جمع شدہ فتاوی مسلک دارالعلوم دیوبند
1.33K subscribers
114 photos
36 files
684 links
"جمع شدہ فتاوی مسلک دارالعلوم دیوبند" میں روزانہ ایک دو مسئلہ مدلل ومزین انداز میں بطورِ استفادہ آپ کو ملے گا،

آپ خود بھی شامل ہو اور اپنے دوست واحباب کو بھی شامل کریں۔
شکریہ۔
چینل کالنک۔
https://telegram.me/jamashuda

https://www.hanafimasail.com/?m=1
Download Telegram
جواب نمبر:2⃣2⃣


indiaسوال # 145887
آج کل لوگ بلا التزام نماز عیدین کے بعد مصافحہ و معانقہ کرتے ہیں جب کہ یہ طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم سے بالکل ثابت نہیں ہے لہٰذا یہ مکروہ اور بدعت ہے ۔
حوالہ :۱۔ وما آتاکم الرسول فخذوہ وما نہٰکم عنہ فانتہوا۔ سورہ حشر: آیت /۷۔
حوالہ: ۲۔ وفی الکشف الاجود انت تکون امانتا فی کل ما امربہ صلی اللہ علیہ وسلم نہی عنہ جلد : ۱۵ ، صفحہ: ۷۱۔
حوالہ :۳۔ تفسیرقشیری : ہذا اصل من اصولی وجوب مطابعتہ و لزوم طریقتہ و سیرتہ جلد:۳۔ صفحہ /۳۰۴۔
حوالہ :۴۔ صحیح مسلم و سنن نسائی: وشر الأمور محدثاتہا وکل بدعت ضلالة الحدیث، جلد:۱، صفحہ : ۲۸۵، سنن نسائی، جلد :۱، صفحہ: ۵۵۰۔
حوالہ: ۵۔ ردالمختار : أنہ تکرہ مصافحت بعد اداء الصلوة بالکل حلال للناس صحابہ الخ۔
حوالہ:۶۔ علامہ شامی نے لکھا ہے کہ یہ رافضیوں کا طریقہ ہے۔ درمختار جلد:۱، صفحہ: ۴۶۵۔
حوالہ: ۷۔ امداد الفتاوی جلد: ۵، صفحہ: ۲۶۰۔ کتاب البدعت مرقاة المفاتیح ، جلد:۸، صفحہ: ۴۹۴۔
حوالہ:۸۔ احسن الفتاوی، جلد: ۱،صفحہ: ۳۵۳۔
حوالہ:۹۔ فتوی حقانیہ جلد: ۲ ، صفحہ: ۵۲۔
حوالہ: ۱۰۔ فتوی محمودیہ، جلد: ۳، صفحہ: ۱۴۳۔
نوٹ: یہ مصافحہ و معانقہ کرنا عیدگاہ پر بدعت یا مکروہ ہے یا اس کے علاوہ جگہوں پر بھی؟
دارالافتاء دیوبند کے مفتیان کی دستخط کی ضرورت ہے۔
Published on: Jan 8, 2017 جواب # 145887
بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa ID: 135-267/Sn=4/1438





مصافحہ اور معانقہ کی عید کے دن یا عید کی نماز کے ساتھ کوئی تخصیص نہیں ہے، یہ تو ابتدائے ملاقات کے وقت مطلقاً سنت ہے؛ لہٰذا تخصیص کے خیال سے جو مصافحہ یا معانقہ کیا جائے گا وہ بدعت اور مکروہ قرار پائے گا خواہ عیدگاہ میں کیا جائے یا عیدگاہ سے باہر، جیسے بہت سے لوگ ایک ساتھ عیدگاہ آتے ہیں اور اس وقت کوئی مصافحہ یا معانقہ نہیں کیا جاتا؛ لیکن جب نماز سے فارغ ہوتے ہیں تب مصافحہ اور معانقہ کرتے ہیں یہ بدعت اور مکروہ ہے؛ باقی اگر عید کے دن یا عید کی نماز کے بعد کسی سے ایک مدت کے بعد ملاقات ہو اور دونوں آپس میں مصافحہ اور معانقہ کرلیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ امداد الفتاوی میں ہے: ”مصافحہ کردن مطلقاً سنت ست بوقتے خاص مخصوص نیست پس تخصیص آں بروز جمعہ وعیدین وبعد نماز پنجگانہ وتراویح بے اصل است؛ ہاں اگر در ہمیں اوقات یکے بعد مدتے ملاقات شود باد مصافحہ کردن مضائقہ ندارد نہ کہ از خانہ یا مسجد یا عیدگاہ ہمراہ آیند وپس از نماز مصافحہ ومعانقہ کنند“۔ (امداد الفتاوی، ۵/ ۲۶۹، ط: کراچی، سوال: ۱۴۵)


------------------------------------------


جواب صحیح ہے البتہ مزید یہ عرض ہے کہ اگر کسی سے نماز کے بعد ہی ملاقات ہو تو اس سے مصافحہ ومعانقہ کرنا فی نفسہ جائز ہے جیسا کہ امداد الفتاوی کے حوالہ سے فتوی میں تحریر کیا گیا ہے لیکن تشبہ بالبدعة اور اس کی تائید کا ذریعہ ہونے کی وجہ سے اس سے بھی اجتناب چاہیے۔ (احسن الفتاوی ۱:۳۵۴، مطبوعہ: ایم ایم سعید کراچی) نیز اگر علماء حضرات کریں گے تو عوام ان کے عمل سے جواز پر استدلال کرے گی؛ اس لیے عیدگاہ یا مسجد میں نہ کرے، گھر وغیرہ پہنچ کر کرلے۔(ن)


واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند



محمد امیر۔۔۔۔۔


@jamashuda
جواب نمبر:3⃣2⃣

سوال:
امدادالفتاوی جلداول صفحہ ۹۳ میں یہ مسئلہ لکھا ہے کہ تراویح میں قعدہ اولی کوسہواً ترک پرسجدہ سہو کے بعد چارہی محسوب ہوں گی اور قاضی خان کی عبارت سے استدلال کیاہے،حالانکہ کبیری ہندوستانی مطبع ص ۳۹۰ میں ہے وان صلی اربع رکعات بتسلیمۃ واحدۃ ولم یقعد علیٰ رکعتین تجزی عن تسلیمۃ واحدۃ وہوالمختار قال قاضی خان وہوالصحیح وقال ابو اللیث تنوب عن تسلیمتین والصحیح انتہیٰ مختصراً اور طحطاوی مراقی الفلاح ۲۲۵ میں ہے ویسلم علی کل رکعتین فاذاوصلہاوجلس علی کل شفع فالا صح انہ ان تعمدذلک کرہ وصحت واجزاتہ عن کلہاواذالم یجلس الافی آخراربع نابت عن تسلیمۃ اس پرطحطاوی نے ایک خلجان بھی کیا ہے ، مگرکچھ وقیع نہی،بالجملہ اس کی تحقیق حضرت مولانا سے مراجعت کے بعدفرمادیں، انتطار ہے، اب تک کبیری وغیرہ ہی پرعامل تھا، مگرفتاویٰ کی عبارت سے تردد میں پڑ گیا،

(السائل محمدذکرکاندھلوی،)

الجواب:
مکرمی المحترم السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ، بجواب مسئلہ عرض ہے کہ فتاویٰ قاضی خان کی عبارت میں نے دیکھی، اس میں بھی آگے چل کر دوسرے ہی قول کوصحیح لکھا ہے ،جیساکہ کبیری وطحطاوی حاشیہ مراقی الفلاح میں ہے،

