زیز رکھتے ہیں
....................
بڑا مزہ ہو جو محشر میں ہم کریں شکوہ !
وہ مِنّتوں سے کہے چُپ رہوخُدا کے لئے
....................
بڑے مزے سے گُزرتی ہے بیخودی میں امِیر
خدا وہ دن نہ دِکھائے کہ ہوشیار ہوں میں
....................
بہت مُشکل ہے دُنیا کا سنْوَرنا
تِری زُلفوں کا پیچ وخم نہیں ہے
....................
بے آبرُو، نہ تھی کوئی لغزش مِری قتیل !
میں جب گِرا، جہاں بھی گِرا ہوش میں گِرا
....................
بدلی وہ وضع، طور سے بے طور ہو گئے !
تم تو، شباب آتے ہی ، کچھ اور ہو گئے
....................
بزمِ الست ،۔۔۔ دارِ فنا ،۔ ۔۔۔۔ جلوہ گاہِ حشر
پُہنچی ہے لے کے اُن کی تمنّا کہاں کہاں
....................
بے سبب ترکِ تعلق کا بڑا رنج ہُوا !
لاکھ رنجش سہی، اِک عمر کا یارانہ تھا
....................
باتیں بھی مجھ سے کِیں، مِری خاطر بھی کی بہت
لیکن، مجال کیا، جو نظر سے نظر ملے
....................
بھیگ جاتی ہیں اِس اُمّید پر آنکھیں ہر شام
شاید اِس رات وہ مہتاب لبِ جُو آئے
....................
بخدا ہند کے پُرزے بھی غضب ڈھاتے ہیں !
یہ غلط ہے کہ، ولایت کا ہی مال اچھا ہے
....................
بہاروں میں بھی مے سے پرہیز توبہ !
خمار آپ کافر ہُوئے جا رہے ہیں
....................
بیگانہ وار اُن سے ملاقات ہو تو ہو
اب دُوردُور ہی سے کوئی بات ہو تو ہو
....................
برقِ غیرت مِری ہستی کو جَلادے، تسلیم!
چُھپ کے پردہ میں رہے حُسن، یہ منظوُر نہیں
....................
بُرا نہ مان اگر یار کچُھ بُرا کہہ دے !
دِلوں کے کھیل میں خود داریاں نہیں چلتیں
....................
بہت گھٹن ہے کوئی صورتِ بیاں نکلے
اگر صدا نہ اٹھے، کم سے کم فغاں نکلے
....................
بَلا میں پھنستا ہےدل، مُفت جان جاتی ہے
خُدا کسی کو نہ لیجائے اُس گلی کی طرف
....................
بات کچھ دن کی ہے موسم تو بدل جانے دے
تیری آنکھوں کے لیے خواب نئے لاؤں گا
....................
بلا کے شوخ ہیں، بے طرح کام کرتے ہیں
نظر مِلاتے ہی قصّہ تمام کرتے ہیں
....................
بھانپ ہی لیں گے اشارہ سر محفل جو کیا
تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہی
....................
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں
....................
بےرخی سے اہلِ دنیا کی نہ تو مایوس ہو
آج ٹھوکر میں ہے کل سر پر بٹھایا جائےگا
....................
بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
....................
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
....................
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مِرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتّے ہوا دینے لگے
....................
بات چاہے بے سلیقہ ہو مگر
بات کرنے کا سلیقہ چاہیئے
....................
بارشِ غم نہ ہو آنکھوں سے اگر
دل وہ بستی ہے اجڑ جاتی ہے
....................
بارش شرابِ عرش ہے یہ سوچ کر عدم ؟؟
بارش کے سب حروف کو اُلٹا کے پی گیا۔۔
....................
بے غرض پرسش پہ بھی ہوتی ہے اب سرگوشیاں
اس زمانہ میں خلوص واقعی بھی جرم ہے
....................
بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی، اور کافری کیا ہے
....................
بہتر دنوں کی آس لگاتے ہوئے قتیل
ہم بہترین دن بھی گنواتے چلے گئے
....................
بات بے بات بولنے والے
کیوں زباں پر سکوت طاری ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حروف ب سے اشعار ❷
ترتیب دادہ: نُون میم : نوؔرمحمد ابن بشیر
1
بہزاد ہر اک گام پہ اک سجدہٴ مستی
ہر ذرّے کو سنگ در جاناناں بنا دے
2
برسات کا تو موسم، کب کا نکل گیا پر
مژگاں کی یہ گھٹائیں، اب تک برستیاں ہیں
3
بستی ہی چھُپالی پھر، اُس شخص نے ہاتھوں میں
اتنا جو کہا میں نے، اک شہر بسانا ہے
4
برس رہی ہے حریمِ ہوس میں دولتِ حسن
گدائے عشق کے کاسے میں ایک نظر بھی نہیں
نگاہِ شوق سرِ بزم بے حجاب نہ ہو
وہ بے خبر ہی سہی اتنے بے خبر بھی نہیں
5
بہت آرزو تھی گلی کی تری
سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے
6
بڑا ہی ناز تھا دِل کو جِنکی وفاؤں پر
معلوم نہیںتھا کہ وہ ہستی ہم کو بھول جائیگی
7
بول اے شامِ سفر، رنگِ رہائی کیا ہے؟
دل کو رکنا ہے کہ تاروں کو ٹھہر جانا ہے
8
بہت دل کر کے ہونٹوں کی شگفتہ تازگی دی ہے
چمن مانگا تھا پر اُس نے بمشکل اک کلی دی ہے
9
بارش سے دوستی اچھی نہیں فراز
کچا تیرا مکان ھے کجھ تو خیال کر
10
بدنصیبی کا میںقائل تو نہیںہوں لیکن
میںنے برسات میں جلتے گھر دیکھے ہیں
11
بارش سے دوستی اچھی نہیں فراز
کچا تیرا مکان ھے کجھ تو خیال کر
12
بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں
کچھ باغباں ھیں برق و شرر سے ملے ھوے
13
باطل نے اپنے زعم میں حق کو مٹا دیا
مٹتا نہیں ہے حق کبھی، حق نے بتادیا
14
بساطِ عشق پہ ہم نے تو ہنس کے مات سہی
وہ باز
....................
بڑا مزہ ہو جو محشر میں ہم کریں شکوہ !
وہ مِنّتوں سے کہے چُپ رہوخُدا کے لئے
....................
بڑے مزے سے گُزرتی ہے بیخودی میں امِیر
خدا وہ دن نہ دِکھائے کہ ہوشیار ہوں میں
....................
بہت مُشکل ہے دُنیا کا سنْوَرنا
تِری زُلفوں کا پیچ وخم نہیں ہے
....................
بے آبرُو، نہ تھی کوئی لغزش مِری قتیل !
میں جب گِرا، جہاں بھی گِرا ہوش میں گِرا
....................
بدلی وہ وضع، طور سے بے طور ہو گئے !
تم تو، شباب آتے ہی ، کچھ اور ہو گئے
....................
بزمِ الست ،۔۔۔ دارِ فنا ،۔ ۔۔۔۔ جلوہ گاہِ حشر
پُہنچی ہے لے کے اُن کی تمنّا کہاں کہاں
....................
بے سبب ترکِ تعلق کا بڑا رنج ہُوا !
لاکھ رنجش سہی، اِک عمر کا یارانہ تھا
....................
باتیں بھی مجھ سے کِیں، مِری خاطر بھی کی بہت
لیکن، مجال کیا، جو نظر سے نظر ملے
....................
بھیگ جاتی ہیں اِس اُمّید پر آنکھیں ہر شام
شاید اِس رات وہ مہتاب لبِ جُو آئے
....................
بخدا ہند کے پُرزے بھی غضب ڈھاتے ہیں !
یہ غلط ہے کہ، ولایت کا ہی مال اچھا ہے
....................
بہاروں میں بھی مے سے پرہیز توبہ !
خمار آپ کافر ہُوئے جا رہے ہیں
....................
بیگانہ وار اُن سے ملاقات ہو تو ہو
اب دُوردُور ہی سے کوئی بات ہو تو ہو
....................
برقِ غیرت مِری ہستی کو جَلادے، تسلیم!
چُھپ کے پردہ میں رہے حُسن، یہ منظوُر نہیں
....................
بُرا نہ مان اگر یار کچُھ بُرا کہہ دے !
دِلوں کے کھیل میں خود داریاں نہیں چلتیں
....................
بہت گھٹن ہے کوئی صورتِ بیاں نکلے
اگر صدا نہ اٹھے، کم سے کم فغاں نکلے
....................
بَلا میں پھنستا ہےدل، مُفت جان جاتی ہے
خُدا کسی کو نہ لیجائے اُس گلی کی طرف
....................
بات کچھ دن کی ہے موسم تو بدل جانے دے
تیری آنکھوں کے لیے خواب نئے لاؤں گا
....................
بلا کے شوخ ہیں، بے طرح کام کرتے ہیں
نظر مِلاتے ہی قصّہ تمام کرتے ہیں
....................
بھانپ ہی لیں گے اشارہ سر محفل جو کیا
تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہی
....................
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں
....................
بےرخی سے اہلِ دنیا کی نہ تو مایوس ہو
آج ٹھوکر میں ہے کل سر پر بٹھایا جائےگا
....................
بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
....................
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
....................
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مِرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتّے ہوا دینے لگے
....................
بات چاہے بے سلیقہ ہو مگر
بات کرنے کا سلیقہ چاہیئے
....................
بارشِ غم نہ ہو آنکھوں سے اگر
دل وہ بستی ہے اجڑ جاتی ہے
....................
بارش شرابِ عرش ہے یہ سوچ کر عدم ؟؟
بارش کے سب حروف کو اُلٹا کے پی گیا۔۔
....................
بے غرض پرسش پہ بھی ہوتی ہے اب سرگوشیاں
اس زمانہ میں خلوص واقعی بھی جرم ہے
....................
بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی، اور کافری کیا ہے
....................
بہتر دنوں کی آس لگاتے ہوئے قتیل
ہم بہترین دن بھی گنواتے چلے گئے
....................
بات بے بات بولنے والے
کیوں زباں پر سکوت طاری ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
حروف ب سے اشعار ❷
ترتیب دادہ: نُون میم : نوؔرمحمد ابن بشیر
1
بہزاد ہر اک گام پہ اک سجدہٴ مستی
ہر ذرّے کو سنگ در جاناناں بنا دے
2
برسات کا تو موسم، کب کا نکل گیا پر
مژگاں کی یہ گھٹائیں، اب تک برستیاں ہیں
3
بستی ہی چھُپالی پھر، اُس شخص نے ہاتھوں میں
اتنا جو کہا میں نے، اک شہر بسانا ہے
4
برس رہی ہے حریمِ ہوس میں دولتِ حسن
گدائے عشق کے کاسے میں ایک نظر بھی نہیں
نگاہِ شوق سرِ بزم بے حجاب نہ ہو
وہ بے خبر ہی سہی اتنے بے خبر بھی نہیں
5
بہت آرزو تھی گلی کی تری
سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے
6
بڑا ہی ناز تھا دِل کو جِنکی وفاؤں پر
معلوم نہیںتھا کہ وہ ہستی ہم کو بھول جائیگی
7
بول اے شامِ سفر، رنگِ رہائی کیا ہے؟
دل کو رکنا ہے کہ تاروں کو ٹھہر جانا ہے
8
بہت دل کر کے ہونٹوں کی شگفتہ تازگی دی ہے
چمن مانگا تھا پر اُس نے بمشکل اک کلی دی ہے
9
بارش سے دوستی اچھی نہیں فراز
کچا تیرا مکان ھے کجھ تو خیال کر
10
بدنصیبی کا میںقائل تو نہیںہوں لیکن
میںنے برسات میں جلتے گھر دیکھے ہیں
11
بارش سے دوستی اچھی نہیں فراز
کچا تیرا مکان ھے کجھ تو خیال کر
12
بے وجہ تو نہیں ہیں چمن کی تباہیاں
کچھ باغباں ھیں برق و شرر سے ملے ھوے
13
باطل نے اپنے زعم میں حق کو مٹا دیا
مٹتا نہیں ہے حق کبھی، حق نے بتادیا
14
بساطِ عشق پہ ہم نے تو ہنس کے مات سہی
وہ باز
ی جیت گیا بازی اس کے ہاتھ سہی
15
بجا کہ خار ہیں لیکن بہار کی رُت میں
یہ طے ہے اب کے ہمیں بھی نہال ہونا
16
بجھنے نہیں دوں گا میں کبھی ہجر کے صدمے
دل میں تری یادوں کا شرر کانپ رہا ہے
17
بس اتنی سی حقيقت ہے فقط اس خواب ہستی کی
کہ آنکھيں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہو جاۓ
18
بول اے شامِ سفر، رنگِ رہائی کیا ہے؟
دل کو رکنا ہے کہ تاروں کو ٹھہر جانا ہے
19
بہار آئے تو ہر اک پھول پر اک ساتھ آتی ہے
ہوا جن کا مقدر ہو وہ شاخوں میں نہیں رہتے
20
بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
21
بہت عجیب سے لہجے میں بات کرتا ہے
ہے آج پھول میں کچھ امتزاج کانٹوں کا
22
بہت دل کر کے ہونٹوں کی شگفتہ تازگی دی ہے
چمن مانگا تھا پر اُس نے بمشکل اک کلی دی ہے
23
برف کے روپ میں ڈھل جائیں گے سارے رشتے
مجھ سے پوچھو کہ محبت کی اَگن کیسی ہے
24
بس جان چلی جائے گی آشفتہ سروں کی
کیا ہو گا محبت میں زیادہ سے زیادہ
25
بھول جانا مجھے آسان نہیں ہے اتنا
باتوں باتوں میں ہی باتوں سے نکل آوَں گا
26
بھول جانا تو رسمِ دنیا ہے
آپ نے کون سا کمال کیا
27
بات یونہی تو نہیں کرتا ہوں میں رک رک کر
کیا بتاوَں کہ میرا دھیان کہاں جاتا ہے
28
بہت نزدیک آتے جا رہے ہو
بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا
29
بولے تو سہی،جھوٹ ہی بولے وہ بلا سے
ظالم کا لب و لہجہ دل آویز بہت ہے
30
بہت محسوس ہوتا ہے ۔۔۔
تیرا محسوس نہ کرنا۔۔۔!!!۔
________________
31
بدن میں رُوح کی مانند تری انمول سوچوں میں
مجھے دل سے بتاؤ تم محبت سانس لیتی ہے
________________
32
ﺑﮯ فائده ﮨﮯ ﺯیست ﻣﯿﮟ ﺍﺣﺒﺎﺏ ﮐﺎ ﮨﺠﻮﻡ
ﮨﻮ ﭘﯿﮑﺮ ﺧﻠﻮﺹ ﺗﻮ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﮯ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ
________________
33
ﺑﮑﻬﺮ ﮔﺌﮯ ﺭَﻗﺺِ ﺍُﻟﻔﺖ ﻣﯿﮟ ۔ ۔ ۔
ﮐﺒﮭﯽ ﮔﮭﻮﻧﮕﮭﺮﻭ ﮐﺒﮭﯽ ﭘﺎ ﺅﮞ ۔
34
بس ایک تو تھا جسے رائیگاں کیا میں نے
اور ایک عشق تھا جو بے پناہ مجھ سے ہوا
35
بے کسی سے بڑی امیدیں ہیں
تم کوئی آسرا نہ دے جانا
________________
36
بندے کے قلم ہاتھ میں ہوتا تو غضب تھا
صد شکر کہ ہے کاتبِ تقدیر کوئی اور!!!
نظیر اکبر آبادی
37
بڑے سکون سے رخصت تو کر دیا اُس کو
پھر اُس کے بعد، محبت نے انتہا کر دی
________________
38
برباد کر دیا دونو کی لڑائی نے مجھے
نا عشق ہار مانتا ہی نہ دل شکست دیتاہے...!
39
بے علم بھی ہم لوگ ہیں غفلت بھی ہے طاری
افسوس کہ اندھے بھی ہیں اور سو بھی رہے ہیں
________________
40
بیان کر دیں جو ٹوٹے ہوئے دِل کی حالت
یقین مانئے الفاظ کی رگیں پھٹ جائے
________________
41
بڑھ گیا تھا پیاس کا احساس دریا دیکھ کر
ہم پلٹ آئے مگر پانی کو پیاسا دیکھ کر
________________
42
بات سجدوں کی نہیں خلو ص دِل کی ہوتی ہے اقبال
ہر میخا نے میں شرابی اور ہر مسجد میں نمازی نہیں ہوتا
43
بھُول جانا بہت کٹھن تھا بتول!۔۔
ہم نے کیا کیا جواز ڈھونڈے ہیں
________________
44
بھول جانے کا فلسفہ چھوڑو
یاد کرنے کی بات کرتے ہیں
فاخرہ بتول
45
بہت جلدی سمجھ میں آنے لگتے ہو زمانے کی
بہت آسان ہو دیکھو، تھوڑے دشوار ہو جاؤ
________________
46
بہت سے لوگوں نے سینے پہ ہاتھ رکھے ہیں
یہ تیر آج مِرے دل میں چبھ گیا بھی تو کیا ؟؟؟
________________
47
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو میرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
________________
48
بارش شرابِ عرش ہے یہ سوچ کر عدم
بارش کے سب حروف کو الٹا کر پی گیا
________________
49
بزمِ ہستی! اپنی آرائش پہ تو نازاں نہ ہو
تو ایک تصویر ہے محفل کی اور محفل ہوں میں
50
بے رخی ہی تیرے مجرم کے لئے کافی ہے
اس سے منہ موڑ لے کوئی اور سزا رہنے دے
________________
51
بہت مشکل ہے ترکِ عاشقی کا درد سہنا بھی
بہت دشوار ہے لیکن محبت کرتے رہنا بھی
________________
52
بلا کی افراتفری ہے، ہماری ذات میں یہ کہ
ہم ہی بے دھیانی میں ترے دھیان میں لگے رہتے ہیں
________________
53
بھر آئیں نا آنکھیں تو اک بات کہوں
اب تم سے بچھڑنے کا امکاں بہت ہے
________________
54
بڑے سکون سے رخصت تو کر دیا اُس کو
پھر اُس کے بعد، محبت نے انتہا کر دی
________________
55
بدلا ہوا آج میرے آنسوؤں کا رنگ
پھر دل کے زخم کا کوئی ٹانکا اُدھڑ گیا
________________
56
بکھرا وجود، ٹوٹے خواب، سلگتی تنہائیاں
کتنے حسین تحفے دے جاتی ہے یہ محبت بھی
________________
57
با خبر ہوں میں کہ یکسر بے خبر، دیکھے گا کون
جب کسی میں بھی نہیں میری نظر ، دیکھے گا کون!۔۔
________________
58
بہت محسوس ہوتا ہے ۔۔۔
تیرا محسوس نہ کرنا۔۔۔!!!۔
________________
59
بدن میں رُوح کی مانند تری انمول سوچوں میں
مجھے دل سے بتاؤ تم محبت سانس لیتی ہے
________________
60
ﺑﮯ فائده ﮨﮯ ﺯیست ﻣﯿﮟ ﺍﺣﺒﺎﺏ ﮐﺎ ﮨﺠﻮﻡ
ﮨﻮ ﭘﯿﮑﺮ ﺧﻠﻮﺹ ﺗﻮ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﮯ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ
________________
61
ﺑﮑﻬﺮ ﮔﺌﮯ ﺭَﻗﺺِ ﺍُﻟﻔﺖ ﻣﯿﮟ ۔ ۔ ۔
ﮐﺒﮭﯽ ﮔﮭﻮﻧﮕﮭﺮﻭ ﮐﺒﮭﯽ ﭘﺎ
15
بجا کہ خار ہیں لیکن بہار کی رُت میں
یہ طے ہے اب کے ہمیں بھی نہال ہونا
16
بجھنے نہیں دوں گا میں کبھی ہجر کے صدمے
دل میں تری یادوں کا شرر کانپ رہا ہے
17
بس اتنی سی حقيقت ہے فقط اس خواب ہستی کی
کہ آنکھيں بند ہوں اور آدمی افسانہ ہو جاۓ
18
بول اے شامِ سفر، رنگِ رہائی کیا ہے؟
دل کو رکنا ہے کہ تاروں کو ٹھہر جانا ہے
19
بہار آئے تو ہر اک پھول پر اک ساتھ آتی ہے
ہوا جن کا مقدر ہو وہ شاخوں میں نہیں رہتے
20
بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
21
بہت عجیب سے لہجے میں بات کرتا ہے
ہے آج پھول میں کچھ امتزاج کانٹوں کا
22
بہت دل کر کے ہونٹوں کی شگفتہ تازگی دی ہے
چمن مانگا تھا پر اُس نے بمشکل اک کلی دی ہے
23
برف کے روپ میں ڈھل جائیں گے سارے رشتے
مجھ سے پوچھو کہ محبت کی اَگن کیسی ہے
24
بس جان چلی جائے گی آشفتہ سروں کی
کیا ہو گا محبت میں زیادہ سے زیادہ
25
بھول جانا مجھے آسان نہیں ہے اتنا
باتوں باتوں میں ہی باتوں سے نکل آوَں گا
26
بھول جانا تو رسمِ دنیا ہے
آپ نے کون سا کمال کیا
27
بات یونہی تو نہیں کرتا ہوں میں رک رک کر
کیا بتاوَں کہ میرا دھیان کہاں جاتا ہے
28
بہت نزدیک آتے جا رہے ہو
بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا
29
بولے تو سہی،جھوٹ ہی بولے وہ بلا سے
ظالم کا لب و لہجہ دل آویز بہت ہے
30
بہت محسوس ہوتا ہے ۔۔۔
تیرا محسوس نہ کرنا۔۔۔!!!۔
________________
31
بدن میں رُوح کی مانند تری انمول سوچوں میں
مجھے دل سے بتاؤ تم محبت سانس لیتی ہے
________________
32
ﺑﮯ فائده ﮨﮯ ﺯیست ﻣﯿﮟ ﺍﺣﺒﺎﺏ ﮐﺎ ﮨﺠﻮﻡ
ﮨﻮ ﭘﯿﮑﺮ ﺧﻠﻮﺹ ﺗﻮ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﮯ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ
________________
33
ﺑﮑﻬﺮ ﮔﺌﮯ ﺭَﻗﺺِ ﺍُﻟﻔﺖ ﻣﯿﮟ ۔ ۔ ۔
ﮐﺒﮭﯽ ﮔﮭﻮﻧﮕﮭﺮﻭ ﮐﺒﮭﯽ ﭘﺎ ﺅﮞ ۔
34
بس ایک تو تھا جسے رائیگاں کیا میں نے
اور ایک عشق تھا جو بے پناہ مجھ سے ہوا
35
بے کسی سے بڑی امیدیں ہیں
تم کوئی آسرا نہ دے جانا
________________
36
بندے کے قلم ہاتھ میں ہوتا تو غضب تھا
صد شکر کہ ہے کاتبِ تقدیر کوئی اور!!!
نظیر اکبر آبادی
37
بڑے سکون سے رخصت تو کر دیا اُس کو
پھر اُس کے بعد، محبت نے انتہا کر دی
________________
38
برباد کر دیا دونو کی لڑائی نے مجھے
نا عشق ہار مانتا ہی نہ دل شکست دیتاہے...!
39
بے علم بھی ہم لوگ ہیں غفلت بھی ہے طاری
افسوس کہ اندھے بھی ہیں اور سو بھی رہے ہیں
________________
40
بیان کر دیں جو ٹوٹے ہوئے دِل کی حالت
یقین مانئے الفاظ کی رگیں پھٹ جائے
________________
41
بڑھ گیا تھا پیاس کا احساس دریا دیکھ کر
ہم پلٹ آئے مگر پانی کو پیاسا دیکھ کر
________________
42
بات سجدوں کی نہیں خلو ص دِل کی ہوتی ہے اقبال
ہر میخا نے میں شرابی اور ہر مسجد میں نمازی نہیں ہوتا
43
بھُول جانا بہت کٹھن تھا بتول!۔۔
ہم نے کیا کیا جواز ڈھونڈے ہیں
________________
44
بھول جانے کا فلسفہ چھوڑو
یاد کرنے کی بات کرتے ہیں
فاخرہ بتول
45
بہت جلدی سمجھ میں آنے لگتے ہو زمانے کی
بہت آسان ہو دیکھو، تھوڑے دشوار ہو جاؤ
________________
46
بہت سے لوگوں نے سینے پہ ہاتھ رکھے ہیں
یہ تیر آج مِرے دل میں چبھ گیا بھی تو کیا ؟؟؟
________________
47
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو میرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
________________
48
بارش شرابِ عرش ہے یہ سوچ کر عدم
بارش کے سب حروف کو الٹا کر پی گیا
________________
49
بزمِ ہستی! اپنی آرائش پہ تو نازاں نہ ہو
تو ایک تصویر ہے محفل کی اور محفل ہوں میں
50
بے رخی ہی تیرے مجرم کے لئے کافی ہے
اس سے منہ موڑ لے کوئی اور سزا رہنے دے
________________
51
بہت مشکل ہے ترکِ عاشقی کا درد سہنا بھی
بہت دشوار ہے لیکن محبت کرتے رہنا بھی
________________
52
بلا کی افراتفری ہے، ہماری ذات میں یہ کہ
ہم ہی بے دھیانی میں ترے دھیان میں لگے رہتے ہیں
________________
53
بھر آئیں نا آنکھیں تو اک بات کہوں
اب تم سے بچھڑنے کا امکاں بہت ہے
________________
54
بڑے سکون سے رخصت تو کر دیا اُس کو
پھر اُس کے بعد، محبت نے انتہا کر دی
________________
55
بدلا ہوا آج میرے آنسوؤں کا رنگ
پھر دل کے زخم کا کوئی ٹانکا اُدھڑ گیا
________________
56
بکھرا وجود، ٹوٹے خواب، سلگتی تنہائیاں
کتنے حسین تحفے دے جاتی ہے یہ محبت بھی
________________
57
با خبر ہوں میں کہ یکسر بے خبر، دیکھے گا کون
جب کسی میں بھی نہیں میری نظر ، دیکھے گا کون!۔۔
________________
58
بہت محسوس ہوتا ہے ۔۔۔
تیرا محسوس نہ کرنا۔۔۔!!!۔
________________
59
بدن میں رُوح کی مانند تری انمول سوچوں میں
مجھے دل سے بتاؤ تم محبت سانس لیتی ہے
________________
60
ﺑﮯ فائده ﮨﮯ ﺯیست ﻣﯿﮟ ﺍﺣﺒﺎﺏ ﮐﺎ ﮨﺠﻮﻡ
ﮨﻮ ﭘﯿﮑﺮ ﺧﻠﻮﺹ ﺗﻮ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﮯ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ
________________
61
ﺑﮑﻬﺮ ﮔﺌﮯ ﺭَﻗﺺِ ﺍُﻟﻔﺖ ﻣﯿﮟ ۔ ۔ ۔
ﮐﺒﮭﯽ ﮔﮭﻮﻧﮕﮭﺮﻭ ﮐﺒﮭﯽ ﭘﺎ
ﺅﮞ
62
بس ایک تو تھا جسے رائیگاں کیا میں نے
اور ایک عشق تھا جو بے پناہ مجھ سے ہوا
63
بے کسی سے بڑی امیدیں ہیں
تم کوئی آسرا نہ دے جانا
________________
64
بندے کے قلم ہاتھ میں ہوتا تو غضب تھا
صد شکر کہ ہے کاتبِ تقدیر کوئی اور!!!
