جمع شدہ فتاوی مسلک دارالعلوم دیوبند
1.33K subscribers
114 photos
36 files
684 links
"جمع شدہ فتاوی مسلک دارالعلوم دیوبند" میں روزانہ ایک دو مسئلہ مدلل ومزین انداز میں بطورِ استفادہ آپ کو ملے گا،

آپ خود بھی شامل ہو اور اپنے دوست واحباب کو بھی شامل کریں۔
شکریہ۔
چینل کالنک۔
https://telegram.me/jamashuda

https://www.hanafimasail.com/?m=1
Download Telegram
1391338104 Muawaza alattarawih_Risala.pdf
764.1 KB
معاوضہ علی التراویح کی شرعی حیثیت ۔
سوال
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: نماز جنازہ جب دعا ہے تو نماز کا لفظ کیوں بڑھادیا، دعاء جنازہ بھی کہہ سکتے تھے؟

باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز کا اطلاق اس لئے کیا گیا؛ کیوںکہ نماز جنازہ بہت سے مسائل میں وقتیہ نمازوں سے مشابہت رکھتی ہے، مثلاً امام ہونا، وضو ہونا، ستر عورت ہونا، درمیان میں کلام نہ کرنا وغیرہ، جب کہ محض دعا کے لئے اس طرح کوئی شرط نہیں۔

وأما الشروط التي ترجع إلی المصلي فہي شروط بقیۃ الصلاۃ من الطہارۃ الحقیقیۃ بدنا وثوباً ومکاناً، والحکمیۃ وستر العورۃ والاستقبال والنیۃ۔ وأما شروط وجوبہا فہي شروط بقیۃ الصلوات۔ (شامي ۲؍۲۰۷ کراچی، شامي / باب صلاۃ الجنازۃ ۳؍۱۰۳ زکریا)(کتاب النوازل١٠٣/٦)

فقط واللہ تعالیٰ اعلم
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی #احمد_نگر_ہوجائی_آسام #جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
تعلیم قرآن پر قیاس کرکے تراویح میں ختم قرآن پر اجرت لینا:

سوال
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: آپ کے اس ماہ کے شمارہ کا مطالعہ کیا، جس میں دو حضرات کا ذکر ہے جو تراویح سنانے کے بعد اجرت نہیں لیتے ہیں، کیا وہ دو حضرات اپنے زمانے میں قرآن کی تعلیم دے کر اجرت لیتے تھے جو آج کل آپ حضرات قرآن کی تعلیم میں اجرت لیتے ہیں، کیا آپ لئے لئے اجرت لینا درست ہے؟ 

(۲) اس پر آپ علماء کرام فرمائیں گے کہ ہم اپنے وقت کو قربان کرکے قرآن کی تعلیم دیتے ہیں، اس پر میں سوال کرتا ہوں کہ کیا حفاظ دن بھر پڑھتے نہیں اور وہ اسی پر اپنا وقت قربان نہیں کرتے؟ آپ حضرات جیسے حفاظ تو مجھے معلوم ہوا بہت کم ہوںگے جو قرآن کو یاد کئے بغیر تراویح سنانے کی ہمت رکھتے ہوں، دوسرے یہ بات کہ ہر حافظ تراویح میں ایک یاڈیڑھ گھنٹہ لگاتا ہی ہے، کیا اس میں وقت نہیں لگتا؟ 

(۳) اگر کوئی یہ کہے کہ ختم قرآن کی اجرت نہیں لیتا ہوں؛ بلکہ اپنے وقت کی اجرت لے رہا ہوں تو کیسا ہے؟ 
(۴) کوئی شخص تراویح سناتا ہے اور وہاں کے کچھ احباب اسے تحفہ میں کچھ دیتے ہیں، جن کا اس سے پہلے کچھ لینا دینا نہیں تھا، اس صورت میں کیا ان لوگوں کا اسے تحفہ دینا قرآن سنانے کے عوض میں تو نہیں ہوگا؟ 


باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم کی تلاوت ایک عبادت مقصودہ ہے، جس کا معاوضہ لینا قرآن وحدیث کی رو سے منع ہے، ارشاد خداوندی ہے: {وَلَا تَشْتَرُوْا بِآیَاتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلاً} [البقرۃ: ۴۱] اور مت خریدو میری آیتوں کے عوض تھوڑا مول۔
اور ارشاد نبوی ہے: اقرؤا القرآن ولا تأکلوا بہ۔ (ألأمصنف لأابن أبي شیبۃ ۲؍۷۷۴۲ دار الکتب العلمیۃ بیروت) یعنی قرآن پڑھو مگر اسے کمائی کا ذریعہ نہ بناؤ۔
بریں بنا تراویح میں ختم قرآن پر عوض ومعاوضہ لینے کی شرعاً اجازت نہیں دی جاسکتی، اور تعلیم وامامت میں بھی اصل حکم اور بہتر بات یہی ہے کہ اس پر معاوضہ نہ لیا جائے۔ اور حکومت اسلامی کا یہ فریضہ ہے کہ وہ ان ذمہ داریوں کو انجام دینے والوں کا وظیفہ مقرر کرے؛ لیکن جب اسلامی حکومتیں ختم ہوئیں، یا انہوں نے اپنے فرض سے غفلت برتی اور علمائے متاخرین نے یہ محسوس کیا کہ اگر معلمین وائمہ کی مالی کفالت کی راہ نہ کھولی گئی، تو دنیا سے دینی تعلیم وتعلم کا خاتمہ ہوجائے گا، تو انہوں نے با تنخواہ تعلیم دین کی اجازت دی۔ خلاصہ یہ کہ یہ اجازت ضرورۃً ہے، اس کے برخلاف تراویحمیں ختم قرآن میں ایسی کوئی ضرورت نہیں؛ اسلئے کہ تراویح میں ختم قرآن محض سنت ہے کوئی واجب یا فرض نہیں، دوسرے یہ کہ معاوضہ نہ ہونے سے قرآن پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں ہے، بلکہ مخلص سنانے والوں میں اور اضافہ ہوجائے گا۔

