نہیں ہے
شکیل بدایونی

37
واقف نہیں تو ہمت مرغان ہوا سے
تو خاک نشیمن،انھیں گردوں سے سروکار
اقبال

38
وہ بدنصیب ہیں جنہیں غم ناگوار ہے
غم تو دلیل ِ رحمت ِ پروردگار ہے
خمار بارہ بنکوی


39
وہی بت فروشی ، وہی بت گری ہے
سنیما ہے یا صنعت آزری ہے
اقبال

40
وہی دیرینہ بیماری ، وہی نا محکمی دل کی
علاج اس کا وہی آب نشاط انگیز ہے ساقی
اقبال

41
وفا جفا کی طلب گار ہوتی آئی ہے
ازل کے دن سے یہ اے یار ہوتی آئی ہے
مرزا غالب

42
وہی ہے خمار جنونی وہی ہے
جو اپنی مرضی کرے اور کسی کی نہ مانے
خمار بارہ بنکوی

43
وہی حرم ہے ، وہی اعتبار لات و منات
خدا نصیب کرے تجھ کو ضربت کاری!
اقبال

44
واعظ سلام لے کے چلا میکدے کو میں
فردوسِ گمشدہ کا پتا یاد آ گیا
خمار بارہ بنکوی

45
وائے وہ طائر بے بال ہوس ناک جسے
شوق گل گشت گلستاں میں گرفتاری ہے
میر تقی میر

46
وحشت نہ سمجھ اس کو اے مردک میدانی!
کہسار کی خلوت ہے تعلیم خود آگاہی
اقبال

47
وفا کی کھوج میں نکلوں تو پاؤں جلتے ہیں
ابھی تو صرف جما ہے غبار چہروں پر
قتیل شفائی

48
وہی اک حسن ہے، لیکن نظر آتا ہے ہر شے میں
یہ شیریں بھی ہے گویا بیستوں بھی ، کوہکن بھی ہے
اقبا
کہہ گئے تھے کہ آئیں گے ہم چراغ جلے
تمام رات چراغوں سے اپنے داغ جلے
ناسخ

97
وہ آئے ہیں پشیماں لاش پر اب
تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے
مومن

98
وہ بھی آنے کو ہیں قیامت بھی
دیکھئیے کون پیشتر آئے
جلیل مانک پوری
99

وہ عرض غم پہ مری،انکا اہتمام سکوت
تمام سوزشِ تفصیلِ واقعات گئی
کوثر جائسی

100
وہ کیا بتائیں،انہیں کیا خبر،جو صحن گلشن میں بس رہے ہیں
بہار کا لطف ہم سے پوچھو کہ ہم اسیرِ قفس رہے ہیں
حیات لکھنوی


101
وہ زمیں پہ جنکا تھا دبدبہ کہ بلند عرش پہ نام تھا
انہیں یوں فلک نے مٹایا کہ مزار تک کا نشاں نہیں
چکبست

102
وہ سب کے سامنے اس سادگی سے بیٹھے ہیں
کہ دل چرانے کا ان پر گماں نہیں ہوتا
مجذوب

103
وہ کون ہیں جنہیں توبہ کی مل گئی فرصت
ہمیں گناہ بھی کرنے کو زندگی کم ہے
آنند نرائن ملا

104
وہ کیا جانیں،بھلا ہوتی ہیں کیسی عیش کی راتیں
میسر نہ ہو جنکو تا سحر تکیہ پہ سر رکھنا
شوکت بلگرامی

105
وہ تو کہئیے آپکی الفت میں دل بہلا رہا
ورنہ دنیا چار دن بھی رہنے کے قابل نہ تھی
منظر لکھنوی

106
وہ تو بحر کی باتیں سنا رہے ہیں مجھے
جو سطح بحر پہ دو چار ہاتھ مار آئے
شمیم کرہانی

107
وہ زندہ ہے جو بہے موج وقت کی رو میں
وہ زندہ تر ہے جو طوفاں میں ٹھیرنا جانے
نشور واحدی

108
وعدہ کی شب خاموش فضائیں،دل میں خلش وہ آئیں نہ آئیں
در پہ نگاہیں،لب پہ دعائیں،اف ری محبت! ہائے جوانی
خمار بارہ بنکوی


109
وہ سراپا سامنے ہے، استعارے مسترد
چاند، جگنو، پھول، خوشبو اور ستارے مسترد
ظفر اقبال ظفر


110
وہ دل ہی کیا ترے ملنے کی جو دعا نہ کرے
میں تجھ کے بھول کے زندہ رہوں،خدا نہ کرے
قتیل شفائی

ختم شد
حرف تہجی ہ سے منتخب اشعار!!



ترتیب داده: عرفان پالن پوری ، عادل سعیدی دیوبندی
تاریخ: ۱۶ / ذی الحجہ ۱۴۳۷؁ھ مطابق ۱۹ / ستمبر ۲۰۱۶؁ء


1
ہوائیں آنے لگیں اب تو کوئے دلبر کی
بڑهادے آه ذرا چال قلب مظطر کی
( خواجہ عزیزالحسن مجذوبؔ )

2
ہمارا شغل ہے راتوں کو رونا یاد دلبر میں
ہماری نیند ہے محوِ خیالِ یار ہوجانا
( خواجہ عزیزالحسن مجذوبؔ )

3
ہٹتا نہیں ہے دل سے کسی دم ترا خیال
سوتا بهی ہوں تو خواب میں پیشِ نظر ہے تو
( خواجہ عزیزالحسن مجذوبؔ )

4
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
( علامہ اقبال )

5
ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
( علامہ اقبال )

6
ہے جو ہنگامہ بپا یورش بلغاری کا
غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا
( علامہ اقبال )

7
ہم تو رخصت ہوئے ، اوروں نے سنبھالی دنیا
پھر نہ کہنا ہوئی توحید سے خالی دنیا
( علامہ اقبال )

8
ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے
کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے ، جام رہے!
( علامہ اقبال )

9
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے رہر و منزل ہی نہیں
( علامہ اقبال )

10
ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعث رسوائی پیغمبر ہیں
( علامہ اقبال )

11
ہر مسلماں رگ باطل کے لیے نشتر تھا
اس کے آئینہء ہستی میں عمل جوہر تھا
( علامہ اقبال )

12
ہر کوئی مست مے ذوق تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو! یہ انداز مسلمانی ہے!
( علامہ اقبال )

13
ہے تنک مایہ تو ذرے سے بیاباں ہوجا
نغمہ موج سے ہنگامہء طوفاں ہوجا!
( علامہ اقبال )

14
ہے بجا شیوہء تسلیم میں مشہور ہیں ہم
قصہ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
( علامہ اقبال )

15
ہم کو جمعیت خاطر یہ پریشانی تھی
ورنہ امت ترے محبوب کی دیوانی تھی؟
( علامہ اقبال )

16
ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر
کہیں مسجود تھے پتھر ، کہیں معبود شجر
( علامہ اقبال )

17
ہم جو جیتے تھے تو جنگوں کے مصیبت کے لئے
اور مرتے تھے ترے نام کی عظمت کے لئے
( علامہ اقبال )

18
ہم پہ الزام بغاوت کا لگانے والو
بے وفا کون ہے اجداد سے پوچها ہوتا

کتنے جاں باز سپوتوں نے دیا اپنا لہو
وطنِ پاک کی بنیادوں سے پوچها ہوتا


19
ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی
اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی

20
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
( مرزاغالب )

21
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھّے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
( مرزا غالب )

22
ہم سے کھل جاؤ بوقتِ مے پرستی ایک دن
ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عُذرِ مستی ایک دن
( مرزا غالب )

23
ہائے کیا جانے وہ آہوں کی نزاکت کی لچک
جس نشیمن پر ہو برق حوادث کی چمک


24
ہائے اس مہ جبیں کی یاد عدم
جیسے سینے میں دم اٹک جائے
( عبدالحمیدعدم )

25
ہم نے جانا تھا لکھے گا تو کوئی حرف اے میرؔ
پر ترا نامہ تو اک شوق کا دفتر نکلا
( میر تقی میر )

26
ہوش و صبر و خرد و دین و حواس و دل و تاب
اس کے ایک آنے میں کیا کیا نہ گیا مت پوچھو
( میر تقی میر )

27
ہزاروں ان نے ایسی کیں ادائیں
قیامت جیسے اک اس کی ادا ہے
( میر تقی میر )

28
ہم سے تو تم کو ضد سی پڑی ہے خواہ نخواہ رلاتے ہو
آنکھ اٹھا کر جب دیکھے ہیں اوروں میں ہنستے جاتے ہو
( میر تقی میر )

29
ہے ناف کوئی گرداب ِ بلا اور گول سریں رانیں ہیں صفا
ہے ساق ِ بلوریں شمع ضیاء پاؤں کی کفک پھر ویسی ہی
( بہادر شاہ ظفر )

30
ہر بات پہ ہم سے وہ جو ظفر کرتا ہے رکاوٹ برسوں سے
اور اس کی چاہت رکھتے ہیں ہم آج تلک پھر ویسی ہی
( بہادر شاہ ظفر )

31
ہجومِ تجلی سے معمور ہوکر
نظر رہ گئی شعلۂ طور ہوکر
( جگر مرادآبادی )

32
ہم نے جو دیا ہے، وہ ہمیں جان رہے ہیں
سرمایۂ غم، مفت کہاں ہاتھ لگے ہے
( کلیم عاجزؔ )

33
ہر غنچۂ گلشن میں جس سے ہے چمک آئی
اس جلوہ زیبا کا میں تو ہوں ولی شیدا
( ولی اتری )

34
ہر نَفَس عمرِ گزشتہ کی ہے میت فانی
زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا
( فانی بدایونی )

35
ہر ایک منزلِ غم سے گزر کے دیکھ لیا
تری جفا بھی نہیں کچھ ترے کرم کے سوا
( زکی کیفی )