نظیر اکبر آبادی
________________
65
بڑے سکون سے رخصت تو کر دیا اُس کو
پھر اُس کے بعد، محبت نے انتہا کر دی
________________
66
بے ربط سی تحریر عبارت نہیں ہوتی
ہاتھوں کی لکیروں میں تو قسمت نہیں ہوتی
67
بے مانگے دردِ عشق وغم جاں گذا دیا
سب کچھ ہمارے پاس ہے اللہ کا دیا
68
بہت ہیں ابھی، جن میں عزت ہے باقی
دلیری نہیں، پر حمیت ہے باقی
رباعی
69
بس بس کے ہزاروں گھر اجڑ جاتے ہیں
گڑگڑ کے علم لا کھوں اکھڑ جاتے ہیں
آج اس کی ہے نوبت تو کل اس کی ہے باری
بن بن کے یوں ہی کھیل بگڑ جاتے ہیں
70
بے پردہ کل جو آئیںنظرچند بیویاں
اکبر زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کے پڑ گیا
71
بتوںسے میل، خدا پر نظر،یہ خوب کہی
شبِ گناہ ونمازسحر،یہ خوب کہی
72
بہار آئی کھلے گلزیب صحن بو ستاں ہو کر
عنادل نے چھائیدھوم سر گرمِ فغاں ہو کر
73
بنو گے خسروِ اقلیم دل، شیریںزباں ہو کر
جہا نگیری کر ے گی یہ ادا نورِ جہاں ہو کر
74
بگڑے ہزار ہم سے کوئی شاد، غم نہیں
ہم سے،بنا نے والا ہمارا خفا نہ ہو
75
بہار آئی دکھائی قادرِ مطلق کی شان اس نے
زمیں کی تہ میں جو مردے تھے ڈالی ان میں جاں اس نے
76
بیٹھے نظر آتے ہیں وہی تیری گلی میں
جن کا کہیں دنیا میں ٹھکانا نہیں ہو تا
77
بت اپنے کو کیا جانے کیا سمجھتے ہیں
مرا خدا انہیں سمجھے، خدا سمجھتے ہیں
78
بچ جاتے ہیں جوانی میں جو دنیا کی ہوا سے
ہوتا ہے فرشتہ ، کوئی انساں نہیں ہو تا
79
بگڑ کر کوئی بنتا ہے ، کوئی بن کر بگڑتا ہے
یہی دنیا کا نقشہ ہے ، اس کا نام دنیا ہے
80
بنتے بگڑتے دیر نہیںاس جہاں میں
دیکھا ہے بیٹھتا بھی ابھرکر حُباب کا
81
بڑی ہی مصیبت سے تنکے چنے تھے
نہ ٹہرے ہمیں آشیانے کے قابل
82
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفویؐ ہے
83
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا
84
برسوں دشتِ جہالت میں بھٹکے بھٹکے پھرتے ہیں
کھاتے ٹھو کر جب آتے ہیںعقل وشعور کے رستے پر
85
بہکانے والے آپ کے سب یار بن گئے
سمجھا نے والے مفت گنہگار ہو گئے
آج اس کی ہے نوبت تو کل اس کی باری
بن بن کے یوں ہی کھیل بگڑ جاتے ہیں
86
بڑے موذی کو مارا نفس امارہ کو گر مارا
نہنگ واژدھا وشیر ونر مارا تو کیا مارا
87
بر تر از اندیشہ، سود وزیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی
88
بنا مجھ کو اسرارِ مرگ حیاتؔ
کہ تیری نگاہوں میں ہے کائنات
89
بنائیں کیفا سمجھ کر شاخِ گل پر آشیاں اپنا
چمن میں آہ! کیا رہنا جو بے آبرو ہو کر
90
بے خطر کود پڑا آتش ِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
91
بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی، ا ورکافری کیا ہے
92
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسۂ زن
ہے عشق ومحبت کے لئے علم وہنر موت
93
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضربِ کلیمی نہیںرکھتا، وہ ہنر کیا
94
باطل دوئی پسند ہے ، حق لا شریک ہے
شرکت میانہ حق وباطل نہ کر قبول
95
بے زبانی تر جمانِ شوق بے حد ہو تو ہو
ورنہ پیش کار کام آتی ہیں تقریر بھی کہیں
96
باتیں بھی کیں خدا نے دکھایا جمال بھی
اللہ کیا نصیب جنابِ کلیم تھا
97
بے مایہ سہی، کہیں شاید وہ بلا بھیجیں
بھیجی ہیں درودوں کی کچھ ہم نے بھی سو غاتیں
98
بے خوف غیر دل کی اگر تر جماں نہ ہو
بہتر ہے اس سے یہ سرے سے زباں نہ ہو
99
بہت حسیں ہے صحبتیں گلوں کی، مگر
وہ زندگی ہے جو کانٹوں کے درمیاں گذرے
100
با ہمہ ذوق آگہی ، ہائے رے پیشیٔ بشر
سارے جہاں کا جائزہ، اپنے جہاں سے بے خبر
101
بیانِ حال میں پنہاں ہے آرزو مندی
ہے احتساب کے پردے میں مددعا طلبی
102
بر ہم ثبات وصبر کا پیمانہ ہو گیا
اک اپنے ظرف کا اندازہ ہو گیا
103
بے خود میں رہوںتو وہ قریں آتا ہے
پردہ میں وہ پردہ نشیں آتا ہے
وہ جب آتا ہے میں نہیںرہتا ہوں
میں جب رہتا ہوں وہ نہیں آ تاہے
104
بھلا کر گردشِ فلک کی چین دیتی ہے کسے انثا
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں
105
بے درد والم شام غریباںؔ نہیں گذری
دنیا میں کبھی کس کی یکساں نہیں گذری
106
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کے
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا
107
بتوںسے میل، خدا پر نظر،یہ خوب کہی
شبِ گناہ ونمازسحر،یہ خوب کہی
108
بات چاہے بے سلیقہ ہو مگر
بات کرنے کا سلیقہ چاہیئے
109
بہت مشکل ہے سب کو خوش رکھنا نازک جسم والو
کئ ہھاتوں میں رہنےسے کھلونے ٹوٹ جاتے ہیں۔
110
بس ایک بار تیری سمت اُٹھ گئ تھی نظر
راہ حیات سے گزرا ہوں سر جھکائے ہوۓ۔
111
بے خیالی میں
62
بس ایک تو تھا جسے رائیگاں کیا میں نے
اور ایک عشق تھا جو بے پناہ مجھ سے ہوا
63
بے کسی سے بڑی امیدیں ہیں
تم کوئی آسرا نہ دے جانا
________________
64
بندے کے قلم ہاتھ میں ہوتا تو غضب تھا
صد شکر کہ ہے کاتبِ تقدیر کوئی اور!!!
نظیر اکبر آبادی
________________
65
بڑے سکون سے رخصت تو کر دیا اُس کو
پھر اُس کے بعد، محبت نے انتہا کر دی
________________
66
بے ربط سی تحریر عبارت نہیں ہوتی
ہاتھوں کی لکیروں میں تو قسمت نہیں ہوتی
67
بے مانگے دردِ عشق وغم جاں گذا دیا
سب کچھ ہمارے پاس ہے اللہ کا دیا
68
بہت ہیں ابھی، جن میں عزت ہے باقی
دلیری نہیں، پر حمیت ہے باقی
رباعی
69
بس بس کے ہزاروں گھر اجڑ جاتے ہیں
گڑگڑ کے علم لا کھوں اکھڑ جاتے ہیں
آج اس کی ہے نوبت تو کل اس کی ہے باری
بن بن کے یوں ہی کھیل بگڑ جاتے ہیں
70
بے پردہ کل جو آئیںنظرچند بیویاں
اکبر زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کے پڑ گیا
71
بتوںسے میل، خدا پر نظر،یہ خوب کہی
شبِ گناہ ونمازسحر،یہ خوب کہی
72
بہار آئی کھلے گلزیب صحن بو ستاں ہو کر
عنادل نے چھائیدھوم سر گرمِ فغاں ہو کر
73
بنو گے خسروِ اقلیم دل، شیریںزباں ہو کر
جہا نگیری کر ے گی یہ ادا نورِ جہاں ہو کر
74
بگڑے ہزار ہم سے کوئی شاد، غم نہیں
ہم سے،بنا نے والا ہمارا خفا نہ ہو
75
بہار آئی دکھائی قادرِ مطلق کی شان اس نے
زمیں کی تہ میں جو مردے تھے ڈالی ان میں جاں اس نے
76
بیٹھے نظر آتے ہیں وہی تیری گلی میں
جن کا کہیں دنیا میں ٹھکانا نہیں ہو تا
77
بت اپنے کو کیا جانے کیا سمجھتے ہیں
مرا خدا انہیں سمجھے، خدا سمجھتے ہیں
78
بچ جاتے ہیں جوانی میں جو دنیا کی ہوا سے
ہوتا ہے فرشتہ ، کوئی انساں نہیں ہو تا
79
بگڑ کر کوئی بنتا ہے ، کوئی بن کر بگڑتا ہے
یہی دنیا کا نقشہ ہے ، اس کا نام دنیا ہے
80
بنتے بگڑتے دیر نہیںاس جہاں میں
دیکھا ہے بیٹھتا بھی ابھرکر حُباب کا
81
بڑی ہی مصیبت سے تنکے چنے تھے
نہ ٹہرے ہمیں آشیانے کے قابل
82
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفویؐ ہے
83
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا
84
برسوں دشتِ جہالت میں بھٹکے بھٹکے پھرتے ہیں
کھاتے ٹھو کر جب آتے ہیںعقل وشعور کے رستے پر
85
بہکانے والے آپ کے سب یار بن گئے
سمجھا نے والے مفت گنہگار ہو گئے
آج اس کی ہے نوبت تو کل اس کی باری
بن بن کے یوں ہی کھیل بگڑ جاتے ہیں
86
بڑے موذی کو مارا نفس امارہ کو گر مارا
نہنگ واژدھا وشیر ونر مارا تو کیا مارا
87
بر تر از اندیشہ، سود وزیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی
88
بنا مجھ کو اسرارِ مرگ حیاتؔ
کہ تیری نگاہوں میں ہے کائنات
89
بنائیں کیفا سمجھ کر شاخِ گل پر آشیاں اپنا
چمن میں آہ! کیا رہنا جو بے آبرو ہو کر
90
بے خطر کود پڑا آتش ِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
91
بتوں سے تجھ کو امیدیں، خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی، ا ورکافری کیا ہے
92
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسۂ زن
ہے عشق ومحبت کے لئے علم وہنر موت
93
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضربِ کلیمی نہیںرکھتا، وہ ہنر کیا
94
باطل دوئی پسند ہے ، حق لا شریک ہے
شرکت میانہ حق وباطل نہ کر قبول
95
بے زبانی تر جمانِ شوق بے حد ہو تو ہو
ورنہ پیش کار کام آتی ہیں تقریر بھی کہیں
96
باتیں بھی کیں خدا نے دکھایا جمال بھی
اللہ کیا نصیب جنابِ کلیم تھا
97
بے مایہ سہی، کہیں شاید وہ بلا بھیجیں
بھیجی ہیں درودوں کی کچھ ہم نے بھی سو غاتیں
98
بے خوف غیر دل کی اگر تر جماں نہ ہو
بہتر ہے اس سے یہ سرے سے زباں نہ ہو
99
بہت حسیں ہے صحبتیں گلوں کی، مگر
وہ زندگی ہے جو کانٹوں کے درمیاں گذرے
100
با ہمہ ذوق آگہی ، ہائے رے پیشیٔ بشر
سارے جہاں کا جائزہ، اپنے جہاں سے بے خبر
101
بیانِ حال میں پنہاں ہے آرزو مندی
ہے احتساب کے پردے میں مددعا طلبی
102
بر ہم ثبات وصبر کا پیمانہ ہو گیا
اک اپنے ظرف کا اندازہ ہو گیا
103
بے خود میں رہوںتو وہ قریں آتا ہے
پردہ میں وہ پردہ نشیں آتا ہے
وہ جب آتا ہے میں نہیںرہتا ہوں
میں جب رہتا ہوں وہ نہیں آ تاہے
104
بھلا کر گردشِ فلک کی چین دیتی ہے کسے انثا
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں
105
بے درد والم شام غریباںؔ نہیں گذری
دنیا میں کبھی کس کی یکساں نہیں گذری
106
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کے
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا
107
بتوںسے میل، خدا پر نظر،یہ خوب کہی
شبِ گناہ ونمازسحر،یہ خوب کہی
108
بات چاہے بے سلیقہ ہو مگر
بات کرنے کا سلیقہ چاہیئے
109
بہت مشکل ہے سب کو خوش رکھنا نازک جسم والو
کئ ہھاتوں میں رہنےسے کھلونے ٹوٹ جاتے ہیں۔
110
بس ایک بار تیری سمت اُٹھ گئ تھی نظر
راہ حیات سے گزرا ہوں سر جھکائے ہوۓ۔
111
بے خیالی میں
اَندھیروں سے نہ ٹکرا جاۓ
ہے ہاتھوں میں کوئی ہاتھ سحر ہونے تک۔
112
بھولے ہیں رفتہ رفتہ اُنھیں مدتوں میں ہم
قسطوں میں خودکشی کامزہ ہم سے پوچھۓ۔
113
بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں کارواں کتنے
جلا سکو تو جلاؤں صداقتوں کے چراغ۔
114
بہت رہ لئے تم اپنے
اب صرف میرے ہو کے رہو
115
بھری دنیا میں کوئی نظر آتا نہیں اپنا
ادیب اک دور ایسا بھی گزر جاتا ہے انسان پر
ہے ہاتھوں میں کوئی ہاتھ سحر ہونے تک۔
112
بھولے ہیں رفتہ رفتہ اُنھیں مدتوں میں ہم
قسطوں میں خودکشی کامزہ ہم سے پوچھۓ۔
113
بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں کارواں کتنے
جلا سکو تو جلاؤں صداقتوں کے چراغ۔
114
بہت رہ لئے تم اپنے
اب صرف میرے ہو کے رہو
115
بھری دنیا میں کوئی نظر آتا نہیں اپنا
ادیب اک دور ایسا بھی گزر جاتا ہے انسان پر
حرف پ سے اشعار!!
ترتیب دادہ: عادل سعیدی دیوبندی
تاریخ: ۳ / ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۷ / ستمبر ۲۰۱۶ء ۔
........................................
پھول برسائے یہ کہہ کر اس نے
میرا دیوانہ ہے دیوانۂ گُل
....................
پرساں نہ تھا کوئی تو یہ رسوائیاں نہ تھیں
ظاہر کسی پہ حالِ پریشاں نہ تھا کبھی
....................
پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
....................
پھر کسی گُل کا اشارہ پا کر
چاند نکلا سرِ مے خانۂ گُل
....................
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے ، شاہیں کا جہاں اور
....................
پھر دل کی خواہش نے خواب دِکھایا کوئی
ہاتھ کسی کے ہاتھ میں تھا، یاد آیا کوئی
....................
پھر سرِ شام کوئ شعلہ نوا
سو گیا چھیڑ کے افسانۂ گُل
....................
پھولوں کا ڈھیر صحن میں رکھنے کے باوجود
خوشبو کا قحط ویسے کا ویسا پڑا رہا
....................
پہلے تو اپنے دل کی رضا جان جائیے
پھر جو نگاہِ یار کہے مان جائیے
....................
پھر نغمہ و مے کی صحبتوں کا
آنکھوں میں رہا خمار کچھ دیر
....................
پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا دل کو
حسن والوں کی سادگی نہ گئی
....................
پھول کی پتیّ سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک ہ بے اثر
....................
پھر شامِ وصالِ یار آئی
بہلا غمِ روزگار کچھ دیر
....................
پھول تھے رنگ تھے ،لمحوں کی صباحت ہم تھے
ایسے زندہ تھے کہ جینے کی علامت ہم تھے
....................
پان بن بن کے مری جان کہاں جاتے ہیں
یہ مرے قتل کے سامان کہاں جاتے ہیں
....................
پھر جاگ اُٹھے خوشی کے آنسو
پھر دل کو ملا قرار کچھ دیر
....................
پتہ تو فصل گل و لالہ کا نہیں معلوم
سنا ہے قرب و جوارِ خزاں میں رہتی ہے
....................
پیار کی شاخ تو جلدی ہی ثمر لے آئی
درد کے پھول بڑی دیر میں جا کر نکلے
....................
پھر ایک نشاطِ بے خودی میں
آنکھیں رہیں اشک بار کچھ دیر
....................
پیادہ پا جو چمن میں بہار کو دیکھا
ہوا کے گھوڑے کے اوپر خزاں سوار ہوئی
....................
پھرے ہیں مشرق و مغرب سے تا جنوب و شمال
تلاش کی ہے صنم ہم نے چار سُو تیری
....................
پھر ایک طویل ہجر کے بعد
صحبت رہی خوشگوار کچھ دیر
....................
پیام بر نہ میّسر ہوا تو خوب ہوا
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے
....................
پتا یہ کوچۂ قاتل کا سن رکھ اے قاصد
بجائے سنگِ نشاں اِک مزار راہ میں ہے
....................
پیادہ پا ہوں رواں سوئے کوچۂ قاتل
اجل مری مرے سر پر سوار راہ میں ہے
....................
پتے ہوا کا جسم چھپاتے رہے مگر
مانی نہیں ہوا بھی برہنہ کیے بغیر
....................
پوچھنے تک کو نہ آیا کوئی اللہ اللہ
تھک گئے پاؤں کی زنجیر بجانے والے
....................
پوچھتی ہے در و دیوار سے بیمار کی آنکھ
اب کہاں ہیں وہ مرے ناز اٹھانے والے
....................
پسند آئے گی اب کس کی شکل بسملؔ کو
نظر میں آپ جو اس کی سما کے بیٹھے ہیں
....................
پکارا جب کبھی میں نے خوشی منہ پھیر کر بولی
کہ تیرے شہر میں انسان انسان کا دشمن ہے
....................
پہلے اک شخص میری ذات بنا
اور پھر پوری کائنات بنا
....................
پل دو پل کے عیش کی خاطر کیا دبنا کیا جھکنا
آخر سب کو ہے مر جانا سچ ہی لکھتے جانا
....................
پیار کی بولی بول نہ جالب اس بستی کے لوگوں سے
ہم نے سکھ کی کلیاں کھو کر دکھ کے کانٹے پائے ہیں
....................
پھول کھلے تو دل مرجھائے شمع جلے تو جان جلے
ایک تمہارا غم اپنا کر کتنے غم اپنائے ہیں
....................
پڑھ کے تیرا خط مرے دل کی عجب حالت ہوئی
اضطرابِ شوق نے اک حشر برپا کر دیا
....................
پھول کر لیں نباہ کانٹوں سے
آدمی ہی نہ آدمی سے ملے
....................
پلا دی یہ ساقی نے کیا شے نہ جانے
پلٹ آئے ہیں میرے گزرے زمانے
....................
پیوست دل میں جب ترا تیرِ نظر ہوا
کس کس ادا سے شکوۂ دردِ جگر ہوا
....................
پیتا بغیرِ اذن، یہ کب تھی مری مجال
در پردہ چشمِ یار کی شہ پا کے پی گیا
....................
پرائے ہاتھوں میں جینے کی ہوس کیا؟
نشیمن ہی نہیں تو پھر قفس کیا؟
....................
پڑے جو سنگ تو کہیے اسے نوالۂ زر
لگے جو زخم بدن پر اسے قبا کہیے
....................
پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم
دونوں ہی کو امجدؔ ہم نے بچتے دیکھا کم
....................
پرت کی بزم میں تا سرخ روئی مجھکو ہو حاصل
نین سوں اپنے دے ساغر شرابِ ارغوانی کا
....................
پھل تو سب میرے درختوں کے پکے ہیں لیکن
اتنی کمزور ہیں شاخیں کہ ہلا بھی نہ سکوں
....................
پ
ترتیب دادہ: عادل سعیدی دیوبندی
تاریخ: ۳ / ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۷ / ستمبر ۲۰۱۶ء ۔
........................................
پھول برسائے یہ کہہ کر اس نے
میرا دیوانہ ہے دیوانۂ گُل
....................
پرساں نہ تھا کوئی تو یہ رسوائیاں نہ تھیں
ظاہر کسی پہ حالِ پریشاں نہ تھا کبھی
....................
پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
....................
پھر کسی گُل کا اشارہ پا کر
چاند نکلا سرِ مے خانۂ گُل
....................
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے ، شاہیں کا جہاں اور
....................
پھر دل کی خواہش نے خواب دِکھایا کوئی
ہاتھ کسی کے ہاتھ میں تھا، یاد آیا کوئی
....................
پھر سرِ شام کوئ شعلہ نوا
سو گیا چھیڑ کے افسانۂ گُل
....................
پھولوں کا ڈھیر صحن میں رکھنے کے باوجود
خوشبو کا قحط ویسے کا ویسا پڑا رہا
....................
پہلے تو اپنے دل کی رضا جان جائیے
پھر جو نگاہِ یار کہے مان جائیے
....................
پھر نغمہ و مے کی صحبتوں کا
آنکھوں میں رہا خمار کچھ دیر
....................
پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا دل کو
حسن والوں کی سادگی نہ گئی
....................
پھول کی پتیّ سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک ہ بے اثر
....................
پھر شامِ وصالِ یار آئی
بہلا غمِ روزگار کچھ دیر
....................
پھول تھے رنگ تھے ،لمحوں کی صباحت ہم تھے
ایسے زندہ تھے کہ جینے کی علامت ہم تھے
....................
پان بن بن کے مری جان کہاں جاتے ہیں
یہ مرے قتل کے سامان کہاں جاتے ہیں
....................
پھر جاگ اُٹھے خوشی کے آنسو
پھر دل کو ملا قرار کچھ دیر
....................
پتہ تو فصل گل و لالہ کا نہیں معلوم
سنا ہے قرب و جوارِ خزاں میں رہتی ہے
....................
پیار کی شاخ تو جلدی ہی ثمر لے آئی
درد کے پھول بڑی دیر میں جا کر نکلے
....................
پھر ایک نشاطِ بے خودی میں
آنکھیں رہیں اشک بار کچھ دیر
....................
پیادہ پا جو چمن میں بہار کو دیکھا
ہوا کے گھوڑے کے اوپر خزاں سوار ہوئی
....................
پھرے ہیں مشرق و مغرب سے تا جنوب و شمال
تلاش کی ہے صنم ہم نے چار سُو تیری
....................
پھر ایک طویل ہجر کے بعد
صحبت رہی خوشگوار کچھ دیر
....................
پیام بر نہ میّسر ہوا تو خوب ہوا
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے
....................
پتا یہ کوچۂ قاتل کا سن رکھ اے قاصد
بجائے سنگِ نشاں اِک مزار راہ میں ہے
....................
پیادہ پا ہوں رواں سوئے کوچۂ قاتل
اجل مری مرے سر پر سوار راہ میں ہے
....................
پتے ہوا کا جسم چھپاتے رہے مگر
مانی نہیں ہوا بھی برہنہ کیے بغیر
....................
پوچھنے تک کو نہ آیا کوئی اللہ اللہ
تھک گئے پاؤں کی زنجیر بجانے والے
....................
پوچھتی ہے در و دیوار سے بیمار کی آنکھ
اب کہاں ہیں وہ مرے ناز اٹھانے والے
....................
پسند آئے گی اب کس کی شکل بسملؔ کو
نظر میں آپ جو اس کی سما کے بیٹھے ہیں
....................
پکارا جب کبھی میں نے خوشی منہ پھیر کر بولی
کہ تیرے شہر میں انسان انسان کا دشمن ہے
....................
پہلے اک شخص میری ذات بنا
اور پھر پوری کائنات بنا
....................
پل دو پل کے عیش کی خاطر کیا دبنا کیا جھکنا
آخر سب کو ہے مر جانا سچ ہی لکھتے جانا
....................
پیار کی بولی بول نہ جالب اس بستی کے لوگوں سے
ہم نے سکھ کی کلیاں کھو کر دکھ کے کانٹے پائے ہیں
....................
پھول کھلے تو دل مرجھائے شمع جلے تو جان جلے
ایک تمہارا غم اپنا کر کتنے غم اپنائے ہیں
....................
پڑھ کے تیرا خط مرے دل کی عجب حالت ہوئی
اضطرابِ شوق نے اک حشر برپا کر دیا
....................
پھول کر لیں نباہ کانٹوں سے
آدمی ہی نہ آدمی سے ملے
....................
پلا دی یہ ساقی نے کیا شے نہ جانے
پلٹ آئے ہیں میرے گزرے زمانے
....................
پیوست دل میں جب ترا تیرِ نظر ہوا
کس کس ادا سے شکوۂ دردِ جگر ہوا
....................
پیتا بغیرِ اذن، یہ کب تھی مری مجال
در پردہ چشمِ یار کی شہ پا کے پی گیا
....................
پرائے ہاتھوں میں جینے کی ہوس کیا؟
نشیمن ہی نہیں تو پھر قفس کیا؟
....................
پڑے جو سنگ تو کہیے اسے نوالۂ زر
لگے جو زخم بدن پر اسے قبا کہیے
....................
پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم
دونوں ہی کو امجدؔ ہم نے بچتے دیکھا کم
....................
پرت کی بزم میں تا سرخ روئی مجھکو ہو حاصل
نین سوں اپنے دے ساغر شرابِ ارغوانی کا
....................
پھل تو سب میرے درختوں کے پکے ہیں لیکن
اتنی کمزور ہیں شاخیں کہ ہلا بھی نہ سکوں
....................
پ
ُرانے زخم ہیں کافی ، شمار کرنے کو
سو، اب کِسی بھی شناسائی سے نہیں ملتے
....................
پھولوں کو راس آیا نہ جب عرصۂ بہار
گلشن سے ہٹ کے گوشۂ داماں میں آ گئے
....................
پھر آ گیا ہے وہی میرا ناخدا بن کر
کیے ہیں جس نے سفینے تباہ سب میرے
....................
پھر تنہائی پوچھ رہی ہے
کون آئے دل کو بہلانے
....................
پھر وہ ڈال گئے دامن میں
درد کی دولت، غم کے خزانے
....................
پلکوں پہ لرزتے ہوئے تارے سے آنسو
اے حسنِ پشیماں، ترے قربان گئے
....................
پارسا کی پارسائی، مستیاں مَے خوار کی
وہ فقط حسرت، یہ شان و کیفیت دیدار کی
....................
پس ماندگان اب اور ہی ڈھونڈیں دلیلِ راہ
اتنی بلند گردِ رہِ کارواں نہیں
....................
پاس جب تک وہ رہے ، درد تھما رہتا ہے
پھیلتا جاتا ہے پھر آنکھ کے کاجل کی طرح
....................