وعللوا ذلک بالضرورۃ، وہي خوف ضیاع الدین، وصرحوا بذلک التعلیل، فکیف یصح أن یقال: إن مذہب المتأخرین صحۃ الاستئجار علی التلاوۃ المجردۃ مع عدم الضرورۃ المذکورۃ، فإنہ لو مضی الدہر ولم یستأجر أحد أحدا علی ذلک لم یحصل بہ ضرر، بل الضرر صار في الاستیجار علیہ، حیث صار القرآن مکسبا وحرفۃ یتجر بہا، وصار القارئ منہم لایقرأ شیئا لوجہ اﷲ۔ (شرح عقود رسم المفتی ۳۸، مجموعۃ رسائل ابن عابدین ۱۴ پاکستان)

یظہر لک إن العلۃ في جواز الاستیجار علی تعلیم القرآن و الفقہ والأذان والإمامۃ ہی الضرورۃ دون ماعداہا فما لاضرورہ إلی الاستیجار علیہ (رسائل ابن عابدین ۱؍۱۶۱)

إن ما اجازہ المتأخرون إنما أجازوہ للضرورۃ ولاضرورۃ في الاستیجار علی التلاوۃ فلایجوز۔ (رسائل ابن عابدین ۱؍۱۶۸)(کتاب النوازل١٤٥/٥)

فقط وﷲ تعالیٰ اعلم 
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی #احمد_نگر_ہوجائی_آسام #جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
@jamashuda
تراویح میں قرآن مکمل کرناسنت ہے

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس بارے میں کہ آج کل خواص میں بھی یعنی وہ حضرات جو علماء اور بزرگوں سے متعلق ہیں یہ بات دیکھنے میں بکثرت آرہی ہے کہ وہ اگر تراویح پڑھتے بھی ہیں تو ختم قرآن کا اہتمام ایک دفعہ نماز تراویح میں نہیں کرتے، بلکہ بڑے تساہل کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے ،گویا ان کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں، مثلاً ایک دن افطار میں چلے گئے اور تراویح کہیں اور ادا کرلی یا ایک دن ایک قاری کے پیچھے شوق میں چلے گئے اگلے دن کسی اور مسجد میں اور اس کا بالکل اہتمام نہیں کہ قرآن شریف جو مختلف جگہوں پر پڑھا جا رہا ہے وہ ایک ساتھ نہیں چل رہا ہوتا جس کی وجہ سے ان کا ختم مکمل نہیں ہوپاتا، جب کہ بہشتی گوہر کی عبارت میں صاف اور واضح الفاظ موجود ہیں کہ ایک دفعہ ترتیب وار قرآن شریف کا ختم نماز تراویح میں سنت مؤ کدہ ہے اور اس کو کاہلی یا سستی سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔حضرات علماء سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ اس بارے میں عوام و خواص کو صحیح حکم سے مطلع فرمادیں کہ کہیں یہ بات بڑھ کر ہمارے پاکستان میں بھی بعض دوسرے ممالک کی طرح نہ ہوجائے کہ رمضان شریف بھی گزر جائے اور تراویح میں مسلمان ایک ختم قرآن سے بھی محروم رہیں اور خدانخواستہ اس کا اہتمام بالکل ختم ہی نہ ہوجائے۔


الجواب وباللہ التوفیق:
تراویح میں ایک بارقرآن کریم مکمل کرناسنت ہے،اگرکوئی شخص سستی یاکسی اوروجہ سے اس کااہتمام نہیں کرتاتووہ سنت کو ترک کرنے والاہے، لہذا جولوگ مختلف مقامات پر تراویح پڑھنے کے شوق میں یادعوتوں میں شرکت یاکسی اور بناپر قرآن کریم مکمل نہیں سنتے وہ تارک سنت ہیں ان چیزوں سے اجتناب کرکے مکمل قرآن کریم سننے کااہتمام کرنالازم ہے ۔البتہ اگرکوئی شخص مکمل قرآن کریم سننے کے بعد مختلف مقامات پر تراویح پرھتاہے تو یہ درست ہے،اسی طرح اگر دوسری جگہ تراویح پڑھنے سے قرآن کریم سننے کی ترتیب میں فرق نہ آتاہوتب بھی درست ہے۔ (البحرالرائق، 2/68،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم
دارالافتاء
جامعة العلوم الاسلامیة
علامة محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی
#جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
@jamashuda
زانی، حرام نطفہ کے بچہ کو زکوٰۃ دے تو کیا حکم ہے ؟
سوال
زید کا ایک عورت سے ناجائز تعلق تھا جس سے عورت کو حمل رہ گیا ۔ پھر باہم نکاح کر لیا۔چار ماہ بعد بچہ پیدا ہوا۔ یہ لڑکا زید کا ہے یا نہیں ، کیا زید اس کو زکوٰۃ کی رقم دے تو درست ہے ؟

