India u.p.wastسوال # 150612
مسئلہ یہ ہے کہ علماء دیوبند کا اس بات میں کیا موقوف ہے کہ اگر علماء دیوبند کی کسی مسئلے کو لے کر دورائے ہو یعنی کوئی اختلاف ہے جیسے کہ عورتوں کا جماعت میں جانا، دیوبند کا فتوی ہے کہ جانا نہیں چاہئے اور دیوبند کے ہی کچھ علماء کہتے ہیں کہ جانا چاہئے ، دوسرا مسئلہ ویڈیو کا ہے کچھ علماء کہتے ہیں کہ دین کے کام کے لیے ویڈیو بنانا جائز ہے اور کچھ نا جائز کہتے ہیں جب کہ دونوں طرف بڑے بڑے علماء ہیں اور اس طرح کے بہت سے مسئلے ہیں ، الحمدللہ میں تو دونوں علماء کی دل سے قدر کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں دونوں حق پر ہیں اور مجھ کو ان دونوں مسئلہ میں جو آسان لگتا ہے اس پر عمل کرتا ہوں جیسے کہ مجھے دین کا کوئی بیان سننا ہوتاہے تو ویڈیو میں بھی دیکھ لیتا ہوں اور دوسرے مسئلہ میں اپنے گھر کی عورتوں کو جماعت میں نہیں بھیجتا اور غلط کسی عالم کو نہیں کہتا ۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اب تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے عالم تو مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ یہ عمل آپ کا غلط ہے کیونکہ یہ ہوا پرستی ہے اور کہتے ہیں کہ آپ تو ایک عالم کو پکڑ لوں اور سارے مسئلے اس عالم کے ہی مانو اور دلیل دیتے ہیں کہ جیسے چار اماموں میں سے ایک کی تقلید جائز ہے سب کی باتیں نہیں مان سکتے ، ایسے سارے عالم کی بات نہیں مان سکتے اور اگر ایسا کروگے تو گمراہ ہو، اور میں ایک شیخ کا مرید بھی ہوں اور وہ شیخ الحدیث بھی ہیں، جب یہ بات میں ان سے معلوم کرتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ مسئلہ کی بات میں مفتیان اکرام کی بات پر عمل کرو۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ میں کس بات پر عمل کروں۔ مجھے امید ہے کہ میرے مسئلہ کو مفتیان اکرام سمجھ گئے ہوں گے ، میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ مسئلہ کا جواب قرآن اور سنت کی روشنی میں عنایت فرمائیں اور مسئلے کی وضاحت ذرا تفصیل سے بتائیں اگر مسئلے کو تفصیل سے نہیں بتایا تو میری سمجھ میں نہیں آئے گا۔
Published on: May 2, 2017 جواب # 150612
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 791-751/B=8/1438
علماء اور مجتہدین کے درمیان اختلاف کا ہونا یہ کوئی نئی بات نہیں، صحابہٴ کرام جیسے مقدس گروہ کے درمیان بھی بہت سے مسائل میں اختلاف رہا اور قیامت تک رہے گا، ایسی حالت میں جو آسان لگے اس پر عمل کرنا یہ خواہش نفسانی کا اتباع ہے۔ یہ شریعت کا اتباع نہیں ہے، جس شیخ کے آپ مرید ہیں انھوں نے بہت اچھی بات کہی کہ مسائل میں مفتیان کرام کی بات مانو۔ اگر دو مفتیوں کے درمیان اختلاف ہوجائے تو فقہائے کرام نے اس کا حل یہ بتایا ہے کہ جو سب سے زیادہ مستند عالم ومفتی ہو اور جو سب سے زیادہ متقی وپرہیزگار عالم ہو اس کے فتوے پر عمل کیا جائے۔ یہ اصول کتابوں میں موجود ہے ، آپ کو ہوا پرستی کی ضرورت نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_
مسئلہ یہ ہے کہ علماء دیوبند کا اس بات میں کیا موقوف ہے کہ اگر علماء دیوبند کی کسی مسئلے کو لے کر دورائے ہو یعنی کوئی اختلاف ہے جیسے کہ عورتوں کا جماعت میں جانا، دیوبند کا فتوی ہے کہ جانا نہیں چاہئے اور دیوبند کے ہی کچھ علماء کہتے ہیں کہ جانا چاہئے ، دوسرا مسئلہ ویڈیو کا ہے کچھ علماء کہتے ہیں کہ دین کے کام کے لیے ویڈیو بنانا جائز ہے اور کچھ نا جائز کہتے ہیں جب کہ دونوں طرف بڑے بڑے علماء ہیں اور اس طرح کے بہت سے مسئلے ہیں ، الحمدللہ میں تو دونوں علماء کی دل سے قدر کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں دونوں حق پر ہیں اور مجھ کو ان دونوں مسئلہ میں جو آسان لگتا ہے اس پر عمل کرتا ہوں جیسے کہ مجھے دین کا کوئی بیان سننا ہوتاہے تو ویڈیو میں بھی دیکھ لیتا ہوں اور دوسرے مسئلہ میں اپنے گھر کی عورتوں کو جماعت میں نہیں بھیجتا اور غلط کسی عالم کو نہیں کہتا ۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اب تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے عالم تو مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ یہ عمل آپ کا غلط ہے کیونکہ یہ ہوا پرستی ہے اور کہتے ہیں کہ آپ تو ایک عالم کو پکڑ لوں اور سارے مسئلے اس عالم کے ہی مانو اور دلیل دیتے ہیں کہ جیسے چار اماموں میں سے ایک کی تقلید جائز ہے سب کی باتیں نہیں مان سکتے ، ایسے سارے عالم کی بات نہیں مان سکتے اور اگر ایسا کروگے تو گمراہ ہو، اور میں ایک شیخ کا مرید بھی ہوں اور وہ شیخ الحدیث بھی ہیں، جب یہ بات میں ان سے معلوم کرتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ مسئلہ کی بات میں مفتیان اکرام کی بات پر عمل کرو۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ میں کس بات پر عمل کروں۔ مجھے امید ہے کہ میرے مسئلہ کو مفتیان اکرام سمجھ گئے ہوں گے ، میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ مسئلہ کا جواب قرآن اور سنت کی روشنی میں عنایت فرمائیں اور مسئلے کی وضاحت ذرا تفصیل سے بتائیں اگر مسئلے کو تفصیل سے نہیں بتایا تو میری سمجھ میں نہیں آئے گا۔
Published on: May 2, 2017 جواب # 150612
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 791-751/B=8/1438
علماء اور مجتہدین کے درمیان اختلاف کا ہونا یہ کوئی نئی بات نہیں، صحابہٴ کرام جیسے مقدس گروہ کے درمیان بھی بہت سے مسائل میں اختلاف رہا اور قیامت تک رہے گا، ایسی حالت میں جو آسان لگے اس پر عمل کرنا یہ خواہش نفسانی کا اتباع ہے۔ یہ شریعت کا اتباع نہیں ہے، جس شیخ کے آپ مرید ہیں انھوں نے بہت اچھی بات کہی کہ مسائل میں مفتیان کرام کی بات مانو۔ اگر دو مفتیوں کے درمیان اختلاف ہوجائے تو فقہائے کرام نے اس کا حل یہ بتایا ہے کہ جو سب سے زیادہ مستند عالم ومفتی ہو اور جو سب سے زیادہ متقی وپرہیزگار عالم ہو اس کے فتوے پر عمل کیا جائے۔ یہ اصول کتابوں میں موجود ہے ، آپ کو ہوا پرستی کی ضرورت نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_
India u.p.wastسوال # 149740
مسئلہ یہ ہے کہ علماء دیوبند کا اس بات میں کیا موقوف ہے /کہ آگر علماء دیوبند کی کسی مسئلے کو لے کر دورائے ہو یعنی کوئی اختلاف ہے جیسے کہ عورتوں کا جماعت میں جانا دیوبند کا فتوی ہے کہ جانا نہیں چاہیے اور دیوبند کے ہی کچھ علماء کہتے ہیں کہ جانا چاہیے ۔ دوسرا مسئلہ ویڈیو کا ہے کچھ علماء کھتے ہیں کہ دین کے کام کے لیے ویڈیو بنانا جائز ہے اور کچھ نا جائز کہتے ہیں جب کہ دونوں طرف بڑے بڑے علماء ہیں اور اس طرح کے بہت سے مسئلے ہیں۔
الحمدللہ میں تو دونوں علماء کی دل سے قدر کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں دونوں حق پر ہیں اور مجھ کو ان دونوں مسئلہ میں جو آسان لگتا ہے اس پر عمل کرتا ہوں جیسے کہ مجھے دین کا کوئی بیان سننا ہو تاہے تو ویڈیو میں بھی دیکھ لیتا ہوں اور دوسرے مسئلے میں اپنے گھر کی عورتوں کو جماعت میں نہیں بھیجتا اور غلط کسی عالم کو نہیں کہتا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اب تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے عالم تو مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ یہ عمل آپ کا غلط ہے کیونکہ یہ ہوا پرستی ہے اور کہتے ہیں کہ آپ تو ایک عالم کو پکڑ لوں اور سارے مسئلے اس عالم کے ہی مانو اور دلیل دیتے ہیں کہ جیسے چار اماموں میں سے ایک کی تقلید جائز ہے سب کی باتیں نہیں مان سکتے ، ایسے ہی سارے عالم کی بات نہیں مان سکتے اور اگر ایسا کروگے تو گمراہ ہوں اور میں ایک شیخ کا مرید بھی ہوں اور وہ شیخ الحدیث بھی ہے جب یہ بات میں ان سے معلوم کرتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ مسئلہ کی بات میں مفتیان اکرام کی بات پر عمل کرو۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ میں کس بات پر عمل کروں؟
مجھے امید ہے کہ میرے مسئلے کو مفتیان اکرام سمجھ گئے ہوں گے ، میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ مسئلہ کا جواب قرآن اور سنت کی روشنی میں عنایت فرمائیں اور مسئلے کی وضاحت ذرا تفصیل سے بتائیں۔ اگر مسئلے ء کو تفصیل سے نہیں بتایا تو میرے سمجھ نہیں آئے گا آپ کا خادم ۔ارشاد صدیقی
