United Kingdom
سوال # 102
محترم المقام السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
لوگ کہتے ہیں کہ چار انبیاء علیہم السلام زندہ ہیں ؛ جن میں دو آسمانوں میں ہیں:حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت ادریس علیہ السلام ، جب کہ دو اسی دنیا میں ہیں: حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت الیاس علیہ السلام۔ کیا یہ بات صحیح ہے ؟ نیز، مہربانی فرماکرکیا اس کی وضاحت فرمائیں گے کہ حضرت خضر و حضرت الیاس علیہما السلام کہاں ہیں؟
شکریہ! والسلام
Published on: Mar 29, 2007
جواب # 102
بسم الله الرحمن الرحيم
(فتوی: ۱۷۶/ب)
تحقیق یہ ہے کہ صرف ایک نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں اور آسمان پر موجود ہیں، حضرت ادریس علیہ السلام کے بارے میں جس آیت سے آسمان پر اٹھائے جانے کا مفہوم نکلتا ہے اس سے مراد رفعت مکانی ہے؛ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کے مرتبہ کو بلند فرمایا۔ حضرت الیاس علیہ السلام کے بارے میں زندہ ہونے کی کوئی آیت یا حدیث ہماری نظر سے نہیں گذری۔ حضرت خضر علیہ السلام، صحیح قول کے مطابق وہ نبی نہ تھے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی
جمع شدہ فتاوی مسلک دارالعوام دیوبند
@jamashuda
سوال # 102
محترم المقام السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
لوگ کہتے ہیں کہ چار انبیاء علیہم السلام زندہ ہیں ؛ جن میں دو آسمانوں میں ہیں:حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت ادریس علیہ السلام ، جب کہ دو اسی دنیا میں ہیں: حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت الیاس علیہ السلام۔ کیا یہ بات صحیح ہے ؟ نیز، مہربانی فرماکرکیا اس کی وضاحت فرمائیں گے کہ حضرت خضر و حضرت الیاس علیہما السلام کہاں ہیں؟
شکریہ! والسلام
Published on: Mar 29, 2007
جواب # 102
بسم الله الرحمن الرحيم
(فتوی: ۱۷۶/ب)
تحقیق یہ ہے کہ صرف ایک نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں اور آسمان پر موجود ہیں، حضرت ادریس علیہ السلام کے بارے میں جس آیت سے آسمان پر اٹھائے جانے کا مفہوم نکلتا ہے اس سے مراد رفعت مکانی ہے؛ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کے مرتبہ کو بلند فرمایا۔ حضرت الیاس علیہ السلام کے بارے میں زندہ ہونے کی کوئی آیت یا حدیث ہماری نظر سے نہیں گذری۔ حضرت خضر علیہ السلام، صحیح قول کے مطابق وہ نبی نہ تھے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی
جمع شدہ فتاوی مسلک دارالعوام دیوبند
@jamashuda
قرآن خوانی کے لئے طلبہ کو جمع کرنا اور ان کی دعوت کرنا
سوال:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: ایک شخص کا انتقال ہو گیا، اس کے گھر والے اگلے روز قرآن خوانی کرادیتے ہیں، اس کے بعد کھانے کا انتظام کرتے ہیں، مدرسہ کے طلباء کی دعوت کرتے ہیں اور رشتہ داروں کی اور محلہ والوں کی دعوت کرتے ہیں، تو یہ کھانا درست ہے یا نہیں؟ جواب دینے کی زحمت فرمائیں۔
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: میت کے گھر قرآن خوانی کے لئے کھانے کا انتظام کرنا اور اس کے لئے طلبہ کو جمع کرنامکروہ اور بدعت ہے؛ البتہ نفس کھانا حلال ہے۔
نیز بلاکسی التزام کھانا یا شیرینی وغیرہ کے قرآن کریم پڑھ کر ایصال ثواب کر دینا جائز و مستحب ہے، اسی طرح کسی دن یا وقت کے لازم کیے بغیر بلا قرآن خوانی کے کھانا کھلانا بھی جائز ہے۔
ویکرہ اتحاذ الضیافۃ من الطعام من أھل المیت؛ لأنہ شرع في السرور، لافي الشرور، وہی بدعۃ مستقبحۃ (إلی قولہ)ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول، والثاني، وبعد الأسبوع۔ونقل الطعام إلی القبر في المواسم، واتخاذ الدعوۃ لقراء ۃ القرآن، وجمع الصلحاء، والقراء للختم، أو لقراء ۃ سورۃ الأنعام، أوالإخلاص۔ (فتاوی شامي، کتاب الصلوۃ، باب صلوۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت زکریا ۳/۱۴۸، کراچی ۲/۲۴۰)
ونقل الطعام إلی المقبرۃ في المواسم، واتخاذ الدعوۃ لقراء ۃ القرآن، وجمع الصلحاء، والقراء للختم۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، کتاب الصلوۃ، قبیل فصل في زیارۃ القبور،مکتبہ دارالکتاب:۶۱۷)(فتاوی قاسمیہ۱۱۶/۴)
فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی
جمع شدہ فتاوی مسلک دارالعوام دیوبند
سوال:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: ایک شخص کا انتقال ہو گیا، اس کے گھر والے اگلے روز قرآن خوانی کرادیتے ہیں، اس کے بعد کھانے کا انتظام کرتے ہیں، مدرسہ کے طلباء کی دعوت کرتے ہیں اور رشتہ داروں کی اور محلہ والوں کی دعوت کرتے ہیں، تو یہ کھانا درست ہے یا نہیں؟ جواب دینے کی زحمت فرمائیں۔
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: میت کے گھر قرآن خوانی کے لئے کھانے کا انتظام کرنا اور اس کے لئے طلبہ کو جمع کرنامکروہ اور بدعت ہے؛ البتہ نفس کھانا حلال ہے۔
نیز بلاکسی التزام کھانا یا شیرینی وغیرہ کے قرآن کریم پڑھ کر ایصال ثواب کر دینا جائز و مستحب ہے، اسی طرح کسی دن یا وقت کے لازم کیے بغیر بلا قرآن خوانی کے کھانا کھلانا بھی جائز ہے۔
ویکرہ اتحاذ الضیافۃ من الطعام من أھل المیت؛ لأنہ شرع في السرور، لافي الشرور، وہی بدعۃ مستقبحۃ (إلی قولہ)ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول، والثاني، وبعد الأسبوع۔ونقل الطعام إلی القبر في المواسم، واتخاذ الدعوۃ لقراء ۃ القرآن، وجمع الصلحاء، والقراء للختم، أو لقراء ۃ سورۃ الأنعام، أوالإخلاص۔ (فتاوی شامي، کتاب الصلوۃ، باب صلوۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت زکریا ۳/۱۴۸، کراچی ۲/۲۴۰)
ونقل الطعام إلی المقبرۃ في المواسم، واتخاذ الدعوۃ لقراء ۃ القرآن، وجمع الصلحاء، والقراء للختم۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، کتاب الصلوۃ، قبیل فصل في زیارۃ القبور،مکتبہ دارالکتاب:۶۱۷)(فتاوی قاسمیہ۱۱۶/۴)
فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی
جمع شدہ فتاوی مسلک دارالعوام دیوبند
ایک مسجد میں روپئے دینے کی نذر مان کر دوسری مسجد میں دینا
سوال:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں : ایک شخص نے منت مانی کہ اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو میں فلاں مسجد میں سو روپئے دوں گا اس شخص کا کام ہو گیا اب اس شخص نے مسجد متعین کے بجائے دوسری مسجد میں سو روپئے دیدئیے، اور دوسری مسجد زیادہ حقدار ہے پہلی مسجد کی بنسبت، تو اس طرح منت پوری ہوئی یا نہیں ؟
یا اگر مسجد کے بجائے کسی غریب مستحق زکوٰۃ کو سو روپئے دیدئیے تو منت پوری ہوئی یا نہیں ؟ ان دونوں جزئیوں کا مدلل جواب مرحمت فرمائیں ۔
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
دوسری مسجد میں روپئے دینے سے منت پوری ہو گئی کیونکہ جس مسجد کی تعیین کی ہے وہ لازم نہیں ہے، اسی طرحمسجد کے بجائے کسی غریب کو دیدینے سے بھی منت پوری ہو گئی۔ (مستفاد: احسن الفتاویٰ ۵/۴۸۰، فتاویٰ محمودیہ قدیم ۱۴/۳۱۸-۳۱۹، جدید ڈابھیل ۱۴/۷۴)(فتاوی قاسمیہ۸۶/۱۷)
قال الشامی تحت قولہ (فإنہ لا یجوز تعجیلہ الخ) وکذا یظہر منہ أنہ لا یتعین فیہ المکان والدرہم والفقیر۔ (شامی، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم و مالایفسد، زکریا ۳/۴۲۴، کراچی ۲/۴۳۷)
وإن کان مقیدا بمکان بأن قال للہ تعالیٰ علی أن أصلی رکعتین فی موضع کذا، أو أتصدق علی فقراء بلد کذا، یجوز أداؤہ فی غیر ذٰلک المکان عند أبی حنیفۃ و صاحبیہ لأن المقصود من النذر ہو التقرب إلی اللہ عز وجل ولیس لذات المکان دخل فی القربۃ۔ (الفقہ الاسلامی و أدلتہ، ہدی انٹرنیشنل دیوبند ۳/۴۸۴، دار الفکر ۴/ ۲۵۶۸)
فقط وﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی
#جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
سوال:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں : ایک شخص نے منت مانی کہ اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو میں فلاں مسجد میں سو روپئے دوں گا اس شخص کا کام ہو گیا اب اس شخص نے مسجد متعین کے بجائے دوسری مسجد میں سو روپئے دیدئیے، اور دوسری مسجد زیادہ حقدار ہے پہلی مسجد کی بنسبت، تو اس طرح منت پوری ہوئی یا نہیں ؟
یا اگر مسجد کے بجائے کسی غریب مستحق زکوٰۃ کو سو روپئے دیدئیے تو منت پوری ہوئی یا نہیں ؟ ان دونوں جزئیوں کا مدلل جواب مرحمت فرمائیں ۔
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
دوسری مسجد میں روپئے دینے سے منت پوری ہو گئی کیونکہ جس مسجد کی تعیین کی ہے وہ لازم نہیں ہے، اسی طرحمسجد کے بجائے کسی غریب کو دیدینے سے بھی منت پوری ہو گئی۔ (مستفاد: احسن الفتاویٰ ۵/۴۸۰، فتاویٰ محمودیہ قدیم ۱۴/۳۱۸-۳۱۹، جدید ڈابھیل ۱۴/۷۴)(فتاوی قاسمیہ۸۶/۱۷)