الجواب وباللہ التوفیق
شادی کے چھ ماہ بعد سے پہلے بچہ کا تولد ہو تو وہ بچہ شرعاً حرامی ہے مگر جس کے نطفہ کا وہ بچہ ہے وہ شخص اس بچہ کو زکوٰۃ کی رقم نہیں دی سکتا اگر دی تو زکوٰۃ ادا نہ ہوگی ۔درمختارمیں ہے( کما لا یجوزدفع زکوۃ الزانی لو لدہ منہ) ای من الزنا (درمختار مع الشامی ج ۲ ص ۹۴ باب المصرف)(فتاوی رحیمیہ١٧٦/٧)

فقط وﷲ اعلم بالصواب
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی #جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
سوال
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: کیا مسجد کے برابر مدرسہ کے کمرہ میں الم تر کیف سے تراویح ہوسکتی ہے؟

باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا کرنا جائز تو ہے مگر مسجد کی فضیلت سے محرومی رہے گی۔

وإن صلی أحد في البیت بالجماعۃ لم ینالوا فضل جماعۃ المسجد۔ (شامي ۲؍۴۵ کراچی، ۲؍۴۹۵ زکریا)(کتاب النوازل٧٦/٥)

فقط واللہ تعالیٰ اعلم
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی #جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند

@jamashuda
رب المال کا معاملہ ختم ہونے سے قبل رأس المال لینے کا حکم


سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں : کہ زید کو اپنی ذاتی رقم سے ایک کمپنی لگانی ہے؛ جبکہ اس کمپنی میں دوا سازی کا فارمولہ عمر کا ہے، اور زید اور عمر میں یہ طے ہوگیاہے، کہ زید کا نفع ۶۰؍ فیصد ہوگا اور عمر کا نفع ۴۰؍ فیصد ہوگا؛ لیکن زید اس نفع سے پہلے اپنی وہ رقم نکالنا چاہتاہے، جو کہ کمپنی کو لگانے میں اس نے لگائی ہے، کیا زید کو اس کی اجازت ہے کہ وہ پہلے نفع سے اپنی لگائی رقم لے اور بعد میں نفع کی تقسیم طے شدہ طور پر ہو۔

باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: یہ مضاربت کی ایک شکل ہے، اور مضاربتمیں جب تک معاملہ کا سلسلہ باقی رہے گا، اس وقت تک رأس المال کا کاروبار میں لگائے رکھنا لازم ہوتاہے اور جب رأس المال نکال لیا جائے گا، تو مضاربت کا معاملہ ہی ختم ہوجاتا ہے؛ اس لئے رأس المال نکال کر وصول کرلینا، پھر اس کے بعد نفع تقسیم کرنے کی بات درست نہیں ہے، ہاں البتہ یہ اس وقت درست ہوسکتا ہے، جب معاملہ ختم کرنا طے ہوجائے۔

ومن شروطہا کون نصیب المضارب من الربح حتی لو شرط لہ من رأس المال،أو منہ ومن الربح فسدت۔ (شامي، کتاب المضاربۃ، کراچي ۵/۶۴۸، زکریا ۸/۴۳۳، البحرالرائق، زکریا ۷/۴۴۹، کوئٹہ ۷/۲۶۴)(فتاوی قاسمیہ٢٢١/٢٠)

فقط وﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی #جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
@jamashuda
ایک کا پیسہ اور دوسرے کی محنت ہو، تو کیا حکم ہے؟


سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں : کہ زید نے بکر سے ایک ہزار روپئے لئے اور طے یہ ہوا کہ میں تجارت کروں گا، نفع دونوں کے درمیان آدھا آدھا ہوگا او رشرکت جب ختم ہوگی، تو میں ایک ہزار روپیہ تمہیں واپس دیدوں گا، کیا یہ معاملہ درست ہے؟

باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: یہ شرعاً مضارت یاشرکت عنان ہے، جوبلا شبہ جائز ہے۔

المضاربۃ عقد یقع علی الشرکۃ بمال من أحد الجانبین (وقولہ) ومن شرطہا أن یکون الربح بینہما مشاعاً الخ۔ (ہدایۃ، کتاب المضاربۃ، اشرفي دیوبند ۳/۲۵۸، درمختار، کراچي ۵/۶۴۸، زکریا ۸/۴۳۳، ہندیۃ، کتاب الشرکۃ، الباب الأول، زکریا قدیم ۲/۳۰۲، جدید ۲/۳۱۱، مجمع الأنہر، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۳/۴۴۶)(فتاوی قاسمیہ٢٢٦/٢٠)