قال قاضی خان وقال الفقیہ ابوجعفروالشیخ الامام ابوبکر محمدبن الفضلؒ فی التراویح ینوب الاربع عن تسلیمۃ واحدۃ وھو الصحیح لان القعدۃ علیٰ رأس الثانیۃ فرض فی التطوع فاذا ترکھا کان ینبغی ان تفسدصلوٰتہ اصلاکماھووجہ القیاس وانماجازاستحسانافاخذنابالقیاس وقلنابفسادالشفع الاول واخذنا بالاستحسان فی حق بقاء التحریمۃ واذا بقیت التحریمۃ صح شروعہ فی الشفع الثانی وقداتمھا بالقعدۃ فجازعن تسلیمۃ واحدۃ وعن ابی بکر الاسکاف ، الخ فذکرنحوہ، ص۱۱۵، میں نے یہ عبارت حضرت مولانا کو بھی دکھلائی فرمایا کہ میرامعمول تو عرصہ سے دوسرے ہی قول پرفتوی دینے کا ہے، کہ یہ چار قائم مقام دو کے ہوں گی، جیسا کہ کلام مشائخ سے اس کی ترجیح طاہرہوتی ہے،لیکن امداد الفتاویٰ کا جواب غالباً اس بناء پر ہے کہ آج کل طبائع میں کسل غالب ہے، اگرچار کو قائم مقام تسلیمۃ واحدۃ کے مان کردو رکعت کا اعادہ کیاجائے گا تو وہ اعادہ مع اس مقدار قرآن کے ہوگا، جو ان رکعتوں میں پڑھا گیا ہے اور بعض دفعہ ان دو رکعتوں میں بہت زیادہ مقدار تلاوت کی جاچکی ہے، ان کا اعادہ مع مقدار تلاوت نمازیوں پر بہت گراں ہوتا ہے حتیٰ کہ فرماتے تھے کہ میں نے بعض جگہ اس پرلڑائی ہوتے ہوئے دیکھا ہے، اس لیے تسہیل عوام کے لحاظ سے امداد الفتاویٰ میں فقیہ ابو اللیث کے قول پر میں نے اکتفاء کیاکہ جب مسئلہ میں دو قول موجود ہیں اور ایک قول میں عوام کو سہولت ہے تو اس کو اس جہت سے ترجیح ہے، وقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم یسرولا تعسروبشراولاتنفرا، گوقواعد کے لحاظ سے دوسرا ہی قول صحیح ہے،
ھذاواللہ اعلم، پس جس جگہ دوسرے قول پرفتویٰ دینے سے لوگوں میں توحش اور تنگی کا اندیشہ ہو وہاں میرے نزدیک پہلے ہی قول پرفتویٰ دینا چاہیے،

واللہ اعلم

بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1326-323/H=10/1434

صورتِ مسئولہ میں پہلی دو رکعت فاسد ہوگئیں آخری دو رکعت درست ہوگئیں، پہلی دو رکعت میں پڑھا ہوا قرآنِ کریم اسی دن کی تراویح میں اور اگر اس دن کی تراویح میں نہ ہوسکے تو اگلے دن کی تراویح میں لوٹالیں، اصل یہ ہے کہ دو رکعت پر جب قعدہ نہ کیا اور تیسری رکعت کا سجدہ کرلیا تو راجح یہ ہے کہ شفعہٴ اولی فاسد ہوگیا، مگر شفعہٴ ثانیہ کی بناء کے حق میں تحریمہ باقی رہتا ہے یعنی دوسرے شفعہ کی بناء صحیح ہوجاتی ہے، فتاوی قاضی خان فتاوی بحر الرائق وغیرہ میں تفصیل سے ایسا ہی ثابت ہے، جب شفعہٴ ثانیہ کی بنا صحیح ہوگئی تو اس کی ادائیگی بھی درست ہوئی، اب جب کہ رمضان المبارک گذرگیا تو شفعہٴ اولی یعنی پہلی دو رکعت تراویح کی جو فاسد ہوئی تھیں ان کو فرداً فرداً بہ نیت قضاء لوٹالی جائیں اگر دو رکعت پر قعدہ کرکے پھر امام صاحب کھڑے ہوتے اور چار رکعت پوری کرلیتے تو چاروں رکعات درست ہوجاتیں۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

نوٹ:
مفتی بہ قول کے مطابق دو رکعت ہی صحیح ہوگی۔البتہ اگر فتنہ کا اندیشہ ہو تو قول ثانی پر بھی عمل کرنے کی گنجائش ہیں


واللہ اعلم

محمد امیر۔۔۔۔۔

@jamashuda
جواب نمبر:4⃣2⃣

Very very very
Important Msg

Irshad-e-Nabvi (S.A.W.W) hay k Jis shakhs ki Namazain Qaza hoi hon or taadad maloom na ho,
to wo Ramzan k akhri Juma k din
4 rakat nafal 1 salam k sath parhay,
har rakat main Surah Fatiha k baad Ayatal-kursi 7 baar, Surah Kauser 15 baar parhay,
Agar 700 saal ki namazain bi qaza hoi hon to is k kafaray k liya ye namaz kafi hai
Ye msg abi sy send krna shuro kr den ta k akhri juma sy pehly ye qemti tuhfa hr kisi ko mil jaye.



*احادیث مشہورہ کی تحقیق*


رمضان میں قضائے عمری کی چار رکعت بدعت ہے



سوال: 
ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’جس کی اپنی عمر بھر میں نمازیں فوت ہوگئی ہوں اور وہ اسے شمار نہ کرسکتا ہو تو اسے چاہیے کہ رمضان کے آخری جمعہ میں کھڑا ہو اور چار رکعات نماز ایک تشہد کے ساتھ ادا کرے، جس کی ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ اورسورۃ القدر پندرہ مرتبہ پڑھے، اسی طرح سے سورۃ الکوثر بھی۔ اور نیت کے وقت یہ کہے کہ: میں نیت کرتا ہوں چار رکعات ان تمام نمازوں کے کفارے کے طور پر جو مجھ سے فوت ہوئی ہيں۔

سیدنا ابو بکررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: یہ چار سو سال کا کفارہ ہے۔ یہاں تک کہ علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: یہ ہزار سال کا کفارہ ہیں۔ پوچھا گیا کہ جو زائد نمازیں ہيں پھر وہ کس کے کھاتے میں جائیں گی؟ فرمایا: وہ اس کے والدین، بیوی، اولاد، عزیز واقارب اور شہر کے لوگوں کے لیے ہوجائیں گی۔ پھر جب نماز سے فارغ ہو تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سو مرتبہ کسی بھی طرح کا درود بھیجے۔ پھر یہ دعاء تین مرتبہ پڑھے:

’’اللهم يا من لا تنفعك طاعتي، ولا تضرك معصيتي، تقبل مني ما لا ينفعك، واغفر لي ما لا يضرك، يا من إذا وعد وفى، وإذا توعد تجاوز وعفا، اغفر لعبد ظلم نفسه، وأسألك اللهم إني أعوذ بك من بطر الغنى وجهد الفقر، إلهي خلقتني ولم أكُ شيئًا، ورزقتني ولم أكُ شيئًا، وارتكبت المعاصي فإني مقر لك بذنوبي، إن عفوت عني فلا ينقص من ملكك شيء، وإن عذبتني فلا يزيد في سلطانك شيء، إلهي أنت تجد من تعذبه غيري، وأنا لا أجد من يرحمني غيرك، اغفر لي ما بيني وبينك، واغفر لي ما بيني وبين الناس يا أرحم الراحمين، ويا رجاء السائلين، ويا أمان الخائفين، ارحمني برحمتك الواسعة، أنت أرحم الراحمين يا رب العالمين، اللهم اغفر للمؤمنين والمؤمنات، والمسلمين والمسلمات برحمتك الواسعة، أنت أرحم الراحمين يا رب العالمين، اللهم اغفر للمؤمنين والمؤمنات، والمسلمين والمسلمات، وتابع بيننا وبينهم بالخيرات، رب اغفر وارحم وأنت خير الراحمين.. وصل الله على سيدنا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين‘‘۔


معلوم کرنا ہے کہ اس حدیث کی کیا حقیقت ہے؟


الجواب باسم ملهم الصواب :


یہ جھوٹی اور من گھڑت حدیث ہے، اس جیسی کوئی حدیث احادیث کی معتبر کتب میں موجود ہی نہيں ہے۔ جس کی نماز فوت ہوجائے تو اس پر واجب ہے کہ جیسے ہی اسے یاد آئے وہ اس کی قضاء ادا کرنے میں جلدی کرے ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’مَنْ نَامَ عَن صَلَاةٍ أَوْ نَسِيَهَا فَلْيُصَلِّهَا  إِذَا ذَكَرَهَا، لَا كَفَّارَةَ لَهَا إِلَّا ذَلِكَ ‘‘( صحيح البخاري، مواقيت الصلاة 597، صحيح مسلم، المساجد ومواضع الصلاة 684 )

ترجمہ : (جو نماز سے سویا رہ گیا یا بھول گیا تو جب اسے یاد آئے تو نماز پڑھ لے، اس کا اس کے سوا اور کوئی کفارہ نہیں)۔


ساتھ ہی اس نماز کے بعد جو دعاء ذکر ہوئی ہے اس میں بھی بعض غیر لائق عبارتیں ہيں جیسے:

’’إلهي أنت تجدُ مَن تعذّبه غيري‘‘ ( الہی! تجھے تو میرے علاوہ دوسرے مل جائیں گے عذاب دینے کے لیے )۔