قال الشامی تحت قولہ (فإنہ لا یجوز تعجیلہ الخ) وکذا یظہر منہ أنہ لا یتعین فیہ المکان والدرہم والفقیر۔ (شامی، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم و مالایفسد، زکریا ۳/۴۲۴، کراچی ۲/۴۳۷)
وإن کان مقیدا بمکان بأن قال للہ تعالیٰ علی أن أصلی رکعتین فی موضع کذا، أو أتصدق علی فقراء بلد کذا، یجوز أداؤہ فی غیر ذٰلک المکان عند أبی حنیفۃ و صاحبیہ لأن المقصود من النذر ہو التقرب إلی اللہ عز وجل ولیس لذات المکان دخل فی القربۃ۔ (الفقہ الاسلامی و أدلتہ، ہدی انٹرنیشنل دیوبند ۳/۴۸۴، دار الفکر ۴/ ۲۵۶۸)
فقط وﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی
#جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
موبائل سے کسی کی گفتگو ٹیپ کرنا؟
سوال:
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: بذریعہ موبائل بلا اِجازت کسی کی گفتگو کوٹیپ کرنا کیا حکم رکھتا ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بلااِجازت موبائل میں کسی کی گفتگو ٹیپ کرنا جائز نہیں؛ کیوںکہ پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ مجلسوں میں کہی گئی بات اَمانت ہے، اور ٹیپ کرنے کی وجہ سے یہ اَمانت محدود نہ رہ سکے گی؛ بلکہ اُس کے دوسروں تک پہنچنے کا عین امکان ہے۔
عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إذا حدث الرجل الحدیث، ثم التفت فہي أمانۃ۔ (سنن الترمذي، أبواب البر والصلۃ / باب ما جاء أن المجالس بالأمانۃ ۲؍۱۷)
وقال محشیہ: قولہ ثم التفت فہي أمانۃ: یعني إذا حدث أحد عندک حدیثًا، ثم غاب صار حدیثہ أمانۃ عندک، ولا یجوز إضاعتہا، والخیانۃ فیہا بإفشائہا۔ (سنن الترمذي، أبواب البر والصلۃ / باب ما جاء أن المجالس بالأمانۃ ۲؍۱۷ حاشیۃ: ۶)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی #جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
سوال:
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: بذریعہ موبائل بلا اِجازت کسی کی گفتگو کوٹیپ کرنا کیا حکم رکھتا ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بلااِجازت موبائل میں کسی کی گفتگو ٹیپ کرنا جائز نہیں؛ کیوںکہ پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ مجلسوں میں کہی گئی بات اَمانت ہے، اور ٹیپ کرنے کی وجہ سے یہ اَمانت محدود نہ رہ سکے گی؛ بلکہ اُس کے دوسروں تک پہنچنے کا عین امکان ہے۔
عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إذا حدث الرجل الحدیث، ثم التفت فہي أمانۃ۔ (سنن الترمذي، أبواب البر والصلۃ / باب ما جاء أن المجالس بالأمانۃ ۲؍۱۷)
وقال محشیہ: قولہ ثم التفت فہي أمانۃ: یعني إذا حدث أحد عندک حدیثًا، ثم غاب صار حدیثہ أمانۃ عندک، ولا یجوز إضاعتہا، والخیانۃ فیہا بإفشائہا۔ (سنن الترمذي، أبواب البر والصلۃ / باب ما جاء أن المجالس بالأمانۃ ۲؍۱۷ حاشیۃ: ۶)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی #جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
قعدۂ اخیرہ میں التحیات اور درود شریف پڑھنے کے بعد دیر تک خاموش رہنا؟
سوال:
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: کسی نے قعدۂ اخیرہ میں التحیات، درودشریف پڑھنے کے بعد سلام نہیں پھیرا؛ بلکہ کسی سوچ میں دیر تک خاموش رہا، تو اس پر سجدہ سہو واجب ہوگا۔ (مسائل سجدہ سہو بحوالہ کبیری ۴۳۷)
کیا مذکورہ مسئلہ صحیح ہے؟ جب کہ اصول یہ ہے کہ قعدۂ اخیرہ میں التحیات کے بعد سہو ہوجائے تو سجدۂ سہو واجب نہیں۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل ۳؍۳۶۸)
التحیات کے بعد قعدۂ اخیرہ میں دیر تک خاموش رہا تو اس پر سجدۂ سہو وجب نہیں۔ (مسائل نماز، بحوالہ شامی ۷۰۷، فتاویٰ رحیمیہ ۵؍۱۹، عالمگیری ۱؍۸۲) مذکورہ نمبر ۲؍اور ۳؍ میں سے کونسا مسئلہ صحیح ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسائل سجدۂ سہو سے جو مسئلہ کبیری کے حوالہ سے ذکر کیا گیا ہے، اس کی عبارت یہ ہے:
وإن سہا عن السلام یعني بالسہو عن السلام بأنہ أطال القعدۃ الأخیرۃ ساکتاً قدر أداء رکن أو أکثر علی ظن أنہ خرج من الصلاۃ ثم علم أنہ لم یخرج ولم یسلم فسلم یسجد للسہو لتاخیرہ الواجب۔ (کبیري ۴۳۷، مسائل سجدۂ سہو ۷۲)
اور آپ کے مسائل اور ان کا حل ۲؍۳۶۸ میں جو اصول لکھا گیا ہے کہ قعدۂ اخیرہ میں التحیات کے بعد سہو ہوجائے تو سجدۂ سہو واجب نہیں، یہ بغیر کسی حوالہ کے مذکور ہے۔ نیز عربی کتابوں میں بھی ایسا کوئی اصول نظر سے نہیں گذرا۔
اور ’’مسائل نماز‘‘ میں جن کتابوں کے حوالہ سے مذکورہ صورت میں سجدۂ سہو کا وجب نہ ہونا لکھا ہے، یہ صحیح نہیں ہے؛ کیوںکہ شامی میں سجدۂ سہو کے وجوب کا اثبات ہے۔
کما قال الشامي: فقیل ما لزم منہ تاخیر الواجب أو الرکن عن محلہ بأن قطع الاشتغال بالرکن أو الواجب قدر أداء رکن وہو الأصح۔
وقال أیضاً: ودخل في قولہ أو عن أداء واجب ما لو شغلہ عن السلام لما في الظہیریۃ: لو شک بعد ما قدر التشہد أصلیّٰ ثلاثاً أو أربعاً حتی شغلہ ذٰلک عن السلام ثم استیقن وأتم صلاتہ فعلیہ السہو…، وعللہ في البدائع: بأنہ أخر الواجب وہو السلام۔ (بدائع الصنائع ۲؍۵۶۲، شامي ۲؍۵۶۲ زکریا)
کما قال: وإذا قعد المصلي في صلاتہ وتشہد ثم شک أنہ صلی ثلاثاً أم أربعاً حتی شغلہ ذٰلک عن التسلیم ثم استیقن أنہ صلی أربعاً فأتم صلاتہ فعلیہ سجود السہو۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۲۹)
اور فتاویٰ رحیمیہ کا جو حوالہ دیا گیا ہے وہ غلط ہے؛ بلکہ اسی نوعیت کا مسئلہ فتاویٰ رحیمیہ ۵؍۱۸ پر موجود ہے، جس میں سجدۂ سہو کے وجوب کی نفی کے بجائے اثبات ہے۔
لہٰذا مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ مسائل سجدۂ سہو کا مسئلہ صحیح ہے۔(کتاب النوازل۶۴۲/۳)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی #جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
سوال:
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: کسی نے قعدۂ اخیرہ میں التحیات، درودشریف پڑھنے کے بعد سلام نہیں پھیرا؛ بلکہ کسی سوچ میں دیر تک خاموش رہا، تو اس پر سجدہ سہو واجب ہوگا۔ (مسائل سجدہ سہو بحوالہ کبیری ۴۳۷)
کیا مذکورہ مسئلہ صحیح ہے؟ جب کہ اصول یہ ہے کہ قعدۂ اخیرہ میں التحیات کے بعد سہو ہوجائے تو سجدۂ سہو واجب نہیں۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل ۳؍۳۶۸)
التحیات کے بعد قعدۂ اخیرہ میں دیر تک خاموش رہا تو اس پر سجدۂ سہو وجب نہیں۔ (مسائل نماز، بحوالہ شامی ۷۰۷، فتاویٰ رحیمیہ ۵؍۱۹، عالمگیری ۱؍۸۲) مذکورہ نمبر ۲؍اور ۳؍ میں سے کونسا مسئلہ صحیح ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسائل سجدۂ سہو سے جو مسئلہ کبیری کے حوالہ سے ذکر کیا گیا ہے، اس کی عبارت یہ ہے:
وإن سہا عن السلام یعني بالسہو عن السلام بأنہ أطال القعدۃ الأخیرۃ ساکتاً قدر أداء رکن أو أکثر علی ظن أنہ خرج من الصلاۃ ثم علم أنہ لم یخرج ولم یسلم فسلم یسجد للسہو لتاخیرہ الواجب۔ (کبیري ۴۳۷، مسائل سجدۂ سہو ۷۲)
اور آپ کے مسائل اور ان کا حل ۲؍۳۶۸ میں جو اصول لکھا گیا ہے کہ قعدۂ اخیرہ میں التحیات کے بعد سہو ہوجائے تو سجدۂ سہو واجب نہیں، یہ بغیر کسی حوالہ کے مذکور ہے۔ نیز عربی کتابوں میں بھی ایسا کوئی اصول نظر سے نہیں گذرا۔
اور ’’مسائل نماز‘‘ میں جن کتابوں کے حوالہ سے مذکورہ صورت میں سجدۂ سہو کا وجب نہ ہونا لکھا ہے، یہ صحیح نہیں ہے؛ کیوںکہ شامی میں سجدۂ سہو کے وجوب کا اثبات ہے۔
کما قال الشامي: فقیل ما لزم منہ تاخیر الواجب أو الرکن عن محلہ بأن قطع الاشتغال بالرکن أو الواجب قدر أداء رکن وہو الأصح۔
وقال أیضاً: ودخل في قولہ أو عن أداء واجب ما لو شغلہ عن السلام لما في الظہیریۃ: لو شک بعد ما قدر التشہد أصلیّٰ ثلاثاً أو أربعاً حتی شغلہ ذٰلک عن السلام ثم استیقن وأتم صلاتہ فعلیہ السہو…، وعللہ في البدائع: بأنہ أخر الواجب وہو السلام۔ (بدائع الصنائع ۲؍۵۶۲، شامي ۲؍۵۶۲ زکریا)
کما قال: وإذا قعد المصلي في صلاتہ وتشہد ثم شک أنہ صلی ثلاثاً أم أربعاً حتی شغلہ ذٰلک عن التسلیم ثم استیقن أنہ صلی أربعاً فأتم صلاتہ فعلیہ سجود السہو۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۲۹)
اور فتاویٰ رحیمیہ کا جو حوالہ دیا گیا ہے وہ غلط ہے؛ بلکہ اسی نوعیت کا مسئلہ فتاویٰ رحیمیہ ۵؍۱۸ پر موجود ہے، جس میں سجدۂ سہو کے وجوب کی نفی کے بجائے اثبات ہے۔
لہٰذا مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ مسائل سجدۂ سہو کا مسئلہ صحیح ہے۔(کتاب النوازل۶۴۲/۳)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی #جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
السلام علیکم ۔۔۔
ہم میڈیکل کے طالب علم ہے ۔اور ہمیں مردہ جسم پر چیر پھاڑ (disection) کرکے اعضاء کے متعلق معلومات بتائی جاتی ہے ۔کیا ہمیں اس کی اجازت ہے ۔جب کے مردہ جسم مسلمان کا ہو۔اور جو لاشیں ہمیں فراہم کی جاتی ہے وہ لاوارث ہوتی ہے۔۔