36
ہائے یہ حرفِ تمنا زباں کی دوریاں
سختیاں، دشواریاں، پابندیاں، مجبوریاں

37
ہمہ تن مطلعِ انوارِ غزل کس کا ہے
آئینہ دارِ نظر تاج محل کس کا ہے
( انور صابری )

38
ہے مشقِ سخن جاری، چکی کی مشقت بھی
اک طُرفہ تماشا ہے حسرت کی طبيعت بھی
( حسرت موہانی )

39
ہم زمیں کو تری ناپاک نہ ہونے دیں گے
ترے دامن کو کبھی چاک نہ ہونے دیں گے
( جوش ملیح آبادی )

40
ہم انتظارِ صبح میں جاگے تمام رات
نکلا جو آفتاب تو وہ بھی گہن میں ہے

41
ہر شئی ہوئی ذخیرۂ لشکر میں منتقل
شاہیں گدائے دانۂ عصفور ہوگیا
( علامہ اقبال )

42
ہوئے احرارِ ملت جادہ پیماکس تجمل سے
تماشائی شگافِ در سے ہیں صدیوں سے زندانی
( علامہ اقبال )

43
ہنسنے
دا
( علامہ اقبال )

87
ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام
جس کو کیا ہو کسی مرد خدا نے تمام
( علامہ اقبال )

89
ہے یہ بازار جنوں منڈی ہے دیوانوں کی
یاں دکانیں ہیں کئی چاک گریبانوں کی
( میر تقی میر )

90
ہم نے ہر دور میں تقدیسِ رسالت کے لئے
وقت کی تیز ہواؤں سے بغاوت کی کی


91
ہم ہے ہندی، ہمیں اس بات سے انکار نہیں
ہم وطن دوست ہے، غیروں کے طرفدار نہیں


92
ہم ہیں منزل کا نشاں، راہ کی دیوار نہیں
ہم وفادار ہیں اس دیش کے غدار نہیں


93
ہم نے بهی سیر جہانِ فانی دیکهی
ہر شئے یہاں کی آنی جانی دیکهی


94
ہے طلب صادق تو ان کی جستجو مشکل نہیں
جس نے ہمت ہادی وہ عشق کے قابل نہیں


95
ہر چیز کو پالونگے تم محمد کی غلامی سے
پهر ہند ہی کیا شئے ہے ہر ملک تمہارا ہے


96
ہورہی ہے عمر مثلِ برف کم
رفتہ رفتہ، چپکے چپکے، دمبدم


97
ہمارا کام ان کی یاد اور ان کی اطاعت ہے
نہ بدنامی کا خطرہ اب نہ پروائے ملامت ہے


98
ہزاروں لالہ و گل ہیں ریاض ہستی میں
وفا کی جس میں ہو بو وہ کلی نہیں ملتی


99
ہائے جس دل نے پیا خونِ تمنا برسوں
اس کی خوشبو سے یہ کافر بهی مسلماں ہونگے


100
ہے زباں خاموش اور آنکھوں سے ہے دریا رواں
اللہ اللہ عشق کی یہ بے زبانی دیکهیئے


101
ہم آہ بهی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بهی کرتے ہیں تو پاجاتے ہیں انعام
( مولانا احمد صاحب پرتاگڈهی )
حرف تہجی ی سے اشعار!!

ترتیب دادہ: عرفان پالن پوری

تاریخ: ۵ / ذی الحجہ ۱۴۳۷؁ھ مطابق / ۸ ستمبر ۲۰۱۶؁ء

1
یا رب! مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
زخمِ ہنر کو حوصلۂ لب کشائی دے

2
یوں نفرتوں میں صبح و شام گزرتی ہیں
بنا چاہتوں کے یہ باتیں ناگوار گزرتی ہیں​

3
یہی تو وجۂ شکستِ وفا ہوئی میری
خلوصِ عشق میں سادہ دلی کی آمیزش

4
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن​
( علامہ اقبال )

5
یہ اک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات​
( علامہ اقبال )

6
یہ فیضانِ نظر تها یا مکتب کی کرامت تهی
سکهائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی
( علامہ اقبال )

7
یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے محرابِ مسجد پر
یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقتِ قیام آیا
( علامہ اقبال )

8
یہ بندگی خدائی ، وہ بندگی گدائی
یا بندہ ٔخدا بن ، یا بندہ ٔزمانہ!
( علامہ اقبال )
9

یہ علم ، یہ حکمت ، یہ تدبر ، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو ، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات

10
یہ کائنات ابهی نا تمام شاید
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں
( علامہ اقبال )

11
یہ موجِ نفس کیا ہے تلوار ہے
خودی کیا ہے ، تلوار کی دهار ہے
( علامہ اقبال )

12
یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ
( علامہ اقبال )

13
یہ دنیا دعوتِ دیدار ہے فرزندِ آدم کو
کہ ہر مستور کو بخشا گیا ہے ذوقِ عریانی
( علامہ اقبال )

14
یہی کچھ ہے ساقی متاعِ فقیر
اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر
( علامہ اقبال )

15
یہ فقر مرد مسلماں نے کهودیا جب سے
رہی نہ سلمانی و سلیمانی
( علامہ اقبال )

16
یہ کیا قیامت ہے باغبانوں کے جن کی خاطر بہار آئی
وہی شگوفے کھٹک رہے ہیں تمھاری آنکھوں میں خار بن کر
( ساغر صدیقی )

17
یہ بزمِ مئے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں وہ جام اسی کا ہے
(شاد عظیم آبادی)

18
یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
( علامہ اقبال )

19
یہی فرماتے رہے تیغ سے پھیلا اسلام
یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے
( اکبر الہ آبادیؒ )

20
یہ خوں کی مہک ہے کہ لب یار کی خوشبو
کس راہ کی جانب سے صبا آتی ہے دیکھو

21
یہی ہے فیصلہ تیرا کہ جو تجھے چاہے
وہ درد و کرب و الم کی کٹھالیوں میں جلے​

22
یوں تو میں ہنس پڑا ہوں تمہارے لئے مگر
کتنے ستارے ٹوٹ پڑے ایک ہنسی کے ساتھ​

23
یہ بھی تیرے غم کا اک بدلا ہوا انداز ہے
میں کہاں ورنہ، غم دوراں کے افسانے کہاں​

24
یہ ضروری تو نہیں ہر شخص مسیحا ہی ہو
پیار کے زخم امانت ہیں دکھایا نہ کرو

25
یہ خزاں کی زرد سی شام میں جو اداس پیڑ کے پاس ہے
یہ تمہارے گھر کی بہار ہے اسے آنسوؤں سے ہرا کرو


26
یہ ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیں
ہوئے تم دوست جسکے، دُشمن اُسکا آسماں کیوں ہو​


27
یہ کس نے شاخ گل لا کر قریب آشیاں رکھ دی
کہ میں نے شوق گل بوسی میں کانٹوں پر زباں رکھ دی​


28
یہ سات آسمان کبھی مختصر تو ہوں
یہ گھومتی زمیں کہیں ٹھرنے تو دے
کیسے کسی کی یاد کا چہرہ بناؤں میں
امجد وہ کوئی نقش مجھے بھولنے تو دے​

29
یاد تھیں ہمکو بھی رنگارنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگار طاق و نسیاں ہو گئیں ​

30
یا ربّ زمانہ !! مجھکو مٹاتا ہے کس لئے
لوحِ جہاں پہ حرف مُکرّر نہیں ہوں میں​

31
یہ علم یہ حکمت، یہ تدبّر یہ حکومت
کیا کم ہیں فرنگی، معدنیات کی فتوحات​

32
یوں کہتے، یوں کہتے، تھا دل میں جو یار آتا
کہنے کی ہی باتیں ہیں، کُچھ بھی نہ کہا جاتا​

33
یہ آرزو ہے تجھے خود سے زیادہ چاہوں
میں رہوں نہ رہوں میری وفا یاد رہے

34
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شائد
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکوں​

35
یا رب، یہ جہان گُزراں خوب ہے لیکن
کیوں خوار ہیں مردان صفاکیش و ہُنرمند​

36
یقیں ہو تو رگ سنگ بھی ہے موج شراب
یقیں نہ ہو تو سمندر بھی، قطرہٴ شبنم​

37
يا تو تم مجھکو زندگی کرلو
اپنی سانسوں ميں تازگی کرلو
ميری آنکھوں سے لے لو ساری ضياء
اپنے جيون ميں روشنی کر لو​

38
یہ کہہ دو ابرِ باراں سے، اگر برسے تو یوں برسے
کہ جیسے مینہہ برستا ہے، ہمارے دیدہٴ تر سے​

39
یوں تو میں ہنس پڑا ہوں، تمہارے لیئے مگر
کتنے ستارے ٹوٹ پڑے اک ہنسی کے ساتھ

40
یہ اداسیوں کے موسم کہیں رائیگاں نہ جایئں
کسی زخم کو کریدو،کسی درد کو جگاؤ​

41
یارانِ جہاں کہتے ہیں کشمیر ہے جنّت
جنّت کسی کافر کو ملی ہے نہ ملے گی​

42
یقیں پیدا کر اے غافل، تجلّی عین فطرت ہے
کہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں دریا​

43
یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری​

44
یہ مسائل تصوُّف، یہ تیرا بیان غالب
تُجھے ہم ولی سمجھتے، جو نہ بادہ خوار ہوتا ​

45
یہ رنگِ خوں ہے گلوں پر نکھار اگر ہے بھی
حنائے پائے خزاں ہے بہار اگر ہے بھی


46
یہ پیش خیمۂ بیدادِ تازہ ہو نہ کہیں
بدل رہی ہے ہوا سازگار اگر ہے بھی​

47
یہ غربتیں میری
آنکھوں میں کیسی ُاتری ہیں
کہ خواب بھی میرے ُرخصت ہیں، رتجگا بھی گیا ​

48
يہ جو صدوں سے وفا کرتا ہوں
ميں تيرا کون ہوا کرتا ہوں
ديکھ کر کوئ بھی رستہ
تيرے آنے کی دعا کرتا ہوں​