Published on: Apr 26, 2017 جواب # 149740
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 728-736/B=7/1438
فقہ کا اصول یہ ہے کہ جب دو مفتیان کرام کا اختلاف کسی فتوے میں ہوجائے تو جو اُن میں سب سے زیادہ بڑا عالم ہے اور زیادہ پرہیزگار ہو اس کے فتوے کو ترجیح دی جائے گی، اور اس کے فتوے پر عمل کیا جائے گا۔ آپ بھی اسی پر عمل کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_
مسئلہ یہ ہے کہ علماء دیوبند کا اس بات میں کیا موقوف ہے /کہ آگر علماء دیوبند کی کسی مسئلے کو لے کر دورائے ہو یعنی کوئی اختلاف ہے جیسے کہ عورتوں کا جماعت میں جانا دیوبند کا فتوی ہے کہ جانا نہیں چاہیے اور دیوبند کے ہی کچھ علماء کہتے ہیں کہ جانا چاہیے ۔ دوسرا مسئلہ ویڈیو کا ہے کچھ علماء کھتے ہیں کہ دین کے کام کے لیے ویڈیو بنانا جائز ہے اور کچھ نا جائز کہتے ہیں جب کہ دونوں طرف بڑے بڑے علماء ہیں اور اس طرح کے بہت سے مسئلے ہیں۔
الحمدللہ میں تو دونوں علماء کی دل سے قدر کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں دونوں حق پر ہیں اور مجھ کو ان دونوں مسئلہ میں جو آسان لگتا ہے اس پر عمل کرتا ہوں جیسے کہ مجھے دین کا کوئی بیان سننا ہو تاہے تو ویڈیو میں بھی دیکھ لیتا ہوں اور دوسرے مسئلے میں اپنے گھر کی عورتوں کو جماعت میں نہیں بھیجتا اور غلط کسی عالم کو نہیں کہتا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اب تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے عالم تو مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ یہ عمل آپ کا غلط ہے کیونکہ یہ ہوا پرستی ہے اور کہتے ہیں کہ آپ تو ایک عالم کو پکڑ لوں اور سارے مسئلے اس عالم کے ہی مانو اور دلیل دیتے ہیں کہ جیسے چار اماموں میں سے ایک کی تقلید جائز ہے سب کی باتیں نہیں مان سکتے ، ایسے ہی سارے عالم کی بات نہیں مان سکتے اور اگر ایسا کروگے تو گمراہ ہوں اور میں ایک شیخ کا مرید بھی ہوں اور وہ شیخ الحدیث بھی ہے جب یہ بات میں ان سے معلوم کرتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ مسئلہ کی بات میں مفتیان اکرام کی بات پر عمل کرو۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ میں کس بات پر عمل کروں؟
مجھے امید ہے کہ میرے مسئلے کو مفتیان اکرام سمجھ گئے ہوں گے ، میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ مسئلہ کا جواب قرآن اور سنت کی روشنی میں عنایت فرمائیں اور مسئلے کی وضاحت ذرا تفصیل سے بتائیں۔ اگر مسئلے ء کو تفصیل سے نہیں بتایا تو میرے سمجھ نہیں آئے گا آپ کا خادم ۔ارشاد صدیقی
Published on: Apr 26, 2017 جواب # 149740
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 728-736/B=7/1438
فقہ کا اصول یہ ہے کہ جب دو مفتیان کرام کا اختلاف کسی فتوے میں ہوجائے تو جو اُن میں سب سے زیادہ بڑا عالم ہے اور زیادہ پرہیزگار ہو اس کے فتوے کو ترجیح دی جائے گی، اور اس کے فتوے پر عمل کیا جائے گا۔ آپ بھی اسی پر عمل کریں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_
Indiaسوال # 63019
میرا سوال یہ ہے کہ میں نے ایک کمپنی میں 100000 روپئے لگائے ہیں ، اور کمپنی مجھے ہر مہینے اس رقم پر منافع دیتی ہے، 1000 سے 1600 تک کے بیچ تو کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے ، یعنی منافع کا کوئی فکس رقم نہیں ہے، کبھی کم بھی ملتاہے اور کبھی کچھ زیادہ ملتاہے ۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا مجھے زکاة اس 100000 پر دینی ہوگی یا پھر جو رقم مجھے منافع کی ملتی ہے اس پر؟
Published on: Jan 18, 2016 جواب # 63019
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 251-264/Sn=4/1437-U
آپ کو پورے ایک لاکھ رقم کی مع منافع زکات حسب شرائط ادا کرنی ہوگی بہ شرطے کہ کمپنی میں آپ کی رقم نقد کی شکل میں ہو یا قابل زکات اثاثہ میں مشغول ہو۔
نوٹ: یہ تو زکات کے بارے میں حکم ہوا؛ باقی آپ نے کمپنی میں جو پیسے لگائے ہیں اس کی پوری نوعیت (مثلاً نفع ونقصان کے سلسلے میں کمپنی کے ساتھ آپ کا کیا معاہدہ ہوا؟ کمپنی کیا تجارت کرتی ہے؟ اس کا طریقہٴ کار کیا تجارت کے سلسلے اور منافع کے حساب کتاب میں کیا ہے) اور مکمل تفصیل لکھنے پر اس شراکت کا بھی حکم لکھا جاسکتا ہے کہ یہ صحیح ہے یا نہیں؟
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی
میرا سوال یہ ہے کہ میں نے ایک کمپنی میں 100000 روپئے لگائے ہیں ، اور کمپنی مجھے ہر مہینے اس رقم پر منافع دیتی ہے، 1000 سے 1600 تک کے بیچ تو کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے ، یعنی منافع کا کوئی فکس رقم نہیں ہے، کبھی کم بھی ملتاہے اور کبھی کچھ زیادہ ملتاہے ۔
اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا مجھے زکاة اس 100000 پر دینی ہوگی یا پھر جو رقم مجھے منافع کی ملتی ہے اس پر؟
Published on: Jan 18, 2016 جواب # 63019
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 251-264/Sn=4/1437-U
آپ کو پورے ایک لاکھ رقم کی مع منافع زکات حسب شرائط ادا کرنی ہوگی بہ شرطے کہ کمپنی میں آپ کی رقم نقد کی شکل میں ہو یا قابل زکات اثاثہ میں مشغول ہو۔
نوٹ: یہ تو زکات کے بارے میں حکم ہوا؛ باقی آپ نے کمپنی میں جو پیسے لگائے ہیں اس کی پوری نوعیت (مثلاً نفع ونقصان کے سلسلے میں کمپنی کے ساتھ آپ کا کیا معاہدہ ہوا؟ کمپنی کیا تجارت کرتی ہے؟ اس کا طریقہٴ کار کیا تجارت کے سلسلے اور منافع کے حساب کتاب میں کیا ہے) اور مکمل تفصیل لکھنے پر اس شراکت کا بھی حکم لکھا جاسکتا ہے کہ یہ صحیح ہے یا نہیں؟
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی
imgtopdf_generated_1412170932033.pdf
187.8 KB
نذر کے پورا کرنے پر بھی ثواب ملتا ہے
الجواب وباللہ التوفیق:
مسئلہ: آج کل’’ جیونا‘‘نام سے ایک کمپنی قائم ہے ،جس کی اسکیم یہ ہے کہ پینتیس سو (۳۵۰۰)روپے دیکر اس کے ممبر بن جائو اور ان ساڑ ھے تین ہزار کے عوض کمپنی کوئی شیٔ نہیں دے گی، لیکن اگر یہ ممبر کم سے کم مزید دو ممبرکمپنی کے لئے بنا دیتا ہے ، یعنی یوں کہیے کہ کمپنی کو سات ہزار(۷۰۰۰) روپے دوسرے دو فردوںسے لادیتا ہے، تو کمپنی اسے اس میں سے بطورِ کمیشن چھ سو (۶۰۰) روپئے ادا کرے گی اورا گر ان دو ممبروں میں سے ہر ممبر دودو ممبر بنا تاہے، توجہاں ان دو ممبروں کو چھ چھ سو(۶۰۰۔۶۰۰) روپئے بطورِ کمیشن ملیں گے، وہیں پہلے ممبرکومزیدبارہ سو(۱۲۰۰) روپئے ملیں گے، یعنی کل اٹھارہ سو(۱۸۰۰) روپئے ملیں گے اور اگر یہ چا ر ممبر وں میں سے ہر ممبر دودو ممبر بناتا ہے، توان میں سے ہر ایک کو چھ چھ سو(۶۰۰ ۔۶۰۰) اور پہلے کو گذشتہ کے اٹھارہ سو(۱۸۰۰) میں مز ید چوبیس سو(۲۴۰۰) روپئے ملاکر، یعنی کل بیالیس سو(۴۲۰۰) روپئے دیئے جائینگے اور جیسے جیسے یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہیگا ویسے ویسے پہلے ممبر کو بھی ہرممبر پر کمیشن ملتا رہیگا ۔
اسکیم کی یہ صورت جوا اور باطل طریقہ سے لوگوں کے اموال کھا نے کی حرمتِ صریحہ پر مشتمل ہے، اس لئے اس طر ح کی اسکیموں کا ممبربننا اور بنانا دونوں عمل شرعاً ناجائز وحرام ہے اوراس پر ملنے والا کمیشن بھی حرام ہے ،اس لئے اس طر ح کی اسکیموں میں شرکت سے کلی اجتناب ضروری ہے۔ (۱)(المسائل المہمہ۱۷۹/۲)
واللہ اعلم بالصواب
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی #منتظم_المسائل_الشرعیہ_الحنفیہ
---------------------------------------------------
الحجۃ علی ما قلنا
(۱) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘:{یآیھا الذین آمنوا إنما الخمر والمیسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشیطٰن فاجتنبوہ لعلکم تفلحون} ۔ (سورۃ المائدۃ:۹۰)
ما في ’’ البحر المحیط لأبي حیان الغرناطي ‘‘: بین تعالی تحریم الخمر والمیسر لأن ھذہ اللذۃ یقارنھا مفسدۃ عظیمۃ ۔ والمیسر فیہ أخذ المال بالباطل ۔ (۴/۲۰)
وما في ’’ القرآن الکریم ‘‘: {یآیھا الذین آمنوا لا تأکلوا أموالکم بینکم بالباطل } ۔
(سورۃ النساء :۲۹)
ما في ’’ تفسیر الکبیر ‘‘ : لا تأکلوا أموالکم التي جعلتموہ بینکم بطریق غیر مشروع ۔ (۴/۵۶)