فقط وﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی #جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند

@jamashuda
سوال
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: پینٹ یا شلوار پائجامہ وغیرہ کے نیچے سے مہری (پائجامہ وغیرہ کا ٹخنوں کی طرف والا حصہ) موڑکر نماز پڑھنا کیسا ہے؟ بعض حضرات مکروہِ تحریمی کہہ کر نماز کے لوٹانے کا حکم کرتے ہیں اور مہری موڑ لینے کے مقابلہ میں اسبالِ ازار ہی کو بہتر سمجھتے ہیں۔ مہری موڑنے کو مکروہِ تحریمی اور اسبالِ ازار کو مکروہِ تنزیہی قرار دیتے ہیں؟

باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بلا عذر اسبالِ ازار مکروہِ تحریمی ہے اور مہری موڑ کر نماز پڑھنا زیادہ سے زیادہ مکروہِ تنزیہی ہے، اس لئے مکروہِ تحریمی سے بچنے کے لئے کراہتِ تنزیہی کو برداشت کیا جائے گا اور یہی حکم دیا جائے گا کہ مرد حضرا ت بہرحال ٹخنے کھول کر نماز پڑھیں۔
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ما أسبل من الکعبین من الإزار في النار۔ (سنن النسائي، الزینۃ / باب إسبال الإزار رقم: ۵۳۳۵)

عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ بینما رجل یصلي مسبلا إزارہ إذ قال لہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذہب فتوضأ - إلی قولہ - وإن اللّٰہ تعالیٰ لا یقبل صلاۃ رجل مسبل إزارہ۔ (سنن أبي داؤد، 
الصلاۃ / باب الإسبال في الصلاۃ رقم: ۶۳۸)

ویستثنی من إسبال الإزار مطلقًا ما أسبلہ لضرورۃ کمن یکون بکعبیہ جرح مثلاً یؤذیہ الذباب مثلاً إن لم یسترہ بإزارہ حیث لا یجد غیرہ۔ (فتح الباري ۱۳؍۳۱۶ بیروت)

قاعدہ۱۹:- إذا تعارض مفسدتان دوعی أعظمہما ضررا بإرتکاب أخفہما۔ (قواعد الفقہ ۵۶)

کذا في الأشباہ والنظائر تحت القاعدۃ الخامسۃ وفیہا أیضا، ثم الأصل في جنس ہٰذہ المسائل أن من ابتلیٰ ببلیتین وہما متساویان یأخذ بأیتہما شاء وإن اختلفا یختار أہونہما۔ (الأشباہ ۲۶۱ زکریا)(کتاب النوازل١٠٧/٤)(المسائل المہمہ٦٤/٤)

فقط واللہ تعالیٰ اعلم
#محمد_امیر_الدین_حنفی_دیوبندی_آسامی #جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند

@jamashuda
منہ لگاکر پینے کا حکم :
ابن حزم ظاہری : حرام ہے ۔
امام مالک رح: بلاکراہت جائز ہے ۔
ائمہ ثلاثہ رح:مکروہ تنزیہی ہے ۔(فتح الباری :10/91) (الکوکب الدری علی الترمذی :3/42)

منہ لگاکر پینےکی ممانعت کی وجوہات :
(1)پانی نظروں سے اوجھل ہوتا ہے جس کی وجہ سے بہت ممکن ہے کہ پانی میں موجود کوئی موذی چیز یا کچرا وغیرہ پانی کے ساتھ منہ میں جاسکتا ہے ، جیسا کہ منقول ہے کہ ایک شخص کے پیٹ میں اس طرح کرنے سے سانپ چلا گیا تھا ۔ شَرِبَ رَجُلٌ مِنْ سِقَاءٍ فَانْسَابَ فِي بَطْنِهِ جَانٌّ (مصنف ابن ابی شیبہ : 24127)

(2)اِس طرح سے پانی پینے کی وجہ سے مشکیزے یا بوتل وغیرہ کے منہ میں بدبو ہوجاتی ہے ، جو دوسروں کے لئے باعث اذیت ہوتا ہے ۔لِأَنَّ ذَلِكَ يُنْتِنُهُ۔(مستدرک حاکم : 7211)

(3)اِس طرح کرنے سے پانی کے گرنے اور پینے والے کے کپڑے گیلے ہونے کا قوی امکان ہوتا ہے ۔يَتَرَشَّشَ الماءُ عَلَى الشَّارِبِ لِسَعَةِ فَمِ السِّقاء.(النھایۃ لابن الأثیر :2/82)

(4)پانی پریشر کے ساتھ پیٹ میں جانے کی وجہ سے دردِ جگر ہوسکتا ہے ۔(تحفۃ الالمعی :5/230)

(5)یہ عمل معدہ کے لئے بھی نقصان دہ ہے ۔۔(تحفۃ الالمعی :5/230)

(6)اِس طرح پینے سے پھندا لگنے(سانس بند ہوجانے ) کا قوی امکان ہوتا ہے ۔(انتہاب المنن :1/223)