49
یاد کا پھر کوئی دروازہ کھلا آ خر شب
دل میں بکھری کوئی خوشبوئے قبا آخر شب​

50
یہ ُسخن جو ہم نے رقم کئے، یہ ہیں بس ورق تیری یاد کے
کوئی لمحہ ُصبح وصال کا، کئی شام ہجر کی ُمدّتیں ​


51
یہ جو سرگشتہ سے پھرتے ہیں کتابوں والے
ان سے مت مل کہ انہیں روگ ہیں خوابوں والے​

52
یہی دل تھا کہ ترستا تھا مراسم کے لئے
اب یہی ترکِ تعلق کے بہانے مانگے

53
یہ کس کے سوگ میں شوریدہ حال پھرتا ھوں
وہ کون شخص تھا ایسا کہ مر گیا مجھ میں
وہ ساتھ تھا تو عجب دھوپ چھاؤں رہتی تھی
بس اب تو ایک ہی موسم ٹھہر گیا مجھ میں​

54
يا د ماضی عذاب ہے يا رب
چھين لے مجھ سے حافظہ ميرا​

56
یہ جو دیوانے سے دو چار نظر آتے ہیں
ان میں کچھ صاحب اسرار نظر آتے ہیں

57
یکایک یوں نہیں ہوتے ہیں پیارے جان کے لاگو
کبھی آدم ہی سے ہوجاتی ہے تقصیر بھی آخر​

58
یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری

59
ہوا آج اپنے زخم پنہاں کرکے چهوڑوں گا
لہو رو رو کے محفل کو گلستاں کرکے چهوڑوں گا
( علامہ اقبال )

60
یہ کیسا جبر ہے، حد نگاہ بھی تم ہو
نظر اٹھا کے جو دیکھوں،نظر نہ آؤ مجھے
(ادا جعفری)

61
یہ میرا لہو وہ تیرا لہو، یہ میرا گھر وہ تیرا ہے
جو آگ لگی ہے دونوں میں اب جاتے جاتے بجھا جائیں

62
یہ ڈھیر نہیں ہے مٹی کا اک سالک تھک کر سویا ہے
کچھ اوس گرا دو پلکوں سے کچھ پھول یہاں لہرا جائیں

(سالک لکھنوی)

63
یوں ہی بڑھتا رہے میرا شوقِ سفر
ہم سفر کوئی آشفتہ سر چاہیے

64
یہ جی میں تھا کہ نکل جاؤں تجھ سے دور کہیں
کہ تیرے دھیان کی بانہوں نے مجھ کو گھیر لیا

65
یوں گزرتی ہے رگ و پے سے تری یاد کی لہر
جیسے زنجیر چھنک اٹھتی ہے زندانی کی

66
یہ ممکن ہی نہیں ہے عاشقی میں
کسی کی ناز برداری نہ کرنا

67
یاں جب آویزش ہی ٹہری ہے تو ذرّے چھوڑ کر
آدمی خورشید سے دست گریباں کیوں نہ ہو

68
یا محمد۔! آپ کی کچھ ایسی یاد آئی کہ بس
میری روحِ مضطرب نے وہ خوشی پائی کہ بس
( عبد العلیم شاہینؔ )

69
یوں بھی نہیں کہ پاس ہے میرے وہ ہم نفس
یہ بھی غلط کہ مجھ سے جدا ہو گیا وہ شخص

70
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا
( مرزا غالب )

71
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا
( مرزا غالب )

72
یوں تو سید بهی ہو، مرزا بهی ہو، افغاں بهی ہو
تم سبهی کچھ ہو بتاؤ تو مسلماں بهی ہو

73
یہ بھی ممکن ہے کہ اک دن وہ پشیماں ہو کر
تیرے پاس آئے، زمانے سے کنارا کر لے

74
یوں توساقی، ہرطرح کی، تیرے میخانے میں ہے ​
وہ بھی تھوڑی سی، جو اُن آنکھوں کے پیمانے میں ہے​


75
یاد ایّامے، کہ جب تھا ہرنَفَس اِک زندگی!​
زندگی اب ہر نَفَس کے ساتھ مرجانے میں ہے​

76
یہ کِس کے آستاں پر مجھ کو ذوقِ سجدہ لے آیا
کہ آج اپنی جبِیں، اپنی جبِیں معلوُم ہوتی ہے

77
یہ وہ منزل ہے کہ الیاس بھی گم خضر بھی گم
ہائے آوارگیٔ شوق کدھر سے گزرے

78
یہ وفا کی سخت راہیں ، یہ تمہارے پائے نازک
نہ لو انتقام مجھ سے ، مرے ساتھ ساتھ چل کے

79
یہ عزم ہے نفرت کے کانٹوں کو کچل کر ہم
دنیا کو محبت کا گل زار بنا دیں گے

80
یہ کس کی آہ لگی، گھر کوئی نہیں ملتا
ہر اک مکان ہے خود، سب کی راہ دیکھنے کو

81
يہاں بھی تو وہاں بھی تو ، زميں تيری فلک تيرا
کہيں ہم نے پتہ پايا نہ ہر گز آج تک تيرا

82
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
( مظفر رزمی )

83
یہ طلِسمِ حُسنِ خیال ہے، کہ فریب فصلِ بہار کے
کوئی جیسے پُھولوں کی آڑ میں ابھی چُھپ گیا ہے پُکار کے
( سُرُور بارہ بنکوی​ )

84
یوں توساقی، ہرطرح کی، تیرے میخانے میں ہے ​
وہ بھی تھوڑی سی، جو اُن آنکھوں کے پیمانے میں ہے​

85
یارب دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرمادے، جو روح کو تڑپادے
( علامہ اقبال )

86
یقیں مکم ، عمل پیہم ، محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں، یہ مردوں کی شمسیریں
( علامہ اقبال )

87
یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مُدعی کے واسطے دارو رَسن کہاں

88
یہ پکار سارے چمن میں تھی' وہ سحر ہوئی وہ سحر ہوئی
میرے آشیاں سے دھواں اٹھا تو مجھے بھی اسکی خبر ہو
( کلیم عاجز )

89
یہ ستم کی محفل ناز ہے کلیمؔ اس کو اور سجائے جا
وہ دکھائیں رقص ستم گری تو غزل کا ساز بجائے جا
( کلیم عاجز )

90
یہ طرز خاص ہے کوئی کہاں سے لائے گا
جو ہم کہیں گے کسی سے کہا نہ جائے گا
( کلیم عاجز )

91
یہ وعظ وفاداری عاجزؔ نہ بدل دینا
وہ زخم تجھے دیں گے تم ان کو غزل دینا
( کلیم عاجز )

92
یک نظر بیش نہیں فُرصتِ ہستی غافل
گرمئِ بزم ہے اِک رقصِ شرر ہونے تک

93
یاد ہیں غالب ! تُجھے وہ دن کہ وجدِ ذوق میں
زخم سے گرتا ، تو
میں پلکوں سے چُنتا تھا نمک

94
یا ہم کو تو عادی نہ بنا تیرگیوں کا
یا اس طرح یکلخت اجا لے دیا نہ کر

95
یک قلم کاغذِ آتش زدہ ہے صفحۂ دشت
نقشِ پا میں ہے تپِ گرمئ رفتار ہنوز

96
يہ گرم جوشياں تری گو دل سے ہوں ولے
تاثیرِ نالہ ہائے شرر بار ہے غلط

97
یہ بت جو دل میں بسائے ہیں ان کو دے توڑ
دنیا مطلب کی یارا اس کا پیچھا چھوڑ

98
یہ بھی دیکھا ہے کہ جب آ جائے غیرت کا مقام
اپنی سولی اپنے کاندھے پر اٹھا لیتے ہیں لوگ
( قتیل شفائی )

99
یہ خرابات ہے جا خیر سے اپنے گھر کو
منہ کی کِھلوائے نہ پھر تیز زبانی واعظ

100
تیری ہی زُلفِ ناز کا اب تک اسیر ہُوں
یعنی کسی کے دام میں آیا نہیں ہنوز
( جوش ملیح آبادی )

101
یہ بعد میں کُھلے گا کہ کس کس کا خُون ہوا
ہر اِک بیاں ختم، عدالت تمام شُد
ل

49
وفائے دلبراں ہے اتّفاقی ورنہ اے ہمدم
اثر فریادِ دل ہائے حزیں کا کس نے دیکھا ہے
مرزا غالب

50
وہ پرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں
عشق سیتا ہے انھیں بے سوزن و تار رفو
اقبال

51
وہی آنکھ بے بہا ہے جو غمِ جہاں میں روئے
وہی جام جامِ ہے جو بغیرِ فرق چھلکے
خمار بارہ بنکوی

52
وادی کہسار میں غرق شفق ہے سحاب
لعل بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب
اقبال

53
وائے رے پروانہ کیسا چپکے جل کر رہ گیا
گرمی پہنچے کیا اچھلتا ہے سپند ہرزہ کوش
میر تقی میر

54
وائے احوال اس جفا کش کا
عاشق اپنا جسے وہ جان گیا
میر تقی میر

55
وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو
مرزا غالب

56
وادی ہستی میں کوئی ہم سفر تک بھی نہ ہو
جادہ دکھلانے کو جگنو کا شرر تک بھی نہ ہو
اقبال

57
وہی میری کم نصیبی ، وہی تیری بے نیازی
میرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی
اقبال


58
واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں
اقبال کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے
اقبال
59
واقف ہو اگر لذت بیداری شب سے
اونچی ہے ثریا سے بھی یہ خاک پر اسرار
اقبال

60
وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہمت سے
زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فردا
اقبال


61
وفاداری بہ شرطِ استواری اصلِ ایماں ہے
مَرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
مرزا غالب


62
وہ جان ہی گئے کہ ہمیں اُن سے پیار ہے
آنکھوں کی مخبری کا مزا ہم سے پوچھیے
خمار بارہ بنکوی