فوت شدہ نمازوں کے کفارہ کے طور پر یہ جو طریقہ ( قضائے عمری) ایجاد کرلیا گیا ہے یہ بد ترین بدعت ہے اس بارے میں جو روایت ہے وہ موضوع ( گھڑی ہوئی) ہے یہ عمل سخت ممنوع ہے ، اور اس کی دین اسلام میں کوئی اصل وبنیاد نہيں اور نہ ہی اس کے ذریعے ان نمازوں کا کفارہ ادا ہوتا ہے جو آپ نے چھوڑی ہيں۔


قضائے عمری کے نام سے ایجاد کردہ نماز کے بدعتی افراد رمضان المبارک میں اس مخصوص نماز کے جھوٹے میسجز پھیلاتے ہیں، جس کی وجہ سے امت کا ایک بہت بڑا طبقہ ان کے فریب کا شکار ہو جاتا ہے، عام سادہ لوح مسلمان بھی اسے صحیح سمجھ کر اپنی زندگی بھر کی نمازیں ادا نہیں کرتے، اور اس نماز کو پڑھ لینے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ اب ہمیں قضاء شدہ نمازوں کو ادا کرنے کی ضرورت بھی نہیں رہی۔جبکہ اہل السنت والجماعت کا نظریہ بالکل الگ ہے ، وہ یہ ہے کہ قضاء شدہ نمازیں نہ تو محض توبہ سے ذمہ سے ساقط ہوتی ہیں اور نہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو چار رکعات کی مخصوص نماز کو ادا کرلینے سے ساری نمازیں ادا ہوتی ہیں۔ بلکہ قضاء شدہ نمازوں کو ادا کرنا ضروری ہے۔


دار العلوم دیوبند کا ای
ک فتوی بخصوص اس پیغام کے

فتوی(م): 47=47-1/1433

مذکورہ پیغام کی اشاعت صحیح نہیں ہے، روایت موضوع ہے، صحیح یہ ہے کہ جتنی نمازیں قضا ہوئی ہیں اگر ان کی حتمی تعداد معلوم نہیں ہے تو اندازہ کرے اور جس تعداد پر دل مطمئن ہوجائے ان سب کی قضا کرے۔


جامعہ فاروقیہ کراچی کا ایک فتوی قضائے عمری کی نماز کے متعلق :

واضح رہے کہ مذکورہ بالا قضائے عمری کا ثبوت قرآن وحدیث اور کتبِ معتبرہ میں نہیں، قضاء نمازوں کے بارے میں شریعت کا حکم تو یہ ہے کہ قضاء نماز پہلی فرصت میں ادا کرلی جائے، چاہے نماز کا وقت ہو یا نہیں(سوائے اوقاتِ مکروہ کے) ۔اسی طرح نوافل کے بجائے قضاء پڑھ لیا کرے،اور اگر کسی کا اس حالت میں انتقال ہو جائے کہ قضاء نمازیں اس کے ذمے باقی ہوں تو ہر نماز کے بدلے میں صدقہٴ فطر کی رقم کے برابر فدیہ ادا کیا جائے۔

البتہ سوال میں جو طریقہ مذکور ہے وہ غلط اور بدعت ہے اور لوگوں کو نماز کے ترک کرنے پر جریء بنانا ہے۔ اسی طرح شریعت مطہرہ پر بہتان اوراس میں دخل اندازی کے مترادف ہے،لہٰذا ایسی مہمل باتوں پر عمل اور یقین نہ کیا جائے۔اھ


امام ابن نجیم حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فالأصلُ فیہ أن کل صلوٰۃ فاتت عن الوقت بعد ثبوتِ وجوبہا فیہ فإنہ یلزم قضاؤھا۔ سواء ترکھا عمدا أو سھوا أو بسبب نومٍ ، وسواء کانت الفوائتُ قلیلۃ أو کثیرۃ۔ (البحر الرائق ج 2 ص 141)۔

ترجمہ :

اصول یہ ہے کہ ہر وہ نماز جو کسی وقت میں واجب ہونے کے بعد رہ گئی ہو ، اس کی قضاء لازم ہے خواہ انسان نے وہ نماز جان بوجھ کر چھوڑی ہو یا بھول کر ، یا نیند کی وجہ سے نماز رہ گئی ہو ۔ چھوٹ جانے والی نمازیں زیادہ ہوں یا کم ہوں ۔بہر حال قضا لازم ہے ۔


علامہ علی قاری علیہ رحمۃ الباری "موضوعات کبیر" میں کہتے ہیں:

حدیث ''من قضی صلوٰۃ من الفرائض فی اخر جمعۃ من رمضان کان ذلک جابرا لکلّ صلوٰۃ فاتتهُ فی عمرہ إلی سبعین سنۃ'' باطل قطعا لأنہ مناقض للإجماع علی أن شیئا من العبادات لاتقومُ مقامَ فائتۃ سنوات ،  ثم لا عبرةَ بنقل صاحب (النهاية) ولا بقية شُراح (الهداية) لأنهم ليسوا من المحدّثين ولا أسندوا الحديثَ إلى أحد من المخرّجين . انتهى (الاسرار الموضوعۃ فی الاخبار الموضوعہ حدیث 953 ص 242)

ترجمہ :

 حدیث '' جس نے رمضان کے آخری جمعہ میں ایک فرض نماز ادا کرلی اس سے اس کی ستر سال کی فوت شدہ نمازوں کا ازالہ ہوجاتا ہے '' یقینی طور پر باطل ہے کیونکہ اس اجماع کے مخالف ہے کہ عبادات میں سے کوئی شئے سابقہ سالوں کی فوت شدہ عبادات کے قائم مقام نہیں ہوسکتی ۔اور فرمایا :پھر "نہایہ" سمیت "ھدایہ" کے باقی شراح کی نقل کردہ عبارت غیر معتبر ہے،اس لیے کہ وہ محدثین نہیں تھے اور نہ ہی حدیث کےمخرجین میں سے کسی کی طرف سے سند بیان کی ہے۔


امام شوكانی (الفوائد المجموعة في الأحاديث الموضوعة ص 54) میں لکھتے ہیں :

هذا موضوع بلا شك ولم أجده في شيء من الكتب التي جمع مُصنفوها فيها الأحاديث الموضوعة ، ولكن اشتهر عند جماعة من المتفقّهة بمدينة صَنعاء في عصرنا هذا ، وصار كثيرٌ منهم يفعلون ذلك، ولا أدري مَن وضع لهم ، فقبّح الله الكذابين ،انتهى.

ترجمہ:

یہ روایت بلا شک من گھڑت ہے ، مجھے احادیث موضوعہ پر لکھی گئی کتابوں میں سے کسی کتاب میں  نہیں ملی ، البتہ ہمارے زمانہ میں شہر صنعاء کے بعض  فقہاء کے درمیان مشہور ہے ، بہت سے لوگ اس پر عمل کرتے ہیں ، معلوم نہیں یہ روایت کس نے گھڑی ہے ، اللہ تعالی جھوٹوں کا ناس کرے ۔


امام ابن حجر شافعی کی "تحفہ شرح منہاج للامام النووی" میں پھر علامہ زرقانی  مالکی "شرح مواہب امام قسطلانی" رحمہم ﷲ تعالٰی میں فرماتے ہیں:

وأقبح من ذلک ما اعتِید فی بعض البلاد مِن صلوٰۃ الخمس فی ھذہ الجمعۃ عَقِب صلٰوتھا زاعمین أنھا تکفّر صلٰوۃ العام أوالعمر المتروکۃ ، و ذلک حرام لوجوہٍ لا تخفی ۔ ( شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ 7/110) ۔

ترجمہ :

اس سے بھی بدتر وہ طریقہ ہے جو بعض شہروں میں ایجاد کر لیا گیا ہے کہ جمعہ کے بعد پانچ نمازیں اس گمان سے ادا کرلی جائیں کہ اس سے سال یا سابقہ تمام عمر کی نمازوں کا کفارہ ہے اور یہ عمل ایسی وجوہ کی بنا پر حرام ہے جو نہایت ہی واضح ہیں۔


اورامام لکھنوی نے اس روایت کی تحقیق میں مستقل ایک رسالہ بنام (ردع الأخوان عن مُحدَثات آخر جمعة من رمضان) مرتب کیا ہے ، اور اس میں دلائل نقلیہ وعقلیہ سے ثابت کیا ہے کہ یہ نماز باطل ہے ۔