پھر مرے شہر سے گزرا ہے وہ بادل کی طرح
دست گُل پھیلا ہُوا ہے مرے آنچل کی طرح
....................
پھروں گا حشر میں کس کس سے پوچھتا تم کو
وہاں کسی کو کسی کی خبر نہیں ہوتی
....................
پھول ہنس نکلے جو الجھا دستِ گلچیں خار میں
وہ بھی کیا دن تھے بہار آئی تھی جب گلزار میں
....................
پتنگے شمع کے اوپر سبھی نہیں مرتے
پتنگے شمع سے بچ کر نکل بھی جاتے ہیں
....................
پھیرو نہ آنکھیں تم میرے اشکوں کے جوش پر
طوفاں میں ڈوبتی نہیں کشتی حباب کی
....................
پھر وفائیں بھی کرو گے تو نہ پوچھے گا کوئی
سب تمہارے یہ ستم ہیں مرے مر جانے تک
....................
پیچ خم زلف کے محدود رہے شانے تک
سب یہ پابندیِ زنجیر تھی دیوانے تک
....................
پی بھی لے اوک سے اے شیخ جو پینی ہے تجھے
یہ بلا نوشوں کی محفل ہے یہاں جام کہاں
....................
پتلیاں پھر گئی تھیں چھوٹ گئی تھیں نبضیں
تم نہ آ جاتے، تو ہاتھوں سے چلا تھا کوئی
....................
پھر نہ کہنا ہم کو نالوں سے پریشانی ہوئی
خواب میں سمجھا گئے جو بات سمجھانی ہوئی
....................
پھونک دیا بجلی نے گلشن
دیکھ لیا انجام نشیمن
....................
پاس رہ کر بھی نہ پہچان سکا تو مجھ کو
دور سے دیکھ کے اب ہاتھ ہلاتا کیا ہے
....................
پیش خیمہ ہے تنزل کا تکبر اور غرور ،
مرتبہ چاہو تو پہلے اِنکساری سیکھ لو ؛
....................
پھر تمہارے پاؤ چھونے خود بلندی آئيگی
سب دلوں پہ راج کرکے تاجداری سیکھ لو
....................
پروں کو کاٹ دیا ہے اڑان سے پہلے
یہ خوفِ ہجر ہے ، شوقِ وصال تھوڑی ہے
....................
پتھروں کے تو مزاج نہیں ہوتے
لوگ کیوں پتھر مزاج ہوتے ہیں
....................
پھول کھلتے ہیں تو ہم سوچتے ہیں
تیرے آنے کے زمانے آئے
....................
پھر اسکی یاد میں دل بے قرار ہے ناصر
بچھڑ کے جس سے ہوئی شہر شہر رسوائی
....................
پوچھا جو ہم نے ان سے بھلا دیا ہم کو کیسے؟
چٹکیاں بجا کے بولے ایسے ، ایسے ، ایسے
....................
پوچھا جو ہم نے چاند نکلتا ہے کس طرح
زلفوں کو رخ پہ ڈال کے چھٹکا دیا کہ یوں
....................
پی بھی لے زاہد جوانی میں شراب
عمر بھر ترسے گا اس دن کے لیے
....................
پڑے ہے بزم میں جس شخص پر نگاہ تری
وہ منہ کو پھیر کے کہتا ہے "اف پناہ تری"
....................
پریشانی یہ سب کی ہو گئی کے
مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے
....................
پھول بننے کی خوشی میں مسکرائ تھی کلی
کیا خبر تھی کہ یہ تغیر پیغام موت ہے
....................
پھول کچھ ساتھ رکھ لیجئے
راستے میں فقیر ہوتے ہیں
....................
پھیر تو لیں گے چھری بھی زخم بھی کھائیں گے ہم
یوں نہ موت آئی تو پھر بے موت مر جائیں گے ہم
....................
پُوچھتے ہیں کہ، کیا ہُوا دل کو ؟
حُسن والوں کی سادگی نہ گئی
....................
پھول تھا میں، مجھ کو اک کانٹا بنا کر رکھ دیا
اور اب کانٹے سے کہتے ہو کہ چبھنا چھوڑ دے
....................
پوچھا، اکبرؔ ہے آدمی کیسا؟
ہنس کے بولے وہ آدمی ہی نہیں
....................
پردے سے ایک جھلک وہ جو دکھلا کے رہ گئے
مشتاق دید اور بھی للچا کے رہ گئے
....................
پارسی گو گرچه تازی خوشتر است
عشق را خود صد زبان دیگر است
....................
پادشاہے کہ طرح ظلم فگند
پائے دیوار ملک خویش بکند
....................
پچھتا رہے ہیں خُون مِرا کرکے کیوں حضُور !
اب اِس پہ خاک ڈالیے ، جو کچھ ہُوا، ہُوا
....................
پلٹ کے دیکھا تو کچھ بھی نہ تھا ہوا کے سوا
جو میرے ساتھ تھے جانے کدھر گئے چپ چاپ
....................
پُوچھ لے قاتل زبانِ تیغ سے سب سرگزشت
کُشتے کِس منہ سے بتائیں کیا ہُوا، کیونکر ہُوا
....................
پیری میں ولولے وہ کہاں ہیں شباب کے
اِک دُھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے
....................
سو، اب کِسی بھی شناسائی سے نہیں ملتے
....................
پھولوں کو راس آیا نہ جب عرصۂ بہار
گلشن سے ہٹ کے گوشۂ داماں میں آ گئے
....................
پھر آ گیا ہے وہی میرا ناخدا بن کر
کیے ہیں جس نے سفینے تباہ سب میرے
....................
پھر تنہائی پوچھ رہی ہے
کون آئے دل کو بہلانے
....................
پھر وہ ڈال گئے دامن میں
درد کی دولت، غم کے خزانے
....................
پلکوں پہ لرزتے ہوئے تارے سے آنسو
اے حسنِ پشیماں، ترے قربان گئے
....................
پارسا کی پارسائی، مستیاں مَے خوار کی
وہ فقط حسرت، یہ شان و کیفیت دیدار کی
....................
پس ماندگان اب اور ہی ڈھونڈیں دلیلِ راہ
اتنی بلند گردِ رہِ کارواں نہیں
....................
پاس جب تک وہ رہے ، درد تھما رہتا ہے
پھیلتا جاتا ہے پھر آنکھ کے کاجل کی طرح
....................
پھر مرے شہر سے گزرا ہے وہ بادل کی طرح
دست گُل پھیلا ہُوا ہے مرے آنچل کی طرح
....................
پھروں گا حشر میں کس کس سے پوچھتا تم کو
وہاں کسی کو کسی کی خبر نہیں ہوتی
....................
پھول ہنس نکلے جو الجھا دستِ گلچیں خار میں
وہ بھی کیا دن تھے بہار آئی تھی جب گلزار میں
....................
پتنگے شمع کے اوپر سبھی نہیں مرتے
پتنگے شمع سے بچ کر نکل بھی جاتے ہیں
....................
پھیرو نہ آنکھیں تم میرے اشکوں کے جوش پر
طوفاں میں ڈوبتی نہیں کشتی حباب کی
....................
پھر وفائیں بھی کرو گے تو نہ پوچھے گا کوئی
سب تمہارے یہ ستم ہیں مرے مر جانے تک
....................
پیچ خم زلف کے محدود رہے شانے تک
سب یہ پابندیِ زنجیر تھی دیوانے تک
....................
پی بھی لے اوک سے اے شیخ جو پینی ہے تجھے
یہ بلا نوشوں کی محفل ہے یہاں جام کہاں
....................
پتلیاں پھر گئی تھیں چھوٹ گئی تھیں نبضیں
تم نہ آ جاتے، تو ہاتھوں سے چلا تھا کوئی
....................
پھر نہ کہنا ہم کو نالوں سے پریشانی ہوئی
خواب میں سمجھا گئے جو بات سمجھانی ہوئی
....................
پھونک دیا بجلی نے گلشن
دیکھ لیا انجام نشیمن
....................
پاس رہ کر بھی نہ پہچان سکا تو مجھ کو
دور سے دیکھ کے اب ہاتھ ہلاتا کیا ہے
....................
پیش خیمہ ہے تنزل کا تکبر اور غرور ،
مرتبہ چاہو تو پہلے اِنکساری سیکھ لو ؛
....................
پھر تمہارے پاؤ چھونے خود بلندی آئيگی
سب دلوں پہ راج کرکے تاجداری سیکھ لو
....................
پروں کو کاٹ دیا ہے اڑان سے پہلے
یہ خوفِ ہجر ہے ، شوقِ وصال تھوڑی ہے
....................
پتھروں کے تو مزاج نہیں ہوتے
لوگ کیوں پتھر مزاج ہوتے ہیں
....................
پھول کھلتے ہیں تو ہم سوچتے ہیں
تیرے آنے کے زمانے آئے
....................
پھر اسکی یاد میں دل بے قرار ہے ناصر
بچھڑ کے جس سے ہوئی شہر شہر رسوائی
....................
پوچھا جو ہم نے ان سے بھلا دیا ہم کو کیسے؟
چٹکیاں بجا کے بولے ایسے ، ایسے ، ایسے
....................
پوچھا جو ہم نے چاند نکلتا ہے کس طرح
زلفوں کو رخ پہ ڈال کے چھٹکا دیا کہ یوں
....................
پی بھی لے زاہد جوانی میں شراب
عمر بھر ترسے گا اس دن کے لیے
....................
پڑے ہے بزم میں جس شخص پر نگاہ تری
وہ منہ کو پھیر کے کہتا ہے "اف پناہ تری"
....................
پریشانی یہ سب کی ہو گئی کے
مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے
....................
پھول بننے کی خوشی میں مسکرائ تھی کلی
کیا خبر تھی کہ یہ تغیر پیغام موت ہے
....................
پھول کچھ ساتھ رکھ لیجئے
راستے میں فقیر ہوتے ہیں
....................
پھیر تو لیں گے چھری بھی زخم بھی کھائیں گے ہم
یوں نہ موت آئی تو پھر بے موت مر جائیں گے ہم
....................
پُوچھتے ہیں کہ، کیا ہُوا دل کو ؟
حُسن والوں کی سادگی نہ گئی
....................
پھول تھا میں، مجھ کو اک کانٹا بنا کر رکھ دیا
اور اب کانٹے سے کہتے ہو کہ چبھنا چھوڑ دے
....................
پوچھا، اکبرؔ ہے آدمی کیسا؟
ہنس کے بولے وہ آدمی ہی نہیں
....................
پردے سے ایک جھلک وہ جو دکھلا کے رہ گئے
مشتاق دید اور بھی للچا کے رہ گئے
....................
پارسی گو گرچه تازی خوشتر است
عشق را خود صد زبان دیگر است
....................
پادشاہے کہ طرح ظلم فگند
پائے دیوار ملک خویش بکند
....................
پچھتا رہے ہیں خُون مِرا کرکے کیوں حضُور !
اب اِس پہ خاک ڈالیے ، جو کچھ ہُوا، ہُوا
....................
پلٹ کے دیکھا تو کچھ بھی نہ تھا ہوا کے سوا
جو میرے ساتھ تھے جانے کدھر گئے چپ چاپ
....................
پُوچھ لے قاتل زبانِ تیغ سے سب سرگزشت
کُشتے کِس منہ سے بتائیں کیا ہُوا، کیونکر ہُوا
....................
پیری میں ولولے وہ کہاں ہیں شباب کے
اِک دُھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے
....................
پیاس کہتی ہے ک اب ریت نچوڑی جائے
اپنے حصے میں سمندر نہیں آنے والا
....................
پلٹی جو راستہ ہی سے، اے آہِ نامُراد !
یہ تو بتا ، کہ بابِ اثر کِتنا دُور تھا
....................
پتّھر مجھے کہتا ہے مِرا چاہنے والا
میں موم ہُوں ، اُس نے مجھے چُھو کر نہیں دیکھا
....................
پہلے کچھ آئے تھے جو اب آؤ گے تم
جُھوٹے وعدوں سے کوئی کیا شاد ہو
....................
پیامِ مرگ ہے مُوئے سفید، اے غافِل !
کبھی سُنا ہے کہ ، پیری گئی شباب آیا
....................
پینے کی دیر ہے نہ پلانے کی دیر ہے
ساقی کے بس نگاہ اٹھانے کی دیر ہے
....................
پینے سے کرچُکا تھا میں توبہ، مگر جلیل !
بادل کا رنگ دیکھ کے نِیّت بدل گئی
....................
پوچھا جو ہم نے ان سے بھلا دیا ہم کو کیسے؟
چٹکیاں بجا کے بولے ایسے ، ایسے ، ایسے
....................
پوچھا کہ ہم نے چاند نکلتا ہے کس طرح
زلفوں کو رخ پہ ڈال کے چھٹکا دیا کہ یوں
....................
پھولوں کی رُت ہے ٹھنڈی ہوائیں
اب ان کی مرضی وه آئیں نہ آئیں
....................
پتھر لیے ہر موڑ پہ کچھ لوگ کھڑے ہیں
اس شہر میں کتنے ہیں مرے چاہنے والے
....................
ختم شد
اپنے حصے میں سمندر نہیں آنے والا
....................
پلٹی جو راستہ ہی سے، اے آہِ نامُراد !
یہ تو بتا ، کہ بابِ اثر کِتنا دُور تھا
....................
پتّھر مجھے کہتا ہے مِرا چاہنے والا
میں موم ہُوں ، اُس نے مجھے چُھو کر نہیں دیکھا
....................
پہلے کچھ آئے تھے جو اب آؤ گے تم
جُھوٹے وعدوں سے کوئی کیا شاد ہو
....................
پیامِ مرگ ہے مُوئے سفید، اے غافِل !
کبھی سُنا ہے کہ ، پیری گئی شباب آیا
....................
پینے کی دیر ہے نہ پلانے کی دیر ہے
ساقی کے بس نگاہ اٹھانے کی دیر ہے
....................
پینے سے کرچُکا تھا میں توبہ، مگر جلیل !
بادل کا رنگ دیکھ کے نِیّت بدل گئی
....................
پوچھا جو ہم نے ان سے بھلا دیا ہم کو کیسے؟
چٹکیاں بجا کے بولے ایسے ، ایسے ، ایسے
....................
پوچھا کہ ہم نے چاند نکلتا ہے کس طرح
زلفوں کو رخ پہ ڈال کے چھٹکا دیا کہ یوں
....................
پھولوں کی رُت ہے ٹھنڈی ہوائیں
اب ان کی مرضی وه آئیں نہ آئیں
....................
پتھر لیے ہر موڑ پہ کچھ لوگ کھڑے ہیں
اس شہر میں کتنے ہیں مرے چاہنے والے
....................
ختم شد
حرف ت سے اشعار!!
ترتیب دادہ: عادل سعیدی دیوبندی
تاریخ: یکم / ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۴ / ستمبر ۲۰۱۶ء
........................................
ترے در سے اٹھ کر جدھر جاؤں میں
چلوں دو قدم اور ٹھہر جاؤں میں
....................
تبسّم نے اتنا ڈسا ہے مجھے
کلی مسکرائے تو ڈر جاؤں میں
....................
تنقیدِ حسنِ مصلحت ِ خاصِ عشق ہے
یہ جرم گاہ گاہ کیے جا رہا ہوں میں
....................
تو بھی او نا آشنائے درد دل
کاش ہوتا مبتلائے درد دل
....................
تغافل ہے اک شان محبوب لیکن
تغافل میں پنہاں خبرداریاں ہیں
....................
محبت کیا ہے ، تاثیر محبت کس کو کہتے ہیں؟
ترا مجبور کر دینا،مرا مجبور ہو جانا
....................
تمام رات میرے گھر کا ایک در کھُلا رہا
میں راہ دیکھتی رہی وہ راستہ بدل گیا
....................
تیرے وعدے پر تبسم کے نثار
اب میں سمجھا ہوں کہ دھوکہ کھا گیا
....................
تیرا کیا لیتے ہیں اے دربان کوئے یار میں
بیٹھ جاتے ہیں گھڑی بھر سایۂ دیوار میں
....................
تم درِ زنداں پہ اپنی زلف سلجھاتے تو ہو
کوئی دیوانہ الجھ بیٹھا اگر زنجیر سے؟
....................
تباہ ہو گئے دنیائے عشق میں لاکھوں
فریبِ حسن مگر آشکار ہو نہ سکا
....................
تمہارے گیسو و عارض سے کوئی کام اب تک
سوائے گردشِ لیل و نہار ہو نہ سکا
....................
تم پہ مر کر تمہیں بدنام کیا دنیا میں
یہ خطا عشق کی تھی کام ہمارا تو نہ تھا
....................
نتیجہ بھی کیا ایسی بزمِ عدو سے
نہ تم دیکھتے ہو نہ ہم دیکھتے ہیں
....................
تمہیں کس نے بلایا مے کشوں سے یہ نہ کہہ ساقی
طبیعت مل گئی ہے ورنہ میخانے بہت سے ہیں
....................
تمہیں بندہ پرور ہمیں جانتے ہیں
بڑے سیدھے سادھے بڑے بھولے بھالے
....................
تیرا پاس ہے ورنہ صیاد ہم نے
بہاروں میں کتنے قفس توڑ ڈالے
....................
تم اور مری زیست کی دعائیں
کیا مقصدِ مرگِ ناگہاں
....................
تم تو ہو میرے دل و جان کے مالک مشہور
تم پہ آئے گا مرے خون کا الزام کہاں
....................
تم بھی دیوانے کے کہنے کا برا مان گئے
ہوش کی بات کہیں کرتے ہیں سودائی بھی
....................
تم بھی اہلِ جنوں کو پوچھتے ہو
کیا خبر ہے کدھر گئے ہوں گے
....................
تم بھی دیکھ آؤ مرنے والے کو
اب تو سب چارہ گر گئے ہوں گے
....................
تم تو صرف اک دید کی حسرت پہ برہم ہو گئے
کم سے کم پوری تو سنتے داستانِ آرزو
....................
تیری فرقت میں کوئی مونس و ہم دم نہ رہا
اک شبِ غم ہے جو تنہا مرے گھر ہوتی ہے
....................
تجاہل اپنی جفاؤں پہ اور محشر میں
خدا کے سامنے کہتے ہو تم خیال نہیں
....................
تم میری عیادت کے لیئے کیوں نہیں آتے
اب تو مجھے تم سے یہ شکایت بھی نہیں
....................
تیر جھٹکے سے نہ کھینچو دیکھو ہم مر جائیں گے !
تم یہ کہہ کر چھوٹ جاؤ گے کہ نادانی ہوئی
....................
تمام اہلِ گلستاں نے کوششیں کر لیں
بہار حد سے زیادہ مگر نہیں رہتی
....................
تیری نظر اور وہ رخِ روشن
ہوش میں آ دیوانہ مت بن
....................
تم نے دیا ہماری وفاؤں کا کیا جواب
یہ ہم وہاں بتائیں گے تم کو یہاں نہیں
....................
تیرے اندازۂ جرأت کے نثار اے قاتل
خون زخموں پہ نظر آتا ہے مرہم کی طرح
....................
تیری ہر بات محبت میں گوارا کرکے
دل کے بازارمیں بیٹھے ہیں خسارہ کرکے
....................
تمہارےوصل کےلمحےملے توعیدہوئی
تمہارےہجرکےموسم میں اعتکاف کیا
....................
تنہا تنہا چاند کی ٹھنڈی ٹھنڈی چاندنی میں
تُم سے اک ملاقات ہو ، تیرا میرا ساتھ ہو
....................
تیری آنکھوں میں کھٹکتا ھے مرے جیسا فقیر
کیسا اعلٰی ترا معیار ھے ، شاھا !! آھا !!!
....................
ترش روئے بہتر کند سرزنش
کہ یارانِ خوش طبع شیریں منش
....................
تھی خاموشی فطرت میں ہماری، تبھی تو برسوں نبھا گئے
اگر ہم بھی جواب دیتے تو سوچو کتنے فساد ہوتے
....................
تبسم ہے، ترنم ہے، لطافت ہے، نزاکت ہے
قیامت کی ادائیں ہم نے دیکھیں حسن والوں میں
....................
تیری باتیں ہی سنانے آئے
دوست بھی دل ہی دکھانے آئے
....................
تم یوں ہی ناراض ہوئے ہو ورنہ میخانے کا پتہ
ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے
....................
تجھے گھاٹا نہ ہونے دیں گے کاروبارِ الفت میں
ہم اپنے سر ترا اے دوست ہر احسان لیتے ہیں
.................
تیری زلفوں سے رہائی تو نہیں مانگی تھی
قید مانگی تھی جدائی تو نہیں مانگی تھی
.................
تجھ سے بچھڑ کے ہم بھی مقدر کے ہو گئے
پھر جو بھی در ملا ہے اسی در کے ہو گئے
....................
تیری محفل میں بیٹھنے والے
کتنے روشن ضمیر ہوت
ترتیب دادہ: عادل سعیدی دیوبندی
تاریخ: یکم / ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۴ / ستمبر ۲۰۱۶ء
........................................
ترے در سے اٹھ کر جدھر جاؤں میں
چلوں دو قدم اور ٹھہر جاؤں میں
....................
تبسّم نے اتنا ڈسا ہے مجھے
کلی مسکرائے تو ڈر جاؤں میں
....................
تنقیدِ حسنِ مصلحت ِ خاصِ عشق ہے
یہ جرم گاہ گاہ کیے جا رہا ہوں میں
....................
تو بھی او نا آشنائے درد دل
کاش ہوتا مبتلائے درد دل
....................
تغافل ہے اک شان محبوب لیکن
تغافل میں پنہاں خبرداریاں ہیں
....................
محبت کیا ہے ، تاثیر محبت کس کو کہتے ہیں؟
ترا مجبور کر دینا،مرا مجبور ہو جانا
....................
تمام رات میرے گھر کا ایک در کھُلا رہا
میں راہ دیکھتی رہی وہ راستہ بدل گیا
....................
تیرے وعدے پر تبسم کے نثار
اب میں سمجھا ہوں کہ دھوکہ کھا گیا
....................
تیرا کیا لیتے ہیں اے دربان کوئے یار میں
بیٹھ جاتے ہیں گھڑی بھر سایۂ دیوار میں
....................
تم درِ زنداں پہ اپنی زلف سلجھاتے تو ہو
کوئی دیوانہ الجھ بیٹھا اگر زنجیر سے؟
....................
تباہ ہو گئے دنیائے عشق میں لاکھوں
فریبِ حسن مگر آشکار ہو نہ سکا
....................
تمہارے گیسو و عارض سے کوئی کام اب تک
سوائے گردشِ لیل و نہار ہو نہ سکا
....................
تم پہ مر کر تمہیں بدنام کیا دنیا میں
یہ خطا عشق کی تھی کام ہمارا تو نہ تھا
....................
نتیجہ بھی کیا ایسی بزمِ عدو سے
نہ تم دیکھتے ہو نہ ہم دیکھتے ہیں
....................
تمہیں کس نے بلایا مے کشوں سے یہ نہ کہہ ساقی
طبیعت مل گئی ہے ورنہ میخانے بہت سے ہیں
....................
تمہیں بندہ پرور ہمیں جانتے ہیں
بڑے سیدھے سادھے بڑے بھولے بھالے
....................
تیرا پاس ہے ورنہ صیاد ہم نے
بہاروں میں کتنے قفس توڑ ڈالے
....................
تم اور مری زیست کی دعائیں
کیا مقصدِ مرگِ ناگہاں
....................
تم تو ہو میرے دل و جان کے مالک مشہور
تم پہ آئے گا مرے خون کا الزام کہاں
....................
تم بھی دیوانے کے کہنے کا برا مان گئے
ہوش کی بات کہیں کرتے ہیں سودائی بھی
....................
تم بھی اہلِ جنوں کو پوچھتے ہو
کیا خبر ہے کدھر گئے ہوں گے
....................
تم بھی دیکھ آؤ مرنے والے کو
اب تو سب چارہ گر گئے ہوں گے
....................
تم تو صرف اک دید کی حسرت پہ برہم ہو گئے
کم سے کم پوری تو سنتے داستانِ آرزو
....................
تیری فرقت میں کوئی مونس و ہم دم نہ رہا
اک شبِ غم ہے جو تنہا مرے گھر ہوتی ہے
....................
تجاہل اپنی جفاؤں پہ اور محشر میں
خدا کے سامنے کہتے ہو تم خیال نہیں
....................
تم میری عیادت کے لیئے کیوں نہیں آتے
اب تو مجھے تم سے یہ شکایت بھی نہیں
....................
تیر جھٹکے سے نہ کھینچو دیکھو ہم مر جائیں گے !
تم یہ کہہ کر چھوٹ جاؤ گے کہ نادانی ہوئی
....................
تمام اہلِ گلستاں نے کوششیں کر لیں
بہار حد سے زیادہ مگر نہیں رہتی
....................
تیری نظر اور وہ رخِ روشن
ہوش میں آ دیوانہ مت بن
....................
تم نے دیا ہماری وفاؤں کا کیا جواب
یہ ہم وہاں بتائیں گے تم کو یہاں نہیں
....................
تیرے اندازۂ جرأت کے نثار اے قاتل
خون زخموں پہ نظر آتا ہے مرہم کی طرح
....................
تیری ہر بات محبت میں گوارا کرکے
دل کے بازارمیں بیٹھے ہیں خسارہ کرکے
....................
تمہارےوصل کےلمحےملے توعیدہوئی
تمہارےہجرکےموسم میں اعتکاف کیا
....................
تنہا تنہا چاند کی ٹھنڈی ٹھنڈی چاندنی میں
تُم سے اک ملاقات ہو ، تیرا میرا ساتھ ہو
....................
تیری آنکھوں میں کھٹکتا ھے مرے جیسا فقیر
کیسا اعلٰی ترا معیار ھے ، شاھا !! آھا !!!
....................
ترش روئے بہتر کند سرزنش
کہ یارانِ خوش طبع شیریں منش
....................
تھی خاموشی فطرت میں ہماری، تبھی تو برسوں نبھا گئے
اگر ہم بھی جواب دیتے تو سوچو کتنے فساد ہوتے
....................
تبسم ہے، ترنم ہے، لطافت ہے، نزاکت ہے
قیامت کی ادائیں ہم نے دیکھیں حسن والوں میں
....................
تیری باتیں ہی سنانے آئے
دوست بھی دل ہی دکھانے آئے
....................
تم یوں ہی ناراض ہوئے ہو ورنہ میخانے کا پتہ
ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے
....................
تجھے گھاٹا نہ ہونے دیں گے کاروبارِ الفت میں
ہم اپنے سر ترا اے دوست ہر احسان لیتے ہیں
.................
تیری زلفوں سے رہائی تو نہیں مانگی تھی
قید مانگی تھی جدائی تو نہیں مانگی تھی
.................
تجھ سے بچھڑ کے ہم بھی مقدر کے ہو گئے
پھر جو بھی در ملا ہے اسی در کے ہو گئے
....................
تیری محفل میں بیٹھنے والے
کتنے روشن ضمیر ہوت
ے ہیں
....................
تم سنوارو نہ اپنی زلفوں کو
میری حالت خراب رہنے دو
....................
تو خدا ہے نا میرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
....................
تو خدا ہے نا میرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
....................
تذکرہ میر کا غالب کی زباں تک آیا
اعترافِ ہنر، اربابِ ہنر کرتے ہیں
....................