ما في ’’ الموسوعۃ الفقھیۃ ‘‘: ما یکسبہ المقامرۃ ھو کسب خبیث وھو من المال الحرام مثل کسب المخادع والمقامر ، والواجب في الکسب خبیث تفریغ الذمۃ منہ بردہ إلی أربابہ إن علموا وإلا إلی الفقراء ۔ (۳۹/۴۰۷ ، المیسر)
وما في ’’ الموسوعۃ الفقھیۃ ‘‘: قال ابن حجر المکي : المیسر القمار بأي نوع کان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتفق الفقھاء علی تحریم میسر القمار ۔ (۳۹/۴۰۶)
ما في ’’ الموسوعۃ القواعد الفقہیۃ ‘‘ : ’’ ما أفضی إلی الحرام کان حراماً ‘‘۔ (۹/۴۲)
ما في ’’ الشامیۃ ‘‘:’’ ما کان سبباً لمحظور فھو محظور ‘‘۔ (۵/۲۳۳، مکتبہ نعمانیہ)
مسئلہ: آج کل’’ جیونا‘‘نام سے ایک کمپنی قائم ہے ،جس کی اسکیم یہ ہے کہ پینتیس سو (۳۵۰۰)روپے دیکر اس کے ممبر بن جائو اور ان ساڑ ھے تین ہزار کے عوض کمپنی کوئی شیٔ نہیں دے گی، لیکن اگر یہ ممبر کم سے کم مزید دو ممبرکمپنی کے لئے بنا دیتا ہے ، یعنی یوں کہیے کہ کمپنی کو سات ہزار(۷۰۰۰) روپے دوسرے دو فردوںسے لادیتا ہے، تو کمپنی اسے اس میں سے بطورِ کمیشن چھ سو (۶۰۰) روپئے ادا کرے گی اورا گر ان دو ممبروں میں سے ہر ممبر دودو ممبر بنا تاہے، توجہاں ان دو ممبروں کو چھ چھ سو(۶۰۰۔۶۰۰) روپئے بطورِ کمیشن ملیں گے، وہیں پہلے ممبرکومزیدبارہ سو(۱۲۰۰) روپئے ملیں گے، یعنی کل اٹھارہ سو(۱۸۰۰) روپئے ملیں گے اور اگر یہ چا ر ممبر وں میں سے ہر ممبر دودو ممبر بناتا ہے، توان میں سے ہر ایک کو چھ چھ سو(۶۰۰ ۔۶۰۰) اور پہلے کو گذشتہ کے اٹھارہ سو(۱۸۰۰) میں مز ید چوبیس سو(۲۴۰۰) روپئے ملاکر، یعنی کل بیالیس سو(۴۲۰۰) روپئے دیئے جائینگے اور جیسے جیسے یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہیگا ویسے ویسے پہلے ممبر کو بھی ہرممبر پر کمیشن ملتا رہیگا ۔
اسکیم کی یہ صورت جوا اور باطل طریقہ سے لوگوں کے اموال کھا نے کی حرمتِ صریحہ پر مشتمل ہے، اس لئے اس طر ح کی اسکیموں کا ممبربننا اور بنانا دونوں عمل شرعاً ناجائز وحرام ہے اوراس پر ملنے والا کمیشن بھی حرام ہے ،اس لئے اس طر ح کی اسکیموں میں شرکت سے کلی اجتناب ضروری ہے۔ (۱)(المسائل المہمہ۱۷۹/۲)
واللہ اعلم بالصواب
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی #منتظم_المسائل_الشرعیہ_الحنفیہ
---------------------------------------------------
الحجۃ علی ما قلنا
(۱) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘:{یآیھا الذین آمنوا إنما الخمر والمیسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشیطٰن فاجتنبوہ لعلکم تفلحون} ۔ (سورۃ المائدۃ:۹۰)
ما في ’’ البحر المحیط لأبي حیان الغرناطي ‘‘: بین تعالی تحریم الخمر والمیسر لأن ھذہ اللذۃ یقارنھا مفسدۃ عظیمۃ ۔ والمیسر فیہ أخذ المال بالباطل ۔ (۴/۲۰)
وما في ’’ القرآن الکریم ‘‘: {یآیھا الذین آمنوا لا تأکلوا أموالکم بینکم بالباطل } ۔
(سورۃ النساء :۲۹)
ما في ’’ تفسیر الکبیر ‘‘ : لا تأکلوا أموالکم التي جعلتموہ بینکم بطریق غیر مشروع ۔ (۴/۵۶)
ما في ’’ الموسوعۃ الفقھیۃ ‘‘: ما یکسبہ المقامرۃ ھو کسب خبیث وھو من المال الحرام مثل کسب المخادع والمقامر ، والواجب في الکسب خبیث تفریغ الذمۃ منہ بردہ إلی أربابہ إن علموا وإلا إلی الفقراء ۔ (۳۹/۴۰۷ ، المیسر)
وما في ’’ الموسوعۃ الفقھیۃ ‘‘: قال ابن حجر المکي : المیسر القمار بأي نوع کان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتفق الفقھاء علی تحریم میسر القمار ۔ (۳۹/۴۰۶)
ما في ’’ الموسوعۃ القواعد الفقہیۃ ‘‘ : ’’ ما أفضی إلی الحرام کان حراماً ‘‘۔ (۹/۴۲)
ما في ’’ الشامیۃ ‘‘:’’ ما کان سبباً لمحظور فھو محظور ‘‘۔ (۵/۲۳۳، مکتبہ نعمانیہ)
’’ہر وہ نماز جو کراہت تحریمیہ کے ساتھ ادا کی گئی ہو اس کا اعادہ واجب ہے‘‘ کیا یہ قاعدہ کلی ہے؟
سوال
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ یہ جو قاعدہ ذکر کیا گیا ہے کل صـلاۃ ادیت مع کراہۃ التحریم تجب ا عادتھا کیا یہ قاعدہ کلی ہے؟ اور جو بھی نماز مکروہ تحریمی ہوجائے اور جس طرح بھی کراہت تحریمی آئی ہو، اس صورت میں نماز کا اعادہ واجب ہے یا اس میں تخصیص ہے اور کیا یہ وجوب وقت کے اندر ہے یا وقت کے بعد بھی اس کا اعادہ واجب ہے؟
(۲)۔ نیز اگر تصویر سامنے ہو، اور نماز ادا کرلی تو علامہ شامیؒ نے فرمایا کہ جو کراہت ماہیت صلاۃ میں آئی ہو، اس صورت میں نماز کا اعادہ واجب ہے ورنہ نہیں اور کیا تصویر اگر سامنے ہو، اور نماز پڑھ لی تو جو کراہت نماز میں آئی ہے یہ کراہت ماہیت صلاۃ میں داخل ہے یا نہیں؟ اس کی وضاحت فرمائیں۔ بینوا توجروا
الجواب بعون الملک الوھاب
مذکورہ قاعدہ کلی ہے اور کراھت ،ماہیت ِصلوۃ میںداخل ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں نماز واجبالاعادہ ہو گی ۔ اس میں علامہ شامی ؒ نے ماہیت اور خارج از ماہیت ِ صلوۃ سے اعادے اور عدم اعادے کا فرق کیا ہے اور اسے ’’الاقرب‘‘ قرار دیا ہے ۔ (اگرچہ آخر میں وہ خود اس پر مطمئن نہیں ۔)لیکن درست بات یہ ہے کہ ہر وہ نماز جو کراھت تحریم کے ساتھ اداء ہو وہ واجب الاعادہ ہو گی اور اس میں ماہیت اور خارج از ماہیت کا فرق نہ کیا جائے۔
تصویر والے کپڑوں میں نماز چونکہ مکروہ تحریمی ہے لہذا اس کا اعادہ کیا جائے گاکیونکہ ہر مکروہ تحریمی کے ساتھ اداء نماز کا اعادہ واجب ہے۔علامہ شامی ؒ بحث کے آخر میں ماہیت اور غیر ماہیت کے فرق پر مطمئن نہیں وہ فرماتے ہیں:
لكن قولهم كل صلاة أديت مع كراهة التحريم يشمل ترك الواجبوغيره ويؤيده ما صرحوا به من وجوب الإعادة بالصلاة في ثوب فيه صورة بمنزلة من يصلي وهو حامل الصنم۔(شامیۃ ۱/۴۵۷)
البتہ علامہ رافعی ؒ نے یہ(ماہیت اور غیر ماہیت کا) فرق لیا ہے لیکن انہوں نے تصویر والےکپڑوں میں نماز کو ماہیت صلوۃمیں ہی داخل فرما دیا ہےاور نماز کو واجب الاعادہ قرار دیا ہے۔علامہ رافعی ؒ کی عبارت یہ ہے:
(قولہ : ویؤیدہ ما صرّحواالخ)قد یقال ان ذلک لیس من واجبات اللباس بل یقال خلوّ المصلی عن ثوب فیہ صورۃ أو عن حملہ صنماً من واجبات الصلاۃ۔ (التحریر المختار ۱/۵۷)
نیز وقت کے اندر اور گزرنے کے بعد دونوں صورتوں میں کراھت تحریمی کے ساتھ اداء نماز کا اعادہ واجب ہے۔
لمافی الدرالمختار (۴۵۷/۱):وکذا کل صلوٰۃ ادیت مع کراھۃ التحریم تجب اعادتھا والمختار انہ جابر للاول۔
وفی الشامیۃ: وان النقض اذا دخل فی صلاۃ الامام ولم یجبر وجبت الاعادۃ علی المقتدی ایضا: وانہ یستثنی منہ الجمعۃ والعید اذا ادیت مع کراھۃ التحریم الا اذا اعادھا الامام والقوم جمیعا……بقی ھنا شی وھو ان صلاۃ الجماعۃ واجبۃ علی الراجح فی المذھب او سنۃ موکدۃ فی حکم الواجبکمافی البحر وصرحوا بفسق تارکھا وتعزیرہ وانہ یأثم ومقتضی ھذا انہ لو صلی مفردا یومر باعادتھا بالجماعۃ وھو مخالف لما صرحوا بہ فی باب ادراک الفریضۃ من انہ لو صلی ثلاث رکعات من الظھر ثم اقیمت الجماعۃ یتم ویقتدی متطوعا فانہ کالصریح فی انہ لیس لہ اعادۃ الظھر بالجماعۃ مع ان صلاتہ منفردا مکروھۃ تحریماً او قریبۃ من التحریم۔ فیخالف تلک القاعدۃ، الا ان یدعی تخصیصھا بان مرادھم بالواجب والسنۃ التی تعاد بترکہ ما کان من ماھیۃ الصلاۃ واجزائھا فلا یشمل الجماعۃ لانھا وصف لھا خارج عن ماھیتھا او یدعی تقیید قولھم یتم ویقتدی متطوعا بما اذا کانت صلاتہ منفردا لعذر کعدم وجود الجماعۃ عند شروعہ فلا تکون صلاتہ منفردا مکروھۃ والاقرب الاول ولذا لم یذکروا الجماعۃ من جملۃ واجبات الصلاۃ لانھاواجب مستقل بنفسہ خارج عن ماھیۃ الصلاۃ ویویدہ ایضاً انھم قالوا یجب الترتیب فی سور القرآن، فلو قرأ منکوساً اثم لکن لا یلزمہ سجود السھو لان ذالک من واجبات القراءۃ لامن واجبات الصلاۃ کماذکر فی البحر فی باب السھو لکن قولھم کل صـلوۃ ادیت مع کراھۃ التحریم یشمل ترک الواجب وغیرہ ویویدہ ما صرحوا بہ من وجوب الاعادۃ بالصلاۃ فی ثوب فیہ صورۃ بمنزلۃ من یصلی وھو حامل الصنم۔(نجم الفتاوی۵۵۶/۲)
واللہ اعلم بالصواب
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی
سوال
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ یہ جو قاعدہ ذکر کیا گیا ہے کل صـلاۃ ادیت مع کراہۃ التحریم تجب ا عادتھا کیا یہ قاعدہ کلی ہے؟ اور جو بھی نماز مکروہ تحریمی ہوجائے اور جس طرح بھی کراہت تحریمی آئی ہو، اس صورت میں نماز کا اعادہ واجب ہے یا اس میں تخصیص ہے اور کیا یہ وجوب وقت کے اندر ہے یا وقت کے بعد بھی اس کا اعادہ واجب ہے؟