63
وہیں سے رات کو ظلمت ملی ہے
چمک تارے نے پائی ہے جہاں سے
اقبال

64
وہ شب درد و سوز و غم ، کہتے ہیں زندگی جسے
اس کی سحر ہے تو کہ میں ، اس کی اذاں ہے تو کہ میں
اقبال

65
واقف نہیں تم اپنی نگاہوں کے اثر سے
اس راز کو پوچھو کسی برباد نظر سے
خمار بارہ بنکوی

66
وہ آنکھ کہ ہے سرمۂ افرنگ سے روشن
پرکار و سخن ساز ہے ، نم ناک نہیں ہے
اقبال

67
وہی اک بات ہے جو یاں نفَس واں نکہتِ گل ہے
چمن کا جلوہ باعث ہے مری رنگیں نوائی کا
مرزا غالب

68
وقت کے افسوں سے تھمتا نالۂ ماتم نہیں
وقت زخم تیغ فرقت کا کوئی مرہم نہیں
اقبال

69
وہ ظالم میری ہر خواہش یہ کہہ کر ٹال جاتا ہے
دسمبر جنوری میں کوئی نینی تال جاتا ہے؟
منور رانا

70
وزارت کے لئے ہم دوستوں کا ساتھ مت چھوڑو
ادھر اقبال آتا ہے ادھر اقبال جاتا ہے
منور رانا

71
وہ فلسفے جو ہر اک آستاں کے دشمن تھے
عمل میں آئے تو خود وقفِ آستاں نکلے
ساحر لدھیانوی

72
ﻭﺍﻗﻒ ﮬﮯ ﺟﮭﻮﭦ ﮐﮯ ﻓﻦ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺁﺩﻣﯽ
ﯾﮧ ﺁﺩﻣﯽ ﺿﺮﻭﺭ ﺳﯿﺎﺳﺖ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ
راحت اندوری

73
وہ دشمن ہی سہی آواز دے اس کو محبت سے
سلیقے سے بٹھا کر دیکھ،ہڈی بیٹھ جاتی ہے
منور رانا

74
وحشی اُسے کہو جسے وحشت غزل سے ہے
انسان کی لازوال محبت غزل سے ہے
بشیر بدر

75
وہی ہے صاحب امروز جس نے اپنی ہمت سے
زمانے کے سمندر سے نکالا گوہر فردا
اقبال

76
وہ مرغزار کہ بیم خزاں نہیں جس میں
غمیں نہ ہو کہ ترے آشیاں سے دور نہیں
اقبال

77
وہ کل کے غم و عیش پہ کچھ حق نہیں رکھتا
جو آج خود افروز و جگر سوز نہیں ہے
اقبال

78
وہ قوم نہیں لائق ہنگامہ فردا
جس قوم کی تقدیر میں امروز نہیں ہے!
اقبال

79
وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کر لے وہی فاتحِ زمانہ
جگر مراد آبادی

80
وہی چراغ بجھا جسکی لو قیامت تھی
اسی پہ ضرب پڑی جو شجر پرانا تھا
افتخار عارف

81
وہ رُلا کر ہنس نہ پایا دیر تک
جب میں رو کر مسکرایا دیر تک
نواز دیوبندی

82
وہ اور ہیں جنہیں برسات کی تمنا ہے
یہاں تو آنسؤوں کی رات دن جھما جھم ہے


83
وہ خط رقیبوں کے ہاتھ آیا،لکھا تھا جو میرے نام تو نے
کہا ں کہاں کرچکی ہے رسوا تری یہ چھوٹی سی بھول مجھ کو
قتیل شفائی

84

وہی کہیں گے جو ہوگا ہمیں بجا معلوم
بھلا کسی کو ہو معلوم یا برا معلوم

85
ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﻮ ﺁﻓﺘﺎﺏ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮬﯿﮟ
ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺭﺥ ﭘﮯ ﻧﻘﺎﺏ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮬﯿﮟ
حسرت جے پوری

86
ﻭﮦ ﭘﺎﺱ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺗﻮ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﺩﻟﺮﺑﺎ ﺧﻮﺷﺒﻮ
ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﭘﮧ ﮐﮭﻠﺘﮯ ﮔﻼﺏ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
حسرت جے پوری

87
وہ ہمسفر تھا مگر اس سے ہمنوائی نہ تھی
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی
نصیر ترابی

88
وہی ہوا نا! بچھڑنے پہ بات آ پہنچی
تمہیں کہا تھا پرانے حساب رہنے دو

89
وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے
ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گرا کر
محسن نقوی

90
ﻭﮦ ﻋﮑﺲ ﺑﻦ ﮐﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﭼﺸﻢ ِ ﺗﺮ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ
ﻋﺠﯿﺐ ﺷﺨﺺ ﮨﮯ ﭘَﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ
بسمل صابری

91
وہ فلسفے جو ہر اک آستاں کے دشمن تھے
عمل میں آئے تو خود وقفِ آستاں نکلے
ساحر لدھیانوی
92

وہ آنکھوں میں موجود اور چشم حیراں ؟
اِدھر ڈھونڈتی ہے ، اُدھر ڈھونڈتی ہے
93

وائے نادانی کہ وقت مرگ یہ ثابت ہوا
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا،جو سنا افسانہ تھا
خواجہ میر درد

94
وہ کیا چیز ہے آہ جس کیلئے
ہر ایک چیز سے دل اٹھاکر چلے
میر تقی میر

95
وہ تیری بھی تو پہلی محبت نہ تھی قتیل
پھر کیا ہوا اگر کوئی ہرجائی بن گیا
قتیل شفائی

96

وہ
کا نہیں موقع آ بیٹھ کے رو لیں
یہ فرصتِ غم بھی دلِ ناکام بہت ہے
( کلیم عاجز )

44
ہو نامِ محمد، لبِ کیفی پہ الٰہی!
جب طائرِ جاں گلشنِ ہستی سے رواں ہو
( زکی کیفی )

45
ہزاروں بار تجھ پر اے مدینہ! میں فدا ہوتا
جو بس چلتا تو مرکر بھی نہ تجھ سے میں جدا ہوتا
( مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ تعالیٰ )

46
ہم بھلا چپ رہنے والے تھے کہیں
ہاں مگر حالات ایسے ہو گئے
( ناصر کاظمی )

47
ہائے وہ دردِ دل کہ جگر
کچھ نہیں کھلتا جس کا سبب
( جگر مرادآبادی )

48
ہجر سے شاد، وصل سے ناشاد
کیا طبیعت جگر نے پائی ہے
( جگر مرادآبادی )

49
ہمارے کارواں کو پیش ایسی رہ گزر آئی
نہ رہبر سازگار آئے نہ منزل سازگار آئی
( قمر جلال آبادی )

50
ہچکی آ آ کے کسی وقت نکل جائے گا دم
آپ کیو ں یاد کیا کرتے ہیں ہر بار مجھے
( قمر جلال آبادی )

51
ہلالِ عید بھی نکلا تھا وہ بھی آئے تھے
مگر انہی کی طرف تھی نظر زمانے کی
( قمر جلال آبادی )

52
ہوا سے جو بھی کبھی در ہلا شب وعدہ
میں سمجھا کھل گئی قسمت غریب خانے کی
( قمر جلال آبادی )

53
ہم کو تو گردشِ حالات پہ رونا آیا
رونے والے تجھے کس بات پہ رونا آیا
( سیف الدین )

54
ہر رات اپنے لطف و کرم سے ملا کرو
ہر دن کو عید جان گلے سے لگا کرو
( ولی دکنی)

55
ہر زباں پر ہے مثلِ شانہ مدام
ذکر اُس زلف کی درازی کا
( ولی دکنی )

56
ہر رنگ ترے رنگ میں ڈوبا ہوا نکلا
ہر نقش ترا نقشِ کفِ پا نظر آیا
( جگر مرادآبادی )

57
ہر جلوے کو دیکھا ترے جلووں سے منوّر
ہر بزم میں تو انجمن آرا نظر آیا
( جگر مرادآبادی )

58
ہاں سزا دے اے خدائے شوق، اے توفیقِ غم
پھر زبانِ بے ادب پر ذکر یار آ ہی گیا
( جگر مرادآبادی )

59
ہائے یہ حسنِ تصور کا فریبِ رنگ و بو
میں یہ سمجھا جیسے وہ جانِ بہار آ ہی گیا
( جگر مرادآبادی )

60
ہائے بے چارگیِ عشق کہ اس محفل میں
سر جھُکائے نہ بنے، آنکھ اٹھائے نہ بنے
( جگر مرادآبادی )

61
ہزار ترکِ تعلق کا اہتمام کیا
مگر جہاں وہ ملے دل نے اپنا کام کیا
( خمار بارہ بنکوی )

62
ہم رہے مبتلائے دیر و حرم
وہ دبے پاؤں دل میں آ بیٹھے
( خمار بارہ بنکوی )

63
ہم توبہ کر کے مر گئے قبل اجل خمار
توہینِ مے کشی کا مزا ہم سے پوچھیے
( خمار بارہ بنکوی )

64
ہزار بار ہوئے خوش بھلا کے ہم اُن کو
مزا تو یہ ہے کہ اک بار بھی بھلا نہ سکے
( خمار بارہ بنکوی )

65
ہوش جب آیا ترے جانے کے بعد
گھر میں بیابان نظر آئے ہیں
( خمار بارہ بنکوی )

66
رہنے دے انہیں ناصح تو یوں ہی اندھیرے میں
کچھ تو ہے جو دیوانے آگہی سے ڈرتے ہیں
( خمار بارہ بنکوی )

67
ہم بھی کر لیں جو روشنی گھر میں
پھر اندھیرے کہاں قیام کریں
( خمار بارہ بنکوی )

68
ہنسنے والے اب ایک کام کریں
جشن ِ گریہ کا اہتمام کریں
( خمار بارہ بنکوی )