تند مے اور ایسے کمسِن کے لیے
ساقیا! ہلکی سی لا اِن کے لیے
....................
تیرے پاس سے جو گزرے، بیخودی میں تھے فراز
تھوڑی دور جا کے سنبھلے، تجھے یاد کر کے روئے
....................
تو ہم گردن از حکمِ داور مپیچ
کہ گردن نہ پیچد ز حکمِ تو ہیچ
....................
تتلیوں کا جو تعاقب کرے ، چالان بھرے
زُلف میں پھول سجانے پہ سزا دی جائے
....................
تمہارے شہر کی رونق کا بس اتنا تعارف ہے.
یہاں دستار مل جاتی ہے لیکن سر نہیں ملتا
....................
ترے وصال کی امید اشک بن کے بہہ گئی
خوشی کا چاند شام ہی سے جِھلملا کے رہ گیا
....................
تو بھی ہیرے سے بن گیا پتھر
ہم بھی کل جانے کیا سے کیا ہو جائیں
....................
تمام مطبع و محراب و منبر و اخبار
معِ معادلت و منصبِ قضا، خاموش
....................
"تفریقِ مِلل" حکمتِ افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط "ملتِ آدم"
....................
تمام شہر میں اک درد آشنا نہ ملا
بسائے اِس لئے اہلِ جنوں نے ویرانے
....................
ترا وجود غنیمت ہے پھر بھی اے ساقی!
کہ ہوگئے ہیں پھر آباد آج میخانے
....................
تو بولتا ہے تو چلتی ہے نبضِ میخانہ
تو دیکھتا ہے تو کرتے ہیں رقص پروانے
....................
تعلیم لڑکیوں کی ضروری تو ہے مگر
خاتونِ خانہ ہوں وہ سبھا کی پری نہ ہوں
....................
تیری ہر بات ہے سر آنکھوں پر
میری ہر بات ہی رد ہے، حد ہے
....................
تذکرہ جن میں نہ ہو ان کے لب و رخسار کا
ضبط وہ ساری کتابیں، وہ شمارے مسترد
....................
تم تنہا دنیا سے لڑو گے!
بچوںسی باتیں کرتے ہو
....................
تجھ سے مِلتے ہی وہ کچھ بے باک ہو جانا مِرا
اور تِرا دانتوں میں وہ اُنگلی دبانا یاد ہے
....................
تم کیا جانو اس دریا پر کیا گزری
تم نے تو بس پانی بهرنا چهوڑ دیا
....................
تمھارے وعدوں کا قد بھی تمھارے جیسا ہے
کبھی جو ناپ کے دیکھو تو کم نکلتا ہے
....................
تیرے کاسے میں فقط ہمدردیاں ڈالیں گے لوگ
داستانِ غم زمانے کو سنانا چھوڑ دے
....................
تمھیں دانِستہ محفِل میں جو دیکھا ہو تو مُجرم ہُوں !
نَظر آخِر نَظر ہے، بے اِرادہ اُٹھ گئی ہوگی
....................
تم اصل میں کچھ اور ہو، آتے ہو نظر اور
پردے کے اِدھر اور ہو، پردے کے اُدھر اور
....................
تم آسمان کی بلندی سے جلد لوٹ آنا
ہمیں زمیں کے مسائل پہ بات کرنی ہے
....................
تیر پہ تیر چلاؤ تمہیں ڈر کس کا ہے
سینہ کس کا ہے مری جان جگر کس کا ہے
....................
توانا بوَد ہر کہ دانا بوَد
زِ دانش دلِ پیر برنا بوَد
....................
تُو اے پیماں شکن امشب بما باش
کہ ما باشیم فردا یا نہ باشیم
....................
تم میں حور کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں
جلوۂ طور تو موجود ہے موسی ہی نہیں
....................
تیرے کُوچے میں جو تھے،سامنے تھا تُو ھی تُو
تیرے کُوچے سے جو نکلے تو خدا یاد آیا
....................
ترا باچنیں تندی و سرکشی
نہ پندارم از خاکی از آتشی
....................
ترسم نرسی بہ کعبہ ائے اعرابی
کیں رہ کہ تو می روی بترکستان ست
....................
تا مرد سخن نگفتہ باشد
عیب و ہنرش نہفتہ باشد
....................
تِرے وجوُد کو محسُوس عُمر بھر ہوگا
تِرے لبوں پہ جو ہم نے جواب لِکھّا ہے
....................
تو جاتے جاتے نہ دے مجھ کو زندگی کی دُعا
میں جی سکوُں گا تِرے بعد یہ گُماں مت کر
....................
تاک میں دشمن بھی تھے اور پشت پر احباب بھی
پہلا پتھر کس نے مارا ، یہ کہانی پھر سہی
....................
تحمّل تا کجا، ٹُوٹا ہے اِک لشکر مصیبت کا
مدد یا رب، قدم اب صبرکی منزل سے اُٹھتا ہے
....................
تصویر کو بھی اُس کی یہاں تک غرور ہے
دیکھے کبھی نہ طالبِ دیدار کی طرف
....................
تمام شہر میں اب ایک بھی نہیں منصور
کہیں گے کیا رسن و دار، آؤ سچ بولیں
....................
تنہا رہتا ہوں میں دن بھر بھری دنیا میں ٖقتیل
دن بُرے ہوں تو پھر احباب کہاں آتے ہیں
....................
تمہاری آنکھیں جو شعر سنانے لگ جائیں
ہم جو یہ غزلیں لئیے پھرتے ہیں،ٹھکانے لگ جائیں
..........................
تو اگر حسن کا یوسف ھے تو اے جان غزل
میری آنکھیں بھی تو یعقوب بنی رھتی ھیں
....................
ت
....................
تم سنوارو نہ اپنی زلفوں کو
میری حالت خراب رہنے دو
....................
تو خدا ہے نا میرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
....................
تو خدا ہے نا میرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
....................
تذکرہ میر کا غالب کی زباں تک آیا
اعترافِ ہنر، اربابِ ہنر کرتے ہیں
....................
تند مے اور ایسے کمسِن کے لیے
ساقیا! ہلکی سی لا اِن کے لیے
....................
تیرے پاس سے جو گزرے، بیخودی میں تھے فراز
تھوڑی دور جا کے سنبھلے، تجھے یاد کر کے روئے
....................
تو ہم گردن از حکمِ داور مپیچ
کہ گردن نہ پیچد ز حکمِ تو ہیچ
....................
تتلیوں کا جو تعاقب کرے ، چالان بھرے
زُلف میں پھول سجانے پہ سزا دی جائے
....................
تمہارے شہر کی رونق کا بس اتنا تعارف ہے.
یہاں دستار مل جاتی ہے لیکن سر نہیں ملتا
....................
ترے وصال کی امید اشک بن کے بہہ گئی
خوشی کا چاند شام ہی سے جِھلملا کے رہ گیا
....................
تو بھی ہیرے سے بن گیا پتھر
ہم بھی کل جانے کیا سے کیا ہو جائیں
....................
تمام مطبع و محراب و منبر و اخبار
معِ معادلت و منصبِ قضا، خاموش
....................
"تفریقِ مِلل" حکمتِ افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط "ملتِ آدم"
....................
تمام شہر میں اک درد آشنا نہ ملا
بسائے اِس لئے اہلِ جنوں نے ویرانے
....................
ترا وجود غنیمت ہے پھر بھی اے ساقی!
کہ ہوگئے ہیں پھر آباد آج میخانے
....................
تو بولتا ہے تو چلتی ہے نبضِ میخانہ
تو دیکھتا ہے تو کرتے ہیں رقص پروانے
....................
تعلیم لڑکیوں کی ضروری تو ہے مگر
خاتونِ خانہ ہوں وہ سبھا کی پری نہ ہوں
....................
تیری ہر بات ہے سر آنکھوں پر
میری ہر بات ہی رد ہے، حد ہے
....................
تذکرہ جن میں نہ ہو ان کے لب و رخسار کا
ضبط وہ ساری کتابیں، وہ شمارے مسترد
....................
تم تنہا دنیا سے لڑو گے!
بچوںسی باتیں کرتے ہو
....................
تجھ سے مِلتے ہی وہ کچھ بے باک ہو جانا مِرا
اور تِرا دانتوں میں وہ اُنگلی دبانا یاد ہے
....................
تم کیا جانو اس دریا پر کیا گزری
تم نے تو بس پانی بهرنا چهوڑ دیا
....................
تمھارے وعدوں کا قد بھی تمھارے جیسا ہے
کبھی جو ناپ کے دیکھو تو کم نکلتا ہے
....................
تیرے کاسے میں فقط ہمدردیاں ڈالیں گے لوگ
داستانِ غم زمانے کو سنانا چھوڑ دے
....................
تمھیں دانِستہ محفِل میں جو دیکھا ہو تو مُجرم ہُوں !
نَظر آخِر نَظر ہے، بے اِرادہ اُٹھ گئی ہوگی
....................
تم اصل میں کچھ اور ہو، آتے ہو نظر اور
پردے کے اِدھر اور ہو، پردے کے اُدھر اور
....................
تم آسمان کی بلندی سے جلد لوٹ آنا
ہمیں زمیں کے مسائل پہ بات کرنی ہے
....................
تیر پہ تیر چلاؤ تمہیں ڈر کس کا ہے
سینہ کس کا ہے مری جان جگر کس کا ہے
....................
توانا بوَد ہر کہ دانا بوَد
زِ دانش دلِ پیر برنا بوَد
....................
تُو اے پیماں شکن امشب بما باش
کہ ما باشیم فردا یا نہ باشیم
....................
تم میں حور کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں
جلوۂ طور تو موجود ہے موسی ہی نہیں
....................
تیرے کُوچے میں جو تھے،سامنے تھا تُو ھی تُو
تیرے کُوچے سے جو نکلے تو خدا یاد آیا
....................
ترا باچنیں تندی و سرکشی
نہ پندارم از خاکی از آتشی
....................
ترسم نرسی بہ کعبہ ائے اعرابی
کیں رہ کہ تو می روی بترکستان ست
....................
تا مرد سخن نگفتہ باشد
عیب و ہنرش نہفتہ باشد
....................
تِرے وجوُد کو محسُوس عُمر بھر ہوگا
تِرے لبوں پہ جو ہم نے جواب لِکھّا ہے
....................
تو جاتے جاتے نہ دے مجھ کو زندگی کی دُعا
میں جی سکوُں گا تِرے بعد یہ گُماں مت کر
....................
تاک میں دشمن بھی تھے اور پشت پر احباب بھی
پہلا پتھر کس نے مارا ، یہ کہانی پھر سہی
....................
تحمّل تا کجا، ٹُوٹا ہے اِک لشکر مصیبت کا
مدد یا رب، قدم اب صبرکی منزل سے اُٹھتا ہے
....................
تصویر کو بھی اُس کی یہاں تک غرور ہے
دیکھے کبھی نہ طالبِ دیدار کی طرف
....................
تمام شہر میں اب ایک بھی نہیں منصور
کہیں گے کیا رسن و دار، آؤ سچ بولیں
....................
تنہا رہتا ہوں میں دن بھر بھری دنیا میں ٖقتیل
دن بُرے ہوں تو پھر احباب کہاں آتے ہیں
....................
تمہاری آنکھیں جو شعر سنانے لگ جائیں
ہم جو یہ غزلیں لئیے پھرتے ہیں،ٹھکانے لگ جائیں
..........................
تو اگر حسن کا یوسف ھے تو اے جان غزل
میری آنکھیں بھی تو یعقوب بنی رھتی ھیں
....................
ت
و مِلے یا نہ مِلے، جو ہو مقدّر اپنا
کیا یہ کم ہے، کہ تِرے چاہنے والے ہوئے ہیں
....................
تِرا غرور مِرا عجز تا کُجا ظالم
ہرایک بات کی آخر کچھ اِنتہا بھی ہے
....................
تُجھ سے کِس طرح میں اِظہارِ تمنّا کرتا
لفظ سُوجھا، تو معانی نے بغاوت کردی
....................
تو بھی اے ناصح کسی پر جان دے
ہاتھ لا اُستاد کیوں کیسی کہی !
....................
تعزیزِ جرمِ عِشق ہے بے صرفہ محتسب !
بڑھتا ہے اور ذوقِ گُنِہ یاں سزا کے بعد
....................
تُو جو کرتا ہے ملامت ، دیکھ کر میرا یہ حال !
کیا کروں میں، تُو نے اُس کو ناصحا دیکھا نہیں
....................
تِری نظر کا کرشمہ ، تِرے شباب کا جوش
شراب پی بھی نہیں ، اور ہو گئے مدہوش
....................
تجھ کو برباد تو ہونا تھا بہرحال خُمار
ناز کر ناز ، کہ اُس نے تُجھے برباد کیا
....................
تم مُخاطب بھی ہو ، قرِیب بھی ہو
تم کو دیکھیں ، کہ تم سے بات کریں
....................
تری خوشبو نہیں ملتی، ترا لہجہ نہیں ملتا
ہمیں تو شہر میں کوئی ترے جیسا نہیں ملتا
....................
تمناؤں میں اُلجھایا گیا ہُوں
کھلونے دیکے بہلایا گیا
....................
تمام عمر کبھی جس سے کھُل کے بات نہ کی
ہر اِک سُخن میں اُسی سے مِرا خطاب رہا
....................
تیز قدموں سے چلو اور تصادُم سے بچو
بھِیڑ میں سُست چلو گے تو کُچل جاؤ گے
....................
تِری بندہ پروَرِی سے مِرے دن گزر رہے ہیں
نہ گِلہ ہے دوستوں کا، نہ شکایتِ زمانہ
....................
تشبیہ دے کے قامتِ جاناں کو سَرْو سے
اونچا ہرایک سَرْو کا قد ہم نے کر دیا
....................
تدبیر دوستوں کی مجھے نفع کیا کرے
بیماری اور کچھ ہے، کریں ہیں دوا کچھ اور
....................
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
....................
تسکین نہ ہو جس میں وہ راز بدل ڈالو
جو راز نہ رکھ پائے ہم را ز بدل ڈالو
....................
تم نے بھی سنی ہو گی بڑی عام کہا وت ھے
انجام کا ہو خطرہ آغاز بد ل ڈالو
....................
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
....................
تیرے وعدے پہ جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
....................
تجھے معلوم تھا تجھ کو انا کا سانپ ڈس لیگا
بتا پھر دل کے گوشے میں اسے پالا تو پالا کیوں ؟
....................
تازہ خواہی داشتن گرداغھائے سینہ را
گاہے گاہے باز خواں ایں قصۂ پارینہ را
....................
تیری صورت سے کسی کی نہیں ملتی صورت
ہم جہاں میں تیری تصویر لیے پہرتے ہیں
....................
تمهاری کن انکهیوں سے دل لرزتا هے تم اپنے زلف سنوارو مجھے فریب نه دو
....................
ترے کاندهے په تری زلف کا بل اچھا هے کسنے رکھا هے ترا نام غزل اچھا هے,
....................
تقسیم کررہا ہے جو تکمیل کی سند
پہلے خود اپنے آپ کو وہ مستند کرے
....................
ترے لباس نے دنیا برہنہ تن کر دی
ترے ضمیر پہ تھو،تیرے اختیار پہ تف
....................
تیرے جانے کا سبب نہیں پوچھیں گے ہم
مگر لے جانا اپنی یادیں بھی جانے سے پہلے
....................
تُم اپنی انجمن کا ذرا جائزہ تو لو
کہنے کو تو چراغ بہت تھے، جلا ہے کون؟
....................
تیری پاکیزہ نگاہوں میں فتور آجائے گا
آئینہ مت دیکھ تجھ میں بھی غرور آجائے گا
....................
تھے تو وہ آباء تمہارے ہی تم کیا ہو
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
....................
ترک دنیا کر نہ ہر لذت کو چھوڑ
معصیت کو ترک کر غفلت کو چھوڑ
....................
تیری رسوائیوں کے ڈر سے فقط خاموش بیٹھے ہیں
اگر لکھنے پہ آ جائیں، قلم سے سر قلم کر دیں
....................
ختم شد
کیا یہ کم ہے، کہ تِرے چاہنے والے ہوئے ہیں
....................
تِرا غرور مِرا عجز تا کُجا ظالم
ہرایک بات کی آخر کچھ اِنتہا بھی ہے
....................
تُجھ سے کِس طرح میں اِظہارِ تمنّا کرتا
لفظ سُوجھا، تو معانی نے بغاوت کردی
....................
تو بھی اے ناصح کسی پر جان دے
ہاتھ لا اُستاد کیوں کیسی کہی !
....................
تعزیزِ جرمِ عِشق ہے بے صرفہ محتسب !
بڑھتا ہے اور ذوقِ گُنِہ یاں سزا کے بعد
....................
تُو جو کرتا ہے ملامت ، دیکھ کر میرا یہ حال !
کیا کروں میں، تُو نے اُس کو ناصحا دیکھا نہیں
....................
تِری نظر کا کرشمہ ، تِرے شباب کا جوش
شراب پی بھی نہیں ، اور ہو گئے مدہوش
....................
تجھ کو برباد تو ہونا تھا بہرحال خُمار
ناز کر ناز ، کہ اُس نے تُجھے برباد کیا
....................
تم مُخاطب بھی ہو ، قرِیب بھی ہو
تم کو دیکھیں ، کہ تم سے بات کریں
....................
تری خوشبو نہیں ملتی، ترا لہجہ نہیں ملتا
ہمیں تو شہر میں کوئی ترے جیسا نہیں ملتا
....................
تمناؤں میں اُلجھایا گیا ہُوں
کھلونے دیکے بہلایا گیا
....................
تمام عمر کبھی جس سے کھُل کے بات نہ کی
ہر اِک سُخن میں اُسی سے مِرا خطاب رہا
....................
تیز قدموں سے چلو اور تصادُم سے بچو
بھِیڑ میں سُست چلو گے تو کُچل جاؤ گے
....................
تِری بندہ پروَرِی سے مِرے دن گزر رہے ہیں
نہ گِلہ ہے دوستوں کا، نہ شکایتِ زمانہ
....................
تشبیہ دے کے قامتِ جاناں کو سَرْو سے
اونچا ہرایک سَرْو کا قد ہم نے کر دیا
....................
تدبیر دوستوں کی مجھے نفع کیا کرے
بیماری اور کچھ ہے، کریں ہیں دوا کچھ اور
....................
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
....................
تسکین نہ ہو جس میں وہ راز بدل ڈالو
جو راز نہ رکھ پائے ہم را ز بدل ڈالو
....................
تم نے بھی سنی ہو گی بڑی عام کہا وت ھے
انجام کا ہو خطرہ آغاز بد ل ڈالو
....................
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
....................
تیرے وعدے پہ جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
....................
تجھے معلوم تھا تجھ کو انا کا سانپ ڈس لیگا
بتا پھر دل کے گوشے میں اسے پالا تو پالا کیوں ؟
....................
تازہ خواہی داشتن گرداغھائے سینہ را
گاہے گاہے باز خواں ایں قصۂ پارینہ را
....................
تیری صورت سے کسی کی نہیں ملتی صورت
ہم جہاں میں تیری تصویر لیے پہرتے ہیں
....................
تمهاری کن انکهیوں سے دل لرزتا هے تم اپنے زلف سنوارو مجھے فریب نه دو
....................
ترے کاندهے په تری زلف کا بل اچھا هے کسنے رکھا هے ترا نام غزل اچھا هے,
....................
تقسیم کررہا ہے جو تکمیل کی سند
پہلے خود اپنے آپ کو وہ مستند کرے
....................
ترے لباس نے دنیا برہنہ تن کر دی
ترے ضمیر پہ تھو،تیرے اختیار پہ تف
....................
تیرے جانے کا سبب نہیں پوچھیں گے ہم
مگر لے جانا اپنی یادیں بھی جانے سے پہلے
....................
تُم اپنی انجمن کا ذرا جائزہ تو لو
کہنے کو تو چراغ بہت تھے، جلا ہے کون؟
....................
تیری پاکیزہ نگاہوں میں فتور آجائے گا
آئینہ مت دیکھ تجھ میں بھی غرور آجائے گا
....................
تھے تو وہ آباء تمہارے ہی تم کیا ہو
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
....................
ترک دنیا کر نہ ہر لذت کو چھوڑ
معصیت کو ترک کر غفلت کو چھوڑ
....................
تیری رسوائیوں کے ڈر سے فقط خاموش بیٹھے ہیں
اگر لکھنے پہ آ جائیں، قلم سے سر قلم کر دیں
....................
ختم شد
حرف ٹ سے اشعار!!
ترتیب دادہ: راہی حجازی، عرفان پالن پوری، عادل سعیدی
تاریخ: ۲ / ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۴ / ستمبر ۲۰۱۶ء ۔
........................................
ٹکڑے ٹکڑے ہوئے آفاق پہ خورشید و قمر
اب کسی سَمت اندھیرا نہ اُجالا ہو گا
....................
ٹھیس لگ جائے نہ اُن کی حسرتِ دیدار کو
اے ہجومِ غم! سنبھلنے دے ذرا بیمار کو
....................
ٹک دیکھ ادھر ، غور کر،انصاف یہ ہے واہ
ہر جرم و گنہ غیر سے اور نام ہمارا
....................
ٹک آنکھ ملاتے ہی کیا کام ہمارا
تس پر یہ غضب پوچھتے ہو نام ہمارا
....................
ٹھہر اے دل جمالِ روئے زیبا ہم بھی دیکھیں گے
ذرا صیقل تو ہو لے تشنگی بادہ گُساروں کی
....................
ٹوٹتا جب بھی فلک پر کوئی ستارا دیکھا
ہم نے جانا کہ کوئی اپنے ہی جیسا دیکھا
....................
ٹوٹنا یوں تو مقدر ہے مگر کچھ لمحے
پھول کی طرح میسر ہوں شجر میں رہنا
....................
ٹوٹے ہوئے خوابوں نے ، ہم کو یہ سکھایا ہے
دل نے جسے پایا تھا ، آنکھوں نے گنوایا ہے
....................
ٹوٹ جاتے ہیں رشتے اپنوں كے ايسے
جيسے ہوں بكھرے موتی ایک تسبیح كے
....................
ٹوٹی ہوئی منڈیر پہ چھوٹا سا اک دیا
طوفاں سے کہہ رہا ہے کہ آندھی چلا کے دیکھ
....................
ٹھہرو کوئی دم ، کہ جان ٹھہرے
مت جاؤ ، کہ جی سے جائیں گے ہم
....................
ٹھہرتی ہی نہیں آنکھیں جاناں
تیری تصویر کی زیبائی پر
....................
ٹھہر گئے ہیں قدم، راستے بھی ختم ہُوئے
مسافتیں رگ و پے میں اُتر رہی ہیں مگر
....................
ٹُوٹ جائیں کہ پگھل جائیں مرے کچے گھڑے
تجھ کو میں دیکھوں کہ یہ آگ کا دریا دیکھوں
....................
ٹوٹا تو ہوں مگر ابھی بکھرا نہیں فراز
میرے بدن پہ جیسے شکستوں کا جال ہو
....................
ٹکڑا کوئی عطا ہو احرامِ بندگی کا
سوراخ پڑ گئے ہیں اخلاص کے کفن میں
....................
ٹوٹا تو کتنے آئینہ خانوں پہ زد پڑی
اٹکا ہوا گلے میں جو پتھر صدا کا تھا
....................
ٹکرا کے ناخدا نے مری کشتیِ حیات
ساحل کو میرے واسطے طوفاں بنا دیا
....................
ٹھکرا کے لحد قمرؔ وہ بولے
باقی ابھی تک ترا نشان ہے
....................
ٹوٹا تو ہوں مگر ابھی بکھرا نہیں فراز
میرے بدن پہ جیسے شکستوں کا جال ہو
....................
ٹوٹا کعبہ کون سی جائے غم ہے شیخ
کچھ قصر دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا
....................
ٹھکانہ میرا جنگل میں ہے، ویرانے میں، صحرا میں
چمن کی آبشاروں سے مجھے کچھ بھی نہیں لینا
....................
ٹکڑے لئے بیٹھا ہوں یوں شیشۂ دل کے
جیسے کہ مسیحا کا پتا بھول گیا ہوں
....................
ٹُوٹ جائیں نہ رگیں ضبط مُسلسل سےکہیں
چھپ کےتنہائی میں کچھ اشک بہالے تُو بھی
....................
ٹک ساتھ ہو حسرت دل مرحوم سے نکلے
عاشق کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے
....................
ٹھہر گئے ہیں سرِ راہ خاک اُڑانے کو
مسافروں کو نہ چھیڑ اے ہواۓ صحرائی
....................
ٹھہرا تھا وہ گل عذار کچھ دیر
بھر پور رہی بہار کچھ دیر
....................
ٹہنی پہ خموش اک پرندہ
ماضی کے الٹ رہا ہے دفتر
....................
ٹھنڈی آہیں بھرنے والو
ٹھنڈی آہیں بھر دیکھا ہے
....................
ٹوٹ کر یہ بھی بکھر جاتی ہیں ایک لمحے میں
کچھ امیدیں بھی گھروندوں کی طرح ہوتی ہیں
....................
ٹک دیکھ صنم خانۂ عشق آن کے اے شیخ
جوں شمعِ حرم رنگ جھمکتا ہے بتاں کا
....................
ٹوٹے تری نگہ سے اگر دل حباب کا
پانی بھی بھر پئیں تو مزہ ہے شراب کا
....................
ٹھرو! ابھی تو صبح کا تارا ہے ضو فشاں
دیکھو! مجھے فریب نہ دو، میں نشے میں ہوں
....................
ٹمٹماتے رہے حسرتوں کے دئیے
مسکراتی رہی رات بھر چاندنی
....................
ٹپکے جو اشک ولولے، شاداب ہوگئے
کتنے عجیب عشق کے آداب ہوگئے
....................
ٹوٹے ہوئے خوابوں نے ہم کو یہ سکھایا ہے
دل نے جسے پایا تھا، آنکھوں نے گنوایا ہے
....................
ٹھانی تھی جی میں، اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
پر کیا کریں کہ ہوگئے ناچار جی سے ہم
....................
ٹک حرص و ہوس کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارہ
....................
ٹوٹے مرے خوابوں کے جزیرے مرے آگے
چمکا مری قسمت کا ستارہ مرے آگے
....................
ٹوٹے ہوئے مرقد بھی ذرا دیکھ لے چل کے
تنہائی میں نقشے نہ بنا تاج محل کے
....................
ٹک ولی کی لحد پر بھی ڈالو نظر
اک نگاہِ محبت کا ہے منتظر
....................
ٹک ولی کی طرف نگاہ کرو
صبح سے منتظر ہے درشن کا
....................
ٹَٹَّر کے جھونپڑے ہوں جہاں بھی یہ عرض ہے
یارب! ادھر نہ جائے کوئی سرپھری ہوا
....................
ٹھہرے اگر تو منزلِ مقصود پھر ک
ترتیب دادہ: راہی حجازی، عرفان پالن پوری، عادل سعیدی
تاریخ: ۲ / ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۴ / ستمبر ۲۰۱۶ء ۔
........................................