================================
کیا بوتل میں منہ لگاکر پینا بھی اختناث الأسقیۃ میں داخل ہے ؟

احادیث ِ طیبہ میں اگر چہ مشکیزہ میں منہ لگاکر پینے کا تذکرہ ہے لیکن اُس کی کراہت کی مندرجہ بالا وجوہات کو دیکھ کر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کراہت آجکل کی بوتلوں میں منہ لگاکر پانی پینے میں ہونی چاہیئے ۔ بالخصوص جبکہ وہ بوتل گھر ، آفس یا دوکان وغیرہ میں کئی افراد کے درمیان مشترکہ طور پر استعمال کی جارہی ہو ۔(پینے کے اسلامی آداب)

واللہ اعلم باالصواب
#محمد_امیر_الدیں_حنفی_دیوبندی
#جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند

@jamashuda 

 

  
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں : کہ بوتل سے منھ لگا کر پانی پینا کیسا ہے؟

باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بہتر صورت تو یہ ہے کہ گلاس وغیرہ میں لے کر پانی پئے، بوتل سے منھ نہ لگائے؛ کیونکہ اس طرح پانی پینے سے دوسروں کو ناگواری ہوگی۔

عن أبي ہریرۃؓ، نہی رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم عن الشرب من فم القربۃ، أوالسقاء۔ (صحیح البخاری باب الشرب من فم السقاء، النسخۃ الہندیۃ ۲/۸۴۱، رقم: ۵۴۱۰، ف:۵۶۲۷، صحیح مسلم، باب آداب الطعام والشراب، النسخۃ الہندیۃ ۲/۱۷۳، بیت الأفکار رقم:۲۰۲۳)

عن أبي سعید الخدريؓ، قال: نہیٰ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: عن اختناث الأسقیۃ۔ (صحیح البخاري، باب اختناث الأسقیۃ، النسخۃ الہندیۃ ۲/۸۴۱، رقم:۵۴۰۹، ف:۵۶۲۵، صحیح مسلم، باب آداب الطعام والشرب، النسخۃ الہندیۃ ۲/۱۷۳، بیت الأفکار رقم:۲۰۲۳)

وربما فسد الوعاء ویتقذرہ غیرہ لما یخالط الماء من ریق الشارب فیؤل إلی إضاعۃ الماء۔ (قسطلاني، باب الشرب من فم السقاء، دارالفکر ۱۲/۴۲۱، تحت رقم الحدیث:۵۶۲۷، نووي علی ہامش مسلم۲/۱۷۳)

اور گلاس موجود نہ ہو، تو بوتل میں منھ لگا کر پانی پینے کی گنجائش ہے،آقائے نامدار اسے بوقت ضرورت مشکیزے میں منھ لگا کر پانی پینا ثابت ہے۔

عن عیسیٰ بن عبد ﷲ بن أنیس عن أبیہ قال: رأیت النبي صلی ﷲ علیہ وسلم قام إلي قربۃ معلقۃ فخنثہا، ثم شرب من فیہا۔ (ترمذي شریف، باب ماجاء في الرخصۃ ذلک، النسخۃ الہندیۃ۲/۱۱، دارالسلام رقم:۱۸۹۱)(فتاویٰ قاسمیہ٦٦/٢٤)

فقط وﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
#محمد_امیر_الدیں_حنفی_دیوبندی
#جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
@jamashuda
سوال
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: بڑے برتن جیسے جگ، لوٹا، یا اُس سے بڑا برتن منہ سے لگاکر پینا کیسا ہے؟ بہت سے لوگ بوتل منہ سے لگاکر یونہی پی جاتے ہیں، اِس کا کیا حکم ہے؟

باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بڑے برتن جیسے مشکیزہ، بڑا جگ، بڑا مگ، بالٹی وغیرہ کو منہ سے لگاکر پانی وغیرہ پینا تو منع ہے؛ البتہ جو چھوٹے برتن ہیں، جیسے گلاس، پیالہ، کٹورا وغیرہ سے پانی پینے میں کوئی حرج نہیں، اسی طرح کول ڈرنک وغیرہ کی چھوٹی بوتلوں کا حکم چھوٹے برتن کی طرح ہے، اُن کو منہ سے لگاکر اگر کوئی پانی وغیرہ پینا چاہے تو پی سکتا ہے۔

عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: نہی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الشرب من فم القِربۃ، أو السقاء وأن یمنع جارہ أن یغرزَ خشبہ في جدارہ۔ (صحیح البخاري، کتاب الأشربۃ / باب الشرب من فم السقاء ۲؍۸۴۱ رقم: ۵۶۲۷ دار الفکر بیروت)

عن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ أنہ قال: نہی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن اختناثِ الأسقیۃ: أن یُشربَ من أفواہہا۔ (صحیح مسلم، کتاب الأشربۃ / باب آداب الطعام والشراب وأحکامہا ۲؍۱۷۳ رقم: ۱۱۱-۲۰۲۳ بیت الأفکار الدولیۃ) (کتاب النوازل١٢٧/١٦)

فقط واللہ تعالیٰ اعلم
#محمد_امیر_الدیں_حنفی_دیوبندی
#احمد_نگر_ہوجائی_آسام
#جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند

@jamashuda
سوال:
کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں :کہ عیسائی مذہب کی طرح مسلمان اپنی دوکان وکاروبارکے افتتاح کے موقع پر ریبنکاٹ کر دوکان کا افتتاح کرتے ہیں کیا ایسا کرنا درست اور جائز ہے ؟ 

باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ریبن کاٹ کر دوکان وغیرہ کا افتتاح کرانا اغیار کا شعار ہے اسلام میں اس کی کوئی دلیل نہیں اس کا ثبوت قرآن وحدیث اور وفقہ میں سے کسی میں نہیں ہے اس کا ترک کرنا مسلمانوں پر لازم ہے جس قوم کا یہ شعار ہے کوئی مسلمان اگر اس کو اپنائے تو وہ بھی اس قوم میں شمار ہوتاہے اور آخرت میں اسی قوم کے ساتھ حساب وکتاب ہوگا ۔

من تشبہ بقوم فہو منہم الحدیث الخ۔ (مشکوٰۃ شریف ۲/۳۷۵، مسند احمد بن حنیل ۲/۵۱، رقم: ۵۱۱۴، ۵۱۱۵، ۵۶۶۷)(فتاوی قاسمیہ٢٧٢/٣)

فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم 
#محمد_امیر_الدیں_حنفی_دیوبندی #احمد_نگر_ہوجائی_آسام #جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند
@jamashuda
بغیر گواہوں کے نکاح باطل ہے یا فاسد؟
سؤال
کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ گواہوں کے بغیر نکاح فاسد ہوتا ہے یا باطل؟ اگر کوئی عورت بغیر گواہوں کے نکاح کرے اور بعد میں یہ سمجھ لے کہ گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا وہ اس شوہر سے طلاق لئے بغیر دوسرے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے؟

الجواب بعون الملک الوھاب
گواہوں کے بغیر نکاح فاسد ہوتا ہے اور نکاح فاسد میں عورت کو دوسرے مرد سے نکاح کرنے درج ذیل شرائط ہیں:

(۱) شوہر عورت کو قولا ایسے الفا ظ کہے جومتارکت[ چھوڑنے ]پر دلالت کرتے ہوں جیسے میں نے تجھے چھوڑا ، یا میں نے اسے چھوڑدیا،یا میں نے تمہارا راستہ خالی کردیا وغیرہ،یا مرداور عورت میں سے کوئی بھی اس نکاح کو فسخ کردےجیسے میں یہ نکاح فسخ کرتا ہوں یا کرتی ہوں وغیرہ،یاقاضی، شوہر اور بیوی کے درمیان تفریق کردے ۔

(۲)دوسری شرط یہ ہے کہ اگر نکاح فاسد کے بعد وطی ہو چکی ہو توجب میاں بیوی کے درمیان تفریق واقع ہو (چاہے قاضی کرے یا شوہر خود چھوڑ دےیا فسخ واقع ہو جائے ) اس دن سے عورت عدت گزارے گی عدت کے اختتام کے بعد عورت دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے البتہ اگر نکاح فاسد میں وطی نہیں ہوئی تو پھر کوئی عدت نہیں ،تفریق کے فورًا بعد دوسری جگہ نکاح کیا جا سکتا ہے۔

لمافی الھندیۃ(۳۳۰/۱):الباب الثامن في النكاح الفاسد وأحكامه: إذا وقع النكاح فاسدا فرق القاضي بين الزوج والمرأة فإن لم يكن دخل بها فلا مهر لها ولا عدة وإن كان قد دخل بها فلها الأقل مما سمى لها ومن مهر مثلها۔۔۔وتجب العدة ويعتبر الجماع في القبل حتى يصير مستوفيا للمعقود عليه ۔۔۔ والمتاركة في الفاسد بعد الدخول لا تكون إلا بالقول كخليت سبيلك أو تركتك ومجرد إنكار النكاح لا يكون متاركة أما لو أنكر وقال أيضا اذهبي وتزوجي كان متاركة لكن لا ينتقص من عدد الطلاق وبعدم مجيء أحدهما إلى الآخر بعد الدخول لا تحصل المتاركة وقال صاحب المحيط وقبل الدخول أيضا لا تتحقق إلا بالقول ولكل فسخه بغير محضر صاحبه وبعده لا إلا بمحضر صاحبه كذا في الوجيز للكردري وعلم غير المتارك شرط لصحة المتاركة هو الصحيح حتى لو لم يعلمها لا تنقضي عدتها كذا في القنية والصحيح أن علمها بالمتاركة لا يشترط في الطلاق وعدة الوفاة لا تجب في النكاح الفاسد۔

وفی الدرالمختار(۱۳۱/۳): ( ويجب مهر المثل في نكاح فاسد ) وهو الذي فقد شرطا من شرائط الصحة كشهود ( بالوطء ) في القبل۔۔۔ ( و ) يثبت ( لكل واحد منهما فسخه ولو بغير محضر عن صاحبه ودخل بها أو لا )في الأصح خروجا عن المعصية فلا ينافي وجوبه بل يجب على القاضي التفريق بينهما ( وتجب العدة بعد الوطء ) لا الخلوة للطلاق لا للموت ( من وقت التفريق ) أو متاركة الزوج۔

وفی الشامیۃ (۱۳۳/۳): قوله ( أو متاركة الزوج ) في البزازية المتاركة في الفاسد بعد الدخول لا تكون إلا بالقول كخليت سبيلك أو تركتك ومجرد إنكار النكاح لا يكون متاركة۔(نجم الفتاوی١٠١/٤)

واللہ اعلم باالصواب
#محمد_امیر_الدیں_حنفی_دیوبندی #احمد_نگر_ہوجائی_آسام
#جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند

@jamashuda
حضرت علی رضی اللہ عنہ کیلئے سورج واپس ہوا::

اگر حضرت یوشع ابن نون (حضرت موسیٰ علیہ السلام)آفتاب کی حرکت روک دی گئی کہ وہ کچھ دیر غروب ہونے سے روکا رہے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ صاحب نبوی کے لئے غروب شدہ آفتاب کو لوٹا کر دن کو واپس کردیا گیا۔

نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وراسہ فی حجر علی ولم یکن صلی العصر حتی غربت الشمس فلما قام النبی صلی اللہ علیہ وسلم دعالہ فردت علیہ الشمس حتی صلی ثم غابت ثانیۃ۔(ابن مردویہ عن ابی ھریرہ وابن مندہ وابن شاھین والطبرانی عن اسماء بنت عمیس)

ترجمہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوگئے اور آپ کا سر مبارک حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز عصر نہیں پڑھی تھی۔یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوگیا۔اور وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند کے خیال سے نماز کیلئے نہ اٹھ سکے)جب نبی کریم صلی اللہ علیہ جاگےاور یہ صورت حال ملاحظہ فرمائی)تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کیلئے دعا فرمائی۔جس سے آفتاب لوٹا دیا گیا۔(دن نمایا ہوا۔یہاں تک کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نماز پڑھی اور سورج دوبارہ غروب ہوا۔(جامع الفتاوی١٦٧/١)

واللہ اعلم باالصواب
#محمد_امیر_الدیں_حنفی_دیوبندی #احمد_نگر_ہوجائی_آسام #جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند

@jamashuda
باپ کا لڑکی کا نکاح ایک یاد وگواہ کی موجودگی میں پڑھانا اور شوہر کا قبول کرنا :

سوال

محترم جناب حضرت مفتی صاحب ، السلام علیکم ورحمۃ ﷲ وبرکاتہ ،آپ کا جواب ملا جس میں یہ تھا کہ آپ کے رشتہ دار کا نکاح دوبارہ کرناپڑے گا۔
چنانچہ میں نے اس کے والد ، بھائی اور خود اس کو اور لڑکی کو بلوایا، لڑکے کے والد نے اس کا نام لے کر لڑکی سے پوچھا کہ میں نے تیرا نکاح اس لڑکے سے کیا تو راضی ہے؟ لڑکی نے کہا میں راضی ہوں ، اس پر لڑکے نے کہا میں بھی راضی ہوں !
اس سے ہم نے سمجھ لیا کہ نکاح ہوگیا، ابھی تین ہی دن گذرے تھے کہ لڑکا مجھ سے آکر کہتا ہے کہ مجھے شک ہے کہ نکاح ہوا یا نہیں ؟اس پر میں نے اس کے والد کو بلا کر کہا کہ آپ کا بیٹا اس طرح شک کرتا ہے تو انہوں نے بہشتی زیور میں لکھے ہوئے طریقہ کے مطابق دوبارہ نکاح پڑھایا،کچھ مدت کے بعد وہ اس میں بھی شک کرتا ہے۔
توسوال یہ ہے کہ اس کا کیا کیا جائے ؟آئندہ پھر ایسا کوئی موقعہ آجائے تو کیا کیا جائے؟ نیز حضرت سے درخواست ہے کہ کوئی وظیفہ یا عمل ایسا بتلائیں جس سے اس کا شک دور ہوجائے کیونکہ اس کی طبیعت شکی ہوگئی ہے ، جس کی وجہ سے وہ خود اور اہل خانہ بہت پریشان ہیں ﷲ تعالیٰ جزائے خیر دے، آمین ۔