(۲)۔ نیز اگر تصویر سامنے ہو، اور نماز ادا کرلی تو علامہ شامیؒ نے فرمایا کہ جو کراہت ماہیت صلاۃ میں آئی ہو، اس صورت میں نماز کا اعادہ واجب ہے ورنہ نہیں اور کیا تصویر اگر سامنے ہو، اور نماز پڑھ لی تو جو کراہت نماز میں آئی ہے یہ کراہت ماہیت صلاۃ میں داخل ہے یا نہیں؟ اس کی وضاحت فرمائیں۔ بینوا توجروا
الجواب بعون الملک الوھاب
مذکورہ قاعدہ کلی ہے اور کراھت ،ماہیت ِصلوۃ میںداخل ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں نماز واجبالاعادہ ہو گی ۔ اس میں علامہ شامی ؒ نے ماہیت اور خارج از ماہیت ِ صلوۃ سے اعادے اور عدم اعادے کا فرق کیا ہے اور اسے ’’الاقرب‘‘ قرار دیا ہے ۔ (اگرچہ آخر میں وہ خود اس پر مطمئن نہیں ۔)لیکن درست بات یہ ہے کہ ہر وہ نماز جو کراھت تحریم کے ساتھ اداء ہو وہ واجب الاعادہ ہو گی اور اس میں ماہیت اور خارج از ماہیت کا فرق نہ کیا جائے۔
تصویر والے کپڑوں میں نماز چونکہ مکروہ تحریمی ہے لہذا اس کا اعادہ کیا جائے گاکیونکہ ہر مکروہ تحریمی کے ساتھ اداء نماز کا اعادہ واجب ہے۔علامہ شامی ؒ بحث کے آخر میں ماہیت اور غیر ماہیت کے فرق پر مطمئن نہیں وہ فرماتے ہیں:
لكن قولهم كل صلاة أديت مع كراهة التحريم يشمل ترك الواجبوغيره ويؤيده ما صرحوا به من وجوب الإعادة بالصلاة في ثوب فيه صورة بمنزلة من يصلي وهو حامل الصنم۔(شامیۃ ۱/۴۵۷)
البتہ علامہ رافعی ؒ نے یہ(ماہیت اور غیر ماہیت کا) فرق لیا ہے لیکن انہوں نے تصویر والےکپڑوں میں نماز کو ماہیت صلوۃمیں ہی داخل فرما دیا ہےاور نماز کو واجب الاعادہ قرار دیا ہے۔علامہ رافعی ؒ کی عبارت یہ ہے:
(قولہ : ویؤیدہ ما صرّحواالخ)قد یقال ان ذلک لیس من واجبات اللباس بل یقال خلوّ المصلی عن ثوب فیہ صورۃ أو عن حملہ صنماً من واجبات الصلاۃ۔ (التحریر المختار ۱/۵۷)
نیز وقت کے اندر اور گزرنے کے بعد دونوں صورتوں میں کراھت تحریمی کے ساتھ اداء نماز کا اعادہ واجب ہے۔
لمافی الدرالمختار (۴۵۷/۱):وکذا کل صلوٰۃ ادیت مع کراھۃ التحریم تجب اعادتھا والمختار انہ جابر للاول۔
وفی الشامیۃ: وان النقض اذا دخل فی صلاۃ الامام ولم یجبر وجبت الاعادۃ علی المقتدی ایضا: وانہ یستثنی منہ الجمعۃ والعید اذا ادیت مع کراھۃ التحریم الا اذا اعادھا الامام والقوم جمیعا……بقی ھنا شی وھو ان صلاۃ الجماعۃ واجبۃ علی الراجح فی المذھب او سنۃ موکدۃ فی حکم الواجبکمافی البحر وصرحوا بفسق تارکھا وتعزیرہ وانہ یأثم ومقتضی ھذا انہ لو صلی مفردا یومر باعادتھا بالجماعۃ وھو مخالف لما صرحوا بہ فی باب ادراک الفریضۃ من انہ لو صلی ثلاث رکعات من الظھر ثم اقیمت الجماعۃ یتم ویقتدی متطوعا فانہ کالصریح فی انہ لیس لہ اعادۃ الظھر بالجماعۃ مع ان صلاتہ منفردا مکروھۃ تحریماً او قریبۃ من التحریم۔ فیخالف تلک القاعدۃ، الا ان یدعی تخصیصھا بان مرادھم بالواجب والسنۃ التی تعاد بترکہ ما کان من ماھیۃ الصلاۃ واجزائھا فلا یشمل الجماعۃ لانھا وصف لھا خارج عن ماھیتھا او یدعی تقیید قولھم یتم ویقتدی متطوعا بما اذا کانت صلاتہ منفردا لعذر کعدم وجود الجماعۃ عند شروعہ فلا تکون صلاتہ منفردا مکروھۃ والاقرب الاول ولذا لم یذکروا الجماعۃ من جملۃ واجبات الصلاۃ لانھاواجب مستقل بنفسہ خارج عن ماھیۃ الصلاۃ ویویدہ ایضاً انھم قالوا یجب الترتیب فی سور القرآن، فلو قرأ منکوساً اثم لکن لا یلزمہ سجود السھو لان ذالک من واجبات القراءۃ لامن واجبات الصلاۃ کماذکر فی البحر فی باب السھو لکن قولھم کل صـلوۃ ادیت مع کراھۃ التحریم یشمل ترک الواجب وغیرہ ویویدہ ما صرحوا بہ من وجوب الاعادۃ بالصلاۃ فی ثوب فیہ صورۃ بمنزلۃ من یصلی وھو حامل الصنم۔(نجم الفتاوی۵۵۶/۲)
واللہ اعلم بالصواب
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی
الجواب وباللہ التوفیق:
حدودِ حرم میں بغیر احرام کے کون لوگ داخل ہوسکتے ہیں ؟
مسئلہ:حدودِ میقات سے باہر رہنے والے ہوں یا مکہ اور حِل میں رہنے والے، اگر حدودِ میقات کے باہر سے مکہ مکرمہ کی نیت کرکے میقات سے آگے بڑھیں ، توان پر لازم ہے کہ وہ احرام باندھ کر ہی میقات سے آگے بڑھیں ، خواہ وہ حج اور عمرہ کی نیت سے جائیں یا کسی اور مقصد سے،اصل حکمِ شرعی یہی ہے، لیکن موجودہ حالات میں جب کہ تاجر حضرات، دفاتر میں کام کرنے والے، ٹیکسی چلانے والے اور دیگر پیشہ وارانہ کام کرنے والے کبھی ہر روز، کبھی ہر دوسرے تیسرے دن، اور بعض لوگوں کو تو ایک دن میں ایک سے زیادہ دفعہ حرم میں داخل ہونا پڑتا ہے، ایسی حالت میں اس طرح کے لوگوں کو ہر بار احرام اور ادائے عمرہ کی پابندی بے حد مشقت طلب اور دُشوار ہے، اس لیے ان حضرات کے لیے بغیر احرام باندھے حدودِ حرم میں داخلے کی گنجائش ہوگی۔(۱)(المسائل المہمہ۱۳۴/۱۰)
واللہ اعلم بالصواب
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی
----------------------------------------------------------
الحجۃ علی ما قلنا :
=(۱) ما في ’’ المصنف لإبن أبي شیبۃ ‘‘ : عن ابن عباس قال : ’’ لا یدخل مکۃ أحدٌ بغیر إحرام إلا الحطابون والعمالون وأصحاب منافعہا ‘‘ ۔ (۸/۲۲۷ ، رقم : ۱۳۶۹۱ ، کتاب الحج ، من کرہ أن یدخل مکۃ بغیر إحرام ، ط : المجلس العملي)
(حج وعمرہ موجودہ حالات کے پس منظر میں :ص/۳۷، جدید فقہی تحقیقات، ط: ایفاپبلی کیشنز)
حدودِ حرم میں بغیر احرام کے کون لوگ داخل ہوسکتے ہیں ؟
مسئلہ:حدودِ میقات سے باہر رہنے والے ہوں یا مکہ اور حِل میں رہنے والے، اگر حدودِ میقات کے باہر سے مکہ مکرمہ کی نیت کرکے میقات سے آگے بڑھیں ، توان پر لازم ہے کہ وہ احرام باندھ کر ہی میقات سے آگے بڑھیں ، خواہ وہ حج اور عمرہ کی نیت سے جائیں یا کسی اور مقصد سے،اصل حکمِ شرعی یہی ہے، لیکن موجودہ حالات میں جب کہ تاجر حضرات، دفاتر میں کام کرنے والے، ٹیکسی چلانے والے اور دیگر پیشہ وارانہ کام کرنے والے کبھی ہر روز، کبھی ہر دوسرے تیسرے دن، اور بعض لوگوں کو تو ایک دن میں ایک سے زیادہ دفعہ حرم میں داخل ہونا پڑتا ہے، ایسی حالت میں اس طرح کے لوگوں کو ہر بار احرام اور ادائے عمرہ کی پابندی بے حد مشقت طلب اور دُشوار ہے، اس لیے ان حضرات کے لیے بغیر احرام باندھے حدودِ حرم میں داخلے کی گنجائش ہوگی۔(۱)(المسائل المہمہ۱۳۴/۱۰)
واللہ اعلم بالصواب
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی
----------------------------------------------------------
الحجۃ علی ما قلنا :
=(۱) ما في ’’ المصنف لإبن أبي شیبۃ ‘‘ : عن ابن عباس قال : ’’ لا یدخل مکۃ أحدٌ بغیر إحرام إلا الحطابون والعمالون وأصحاب منافعہا ‘‘ ۔ (۸/۲۲۷ ، رقم : ۱۳۶۹۱ ، کتاب الحج ، من کرہ أن یدخل مکۃ بغیر إحرام ، ط : المجلس العملي)
(حج وعمرہ موجودہ حالات کے پس منظر میں :ص/۳۷، جدید فقہی تحقیقات، ط: ایفاپبلی کیشنز)
ٹریول ایجنسی کا اپنے ایجنٹ کو فری حج پر بھیجنا؟
سوال:
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ٹریول ایجنسیاں سفر حج پر بھیجنے والوں کے لئے جگہ جگہ ایجنٹ مقرر کرتی ہیں، اور ان ایجنٹوں سے مثال کے طور پر یہ طے کرلیتی ہیں کہ اگرآپ نے دس آدمیوں کے فارم بھراکر ان کے سفر حج کی فیس ہمارے دفتر میں بھیج کر جمع کرادی، تو ہم ایک آدمی کو حج کے سفر کی سہولیات فری مہیا کرائیں گے، اس طرح اپنے مفاد خاص کی خاطر مقررہ تعداد کے لوگ حج کے فارم بھرواکر بھیجنا اور یہ کام صرف اس لئے کرنا کہ میں نے اگر ٹریول ایجنسیوں کی مقررہ تعداد پوری کردی، تو وہ ٹریول ایجنسی مجھے حج بیت اللہ کا اہمفریضہ بلا کسی میرے خرچ کے ادا کرادے گی، یا اگر مقررہ تعداد پوری نہ ہوئی، تو باقی روپیہ اینے پاس سے جمع کراکر کمیشن کے روپیہ کے ساتھ حج کی ادائیگی کرادے گی، اس میں مندرجہ ذیل امور دریافت طلب ہیں: اس طرح حج جیسے ایک اہم اور مقدس فریضہ کی ادائیگی کرنا شرعاً کیسا ہے؟ اس طرح کے کمیشن کی شریعتِ مقدسہ کی روشنی میں جائز وناجائز ہونے کے اعتبار سے بھی روشنی ڈالی جائے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی مقررہ عمل اور محنت پر کوئی متعین اجرت مقرر کرنا شرعاً ممنوع نہیں ہے، مسئولہ صورت میں جب کہ ٹریول ایجنسی اپنے ایجنٹ کو دس آدمیوں کے فارم بھروانے پر اس کے حجکے اخراجات اپنی طرف سے دینے کا وعدہ کررہی ہے، تو یہ ایجنٹ کی محنت یعنی افراد کو تیار کرنے اور ان سے فارم بھروانے کا معاوضہ سمجھا جائے گا، اور اس کی اپنی ذاتی کمائی میں شامل ہوگا؛ لہٰذا اس رقم سے اس کے لئے حج کے سفر پر جانا بلاشبہ درست ہوگا۔