سائل: ڈاکٹر اسعد
___________
باب: 55تشریح الابدان کی تعلیم کے لئے نعش کی کانٹ چھانٹ (Body Dissection)
-1 پوسٹ مارٹم معائنہ کی بحث میں نعش کی حرمت و احترام کا ذکر ہو چکا ہے۔
-2 مردے کو نہلانا اور اس کی تجہیز و تکفین کرنا اور اس پر نماز جنازہ پڑھنا اور اس کو دفن کرنا فرض کفایہ ہے۔ کسی کے بھی نہ کرنے سے اس مردہ کے بارے میں تمام باخبر مسلمان گناہ گار ہوتے ہیں ۔
عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۲ لِلْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ سِتُّ خِصَالٍ یَعُوْدُہٗ إِذَا مَرِضَ وَیَشْھَدُہٗ إِذَا مَاتَ وَیُجِیْبُہٗ إِذَا دَعَا وَیُسَلِّمُ عَلَیْہِ إِذَا لَقِیَہٗ وَیُشَمِّتُہٗ إِذَا عَطَسَ وَیَنْصَحُ لَہٗ إِذَا غَابَ أَوْ شَھِدَا (نسائی)
-3 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ۲ نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان کے مسلمان پر چھ حق ہیں ۔ (جب وہ) بیمار (ہو جائے تو اس) کی عیادت کرنا۔ (اس کے ) جنازہ کے ساتھ چلنا (جب) وہ (مدد کے لئے) بلائے تو اس کی مدد کرنا اور جب اس سے ملے تو اس کو سلام کہے اور جب وہ چھینک کر الحمد اللہ کہے تو اس کو یرحمک اللہ کہنا۔ اور اس کی خیر خواہی کرنا خواہ وہ سامنے ہو یا پیٹھ پیچھے ہو۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ باتیں مسلمان میت کا دوسرے مسلمانوں پر حق ہیں ۔ نعش کی کانٹ چھانٹ (Dissection) میں مندرجہ ذیل قباحتیں لازم آتی ہیں ۔
-1 نعش کی ہتک حرمت ہوتی ہے۔
-2 میت اپنے حق سے محروم رہتی ہے۔
-3 اس سے باخبر تمام مسلمان فرض کفایہ کے ترک اور مسلمان کے حقوق کے ضائع کرنے کی بنا پر گناہ گار ہوتے ہیں کیونکہ (Dissection) میں کام آنے والی نعش اگر نماز جنازہ سے نہیں تو تکفین و تدفین سے محروم رہتی ہے۔
-4 یہ شرعی حکم گزر چکا ہے کہ لاش کا مثلہ نہ کرو۔ اس حکم کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ۲ إِذَا بَعَثَ جُیُوْشَہٗ قَالَ لَاَ تَغْدِرُوْا… وَلَاَ تُمَثِّلُوْا … (احمد)
حضرت عبداللہ بن عباسص کہتے ہیں رسول اللہ۲ جب اپنے لشکر روانہ کرتے تھے تو ان سے فرماتے تھے کہ نہ تو نقض عہد کرنا اور نہ مثلہ کرنا۔
-5 میت کے ستر چھپانے کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔
اب ہمیں دیکھنا ہو گا کہ نعش کی (Dissection) کرنے میں یہ پانچ بڑی بڑی قباحتیں لازم آتی ہیں تو کیا اس کا متبادل طریقہ کوئی ہے ؟
موجودہ دور میں مصنوعی ڈھانچے اور مصنوعی اجسام (Dummies)تیار کئے جا رہے ہیں اور ان سے استفادہ بھی کیا جا رہا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ تشریح الابدان کے علم کی تحصیل میں ان پر اکتفا نہ کیا جائے۔
غرض ان قباحتوں کا تحمل کرنے کی کوئی قوی وجہ موجود نہیں ہے اور اس لئے انسانی میت کی Dissection کسی طور پر جائز نہیں ہے۔
تنبیہ: Dissection کے جائز نہ ہونے پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ دور میں سرکاری کالجوں میں اور بہت سے پرائیویٹ کالجوں میں بھی Dissection کو میڈیکل یعنی انگریزی طبی تعلیم کا ایک لازمی جزو ہے تو کیا طبی تعلیم حاصل کرنا بھی ناجائز ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شریعت کے مقاصد میں سے ایک حفاظت جان بھی ہے جو کہ طبی تعلیم پر موقوف ہے لہٰذا طبی تعلیم کو تو ترک نہیں کیا جائے گا اگرچہ اصحاب اختیار پر لازم ہے کہ وہ اصلاح احوال کریں اور طبی تعلیم کے غیر شرعی حصوں کو تبدیل کریں ۔ جب تک حالات شریعت کے مطابق نہیں بنتے تعلیم تو حاصل کی جائے البتہ Dissectionمیں عملی دلچسپی نہ لی جائے صرف مشاہدہ پر اکتفا کیا جائے، دل میں اس کو غلط اور برا سمجھا جائے اور یہ عزم رکھا جائے کہ اصلاح احوال کی سنجیدگی سے کوشش کریں گے۔(مریض ومعالج کے اسلامی احکام۲۸۹)
واللہ اعلم بالصواب #محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی #جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
ہم میڈیکل کے طالب علم ہے ۔اور ہمیں مردہ جسم پر چیر پھاڑ (disection) کرکے اعضاء کے متعلق معلومات بتائی جاتی ہے ۔کیا ہمیں اس کی اجازت ہے ۔جب کے مردہ جسم مسلمان کا ہو۔اور جو لاشیں ہمیں فراہم کی جاتی ہے وہ لاوارث ہوتی ہے۔۔
سائل: ڈاکٹر اسعد
___________
باب: 55تشریح الابدان کی تعلیم کے لئے نعش کی کانٹ چھانٹ (Body Dissection)
-1 پوسٹ مارٹم معائنہ کی بحث میں نعش کی حرمت و احترام کا ذکر ہو چکا ہے۔
-2 مردے کو نہلانا اور اس کی تجہیز و تکفین کرنا اور اس پر نماز جنازہ پڑھنا اور اس کو دفن کرنا فرض کفایہ ہے۔ کسی کے بھی نہ کرنے سے اس مردہ کے بارے میں تمام باخبر مسلمان گناہ گار ہوتے ہیں ۔
عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۲ لِلْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ سِتُّ خِصَالٍ یَعُوْدُہٗ إِذَا مَرِضَ وَیَشْھَدُہٗ إِذَا مَاتَ وَیُجِیْبُہٗ إِذَا دَعَا وَیُسَلِّمُ عَلَیْہِ إِذَا لَقِیَہٗ وَیُشَمِّتُہٗ إِذَا عَطَسَ وَیَنْصَحُ لَہٗ إِذَا غَابَ أَوْ شَھِدَا (نسائی)
-3 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ۲ نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان کے مسلمان پر چھ حق ہیں ۔ (جب وہ) بیمار (ہو جائے تو اس) کی عیادت کرنا۔ (اس کے ) جنازہ کے ساتھ چلنا (جب) وہ (مدد کے لئے) بلائے تو اس کی مدد کرنا اور جب اس سے ملے تو اس کو سلام کہے اور جب وہ چھینک کر الحمد اللہ کہے تو اس کو یرحمک اللہ کہنا۔ اور اس کی خیر خواہی کرنا خواہ وہ سامنے ہو یا پیٹھ پیچھے ہو۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ باتیں مسلمان میت کا دوسرے مسلمانوں پر حق ہیں ۔ نعش کی کانٹ چھانٹ (Dissection) میں مندرجہ ذیل قباحتیں لازم آتی ہیں ۔
-1 نعش کی ہتک حرمت ہوتی ہے۔
-2 میت اپنے حق سے محروم رہتی ہے۔
-3 اس سے باخبر تمام مسلمان فرض کفایہ کے ترک اور مسلمان کے حقوق کے ضائع کرنے کی بنا پر گناہ گار ہوتے ہیں کیونکہ (Dissection) میں کام آنے والی نعش اگر نماز جنازہ سے نہیں تو تکفین و تدفین سے محروم رہتی ہے۔
-4 یہ شرعی حکم گزر چکا ہے کہ لاش کا مثلہ نہ کرو۔ اس حکم کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ۲ إِذَا بَعَثَ جُیُوْشَہٗ قَالَ لَاَ تَغْدِرُوْا… وَلَاَ تُمَثِّلُوْا … (احمد)
حضرت عبداللہ بن عباسص کہتے ہیں رسول اللہ۲ جب اپنے لشکر روانہ کرتے تھے تو ان سے فرماتے تھے کہ نہ تو نقض عہد کرنا اور نہ مثلہ کرنا۔
-5 میت کے ستر چھپانے کا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔
اب ہمیں دیکھنا ہو گا کہ نعش کی (Dissection) کرنے میں یہ پانچ بڑی بڑی قباحتیں لازم آتی ہیں تو کیا اس کا متبادل طریقہ کوئی ہے ؟
موجودہ دور میں مصنوعی ڈھانچے اور مصنوعی اجسام (Dummies)تیار کئے جا رہے ہیں اور ان سے استفادہ بھی کیا جا رہا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ تشریح الابدان کے علم کی تحصیل میں ان پر اکتفا نہ کیا جائے۔
غرض ان قباحتوں کا تحمل کرنے کی کوئی قوی وجہ موجود نہیں ہے اور اس لئے انسانی میت کی Dissection کسی طور پر جائز نہیں ہے۔
تنبیہ: Dissection کے جائز نہ ہونے پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ دور میں سرکاری کالجوں میں اور بہت سے پرائیویٹ کالجوں میں بھی Dissection کو میڈیکل یعنی انگریزی طبی تعلیم کا ایک لازمی جزو ہے تو کیا طبی تعلیم حاصل کرنا بھی ناجائز ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ شریعت کے مقاصد میں سے ایک حفاظت جان بھی ہے جو کہ طبی تعلیم پر موقوف ہے لہٰذا طبی تعلیم کو تو ترک نہیں کیا جائے گا اگرچہ اصحاب اختیار پر لازم ہے کہ وہ اصلاح احوال کریں اور طبی تعلیم کے غیر شرعی حصوں کو تبدیل کریں ۔ جب تک حالات شریعت کے مطابق نہیں بنتے تعلیم تو حاصل کی جائے البتہ Dissectionمیں عملی دلچسپی نہ لی جائے صرف مشاہدہ پر اکتفا کیا جائے، دل میں اس کو غلط اور برا سمجھا جائے اور یہ عزم رکھا جائے کہ اصلاح احوال کی سنجیدگی سے کوشش کریں گے۔(مریض ومعالج کے اسلامی احکام۲۸۹)
واللہ اعلم بالصواب #محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی #جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
ڈاکٹری_تعلیم_کیلئے_لاوارث_لعش_کا.pdf
382.9 KB
ڈاکٹری تعلیم کیلئے لاوارث مردہ کی پوسٹ مارٹم۔
سوال # 49309
نئے گھر میں داخل ہوتے وقت۔اور دکان کے افتتاح کے وقت ۔نیز مرحومین کے ایصال ثواب کے لیے عام رواج ہے کہ مدرسہ کے طلبہ کو طلب کیا جاتا ہے اور کھانا وغیرہ کھلایا جاتا ہے ۔اور مدرسہ والے مدرسہ کے نام پر یاطلبہ کے نام ہر ایک متعینہ رقم کا مطالبہ کرتے ہیں ۔کیا مدرسہ کے طلبہ کا استعمال اور رقم کا مطالبہ درست ہے ؟
Published on: Nov 20, 2013