الجواب حامداً ومصلیاً ومسلماً:
لڑکا اور لڑکی (عورت) اور لڑکے کے والد اور ان کے بھائی حاضر تھے ،ان کے جمع ہونے کا مقصد نکاح کرنا تھا اور اس مجلس میں لڑکے کے والد صاحب کے ذریعہ لڑکی سے پوچا گیا (لڑکے کا نام لے کر)کہ تیرے ساتھ اس کا نکاح کیا اس سے توراضی ہے ؟ تو لڑکی نے کہا کہ میں راضی ہوں ، اس کے بعد لڑکے نے بھی کہا کہ میں راضی ہوں ، اس سے نکاح ہوگیا۔
ہدایہ میں ہے: وعلی ھذا اذا زوج الا ب ابنتہ البالغۃ بمحضر شاھد واحد ان کانت حاضرۃ جاز وان کانت غائبۃ لا یجوز(ہدایہ الین ص۲۸۷ کتاب النکاح) جس کی وجہ سے دوبارہ نکاح کرنے کی ضرورت نہیں تھی، بہشتی زیور میں جو طریقہ لکھا ہے وہ بھی صحیح ہے اور وہی آسان طریقہ ہے ، اور اس میں کوئی شک و شبہ بھی نہ ہوگامستقبل میں ۔ اگر کوئی ایسا واقعہ پیش آجائے تو کیا کرنا ؟ اس کی فکر چھوڑ یئے، خدا نخواستہ ایسا واقعہ پیش آجائے اس وقت کسی مفتی صاحب یا مستند عالم سے پوچھ کر عمل کریں ۔
اپنے رشتہ دار سے کہئے کہ ایسے خیالات چھوڑ دے اور صبح وشام نیز سوتے وقت سورۂ فاتحہ معوذ تین اور آیت الکرسی پڑھ کر اپنے بدن پر دم کر لیا کرے اورپانی پر دم کر کے وہ پانی پی لے ۔ نیز سوتے وقت یہ دعا پڑھے۔

اللھم انی اعوذبک من سوء الا حلام ومن ان یتلاعب بی الشیطان من الیقظۃ والمنام۔(فتاوی رحیمیہ١٨٣/٨)

۔فقط وﷲ اعلم بالصواب
#محمد_امیر_الدیں_حنفی_دیوبندی #احمد_نگر_ہوجائی_آسام #جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند

@jamashuda
باکرہ بالغہ کا نکاح باپ اور ایک گواہ کی موجودگی میں:
الجواب وباللہ التوفیق
اگر باپ نے اپنی باکرہ بالغہ لڑکی کا نکاح ایک گواہ کی موجودگی میں کیا اور لڑکی خود مجلس نکاح میںموجود ہو تو یہ نکاح صحیح ہوجائے گا ، اور باپ اور دوسرا شخص دو گواہ ہوںگے ، اور بالغہ لڑکی خود اپنا عقد کرنے والی قرار دی جائے گی ، اور اگر بالغہ لڑکی مجلس نکاح میں موجود نہ ہو تو پھر باپ اُس کی طرف سے ولی ہوگا اور نصابِ شہادت ( دو گواہ ) نہ پائے جانے کی وجہ سے نکاح نہ ہوگا ۔ 
ولو زوج بنتہ البالغۃ العاقلۃ بمحضر شاہد واحد جاز ، إن کانت ابنتہ حاضرۃ ؛ لأنہا تجعل عاقدۃ وإلا لا ، أي لم تکن حاضرۃ لا یکون العقد نافذًا ۔ ( الدر المختار مع الشامي / کتاب النکاح ۴ ؍ ۹۵ زکریا ) 
قالوا : إذا زوج ابنتہ البالغۃ بأمرہا وبحضرتہا ومع الأب شاہد أخر صح النکاح ، وإن کانت غائبۃ لا یصح ، کذا في محیط السرخسي ۔ ( الفتاویٰ الہندیۃ ۱ ؍ ۲۶۸ ، فتح القدیر ۳ ؍ ۱۹۸ زکریا )(کتاب المسائل١١٩/٤)

واللہ اعلم باالصواب
#محمد_امیر_الدیں_حنفی_دیوبندی #احمد_نگر_ہوجائی_آسام #جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند

@jamashuda
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: کہ نکاح کے گواہ باپ اور بھائی بن سکتے ہیں؟

باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
نکاح کے گواہ باپ اور بھائی بھی بن سکتے ہے۔

وکذا أي جاز النکاح لو زوجت المرأۃ نفسہا بشہادۃ أبیہا، وشاہد آخر۔ (خانیۃ علی الہندیۃ، کتاب النکاح، فصل في شرائط النکاح ۱/۳۳۳، زکریا جدید ۱/۲۰۳)

ولو زوج بنتہٗ العاقلۃ البالغۃ بمحضر شاہد واحد جاز، إن کانت ابنتہٗ حاضرۃ؛ لأنہا تجعل عاقدۃ وإلا لا۔ (شامي، زکریا۴/۹۵، کراچي ۳/۲۵، المبسوط للسرخی، دار الکتب العلمیۃ بیروت ۱۹/۳۲، البنایۃ اشرفیۃ دیوبند ۵/۱۹، ہدایۃ، اشرفیۃ دیوبند ۲/۳۰۷)

والأصل أن کل من صلح أن یکون ولیاً فیہ بولایۃ نفسہٖ صلح أن یکون شاہداً فیہ…فإن الأب یصلح شاہداً۔ (شامي،کراچي۳/۲۴، زکریا دیوبند ۴/۹۴- ۹۵)

فقط وﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
#محمد_امیر_الدیں_حنفی_دیوبندی #احمد_نگر_ہوجائی_آسام #جمع_شدہ_فتاوی_مسلک_دارالعلوم_دیوبند

@jamashuda