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: … ومن استاجر أجیراً فلیعلمہ أجرہ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي ۶؍۱۹۸ رقم: ۱۱۶۵۱)
أخرج عبد الرزاق عن الثوري في رجل یکتري من رجل إلی مکۃ، ویضمن لہ الکری نفقتہ إلی أن یبلغ، قال: لا، أن یوقت أیاماً معلومۃ، وکیلاً معلوماً من الطعام یعطیہ إیاہ کل یوم۔ (المصنف لعبد الرزاق / البیوع ۸؍۲۱۴ رقم: ۱۴۹۳۸، بحوالہ: التعلیقات علی الفتاوی التاتارخانیۃ ۱۵؍۱۰۱ زکریا)
لا تصح حتی تکون المنافع معلومۃ والأجرۃ معلومۃ۔ (ہدایۃ ۴؍۲۷۷)
کذا استفید من ہٰذہ الجزئیۃ: استأجرہ لیصید لہ أو یحطب لہ فإن وقت لذٰلک وقتاً جاز ذٰلک۔ (درمختار، کتاب الإجارۃ / باب الإجارۃ الفاسدۃ ۶؍۶۲ دارالفکر بیروت، ۹؍۸۵ زکریا)
وکذا یستفاد جوازہ من مسئلۃ أجرۃ السمسار لہ، فإن وقت لذٰلک۔ (درمختار، باب ضمان الأجیر / مطلب في أجرۃ الدلال ۶؍۶۳ دار الفکر بیروت، ۹؍۸۷ زکریا)(کتاب النوازل۲۸۷/۷)
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
الجواب وباللہ التوفیق:
ٹراویل ایجنسی (Travel Agency)کے ذریعہ مفت میں حج
مسئلہ:آج کل ٹراویل ایجنسیاں (Travel Agencies) سفر حج پر بھیجنے والوں کے لیے جگہ جگہ ایجنٹ مقرر کرتی ہیں ، اور ان ایجنٹوں سے یہ معاہدہ کرتی ہیں کہ اگر آپ نے دس آدمیوں کے فارم بھراکر اُن کے سفر حج کی فیس ہمارے دفتر میں بھیج کر جمع کرادی، تو آپ کو ٹراویل ایجنسی کی طرف سے مفت میں حج کرایاجائے گا، تو صورتِ مذکورہ میں چوں کہ ٹراویل ایجنسی اپنے ایجنٹ کو دس آدمیوں کے فارم بھروانے، اور اُن کی رقم اپنے آفس میں جمع کروانے پر اُس کے حج کے اخراجات اپنی طرف سے دینے کا وعدہ کر رہی ہے، تو یہ ایجنٹ کی محنت؛ یعنی افراد کو تیار کرنے اور ان سے فارم بھروانے کا مُعاوَضہ سمجھا جائے گا، اور اس کی اپنی ذاتی کمائی میں شامل ہوگا، لہٰذا اس رقم سے اس کے لیے حج کے سفر پر جانابلا شبہ درست ہوگا۔(۱)(المسائل المہمہ۱۲۵/۱۰)
واللہ اعلم بالصواب
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی
--------------------------------------------------------
الحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما في ’’ السنن الکبری للبیہقي ‘‘ : عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ ، عن النبي ﷺ : ’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ومن استأجر أجیرًا فلیعلمہ أجرہ ‘‘ ۔ (۶/۱۹۸، رقم :۱۱۶۵۱ ، کتاب الإجارۃ ، باب لا تجوز الإجارۃ حتی تکون معلومۃ وتکون الأجرۃ معلومۃ ، ط : دار الکتب العلمیۃ بیروت)
ما في ’’ مصنف عبد الرزاق ‘‘ : أخرج عبد الرزاق عن الثوري في رجل یکتري من رجل إلی مکۃ ، ویضمن لہ الکری نفقتہ إلی أن یبلغ ، قال : لا ، أن یوقت أیامًا معلومۃ ، وکیلا معلومًا من الطعام إیاہ کل یوم ۔ (۸/۲۱۴ ، کتاب البیوع ، رقم : ۱۴۹۳۸، بحوالہ : التعلیقات علی ہامش الفتاوی التاتارخانیۃ : ۱۵/۱۰۱، ط : زکریا)
ما في ’’ الہدایۃ ‘‘ : لا تصح حتی تکون المنافع معلومۃ والأجرۃ معلومۃ ۔
(۴/۲۷۷ ، کتاب الإجارات ، ط : رشیدیہ جامع مسجد دہلي)
ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : (استأجرہ لیصید لہ أو یحطب لہ ، فإن) وقت لذلک (وقتًا جاز) ذلک ۔ (۶/۶۲ ، کتاب الإجارۃ ، باب الإجارۃ الفاسدۃ ، ط : دار الفکر بیروت)(و: ۹/۸۵ ، ط : زکریا ودار الکتب العلمیۃ بیروت)
ما في ’’ الدر
سوال:
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ٹریول ایجنسیاں سفر حج پر بھیجنے والوں کے لئے جگہ جگہ ایجنٹ مقرر کرتی ہیں، اور ان ایجنٹوں سے مثال کے طور پر یہ طے کرلیتی ہیں کہ اگرآپ نے دس آدمیوں کے فارم بھراکر ان کے سفر حج کی فیس ہمارے دفتر میں بھیج کر جمع کرادی، تو ہم ایک آدمی کو حج کے سفر کی سہولیات فری مہیا کرائیں گے، اس طرح اپنے مفاد خاص کی خاطر مقررہ تعداد کے لوگ حج کے فارم بھرواکر بھیجنا اور یہ کام صرف اس لئے کرنا کہ میں نے اگر ٹریول ایجنسیوں کی مقررہ تعداد پوری کردی، تو وہ ٹریول ایجنسی مجھے حج بیت اللہ کا اہمفریضہ بلا کسی میرے خرچ کے ادا کرادے گی، یا اگر مقررہ تعداد پوری نہ ہوئی، تو باقی روپیہ اینے پاس سے جمع کراکر کمیشن کے روپیہ کے ساتھ حج کی ادائیگی کرادے گی، اس میں مندرجہ ذیل امور دریافت طلب ہیں: اس طرح حج جیسے ایک اہم اور مقدس فریضہ کی ادائیگی کرنا شرعاً کیسا ہے؟ اس طرح کے کمیشن کی شریعتِ مقدسہ کی روشنی میں جائز وناجائز ہونے کے اعتبار سے بھی روشنی ڈالی جائے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی مقررہ عمل اور محنت پر کوئی متعین اجرت مقرر کرنا شرعاً ممنوع نہیں ہے، مسئولہ صورت میں جب کہ ٹریول ایجنسی اپنے ایجنٹ کو دس آدمیوں کے فارم بھروانے پر اس کے حجکے اخراجات اپنی طرف سے دینے کا وعدہ کررہی ہے، تو یہ ایجنٹ کی محنت یعنی افراد کو تیار کرنے اور ان سے فارم بھروانے کا معاوضہ سمجھا جائے گا، اور اس کی اپنی ذاتی کمائی میں شامل ہوگا؛ لہٰذا اس رقم سے اس کے لئے حج کے سفر پر جانا بلاشبہ درست ہوگا۔
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: … ومن استاجر أجیراً فلیعلمہ أجرہ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي ۶؍۱۹۸ رقم: ۱۱۶۵۱)
أخرج عبد الرزاق عن الثوري في رجل یکتري من رجل إلی مکۃ، ویضمن لہ الکری نفقتہ إلی أن یبلغ، قال: لا، أن یوقت أیاماً معلومۃ، وکیلاً معلوماً من الطعام یعطیہ إیاہ کل یوم۔ (المصنف لعبد الرزاق / البیوع ۸؍۲۱۴ رقم: ۱۴۹۳۸، بحوالہ: التعلیقات علی الفتاوی التاتارخانیۃ ۱۵؍۱۰۱ زکریا)
لا تصح حتی تکون المنافع معلومۃ والأجرۃ معلومۃ۔ (ہدایۃ ۴؍۲۷۷)
کذا استفید من ہٰذہ الجزئیۃ: استأجرہ لیصید لہ أو یحطب لہ فإن وقت لذٰلک وقتاً جاز ذٰلک۔ (درمختار، کتاب الإجارۃ / باب الإجارۃ الفاسدۃ ۶؍۶۲ دارالفکر بیروت، ۹؍۸۵ زکریا)
وکذا یستفاد جوازہ من مسئلۃ أجرۃ السمسار لہ، فإن وقت لذٰلک۔ (درمختار، باب ضمان الأجیر / مطلب في أجرۃ الدلال ۶؍۶۳ دار الفکر بیروت، ۹؍۸۷ زکریا)(کتاب النوازل۲۸۷/۷)
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
الجواب وباللہ التوفیق:
ٹراویل ایجنسی (Travel Agency)کے ذریعہ مفت میں حج
مسئلہ:آج کل ٹراویل ایجنسیاں (Travel Agencies) سفر حج پر بھیجنے والوں کے لیے جگہ جگہ ایجنٹ مقرر کرتی ہیں ، اور ان ایجنٹوں سے یہ معاہدہ کرتی ہیں کہ اگر آپ نے دس آدمیوں کے فارم بھراکر اُن کے سفر حج کی فیس ہمارے دفتر میں بھیج کر جمع کرادی، تو آپ کو ٹراویل ایجنسی کی طرف سے مفت میں حج کرایاجائے گا، تو صورتِ مذکورہ میں چوں کہ ٹراویل ایجنسی اپنے ایجنٹ کو دس آدمیوں کے فارم بھروانے، اور اُن کی رقم اپنے آفس میں جمع کروانے پر اُس کے حج کے اخراجات اپنی طرف سے دینے کا وعدہ کر رہی ہے، تو یہ ایجنٹ کی محنت؛ یعنی افراد کو تیار کرنے اور ان سے فارم بھروانے کا مُعاوَضہ سمجھا جائے گا، اور اس کی اپنی ذاتی کمائی میں شامل ہوگا، لہٰذا اس رقم سے اس کے لیے حج کے سفر پر جانابلا شبہ درست ہوگا۔(۱)(المسائل المہمہ۱۲۵/۱۰)
واللہ اعلم بالصواب
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی
--------------------------------------------------------
الحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما في ’’ السنن الکبری للبیہقي ‘‘ : عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ ، عن النبي ﷺ : ’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ومن استأجر أجیرًا فلیعلمہ أجرہ ‘‘ ۔ (۶/۱۹۸، رقم :۱۱۶۵۱ ، کتاب الإجارۃ ، باب لا تجوز الإجارۃ حتی تکون معلومۃ وتکون الأجرۃ معلومۃ ، ط : دار الکتب العلمیۃ بیروت)
ما في ’’ مصنف عبد الرزاق ‘‘ : أخرج عبد الرزاق عن الثوري في رجل یکتري من رجل إلی مکۃ ، ویضمن لہ الکری نفقتہ إلی أن یبلغ ، قال : لا ، أن یوقت أیامًا معلومۃ ، وکیلا معلومًا من الطعام إیاہ کل یوم ۔ (۸/۲۱۴ ، کتاب البیوع ، رقم : ۱۴۹۳۸، بحوالہ : التعلیقات علی ہامش الفتاوی التاتارخانیۃ : ۱۵/۱۰۱، ط : زکریا)
ما في ’’ الہدایۃ ‘‘ : لا تصح حتی تکون المنافع معلومۃ والأجرۃ معلومۃ ۔
(۴/۲۷۷ ، کتاب الإجارات ، ط : رشیدیہ جامع مسجد دہلي)
ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : (استأجرہ لیصید لہ أو یحطب لہ ، فإن) وقت لذلک (وقتًا جاز) ذلک ۔ (۶/۶۲ ، کتاب الإجارۃ ، باب الإجارۃ الفاسدۃ ، ط : دار الفکر بیروت)(و: ۹/۸۵ ، ط : زکریا ودار الکتب العلمیۃ بیروت)
ما في ’’ الدر
المختار مع الشامیۃ ‘‘ : تتمۃ : قال في التاتر خانیۃ : وفي الدلال والسمسار یجب أجر المثل ، وما تواضعوا علیہ أن في کل عشرۃ دنانیر کذا فذاک حرام علیہم ۔ وفي الحاوي : سئل محمد بن سلمۃ عن أجرۃ السمسار ، فقال : أرجو أنہ لا بأس بہ ، وإن کان في الأصل فاسدًا لکثرۃ التعامل ، وکثیر من ہذا غیر جائز فجوّزوہ لحاجۃ الناس إلیہ کدخول الحمام ۔ (۶/۶۳ ، ط : دار الفکر بیروت ، و: ۹/۸۷ ، کتاب الإجارۃ ، باب ضمان الأجیر ، مطلب في أجرۃ الدلال ، ط : زکریا ودار الکتب العلمیۃ بیروت)
(کتاب النوازل: ۷/۲۸۷، ۲۸۸،ٹریول ایجنسی کا اپنے ایجنٹ کو فری حج پر بھیجنا)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
(کتاب النوازل: ۷/۲۸۷، ۲۸۸،ٹریول ایجنسی کا اپنے ایجنٹ کو فری حج پر بھیجنا)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
United Arab Emiratesسوال # 23927
شادی یا شادی کے علاوہ کے موقع پر مردوں اور عورتوں کو مہندی اور ہلدی لگاناجائز ہے یا نہیں؟بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ مردوں کوسر میں یا داڑھی میں لگانا سنت ہے؟ براہ کرم، میری رہنمائی فرمائیں۔
Published on: Aug 14, 2010 جواب # 23927
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ب): 1436=1114-8/1431
شادی کے موقع پر مرد وعورت کا ہلدی لگانا ایک غیرشرعی رسم ہے جو ناجائز ہے اور شادی کے علاوہ کے موقع پر اگر کسی ضرورت کی وجہ سے ہو تو گنجائش ہے اور مہندی لگانا عورت کے لیے درست ہے بلکہ اس کے لیے مخصوص ہے کہ ہاتھ پیر کو لگائے، شادی کے موقع پر یا اس کے علاوہ لیکن مرد کو اس کی مشابہت اختیار کرنا اور ہاتھ پیر میں مہندی لگانا درست نہیں، ہاں مرد کے لیے سر پر اور داڑھی میں سرخ مہندی کا خضاب لگانا درست ہے، بوجہ مجبوری مرد کے لیے ہاتھ اور پاوٴں میں مہندی لگانے کی گنجائش ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی
شادی یا شادی کے علاوہ کے موقع پر مردوں اور عورتوں کو مہندی اور ہلدی لگاناجائز ہے یا نہیں؟بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ مردوں کوسر میں یا داڑھی میں لگانا سنت ہے؟ براہ کرم، میری رہنمائی فرمائیں۔
Published on: Aug 14, 2010 جواب # 23927
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ب): 1436=1114-8/1431
شادی کے موقع پر مرد وعورت کا ہلدی لگانا ایک غیرشرعی رسم ہے جو ناجائز ہے اور شادی کے علاوہ کے موقع پر اگر کسی ضرورت کی وجہ سے ہو تو گنجائش ہے اور مہندی لگانا عورت کے لیے درست ہے بلکہ اس کے لیے مخصوص ہے کہ ہاتھ پیر کو لگائے، شادی کے موقع پر یا اس کے علاوہ لیکن مرد کو اس کی مشابہت اختیار کرنا اور ہاتھ پیر میں مہندی لگانا درست نہیں، ہاں مرد کے لیے سر پر اور داڑھی میں سرخ مہندی کا خضاب لگانا درست ہے، بوجہ مجبوری مرد کے لیے ہاتھ اور پاوٴں میں مہندی لگانے کی گنجائش ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی
Watch "Napak Ungli ko Chatna | نجس انگلی کو چاٹ کر پاک کرنا | بہشتی زیور پر اعتراض" on YouTube
https://youtu.be/B2QE_jk6bZ8
https://youtu.be/B2QE_jk6bZ8
YouTube
Napak Ungli ko Chatna | نجس انگلی کو چاٹ کر پاک کرنا | بہشتی زیور پر اعتراض
1- غیرمقلدین کا دھوکہ دینا عام مسلمانوں کو بہشتی زیور کے ذریعے
2- حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانوی کی کتاب بہشتی زیور
3- بہشتی زیور کی عبارت[نجس انگلی چاٹنے سے پاک ہونا]پر اعتراض
4- عبارت کی تشریح اور اعتراض کا جواب
5- مسئلہ کی وضاحت میں واقعات
Join…
2- حکیم الامت مولانا محمد اشرف علی تھانوی کی کتاب بہشتی زیور
3- بہشتی زیور کی عبارت[نجس انگلی چاٹنے سے پاک ہونا]پر اعتراض
4- عبارت کی تشریح اور اعتراض کا جواب
5- مسئلہ کی وضاحت میں واقعات
Join…
جس ممبر کے اندر قرآن ہو اس پر بیٹھنا
سوال:
یہاں مسجد میں لکڑی کا ممبر ہے، اور اس ممبر کے اندر قرآن شریف وغیرہ رکھا جاتا ہے، اس کو خطبہ کے وقت نکال لینا چاہئے یا نہیں ؟ ممبر بند ہے، باہر سے ممبر میں قرآن ہے ایسا معلوم نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میں مذکور ہ ممبر پر بیٹھ کر جمعہ یا عید کا خطبہ یا وعظ کہنا جائز ہے؟
الجواب: حامداً و مصلیاً و مسلما
ممبر کے اندر کے حصہ میں قرآن شریف رکھتے ہوں تو اس ممبر پر بیٹھنا ، پیر رکھنا قرآن کے ادب کے خلاف ہے۔ اس لئے خطبہ یا تقریر کے لئے اس ممبر کا استعمال کرنا ہو تو پہلے اندر سے قرآن شریف نکال کر کسی اونچی جگہ پر ادب کے ساتھ رکھ دیا جائے۔ (فتاویٰ عالمگیری: ۹۴)(فتاوی دینیہ۱۵۱/۱)
واللہ اعلم بالصواب #محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی
سوال:
یہاں مسجد میں لکڑی کا ممبر ہے، اور اس ممبر کے اندر قرآن شریف وغیرہ رکھا جاتا ہے، اس کو خطبہ کے وقت نکال لینا چاہئے یا نہیں ؟ ممبر بند ہے، باہر سے ممبر میں قرآن ہے ایسا معلوم نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میں مذکور ہ ممبر پر بیٹھ کر جمعہ یا عید کا خطبہ یا وعظ کہنا جائز ہے؟
الجواب: حامداً و مصلیاً و مسلما
ممبر کے اندر کے حصہ میں قرآن شریف رکھتے ہوں تو اس ممبر پر بیٹھنا ، پیر رکھنا قرآن کے ادب کے خلاف ہے۔ اس لئے خطبہ یا تقریر کے لئے اس ممبر کا استعمال کرنا ہو تو پہلے اندر سے قرآن شریف نکال کر کسی اونچی جگہ پر ادب کے ساتھ رکھ دیا جائے۔ (فتاویٰ عالمگیری: ۹۴)(فتاوی دینیہ۱۵۱/۱)
واللہ اعلم بالصواب #محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی
نماز کے بعد اجتماعی طور پر درود پڑھنا
سؤال
کیافرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہماری مسجد میں یہ طریقہ رائج ہے کہ امام نماز کے بعد بلند آواز سے آیتإِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَه يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا کی تلاوت کرتاہے پھر سارے مقتدی ملکر اجتماعی صورت میں درود شریف پڑھتے ہیں۔کیااس طریقے پر درود وسلام پڑھنا قرآن وسنت سے ثابت ہے ؟تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں۔
الجواب بعون الملک الوھاب
اس طرح درود پڑھنا صحابہ سے لیکر اکابر اسلاف تک کسی سے ثابت نہیں ہے لہٰذا اس کاالتزام بدعت اور قابل ترک ہے۔
لمافی المشکوۃ (صـ۲۷):عن عائشةرضی الله عنھا قالت : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد " ۔
وفی الدرالمختار مع ردالمحتار (۱۱۹/۲): وسجدۃ الشکر مستحبۃ بہ یفتی لکنھا تکرہ بعد الصلاۃ لان الجھلۃ یعتقدونھا سنۃ او واجبۃ وکل مباح یؤدی الیہ فمکروہ۔
وفی الشامیۃ :- (فمکروہ) الظاھر انھا تحریمیۃ لانہ یدخل فی الدین مالیس منہ۔
وفیہ ایضا (۲۳۵/۲): وقد صرح بعض علمائنا وغیرھم بکراھۃ المصافحۃ المعتادۃ عقب الصلاۃ مع ان المصافحۃ سنۃ وماذاک الالکونھا لم تؤثر فی خصوص ھذا الموضع فالمواظبۃ علیھا فیہ توھم العوام بانہاسنۃ فیہ ولذا منعواعن الاجتماع لصلاۃ الرغائب التی احدثہا بعض المبتد عین لانہا لم تؤثر علی ھذہ الکیفیۃ فی تلک اللیالی المخصوصۃ وان کانت الصلاۃ خیر موضوع۔(نجم الفتاوی۱۶۷/۱)
واللہ اعلم بالصواب
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی
جمع شدہ فتاوی مسلک دارالعوام دیوبند
سؤال
کیافرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہماری مسجد میں یہ طریقہ رائج ہے کہ امام نماز کے بعد بلند آواز سے آیتإِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَه يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا کی تلاوت کرتاہے پھر سارے مقتدی ملکر اجتماعی صورت میں درود شریف پڑھتے ہیں۔کیااس طریقے پر درود وسلام پڑھنا قرآن وسنت سے ثابت ہے ؟تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں۔
الجواب بعون الملک الوھاب
اس طرح درود پڑھنا صحابہ سے لیکر اکابر اسلاف تک کسی سے ثابت نہیں ہے لہٰذا اس کاالتزام بدعت اور قابل ترک ہے۔
لمافی المشکوۃ (صـ۲۷):عن عائشةرضی الله عنھا قالت : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد " ۔
وفی الدرالمختار مع ردالمحتار (۱۱۹/۲): وسجدۃ الشکر مستحبۃ بہ یفتی لکنھا تکرہ بعد الصلاۃ لان الجھلۃ یعتقدونھا سنۃ او واجبۃ وکل مباح یؤدی الیہ فمکروہ۔