اس کےبعدان فقہاء کےقول کا کوئی اعتبار نہیں کیا جاسکتا ہےجو کہتے ہیں کہ جوشخص نماز فوت نہ ہونے کے باوجود قضاء عمری کرتا ہے تو مکروہ نہیں کیونکہ اس نے احتیاط اختیار کی ہے ۔


بعض لوگ قضائے عمری کو شب ِقدر یا آخری جمعہ رمضان میں جماعت سے پڑھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ عمر بھر کی قضائیں اس ایک نماز سے اداہوگئیں۔ یہ سب محض باطل ہے۔



واللہ اعلم


محمد امیر۔۔۔۔۔



@jamashuda
جواب نمبر:5⃣2⃣

*رمضان کے آخری عشرہ کے اعتکاف سنت موکد علی الکفایہ ہے۔*


رمضان کے عشرۂ اخیر کے اعتکاف میں روزہ شرط ہے۔

مسئلہ:
*رمضان کے اخیر عشرہ کا اعتکاف سنتِ مؤکدہ علی الکفایہ* ہے اس میں روزہ شرط ہے اگر کسی شخص نے بغیر روزہ کے اعتکاف کیاتو اعتکاف مسنون ادا نہیں ہوگا، بلکہ یہ اعتکاف نفل ہوجائیگا، البتہ اگر کسی دن روزہ نہ رکھ سکے تو صرف اسی دن کے اعتکاف کی قضا لازم ہوگی۔
------------------------------
الحجۃ علی ما قلنا:
ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : وینقسم إلی واجب وہو المنذور وتنجیزاً وتعلیقاً وإلی سنۃ مؤکدۃ وہو في العشر الأخیر من رمضان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وأما شروطہ ، منہا الصوم وہو شرط الواجب منہ ۔ (۱/۲۱۱، کتاب الصوم ، الباب السابع في الاعتکاف)
ما في ’’ مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي ‘‘ : والاعتکاف علی ثلاثۃ أقسام : واجب في المنذور وسنۃ کفایۃ مؤکدۃ في العشر الأخیر من رمضان ۔ (ص۷۰۰، کتاب الصوم ، باب الاعتکاف ، الدر المختار مع رد المحتار:۳/۳۸۳ ، کتاب الصوم ، باب الاعتکاف)
ما في ’’ رد المحتار‘‘ : ومقتضی ذلک أن الصوم شرطاً أیضاً في الاعتکاف المسنون ، لأنہ مقدر بالعشر الأخیر حتی لو اعتکفہ بلا صوم لمرض أو سفر ، ینبغي أن لا یصح عنہ بل یکون نفلاً ، فلا تحصل بہ إقامۃ سنۃ الکفایۃ ۔۔۔۔ أما علی قول غیرہ فیقضی الیوم الذي أفسدہ لاستقلال کل یوم بنفسہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ والحاصل : أن الوجہ یقتضي لزوم کل یوم شرع فیما عندہما بناء علی لزوم صومہ ، بخلاف الباقي لأن کل یوم بمنزلۃ شفع من النافلۃ الرباعیۃ وإن کان المسنون ہو الاعتکاف العشربتمامہ ۔
(۳/۳۸۴ ۔ ۳۸۷ ، کتاب الصوم ، باب الاعتکاف) (فتاوی محمودیہ : ۱۰/۲۲۰)


واللہ اعلم

محمد امیر۔۔۔

@jamashuda
جواب نمبر:6⃣2⃣

افطار میں جلدی اور سحری میں تاخیر افضل ہے !

سوال
*قولہ علیہ السلام ثلاث من اخلاق الانبیاء تعجیل الافطار وتاخیر السحور ووضع یدہ الیمنی علی الیسریٰ تحت السرۃ فی الصلوٰۃ* (۲) بعض نادان لوگ سحری کو اٹھتے نہیں اور یونہی روزہ رکھ لیتے ہیں بعض بارہ ایک بجے کھاپی کر سو رہتے ہیں ایسا کرنا خلاف شریعت ہے یا نہیں ؟
المستفتی نظیر الدین امیر الدین (املیزہ ضلع مشرقی خاندیس )

جواب
یہ صحیح ہے کہ افطار میں آفتاب غروب ہونے کے بعد دیر نہ کرنی چاہئیے بلکہ آفتاب غروب ہوتے ہی روزہ افطار کرلینا چاہئیے (۳) اور یہ بھی صحیح ہے کہ سحری جس قدر دیر کرکے کھائی جائے بشرطیکہ صبح صادق ہونے سے پہلے کھالے تو بہتر ہے یہ دونوں باتیں حدیثوں سے ثابت ہیں (۴) بہت پہلے سحری کھالینا اچھا نہیں ہے ۔

آنحضور ﷺسحری میں تاخیر کو پسند فرماتے تھے ۔حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ آپ ؐنے فرمایا ۔ ہم انبیاء کی جماعت کو حکم دیا گیا ہے کہ ہم افطاری جلدی کریں اور سحری تأخیر سے کریں ۔اسی لئے آپؐ صحابہ کو تلقین فرماتے کہ
*عَجِِّلُواالْاِفْطَارَ وَاَخِّرُواالسُّحُوْرَ*
(ترمذی ابواب الصوم باب فی تأخیر السحور)


واللہ اعلم


محمد امیر۔۔۔۔۔


@jamashuda
جواب نمبر:7⃣2⃣

سوال # 67626
میں نے کسی بیان میں سناہے کہ افطار میں جلدی اور سحری میں کچھ منٹ تاخیر کرنی چاہئے؟کیا آپ اس بارے میں کچھ احادیث کے حوالے دے سکتے ہیں؟
Published on: Aug 11, 2016 جواب # 67626
بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa ID: 1104-1130/N=11/1437



 (۱) : افطار میں جلدی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ غروب آفتاب کا یقین ہوجانے کے بعد تاخیر نہ کی جائے اور اگر غروب آفتاب میں شک ہو تو اطمینان کے لیے شک دور ہونے تک چند منٹ کی تاخیر ضرور کرنی چاہئے ، اور آج کل چوں کہ لوگ عام طور پر جنتریوں کے مطابق افطار وسحر کرتے ہیں؛ اس لیے صحیح ومعتبر جنتری میں غروب آفتاب کا جو وقت ہو، اس سے تین چار منٹ کے بعد ہی افطار کرنا چاہئے، اس سے پہلے نہیں، قاضی خان نے جامع صغیر کی شرح میں فرمایا: آسمان میں ستاروں کے خوب واضح اور نمایاں ہونے سے پہلے پہلے اگر افطار کرلیا جائے تو یہ تعجیل مستحب ہی میں داخل ہے ۔ اور سحری میں تاخیر کا مطلب یہ ہے کہ ایک دو گھنٹہ پہلے سحری نہ کی جائے ؛ بلکہ صحیح ومعتبر جنتری کے مطابق ۳۰، ۳۵/ منٹ پہلے سحری شروع کی جائے اور ختم سحر سے آٹھ دس منٹ پہلے سحری بند کردی جائے، ویستحب السحور وتأخیرہ وتعجیل الفطر لحدیث: ”ثلاث من أخلاق المرسلین: تعجیل الإفطار وتأخیر السحور والسواک“ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ ۳: ۴۰۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ، قولہ: ”وتأخیرہ“ : لأن معنی الاستعانة فیہ أبلغ، بدائع، ومحل الاستحباب ما إذا لم یشک في بقاء اللیل، فإن شک کرہ الأکل فی الصحیح کما فی البدائع أیضاً، قولہ: ”وتعجیل الفطر“ : إلا في یوم غیم، ولا یفطر ما لم یغلب علی ظنہ غروب الشمس وإن أذن الموٴذن، بحر عن البزازیة۔ وفیہ عن شرح الجامع لقاضي خان: التعجیل المستحب قبل اشتباک النجوم (رد المحتار ) ۔

 (۲) : افطار میں جلدی کرنے کے متعلق چند احادیث یہ ہیں: عن سھل قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لا یزال الناس بخیر ما عجلوا الفطر، متفق علیہ (مشکاة المصابیح ، ص ۱۷۵) ، عن أبي ھریرة قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: قال اللہ تعالی: أحب عبادي إلي أعجلھم فطراً رواہ الترمذي (المصدر السابق) ، عن أبي ھریرة قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لا یزال الدین ظاھراً ما عجل الناس الفطر ؛ لأن الیھود والنصاری یوٴخرون رواہ أبو داود وابن ماجة ، وعن أبي عطیة قال: دخلت أنا ومسروق علی عائشة فقلنا: یا أم الموٴمنین! رجلان من أصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم أحدھما یعجل الإفطار ویعجل الصلاة والآخر یوٴخر الإفطار ویوٴخر الصلاة، قالت: أیھما یعجل الإفطار ویعجل الصلاة؟ قلنا: عبد اللہ بن مسعود، قالت: ھکذا صنع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، والآخر أبو موسی رواہ مسلم (المصدر السابق ص ۱۷۵، ۱۷۶) ، اور رہی سحری میں تاخیر کے متعلق حدیث تو اوپر نمبر: ۱ میں در مختار کے حوالے سے جو حدیث ذکر کی گئی، اس میں سحری میں تاخیر کا بھی ذکر آیا ہے ۔


واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند


Mufti Mukhtar:
@group_almasail

http://t.me/group_almasail
جواب نمبر:8⃣2⃣

Quran ko padhte waqat ya Khatm hone par chumna kiya hai?