جواب # 49309
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1552-1549-U
قرآن پاک کی تلاوت ایصال ثواب کے لیے ہو یا برکت کے لیے دونوں صورتوں میں یہ عبادت محضہ ہے، جس پر کسی قسم کا لین دین ہرگز جائز ودرست نہیں؛ لہٰذا نئے گھر یا دکان کی افتتاح کے موقع پر برکت کے لیے یا کسی کے انتقال پر ایصال ثواب کے لیے مدرسہ کے طلبہ کی قرآن خوانی پر مدرسہ کے لیے یا مدرسہ کے طلبہ کے لیے معاوضہ کا لین دین یا بالخصوص قرآن خوانی کرنے والوں کے لیے کھانے یا ناشتہ وغیرہ کا نظم کرنا ہرگز جائز ودرست نہیں، ایسی صورت میں تلاوت قرآن پاک پر نہ کوئی ثواب ملے گا اور نہ اس کی وجہ سے کوئی برکت حاصل ہوگی بلکہ تلاوت قرآن پر لین دین کرنے والے سب لوگ سخت گنہ گار ہوں گے کیونکہ یہ واضح طور پر قرآن پاک کی تلاوت کو پیسوں وغیرہ کے عوض بیچنا ہے جو بلاشبہ ناجائز ہے: ”قال في رد المحتار (کتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة: ۹/۷۷ ط مکتبہ زکریا دیوبند) عن الیعیني فی شرح الہدایة: فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراء ة الأجزاء بالأجرة لا یجوز لأن فیہ الأمر بالقراء ة وإعطاء الثوب للآمر والقراء ة لأجل المال فإذا لم یکن للقارئ ثواب لعدم النیة الصحیحة فأین یصل الثواب إلی المستأجر، ولو لا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في ہذا الزکان بل جعلوا القرآن العظیم مکسبا ووسیلة إلی جمع الدنیا، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون اھ․
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
========================
سوال # 68730
گھر بھرانی(barani ) کے نام پر نئے گھر میں داخل ہونے سے پہلے ایک بقرہ کاٹ کر دعوت کی جاتی ہے، کیا یہ دعوت کرنا جائز ہے؟ اور اس دعوت میں جاکے کھانا جائز ہے؟
قرآن اور حدیث کی روشنی میں براہ کرم جواب دیں۔
Published on: Aug 29, 2016
جواب # 68730
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 826-826/B=11/1437
یہ محض ایک رسم ہے شریعت اسلام میں اس کی اصل نہیں ہے دو رکعت نفل خیر و برکت کے لیے کسی نیک آدمی سے پڑھوالیں اور پھر اس میں رہنا شروع کردیں گھر میں قرآن کی تلاوت برابر کرتے رہیں نفل نمازیں بھی کبھی کبھی پڑھتے رہیں، اس سے گھر میں برکت رہے گی۔ کھانے کھلانے کی رسم سے برکت نہ ہوگی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
========================
وال # 59013
(۱) نئے مکان میں منتقل ہونے کے لیے سنت کیا ہے؟
(۲) کیا نئے مکان میں جماعت کے ساتھ فجر کی نماز پڑھنے کی اجازت ہے اگر چہ مسجد پاس میں ہو ؟
Published on: Apr 26, 2015
جواب # 59013
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 331-331/Sd=7/1436-U
(۱) نئے مکان میں منتقل ہونے کے سلسلے میں کوئی مخصوص سنت تلاش بسیار کے بعد بھی نہیں ملی، البتہ نئے مکان میں منتقل ہوتے وقت تنہا دو رکعت نفل پڑھ کر حفاظت وعافیت کی دعا کرنے میں مضائقہ نہیں ہے۔
(۲) جب کہ نئے مکان کے پاس مسجد موجود ہے تو فجر کی جماعت مسجد کے بجائے گھر پر کرنا جائز نہیں ہے، فرض نماز کو مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھنے کی بہت تاکید آئی ہے۔ بلا عذر مسجد کی جماعت ترک کرنا گناہ کا موجب ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی #جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
نئے گھر میں داخل ہوتے وقت۔اور دکان کے افتتاح کے وقت ۔نیز مرحومین کے ایصال ثواب کے لیے عام رواج ہے کہ مدرسہ کے طلبہ کو طلب کیا جاتا ہے اور کھانا وغیرہ کھلایا جاتا ہے ۔اور مدرسہ والے مدرسہ کے نام پر یاطلبہ کے نام ہر ایک متعینہ رقم کا مطالبہ کرتے ہیں ۔کیا مدرسہ کے طلبہ کا استعمال اور رقم کا مطالبہ درست ہے ؟
Published on: Nov 20, 2013
جواب # 49309
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1552-1549-U
قرآن پاک کی تلاوت ایصال ثواب کے لیے ہو یا برکت کے لیے دونوں صورتوں میں یہ عبادت محضہ ہے، جس پر کسی قسم کا لین دین ہرگز جائز ودرست نہیں؛ لہٰذا نئے گھر یا دکان کی افتتاح کے موقع پر برکت کے لیے یا کسی کے انتقال پر ایصال ثواب کے لیے مدرسہ کے طلبہ کی قرآن خوانی پر مدرسہ کے لیے یا مدرسہ کے طلبہ کے لیے معاوضہ کا لین دین یا بالخصوص قرآن خوانی کرنے والوں کے لیے کھانے یا ناشتہ وغیرہ کا نظم کرنا ہرگز جائز ودرست نہیں، ایسی صورت میں تلاوت قرآن پاک پر نہ کوئی ثواب ملے گا اور نہ اس کی وجہ سے کوئی برکت حاصل ہوگی بلکہ تلاوت قرآن پر لین دین کرنے والے سب لوگ سخت گنہ گار ہوں گے کیونکہ یہ واضح طور پر قرآن پاک کی تلاوت کو پیسوں وغیرہ کے عوض بیچنا ہے جو بلاشبہ ناجائز ہے: ”قال في رد المحتار (کتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة: ۹/۷۷ ط مکتبہ زکریا دیوبند) عن الیعیني فی شرح الہدایة: فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراء ة الأجزاء بالأجرة لا یجوز لأن فیہ الأمر بالقراء ة وإعطاء الثوب للآمر والقراء ة لأجل المال فإذا لم یکن للقارئ ثواب لعدم النیة الصحیحة فأین یصل الثواب إلی المستأجر، ولو لا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في ہذا الزکان بل جعلوا القرآن العظیم مکسبا ووسیلة إلی جمع الدنیا، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون اھ․
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
========================
سوال # 68730
گھر بھرانی(barani ) کے نام پر نئے گھر میں داخل ہونے سے پہلے ایک بقرہ کاٹ کر دعوت کی جاتی ہے، کیا یہ دعوت کرنا جائز ہے؟ اور اس دعوت میں جاکے کھانا جائز ہے؟
قرآن اور حدیث کی روشنی میں براہ کرم جواب دیں۔
Published on: Aug 29, 2016
جواب # 68730
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 826-826/B=11/1437
یہ محض ایک رسم ہے شریعت اسلام میں اس کی اصل نہیں ہے دو رکعت نفل خیر و برکت کے لیے کسی نیک آدمی سے پڑھوالیں اور پھر اس میں رہنا شروع کردیں گھر میں قرآن کی تلاوت برابر کرتے رہیں نفل نمازیں بھی کبھی کبھی پڑھتے رہیں، اس سے گھر میں برکت رہے گی۔ کھانے کھلانے کی رسم سے برکت نہ ہوگی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
========================
وال # 59013
(۱) نئے مکان میں منتقل ہونے کے لیے سنت کیا ہے؟
(۲) کیا نئے مکان میں جماعت کے ساتھ فجر کی نماز پڑھنے کی اجازت ہے اگر چہ مسجد پاس میں ہو ؟
Published on: Apr 26, 2015
جواب # 59013
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 331-331/Sd=7/1436-U
(۱) نئے مکان میں منتقل ہونے کے سلسلے میں کوئی مخصوص سنت تلاش بسیار کے بعد بھی نہیں ملی، البتہ نئے مکان میں منتقل ہوتے وقت تنہا دو رکعت نفل پڑھ کر حفاظت وعافیت کی دعا کرنے میں مضائقہ نہیں ہے۔
(۲) جب کہ نئے مکان کے پاس مسجد موجود ہے تو فجر کی جماعت مسجد کے بجائے گھر پر کرنا جائز نہیں ہے، فرض نماز کو مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھنے کی بہت تاکید آئی ہے۔ بلا عذر مسجد کی جماعت ترک کرنا گناہ کا موجب ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی #جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
سوال # 55121
میں نے کئی بیانات میں اور اپنے شہر کے لوکل مراکز کے بیانات میں سنا ہے کہ جنت کی حور اگر سمندر میں تھوک دے تو سمندر کا کھڑا میٹھا ہو جائے اور بھی ایسے دیگر فضائل حور علمائے بیان کرتے ہیں ، کچھ لوگ بڑا اشکال کررہے ہیں کہ یہ احادیث کہاں سے آئیں؟ لہذا بڑی مہربانی ہوگی کہ ضرور بتائیں کہ جنت کی حور کیا فضیلت ہیں مسند احادیث کے اندر ؟ اللہ حافظ ۔
Published on: Sep 11, 2014
جواب # 55121
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1291-1284/N=11/1435-U
(۱) ابوالشیخ اصبہانی نے اپنی کتاب: ”العظمة“ (ص ۱۰۶۲ مطبوعہ دار العاصمة الریاض) میں فرمایا: جنت کی حور اگر سمندر میں تھوک دے تو اس کے تھوک سے ساتوں سمندر کا کھارا پانی شیریں ہوجائے۔ اور امام قرطبی رحمہ اللہ کی التذکرة (ص ۹۸۶ مکتبہ دار المنہج للنشر والتوزیع بالریاض) میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے ہے: جنت میں کعبہ نام کی ایک حور ہوگی، اگر وہ سمندر میں تھوک دے تو سمندر کا سارا پانی شیریں ہوجائے“۔
(۲) قرآن کریم اور صحیح احادیث کے حوالہ سے حوروں کی چند صفات یہ ہیں: پاک وصاف ہوں گی، جنت میں ہمیشہ ہمیش رہیں گی، خوب گوری چٹی اور بڑی بڑی آنکھوں والی ہوں گی، ہم عمر ہوں گی، نگاہیں نیچی رکھنے والی ہوں گی، اس سے پہلے انھیں کسی انسان یا جنات نے نہیں چھویا ہوگا، محفوظ موتیوں کے مانند ہوگی۔ (القرآن الکریم، سورہٴ بقرہ، سورہٴ صافات اور سورہٴ واقعہ وغیرہ)ہرحور ایسی ہوگی کہ اگر وہ زمین کی طرف جھانک لے تو اس کے حسن کی وجہ سے پوری دنیا روشن ہوجائے اور اس کی خوشبو سے پوری دنیا معطر ہوجائے اور اس کی اوڑھنی دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہے۔ (مشکاة شریف ص۴۹۵ بحوالہ صحیح بخاری)، شدت حسن اور لطافت سے کئی کئی جوڑے پہننے کے باوجود ان کی پنڈلیوں کا گودا نظر آئے گا (حوالہ بالا ص ۴۹۶ بحوالہ صحیحین ومسند احمد) اورحور مزید کے بارے میں ہے کہ اس کے رخسار آئینہ سے زیادہ صاف وشفاف ہوں گے، جنتی کو اس کے چہرے میں اپنا چہرہ واضح طور پر نظر آئے گا اوراس کا معمولی ترین موتی ایسا ہوگا کہ اگر وہ دنیا میں آجائے تو مشرق ومغرب کو روشن کردے۔ (حوالہ بالا ص۵۰۰ بحوالہ مسند احمد)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی #جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
میں نے کئی بیانات میں اور اپنے شہر کے لوکل مراکز کے بیانات میں سنا ہے کہ جنت کی حور اگر سمندر میں تھوک دے تو سمندر کا کھڑا میٹھا ہو جائے اور بھی ایسے دیگر فضائل حور علمائے بیان کرتے ہیں ، کچھ لوگ بڑا اشکال کررہے ہیں کہ یہ احادیث کہاں سے آئیں؟ لہذا بڑی مہربانی ہوگی کہ ضرور بتائیں کہ جنت کی حور کیا فضیلت ہیں مسند احادیث کے اندر ؟ اللہ حافظ ۔
Published on: Sep 11, 2014
جواب # 55121
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1291-1284/N=11/1435-U
(۱) ابوالشیخ اصبہانی نے اپنی کتاب: ”العظمة“ (ص ۱۰۶۲ مطبوعہ دار العاصمة الریاض) میں فرمایا: جنت کی حور اگر سمندر میں تھوک دے تو اس کے تھوک سے ساتوں سمندر کا کھارا پانی شیریں ہوجائے۔ اور امام قرطبی رحمہ اللہ کی التذکرة (ص ۹۸۶ مکتبہ دار المنہج للنشر والتوزیع بالریاض) میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے ہے: جنت میں کعبہ نام کی ایک حور ہوگی، اگر وہ سمندر میں تھوک دے تو سمندر کا سارا پانی شیریں ہوجائے“۔
(۲) قرآن کریم اور صحیح احادیث کے حوالہ سے حوروں کی چند صفات یہ ہیں: پاک وصاف ہوں گی، جنت میں ہمیشہ ہمیش رہیں گی، خوب گوری چٹی اور بڑی بڑی آنکھوں والی ہوں گی، ہم عمر ہوں گی، نگاہیں نیچی رکھنے والی ہوں گی، اس سے پہلے انھیں کسی انسان یا جنات نے نہیں چھویا ہوگا، محفوظ موتیوں کے مانند ہوگی۔ (القرآن الکریم، سورہٴ بقرہ، سورہٴ صافات اور سورہٴ واقعہ وغیرہ)ہرحور ایسی ہوگی کہ اگر وہ زمین کی طرف جھانک لے تو اس کے حسن کی وجہ سے پوری دنیا روشن ہوجائے اور اس کی خوشبو سے پوری دنیا معطر ہوجائے اور اس کی اوڑھنی دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہے۔ (مشکاة شریف ص۴۹۵ بحوالہ صحیح بخاری)، شدت حسن اور لطافت سے کئی کئی جوڑے پہننے کے باوجود ان کی پنڈلیوں کا گودا نظر آئے گا (حوالہ بالا ص ۴۹۶ بحوالہ صحیحین ومسند احمد) اورحور مزید کے بارے میں ہے کہ اس کے رخسار آئینہ سے زیادہ صاف وشفاف ہوں گے، جنتی کو اس کے چہرے میں اپنا چہرہ واضح طور پر نظر آئے گا اوراس کا معمولی ترین موتی ایسا ہوگا کہ اگر وہ دنیا میں آجائے تو مشرق ومغرب کو روشن کردے۔ (حوالہ بالا ص۵۰۰ بحوالہ مسند احمد)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی #جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
سوال:
کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں :کہ شب معراج سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون سی نماز پڑھتے تھے اور کتنے وقت کی؟ زید کہتا ہے باضابطہ نماز تومعراج میں ملی ہے۔
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس وقت نماز فرض تو نہیں تھی لیکن نوافل پڑھتے تھے اور نوافل کے لئے وقت اور تعداد متعین نہیں ہے ، البتہ صلوٰۃ الفجر وصلوٰۃ العصر کا پڑھنا بعض روایات سے ثابت ہے ۔
أقول: ان صلاۃ الصبح والعصرکان یؤدیہا النبي صلی اللہ علیہ وسلم قبل لیلۃ الإسراء فلا حاجۃ إلی تعلیمہا، وقد ذہب بعض العلماء إلی فرضیۃ الفجر والعصر قبل لیلۃ الإسراء، وکثیر من آیات القرآن دالۃ علی ہاتین الصلا تین وفی الصحیحین أنہ علیہ السلام صلی بالنخلۃ حین ذہب عامدا إلی عکاظ واستمع لہ الجن وجہر بالقراء ۃ واتفق العلماء علی أنہ علیہ السلام کان یصلي الفجر الخ۔( العرف الشذي علی ہامش الترمذي، کتاب الصلوۃ، باب ماجاء فی مواقیت الصلوۃ۱/۳۹)(فتاوی قاسمیہ۳۵۱/۲)
فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
#جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند #محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی
کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں :کہ شب معراج سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون سی نماز پڑھتے تھے اور کتنے وقت کی؟ زید کہتا ہے باضابطہ نماز تومعراج میں ملی ہے۔
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس وقت نماز فرض تو نہیں تھی لیکن نوافل پڑھتے تھے اور نوافل کے لئے وقت اور تعداد متعین نہیں ہے ، البتہ صلوٰۃ الفجر وصلوٰۃ العصر کا پڑھنا بعض روایات سے ثابت ہے ۔
أقول: ان صلاۃ الصبح والعصرکان یؤدیہا النبي صلی اللہ علیہ وسلم قبل لیلۃ الإسراء فلا حاجۃ إلی تعلیمہا، وقد ذہب بعض العلماء إلی فرضیۃ الفجر والعصر قبل لیلۃ الإسراء، وکثیر من آیات القرآن دالۃ علی ہاتین الصلا تین وفی الصحیحین أنہ علیہ السلام صلی بالنخلۃ حین ذہب عامدا إلی عکاظ واستمع لہ الجن وجہر بالقراء ۃ واتفق العلماء علی أنہ علیہ السلام کان یصلي الفجر الخ۔( العرف الشذي علی ہامش الترمذي، کتاب الصلوۃ، باب ماجاء فی مواقیت الصلوۃ۱/۳۹)(فتاوی قاسمیہ۳۵۱/۲)
فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
#جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند #محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی
جنازہ کے پیچھے تہلیل وغیرہ درست نہیں
سوال:
ذکر خلف الجنازہ مثل تہلیل اور قرائت سورہ ملک وغیرہ میں مفتی بہا کیا ہے ۔
الجواب وباللہ التوفیق:
یہ ثابت نہیں اور بہ ہیئت اجتماعیہ بالجہر ایسا کرنا خلاف عمل سلف صالحین ہے لہذا ا س کو ترک کیا جاوے۔(۲)
(۲)کرہ کما کرہ فیھا رفع صوت بذکرا و قراء ۃ (در مختار)وینبغی لمن تبع الجنازۃ ان یطیل الصمت وفیہ عن الظھیرۃ فان ارادہ ان یزکراﷲ تعالی فی نفسہ الخ( ردالمحتار باب صلاۃ الجنائز ج ۱ ص ۸۳۵۔ط۔س۔ج۲ص۲۳۳) ظفیر۔(فتاوی دارالعلوم دیوبند۲۴۱/۵)
واللہ اعلم بالصواب
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی #جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
سوال:
ذکر خلف الجنازہ مثل تہلیل اور قرائت سورہ ملک وغیرہ میں مفتی بہا کیا ہے ۔
الجواب وباللہ التوفیق:
یہ ثابت نہیں اور بہ ہیئت اجتماعیہ بالجہر ایسا کرنا خلاف عمل سلف صالحین ہے لہذا ا س کو ترک کیا جاوے۔(۲)
(۲)کرہ کما کرہ فیھا رفع صوت بذکرا و قراء ۃ (در مختار)وینبغی لمن تبع الجنازۃ ان یطیل الصمت وفیہ عن الظھیرۃ فان ارادہ ان یزکراﷲ تعالی فی نفسہ الخ( ردالمحتار باب صلاۃ الجنائز ج ۱ ص ۸۳۵۔ط۔س۔ج۲ص۲۳۳) ظفیر۔(فتاوی دارالعلوم دیوبند۲۴۱/۵)
واللہ اعلم بالصواب
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی #جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
سوال # 160240
حضرت، میرا سوال یہ ہے کہ جوتی اگر الٹی پری نظر آئے اور اس کو سیدھا نہ کیا جائے یا قبلہ رخ پاوٴں کئے ہوں تو کیا یہ گناہ کے زمرے میں آتا ہے؟
قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمادیں۔
Published on: Mar 31, 2018
جواب # 160240
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:886-706/sd=7/1439
جی نہیں ! یہ گناہ کے زمرے میں نہیں آتا ہے ؛ البتہ الٹی جوتی یا چپل کو سیدھا کردینا چاہیے ، یہ سلیقہ مندی اور تواضع کی بات ہے ۔
----------------------------
(۲) قبلہ رخ پاوٴں پھیلانا خلاف ادب ہے۔ (د)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی
#جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
@jamashuda
حضرت، میرا سوال یہ ہے کہ جوتی اگر الٹی پری نظر آئے اور اس کو سیدھا نہ کیا جائے یا قبلہ رخ پاوٴں کئے ہوں تو کیا یہ گناہ کے زمرے میں آتا ہے؟
قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمادیں۔
Published on: Mar 31, 2018
جواب # 160240
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:886-706/sd=7/1439
جی نہیں ! یہ گناہ کے زمرے میں نہیں آتا ہے ؛ البتہ الٹی جوتی یا چپل کو سیدھا کردینا چاہیے ، یہ سلیقہ مندی اور تواضع کی بات ہے ۔
----------------------------
(۲) قبلہ رخ پاوٴں پھیلانا خلاف ادب ہے۔ (د)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی
#جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
@jamashuda
سوال # 160207
کفارہ قسم میں سلا ہوا کپڑا دینا ضروری ہے یا ان سلا جوڑا بھی دے سکتے ہیں؟
Published on: Mar 31, 2018
جواب # 160207
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:821-695/sd=7/1439
قسم کے کفارے میں سلا ہوا کپڑا دینا ضروری نہیں ہے ، بغیر سلا ہوا کپڑا جس سے بدن کا اکثر حصہ چھپ جائے ؛ دے سکتے ہیں، مثلا : قمیص ، جبہ ، بڑی چادر وغیرہ۔ قال الحصکفی : (أو کسوتہم بما) یصلح للأوساط وینتفع بہ فوق ثلاثة أشہر، و (یستر عامة البدن)قال ابن عابدین : (قولہ ویستر عامة البدن) أی أکثرہ کالملاء ة أو الجبة أو القمیص أو القباء قہستانی۔ ( الدر المختار مع رد المحتار : ۷۲۶/۳، کتاب الایمان ، ط: دار الفکر، بیروت )
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی #جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
@jamashuda
کفارہ قسم میں سلا ہوا کپڑا دینا ضروری ہے یا ان سلا جوڑا بھی دے سکتے ہیں؟
Published on: Mar 31, 2018
جواب # 160207
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:821-695/sd=7/1439
قسم کے کفارے میں سلا ہوا کپڑا دینا ضروری نہیں ہے ، بغیر سلا ہوا کپڑا جس سے بدن کا اکثر حصہ چھپ جائے ؛ دے سکتے ہیں، مثلا : قمیص ، جبہ ، بڑی چادر وغیرہ۔ قال الحصکفی : (أو کسوتہم بما) یصلح للأوساط وینتفع بہ فوق ثلاثة أشہر، و (یستر عامة البدن)قال ابن عابدین : (قولہ ویستر عامة البدن) أی أکثرہ کالملاء ة أو الجبة أو القمیص أو القباء قہستانی۔ ( الدر المختار مع رد المحتار : ۷۲۶/۳، کتاب الایمان ، ط: دار الفکر، بیروت )
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی #جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
@jamashuda
سوال # 160127
کیا عربوں کے بارے میں رزق کی آسانی کے بارے کوئی دعا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی جو ہمارے بارے میں نہیں کی یعنی عجمیوں کے بارے نہ کی ہو
Published on: Apr 1, 2018
جواب # 160127
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:815-689/sd=7/1439
ایسی کوئی دعا ہمارے علم میں نہیں ہے۔ل
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی #جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
@jamashuda
کیا عربوں کے بارے میں رزق کی آسانی کے بارے کوئی دعا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی جو ہمارے بارے میں نہیں کی یعنی عجمیوں کے بارے نہ کی ہو
Published on: Apr 1, 2018
جواب # 160127
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa:815-689/sd=7/1439
ایسی کوئی دعا ہمارے علم میں نہیں ہے۔ل
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی #جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
@jamashuda
Saudi Arabiaسوال # 65376
میں سعودی عرب میں رہتا ہوں. یہاں عرب لوگ جوکہ امام شافعی رحمت اللہ علیہ کہ مسلک سے ہیں ان کا اکثر ہم سے نماز کہ بارے میں اختلاف ہوتا ہے کہتے ہیں کہ ظہر کی چار سنّت یا تو دو دو رکعت پڑھیں یا اگر چار رکعت ایک ساتھ پڑھنا ہو تو دو رکعت کہ بعد بھیٹنا نہیں ہوگا۔
براہ کرم آپ ایسا کوئی مدلل جواب ارسال کریں کیوں کہ ہمارے بعض ساتھی بہت پریشان ہوتے ہیں کہ کیا ان کی نماز غلط ہے ؟
Published on: May 21, 2016 جواب # 65376
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 777-775/N=8/1437
احناف کے نزدیک ظہر میں فرض سے پہلے چار رکعت ایک سلام کے ساتھ سنت موٴکدہ ہیں؛ اس لیے یہ چار رکعت پڑھی جائیں گی اور ایک سلام کے ساتھ پڑھی جائیں گی، صرف دو کعت نہیں پڑھی جائیں گی، نیز دو الگ الگ سلام سے بھی نہیں، شرح معانی الآثار ، سنن ابو داود، سنن ترمذی اور سنن ابن ماجہ میں حضرت ابو ایوب انصاری(رض) کی روایت میں ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ظہر سے پہلے کی چار رکعت سنتوں کے متعلق دریافت فرمایا کہ یہ ایک سلام کے ساتھ پڑھی جائیں گی یا دو سلام کے ساتھ؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک سلام کے ساتھ (یعنی: ہر دورکعت پر سلام نہیں پھیرا جائے گا؛ بلکہ چار رکعت مکمل ہونے پر سلام پھیرا جائے گا)۔ اور اگر کسی نے صرف دو کعتیں پڑھیں یا چار رکعتیں پڑھیں ، لیکن بجائے ایک سلام کے دو سلام سے پڑھیں تو یہ محض نفل ہوں گی، سنت ظہر کی ادائیگی نہ ہوگی۔نیز احناف کے نزدیک فرض اور وتر کی طرح چار رکعت والی سنت اور نفل نماز میں بھی دو رکعت پر قعدہ واجب ہے؛ اس لیے جان بوجھ کر دو رکعت پر قعدہ نہ کرنا درست نہیں۔اورظہر میں فرض سے پہلے کی سنت موٴکدہ کے سلسلہ میں شوافع کا مسلک کیا ہے؟ نیز ان کے یہاں مفتی بہ قول کیا ہے؟نیز ان کے نزدیک قعدہ اولی کا کیا حکم ہے؟ وغیرہ وغیرہ ، ہمیں تحقیقی طور پر معلوم نہیں، یہ ان کے مفتیان کرام ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں، آپ حنفی ہیں ؛ اس لیے آپ مسلک حنفی کی تحقیق کے مطابق شریعت پر عمل کریں۔اور چوں کہ چاروں امام بر حق ہیں؛ اس لیے کسی امام کے مقلد کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے امام کے مقلد کو اپنے امام کے مسلک کی ترغیب دے، پس آپ کے شافعی ساتھیوں کو چاہئے کہ وہ اپنے مسلک پر عمل کریں اور آپ اپنے مسلک پر، کوئی شخص کسی دوسرے سے اس کے مسلک کے تعلق سے کوئی تعرض نہ کرے ۔ اور اگر کوئی شخص عالم ہے اور اسے دوسرے امام کا مسلک مرجوح معلوم ہوتا ہے تو وہ دوسرے امام کے کسی بڑے عالم سے رجوع کرے ، وہ اپنے مسلک کے دلائل تسلی بخش طریقے پر سمجھادے گا۔ وسن مؤکداً أربع قبل الظہر وأربع قبل الجمعة وأربع بعدہا بتسلیمة، فلو بتسلیمتین لم تنب عن السنة (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل ۲: ۴۵۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ:”بتسلیمة“:لما عن عائشة رضی اللہ عنھا ”کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم یصلي قبل الظھر أربعاً وبعدھا رکعتین وبعد المغرب ثنتین وبعد العشاء رکعتین وقبل الفجر رکعتین“ رواہ مسلم وأبو داود وابن حنبل۔ وعن أبي أیوب الأنصاري (رض) کان یصلی النبي صلی اللہ علیہ وسلم بعد الزوال أربع رکعات ، فقلت: ما ھذہ الصلاة التي تداوم علیھا؟ فقال: ھذہ ساعة تفتح أبواب السماء فیھا فأحب أن یصعد لي فیھا عمل صالح، فقلت: أفي کلھن قراء ة؟ قال: نعم۔ فقلت: بتسلیمة واحدة أو بتسلیمتین؟ فقال: بتسلیمة واحدة“، رواہ الطحاوي وأبو داود والترمذي وابن ماجة من غیر فصل بین الجمعة والظھر فیکون سنة کل واحد منھما أربعاً، وروی ابن ماجة بإسنادہ عن ابن عباس(رض) کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم یرکع قبل الجمعة أربعاً لا یفصل في شییٴ منھن“، الخ (رد المحتار)، و- من الواجبات -القعود الأول ولو في نفل الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة ۲: ۱۵۸، ۱۵۹)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی #جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
@jamashuda
میں سعودی عرب میں رہتا ہوں. یہاں عرب لوگ جوکہ امام شافعی رحمت اللہ علیہ کہ مسلک سے ہیں ان کا اکثر ہم سے نماز کہ بارے میں اختلاف ہوتا ہے کہتے ہیں کہ ظہر کی چار سنّت یا تو دو دو رکعت پڑھیں یا اگر چار رکعت ایک ساتھ پڑھنا ہو تو دو رکعت کہ بعد بھیٹنا نہیں ہوگا۔
براہ کرم آپ ایسا کوئی مدلل جواب ارسال کریں کیوں کہ ہمارے بعض ساتھی بہت پریشان ہوتے ہیں کہ کیا ان کی نماز غلط ہے ؟
Published on: May 21, 2016 جواب # 65376
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 777-775/N=8/1437
احناف کے نزدیک ظہر میں فرض سے پہلے چار رکعت ایک سلام کے ساتھ سنت موٴکدہ ہیں؛ اس لیے یہ چار رکعت پڑھی جائیں گی اور ایک سلام کے ساتھ پڑھی جائیں گی، صرف دو کعت نہیں پڑھی جائیں گی، نیز دو الگ الگ سلام سے بھی نہیں، شرح معانی الآثار ، سنن ابو داود، سنن ترمذی اور سنن ابن ماجہ میں حضرت ابو ایوب انصاری(رض) کی روایت میں ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ظہر سے پہلے کی چار رکعت سنتوں کے متعلق دریافت فرمایا کہ یہ ایک سلام کے ساتھ پڑھی جائیں گی یا دو سلام کے ساتھ؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک سلام کے ساتھ (یعنی: ہر دورکعت پر سلام نہیں پھیرا جائے گا؛ بلکہ چار رکعت مکمل ہونے پر سلام پھیرا جائے گا)۔ اور اگر کسی نے صرف دو کعتیں پڑھیں یا چار رکعتیں پڑھیں ، لیکن بجائے ایک سلام کے دو سلام سے پڑھیں تو یہ محض نفل ہوں گی، سنت ظہر کی ادائیگی نہ ہوگی۔نیز احناف کے نزدیک فرض اور وتر کی طرح چار رکعت والی سنت اور نفل نماز میں بھی دو رکعت پر قعدہ واجب ہے؛ اس لیے جان بوجھ کر دو رکعت پر قعدہ نہ کرنا درست نہیں۔اورظہر میں فرض سے پہلے کی سنت موٴکدہ کے سلسلہ میں شوافع کا مسلک کیا ہے؟ نیز ان کے یہاں مفتی بہ قول کیا ہے؟نیز ان کے نزدیک قعدہ اولی کا کیا حکم ہے؟ وغیرہ وغیرہ ، ہمیں تحقیقی طور پر معلوم نہیں، یہ ان کے مفتیان کرام ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں، آپ حنفی ہیں ؛ اس لیے آپ مسلک حنفی کی تحقیق کے مطابق شریعت پر عمل کریں۔اور چوں کہ چاروں امام بر حق ہیں؛ اس لیے کسی امام کے مقلد کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے امام کے مقلد کو اپنے امام کے مسلک کی ترغیب دے، پس آپ کے شافعی ساتھیوں کو چاہئے کہ وہ اپنے مسلک پر عمل کریں اور آپ اپنے مسلک پر، کوئی شخص کسی دوسرے سے اس کے مسلک کے تعلق سے کوئی تعرض نہ کرے ۔ اور اگر کوئی شخص عالم ہے اور اسے دوسرے امام کا مسلک مرجوح معلوم ہوتا ہے تو وہ دوسرے امام کے کسی بڑے عالم سے رجوع کرے ، وہ اپنے مسلک کے دلائل تسلی بخش طریقے پر سمجھادے گا۔ وسن مؤکداً أربع قبل الظہر وأربع قبل الجمعة وأربع بعدہا بتسلیمة، فلو بتسلیمتین لم تنب عن السنة (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل ۲: ۴۵۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قولہ:”بتسلیمة“:لما عن عائشة رضی اللہ عنھا ”کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم یصلي قبل الظھر أربعاً وبعدھا رکعتین وبعد المغرب ثنتین وبعد العشاء رکعتین وقبل الفجر رکعتین“ رواہ مسلم وأبو داود وابن حنبل۔ وعن أبي أیوب الأنصاري (رض) کان یصلی النبي صلی اللہ علیہ وسلم بعد الزوال أربع رکعات ، فقلت: ما ھذہ الصلاة التي تداوم علیھا؟ فقال: ھذہ ساعة تفتح أبواب السماء فیھا فأحب أن یصعد لي فیھا عمل صالح، فقلت: أفي کلھن قراء ة؟ قال: نعم۔ فقلت: بتسلیمة واحدة أو بتسلیمتین؟ فقال: بتسلیمة واحدة“، رواہ الطحاوي وأبو داود والترمذي وابن ماجة من غیر فصل بین الجمعة والظھر فیکون سنة کل واحد منھما أربعاً، وروی ابن ماجة بإسنادہ عن ابن عباس(رض) کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم یرکع قبل الجمعة أربعاً لا یفصل في شییٴ منھن“، الخ (رد المحتار)، و- من الواجبات -القعود الأول ولو في نفل الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة ۲: ۱۵۸، ۱۵۹)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی #جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
@jamashuda
سوال # 29652
(۱) تبلیغی جماعت میں نکلے ساتھی موبائل بیٹری مسجد کے پاورلائن پر چارج کرلیتے ہیں، اس کا کیا حکم ہے؟(۲) تبلیغ جماعت میں نکلے ساتھی موبائل بیٹری مسجد کے پاور لائن پر چارج کرنے کے بعد کچھ پیسے اس کے بدلے مسجد کی چندہ پیٹی میں ڈال دیتے ہیں ، کیا ایسا کرلینے کی گنجائش ہے ؟ (۳) اس کی کوئی اچھی شکل تجویز فرمائیں۔ جزاک اللہ
Published on: Feb 8, 2011
جواب # 29652
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(م): 275=275-3/1432
اچھی شکل تو یہی ہے کہ موبائل چارج کرنے کے لیے مسجد کی لائٹ استعمال نہ کی جائے، چارج کی ضرورت ہو تو باہر کسی دوکان یا مکان والے کو پیسے دے کر کرالیا کریں، یا اگر جماعت کا کوئی مقامی ساتھی اپنے گھر سے بلاعوض کراکر لادے تو یہ بھی درست ہے، اور اگر مسجد کے باہر چارج دشوار ہو تو متولی مسجد سے اجازت لے کر مسجد کی لائٹ سے چارج کرلیں اور بقدر چارج بلکہ کچھ زائد پیسے مسجد کی پیٹی میں ڈال دیں، اس کی گنجائش ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی
#جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
(۱) تبلیغی جماعت میں نکلے ساتھی موبائل بیٹری مسجد کے پاورلائن پر چارج کرلیتے ہیں، اس کا کیا حکم ہے؟(۲) تبلیغ جماعت میں نکلے ساتھی موبائل بیٹری مسجد کے پاور لائن پر چارج کرنے کے بعد کچھ پیسے اس کے بدلے مسجد کی چندہ پیٹی میں ڈال دیتے ہیں ، کیا ایسا کرلینے کی گنجائش ہے ؟ (۳) اس کی کوئی اچھی شکل تجویز فرمائیں۔ جزاک اللہ
Published on: Feb 8, 2011
جواب # 29652
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(م): 275=275-3/1432
اچھی شکل تو یہی ہے کہ موبائل چارج کرنے کے لیے مسجد کی لائٹ استعمال نہ کی جائے، چارج کی ضرورت ہو تو باہر کسی دوکان یا مکان والے کو پیسے دے کر کرالیا کریں، یا اگر جماعت کا کوئی مقامی ساتھی اپنے گھر سے بلاعوض کراکر لادے تو یہ بھی درست ہے، اور اگر مسجد کے باہر چارج دشوار ہو تو متولی مسجد سے اجازت لے کر مسجد کی لائٹ سے چارج کرلیں اور بقدر چارج بلکہ کچھ زائد پیسے مسجد کی پیٹی میں ڈال دیں، اس کی گنجائش ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی
#جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
متعدد روزوں کا فدیہ ایک مسکین کو دینا یا اس کا بر عکس:
سوال:
ایک روزے کا فدیہ دو مسکینوں کو‘ اسی طرح متعدد روزے کے فدیےایک مسکین کو دینا درست ہے یا نہیں؟
الجواب وباللہ التوفیق:
ایک فدیہ کے گیہوں تھوڑے تھوڑے متعدد مساکین کودینا درست ہے ‘ اسی طرح اس کی قیمت بھی۔ علی ہذا متعدد روزوں کا فدیہ ایک مسکین کو دینا بھی صحیح ہے ۔ شامی میں ہے کہ ایک فدیہ متعدد مساکین پر تقسیم کرنے کے متعلق امام ابو یوسف ؒ کا قول جواز کا منقول ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ فدیہ کا حکم کفارہ کے مثل نہیں ، بلکہ صدقۃ الفطر کی طرح ہے،لہذا متعدد روزوں کا فدیہ ایک مسکینکو دینا درست ہے ‘ اور اس میں مشقت سے حفاظت ہے اور سہولت ہے ‘ ورنہ بڑی رقوم میں بڑی دشواریوں کا سامنا ہوگا۔ ( فتاوی رحیمیہ ص ۱۹۹ ج۵)
دوسری جگہ حضرت مفتی سید عبد الرحیم صاحب ؒ تحریر فرماتے ہیں:
’’ ایک مسکین کو چند نمازوں یا چندروزوں کا فدیہ دینا جائز ہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے۔ صاحب در مختار اور صاحب الجوہرۃ النیرۃ اور صاحب طحطاوی علی مراقی الفلاح نے جائز لکھا ہے۔
حضرت تھانوی ؒ اور حضرت مفتی رشید احمد صاحب لدھیانوی مدظلہ صاحب احسن الفتاوی نے اسی پر فتوی دیا ہے ‘ اسی طرح ایک فدیہ کو چند مساکین کے درمیان تقسیم کرنا بھی امام ابو یوسف ؒ کے قول کے مطابق جائز ہے۔
حضرت مولانامفتی محمد شفیع صاحب ؒ ’’معارف القرآن‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’مسئلہ:ایک روزہ کے فدیہ کو دو آدمیوں میں تقسیم کرنا ‘ یاچند روزوں کے فدیہ کو ایک ہی شخص کو ایک ہی تاریخ میں دینا درست نہیں‘ جیسا کہ شامی نے بحوالہ بحر از قنیہ نقل کیا ہے‘ اور بیان القرآن میں اسی کو نقل کیا گیا ہے، مگر حضرت ؒ نے ’’ امداد الفتاوی‘‘ میں فتوی اس پر نقل کیا ہے کہ یہ دونوں صورتیں جائز ہیں۔ شامی نے بھی فتوی اس پر نقل کیا ہے۔
البتہ ’’ امداد الفتاوی‘‘ میں ہے کہ احتیاط اس میں ہے کہ کئی روزوں کا فدیہ ایک تاریخ میں ایک کو نہ دے، لیکن دیدینے میں بھی گنجائش ہے۔ یہ فتوی مورخہ ۱۶؍ جمادی الاخری ۱۳۵۳ھ امداد الفتاوی جلد دوم ص ۱۲۴ میں منقول ہے۔
( معارف القرآن ص ۴۴۶ ج۱، سورۂ بقرہ ، پارہ :۲؍ رکوع :۶)( امداد الفتاوی ص ۱۲۴ ج۲مطبوعہ پاکستان۔ ص ۱۶۱ و ۱۶۲ ج۲ مطبوعہ ادارہ تالیفات اولیاء دیوبند)
’’ بہشتی زیور‘‘ میں ہے : ’’ مسئلہ: وہ گیہوں ( یعنی فدیہ کے گیہوں ) اگر تھوڑے تھوڑے کئی مسکینوں کو بانٹ دیوے تو بھی صحیح ہے۔ ( بہشتی زیور ص ۴۲ حصہ تیسرا ، فدیہ کا بیان )
’’ احسن الفتاوی ‘‘ میں ہے :
سوال:
پانچ ‘ چھ روزوں کا فدیہ ایک مسکین کو دینا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب وباللہ التوفیق
اس میں اختلاف ہے ۔ در مختارمیں جائز لکھا ہے ‘ اور شامیہ میں بحر سے نقل کیا ہے کہ عند الامام جائز نہیں، امام ابو یوسف ؒ سے جواز کی روایت ہے۔ شامیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک فدیہ متعدد اشخاص پر تقسیم کرنے کے بارے میں امام ابو یوسف ؒ کا قول جواز ماخوذ بہ ہے، ا س سے ثابت ہو اکہ حکم فدیہ کالکفارہ نہیں، بلکہ کصدقۃ الفطر ہے ، لہذا متعدد روزوں کا ایک فدیہ ایک مسکین کو دینے میںبھی اما م ابو یوسف ؒ کا قول ہی راجح ہوگا یعنی یہی قول ماخوذ بہ ہے۔ ( احسن الفتاوی ص ۳۶۶ ج۴، کامل مبوب ،کتاب الصوم والاعتکاف)(فتاوی رحیمیہ ص ۴۷۸ ج۶)
نوٹ:… حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب ؒ ‘اورحضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی صاحب ؒکی رائے بھی اس مسئلہ میں دونوں صورتوں کے جواز کی معلوم ہوتی ہے۔ ( دیکھئے!فتاوی دارالعلوم دیوبندص۴۵۱ ج۶۔ آپ کے مسائل اور ان کا حل ص ۳۰۱ج۳ )
حضرت مولانا مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی ؒ کا فتوی عدم جواز کا ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں :
’’اور ایک روزہ کا فدیہ کئی کو دینا جائز نہیں‘‘۔ ( فتاوی محمودیہ ص ۱۱۵ ج۷)(مستفاد:مرغوب الفتاوی٢٨١/٣)
واللہ اعلم بالصواب #محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی #جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
سوال:
ایک روزے کا فدیہ دو مسکینوں کو‘ اسی طرح متعدد روزے کے فدیےایک مسکین کو دینا درست ہے یا نہیں؟
الجواب وباللہ التوفیق:
ایک فدیہ کے گیہوں تھوڑے تھوڑے متعدد مساکین کودینا درست ہے ‘ اسی طرح اس کی قیمت بھی۔ علی ہذا متعدد روزوں کا فدیہ ایک مسکین کو دینا بھی صحیح ہے ۔ شامی میں ہے کہ ایک فدیہ متعدد مساکین پر تقسیم کرنے کے متعلق امام ابو یوسف ؒ کا قول جواز کا منقول ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ فدیہ کا حکم کفارہ کے مثل نہیں ، بلکہ صدقۃ الفطر کی طرح ہے،لہذا متعدد روزوں کا فدیہ ایک مسکینکو دینا درست ہے ‘ اور اس میں مشقت سے حفاظت ہے اور سہولت ہے ‘ ورنہ بڑی رقوم میں بڑی دشواریوں کا سامنا ہوگا۔ ( فتاوی رحیمیہ ص ۱۹۹ ج۵)
دوسری جگہ حضرت مفتی سید عبد الرحیم صاحب ؒ تحریر فرماتے ہیں:
’’ ایک مسکین کو چند نمازوں یا چندروزوں کا فدیہ دینا جائز ہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے۔ صاحب در مختار اور صاحب الجوہرۃ النیرۃ اور صاحب طحطاوی علی مراقی الفلاح نے جائز لکھا ہے۔
حضرت تھانوی ؒ اور حضرت مفتی رشید احمد صاحب لدھیانوی مدظلہ صاحب احسن الفتاوی نے اسی پر فتوی دیا ہے ‘ اسی طرح ایک فدیہ کو چند مساکین کے درمیان تقسیم کرنا بھی امام ابو یوسف ؒ کے قول کے مطابق جائز ہے۔
حضرت مولانامفتی محمد شفیع صاحب ؒ ’’معارف القرآن‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’مسئلہ:ایک روزہ کے فدیہ کو دو آدمیوں میں تقسیم کرنا ‘ یاچند روزوں کے فدیہ کو ایک ہی شخص کو ایک ہی تاریخ میں دینا درست نہیں‘ جیسا کہ شامی نے بحوالہ بحر از قنیہ نقل کیا ہے‘ اور بیان القرآن میں اسی کو نقل کیا گیا ہے، مگر حضرت ؒ نے ’’ امداد الفتاوی‘‘ میں فتوی اس پر نقل کیا ہے کہ یہ دونوں صورتیں جائز ہیں۔ شامی نے بھی فتوی اس پر نقل کیا ہے۔
البتہ ’’ امداد الفتاوی‘‘ میں ہے کہ احتیاط اس میں ہے کہ کئی روزوں کا فدیہ ایک تاریخ میں ایک کو نہ دے، لیکن دیدینے میں بھی گنجائش ہے۔ یہ فتوی مورخہ ۱۶؍ جمادی الاخری ۱۳۵۳ھ امداد الفتاوی جلد دوم ص ۱۲۴ میں منقول ہے۔
( معارف القرآن ص ۴۴۶ ج۱، سورۂ بقرہ ، پارہ :۲؍ رکوع :۶)( امداد الفتاوی ص ۱۲۴ ج۲مطبوعہ پاکستان۔ ص ۱۶۱ و ۱۶۲ ج۲ مطبوعہ ادارہ تالیفات اولیاء دیوبند)
’’ بہشتی زیور‘‘ میں ہے : ’’ مسئلہ: وہ گیہوں ( یعنی فدیہ کے گیہوں ) اگر تھوڑے تھوڑے کئی مسکینوں کو بانٹ دیوے تو بھی صحیح ہے۔ ( بہشتی زیور ص ۴۲ حصہ تیسرا ، فدیہ کا بیان )
’’ احسن الفتاوی ‘‘ میں ہے :
سوال:
پانچ ‘ چھ روزوں کا فدیہ ایک مسکین کو دینا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب وباللہ التوفیق
اس میں اختلاف ہے ۔ در مختارمیں جائز لکھا ہے ‘ اور شامیہ میں بحر سے نقل کیا ہے کہ عند الامام جائز نہیں، امام ابو یوسف ؒ سے جواز کی روایت ہے۔ شامیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک فدیہ متعدد اشخاص پر تقسیم کرنے کے بارے میں امام ابو یوسف ؒ کا قول جواز ماخوذ بہ ہے، ا س سے ثابت ہو اکہ حکم فدیہ کالکفارہ نہیں، بلکہ کصدقۃ الفطر ہے ، لہذا متعدد روزوں کا ایک فدیہ ایک مسکین کو دینے میںبھی اما م ابو یوسف ؒ کا قول ہی راجح ہوگا یعنی یہی قول ماخوذ بہ ہے۔ ( احسن الفتاوی ص ۳۶۶ ج۴، کامل مبوب ،کتاب الصوم والاعتکاف)(فتاوی رحیمیہ ص ۴۷۸ ج۶)
نوٹ:… حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب ؒ ‘اورحضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی صاحب ؒکی رائے بھی اس مسئلہ میں دونوں صورتوں کے جواز کی معلوم ہوتی ہے۔ ( دیکھئے!فتاوی دارالعلوم دیوبندص۴۵۱ ج۶۔ آپ کے مسائل اور ان کا حل ص ۳۰۱ج۳ )
حضرت مولانا مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی ؒ کا فتوی عدم جواز کا ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں :
’’اور ایک روزہ کا فدیہ کئی کو دینا جائز نہیں‘‘۔ ( فتاوی محمودیہ ص ۱۱۵ ج۷)(مستفاد:مرغوب الفتاوی٢٨١/٣)
واللہ اعلم بالصواب #محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی #جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
Kuwaitسوال # 28964
اکثر لوگ جب سلام کرتے ہیں یا سلام کاجواب دیتے ہیں تو ہاتھ اٹھا کے اشارہ بھی کرتے بھی ہیں، کیا یہ سنت سے ثابت ہے؟ یا ویسے ہی ہاتھ اٹھاکے اشارہ کرتے ہیں سلام کے بغیرگویا سلام کررہے ہیں، کیا یہ کسی حدیث سے ثابت ہے؟ دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا سنت سے ثابت ہے؟ہماری مسجد میں ایک غیر مقلد دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنے سے منع کرتے ہیں اور دوسرا جھٹک دیتے ہیں۔ براہ کرم، اس کا مدلل جواب دیں۔
Published on: Jan 18, 2011 جواب # 28964
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ل): 136=34-2/1432
فقط اشارے سے سلام کرنا یا اشارہ سے جواب دینا جائز نہیں یہ ہنود ونصاری کا طریقہ ہے، حدیث شریف میں اس کی ممانعت آئی ہے: عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ رضي اللہ تعالیٰ عنہ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّہَ بِغَیْرِنَا، لا تَشَبَّہُوا بالیَہُودِ وَ لا بالنَّصَارَی، فإنَّ تَسْلِیمَ الیَہُودِ الإِشارَةُ بالأصَابِعِ، وَتَسْلِیمَ النَّصَارَی الإِشارَةُ بالکَفّ (مشکاة:) البتہ اگر جس کو سلام کیا جارہا ہے وہ دور ہے اور صیغہٴ سلام کے تلفظ کے ساتھ ہاتھ سے اشارہ بھی کردے تاکہ وہ سمجھ لے کہ یہ سلام کررہا ہے، تو اس کی گنجائش ہے۔
(۲) حنفیہ کے نزدیک دونوں ہاتھ سے مصافحہ کرنا سنت ہے، کما في الدر المختار بخاری شریف کی روایت میں، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مصافحہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ”کفي بین کفیہ“ کہ میری ہتھیلی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں ہتھیلیوں کے بیچ میں تھی اور یہ بہت بعید ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کریں اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک ہاتھ سے کریں، امام بخاری نے اس حدیث سے مصافحہ ثابت کیا ہے اور یہ بھی نقل کیا ہے، صافح حماد بن زید ابن المبارک بکلتا یدیہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سلف کا بھی طریقہ یہی تھا، غیر مقلدین کا دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنے سے منع کرنا اور دوسرا ہاتھ جھٹک دینا صحیح نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/06-Hath%20Ya%20Sar%20Ke%20Ishare%20SE%20salam_MDU_1%20&%202_Jan-Feb_17%20.htm
اکثر لوگ جب سلام کرتے ہیں یا سلام کاجواب دیتے ہیں تو ہاتھ اٹھا کے اشارہ بھی کرتے بھی ہیں، کیا یہ سنت سے ثابت ہے؟ یا ویسے ہی ہاتھ اٹھاکے اشارہ کرتے ہیں سلام کے بغیرگویا سلام کررہے ہیں، کیا یہ کسی حدیث سے ثابت ہے؟ دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا سنت سے ثابت ہے؟ہماری مسجد میں ایک غیر مقلد دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنے سے منع کرتے ہیں اور دوسرا جھٹک دیتے ہیں۔ براہ کرم، اس کا مدلل جواب دیں۔
Published on: Jan 18, 2011 جواب # 28964
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ل): 136=34-2/1432
فقط اشارے سے سلام کرنا یا اشارہ سے جواب دینا جائز نہیں یہ ہنود ونصاری کا طریقہ ہے، حدیث شریف میں اس کی ممانعت آئی ہے: عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ رضي اللہ تعالیٰ عنہ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّہَ بِغَیْرِنَا، لا تَشَبَّہُوا بالیَہُودِ وَ لا بالنَّصَارَی، فإنَّ تَسْلِیمَ الیَہُودِ الإِشارَةُ بالأصَابِعِ، وَتَسْلِیمَ النَّصَارَی الإِشارَةُ بالکَفّ (مشکاة:) البتہ اگر جس کو سلام کیا جارہا ہے وہ دور ہے اور صیغہٴ سلام کے تلفظ کے ساتھ ہاتھ سے اشارہ بھی کردے تاکہ وہ سمجھ لے کہ یہ سلام کررہا ہے، تو اس کی گنجائش ہے۔
(۲) حنفیہ کے نزدیک دونوں ہاتھ سے مصافحہ کرنا سنت ہے، کما في الدر المختار بخاری شریف کی روایت میں، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مصافحہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ”کفي بین کفیہ“ کہ میری ہتھیلی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں ہتھیلیوں کے بیچ میں تھی اور یہ بہت بعید ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کریں اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک ہاتھ سے کریں، امام بخاری نے اس حدیث سے مصافحہ ثابت کیا ہے اور یہ بھی نقل کیا ہے، صافح حماد بن زید ابن المبارک بکلتا یدیہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سلف کا بھی طریقہ یہی تھا، غیر مقلدین کا دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنے سے منع کرنا اور دوسرا ہاتھ جھٹک دینا صحیح نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/06-Hath%20Ya%20Sar%20Ke%20Ishare%20SE%20salam_MDU_1%20&%202_Jan-Feb_17%20.htm