ہ اقبال )
42
سن، اے تہذیبِ حاضر کے گرفتار
غلامی سے بتر ہے بے یقینی
( علامہ اقبال )
43
سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹادو
( علامہ اقبال )
44
سمجهتا ہے تو راز ہے زندگی
فقط ذوقِ پرواز ہے زندگی
( علامہ اقبال )
45
سفر زندگی کے لئے برگ و ساز
سفر ہے حقیقت، حضر ہے مجاز
( علامہ اقبال )
46
سینے میں اگر نہ ہو دلِ گرم
رہ جاتی ہے زندگی میں خامی
( علامہ اقبال )
47
سینہ روشن ہو تو ہے سوز سخن عین حیات
ہو نہ روشن ، تو سخن مرگ دوام اے ساقی
( علامہ اقبال )
48
سجدوں کے عوض فردوس ملے یہ بات مجهے منظور نہیں
بے لوث عبادت کرتا ہوں بندہ ہوں تیرا مزدور نہیں
( علامہ اقبال )
49
سوداگری نہیں، یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر! جزا کی تمنا بهی چهوڑدے
( علامہ اقبال )
50
سورج نے دیا اپنی شعاعوں کو یہ پیغام
دنیا ہے عجب چیز ، کبھی صبح کبھی شام
( علامہ اقبال )
51
سلسلہ روز و شب ، نقش گر حادثات
سلسلہ روز و شب ، اصل حیات و ممات
( علامہ اقبال )
52
سلسلہ روز و شب ، تار حریر دو رنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات
( علامہ اقبال )
53
سلسلہ روز و شب ، ساز ازل کی فغاں
جس سے دکھاتی ہے ذات زیروبم ممکنات
( علامہ اقبال )
54
سادہ و پرسوز ہے دختر دہقاں کا گیت
کشتی دل کے لیے سیل ہے عہد شباب
( علامہ اقبال )
55
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
( علامہ اقبال )
56
سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا ، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
( علامہ اقبال )
57
ستایش گر ہے زاہد، اس قدر جس باغِ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بیخودوں کے طاقِ نسیاں کا
( علامہ اقبال )
58
سادگی پر اس کی، مر جانے کی حسرت دل میں ہے
بس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کفِ قاتل میں ہے
( علامہ اقبال )
59
ساقی گری کی شرم کرو آج، ورنہ ہم
ہر شب پیا ہی کرتے ہیں مے جس قدر ملے
( علامہ اقبال )
60
سکوت و خامشی اظہارِ حالِ بے زبانی ہے
کمینِ درد میں پوشیدہ رازِ شادمانی ہے
( علامہ اقبال )
61
سنبھلنے دے مجھے اے نا اُمیدی! کیا قیامت ہے!
کہ دامانِ خیالِ یار، چُھوٹا جائے ہے مُجھ سے
( علامہ اقبال )
62
سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی
بن گیا روئے آب پر کائی
( علامہ اقبال )
63
سبزہ و گل کے دیکھنے کے لیے
چشمِ نرگس کو دی ہے بینائی
( علامہ اقبال )
64
سوئے طیبہ جا رہے تھے عاشقوں کے قافلے
دیکھ کر اُن کو طبیعت ایسے للچائی کہ بس
65
سحر ہوئی تو خیالوں نے مجھ کو گھیر لیا
جب آئی شب ترے خوابوں نے مجھ کو گھیر لیا
(بسمل صابری)
66
سلیس ، شستہ ، مُرصع ، نفیس ، نرم ، رَواں
دَبا کے دانتوں میں آنچل ، غزل اُٹھائی گئی
67
سفر میں شام ہو جاتی تو دل میں شمعیں جل اٹھتیں
لہو میں پھول کھل جاتے جہاں غنچہ چٹکتا تھا
68
سنا رہا ہوں بڑی سادگی سے پیار کے گیت
مگر یہاں تو عبادت بھی کاروباری ہے--!!!
69
ساتھ اپنے خزاں لے کر لوٹ آئے جو گلشن سے
ہم اُن کو بہاروں کا پیغام سنا دیں گے
70
سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
( داغ دہلوی )
71
سخت کافر تھا جس نے پہلے میر
مذہبِِ عشق احتیار کیا
( میر تقی میر )
72
ساغر وہ کہہ رہے تھے کی پی لیجئے حضور
ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا!
( ساغر صدیقی )
73
سوچتا ہوں کہ میں بنا ڈالوں
ایک فرقہ اداس لوگوں کا
74
سنا ہے اس کو بھی ہے شعروشاعری سے شغف
سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
75
سیف یہ دن تو قیامت کی طرح گزرا ہے
جانے کیا بات تھی،ہر بات پہ رونا آیا
76
سجا سکتے تھے یادوں کے کئ چہرے،کئ پیکر
مگر کچھ سوچ کر ہم نے یہ گھر ویران رکھا ہے
77
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
78
سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
79
سنا ہے اس کی سیاہ چشمگی قیامت ہے
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
80
سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بھی بہار پر الزام دھر کے دیکھتے ہیں
81
سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اس کی
جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
82
ساحل کی گیلی ریت پہ لکها اس کا نام
لہروں نے چوم چوم کے اسے مٹا دیا
83
سب کہاں؟ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں!
84
سرکتی جائے ہے رُخ سے نقاب آہستہ آہستہ
نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ
( امیرمینائی )
85
سوالِ وصل پر ان کو خدا کا خوف ہے اتنا
دبے ہونٹوں سے دیتے ہیں جواب آہستہ آہستہ
( امیرمینائی )
86
سنی جو شہرتِ آسودہ خاطری میری
وہ اپنے درد لئے، میرے دِل میں آ بیٹھا
( احمد ندیم قاسمی )
87
سزا ملی ہے مجھے گردِ راہ بننے کی
گناہ یہ ہے کہ میں کیوں راستہ دِکھا بیٹھا
( احمد ندیم قاسمی )
88
سامنے آنے سے کیوں ڈرتے ہو
عشق کرنا ہے تو شدّت سیکھو
89
سنا ہے
42
سن، اے تہذیبِ حاضر کے گرفتار
غلامی سے بتر ہے بے یقینی
( علامہ اقبال )
43
سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹادو
( علامہ اقبال )
44
سمجهتا ہے تو راز ہے زندگی
فقط ذوقِ پرواز ہے زندگی
( علامہ اقبال )
45
سفر زندگی کے لئے برگ و ساز
سفر ہے حقیقت، حضر ہے مجاز
( علامہ اقبال )
46
سینے میں اگر نہ ہو دلِ گرم
رہ جاتی ہے زندگی میں خامی
( علامہ اقبال )
47
سینہ روشن ہو تو ہے سوز سخن عین حیات
ہو نہ روشن ، تو سخن مرگ دوام اے ساقی
( علامہ اقبال )
48
سجدوں کے عوض فردوس ملے یہ بات مجهے منظور نہیں
بے لوث عبادت کرتا ہوں بندہ ہوں تیرا مزدور نہیں
( علامہ اقبال )
49
سوداگری نہیں، یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر! جزا کی تمنا بهی چهوڑدے
( علامہ اقبال )
50
سورج نے دیا اپنی شعاعوں کو یہ پیغام
دنیا ہے عجب چیز ، کبھی صبح کبھی شام
( علامہ اقبال )
51
سلسلہ روز و شب ، نقش گر حادثات
سلسلہ روز و شب ، اصل حیات و ممات
( علامہ اقبال )
52
سلسلہ روز و شب ، تار حریر دو رنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات
( علامہ اقبال )
53
سلسلہ روز و شب ، ساز ازل کی فغاں
جس سے دکھاتی ہے ذات زیروبم ممکنات
( علامہ اقبال )
54
سادہ و پرسوز ہے دختر دہقاں کا گیت
کشتی دل کے لیے سیل ہے عہد شباب
( علامہ اقبال )
55
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
( علامہ اقبال )
56
سبق پھر پڑھ صداقت کا ، عدالت کا ، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
( علامہ اقبال )
57
ستایش گر ہے زاہد، اس قدر جس باغِ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بیخودوں کے طاقِ نسیاں کا
( علامہ اقبال )
58
سادگی پر اس کی، مر جانے کی حسرت دل میں ہے
بس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کفِ قاتل میں ہے
( علامہ اقبال )
59
ساقی گری کی شرم کرو آج، ورنہ ہم
ہر شب پیا ہی کرتے ہیں مے جس قدر ملے
( علامہ اقبال )
60
سکوت و خامشی اظہارِ حالِ بے زبانی ہے
کمینِ درد میں پوشیدہ رازِ شادمانی ہے
( علامہ اقبال )
61
سنبھلنے دے مجھے اے نا اُمیدی! کیا قیامت ہے!
کہ دامانِ خیالِ یار، چُھوٹا جائے ہے مُجھ سے
( علامہ اقبال )
62
سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی
بن گیا روئے آب پر کائی
( علامہ اقبال )
63
سبزہ و گل کے دیکھنے کے لیے
چشمِ نرگس کو دی ہے بینائی
( علامہ اقبال )
64
سوئے طیبہ جا رہے تھے عاشقوں کے قافلے
دیکھ کر اُن کو طبیعت ایسے للچائی کہ بس
65
سحر ہوئی تو خیالوں نے مجھ کو گھیر لیا
جب آئی شب ترے خوابوں نے مجھ کو گھیر لیا
(بسمل صابری)
66
سلیس ، شستہ ، مُرصع ، نفیس ، نرم ، رَواں
دَبا کے دانتوں میں آنچل ، غزل اُٹھائی گئی
67
سفر میں شام ہو جاتی تو دل میں شمعیں جل اٹھتیں
لہو میں پھول کھل جاتے جہاں غنچہ چٹکتا تھا
68
سنا رہا ہوں بڑی سادگی سے پیار کے گیت
مگر یہاں تو عبادت بھی کاروباری ہے--!!!
69
ساتھ اپنے خزاں لے کر لوٹ آئے جو گلشن سے
ہم اُن کو بہاروں کا پیغام سنا دیں گے
70
سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
( داغ دہلوی )
71
سخت کافر تھا جس نے پہلے میر
مذہبِِ عشق احتیار کیا
( میر تقی میر )
72
ساغر وہ کہہ رہے تھے کی پی لیجئے حضور
ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا!
( ساغر صدیقی )
73
سوچتا ہوں کہ میں بنا ڈالوں
ایک فرقہ اداس لوگوں کا
74
سنا ہے اس کو بھی ہے شعروشاعری سے شغف
سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
75
سیف یہ دن تو قیامت کی طرح گزرا ہے
جانے کیا بات تھی،ہر بات پہ رونا آیا
76
سجا سکتے تھے یادوں کے کئ چہرے،کئ پیکر
مگر کچھ سوچ کر ہم نے یہ گھر ویران رکھا ہے
77
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
78
سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
79
سنا ہے اس کی سیاہ چشمگی قیامت ہے
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
80
سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بھی بہار پر الزام دھر کے دیکھتے ہیں
81
سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اس کی
جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
82
ساحل کی گیلی ریت پہ لکها اس کا نام
لہروں نے چوم چوم کے اسے مٹا دیا
83
سب کہاں؟ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں!
84
سرکتی جائے ہے رُخ سے نقاب آہستہ آہستہ
نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ
( امیرمینائی )
85
سوالِ وصل پر ان کو خدا کا خوف ہے اتنا
دبے ہونٹوں سے دیتے ہیں جواب آہستہ آہستہ
( امیرمینائی )
86
سنی جو شہرتِ آسودہ خاطری میری
وہ اپنے درد لئے، میرے دِل میں آ بیٹھا
( احمد ندیم قاسمی )
87
سزا ملی ہے مجھے گردِ راہ بننے کی
گناہ یہ ہے کہ میں کیوں راستہ دِکھا بیٹھا
( احمد ندیم قاسمی )
88
سامنے آنے سے کیوں ڈرتے ہو
عشق کرنا ہے تو شدّت سیکھو
89
سنا ہے
لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو اس کے شہر میںکچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
90
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
91
سنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
92
سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
تو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
93
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
94
سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں
95
سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
96
سنا ہے حشر ہیںاس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
97
سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیںکاکلیں اس کی
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں
98
سنا ہے اس کی سیہ چشمگی قیامت ہے
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
99
سنا ہے جب سے حمائل ہیں اس کی گردن میں
مزاج اور ہی لعل و گوہر کے دیکھتے ہیں
100
سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
101
سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں
102
سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اس کی
جو سادہ دل ہیںاسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
103
سنا ہے چشمِ تصور سے دشتِ امکاں میں
پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں
104
سنا ہے اس کے شبستاں سے متُّصل ہے بہشت
مکیں اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں
( احمد فراز )
105
سمجھ رہے ہیں اور بولنے کا یارا نہیں
جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں
( افتخار عارف )
106
سمندورں کو بھی حیرت ہوئی کہ ڈوبتے وقت
کسی کو ہم نے مد د کے لیئے پکارا نہیں
( افتخار عارف )
107
سرمایہ حیات ہے حرمانِ عاشقی
ہے ساتھ ایک صورتِ زیبا لئے ہوئے
( اصغر گونڈی )
108
سینہ دہک رہا ہو تو کیا چُپ رہے کوئی
کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے کوئی
( جون ایلیا )
109
سعادت مند بیٹا جھک گیا فرمانِ باری پر
زمین و آسماں حیراں تھے اس طاعت گزاری پر
( حفیظ جالندھری )
110
ستم کے بعد اب ان کی پشیمانی نہیں جاتی
نہیں جاتی نظر کی فتنہ سامانی نہیں جاتی
( اصغرؔ گونڈوی )
111
سوزِ غم دے گیا کون سا رشکِ گل یہ ہوا عشق کے کس چمن میں لگی
آنچ دل سے اٹھی لَو جگر تک گئی منہ سے نکلا دھواں آگ تن میں لگی
( آرزوؔ لکھنوی )
112
سب قتل ہو کے تیرے مقابل سے آئے ہیں
ہم لوگ سرخرو ہیں کہ منزل سے آئے ہیں
( فیض احمد فیضؔ )
113
سادگی پر اس کی مرجانے کی حسرت دل میں ہے
بس نہیں چلتا کہ ۔۔ پھر خنجر کفِ قاتل میں ہے
( مرزا اسد اللہ خان غالبؔ )
114
ساقی کی اک نگاہ کے۔۔ افسانے بن گئے
کچھ پھول ٹوٹ کر مرے پیمانے بن گئے
( ساغرؔ صدیقی )
115
ساغرؔ ! وہی مقام ہے اک منزلِ فراز
اپنے بھی جس مقام پہ بیگانے بن گئے
( ساغرؔ صدیقی )
116
ستم کو بھی کرم ہائے نہاں کہنا ہی پڑتا ہے
کبھی نامہرباں کو مہرباں کہنا ہی پڑتا ہے
( کلیم احمد عاجزؔ )
117
ساقی کی ہر نگاہ پہ بل کھا کے پی گیا
لہروں سے کھیلتا ہوا لہرا کے پی گیا
( جگرؔمرادآبادی )
118
سامانِ تجارت مرا ایمان نہیں ہے
ہر در پہ جھکے سر یہ مری شان نہیں ہے
( ماجدؔ دیوبندی )
119
سامنے ہی تھے مگر بات نہ ہونے پائی
بے خودی تھی وہ ملاقات نہ ہونے پائی
( پیامؔ فتح پوری )
120
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
121
سکوں پسند جو دیوانگی مری ہوتی
خبر کسی کو نہ انجامِ عشق کی ہوتی
( استاد قمرؔ جلالوی )
122
سختیاں کرتا ہوں دل پر ، غیر سے غافل ہوں میں
ہائے کیا اچھی کہی ظالم ہوں میں ، جاہل ہوں میں
( علامہ اقبال )
123
سواد رومة الکبرے میں دلی یاد آتی ہے
وہی عبرت ، وہی عظمت ، وہی شان دل آویزی
( علامہ اقبال )
124
سوچا بھی ہے اے مرد مسلماں کبھی تو نے
کیا چیز ہے فولاد کی شمشیر جگردار
( علامہ اقبال )
125
سب اپنے بنائے ہوئے زنداں میں ہیں محبوس
خاور کے ثوابت ہوں کہ افرنگ کے سیار
( علامہ اقبال )
126
سنیں گے میرا صدا خانزادگان کبیر
کلیم پوش ہوں میں صاحبِ کلاہ نہیں
127
سنایا لاکھ مگر حالِ دل عیاں نہ ہوا
یہ راز وہ ہے جو شرمندہ ٔبیاں نہ ہوا
( خواجہ عزیزالحسن مجذوبؔ )
128
سب ایک رنگ میں ہے اہلِ دیر و حرم
وہ کون ہے جو گرویدہ ٔبُتاں نہ ہوا
( خواجہ عزیزالحسن مجذوبؔ )
129
سرِ بازارِ حُسن و عشق کی رسوائیاں توبہ
شعارِ مہوشاں بدلا مزاجِ عاشقاں بدلا
( خواجہ عزیزالحسن مجذوبؔ )
130
سیدھی نظر بھی ہے غضب، تِرچهی نظر بهی ہے سِتم
یہ تیغ دو رکهتی ہے دهار، اک اِس طرف اک اُس طرف
ختم شد
تو اس کے شہر میںکچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
90
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
91
سنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
92
سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
تو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
93
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
94
سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں
95
سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
96
سنا ہے حشر ہیںاس کی غزال سی آنکھیں
سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
97
سنا ہے رات سے بڑھ کر ہیںکاکلیں اس کی
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں
98
سنا ہے اس کی سیہ چشمگی قیامت ہے
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
99
سنا ہے جب سے حمائل ہیں اس کی گردن میں
مزاج اور ہی لعل و گوہر کے دیکھتے ہیں
100
سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
101
سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں
102
سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اس کی
جو سادہ دل ہیںاسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
103
سنا ہے چشمِ تصور سے دشتِ امکاں میں
پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں
104
سنا ہے اس کے شبستاں سے متُّصل ہے بہشت
مکیں اُدھر کے بھی جلوے اِدھر کے دیکھتے ہیں
( احمد فراز )
105
سمجھ رہے ہیں اور بولنے کا یارا نہیں
جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں
( افتخار عارف )
106
سمندورں کو بھی حیرت ہوئی کہ ڈوبتے وقت
کسی کو ہم نے مد د کے لیئے پکارا نہیں
( افتخار عارف )
107
سرمایہ حیات ہے حرمانِ عاشقی
ہے ساتھ ایک صورتِ زیبا لئے ہوئے
( اصغر گونڈی )
108
سینہ دہک رہا ہو تو کیا چُپ رہے کوئی
کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے کوئی
( جون ایلیا )
109
سعادت مند بیٹا جھک گیا فرمانِ باری پر
زمین و آسماں حیراں تھے اس طاعت گزاری پر
( حفیظ جالندھری )
110
ستم کے بعد اب ان کی پشیمانی نہیں جاتی
نہیں جاتی نظر کی فتنہ سامانی نہیں جاتی
( اصغرؔ گونڈوی )
111
سوزِ غم دے گیا کون سا رشکِ گل یہ ہوا عشق کے کس چمن میں لگی
آنچ دل سے اٹھی لَو جگر تک گئی منہ سے نکلا دھواں آگ تن میں لگی
( آرزوؔ لکھنوی )
112
سب قتل ہو کے تیرے مقابل سے آئے ہیں
ہم لوگ سرخرو ہیں کہ منزل سے آئے ہیں
( فیض احمد فیضؔ )
113
سادگی پر اس کی مرجانے کی حسرت دل میں ہے
بس نہیں چلتا کہ ۔۔ پھر خنجر کفِ قاتل میں ہے
( مرزا اسد اللہ خان غالبؔ )
114
ساقی کی اک نگاہ کے۔۔ افسانے بن گئے
کچھ پھول ٹوٹ کر مرے پیمانے بن گئے
( ساغرؔ صدیقی )
115
ساغرؔ ! وہی مقام ہے اک منزلِ فراز
اپنے بھی جس مقام پہ بیگانے بن گئے
( ساغرؔ صدیقی )
116
ستم کو بھی کرم ہائے نہاں کہنا ہی پڑتا ہے
کبھی نامہرباں کو مہرباں کہنا ہی پڑتا ہے
( کلیم احمد عاجزؔ )
117
ساقی کی ہر نگاہ پہ بل کھا کے پی گیا
لہروں سے کھیلتا ہوا لہرا کے پی گیا
( جگرؔمرادآبادی )
118
سامانِ تجارت مرا ایمان نہیں ہے
ہر در پہ جھکے سر یہ مری شان نہیں ہے
( ماجدؔ دیوبندی )
119
سامنے ہی تھے مگر بات نہ ہونے پائی
بے خودی تھی وہ ملاقات نہ ہونے پائی
( پیامؔ فتح پوری )
120
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
121
سکوں پسند جو دیوانگی مری ہوتی
خبر کسی کو نہ انجامِ عشق کی ہوتی
( استاد قمرؔ جلالوی )
122
سختیاں کرتا ہوں دل پر ، غیر سے غافل ہوں میں
ہائے کیا اچھی کہی ظالم ہوں میں ، جاہل ہوں میں
( علامہ اقبال )
123
سواد رومة الکبرے میں دلی یاد آتی ہے
وہی عبرت ، وہی عظمت ، وہی شان دل آویزی
( علامہ اقبال )
124
سوچا بھی ہے اے مرد مسلماں کبھی تو نے
کیا چیز ہے فولاد کی شمشیر جگردار
( علامہ اقبال )
125
سب اپنے بنائے ہوئے زنداں میں ہیں محبوس
خاور کے ثوابت ہوں کہ افرنگ کے سیار
( علامہ اقبال )
126
سنیں گے میرا صدا خانزادگان کبیر
کلیم پوش ہوں میں صاحبِ کلاہ نہیں
127
سنایا لاکھ مگر حالِ دل عیاں نہ ہوا
یہ راز وہ ہے جو شرمندہ ٔبیاں نہ ہوا
( خواجہ عزیزالحسن مجذوبؔ )
128
سب ایک رنگ میں ہے اہلِ دیر و حرم
وہ کون ہے جو گرویدہ ٔبُتاں نہ ہوا
( خواجہ عزیزالحسن مجذوبؔ )
129
سرِ بازارِ حُسن و عشق کی رسوائیاں توبہ
شعارِ مہوشاں بدلا مزاجِ عاشقاں بدلا
( خواجہ عزیزالحسن مجذوبؔ )
130
سیدھی نظر بھی ہے غضب، تِرچهی نظر بهی ہے سِتم
یہ تیغ دو رکهتی ہے دهار، اک اِس طرف اک اُس طرف
ختم شد
حرف ش سے اشعار!!
ترتیب دادہ: جابر ساگر ممبئی
تاریخ: ۱۹ / ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۲۲ / ستمبر ۲۰۱۶ء ۔
..............................
1
شدتِ درد میں ہونٹوں پہ دعا کا ہونا
ثابت اس سے بھی تو ہوتا ہے خدا کا ہونا
2
شدتِ درد میں کمی نہ آئی ذرا بھی
درد، درد ہی رہا، اُلٹا بھی لکھا سیدھا بھی
3
شاید تیرے لبوں کی چٹک سے ہو جی بحال
اے دوست مسکرا کہ طبیعت اداس ہے
4
شروعِ عشق میں ایسی اداسیاں تابش
ہر ایک شام یہ لگتا ہے شام آخری ہے
5
شبِ ہجراں میں در آتی ہیں کیسے یہ ملاقاتیں
تماشا ہائے خلوت نے ہمیں حیران کر رکھا ہے
6
شامِ محبت یوں ڈھل گئی تنہائی میں
جیسے ڈوب گیا سُورج سمندر کی گہرائی میں
7
شاید کسی جزیرے پہ وہ منتظر ملے
مکتوب لکھ کے میں نے سرِ آب رکھ دئیے
8
شاعر کی نوا مردہ و افسردہ و بے ذوق
افکار میں سرمست، نہ خوابیدہ نہ بیدار
( علامہ اقبال)
9
شکستہ دل ہوں مگر مسکرا کے ملتا ہوں
اگر یہ فن ہے تو سیکھا ہے اک عذاب کے بعد
10
شعلہ تھا ، جل بجھا ہوں ہوائیں نہ دو مجھے
میں کب کا جا چکا ہوں، صدائیں نہ دو مجھے
(فراز)
11
شمع کے مانند اہلِ انجمن سے بے نیاز
اکثر اپنی آگ میں چپ چاپ جل جاتے ہیں لوگ
( حمایت علی شاعر)
12
شاعر ان کی دوستی کا اب بھی دم بھرتے ہیں آپ
ٹھوکریں کھا کر تو سنتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ
(حمایت علی شاعر)
13
شاخ سے موجِ گُل تھمی ہے کہیں
ہاتھ سے رک سکا بہاؤ کبھی
(پروین شاکر)
14
شامِ فراق اب نہ پوچھ آئی اور آ کے ٹل گئی
دل تھا کہ پھر بہل گیا، جان تھی کہ پھر سنبھل گئی
(فیض احمد فیض)
15
شعار اپنا ہی جس کا بہانہ سازی تھا
وہ میرے جھوٹ پہ خوش تھا کہ سچ پہ راضی تھا
16
شکست و فتح مرا مسئلہ نہیں ہے فراز
میں زندگی سے نبرد آزما رہا سو رہا
17
شیشہء شوق پہ تُو سنگِ ملامت نہ گرا
عکسِ گل رنگ ہی کافی ہے گراں جانی کو
(سعداللہ شاہ)
18
شباب تک نہیں پہچا ہے عالمِ طفلی
ہنوز حسنِ جوانیِ یار راہ میں ہے
19
شبِ فراق میں اُس غیرتِ مسیح بغیر
اُٹھا اُٹھا کے مجھے، دردِ دل نے دے پٹکا
20
شراب پینے کا کیا ذکر، یار بے تیرے
پیا جو پانی بھی ہم نے تو حلق میں اٹکا
21
شبِ برأت جو زلف سیاہ یار ہوئی
جبیں سے صبح مہ عید آشکار ہوئی
22
شام سے ڈھونڈا کیا زنجیر پھانسی کے لئے
صبح تک میں نے خیالِ گیسوئے پیچاں کیا
23
شبہ ہوتا ہے صدف کا مجھے ہرغنچے پر
کہیں موتی نہ کریں قطعۂ شبنم پیدا
24
شبِ وصل تھی، چاندنی کا سماں تھا
بغل میں صنم تھا، خدا مہرباں تھا
25
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں
26
شہروں میں کرائے کا مکاں ڈھونڈتے رہے
یہ گاؤں کا گھر چھوڑ کر آنے کی سزا ہے
27
شکایت غیر کی کیوں کررہا ہے اس سے کیا حاصل
تمنا کیوں نہ برآتی اگر نیت درست ہوتی
28
شمرِ لعیں کا ذِکر نہ کر میرے سامنے
شیرِ خدا کے مرگِ شعاروں کی بات کر
29
شب ہجر میں کیا ہجوم بلا ہے
زباں تھک گئ مرحبا کہتے کہتے
30
شام کے سانولے چہرے کو نکھارا جائے
کیوں نہ ساغر سے کوئی چاند ابھارا جائے
31
شب اُترتی ہے تو یادیں بھی اُتر آتی ہیں
جس طرح چڑیاں کہیں دور سے گھر آتی ہیں
32
شام کو گھر سے نکل کر نہ پلٹنے والے
در و دیوار سے سائے تیرے رخصت نہ ہوئے
33
شامِ غم جس سے ملا پہروں یاد آئے گا پھر
ہاں مگر کچھ دن میں وہ چہرہ بھی دھندلا جائے گا
34
شکم کی آگ لیئے پھر رہی ہے شہر بہ شہر
سگِ زمانہ ہیں ہم کیا ہماری ہجرت کیا
35
شام سے آنکھ میں نمی سی ہے
آج پھر آپ کی کمی سی ہے
36
شناوروں کی رسائی کے منتظر ساجد
ہم اپنے عہد کے اِک شہرِ زیرآب میں ہیں
37
شعلہِ دل بجھے دیر ہوئی ہے لیکن
وہی تابندگیِ دیدہِ تر ہے کہ جو تھی
38
شیشے کی طرح وقت کے ہاتھوں میں ہوں ہنوز
کب جانے حادثات کا پتھر پکارے
39
شوق جب حد سے گزر جائے تو ہوتا ہے یہی
ورنہ ہم اور کرم یار کی پروا نہ کریں
40
شہر در شہر گھر جلائے گئے
یوں بھی جشنِ طرب منائے گئے
41
شام کے سانولے چہرے کو نکھارا جائے
کیوں نہ ساغر سے کوئی چاند ابھارا جائے
(قتیل شفائی)
42
شب سفر تھی قبا تیرگی کی پہنے ہوئے
کہیں کہیں پہ کوئی روشنی کا دھبا تھا
43
شقاوت دیکھکر لوگوں کی، یہ محسوس ہوتا ہے
کہ ہم پتھر کے ہیں آنکھیں بھی انسانی نہیں رکھتے
44
شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہئیے
( میر تقی میر)
45
شاید بنانے والے کو کچھ اس کی خبر ہو
کس نقطۂ نظر سے بنایا گیا ہوں میں
46
شامِ اسیری و شبِ غربت تو ہو چکی
اک جاں کی بات ہے تو لبِ داری ہی سہی
47
شہر یاروں کے بلاوے بہت آتے ہیں فراز
یہ نہ ہو آپ بھی دربار میں گم ہو جائیں
48
شاید وہ کوئی حرفِ وفا ڈھونڈ رہا تھا
شہروں کو بڑے غور سے پڑھتا تھا اک
49
شاہد خفا تھا کتبِ تقدیر اس لیے
ہم نے زمیں پہ اپنے ستارے بنائے تھے
50
شاہد کرے گا کون یقیں تیرے خواب کا
یہ لوگ تو مکر گئے تھے معجزے سے بھی
51
شعوری کوششیں منظر بگاڑ دیتی ہیں
وہی بھلا ہے جو بے ساختہ بنا ہوا ہے
52
شام ہوتے ہی تمازت کے سنہر
ترتیب دادہ: جابر ساگر ممبئی
تاریخ: ۱۹ / ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۲۲ / ستمبر ۲۰۱۶ء ۔
..............................