ٹکڑے ٹکڑے ہوئے آفاق پہ خورشید و قمر
اب کسی سَمت اندھیرا نہ اُجالا ہو گا
....................
ٹھیس لگ جائے نہ اُن کی حسرتِ دیدار کو
اے ہجومِ غم! سنبھلنے دے ذرا بیمار کو
....................
ٹک دیکھ ادھر ، غور کر،انصاف یہ ہے واہ
ہر جرم و گنہ غیر سے اور نام ہمارا
....................
ٹک آنکھ ملاتے ہی کیا کام ہمارا
تس پر یہ غضب پوچھتے ہو نام ہمارا
....................
ٹھہر اے دل جمالِ روئے زیبا ہم بھی دیکھیں گے
ذرا صیقل تو ہو لے تشنگی بادہ گُساروں کی
....................
ٹوٹتا جب بھی فلک پر کوئی ستارا دیکھا
ہم نے جانا کہ کوئی اپنے ہی جیسا دیکھا
....................
ٹوٹنا یوں تو مقدر ہے مگر کچھ لمحے
پھول کی طرح میسر ہوں شجر میں رہنا
....................
ٹوٹے ہوئے خوابوں نے ، ہم کو یہ سکھایا ہے
دل نے جسے پایا تھا ، آنکھوں نے گنوایا ہے
....................
ٹوٹ جاتے ہیں رشتے اپنوں كے ايسے
جيسے ہوں بكھرے موتی ایک تسبیح كے
....................
ٹوٹی ہوئی منڈیر پہ چھوٹا سا اک دیا
طوفاں سے کہہ رہا ہے کہ آندھی چلا کے دیکھ
....................
ٹھہرو کوئی دم ، کہ جان ٹھہرے
مت جاؤ ، کہ جی سے جائیں گے ہم
....................
ٹھہرتی ہی نہیں آنکھیں جاناں
تیری تصویر کی زیبائی پر
....................
ٹھہر گئے ہیں قدم، راستے بھی ختم ہُوئے
مسافتیں رگ و پے میں اُتر رہی ہیں مگر
....................
ٹُوٹ جائیں کہ پگھل جائیں مرے کچے گھڑے
تجھ کو میں دیکھوں کہ یہ آگ کا دریا دیکھوں
....................
ٹوٹا تو ہوں مگر ابھی بکھرا نہیں فراز
میرے بدن پہ جیسے شکستوں کا جال ہو
....................
ٹکڑا کوئی عطا ہو احرامِ بندگی کا
سوراخ پڑ گئے ہیں اخلاص کے کفن میں
....................
ٹوٹا تو کتنے آئینہ خانوں پہ زد پڑی
اٹکا ہوا گلے میں جو پتھر صدا کا تھا
....................
ٹکرا کے ناخدا نے مری کشتیِ حیات
ساحل کو میرے واسطے طوفاں بنا دیا
....................
ٹھکرا کے لحد قمرؔ وہ بولے
باقی ابھی تک ترا نشان ہے
....................
ٹوٹا تو ہوں مگر ابھی بکھرا نہیں فراز
میرے بدن پہ جیسے شکستوں کا جال ہو
....................
ٹوٹا کعبہ کون سی جائے غم ہے شیخ
کچھ قصر دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا
....................
ٹھکانہ میرا جنگل میں ہے، ویرانے میں، صحرا میں
چمن کی آبشاروں سے مجھے کچھ بھی نہیں لینا
....................
ٹکڑے لئے بیٹھا ہوں یوں شیشۂ دل کے
جیسے کہ مسیحا کا پتا بھول گیا ہوں
....................
ٹُوٹ جائیں نہ رگیں ضبط مُسلسل سےکہیں
چھپ کےتنہائی میں کچھ اشک بہالے تُو بھی
....................
ٹک ساتھ ہو حسرت دل مرحوم سے نکلے
عاشق کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے
....................
ٹھہر گئے ہیں سرِ راہ خاک اُڑانے کو
مسافروں کو نہ چھیڑ اے ہواۓ صحرائی
....................
ٹھہرا تھا وہ گل عذار کچھ دیر
بھر پور رہی بہار کچھ دیر
....................
ٹہنی پہ خموش اک پرندہ
ماضی کے الٹ رہا ہے دفتر
....................
ٹھنڈی آہیں بھرنے والو
ٹھنڈی آہیں بھر دیکھا ہے
....................
ٹوٹ کر یہ بھی بکھر جاتی ہیں ایک لمحے میں
کچھ امیدیں بھی گھروندوں کی طرح ہوتی ہیں
....................
ٹک دیکھ صنم خانۂ عشق آن کے اے شیخ
جوں شمعِ حرم رنگ جھمکتا ہے بتاں کا
....................
ٹوٹے تری نگہ سے اگر دل حباب کا
پانی بھی بھر پئیں تو مزہ ہے شراب کا
....................
ٹھرو! ابھی تو صبح کا تارا ہے ضو فشاں
دیکھو! مجھے فریب نہ دو، میں نشے میں ہوں
....................
ٹمٹماتے رہے حسرتوں کے دئیے
مسکراتی رہی رات بھر چاندنی
....................
ٹپکے جو اشک ولولے، شاداب ہوگئے
کتنے عجیب عشق کے آداب ہوگئے
....................
ٹوٹے ہوئے خوابوں نے ہم کو یہ سکھایا ہے
دل نے جسے پایا تھا، آنکھوں نے گنوایا ہے
....................
ٹھانی تھی جی میں، اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
پر کیا کریں کہ ہوگئے ناچار جی سے ہم
....................
ٹک حرص و ہوس کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارہ
....................
ٹوٹے مرے خوابوں کے جزیرے مرے آگے
چمکا مری قسمت کا ستارہ مرے آگے
....................
ٹوٹے ہوئے مرقد بھی ذرا دیکھ لے چل کے
تنہائی میں نقشے نہ بنا تاج محل کے
....................
ٹک ولی کی لحد پر بھی ڈالو نظر
اک نگاہِ محبت کا ہے منتظر
....................
ٹک ولی کی طرف نگاہ کرو
صبح سے منتظر ہے درشن کا
....................
ٹَٹَّر کے جھونپڑے ہوں جہاں بھی یہ عرض ہے
یارب! ادھر نہ جائے کوئی سرپھری ہوا
....................
ٹھہرے اگر تو منزلِ مقصود پھر ک
ہاں
ساغر بکف گرے تو سنبھلنا نہ چاھئے
....................
ٹوٹے پتے، کمہلائے گل، اب سوکھنے کو ہر ڈالی
ہم خون سے اپنے جھلسے چمن کو پھر گلزار بنائیں گے
....................
ٹوٹ جائے نہ کہیں رشتۂ غم
بارِ غم حد سے گراں ہے یارو!
....................
ٹوٹ جائےگا یہ احساس کہ ایک ٹھوکر سے
کچی مٹی کا گھروندا ہے، تمنا کیا ہے
....................
ٹوٹے ہوئے دلوں کا سہارا تمہی تو ہو
دنیائے دوں میں حق کا منارا تمہی تو ہو
....................
ٹوٹ گیا تھا رابطہ بندہ و حق کے درمیاں
تو نے درست کردئے، بگڑے ہوئے تعلقات
....................
ٹوٹتا ہے کہ نہیں اب درِ زنداں اپنا
آج کل تند زمانے کا ہوا ہے تو سہی
....................
ٹمٹماتا جارہا تھا دین و ایمان کا چراغ
نورِ حق سے لوْ بڑھا کر تیز تونے کردیا
....................
ٹپکے جو اشک، ولولے شاداب ہوگئے
کتنے عجیب عشق کے آداب ہوگئے
....................
ٹھہر ٹھہر، کہ بہت دل کشا ہے یہ منظر
ذرا میں دیکھ تو لوں، تابناکئی شمشیر
....................
ٹھوکروں ہی سے تو ملتا ہے سراغِ منزل
ظلمتوں ہی سے نمودار سحر ہوتی ہے
....................
ٹپک ائے شمع! آنسوں بن کے پروانے کی آنکھوں میں
سراپا درد ہوں، حسرت بھری ہے داستاں میری
....................
ٹوٹا ہے میرا دل یہ زمانے کو ہے خبر
توڑا ہے کس نے اب تلک آیا نہیں نظر
....................
ٹوٹے ہوئے دلوں میں اس کا ہوا بسیرا
عالم کی وسعتوں میں جو کہ نہیں سمایا
....................
ٹھوکریں کھا کے نہ سنبھلے یہ مسافر کا نصیب
فرض کرتے ہیں ادا، راہ کے پتھر اپنا
....................
ٹوٹنا بکھرنا ہی دل کی خاص فطرت ہے
محفلِ دو عالم میں، بس اسی سے عزت ہے
....................
ٹوٹ کر دل بنام بزمِ جہاں کی زینت
توڑنے والے ترے ہاتھ بھلا کیا آیا
....................
ٹوٹی خرد کی ناؤ تو وحشت نے جھوم کر
طوفاں کے زیر و بم کو سفینہ بنادیا
....................
ٹوٹ کر جو جڑتے ہیں دل، انہی کی قیمت ہے
ایسے آبگینوں میں جلوۂ مشیت ہے
....................
ٹھکانہ ڈھونڈ، ائے مرغِ چمن! خوش رنگ پھولوں کا
اگر تنکوں کو اپنا آشیاں سمجھا تو کیا سمجھا
....................
ٹکرا کے ساحلوں سے میں پلٹا ہوں بار بار
دریا کا اضطراب مری زندگی میں ہے
....................
ٹھہروں تو چٹانوں سی کلیجے پہ کھڑی ہے
جاؤں تو مرے ساتھ ہی دیوار چلے ہے
....................
ٹوٹ جاؤنگا، بکھرجاؤنگا، ہاروں گا نہیں
مری ہمت کو زمانے کی ہوا جاتنی ہے
....................
ٹوٹا تو کتنے آئینہ خانوں پہ زد پڑی
اٹکا ہوا گلے میں جو پتھر صدا کا تھا
....................
ٹوٹا سا ایک چراغ تھا دل، وہ بھی بجھ گیا
اب کیا ہے، جس کو آتشِ کاشانہ کیجئے
....................
ٹک تو فرصت، کہ رخصت ہولیں ائے صیاد ہم
مدتوں اس باغ کے سائے میں تھے آباد ہم
....................
ٹوٹ کر بھی کہیں یہ ٹوٹا ہے
دل کا رشتہ عجیب رشتہ ہے
....................
ٹوٹ کر ایک ستارے نے دیا ہم کو سبق
روشنی راہ میں بن جاؤ زمانے کےلئے
....................
ٹکڑے ٹپک رہے ہیں ہر زخمِ خونچکاں سے
تجھ کو دلِ شکستہ جوڑوں کہاں کہاں سے
....................
ٹک گورِ غریباں کی، کر سیر کہ دنیا میں
ان ظلم رسیدوں پر کہ کیا نہ ہوا ہوگا
....................
ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمۂ گل
یہی ہے فصلِ بہاری یہی ہے بادِ مراد
....................
ٹکرا کے اختلاف کی دیوار توڑ دی
ضدی تھا سر بلند ہوا خاندان میں
....................
ٹھوکریں کھا کے کہیں بیٹھ نہ جانا راہی
راہ کچھ اور ہے، منزل کا تصور کچھ اور
....................
ٹن ٹنا کر موت کی گھنٹی بجی جب سر کے پاس
ائے ولی! تب خوابِ غفلت سے ہوئے بیدار ہم
....................
ٹل نہ سکتے تھے، اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے
پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے
....................
ٹرٹراتے پھر رہے ہیں قوم کے لیڈر ولی
جب الکشن کا زمانہ آتا ہے سنسار میں
....................
ٹھوکر سے مرا پاؤں تو زخمی ہوا ضرور
رستے میں جو کھڑا تھا، وہ کھسار ہٹ گیا
....................
ٹھہری ہوئی ہے سب کی سیاہی وہیں مگر
کچھ کچھ سحر کے رنگ پر افشاں ہوئے تو ہیں
....................
ٹپک رہی ہے جبین بہار سے شبنم
نہا نہا کے نکھرتے ہیں پھول سہرے کے
....................
ٹپک جاتا ہے خونِ دل، جب آنسو خشک ہوتے ہیں
غریبوں سے کسی کی مفلسی دیکھی نہیں جاتی
....................
ٹھہرے ہوئے ہیں پلکوں پہ آنسو اسی لئے
بے روشنی کئے یہ ستارے نہ جائیں گے
....................
ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں کچھ رونا گانا آئے ہے
لوگ یہ سمجھے ہیں کہ ہم کو بات بنانا آئے ہے
....................
ٹھیک کہتے ہیں مگر خام عقائد والو
ہم تو تقدیر کے بندے ہیں ہمیں کیا معلوم
....................
ٹھہرائیں گے ان لبوں کو مطلع
جاناں کے لیے سخن ک
ساغر بکف گرے تو سنبھلنا نہ چاھئے
....................
ٹوٹے پتے، کمہلائے گل، اب سوکھنے کو ہر ڈالی
ہم خون سے اپنے جھلسے چمن کو پھر گلزار بنائیں گے
....................
ٹوٹ جائے نہ کہیں رشتۂ غم
بارِ غم حد سے گراں ہے یارو!
....................
ٹوٹ جائےگا یہ احساس کہ ایک ٹھوکر سے
کچی مٹی کا گھروندا ہے، تمنا کیا ہے
....................
ٹوٹے ہوئے دلوں کا سہارا تمہی تو ہو
دنیائے دوں میں حق کا منارا تمہی تو ہو
....................
ٹوٹ گیا تھا رابطہ بندہ و حق کے درمیاں
تو نے درست کردئے، بگڑے ہوئے تعلقات
....................
ٹوٹتا ہے کہ نہیں اب درِ زنداں اپنا
آج کل تند زمانے کا ہوا ہے تو سہی
....................
ٹمٹماتا جارہا تھا دین و ایمان کا چراغ
نورِ حق سے لوْ بڑھا کر تیز تونے کردیا
....................
ٹپکے جو اشک، ولولے شاداب ہوگئے
کتنے عجیب عشق کے آداب ہوگئے
....................
ٹھہر ٹھہر، کہ بہت دل کشا ہے یہ منظر
ذرا میں دیکھ تو لوں، تابناکئی شمشیر
....................
ٹھوکروں ہی سے تو ملتا ہے سراغِ منزل
ظلمتوں ہی سے نمودار سحر ہوتی ہے
....................
ٹپک ائے شمع! آنسوں بن کے پروانے کی آنکھوں میں
سراپا درد ہوں، حسرت بھری ہے داستاں میری
....................
ٹوٹا ہے میرا دل یہ زمانے کو ہے خبر
توڑا ہے کس نے اب تلک آیا نہیں نظر
....................
ٹوٹے ہوئے دلوں میں اس کا ہوا بسیرا
عالم کی وسعتوں میں جو کہ نہیں سمایا
....................
ٹھوکریں کھا کے نہ سنبھلے یہ مسافر کا نصیب
فرض کرتے ہیں ادا، راہ کے پتھر اپنا
....................
ٹوٹنا بکھرنا ہی دل کی خاص فطرت ہے
محفلِ دو عالم میں، بس اسی سے عزت ہے
....................
ٹوٹ کر دل بنام بزمِ جہاں کی زینت
توڑنے والے ترے ہاتھ بھلا کیا آیا
....................
ٹوٹی خرد کی ناؤ تو وحشت نے جھوم کر
طوفاں کے زیر و بم کو سفینہ بنادیا
....................
ٹوٹ کر جو جڑتے ہیں دل، انہی کی قیمت ہے
ایسے آبگینوں میں جلوۂ مشیت ہے
....................
ٹھکانہ ڈھونڈ، ائے مرغِ چمن! خوش رنگ پھولوں کا
اگر تنکوں کو اپنا آشیاں سمجھا تو کیا سمجھا
....................
ٹکرا کے ساحلوں سے میں پلٹا ہوں بار بار
دریا کا اضطراب مری زندگی میں ہے
....................
ٹھہروں تو چٹانوں سی کلیجے پہ کھڑی ہے
جاؤں تو مرے ساتھ ہی دیوار چلے ہے
....................
ٹوٹ جاؤنگا، بکھرجاؤنگا، ہاروں گا نہیں
مری ہمت کو زمانے کی ہوا جاتنی ہے
....................
ٹوٹا تو کتنے آئینہ خانوں پہ زد پڑی
اٹکا ہوا گلے میں جو پتھر صدا کا تھا
....................
ٹوٹا سا ایک چراغ تھا دل، وہ بھی بجھ گیا
اب کیا ہے، جس کو آتشِ کاشانہ کیجئے
....................
ٹک تو فرصت، کہ رخصت ہولیں ائے صیاد ہم
مدتوں اس باغ کے سائے میں تھے آباد ہم
....................
ٹوٹ کر بھی کہیں یہ ٹوٹا ہے
دل کا رشتہ عجیب رشتہ ہے
....................
ٹوٹ کر ایک ستارے نے دیا ہم کو سبق
روشنی راہ میں بن جاؤ زمانے کےلئے
....................
ٹکڑے ٹپک رہے ہیں ہر زخمِ خونچکاں سے
تجھ کو دلِ شکستہ جوڑوں کہاں کہاں سے
....................
ٹک گورِ غریباں کی، کر سیر کہ دنیا میں
ان ظلم رسیدوں پر کہ کیا نہ ہوا ہوگا
....................
ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمۂ گل
یہی ہے فصلِ بہاری یہی ہے بادِ مراد
....................
ٹکرا کے اختلاف کی دیوار توڑ دی
ضدی تھا سر بلند ہوا خاندان میں
....................
ٹھوکریں کھا کے کہیں بیٹھ نہ جانا راہی
راہ کچھ اور ہے، منزل کا تصور کچھ اور
....................
ٹن ٹنا کر موت کی گھنٹی بجی جب سر کے پاس
ائے ولی! تب خوابِ غفلت سے ہوئے بیدار ہم
....................
ٹل نہ سکتے تھے، اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے
پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے
....................
ٹرٹراتے پھر رہے ہیں قوم کے لیڈر ولی
جب الکشن کا زمانہ آتا ہے سنسار میں
....................
ٹھوکر سے مرا پاؤں تو زخمی ہوا ضرور
رستے میں جو کھڑا تھا، وہ کھسار ہٹ گیا
....................
ٹھہری ہوئی ہے سب کی سیاہی وہیں مگر
کچھ کچھ سحر کے رنگ پر افشاں ہوئے تو ہیں
....................
ٹپک رہی ہے جبین بہار سے شبنم
نہا نہا کے نکھرتے ہیں پھول سہرے کے
....................
ٹپک جاتا ہے خونِ دل، جب آنسو خشک ہوتے ہیں
غریبوں سے کسی کی مفلسی دیکھی نہیں جاتی
....................
ٹھہرے ہوئے ہیں پلکوں پہ آنسو اسی لئے
بے روشنی کئے یہ ستارے نہ جائیں گے
....................
ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں کچھ رونا گانا آئے ہے
لوگ یہ سمجھے ہیں کہ ہم کو بات بنانا آئے ہے
....................
ٹھیک کہتے ہیں مگر خام عقائد والو
ہم تو تقدیر کے بندے ہیں ہمیں کیا معلوم
....................
ٹھہرائیں گے ان لبوں کو مطلع
جاناں کے لیے سخن ک
ہیں گے
....................
ٹھہر سکا نہ کسی خانقاہ میں اقبال
کہ ہے ظریف و خوش اندیشہ و شگفتہ دماغ
....................
ٹوٹ کر نوکیں ترے تیروں کی ارماں ہو گئیں
کیا کروں جو آہیں رسوائی کا ساماں
....................
ٹھہرا گیا نہ ہو کے حریف اس کی چشم کا
سینے کو توڑ تیر نگہ پار ہو گیا
....................
ٹھہرو ٹھہرو مرے اصنامِ خیالی ٹھہرو
میرا دل گوشۂ تنہائی میں گھبرائے گا
....................
ٹھہر سکا نہ بہت تیغِ موج کے آگے
ہزار سخت سہی، جسم تھا یہ ڈھال نہ تھا
....................
ٹہنی سے جھڑ کے رقص میں آیا، ادا کے ساتھ
پّتے نے یوں بھی، پریت نبھائی ہوا کے ساتھ
....................
ٹوٹے ہوئے دلوں کی دعا میرے ساتھ ہے
دنیا تیری طرف ہے خدا میرے ساتھ ہے
....................
ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا
بجتے رہے ہواؤں سے دَر تم کو اس سے کیا
....................
ٹکرا ہی گئی میری نظر اُن کی نظر سے
دھونا ہی پڑا ہاتھ مجھے قلب و جگر سے
....................
ٹوٹے ہوئے خوابوں نے ، ہم کو یہ سکھایا ہے
دل نے جسے پایا تھا ، آنکھوں نے گنوایا ہے
....................
ٹوٹنا چاہوں اُفق سے نہ ستاروں جیسا
اِتنی عجلت سے بُلائے نہ ابھی خاک مجھے
ختم شد
....................
ٹھہر سکا نہ کسی خانقاہ میں اقبال
کہ ہے ظریف و خوش اندیشہ و شگفتہ دماغ
....................
ٹوٹ کر نوکیں ترے تیروں کی ارماں ہو گئیں
کیا کروں جو آہیں رسوائی کا ساماں
....................
ٹھہرا گیا نہ ہو کے حریف اس کی چشم کا
سینے کو توڑ تیر نگہ پار ہو گیا
....................
ٹھہرو ٹھہرو مرے اصنامِ خیالی ٹھہرو
میرا دل گوشۂ تنہائی میں گھبرائے گا
....................
ٹھہر سکا نہ بہت تیغِ موج کے آگے
ہزار سخت سہی، جسم تھا یہ ڈھال نہ تھا
....................
ٹہنی سے جھڑ کے رقص میں آیا، ادا کے ساتھ
پّتے نے یوں بھی، پریت نبھائی ہوا کے ساتھ
....................
ٹوٹے ہوئے دلوں کی دعا میرے ساتھ ہے
دنیا تیری طرف ہے خدا میرے ساتھ ہے
....................
ٹوٹی ہے میری نیند مگر تم کو اس سے کیا
بجتے رہے ہواؤں سے دَر تم کو اس سے کیا
....................
ٹکرا ہی گئی میری نظر اُن کی نظر سے
دھونا ہی پڑا ہاتھ مجھے قلب و جگر سے
....................
ٹوٹے ہوئے خوابوں نے ، ہم کو یہ سکھایا ہے
دل نے جسے پایا تھا ، آنکھوں نے گنوایا ہے
....................
ٹوٹنا چاہوں اُفق سے نہ ستاروں جیسا
اِتنی عجلت سے بُلائے نہ ابھی خاک مجھے
ختم شد
حرف ث سے اشعار!!
ترتیب دادہ: نور محمد ابن بشیر، عادل سعیدی دیوبندی
تاریخ: ۳ / ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۷ / ستمبر ۲۰۱۶ء
........................................
1
ثنائے محمد ﷺ جو کرتے رہیں گے
وہ دامن مرادوں سے بھرتے رہیں گے
2
ثابت اسی کی ذات ہے فانی ہے کل جہاں
جو مالکِ قدیر ہے خلاقِ انس و جاں
3
ثابت و سیار کی تحقیق میں الجھا دیا
اور کیا کرتے زمین و آسماں میرے لئے
4
ثابت قدم ہوں مجھ کو قسم رب پاک کی
چیروں گا کوہ و دشت، بیاباں ہلاؤں گا
5
ثابت رہے گا کیسے آئینہ مرے دل کا
ہر سمت سے ہے مجھ پر یلغار پتھروں کی
6
ثاقب ہزار بات کی یہ ایک بات ہے
اپنا قیام ہی نہ جہاں کا ثبات ہے
7
ثبوت پیش کرو اپنی بے گناہی کا
نہیں تو جرم کی تم کو سزا ملے گی ضرور
8
ثاقب میں کس امید پہ دنیا میں اب جیوں
جتنے تھے زندگی کے سہارے نہیں رہے
9
ثاقب تمہیں خبر نہیں وقت عمل ہے یہ
اب سعیِ رائیگاں کا زمانہ گزر گیا
10
ثاقب انہیں کیا یاد کریں ہم، کہ جنہوں نے
بھولے سے سوئے گورِ غریباں نہیں دیکھا
11
ثبوت مل ہی گیا میری بے گناہی کا
کہ میرا دامنِ پاکیزہ ہے پیچھے سے پھٹا
12
ثبت ہے تاریخ پر تیرا دوام
تو عمل کے نور کا معیار ہے
13
ثابت یہ کرے کون کہ ان میں بھی جان تھی
وہ سارے جسم آج جو پتھر سے ہوگئے
14
ثمر آور کوئی بھی گفتگو ہوگی بھلا کیسے
ابھی جذبات کا بچھڑا ہوا دریا نہیں اترا
15
ثابت قدم رہوں تو تلاطم کا ساتھ دوں
ساحل کے رخ تو لا نہ سکوں گا، ہوا کو میں
16
ثباتِ گل کا چھڑا تذکرہ تو بات بنی
چمن میں حسنِ نظر کو بہار کہتے ہیں
17
ثابت ہوا فضول ہے اظہارِ آرزو
کہتے تو کیا ہو، اور نہ کہتے تو کیا نہ ہو
18
ثابت ہوا یہ ہے ترا انداز مستقل
دل سے تری نگاہِ کرم کا گماں گیا
19
ثبات پا نہ سکے گا کوئی نظامِ چمن
فسردہ غنچوں کو جس میں شگفتگی نہ ملی
20
ثابت یہ کر رہا ہوں کہ رحمت شناس ہوں
ہر قسم کا گناہ کئے جارہا ہوں میں
21
ثوابِ دردِ محبوب تو میں کما بھی چکا
جو میرے صبر کی دولت ہے مجھ سے چھینے کون
22
ثمر آئیں گے کيا اب نخلِ دل میں
کہ رشتہ ہی نہیں ہے اب وہ گل میں
23
ثابت نہیں کرسکتے اگر بے گناہ مجھ کو
یارو! مجھے سولی پہ چڑھا کیوں نہیں دیتے
24
ثمر، حیات کا جب راکھ بن گيا منہ میں
میں چلتی پھرتی چتا بن گیا جوانی کی
25
ثابت قدم رہا ہوں میں اپنی انا کے ساتھ
دنیا سمجھ رہی ہے کہ دیوانہ ہوگیا
26
ثابت یہ واقعہ ہے تاریخ گلستاں سے
تعمیری ہے قفس کی تخریب آشیاں سے
27
ثبوت، برق کی غارت گری کا کس سے ملے
کہ آشیاں تھا جہاں، اب وہاں دھواں بھی نہیں
28
ثبوت مانگتے ہو کیا مری وفاؤں کا
خدا کے نام پہ سب کچھ لٹا دیا میں نے
29
ثابت حقیقتوں کی طرف دیکھتے نہیں
مفروضہ داستانوں میں الجھے ہوئے ہیں ہم
30
ثباتِ زندگی ایمانِ محکم سے ہے دنیا میں
کہ اَلمانی سے بھی پائندہ تر نکلا ہے تو رانی
31
ثبوت ہیں قدم قدم، زباں زباں گواہ ہے
جو حق سے بدگماں ہائے، وہ اقتدار بجھ گئے
32
ثریا، مشتری، زہرہ، نجومی کے دلاسے ہیں
جو خود گردش میں ہے، وہ کیا کوئی تقدیر بدلے گا
33
ثبات، بحرِ جہاں میں نہیں کسی کو امیر
ادھر نمود ہوا، اور ادھر حباب نہ تھا
34
ثابت ہوا نہ جرم تو اک آہ ناتمام
زنجیر بن گئی درِ زنداں کے واسطے
35
ثابت قدم جو شاہ راہِ زندگی میں ہے
در اصل کامیاب وہی راہ روی میں ہے
36
ثبوت مل گیا غلامی کا
ان کے در پر جو آنا جانا ہے
37
ثنا اس نبی کی میں کرتا رہوں گا
سدا دم انہیں کا میں بھرتا رہوں گا
38
ثنا اس نبی کی کروں کس زباں سے
فزوں ذات جس کی ہے سارے جہاں سے
38
ثاقب! جہاں ملتی ہیں ہر اک کو دل کی مرادیں
ہم اس شہِ لولاک کا در ڈھونڈ رہے ہیں
39
ثبوت پیش کرو آپ کی غلامی کا
جو چاھتے ہو زمانہ تمہید سلام کرے
40
ثنائے رب میں زباں میری تربتر ہے ولی
اسی کے نام پہ جینا، اسی پہ مرنا ہے
41
ثاقب تم، اور حمد اس کی
بندہ بندہ، خدا خدا ہے
42
ثنا کرتی ہوئی چڑیوں کی چوں چوں
شجر کو زندگی دیتی رہی ہے
43
ثنا تیری نہیں ممکن زباں سے
معانی دور پھرتے ہیں بیاں سے
44
ثبات بس اسی کو حاصل ہے
جو اپنی عظمتوں میں کامل ہے
45
ثنا خوانی خدا کی مشغلہ میرا برابر ہے
اسی کے رحم کا فیضان ہر شئی میں برابر ہے
46
ثنائے مشیت مرا مشغلہ ہے
اسی کی عنایت سے طے مرحلہ ہے
47
ثبوت عشق کو بس ایک ٹھنڈی آہ کافی تھی
گنوا دی زندگی ہم نے مثالوں اور دلیلوں میں
48
ثابت ہوا کہ تیز ہوائیں تھیں شہر کی
اس شہر کے محل بھی تو بے چھت کے رہ گئے
49
ثاقب بڑی توقیر ہے اس ضبط وفا میں
ہر اشک جو آنکھوں سے نہ ٹپکے وہ گوہر ہے
50
ثمر ملا ہے یہ اک عمر کی رفاقت کا
کہ جانے والے نے رسماً بھی کچھ نہیں پوچھا
51
ثواب سمجھ کر تم دل توڑتے ہو ہمارا
گناہ سمجھ کر ہم تم سے گِلہ نہیں کرتے
52
ثبوت عشق دے دیا جان دے کر اپنی
کسی نے کہا کیا پھر آج کوئی عاشق چل بسا
53
ثبات وہم ہے یارو ، بقا کسی کی نہیں
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
ترتیب دادہ: نور محمد ابن بشیر، عادل سعیدی دیوبندی
تاریخ: ۳ / ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۷ / ستمبر ۲۰۱۶ء
........................................