69
ہنس کے بولے سوالِ بوسہ پر
ایسی باتوں کا یاں جواب نہیں
( مجروح )

70
ہم دل پہ یہ آفت نہ آتی اک سر مُو
پسند ہم جو نہ وہ زلفِ مشکبو کرتے
( پنڈت رتن )

71
ہوا نہ جن سے کبھی میری چشمِ تر کا علاج
وہ میرے چاک گریباں کو کیا رفو کرتے
( شعور بلگرامی )

72
ہم کو بھی ضد یہی ہے کہ تیری سحر نہ ہو
اے شب تجھے خدا کی قسم مختصر نہ ہو
( رام پرساد بسمل )

73
ہو نہ مایوس خدا سے بسملؔ
یہ بُرے دن بھی گذر جائیں گے
( رام پرساد بسمل )

74
ہم کو جب آپ بلاتے ہیں چلے آتے ہیں
آپ بھی تو کبھی آ جائیے بلوانے سے
( رام پرساد بسمل )

75
ہم اس کو دیکھ لیں گے اور وہ ہم کو نہ دیکھے گی
نگاہِ یار کیا محفل میں اتنی بے خبر ہوگی
( رام پرساد بسمل )

76
ہمارے حال پہ وہ شادماں نظر آیا
ہمیں بھی اس سے زیادہ کہاں نظر آیا
( اجمل سراج )

77
ہلاکِ بے خبری نغمۂ وجود و عدم
جہان و اہلِ جہاں سے جہاں جہاں آباد
( غالب دہلوی )

78
ہاں اس کا تقاضہ تو فقظ ایک قدم تھا
افسوس بڑھا پائے نہ ہم ایک قدم بھی
( اجمل سراج )

79
ہزار عیش قفس میں سہی وہ بات کہاں
کہ اپنا گھر ہوا کرتا ہے اپنا گھر پھر بھی!
( قمر جلال آبادی )

80
ہزار کوس پہ تُو اور یہ شام غربت کی
عجیب حال تھا پر کس سے گفتگو کرتے
( عبدالحمید عدم )

81
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
( علامہ اقبال )

82
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان، نئی آن
گفتار میں، کردار میں، الله کی برہان
( علامہ اقبال )

83
ہوائیں ان کی ، فضائیں ان کی ، سمندر ان کے ، جہاز ان کے
گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر ، بھنور ہے تقدیر کا بہانہ
( علامہ اقبال )

84
ہوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلا رہا ہے
وہ مرد درویش جس کو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ
( علامہ اقبال )

85
ہر ایک سے آشنا ہوں ، لیکن جدا جدا رسم و راہ میری
کسی کا راکب ، کسی کا مرکب ، کسی کو عبرت کا تازیانہ
( علامہ اقبال )

86
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے
( علامہ اقبال )

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پی
حروف تہجی : ژ ..... ڑ..... اور ..... نُون غنہ ..... سے اشعار

ترتیب داده: نور محمد ابن بشیر، ممبرا
تاریخ: ۱۷ / ذی الحجہ ۱۴۳۷؁ھ مطابق ۲۰ / ستمبر ۲۰۱۶؁ء
۔..................................................

"ں " نون غنہ سے اک شعر...............

ں میں نکتہ لگا دیا جائے تو بنتا ہے نون
اب کے بھولےسبق تو ابو کو کروں گا فون
یاسر
........................................


..... ژ ..... سے اشعار

1
ژرف بینی تری لائق تحسین ہے مگر
ژرف تخیل ہمارا بھی ژولیدہ نہیں
یاسر

2
ژولیدگئی افکار کا شکار ہے آج کا انسان
نہ محبت نہ مروت، بیکار ہے آج کا انسان
یاسر

3
ژالہ باری ایسی ہوئی مقدر پر
پیاس منڈلانے لگی سمندر پر

4
ژالہ سا ہر اک برگ لپکتا ہے زمیں کو
کیسی یہ بھلا باغ میں برسات رکی ہے

5
ژالہ باری میں جل کے دیکھوں گا
میں جو ساون میں بھی ٹھٹھرتا ہوں

6
ژالہ باری میں چائے پینے کا
لطف تم بھی لو یار جینے کا
نون میم : نورؔمحمد ابن بشیر

7
ژ سے الفاظ تک نہیں ملتے
ژ سے اشعار میں کہوں کیسے
نون میم : نورؔمحمد ابن بشیر

8
ژ سے الفاظ جب ملے ہم کو
ژ سے اشعار کیوں نہیں کہتے
ارشد ضیا

9
ژالہ باری ایسی ہوئی حرص و ہوس کی
کھیتی وفا کی کھلنے سے پہلے اجڑ گئی

10
"ژا " سے پہلے قطار میں ہے "زا"
بعد اس کے ہے "سین " ساحر کا
نون میم : نورؔمحمد ابن بشیر

11
ژالوں نے جب سے کھلتے شگوفے دئے مجھے
ماجدؔ نجانے کد ہے مجھے کیوں صبا کے ساتھ
ماجد صدیقی

..................................................
..... ڑ..... سے اشعار

1
ڑ سے کوئی شعر اردو میں نظر آتا نہیں
اس لیے ڑ اور ژ دونوں ہی یہاں ممنوع ہیں

2
ڑے خوشبو کی طرح سے پیھلی فضاؤں میں ھوں
آج کل بے اعتیبار شھر کی ھواؤں میں ھوں،

3
ڑ کو ڑ پڑھتے ہوئے اٹکتی ہے زباں میری
خدایا اب تو کردے مشکل آساں میری

4
ڑے کہیں قرآن میں آئی نہیں
اور رسول اللہ نے فرمائی نہیں

5
ڑ سے شعر بنا کر ہم نے
حیراں سب کو کر ڈالا ہے
ابن منیب


6
ڑ بھی میری طرح ہے بدقسمت
ابتدا اس کو بھی نصیب نہیں


7
ڑ جسے کہتے ہیں حروفِ ابجد میں رضا
لفظ کوئی بھی اس سے شروع نہیں ہوتا


8
ڑ سے پہلے الف ہے اور بعد میں واؤ ہے
جائیے بازار میں اور پُوچھیئے کیا بھاؤ ہے

9
ڑ آڑُو میں ہے اور ہے جھاڑُو میں ڑ
گلی کے نُکّڑ پہ کھڑے تاڑُو میں ڑ

10
ڑ سے پہلے رب لگائیں تو ربڑ بنتا ہے
جسے چاہیں مٹا دیں جسے چاہیں گھسا دیں

11
ڑ کا شعر مجھے یاد نہیں
مجھ سے بڑھ کر کوئی استاد نہیں



12
ڑ کے آگے ب لگنے سے بن جاتا ھے بڑ
چوڑےچوڑے پتے جس کے لمپی لمبی جڑ

13
ڑسے کوئی شعر ہوتا نہیں
بنانا چاہو بھی تو بنتا نہیں

14
ڑ پر رک جاتے ہیں زمانے میں الفاظ
لوڈ شیڈنگ ہے یارو بڑھا دو شعروں کی رفتار
15
ڑ کو لایا ہے پھر کون حصے میں میرے اے نصر
کیوں نہ دے جائے سزا اس کو سولی دار کی

16
"ڑ" سے سخت تر ہوتا ہے آغاز سفر
اور پھر وہ دشوار کہاں ہوتا ہے

17ئ
ڑ پہ اڑ جائے کبھی بھی جو ہماری شاعری
تب رضا جیسوں کی بن جاتی ہے اپنی شاعری


18
ڑ نرالا حرف ہے لے کر نہ ہرگز اسکی آڑ
بیت بازی کی بھری محفل کی رونق کو بگاڑ
حرف ذ سے اشعار!!

ترتیب دادہ: عمیر بن عبدالرحمان ممبئی، عادل سعیدی دیوبندی
تاریخ: ۷ / ذی الحجہ ۱۴۳۷؁ھ مطابق ۱۰ / ستمبر ۲۰۱۶؁ء ۔
........................................

1
ذرا دیکھو تو دروازے پہ دستک کون دیتا ہے؟
محبت ہو تو کہہ دینا یہاں اب ہم نہیں رہتے

2
ذرا خاموش تم بیٹھو کے دم آرام سے نکلے
ادھر ہم ہچکی لیتے ہیں ادھر تم رونے لگتے ہو

3
ذرا اپنے تبسم کا نظارہ کرنا درپن میں
تمہیں معلوم ہوکیونکریہ بازی میں نےہاری ہے

4
ذرا قریب سے دیکھو تو جان جاؤ گے
وہ دور سے تو بڑا معتبر نظر آئے

5
ذہنوں میں جھانکنے کی ہے فرصت یہاں کسے
خوش پو شیوں سے اپنی نفاست جتائیے

6
ذرا سی دیر ہی ہو جائے گی تو کیا ہوگا
گھڑی گھڑی نہ اُٹھاؤ نظر گھڑی کی طرف

7
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تری جوانی تک

8
ذرا خاموش تم بیٹھو کے دم آرام سے نکلے
ادھر ہم ہچکی لیتے ہیں ادھر تم رونے لگتے ہو

9
ذوق رکھ سنت گرامی سے، ہے شرف آپ کی غلامی سے
جو کوئی پیروئے رسول نہیں،لاکھ طاعت کرے قبول نہیں

10

ذرا دیکھ تو باز ہے باب رحمت
خدا سے دعا کر، دعا کی ہے ساعت

11

ذکر اس کا ہے اور با چشم پر نم
نازاں ہے جس پر تاریخ آدم

12
ذکر اس پری وش کا، اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر، تھا جو راز دار اپنا

13
ذرہ ذرہ سے ملا کرتا تھا درس سادگی
ایک فرزانہ سکھاتا تھا مجھے دیوانگی

14
ذرا دیکھ عبرت سے سوتے ہیں غافل
مزاروں میں پہنے کفن کیسے کیسے

15
ذوق طلب میں گنبد خضری نظر میں ہے
رقصاں تصورات کی دنیا سفر میں ہے

16
ذکر جب ان کا زبان شوق پر لائیں گے ہم
پھر بسیط عالم امکاں پہ چھا جائیں گے ہم

17
ذکر حق اور ذکر رسول خدا زندگی کا ہو دلچسپ یہ مشغلہ
اک واحد طریقہ ہے بے شک یہی،روح وایماں کی تازگی کے لئے

18
ذروں کی چمک تجھ سے پھولوں کی مہک تجھ سے
تو حاضر و ناضر ہے گلشن ہو کہ ویرانہ

19
ذکر ترا کرکے الہی دور کروں میں دل کی سیاہی
چھوڑ کہ حب مالی و جاہی اب تو کروں بس فقر میں شاہی

20
ذات ہے تیری سب سے نرالی شان تیری فہم سے عالی
اس کو تیری وحدت ہے مشاہد جس کا ہے دل اغیار سے خالی

21
ذرا آواز دو دار و سن کو
جوانی اپنی ضد پر اڑ گئی ہے

22
ذرا دیر آشنا چشم کرم ہے
ستم ہی عشق میں پیہم نہ ہونگے

23
ذرا سی دیر ٹہرنے دے اے غم دنیا
بلا رہا ہے کوئی بام سے اگر کر کوئی

24
ذہنوں میں خیال چل رہے ہیں
سوچوں کے الاو سے لگے ہیں

25
ذرا پے کے دیکھا تو چاروں طرف
مکاں و مکیں سب خلاوں میں تھے

26
ذکر دوزخ ، بیان حور و قصور
بات گویا یہی کہیں کی ہے

27
ذرا سی بات تھی اندیشہ عجم نے اسے
بڑھا دیا فقط زیب داستان کے لئے

28
ذہن پہ چھائی ہوئی غم کی گھٹا ہو جیسے
درد میں ڈوبی ہو ساری فضا ہو جیسے

29
ذرا سی بات پہ ہر رسم توڑ آیا تھا
دل بیتاب نے بھی کیا مزاج پایا تھا

30
ذرا آہستہ لے چل کاروان کیف ومستی کو
کہ سطح ذہن انسان سخت ناہموار ہے ساقی

31
ذکر حبیب ،یاد خدا ،فکر دوزگار
قصہ یہ اک پل کا نہیں ،عمر بھر کا ہے

32
ذرا زلف کو سنبھالو میرا دل ڈھڑک رہا ہے
کوئی اور طائر دل تہ دام آنہ جائے

33
ذکر میرا وہ کیا کرتے ہیں کس خوبی سے
بھری محفل میں سنادیتے ہیں صلوات مجھے

34
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تیری جوانی تک

35
ذہانتوں کو کہاں کرب سے فراز ملا
جسے نگاہ ملی اس کو انتظار ملا

36
ذرا سا قطرہ کہیں آج اگر ابھرتا ہے
سمندروں ہی کے لہجے میں بات کرتا ہے

37
ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سننا چاہتا ہوں
38
ذکر ِ شب ِ فراق سے وحشت اُسے بھی تھی
میری طرح کسی سے محبت اُسے بھی تھی

39
ذرا سی بات پہ دامن چھڑا لیا ہم سے
تُما م عمر کی وابستگی کو بھول گئے

40
ذکر اس کا ہی سہی بزم میں‌ بیٹھے رہو فراز
درد کیسا بھی اٹھے ہاتھ نہ دل پر رکھن
ا
41
ذرا سی بات پہ ہر رسم توڑ آیا تھا
دلِ تباہ نے بھی کیا مزاج پایا تھا

42
ذر ان کی شوخی تو دیکھئے،لیئے زلفِ خم شدہ ہاتھ میں
میرے پیچھے آ کے دبے دبے،مجھے سانپ کہہ کے ڈرا دیا

43
ذہن پہ چھائی ہوئی غم کی گھٹا ہو جیسے
درد میں ڈوبی ہوئی ساری فضا ہو جیسے
(کرشن ادیب)

44
ذرا آگے چلو تو اضافہ علم میں ہو گا
مُحبت پہلے پہلے بے ضرر محسوس ہوتی ہے

45
ذرا سی بات تھی اندیشہ ء عجم نے اسے
بڑ ھادیا ہے فقط زیب داستاں کے لئے
اقبال

46
ذکر دوزخ، بیانِ حور و قصور
بات گویا یہیں کہیں کی ہے
(فیض احمد فیض)

47
ذرا سی بات پہ وہ ہو گیا خفا ہم سے
ذرا سی بات کا دل کو ہوا ملال بہت

48
ذرا سی دیر ٹھہرنے دے اے غم دنیا
بلا رہا ہے کوئی بام سے اتر کے مجھے
ناصر کاظمی

49
ذرا چہرے سے زلفوں کو ہٹا لو
یہ کیسی شام ہوتی جا رہی ہے
سیف الدین

50
ذرے سرکش ہُوئے ، کہنے میں ہوائیں بھی نہیں
آسمانوں پہ کہیں تنگ نہ ہو جائے زمیں
پروین شاکر

51
ذکر آئے گا جہاں بھنوروں کا
بات ہو گی مرے ہرجائی پر
پروین شاکر

52
ذکر شاید کسی خُورشید بدن کا بھی کرے
کُو بہ کُو پھیلی ہُوئی میرے گہن کی خوشبو
پروین
شاکر

53
ذرا روٹھ جانے پہ اتنی خوشامد
قمرؔ تم بگاڑو گے عادت کسی کی
قمر جلال آبادی

54
ذرا بلا کے تم اپنے خلیل سے پوچھو
تمھارے گھر پہ بھی ڈھونڈ آئے تم وہاں نہ ملے
قمر جلال آبادی

55
ذرا شوقِ الفت انہیں کھینچ لانا
وہ گھبرا رہے ہوں گے تنہائیوں میں
عبدالرب حیراں

56
ذرّہ ذرّہ صحراء کا کوئی غور سے دیکھے
خامشی میں پوشیدہ زندگی کے میلے ہیں
عبدالرب حیراں

57
ذرا غور سے کوئی دیکھے تو حیراں
چھپے ہیں کئی در شہنائیوں میں
عبدالرب حیراں

58
ذرا تو پختہ شریفوں کو باغِ دہر میں دیکھ
انہیں کا حال ہر اک سے زیادہ خستہ رہا
اکبر

59
ذی علم منصف ہو رہے ہیں حامیِ ملت
ارمان نہیں کوئی اس ارمان سے بہتر
اکبر

60
ذرا ائے ناصحِ فرزانہ! چل کر سن تو دو باتیں
نہ ہوگا پھر بھی تو مجذوب کا دیوانہ دیکھوں گا
عزیز الحسن مجذوب

61
ذرا تو دیکھ تو منہ ڈال کر اپنے گریباں میں
نقابِ رخ سے ہی وابستہ ہے ہاں پاک دامانی
عزیز الحسن مجذوب

62
ذکرِ فانی بھی عبث ہے، یہ کہانی ہیچ ہے
جس کا ہو انجام، غم وہ شادمانی ہیچ ہے
عزیز الحسن مجذوب

63
ذکرِ حبیبِ رب کے تصدق میں زندگی
اپنی تو کٹ رہی ہے بڑے اطمینان سے
ماجد دیوبندی

64
ذکرِ رسول کر نہیں سکتے زبان سے
توفیق جب تلک نہ ملے آسمان سے
ماجد دیوبندی

65
ذکر نہیں قصور کا، بات ہے اعتراف کی
حیف وہ نسبتیں جو تھیں، میرے ہر ایک قصور میں
ریاست علی ظفر

66
ذرّہ ذرّہ سینہ کھولے تری طرف کیوں لپکے ہے
ہم بے چاروں کی بھی سن لو، ہم کو وہاں تک آنے دو
ریاست علی ظفر

67
ذروں کے جگر چیرے، تاروں کے نقاب الٹے
خود اپنی حقیقت ہی نادان نہ پہنچانے
ابو المجاھد زاہد

68
ذرا بھی سلیقہ ہے جن کو وفا کا
وہ تیرے ستم کو کرم جانتے ہیں
نواز دیوبندی

69
ذرا ہشیار رہنا مردِ مومن کی فراست ہے
کہ یہ بارِ دگر، ائے دوست دھوکہ کھا نہیں سکتے
ماہر القادری

70
ذہن میں ہیں جادۂ ہستی کے کچھ دھندلے نقوش
جیسے پہلے بھی کبھی گزرے ہیں اس منزل سے ہم
سیماب اکبر

71
ذوق کی توہین ہے، خاموش ہونا دار پر
وہ زباں کیوں بند ہو، جس پر تمہارا نام ہو
سیماب اکبر

72
ذرے ہوئے بلند، ہوا ان کو لے اڑی
قطرے ہوئے جو پست، گہر ہوکے رہ گئے
ماہر القادری

73
ذرے تاروں کو چھو کے لوٹ آئے
پستیوں کو ابھی کچھ اور اچھال
ماہر القادری

74
ذہنیت کے غلام ائے راہی
سب سے بڑھ کر غلام ہوتے ہیں
دواکر راہی

75
ذوقِ منزل تو ٹھیک ہے راہی
سوئے منزل، سنبھل سنبھل کے چلو
دواکر راہی

76
ذکرِ خیر البشر ہے اور میں ہوں
خوشبوؤں کا سفر ہے اور میں ہوں
نواز دیوبندی

77
ذکر سنتے ہیں نوجوانی کا
کچھ خیالوں کی یاد آتی ہے
سکندر علی واجد

78
ذرا وصال کے بعد آئینہ تو دیکھ ائے دوست
ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی
فراق

79
ذرا آہستہ لے چل کاروانِ کیف و مستی کو
کہ سطحِ ذہنِ انساں سخت ناہموار ہے ساقی
جوش

80
ذرا دیکھو یہ سرکش ذرۂ خاک
فلک کا چاند بنتا جارہا ہے
سراج لکھنوی

81
ذکر جب چھڑگیا قیامت کا
بات پہنچی تری جوانی تک
فانی بدایونی

82
ذکر اس پری وش کا، اور پھر بیاں اپنا
بن گيا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا
غالب