Jawab:

Quran ko mahabbatan chumna Jayej hai!


*قرآن پڑھنے کے بعد چومنا اور آنکھ سے لگانا؟*

سوال:
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: قرآن شریف کو پڑھنے کے بعد چومنا یا آنکھ اور سینے سے لگانا جائز ہے؟

باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: قرآنِ کریم کو محبت میں چومنا اور سینے سے لگانا درست ہے۔

روي عن عمر رضي اللّٰہ عنہ أنہ کان یأخذ المصحف کل غداۃٍ ویقبّلہ، ویقول: عہد ربي ومنشور ربي عزوجل۔ وکان عثمان رضي اللّٰہ عنہ یقبل المصحف ویمسحہ علی وجہہ الخ۔ (الدر المختار مع الشامي / کتاب الحظر والإباحۃ ۶؍۳۸۴ کراچی، ۹؍۵۵۲ زکریا، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح / فصل في صفۃ الأذکار ۳۲۰، وکذا في نفع المفتي والسائل للکنوي ۱۷۶ في ضمن مجموعۃ رسائل اللکنوي ۴ إدارۃ القرآن)


فقط واللہ تعالیٰ اعلم


محمد امیر۔۔۔


@group_almasail

http://t.me/group_almasail
جواب نمبر:9⃣2⃣

السلام وعلیکم مولانا ایک مسئلہ در پیش ہے ایک آدمی مزدوری کا کا م کرتا ہے ایک ایسے آدمی کے پاس جو سودی کاروبار کرتاہے کیا اس مزدور کا اس آدمی کے پاس مزدوری لینا جائزہے یا نہیں

وعلیکم السلام

جواب:

مزدوری کرکے مزدوری کی اجرت لینا جائز ہے۔


واللہ اعلم

محمد امیر۔۔۔۔
جواب نمبر:0⃣3⃣

سوال:
ایک آدمی کی دکان میں دو لاکھ کا مال ھے ۔لیکن ایک لاکھ قرض لے کر اس نے دوسری دوکان میں مال خرید کر ڈالا ۔اور اس کا قرض ابھی تک باقی ہے ۔اب ایسا آدمی دوکان میں رکھے ہوءے دو لاکھ کی ذکوت نکالے گا یا ایک لاکھ کی ۔براءے کرم تھوڑا اچھی طرح سمجھا کر بتلائیں

سورت مسئلہ میں ایک لاکھ روپیہ پر زکوة واجب!


جوب:
دکان کی پوری مالیت سے قرض نکلنے کے بعد اگر نصاب کے برابر مالیت بچتی ہے تو اس بچت کی زکوة نکلنا واجب ہے،اور قرض نکلنے کے بعد بقدر نصاب مالیت نہیں بچتی تو زکوة واجب نہیں۔


عن السائب بن یزید ان عثمان بن عفان کان یقول: ھذا شھر زکاتکم،فمن کان علیہ دین فلیئد دینہ،حتی تحصل اموالکم فتئدو منھا الزکوة (رواہ الامام محمد فی الموطا 128)

وفی الموطا168-169 بعد ھذا الحدیث: قال محمد: وبھذا ناخذ،من کان علیہ دین،ولہ مال فلیدفع دینہ من مالہ، فان بقی بعد ذالک ما تجب فيه الزکاة ففیہ الزکاة، وتلک مئتا درھم او عشرون مثقالا ذھبا فصاعدا وانکا الذی بقی اقل من ذلک بعد ما یدفع من مالہ الدین فلیست فیہ الزکوة، وھو قول ابی حنیفة رحم اللہ تعالی(اعلاء السنن /باب من کا علیہ دین لا زکاة علیہ بقدرہ الخ9/14بیروت)

عن میمون قال:اخرج ما کان علیک من دین ثم زلی ما بقی ان کان مالہ اکثرہ من دینہ زکی الفاضل اذا بلغ نصابا۔(ھدایہ 186/1 تبیین الحقائق، کتاب الزکوة 62/2 بیروت،در مختار مع الشامی180/3 زکریا۔

ومن کان علیہ دین یحیط بمالہ، ولہ مطالب من جھة العباد سواء کان من النقود او من غیرھا، وسواء کان حالا او موجلا، فلا زکاة علیہ۔

فتح القدیر، کتاب الزکوة 160/2مصر، بہشتی زیور 23/3 آپ کے مسائل اور انکا حل 399/3،ایضاح المسائل 110

فقط واللہ اعلم۔


محمد امیر۔۔۔۔


@group_almasail

http://t.me/group_almasail
جواب نمبر:1⃣3⃣

Pakistanسوال # 54606
(1) کیا یہ بات درست ہے کہ شب برات میں خاص طور پر عبادت کرنے کے حوالے سے کسی بھی صحابی اور تا بعی کا کوئی عمل کسی حدیث یا واقعہ میں نہیں آیا ؟ اور اگر آیا ہے تو حوالے کے ساتھ اردو میں لکھ کر بتا دیں۔
(2) کیا یہ بات درست ہے کہ شوال کے چھ روزوں کی فضیلت اور اہمیت حدیث میں تو آئی ہے مگر کسی صحابی اور تا بعی سے یہ روزے ثابت نہیں اور امام مالک رحمتہ اللہ اور امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ اور دیگر تابعین شوال کے ان چھ روزوں کو بدعت کہتے تھے ؟
Published on: Aug 21, 2014 جواب # 54606
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 1331-433/L=10/1435-U

أخرج الترمذي (الصوم/ ما جاء في لیلة النصف من شعبان (رقم: ۷۳۹) وابن ماجہ إقامة الصلوات / ما جاء في لیلة النصف إلخ رقم․ ۱۳۸۹) من طریق یحیی بن أبي کثیر عن عروة عن عائشة قالت: فقدت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذات لیلة․․ فقال: إن اللہ ینزل لیلة النصف من شعبان إلی السماء الدنیا فیغفر لأکثر من عدد شعر غنم کلب، وابن ماجہ أیضا (۱۳۸۸) عن علي بن أبي طالب قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا کانت لیلة النصف من شعبان فقوموا لیلہا وصوموا نہارہا، فإن اللہ ینزل فیہا لغروب الشمس إلی سماء الدینا الحدیث․
(۲) کسی صحابی یا تابعی وغیرہ کا شوال کے چھ روزے رکھنا صراحتاً کسی اثر وغیرہ میں بندے کی نظر سے نہیں گذرا، اور جہاں تک امام ابوحنیفہ اور امام مالک وغیرہ کے اسے بدعت سے تعبیر کرنے کی بات ہے تو بندے کی نظر سے بدعت کا لفظ بھی نہیں گذرا، البتہ مکروہ کی بات ملتی ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ان چھ روزوں کو بھی رمضان کے روزوں کی طرح فرض یا واجب ہونے کا مظنہ پیدا نہ ہوجائے۔ وقال في الموٴطا: ما رأیت أحدا من أہل العلم یصومہا، قالوا: فیکرہ لئلا یظن وجوبہ․ وقال الشیخ ابن الہمام: وجہ الکراہة أنہ قد یفضي إلی اعتقاد لزومہا من العوام لکثرة المداومة․ وقال في الإعلاء: الکراہة محمولة علی احتمال سوء العقیدة لئلا یظن أنہا من الفرائض لاتصلہا برمضان․ (فتح الملہم ۳/۱۸۷ ط: اشرفیہ دیوبند) و(اعلاء السنن: ۱۷۴۹)
اور امام صاحب کی طرف کراہت کی نسبت مطلقاً کرنا درست نہیں، وقد ردّ فیہا علی ما في منظومة التباني وشرحہا من عزوہ الکراہة مطلقا إلی أبي حنیفة․ اھ (فتح الملہم: ۳/۱۷۸)