1
ثنائے محمد ﷺ جو کرتے رہیں گے
وہ دامن مرادوں سے بھرتے رہیں گے
2
ثابت اسی کی ذات ہے فانی ہے کل جہاں
جو مالکِ قدیر ہے خلاقِ انس و جاں
3
ثابت و سیار کی تحقیق میں الجھا دیا
اور کیا کرتے زمین و آسماں میرے لئے
4
ثابت قدم ہوں مجھ کو قسم رب پاک کی
چیروں گا کوہ و دشت، بیاباں ہلاؤں گا
5
ثابت رہے گا کیسے آئینہ مرے دل کا
ہر سمت سے ہے مجھ پر یلغار پتھروں کی
6
ثاقب ہزار بات کی یہ ایک بات ہے
اپنا قیام ہی نہ جہاں کا ثبات ہے
7
ثبوت پیش کرو اپنی بے گناہی کا
نہیں تو جرم کی تم کو سزا ملے گی ضرور
8
ثاقب میں کس امید پہ دنیا میں اب جیوں
جتنے تھے زندگی کے سہارے نہیں رہے
9
ثاقب تمہیں خبر نہیں وقت عمل ہے یہ
اب سعیِ رائیگاں کا زمانہ گزر گیا
10
ثاقب انہیں کیا یاد کریں ہم، کہ جنہوں نے
بھولے سے سوئے گورِ غریباں نہیں دیکھا
11
ثبوت مل ہی گیا میری بے گناہی کا
کہ میرا دامنِ پاکیزہ ہے پیچھے سے پھٹا
12
ثبت ہے تاریخ پر تیرا دوام
تو عمل کے نور کا معیار ہے
13
ثابت یہ کرے کون کہ ان میں بھی جان تھی
وہ سارے جسم آج جو پتھر سے ہوگئے
14
ثمر آور کوئی بھی گفتگو ہوگی بھلا کیسے
ابھی جذبات کا بچھڑا ہوا دریا نہیں اترا
15
ثابت قدم رہوں تو تلاطم کا ساتھ دوں
ساحل کے رخ تو لا نہ سکوں گا، ہوا کو میں
16
ثباتِ گل کا چھڑا تذکرہ تو بات بنی
چمن میں حسنِ نظر کو بہار کہتے ہیں
17
ثابت ہوا فضول ہے اظہارِ آرزو
کہتے تو کیا ہو، اور نہ کہتے تو کیا نہ ہو
18
ثابت ہوا یہ ہے ترا انداز مستقل
دل سے تری نگاہِ کرم کا گماں گیا
19
ثبات پا نہ سکے گا کوئی نظامِ چمن
فسردہ غنچوں کو جس میں شگفتگی نہ ملی
20
ثابت یہ کر رہا ہوں کہ رحمت شناس ہوں
ہر قسم کا گناہ کئے جارہا ہوں میں
21
ثوابِ دردِ محبوب تو میں کما بھی چکا
جو میرے صبر کی دولت ہے مجھ سے چھینے کون
22
ثمر آئیں گے کيا اب نخلِ دل میں
کہ رشتہ ہی نہیں ہے اب وہ گل میں
23
ثابت نہیں کرسکتے اگر بے گناہ مجھ کو
یارو! مجھے سولی پہ چڑھا کیوں نہیں دیتے
24
ثمر، حیات کا جب راکھ بن گيا منہ میں
میں چلتی پھرتی چتا بن گیا جوانی کی
25
ثابت قدم رہا ہوں میں اپنی انا کے ساتھ
دنیا سمجھ رہی ہے کہ دیوانہ ہوگیا
26
ثابت یہ واقعہ ہے تاریخ گلستاں سے
تعمیری ہے قفس کی تخریب آشیاں سے
27
ثبوت، برق کی غارت گری کا کس سے ملے
کہ آشیاں تھا جہاں، اب وہاں دھواں بھی نہیں
28
ثبوت مانگتے ہو کیا مری وفاؤں کا
خدا کے نام پہ سب کچھ لٹا دیا میں نے
29
ثابت حقیقتوں کی طرف دیکھتے نہیں
مفروضہ داستانوں میں الجھے ہوئے ہیں ہم
30
ثباتِ زندگی ایمانِ محکم سے ہے دنیا میں
کہ اَلمانی سے بھی پائندہ تر نکلا ہے تو رانی
31
ثبوت ہیں قدم قدم، زباں زباں گواہ ہے
جو حق سے بدگماں ہائے، وہ اقتدار بجھ گئے
32
ثریا، مشتری، زہرہ، نجومی کے دلاسے ہیں
جو خود گردش میں ہے، وہ کیا کوئی تقدیر بدلے گا
33
ثبات، بحرِ جہاں میں نہیں کسی کو امیر
ادھر نمود ہوا، اور ادھر حباب نہ تھا
34
ثابت ہوا نہ جرم تو اک آہ ناتمام
زنجیر بن گئی درِ زنداں کے واسطے
35
ثابت قدم جو شاہ راہِ زندگی میں ہے
در اصل کامیاب وہی راہ روی میں ہے
36
ثبوت مل گیا غلامی کا
ان کے در پر جو آنا جانا ہے
37
ثنا اس نبی کی میں کرتا رہوں گا
سدا دم انہیں کا میں بھرتا رہوں گا
38
ثنا اس نبی کی کروں کس زباں سے
فزوں ذات جس کی ہے سارے جہاں سے
38
ثاقب! جہاں ملتی ہیں ہر اک کو دل کی مرادیں
ہم اس شہِ لولاک کا در ڈھونڈ رہے ہیں
39
ثبوت پیش کرو آپ کی غلامی کا
جو چاھتے ہو زمانہ تمہید سلام کرے
40
ثنائے رب میں زباں میری تربتر ہے ولی
اسی کے نام پہ جینا، اسی پہ مرنا ہے
41
ثاقب تم، اور حمد اس کی
بندہ بندہ، خدا خدا ہے
42
ثنا کرتی ہوئی چڑیوں کی چوں چوں
شجر کو زندگی دیتی رہی ہے
43
ثنا تیری نہیں ممکن زباں سے
معانی دور پھرتے ہیں بیاں سے
44
ثبات بس اسی کو حاصل ہے
جو اپنی عظمتوں میں کامل ہے
45
ثنا خوانی خدا کی مشغلہ میرا برابر ہے
اسی کے رحم کا فیضان ہر شئی میں برابر ہے
46
ثنائے مشیت مرا مشغلہ ہے
اسی کی عنایت سے طے مرحلہ ہے
47
ثبوت عشق کو بس ایک ٹھنڈی آہ کافی تھی
گنوا دی زندگی ہم نے مثالوں اور دلیلوں میں
48
ثابت ہوا کہ تیز ہوائیں تھیں شہر کی
اس شہر کے محل بھی تو بے چھت کے رہ گئے
49
ثاقب بڑی توقیر ہے اس ضبط وفا میں
ہر اشک جو آنکھوں سے نہ ٹپکے وہ گوہر ہے
50
ثمر ملا ہے یہ اک عمر کی رفاقت کا
کہ جانے والے نے رسماً بھی کچھ نہیں پوچھا
51
ثواب سمجھ کر تم دل توڑتے ہو ہمارا
گناہ سمجھ کر ہم تم سے گِلہ نہیں کرتے
52
ثبوت عشق دے دیا جان دے کر اپنی
کسی نے کہا کیا پھر آج کوئی عاشق چل بسا
53
ثبات وہم ہے یارو ، بقا کسی کی نہیں
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
54
ثبوت ِ عشق میں چاکِ گریباں مانگنے والو
کبھی کھلنے سے پہلے پھول کچھ مرجھا بھی جاتے ہیں
55
ثا بت بڑی توقیر ہے اس ضبطِ وفا میں
ہر اشک جو آنکھوں سے نہ ٹپکے وہ گہر ہے
56
ثابت ہوا فشارِ لحد سےیہ اے زمین
تو بھی انہیں دباتی ہے،جن میں کہ دم نہیں
57
ٖثروت و عیش کے ایوانوں میں اکثر ہم نے
سسکیاں لیتے ہوئے دیکھا ہے انسانوں کو
58
ثابت ہوا کہ مجھ سے محبت نہی رہی
وہ شخص مجھ کو دیکھ کر آنکھیں چرا گیا
59
ثبوت دوں گا تجھے میں وفاوَں کا اپنی
ذرا سا گردشِ دوراں سکوں تو لینے دے
60
ثبوت ہے یہ محبت کی سادہ لوحی کا
جب اس نے وعدہ کیا،میں نے اعتبار کیا
61
ثبوت عشق کو بس ایک ٹھنڈی آہ کافی تھی
گنوا دی زندگی ہم نے مثالوں اور دلیلوں میں
62
ثانی تیرا لا نہیں سکتی یہ دُنیا، ڈھونڈھ لے
" نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر "
63
ثبوت ِ عشق میں چاکِ گریباں مانگنے والو
کبھی کھلنے سے پہلے پھول کچھ مرجھا بھی جاتے ہیں
64
ثابت ہوا ہے گردنِ مینا پہ خونِ خلق
لرزے ہے موجِ مے تری رفتار دیکھ کر
65
ثبوت مانگتے ہیں میرے پیار کا یارو
ہر اِک سے ترکِ تعلق کیا ہے جن کے لئے
66
ثواب ہو کہ نہ ہو اس سے کیا غرض زاہد
مزہ ملا مجھے تجھ کو پلا کے پینے کا
67
ثواب کو نئی شکلیں جو دے رہا ہے تو
گناہ کےنئے سانچے بنا رہا ہوں میں
68
ثروتؔ تم اپنے لوگوں سے یوں ملتے ہو
جیسے ان لوگوں سے ملنا پھر نہ ہوگا
69
ثابت ہو ہے گردن مینا پہ خلق خون
لرزے ہے موج مے تری رفتار دیکھ کر
70
ثابت ہو سکون دل و جاں کہیں نہیں
رشتوں میں ڈھونڈتا ہے تو ڈھونڈا کرے کوئی
71
ثابت تو رہ جفا پہ میں قائم وفا پہ ہوں
میں اپنی بان چھوڑوں نہ تو اپنی ان چھوڑ
72
ثبوت سارے ہمارے خلاف بھی اب تو
ہمارے اپنے بیانات سے نکلتا ہے
73
ثبت ہوں دست خموشی پہ حنا کی صورت
نادشنیدہ سہی تیرا کہا ہوں میں بھی
74
ثابت نچانہ کافورین دار تک کوئی
تیغ نگہ نے اس کی کیے وار ہر طرف
75
ثبوت محکمئ جاں تھی جس کی برش ناز
اسی کی تیغ سے رشتہ رگ گل کا بھی ہو
76
ثابت ہوا کسی پہ نہ جرم وفا کبھی
پردہ کھلا نہ عشق سراپا گنا ہ گا
77
ثابت قدم ہوا نہ رہ عشق میں کوئی
مجنوں کوئی ہوا تو کوئی کوہ کن کوئی
78
ثبوت عشق کو یہ دو گواہ کافی ہیں
جگر میں داغ ہے دل میں اضطراب بھی ہے
79
ثؔروت ہدف بہت ہیں جوانان شہر میں
رکھو ابھی نہ تیر و کماں اپنے ہاتھ میں
80
ثابت ہوا کہ مجھ سے محبت نہی رہی
وہ شخص مجھ کو دیکھ کر آنکھیں چرا گیا
81
ثبوت مانگتے ہیں میرے پیار کا یارو
ہر اِک سے ترکِ تعلق کیا ہے جن کے لئے
82
ثاقب بڑی توقیر ہے اس ضبطِ وفا میں
ہر اشک جو آنکھوں سے نہ ٹپکے وہ گوہر ہے
83
ثابت ہوا کہ تیز ہوائیں تھیں شہر کی
اس شہر کے محل بھی تو بے چھت کے رہ گئے
84
ثمر تو کیا شجر پر کوئی پتّہ بھی نہیں ہے
مگر ہم ہیں کہ شاخوں کو جھنجوڑے جارہے ہیں
85
ثا بت بڑی توقیر ہے اس ضبطِ وفا میں
ہر اشک جو آنکھوں سے نہ ٹپکے وہ گہر ہے
86
ثبوت ہے یہ محبت کی سادہ لوحی کا
جب اس نے وعدہ کیا ہم نے اعتبار کیا
87
ثبات بحرِ جہاں میں اپنا فقط مثالِ حباب دیکھا
نہ جوش دیکھا ، نہ شور دیکھا ، نہ موج دیکھی ، نہ آب دیکھا
88
ثواب کے لیے ہو جو گناہ وہ عین ثواب
خدا کے نام پہ بھی ایک گناہ کر لوں گا
89
ثواب ہی تو نہیں جن کا پھل ملے گا مجھے
گناہ بھی میرے اعمال میں پڑے ہوئے ہیں
90
ثبوت مانگ رہے ہیں میری تباہی کا
مجھے تباہ کیا جن کی کج ادائی نے
91
ثبوت دوں گا تجھے میں وفاؤں کا اپنی
ذرا سا گردشِ دوراں کو دم لینے دے
92
ثبات وہم ہے یارو، بقا کسی کی نہیں
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
93
ثابت ہوا کہ تیز ہوائیں تھیں شہر کی
اس شہر کے محل بھی تو بے چھت کے رہ گئے
94
ثبوتِ عشق کی یہ بھی تو اک صورت ہے
کہ جس سے پیار کریں اس پہ تہمتیں بھی دھریں
95
ثابت ہوا فشارِ لحد سےیہ اے زمین
تو بھی انہیں دباتی ہے،جن میں کہ دم نہیں
96
ٖثروت و عیش کے ایوانوں میں اکثر ہم نے
سسکیاں لیتے ہوئے دیکھا ہے انسانوں کو
97
ثابت ثبوت کر کے دیا کرتے ہیں سزا
تیرا سلوک مجھ سے اے جلاد! ہے عبث
98
ثابت قدم ہے سیل حوادث میں بھی حزیں
بخشا ہوا یہ تیرا ہی عزم صمیم ہے۔۔۔!۔
حزیں صدیقی
99
ثابت ہے اب بھی وفا میری کچھ اس طرح سے
محبت تو کب کی مر چُکی زندہ ہے وفا اس طرح سے
100
ثابت ہے انقلاب زمانہ سے اے صبا
قائم نہیں ہے چرخ جفاکار کا مزاج
101
ثابت ہے میرے جرم سے معصیت مری
ہوتا نہیں ہے جرم کسی ہوشیار سے
ختم شد
ثبوت ِ عشق میں چاکِ گریباں مانگنے والو
کبھی کھلنے سے پہلے پھول کچھ مرجھا بھی جاتے ہیں
55
ثا بت بڑی توقیر ہے اس ضبطِ وفا میں
ہر اشک جو آنکھوں سے نہ ٹپکے وہ گہر ہے
56
ثابت ہوا فشارِ لحد سےیہ اے زمین
تو بھی انہیں دباتی ہے،جن میں کہ دم نہیں
57
ٖثروت و عیش کے ایوانوں میں اکثر ہم نے
سسکیاں لیتے ہوئے دیکھا ہے انسانوں کو
58
ثابت ہوا کہ مجھ سے محبت نہی رہی
وہ شخص مجھ کو دیکھ کر آنکھیں چرا گیا
59
ثبوت دوں گا تجھے میں وفاوَں کا اپنی
ذرا سا گردشِ دوراں سکوں تو لینے دے
60
ثبوت ہے یہ محبت کی سادہ لوحی کا
جب اس نے وعدہ کیا،میں نے اعتبار کیا
61
ثبوت عشق کو بس ایک ٹھنڈی آہ کافی تھی
گنوا دی زندگی ہم نے مثالوں اور دلیلوں میں
62
ثانی تیرا لا نہیں سکتی یہ دُنیا، ڈھونڈھ لے
" نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر "
63
ثبوت ِ عشق میں چاکِ گریباں مانگنے والو
کبھی کھلنے سے پہلے پھول کچھ مرجھا بھی جاتے ہیں
64
ثابت ہوا ہے گردنِ مینا پہ خونِ خلق
لرزے ہے موجِ مے تری رفتار دیکھ کر
65
ثبوت مانگتے ہیں میرے پیار کا یارو
ہر اِک سے ترکِ تعلق کیا ہے جن کے لئے
66
ثواب ہو کہ نہ ہو اس سے کیا غرض زاہد
مزہ ملا مجھے تجھ کو پلا کے پینے کا
67
ثواب کو نئی شکلیں جو دے رہا ہے تو
گناہ کےنئے سانچے بنا رہا ہوں میں
68
ثروتؔ تم اپنے لوگوں سے یوں ملتے ہو
جیسے ان لوگوں سے ملنا پھر نہ ہوگا
69
ثابت ہو ہے گردن مینا پہ خلق خون
لرزے ہے موج مے تری رفتار دیکھ کر
70
ثابت ہو سکون دل و جاں کہیں نہیں
رشتوں میں ڈھونڈتا ہے تو ڈھونڈا کرے کوئی
71
ثابت تو رہ جفا پہ میں قائم وفا پہ ہوں
میں اپنی بان چھوڑوں نہ تو اپنی ان چھوڑ
72
ثبوت سارے ہمارے خلاف بھی اب تو
ہمارے اپنے بیانات سے نکلتا ہے
73
ثبت ہوں دست خموشی پہ حنا کی صورت
نادشنیدہ سہی تیرا کہا ہوں میں بھی
74
ثابت نچانہ کافورین دار تک کوئی
تیغ نگہ نے اس کی کیے وار ہر طرف
75
ثبوت محکمئ جاں تھی جس کی برش ناز
اسی کی تیغ سے رشتہ رگ گل کا بھی ہو
76
ثابت ہوا کسی پہ نہ جرم وفا کبھی
پردہ کھلا نہ عشق سراپا گنا ہ گا
77
ثابت قدم ہوا نہ رہ عشق میں کوئی
مجنوں کوئی ہوا تو کوئی کوہ کن کوئی
78
ثبوت عشق کو یہ دو گواہ کافی ہیں
جگر میں داغ ہے دل میں اضطراب بھی ہے
79
ثؔروت ہدف بہت ہیں جوانان شہر میں
رکھو ابھی نہ تیر و کماں اپنے ہاتھ میں
80
ثابت ہوا کہ مجھ سے محبت نہی رہی
وہ شخص مجھ کو دیکھ کر آنکھیں چرا گیا
81
ثبوت مانگتے ہیں میرے پیار کا یارو
ہر اِک سے ترکِ تعلق کیا ہے جن کے لئے
82
ثاقب بڑی توقیر ہے اس ضبطِ وفا میں
ہر اشک جو آنکھوں سے نہ ٹپکے وہ گوہر ہے
83
ثابت ہوا کہ تیز ہوائیں تھیں شہر کی
اس شہر کے محل بھی تو بے چھت کے رہ گئے
84
ثمر تو کیا شجر پر کوئی پتّہ بھی نہیں ہے
مگر ہم ہیں کہ شاخوں کو جھنجوڑے جارہے ہیں
85
ثا بت بڑی توقیر ہے اس ضبطِ وفا میں
ہر اشک جو آنکھوں سے نہ ٹپکے وہ گہر ہے
86
ثبوت ہے یہ محبت کی سادہ لوحی کا
جب اس نے وعدہ کیا ہم نے اعتبار کیا
87
ثبات بحرِ جہاں میں اپنا فقط مثالِ حباب دیکھا
نہ جوش دیکھا ، نہ شور دیکھا ، نہ موج دیکھی ، نہ آب دیکھا
88
ثواب کے لیے ہو جو گناہ وہ عین ثواب
خدا کے نام پہ بھی ایک گناہ کر لوں گا
89
ثواب ہی تو نہیں جن کا پھل ملے گا مجھے
گناہ بھی میرے اعمال میں پڑے ہوئے ہیں
90
ثبوت مانگ رہے ہیں میری تباہی کا
مجھے تباہ کیا جن کی کج ادائی نے
91
ثبوت دوں گا تجھے میں وفاؤں کا اپنی
ذرا سا گردشِ دوراں کو دم لینے دے
92
ثبات وہم ہے یارو، بقا کسی کی نہیں
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
93
ثابت ہوا کہ تیز ہوائیں تھیں شہر کی
اس شہر کے محل بھی تو بے چھت کے رہ گئے
94
ثبوتِ عشق کی یہ بھی تو اک صورت ہے
کہ جس سے پیار کریں اس پہ تہمتیں بھی دھریں
95
ثابت ہوا فشارِ لحد سےیہ اے زمین
تو بھی انہیں دباتی ہے،جن میں کہ دم نہیں
96
ٖثروت و عیش کے ایوانوں میں اکثر ہم نے
سسکیاں لیتے ہوئے دیکھا ہے انسانوں کو
97
ثابت ثبوت کر کے دیا کرتے ہیں سزا
تیرا سلوک مجھ سے اے جلاد! ہے عبث
98
ثابت قدم ہے سیل حوادث میں بھی حزیں
بخشا ہوا یہ تیرا ہی عزم صمیم ہے۔۔۔!۔
حزیں صدیقی
99
ثابت ہے اب بھی وفا میری کچھ اس طرح سے
محبت تو کب کی مر چُکی زندہ ہے وفا اس طرح سے
100
ثابت ہے انقلاب زمانہ سے اے صبا
قائم نہیں ہے چرخ جفاکار کا مزاج
101
ثابت ہے میرے جرم سے معصیت مری
ہوتا نہیں ہے جرم کسی ہوشیار سے
ختم شد
حرف ج سے اشعار!!
ترتیب دادہ: عمیر بن عبدالرحمن ممبئی، نور محمد ابن بشیر ممبر ۔
تاریخ: ۵ / ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۸ / ستمبر ۲۰۱۶ء ۔
........................................