1
شدتِ درد میں ہونٹوں پہ دعا کا ہونا
ثابت اس سے بھی تو ہوتا ہے خدا کا ہونا
2
شدتِ درد میں کمی نہ آئی ذرا بھی
درد، درد ہی رہا، اُلٹا بھی لکھا سیدھا بھی
3
شاید تیرے لبوں کی چٹک سے ہو جی بحال
اے دوست مسکرا کہ طبیعت اداس ہے
4
شروعِ عشق میں ایسی اداسیاں تابش
ہر ایک شام یہ لگتا ہے شام آخری ہے
5
شبِ ہجراں میں در آتی ہیں کیسے یہ ملاقاتیں
تماشا ہائے خلوت نے ہمیں حیران کر رکھا ہے
6
شامِ محبت یوں ڈھل گئی تنہائی میں
جیسے ڈوب گیا سُورج سمندر کی گہرائی میں
7
شاید کسی جزیرے پہ وہ منتظر ملے
مکتوب لکھ کے میں نے سرِ آب رکھ دئیے
8
شاعر کی نوا مردہ و افسردہ و بے ذوق
افکار میں سرمست، نہ خوابیدہ نہ بیدار
( علامہ اقبال)
9
شکستہ دل ہوں مگر مسکرا کے ملتا ہوں
اگر یہ فن ہے تو سیکھا ہے اک عذاب کے بعد
10
شعلہ تھا ، جل بجھا ہوں ہوائیں نہ دو مجھے
میں کب کا جا چکا ہوں، صدائیں نہ دو مجھے
(فراز)
11
شمع کے مانند اہلِ انجمن سے بے نیاز
اکثر اپنی آگ میں چپ چاپ جل جاتے ہیں لوگ
( حمایت علی شاعر)
12
شاعر ان کی دوستی کا اب بھی دم بھرتے ہیں آپ
ٹھوکریں کھا کر تو سنتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ
(حمایت علی شاعر)
13
شاخ سے موجِ گُل تھمی ہے کہیں
ہاتھ سے رک سکا بہاؤ کبھی
(پروین شاکر)
14
شامِ فراق اب نہ پوچھ آئی اور آ کے ٹل گئی
دل تھا کہ پھر بہل گیا، جان تھی کہ پھر سنبھل گئی
(فیض احمد فیض)
15
شعار اپنا ہی جس کا بہانہ سازی تھا
وہ میرے جھوٹ پہ خوش تھا کہ سچ پہ راضی تھا
16
شکست و فتح مرا مسئلہ نہیں ہے فراز
میں زندگی سے نبرد آزما رہا سو رہا
17
شیشہء شوق پہ تُو سنگِ ملامت نہ گرا
عکسِ گل رنگ ہی کافی ہے گراں جانی کو
(سعداللہ شاہ)
18
شباب تک نہیں پہچا ہے عالمِ طفلی
ہنوز حسنِ جوانیِ یار راہ میں ہے
19
شبِ فراق میں اُس غیرتِ مسیح بغیر
اُٹھا اُٹھا کے مجھے، دردِ دل نے دے پٹکا
20
شراب پینے کا کیا ذکر، یار بے تیرے
پیا جو پانی بھی ہم نے تو حلق میں اٹکا
21
شبِ برأت جو زلف سیاہ یار ہوئی
جبیں سے صبح مہ عید آشکار ہوئی
22
شام سے ڈھونڈا کیا زنجیر پھانسی کے لئے
صبح تک میں نے خیالِ گیسوئے پیچاں کیا
23
شبہ ہوتا ہے صدف کا مجھے ہرغنچے پر
کہیں موتی نہ کریں قطعۂ شبنم پیدا
24
شبِ وصل تھی، چاندنی کا سماں تھا
بغل میں صنم تھا، خدا مہرباں تھا
25
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں
26
شہروں میں کرائے کا مکاں ڈھونڈتے رہے
یہ گاؤں کا گھر چھوڑ کر آنے کی سزا ہے
27
شکایت غیر کی کیوں کررہا ہے اس سے کیا حاصل
تمنا کیوں نہ برآتی اگر نیت درست ہوتی
28
شمرِ لعیں کا ذِکر نہ کر میرے سامنے
شیرِ خدا کے مرگِ شعاروں کی بات کر
29
شب ہجر میں کیا ہجوم بلا ہے
زباں تھک گئ مرحبا کہتے کہتے
30
شام کے سانولے چہرے کو نکھارا جائے
کیوں نہ ساغر سے کوئی چاند ابھارا جائے
31
شب اُترتی ہے تو یادیں بھی اُتر آتی ہیں
جس طرح چڑیاں کہیں دور سے گھر آتی ہیں
32
شام کو گھر سے نکل کر نہ پلٹنے والے
در و دیوار سے سائے تیرے رخصت نہ ہوئے
33
شامِ غم جس سے ملا پہروں یاد آئے گا پھر
ہاں مگر کچھ دن میں وہ چہرہ بھی دھندلا جائے گا
34
شکم کی آگ لیئے پھر رہی ہے شہر بہ شہر
سگِ زمانہ ہیں ہم کیا ہماری ہجرت کیا
35
شام سے آنکھ میں نمی سی ہے
آج پھر آپ کی کمی سی ہے
36
شناوروں کی رسائی کے منتظر ساجد
ہم اپنے عہد کے اِک شہرِ زیرآب میں ہیں
37
شعلہِ دل بجھے دیر ہوئی ہے لیکن
وہی تابندگیِ دیدہِ تر ہے کہ جو تھی
38
شیشے کی طرح وقت کے ہاتھوں میں ہوں ہنوز
کب جانے حادثات کا پتھر پکارے
39
شوق جب حد سے گزر جائے تو ہوتا ہے یہی
ورنہ ہم اور کرم یار کی پروا نہ کریں
40
شہر در شہر گھر جلائے گئے
یوں بھی جشنِ طرب منائے گئے
41
شام کے سانولے چہرے کو نکھارا جائے
کیوں نہ ساغر سے کوئی چاند ابھارا جائے
(قتیل شفائی)
42
شب سفر تھی قبا تیرگی کی پہنے ہوئے
کہیں کہیں پہ کوئی روشنی کا دھبا تھا
43
شقاوت دیکھکر لوگوں کی، یہ محسوس ہوتا ہے
کہ ہم پتھر کے ہیں آنکھیں بھی انسانی نہیں رکھتے
44
شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہئیے
( میر تقی میر)
45
شاید بنانے والے کو کچھ اس کی خبر ہو
کس نقطۂ نظر سے بنایا گیا ہوں میں
46
شامِ اسیری و شبِ غربت تو ہو چکی
اک جاں کی بات ہے تو لبِ داری ہی سہی
47
شہر یاروں کے بلاوے بہت آتے ہیں فراز
یہ نہ ہو آپ بھی دربار میں گم ہو جائیں
48
شاید وہ کوئی حرفِ وفا ڈھونڈ رہا تھا
شہروں کو بڑے غور سے پڑھتا تھا اک
49
شاہد خفا تھا کتبِ تقدیر اس لیے
ہم نے زمیں پہ اپنے ستارے بنائے تھے
50
شاہد کرے گا کون یقیں تیرے خواب کا
یہ لوگ تو مکر گئے تھے معجزے سے بھی
51
شعوری کوششیں منظر بگاڑ دیتی ہیں
وہی بھلا ہے جو بے ساختہ بنا ہوا ہے
52
شام ہوتے ہی تمازت کے سنہر
ی لمحے
جا ابھرتے ہیں تری آنکھوں کے مے خانوں میں
میں نے الجھی ہوئی سطروں کو مرتب کر کے
ایک دیوان بنا رکھا ہے دیوانوں میں!
53
شکایت نہ کرتا زمانے سے کوئی
اگر مان جاتا منانے سے کوئی
کسی کو کبھی یاد ہم بھی نہ کرتے
اگر بھول جاتا بھلانے سے کوئی
54
شام ہوتے ہی اداسی نے ہمیں گھیر لیا
ایسا لمحہ تھا کہ سورج کو بھی مر جانا تھا
55
شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا زنجیر پڑی دروازے پر
کیوں دیر گئے گھر آئے ہو سجنی سے کرو گے بہانہ کیا
56
شکر ہے اس نگاہ کم کا میاں
پہلے ہی ہم کھٹک گئے ہوں گے
(جون ایلیا)
57
شاید یہ میری آنکھ سے گرتا ہوا آنسو
احباب کی بھولی ہوئی منزل کا نشاں ہو
(خیال امروہوی)
58
شعور آجاؤ میرے ساتھ لیکن
میں اک بھٹکا ہوا سا آدمی ہوں
(انور شعور)
59
شمع کی لو تھی کہ وہ توُ تھا مگر ہجر کی رات
دیر تک روتا رہا کوئی سرہانے میرے
(فراز)
60
شام سے ہی بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
61
شوق بے پایاں کا انداز سفر تو دیکھئے
موت کی وادی سے مثل موجِ دریا گیا
(حزیں صدیقی)
62
شام جب آتی ہے اپنے گھر کے صحن و بام پر
جگمگا اٹھتا ہے دل قدرت کے اس انعام پر
(منیر نیاز)
63
شائد کوئی خواہش روتی رہتی ہے
میرے اندر بارش ہوتی رہتی ہے
64
شاعری روزِ ازل سے تخلیق ہوئی ندیم
شعر سے کم نہیں انساں کا پیدا ہونا
65
شور برپا ہے خانہء دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی
66
شاید کوئی فسُوں ہے تُمہاری نِگاہ میں
لَذت سی پا رہا ہوں غمِ بے پناہ میں
67
شاید وہ مل ہی جائے مگر جستجو ہے شرط
وہ اپنے نقشِ پا تو مٹا کر نہیں گیا
68
شہزاد یہ گلہ ہی رہا اس کی ذات سے
جاتے ہوئے وہ کوئی گلہ کر نہیں گیا
69
شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
یہ بھی مت کہہ کہ جو کہیے تو گِلہ ہوتا ہے
(غالب)
70
شعبدہ بازیِ آئینۂ احساس نہ پوچھ
حیرتِ چشم وہی شوخ قبا ہے کب سے
71
شاید یہی شعلہ مری ہستی کو جلا دے
دیتا ہوں میں اڑتے ہوئے جگنو کو ہوائیں
72
شکستہ حال سا بے آسرا سا لگتا ہے
یہ شہر دل سے زیادہ دُکھا سا لگتا ہے
73
شائستگیِ غم کے سبب آنکھوں کے صحرا
نمناک تو ہو جاتے ہیں جل تھل نہیں ہوتے
74
شوق اندیشوں سے پاگل ہوا جاتا ہے فراز
کاش یہ خانہ خرابی مجھے بے در کر دے
75
شب اُترتی ہے تو یادیں بھی اُتر آتی ہیں
جس طرح چڑیاں کہیں دور سے گھر آتی ہیں
76
شامِ غم جس سے ملا پہروں یاد آئے گا پھر
ہاں مگر کچھ دن میں وہ چہرہ بھی دھندلا جائے گا
77
شعر دراصل ہیں وہی حسرت
سنتے ہی دل میں جو اُتر جائیں
78
شرط اداسی سے لگا بیٹھا ہوں
مسکرانا میری مجبوری ہے
79
شعلۂ حسن چمن میں نہ دکھایا اُس نے
ورنہ بُلبُل کو بھی پروانہ بنایا ہوتا
(بہادر شاہ ظفر)
80
شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
(میر)
81
شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہ
اک آگ سی ہے سینہ کے اندر لگی ہوئی
(مصطفٰے خان شیفتہ)
82
شب بھر رہے شریک جو دورِ شراب میں
وہ سب صفِ نماز میں وقتِ سحر ملے
(عباس)
83
شرماگئے، لجّا گئے، دامن چُھڑا گئے
اے عشق مرحبا وہ یہاں تک تو آگئے
(نوح ناروی)
84
شیشہ ٹوٹے غل مچ جائے
دل ٹوٹے آواز نہ آئے
(حفیظ میرٹھی)
85
شامِ غم کچھ اس نگاہِ ناز کی باتیں کرو
بیخودی بڑھتی چلی ہے، راز کی باتیں کرو
(فراق گھورکھپوری)
86
شگفتہ پھول جو دیکھے تو شوق یاد آیا
دئے تھے داغ بھی گلشن نے بے شمار مجھے
(شوق اثری)
87
شعر محدود نہیں حسنِ تخیل پہ نشور
ان نگاہوں نے بھی اک شعر چھپا رکھا ہے
(نشور واحدی)
88
شبِ وصل میں سننا پڑا فسانۂ غیر
سمجھتے کاش وہ اپنا نہ رازدار مجھے
(میر حسین)
89
شب وہی شب ہے، دن وہی دن ہے
جو تیری یاد میں گزر جائیں
(حسرت موہانی)
90
شیخ جی گرگئے تھے حوض میں میخانے کے
ڈوب کر چشمۂ کوثر کے کنارے نکلے
(ریاض خیرآبادی)
91
شیخ اس بُت شکنی پر نہ ہو اتنا مغرور
تونے توڑا نہیں اپنا بُتِ پندار ہنوز
(غلام علی راسخ)
92
شورِ جولاں تھا کنارِ بحر پر کس کا کہ آج
گردِ ساحل ہے بہ زخمِ موجۂ دریا نمک
(غالب)
93
شبِ انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی
کبھی اک چراغ جلادیا کبھی اک چراغ بُجھادیا
(مجروح سلطان پوری)
94
شبِ سیاہ کے لمحے گزار لینے دو
گھڑی گھڑی نہ کرو ذکر ماہ پاروں کا
(شہزاد)
95
شمع کی آنچ میں کمی تو نہیں
جَل کے ٹھنڈے پڑے ہیں پروانے
96
شفق، دھنک، مہتاب، گھٹائیں، تارے،نغمے، بجلی، پھول
اس دامن میں کیا کیا کچھ ہے وہ دامن ہاتھ میں آئے تو،
(عندلیب)
97
شباب آیا کسی بُت پر فدا ہونے کا وقت آیا
مری دنیا میں بندےکو خدا کہنے کا وقت آیا
(اختر)
98
شبنم نے رو کے جی ذرا ہلکا تو کرلیا
غم اسکا پوچھئے جو نہ آنسو بہا سکے
(عبدالسلام سلام)
99
شمع سا لگ اُٹھے زبان کو آگ
گر کروں سوزِ دل بیاں اپنا
(بہادر شاہ ظفر)
100
شمع اک موم کے پیکر کے سوا کچھ بھی نہ تھی
آگ جب تَن میں لگائی ہے تو جان آئی ہے
(آنند نرائن)
ختم شد
جا ابھرتے ہیں تری آنکھوں کے مے خانوں میں
میں نے الجھی ہوئی سطروں کو مرتب کر کے
ایک دیوان بنا رکھا ہے دیوانوں میں!
53
شکایت نہ کرتا زمانے سے کوئی
اگر مان جاتا منانے سے کوئی
کسی کو کبھی یاد ہم بھی نہ کرتے
اگر بھول جاتا بھلانے سے کوئی
54
شام ہوتے ہی اداسی نے ہمیں گھیر لیا
ایسا لمحہ تھا کہ سورج کو بھی مر جانا تھا
55
شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا زنجیر پڑی دروازے پر
کیوں دیر گئے گھر آئے ہو سجنی سے کرو گے بہانہ کیا
56
شکر ہے اس نگاہ کم کا میاں
پہلے ہی ہم کھٹک گئے ہوں گے
(جون ایلیا)
57
شاید یہ میری آنکھ سے گرتا ہوا آنسو
احباب کی بھولی ہوئی منزل کا نشاں ہو
(خیال امروہوی)
58
شعور آجاؤ میرے ساتھ لیکن
میں اک بھٹکا ہوا سا آدمی ہوں
(انور شعور)
59
شمع کی لو تھی کہ وہ توُ تھا مگر ہجر کی رات
دیر تک روتا رہا کوئی سرہانے میرے
(فراز)
60
شام سے ہی بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
61
شوق بے پایاں کا انداز سفر تو دیکھئے
موت کی وادی سے مثل موجِ دریا گیا
(حزیں صدیقی)
62
شام جب آتی ہے اپنے گھر کے صحن و بام پر
جگمگا اٹھتا ہے دل قدرت کے اس انعام پر
(منیر نیاز)
63
شائد کوئی خواہش روتی رہتی ہے
میرے اندر بارش ہوتی رہتی ہے
64
شاعری روزِ ازل سے تخلیق ہوئی ندیم
شعر سے کم نہیں انساں کا پیدا ہونا
65
شور برپا ہے خانہء دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی
66
شاید کوئی فسُوں ہے تُمہاری نِگاہ میں
لَذت سی پا رہا ہوں غمِ بے پناہ میں
67
شاید وہ مل ہی جائے مگر جستجو ہے شرط
وہ اپنے نقشِ پا تو مٹا کر نہیں گیا
68
شہزاد یہ گلہ ہی رہا اس کی ذات سے
جاتے ہوئے وہ کوئی گلہ کر نہیں گیا
69
شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
یہ بھی مت کہہ کہ جو کہیے تو گِلہ ہوتا ہے
(غالب)
70
شعبدہ بازیِ آئینۂ احساس نہ پوچھ
حیرتِ چشم وہی شوخ قبا ہے کب سے
71
شاید یہی شعلہ مری ہستی کو جلا دے
دیتا ہوں میں اڑتے ہوئے جگنو کو ہوائیں
72
شکستہ حال سا بے آسرا سا لگتا ہے
یہ شہر دل سے زیادہ دُکھا سا لگتا ہے
73
شائستگیِ غم کے سبب آنکھوں کے صحرا
نمناک تو ہو جاتے ہیں جل تھل نہیں ہوتے
74
شوق اندیشوں سے پاگل ہوا جاتا ہے فراز
کاش یہ خانہ خرابی مجھے بے در کر دے
75
شب اُترتی ہے تو یادیں بھی اُتر آتی ہیں
جس طرح چڑیاں کہیں دور سے گھر آتی ہیں
76
شامِ غم جس سے ملا پہروں یاد آئے گا پھر
ہاں مگر کچھ دن میں وہ چہرہ بھی دھندلا جائے گا
77
شعر دراصل ہیں وہی حسرت
سنتے ہی دل میں جو اُتر جائیں
78
شرط اداسی سے لگا بیٹھا ہوں
مسکرانا میری مجبوری ہے
79
شعلۂ حسن چمن میں نہ دکھایا اُس نے
ورنہ بُلبُل کو بھی پروانہ بنایا ہوتا
(بہادر شاہ ظفر)
80
شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
(میر)
81
شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہ
اک آگ سی ہے سینہ کے اندر لگی ہوئی
(مصطفٰے خان شیفتہ)
82
شب بھر رہے شریک جو دورِ شراب میں
وہ سب صفِ نماز میں وقتِ سحر ملے
(عباس)
83
شرماگئے، لجّا گئے، دامن چُھڑا گئے
اے عشق مرحبا وہ یہاں تک تو آگئے
(نوح ناروی)
84
شیشہ ٹوٹے غل مچ جائے
دل ٹوٹے آواز نہ آئے
(حفیظ میرٹھی)
85
شامِ غم کچھ اس نگاہِ ناز کی باتیں کرو
بیخودی بڑھتی چلی ہے، راز کی باتیں کرو
(فراق گھورکھپوری)
86
شگفتہ پھول جو دیکھے تو شوق یاد آیا
دئے تھے داغ بھی گلشن نے بے شمار مجھے
(شوق اثری)
87
شعر محدود نہیں حسنِ تخیل پہ نشور
ان نگاہوں نے بھی اک شعر چھپا رکھا ہے
(نشور واحدی)
88
شبِ وصل میں سننا پڑا فسانۂ غیر
سمجھتے کاش وہ اپنا نہ رازدار مجھے
(میر حسین)
89
شب وہی شب ہے، دن وہی دن ہے
جو تیری یاد میں گزر جائیں
(حسرت موہانی)
90
شیخ جی گرگئے تھے حوض میں میخانے کے
ڈوب کر چشمۂ کوثر کے کنارے نکلے
(ریاض خیرآبادی)
91
شیخ اس بُت شکنی پر نہ ہو اتنا مغرور
تونے توڑا نہیں اپنا بُتِ پندار ہنوز
(غلام علی راسخ)
92
شورِ جولاں تھا کنارِ بحر پر کس کا کہ آج
گردِ ساحل ہے بہ زخمِ موجۂ دریا نمک
(غالب)
93
شبِ انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی
کبھی اک چراغ جلادیا کبھی اک چراغ بُجھادیا
(مجروح سلطان پوری)
94
شبِ سیاہ کے لمحے گزار لینے دو
گھڑی گھڑی نہ کرو ذکر ماہ پاروں کا
(شہزاد)
95
شمع کی آنچ میں کمی تو نہیں
جَل کے ٹھنڈے پڑے ہیں پروانے
96
شفق، دھنک، مہتاب، گھٹائیں، تارے،نغمے، بجلی، پھول
اس دامن میں کیا کیا کچھ ہے وہ دامن ہاتھ میں آئے تو،
(عندلیب)
97
شباب آیا کسی بُت پر فدا ہونے کا وقت آیا
مری دنیا میں بندےکو خدا کہنے کا وقت آیا
(اختر)
98
شبنم نے رو کے جی ذرا ہلکا تو کرلیا
غم اسکا پوچھئے جو نہ آنسو بہا سکے
(عبدالسلام سلام)
99
شمع سا لگ اُٹھے زبان کو آگ
گر کروں سوزِ دل بیاں اپنا
(بہادر شاہ ظفر)
100
شمع اک موم کے پیکر کے سوا کچھ بھی نہ تھی
آگ جب تَن میں لگائی ہے تو جان آئی ہے
(آنند نرائن)
ختم شد
حرف ص سے اشعار!!
ترتیب دادہ: عادل سعیدی دیوبندی
تاریخ: ۸ / ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۱۱ / ستمبر ۲۰۱۶ء ۔
........................................
1
صحرا کا اک درخت ہوں تنہائیوں میں گم
ایسا نہ اپنی ذات میں کھویا کرے کوئی
2
صحرا کی طرح دیر سے پیاسا تھا وہ شاید
بادل کی طرح ٹوٹ کے برسا تھا جواک شخص
3
صدیاں تیری سمیٹ کے جو لے گیا قتیل
اب تیرے پاس لوٹ کے وہ پل نہ آئے گا
4
صحبتِ صالح ترا صالح کند
صحبتِ طالح ترا طالح کند
5
صد سالہ دور چرخ تھا ساغر کا ایک دور
نکلے جو مے کدے سے تو دنیا بدل گئی
گستاخ رام پوری
6
صوفیِ شہر بھی پردے میں تصوّف کے سہی
چھیڑ دیتا ہے اسی یارِ طرح دار کی بات
7
صندل سا ہاتھ ماتھے پہ،سر خم،نظر جھکی
آداب یوں کہو گے تو ہم مر نہ جائیں گے
8
صبا گر از سرِ زلفش بہ گورستاں برد بوئے
ز ہر گورے دو صد بیدل ز بوئے یار برخیزد
9
صبر اتنا نہ کر کہ دشمن پر
تلخ ہوجائے لذتِ بیداد
یاس یگانہ چنگیزی
10
صرف اس شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں
میں ترا حسن،ترے حسنِ بیاں تک دیکھوں
11
صلیبِ وقت پہ میں نے پکارا تھا محبت کو
میرے آواز جس نے بھی سنی ہو گی ہنسا ہو گا
12
صبر ائے دل! کہ یہ حالت نہیں دیکھی جاتی
ٹھہر ائے درد! کہ اب ضبط کا یارا نہ رہا
حبیب اشعر
13
صلح کر لی یہ سوچ کر میں نے
میرے دشمن نہ تھے برابر کے
14
صیاد اب جو اذنِ رہائی دیا تو کیا
مدت ہوئی کہ آرزوئے بال و پر گئی
زوالنورین
15
صبح دم تو رُخ نمودی، شُد نمازِ من قضا
سجدہ کے باید روا، چوں آفتاب آید بروں
16
صوفی کی طریقت میں فقط مستئ احوال
ملا کی شریعت میں فقط مستئ گفتار
17
صدق و صفائے قلب سے محروم ہے حیات
کرتے ہیں بندگی بھی جہنّم کے ڈر سے ہم
18
صبح گر صبحِ قیامت ہو تو کچھ پروا نہیں
ہجر کی جب رات ایسی بے قراری میں کٹی
امین الدین امین
19
صلیب و دار کے قصّے رقم ہوتے ہی رہتے ہیں
قلم کی جنبشوں پر سر قلم ہوتے ہی رہتے ہیں
20
صبحِ ازل چلا تھا میں ان کی تلاش میں
شامِ ابد کے بعد ملاقات ہوگئی
21
صیاد اسیرِ دام رگِ گل ہے عندلیب
دکھلا رہا ہے چھپ کے اسے آب و دانہ کیا
آتش
22
صیاد یہ کیا کیا ستم ایجاد کرے ہے
اب سارے گلستاں ہی کو برباد کرے ہے
23
صدا یہ آتی ہے ہر روز آسمانوں سے
مرے غلام کبھی دل سے تو پکار مجھے
24
صیاد اب قفس سے ڈراتا ہے کیا مجھے
تیرے کرم سے شکل وہی آشیاں کی ہے
اقبال احمد سہیل
25
صحبتِ رِنداں سے واعظ کچھ نہ حاصل کرسکا
بہکا بہکا سا مگر طرزِ کلام آ ہی گیا
26
صبر تھا ایک مونسِ ہجْراں
سَو، وہ مدّت سے اب نہیں آتا
27
صرف اک قدم اٹھا تھا غلط راہِ شوق میں
منزل تمام عمر مجھے ڈھونڈتی رہی
عبدالحمید عدم
28
صیّاد سے سوال رہائی کا کیا کروں
اُڑنے کا حوصلہ ہی نہیں بال و پر میں ہے
29
صبح تک نکل رہا تھا میرے ہونٹوں سے خون
رات اس قدر چوما تھا تیری تصویر کو میں نے
30
صبح بچھڑ کر شام کا وعدہ، شام کا ہونا سہل نہیں
انکی تمنا پھر کرلینا، صبح کو پہلے شام کرو
نثار ایاوی
31
صاحب لفظ اس کو کہہ سکھئے
جس سوں خوباں کلام کرتے ہیں
ولی دکنی
32
صیاد کچھ دن اور ہماری خطا معاف
واقف نہیں ہوئے ابھی تیری زباں سے ہم
قمر جلال آبادی
33
صرف یہ پوچھا تھا کوئی وصل کی تدبیر ہے
ہنس کے فرمانے لگے کیا موت دامن گیر ہے
قمر جلال آبادی
34
صیّاد اس طرح تو فریبِ سکوں نہ دے
اس درجہ تو مجھے بھی غمِ آشیاں نہیں
فراق
35
صیاد تیرے حکمِ رہائی کا شکریہ
ہم تو قفس میں کاٹ چکے دن بہار کے
قمر جلال آبادی
36
صلہ ملا تو نہیں کچھ مجھے وفا کر کے
مگر میں خوش ہوں یہی جرم بارہا کر کے
اعجاز عبید
37
صبح سے جنبشِ ابرو سے مژہ سے پیہم
نہ ترے تیر رکے ہیں نہ کماں ٹھہری ہے
قمر جلال آبادی
38
صحرا کا اک درخت ہوں تنہائیوں میں گم
ایسا نہ اپنی ذات میں کھویا کرے کوئی
39
صحرائے زندگی میں جدھر بھی قدم اٹھیں
رستے میں ایک آرزوؤں کا چمن پڑے
40
صیاد اپنے گھر مجھے کس شے کی تھی کمی
سب کچھ تھا اک قفس کے سوا آشیانے میں
قمر جلال آبادی
41
صبا تو کیا مجھے دھوپ تک جگا نہ سکی
کہاں کی نیند اُتر آئی ہے ان آنکھوں میں
42
صداقت ہو تو دل سینے سے کھچنے لگتے ہیں واعظ
حقیقت خود کو منوا لیتی ہے ، مانی نہیں جاتی
43
صیاد قفس میں مجھے رکھنے سے نتیجہ
میں قید رہوں گا نظر آزاد رہے گی
قمر جلال آبادی
44
صبح وصال دور تو اتنی نہیں مگر
راتیں ہیں بیچ میں تری زلفِ سیاہ کی
45
صرف چہرے کی اُداسی سے نکل آئے آنسو
دل کا عالم تو ابھی اُس نے دیکھا ہی نہیں تھا
46
صد جلوہ رو برو ہے جو مژگاں اٹھائیے
طاقت کہاں کہ دید کا احساں اٹھائیے
غالب
47
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہرزماں اپنے عمل کا حساب
48
صبح کے اُجالوں میں ڈھونڈتا ہے تعبیریں
دل کو کون سمجھائے، خواب، خواب ہوتے ہیں
49
صورتِ آئینہ تصویرِ تحیر بن کر
دیکھتا تھا تری محفل کا تماشا کوئی
قمر جلال آبادی
50
صاف کہہ دو اگر گِلہ ہے کوئی
فیصلہ، فاصلے سے بہتر ہے
51
صبح جس روشنی
ترتیب دادہ: عادل سعیدی دیوبندی
تاریخ: ۸ / ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۱۱ / ستمبر ۲۰۱۶ء ۔
........................................
1
صحرا کا اک درخت ہوں تنہائیوں میں گم
ایسا نہ اپنی ذات میں کھویا کرے کوئی
2
صحرا کی طرح دیر سے پیاسا تھا وہ شاید
بادل کی طرح ٹوٹ کے برسا تھا جواک شخص
3
صدیاں تیری سمیٹ کے جو لے گیا قتیل
اب تیرے پاس لوٹ کے وہ پل نہ آئے گا
4
صحبتِ صالح ترا صالح کند
صحبتِ طالح ترا طالح کند
5
صد سالہ دور چرخ تھا ساغر کا ایک دور
نکلے جو مے کدے سے تو دنیا بدل گئی
گستاخ رام پوری
6
صوفیِ شہر بھی پردے میں تصوّف کے سہی
چھیڑ دیتا ہے اسی یارِ طرح دار کی بات
7
صندل سا ہاتھ ماتھے پہ،سر خم،نظر جھکی
آداب یوں کہو گے تو ہم مر نہ جائیں گے
8
صبا گر از سرِ زلفش بہ گورستاں برد بوئے
ز ہر گورے دو صد بیدل ز بوئے یار برخیزد
9
صبر اتنا نہ کر کہ دشمن پر
تلخ ہوجائے لذتِ بیداد
یاس یگانہ چنگیزی
10
صرف اس شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں
میں ترا حسن،ترے حسنِ بیاں تک دیکھوں
11
صلیبِ وقت پہ میں نے پکارا تھا محبت کو
میرے آواز جس نے بھی سنی ہو گی ہنسا ہو گا
12
صبر ائے دل! کہ یہ حالت نہیں دیکھی جاتی
ٹھہر ائے درد! کہ اب ضبط کا یارا نہ رہا
حبیب اشعر
13
صلح کر لی یہ سوچ کر میں نے
میرے دشمن نہ تھے برابر کے
14
صیاد اب جو اذنِ رہائی دیا تو کیا
مدت ہوئی کہ آرزوئے بال و پر گئی
زوالنورین
15
صبح دم تو رُخ نمودی، شُد نمازِ من قضا
سجدہ کے باید روا، چوں آفتاب آید بروں
16
صوفی کی طریقت میں فقط مستئ احوال
ملا کی شریعت میں فقط مستئ گفتار
17
صدق و صفائے قلب سے محروم ہے حیات
کرتے ہیں بندگی بھی جہنّم کے ڈر سے ہم
18
صبح گر صبحِ قیامت ہو تو کچھ پروا نہیں
ہجر کی جب رات ایسی بے قراری میں کٹی
امین الدین امین
19
صلیب و دار کے قصّے رقم ہوتے ہی رہتے ہیں
قلم کی جنبشوں پر سر قلم ہوتے ہی رہتے ہیں
20
صبحِ ازل چلا تھا میں ان کی تلاش میں
شامِ ابد کے بعد ملاقات ہوگئی
21
صیاد اسیرِ دام رگِ گل ہے عندلیب
دکھلا رہا ہے چھپ کے اسے آب و دانہ کیا
آتش
22
صیاد یہ کیا کیا ستم ایجاد کرے ہے
اب سارے گلستاں ہی کو برباد کرے ہے
23
صدا یہ آتی ہے ہر روز آسمانوں سے
مرے غلام کبھی دل سے تو پکار مجھے
24
صیاد اب قفس سے ڈراتا ہے کیا مجھے
تیرے کرم سے شکل وہی آشیاں کی ہے
اقبال احمد سہیل
25
صحبتِ رِنداں سے واعظ کچھ نہ حاصل کرسکا
بہکا بہکا سا مگر طرزِ کلام آ ہی گیا
26
صبر تھا ایک مونسِ ہجْراں
سَو، وہ مدّت سے اب نہیں آتا
27
صرف اک قدم اٹھا تھا غلط راہِ شوق میں
منزل تمام عمر مجھے ڈھونڈتی رہی
عبدالحمید عدم
28
صیّاد سے سوال رہائی کا کیا کروں
اُڑنے کا حوصلہ ہی نہیں بال و پر میں ہے
29
صبح تک نکل رہا تھا میرے ہونٹوں سے خون
رات اس قدر چوما تھا تیری تصویر کو میں نے
30
صبح بچھڑ کر شام کا وعدہ، شام کا ہونا سہل نہیں
انکی تمنا پھر کرلینا، صبح کو پہلے شام کرو
نثار ایاوی
31
صاحب لفظ اس کو کہہ سکھئے
جس سوں خوباں کلام کرتے ہیں
ولی دکنی
32
صیاد کچھ دن اور ہماری خطا معاف
واقف نہیں ہوئے ابھی تیری زباں سے ہم
قمر جلال آبادی
33
صرف یہ پوچھا تھا کوئی وصل کی تدبیر ہے
ہنس کے فرمانے لگے کیا موت دامن گیر ہے
قمر جلال آبادی
34
صیّاد اس طرح تو فریبِ سکوں نہ دے
اس درجہ تو مجھے بھی غمِ آشیاں نہیں
فراق
35
صیاد تیرے حکمِ رہائی کا شکریہ
ہم تو قفس میں کاٹ چکے دن بہار کے
قمر جلال آبادی
36
صلہ ملا تو نہیں کچھ مجھے وفا کر کے
مگر میں خوش ہوں یہی جرم بارہا کر کے
اعجاز عبید
37
صبح سے جنبشِ ابرو سے مژہ سے پیہم
نہ ترے تیر رکے ہیں نہ کماں ٹھہری ہے
قمر جلال آبادی
38
صحرا کا اک درخت ہوں تنہائیوں میں گم
ایسا نہ اپنی ذات میں کھویا کرے کوئی
39
صحرائے زندگی میں جدھر بھی قدم اٹھیں
رستے میں ایک آرزوؤں کا چمن پڑے
40
صیاد اپنے گھر مجھے کس شے کی تھی کمی
سب کچھ تھا اک قفس کے سوا آشیانے میں
قمر جلال آبادی
41
صبا تو کیا مجھے دھوپ تک جگا نہ سکی
کہاں کی نیند اُتر آئی ہے ان آنکھوں میں
42
صداقت ہو تو دل سینے سے کھچنے لگتے ہیں واعظ
حقیقت خود کو منوا لیتی ہے ، مانی نہیں جاتی
43
صیاد قفس میں مجھے رکھنے سے نتیجہ
میں قید رہوں گا نظر آزاد رہے گی
قمر جلال آبادی
44
صبح وصال دور تو اتنی نہیں مگر
راتیں ہیں بیچ میں تری زلفِ سیاہ کی
45
صرف چہرے کی اُداسی سے نکل آئے آنسو
دل کا عالم تو ابھی اُس نے دیکھا ہی نہیں تھا
46
صد جلوہ رو برو ہے جو مژگاں اٹھائیے
طاقت کہاں کہ دید کا احساں اٹھائیے
غالب
47
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہرزماں اپنے عمل کا حساب
48
صبح کے اُجالوں میں ڈھونڈتا ہے تعبیریں
دل کو کون سمجھائے، خواب، خواب ہوتے ہیں
49
صورتِ آئینہ تصویرِ تحیر بن کر
دیکھتا تھا تری محفل کا تماشا کوئی
قمر جلال آبادی
50
صاف کہہ دو اگر گِلہ ہے کوئی
فیصلہ، فاصلے سے بہتر ہے
51
صبح جس روشنی
کی خوشبو ہے
میں اسی گل کی چشمِ تر میں ہوں
52
صبحِ عشرت دیکھ کر، شامِ غریباں دیکھ کر
محوِ حیرت ہوں میں رنگِ بزمِ امکاں دیکھ کر
سرور
53
صادق ہوں اپنے قول میں غالب خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
54
صرف اک میرے ہی دل میں ہیں سبھی ہنگامے
سارے عالم خموشی ہے،سکوں طاری ہے
55
صیاد میں اسیر کہوں کس سے حالِ دل
صرف ایک تو ہے وہ بھی مرا ہم زباں نہیں
قمر جلال آبادی
56
صبحِ خزاں کی آخری یلغار ہے فراز
اک دل گرفتہ پھول ہے اور دوسری ہوا
57
صبا نے پھر درِزنداں پہ آ کے دی دستک
سحر قریب ہے دل سے کہو نہ گھبرائے
58
صبح گلگشت کو جاتے ہو کہ شرمائے بہار
کیا یہ مطلب ہے گلستاں سے نکل جائے بہار
قمر جلال آبادی
59
صبا پھر ہمیں پوچھتی پھر رہی ہے
چمن کو سجانے کے دن آ رہے ہیں
فیض احمد فیض
60
صدا دیتی ہے خوشبو چاند تارے بول پڑتے ہیں
نظر جیسی نظر ہو تو نظارے بول پڑتے ہیں
منظر بھوپالی
61
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
خوب پردہ ہے چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
62
صبو کو دور میں لاؤ بہار کے دن ہیں
ہمیں شراب پلاؤ بہار کے دن ہیں
عبد الحمید عدم
63
صبحدم چاند کی رخصتی کا سماں
جس طرح بحر میں ڈوبتا آدمی
ساغر صدیقی
64
صراحی جام سے ٹکرائیے برسات کے دن ہیں
حدیثِ زندگی دہرائیے برسات کے دن ہیں
ساغر صدیقی
65
صحرا، زنداں، طوقِ سلاسل، آتشِ زہر اور دار و رسن
کیا کیا ہم نے دے رکھے ہیں آپ کے احسانات کے نام
ملک زادہ منظور
66
قصہ مرے پرہیز کا
اے ساقیا دشنام ہے
سید عبدالحمید
67
صلہ ملے نہ ملے، خونِ دل چھڑکتے چلیں
ہر ایک خار ہے دست طلب بڑھائے ہوئے
محسن بھوپالی
68
صدائیں ایک سی، یکسانیت میں ڈوب جاتی ہیں
ذرا سا مختلف جس نے پکارا یا د رہتا ہے
عدیم ہاشمی
69
صبح کو شام کیا مرمر کے،پھر بھی نہ غم کے پتھر سرکے
اک دو روز کی بات نہیں ہے ایسا سالہا سال کیا
اعتبار ساجد
70
صبح کو بيدار ہوکر باوضو
کر رہے ہیں اہلِ ایماں ذکرِ ہو
ولی بستوی
71
صد آفریں کہ مرے دل کے داغ لے تو لیا
اندھیری گود کی خاطر، چراغ لے تو لیا
بہادر شاہ ظفر
72
صوفیوں میں ہوں، نہ رندوں میں، نہ میخوادوں میں ہوں
ائے بتو! بندہ خدا کا ہوں، گنہگاروں میں ہوں
بہادر شاہ ظفر
73
صیقل سے اپنے لطف و عنایت کے دود کر
آئینۂ ضمیر سے میرے غبارِ غم
بہادر شاہ ظفر
74
صیاد کو گر رحم بھی آیا تو کیا کروں
یہ شوقِ اسیری تو رہائی نہیں دیتا
داغ دہلوی
75
صورتِ غنچہ کھلی جاتی ہیں باچھیں کس قدر
کیا خوشی ہے کس کو مارا، کیوں ہے قاتل باغ باغ
داغ دہلوی
76
صدائے تیشۂ مزدور ہے ترا نغمہ
تو سنگ و خشت سے چنگ و رباب پیدا کر
مجاز لکھنوی
77
صفحاتِ زمانہ پر اب تک ہے رقم ان کے
ایمان کی تابانی، اخلاق کی زیبائی
ظفر اقبال
78
صبحِ صادق آپ کے نورِ جبیں سے مستنیر
رات ٹھہرا کاکلِ مُشکیں کے لہرانے کا نام
ریاست علی ظفر بجنوری
79
صیاد کا خیال ہے ورنہ ظفر یہ دام
ایسے ہزار دام اڑائے ہوئے ہیں ہم
ریاست علی ظفر بجنوری
80
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے
81
صبا! خاکِ دل سے بچا اپنا دامن
ابھی اس میں چنگاریاں اور بھی ہیں
جگر
82
صیاد پہ ظاہر ابھی یہ راز نہیں ہے
پرواز اسیرِ پرِ پرواز نہیں ہے
جگر
83
صدائیں آج بھی آتی ہیں طاقِ کسریٰ سے
ورق ورق ہے مری زندگی کا عبرت خیز
84
صبر کے فائدے بہت ہیں ولی
دل ہی بس میں نہیں تو کیا سمجھے
میر تقی میر
85
صحبتِ رنداں سے واعظ کچھ نہ حاصل کرسکا
بہکا بہکا سا مگر طرزِ کلام آہی گیا
جگر
86
صانع کو دیکھنا ہو، تو عالم پہ کر نظر
آئینہ آئینہ ہے خود آئینہ ساز کا
شاد حسن بسمل
87
صفیں کج، دل پریشاں، سجدہ بے ذوق
کہ جذب اندروں باقی نہیں ہے
اقبال
88
صاف دل آدمی کبھی راہی
کسی الزام سے نہیں ڈرتا
دواکر راہی
89
صیاد نے پوچھا ہے اسیرانِ قفس سے
کس کس کو ہے کلیوں کے چٹکنے کی صدا یاد
ماہر القادری
90
صیاد نے اجازتِ فریاد تو دی ہے
میں پھر بھی ڈر رہا ہوں زباں کھولتے ہوئے
ماہر القادری
91
صوفی جو سنے نالہ موزوں کو ہمارے
حالت ہو مغنی کے ترنم سے زیادہ
حیدر علی آتش
92
صیاد نے تسلیِ بلبل کے واسطے
کنجِ قفس میں حوض بھرا ہے، گلاب کا
حیدر علی آتش
93
صدقۂ تیرگیِ شب سے گلہ سنج نہ ہو
کہ نئے چاند اسی شب سے فروزاں ہوں گے
رئیس امروہوی
94
صدمۂ زیست کے شکوے نہ کر اے جانِ رئیسؔ
بخدا یہ نہ ترے درد کا داماں ہوں گے
رئیس امروہوی
95
صبح کے قافلوں سے نبھ نہ سکی
میں اکیلا سوادِ شب میں چلا
رئیس امروہوی
96
صحتیں لاکھوں مری بیماریِ غم پر نثار
جس میں اٹھے بار ہا ان کی عیادت کے مزے
حسرت موہانی
97
صحرا پہ لگے پہرے اور قفل پڑے بن پر
اب شہر بدر ہو کر دیوانہ کدھر جائے
فیض احمد فیض
98
صحنِ گلشن میں بہرِ مشتاقاں
ہر روش کھِنچ گئی کماں کی طرح
فیض احمد فیض
99
صحرا کو بہت ناز ہے ویرانی پہ اپنی
واقف نہیں شاید مرے اجڑے ہوئے گھر سے
خمار بارہ بنکوی
100
صبر و شکیب عشق کی اب خیر ہو خمار
اب وہ بھی س
میں اسی گل کی چشمِ تر میں ہوں
52
صبحِ عشرت دیکھ کر، شامِ غریباں دیکھ کر
محوِ حیرت ہوں میں رنگِ بزمِ امکاں دیکھ کر
سرور
53
صادق ہوں اپنے قول میں غالب خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
54
صرف اک میرے ہی دل میں ہیں سبھی ہنگامے
سارے عالم خموشی ہے،سکوں طاری ہے
55
صیاد میں اسیر کہوں کس سے حالِ دل
صرف ایک تو ہے وہ بھی مرا ہم زباں نہیں
قمر جلال آبادی
56
صبحِ خزاں کی آخری یلغار ہے فراز
اک دل گرفتہ پھول ہے اور دوسری ہوا
57
صبا نے پھر درِزنداں پہ آ کے دی دستک
سحر قریب ہے دل سے کہو نہ گھبرائے
58
صبح گلگشت کو جاتے ہو کہ شرمائے بہار
کیا یہ مطلب ہے گلستاں سے نکل جائے بہار
قمر جلال آبادی
59
صبا پھر ہمیں پوچھتی پھر رہی ہے
چمن کو سجانے کے دن آ رہے ہیں
فیض احمد فیض
60
صدا دیتی ہے خوشبو چاند تارے بول پڑتے ہیں
نظر جیسی نظر ہو تو نظارے بول پڑتے ہیں
منظر بھوپالی
61
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
خوب پردہ ہے چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
62
صبو کو دور میں لاؤ بہار کے دن ہیں
ہمیں شراب پلاؤ بہار کے دن ہیں
عبد الحمید عدم
63
صبحدم چاند کی رخصتی کا سماں
جس طرح بحر میں ڈوبتا آدمی
ساغر صدیقی
64
صراحی جام سے ٹکرائیے برسات کے دن ہیں
حدیثِ زندگی دہرائیے برسات کے دن ہیں
ساغر صدیقی
65
صحرا، زنداں، طوقِ سلاسل، آتشِ زہر اور دار و رسن
کیا کیا ہم نے دے رکھے ہیں آپ کے احسانات کے نام
ملک زادہ منظور
66
قصہ مرے پرہیز کا
اے ساقیا دشنام ہے
سید عبدالحمید
67
صلہ ملے نہ ملے، خونِ دل چھڑکتے چلیں
ہر ایک خار ہے دست طلب بڑھائے ہوئے
محسن بھوپالی
68
صدائیں ایک سی، یکسانیت میں ڈوب جاتی ہیں
ذرا سا مختلف جس نے پکارا یا د رہتا ہے
عدیم ہاشمی
69
صبح کو شام کیا مرمر کے،پھر بھی نہ غم کے پتھر سرکے
اک دو روز کی بات نہیں ہے ایسا سالہا سال کیا
اعتبار ساجد
70
صبح کو بيدار ہوکر باوضو
کر رہے ہیں اہلِ ایماں ذکرِ ہو
ولی بستوی
71
صد آفریں کہ مرے دل کے داغ لے تو لیا
اندھیری گود کی خاطر، چراغ لے تو لیا
بہادر شاہ ظفر
72
صوفیوں میں ہوں، نہ رندوں میں، نہ میخوادوں میں ہوں
ائے بتو! بندہ خدا کا ہوں، گنہگاروں میں ہوں
بہادر شاہ ظفر
73
صیقل سے اپنے لطف و عنایت کے دود کر
آئینۂ ضمیر سے میرے غبارِ غم
بہادر شاہ ظفر
74
صیاد کو گر رحم بھی آیا تو کیا کروں
یہ شوقِ اسیری تو رہائی نہیں دیتا
داغ دہلوی
75
صورتِ غنچہ کھلی جاتی ہیں باچھیں کس قدر
کیا خوشی ہے کس کو مارا، کیوں ہے قاتل باغ باغ
داغ دہلوی
76
صدائے تیشۂ مزدور ہے ترا نغمہ
تو سنگ و خشت سے چنگ و رباب پیدا کر
مجاز لکھنوی
77
صفحاتِ زمانہ پر اب تک ہے رقم ان کے
ایمان کی تابانی، اخلاق کی زیبائی
ظفر اقبال
78
صبحِ صادق آپ کے نورِ جبیں سے مستنیر
رات ٹھہرا کاکلِ مُشکیں کے لہرانے کا نام
ریاست علی ظفر بجنوری
79
صیاد کا خیال ہے ورنہ ظفر یہ دام
ایسے ہزار دام اڑائے ہوئے ہیں ہم
ریاست علی ظفر بجنوری
80
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یوں ہی تمام ہوتی ہے
81
صبا! خاکِ دل سے بچا اپنا دامن
ابھی اس میں چنگاریاں اور بھی ہیں
جگر
82
صیاد پہ ظاہر ابھی یہ راز نہیں ہے
پرواز اسیرِ پرِ پرواز نہیں ہے
جگر
83
صدائیں آج بھی آتی ہیں طاقِ کسریٰ سے
ورق ورق ہے مری زندگی کا عبرت خیز
84
صبر کے فائدے بہت ہیں ولی
دل ہی بس میں نہیں تو کیا سمجھے
میر تقی میر
85
صحبتِ رنداں سے واعظ کچھ نہ حاصل کرسکا
بہکا بہکا سا مگر طرزِ کلام آہی گیا
جگر
86
صانع کو دیکھنا ہو، تو عالم پہ کر نظر
آئینہ آئینہ ہے خود آئینہ ساز کا
شاد حسن بسمل
87
صفیں کج، دل پریشاں، سجدہ بے ذوق
کہ جذب اندروں باقی نہیں ہے
اقبال
88
صاف دل آدمی کبھی راہی
کسی الزام سے نہیں ڈرتا
دواکر راہی
89
صیاد نے پوچھا ہے اسیرانِ قفس سے
کس کس کو ہے کلیوں کے چٹکنے کی صدا یاد
ماہر القادری
90
صیاد نے اجازتِ فریاد تو دی ہے
میں پھر بھی ڈر رہا ہوں زباں کھولتے ہوئے
ماہر القادری
91
صوفی جو سنے نالہ موزوں کو ہمارے
حالت ہو مغنی کے ترنم سے زیادہ
حیدر علی آتش
92
صیاد نے تسلیِ بلبل کے واسطے
کنجِ قفس میں حوض بھرا ہے، گلاب کا
حیدر علی آتش
93
صدقۂ تیرگیِ شب سے گلہ سنج نہ ہو
کہ نئے چاند اسی شب سے فروزاں ہوں گے
رئیس امروہوی
94
صدمۂ زیست کے شکوے نہ کر اے جانِ رئیسؔ
بخدا یہ نہ ترے درد کا داماں ہوں گے
رئیس امروہوی
95
صبح کے قافلوں سے نبھ نہ سکی
میں اکیلا سوادِ شب میں چلا
رئیس امروہوی
96
صحتیں لاکھوں مری بیماریِ غم پر نثار
جس میں اٹھے بار ہا ان کی عیادت کے مزے
حسرت موہانی
97
صحرا پہ لگے پہرے اور قفل پڑے بن پر
اب شہر بدر ہو کر دیوانہ کدھر جائے
فیض احمد فیض
98
صحنِ گلشن میں بہرِ مشتاقاں
ہر روش کھِنچ گئی کماں کی طرح
فیض احمد فیض
99
صحرا کو بہت ناز ہے ویرانی پہ اپنی
واقف نہیں شاید مرے اجڑے ہوئے گھر سے
خمار بارہ بنکوی
100
صبر و شکیب عشق کی اب خیر ہو خمار
اب وہ بھی س
اتھ ساتھ مرے بیقرار ہے
خمار بارہ بنکوی
101
صندل سے مہکتی ہوئی پر کیف ہوا کا
جھونکا کوئی ٹکرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
جاں نثار اختر
102
صبح ہوئی تو شہر کے، شور میں یوں بِکھر گئے
جیسے وہ آدمی نہ تھے، نقش و نگارِ آب تھے
امجد اسلام امجد
103
صفحہ صفحہ ایک کتابِ حسن سی کھلتی جائے گی
اور اُسی کو لَو میں پھر میں تم کو اَزبر کر لوں گا
امجد اسلام امجد
ختم شد
خمار بارہ بنکوی
101
صندل سے مہکتی ہوئی پر کیف ہوا کا
جھونکا کوئی ٹکرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
جاں نثار اختر
102
صبح ہوئی تو شہر کے، شور میں یوں بِکھر گئے
جیسے وہ آدمی نہ تھے، نقش و نگارِ آب تھے
امجد اسلام امجد
103
صفحہ صفحہ ایک کتابِ حسن سی کھلتی جائے گی
اور اُسی کو لَو میں پھر میں تم کو اَزبر کر لوں گا
امجد اسلام امجد
ختم شد
حرف ض سے اشعار!!
ترتیب دادہ: نور محمد ابن بشیر ممبرا، عادل سعیدی دیوبندی
تاریخ: ۹ / ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۱۲ / ستمبر ۲۰۱۶ء ۔
........................................
1
ضعفِ قویٰ نے آمدِ پیری کی دی نوید
وہ دل نہیں رہا، وہ طبیعت نہیں رہی
خمار بارہ بنکوی
2
ضرور کوئی علامت قضا کی پائی ہے
مجھے عزیزوں نے صورت تری دکھائی ہے
قمر جلال آبادی
3
ضبط اتنا ہے کہ ہونٹوں کوہی سی رکھا ہے
تشنگی وہ کہ سمندر کو بھی پی سکتے ہیں
4
ضبط کرنا نہیں مشکل تھا کسی لمحے بھی
مگر ہم نے سوچا کہ ترا وار نہ خالی جائے
5
ضبط کرتا ہوں تو چبھتی ہیں قفس میں تیلیاں
قید بڑھتی ہے جو کہتا ہوں رہائی کے لیے
قمر جلال آبادی
6
ضرور کچھ تو ہے اپنی حیات کا مقصد
سنا ہے چیز کوئی دہر میں فضول نہیں
7
ضروری تو نہیں کہہ دوں لبوں سے داستاں اپنی
زباں اک اور بھی ہوتی ہے اظہار تمنا کی
8
ضبط کرتا ہوں تو گھٹتا ہے قفس میں مرا دم
آہ کرتا ہوں تو صیّاد خفا ہوتا ہے
قمر جلال آبادی
9
ضد پہ آ جائے کسی بات پہ بچہ جیسے
دل تیرے بعد کچھ اس طرح سنبھالا ہم نے
10
ضبط کرنا، غم چھپانا اب ضروری ہو گیا
روتے روتے مسکرانا اب ضروری ہو گیا
11
ضمیرِ صدف میں کرن کا مقام
انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے
عدم
12
ضرورت توڑ دیتی ہے غرور و بے نیازی
نہ ہوتی کوئی مجبوری تو ہر بندہ خدا ہوتا
13
ضرور اسکی توجہ کی رہبری ہو گی
نشے میں تھا تو میں اپنے ہی گھر گیا کیسے
14
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز
ظالم اب بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
احمد فراز
15
ضمیر بیچ کے مل جائے دولتِ کونین
تو اس زوال کو للہ ارتقا نہ کہو
16
ضد ہر اک بات میں نہیں اچھی
دوست کی دوست مان لیتے ہیں
17
ضعف میں طعنۂ اغیار کا شکوہ کیا ہے
بات کچھ سر تو نہیں ہے، کہ اٹھا بھی نہ سکوں
غالب
18
ضبط، لازم ہے کہ آنکھوں کا بھرم رہ جائے
ایک طوفان کو آنکھوں میں سما رکھا ہے
19
ضرور اس راہ سے بیتاب گزرا ہے کوئی انساں
کہ دل کے داغ قدموں کے نشاں معلوم ہوتے ہیں
سلیم مہتاب
20
ضمیر رکھ کے حکومت سے کچھ نہ پاؤ گے
خطاب ملتا ہے یہاں بےضمیر ہونے پر
21
ضمیرِ زُہد بھی ، آلودۂ رِیا ہو جہاں !
خُدا ہمیں نہ کبھی ایسی پارسائی
22
ضوبار ہیں تجھ سے لوح و قلم، معمور ہے تجھ سے طاقِ حرم
ہر سمت ترا ہے نور عیاں، سبحان اللہ سبحان اللہ
ولی بستوی
23
ضروریات انہیں بھی بگاڑ دیتی ہیں
وہ ایک دو جو سلیقے کے لوگ ہوتے ہیں
شکیل جمالی
24
ضرورت بھر ضرورت چاھتا ہوں
پرندوں جیسی عادت چاھتا ہوں
منیر سیفی
25
ضیا! اک چوٹ سی دل پر لگی ہے
کہیں ٹوٹا ہے جوئی آئینہ کیا
عبدالقوی ضیا
26
ضائع نہ کبھی ہوتا، سیماب جو مٹتا میں
خاکسترِ الفت تھا، اکسیرِ وفا ہوتا
سیماب اکبرآبادی
27
ضبط کے ٹوٹ گئے آج تو بندھن سارے
آج تڑپا ہے وہ دل، جو کبھی دھڑکا بھی نہ تھا
نزہت بھوپالی
28
ضبطِ غم اتنا بھی آساں نہیں عالی
آگ ہوتے ہیں وہ آنسو، جو پئے جاتے ہیں
عبدالرؤف عالی
29
ضبط سے واحد ذرا تم کام لو
درد خود بن جائےگا اک دن سکوں
واحد پریمی
30
ضربِ خیال سے کہاں سے ٹوٹ سکیں گی بیڑیاں
فکرِ چمن کے ہمرکاب، جوشِ جنوں بھی چاھئے
شکیل جلالی
31
ضرورت کیا کہ راتیں میرے غم خانے کی روشن ہوں
کہ میں تو روزِ فطرت کا چراغاں دیکھ لیتا ہوں
سیماب اکبرآبادی
32
ضمیر کانپ تو جاتا ہے آپ کچھ بھی کہیں
وہ ہو گناہ سے پہلے، کہ ہو گناہ کے بعد
کرشن بہاری نور
33
ضبط کرتا ہوں تو ہر زخم لہو دیتا ہے
نالہ کرتا ہوں تو اندیشۂ رسوائی ہے
شکیل بدایونی
34
ضبط بھی، صبر بھی، امکان میں سب کچھ ہے مگر
پہلے کم بخت مرا دل تو مرا ہوجائے
احسان دانش
35
ضمیرِ زندہ نہیں آفتابِ حشر سے کم
کہ بچ کے دھوپ سے اب جل رہا ہوں چھاؤں میں
احمد ندیم قاسمی
36
ضبط کہتا ہے خموشی میں بسر ہوجائے
درد کی ضد ہے کہ دنیا کو خبر ہوجائے
آل رضا
37
ضد کی ہے اور بات، مگر خو بری نہیں
بھولے سے اس نے سینکڑوں وعدے وفا کئے
غالب
38
ضمیرِ لالہ میں روشن چراغِ آرزو کردے
چمن کے ذرے ذرے کو شہیدِ جستجو کردے
اقبال
39
ضعفِ پیری میں زندگانی بھی
دوش پر اپنے بار سا ہے کچھ
میر تقی میر
40
ضبط کا حوصلہ نکل جاتا
کچھ ستم اور بھی کئے ہوتے
فانی بدایونی
41
ضروری کام نیچر کا ہے، جو کرنا ہی پڑتا ہے
نہیں جی چاھتا مطلق مگر مرنا ہی پڑتا ہے
اکبر
42
ضرورت آج ہے بزمِ عمل سجانے کی
اٹھو اور اٹھ کے بدل دو فضا زمانے کی
43
ضروری چیز ہے اک تجربہ بھی زندگانی میں
تجھے یہ ڈگریاں بوڑھوں کا ہم سن کر نہیں سکتیں
اکبر
44
ضبط باقی غم سلامت ہے تو سن لینا کبھی
آہ گھبرا کر نکل آئی کلیجہ چیر کر
فانی بدایونی
45
ضرورت کی الگ ہے بات، لیکن
ہماری سوچ سرکاری نہیں ہے
عقیل شاداب
46
ضمیر، زر کی ترازو میں تل رہے ہیں یہاں
کہاں کا زہد و تقدس، کہاں کا علم و ہنر
کوثر نیازی
47
ضرورت ہے کھرے لہجے میں سچی بات کہنے کی
مگر ماحول کچھ ہے، خوش بیانی مانگتی کچھ ہے
ستار صدیقی
48
ضعف سے رہتا ہے اب پاؤں پہ سر
آپ اپنی ٹھوکریں کھاتے ہیں ہم
ترتیب دادہ: نور محمد ابن بشیر ممبرا، عادل سعیدی دیوبندی
تاریخ: ۹ / ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۱۲ / ستمبر ۲۰۱۶ء ۔
........................................
1
ضعفِ قویٰ نے آمدِ پیری کی دی نوید
وہ دل نہیں رہا، وہ طبیعت نہیں رہی
خمار بارہ بنکوی
2
ضرور کوئی علامت قضا کی پائی ہے
مجھے عزیزوں نے صورت تری دکھائی ہے
قمر جلال آبادی
3
ضبط اتنا ہے کہ ہونٹوں کوہی سی رکھا ہے
تشنگی وہ کہ سمندر کو بھی پی سکتے ہیں
4
ضبط کرنا نہیں مشکل تھا کسی لمحے بھی
مگر ہم نے سوچا کہ ترا وار نہ خالی جائے
5
ضبط کرتا ہوں تو چبھتی ہیں قفس میں تیلیاں
قید بڑھتی ہے جو کہتا ہوں رہائی کے لیے
قمر جلال آبادی
6
ضرور کچھ تو ہے اپنی حیات کا مقصد
سنا ہے چیز کوئی دہر میں فضول نہیں
7
ضروری تو نہیں کہہ دوں لبوں سے داستاں اپنی
زباں اک اور بھی ہوتی ہے اظہار تمنا کی
8
ضبط کرتا ہوں تو گھٹتا ہے قفس میں مرا دم
آہ کرتا ہوں تو صیّاد خفا ہوتا ہے
قمر جلال آبادی
9
ضد پہ آ جائے کسی بات پہ بچہ جیسے
دل تیرے بعد کچھ اس طرح سنبھالا ہم نے
10
ضبط کرنا، غم چھپانا اب ضروری ہو گیا
روتے روتے مسکرانا اب ضروری ہو گیا
11
ضمیرِ صدف میں کرن کا مقام
انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے
عدم
12
ضرورت توڑ دیتی ہے غرور و بے نیازی
نہ ہوتی کوئی مجبوری تو ہر بندہ خدا ہوتا
13
ضرور اسکی توجہ کی رہبری ہو گی
نشے میں تھا تو میں اپنے ہی گھر گیا کیسے
14
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز
ظالم اب بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
احمد فراز
15
ضمیر بیچ کے مل جائے دولتِ کونین
تو اس زوال کو للہ ارتقا نہ کہو
16
ضد ہر اک بات میں نہیں اچھی
دوست کی دوست مان لیتے ہیں
17
ضعف میں طعنۂ اغیار کا شکوہ کیا ہے
بات کچھ سر تو نہیں ہے، کہ اٹھا بھی نہ سکوں
غالب
18
ضبط، لازم ہے کہ آنکھوں کا بھرم رہ جائے
ایک طوفان کو آنکھوں میں سما رکھا ہے
19
ضرور اس راہ سے بیتاب گزرا ہے کوئی انساں
کہ دل کے داغ قدموں کے نشاں معلوم ہوتے ہیں
سلیم مہتاب
20
ضمیر رکھ کے حکومت سے کچھ نہ پاؤ گے
خطاب ملتا ہے یہاں بےضمیر ہونے پر
21
ضمیرِ زُہد بھی ، آلودۂ رِیا ہو جہاں !
خُدا ہمیں نہ کبھی ایسی پارسائی
22
ضوبار ہیں تجھ سے لوح و قلم، معمور ہے تجھ سے طاقِ حرم
ہر سمت ترا ہے نور عیاں، سبحان اللہ سبحان اللہ
ولی بستوی
23
ضروریات انہیں بھی بگاڑ دیتی ہیں
وہ ایک دو جو سلیقے کے لوگ ہوتے ہیں
شکیل جمالی
24
ضرورت بھر ضرورت چاھتا ہوں
پرندوں جیسی عادت چاھتا ہوں
منیر سیفی
25
ضیا! اک چوٹ سی دل پر لگی ہے
کہیں ٹوٹا ہے جوئی آئینہ کیا
عبدالقوی ضیا
26
ضائع نہ کبھی ہوتا، سیماب جو مٹتا میں
خاکسترِ الفت تھا، اکسیرِ وفا ہوتا
سیماب اکبرآبادی
27
ضبط کے ٹوٹ گئے آج تو بندھن سارے
آج تڑپا ہے وہ دل، جو کبھی دھڑکا بھی نہ تھا
نزہت بھوپالی
28
ضبطِ غم اتنا بھی آساں نہیں عالی
آگ ہوتے ہیں وہ آنسو، جو پئے جاتے ہیں
عبدالرؤف عالی
29
ضبط سے واحد ذرا تم کام لو
درد خود بن جائےگا اک دن سکوں
واحد پریمی
30
ضربِ خیال سے کہاں سے ٹوٹ سکیں گی بیڑیاں
فکرِ چمن کے ہمرکاب، جوشِ جنوں بھی چاھئے
شکیل جلالی
31
ضرورت کیا کہ راتیں میرے غم خانے کی روشن ہوں
کہ میں تو روزِ فطرت کا چراغاں دیکھ لیتا ہوں
سیماب اکبرآبادی
32
ضمیر کانپ تو جاتا ہے آپ کچھ بھی کہیں
وہ ہو گناہ سے پہلے، کہ ہو گناہ کے بعد
کرشن بہاری نور
33
ضبط کرتا ہوں تو ہر زخم لہو دیتا ہے
نالہ کرتا ہوں تو اندیشۂ رسوائی ہے
شکیل بدایونی
34
ضبط بھی، صبر بھی، امکان میں سب کچھ ہے مگر
پہلے کم بخت مرا دل تو مرا ہوجائے
احسان دانش
35
ضمیرِ زندہ نہیں آفتابِ حشر سے کم
کہ بچ کے دھوپ سے اب جل رہا ہوں چھاؤں میں
احمد ندیم قاسمی
36
ضبط کہتا ہے خموشی میں بسر ہوجائے
درد کی ضد ہے کہ دنیا کو خبر ہوجائے
آل رضا
37
ضد کی ہے اور بات، مگر خو بری نہیں
بھولے سے اس نے سینکڑوں وعدے وفا کئے
غالب
38
ضمیرِ لالہ میں روشن چراغِ آرزو کردے
چمن کے ذرے ذرے کو شہیدِ جستجو کردے
اقبال
39
ضعفِ پیری میں زندگانی بھی
دوش پر اپنے بار سا ہے کچھ
میر تقی میر
40
ضبط کا حوصلہ نکل جاتا
کچھ ستم اور بھی کئے ہوتے
فانی بدایونی
41
ضروری کام نیچر کا ہے، جو کرنا ہی پڑتا ہے
نہیں جی چاھتا مطلق مگر مرنا ہی پڑتا ہے
اکبر
42
ضرورت آج ہے بزمِ عمل سجانے کی
اٹھو اور اٹھ کے بدل دو فضا زمانے کی
43
ضروری چیز ہے اک تجربہ بھی زندگانی میں
تجھے یہ ڈگریاں بوڑھوں کا ہم سن کر نہیں سکتیں
اکبر
44
ضبط باقی غم سلامت ہے تو سن لینا کبھی
آہ گھبرا کر نکل آئی کلیجہ چیر کر
فانی بدایونی
45
ضرورت کی الگ ہے بات، لیکن
ہماری سوچ سرکاری نہیں ہے
عقیل شاداب
46
ضمیر، زر کی ترازو میں تل رہے ہیں یہاں
کہاں کا زہد و تقدس، کہاں کا علم و ہنر
کوثر نیازی
47
ضرورت ہے کھرے لہجے میں سچی بات کہنے کی
مگر ماحول کچھ ہے، خوش بیانی مانگتی کچھ ہے
ستار صدیقی
48
ضعف سے رہتا ہے اب پاؤں پہ سر
آپ اپنی ٹھوکریں کھاتے ہیں ہم
فقیر گویا
49
ضبط کی شہر پناہوں کی مرے مالک خیر
غمِ سیلاب اگر مجھ کو بہانے آئے
پروین شاکر
50
ضرورت ہی لئے پھرتی ہے ہم کو در بدر ورنہ
ہم ان میں سے نہیں، جو جستجوئے زر میں رہتے ہیں
اقبال ساجد
51
ضامن ہے عافیت کی سلامت روی کی چال
کہتا ہے کون حشر اٹھائے ہوئے چلو
ماہر القادری
52
ضمیر اس کا اگر ہو مطمئن اور دل منور ہو
تو پھر کانٹوں میں بھی انسان کو آرام ملتا ہے
53
ضعیف و ناتواں سمجھا تھا جن کو اہلِ نخوت نے
جہاں پر چھا گئے وہ سرورِ دنیا و دیں ہوکر
کیفی پاکستانی
54
ضعیفوں دردمندوں کا تو حامی اور والی ہے
محافظ ہرکس و ناکس کا تو ہے، پاسباں تو ہے
ولی بستوی
55
ضیا جو میرے نبی ﷺ کے رو میں
نہ شمس میں ہے، نہ وہ قمر میں
نوؔرمحمد ابن بشیر
56
ضبط فغاں گو کہ اثر تھا کیا
حوصلہ کیا کیا نہ کیا کیا کیا
مومن خان مومن
57
ضد ہے گر ہے تو ہو سبھی کے ساتھ
یا نہ ملنے کی ضد مجھی سے ہے
58
ضمیر لالہ مہء لعل سے ہوا لبریز
اشارہ پاتے ہی صوفی نے توڑ دی پرہیز
علامہ اقبال
59
ضمیر صدگ میں کرن کا مقام
انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے
عبد الحمید عدم
60
ضد کی ہے اور مگر خوبری نہیں
بھولے سے اس نے سیکڑوں وعدے وفا کئے
غالب
61
ضبط کرکے ہنسی کو بھول گیا
میں تو اس زخم ہی کو بھول گیا
جون ایلیا
62
ضیا وہ زندگی کیا زندگی ہے
جسے خود موت بھی ٹھکرا گی ہو
ضیا جالندھری
63
ضب کیجئے تو دل ہے انگارا
اور اگر روئیے تو پانی ہے
فراق گورکھپوری
64
ضبط کمبخت نے یاں آکے گلا گھونٹا ہے
کہ اسے حال سناؤں تو سنا بھی نہ سکوں
امیر بینائی
65
ضرورت کیا کسی کو اس طرف ہو کر گزرنے کی
الگ اے یبکسی بستی سے ہے کوسوں مزار اپنا
شاد عظیم آبادی
66
ضد سے وہ پھر رقیب کے گھر میں چلا گیا
اے رشک میری جان گئی تیرا کیا گیا
مومن خان مومن
67
ضعف کا حکم ہے ہونٹ نہ ہلنے پائیں
دل یہ کہتا ہے کہ نالے میں اثر پیدا کر
بیخود دہلوی
68
ضبط بھی صبر بھی امکان میں سب کچھ ہے مگر
پہلے کم بخت مرا دل تو مرا دل ہو جائے
احسان دانش
69
ضبط کی کوششیں بھی جاری ہیں
درد بھی کر رہا ہے اپنا کام
فانی بدایونی
70
ضد پہ عشق اگر آجائے
پانی چھڑکے آگ لگائیے
جگر مراد آبادی
71
ضبط محبت شرط محبت
جی ہے کہ ظالم امڈا آئے
جگر مراد آبادی
72
ضبط سے ناآشنا ہم صبر سے بیگانہ ہم
کیوں کسی سے مانگتے جائیں چراغ خانہ ہم
سیماب اکبر آبادی
73
ضد ہے انھیں پورا مرا ارماں نہ کریں گے
منہ سے جو نہیں نکلی ہے اب ہاں نہ کریں گے
74
ضد ہی ضد شیخ و برہمن کی تھی
ورنہ دونوں کا مطلب ایک تھا
حفیظ جونپوری
75
ضعف کی یہ ہمتیں ہیں ناتوانی کا یہ زور
ٹکڑےٹکڑے کر دیا دامن مری فریاد کا
حفیظ جالندھیری
76
ضد ہر اک بات پر نہیں اچھی
دوست کی دوست مان لیتے ہیں
داغ دہلوی
77
ضروری چیزہے اک تجربہ بھی زندگانی میں
تجھے یہ ڈگریاں بوڑھون کا ہم سن کر نہیں سکتیں
اکبر الہ آبادی
78
ضبط دیکھو ادھر نگاہ نہ کی
مر گئے مرتے مرتے آہ نہ کی
امیر مینائی
79
ضیا ان ساعتوں میں عمر گزری
کھلی آنکھ سے جو اوجھل رہی ہیں
ضیا جالندھری
80
ضبط غم بے سبب نہیں جذبی
خلش دل بڑھا رہا ہوں
معین احسن جذنی
81
ضبط نالہ سے آج کام لیا
گرتی بجلی کو میں نے تھام لیا
جلیل مانگ پوری
82
ضد کی اور بات مگر خوبری نہیں
بھولے سے اس نے سیکڑوں وعدے وفا کئے
غالب
83
ضرور دل سے کوئی رابطہ ہے آنکھوں کا
اسی لئے تو لہو چشم تر کا حصہ ہے
خوشبیر سنگھ شاد
84
ضعف سے گو ٹھوکریں کھاتے ہیں اُٹھتے بیٹھتے
پر ترے در تک پہنچ جاتے ہیں اُٹھتے بیٹھتے
(امیر مینائی )
85
ضمیرِ پاک و نگاہِ بلند و مستیء شوق
نہ مال و دولتِ قاروں، نہ فکرِ افلاطوں
علامہ اقبال
86
ضعف یاں تک کھنچا کہ صورت گر
رہ گئے ہاتھ میں قلم لے کر
(میر تقی میر )
87
ضرورت توڑ دیتی ہے غرور و بے نیازی
نہ ہوتی کوئی مجبوری تو ہر بندہ خدا ہوتا
88
ضرور اسکی توجہ کی رہبری ہو گی
نشے میں تھا تو میں اپنے ہی گھر گیا کیسے
89
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز
ظالم اب بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
90
ضرورت توڑ دیتی ہے غرور و بے نیازی
نہ ہوتی کوئی مجبوری تو ہر بندہ خدا ہوتا
91
ضرورت توڑ دیتی ہے جو رشتہ خاص ہوتا ہے
غیر بھی اپنے بن جاتے ہیں جب کچھ پاس ہوتا ہے
92
ضمیرِ صدف میں کرن کا مقام
انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے
(عدم)
93
ضبط کرنا، غم چھپانا اب ضروری ہو گیا
روتے روتے مسکرانا اب ضروری ہو گیا
94
ضد پہ آ جائے کسی بات پہ بچہ جیسے
دل تیرے بعد کچھ اس طرح سنبھالا ہم نے
95
ضبط اتنا ہے کہ ہونٹوں کوہی سی رکھا ہے
تشنگی وہ کہ سمندر کو بھی پی سکتے ہیں
96
ضرور کچھ تو ہے اپنی حیات کا مقصد
سنا ہے چیز کوئی دہر میں فضول نہیں
97
ضبط کرنا نہیں مشکل تھا کسی لمحے بھی
مگر ہم نے سوچا کہ ترا وار نہ خالی جائے
98
ضروری کیوں ہے زخمِ نا رسائی
گزرتی کیوں نہیں تنہا کسی کی
99
ضبط غم کچھ تو حوصلہ دینا
انکے آگے بھی مسکرادینا
100
ضد میں دنیا کی بہرحال ملا
49
ضبط کی شہر پناہوں کی مرے مالک خیر
غمِ سیلاب اگر مجھ کو بہانے آئے
پروین شاکر
50
ضرورت ہی لئے پھرتی ہے ہم کو در بدر ورنہ
ہم ان میں سے نہیں، جو جستجوئے زر میں رہتے ہیں
اقبال ساجد
51
ضامن ہے عافیت کی سلامت روی کی چال
کہتا ہے کون حشر اٹھائے ہوئے چلو
ماہر القادری
52
ضمیر اس کا اگر ہو مطمئن اور دل منور ہو
تو پھر کانٹوں میں بھی انسان کو آرام ملتا ہے
53
ضعیف و ناتواں سمجھا تھا جن کو اہلِ نخوت نے
جہاں پر چھا گئے وہ سرورِ دنیا و دیں ہوکر
کیفی پاکستانی
54
ضعیفوں دردمندوں کا تو حامی اور والی ہے
محافظ ہرکس و ناکس کا تو ہے، پاسباں تو ہے
ولی بستوی
55
ضیا جو میرے نبی ﷺ کے رو میں
نہ شمس میں ہے، نہ وہ قمر میں
نوؔرمحمد ابن بشیر
56
ضبط فغاں گو کہ اثر تھا کیا
حوصلہ کیا کیا نہ کیا کیا کیا
مومن خان مومن
57
ضد ہے گر ہے تو ہو سبھی کے ساتھ
یا نہ ملنے کی ضد مجھی سے ہے
58
ضمیر لالہ مہء لعل سے ہوا لبریز
اشارہ پاتے ہی صوفی نے توڑ دی پرہیز
علامہ اقبال
59
ضمیر صدگ میں کرن کا مقام
انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے
عبد الحمید عدم
60
ضد کی ہے اور مگر خوبری نہیں
بھولے سے اس نے سیکڑوں وعدے وفا کئے
غالب
61
ضبط کرکے ہنسی کو بھول گیا
میں تو اس زخم ہی کو بھول گیا
جون ایلیا
62
ضیا وہ زندگی کیا زندگی ہے
جسے خود موت بھی ٹھکرا گی ہو
ضیا جالندھری
63
ضب کیجئے تو دل ہے انگارا
اور اگر روئیے تو پانی ہے
فراق گورکھپوری
64
ضبط کمبخت نے یاں آکے گلا گھونٹا ہے
کہ اسے حال سناؤں تو سنا بھی نہ سکوں
امیر بینائی
65
ضرورت کیا کسی کو اس طرف ہو کر گزرنے کی
الگ اے یبکسی بستی سے ہے کوسوں مزار اپنا
شاد عظیم آبادی
66
ضد سے وہ پھر رقیب کے گھر میں چلا گیا
اے رشک میری جان گئی تیرا کیا گیا
مومن خان مومن
67
ضعف کا حکم ہے ہونٹ نہ ہلنے پائیں
دل یہ کہتا ہے کہ نالے میں اثر پیدا کر
بیخود دہلوی
68
ضبط بھی صبر بھی امکان میں سب کچھ ہے مگر
پہلے کم بخت مرا دل تو مرا دل ہو جائے
احسان دانش
69
ضبط کی کوششیں بھی جاری ہیں
درد بھی کر رہا ہے اپنا کام
فانی بدایونی
70
ضد پہ عشق اگر آجائے
پانی چھڑکے آگ لگائیے
جگر مراد آبادی
71
ضبط محبت شرط محبت
جی ہے کہ ظالم امڈا آئے
جگر مراد آبادی
72
ضبط سے ناآشنا ہم صبر سے بیگانہ ہم
کیوں کسی سے مانگتے جائیں چراغ خانہ ہم
سیماب اکبر آبادی
73
ضد ہے انھیں پورا مرا ارماں نہ کریں گے
منہ سے جو نہیں نکلی ہے اب ہاں نہ کریں گے
74
ضد ہی ضد شیخ و برہمن کی تھی
ورنہ دونوں کا مطلب ایک تھا
حفیظ جونپوری
75
ضعف کی یہ ہمتیں ہیں ناتوانی کا یہ زور
ٹکڑےٹکڑے کر دیا دامن مری فریاد کا
حفیظ جالندھیری
76
ضد ہر اک بات پر نہیں اچھی
دوست کی دوست مان لیتے ہیں
داغ دہلوی
77
ضروری چیزہے اک تجربہ بھی زندگانی میں
تجھے یہ ڈگریاں بوڑھون کا ہم سن کر نہیں سکتیں
اکبر الہ آبادی
78
ضبط دیکھو ادھر نگاہ نہ کی
مر گئے مرتے مرتے آہ نہ کی
امیر مینائی
79
ضیا ان ساعتوں میں عمر گزری
کھلی آنکھ سے جو اوجھل رہی ہیں
ضیا جالندھری
80
ضبط غم بے سبب نہیں جذبی
خلش دل بڑھا رہا ہوں
معین احسن جذنی
81
ضبط نالہ سے آج کام لیا
گرتی بجلی کو میں نے تھام لیا
جلیل مانگ پوری
82
ضد کی اور بات مگر خوبری نہیں
بھولے سے اس نے سیکڑوں وعدے وفا کئے
غالب
83
ضرور دل سے کوئی رابطہ ہے آنکھوں کا
اسی لئے تو لہو چشم تر کا حصہ ہے
خوشبیر سنگھ شاد
84
ضعف سے گو ٹھوکریں کھاتے ہیں اُٹھتے بیٹھتے
پر ترے در تک پہنچ جاتے ہیں اُٹھتے بیٹھتے
(امیر مینائی )
85
ضمیرِ پاک و نگاہِ بلند و مستیء شوق
نہ مال و دولتِ قاروں، نہ فکرِ افلاطوں
علامہ اقبال
86
ضعف یاں تک کھنچا کہ صورت گر
رہ گئے ہاتھ میں قلم لے کر
(میر تقی میر )
87
ضرورت توڑ دیتی ہے غرور و بے نیازی
نہ ہوتی کوئی مجبوری تو ہر بندہ خدا ہوتا
88
ضرور اسکی توجہ کی رہبری ہو گی
نشے میں تھا تو میں اپنے ہی گھر گیا کیسے
89
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز
ظالم اب بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
90
ضرورت توڑ دیتی ہے غرور و بے نیازی
نہ ہوتی کوئی مجبوری تو ہر بندہ خدا ہوتا
91
ضرورت توڑ دیتی ہے جو رشتہ خاص ہوتا ہے
غیر بھی اپنے بن جاتے ہیں جب کچھ پاس ہوتا ہے
92
ضمیرِ صدف میں کرن کا مقام
انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے
(عدم)
93
ضبط کرنا، غم چھپانا اب ضروری ہو گیا
روتے روتے مسکرانا اب ضروری ہو گیا
94
ضد پہ آ جائے کسی بات پہ بچہ جیسے
دل تیرے بعد کچھ اس طرح سنبھالا ہم نے
95
ضبط اتنا ہے کہ ہونٹوں کوہی سی رکھا ہے
تشنگی وہ کہ سمندر کو بھی پی سکتے ہیں
96
ضرور کچھ تو ہے اپنی حیات کا مقصد
سنا ہے چیز کوئی دہر میں فضول نہیں
97
ضبط کرنا نہیں مشکل تھا کسی لمحے بھی
مگر ہم نے سوچا کہ ترا وار نہ خالی جائے
98
ضروری کیوں ہے زخمِ نا رسائی
گزرتی کیوں نہیں تنہا کسی کی
99
ضبط غم کچھ تو حوصلہ دینا
انکے آگے بھی مسکرادینا
100
ضد میں دنیا کی بہرحال ملا
کرتے تھے
ورنہ ہم دونوں میں ایسی کوئی الفت بھی نہ تھی
101
ضبط غم ہاں وہی اشکوں کا تلام اک بار
اب تو سوکھا ہوا دریا نہیں دیکھا جاتا
شکیل بدایونی
102
ضائع نہیں ہوتی کبھی تدبیر کسی کی
میری سی خدایا نہ ہو تقدیر کسی کی
نظام رامپوری
103
ضعف سے کیا کہیں کہاں ہیں ہم
اپنی نظروں سے خود نہاں ہیں ہم
میر بہادر علی، وحشت
ختم شد
..............................
ورنہ ہم دونوں میں ایسی کوئی الفت بھی نہ تھی
101
ضبط غم ہاں وہی اشکوں کا تلام اک بار
اب تو سوکھا ہوا دریا نہیں دیکھا جاتا
شکیل بدایونی
102
ضائع نہیں ہوتی کبھی تدبیر کسی کی
میری سی خدایا نہ ہو تقدیر کسی کی
نظام رامپوری
103
ضعف سے کیا کہیں کہاں ہیں ہم
اپنی نظروں سے خود نہاں ہیں ہم
میر بہادر علی، وحشت
ختم شد
..............................
حرف "ط " سے اشعار
ترتیب دادہ : نور محمد ابن بشیر ۔ ممبرا
۱۶ذی الحجہ ۱۴۳۷ ھ بمطابق ۱۹ ستمبر ۲۰۱۶
1
طعنہ دیتے ہیں مجھ کو جینے کا
زندگی میری خطا ہو جیسے
2
طعنہ زن تھا ہر کوئی ہم پر دلِ ناداں سمیت
ہم نے چھوڑا شہرِ رسوائی درِ جاناں سمیت
3
طور پر گئے تھے ہم آپ کو دھونڈنے مگر
کثرتِ احتیاط سے کام خراب ہو گیا
4
طلب زاروں پہ کیا بیتی،صنم خانوں پہ کیا بیتی
دلِ زنداں تیرے مرحوم ارمانوں پہ کیا بیتی؟
5
طعنہ زن کیوں ہے میری بے سروسامانی پر
اک نظر ڈال ذرا شہر کی ویرانی پر
6
طعنِ اغیار سنیں آپ خموشی سے شکیب
خود پلٹ جاتی ہے ٹکرا کے صدا پتھر سے
7
طبیعت آدمی کی اس کی اصلی ذات ہوتی ہے
اسی سے جیت ہوتی ہے اسی سے مات ہوتی ہے
8
طرز نگاہ اس کی دل لے گئی سبھوں کے
کیا مومن و برہمن کیا گبر اور ترسا
میر تقی میر
9
طلب کو تو نہ ملے گا تو اور لوگ بہت
کسی طرف تو یہ طوفاں بھی موڑنا ہوگا
10
طوفاں کی طرح زور میں اٹھتا تو ہوں لیکن
لہروں کی طرح مجھ کو بکھرنا نہیں آتا
11
طیش میں آ کر گر میرا خط پھاڑ بھی دو
تمہارے قدم چومیں گے میری تحریر کے ٹکڑے
12
طوفاں کی طرح زور میں اٹھتا تو ہوں لیکن
لہروں کی طرح مجھ کو بکھرنا نہیں آتا
13
طوفان کر رہا ہے مرے عزم کا طواف
دنیا سمجھ رہی ہے کہ کشتی بھنور میں ہے
14
طبع ہے مشتاقِ لذت ہائے حسرت کیا کروں! ۔
آرزو سے ، ہے شکستِ آرزو مطلب مجھے
غالب
15
طرز جینے کا سِکھاتی ہے مُجھے
تشنگی زہر پِلاتی ہے مُجھے
16
طوفانِ درد دل میں سُلا ہی چکے تھے قیسؔ
موسم نے پھر سے رونے کا سامان کر دیا
17
طلوع ہو گا ابھی کوئی آفتاب ضرور
دھواں اٹھا ہے سر شام پھر چراغوں سے
18
طاق تھے داستاں کہنے میں عبیدؔ
اب بجز دیدۂ تر، یاد نہیں
19
طویل صدیوں کی بے صدا منظروں سے پوچھو
میری تباہی کی داستاں پتھروں سے پوچھو
(میراج فیض آبادی)
20
طاقت نہیں ہے جی میں نَے اب جگر رہا ہے
پھر دل ستم رسیدہ اک ظلم کر رہا ہے
(میر)
21
طبیعت ان دنوں بیگانہ غم ہوتی جاتی ہے
میرے حصے کی گویا ہر خوشی کم ہوتی جاتی ہے
(جگر مراد آبادی)
22
طبیعت جب اپنی گھبراتی ہے سنسان راتوں میں
ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں
23
طوبہ جنت سے اس کو کام کیا ہے حورش
جو کہ ہیں آسودہ سائے میں تری دیوار کے
بہادر شاہ ظفر
24
طوف حرم میں یاسر کوئے بتاں رہے
اک برق اضطراب رہے ہم جہاں رہے
اصغر گونڈوی
25
طوق بند اتار کے پھنکا زمیں سے دور
دینا کے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا
نعمان شوق
26
طلبِ درد میں دل حد سے گذرتا کب تھا
تم نے پوچھا تھا کہ اور،اس نے کہا اور سہی
صدیاں کہتی ہیں کہ بس دیر ہے اب قرنوں کی
اس قدر رنج سا ہے تو ذرا اور سہی۔
27
طولِ غمِ حیات سے نہ گھبرا اے جگرؔ
ایسی بھی کوئی رات ہے جس کی سحر نہ ہو
(جگر مراد آبادی)
28
طبع خوددار پہ اک طرفہ ستم ہے محسن
اُن کا اندازِ کرم ، غیر کے احساس کے ساتھ
29
طلوع مہر درخشاں ابھی کہاں یارو
سیاہیوں کے افق کو لہو لہو تو کرو
شکیب جلالی
30
طلسم راز شب ماہ میں گزر جائے
اب اتنی رات گئے کون اپنے گھر جائے
31
طعن احباب سنے سرزنش خلق سہی
ہم نے کیا کیا تری خاطر سے گوارا نہ کیا
حسرت موہانی
32
طاری ہوا ہے لمحہء موجود اس طرح
کچھ بھی نہ یاد آئے اگر یاد کچھ کروں
جون ایلیا
33
طلسم ہو شربا میں پتنگ اڑتی ہے
کسی عقب کی ہوا میں پتنگ اڑتی ہے
ظفر اقبال
34
طوفاں کا خوف ہے ابھی شاید کرشمہ کار
آتا ہے سامنے جو کنارا کبھی کبھی
عرش ملسیانی
35
طبع انساں کو دی سرشت وفا
خاک کو کیمیا کیا تونے
الطاف حسین حالی
36
طنز وطعنہ و تہمت سب ہنر ہیں ناصح کے
آپ سے کوئی پوچھے ہم نے کیا برائی کی
احمد فراز
37
طور پر راہ وفا میں بو دئیے کانٹے کلیم
عشق کی وسعت کو مسدود تقاضا کر دیا
احسان دانش
38
طاقت ضبط غم دل سے رخصت ہوتی جاتی ہے
ارماں نالے بن بن کر لب پر آتے جاتے ہیں
میلہ رام وفا
39
طلسم حرف و حکایت اسے بھی لے ڈوبا
زباں سے اس کی ہر اک بات افسانہ لگے
زبیر رضوی
40
طلسم خانہء میں ہے چار سو روشن
مری نگاہ کے طلمت کدے میں تو روشن
انشاء اللہ خاں
41
طلوع ساعت شب خون ہے اور میرا دل
کسی ستارہء بد کی نگاہ میں آیا
احمد جاوید
42
طاق و محراب کا رونا ہو کہ دیوار کا غم
بام و در پر جو گزرتی ہے مکیں جانتے ہیں
43
طلوع صبح ہے نظریں اٹھا کے دیکھ ذرا
شکست ظلمت شب مسکرا کے دیکھ ذرا
جانثار اختر
44
طفلی کی محبت کو جوانی میں نہ بھولو
انصاف کرو کیا سے ہوئے کیا مرے آگے
مادھو رام جوہر
45
طاری ہے اک سکوت ظفر خاک و خشت پر
جاری ہے بادلوں کا سفر میرے سامنے
ظفر اقبال
46
طلسم گنبد گردوں کو توڑ سکتے ہیں
زجاج کی یہ عمارت ہے سنگ خارہ نہیں
علامہ اقبال
47
طبیب عشق نے دیکھا مجھے تو فرمایا
ترا مرض ہے ہے فقط آرزو کی بےنیشی
علامہ اقبال
48
طاری ہو مجھ پہ کون سی حالت مجھے بتاؤ
میرا حساب نفع و ضرر کس کے پاس ہے
جون ا
ترتیب دادہ : نور محمد ابن بشیر ۔ ممبرا
۱۶ذی الحجہ ۱۴۳۷ ھ بمطابق ۱۹ ستمبر ۲۰۱۶
1
طعنہ دیتے ہیں مجھ کو جینے کا
زندگی میری خطا ہو جیسے
2
طعنہ زن تھا ہر کوئی ہم پر دلِ ناداں سمیت
ہم نے چھوڑا شہرِ رسوائی درِ جاناں سمیت
3
طور پر گئے تھے ہم آپ کو دھونڈنے مگر
کثرتِ احتیاط سے کام خراب ہو گیا
4
طلب زاروں پہ کیا بیتی،صنم خانوں پہ کیا بیتی
دلِ زنداں تیرے مرحوم ارمانوں پہ کیا بیتی؟
5
طعنہ زن کیوں ہے میری بے سروسامانی پر
اک نظر ڈال ذرا شہر کی ویرانی پر
6
طعنِ اغیار سنیں آپ خموشی سے شکیب
خود پلٹ جاتی ہے ٹکرا کے صدا پتھر سے
7
طبیعت آدمی کی اس کی اصلی ذات ہوتی ہے
اسی سے جیت ہوتی ہے اسی سے مات ہوتی ہے
8
طرز نگاہ اس کی دل لے گئی سبھوں کے
کیا مومن و برہمن کیا گبر اور ترسا
میر تقی میر
9
طلب کو تو نہ ملے گا تو اور لوگ بہت
کسی طرف تو یہ طوفاں بھی موڑنا ہوگا
10
طوفاں کی طرح زور میں اٹھتا تو ہوں لیکن
لہروں کی طرح مجھ کو بکھرنا نہیں آتا
11
طیش میں آ کر گر میرا خط پھاڑ بھی دو
تمہارے قدم چومیں گے میری تحریر کے ٹکڑے
12
طوفاں کی طرح زور میں اٹھتا تو ہوں لیکن
لہروں کی طرح مجھ کو بکھرنا نہیں آتا
13
طوفان کر رہا ہے مرے عزم کا طواف
دنیا سمجھ رہی ہے کہ کشتی بھنور میں ہے
14
طبع ہے مشتاقِ لذت ہائے حسرت کیا کروں! ۔
آرزو سے ، ہے شکستِ آرزو مطلب مجھے
غالب
15
طرز جینے کا سِکھاتی ہے مُجھے
تشنگی زہر پِلاتی ہے مُجھے
16
طوفانِ درد دل میں سُلا ہی چکے تھے قیسؔ
موسم نے پھر سے رونے کا سامان کر دیا
17
طلوع ہو گا ابھی کوئی آفتاب ضرور
دھواں اٹھا ہے سر شام پھر چراغوں سے
18
طاق تھے داستاں کہنے میں عبیدؔ
اب بجز دیدۂ تر، یاد نہیں
19
طویل صدیوں کی بے صدا منظروں سے پوچھو
میری تباہی کی داستاں پتھروں سے پوچھو
(میراج فیض آبادی)
20
طاقت نہیں ہے جی میں نَے اب جگر رہا ہے
پھر دل ستم رسیدہ اک ظلم کر رہا ہے
(میر)
21
طبیعت ان دنوں بیگانہ غم ہوتی جاتی ہے
میرے حصے کی گویا ہر خوشی کم ہوتی جاتی ہے
(جگر مراد آبادی)
22
طبیعت جب اپنی گھبراتی ہے سنسان راتوں میں
ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں
23
طوبہ جنت سے اس کو کام کیا ہے حورش
جو کہ ہیں آسودہ سائے میں تری دیوار کے
بہادر شاہ ظفر
24
طوف حرم میں یاسر کوئے بتاں رہے
اک برق اضطراب رہے ہم جہاں رہے
اصغر گونڈوی
25
طوق بند اتار کے پھنکا زمیں سے دور
دینا کے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا
نعمان شوق
26
طلبِ درد میں دل حد سے گذرتا کب تھا
تم نے پوچھا تھا کہ اور،اس نے کہا اور سہی
صدیاں کہتی ہیں کہ بس دیر ہے اب قرنوں کی
اس قدر رنج سا ہے تو ذرا اور سہی۔
27
طولِ غمِ حیات سے نہ گھبرا اے جگرؔ
ایسی بھی کوئی رات ہے جس کی سحر نہ ہو
(جگر مراد آبادی)
28
طبع خوددار پہ اک طرفہ ستم ہے محسن
اُن کا اندازِ کرم ، غیر کے احساس کے ساتھ
29
طلوع مہر درخشاں ابھی کہاں یارو
سیاہیوں کے افق کو لہو لہو تو کرو
شکیب جلالی
30
طلسم راز شب ماہ میں گزر جائے
اب اتنی رات گئے کون اپنے گھر جائے
31
طعن احباب سنے سرزنش خلق سہی
ہم نے کیا کیا تری خاطر سے گوارا نہ کیا
حسرت موہانی
32
طاری ہوا ہے لمحہء موجود اس طرح
کچھ بھی نہ یاد آئے اگر یاد کچھ کروں
جون ایلیا
33
طلسم ہو شربا میں پتنگ اڑتی ہے
کسی عقب کی ہوا میں پتنگ اڑتی ہے
ظفر اقبال
34
طوفاں کا خوف ہے ابھی شاید کرشمہ کار
آتا ہے سامنے جو کنارا کبھی کبھی
عرش ملسیانی
35
طبع انساں کو دی سرشت وفا
خاک کو کیمیا کیا تونے
الطاف حسین حالی
36
طنز وطعنہ و تہمت سب ہنر ہیں ناصح کے
آپ سے کوئی پوچھے ہم نے کیا برائی کی
احمد فراز
37
طور پر راہ وفا میں بو دئیے کانٹے کلیم
عشق کی وسعت کو مسدود تقاضا کر دیا
احسان دانش
38
طاقت ضبط غم دل سے رخصت ہوتی جاتی ہے
ارماں نالے بن بن کر لب پر آتے جاتے ہیں
میلہ رام وفا
39
طلسم حرف و حکایت اسے بھی لے ڈوبا
زباں سے اس کی ہر اک بات افسانہ لگے
زبیر رضوی
40
طلسم خانہء میں ہے چار سو روشن
مری نگاہ کے طلمت کدے میں تو روشن
انشاء اللہ خاں
41
طلوع ساعت شب خون ہے اور میرا دل
کسی ستارہء بد کی نگاہ میں آیا
احمد جاوید
42
طاق و محراب کا رونا ہو کہ دیوار کا غم
بام و در پر جو گزرتی ہے مکیں جانتے ہیں
43
طلوع صبح ہے نظریں اٹھا کے دیکھ ذرا
شکست ظلمت شب مسکرا کے دیکھ ذرا
جانثار اختر
44
طفلی کی محبت کو جوانی میں نہ بھولو
انصاف کرو کیا سے ہوئے کیا مرے آگے
مادھو رام جوہر
45
طاری ہے اک سکوت ظفر خاک و خشت پر
جاری ہے بادلوں کا سفر میرے سامنے
ظفر اقبال
46
طلسم گنبد گردوں کو توڑ سکتے ہیں
زجاج کی یہ عمارت ہے سنگ خارہ نہیں
علامہ اقبال
47
طبیب عشق نے دیکھا مجھے تو فرمایا
ترا مرض ہے ہے فقط آرزو کی بےنیشی
علامہ اقبال
48
طاری ہو مجھ پہ کون سی حالت مجھے بتاؤ
میرا حساب نفع و ضرر کس کے پاس ہے
جون ا
یلیا
49
طوفان انقلاب سے مایوسیوں کے بعد
کشتی پکارتی ہے کنارہ نہ چاہیئے
شاد عارفی
50
طاق سے مینا اتارا پاؤں میں لغزش ہوئی
کی نہ ساقی سے برابر آنکھ شرماتا رہا
51
طریق عشق میں مجھ کو کوئی کامل نہیں ملتا
گئے فرہاد و مجنوں اب کسی سے دل نہیں ملتا
شاد عظیم آبادی
52
طبع نازک کا لف جب تھا داغ
نازنینوں میں نازنینں بنتی
داغ دہلوی
53
طلسم خواب سے آنکھیں اگر آزاد ہو جائیں
تو زندہ رہنے کا سارا مزہ تبدیل ہو جائے
عبید صدیقی
54
طرح اس آب کی جو پیر نے سے ہو درہم
ہوئے ہیں میرے تشتش کے آشنا باعث
قائم چاند پوری
55
طاعت میں تا رہے نہ مے و انگبیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو
غالب
56
طبیبو چارہ گرو تم سے جو ہوا سو ہوا
ہمارے دم پہ بھروسا رکھو ہوا سو ہوا
پریم کیمار نظر
57
طور پر چھیڑا تھا جس نے آپ کو
وہ میر ی دیوانگی تھی ، میں نہ تھا
عبد الحمید عدم
58
طبیب عشق کی دکاں میں ڈھونڈتے پھرتے
یہ درد مند محبت تری دوا کے لئے
بہادر شاہ ظفر
59
طرب کی بزم میں کم کم فسردگی اے شاذ
کہیں مزاج کی افتاد ہی نہ بن جائے
شاذ تمکنت
60
طے ہو چکے سب آبلہ پائی کے مرحلے
اب یہ زمیں گلابوں سے ڈھک جانا چاہیئے
عرفان صدیقی
61
طریقے ظلم کے صیاد نے سارے بدل ڈالے
جو طائر اُڑ نہیں سکتا اسے آزاد کرتا ہے
(تابش دہلوی)
62
طواف منزل جاناں ہمیں بھی کرنا ہے
فراز تم بھی اگر تھوڑی دور ساتھ چلو
فراز
63
طلوع صبح پہ ہوتی ہے اور بھی نمناک
وہ آنکھ جس کی ستاروں سے دوستی ہوجائے
قابل اجمیری
64
طلب در لب دونوں قیامت
یہ آنکھیں عمر بھر جل تھل رہی ہیں
ضیا جالندھری
65
طوفان نوح بھی ہو تو مل جائے خاک میں
اللہ رے غبار ترا پر غبار دل
داغ دہلوی
66
طرز سخن کہے وہ مسلم ہے شیفتہ
دعوے زباں سے نہ کئے میں نے یا کئے
مصطفی خان
67
طول شب وصال ہو مثل شب فراق
نکلے نہ آفتاب الہی سحر نہ ہو
امیر مینائی
68
طناب خیمہء گل تھام ناصر
کوئی آندھی افق سے آرہی ہے
ناصر کاظمی
69
طاق سے مینا اتار آئی بہار
طاق پر رکھ شیخ استغفار کو
مبار ک عظیم آبادی
70
طرز مومن میں مرحبا حسرت
تیری رنگیں نگاریاں نہ گئیں
حسرت موہانی
71
طلب کا حوصلہ ہوتا تو اک دن
خطاب اس بت سے بیباکانہ نہ کرتے
حسرت موہانی
72
: طنزا وہ دیکھتے ہیں مگر دیکھتے تو ہیں
یہ کام تو کیا دلِ ناکردہ کار نے
جگر مرادآبادی
73
: طرفِ عشق سے کچھ اہلِ ہوس نکلے تھے
سِپر انداز ہیں سب، بے سِپراں آئیں کہیں
جون ایلیا
74
طاری ہو مجھ پہ کون سی حالت مجھے بتاؤ
میرا حسابِ نفع و ضرر کس کے پاس ہے
جون ایلیا
75
طے ہوتا ہے وعدۂ محبت
دونوں کی نگاہ درمیاں ہے
قمر جلال آبادی
76
طلب میری بہت کچھ ہے مگر کیا
کرم تیرا ہے اک دریا عطا کا
حسرت موہانی
77
طائر کے لئے دن رات کا ڈر
دہلیز پہ رزق اور طاق میں گھر
محشر بدایونی
78
طاؤس پری جلوہ کو ٹھکرا کے چلے ہے
انداز خرام بت طناز تو دیکھو
مصحفی غلام ہمدانی
79
طوفان کی تو آواز تو آئی نہیں لیکن
لگتا ہے سفینے سے کہیں ڈوپ رہے ہیں
جاں نثار اختر
80
طرف داری نہ کر انصاف کر اے داور محشر
سزا دے ان بتوں کو ورنہ فریاد کرتے ہیں
حفیظ جالندھری
81
طوفان کوئے سخن ختم ہی نہیں ہوتا
کوئی نہیں ہے تو ہم دیکھنے میں آتے ہیں
سلیم کوثر
82
طوبائے بہشتی ہے تمہارا قدر عنا
ہم کیونکر کہیں سروارم کہہ نہیں سکتے
بہادر شاہ ظفر
83
طلب کریں بھی تو کیا شئے طلب کریں اے شاد
ہمیں تو آپ نہیں اپنا مدعا معلوم
شاد عظیم آبادی
84
طوفاں میں ناؤ آئی تو کیا سمت کیا نشاں
کچھ دیر میں رہا نہ ہوا کا شمار بھی
زیب غوری
85
طبیب اس طرف خوددار بھی ہے
ادھر ناشک مزاج یار بھی ہے
جگر مراد آبادی
86
طالب ہوں میں اس ایک نگاہ دو اثر کا
جو ہوش میں لا کر مجھے دیوانہ بنا دے
سیماب اکبر آبادی
87
طرارے بھر رہا ہے وقت یارب
کہ میں ہی چلتے چلتے رک گیا ہوں
رسا چغتائی
88
نامرد اور مرد میں اتنا ہی فرق ہے
وہ نان کے لئے مرے یہ نام کے لئے
حید علی آتش
89
طبل و علم ہی پاس ہے اپنے نہ ملک و مال
ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا
حید علی آتش
90
طور کیا پوچھتے ہو کافر کا
شوخ ہے بانکہ ہے سپاہی ہے
آبرو شاہ مبارک
91
طویل ہونے لگی ہیں اسی لئے راتیں
کہ لوگ سنتے سناتے نہیں کہانی بھی
شہر یار
۹۲
طبیعت ہے ابھی طفلانہ میری
کھلونوں سے بہلتا جا رہا ہوں
انشاء اللہ خاں
93
طوفان کا منتظر کھڑا ہے
یہ عین سحر کو شب کا عالم
احمد ندیم قاسمی
94
طالب کو اپنے رکھتی ہے دنیا ذلیل و خوار
زر کی طمع سے چھانتے ہیں خاک نیاریے
حید علی آتش
95
طول شب فراق کا قصہ نہ پوچھئے
محشر تلک کہوں میں اگر مختصر کہوں
امیر مینائی
96
طاق میں رکھے دئے کو پیار سے روشن کیا
اس دئے کو پھر چراغ رہ گزر اس نے کیا
پروین شاکر
97
طوفاں بلا سے جو میں بچ کر گزر آیا
وہ پوچھ کے صحرا سے پتہ میرے گھر آیا
مظفر حنفی
98
طائر قبلہ نما بن کے کہا دل نے مجھے
کہ تڑپ کر یوں ہی مر جائے گا جا یاد رہے
شیخ ا
49
طوفان انقلاب سے مایوسیوں کے بعد
کشتی پکارتی ہے کنارہ نہ چاہیئے
شاد عارفی
50
طاق سے مینا اتارا پاؤں میں لغزش ہوئی
کی نہ ساقی سے برابر آنکھ شرماتا رہا
51
طریق عشق میں مجھ کو کوئی کامل نہیں ملتا
گئے فرہاد و مجنوں اب کسی سے دل نہیں ملتا
شاد عظیم آبادی
52
طبع نازک کا لف جب تھا داغ
نازنینوں میں نازنینں بنتی
داغ دہلوی
53
طلسم خواب سے آنکھیں اگر آزاد ہو جائیں
تو زندہ رہنے کا سارا مزہ تبدیل ہو جائے
عبید صدیقی
54
طرح اس آب کی جو پیر نے سے ہو درہم
ہوئے ہیں میرے تشتش کے آشنا باعث
قائم چاند پوری
55
طاعت میں تا رہے نہ مے و انگبیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو
غالب
56
طبیبو چارہ گرو تم سے جو ہوا سو ہوا
ہمارے دم پہ بھروسا رکھو ہوا سو ہوا
پریم کیمار نظر
57
طور پر چھیڑا تھا جس نے آپ کو
وہ میر ی دیوانگی تھی ، میں نہ تھا
عبد الحمید عدم
58
طبیب عشق کی دکاں میں ڈھونڈتے پھرتے
یہ درد مند محبت تری دوا کے لئے
بہادر شاہ ظفر
59
طرب کی بزم میں کم کم فسردگی اے شاذ
کہیں مزاج کی افتاد ہی نہ بن جائے
شاذ تمکنت
60
طے ہو چکے سب آبلہ پائی کے مرحلے
اب یہ زمیں گلابوں سے ڈھک جانا چاہیئے
عرفان صدیقی
61
طریقے ظلم کے صیاد نے سارے بدل ڈالے
جو طائر اُڑ نہیں سکتا اسے آزاد کرتا ہے
(تابش دہلوی)
62
طواف منزل جاناں ہمیں بھی کرنا ہے
فراز تم بھی اگر تھوڑی دور ساتھ چلو
فراز
63
طلوع صبح پہ ہوتی ہے اور بھی نمناک
وہ آنکھ جس کی ستاروں سے دوستی ہوجائے
قابل اجمیری
64
طلب در لب دونوں قیامت
یہ آنکھیں عمر بھر جل تھل رہی ہیں
ضیا جالندھری
65
طوفان نوح بھی ہو تو مل جائے خاک میں
اللہ رے غبار ترا پر غبار دل
داغ دہلوی
66
طرز سخن کہے وہ مسلم ہے شیفتہ
دعوے زباں سے نہ کئے میں نے یا کئے
مصطفی خان
67
طول شب وصال ہو مثل شب فراق
نکلے نہ آفتاب الہی سحر نہ ہو
امیر مینائی
68
طناب خیمہء گل تھام ناصر
کوئی آندھی افق سے آرہی ہے
ناصر کاظمی
69
طاق سے مینا اتار آئی بہار
طاق پر رکھ شیخ استغفار کو
مبار ک عظیم آبادی
70
طرز مومن میں مرحبا حسرت
تیری رنگیں نگاریاں نہ گئیں
حسرت موہانی
71
طلب کا حوصلہ ہوتا تو اک دن
خطاب اس بت سے بیباکانہ نہ کرتے
حسرت موہانی
72
: طنزا وہ دیکھتے ہیں مگر دیکھتے تو ہیں
یہ کام تو کیا دلِ ناکردہ کار نے
جگر مرادآبادی
73
: طرفِ عشق سے کچھ اہلِ ہوس نکلے تھے
سِپر انداز ہیں سب، بے سِپراں آئیں کہیں
جون ایلیا
74
طاری ہو مجھ پہ کون سی حالت مجھے بتاؤ
میرا حسابِ نفع و ضرر کس کے پاس ہے
جون ایلیا
75
طے ہوتا ہے وعدۂ محبت
دونوں کی نگاہ درمیاں ہے
قمر جلال آبادی
76
طلب میری بہت کچھ ہے مگر کیا
کرم تیرا ہے اک دریا عطا کا
حسرت موہانی
77
طائر کے لئے دن رات کا ڈر
دہلیز پہ رزق اور طاق میں گھر
محشر بدایونی
78
طاؤس پری جلوہ کو ٹھکرا کے چلے ہے
انداز خرام بت طناز تو دیکھو
مصحفی غلام ہمدانی
79
طوفان کی تو آواز تو آئی نہیں لیکن
لگتا ہے سفینے سے کہیں ڈوپ رہے ہیں
جاں نثار اختر
80
طرف داری نہ کر انصاف کر اے داور محشر
سزا دے ان بتوں کو ورنہ فریاد کرتے ہیں
حفیظ جالندھری
81
طوفان کوئے سخن ختم ہی نہیں ہوتا
کوئی نہیں ہے تو ہم دیکھنے میں آتے ہیں
سلیم کوثر
82
طوبائے بہشتی ہے تمہارا قدر عنا
ہم کیونکر کہیں سروارم کہہ نہیں سکتے
بہادر شاہ ظفر
83
طلب کریں بھی تو کیا شئے طلب کریں اے شاد
ہمیں تو آپ نہیں اپنا مدعا معلوم
شاد عظیم آبادی
84
طوفاں میں ناؤ آئی تو کیا سمت کیا نشاں
کچھ دیر میں رہا نہ ہوا کا شمار بھی
زیب غوری
85
طبیب اس طرف خوددار بھی ہے
ادھر ناشک مزاج یار بھی ہے
جگر مراد آبادی
86
طالب ہوں میں اس ایک نگاہ دو اثر کا
جو ہوش میں لا کر مجھے دیوانہ بنا دے
سیماب اکبر آبادی
87
طرارے بھر رہا ہے وقت یارب
کہ میں ہی چلتے چلتے رک گیا ہوں
رسا چغتائی
88
نامرد اور مرد میں اتنا ہی فرق ہے
وہ نان کے لئے مرے یہ نام کے لئے
حید علی آتش
89
طبل و علم ہی پاس ہے اپنے نہ ملک و مال
ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا
حید علی آتش
90
طور کیا پوچھتے ہو کافر کا
شوخ ہے بانکہ ہے سپاہی ہے
آبرو شاہ مبارک
91
طویل ہونے لگی ہیں اسی لئے راتیں
کہ لوگ سنتے سناتے نہیں کہانی بھی
شہر یار
۹۲
طبیعت ہے ابھی طفلانہ میری
کھلونوں سے بہلتا جا رہا ہوں
انشاء اللہ خاں
93
طوفان کا منتظر کھڑا ہے
یہ عین سحر کو شب کا عالم
احمد ندیم قاسمی
94
طالب کو اپنے رکھتی ہے دنیا ذلیل و خوار
زر کی طمع سے چھانتے ہیں خاک نیاریے
حید علی آتش
95
طول شب فراق کا قصہ نہ پوچھئے
محشر تلک کہوں میں اگر مختصر کہوں
امیر مینائی
96
طاق میں رکھے دئے کو پیار سے روشن کیا
اس دئے کو پھر چراغ رہ گزر اس نے کیا
پروین شاکر
97
طوفاں بلا سے جو میں بچ کر گزر آیا
وہ پوچھ کے صحرا سے پتہ میرے گھر آیا
مظفر حنفی
98
طائر قبلہ نما بن کے کہا دل نے مجھے
کہ تڑپ کر یوں ہی مر جائے گا جا یاد رہے
شیخ ا
براہیم ذوق
99
طلب اس کی ہے کہ جو سرحد امکاں میں نہیں
میری ہر راہ میں حائل ہے بیاباں اپنا
ضیا جالندھری
100
طریق سیدھا بتایا رسولِ اکرم نے
خُدا سے ہم کو ملایا رسول اکرم نے
نون میم – نوؔرمحمد ابن بشیر
ختم شد
99
طلب اس کی ہے کہ جو سرحد امکاں میں نہیں
میری ہر راہ میں حائل ہے بیاباں اپنا
ضیا جالندھری
100
طریق سیدھا بتایا رسولِ اکرم نے
خُدا سے ہم کو ملایا رسول اکرم نے
نون میم – نوؔرمحمد ابن بشیر
ختم شد
حرف ظ سے اشعار!!
ترتیب داده: نور محمد ابن بشیر ممبرا، عادل سعیدی دیوبندی
تاریخ: ۱۶ / ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۱۹ / ستمبر ۲۰۱۶ء ۔
........................................
1
ظلمت سے بے کراں تو اجالے بھی کم نہیں
ہر داغ دل کو آج فروزاں کریں گے ہم
قابل اجمیری
2
ظاہر میں تھے پرتپاک لمحے
موسم تھا وہ رشتے ٹوٹنے کا
مصور سبزواری
3
ظالم مرے گماں سے مجھے منفعل نہ چاہ
ہے ہے خدا نہ کردہ تجھے بے وفا کہوں
غالب
4
ظلمت و نور کو پیالوں میں سمو دیتی ہے
شام پڑتے ہی تری چشمِ غلافی ساقی
عزیز حامد مدنی
5
ظالم کو ٹک بھی رحم مرے حال پر نہیں
تاباں میں اس کے جور سہوں ہائے کب تلک
تاباں عبدالحئی
6
ظفر وہ بوسہ تو کیا دے گا، پر کوئی دشنام
جو تم کو سننا ہو، اس شوخ دلستاں سے سنو
بہادر شاہ ظفر
7
ظلمت سے مانوس ہیں آنکھیں، چاند ابھرا تو مند جائیں گی
بالوں کو الجھا رہنے دو، اک الجھاؤ، سو سلجھاؤ
احمد ندیم
8
ظفر وہ زاہد بےدرد کی ہو حق سے بہتر ہے
کرے گر رِند دردِ دل سے ہائے ہوئے مستانہ
بہادر شاہ ظفر
9
ظلمت ہی کے سائے میں سکوں ڈھونڈئیے مظہر
خیرات بہت مانگ چکے نورِ سحر سے
مظہر امام
10
ظفر اپنا کرشمہ گر دکھایا چشمِ ساقی نے
تماشے جامِ جم کے سب نظر ساغر میں آویں گے
بہادر شاہ ظفر
11
ظاہر ہے ملاقات ہے باطن میں جدائی
تم ملتے ہو، دل ہم سے تمہارا نہیں ملتا
بیخود دہلوی
12
ظہورِ جلوہ کو ہے ایک زندگی درکار
کوئی اجل کی طرح دیر آشنا نہ ملا
فانی بدایونی
13
ظلمت کے کاروبار میں اس کا بھی ایک دن
چہرہ غبار شب سے اٹے تو پتا چلے
شعیب نظام
14
ظفر زمیں زاد تھے، زمیں سے ہی کام رکھا
جو آسمانی تھے، آسمانوں میں رہ گئے ہیں
ظفر اقبال
15
ظفر آدمی اس کو نہ جانئے گا، وہ ہو کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکا
جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہے، جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہے
بہادر شاہ ظفر
16
ظفر اس پر اثر تو کوئی ہوتا ہے نہ ہوگا
تو پھر یہ روز کا بننا سنورنا کس لیے ہے
ظفر اقبال
17
ظالم جفا جو چاہے سو کر مجھ پہ تو ولے
پچھتاوے پھر تو آپ ہی ایسا نہ کر کہیں
میر درد
18
ظفر! اب کے سخن کی سر زمیں پر ہے یہ موسم
بیاں غائب ہے اور رنگِ بیاں پھیلا ہوا ہے
ظفر اقبال
19
ظفر! بدل کے ردیف اور تو غزل وہ سنا
کہ جس کا تجھ سے ہر اک شعر انتخاب ہوا
بہادر شاہ ظفر
20
ظلم سے گر ذبح بھی کردو مجھے پروا نہیں
لطف سے ڈرتا ہوں، یہ میری قضا ہوجائے گا
بیخود دہلوی
21
ظفر کی خاک میں ہے کس کی حسرتِ تعمیر
خیال و خواب میں کس نے یہ گھر بنایا تھا
ظفر اقبال
22
ظاہر سے خوب رویوں کا باطن خلاف تھا
شیریں لبوں کی طرح سے ان کی زباں نہ تھی
حیدر علی آتش
23
ظفر! کام لوں اب اشاروں سے کب تک
زباں توڑ کر بے زباں ہوگیا ہوں
ظفر اقبال
24
ظاہر ہے بے قراریِ پیہم سے حالِ دل
بے کار ہم کو دعوائے اخفائے عشق ہے
حسرت موہانی
25
ظفر! میں شہر میں آ تو گیا ہوں
مری خصلت بیابانی رہے گی
ظفر اقبال
26
ظلمت کدے میں میرے شبِ غم کا جوش ہے
اک شمع ہے دلیلِ سحر، سو خموش ہے
غالب
27
ظفر! کچھ اور ہی اب شعبدہ دکھلائے ورنہ
یہ دعوائے سخن دانی تو باطل ہونے والا ہے
ظفر اقبال
28
ظالم بتوں سے آنکھ لگائی نہ جائےگی
پتھر کی چوٹ دل سے اٹھائی نہ جائےگی
جلیل مانگ پوری
29
ظفر! مرے سامنے ٹھہرتا نہیں ہے کوئی
تو اپنے پیکر سے اپنا ثانی نکالتا ہوں
ظفر اقبال
30
ظلم کو دیکھ کے چپ رہتے ہیں
ہم کو جینے سے حیا آتی ہے
عبید صدیقی
31
ظالم خبر تو لے کہیں قائم ہی یہ نہ ہو
نالان و مضطرب پسِ دیوار ہے کوئی
قائم چاندپوری
32
ظلمتوں سے نہ ڈر کہ رستے میں
روشنی ہے شراب خانے کی
عبدالحمید عدم
33
ظلم پیشہ، ظلم شیوہ، ظلم ران و ظلم دوست
دشمنِ دل، دشمنِ جاں، دشمنِ تن آپ ہیں
بہادر شاہ ظفر
34
ظلمات انتشار میں آنکھیں کھلی رکھو
تم جس کو ڈھونڈتے ہو وہ دنیا ہے سامنے
سلطان اختر
35
ظفر! شعور تو آیا نہیں ذرا بھی ہمیں
بجائے اس کے مگر شاعری بہت آئی
ظفر اقبال
36
ظفر! جو دو جہاں میں گوہرِ مقصود تھا اپنا
جناب فخر دین کی وہ مددگاری سے ہاتھ آیا
بہادر شاہ ظفر
37
ظفر مرے خواب وقت آخر بھی تازہ دم تھے
یہ لگ رہا تھا کہ میں جوانی میں جارہا تھا
ظفر اقبال
38
ظالم خدا کے واسطے بیٹھا تو رہ ذرا
ہاتھ اپنے کو نہ کر تو جدا میرے ہاتھ سے
مصحفی غلام ہمدانی
39
ظلم دیکھو قصرِ عشرت ہم بنائیں
اور ہمیں پر بند دروازہ رہے
محشر بدایونی
40
ظرف آئینہ کہاں اور ترا حسن کہاں
ہم ترے چہرے سے آئینہ سنوارا کرتے
عبیداللہ علیم
41
ظفر! ہماری محبت کا سلسلہ ہے عجیب
جہاں چھپا نہیں پائے، وہاں مگر گئے ہیں
ظفر اقبال
42
ظرف دیکھا یہ مئے عشق کے سرشاروں کا
بے خودی میں بھی تو بیخود نہ کھلا ایک سے ایک
بیخود دہلوی
43
ظاہر ہے کہ جاگے ہو تم رات کہیں رہ کر
آنکھوں میں نشے کی تو کچھ تھوڑی سی لالی ہے
مصحفی غلام ہمدانی
44
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشہ کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدہِ دل واہ کرے کوئی
45
ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں
ناؤ
ترتیب داده: نور محمد ابن بشیر ممبرا، عادل سعیدی دیوبندی
تاریخ: ۱۶ / ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۱۹ / ستمبر ۲۰۱۶ء ۔
........................................
1
ظلمت سے بے کراں تو اجالے بھی کم نہیں
ہر داغ دل کو آج فروزاں کریں گے ہم
قابل اجمیری
2
ظاہر میں تھے پرتپاک لمحے
موسم تھا وہ رشتے ٹوٹنے کا
مصور سبزواری
3
ظالم مرے گماں سے مجھے منفعل نہ چاہ
ہے ہے خدا نہ کردہ تجھے بے وفا کہوں
غالب
4
ظلمت و نور کو پیالوں میں سمو دیتی ہے
شام پڑتے ہی تری چشمِ غلافی ساقی
عزیز حامد مدنی
5
ظالم کو ٹک بھی رحم مرے حال پر نہیں
تاباں میں اس کے جور سہوں ہائے کب تلک
تاباں عبدالحئی
6
ظفر وہ بوسہ تو کیا دے گا، پر کوئی دشنام
جو تم کو سننا ہو، اس شوخ دلستاں سے سنو
بہادر شاہ ظفر
7
ظلمت سے مانوس ہیں آنکھیں، چاند ابھرا تو مند جائیں گی
بالوں کو الجھا رہنے دو، اک الجھاؤ، سو سلجھاؤ
احمد ندیم
8
ظفر وہ زاہد بےدرد کی ہو حق سے بہتر ہے
کرے گر رِند دردِ دل سے ہائے ہوئے مستانہ
بہادر شاہ ظفر
9
ظلمت ہی کے سائے میں سکوں ڈھونڈئیے مظہر
خیرات بہت مانگ چکے نورِ سحر سے
مظہر امام
10
ظفر اپنا کرشمہ گر دکھایا چشمِ ساقی نے
تماشے جامِ جم کے سب نظر ساغر میں آویں گے
بہادر شاہ ظفر
11
ظاہر ہے ملاقات ہے باطن میں جدائی
تم ملتے ہو، دل ہم سے تمہارا نہیں ملتا
بیخود دہلوی
12
ظہورِ جلوہ کو ہے ایک زندگی درکار
کوئی اجل کی طرح دیر آشنا نہ ملا
فانی بدایونی
13
ظلمت کے کاروبار میں اس کا بھی ایک دن
چہرہ غبار شب سے اٹے تو پتا چلے
شعیب نظام
14
ظفر زمیں زاد تھے، زمیں سے ہی کام رکھا
جو آسمانی تھے، آسمانوں میں رہ گئے ہیں
ظفر اقبال
15
ظفر آدمی اس کو نہ جانئے گا، وہ ہو کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکا
جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہے، جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہے
بہادر شاہ ظفر
16
ظفر اس پر اثر تو کوئی ہوتا ہے نہ ہوگا
تو پھر یہ روز کا بننا سنورنا کس لیے ہے
ظفر اقبال
17
ظالم جفا جو چاہے سو کر مجھ پہ تو ولے
پچھتاوے پھر تو آپ ہی ایسا نہ کر کہیں
میر درد
18
ظفر! اب کے سخن کی سر زمیں پر ہے یہ موسم
بیاں غائب ہے اور رنگِ بیاں پھیلا ہوا ہے
ظفر اقبال
19
ظفر! بدل کے ردیف اور تو غزل وہ سنا
کہ جس کا تجھ سے ہر اک شعر انتخاب ہوا
بہادر شاہ ظفر
20
ظلم سے گر ذبح بھی کردو مجھے پروا نہیں
لطف سے ڈرتا ہوں، یہ میری قضا ہوجائے گا
بیخود دہلوی
21
ظفر کی خاک میں ہے کس کی حسرتِ تعمیر
خیال و خواب میں کس نے یہ گھر بنایا تھا
ظفر اقبال
22
ظاہر سے خوب رویوں کا باطن خلاف تھا
شیریں لبوں کی طرح سے ان کی زباں نہ تھی
حیدر علی آتش
23
ظفر! کام لوں اب اشاروں سے کب تک
زباں توڑ کر بے زباں ہوگیا ہوں
ظفر اقبال
24
ظاہر ہے بے قراریِ پیہم سے حالِ دل
بے کار ہم کو دعوائے اخفائے عشق ہے
حسرت موہانی
25
ظفر! میں شہر میں آ تو گیا ہوں
مری خصلت بیابانی رہے گی
ظفر اقبال
26
ظلمت کدے میں میرے شبِ غم کا جوش ہے
اک شمع ہے دلیلِ سحر، سو خموش ہے
غالب
27
ظفر! کچھ اور ہی اب شعبدہ دکھلائے ورنہ
یہ دعوائے سخن دانی تو باطل ہونے والا ہے
ظفر اقبال
28
ظالم بتوں سے آنکھ لگائی نہ جائےگی
پتھر کی چوٹ دل سے اٹھائی نہ جائےگی
جلیل مانگ پوری
29
ظفر! مرے سامنے ٹھہرتا نہیں ہے کوئی
تو اپنے پیکر سے اپنا ثانی نکالتا ہوں
ظفر اقبال
30
ظلم کو دیکھ کے چپ رہتے ہیں
ہم کو جینے سے حیا آتی ہے
عبید صدیقی
31
ظالم خبر تو لے کہیں قائم ہی یہ نہ ہو
نالان و مضطرب پسِ دیوار ہے کوئی
قائم چاندپوری
32
ظلمتوں سے نہ ڈر کہ رستے میں
روشنی ہے شراب خانے کی
عبدالحمید عدم
33
ظلم پیشہ، ظلم شیوہ، ظلم ران و ظلم دوست
دشمنِ دل، دشمنِ جاں، دشمنِ تن آپ ہیں
بہادر شاہ ظفر
34
ظلمات انتشار میں آنکھیں کھلی رکھو
تم جس کو ڈھونڈتے ہو وہ دنیا ہے سامنے
سلطان اختر
35
ظفر! شعور تو آیا نہیں ذرا بھی ہمیں
بجائے اس کے مگر شاعری بہت آئی
ظفر اقبال
36
ظفر! جو دو جہاں میں گوہرِ مقصود تھا اپنا
جناب فخر دین کی وہ مددگاری سے ہاتھ آیا
بہادر شاہ ظفر
37
ظفر مرے خواب وقت آخر بھی تازہ دم تھے
یہ لگ رہا تھا کہ میں جوانی میں جارہا تھا
ظفر اقبال
38
ظالم خدا کے واسطے بیٹھا تو رہ ذرا
ہاتھ اپنے کو نہ کر تو جدا میرے ہاتھ سے
مصحفی غلام ہمدانی
39
ظلم دیکھو قصرِ عشرت ہم بنائیں
اور ہمیں پر بند دروازہ رہے
محشر بدایونی
40
ظرف آئینہ کہاں اور ترا حسن کہاں
ہم ترے چہرے سے آئینہ سنوارا کرتے
عبیداللہ علیم
41
ظفر! ہماری محبت کا سلسلہ ہے عجیب
جہاں چھپا نہیں پائے، وہاں مگر گئے ہیں
ظفر اقبال
42
ظرف دیکھا یہ مئے عشق کے سرشاروں کا
بے خودی میں بھی تو بیخود نہ کھلا ایک سے ایک
بیخود دہلوی
43
ظاہر ہے کہ جاگے ہو تم رات کہیں رہ کر
آنکھوں میں نشے کی تو کچھ تھوڑی سی لالی ہے
مصحفی غلام ہمدانی
44
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشہ کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدہِ دل واہ کرے کوئی
45
ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں
ناؤ
کاغذ کی کہیں چلتی نہیں
رنگیں سعادت یار خان
46
ظاہر کرے تٔو جو بھی مگر دل ملول ہے
مجھ سے کوئی بھی بات چھپانا فضول ہے
47
ظالم کے اعتبار میں لذت ہے کیا کروں
آنکھوں کو انتظار کی عدت ہے کیا کروں
48
ظالم تھا وہ اور ظلم کی عادت بھی بہت تھی
مجبور تھے ہم اس سے محبت بھی بہت تھی
(کلیم عاجز)
49
ظلمتِ شب میں اُجالوں کی تمنا نہ کرو
خواب دیکھا ہے تو اب خواب کو رسوا نہ کرو
(کامران نجمی)
50
ظلم رہے اور امن بھی ہو
کیا ممکن ہے تم ہی کہو
51
ظلم کے پاؤں سے جو پھول مسل جاتے ہیں
خار بن کے وہی پتھر پہ نکل آتے ہیں
52
ظاہر ہو جاتے ہیں فریب دلوں کے اکثر
محبت تو کرنا مگر اظہار محبت نہ کرنا
53
ظلمت کا دائرہ جسےکہتےہیں زندگی میں
دو چار دن تو اس میں بڑی روشنی رہی
54
ظلم کے اندھیروں سےتم نہ ہارنا منظر
جب چراغ بجھ جائے انگلیاں جلا دینا
55
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
ساحر لدھیانوی
56
ظلمت شکار ، ایسی کہ حدِ نگاہ تک
کرنوں کا ایک جال بچھاتی ہے روشنی
حزیں صدیقی
57
ظلم یہ ہے کہ یکتا تیری بیگانہ روی
لطف یہ ہے کہ میں اب تک تجھے اپنا سمجھوں
58
ظلمتوں کے مہیب جنگل میں
روشنی کے بھی ہیں شجر کچھ لوگ
حزیں صدیقی
59
ظاہر میں ہم فریفتہ حُسنِ بُتاں کے ہیں
پر کیا کہیں نگاہ میں جلوے کہاں کے ہیں؟
60
یارانِ رفتہ سے کبھی جاہی ملیں گے ہم
آخر تو پیچھے پیچھے اسی کارواں کے ہیں
(امیر مینائی)
61
ضبط کرنا کبھی ضبط میں وحشت کرنا
اتنا آسان تو نہیں تجھ سے مُحبت کرنا
62
ظاہر کرے ہے جنبشِ مژگاں سے مدعا
طفلانہ ہاتھ کا ہے اشارہ زبانِ اشک
غالب
63
ظالم میں کہہ رہا تھا کہ اس خوں سے درگزر
سودا کا قتل ہے یہ چھپایا نہ جائے گا
مرزا سودا
64
ظلمت انتشار میں آنکھیں کھلی رکھو
تم جس کو ڈھونڈتے ہو وہ دنیا ہے سامنے
65
ظالم میری اداسیِ رخ پہ نہ مسکرا
تجھ کو بھی اس مقام پہ آنا ہے ایک دن
66
ظرف لازم ہے آدمی کے لیے
خواہ صہبا پئے کہ اشک پئے
67
ظاہر و باطن اول وآخر زیب فروع زین اصول
باغ رسالت میں ہے تو ہی گل،غنچہ،جڑ،پتی شاخ
68
ظاہراً روشن تھے سب کے سب یہاں
اپنے باطن میں منور کون تھا
علیم صبا نویدی
69
ظفر اک بات پر دائم وہ ہووے کس طرح قائم
جو اپنی پھیرتا نیت کبھی یوں ہے، کبھی ووں ہے
بہادر شاہ ظفر
70
ظالم اٹھا تو پردۂ وہم و گمان و فکر
کیا سامنے وہ مرحلہ ہائے یقیں رہے
جگر مرادآبادی
71
ظلم کر ظلم اگر لطف و دریغ آتا ہو
تو تغافل میں کسی رنگ سے معذور نہیں
غالب
72
ظلم کا شوق بھی ہے، شرم بھی ہے، خوف بھی ہے
خواب میں چھپ کے وہ آتے ہیں ستانے ہم کو
بیخود دہلوی
73
ظفر فسانوں کہ داستانوں میں رہ گئے ہیں
ہم اپنے گزرے ہوئے زمانوں میں رہ گئے ہیں
ظفر اقبال
74
ظفر سے کہتا ہے مجنوں کہیں درد دل محزوں
جو غم سے فرصت اب اک دم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
بہادر شاہ ظفر
75
ظرفِ ویرانہ بقدرِ ہمتِ وحشت نہیں
لاؤ ہر ذرے میں پیدا وسعتِ صحرا کریں
فانی بدایونی
76
ظفر! یہ دن تو نتیجہ ہے رات کا یکسر
کچھ اور ڈھونڈھتا رہتا ہوں رات سے آگے
ظفر اقبال
77
ظلم دونوں نے کیا تھا، دونوں تھے اس میں شریک
ابتدا گر تو نے کی تو انتہا میں نے بھی کی
عبید صدیقی
78
ظاہر ہے طرزِ قید سے صیاد کی غرض
جو دانہ دام میں ہے، سو اشک کباب ہے
غالب
79
ظالم کا نہ شکوہ کر ظلموں کی نہ پروا کر
تو اپنی وفاؤں کی عزت پہ فدا ہوجا
فانی بدایونی
80
ظلماتِ شب ہجر کی آفات ہے اور تو
جو دم ہے غنیمت ہے، کہ پھر رات ہے اور تو
مصحفی غلام ہمدانی
81
ظفر! یہ وقت ہی بتلائے گا کہ آخر ہم
بگاڑتے ہیں زباں یا زباں بناتے ہیں
ظفر اقبال
82
ظالم تری نگہ نے کئے گھر کے گھر خراب
ہوگا کوئی مکاں کہ وہ آباد رہ گیا
میر محمدی بیدار
83
ظفر! میں ہوگیا کچھ اور، ورنہ اصل میں تو
برا ہونا تھا مجھ کو، یا بھلا ہونا تھا مجھ کو
ظفر اقبال
84
ظالم ادھر کی سدھ لے جوں شمع صبح گاہی
ایک آدھ دم کا عاشق مہمان ہورہا ہے
میر تقی میر
85
ظلمت و نور میں کچھ بھی نہ محبت کو ملا
آج تک ایک دھند لکے کا سماں ہے کہ جو تھا
فرق گورکھپوری
86
ظفر! بے خانماں اپنے کو خود ہی کرلیا تم نے
یہ کارِ خیر تو اہلِ زمانہ کرنے والے تھے
ظفر گورکھپوری
87
ظفر یہ باعث تشویش بھی ہے سب کےلئے
جو مطلب اور مری بات سے نکلتا ہے
ظفر اقبال
88
ظلمت مارے گی شب خون
روشنیوں کی لے لر آڑ
مظفر حنفی
89
ظالم نے کیا نکالی رفتار رفتہ رفتہ
اس چال پر چلے گی تلوار رفتہ رفتہ
داغ دہلوی
90
ظالم تو میری سادہ دلی پر تو رحم کر
روٹھا تھا تجھ سے آپ ہی اور آپ من گیا
قائم چاند پوری
91
ظفر اس کے تھے ہم تو، کب تلک اس سے الگ رہتے
ہوئے ہم ایک دن ہونا تھا آخر کار گم اس میں
ظفر گورکھپوری
92
ظاہر میں ہم انسان ہیں مٹی کے کھلونے
باطن میں مگر تند عناصر کا غضب ہیں
احمد ندیم قاسمی
93
ظفر ہم آپ کو گمراہ نہیں کہتے
یہی کہ ہیں بھی اگر راہ پر زیادہ نہیں
ظفر اقبال
94
ظاہر ہے کہ گھبرا کے نہ بھاگیں کے نک
رنگیں سعادت یار خان
46
ظاہر کرے تٔو جو بھی مگر دل ملول ہے
مجھ سے کوئی بھی بات چھپانا فضول ہے
47
ظالم کے اعتبار میں لذت ہے کیا کروں
آنکھوں کو انتظار کی عدت ہے کیا کروں
48
ظالم تھا وہ اور ظلم کی عادت بھی بہت تھی
مجبور تھے ہم اس سے محبت بھی بہت تھی
(کلیم عاجز)
49
ظلمتِ شب میں اُجالوں کی تمنا نہ کرو
خواب دیکھا ہے تو اب خواب کو رسوا نہ کرو
(کامران نجمی)
50
ظلم رہے اور امن بھی ہو
کیا ممکن ہے تم ہی کہو
51
ظلم کے پاؤں سے جو پھول مسل جاتے ہیں
خار بن کے وہی پتھر پہ نکل آتے ہیں
52
ظاہر ہو جاتے ہیں فریب دلوں کے اکثر
محبت تو کرنا مگر اظہار محبت نہ کرنا
53
ظلمت کا دائرہ جسےکہتےہیں زندگی میں
دو چار دن تو اس میں بڑی روشنی رہی
54
ظلم کے اندھیروں سےتم نہ ہارنا منظر
جب چراغ بجھ جائے انگلیاں جلا دینا
55
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
ساحر لدھیانوی
56
ظلمت شکار ، ایسی کہ حدِ نگاہ تک
کرنوں کا ایک جال بچھاتی ہے روشنی
حزیں صدیقی
57
ظلم یہ ہے کہ یکتا تیری بیگانہ روی
لطف یہ ہے کہ میں اب تک تجھے اپنا سمجھوں
58
ظلمتوں کے مہیب جنگل میں
روشنی کے بھی ہیں شجر کچھ لوگ
حزیں صدیقی
59
ظاہر میں ہم فریفتہ حُسنِ بُتاں کے ہیں
پر کیا کہیں نگاہ میں جلوے کہاں کے ہیں؟
60
یارانِ رفتہ سے کبھی جاہی ملیں گے ہم
آخر تو پیچھے پیچھے اسی کارواں کے ہیں
(امیر مینائی)
61
ضبط کرنا کبھی ضبط میں وحشت کرنا
اتنا آسان تو نہیں تجھ سے مُحبت کرنا
62
ظاہر کرے ہے جنبشِ مژگاں سے مدعا
طفلانہ ہاتھ کا ہے اشارہ زبانِ اشک
غالب
63
ظالم میں کہہ رہا تھا کہ اس خوں سے درگزر
سودا کا قتل ہے یہ چھپایا نہ جائے گا
مرزا سودا
64
ظلمت انتشار میں آنکھیں کھلی رکھو
تم جس کو ڈھونڈتے ہو وہ دنیا ہے سامنے
65
ظالم میری اداسیِ رخ پہ نہ مسکرا
تجھ کو بھی اس مقام پہ آنا ہے ایک دن
66
ظرف لازم ہے آدمی کے لیے
خواہ صہبا پئے کہ اشک پئے
67
ظاہر و باطن اول وآخر زیب فروع زین اصول
باغ رسالت میں ہے تو ہی گل،غنچہ،جڑ،پتی شاخ
68
ظاہراً روشن تھے سب کے سب یہاں
اپنے باطن میں منور کون تھا
علیم صبا نویدی
69
ظفر اک بات پر دائم وہ ہووے کس طرح قائم
جو اپنی پھیرتا نیت کبھی یوں ہے، کبھی ووں ہے
بہادر شاہ ظفر
70
ظالم اٹھا تو پردۂ وہم و گمان و فکر
کیا سامنے وہ مرحلہ ہائے یقیں رہے
جگر مرادآبادی
71
ظلم کر ظلم اگر لطف و دریغ آتا ہو
تو تغافل میں کسی رنگ سے معذور نہیں
غالب
72
ظلم کا شوق بھی ہے، شرم بھی ہے، خوف بھی ہے
خواب میں چھپ کے وہ آتے ہیں ستانے ہم کو
بیخود دہلوی
73
ظفر فسانوں کہ داستانوں میں رہ گئے ہیں
ہم اپنے گزرے ہوئے زمانوں میں رہ گئے ہیں
ظفر اقبال
74
ظفر سے کہتا ہے مجنوں کہیں درد دل محزوں
جو غم سے فرصت اب اک دم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
بہادر شاہ ظفر
75
ظرفِ ویرانہ بقدرِ ہمتِ وحشت نہیں
لاؤ ہر ذرے میں پیدا وسعتِ صحرا کریں
فانی بدایونی
76
ظفر! یہ دن تو نتیجہ ہے رات کا یکسر
کچھ اور ڈھونڈھتا رہتا ہوں رات سے آگے
ظفر اقبال
77
ظلم دونوں نے کیا تھا، دونوں تھے اس میں شریک
ابتدا گر تو نے کی تو انتہا میں نے بھی کی
عبید صدیقی
78
ظاہر ہے طرزِ قید سے صیاد کی غرض
جو دانہ دام میں ہے، سو اشک کباب ہے
غالب
79
ظالم کا نہ شکوہ کر ظلموں کی نہ پروا کر
تو اپنی وفاؤں کی عزت پہ فدا ہوجا
فانی بدایونی
80
ظلماتِ شب ہجر کی آفات ہے اور تو
جو دم ہے غنیمت ہے، کہ پھر رات ہے اور تو
مصحفی غلام ہمدانی
81
ظفر! یہ وقت ہی بتلائے گا کہ آخر ہم
بگاڑتے ہیں زباں یا زباں بناتے ہیں
ظفر اقبال
82
ظالم تری نگہ نے کئے گھر کے گھر خراب
ہوگا کوئی مکاں کہ وہ آباد رہ گیا
میر محمدی بیدار
83
ظفر! میں ہوگیا کچھ اور، ورنہ اصل میں تو
برا ہونا تھا مجھ کو، یا بھلا ہونا تھا مجھ کو
ظفر اقبال
84
ظالم ادھر کی سدھ لے جوں شمع صبح گاہی
ایک آدھ دم کا عاشق مہمان ہورہا ہے
میر تقی میر
85
ظلمت و نور میں کچھ بھی نہ محبت کو ملا
آج تک ایک دھند لکے کا سماں ہے کہ جو تھا
فرق گورکھپوری
86
ظفر! بے خانماں اپنے کو خود ہی کرلیا تم نے
یہ کارِ خیر تو اہلِ زمانہ کرنے والے تھے
ظفر گورکھپوری
87
ظفر یہ باعث تشویش بھی ہے سب کےلئے
جو مطلب اور مری بات سے نکلتا ہے
ظفر اقبال
88
ظلمت مارے گی شب خون
روشنیوں کی لے لر آڑ
مظفر حنفی
89
ظالم نے کیا نکالی رفتار رفتہ رفتہ
اس چال پر چلے گی تلوار رفتہ رفتہ
داغ دہلوی
90
ظالم تو میری سادہ دلی پر تو رحم کر
روٹھا تھا تجھ سے آپ ہی اور آپ من گیا
قائم چاند پوری
91
ظفر اس کے تھے ہم تو، کب تلک اس سے الگ رہتے
ہوئے ہم ایک دن ہونا تھا آخر کار گم اس میں
ظفر گورکھپوری
92
ظاہر میں ہم انسان ہیں مٹی کے کھلونے
باطن میں مگر تند عناصر کا غضب ہیں
احمد ندیم قاسمی
93
ظفر ہم آپ کو گمراہ نہیں کہتے
یہی کہ ہیں بھی اگر راہ پر زیادہ نہیں
ظفر اقبال
94
ظاہر ہے کہ گھبرا کے نہ بھاگیں کے نک
یرین
ہاں منہ سے مگر بادۂ دوشینہ کی بو آئے
غالب
95
ظلم ہے تجھ سے بہ تقریب تکلف منسوب
ورنہ تقدیر وفا یہ ہے کہ برباد رہے
فانی بدایونی
96
ظلمت بدوش ہے مری دنیائے عاشقی
تاروں کی مشعلے نہ چرائیں تو کیا کریں
اختر شیرانی
97
ظفر! ہزار مے و میکدے سے بہتر ہے
اگر نصیب ہو کنجِ فراغ میں پانی
بہادر شاہ ظفر
98
ظفر! صحنِ چمن میں ان خردمندوں پہ ماتم ہے
جو شاخوں کی لچک کو نشۂ صہبا سمجھتے ہیں
ریاست علی ظفر بجنوری
99
ظرف ہے یہ تو اپنا اپنا
کوئی بنائے کوئی بگاڑے
حفیظ میرٹھی
100
ظفر! شعر و سخن سے رازِ دل کیوں کر نہ ہو ظاہر
کہ مضموں جتنے ہیں، وہ دل کے اندر سے نکلتے ہیں
بہادر شاہ ظفر
101
ظفر! بہار بھی اس کےلئے پیار نہیں
نصیب جس کو نہیں ہوسکی خود افزائی
ریاست علی ظفر بجنوری
102
ظرف اپنا، مزاج اپنا ہے
غم میں آرام، عیش میں آلام
103
ظلم سہ کر جو اف نہیں کرتے
ان کے دل بھی عجیب ہوتے ہیں
نوح ناروی
104
ظفر! آساں نہیں قابو میں زباں کا رہنا
آتی مشکل سے ہے بہ قبضۂ انسان میں تیغ
بہادر شاہ ظفر
105
ظفر! اگلا زمانہ تھا کچھ اور
اس زمانے کی باتیں اور ہی ہیں
ریاست علی ظفر بجنوری
106
ظلمت جھکا سکی نہ کبھی روشنی کا سر
سورج ابھر کے آیا ہے جب تھک گئے چراغ
107
ظاہر میں اک مجسم، امن و آشتی
باطن میں لاکھ فتنۂ محشر لئے ہوئے
جگر مرادآبادی
108
ظفر! دنیائے فانی خواب کا سا ایک عالم ہے
مگر اس خواب میں دیکھا ہے کچھ ایسا کہ کیا کہئے
بہادر شاہ ظفر
109
ظفر! ہے وہ گرمی تمہارے سخن میں
کے جلتے ہیں آتش زباں اچھے اچھے
ریاست علی ظفر بجنوری
110
ظالم نے پر کتر کے نَفس سے رہا کیا
گرکر ہم آسمان سے اٹکے کھجور میں
111
ظفر کو باز رکھ، اعمالِ بد سے
خطا بخشا، کرم گارا، الٰھا!
بہادر شاہ ظفر
112
ظفر! اس عالمِ پپری میں تیرے وہ ارادے ہیں
کہ جن میں تھک کے رہ جاتی وہ خوابوں کی جوانی ہے
ریاست علی ظفر بجنوری
113
ظفر! تم گردشِ ایام سے نہ گھبراؤ
انہوں نے تم پہ نگاہ کر تو ڈالی ہے
ظفر اقبال
114
ظفر! ایسی نہیں ہے کوئی محفل اس زمانے میں
جہاں کچھ حرف گیری اور سخن چینی نہیں ہوتی
ریاست علی ظفر بجنوری
115
ظہورِ آخر ہے اول انبیاءؑ سے نورِ احمد کا
بجا ہے گر لقب ہے اول و آخر محمد کا
امیر مینائی
116
ظفر! نہ پوچھ قیامت ہے وہ نظر جس نے
سکھا دیا ہے تمنا کا احترام مجھے
ریاست علی ظفر بجنوری
117
ظفر کو منزلِ مقصود پر تقدیر لے پہنچی
کدھر بھٹکی ہوئی سی عقلِ بے تدبیر پھرتی ہے
بہادر شاہ ظفر
118
ظفر! کیا پوچھتا ہے راہ مجھ سے اس سے ملنے کی
ارادہ ہو اگر تیرا تو ہر جانب سے رستہ ہے
بہادر شاہ ظفر
ختم شد
ہاں منہ سے مگر بادۂ دوشینہ کی بو آئے
غالب
95
ظلم ہے تجھ سے بہ تقریب تکلف منسوب
ورنہ تقدیر وفا یہ ہے کہ برباد رہے
فانی بدایونی
96
ظلمت بدوش ہے مری دنیائے عاشقی
تاروں کی مشعلے نہ چرائیں تو کیا کریں
اختر شیرانی
97
ظفر! ہزار مے و میکدے سے بہتر ہے
اگر نصیب ہو کنجِ فراغ میں پانی
بہادر شاہ ظفر
98
ظفر! صحنِ چمن میں ان خردمندوں پہ ماتم ہے
جو شاخوں کی لچک کو نشۂ صہبا سمجھتے ہیں
ریاست علی ظفر بجنوری
99
ظرف ہے یہ تو اپنا اپنا
کوئی بنائے کوئی بگاڑے
حفیظ میرٹھی
100
ظفر! شعر و سخن سے رازِ دل کیوں کر نہ ہو ظاہر
کہ مضموں جتنے ہیں، وہ دل کے اندر سے نکلتے ہیں
بہادر شاہ ظفر
101
ظفر! بہار بھی اس کےلئے پیار نہیں
نصیب جس کو نہیں ہوسکی خود افزائی
ریاست علی ظفر بجنوری
102
ظرف اپنا، مزاج اپنا ہے
غم میں آرام، عیش میں آلام
103
ظلم سہ کر جو اف نہیں کرتے
ان کے دل بھی عجیب ہوتے ہیں
نوح ناروی
104
ظفر! آساں نہیں قابو میں زباں کا رہنا
آتی مشکل سے ہے بہ قبضۂ انسان میں تیغ
بہادر شاہ ظفر
105
ظفر! اگلا زمانہ تھا کچھ اور
اس زمانے کی باتیں اور ہی ہیں
ریاست علی ظفر بجنوری
106
ظلمت جھکا سکی نہ کبھی روشنی کا سر
سورج ابھر کے آیا ہے جب تھک گئے چراغ
107
ظاہر میں اک مجسم، امن و آشتی
باطن میں لاکھ فتنۂ محشر لئے ہوئے
جگر مرادآبادی
108
ظفر! دنیائے فانی خواب کا سا ایک عالم ہے
مگر اس خواب میں دیکھا ہے کچھ ایسا کہ کیا کہئے
بہادر شاہ ظفر
109
ظفر! ہے وہ گرمی تمہارے سخن میں
کے جلتے ہیں آتش زباں اچھے اچھے
ریاست علی ظفر بجنوری
110
ظالم نے پر کتر کے نَفس سے رہا کیا
گرکر ہم آسمان سے اٹکے کھجور میں
111
ظفر کو باز رکھ، اعمالِ بد سے
خطا بخشا، کرم گارا، الٰھا!
بہادر شاہ ظفر
112
ظفر! اس عالمِ پپری میں تیرے وہ ارادے ہیں
کہ جن میں تھک کے رہ جاتی وہ خوابوں کی جوانی ہے
ریاست علی ظفر بجنوری
113
ظفر! تم گردشِ ایام سے نہ گھبراؤ
انہوں نے تم پہ نگاہ کر تو ڈالی ہے
ظفر اقبال
114
ظفر! ایسی نہیں ہے کوئی محفل اس زمانے میں
جہاں کچھ حرف گیری اور سخن چینی نہیں ہوتی
ریاست علی ظفر بجنوری
115
ظہورِ آخر ہے اول انبیاءؑ سے نورِ احمد کا
بجا ہے گر لقب ہے اول و آخر محمد کا
امیر مینائی
116
ظفر! نہ پوچھ قیامت ہے وہ نظر جس نے
سکھا دیا ہے تمنا کا احترام مجھے
ریاست علی ظفر بجنوری
117
ظفر کو منزلِ مقصود پر تقدیر لے پہنچی
کدھر بھٹکی ہوئی سی عقلِ بے تدبیر پھرتی ہے
بہادر شاہ ظفر
118
ظفر! کیا پوچھتا ہے راہ مجھ سے اس سے ملنے کی
ارادہ ہو اگر تیرا تو ہر جانب سے رستہ ہے
بہادر شاہ ظفر
ختم شد
حرف ع سے اشعار!!
ترتیب دادہ: عادل سعیدی دیوبندی
تاریخ: ۹ / ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۱۲ / ستمبر ۲۰۱۶ء ۔
........................................
1
عالم جو تھا مطیع ہمارے کلام کا
کیا اسم اعظم اپنے دہن سے نکل گیا؟
حیدر علی آتش
2
عشق میں کوئی وقت نہیں
دن اور رات برابر ہے
احمد مشتاق
3
عروسی کی شب کی حلاوت تھی حاصل
فرحناک تھی روح، دل شادمان تھا
حیدر علی آتش
4
عجیب دھوکے دیئے پیار کی ضرورت نے
لگا شجر بھی مجھے دستِ مہرباں کی طرح
5
عشق قاتل سے بھی،مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا
6
عجب اصول ہیں اس کاروبارِ دُنیا کے
کسی کا قرض کسی اور نے اُتارا ہے
امجد اسلام امجد
7
عشق راہزن نہ سہی عشق کے ہاتھوں اکثر
ہم نے لٹتی ہوئی دیکھی ہیں باراتیں اکثر
جاں نثار اختر
8
عشق خدا کی دین ہے، عشق سے منہ نہ موڑیئے
چھوڑئیے زندگی کا ساتھ، دل کا ساتھ نہ چھوڑئیے
خمار بارہ بنکوی
9
عجیب شخص ہے جب بے دلی پہ آتا ہے
تو دانہ چگتے پرندے اڑانے لگتا ہے
10
عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا
11
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنمبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے
عبید اللہ علیم
12
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
اقبال
13
عدم خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے
ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں
14
عجب الٹے ملک کے ہیں اجی آپ بھی کہ تُم سے
کبھی بات کی جو سیدھی تو ملا جواب الٹا
انشاءاللہ خان انشا
15
عشق میں ایک تم ہمارے ہو
باقی جو کچھ ہے سب تمہارا ہے
16
عقل و دل اپنی اپنی کہیں جب خمار
عقل کی سُنیے، دل کا کہا کیجیے
خمار بارہ بنکوی
17
علومِ دنیوی کے بحر میں غوطے لگانے سے
زباں گو صاف ہوجاتی ہے، دل طاہر نہیں ہوتا
اکبر
18
عشق می خوانم و می گریم زار
طفلِ نادانم و اول سبق است
19
عجب کیا ہے کہ اس ہمت شکن طوفاں کے پہلو سے
کوئی ایسی بھی موج اٹھے کہ بیڑا پار ہوجائے
حفیظ میرٹھی
20
عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہِ کامل نہ بن جائے
اقبال
21
عرفی! تو میندیش زغوغائے رقیباں
آوازِ سگاں کم نہ کند ، رزقِ گدارا
22
عمر بھر روح کی اور جسم کی یکجائی ہو
کیا قیامت ہے کہ پھر بھی نہ شناسائی ہو
جگر
23
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
اقبال
24
عَلی الصباح چُو مردم بہ کاروبار رَوند
بلا کشانِ محبّت بہ کوئے یار روند
25
عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں
بہادر شاہ ظفر
26
عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہونا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہوجانا
غالب
27
عافیت را ہمہ عالم نمی یابم نشاں
گرچہ می گردم بہ عالم ہم نمی یابم نشاں
28
عبث تو سر کی مرے ہر گھڑی قسم مت کھا
قسم خدا کی ترے دل میں اب وہ پیار نہیں
سودا
29
عدم رفتگاں کو جو کہنا ہے کچھ
تو قاصد ہمارا سرِ راہ ہے
میر درد
30
عشق آں شعلہ است کو چوں بر فروخت
ہر چہ جز معشوق باقی جملہ سوخت
31
عمر بھر دیکھا کئے مرنے کی راہ
مرگئے پر دیکھئے دکھلائیں کیا
غالب
32
عشق اتنے قریب سے گذرا
میں تو سمجھا کہ ہو گیا مجھ کو
33
عطا ایسا بیاں مجھ کو ہوا رنگیں بیانوں میں
کہ بامِ عرش کا طائر ہے میرے ہم زبانوں میں
اقبال
34
عکس خوشبو ہوں ، بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
پروین شاکر
35
علائق سے ہوں بیگانہ ولیکن اے دلِ غمگیں
تجھے کچھ یاد تو ہوگا کسی سے دوستی کب تھی
فراق
36
عقل پھرتی ہے ، لئے خانہ بخانہ ہم کو
عشق اب تو ہی بتا ، کوئی ٹھکانہ ہم کو
37
عدم کی راہ جاری ہے کوئ آگے کوئ پیچھے
چلے جاتے ہیں سب پیر و جواں آہستہ آہستہ
38
عدو کی سختیاں الٹا اثر دکھائیں گی
وہ غافلوں کو پھر اب ہوشیار دیکھیں گے
خورشید
39
عشق کی اک نگاہ سے احمد
ذرہ ماہِ تمام ہوتا ہے
احمد پرتابگڈھی ؒ
40
عرصۂ دہر کی جھلسی ہوئی ویرانی میں
ہم کو رہنا ہے، پر یوں ہی نہیں رہنا ہے
فیض احمد فیض
41
عِلاجِ چاکِ پیراہن ہُوا، تو اِس طرح ہوگا
سِیا جائے گا کانٹوں سے گریباں ہم نہ کہتے تھے
42
عشق میری ہی تمنا تو نہیں
تیری نیت بھی تو بد ہے، حد ہے
43
عرضِ کرم بھی جرم ہے اس کی خبر نہ تھی
سرکار کچھ بھی اب نہ کہیں گے زباں سے ہم
قمر جلال آبادی
44
عشق کے فیض سے بحمداللہ
ہجر میں پا رہے ہیں کیفِ حضور
احمد پرتابگڈھی
45
عشق کی داستان ہے پیارے
اپنی اپنی زبان ہے پیارے
46
عارضِ گُل کو چھُوا تھا کہ دھنک سی بکھری
کِس قدر شوخ ہے ننھی سی کرن کی خوشبو
پروین شاکر
47
عجیب الٹے ملک کے ہیں اجی آپ بھی کہ تم سے
کبھی بات کی جو سیدھی تو ملا جواب اُلٹا
48
عین ممکن ہے تمہیں میری ضرورت پڑ جائے
کھوٹے سکے بھی کبھی کام بہت آتے ہیں
49
عشق اس طرح مٹا کہ عدم تک نشاں نہیں
آ سامنے کہ میں بھی تو اب درمیاں نہیں
فراق
50
عشق تو خیر تھا اندھا لڑکا
حسن کو کون سی مجبوری تھی
پروین شاکر
51
عروج تجھے ایسا نصیب ہو زمانے میں
کہ
ترتیب دادہ: عادل سعیدی دیوبندی
تاریخ: ۹ / ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۱۲ / ستمبر ۲۰۱۶ء ۔
........................................
1
عالم جو تھا مطیع ہمارے کلام کا
کیا اسم اعظم اپنے دہن سے نکل گیا؟
حیدر علی آتش
2
عشق میں کوئی وقت نہیں
دن اور رات برابر ہے
احمد مشتاق
3
عروسی کی شب کی حلاوت تھی حاصل
فرحناک تھی روح، دل شادمان تھا
حیدر علی آتش
4
عجیب دھوکے دیئے پیار کی ضرورت نے
لگا شجر بھی مجھے دستِ مہرباں کی طرح
5
عشق قاتل سے بھی،مقتول سے ہمدردی بھی
یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا
6
عجب اصول ہیں اس کاروبارِ دُنیا کے
کسی کا قرض کسی اور نے اُتارا ہے
امجد اسلام امجد
7
عشق راہزن نہ سہی عشق کے ہاتھوں اکثر
ہم نے لٹتی ہوئی دیکھی ہیں باراتیں اکثر
جاں نثار اختر
8
عشق خدا کی دین ہے، عشق سے منہ نہ موڑیئے
چھوڑئیے زندگی کا ساتھ، دل کا ساتھ نہ چھوڑئیے
خمار بارہ بنکوی
9
عجیب شخص ہے جب بے دلی پہ آتا ہے
تو دانہ چگتے پرندے اڑانے لگتا ہے
10
عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیر اپنی
جس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا
11
عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنمبھل جائے
اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے
عبید اللہ علیم
12
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
اقبال
13
عدم خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے
ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں
14
عجب الٹے ملک کے ہیں اجی آپ بھی کہ تُم سے
کبھی بات کی جو سیدھی تو ملا جواب الٹا
انشاءاللہ خان انشا
15
عشق میں ایک تم ہمارے ہو
باقی جو کچھ ہے سب تمہارا ہے
16
عقل و دل اپنی اپنی کہیں جب خمار
عقل کی سُنیے، دل کا کہا کیجیے
خمار بارہ بنکوی
17
علومِ دنیوی کے بحر میں غوطے لگانے سے
زباں گو صاف ہوجاتی ہے، دل طاہر نہیں ہوتا
اکبر
18
عشق می خوانم و می گریم زار
طفلِ نادانم و اول سبق است
19
عجب کیا ہے کہ اس ہمت شکن طوفاں کے پہلو سے
کوئی ایسی بھی موج اٹھے کہ بیڑا پار ہوجائے
حفیظ میرٹھی
20
عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہِ کامل نہ بن جائے
اقبال
21
عرفی! تو میندیش زغوغائے رقیباں
آوازِ سگاں کم نہ کند ، رزقِ گدارا
22
عمر بھر روح کی اور جسم کی یکجائی ہو
کیا قیامت ہے کہ پھر بھی نہ شناسائی ہو
جگر
23
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
اقبال
24
عَلی الصباح چُو مردم بہ کاروبار رَوند
بلا کشانِ محبّت بہ کوئے یار روند
25
عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں
بہادر شاہ ظفر
26
عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہونا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہوجانا
غالب
27
عافیت را ہمہ عالم نمی یابم نشاں
گرچہ می گردم بہ عالم ہم نمی یابم نشاں
28
عبث تو سر کی مرے ہر گھڑی قسم مت کھا
قسم خدا کی ترے دل میں اب وہ پیار نہیں
سودا
29
عدم رفتگاں کو جو کہنا ہے کچھ
تو قاصد ہمارا سرِ راہ ہے
میر درد
30
عشق آں شعلہ است کو چوں بر فروخت
ہر چہ جز معشوق باقی جملہ سوخت
31
عمر بھر دیکھا کئے مرنے کی راہ
مرگئے پر دیکھئے دکھلائیں کیا
غالب
32
عشق اتنے قریب سے گذرا
میں تو سمجھا کہ ہو گیا مجھ کو
33
عطا ایسا بیاں مجھ کو ہوا رنگیں بیانوں میں
کہ بامِ عرش کا طائر ہے میرے ہم زبانوں میں
اقبال
34
عکس خوشبو ہوں ، بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
پروین شاکر
35
علائق سے ہوں بیگانہ ولیکن اے دلِ غمگیں
تجھے کچھ یاد تو ہوگا کسی سے دوستی کب تھی
فراق
36
عقل پھرتی ہے ، لئے خانہ بخانہ ہم کو
عشق اب تو ہی بتا ، کوئی ٹھکانہ ہم کو
37
عدم کی راہ جاری ہے کوئ آگے کوئ پیچھے
چلے جاتے ہیں سب پیر و جواں آہستہ آہستہ
38
عدو کی سختیاں الٹا اثر دکھائیں گی
وہ غافلوں کو پھر اب ہوشیار دیکھیں گے
خورشید
39
عشق کی اک نگاہ سے احمد
ذرہ ماہِ تمام ہوتا ہے
احمد پرتابگڈھی ؒ
40
عرصۂ دہر کی جھلسی ہوئی ویرانی میں
ہم کو رہنا ہے، پر یوں ہی نہیں رہنا ہے
فیض احمد فیض
41
عِلاجِ چاکِ پیراہن ہُوا، تو اِس طرح ہوگا
سِیا جائے گا کانٹوں سے گریباں ہم نہ کہتے تھے
42
عشق میری ہی تمنا تو نہیں
تیری نیت بھی تو بد ہے، حد ہے
43
عرضِ کرم بھی جرم ہے اس کی خبر نہ تھی
سرکار کچھ بھی اب نہ کہیں گے زباں سے ہم
قمر جلال آبادی
44
عشق کے فیض سے بحمداللہ
ہجر میں پا رہے ہیں کیفِ حضور
احمد پرتابگڈھی
45
عشق کی داستان ہے پیارے
اپنی اپنی زبان ہے پیارے
46
عارضِ گُل کو چھُوا تھا کہ دھنک سی بکھری
کِس قدر شوخ ہے ننھی سی کرن کی خوشبو
پروین شاکر
47
عجیب الٹے ملک کے ہیں اجی آپ بھی کہ تم سے
کبھی بات کی جو سیدھی تو ملا جواب اُلٹا
48
عین ممکن ہے تمہیں میری ضرورت پڑ جائے
کھوٹے سکے بھی کبھی کام بہت آتے ہیں
49
عشق اس طرح مٹا کہ عدم تک نشاں نہیں
آ سامنے کہ میں بھی تو اب درمیاں نہیں
فراق
50
عشق تو خیر تھا اندھا لڑکا
حسن کو کون سی مجبوری تھی
پروین شاکر
51
عروج تجھے ایسا نصیب ہو زمانے میں
کہ
آسماں تری رفعتوں پہ ناز کرے
52
عشق بھی کھیل ہے نصیبوں کا
خاک ہو جائیں، کیمیا ہو جائیں
53
عذاب اپنے بکھیروں کہ مُرتسم کر لوں
میں ان سے خود کو ضرب دُوں کہ منُقسم کر لوں
پروین شاکر
54
عُمر بھر کون نبھاتا ہے تعلق اِتنا
اے میری جان کے دُشمن تجھے اللہ رکھے
55
عشق میری ہی تمنا تو نہیں
تیری نیت بھی تو بد ہے، حد ہے
56
عشقِ ناکام کی ہے پرچھائی
شادمانی بھی کامرانی بھی
فراق
57
عہدِ فردا، اک بہانہ ہی سہی لیکن شکیل
اس بہانے سے سکونِِ دل کے ساماں ہو گئے
شکیل بدایونی
58
عمر جلووں میں بسر ہو یہ ضروری تو نہیں
ہر شبِ غم کی سحر ہو یہ ضروری تو نہیں
59
عقل و دل اپنی اپنی کہیں جب خمار
عقل کی سنئیے دل کا کہا کیجئے
60
عشق کی بے گانہ روی کے نثار
حسن کو اندازِ عتاب آ گیا
شکیل بدایونی
61
عاجؔز یہ کِس سے بات کرو ہو غزل میں تُم؟
پردہ اُٹھاؤ ہم بھی تو دیکھیں چُھپا ہے کون؟
کلیم عاجز
62
عتابِ اہلِ جہاں سب بُھلا دِئے، لیکن
وہ زخم یاد ہیں اب تک، جوغائبانہ لگے
63
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
64
عزم و ہمت کے باوجود شکیل
عشق کی ابتداء سے ڈرتے ہیں
شکیل بدایونی
65
عزیزاں بعد مرنے کے نہ پوچھو تم کہ تنہا ہوں
لکھا ہوں پردۂ دل پر خیال اس یارِ جانی کا
ولی دکنی
66
عہدِ نو کا اس سے بڑھ کر سانحہ کوئی نہیں
سب کی آنکھیں جاگتی ہیں، بولتا کوئی نہیں
67
علم چندانکہ بیشتر خوانی
چوں عمل در تو نیست نادانی
68
عجیب لوگ ہیں کیا خوب منصفی کی ہے
ہمارے قتل کو کہتے ہیں، خودکشی کی ہے
حفیظ میرٹھی
69
عشق میں سہمے ہوئے دو آشنا
مدتوں انجان نظر آئے ہیں
خمار بارہ بنکوی
70
عاصیاں از گناہ توبہ کنند
عارفاں از عبادت استغفار
71
عقلوں کو بنا دے گا، دیوانہ جمال ان کا
چھا جائیں گی ہوشوں پر آنکھیں وہ غلافی ہیں
حسرت موہانی
72
عشق ازل ہی سے خانہ خراب
آپ سے کیا آپ نہ گھبرائیے
خمار بارہ بنکوی
73
عمر برف ست و آفتاب تموز
اندکے ماند و خواجہ غرہ ہنوز
سعدی شیرازی
74
عشق میں کچھ ہم ہی پریشاں نہیں
وہ بھی پریشان نظر آئے ہیں
خمار بارہ بنکوی
75
عجب نوع کے آدمی ہیں یہ شیخ
محبّت کو کہتے ہیں الحاد ہے
76
علاج کرتے ہیں سودائے عشق کا، میرے
خلل پذیر ہُوا ہے دماغ یاروں کا
77
عشق ہے فرسودہ حکایت مگر
نت نئے عنوان نظر آئے ہیں
خمار بارہ بنکوی
78
عشاق پہ کچھ حد بھی مقرر ہے ستم کی
یا اس کی نہایت ہی نہیں آپ کے نزدیک
حسرت موہانی
79
عشق میں جان سے گزُر جائیں
اب یہی جی میں ہے، کہ مر جائیں
80
عشق کرتا ہے، تو پھرعشق کی توہین نہ کر
یا تو بے ہوش نہ ہو، ہو تو نہ پھر ہوش میں آ
81
عشق نے بخشی ہے یہ کیسی پریشانی مجھے
اب نہ مشکل راس آتی ہے نہ آسانی مجھے
خمار بارہ بنکوی
82
عالمِ حسن میں ہیں نُور کی نہریں جاری
یا رواں عارضِ جاناں کے کنارے آنسو
حسرت موہانی
83
عشقِ بُتاں کو جی کا جنجال کرلیا ہے
آخر یہ میں نے اپنا کیا حال کرلیا ہے
84
عجیب لوگ ہیں کیا خوب منصفی کی ہے
ہمارے قتل کو کہتے ہیں، خودکشی کی ہے
85
عشق کا اور بے قراری کا پرانا ساتھ ہے
تم نہ گھبراؤ نہیں کوئی پریشانی مجھے
خمار بارہ بنکوی
86
عقلِ صبر آشنا سے کچھ نہ ہوا
شوق کی بے قراریاں نہ گئیں
حسرت موہانی
87
عشق ایسا نہیں کچھ کھیل کے ہر اِک کھیلے
میں نے اڑسٹھ برس اس عمر میں پاپڑ بیلے
88
عمر بھر با وضو مئے نوشی
خودکوواعظ نےاسطرح محترم رکھا
89
علم و فن کے دیوانے عاشقی سے ڈرتے ہیں
زندگی کے خواہاں ہیں زندگی سے ڈرتے ہیں
خمار بارہ بنکوی
90
عُشّاق کے دل نازک اس شوخ کی خو نازک
نازک اسی نسبت سے ہے کار محبت بھی
حسرت موہانی
91
عشق میں کہتے ہیں فرہاد نے کاٹا تھا پہاڑ
ہم نے دن کاٹ دیے، یہ بھی ہنر ہے سائیں
92
عبادتوں کا تقدس انہی کے دم سے ہے
جو مسجدوں میں سفاری پہن کے آتے ہیں
93
عجب نہیں کل اسی کی زبان کھنچ جائے
جو کہہ رہا ہے خموشی زباں سے اچھی ہے
افتخار عارف
94
عشق پہلے بھی کیا، ہجر کا غم بھی دیکھا
اتنے تڑپے ہیں، نہ گھبرائے، نہ ترسے پہلے
ابن انشا
95
عشق میں نام کر گئے ہوں گے
جو ترے غم میں مر گئے ہوں گے
حبیب جالب
96
عذابِ گردِ خزاں بھی نہ ہو بہار بھی آئے
اس احتیاط سے اجرِ وفا نہ مانگے کوئی
افتخار عارف
97
عشق کریں تو جنوں کی تہمت ‘ دُور رہیں تو تو ناراض
اب یہ بتا ہم تجھ سے نبھائیں یا دلِ محرم لوگوں سے
ابن انشا
98
عنایتوں کا یہ عالم کہ زندگی ہمہ کیف
اب اور جو بھی ملے، رحمتِ تمام مجھے
ریاست علی ظفر
99
عمر بڑھنے کی غلط فہمی میں کاٹی ساری عمر
سچ یہ ہے کہ لمحہ لمحہ کم ہوئی ہے زندگی
نواز دیوبندی
100
عذابِ حشر سے واعظ مجھے تو کیا ڈراتا ہے
تجھے معلوم بھی ہے، فردِ عصیاں کون دیکھے گا
مخمور دہلوی
101
عزیزو! فکر کیا ہے، کس لئے مایوس بیٹھے ہو
وہ سالارِ طیباں ہے، دوائے دردِ حرمانی
محمود حسن دیوبندی ؒ
102
عبث لگائی ہیں پابندیاں زباں کےلئے
خموشی ایک ہی عنواں ہے داستاں کےلئے
نسیم احمد فریدی
103
عجب قیامت کا حادثہ ہے، کہ اشک ہے آستیں نہیں ہے
زمیں کی رونق چلی گئی ہے
52
عشق بھی کھیل ہے نصیبوں کا
خاک ہو جائیں، کیمیا ہو جائیں
53
عذاب اپنے بکھیروں کہ مُرتسم کر لوں
میں ان سے خود کو ضرب دُوں کہ منُقسم کر لوں
پروین شاکر
54
عُمر بھر کون نبھاتا ہے تعلق اِتنا
اے میری جان کے دُشمن تجھے اللہ رکھے
55
عشق میری ہی تمنا تو نہیں
تیری نیت بھی تو بد ہے، حد ہے
56
عشقِ ناکام کی ہے پرچھائی
شادمانی بھی کامرانی بھی
فراق
57
عہدِ فردا، اک بہانہ ہی سہی لیکن شکیل
اس بہانے سے سکونِِ دل کے ساماں ہو گئے
شکیل بدایونی
58
عمر جلووں میں بسر ہو یہ ضروری تو نہیں
ہر شبِ غم کی سحر ہو یہ ضروری تو نہیں
59
عقل و دل اپنی اپنی کہیں جب خمار
عقل کی سنئیے دل کا کہا کیجئے
60
عشق کی بے گانہ روی کے نثار
حسن کو اندازِ عتاب آ گیا
شکیل بدایونی
61
عاجؔز یہ کِس سے بات کرو ہو غزل میں تُم؟
پردہ اُٹھاؤ ہم بھی تو دیکھیں چُھپا ہے کون؟
کلیم عاجز
62
عتابِ اہلِ جہاں سب بُھلا دِئے، لیکن
وہ زخم یاد ہیں اب تک، جوغائبانہ لگے
63
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
64
عزم و ہمت کے باوجود شکیل
عشق کی ابتداء سے ڈرتے ہیں
شکیل بدایونی
65
عزیزاں بعد مرنے کے نہ پوچھو تم کہ تنہا ہوں
لکھا ہوں پردۂ دل پر خیال اس یارِ جانی کا
ولی دکنی
66
عہدِ نو کا اس سے بڑھ کر سانحہ کوئی نہیں
سب کی آنکھیں جاگتی ہیں، بولتا کوئی نہیں
67
علم چندانکہ بیشتر خوانی
چوں عمل در تو نیست نادانی
68
عجیب لوگ ہیں کیا خوب منصفی کی ہے
ہمارے قتل کو کہتے ہیں، خودکشی کی ہے
حفیظ میرٹھی
69
عشق میں سہمے ہوئے دو آشنا
مدتوں انجان نظر آئے ہیں
خمار بارہ بنکوی
70
عاصیاں از گناہ توبہ کنند
عارفاں از عبادت استغفار
71
عقلوں کو بنا دے گا، دیوانہ جمال ان کا
چھا جائیں گی ہوشوں پر آنکھیں وہ غلافی ہیں
حسرت موہانی
72
عشق ازل ہی سے خانہ خراب
آپ سے کیا آپ نہ گھبرائیے
خمار بارہ بنکوی
73
عمر برف ست و آفتاب تموز
اندکے ماند و خواجہ غرہ ہنوز
سعدی شیرازی
74
عشق میں کچھ ہم ہی پریشاں نہیں
وہ بھی پریشان نظر آئے ہیں
خمار بارہ بنکوی
75
عجب نوع کے آدمی ہیں یہ شیخ
محبّت کو کہتے ہیں الحاد ہے
76
علاج کرتے ہیں سودائے عشق کا، میرے
خلل پذیر ہُوا ہے دماغ یاروں کا
77
عشق ہے فرسودہ حکایت مگر
نت نئے عنوان نظر آئے ہیں
خمار بارہ بنکوی
78
عشاق پہ کچھ حد بھی مقرر ہے ستم کی
یا اس کی نہایت ہی نہیں آپ کے نزدیک
حسرت موہانی
79
عشق میں جان سے گزُر جائیں
اب یہی جی میں ہے، کہ مر جائیں
80
عشق کرتا ہے، تو پھرعشق کی توہین نہ کر
یا تو بے ہوش نہ ہو، ہو تو نہ پھر ہوش میں آ
81
عشق نے بخشی ہے یہ کیسی پریشانی مجھے
اب نہ مشکل راس آتی ہے نہ آسانی مجھے
خمار بارہ بنکوی
82
عالمِ حسن میں ہیں نُور کی نہریں جاری
یا رواں عارضِ جاناں کے کنارے آنسو
حسرت موہانی
83
عشقِ بُتاں کو جی کا جنجال کرلیا ہے
آخر یہ میں نے اپنا کیا حال کرلیا ہے
84
عجیب لوگ ہیں کیا خوب منصفی کی ہے
ہمارے قتل کو کہتے ہیں، خودکشی کی ہے
85
عشق کا اور بے قراری کا پرانا ساتھ ہے
تم نہ گھبراؤ نہیں کوئی پریشانی مجھے
خمار بارہ بنکوی
86
عقلِ صبر آشنا سے کچھ نہ ہوا
شوق کی بے قراریاں نہ گئیں
حسرت موہانی
87
عشق ایسا نہیں کچھ کھیل کے ہر اِک کھیلے
میں نے اڑسٹھ برس اس عمر میں پاپڑ بیلے
88
عمر بھر با وضو مئے نوشی
خودکوواعظ نےاسطرح محترم رکھا
89
علم و فن کے دیوانے عاشقی سے ڈرتے ہیں
زندگی کے خواہاں ہیں زندگی سے ڈرتے ہیں
خمار بارہ بنکوی
90
عُشّاق کے دل نازک اس شوخ کی خو نازک
نازک اسی نسبت سے ہے کار محبت بھی
حسرت موہانی
91
عشق میں کہتے ہیں فرہاد نے کاٹا تھا پہاڑ
ہم نے دن کاٹ دیے، یہ بھی ہنر ہے سائیں
92
عبادتوں کا تقدس انہی کے دم سے ہے
جو مسجدوں میں سفاری پہن کے آتے ہیں
93
عجب نہیں کل اسی کی زبان کھنچ جائے
جو کہہ رہا ہے خموشی زباں سے اچھی ہے
افتخار عارف
94
عشق پہلے بھی کیا، ہجر کا غم بھی دیکھا
اتنے تڑپے ہیں، نہ گھبرائے، نہ ترسے پہلے
ابن انشا
95
عشق میں نام کر گئے ہوں گے
جو ترے غم میں مر گئے ہوں گے
حبیب جالب
96
عذابِ گردِ خزاں بھی نہ ہو بہار بھی آئے
اس احتیاط سے اجرِ وفا نہ مانگے کوئی
افتخار عارف
97
عشق کریں تو جنوں کی تہمت ‘ دُور رہیں تو تو ناراض
اب یہ بتا ہم تجھ سے نبھائیں یا دلِ محرم لوگوں سے
ابن انشا
98
عنایتوں کا یہ عالم کہ زندگی ہمہ کیف
اب اور جو بھی ملے، رحمتِ تمام مجھے
ریاست علی ظفر
99
عمر بڑھنے کی غلط فہمی میں کاٹی ساری عمر
سچ یہ ہے کہ لمحہ لمحہ کم ہوئی ہے زندگی
نواز دیوبندی
100
عذابِ حشر سے واعظ مجھے تو کیا ڈراتا ہے
تجھے معلوم بھی ہے، فردِ عصیاں کون دیکھے گا
مخمور دہلوی
101
عزیزو! فکر کیا ہے، کس لئے مایوس بیٹھے ہو
وہ سالارِ طیباں ہے، دوائے دردِ حرمانی
محمود حسن دیوبندی ؒ
102
عبث لگائی ہیں پابندیاں زباں کےلئے
خموشی ایک ہی عنواں ہے داستاں کےلئے
نسیم احمد فریدی
103
عجب قیامت کا حادثہ ہے، کہ اشک ہے آستیں نہیں ہے
زمیں کی رونق چلی گئی ہے
افق پہ مہر مبیں نہیں ہے
شورش کاشمیری
104
عشق سے لوگ منع کرتے ہیں
جیسے کچھ اختیار ہے گویا
اثر لکھنوی
105
عقل عیار ہے سو بھیس بنالیتی ہے
عشق بےچارہ نہ ملا ہے، نہ زاہد، نہ حکیم
اقبال
106
عمر ساری کٹی عشقِ بتاں میں مومن
آخرِ وقت میں کیا خاک مسلماں ہونگے
مومن
107
عشق میں خواب کا خیال کسے
نہ لگی آنکھ جب سے آنکھ لگی
محمد حیات
108
عقل نے ترکِ تعلق کو غنیمت جانا
دل کو بدلے ہوئے حالات پہ رونا آیا
ذکی کاکوروی
109
عجیب شئے ہے تصور کی کار فرمائی
ہزار محفلِ رنگیں شریکِ تنہائی
پیام فتحپوری
110
عشق ہے تشنگی کا نام توڑدے گر ملے بھی جام
شدتِ تشنگی نہ دیکھ، لذتِ تشنگی سمجھ
خمار
111
عروجِ ماہ کو انساں سمجھ گیا لیکن
ہنوز عظمتِ انسان سے آگہی کم ہے
شاہد صدیقی
112
عشق ہی عشق ہے دنیا میری
فتنۂ عقل سے بیزار ہوں میں
اسرار الحق مجاز
113
عشرتِ رفتہ نے جاکر نہ کیا یاد ہمیں
عشرتِ رفتہ کو ہم یاد کیا کرتے ہیں
اختر انصاری
114
عید کا دن ہے، گلے آج تو مل لے ظالم
رسمِ دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے
شورش کاشمیری
104
عشق سے لوگ منع کرتے ہیں
جیسے کچھ اختیار ہے گویا
اثر لکھنوی
105
عقل عیار ہے سو بھیس بنالیتی ہے
عشق بےچارہ نہ ملا ہے، نہ زاہد، نہ حکیم
اقبال
106
عمر ساری کٹی عشقِ بتاں میں مومن
آخرِ وقت میں کیا خاک مسلماں ہونگے
مومن
107
عشق میں خواب کا خیال کسے
نہ لگی آنکھ جب سے آنکھ لگی
محمد حیات
108
عقل نے ترکِ تعلق کو غنیمت جانا
دل کو بدلے ہوئے حالات پہ رونا آیا
ذکی کاکوروی
109
عجیب شئے ہے تصور کی کار فرمائی
ہزار محفلِ رنگیں شریکِ تنہائی
پیام فتحپوری
110
عشق ہے تشنگی کا نام توڑدے گر ملے بھی جام
شدتِ تشنگی نہ دیکھ، لذتِ تشنگی سمجھ
خمار
111
عروجِ ماہ کو انساں سمجھ گیا لیکن
ہنوز عظمتِ انسان سے آگہی کم ہے
شاہد صدیقی
112
عشق ہی عشق ہے دنیا میری
فتنۂ عقل سے بیزار ہوں میں
اسرار الحق مجاز
113
عشرتِ رفتہ نے جاکر نہ کیا یاد ہمیں
عشرتِ رفتہ کو ہم یاد کیا کرتے ہیں
اختر انصاری
114
عید کا دن ہے، گلے آج تو مل لے ظالم
رسمِ دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے
حرف غ سے اشعار!!
ترتیب دادہ: عادل سعیدی دیوبندی
تاریخ: ۱۰/ ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۱۳ / ستمبر ۲۰۱۶ء، بروزِ عیدِ قرباں ۔
........................................
1
غنیم مرگ کے قدموں تلے روندی گئیں آخر
اکڑ کر چلنے والے دب گئے زیرِ زمیں آخر
حفیظ جالندھری
2
غم نہیں گو زمانہ مخالف رہا
بس ہمیں آپ کی اک نظر چاھئے
عبدالمعبود نادان
3
غم کی بے نور گزر گاہوں میں
اک کرن ذوق فزا ہوتی ہے
ناصر کاظمی
4
غنیمت جان لے مل بیٹھنے کو
جدائی کی گھڑی سر پر کھڑی ہے
5
غربت میں ہوں اگر ہم دل ہے، مگر دل وطن میں
سمجھو وہیں ہمیں بھی، دل ہو جہاں ہمارا
اقبال
6
غم غلط کرنے کی یہ صورت ہے
صبر پہ مسکرائے جاتے ہیں
انیس الہ آبادی
7
غیر سے تم کو بہت ربط ہے مانا لیکن
یہ تماشا تو میرے بعد بھی ہو سکتا تھا
8
غیر سے ملنا تمہارا سن کے گو ہم چپ رہے
پر سنا ہوگا کہ تم کو اک جہاں نے کیا کہا
قیام الدین قائم
9
غضب ہے کہ دل میں تو رکھو کدورت
کرو منہ پہ ہم سے صفائی کی باتیں
10
غزل اس نے چھیڑی، مجھے ساز دینا
ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا
صفی لکھنوی
11
غیروں سے پوچھتی ہے طریقہ نجات کا
اپنوں کی سازشوں سے پریشان زندگی
12
غمِ حیات سے گھبرا کے بندگانِ خدا
چلے ہیں جانبِ میخانہ خودکشی کےلئے
ماہر القادری
13
غم بھی دیئے تو یوں کہ نہ واپس لئے کبھی
اُن کے ہماری ذات پر احسان ہی رہے
14
غمِ دوراں غمِ جاناں کا نشاں ہے کہ جو تھا
وصفِ خوباں بہ حدیثِ دگراں ہے کہ جو تھا
عابد علی عابد
15
غلط تھے وعدے پر میں یقین رکھتا تھا
وہ شخص لہجہ بڑا دل نشین رکھتا تھا
16
غم نہ اپنا، نہ اب خوشی اپنی
یعنی دنیا بدل گئی اپنی
خوشتر کھنڈوی
17
غم زمانہ تیری ظلمتیں ہی کیا کم تھیں
کہ بڑھ چلے اب ان گیسوؤں کے بھی سائے
18
غمِ زندگی اک مسلسل عذاب
غمِ زندگی سے مفر بھی نہیں
غلام ربانی تاباں
19
غموں کی بھیڑ میں امید کا وہ عالم ہے
کہ جیسے ایک سخی ہو کئی گداؤں میں
20
غمِ حبیب، غمِ زندگی، غمِ دوراں
کسی مقام پہ ہم جی برا نہیں کرتے
احمد ریاض
21
غروبِ خاور سے کچھ ہی پہلے جدا ہوئے ہم
وہ وقت گرچہ زوال کا تھا،کمال کا تھا
22
غم ہے یا خوشی ہے تو
میری زندگی ہے تو
ناصر کاظمی
23
غم ان کا مجھے اس لئے مرغوب ہے ناصح
کہ ان کے غم میں، غمِ ایں واں نہیں ہوتا
عزیزالحسن مجذوب
24
غیرتِ اہلِ چمن کو کیا ہوا
چھوڑ آئے آشیاں جلتا ہوا
25
غرور اتنا نہ کر تیرِ ستم پر
کہ اکثر چوک جاتا ہے نشانہ
قمر جلال آبادی
26
غم سے نازک ضبطِ غم کی بات ہے
یہ بھی دریا ہے مگر ٹھہرا ہوا
27
غواص گر اندیشہ کند کام نہنگ
ہرگز نکند در گرانمایہ بہ چنگ
28
غلط ہو آپ کا وعدہ کوئی خدا نہ کرے
مگر حضور کو عادت ہے بھول جانے کی
قمر جلال آبادی
29
غم سے چھٹ کر یہ غم ہے مجھ کو
کیوں غم سے نجات ہو گئی ہے
فراق
30
غمگسارو بہت اُداس ہوں میں
آج دل بہلا سکو تو آ جاؤ
سیف الدین
31
غیر ہی موردِ عِنایت ہے !
ہم بھی تو تم سے پیار رکھتے ہیں
32
غرور ان کا بجا ہے بہ فیضِ جامِ شراب
کہ ان کے ہاتھ میں ہیں گردشیں زمانے کی
قمر جلال آبادی
33
غیر تو غیر ھیں اپنے بھی نہ کام آئینگے؟
دوستو وقتِ ضرورت مجھے معلوم نہ تھا
34
غریب ہیں مگر اتنا سمجھ لے اے ساقی
ہمارے دم سے ہے عظمت شراب خانے کی
قمر جلال آبادی
35
غیر کے ہوتے بھلا اے شامِ وصل
کیوں ہمارے روبرو ہونے لگی
36
غیر ممکن ہے کہ حالات کی گھتی سلجھے
اہلِ دانش نے بہت سوچ کے الجھائی ہے
37
غنچوں کی نادانی دیکھو
ہنستے ہیں مرجھانے پر بھی
سیف الدین
38
غرض کی زندگی مطلب کی دنیا
کہاں رکھوں دلِ بے مُدعا کو
شکیل بدایونی
39
غنیمت ہے جہانِ عاشقی میں ذات دونوں کی
کہ نامِ جور قائم تم سے ہے رسمِ وفا مجھ سے
40
غمِ دنیا نے ہمیں جب کبھی ناشاد کیا
اے غمِ دوست تجھے ہم نے بہت یاد کیا
41
غمِ بلبل چمن میں کم نہیں ہے
یہ آنسو گل کے ہیں شبنم نہیں ہے
قمر جلال آبادی
42
غریب خانہ میں لِلہ دو گھڑی بیٹھو
بہت دِنوں میں، تم آئے ہو اِس گلی کی طرف
43
غیر ممکن ہے ترے گھر کے گلابوں کا شمار
میرے رِستے ہُوئے زخموں کے حسابوں کی طرح
پروین شاکر
44
غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا؟ کیجئے ہائے ہائے کیوں؟
غالب
45
غُنچے ہیں ، گُل ہیں ، سبزہ ہے، ابر بہار ہے
سب جمع ہو چکے ہیں، تِرا انتظار ہے
46
غیروں سے کہا تم نے، غیروں سے سُنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا، کچھ ہم سے سُنا ہوتا
47
غیر ممکن ہے کرم تو جور اے قائل سہی
ہم سمجھ لیں گے محبت کا یہی حاصل سہی
قمر جلال آبادی
48
غضب کی فتنہ سازی آئے ہے اس آفت ِجاں کو
شرارت خود کرے ہے اورہمیں تہمت لگادے ہے
49
غالبِ نکتہ داں سے کیا نسبت
خاک کو آسماں سے کیا نسبت
غالب
50
غضب ہے ان کا ہنس کر نظریں جھکا لینا
پوچھو تو کہتے هے کچھ نہیں بس یوں ہی
51
غمِ فراق میںکچھ دیر رو ہی لینے دو
بخار کچھ تو دلِ بے قرار کا نکلے
ناصر کاظمی
52
غرض نہیں مجھے اس سے بھی کچھ رہی لیکن
خدا کی اور تری الفت سے مرا سین
ترتیب دادہ: عادل سعیدی دیوبندی
تاریخ: ۱۰/ ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۱۳ / ستمبر ۲۰۱۶ء، بروزِ عیدِ قرباں ۔
........................................
1
غنیم مرگ کے قدموں تلے روندی گئیں آخر
اکڑ کر چلنے والے دب گئے زیرِ زمیں آخر
حفیظ جالندھری
2
غم نہیں گو زمانہ مخالف رہا
بس ہمیں آپ کی اک نظر چاھئے
عبدالمعبود نادان
3
غم کی بے نور گزر گاہوں میں
اک کرن ذوق فزا ہوتی ہے
ناصر کاظمی
4
غنیمت جان لے مل بیٹھنے کو
جدائی کی گھڑی سر پر کھڑی ہے
5
غربت میں ہوں اگر ہم دل ہے، مگر دل وطن میں
سمجھو وہیں ہمیں بھی، دل ہو جہاں ہمارا
اقبال
6
غم غلط کرنے کی یہ صورت ہے
صبر پہ مسکرائے جاتے ہیں
انیس الہ آبادی
7
غیر سے تم کو بہت ربط ہے مانا لیکن
یہ تماشا تو میرے بعد بھی ہو سکتا تھا
8
غیر سے ملنا تمہارا سن کے گو ہم چپ رہے
پر سنا ہوگا کہ تم کو اک جہاں نے کیا کہا
قیام الدین قائم
9
غضب ہے کہ دل میں تو رکھو کدورت
کرو منہ پہ ہم سے صفائی کی باتیں
10
غزل اس نے چھیڑی، مجھے ساز دینا
ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا
صفی لکھنوی
11
غیروں سے پوچھتی ہے طریقہ نجات کا
اپنوں کی سازشوں سے پریشان زندگی
12
غمِ حیات سے گھبرا کے بندگانِ خدا
چلے ہیں جانبِ میخانہ خودکشی کےلئے
ماہر القادری
13
غم بھی دیئے تو یوں کہ نہ واپس لئے کبھی
اُن کے ہماری ذات پر احسان ہی رہے
14
غمِ دوراں غمِ جاناں کا نشاں ہے کہ جو تھا
وصفِ خوباں بہ حدیثِ دگراں ہے کہ جو تھا
عابد علی عابد
15
غلط تھے وعدے پر میں یقین رکھتا تھا
وہ شخص لہجہ بڑا دل نشین رکھتا تھا
16
غم نہ اپنا، نہ اب خوشی اپنی
یعنی دنیا بدل گئی اپنی
خوشتر کھنڈوی
17
غم زمانہ تیری ظلمتیں ہی کیا کم تھیں
کہ بڑھ چلے اب ان گیسوؤں کے بھی سائے
18
غمِ زندگی اک مسلسل عذاب
غمِ زندگی سے مفر بھی نہیں
غلام ربانی تاباں
19
غموں کی بھیڑ میں امید کا وہ عالم ہے
کہ جیسے ایک سخی ہو کئی گداؤں میں
20
غمِ حبیب، غمِ زندگی، غمِ دوراں
کسی مقام پہ ہم جی برا نہیں کرتے
احمد ریاض
21
غروبِ خاور سے کچھ ہی پہلے جدا ہوئے ہم
وہ وقت گرچہ زوال کا تھا،کمال کا تھا
22
غم ہے یا خوشی ہے تو
میری زندگی ہے تو
ناصر کاظمی
23
غم ان کا مجھے اس لئے مرغوب ہے ناصح
کہ ان کے غم میں، غمِ ایں واں نہیں ہوتا
عزیزالحسن مجذوب
24
غیرتِ اہلِ چمن کو کیا ہوا
چھوڑ آئے آشیاں جلتا ہوا
25
غرور اتنا نہ کر تیرِ ستم پر
کہ اکثر چوک جاتا ہے نشانہ
قمر جلال آبادی
26
غم سے نازک ضبطِ غم کی بات ہے
یہ بھی دریا ہے مگر ٹھہرا ہوا
27
غواص گر اندیشہ کند کام نہنگ
ہرگز نکند در گرانمایہ بہ چنگ
28
غلط ہو آپ کا وعدہ کوئی خدا نہ کرے
مگر حضور کو عادت ہے بھول جانے کی
قمر جلال آبادی
29
غم سے چھٹ کر یہ غم ہے مجھ کو
کیوں غم سے نجات ہو گئی ہے
فراق
30
غمگسارو بہت اُداس ہوں میں
آج دل بہلا سکو تو آ جاؤ
سیف الدین
31
غیر ہی موردِ عِنایت ہے !
ہم بھی تو تم سے پیار رکھتے ہیں
32
غرور ان کا بجا ہے بہ فیضِ جامِ شراب
کہ ان کے ہاتھ میں ہیں گردشیں زمانے کی
قمر جلال آبادی
33
غیر تو غیر ھیں اپنے بھی نہ کام آئینگے؟
دوستو وقتِ ضرورت مجھے معلوم نہ تھا
34
غریب ہیں مگر اتنا سمجھ لے اے ساقی
ہمارے دم سے ہے عظمت شراب خانے کی
قمر جلال آبادی
35
غیر کے ہوتے بھلا اے شامِ وصل
کیوں ہمارے روبرو ہونے لگی
36
غیر ممکن ہے کہ حالات کی گھتی سلجھے
اہلِ دانش نے بہت سوچ کے الجھائی ہے
37
غنچوں کی نادانی دیکھو
ہنستے ہیں مرجھانے پر بھی
سیف الدین
38
غرض کی زندگی مطلب کی دنیا
کہاں رکھوں دلِ بے مُدعا کو
شکیل بدایونی
39
غنیمت ہے جہانِ عاشقی میں ذات دونوں کی
کہ نامِ جور قائم تم سے ہے رسمِ وفا مجھ سے
40
غمِ دنیا نے ہمیں جب کبھی ناشاد کیا
اے غمِ دوست تجھے ہم نے بہت یاد کیا
41
غمِ بلبل چمن میں کم نہیں ہے
یہ آنسو گل کے ہیں شبنم نہیں ہے
قمر جلال آبادی
42
غریب خانہ میں لِلہ دو گھڑی بیٹھو
بہت دِنوں میں، تم آئے ہو اِس گلی کی طرف
43
غیر ممکن ہے ترے گھر کے گلابوں کا شمار
میرے رِستے ہُوئے زخموں کے حسابوں کی طرح
پروین شاکر
44
غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا؟ کیجئے ہائے ہائے کیوں؟
غالب
45
غُنچے ہیں ، گُل ہیں ، سبزہ ہے، ابر بہار ہے
سب جمع ہو چکے ہیں، تِرا انتظار ہے
46
غیروں سے کہا تم نے، غیروں سے سُنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا، کچھ ہم سے سُنا ہوتا
47
غیر ممکن ہے کرم تو جور اے قائل سہی
ہم سمجھ لیں گے محبت کا یہی حاصل سہی
قمر جلال آبادی
48
غضب کی فتنہ سازی آئے ہے اس آفت ِجاں کو
شرارت خود کرے ہے اورہمیں تہمت لگادے ہے
49
غالبِ نکتہ داں سے کیا نسبت
خاک کو آسماں سے کیا نسبت
غالب
50
غضب ہے ان کا ہنس کر نظریں جھکا لینا
پوچھو تو کہتے هے کچھ نہیں بس یوں ہی
51
غمِ فراق میںکچھ دیر رو ہی لینے دو
بخار کچھ تو دلِ بے قرار کا نکلے
ناصر کاظمی
52
غرض نہیں مجھے اس سے بھی کچھ رہی لیکن
خدا کی اور تری الفت سے مرا سین