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

t.me/almasail

http://t.me/group_almasail
جواب نمبر:2⃣3⃣


قات - تاریخ و سوانح
indiaسوال # 148187
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۲۴/ گھنٹے میں کتنے قرآن پورے کرتے تھے؟
Published on: Feb 13, 2017 جواب # 148187
بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa ID: 314-308/Sd=5/1438


 حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سیرت میں یہ بات کثرت سے ملتی ہے کہ آپ کو قرآن کریم کی تلاوت اور اُس کے معانی میں غور وخوض سے خاص شغف تھا، آپ خود بھی اس کا اہتمام کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی تاکید کرتے تھے، قرآن کریم کے ساتھ خاص شغف اور تعلق کی وجہہ سے آپ کا علم بھی بہت گہرا تھا؛ البتہ یومیہ قرآن کریم کی تلاوت سے متعلق آپ کا معمول تلاش بسیار کے بعد بھی نہیں مل سکا۔


واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،دارالعلوم دیوبند

محمد امیر۔۔


@jamashuda

t.me/almasail

http://t.me/group_almasail
جواب نمبر:3⃣3⃣

مفتی محمد عارف دہلوی:
سوال # 21746

میں نے ایک کتاب میں پڑھا کہ اگر کسی کی ایک نماز چھوٹ جائے تواسے نار جہنم میں ایک حقب رہنا پڑے گا جو اسی سال کی مدت ہے، کیا یہ حدیث صحیح ہے؟(۲) کیا آپ صحیح حدیث مع ترجمہ بتاسکتے ہیں جس میں یہ مذکور ہو کہ اگر کسی کی نماز چھوٹ جائے تو اسے کتنی مدت تک جہنم میں رہنا پڑے گا؟

Published on: Apr 26, 2010

جواب # 21746

بسم الله الرحمن الرحيم

فتوی(م): 628=628-5/1431


 


(۱-۲) فضائل اعمال میں حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمة اللہ علیہ نے اس مضمون کی ایک روایت مجالس الابرار کے حوالے سے ذکر کی ہے، الفاظ اس طرح ہیں: من ترک الصلاة حتی مضی وقتہا ثم قضی، عُذّب في النار حُقْبًا، والحقب ثمانون سنة والسنة ثلاثمائة وستون یومًا کل یوم کان مقدارہ ألف سنة کذا في مجالس الأبرار، اور آگے حضرت شیخ نے لکھا ہے: قلت لم أجدہ فیما عندي من کتب الحدیث إلا أن مجالس الأبرار مدحہ شیخ مشایخنا الشاہ عبدالعزیز الدھلوي رحمہ اللہ یعنی میرے پاس موجود کتب حدیث میں یہ روایت مجھے نہیں ملی، مگر یہ کہ ہمارے شیخ المشایخ شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمہ اللہ نے مجالس الابرار کی تعریف کی ہے۔


واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

محمد امیر۔۔۔۔


t.me/almasail

http://t.me/group_almasail
جواب نمبر:4⃣3⃣

Pakistan
Question: 7726

کیا روزہ کی حالت میں مشت زنی کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟ اگر کوئی شخص اس گناہ  کاارتکاب کرلے تو کیا اس کو صرف ایک روزہ کی قضا کرنی ہوگی یا اس طرح کے تمام روزوں کے لیے ساٹھ دن لگاتار کفارہ کے روزے رکھنے ہوں گے؟
Sep 25,2008
Answer: 7726

فتوی: 1168=1010/



جی ہاں! روزہ ٹوٹ جاتا ہے البتہ اس کو صرف ایک روزہ کی قضاء کرنی ہوگی، کفارہ اس پر نہیں ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند


محمد امیر۔۔۔

@jamashuda

t.me/almasail

http://t.me/group_almasail
جواب نمبر:5⃣3⃣

*حالت روزہ میں مشت زنی کا حکم*

سوال:
روزے کی حالت میں مشت زنی کرنے (استمناء بالید) سے کیا روزہ ٹوٹ جائے گا؟ اور کیا اس پر قضا و کفارہ دونوں ہوگا؟ (عبد العزیز، لکھنؤ، یوپی)

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و بااللہ التوفيق:
مشت زنی شرع اسلامی میں قطعا حرام اور ناجائز فعل ہے، حدیث مبارکہ میں ایسے شخص کو ملعون اور خدا کی رحمت سے محروم بتایا گیا ہے، نیز یہ انسانی صحت کے لئے بے حد مضر ہے، یہ چیز انسان کو کھوکھلا بناکر کسی کام کا نہیں رکھتی؛ لہذا ایسے کام کا ارتکاب عام دنوں میں بھی جائز نہیں، پھر رمضان کے مبارک مہینے میں ایسے گناہوں کا ارتکاب نہایت ہی مذموم کام ہے، اس سے بچنا از حد لازم و ضروری ہے۔

البتہ اگر کسی شخص نے مشت زنی کر ہی لی تو اگر انزال سے پہلے ہی اس نے اپنے آپ پر قابو پا لیا اور انزال نہ ہوا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا(1) اور اگر انزال ہوگیا تو پھر روزہ ٹوٹ جائے گا اور قضا واجب ہوگی؛ کفارہ نہیں۔(2)

فقط واللہ اعلم بالصواب

والدلیل علی ما قلنا

(1) ولو انكح بيده ولم ينزل أو جامع فيما دون الفرج فلم ينزل لا يفسد صومه وان انزل كان عليه القضاء دون الكفارة (الفتاوى التاتارخانية 383/3 زكريا)

(2) او استمنى بيده فأنزل قضى فقط (الدر المختار مع رد المحتار 378/3 كتاب الصوم زكريا)


محمد امیر۔۔۔۔۔

@jamashuda
t.me/almasail

http://t.me/group_almasail
جواب نمبر:6⃣3⃣

﴿ عید الفطر کی رات کے فضائل﴾

عید الفطر کی شب جسے چاند رات بھی کہا جاتا ہےعُموماً لوگ اِسے عید کی تیاریوں اور خوش گپیوں میں ضائع کردیتے ہیں حالآنکہ یہ ایک عظیم المرتبت رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے بندوں کو اُن کی رمضان بھر کی محنتوں کا صلہ دیا جارہا ہوتا ہے۔اِس شب میں عبادت کرنا اور اللہ کے سامنے کھڑا ہونا احادیثِ طیّبہ کی روشنی میں بڑا فضیلت والا عمل ہے ، اِس کی برکت سے قیامت کی ہولناکی سے حفاظت ہوتی ہے۔ اِس سلسلے کی احادیث ملاحظہ فرمائیں:

(1)عید الفطر کی رات انعام والی رات ہے :
رمضان المُبارک کے اختتام پر آنے والی شب یعنی عید الفطر کی رات ایک بہت ہی بابرکت اور اہم ترین رات ہے،جسے حدیث میں”لیلۃ الجائزہ“کہا گیا ہےیعنی انعام ملنے والی رات۔کیونکہ اِس شب میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے اپنے بندوں کو پورے رمضان کی مشقتوں اور قربانیوں کا بہترین صلہ ملتا ہے۔(شعب الایمان : 3421)
(2)اِس رات عبادت کرنے والے کا دل قیامت کے دن مردہ نہیں ہوگا :
عید الفطر کی شب کی ایک بڑی فضیلت یہ ذکر کی گئی ہے کہ اس میں عبادت کرنے والے کا دل قیامت کے دن مُردہ اور خوفزدہ نہیں ہوگا۔
حضرت ابوامامہ ﷜فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے اِرشاد فرمایا :
”مَنْ قَامَ لَيْلَتَيِ الْعِيدَيْنِ مُحْتَسِبًا لِلَّهِ لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ“ جس عیدین (عید الفطر اور عید الاضحیٰ)کی دونوں راتوں میں اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی امید رکھتے ہوئے عبادت میں قیام کیا اُس کا دل اُس دن مردہ نہیں ہوگا جس دن سب کے دل مُردہ ہوجائیں گے۔(ابن ماجہ:1782)(طبرانی اوسط:159)
(3)اس میں عبادت کرنے والے کیلئے جنت کا واجب ہونا:
حضرت معاذ بن جبل سے مَروی ہے کہ نبی کریمﷺاِرشاد فرماتے ہیں :
”مَنْ أَحْيَا اللَّيَالِيَ الْخَمْسَ وَجَبتْ لَهُ الْجنَّة لَيْلَةَ التَّرويَة وَلَيْلَةَ عَرَفَة وَلَيْلَةَ النَّحْر وَلَيْلَةَ الْفِطْرِ وَلَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَان“
جو پانچ راتوں میں عبادت کا اہتمام کرےاُس کیلئے جنّت واجب ہوجاتی ہے : لیلۃ الترویۃ یعنی 8 ذی الحجہ کی رات، لیلۃ العرفہ یعنی9ذی الحجہ کی رات ، لیلۃ النّحر یعنی10ذی الحجہ کی رات ، لیلۃ الفطر یعنی عید الفطر کی شب اورلیلۃ النّصف من شعبان یعنی شعبان کی پندرہویں شب۔(الترغیب و الترھیب: 1656)
(4)عید الفطر کی شب میں کی جانے والی دعاء رد نہیں ہوتی:
حضرت عبد اللہ بن عمر﷠سے موقوفاً مروی ہے :
”خَمْسُ لَيَالٍ لَا تُرَدُّ فِيهِنَّ الدُّعَاءَ: لَيْلَةُ الْجُمُعَةِ، وَأَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ رَجَبٍ، وَلَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، وَلَيْلَتَيِ الْعِيدَيْنِ“
پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعاء کو ردّ نہیں کیا جاتا :
جمعہ کی شب ، رجب کی پہلی شب ، شعبان کی پندرہویں شب ، اور دونوں عیدوں(یعنی عید الفطر اور عید الاضحیٰ)کی راتیں۔(مصنف عبد الرزاق :7927)
****