1
جھکانے سر در اغیار پر جایا نہیں کرتے
کسی کے سامنے ہم ہاتھ پھیلایا نہیں کرتے
2
جو غذائے روح وسکون دل ہے انہیں کی پاک حدیث ہے
جو مریض دل کے لئے شفا ہے انہیں کا پاک کلام ہے
3
جب ان کا ذکر ہو دنیا سراپا گوش بن جائے
جب ان کا نام آئے مرحبا صلی علیکم کہیئے
4
جو فلسفیوں سے کھل نہ سکا اور نکتہ وروں سے حل نہ ہوا
وہ راز اک کملی والے نے بتلادیا چند اشاروں میں
5
جو آئے اس جہاں میں فخر عیسی نازش آدم
ملائکہ نے اٹھائے شوق سے تقدیس کے پرچم
6
جرات حمزہ دے اے رب العالمین
ہو بلالی کی اذاں کیف آفریں
7
جگمگا اٹھی فضا نور خدا کا چمکا
پڑھنے قرآن جب اطفال خوش الحان آئے
8
جو میں سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے یہ آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
9
جانتے ہیں اہل دنیا جیسی پڑھتے ہیں نماز
پر بلا سے سرکشوں کا سر ذرا جھکتا تو ہے
10
جو چاہتے ہو سعادت اٹھو نماز پڑھو
ہٹاو پردہ غفلت ، اٹھو نماز پڑھو
11
جس شہر میں قاتل کو کیا جائے مسیحا
اس شہر میں جینا کوئی آساں تو نہیں ہے
12
جشن منائے جو لاشوں پر کیسی وہ تہذیب حیات
ہم کو ادیب انکار نہیں ہے کشمکش انسانی سے
13
جو عالم ایجاد میں ہے صاحب ایجاد
ہردور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ
14
جو سختئ منزل کو سامان سفر سمجھے
اے وائے تن آسانی ناپید ہے وہ راہی
15
جلایا یار نے ایسا کہ ہم وطن سے چلے
بطور شمع کے روتے اس انجمن سے چلے
16
جہل کا دریا ہے اور ناقدریوں کی لہر ہے
شاعر ہندوستاں ہونا خدا کا قہر ہے
17
جو دل کا درد تھا کاغذ پہ سب بکھیر دیا
پہر اپنے آپ طبیعت مری سنبھلنے لگی
18
جوانی کو غنیمت جان غافل
ہری ہوتی نہیں پھر سوکھ کر شاخ
19
جیت جاوں گا الیکشن تو کروں گا سیوا
ہار کر قوم کی خدمت نہیں ہوئے والی
20
جھوٹ دھوکا اس طرف ہے اس طرف روزہ نماز
کس طرح ہوں گے اکٹھا ایک لیڈر اور میں
21
جھوٹوں سے نہیں دور کا رشتہ بھی ہمارا
ہم لوگ تو سانچے میں صداقت کے ڈھلے ہیں
22
جتنے ہیں کام ترے سونپ خدا کو سودا
تیری تدبیر سے تقدیر بہت اچھی ہے
23
جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنالیتے ہیں لوگ
ایک چہرہ پہ کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ
24
جو مرچکا تھا اسے کوئی روشنی نہ ملی
اگرچہ قبر پہ ہم نے بہت چراغ جلائے
25
جو تفرقے اقوام کے آیا تھا مٹانے
اس دین میں خود تفرقہ اب آکے پڑا ہے
26
حراء کے جاننے والے تھے صوفی ہوگئےہیں
داستان بدر والے شیعہ سنی ہوگئے
27
جو بھی کرنا ہے خود انسان کو کرنا ہوگا
اب اترتا نہیں دھرتی پہ فرشتہ کوئی
28
جینا بھی اسی کا حق ہے جسے مرنے کا سلیقہ آتا ہے
جو مرنے سے گھبراتا ہے وہ جیتے جی مرجاتا ہے
29
جو زیست کو جاوداں سمجھ کر گلےدباتے تھے بیکسوں کے
انہیں کی بالیں پہ آج عامر اجل کھڑی مسکرا رہی ہے
30
جانے ہم کو یہ ملاقات کہاں لے جائے
باتوں باتوں میں کوئی بات کہاں لے جائے
31
جو آئےتوڑنے پر وہ تو،کیا کیا توڑ دیتا ہے
ہر اک تہذیب سے اپنا علاقہ توڑ دیتا ہے
32
جو جھکنے پر نہیں آتی وہ پیشانی ہے خطرے میں
بہت دن سے یہی سنتے ہیں سلطانی ہے خطرے میں
33
جی کی جی ہی میں رہی، بات نہ ہونے پائی
ایک بھی اس سے ملاقات نہ ہونے پائی
34
جیسے دنیا میں کوئی تھا ہی نہیں
ہائے راتیں تری جدائی کی
35
جس روز کسی اور پہ بیداد کرو گے
یہ یاد رہے ہم کو بہت یاد کرو گے
36
جھکے صنم کدے میں بھی، حرم میں بھی کہی اذان
ضروتا بدل لئے ہمارے سر نے آستاں
37
جوہر انسان عدم سے آشنا ہوتا نہیں
آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے، فنا ہوتا نہیں
38
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرقت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کئے ہوئے
39
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
40
جیتے جی تو کچھ نہ دکھلایا مگر
مر کے جوہر آپ کے جوہر کھلے
41
جہاں سوال کے بدلے سوال ہوتا ہے
وہاں سے محبتوں کا زوال ہوتا ہے
42
جام پر جام لائے جا، شان کرم دکھائے جا
پیاس میری بڑھائے جا روز نئی پلائے جا
43
جس قدر تسخیر خورشید وقمر ہوتی گئی
زندگی تاریک سے تاریک ہوتی گئی
44
جس کو نماز اور روزہ کا ارمان ہوگیا
اس پر خدائے پاک مہرباں ہوگیا
45
جب گردشوں میں جام تھے
کتنے حسین ایام تھے
46
جشنِ غمِ حیات منانے نہیں دیا..
اس مفلسی نے زہر بھی کھانے نہیں دیا
47
جس وقت شروع یہ حکایت ہوگی
رنجیدگی یک دگر نہایت ہوگی
48
جب سے ہمارے عشق میں شدت نہیں
ہم پہ خدائے پاک کی رحمت نہیں رہی
49
جو میرے لہجہ پہ تنقید کرتا ہے
درست اپنا تو پہلے شین قاف کرے
50
جناب حضرت دل بھی ۔۔۔۔۔عجب الو کے پٹھے ہیں
جہاں دیکھا حسین کوئی۔۔۔۔۔۔بگڑ بیٹھے مچل بیٹھے
51
جوانی حسن میخانے لب و رخسا
ترتیب دادہ: عمیر بن عبدالرحمن ممبئی، نور محمد ابن بشیر ممبر ۔
تاریخ: ۵ / ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۸ / ستمبر ۲۰۱۶ء ۔
........................................
1
جھکانے سر در اغیار پر جایا نہیں کرتے
کسی کے سامنے ہم ہاتھ پھیلایا نہیں کرتے
2
جو غذائے روح وسکون دل ہے انہیں کی پاک حدیث ہے
جو مریض دل کے لئے شفا ہے انہیں کا پاک کلام ہے
3
جب ان کا ذکر ہو دنیا سراپا گوش بن جائے
جب ان کا نام آئے مرحبا صلی علیکم کہیئے
4
جو فلسفیوں سے کھل نہ سکا اور نکتہ وروں سے حل نہ ہوا
وہ راز اک کملی والے نے بتلادیا چند اشاروں میں
5
جو آئے اس جہاں میں فخر عیسی نازش آدم
ملائکہ نے اٹھائے شوق سے تقدیس کے پرچم
6
جرات حمزہ دے اے رب العالمین
ہو بلالی کی اذاں کیف آفریں
7
جگمگا اٹھی فضا نور خدا کا چمکا
پڑھنے قرآن جب اطفال خوش الحان آئے
8
جو میں سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے یہ آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
9
جانتے ہیں اہل دنیا جیسی پڑھتے ہیں نماز
پر بلا سے سرکشوں کا سر ذرا جھکتا تو ہے
10
جو چاہتے ہو سعادت اٹھو نماز پڑھو
ہٹاو پردہ غفلت ، اٹھو نماز پڑھو
11
جس شہر میں قاتل کو کیا جائے مسیحا
اس شہر میں جینا کوئی آساں تو نہیں ہے
12
جشن منائے جو لاشوں پر کیسی وہ تہذیب حیات
ہم کو ادیب انکار نہیں ہے کشمکش انسانی سے
13
جو عالم ایجاد میں ہے صاحب ایجاد
ہردور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ
14
جو سختئ منزل کو سامان سفر سمجھے
اے وائے تن آسانی ناپید ہے وہ راہی
15
جلایا یار نے ایسا کہ ہم وطن سے چلے
بطور شمع کے روتے اس انجمن سے چلے
16
جہل کا دریا ہے اور ناقدریوں کی لہر ہے
شاعر ہندوستاں ہونا خدا کا قہر ہے
17
جو دل کا درد تھا کاغذ پہ سب بکھیر دیا
پہر اپنے آپ طبیعت مری سنبھلنے لگی
18
جوانی کو غنیمت جان غافل
ہری ہوتی نہیں پھر سوکھ کر شاخ
19
جیت جاوں گا الیکشن تو کروں گا سیوا
ہار کر قوم کی خدمت نہیں ہوئے والی
20
جھوٹ دھوکا اس طرف ہے اس طرف روزہ نماز
کس طرح ہوں گے اکٹھا ایک لیڈر اور میں
21
جھوٹوں سے نہیں دور کا رشتہ بھی ہمارا
ہم لوگ تو سانچے میں صداقت کے ڈھلے ہیں
22
جتنے ہیں کام ترے سونپ خدا کو سودا
تیری تدبیر سے تقدیر بہت اچھی ہے
23
جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنالیتے ہیں لوگ
ایک چہرہ پہ کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ
24
جو مرچکا تھا اسے کوئی روشنی نہ ملی
اگرچہ قبر پہ ہم نے بہت چراغ جلائے
25
جو تفرقے اقوام کے آیا تھا مٹانے
اس دین میں خود تفرقہ اب آکے پڑا ہے
26
حراء کے جاننے والے تھے صوفی ہوگئےہیں
داستان بدر والے شیعہ سنی ہوگئے
27
جو بھی کرنا ہے خود انسان کو کرنا ہوگا
اب اترتا نہیں دھرتی پہ فرشتہ کوئی
28
جینا بھی اسی کا حق ہے جسے مرنے کا سلیقہ آتا ہے
جو مرنے سے گھبراتا ہے وہ جیتے جی مرجاتا ہے
29
جو زیست کو جاوداں سمجھ کر گلےدباتے تھے بیکسوں کے
انہیں کی بالیں پہ آج عامر اجل کھڑی مسکرا رہی ہے
30
جانے ہم کو یہ ملاقات کہاں لے جائے
باتوں باتوں میں کوئی بات کہاں لے جائے
31
جو آئےتوڑنے پر وہ تو،کیا کیا توڑ دیتا ہے
ہر اک تہذیب سے اپنا علاقہ توڑ دیتا ہے
32
جو جھکنے پر نہیں آتی وہ پیشانی ہے خطرے میں
بہت دن سے یہی سنتے ہیں سلطانی ہے خطرے میں
33
جی کی جی ہی میں رہی، بات نہ ہونے پائی
ایک بھی اس سے ملاقات نہ ہونے پائی
34
جیسے دنیا میں کوئی تھا ہی نہیں
ہائے راتیں تری جدائی کی
35
جس روز کسی اور پہ بیداد کرو گے
یہ یاد رہے ہم کو بہت یاد کرو گے
36
جھکے صنم کدے میں بھی، حرم میں بھی کہی اذان
ضروتا بدل لئے ہمارے سر نے آستاں
37
جوہر انسان عدم سے آشنا ہوتا نہیں
آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے، فنا ہوتا نہیں
38
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرقت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کئے ہوئے
39
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
40
جیتے جی تو کچھ نہ دکھلایا مگر
مر کے جوہر آپ کے جوہر کھلے
41
جہاں سوال کے بدلے سوال ہوتا ہے
وہاں سے محبتوں کا زوال ہوتا ہے
42
جام پر جام لائے جا، شان کرم دکھائے جا
پیاس میری بڑھائے جا روز نئی پلائے جا
43
جس قدر تسخیر خورشید وقمر ہوتی گئی
زندگی تاریک سے تاریک ہوتی گئی
44
جس کو نماز اور روزہ کا ارمان ہوگیا
اس پر خدائے پاک مہرباں ہوگیا
45
جب گردشوں میں جام تھے
کتنے حسین ایام تھے
46
جشنِ غمِ حیات منانے نہیں دیا..
اس مفلسی نے زہر بھی کھانے نہیں دیا
47
جس وقت شروع یہ حکایت ہوگی
رنجیدگی یک دگر نہایت ہوگی
48
جب سے ہمارے عشق میں شدت نہیں
ہم پہ خدائے پاک کی رحمت نہیں رہی
49
جو میرے لہجہ پہ تنقید کرتا ہے
درست اپنا تو پہلے شین قاف کرے
50
جناب حضرت دل بھی ۔۔۔۔۔عجب الو کے پٹھے ہیں
جہاں دیکھا حسین کوئی۔۔۔۔۔۔بگڑ بیٹھے مچل بیٹھے
51
جوانی حسن میخانے لب و رخسا
ر بکتے ہیں
حیاء کے آئینے بھی اب سر بازار بکتے ہیں
52
جب کانچ اٹھانے پڑ جائیں،
تم ہاتھ ہمارے لے جانا،
53
جان دے کر تمہیں جینے کی دعا دیتے ہیں
پھر بھی کہتے ہو کہ عاشق ہمیں کیا دیتے ہیں
54
جب تیری یاد میں مصرعہ کوئی لکھنے بیٹھا
میں نے کاغذ پہ بھی چھالوں کا گلستاں دیکھا
55
جہاں میں جب تلک پنچھی چہکتے اُڑتے پھرتے ہیں
ہے جب تک پھول کا کھلنا محبت مر نہیں سکتی
56
جب تمہاری آنکھ ہو گہرے سمندر کی طرح
کیوں نہ لگتا ہو سمندر دیدہء تر کی طرح
57
جُدا ہوا وہ ہم سے اس طرح شاہان
کہ دِن ڈھلتا نہیں رات کٹتی نہیں
58
جو اک لفظ کی خوشبو نہ رکھ سکا محفوظ
میں اس کے ہاتھ میں ساری کتاب کیا دیتا
59
جگر ہو جائیگا چھلنی یہ آنکھیں خون روئیں گی
وصی بے فیض لوگوں سے نبھا کر کچھ نہیں ملتا
60
جہاں پھولوں کو کھلنا تھا وہیں کھلتے تو اچھا تھا
تمہی کو ہم نے چاہا تھا تمہی ملتے تو اچھا تھا
61
جہنم ہو کہ جنت جو بھی ہوگا فیصلہ ہوگا
یہ کیا کم ہے ہمارا اور ان کا سامنا ہوگا
62
جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں
63
جب تک نہ جلیں دیپ شہیدوں کے لہو سے؛؛
کہتے ھیں کہ جنت میں چراغاں نہیں ھوتا
64
جن پہ اک عمر چلا تھا انہی رستوں پہ کہیں
واپس آیا تو میرا نقش کف پا بھی نہ تھا
65
جھوٹ کے شہر میں آئینہ کیا لگا، سنگ اٹھائے ھوئے
آئینہ ساز کی کھوج میں جیسے خلق خدا لگ گئی
66
جنگلوں کے سفر میں آسیب سے بچ گئی تھی مگر
شہر والوں میں آتے ہی پیچھے یہ کیسی بلا لگ گئی۔
67
جو سمجھ لیا تجھے بے وفا،تو پھر اس میں تیری بھی کیا خطا
یہ خلل ہے میرے دماغ کا،یہ مری نظر کا قصور ہے
68
جانے کب دے دے صدا کوئی حریمِ ناز سے
بزم والو گوش بر آواز رھنا چاھیے
69
جو گزری مجھ پہ مت اس سے کہو، ہوا سو ہوا
بلا کشانِ محبت پہ جو ہوا سو ہوا
70
جرأت آموز مری تابِ سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو
71
جن کے سر منتظر تیغ جفا ھیں ان کو
دست قاتل کے جھٹک دینے کی توفیق ملے
72
جو گزرتے تھے داغ پر صدمے
اب وہی کیفیت سبھی کی ہے
73
جب نام ترا لیجیے تب چشم بھر آوے
اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے
74
جدائی بھی نہ ہوتی زندگی بھی سہل ہو جاتی
جو ہم اک دوسرے کا مسئلہ تبدیل کر لیتے
75
جسم کے تیرہ وآسیب زدہ مندرمیں
دل سِر شام سلگ اُٹھتا ہے صندل کی طرح
76
جب نئی صبح لہو مانگے گی آنے کیلئے
پھر مجھے رات گئے گھر سے لیا جائے گا
77
جواب دینا کس قدر محال کر دیا گیا
جب اس طرف سے اور اک سوال کر دیا گیا
78
جدا ہوئے ہیں بہت لوگ ایک تم بھی سہی
اب اتنی بات پہ کیا زندگی حرام کریں؟
79
جوابی خط میں یوں اس نے میرے بارے میں لکھا تھا
برا بھی کہہ نہیں سکتی مگر اچھے نہیں لگتے
80
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
81
جتنی شدت سے مجھے زخم دیئے ہیں تو نے
اتنی شدت سے تو میں نے تجھے چاہا بھی نہ تھا
82
جس کا جی چاہے وہ انگلی پہ نچا لیتا ہے
جیسے بازار سے منگوائے ہوئے لوگ ہیں ہم
83
جیسے بھی کر رہا ہوں گزر کر رہا ہوں میں
پر اپنی زندگی تو بسر کر رہا ہوں میں
84
جو ہو یارو بہروپ چراغوں کو جلانا ہے
ہوائیں کتنی برہم ہیں یہ ہم نے جان رکھا ہے
85
جنگل میں سانپ شہروں میں بستے ہیں آرمی.
سانپوں سے ڈر کر آئیں تو ڈستے ہیں آرمی.
86
جو کبھی تو پڑھنے بیٹھے مجھے حرف حرف دیکھے
تیری آنکھیں بھیگ جائیں تو کتاب بھول جائے
87
جدھر بھی جاؤں نظر میں اسی کا پرتو ھے
وہ میرے دھیان کے سب راستوں میں رہتا ھے
88
جی میں آتا ہے کہ لب سی لیں ہمیشہ کے لیے
سانس لیتے ہیں تو ہر سمت دھواں ہوتا ہے
فاخرہ بتول
89
جان محسن تو بھی تھا ضدی انا مجھ میں بھی تھی
دونوں خود سر تھے جھکا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
90
جب کوئی بوئے وفا ان میں نہیں باقی رہی
ساری سوغاتیں تمھاری خط تمھارے مسترد
91
جان دی کہ حشر تک میں ہوں میری تنہائیاں
ہاں مبارک فرصت نظارہء قاتل مجھے
جگر مراد آبادی
92
جب نظارے تھے تو آنکھوں کو نہیں پروا تھی
اب انہی آنکھوں نے چاہا تو نظارے نہیں تھے
ظفر اقبال
93
جیت جائیں گے یہاں شور مچانے والے
گنگناتے ہوئے گاتے ہوئے ڈر تا ہوں میں
نعمان شوق
94
جتا کی خاک کا اڑنا کھا کر گرد کا چکر
وہیں ہم لے چلے اس گل بدن کو گھیر اندھی میں
نظیر اکبر آبادی
95
جھوٹی تسلیوں سے نہ بہلاؤ ، جاؤ جاؤ
جاؤ کہ تم نہیں ہو مرے اختیار میں
حفیظ جالندھری
96
جو اور کچھ ہو تری دید کے سوا منظور
تو مجھ پہ خواہش جنت حرام ہو جائے
حسرت موہانی
97
جسے صیاد نے کچھ گل نے کچھ بلبل نے سمجھا تھا
چمن میں کتنی معنی خیز تھی اک خامشی مری
جگر مراد آبادی
98
جھانک کر روزن در سے مجھ کو
کیا وہ شوخی سے حیا کرتے ہیں
داض دہلوی
99
جاؤ بھی کیا کروگے مہرو فا
بارہا آزما کے دیکھ لیا
داغ دہلوی
100
جہاں والے نبی کا شہر گر اک بار دیکھیں گے
زمانہ بھول جائیں گے، یہ جب گلزار دیکھیں گے
ختم شد
حیاء کے آئینے بھی اب سر بازار بکتے ہیں
52
جب کانچ اٹھانے پڑ جائیں،
تم ہاتھ ہمارے لے جانا،
53
جان دے کر تمہیں جینے کی دعا دیتے ہیں
پھر بھی کہتے ہو کہ عاشق ہمیں کیا دیتے ہیں
54
جب تیری یاد میں مصرعہ کوئی لکھنے بیٹھا
میں نے کاغذ پہ بھی چھالوں کا گلستاں دیکھا
55
جہاں میں جب تلک پنچھی چہکتے اُڑتے پھرتے ہیں
ہے جب تک پھول کا کھلنا محبت مر نہیں سکتی
56
جب تمہاری آنکھ ہو گہرے سمندر کی طرح
کیوں نہ لگتا ہو سمندر دیدہء تر کی طرح
57
جُدا ہوا وہ ہم سے اس طرح شاہان
کہ دِن ڈھلتا نہیں رات کٹتی نہیں
58
جو اک لفظ کی خوشبو نہ رکھ سکا محفوظ
میں اس کے ہاتھ میں ساری کتاب کیا دیتا
59
جگر ہو جائیگا چھلنی یہ آنکھیں خون روئیں گی
وصی بے فیض لوگوں سے نبھا کر کچھ نہیں ملتا
60
جہاں پھولوں کو کھلنا تھا وہیں کھلتے تو اچھا تھا
تمہی کو ہم نے چاہا تھا تمہی ملتے تو اچھا تھا
61
جہنم ہو کہ جنت جو بھی ہوگا فیصلہ ہوگا
یہ کیا کم ہے ہمارا اور ان کا سامنا ہوگا
62
جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں ارم دیکھتے ہیں
63
جب تک نہ جلیں دیپ شہیدوں کے لہو سے؛؛
کہتے ھیں کہ جنت میں چراغاں نہیں ھوتا
64
جن پہ اک عمر چلا تھا انہی رستوں پہ کہیں
واپس آیا تو میرا نقش کف پا بھی نہ تھا
65
جھوٹ کے شہر میں آئینہ کیا لگا، سنگ اٹھائے ھوئے
آئینہ ساز کی کھوج میں جیسے خلق خدا لگ گئی
66
جنگلوں کے سفر میں آسیب سے بچ گئی تھی مگر
شہر والوں میں آتے ہی پیچھے یہ کیسی بلا لگ گئی۔
67
جو سمجھ لیا تجھے بے وفا،تو پھر اس میں تیری بھی کیا خطا
یہ خلل ہے میرے دماغ کا،یہ مری نظر کا قصور ہے
68
جانے کب دے دے صدا کوئی حریمِ ناز سے
بزم والو گوش بر آواز رھنا چاھیے
69
جو گزری مجھ پہ مت اس سے کہو، ہوا سو ہوا
بلا کشانِ محبت پہ جو ہوا سو ہوا
70
جرأت آموز مری تابِ سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے خاکم بدہن ہے مجھ کو
71
جن کے سر منتظر تیغ جفا ھیں ان کو
دست قاتل کے جھٹک دینے کی توفیق ملے
72
جو گزرتے تھے داغ پر صدمے
اب وہی کیفیت سبھی کی ہے
73
جب نام ترا لیجیے تب چشم بھر آوے
اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے
74
جدائی بھی نہ ہوتی زندگی بھی سہل ہو جاتی
جو ہم اک دوسرے کا مسئلہ تبدیل کر لیتے
75
جسم کے تیرہ وآسیب زدہ مندرمیں
دل سِر شام سلگ اُٹھتا ہے صندل کی طرح
76
جب نئی صبح لہو مانگے گی آنے کیلئے
پھر مجھے رات گئے گھر سے لیا جائے گا
77
جواب دینا کس قدر محال کر دیا گیا
جب اس طرف سے اور اک سوال کر دیا گیا
78
جدا ہوئے ہیں بہت لوگ ایک تم بھی سہی
اب اتنی بات پہ کیا زندگی حرام کریں؟
79
جوابی خط میں یوں اس نے میرے بارے میں لکھا تھا
برا بھی کہہ نہیں سکتی مگر اچھے نہیں لگتے
80
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
81
جتنی شدت سے مجھے زخم دیئے ہیں تو نے
اتنی شدت سے تو میں نے تجھے چاہا بھی نہ تھا
82
جس کا جی چاہے وہ انگلی پہ نچا لیتا ہے
جیسے بازار سے منگوائے ہوئے لوگ ہیں ہم
83
جیسے بھی کر رہا ہوں گزر کر رہا ہوں میں
پر اپنی زندگی تو بسر کر رہا ہوں میں
84
جو ہو یارو بہروپ چراغوں کو جلانا ہے
ہوائیں کتنی برہم ہیں یہ ہم نے جان رکھا ہے
85
جنگل میں سانپ شہروں میں بستے ہیں آرمی.
سانپوں سے ڈر کر آئیں تو ڈستے ہیں آرمی.
86
جو کبھی تو پڑھنے بیٹھے مجھے حرف حرف دیکھے
تیری آنکھیں بھیگ جائیں تو کتاب بھول جائے
87
جدھر بھی جاؤں نظر میں اسی کا پرتو ھے
وہ میرے دھیان کے سب راستوں میں رہتا ھے
88
جی میں آتا ہے کہ لب سی لیں ہمیشہ کے لیے
سانس لیتے ہیں تو ہر سمت دھواں ہوتا ہے
فاخرہ بتول
89
جان محسن تو بھی تھا ضدی انا مجھ میں بھی تھی
دونوں خود سر تھے جھکا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
90
جب کوئی بوئے وفا ان میں نہیں باقی رہی
ساری سوغاتیں تمھاری خط تمھارے مسترد
91
جان دی کہ حشر تک میں ہوں میری تنہائیاں
ہاں مبارک فرصت نظارہء قاتل مجھے
جگر مراد آبادی
92
جب نظارے تھے تو آنکھوں کو نہیں پروا تھی
اب انہی آنکھوں نے چاہا تو نظارے نہیں تھے
ظفر اقبال
93
جیت جائیں گے یہاں شور مچانے والے
گنگناتے ہوئے گاتے ہوئے ڈر تا ہوں میں
نعمان شوق
94
جتا کی خاک کا اڑنا کھا کر گرد کا چکر
وہیں ہم لے چلے اس گل بدن کو گھیر اندھی میں
نظیر اکبر آبادی
95
جھوٹی تسلیوں سے نہ بہلاؤ ، جاؤ جاؤ
جاؤ کہ تم نہیں ہو مرے اختیار میں
حفیظ جالندھری
96
جو اور کچھ ہو تری دید کے سوا منظور
تو مجھ پہ خواہش جنت حرام ہو جائے
حسرت موہانی
97
جسے صیاد نے کچھ گل نے کچھ بلبل نے سمجھا تھا
چمن میں کتنی معنی خیز تھی اک خامشی مری
جگر مراد آبادی
98
جھانک کر روزن در سے مجھ کو
کیا وہ شوخی سے حیا کرتے ہیں
داض دہلوی
99
جاؤ بھی کیا کروگے مہرو فا
بارہا آزما کے دیکھ لیا
داغ دہلوی
100
جہاں والے نبی کا شہر گر اک بار دیکھیں گے
زمانہ بھول جائیں گے، یہ جب گلزار دیکھیں گے
ختم شد
حرف چ سے اشعار!!
ترتیب دادہ: عادل سعیدی دیوبندی
تاریخ: ۶ / ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۹ / ستمبر ۲۰۱۶ء ۔
........................................
1
چاہنے کا، ہم پہ یہ خُوباں جو دھرتے ہیں گناہ !
اُن سے بھی پوچھو کوئی، تم اِتنے کیوں پیارے ہوئے
2
چُھپے کچھ ایسے کہ تا زیست پھر نہ آئے نظر
رہینِ حسرتِ دِیدار کرکے چھوڑ دیا
3
چاہے نظریں ہوں آسمانوں پر
پاؤں لیکن زمین پر رکھیے
4
چہرہ بتا رہا تھا کہ اِسے مارا ہے بھوک نے
حاکم نے یہ کہا کہ "کچھ کھا کے مر گیا
5
چل ساتھ کہ حسرت دلِ محروم سے نکلے
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
6
چل مان لیا تیرا کوئی دوش نہیں تھا
حالانکہ کے دلیلوں میں تری دم تو نہیں ہے
7
چند موتی مجهےخوشیوں کے تو دیدے اللہ!
تجھ سے بڑھ کرهے کہاں کوئ خزانے والا
8
چلو چلتے ہیں مل جل کر وطن پہ جان دیتے ہیں
بڑا آسان ہے کمرے میں وندے ماترم کہنا
9
چاند کا کردار اپنایا ہے ہم نے دوستو
داغ اپنے پاس رکھے، روشنی بانٹا کئے
10
چلو اچھا ہوا، کام آ گئی دیوانگی اپنی
وگرنہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے
11
چاندی تیرے گیت گاتی ہے
نغمۂ حمد گنگناتی ہے
حافظ لدھیانوی
12
چشمِ قاتل مری دشمن تھی ہمیشہ لیکن
جیسی اب ہو گئی قاتِل کبھی ایسی تو نہ تھی
13
چاہتوں کی گرمیاں ،جذبوں کی ہوں نرمیاں
پیار کی سوغات ہو ، تیرا میرا ساتھ ہو
14
چو خواہد کہ ویراں شود عالَمے
کند ملک در پنجۂ ظالمے
15
چاند بادل میں اچھا لگتا ہے
آدھے رخ پر نقاب رہنے دو
16
چلو کہ فیضان کشتیوں کو جلا دیں گمنام ساحلوں پر.
کہ اب یہاں سے نہ واپسی کا سوال ہوگا یہ طے ہوا تھا
17
چیخ کرمیں تھک گیاہوں،زندگی کےخوف سے
کس قدرسہماہواہوں دیکھتاکوئی نہیں
18
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے
19
چلو ہم لوگ ہی مل بیٹھ کر کچھ جشن کرتے ہیں
نذیری کا ٹھکانہ کیا کبھی گھر پر نہیں ملتا
20
چھتیں ٹپکتی ہیں لیکن خلوص تو ہے یہاں
ترےمحل سے یہ کچا مکان اچھا ہے
21
چوں خدمت گزاریت گردد کُہن
حقِ سالہایش فرامش مکن
22
چشمِ ساقی سے پیو یا لبِ ساغر سے پیو
بے خودی آٹھوں پہر ہو یہ ضروری تو نہیں
23
چمن سے بچھڑ کر بھی اس گل پہ شباب ہے۔
حسین تو اور بھی ہیں پر تیرا حسن لاجواب ہے
24
چلتا ہوں تھوڑی دُور ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
25
چاندنی اُس کے تن کی اُترن ہے
سبز شبنم گلے کی مالا ہے
26
چراغوں کے بدلے مکاں جل رہے ہیں
نیا ہے زمانہ ، نئی روشنی ہے
27
چلو تو حضرتِ واعظ دِکھادُوں قدرتِ حق
نقاب رُخ سے وہ اپنا اُٹھائے بیٹھے ہیں
28
چمن سے تب ہی گُل و برگ کی اُمید بندھے
جو حاکموں میں کوئی باغباں نظر آئے
29
چپ چاپ بس اک روز جدا ہوگئے ہم بھی
اور اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا
30
چو قمارخانہ رفتم ہمہ پاکباز دیدم
چو بہ صومعہ رسیدم، ہمہ یافتم ریائی
31
چہ لازم با خرد ہم خانہ بودن
دو روزے می تواں دیوانہ بودن
32
چہ وَصفَت کُنَد سعدیِ ناتمام
علیکَ الصلوٰۃ اے نبیّ السلام
33
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
34
چو از قومے یکے بیدانشی کرد
نہ کہ را منزلت ماند نہ مہ را
35
چو کارے بے فضول من برآید
مرا در دے سخن گفتن نشاید
36
چو آہنگ رفتن کند جان پاک
چہ بر تخت مردن چہ بر روئے خاک
37
چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ وار
میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے
38
چند معصوم سے پتوں کا لہو ہے شاکر
جسکو محبوب کے ہاتھوں کی حنا کہتے ہیں
39
چلو چل کے دیکھیں تماشاجگر کا
سنا ہے وہ کافر مسلماں ہوا ہے
جگر
40
چلا گیا، مگر اپنا نشان چھوڑ گیا
وہ شہر بھر کےلئے داستان چھوڑ گیا
سید حسن
41
چلو اچھا ہوا کام آگئی دیوانگی اپنی
وگرنہ ہم زمانہ بھر کو سمجھانے کہاں جاتے
قتیل شفائی
42
چمن تو برقِ حوادث سے ہوگیا محفوظ
مری بلا سے اگر میرا اشیاں نہ رہا
جگر
43
چوکھٹے قبر کے خالی ہیں، اسے مت بھولو
جانے کب کونسی تصویر لگادی جائے
احسان دانش
44
چمن کی آن تو بس اس پیڑ سے ہے
جسے آندھی میں بھی جھکنا نہ آیا
ممتاز ہاشمی
45
چپ رہنا تو ہے ظلم کی تائیوان میں شامل
حق بات کہو، جرأتِ اظہار نہ بیچو
عزیز
46
چمن والوں کے عزمِ مستقل کا امتحاں کب تک
گریں گی آشیانوں پر، ستم کی بجلیاں کب تک
جلیل فتحپوری
47
چین راہِ وفا میں کہاں ہے
جو نَفَس ہے، وہ اک امتحاں ہے
ابو المجاھد زاہد
48
چمن میں دیکھئے اب کس کی جیت ہوتی ہے
ہیں پھول ایک طرف اور خار ایک طرف
ابو المجاھد زاہد
49
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہوجائے
اصغر گونڈوی
50
چھیڑے گئے جو نئے فسانے
نغمہ وہ رہا، نہ وہ ترانے
شبلی نعمانی
51
چمن میں جب فروغِ جبر و استبداد ہوتا ہے
زبانِ گل سے پیدا شکوۂ صیاد ہوتا ہے
ریاست علی ظفر
52
چراغ خود ہی بجھاتے ہیں اپنے دامن سے
چراغ بجھنے لگے تو دعائیں مانگتے ہیں
نواز دیوبندی
53
ترتیب دادہ: عادل سعیدی دیوبندی
تاریخ: ۶ / ذی الحجہ ۱۴۳۷ھ مطابق ۹ / ستمبر ۲۰۱۶ء ۔
........................................
1
چاہنے کا، ہم پہ یہ خُوباں جو دھرتے ہیں گناہ !
اُن سے بھی پوچھو کوئی، تم اِتنے کیوں پیارے ہوئے
2
چُھپے کچھ ایسے کہ تا زیست پھر نہ آئے نظر
رہینِ حسرتِ دِیدار کرکے چھوڑ دیا
3
چاہے نظریں ہوں آسمانوں پر
پاؤں لیکن زمین پر رکھیے
4
چہرہ بتا رہا تھا کہ اِسے مارا ہے بھوک نے
حاکم نے یہ کہا کہ "کچھ کھا کے مر گیا
5
چل ساتھ کہ حسرت دلِ محروم سے نکلے
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
6
چل مان لیا تیرا کوئی دوش نہیں تھا
حالانکہ کے دلیلوں میں تری دم تو نہیں ہے
7
چند موتی مجهےخوشیوں کے تو دیدے اللہ!
تجھ سے بڑھ کرهے کہاں کوئ خزانے والا
8
چلو چلتے ہیں مل جل کر وطن پہ جان دیتے ہیں
بڑا آسان ہے کمرے میں وندے ماترم کہنا
9
چاند کا کردار اپنایا ہے ہم نے دوستو
داغ اپنے پاس رکھے، روشنی بانٹا کئے
10
چلو اچھا ہوا، کام آ گئی دیوانگی اپنی
وگرنہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے
11
چاندی تیرے گیت گاتی ہے
نغمۂ حمد گنگناتی ہے
حافظ لدھیانوی
12
چشمِ قاتل مری دشمن تھی ہمیشہ لیکن
جیسی اب ہو گئی قاتِل کبھی ایسی تو نہ تھی
13
چاہتوں کی گرمیاں ،جذبوں کی ہوں نرمیاں
پیار کی سوغات ہو ، تیرا میرا ساتھ ہو
14
چو خواہد کہ ویراں شود عالَمے
کند ملک در پنجۂ ظالمے
15
چاند بادل میں اچھا لگتا ہے
آدھے رخ پر نقاب رہنے دو
16
چلو کہ فیضان کشتیوں کو جلا دیں گمنام ساحلوں پر.
کہ اب یہاں سے نہ واپسی کا سوال ہوگا یہ طے ہوا تھا
17
چیخ کرمیں تھک گیاہوں،زندگی کےخوف سے
کس قدرسہماہواہوں دیکھتاکوئی نہیں
18
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے
19
چلو ہم لوگ ہی مل بیٹھ کر کچھ جشن کرتے ہیں
نذیری کا ٹھکانہ کیا کبھی گھر پر نہیں ملتا
20
چھتیں ٹپکتی ہیں لیکن خلوص تو ہے یہاں
ترےمحل سے یہ کچا مکان اچھا ہے
21
چوں خدمت گزاریت گردد کُہن
حقِ سالہایش فرامش مکن
22
چشمِ ساقی سے پیو یا لبِ ساغر سے پیو
بے خودی آٹھوں پہر ہو یہ ضروری تو نہیں
23
چمن سے بچھڑ کر بھی اس گل پہ شباب ہے۔
حسین تو اور بھی ہیں پر تیرا حسن لاجواب ہے
24
چلتا ہوں تھوڑی دُور ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
25
چاندنی اُس کے تن کی اُترن ہے
سبز شبنم گلے کی مالا ہے
26
چراغوں کے بدلے مکاں جل رہے ہیں
نیا ہے زمانہ ، نئی روشنی ہے
27
چلو تو حضرتِ واعظ دِکھادُوں قدرتِ حق
نقاب رُخ سے وہ اپنا اُٹھائے بیٹھے ہیں
28
چمن سے تب ہی گُل و برگ کی اُمید بندھے
جو حاکموں میں کوئی باغباں نظر آئے
29
چپ چاپ بس اک روز جدا ہوگئے ہم بھی
اور اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا
30
چو قمارخانہ رفتم ہمہ پاکباز دیدم
چو بہ صومعہ رسیدم، ہمہ یافتم ریائی
31
چہ لازم با خرد ہم خانہ بودن
دو روزے می تواں دیوانہ بودن
32
چہ وَصفَت کُنَد سعدیِ ناتمام
علیکَ الصلوٰۃ اے نبیّ السلام
33
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
34
چو از قومے یکے بیدانشی کرد
نہ کہ را منزلت ماند نہ مہ را
35
چو کارے بے فضول من برآید
مرا در دے سخن گفتن نشاید
36
چو آہنگ رفتن کند جان پاک
چہ بر تخت مردن چہ بر روئے خاک
37
چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ وار
میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے
38
چند معصوم سے پتوں کا لہو ہے شاکر
جسکو محبوب کے ہاتھوں کی حنا کہتے ہیں
39
چلو چل کے دیکھیں تماشاجگر کا
سنا ہے وہ کافر مسلماں ہوا ہے
جگر
40
چلا گیا، مگر اپنا نشان چھوڑ گیا
وہ شہر بھر کےلئے داستان چھوڑ گیا
سید حسن
41
چلو اچھا ہوا کام آگئی دیوانگی اپنی
وگرنہ ہم زمانہ بھر کو سمجھانے کہاں جاتے
قتیل شفائی
42
چمن تو برقِ حوادث سے ہوگیا محفوظ
مری بلا سے اگر میرا اشیاں نہ رہا
جگر
43
چوکھٹے قبر کے خالی ہیں، اسے مت بھولو
جانے کب کونسی تصویر لگادی جائے
احسان دانش
44
چمن کی آن تو بس اس پیڑ سے ہے
جسے آندھی میں بھی جھکنا نہ آیا
ممتاز ہاشمی
45
چپ رہنا تو ہے ظلم کی تائیوان میں شامل
حق بات کہو، جرأتِ اظہار نہ بیچو
عزیز
46
چمن والوں کے عزمِ مستقل کا امتحاں کب تک
گریں گی آشیانوں پر، ستم کی بجلیاں کب تک
جلیل فتحپوری
47
چین راہِ وفا میں کہاں ہے
جو نَفَس ہے، وہ اک امتحاں ہے
ابو المجاھد زاہد
48
چمن میں دیکھئے اب کس کی جیت ہوتی ہے
ہیں پھول ایک طرف اور خار ایک طرف
ابو المجاھد زاہد
49
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہوجائے
اصغر گونڈوی
50
چھیڑے گئے جو نئے فسانے
نغمہ وہ رہا، نہ وہ ترانے
شبلی نعمانی
51
چمن میں جب فروغِ جبر و استبداد ہوتا ہے
زبانِ گل سے پیدا شکوۂ صیاد ہوتا ہے
ریاست علی ظفر
52
چراغ خود ہی بجھاتے ہیں اپنے دامن سے
چراغ بجھنے لگے تو دعائیں مانگتے ہیں
نواز دیوبندی
53
چھوڑ کر پابندیِ احساسِ آئینِ کہن
کچھ نئے انداز سے تاب و تواں پیدا کریں
کفیل دیوبندی
54
چلو چلتے ہیں مل جل کر وطن پر جان دیتے ہیں
بہت آسان ہے کمرے میں وندے ماترم کہنا
منور رانا
55
چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر بنا ہے نمونۂ زنداں کا
غالب
56
چمن فروش مجھے خار ہی عطا کردیں
مجھے چمن کی ہر اک شئی سے پیار ہے یارو
ایاز اختر
57
چند موہوم حسرتوں کے سوا
اور دنیا سے کیا لیا ہم نے
تابش دہلوی
58
چھوڑ کر دامانِ خود داری حفیظ
اپنی نظروں سے بھی ہم گر جائیں کیا
حفیظ میرٹھی
59
چلے اب بھی گر ان کے نقشِ قدم پر
بدل جائے حالِ پریشانِ عالم
راز بالاپوری
60
چٹکیاں لیتی ہے دل میں ہر گھڑی یادِ رسول
ہوگئی ہے اب تو میری زندگی یادِ رسول
61
چلا ہوں سوئے حرم اور کہکشاں بردوش
فریب، زیست نے دکھلایا زیرِ دام مجھے
ریاست علی ظفر
62
چاھتا ہوں کہ سر کے بل گزروں
آپ کی رہ گزر ہے اور میں ہوں
نواز دیوبندی
63
چلیں گے مدینے جو ہم دھیرے دھیرے
مٹیں گے نقوشِ اَلم دھیرے دھیرے
ولی بستوی
64
چمکتا ہے تیرے روضے کا منظر، سلامت ہے تیرے روضے کی جالی
ہمیں بھی عطا ہو وہ شوقِ ابوذر، ہمیں بھی عطا ہو وہ جذبِ بلالی
مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ تعالیٰ
65
چشمِ ظاہر بیں سے تو دیکھا نہیں جاتا ہے یار
تم نے بھی ائے دل کی آنکھوں، اس کو دکھلایا نہیں
بہادر شاہ ظفر
66
چل رہا ہوں خود کو اندھا جان کر
یا خدا روشن کوئی امکان کر
شکیب غوثی
67
چٹکارے کیوں بھرے نہ زباں تیرے ذکر میں
کوئی مزہ نہیں ہے ترے نام سے لذیذ
انشااللہ خان انشا
68
چہرے کو جھُرّیوں نے بھیانک بنا دیا
آئینہ دیکھنے کی بھی ہمت نہیں رہی
خمار بارہ بنکوی
69
چاہت مری چاہت ہی نہیں آپ کے نزدیک
کچھ میری حقیقت ہی نہیں آپ کے نزدیک
حسرت موہانی
70
چھپ کے اس نے جو خود نمائی کی
انتہا تھی یہ دل ربائی کی
حسرت موہانی
71
چوری چوری ہم سے تم آ کر ملے تھے جس جگہ
مدتیں گزریں پر اب تک وہ ٹھکانا یاد ہے
حسرت موہانی
72
چاہتا ہے مجھ کو تو بھولے نہ بھولوں میں تجھے
تیرے اس طرزِ تغافل کے فدا ہو جائیے
حسرت موہانی
73
چراغِ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب ہٹاؤ بڑا اندھیرا ہے
ساغر صدیقی
74
چمن لٹا ہے خود اہلِ چمن کی سازش سے
کلی کلی ہے مگر محوِ خواب سی پھر بھی
احسن کلیم
75
چاہا تھا ٹھوکروں میں گذر جائے زندگی
لوگوں نے سنکِ راہ سمجھ کر ہٹادیا
سالک لکھنوی
76
چاہے تن میں سب جل جائے
سوزِ دروں پر آنچ نہ آئے
حفیظ میرٹھی
77
چمن کو روند گئے قافلے بہاروں کے
گلوں کا ذکر ہی کیا، خار بھی نہیں باقی
قتیل شفائی
78
چٹک رہی ہے کسی یاد کی کلی دل میں
نظر میں رقصِ بہاراں کے صبح و شام لئے
مخدوم محی الدین
79
چین آئےگا کہاں دل کو خدا ہی جانے
دشت سے بھی وہی وحشت ہے جو تھی گھر سے مجھے
رضا علی وحشت
80
چمک جگنو کی برقِ بے اماں معلوم ہوتی ہے
قفس میں رہ کے قدرِ آشیاں معلوم ہوتی ہے
سیماب اکبرآبادی
81
چھوڑوں گا میں نہ اس بتِ کافر کا پوجنا
چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافر کہے بغیر
غالب
82
چند تصویرِ بتاں، چند حسینوں کے خطوط
بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا
غالب
83
چمن سے دور رہا اس قدر قفس میرا
کہ پہونچی اڑکے نہ مجھ تک گلِ چمن کی بو
ظفر
84
چشمِ بدور عجب خوش قد و قامت ہوگا
ابھی فتنہ ہے، کوئی دن قیامت ہوگا
بیتاب
85
چھیڑا عدو نے روٹھ گئے ساری بزم سے
بولے کہ اب نہ بات کریں گے کسی سے ہم
رام پرساد بسمل
86
چھلک رہے ہیں صُراحی کے ساتھ پیمانے
بُلا رہا ہے حرم، ٹوکتے ہیں بُت خانے
رام پرساد بسمل
87
چمن کو لگ گئی کس کی نظر خدا جانے
چمن رہا نہ رہے وہ چمن کے افسانے
رام پرساد بسمل
88
چُپ رہوں میں تو خموشی بھی گلہ ہو جائے
آپ جو چاہیں وہ کہہ دیں مِرے منہ پر مجھ کو
رام پرساد بسمل
89
چمن کی یاد آئی دل بھر آیا آنکھ بھر آئی
جہاں بولا کوئی گلشن میں باقی ہے بَہار اب تک
رام پرساد بسمل
90
چاندنی میں جب تجھے یاد اے مہِ تاباں کیا
رات بھر اختر شماری نے مجھے حیراں کیا
حیدر علی آتش
91
چپ رہو، دور کرو، منہ نہ میرا کھلواؤ
غافلو! زخم ِ زباں کا نہیں مرہم پیدا
حیدر علی آتش
92
چھوٹ جاؤں جو غم ِ ہستی سے
بھول کر بھی نہ ادھر دیکھوں میں
جگر
93
چاہتا ہے اس جہاں میں گر بہشت
جا تماشا دیکھ اس رخسار کا
ولی دکنی
94
چاندنی کی سیر ان کے ساتھ! یہ حسرت فضول
اے قمرؔ نفرت ہے ان کو چاند کی تنویر سے
قمر جلال آبادی
95
چمن والے بجلی سے بولے نہ چالے
غریبوں کے گھر بے خطا پھونک ڈالے
قمر جلال آبادی
96
چمن میں روتی ہے شبنم اسی کلی کے لیے
خزاں نے جس کو اجازت نہ دی ہنسی کے لیے
قمر جلال آبادی
97
چاندنی رات کا کیا لطف قمرؔ کو آئے
لاکھ تاروں کی ہو بہتات مگر تم تو نہیں
قمر جلال آبادی
98
چاندنی دیکھ کے یاد آتے ہیں کیا کیا وہ مجھے
چاند جب شب کو قمر جلوہ نما ہوتا ہے
قمر جلال آبادی
99
چمن والوں سے جا کر اے نسیمِ صبح کہہ دینا
اسیرانِ قفس کے آج پر کٹوائے جاتے ہیں
ق
کچھ نئے انداز سے تاب و تواں پیدا کریں
کفیل دیوبندی
54
چلو چلتے ہیں مل جل کر وطن پر جان دیتے ہیں
بہت آسان ہے کمرے میں وندے ماترم کہنا
منور رانا
55
چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر بنا ہے نمونۂ زنداں کا
غالب
56
چمن فروش مجھے خار ہی عطا کردیں
مجھے چمن کی ہر اک شئی سے پیار ہے یارو
ایاز اختر
57
چند موہوم حسرتوں کے سوا
اور دنیا سے کیا لیا ہم نے
تابش دہلوی
58
چھوڑ کر دامانِ خود داری حفیظ
اپنی نظروں سے بھی ہم گر جائیں کیا
حفیظ میرٹھی
59
چلے اب بھی گر ان کے نقشِ قدم پر
بدل جائے حالِ پریشانِ عالم
راز بالاپوری
60
چٹکیاں لیتی ہے دل میں ہر گھڑی یادِ رسول
ہوگئی ہے اب تو میری زندگی یادِ رسول
61
چلا ہوں سوئے حرم اور کہکشاں بردوش
فریب، زیست نے دکھلایا زیرِ دام مجھے
ریاست علی ظفر
62
چاھتا ہوں کہ سر کے بل گزروں
آپ کی رہ گزر ہے اور میں ہوں
نواز دیوبندی
63
چلیں گے مدینے جو ہم دھیرے دھیرے
مٹیں گے نقوشِ اَلم دھیرے دھیرے
ولی بستوی
64
چمکتا ہے تیرے روضے کا منظر، سلامت ہے تیرے روضے کی جالی
ہمیں بھی عطا ہو وہ شوقِ ابوذر، ہمیں بھی عطا ہو وہ جذبِ بلالی
مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ تعالیٰ
65
چشمِ ظاہر بیں سے تو دیکھا نہیں جاتا ہے یار
تم نے بھی ائے دل کی آنکھوں، اس کو دکھلایا نہیں
بہادر شاہ ظفر
66
چل رہا ہوں خود کو اندھا جان کر
یا خدا روشن کوئی امکان کر
شکیب غوثی
67
چٹکارے کیوں بھرے نہ زباں تیرے ذکر میں
کوئی مزہ نہیں ہے ترے نام سے لذیذ
انشااللہ خان انشا
68
چہرے کو جھُرّیوں نے بھیانک بنا دیا
آئینہ دیکھنے کی بھی ہمت نہیں رہی
خمار بارہ بنکوی
69
چاہت مری چاہت ہی نہیں آپ کے نزدیک
کچھ میری حقیقت ہی نہیں آپ کے نزدیک
حسرت موہانی
70
چھپ کے اس نے جو خود نمائی کی
انتہا تھی یہ دل ربائی کی
حسرت موہانی
71
چوری چوری ہم سے تم آ کر ملے تھے جس جگہ
مدتیں گزریں پر اب تک وہ ٹھکانا یاد ہے
حسرت موہانی
72
چاہتا ہے مجھ کو تو بھولے نہ بھولوں میں تجھے
تیرے اس طرزِ تغافل کے فدا ہو جائیے
حسرت موہانی
73
چراغِ طور جلاؤ بڑا اندھیرا ہے
ذرا نقاب ہٹاؤ بڑا اندھیرا ہے
ساغر صدیقی
74
چمن لٹا ہے خود اہلِ چمن کی سازش سے
کلی کلی ہے مگر محوِ خواب سی پھر بھی
احسن کلیم
75
چاہا تھا ٹھوکروں میں گذر جائے زندگی
لوگوں نے سنکِ راہ سمجھ کر ہٹادیا
سالک لکھنوی
76
چاہے تن میں سب جل جائے
سوزِ دروں پر آنچ نہ آئے
حفیظ میرٹھی
77
چمن کو روند گئے قافلے بہاروں کے
گلوں کا ذکر ہی کیا، خار بھی نہیں باقی
قتیل شفائی
78
چٹک رہی ہے کسی یاد کی کلی دل میں
نظر میں رقصِ بہاراں کے صبح و شام لئے
مخدوم محی الدین
79
چین آئےگا کہاں دل کو خدا ہی جانے
دشت سے بھی وہی وحشت ہے جو تھی گھر سے مجھے
رضا علی وحشت
80
چمک جگنو کی برقِ بے اماں معلوم ہوتی ہے
قفس میں رہ کے قدرِ آشیاں معلوم ہوتی ہے
سیماب اکبرآبادی
81
چھوڑوں گا میں نہ اس بتِ کافر کا پوجنا
چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافر کہے بغیر
غالب
82
چند تصویرِ بتاں، چند حسینوں کے خطوط
بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا
غالب
83
چمن سے دور رہا اس قدر قفس میرا
کہ پہونچی اڑکے نہ مجھ تک گلِ چمن کی بو
ظفر
84
چشمِ بدور عجب خوش قد و قامت ہوگا
ابھی فتنہ ہے، کوئی دن قیامت ہوگا
بیتاب
85
چھیڑا عدو نے روٹھ گئے ساری بزم سے
بولے کہ اب نہ بات کریں گے کسی سے ہم
رام پرساد بسمل
86
چھلک رہے ہیں صُراحی کے ساتھ پیمانے
بُلا رہا ہے حرم، ٹوکتے ہیں بُت خانے
رام پرساد بسمل
87
چمن کو لگ گئی کس کی نظر خدا جانے
چمن رہا نہ رہے وہ چمن کے افسانے
رام پرساد بسمل
88
چُپ رہوں میں تو خموشی بھی گلہ ہو جائے
آپ جو چاہیں وہ کہہ دیں مِرے منہ پر مجھ کو
رام پرساد بسمل
89
چمن کی یاد آئی دل بھر آیا آنکھ بھر آئی
جہاں بولا کوئی گلشن میں باقی ہے بَہار اب تک
رام پرساد بسمل
90
چاندنی میں جب تجھے یاد اے مہِ تاباں کیا
رات بھر اختر شماری نے مجھے حیراں کیا
حیدر علی آتش
91
چپ رہو، دور کرو، منہ نہ میرا کھلواؤ
غافلو! زخم ِ زباں کا نہیں مرہم پیدا
حیدر علی آتش
92
چھوٹ جاؤں جو غم ِ ہستی سے
بھول کر بھی نہ ادھر دیکھوں میں
جگر
93
چاہتا ہے اس جہاں میں گر بہشت
جا تماشا دیکھ اس رخسار کا
ولی دکنی
94
چاندنی کی سیر ان کے ساتھ! یہ حسرت فضول
اے قمرؔ نفرت ہے ان کو چاند کی تنویر سے
قمر جلال آبادی
95
چمن والے بجلی سے بولے نہ چالے
غریبوں کے گھر بے خطا پھونک ڈالے
قمر جلال آبادی
96
چمن میں روتی ہے شبنم اسی کلی کے لیے
خزاں نے جس کو اجازت نہ دی ہنسی کے لیے
قمر جلال آبادی
97
چاندنی رات کا کیا لطف قمرؔ کو آئے
لاکھ تاروں کی ہو بہتات مگر تم تو نہیں
قمر جلال آبادی
98
چاندنی دیکھ کے یاد آتے ہیں کیا کیا وہ مجھے
چاند جب شب کو قمر جلوہ نما ہوتا ہے
قمر جلال آبادی
99
چمن والوں سے جا کر اے نسیمِ صبح کہہ دینا
اسیرانِ قفس کے آج پر کٹوائے جاتے ہیں
ق
مر جلال آبادی
100
چمن والوں سے جا کر اے نسیمِ صبح کہہ دینا
اسیرانِ قفس کے آج پر کٹوائے جاتے ہیں
قمر جلالوی
ختم شد
100
چمن والوں سے جا کر اے نسیمِ صبح کہہ دینا
اسیرانِ قفس کے آج پر کٹوائے جاتے ہیں
قمر جلالوی
ختم شد