83
ذرّہ ذرّہ سے تجلی آشکارا
صاحبِ جلوہ مگر روپوش ہے
دلگیر

84
ذکر کو عشق کے کہتے ہیں کہ نصف العیش
ہجر میں وصل کی تقریر بہت اچھی ہے
سودا

85
ذرا دیکھو تو رنگِ لالہ و گل
لہو کی کتنی ارزانی ہوئی ہے
کلیم عاجز

86
ذکر پر میرے وہ منہ پھیر کے بولے عاجز
صورت اچھی نہیں، ہاں اچھی غزل کہتے ہیں
کلیم عاجز

87
ذرا ہماری طرف چشمِ سرمگیں کرتے
تو ہم تمہارے لئے یار کیا نہیں کرتے
کلیم عاجز

88
ذرا سا خونِ دل ان کے سخن کی پونجی ہے
ذرا سے رنگ پہ کیا رنگ لاتے پھرتے ہیں
کلیم عاجز

89
ذرا دیکھوں تو کب تک شمع میرا ساتھ دیتی ہے
کہ میں بھی انجمن میں سوزِ پنہاں لے کے آیا ہوں
کلیم عاجز

90
ذرا تلخیوں کا مزہ لو تو جانیں
ہماری طرح دل لگا لو تو جانیں
کلیم عاجز

91
ذرا دل کے زخموں سے پردہ اٹھاؤ
غضب کا اندھیرا ہے شمعیں جلاؤ
کلیم عاجز

92
ذرا دیکھ آئینہ میری وفا کا
کہ تو کیسا تھا، اب کیسا لگے ہے
کلیم عاجز

93
ذکرِ نبی کی بزم سجانا کتنا اچھا لگتا ہے
نعت کی خوشبو گھر میں بسانا کتنا اچھا لگتا ہے
تابش مہدی

94
ذرّہ ذرّہ ہے اس کے قبضے میں
جب وہ چاہےگا ہلاک کردےگا
ماجد دیوبندی

95
ذرا سی دیر میں دائیں سے بائیں
سیاست کا عجب انداز ہو تم
ملک زادہ جاوید

96
ذرا سی ٹھیس لگے ٹوٹ کر بکھر جائے
اب ایسا کانچ کا نازک گلاس کیا ہونا
ساحل فریدی

97
ذرا سا جھٹ پٹا ہوتے ہی چھپ جاتا ہے سورج بھی
مگر اک چاند ہے جو شب میں بھی تنہا نکلتا ہے
منور رانا

98
ذرّے ہیں ہوس کے بھی زرِنابِ وفا میں
ہاں جنسِ وفا کو بھی ذرا چھان پھٹک لے
ناصر کاظمی

99
ذرّے پھر مائلِ رَم ہیں ناصر
پھر اُنھیں سیرِ فلک یاد آئی
ناصر کاظمی

100
ذات کدے میں پہروں باتیں اور ملیں تو مہر بلب
جبرِ وقت نے بخشی ہم کو اب کے کیسی مجبوری
محسن بھوپالی

101
ذرا دی
کھنا اس کی تصویر کو
خموشی بھی اُسلوبِ رُوداد ہے
سید عبدالحمید

102
ذرے کے زخم دل پہ توجہ کیے بغیر
درمانِ درد شمس و قمر کر رہے ہیں ہم
رئیس امروہوی

103
ذرا زلف کو سنبھالو میرا دل دھڑک رہا ہے
کوئی اور طائرِ دل تہِ دام آ نہ جائے
حبیب جالب

104
ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں
پھر اس کے بعد مسلسل عذاب آنکھوں میں
افتخار عارف

105
ذکرِ خدا میں ہر دم رہنا، سب کے بس کی بات نہیں
خواہشِ نفس سے بچتے رہنا، سب کے بس کی بات نہیں
قاری محمد صدیق صاحب باندوی رحمہ اللہ تعالیٰ
حرف تہجی ز سے اشعار!!



ترتیب دادہ: عادل سعیدی دیوبندی
تاریخ: ۸ / ذی الحجہ ۱۴۳۷؁ھ مطابق ۱۱ / ستمبر ۲۰۱۶؁ء ۔
........................................

1
زندگی کی اوج گاہوں سے اتر آتے ہیں ہم
صحبتِ مادر میں طفلِ سادہ رہ جاتے ہیں ہم
اقبال

2
زلزلے ہیں، بجلیاں ہیں، قحط ہیں آلام ہیں
کیسی کیسی دخترانِ مادرِ ایام ہیں
اقبال

3
زمیں سے نوریانِ آسماں پرواز کرتے تھے
یہ خاکی زندہ تر، پائندہ تر، تا بندہ تر نکلے
اقبال

4
زبانیں شاخِ طوبیٰ اور دل غفلت کے تھالے ہیں
بہت ہے اللہ اللہ، کم مگر اللہ والے ہیں
اکبر

5
زندگی کردے نبی پر جو نثار
ہے وہی بس کامیابِ زندگی
مفتی محمود گنگوہی ؒ

6
زندگی سے زندگی محجوب ہے
مرگ اٹھاتی ہے نقابِ زندگی
مفتی محمود گنگوہی ؒ

7
زندگی مھبطِ الہام نظر آتی ہے
تیرے نادیدہ اشارات کو سمجھاتی ہے
ریاست علی طفر بجنوری

8
زلفِ گیتی کو عطا کرتا ہوں تابِ جاوداں
موج کو رفتار، گل کو بو، ستاروں کو زباں
ریاست علی ظفر بجنوری

9
زندگی زیرِ فلک فتنے جگانے کےلئے
زخم کھانے کےلئے ہے خوں بہانے کےلئے
کاشف الہاشمی

10
زندگی کے بتکدے سے سینکڑوں آزر اٹھے
عزم ابراہیم کا دم آزمانے کےلئے
کاشف الہاشمی

11
زبانِ اہلِ زباں میں ہے مرگ خاموشی
یہ بات بزم میں روشن ہوئی زبانئیِ شمع
غالب

12
زخم پر چھڑکیں کہاں طفلانِ بے پروا نمک
کیا مزہ ہوتا اگر پتھر میں بھی ہوتا نمک
غالب

13
زخم سلوانے سے مجھ پر چارہ جوئی کا ہے طعن
غیر سمجھا ہے کہ لذت، زخم سوزن میں نہیں
غالب

14
زور قسمت سے چل نہیں سکتا
دل سنبھالے سنبھل نہیں سکتا
داغ دہلوی

15
زاہد نہ کہہ برے، یہ مستانے آدمی ہیں
تجھ کو لپٹ پڑیں گے، دیوانے آدمی ہیں
داغ دہلوی

16
زیست سے تنگ ہو ائے داغ! تو جیتے کیوں ہو
جان پیاری بھی نہیں، جان سے جاتے بھی نہیں
داغ دہلوی

17
زمیں ہے دشمن، زماں ہے دشمن، جو اپنے تھے پرائے ہیں
سنوگے داستاں کیا تم مرے حالِ پریشاں کی
شہید اشفاق اللہ خان

18
زندگی کیا تری آہٹ کی صدا ہو جیسے
بندگی کیا، ترے ملنے کی دعا ہو جیسے​

19
زندگی کو نہ بنا لیں وہ سزا میرے بعد
حوصلہ دینا انہیں میرے خدا میرے بعد
(حکیم ناصر)

20
زندگی ہے سو گزر رہی ہے ورنہ
ہمیں گزرے تو زمانے ہوئے

21
زندگی تُو ہی مختصر ہو جا
شبِ غم مختصر نہیں ہوتی

22
زندہ دلان شہر کو کیا ہوگیا فراز
آنکھیں بجھی بجھی ہیں تو چہرے مرے مرے

23
زندگی تیری عطا تھی تو ترے نام کی ہے​
ہم نے جیسی بھی بسر کی ترا احساں جاناں​
احمد فراز

24
زعمِ عقل و فہم اِک نادانئ معصوم ہے
اے گرفتارِ فریبِ ہوش، اے دل! دیکھ کر
عبد الحمید عدم

25
زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے
تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے

26
زندگانی تیرے شکوے بھی بجا ہیں لیکن
کیسے جھک جائیں کہ ہم لوگ انا والے ہیں

27
زباں پہ مصلحت،دل ڈرنے والا
بڑا آیا محبت کرنے والا

28
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانےکس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
ساغر صدیقی

29
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار ِیار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا
اقبالؒ

30
زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں
کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا
ذوق

31
زمین شورہ سنبل برنیارد
درو تخم عمل ضائع مگرداں

32
زر از بہرِ خوردن بُوَد اے پسر!
برائے نہادن چہ سنگ و چہ زر

33
ز ہر کلام، کلامِ عرب فصیح تر است
بجز کلامِ خموشی کہ افصح از عرب است

34
زاھد نہ داشت تابِ جمالِ پری رُخاں
کنجے گرفت و یادِ خدا را بہانہ ساخت

35
زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم
چہ خوش بودے اگر بودے زبانش در دہانِ من

36
زندگی کب تک حریفِ شورشِ دریا رہے
اس سفینے کو کسی دن غرق دریا کیجیے

37
زلفیں سینہ ناف کمر
ایک ندی میں کتنے بھنور

38
زندگی یہ تو نہیں تجھ کو سنوارا ہی نہ ہو
کچھ نہ کچھ تیرا احسان اُتارا ہی نہ ہو

39
زندگی کو ہے ضرورت میری
اور ضرورت بھی اشد ہے، حد ہے

40
زندگی کے حسین ترکش میں​
کتنے بے رحم تیر ہوتے ہیں​

41
زندگی یوں تو مکمل تھی اپنی فراز
نجانے کیوں اس کو دیکھا تو کسی شے کی کمی لگی

42
زخم خريد لايا ہُوں بازارِ مُحبت سے
دل ضِد كر رہا تها مُجهے كُچھ لے كر دو

43
زندگی آگاہ تھی صیّاد کی تدبیر سے
ہم، اسیرِ دامِ گُل اپنی خوشی سے ہو گئے

44
زندگی نام ہے جہد و جنگ کا
موت کیا ہے؟ بھول جانا چاھئے

45
ز بیگانہ پرہیز کردن نکو ست
کہ دشمن تواں بود در زیِّ دوست

56
زمانہ درد کے صحرا تک آج لے آیا
گُزار کر تِری زُلفوں کے سائے سائے مجھے

47
زلف خالی ہاتھ خالی کس جگہ ڈھونڈھیں اُسے
تم نے دل لے کر کہاں اے بندہ پرور رکھ دیا؟

48
زندگی میں پاس سے دم بھر نہ ہوتے تھےجدا
قبر میں تنہا مجھے یاروں نے کیونکر رکھ دیا

49
زخموں سے بدن گلزار سہی پر ان کے شکستہ تیر گنو 
خود ترکش والے کہہ دیں گے یہ بازی کس نے ہاری ہے

50
زباں سے تو کہہ کیا ارادہ ہے تیرا
اشاروں اشاروں میں دھمکانے
والے

51
زبانوں پر الجھتے دوستوں کو کون سمجھائے
محبت کی زباں ممتاز ہے ساری زبانوں میں

52
زندگی گزرے محبت کے بغیر
اس سے بڑھ کر تو غضب کوئی نہیں

53
زندگی تیرے تعقب میں ہم
اتنا چلتے ہیں کہ مر جاتے ہیں

54
زندگی میں آ گیا جب کوئی وقتِ امتحاں
اس نے دیکھا ہے جگرؔ بے اختیارانہ مجھے

55
زمانے والوں کے ڈر سے اٹھا نہ ہاتھ مگر
نظر سے اس نے بصد معذرت سلام کیا

56
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اِس جینے کے ہاتھوں مرچلے

57
زندگی کا ساز بھی کیا ساز ہے
بج رہا ہے، اور بے آواز ہے

58
زیست میری عذاب کربیٹھے
گھر، وہ مجھ سے حجاب کربیٹھے

59
زیست کی اس کتاب میں جاناں
ذکر ہر باب میں تمہارا ہے

60
زیست کے ہیں یہی مزے ، وللہ
چار دن شاد ، چار دن نا شاد

61
زندگی ہے، یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اِس جینے کے ہاتھوں مر چلے

62
زمانہ سارا ہُوا ہے تمھارا محرمِ راز
نہ ہو سکا تو مِرا اعتبار ہو نہ سکا

63
زمینِ چمن گُل کِھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

64
زبان پر تو بظاہر خوشی کے جُملے ہیں
دہک رہا ہے حسد کا الاؤ لہجے میں

65
زندگی میں پاس سے دم بھر نہ ہوتے تھے جُدا
قبر میں تنہا مُجھے یاروں نے کیونکر رکھ دیا

66
زندگی کیا ہے، عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے، اِنھی اجزا کا پریشاں ہونا

67
زرپرستوں سے کوئ پوچھے کہ زر کے واسطے
دلہنوں کو ملک میں کب تک جلایا جائےگا

68
زمیں کا دل بھی یقیناً کسی نے چِیرا ہے
بلا سبب تو یہ چشمے اُبل نہیں پڑتے

69
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے

70
زندگی جس سے عبارت ہے سو وہ زیست کہاں
یوں تو کہنے کےلئے کہدے کہ ہاں جیتے ہیں
میر درد

71
زندہ ہوں اس طرح کہ غمِ زندگی نہیں
جلتا ہوا دیا ہوں، مگر روشنی نہیں
بہزاد لکھنوی

72
زخم پہ زخم کھا کے جی اپنے لہو کے گھونٹ پی
آہ نہ کر، لبوں کو سی عشق ہے دل لگی نہیں
احسان دانش

73
زلفِ ہستی کو سنوارا ترے گیسو کی طرح
کام تھا گرچہ بہت سخت، مگر ہم نے کیا
آل احمد سرور

74
زباں پہ نامِ محبت بھی جرم تھا یعنی
ہم ان سے جرمِ محبت بھی بخشوا نہ سکے
میکش اکبرآبادی

75
زندگی اک مستقل شرحِ تمنا تھی مگر
عمر بھر تیری تمنا سے رہے بیگانہ ہم
روش صديقی

76
زندگی زہر کا اک جام ہوا جاتی ہے
کیا سے کیا یہ مئے گلفام ہوئی جاتی ہے
نہال

77
زندگی بھر دور رہنے کی سزائیں رہ گئیں
میرے کیسہ میں مری ساری وفائیں رہ گئیں
راحت اندوری

78
زاہدوں کو کسی کا خوف نہیں
صرف کالی گھٹا سے ڈرتے ہیں
شکیل بدایونی

79
زوالِ حسن بدلتا ہے عشق کی نظریں
بجھی جو شمع پتنگے نہ آئے شمع کے پاس
قمر جلال آبادی

80
زمانہ دیکھ رہا ہے نہ جانے کیا سمجھے
میرے جنازے پہ کیوں تم کھڑے ہوئے ہو اداس
قمر جلال آبادی

81
زمانہ جان گیا حسن و عشق کی فطرت
مری دعا سے تمہاری نگاہِ برہم سے
قمر جلال آبادی

82
زمانہ پی تو رہا ہے شرابِ دانش کو
خدا کرے کہ یہی زہر کارگر ہو جائے
رئیس امروہوی

83
زاہد سبھی ہے نعمتِ حق جو ہے اکل و شرب
لیکن عجب مزہ ہے شراب و کباب کا
سودا

84
زہے وہ معنیِ قرآں، کہے جو تُو واعظ
پھٹے دہن کے تئیں اپنے، کر رفو واعظ
سودا

85
زبان کون سی مشغول ذکر خیر نہیں
کہاں کہاں نہیں میں تیری داستاں سنتا
حیدر علی آتش

86
زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
حیدر علی آتش

87
زمانے میں کوئی تجھ سا نہیں ہے سیف زباں
رہے گی معرکے میں آتش آبرو تیری
حیدر علی آتش

88
زیرِ زمین سے آتا ہے جو گل سو زر بکف
قاروں نے راستے میں خزانہ لٹایا کیا؟
حیدر علی آتش

89
زلف میں دل کو تو الجھاتے ہو
پھر اسے آپ ہی سلجھائیے گا
میر درد

90
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
میر درد

91
زمانہ تو یونہی روٹھا رہے گا
چلو جالب انہیں چل کر منا لیں
حبیب جالب

92
زمانہ ایک سا جالب صدا نہیں رہتا
چلیں گے ہم بھی کبھی سر اُٹھا کے رستے میں
حبیب جالب

93
زندگی کٹ رہی ہے بڑے چین سے
اور غم ہوں تو وہ بھی عطا کیجیے
خمار بارہ بنکوی

94
زمانے والوں کے ڈر سے اٹھا نہ ہاتھ مگر
نظر سے اس نے بصد معذرت سلام کیا
خمار بارہ بنکوی

95
زاہد کچھ اور ہو نہ ہو مے خانے میں مگر
کیا کم یہ ہے کہ فتنۂ دیر و حرم نہیں
جگر

96
زخم وہ دل پہ لگا ہے کہ دکھائے نہ بنے
اور چاہیں کہ چھُپا لیں تو چھُپائے نہ بنے
جگر

97
زباں خموش، نظر بیقرار، چہرہ فق
تجھے بھی کیا تری کافر ادا نے لوٹ لیا
جگر

98
زمانے پر قیامت بن کے چھا جا
بنا بیٹھا ہے طوفاں در نفس کیا؟
جگر

99
زندگی ہے مگر پرائی ہے
مرگِ غیرت! تری دہائی ہے
جگر

100
زندگی اک خلش دے کے نہ رہ جا مجھ کو
درد وہ دے جو کسی صورت گوارا ہی نہ ہو
جاں نثار اختر

101
زندگی یہ تو نہیں تجھ کو سنوارا ہی نہ ہو
کچھ نہ کچھ تیرا احسان اُتارا ہی نہ ہو
جاں نثار اختر

102
زندگی تنہا سفر کی رات ہے
اپنے اپنے حوصلے کی بات ہے
جاں نثار اختر

103
زنجیر و دیوار ہی دیکھی تم نے تو مجروحؔ، مگر ہم
کوچہ کوچہ دیکھ رہے ہ
یں، عالم زنداں تم سے زیادہ
مجروح سلطان پوری

104
زخم یہ وصل کے مرہم سے بھی شاید نہ بھرے
ہجر میں ایسی ملی اب کے مسافت ہم کو
امجد اسلام امجد

105
زیرِ لب یہ جو تبسّم کا دِیا رکھا ہے
ہے کوئی بات جسے تم نے چھپا رکھا ہے
امجد اسلام امجد

106
زلف تیری کیوں نہ کھاوے پیچ و تاب
حال مجھ دل کا پریشاں بُوجھ کر
ولی دکنی

107
زخمی کیا ہے مجھ تری پلکوں کی انی نے
یہ زخم ترا خنجر و بھالاں سوں کہوں گا
ولی دکنی

108
زخم دل کے چھپا رہا ہوں میں
کوئی میری ہنسی کو کیا جانے
وجاہت عندلیب

109
زاہد وہ بادہ کش ہوں کہ مانگوں اگر دعا
اٹھیں ابھی شراب سے بادل بھرے ہوئے
ناسخ

110
زمیں کے چہرے پہ بارش کے پہلے پیار کے بعد
خوشی کے ساتھ تھی حیرانگی کی آمیزش
پروین شاکر
....................
بتائیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نانی محترمہ کا نام کیا تھا؟؟؟
anonymous poll

برہ – 87
👍👍👍👍👍👍👍 83%

فاطمہ – 14
👍 13%

آمنہ – 4
▫️ 4%

👥 105 people voted so far.