واللہ اعلم


محمد امیر۔۔۔۔


@jamashuda

t.me/almasail

http://t.me/group_almasail
جواب نمبر:7⃣3⃣

﴿ عید الفطرکے دن کے فضائل﴾

عید الفطر صرف ایک خوشی اور مسرّت ہی کا دن نہیں بلکہ یہ دن اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کو لوٹنے اور مغفرت کے خزانوں کو سمیٹنے کا دن ہے ، اِس لئے اِس دن کی حیثیت صرف ایک رسمی خوشی اور رَواجی مسرّت کے دن کی نہیں بلکہ یہ ایک مذہبی تہوار اور دینی و ملّی شعار کا دن ہے، اِسی لئے مسلمان اِس دن کی اِبتداء ہی اللہ کے حضور حاضر ہوکر دو رکعت کی ادائیگی کے ذریعہ کرتے ہیں۔
ذیل میں اِس کے فضائل کو ملاحظہ فرمائیں اور اِس دن کی قدر کرنے کی کوشش کریں :
(1)عید الفطر کا دن انعام ملنے والا دن ہے :
جس طرح عید الفطر کی رات کو ”لیلۃ الجائزہ“ کہا جاتا ہے اِسی طرح عید الفطر کے دن کوحدیث میں”یوم الجوائز“ ”انعامات ملنے والا دن“ کہا جاتا ہے،کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ پورے مہینے کا انعام دے رہے ہوتے ہیں۔
حضرت ابن عباس سے موقوفاً مَروی ہے :
”يَوْمُ الْفِطْرِ يَوْمُ الْجَوَائِزِ“
عید کا دن ”یوم الجَوَائِز“یعنی انعام ملنے والا دن ہے۔(کنز العمال :24540)
(2)عید الفطر مسلمانوں کا مذہبی طور پر خوشی کا دن ہے :
نبی کریمﷺکا اِرشاد ہے :
”إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا وَهَذَا عِيدُنَا“
بیشک ہر قوم کیلئے عید کا دن ہوتا ہے اور یہ ہمارا عید کا دن ہے۔(بخاری:952)

(3)اللہ تعالیٰ کی رضاء و مغفرت اور دعاء کی قبولیت کا دن :
عید الفطر کا دن اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضاء و خوشنودی ،مغفرت و بخشش اور بندوں کی دُعاؤں کی قبولیت کا دن ہے۔احادیثِ طیّبہ سے معلوم ہوتا ہےکہ عید الفطر کے دن اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بےحساب نوازتے اور اُن پر عنایات کی بارش کرتے ہیں، چنانچہ درج ذیل ایک طَویل حدیث میں اِس کی تفصیل منقول ہے، ملاحظہ فرمائیں:
نبی کریمﷺکا اِرشاد ہے:جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتے ہیں،وہ زمین میں اُتر کر تمام گلیوں،راستوں کے سروں پرکھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے جس کو جنات اور انسان کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے، پکارتے ہیں کہ اے محمد (ﷺ)کی امّت !اس کریم رب کی (درگاہ)کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطاء فرمانے والا ہے اور بڑے بڑے قصور کو معاف فرمانےوالا ہے ، پھر جب لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں :
”مَا جَزَاءُ الْأَجِيْرِ إِذَا عَمِلَ عَمَلَهُ؟“
کیا بدلہ ہے اُس مزدور کا جو اپنا کام پورا کرچکا ہو ،وہ عرض کرتے ہیں : ہمارے معبود اور ہمارے مالک! اُس کا بدلہ یہی ہےکہ اُس کی مزدوری پوری پوری دیدی جائے، تو اللہ تعالیٰ اِرشاد فرماتے ہیں:
”فَإِنِّي أُشْهِدُكُمْ يَا مَلَائِكَتِي! أَنِّي قَدْ جَعَلْتُ ثَوَابَهُمْ مِنْ
صِيَامِهِمْ شَهْرَ رَمَضَانَ وَقِيَامَهُ رِضَائِي وَمَغْفِرَتِي“
اے فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں میں نے اُن کو رمضان کے روزوں اورتراویح کے بدلہ میں اپنی رضا اور مغفرت عطاء کردی ۔
پھر بندوں سے خطاب کرتے ہوئے اِرشاد ہوتا ہے:
”يَا عِبَادِي سَلُونِي فَوَعِزَّتِي وَجَلَالِي لَا تَسْأَلُونِي الْيَوْمَ شَيْئًا فِي جَمْعِكُمْ لِآخِرَتِكُمْ إِلَّا أَعْطَيْتُكُمْ، وَلَا لِدُنْيَاكُمْ إِلَّا نَظَرْتُ لَكُمْ فَوَعِزَّتِي لَأَسْتُرَنَّ عَلَيْكُمْ عَثَرَاتِكُمْ مَا رَاقَبْتُمُونِي،فوَعِزَّتِي لَا أَخْزِيكُمْ وَلَا أَفْضَحُكُمْ بَيْنَ يَدَيْ أَصْحَابِ الْحُدُودِ، انْصَرِفُوا مَغْفُورًا لَكُمْ قَدْ أَرْضَيْتُمُونِي وَرَضِيتُ عَنْكُمْ“
اے میرے بندو! مجھ سے مانگو ، میری عزّت کی قسم ، میرے جلال کی قسم !آج کے دن اپنے اس اجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کروگےوہ میں عطاء کروں گااور جو اپنی دنیا کے بارے میں سوال کروگے اُس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا ،میری عزت کی قسم ! جب تک تم میرا خیال رکھوگےمیں تمہاری لغزشوں پر ستاری کرتا رہوں گا (اور ان کو چھپاتا رہوں گا )میری عزّت کی قسم! اور میرے جلال کی قسم!میں تمہیں مجرموں (اور کافروں)کے سامنے رسوا اور ذلیل نہ کروں گا ، بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ، تم نے مجھے راضی کردیا اور میں تم سے راضی ہوگیا ۔
پس فرشتے اس اجرو ثواب کو دیکھ کر جو امّت کو افطار کے دن( رمضان کے ختم ہونے کے دن )ملتا ہے ،خوشیاں مناتے ہیں اورخوش ہو جاتے ہیں۔
(شعب الایمان : 3421)
ـــــــــــ٭٭٭ـــــــــــــ


واللہ اعلم


محمد امیر۔۔۔

@jamashuda
t.me/almasail

http://t.me/group_almasail
جواب نمبر:8⃣3⃣

عید الفطر یا عید الاضحی کے دن زیارتِ قبور
مسئلہ(۵): عید الفطر اور عید الاضحی کا دن مسرت اور خوشی کا دن ہوتا ہے(۱)، بسا اوقات مسرت میں لگ کر آخرت سے غفلت ہوجاتی ہے، اور زیارتِ قبور سے آخرت کی یاد آجاتی ہے، یا کسی کو اِس خوشی کے موقع پر اپنے مرحوم والدین کی یاد آجاتی ہے، اس لیے اگر کوئی شخص عید الفطر اور عید الاضحی کے دن زیارتِ قبور کے لیے جائے، تو یہ جائز اور درست ہے(۲)، بشرطیکہ اِس عمل کو لازم یا مسنون نہ سمجھا جائے، اور نہ اِس کا ایسا التزام ہو، جس سے دوسروں کو شبہ ہو کہ چیز لازم اور ضروری ہے، نیز اگر کوئی شخص اِس دن زیارتِ قبور کے لیے نہ جائے، تو اُس پر طعن یا اس کی ملامت بھی نہ کی جائے، ورنہ یہ عمل بدعت ہوگا۔(۳)
------------------------------
الحجۃ علی ما قلنا :
=(۱) ما في ’’ صحیح البخاري ‘‘ : عن عائشۃ رضي اللہ عنہا قالت : دخل أبو بکر وعندي جاریتان من جواري الأنصار تغنیان ۔۔۔۔۔ وذلک في یوم عید فقال رسول اللہ ﷺ : ’’ یا أبا بکر ! إن لکل قوم عیدًا ، وہذا عیدنا ‘‘ ۔ (۱/۱۳۰، کتاب العیدین ، باب سنۃ العیدین لأہل الإسلام ، صحیح مسلم :۱/۲۹۱، کتاب العیدین)
ما في ’’ عمدۃ القاري ‘‘ : ان یوم العید یوم انبساط وانشراح یغتفر فیہ ما لا یغتفر في غیرہ ۔
(۶/۳۸۷ ، کتاب العیدین ، باب الحِراب والدَّرق یوم العید)
(۲) ما في ’’ مشکوۃ المصابیح ‘‘ : عن ابن مسعود أن رسول اللہ ﷺ قال : ’’ کنتُ نہیتُکم عن زیارۃ القبور ، فزوروہا ، فإنہا تُزہد في الدنیا وتذکر الآخرۃ ‘‘ ۔ رواہ ابن ماجۃ ۔
(ص/۱۵۴، کتاب الجنائز ، باب زیارۃ القبور ، الفصل الثالث ، الرقم :۱۷۶۹)
(۳) ما في ’’ مجموعۃ رسائل اللکنوي ‘‘ : فکم من مباح یصیر بالالتزام من غیر لزوم ، والتخصیص من غیر مخصص مکروہا ۔
(۳/۴۹۰ ، سباحۃ الفکر في الجہر بالذکر ، الباب الأول ، الثاني والأربعون)
ما في ’’ مرقاۃ المفاتیح ‘‘ : من أصر علی أمر مندوب وجعلہ عزمًا ولم یعمل بالرخصۃ فقد أصاب منہ الشیطان من الاضلال فکیف من أصر علی بدعۃ أو منکر ۔
(۳/۲۶، باب الدعاء في التشہد ، الفصل الأول ، تحت الرقم :۹۴۶)
(فتاویٰ محمودیہ:۱۲/۵۵۶، میرٹھ، فتاویٰ بنوریہ، رقم الفتویٰ: ۱۶۲۵۶)

واللہ اعلم

محمد امیر۔۔۔
@jamashuda
t.me/almasail

http://t.me/group_almasail
جواب نمبر:9⃣3⃣

عید الفطر کی نماز دیر سے اور عید الاضحی کی جلدی پڑھنے کا ثبوت

سوال
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: عید الفطر کی نماز دیر سے اور عید الاضحی کی نماز جلدی سے پڑھنے کا ثبوت ہے یا نہیں؟

باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:احادیثِ شریفہ اور حضراتِ فقہاء کی تصریحات میں عید الفطر میں قدرے تاخیر کو مستحب کہا ہے؛ تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ بآسانی جماعت میں شرکت کرسکیں، اس کے بالمقابل عیدالاضحی کی نماز جلدی پڑھنا افضل ہے؛ تاکہ قربانی کا عمل جلد از جلد انجام دیا جاسکے۔
عن یزید بن ضمیر الرجني قال خرج عبد اللّٰہ بن بشر صاحب رسول اللّٰہ ا مع الناس في یوم عید فطر أو أضحی فأنکر إبطاء الإمام فقال إنا کنا قد فرغنا ساعتنا ہٰذہ وذٰلک حین التسبیح۔ (سنن أبي داؤد ۱؍۱۶۱، سنن ابن ماجۃ ۹۳)
أخرج البیہقي في السنن الکبریٰ وعبد الرزاق في مصنفہ: عن أبي الحویرث أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کتب إلی عمرو بن حزم وہو بنجران: عجّل الأضحی وأخّر الفطر، وذکّر الناس۔ (سنن الکبریٰ للبیہقي، صلاۃ العیدین / باب الغدو إلی العیدین ۵؍۵۹ رقم: ۶۲۴۲، المصنف لعبد الرزاق / باب خروج من مضی والخطبۃ وفي یدہ عصا ۳؍۲۸۶ رقم: ۵۶۵۱)
عن محمد بن علي وعامر وعطاء قالوا : لا تخرج یوم العید حتی تطلع الشمس۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ ۴؍۱۹۲ رقم : ۵۶۶۲)
والسنۃ في صلاۃ الفطر التأخیر إلی ارتفاع الشمس، والسنۃ في یوم النحر التعجیل في أداء الصلاۃ لیشتغل الناس بأمور القرابین، ولکن تعجیلاً لا یکون سبباً لحرمان المسلمین۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ / صلاۃ العیدین ۲؍۶۰۲ رقم: ۳۴۱۱ زکریا)
یستحب تعجیل صلاۃ الضحی وفي العید یؤخر الخروج قلیلاً۔ (البحر الرائق ۱؍۱۶۰) فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۸؍۴؍۱۴۲۳ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ


محمد امیر۔۔۔
@jamashuda
t.me/almasail

http://t.me/group_almasail
جواب نمبر:0⃣4⃣

عید الاضحی کی طرح عید الفطر میں بھی تکبیر تشریق کا حکم ہے؟
سوال(۱۲۰۱):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: تکبیر تشریق کو جس طرح عیدالاضحی کی نماز کے بعد پڑھنے کا حکم ہے، کیا اسی طرح عید الفطر کی نماز کے بعد بھی تکبیر تشریق پڑھی جائے گی؟ اگر پڑھنے کا حکم ہے تو کیا اس کو آہستہ پڑھا جائے یا زور سے پڑھا جائے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: عیدالفطر میں بھی تکبیر کی کثرت کا حکم ہے؛ لیکن اس کو آہستہ پڑھا جائے گا۔
قال اللّٰہ تبارک وتعالیٰ: {وَاذْکُرْ رَبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَخِیْفَۃً وَدُوْنَ الْجَہْرِ مِنَ الْقَوْلِ} [الاعراف: ۲۰۵]
أخرج الدار قطني عن عبد اللّٰہ بن عمر: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یکبر یوم الفطر من حین یخرج من بیتہ حتی یأتي المصلی۔ (سنن الدار قطني / کتاب العیدین ۲؍۳۴ رقم: ۱۶۹۸)
أخرج ابن أبي شیبۃ عن شعبۃ قال: کنت أقود ابن عباس یوم العید، فسمع الناس یکبرون، فقال: ما شأن الناس؟ قلت: یکبرون، قال: یکبرون؟ قال: یکبر الإمام؟ قلت: لا، قال: أمجانین الناس؟ (مصنف بن أبي شیبۃ / الصلاۃ، باب في التکبیر إذا خرج إلی العید ۴؍۱۹۴ رقم: ۵۶۷۶)
المراد من نفي التکبیر التکبیر بصفۃ الجہر ولا خلاف في جوازہ بصفۃ الإخفاء فأفاد أن الخلاف بین الإمام وصاحبہ في الجہر والإخفاء لا في أصل التکبیر، وقد ذکر الشیخ قاسم في تصحیحہ أن المعتمد قول الإمام۔ (شامی زکریا ۳؍۵۱)
ثم یتوجہ إلی المصلی غیر مکبر، أي لا یکبر جہراً عند أبي حنیفۃ في طریق المصلی، وقالا: یکبر کما في الأضحی، وفي الزاد: والصحیح قول أبي حنیفۃ۔ وفي النصاب: قال أکثر المشائخ: یکبر في الطریق في العیدین جمیعاً خفیۃ ولا یجہر بہا، وہو المختار وبہ نأخذ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ / باب من یجب علیہ الخروج ۲؍۶۱۷ رقم: ۳۴۳۲ زکریا) فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۴؍۲؍۱۴۲۴ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ


محمد امیر۔۔۔

@jamashuda
t.me/almasail

http://t.me/group_almasail