وفی الشامیۃ :- (فمکروہ) الظاھر انھا تحریمیۃ لانہ یدخل فی الدین مالیس منہ۔
وفیہ ایضا (۲۳۵/۲): وقد صرح بعض علمائنا وغیرھم بکراھۃ المصافحۃ المعتادۃ عقب الصلاۃ مع ان المصافحۃ سنۃ وماذاک الالکونھا لم تؤثر فی خصوص ھذا الموضع فالمواظبۃ علیھا فیہ توھم العوام بانہاسنۃ فیہ ولذا منعواعن الاجتماع لصلاۃ الرغائب التی احدثہا بعض المبتد عین لانہا لم تؤثر علی ھذہ الکیفیۃ فی تلک اللیالی المخصوصۃ وان کانت الصلاۃ خیر موضوع۔(نجم الفتاوی۱۶۷/۱)
واللہ اعلم بالصواب
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی
جمع شدہ فتاوی مسلک دارالعوام دیوبند
India
سوال # 145
از راہ کرم، مجھے بتائیں کہ دیوبندیوں کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ، آپ کی زندگی اور زندگی کے بعد کے بارے میں کیا عقیدہ ہے؟اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں وہابیوں کا کیا عقیدہ ہے؟کیوں کہ کچھ لوگ خصوصاً بریلوی کہتے ہیں کہ دیوبندی نبی کو۷ صرف ایک بڑے بھائی کا درجہ دیتے ہیں اور وہابیوں کا بھی یہی خیال ہے۔ اگر آپ دیوبندیوں، وہابیوں اور بریلویوں کے صحیح عقائد کی طرف رہ نمائی فرمائیں تو میں اپنے ایمان و عقیدہ کو مضبوط کرسکتا ہوں اور اس صراط مستقیم کو اختیار کرسکتا ہوں جو اللہ تعالی، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کا راستہ ہے۔ شکریہ!
Published on: Apr 2, 2007
جواب # 145
بسم الله الرحمن الرحيم
(فتوی: ۱۳۷/م= ۱۳۴/م)
علمائے دیوبند کے وہی عقائد ہیں جو صحابہ سلف صالحین علمائے اہل سنت والجماعت کے عقائد ہیں، من جملہ ان عقائد کے یہ عقیدہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے رسولوں میں سب سے افضل رسول ہیں۔آپ خاتم النّبیین ہیں، نبوت کا سلسلہ آپ پر تام اور مکمل ہوگیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نوع کے اعتبار سے بشر ہیں؛ بلکہ افضل البشر اور تمام انسانوں کے سردار ہیں۔ آپ کی شان اتنی بلند اور آپ کا مرتبہ اتنا اونچا ہے کہ وہ مرتبہ نہ کسی بشر کا ہے نہ فرشتہ کا نہ کعبہ کا نہ لوح و قلم کا، حتی کہ نہ عرشِ عظیم کا، غرض یہ کہ اللہ رب العزت کے بعد ساری مخلوقات اور کائنات میں آپ ہی کا مقام و مرتبہ ہے ع ?بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر? نیز ہمارے اکابر کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ آ پ کا جسم اطہر روضہٴ اقدس میں محفوظ ہے اور آپ حیاتِ جسمانی کے ساتھ حیات ہیں، آپ کی یہ حیات برزخی ہے مگر حیاتِ دنیوی سے بھی قوی تر ہے۔ وہابی حضرات (شیخ محمد بن عبدالوہاب کے متبعین) عقائد میں اہل سنت والجماعت کے پیروکار ہیں۔ اور مذکورہ عقائد کے وہ بھی قائل ہیں۔ البتہ بریلوی حضرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق عقیدے کے سلسلے میں غلو کرتے ہیں اور آپ کے لیے بعض وہ صفات ثابت کرتے ہیں جو اللہ رب العزت کے ساتھ خاص ہیں، مثلاً یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ?عالم الغیب? ہیں۔ آپ ?مختار کل? (ہرطرح کا آپ کو اختیار حاصل ہے) آپ ہرجگہ ?حاضر و ناظر? ہیں، اسی طرح بعض وہ عقیدہ رکھتے ہیں جو قرآن کی نصوص صریحہ کے خلاف ہے، مثلاً آپ کی بشریت کا انکار کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ رہا بریلوی حضرات کا یہ کہنا کہ علمائے دیوبند اور وہابی حضرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف بڑے بھائی کا درجہ دیتے ہیں، محض افتراپردازی اور بہتان تراشی ہے۔ علمائے دیوبند نے ان تمام عقائد سے اپنی برأت ظاہر کی ہے۔ اور واضح کیا ہے کہ ان کا عقیدہ وہی ہے جو اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے۔ فقط
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی
جمع شدہ فتاوی مسلک دارالعوام دیوبند
سوال # 145
از راہ کرم، مجھے بتائیں کہ دیوبندیوں کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ، آپ کی زندگی اور زندگی کے بعد کے بارے میں کیا عقیدہ ہے؟اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں وہابیوں کا کیا عقیدہ ہے؟کیوں کہ کچھ لوگ خصوصاً بریلوی کہتے ہیں کہ دیوبندی نبی کو۷ صرف ایک بڑے بھائی کا درجہ دیتے ہیں اور وہابیوں کا بھی یہی خیال ہے۔ اگر آپ دیوبندیوں، وہابیوں اور بریلویوں کے صحیح عقائد کی طرف رہ نمائی فرمائیں تو میں اپنے ایمان و عقیدہ کو مضبوط کرسکتا ہوں اور اس صراط مستقیم کو اختیار کرسکتا ہوں جو اللہ تعالی، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کا راستہ ہے۔ شکریہ!
Published on: Apr 2, 2007
جواب # 145
بسم الله الرحمن الرحيم
(فتوی: ۱۳۷/م= ۱۳۴/م)
علمائے دیوبند کے وہی عقائد ہیں جو صحابہ سلف صالحین علمائے اہل سنت والجماعت کے عقائد ہیں، من جملہ ان عقائد کے یہ عقیدہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے رسولوں میں سب سے افضل رسول ہیں۔آپ خاتم النّبیین ہیں، نبوت کا سلسلہ آپ پر تام اور مکمل ہوگیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نوع کے اعتبار سے بشر ہیں؛ بلکہ افضل البشر اور تمام انسانوں کے سردار ہیں۔ آپ کی شان اتنی بلند اور آپ کا مرتبہ اتنا اونچا ہے کہ وہ مرتبہ نہ کسی بشر کا ہے نہ فرشتہ کا نہ کعبہ کا نہ لوح و قلم کا، حتی کہ نہ عرشِ عظیم کا، غرض یہ کہ اللہ رب العزت کے بعد ساری مخلوقات اور کائنات میں آپ ہی کا مقام و مرتبہ ہے ع ?بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر? نیز ہمارے اکابر کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ آ پ کا جسم اطہر روضہٴ اقدس میں محفوظ ہے اور آپ حیاتِ جسمانی کے ساتھ حیات ہیں، آپ کی یہ حیات برزخی ہے مگر حیاتِ دنیوی سے بھی قوی تر ہے۔ وہابی حضرات (شیخ محمد بن عبدالوہاب کے متبعین) عقائد میں اہل سنت والجماعت کے پیروکار ہیں۔ اور مذکورہ عقائد کے وہ بھی قائل ہیں۔ البتہ بریلوی حضرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق عقیدے کے سلسلے میں غلو کرتے ہیں اور آپ کے لیے بعض وہ صفات ثابت کرتے ہیں جو اللہ رب العزت کے ساتھ خاص ہیں، مثلاً یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ?عالم الغیب? ہیں۔ آپ ?مختار کل? (ہرطرح کا آپ کو اختیار حاصل ہے) آپ ہرجگہ ?حاضر و ناظر? ہیں، اسی طرح بعض وہ عقیدہ رکھتے ہیں جو قرآن کی نصوص صریحہ کے خلاف ہے، مثلاً آپ کی بشریت کا انکار کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ رہا بریلوی حضرات کا یہ کہنا کہ علمائے دیوبند اور وہابی حضرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف بڑے بھائی کا درجہ دیتے ہیں، محض افتراپردازی اور بہتان تراشی ہے۔ علمائے دیوبند نے ان تمام عقائد سے اپنی برأت ظاہر کی ہے۔ اور واضح کیا ہے کہ ان کا عقیدہ وہی ہے جو اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے۔ فقط
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی
جمع شدہ فتاوی مسلک دارالعوام دیوبند
United Kingdom
سوال # 102
محترم المقام السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
لوگ کہتے ہیں کہ چار انبیاء علیہم السلام زندہ ہیں ؛ جن میں دو آسمانوں میں ہیں:حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت ادریس علیہ السلام ، جب کہ دو اسی دنیا میں ہیں: حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت الیاس علیہ السلام۔ کیا یہ بات صحیح ہے ؟ نیز، مہربانی فرماکرکیا اس کی وضاحت فرمائیں گے کہ حضرت خضر و حضرت الیاس علیہما السلام کہاں ہیں؟
شکریہ! والسلام
Published on: Mar 29, 2007
جواب # 102
بسم الله الرحمن الرحيم
(فتوی: ۱۷۶/ب)
تحقیق یہ ہے کہ صرف ایک نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں اور آسمان پر موجود ہیں، حضرت ادریس علیہ السلام کے بارے میں جس آیت سے آسمان پر اٹھائے جانے کا مفہوم نکلتا ہے اس سے مراد رفعت مکانی ہے؛ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کے مرتبہ کو بلند فرمایا۔ حضرت الیاس علیہ السلام کے بارے میں زندہ ہونے کی کوئی آیت یا حدیث ہماری نظر سے نہیں گذری۔ حضرت خضر علیہ السلام، صحیح قول کے مطابق وہ نبی نہ تھے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی
جمع شدہ فتاوی مسلک دارالعوام دیوبند
@jamashuda
سوال # 102
محترم المقام السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
لوگ کہتے ہیں کہ چار انبیاء علیہم السلام زندہ ہیں ؛ جن میں دو آسمانوں میں ہیں:حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت ادریس علیہ السلام ، جب کہ دو اسی دنیا میں ہیں: حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت الیاس علیہ السلام۔ کیا یہ بات صحیح ہے ؟ نیز، مہربانی فرماکرکیا اس کی وضاحت فرمائیں گے کہ حضرت خضر و حضرت الیاس علیہما السلام کہاں ہیں؟
شکریہ! والسلام
Published on: Mar 29, 2007
جواب # 102
بسم الله الرحمن الرحيم
(فتوی: ۱۷۶/ب)
تحقیق یہ ہے کہ صرف ایک نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں اور آسمان پر موجود ہیں، حضرت ادریس علیہ السلام کے بارے میں جس آیت سے آسمان پر اٹھائے جانے کا مفہوم نکلتا ہے اس سے مراد رفعت مکانی ہے؛ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کے مرتبہ کو بلند فرمایا۔ حضرت الیاس علیہ السلام کے بارے میں زندہ ہونے کی کوئی آیت یا حدیث ہماری نظر سے نہیں گذری۔ حضرت خضر علیہ السلام، صحیح قول کے مطابق وہ نبی نہ تھے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی
جمع شدہ فتاوی مسلک دارالعوام دیوبند
@jamashuda
قرآن خوانی کے لئے طلبہ کو جمع کرنا اور ان کی دعوت کرنا
سوال:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: ایک شخص کا انتقال ہو گیا، اس کے گھر والے اگلے روز قرآن خوانی کرادیتے ہیں، اس کے بعد کھانے کا انتظام کرتے ہیں، مدرسہ کے طلباء کی دعوت کرتے ہیں اور رشتہ داروں کی اور محلہ والوں کی دعوت کرتے ہیں، تو یہ کھانا درست ہے یا نہیں؟ جواب دینے کی زحمت فرمائیں۔
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: میت کے گھر قرآن خوانی کے لئے کھانے کا انتظام کرنا اور اس کے لئے طلبہ کو جمع کرنامکروہ اور بدعت ہے؛ البتہ نفس کھانا حلال ہے۔
نیز بلاکسی التزام کھانا یا شیرینی وغیرہ کے قرآن کریم پڑھ کر ایصال ثواب کر دینا جائز و مستحب ہے، اسی طرح کسی دن یا وقت کے لازم کیے بغیر بلا قرآن خوانی کے کھانا کھلانا بھی جائز ہے۔
ویکرہ اتحاذ الضیافۃ من الطعام من أھل المیت؛ لأنہ شرع في السرور، لافي الشرور، وہی بدعۃ مستقبحۃ (إلی قولہ)ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول، والثاني، وبعد الأسبوع۔ونقل الطعام إلی القبر في المواسم، واتخاذ الدعوۃ لقراء ۃ القرآن، وجمع الصلحاء، والقراء للختم، أو لقراء ۃ سورۃ الأنعام، أوالإخلاص۔ (فتاوی شامي، کتاب الصلوۃ، باب صلوۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت زکریا ۳/۱۴۸، کراچی ۲/۲۴۰)
ونقل الطعام إلی المقبرۃ في المواسم، واتخاذ الدعوۃ لقراء ۃ القرآن، وجمع الصلحاء، والقراء للختم۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، کتاب الصلوۃ، قبیل فصل في زیارۃ القبور،مکتبہ دارالکتاب:۶۱۷)(فتاوی قاسمیہ۱۱۶/۴)
فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی
جمع شدہ فتاوی مسلک دارالعوام دیوبند
سوال:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: ایک شخص کا انتقال ہو گیا، اس کے گھر والے اگلے روز قرآن خوانی کرادیتے ہیں، اس کے بعد کھانے کا انتظام کرتے ہیں، مدرسہ کے طلباء کی دعوت کرتے ہیں اور رشتہ داروں کی اور محلہ والوں کی دعوت کرتے ہیں، تو یہ کھانا درست ہے یا نہیں؟ جواب دینے کی زحمت فرمائیں۔
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: میت کے گھر قرآن خوانی کے لئے کھانے کا انتظام کرنا اور اس کے لئے طلبہ کو جمع کرنامکروہ اور بدعت ہے؛ البتہ نفس کھانا حلال ہے۔
نیز بلاکسی التزام کھانا یا شیرینی وغیرہ کے قرآن کریم پڑھ کر ایصال ثواب کر دینا جائز و مستحب ہے، اسی طرح کسی دن یا وقت کے لازم کیے بغیر بلا قرآن خوانی کے کھانا کھلانا بھی جائز ہے۔
ویکرہ اتحاذ الضیافۃ من الطعام من أھل المیت؛ لأنہ شرع في السرور، لافي الشرور، وہی بدعۃ مستقبحۃ (إلی قولہ)ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول، والثاني، وبعد الأسبوع۔ونقل الطعام إلی القبر في المواسم، واتخاذ الدعوۃ لقراء ۃ القرآن، وجمع الصلحاء، والقراء للختم، أو لقراء ۃ سورۃ الأنعام، أوالإخلاص۔ (فتاوی شامي، کتاب الصلوۃ، باب صلوۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت زکریا ۳/۱۴۸، کراچی ۲/۲۴۰)
ونقل الطعام إلی المقبرۃ في المواسم، واتخاذ الدعوۃ لقراء ۃ القرآن، وجمع الصلحاء، والقراء للختم۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، کتاب الصلوۃ، قبیل فصل في زیارۃ القبور،مکتبہ دارالکتاب:۶۱۷)(فتاوی قاسمیہ۱۱۶/۴)
فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی
جمع شدہ فتاوی مسلک دارالعوام دیوبند
ایک مسجد میں روپئے دینے کی نذر مان کر دوسری مسجد میں دینا
سوال:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں : ایک شخص نے منت مانی کہ اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو میں فلاں مسجد میں سو روپئے دوں گا اس شخص کا کام ہو گیا اب اس شخص نے مسجد متعین کے بجائے دوسری مسجد میں سو روپئے دیدئیے، اور دوسری مسجد زیادہ حقدار ہے پہلی مسجد کی بنسبت، تو اس طرح منت پوری ہوئی یا نہیں ؟
یا اگر مسجد کے بجائے کسی غریب مستحق زکوٰۃ کو سو روپئے دیدئیے تو منت پوری ہوئی یا نہیں ؟ ان دونوں جزئیوں کا مدلل جواب مرحمت فرمائیں ۔
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
دوسری مسجد میں روپئے دینے سے منت پوری ہو گئی کیونکہ جس مسجد کی تعیین کی ہے وہ لازم نہیں ہے، اسی طرحمسجد کے بجائے کسی غریب کو دیدینے سے بھی منت پوری ہو گئی۔ (مستفاد: احسن الفتاویٰ ۵/۴۸۰، فتاویٰ محمودیہ قدیم ۱۴/۳۱۸-۳۱۹، جدید ڈابھیل ۱۴/۷۴)(فتاوی قاسمیہ۸۶/۱۷)
قال الشامی تحت قولہ (فإنہ لا یجوز تعجیلہ الخ) وکذا یظہر منہ أنہ لا یتعین فیہ المکان والدرہم والفقیر۔ (شامی، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم و مالایفسد، زکریا ۳/۴۲۴، کراچی ۲/۴۳۷)
وإن کان مقیدا بمکان بأن قال للہ تعالیٰ علی أن أصلی رکعتین فی موضع کذا، أو أتصدق علی فقراء بلد کذا، یجوز أداؤہ فی غیر ذٰلک المکان عند أبی حنیفۃ و صاحبیہ لأن المقصود من النذر ہو التقرب إلی اللہ عز وجل ولیس لذات المکان دخل فی القربۃ۔ (الفقہ الاسلامی و أدلتہ، ہدی انٹرنیشنل دیوبند ۳/۴۸۴، دار الفکر ۴/ ۲۵۶۸)
فقط وﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی
#جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
سوال:
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں : ایک شخص نے منت مانی کہ اگر میرا فلاں کام ہو گیا تو میں فلاں مسجد میں سو روپئے دوں گا اس شخص کا کام ہو گیا اب اس شخص نے مسجد متعین کے بجائے دوسری مسجد میں سو روپئے دیدئیے، اور دوسری مسجد زیادہ حقدار ہے پہلی مسجد کی بنسبت، تو اس طرح منت پوری ہوئی یا نہیں ؟
یا اگر مسجد کے بجائے کسی غریب مستحق زکوٰۃ کو سو روپئے دیدئیے تو منت پوری ہوئی یا نہیں ؟ ان دونوں جزئیوں کا مدلل جواب مرحمت فرمائیں ۔
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
دوسری مسجد میں روپئے دینے سے منت پوری ہو گئی کیونکہ جس مسجد کی تعیین کی ہے وہ لازم نہیں ہے، اسی طرحمسجد کے بجائے کسی غریب کو دیدینے سے بھی منت پوری ہو گئی۔ (مستفاد: احسن الفتاویٰ ۵/۴۸۰، فتاویٰ محمودیہ قدیم ۱۴/۳۱۸-۳۱۹، جدید ڈابھیل ۱۴/۷۴)(فتاوی قاسمیہ۸۶/۱۷)
قال الشامی تحت قولہ (فإنہ لا یجوز تعجیلہ الخ) وکذا یظہر منہ أنہ لا یتعین فیہ المکان والدرہم والفقیر۔ (شامی، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم و مالایفسد، زکریا ۳/۴۲۴، کراچی ۲/۴۳۷)
وإن کان مقیدا بمکان بأن قال للہ تعالیٰ علی أن أصلی رکعتین فی موضع کذا، أو أتصدق علی فقراء بلد کذا، یجوز أداؤہ فی غیر ذٰلک المکان عند أبی حنیفۃ و صاحبیہ لأن المقصود من النذر ہو التقرب إلی اللہ عز وجل ولیس لذات المکان دخل فی القربۃ۔ (الفقہ الاسلامی و أدلتہ، ہدی انٹرنیشنل دیوبند ۳/۴۸۴، دار الفکر ۴/ ۲۵۶۸)
فقط وﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی
#جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند