🌺جدیدفقہی مسائل🌺
1.99K subscribers
42 photos
5 videos
21 files
438 links
ان شاءاللہ اس چینل میں جدید مسائل باحوالہ سینڈ کئےجائیں گے
https://telegram.me/jadid_faqhi_masail
لنک تشہیر کرنے کی گزارش ہے-

رابطہ 👇
https://telegram.me/Munazir_arariawi
Download Telegram
سورہ تغابن کی فضیلت؟


الجواب بعون الوھاب۔۔
سورہ تغابن کی بعض مفسرین نے یہ فضیلت لکھی ہیکہ جو سورہ تغابن کو پڑھتا ہے تو اچانک آنے والی موت سے اسکی حفاظت ہوتی یے۔۔
*عن النبی صلی الله علیه وآله وسلم من قرأ سورة التغابن دفع موت الفجأة*
*(التفسیر الوسیط للواحدی ۔ج۴۔۔ص۔۳۰۶۔۔تفسیر ثعلبی ۔۔ج۔۔۹۔۔ص۔۔۳۲۵۔۔ تفسیر زمخشری۔۔ج۔۔۴۔۔ص۔۵۵۱۔بیضاوی۔۔ج۔۵۔۔ص۔۲۱۹۔۔اللباب فی علوم الکتاب۔۔ج۔۔۱۹۔۔ص۔۔۱۴۱۔روح البیان۔۔ج۔۔۱۰۔۔ص۔۔۲۴۔۔)*
لیکن اس حدیث کو ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے موضوع قرار دیا ہے ۔۔
ایسے ہی ایک روایت یہ نقل کی ہے۔۔
*ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺡﻣﻦ ﺑﻦ ﺛﻮﻣﺎﻥ ﻋﻦ ﻋﻄﺎء ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: «ﻣﺎ ﻣﻦ ﻣﻮﻟﻮﺩ ﻳﻮﻟﺪ ﺇﻻ ﻭﻓﻲ ﺗﺸﺎﺑﻴﻚ ﺭﺃﺳﻪ ﻣﻜﺘﻮﺏ ﺧﻤﺲ ﺁﻳﺎﺕ ﻣﻦ ﻓﺎﺗﺤﺔ ﺳﻮﺭﺓ اﻟﺘﻐﺎﺑﻦ*۔۔
کہ ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے اس کی پیشانی پر اس سورة کی پانچ آیتیں اول کی لکھی ہوئی ہوتی ہیں۔
*(تفسیر ثعلبی۔۔۔ج۔۔۹۔۔۳۲۵)*
ابن کثیر فرماتے ہیں یہ روایت صحیح نہیں۔..
اور کتب حدیث میں یہ روایت نہیں ملی۔۔۔
لہذا مخصوص فضائل کے ساتھ پڑھنا اور حدیث کہنا مناسب نہیں یے۔
ہاں کیونکہ پورا قرآن باعث برکت وشفاء ہے تو مطلقا پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔۔
۲۔۔۔اسطرح تخصیص کے ساتھ یوم کے تعین اور اجتماعی شکل میں پڑھنا ثابت نہیں ہے اور مخصوص فضائل سمجھتے ہوئے۔۔۔۔۔
واللہ اعلم بالصواب ۔
محمد طارق قاسمی دیوبندی
خادم التدریس جامعہ حسینیہ دیوبند
تکبیر تحریمہ شرط ہے؟
الجواب بعون الوھاب ۔۔
تکبیر تحریمہ شرط ہے نماز کے لئے اور شرط خارج شئی ہوتی ہے اور اسپر فرض کا بھی اطلاق ہوتا ہے۔۔


*عن علي رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: مفتاح الصلاۃ الطہور، وتحریمہا التکبیر، وتحلیلہا التسلیم۔ (سنن أبي داؤد، الصلاۃ / باب في تحریم الصلاۃ وتحلیلہا ۱؍۹۱ رقم: ۶۱۸ دار الفکر بیروت)*
*ومن فرائضہا التي لا تصح بدونہا التحریمۃ قائماً (درمختار) ثم قال في صفۃ الصلاۃ: وإذا أراد الشروع في الصلاۃ کبر لو قادراً علی الافتتاح أي قال وجوباً اللّٰہ أکبر۔ وفي الشامي: فإن الأصح أنہ یکرہ الافتتاح بغیر اللّٰہ أکبر عند أبي حنیفۃ، وعلیہ فلو افتتح بأحد الألفاظ الأخیرۃ لا یحصل الواجب۔ (درمختار مع الشامي / باب صفۃ الصلاۃ ۲؍۱۲۷-۱۲۸ زکریا، ۱؍۴۸۰ کراچی)*
اور وربک فکبر سے مراد تکیبر تحریمہ کلمہ اللہ اکبر سے کہنا واجب ہے کیونکہ مسئلہ یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ و امام محمد رحمھما اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اللہ کے کسی بھی نام سے ،جو تعظیم پر دلالت کرتا ہو ،نماز شروع کی جا سکتی ہے ،اگر چہ ’’ اللّٰہ أکبر‘‘ کے سوا کسی اور اللہ کے نام سے نماز کا شروع کرنا سنت سنت متوارثہ معمول بھا کے خلا ف ہو نے کی وجہ سے مکروہ ہے ۔اس پرآپ کااستدلال قرآن پاک کی آیت سے ہے :
*وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی*
(کام یاب ہوا) وہ شخص، جس نے اللہ کا نا م لیااورنماز پڑھی۔
ا س ا ٓیت میں بہ اتفاقِ مفسرین  تکبیر تحریمہ کا ذکرہے اور یہاں { ذَکَرَاسْمَ رَبِّہٖ }(اللہ کا نام لیا) سے اس کو تعبیرکیا ہے۔ معلوم ہواکہ کوئی بھی اللہ کا نام لیاجائے ،اس سے نمازشروع ہوجاتی ہے۔
ملاّعلی قاری رحمہ اللہ تعالی ’’شرحِ النقایۃ ‘‘میں فرماتے ہیں ـ:
*فَالتَّکْبِیْرُ یَجُوْزُ بِلَفْظِ ’’اَللّٰہُ أَکْبَرُ‘‘ وَبِکُلِّ مَا دَلَّ عَلٰی تَعْظِیْمِہٖ تَعَالیٰ لِقَوْلِہٖ تَعَالیٰ:{وَذَکَرَاسْمَ رَبِّہٖ فَصَلیّٰ}، فَإِنَّہٗ بِإِطْلا قِہٖ یَدُلُّ عَلٰی جَوَازِ الشُّرُوْعِ فِي الصَّلاۃِ بِکُلِّ ذِکْرٍعَلٰی سَبِیْلِ التَّعْظِیْمِ کــ’’اَللّٰہُ أَجَلُّ‘‘، وَ’’الرَّحْمٰنُ أَکْبَرُ‘‘، وَ’’اللّٰہُ أَعْظَمُ ‘‘إِلٰی آخِرِہٖ*
( پس تکبیرجائز ہے ’’ اللّٰہ أکبر‘‘کے لفظ سے اورہراس سے، جو اللہ کی تعظیم پر دلالت کرے، جس کی دلیل { وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی} ہے؛ کیوں کہ یہ اپنے اطلاق کی وجہ سے دلالت کرتاہے، نماز کے ہر اس ذکرسے شروع کے جواز پر،جوتعظیم پر دلالت کرتاہے ،جیسے’’ اللّٰہ أجل، الرحمٰن أکبر، اللّٰہ أعظم‘‘۔
دوسری دلیل امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی کی یہ ہے کہ تکبیرکے معنے تعظیم ہی کے ہیں ؛چناں چہ ’’تفسیرخازن‘‘ میں آیت {وَرَبَّکَ فَکَبِّر} (المدثر:۳) (اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے) کی تفسیران الفاظ سے کی ہے:
*وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ أَيْ عَظِّمْ رَبَّکَ عَمَّا یَقُوْلُہٗ عَبَدَۃُ الْأَوْثَانِ*
اپنے رب کی ان چیزوں سے جو مشرکین کہتے ہیں ،بڑائی بیان کیجئے اسی طرح ’’التفسیر الکبیر‘‘ میں امام رازی رحمہ اللہ تعالی نے علامہ کلبی رحمہ اللہ تعالی سے نقل کیا ہے:
*قَالَ الْکَلْبِيُّ: عَظِّمْ رَبَّکَ عَمَّا یَقُوْلُہٗ عَبَدَۃُ الأَوْثَانِ*
اس لئے آپ نے فرمایا کہ اللہ کی تعظیم پر دلالت کرنے والے کسی بھی نام سے نماز شروع کی جاسکتی ہے؛ کیوں کہ اللہ نے تعظیم کا ہی مطالبہ کیا ہے ۔لہٰذا کوئی شخص لفظِ’’ اللّٰہ أکبر‘‘ نہ کہے؛بل کہ کسی اور لفظ جیسے ’’اللّٰہ أجل‘‘ یا ’’الرحمٰن أکبر‘‘ وغیرہ کہے، تونماز شروع ہوجائے گی؛لیکن خود احناف کے یہاں بھی اس سے نماز میں کراہیت آجاتی ہے ؛ کیوں کہ لفظ ِ ’’اللّٰہ أکبر سے تکبیر  باندھنا ان کے نزدیک بھی واجب ہے؛ اسی لیے احناف کے یہاں عمل’’ اللّٰہ أکبر‘‘ کہنے ہی پرہے اور دوسرے الفاظ استعمال نہیں کرتے ۔
ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔۔
*وَلَفْظَۃُ ’’ اَللّٰہُ أَکْبَرُ‘‘ ثَبَتَتْ بِالْخَبْرِ، فَیَجِبُ الْعَمَلُ حَتّٰی یُکْرَہَ الافْتِتَاحُ بِغَیْرِہٖ لِمَنْ یُحْسِنُہٗ۔‘‘*
اور لفظِ ’’اللّٰہ أکبر‘‘ حدیث سے ثابت ہواہے، پس اس پر عمل کرنا واجب ہے، حتی کہ دوسرے الفاظ سے شروع کرنا اس شخص کے لیے جو اس کو صحیح اداکرسکتاہو،مکروہ ہے۔
واللہ اعلم بالصواب ۔
محمد طارق قاسمی دیوبندی
خادم التدریس جامعہ حسینیہ دیوبند
ذات برادری۔۔۔اور ہندوستان میں انساب؟
الجواب بعون الوھاب۔۔
ہندوستان عام طور پر انساب محفوظ نہیں ہیں لہذا جنکے محفوظ ہیں اگر وہ لکھتے ہیں تو درست ہے۔۔
جنکے محفوظ نہیں ہے اور وہ لکھتے ہیں تو سخت گناہ ہے سب مذکورہ حضرات اگر یہ انکی نسبت نسبی ہے اور انساب محفوظ ہیں تو لکھ سکتے ہیں اور اگر نسبی نہیں ہے بلکہ اپنے خاندان کے کسی بڑے کی طرف نسبت کرتے ہیں تو بھی درست ہے۔۔
لیکن بغیر کسی ثبوت اور یقین اپنی نسبت بدلنا بہت سخت گناہ ہے۔۔
لیکن اگر کوئی خود اسطرح لکھتے اور پکارتے ہیں تو دوسروں کو کہنے کا حق نہیں ہے کیونکہ اسکی جواب دہی انکے خود کے ذمہ ہے۔۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جان بوجھ کر اپنے حقیقی باپ کے علاوہ کسی دوسرے شخص کی طرف اپنی نسبت کرنے والے پر جنت حرام ہے۔
*عن سعد بن أبي وقاص رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: من ادعیٰ إلی غیر أبیہ وہو یعلم أنہ غیر أبیہ فالجنۃ علیہ حرام۔ (صحیح البخاري، کتاب الفرائض / باب من ادعی إلی غیر أبیہ ۲؍۱۰۰۱ رقم: ۶۷۶۶ دار الفکر بیروت، صحیح مسلم ۱؍۵۷ رقم: ۶۳، سنن أبي داؤد رقم: ۵۱۱۳ دار الفکر بیروت)*
*عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تولی إلی غیر موالیہ فلیتبوأ مقعدہ من النار۔ (رواہ ابن حبان في صحیحہ رقم: ۴۳۱۲، الترغیب والترہیب مکمل، کتاب النکاح وما یتعلق بہ / الترہیب أن ینتسب الإنسان إلی غیر أبیہ أو یتولی غیر موالیہ ص: ۴۴۴ رقم: ۳۰۷۹ بیت الأفکار الدولیۃ)*۔۔
لہذا ہندوستان میں نسب میں انہی  برادریوں کا اعتبار ہے جو قدیم زمانہ میں عرب سے آکر یہاں آباد ہوئے اور جنہوں نے اپنے انساب کو محفوظ رکھا۔۔۔کیونکہ ہندوستان جیسے ممالک میں جن غیر مسلم قوموں نے اسلام قبول کیا انہوں نے اپنی شناخت کے لئے اپنے پیشوں کو تعارف کی بنیاد بنایا اور ایک پیشہ کرنے والی قوم آپس میں ایک دوسرے کا تعاون اور مدد کرنے کی وجہ سے ایک قرار دی گئی اس طرح کی تقسیم زمانہ نبوت میں نہیں تھی نیز عرب کے اندر آج بھی پیشوں کی بنیاد پر تفریق نہیں ہے اور کسی بھی پیشہ والوں کو ایسے نام سے یاد کرنا جس سے اُنہیں ذہنی تکلیف ہوتی ہو جائز نہیں ہے؛ لہٰذا آج کل کپڑا بننے والوں کو جولاہا کہہ کر طعنہ دینا درست نہ ہوگا اب ان لوگوں نے اپنا عرف انصاری بنالیا ہے اِس لئے اِسی عرفی نسبت کے ساتھ اُنہیں پکارا جائے گا، یہی حال دیگر برادریوں کا ہے۔ *(مستفاد: کفایت المفتی ۱؍۲۶۰)*
*قال اللّٰہ سبحانہ تعالٰی: {یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ یَسْخَرْ قَومٌ مِنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ یَکُوْنُوْا خَیْرًا مِنْہُمْ وَلاَ نِسَآئٌ مِنْ نِسَآئٍ عَسٰٓی اَنْ یَکُنَّ خَیْرًا مِنْہُنَّ وَلاَ تَلْمِزُوْا اَنْفُسَکُمْ وَلاَ تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ، بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ، وَمَنْ لَمْ یَتُبْ فَاُولٰٓـئِکَ ہُمُ الظَّالِمُوْنَ* *(الحجرات: ۱۱)*
اور برادری کی بنیاد کو علویت اور افضل قرار دینا درست نہیں ہے اور نہ اسکی وجہ سے تفاخر اور تکبر کی گنجائش ہے اللہ کے یہاں اعتبار تقوی للہیت اور اعمال صالحہ کا ہے اسی پر مغفرت اور اللہ کے تقرب کا مدار ہے کیونکہ خاندان کی بنیاد پر کسی کو حقیر سمجھنا یا کسی کا اپنی محض خاندانی نسبت پر فخر کرنا اِسلام میں جائز نہیں۔۔ اور دنیا میں خاندانی اور قبائلی تفریق آپسی تعارف کے لئے ہے نہ کہ ایک دوسرے پر برتری جتانے کے لئے تاہم یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ جس طرح بدن کی خوبصورتی اور تندرستی وغیرہ ایسی صفات ہیں، جن میں خود آدمی کی مرضی کا کچھ دخل نہیں ہوتا، اِسی طرح بعض خاندانی سلسلوں میں اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسی صلاحتیں ودیعت فرمائی ہیں کہ اگر اُس خاندان کے لوگ اُن صلاحیتوں سے فائدہ اٹھائیں تو آخرت میں بڑے مراتب تک پہنچ سکتے ہیں اِس طرح کی صفات اکثر ایسے خاندانوں میں پائی جاتی ہیں، جن کا سلسلہ نسب اَنبیاء علیہم السلام سے جاکر ملتا ہے، اور اُنہیں صفات کی بدولت اُنہیں اَحادیثِ شریفہ سے غیر اختیاری فضیلت حاصل ہے؛ لیکن یہ ایسی فضیلت ہے جس پر کسی شخص کو غرور کرنے کی قطعاً اِجازت نہیں، اور خاندانی فضیلت پر غرور کرنے والا شخص جاہلیت کی عادت میں مبتلا ہے، جس سے احتراز لازم ہے۔
*قال اللّٰہ تعالیٰ: {یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَاُنْثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا، اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ} (الحجرات، جزء آیت: ۱۳)*
*وفي الآیۃ: إشارۃ إلی وجہ رد التفاخر بالنسب حیث أفادت أن شرف النسب غیر مکتسب، وأنہ لا فرق بین النسب وغیرہ من جہۃ المادۃ لاتحاد ما خلقنا منہ، ولا من جہۃ الفاعل؛ لأنہ ہو اللّٰہ تعالیٰ الواحد، فلیس للنسب شرف یعول علیہ، ویکون مدارًا للثواب عند اللّٰہ عزوجل، ولا أحد أکرم من أحد عندہ سبحانہ إلا بالتقویٰ، وبہا تکمیل النفس وتتفاضل الأشخاص الخ۔ (روح المعاني ۱۴؍۲۴۶
زکریا)*
*(کتاب النوازل۔۔۔۱۵۔۔۵۹۲)*
واللہ اعلم بالصواب ۔
محمد طارق قاسمی دیوبندی
خادم التدریس جامعہ حسینیہ دیوبند
فجر کی سنتوں کی قضا سے متعلق احکام

سوال

مجھے صبح کی سنت کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کردیجیے!

1۔ میں سنتیں اکثر وقت پر پڑھتاہوں ،لیکن کبھی کبھی جماعت کھڑی ہوتی ہے تو اکثر میں جماعت میں شامل ہوجاتا ہوں، پھر بعد میں پڑھتا ہوں یا رہ جاتی ہیں۔

2۔اگر نماز بھی نہیں ملی تو کیا اس صورت میں سنت پہلے اور بعد میں فرض پڑھیں؟

3۔ نیند کی غلبے کی وجہ سے اگر وقت بھی گزر جاے ، تو اس حالت میں نماز توقضا ہوگئی ابھی سنت بھی پڑھیں گے؟

4۔ نماز قضا ہوگئی تو صرف دو رکعت فرض اور دو رکعت اشراق پڑھ لی ،کیا یہ ٹیھک ہے؟

جواب

1۔۔اگر کوئی شخص فجر کی نماز کے لیے مسجد آئے اور جماعت شروع ہو گئی ہو تو اگر اسے امید ہوکہ وہ سنتیں پڑھ کر امام کے ساتھ قعدہ اخیرہ میں شامل ہوجائے گا، تو اسے چاہیے کہ (کسی ستون کے پیچھے، یا برآمدے یا صحن میں یا جماعت کی صفوں سے ہٹ کر) فجر کی سنتیں ادا کرے اور پھر امام کے ساتھ قعدہ میں شامل ہوجائے، اور اگر سنتیں پڑھنے کی صورت میں نماز مکمل طور پر نکلنے کا اندیشہ ہو تو سنتیں چھوڑ دے اور فرض نماز میں شامل ہوجائے، اور سنت رہ جانے کی صورت میں سورج طلوع ہونے سے پہلے پہلے اس کو پڑھنا جائز نہیں ہے، البتہ سورج طلوع ہوجانے کے بعد صرف فجر سنت قضا کی جاسکتی ہے اور یہ حکم اسی دن کے زوال تک کے لیے ہے، اس دن کے زوال کے بعد فجر کی سنت کی قضا درست نہیں۔

2۔۔ فجر کی جماعت نکل جائے تو فجر کے وقت کے اندر نماز پڑھنے کی صورت میں پہلے سنت اور پھر فجر کی فرض نماز ادا کریں،
*البتہ اگر وقت کم ہو یعنی سنتیں پڑھنے کی صورت میں نماز کا وقت نکل جانے کا اندیشہ ہو تو پھر صرف فرض نماز پڑھ لی جائے۔ اور پھر طلوع کے بعد مکروہ وقت ختم ہوجانے کے بعد زوال سے پہلے پہلے صرف سنتوں کی قضا کی جاسکتی ہے*۔

3۔۔ اگر فجر کی نماز قضا ہو جائے تو اسی دن زوال سے پہلے قضا کر نے کی صورت میں فرض کے ساتھ سنتوں کی قضا بھی کرلیں، اور اگراس دن کے زوال کے بعد قضا کر رہے ہیں تو صرف فرض کی قضا کریں گے، سنت نہیں پڑھیں گے۔

4۔۔ اسی دن زوال سے پہلے قضا کرنے کی صورت میں دو رکعت سنت قضا کی نیت سے پڑھیں اور پھر اس کے بعد فرض کی قضا کریں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 57):
"(ولا يقضيها إلا بطريق التبعية ل) قضاء (فرضها قبل الزوال لا بعده في الأصح)؛ لورود الخبر بقضائها في الوقت المهمل،

(قوله: ولا يقضيها إلا بطريق التبعية إلخ) أي لا يقضي سنة الفجر إلا إذا فاتت مع الفجر فيقضيها تبعاً لقضائه لو قبل الزوال؛ وما إذا فاتت وحدها فلا تقضى قبل طلوع الشمس بالإجماع؛ لكراهة النفل بعد الصبح. وأما بعد طلوع الشمس فكذلك عندهما. وقال محمد: أحب إلي أن يقضيها إلى الزوال كما في الدرر. قيل: هذا قريب من الاتفاق؛ لأن قوله: "أحب إلي" دليل على أنه لو لم يفعل لا لوم عليه. وقالا: لا يقضي، وإن قضى فلا بأس به، كذا في الخبازية. ومنهم من حقق الخلاف وقال: الخلاف في أنه لو قضى كان نفلاً مبتدأً أو سنةً، كذا في العناية يعني نفلاً عندهما، سنةً عنده كما ذكره في الكافي إسماعيل". فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144004200221

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

#محمداصغرچمپارنی_القاسمی
🔹[ *کتاب الصلوٰة*] 🔹

*سر پر دستی باندھ کر نماز*
*پڑھنا کیا حکم رکھتا ہے؟*
=================
*سوا ل(٤٣١)*:ایک مسئلہ معلوم کرنا ہے کہ اگرکسی شخص کے پاس ٹو پی نہ ہو اور وہ دستی باندھ کر نماز پڑھ لے تو کیا حکم ہے ؟ یعنی دستی باندھ کر نما ز پڑھ سکتے ہیں ؟ ۔جزا ک اللہ
*(المستفتی: محمد فیروز*
*لکھنؤ یوپی)*
______________
*باسمہ سبحانہ تعالیٰ*
*الجواب وباللہ التوفیق ومنہ الصدق والصواب* :مصلی اگر دستی کو سر پر سلیقے سے باندھ لے کہ سر کا درمیانی حصہ بھی ڈھک جاۓ تو اس طرح نماز پڑھنا جائز ہےورنہ اگر سرکا درمیانی حصہ کھلا ہوا ہو تو اس ھیئت کےساتھ نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہوگا۔( امدادالأحکام : ١٧٤/٢، زکریادیوبند، نجم الفتاوی : ١٨٦/٢، مکتبہ اسلام آن لائن )
یکرہ اشتمال الصماء والاعتجار (الدرالمختار ) قولہ [والاعتجار] لنھی النبی ﷺ عنہ، وھو شد الرأس أو تکویر عمامتہ علی راسہ وترک وسطہ مکشوفا.......و کراھتہ تحریمیۃ.(الدر مع الرد: ٥١١/٢، کتاب الصلوة ، مطلب : الکلام علی اتخاذ المسبحة، المکتبة الأشرفیہ دیوبند، مراقی الفلاح :٢٠٤، طبع بیروت)
*فقط وﷲتعالیٰ أعلم* _________________
*کتبہ :احقر*
*محمد عمران غفرلہ*
*دارالإفتاءوالإرشاد*
*زیراھتمام جامع مسجد*
*وائٹ فیلڈ بنگلور*
*20/12/1441*
*مطابق*
*11/8/2020*
*منگل*
*Wap:9454007434*
*Call:8788747386*
*E-mail ID:*
*imranqasmi1501@*
*gmail.com*
*You Tube channel:*
*ISLAMIC SOLUTION*
*MSG*
دم کی ہوئی چیز یا پانی کا ضرورت کی وجہ سے کمر یا ستر کے حصے میں استعمال کرنا

سوال

 ضرورت کے تحت دم شدہ شے  کا استعمال ستر کے حصہ یا شرم گاہ یا  پیٹھ پر کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟  اسی طرح دم شدہ پانی سے غسل کرتے ہوئے جو  پانی کٹر لائن میں جاتا ہے اس میں کوئی حرج ہے یا نہیں؟   

جواب

علاج وغیرہ  کی ضرورت کی بنیاد پر قرآنی آیات پڑھ کر دم کیے ہوئے پانی سے غسل کرسکتے ہیں اور اسے  پیٹھ  یا شرم گاہ پر بھی بہایا جاسکتا ہے، لیکن ایسا پانی بغیر ضرورت کے نالی میں بہانا ادب کے خلاف ہے، اس لیے حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے کہ ایسے پانی کو  نالی وغیرہ میں نہ بہایا جائے، بلکہ کسی ٹب میں غسل کرکے پانی کیاریوں وغیرہ  میں بہادینابہتر ہے۔ اگر بوجۂ ضرورت پانی کے علاوہ دم کی ہوئی کوئی چیز ستر کے حصے میں استعمال کی جائے تو ضرورت پوری ہوتے ہی اسے ہٹادیا جائے یا زائل کردیا جائے، اور جس قدر ہوسکے ادب کا لحاظ رکھا جائے۔  فقط واللہ ا علم

فتوی نمبر : 144107201288

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
نمازی کے سامنے سے گزرنا


*_الجواب وباللہ العصمۃ التوفیق_*
نمازی کے آگے سے گذرنے کے گناہ کا اندازہ اس حدیث شریف سے لگایا جاسکتاہے ، کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر نمازی کے آگے سے گذرنے والے کو نمازی کے آگے سے گذرنے کے گناہ کاعلم ہو جاتا تو ایک روایت کے مطابق چالیس سال تک دوسری روایت کے مطابق چالیس ماہ تک اور تیسری روایت کے مطابق چالیس دن تک اپنی جگہ کھڑا رہتا یعنی گذرنے کی ہمت نہ کرتا ، حدیث شریف کے الفاظ یہ ہیں ۔
عن بسربن سعید أن زید بن خالد ، أرسلہ إلي أبي جہیم لیسألہ: ماذا سمع من رسول الله ﷺ فی المار بین یدی المصلي ؟ فقال: أبو جہیم : قال رسول الله ﷺ : لو یعلم المار بین یدی المصلي ما ذا علیہ؟ لکان أن یقف أربعین خیراً لہ من أن یمر بین یدیہ قال أبو النضر: (أحد رواتہ) لا أدري قال أربعین یوماً ، أو شہراً ، أو سنۃ ۔(بخاری شریف، الصلاۃ ، باب إثم المار بین یدی المصلي النسخۃ الہندیہ ۱/۷۳ ، رقم: ۵۰۴، ف: ۵۱۰، صحیح مسلم الصلاۃ ، باب منع المار بین یدی المصلي ، النسخۃ الہندیۃ ۱/۱۹۷، بیت الأفکار رقم: ۵۰۷)

اگر مسجد کا کل رقبہ چالیس ذراع سے بھی کم ہو تو اسے چھوٹی مسجد سمجھا جائے گا اور اگر چالیس یا چالیس ذراع سے زائد ہو تو اسے بڑی مسجد سمجھا جائے گا، چھوٹی مسجد میں نمازی کے آگے سے گذرنے کی بالکل گنجائش نہیں ہے ، اور بڑی مسجد میں نمازی کے کھڑے ہونے کی جگہ سے تین صف کی مقدار کو آگے سے چھوڑ کر گذرنا جائزہے۔

*___نمازی کے سامنے سے ہٹ جانا__*

اگر کوئی شخص نمازی کے بالکل سامنے ہو اور وہ نمازی کے سامنے سے ہٹنا چاہے تو ہٹ سکتا ہے، یہ گزرنے میں شامل نہیں ہوگا، اور نمازی کے سامنے سے گزرنے پر جو وعید ہے وہ اس وعید کا مستحق نہیں ہوگا،(فتاوی قاسمیہ ج٦/ ٤٦-٤٧۔مستفاد احسن الفتاویٰ زکریا ۳/۴۰۸، ایضاح المسائل /۵۸)
*_ولو کان المار اثنین یقوم أحدہما أمامہ فیمر الآخر ، ویفعل الآخر ہکذا۔_*(الفتاویٰ التاتارخانیہ ، کتاب الصلوٰۃ ، الفصل التاسع ، مسائل السترۃ ۲/۲۸۶، رقم: ۲۴۳۸، ہندیہ کتاب الصلوٰۃ ، الباب السابع فی ما یفسد الصلوٰ ۃ ، الفصل الأول زکریا قدیم ۱/۱۰۴، جدید ۱/۱۶۳، شامی باب الصلوٰۃ ، مطلب إذا قرأ تعالیٰ جد بدون الف ، کراچی ۱/۶۳۶، زکریا ۲/۴۰۱)

*کتبہ: محمد عظیم اللہ قاسمی*
*خادم التدریس جامعہ حسینیہ دیوبند*
٢٠/ ذی الحجہ ١٤٤١ھ
سوال # 151010
کیا شادی سے پہلے ڈاڑھی میں آنے والے کچھ سفید بالوں کو جڑ سے اکھاڑا یا کاٹا جاسکتا ہے؟ کیا حلق سے اوپڑ ٹھوڑی یعنی جبڑے کے نیچے کے تمام بالوں کو کاٹا جاسکتا ہے؟
Published on: Jun 9, 2017
جواب # 151010
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1121-1121/L=9/1438
اکھاڑ سکتے ہیں؛البتہ بہتر نہیں ہے۔ (قَوْلُہُ وَلَا بَأْسَ بِنَتْفِ الشَّیْبِ) قَیَّدَہُ فِی الْبَزَّازِیَّةِ بِأَنْ لَا یَکُونَ عَلَی وَجْہِ التَّزَیُّنِ.(رد المحتار علی الدر المختار:۵۸۳/۹کتاب الحظروالاباحة)۔

(۲)جس ہڈی پر دانت ہیں اس پر اگنے والے بال داڑھی کے بال کہلاتے ہیں ؛لہذاجبڑے کے نیچے کے بالوں کو کاٹنے کی گنجائش ہے ؛البتہ نہ کاٹنا بہتر ہے۔ وأما الذی علی العذار والحلقوم فیجوز أخذہ لکن فی الطب المنع عن نتف ما علی العذارین،(العرف الشذعلی سنن الترمذی:۲/۱۰۵ )

واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،دارالعلوم دیوبند
کوڑا پھینکنے والی بوڑھی؟
الجواب بعون الوھاب۔۔
اسطرح کا کوئی واقعہ کسی بھی مستند حدیث یاتاریخ کی کتاب میں مذکور نہیں یے صرف من گھڑت قصہ ہے۔۔
آپ علیہ السلام کا اعلی اخلاق پر فائز ہونا اسکا اعلان خود قرآن کریم میں ہے۔۔انک لعلی خلق عظیم۔۔
لیکن اسکا مطلب یہ نہیں ہر چیز جو آپ علیہ السلام سے ثابت بھی نہیں اسکو بھی آپکی طرف منسوب کر دیا جائے ۔۔۔جو لوگ ایسا کرتے ہیں سخت گناہ کے مرتکب ہیں اور بغیر تحقیق کوئی بھی بات یا واقعہ آپ علیہ السلام کی طرف منسوب کرنے والے سخت وعید کے مصداق ہیں۔۔۔
لہذا وہی چیزیں بیان کرنی چاہئے جو مستند سیرت اور احادیث سے ثابت ہیں۔۔

واللہ اعلم بالصواب ۔
محمد طارق قاسمی دیوبندی
خادم التدریس جامعہ حسینیہ دیوبند
غسل کا طریقہ؟

الجواب بعون الوھاب ۔۔
۱۔۔تین مرتبہ کلی کرنا۔۔۔
۲۔۔۔تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالنا۔۔
پورے بدن پر اچھی طرح پانی بھانا کہ کوئی بھی حصہ خشک نہ رہ پائے۔۔
اور غسل کا مسنون طریقہ یہ ہیکہ۔۔
۱۔۔سب سے پہلے ہاتھ دھوئے جائیں۔۔
۲۔۔جہاں نجاست لگی ہو پہلے اسے پانی سے دھولے ۔۔
۳۔۔پھر نماز کے وضو کی طرح وضو کرے ۔۔۔اسی دوران اچھی طرح کلی اور ناک میں پانی ڈال لیا جائے۔۔
البتہ اگر ایسے غسل خانہ میں غسل کررہا ہے جہاں پانی جمع ہوتا ہے تو پھر پاؤں بعد میں دھولے ۔
۴۔۔اور بہتر ہے کہ اولا دائیں کندھے پر اس کے بعد بائیں کندھے پر اور پھر سر پر پانی ڈالے اور بدن کو رگڑ کر دھوئے۔
۵۔۔اگر روزہ نہ تو غرغرہ بھی کرلینا افضل ہے۔۔
*عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما عن خالتہ میمونۃ قالت: وضعت للنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم غسلاً یغتسل بہ من الجنابۃ، فأکفأ الإناء علی یدہ الیمنی، فغسلہا مرتین أو ثلاثاً، ثم صب علی فرجہ فغسل فرجہ بشمالہ، ثم ضرب بیدہ الأرض فغسلہا ثم تمضمض واستنشق وغسل وجہہ ویدیہ ثم صب علی رأسہ وجسدہ، ثم تنحی ناحیۃ فغسل رجلیہ۔ (سنن أبي داؤد، کتاب الطہارۃ / باب في الغسل من الغسل ۱؍۳۲ رقم: ۲۴۵ دار الفکر بیروت، فتح الباري ۱؍۴۸۶ رقم: ۲۵۷ بیروت)*
*عن جمیع بن عمیر وفیہ فقالت عائشۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہا: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یتوضأ وضوئہ للصلاۃ ثم یفیض علی رأسہ ثلاث مرار۔ (سنن أبي داؤد، کتاب الطہارۃ / باب الغسل من الجنابۃ ۱؍۳۲ رقم: ۲۴۱ دار الفکر بیروت)*
*وہي أن یغسل یدیہ إلی الرسغ ثلاثاً ثم فرجہ ویزیل النجاسۃ إن کانت علی بدنہ ثم یتوضأ وضوئہ للصلاۃ إلا رجلیہ، ہٰکذا في الملتقط۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۱؍۱۴)*
*وفرض الغسل: غسل کل فمہ ویکفي الشرب عبًّا؛ لأن المج لیس بشرط في الاصح، وأنفہ حتی ما تحت الدرن وباقي البدن لا دلکہ۔ ویجب أي یفرض غسل کل ما یمکن من البدن بلا حرج مرۃ کأذن وسرۃ وشارب وحاجب وأثناء لحیۃ وشعر رأس ولو ملبداً وفرج خارج، بہ یفتی۔ (درمختار مع الشامي، کتاب الطہارۃ / مطلب في أبحاث الغسل ۱؍۲۸۴-۲۸۵ زکریا)*
*عن أبي سلمۃ بن عبد الرحمن قال: حدثتني عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان إذا اغتسل من الجنابۃ فمضمض واستنشق ثلاثاً۔*
*وفي روایۃ عن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال: إذا اغتسلت من الجنابۃ فتمضمض ثلاثاً فإنہ أبلغ۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، کتاب الطہارۃ / باب في المضمضۃ والاستنشاق في الغسل ۱؍۶۸ رقم: ۷۳۷-۷۴۰ دار الکتب العلمیۃ)*
*والمبالغۃ فیہما بالغرغرۃ لغیر الصائم لاحتمال الفساد۔ (شامي ۱؍۲۳۷ زکریا)*
باقی غسل کی اور کئی سنتیں ہیں۔۔۔
واللہ اعلم بالصواب ۔
محمد طارق قاسمی دیوبندی
خادم التدریس جامعہ حسینیہ دیوبند
قربانی کا گوشت گوشت کے بدلے بیچنا؟

الجواب بعون الوھاب۔۔
صورت مسئولہ میں اسطرح قربانی کا گوشت کباب بناکر بیچنا بھی جائز نہیں ہے ۔۔۔
جس نے دیا اور اسکے بدلے دوکان سے خریدا ہوا گوشت واپس لیا تو اگر یہ بطور قرض دیا تھا تو بھی درست نہیں ہے۔۔اور اگر گوشت کے بدلے گوشت بیچا جیساکہ سمجھ میں آرہا ہے تو یہ تو کیونکہ گوشت موزونی شئی ہے میں ادھار بیچنا جائز نہیں ہے جو سود ہے لہذا جسنے دیا تھا اسکو چاہئے کہ اسکے بدلے جو گوشت آیا اسکا صدقہ کردے کیونکہ وہ قربانی کے گوشت کی گویا قیمت ہے۔۔
*وإذا عدم الوصفان الجنس والمعنی المضمون إلیہ حل التفاضل والنسأ لعدم العلۃ المحرمۃ، والأصل فیہ الإباحۃ، وإذا وجدا حرم التفاضل والنسأ لوجود العلۃ، وإذا وجد أحدہما وعدم الآخر حل التفاضل وحرم النسأ۔ (ہدایۃ، کتاب البیوع، باب الربا، مکتبہ أشرفیہ دیوبند ۳/ ۷۹)*
*وعلتہ القدر والجنس، فحرم الفضل والنسأ بہما والنسأ فقط بأحدہما وحلا بعدمہما۔ (النہرالفائق، کتاب البیوع، باب الربا، مکتبہ زکریا دیوبند ۳/ ۲۷۰-۲۷۲)*
اور دوکاندار نے جو بیچا وہ بھی درست نہیں ہے کیونکہ اسکے اندر قربانی کا متعلق ہے اور قربانی کا گوشت کسی بھی طرح فروخت کرنا جائز نہیں ہے ۔۔
لہذا اسے چاہئے کہ جتنے کا بیچا اسکی قیمت صدقہ کردے ۔۔
*فإن بیع اللحم أو الجلد بہ أي بمستہلک أو بدراہم تصدق بثمنہ (درمختار) وفي الشامیۃ: قولہ: فإن بیع اللحم أو الجلد بہ الخ: أفاد أنہ لیس لہ بیعہما بمستہلک الخ۔ (الدرالمختار مع الشامي، کتاب الأضحیۃ، مکتبہ زکریا دیوبند ۹/ ۴۷۵، کراچی ۶/ ۳۲۸)*
*ولو باع الجلد أو اللحم بالدراہم أو بمالا ینتفع بہ إلا بعد استہلاکہ تصدق بثمنہ؛ لأن القربۃ انتقلت إلی بدلہ، وقولہ علیہ السلام: من باع جلد أضحیتہ فلا أضحیۃ لہ یفید کراہۃ البیع۔ (ہدایۃ، کتاب الأضحیۃ، مکتبہ أشرفیہ دیوبند ۴/ ۴۵۰)*
*جیساکہ کتاب النوازل میں ہے*
قربانی کے گوشت کو روپئے پیسوں اور ایسی چیز کے عوض فروخت کرنا جائز نہیں، جس کے باقی رہتے ہوئے نفع اٹھانا ممکن نہیں، مثلاً کھانا، تیل، گوشت، اَناج، سرکہ، مصالح وغیرہ اور جن چیزوں کے باقی رہتے ہوئے نفع حاصل کرنا ممکن ہو، اُن سے تبادلہ درست ہے، جیسے مصلی کپڑے وغیرہ، پس اگر کسی نے روپئے کے عوض یا ایسی چیز کے عوض بیچا جس کے باقی رہتے ہوئے نفع حاصل کرنا ممکن نہیں، تو اُس کی قیمت اور تبادلہ میں حاصل شدہ چیز کا صدقہ کرنا لازم اور ضروری ہے، ذبح کرنے والے کو ذبح کی اُجرت میں اور کام کرنے والے مزدور کے کھانے میں قربانی کا گوشت دینا جائز نہیں، اگر کسی نے دے دیا، تو اُس کے برابر قیمت کا صدقہ کرنا ضروری ہے۔ (احسن الفتاویٰ ۷؍۴۹۴)
*فإن بیع اللحم أو الجلد بہ أي بمستہلک أو بدراہم تصدق بثمنہ۔ (الدر المختار) أي وبالدراہم فیما لو أبدلہ بہ۔ (الدر المختار مع الشامي ۹؍۴۷۵ زکریا)*
*ولا یعطی أجر الجزار منہا؛ لأنہ کبیع۔ (الدر المختار مع الشامي ۹؍۴۷۵ زکریا)*
*اگر بفروشد کسے گوشت اضحیہ را بدراہم یا تبدیل کند از سرکہ وغیرہ پس واجب است کہ تصدق کند قیمت آں را۔ (مالابد منہ ۱۶۹)*
*ولو باعہ نفذ سواء کان من النوع الأول أو الثاني فعلیہ أن یتصدق بثمنہ۔ (بدائع الصنائع ۴؍۲۲۴ زکریا)*

واللہ اعلم بالصواب ۔
محمد طارق قاسمی دیوبندی
خادم التدریس جامعہ حسینیہ دیوبند
تصویر کے سامنے نماز پڑھنا؟
گھر میں تصویر رکھنا؟

الجواب باللہ التوفیق
اگر نمازی کے سامنے، اوپر، دائیں اور بائیں ممنوعہ تصویر ہو اور نظر آرہی ہو تو اس سے بھی نماز میں کراہت آتی ہے اس لیے نماز پڑھتے وقت اس کا خیال کرلیں کہ سامنے، اوپر ، دائیں بائیں تصویر نہ ہو اگر ہوتو ہٹادیں یا پردہ وغیرہ کے ذریعہ ڈھانپ دیں اگر تصویر موضع اہانت میں ہے مثلاً نمازی کے قدموں کے نیچے ہے یا پیچھے ہے تو اس میں حرج نہیں۔ 
علامہ علاء الدین نماز میں مکروہ باتوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
*ان يکون فوق راسه او بين يديه او بحذائه يمنه او يسرة او محل سجع و تمثال.*
مکروہات نماز میں سے یہ بھی ہے کہ سر کے اوپر یا سامنے دائیں یا بائیں جانب یا اس کے سجدہ کی جگہ تصویر ہو۔
*(الدر المختار مکروہات صلوٰۃ)*
دوسرا مسئلہ گھر میں تصویر ہونے کا تو گھر میں تصویر رکھنا جائز نہیں ہے کیونکہ جس گھر میں تصویر ہو تو اس گھر میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔۔یعنی وہ گھر گویا رحمتوں سے دور ہے ۔۔
اس لئے کہ حدیث میں صراحت کے ساتھ ممانعت وارد ہوئی ہے۔۔
*عن ابن عباس، عن أبي طلحة، رضي الله عنهم قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «لاتدخل الملائكة بيتاً فيه كلب ولا تصاوير*.
*(صحيح البخاري )*
*عن عمران بن حطان، أن عائشة، رضي الله عنها حدثته: أن النبي صلى الله عليه وسلم «لم يكن يترك في بيته شيئاً فيه تصاليب إلا نقضہ* *(صحيح البخاري)*
*"عن نافع، أن عبد الله بن عمر، رضي الله عنهما أخبره: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن الذين يصنعون هذه الصور يعذبون يوم القيامة، يقال لهم: " أحيوا ما خلقتم*
*عن مسلم، قال: كنا مع مسروق، في دار يسار بن نمير، فرأى في صفته تماثيل، فقال: سمعت عبد الله، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إن أشد الناس عذاباً عند الله يوم القيامة المصورون*
مذکورہ بالا تمام احادیث میں صراحت کے ساتھ مختلف طریقوں پر تصویر کی ممانعت اور اسکی حرمت بیان کیا گیا ہے۔۔
پہلی حدیث میں ہیکہ جس گھر میں تصویر اور کتا ہو تو اس گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم گھر میں کوئی ایسی چیز دیکھتے جس میں جان دار کی تصاویر ہوں تو اسے توڑ دیتے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قیامت کے دن سب سے سخت عذاب مصورین کو ہوگا.  
واللہ اعلم بالصواب۔
محمد طارق قاسمی دیوبندی
خادم التدریس جامعہ حسینیہ دیوبند
اذان کا جواب دینا واجب ہے یا سنت؟

سوال ]۱۷۳۳[: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: ایک شخص کہتا ہے کہ اذان کے وقت مسجد کے باہر ہوں تو جواب دینا واجب ہے۔ اور اگر مسجد کے حدود کے اندر ہوں تو جواب دینا سنت ہے، صحیح کیا ہے تحریر فرمائیں؟
المستفتی: شان عالم گلشہید
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جواب کی دو قسم ہے: اجابت بالقول۔ اور اجابت بالفعل۔ اجابت بالقول سب کے نزدیک سنت ہے اور اجابت بالفعل کا مطلب یہ ہے: کہ اذان سن کر فوراً مسجد آنے کے لئے تیاری شروع کردیں، یہ بعض علماء کے نزدیک واجب ہے۔ اور جو شخص مسجد میں پہلے ہی سے موجود ہے، اس کے ذمہ صرف اجابت قولی ہے، جو سب کے نزدیک سنت ہے۔
أما الإجابۃ فظاہر الخلاصۃ والفتاوی والتحفۃ وجوبہا، وقول الحلواني: الإجابۃ بالقدم فلو أجاب بلسانہ ولم یمش لا یکون مجیبا، ولو کان في المسجد فلیس علیہ أن یجیب باللسان، حاصلہ نفي وجوب الإجابۃ باللسان، وبہ صرح جماعۃ، وأنہ مستحب۔ (فتح القدیر، باب الأذان،کوئٹہ ۱/ ۲۱۷، زکریا ۱/ ۲۵۴، دارالفکر ۱/ ۲۴۸)
ویجیب وجوبا، وقال الحلواني: ندبا، والواجب الإجابۃ بالقدم۔ (تحتہ في الشامیۃ:) قال الحلواني: إن الإجابۃ باللسان مندوبۃ، والواجبۃ ہي الإجابۃ بالقدم۔ (شامي، کتاب الصلوۃ، باب الأذان، زکریا ۲/ ۶۵، کراچی ۱/ ۳۹۶)
’’ویجیب وجوبا‘‘ علی المعتمد للأمر بہ، في قولہ علیہ الصلاۃ والسلام: فقولو مثل ما یقول۔ ’’قولہ ندبا‘‘: أي إجابۃ اللسان مندوبۃ۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی الدر، کتاب الصلوۃ، باب الأذان، کوئٹہ ۱/ ۱۸۸، الفتاوی التاتارخانیۃ، کتاب الصلوۃ، الفصل الثاني في الأذان، زکریا ۲/ ۱۵۲، رقم: ۲۰۰۷، المحیط البرہاني، کتاب الصلوۃ، الفصل الثاني في الفرائض، المجلس العلمي، جدید ۲/ ۱۰۲، رقم: ۱۳۱۳) فقط و اللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اللہ عنہ
۸؍ ۶؍ ۱۴۲۰ھ
(الف فتویٰ نمبر: ۳۴/ ۶۱۹۳)الجواب صحیح:
احقر محمد سلمان منصورپوری غفر لہ
۸؍ ۶؍ ۱۴۲۰ھ
مرغوب الرّحمٰن القاسمِی غُفرلہ
اذان کے جواب کی شرعی حیثیت

سوال ]۱۷۳۴[: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: اذان ہورہی ہے، تو اس کا جواب دینا سنت ہے یاواجب؟ اور جو لوگ گھر میں بیٹھے اذان سن رہے ہیں ان پر بھی اذان کا جواب دینا سنت ہے یاواجب؟ جو بھی حکم ہو مفصل ومدلل تحریر فرمائیں۔
المستفتی: حکمت اللہ محلہ سرائے مرادآباد
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اذان سننے والا اگر تلاوت یا تقریر یا تعلیم میں مشغول نہ ہو تو اس پر اذان کا جواب دینا واجب ہے، نیز جو شخص گھر میں بیٹھ کر اذان سن رہا ہے اس پر بھی
جواب اذان واجب ہے۔ (فتاوی محمودیہ، قدیم ۲/ ۶۲، جدید ڈابھیل ۵/ ۴۲۲)
عن ابن عباس -رضي اللہ عنہ- أن النبي ﷺ قال: من سمع النداء فلم یجب فلا صلاۃ لہ۔ (المستدرک، کتاب الصلوۃ، مکتبہ نزار مصطفی الباز ۱/ ۳۶۳، رقم: ۸۹۳، سنن الترمذي، کتاب الصلوۃ، باب ماجاء فیمن سمع النداء فلا یجیب، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۵۲، دارالسلام رقم: ۲۱۷، المعجم الکبیر للطبراني، دار احیاء التراث العربي ۱۲/ ۱۸، رقم: ۱۲۳۴۴)
یجب علی السامعین عند الأذان الإجابۃ۔ (فتاوی عالمگیری، باب الأذان، الفصل الثاني في کلمات الأذان، زکریا قدیم ۱/ ۵۷، جدید زکریا ۱/ ۱۱۴، البحر الرائق، باب الأذان، کوئٹہ۱/ ۲۵۹، زکریا ۱/ ۴۵۱)
ومن سمع الأذان فعلیہ أن یجیب۔ (الفتاوی التاتارخانیۃ، کتاب الصلوۃ، الفصل الثاني في الأذان، زکریا ۲/ ۱۵۲، رقم: ۲۰۰۷، المحیط البرہاني، کتاب الصلوۃ، الفصل الثاني في الفرائض المجلس العلمي، جدید ۲/ ۱۰۲، رقم: ۱۳۱۳) فقط و اللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اللہ عنہ
۸؍ جمادی الثانیہ ۱۴۱۱ھ
(الف فتویٰ نمبر: ۲۶/ ۲۲۵۷)
مرغوب الرّحمٰن القاسمِی غُفرلہ
اذان کے جواب کا مسنون طریقہ

سوال ]۱۷۳۵[: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: مؤذن اذان دیتے وقت ’’أشہد أن محمد رسول اﷲ‘‘ کہے، تو جواب میں اسی کے مثل کلمات لوٹانے کے بارے میں آتا ہے؛ لیکن اگر کوئی شخص شہادتین کے بعد درود پڑھے، تو کیا حکم ہے؟ دریافت طلب بات یہ ہے کہ آیا شہادتین کے جواب میں صرف شہادتین پڑھے یا صرف درود پڑھے یا دونوں پڑھے؟ اسی طرح کوئی شخص اذان کے وقت سلام کرے، تو سلامکرنا کیسا ہے اور سلام کرنے کے بعد جواب دینا کیسا ہے؟ جواب دے یا نہ دے؟
المستفتی: محمد محفوظ ملگواں، لکھیم پور
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: حدیث شریف میں نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: جب تم مؤذن کو اذان دیتے ہوئے سنو تو جواباً وہی کلمات کہو جو مؤذن کہہ رہا ہے، صرف حیعلتین کے جواب میں حوقلہ یعنی ’’لا حول ولا قوۃ الا باﷲ‘‘ کہو، جس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ شہادتین کے وقت جواباً صرف شہادتین ہی کہا جائے گا، اس کے ساتھ درود شریف کا ثبوت نہیں، ہاں البتہ اذان کے ختم ہونے کے بعد دعا وسیلہ سے پہلے درود شریف پڑھنا، پھر اس کے بعد دعا وسیلہ پڑھنا حدیث کی کتابوں سے ثابت ہے اور یہی مسنون طریقہ ہے۔
عن عبد اللہ بن عمرو بن العاص، أنہ سمع النبي صلی اللہ علیہ وسلم یقول: إذا سمعتم المؤذن، فقولوا مثل مایقول، ثم صلوا علي، فإنہ من صلی علي صلاۃ صلی اللہ علیہ بہا عشرا، ثم سلو اللہ لي الوسیلۃ، فإنہا منزلۃ في الجنۃ، لاتنبغي إلا لعبد من عباد اﷲ، وأرجو أن أکون أنا ہو، فمن سأل لي الوسیلۃ حلت لہ الشفاعۃ۔ (صحیح مسلم، باب القول مثل قول المؤذن لمن سمعہ … النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۱۶۶، بیت الأفکار، رقم: ۳۸۴، سنن الترمذي، باب مایقول أذان المؤذن من الدعاء؟ النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۵۱، دارالسلام، رقم: ۳۶۱۴، سنن النسائي، باب الصلاۃ علی النبي بعد الأذان، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۷۸، ۷۹، دارالسلام، رقم: ۶۷۸)
عند مسلم بلفظ ’’قولوا مثل ما یقول‘‘ ثم صلوا علي، ثم سلو اللہ لي الوسیلۃ، ففي ہذا أن ذلک یقال عند فراغ الأذان۔ (فتح الباري، کتاب الأذان، باب الدعاء عند النداء، دارالریان بیروت ۲/ ۱۱۲، دارالفکر ۲/ ۹۴، أشرفیہ دیوبند ۲/ ۱۲۰، عمدۃ القاري، باب الدعاء عند النداء، دار احیاء التراث العربي ۵/ ۱۲۲، زکریا ۴/ ۱۷۲، شامي، باب الأذان، مطلب فی کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد، کراچی ۱/ ۳۹۸، شرح النقایۃ، کتاب الصلوۃ، باب الأذان، إعزازیہ دیوبند ۱/ ۶۱)اذان کے وقت سلام کرنا مکروہ ہے؛ لیکن اگر کسی نے اذان کے وقت سلام کیا تو جواب دینا لازم نہیں۔ (مستفاد: احسن الفتاوی ۸/ ۳۶)
لا یسلم ولا یرد السلام، ولا یشتغل بشيء سوی الإجابۃ۔ (البحر الرائق، باب الأذان، زکریا ۱/ ۴۵۰، کوئٹہ ۱/ ۲۵۹) فقط و اللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اللہ عنہ
۲۹؍ ربیع الثانی ۱۴۲۱ھ
(الف فتویٰ نمبر: ۳۵/ ۶۶۳۳)الجواب صحیح:
احقر محمد سلمان منصورپوری غفر لہ
۲۹؍ ۴؍ ۱۴۲۱ھ
مرغوب الرّحمٰن القاسمِی غُفرلہ
سونے کے دانت ہوں تو غسلِ جنابت میں پانی کیسے پہنچائے؟
( ۱۲۶)س:…سونے کے دانت بنوانا جائز ہے یا نہیں؟اگر جائز ہے تو غسلِ جنابت میں کیسا کرنا چاہئے؟
ج:…حامدا ومصلیا، الجواب وباللہ التوفیق:ضرورۃً سونے کے دانت بنوانا اس کا خول چڑھانا یا کیل لگانا جائز ہے اور جو چیز دانتوں کے اوپر چڑھی وہ دانت کے حکم میں ہے،اس پر پانی لگنا کافی ہے۔جو چیز پانی پہنچنے کو نہ روکے وہ مخل طہارت نہیں اور مانع وصول آب ہو، مگر ضرورۃً وہ بھی مخل نہیں ،لہذا غسل میں کچھ نقصان نہیں۔
فی الدر المختار ’’ ولا یمنع الطہارۃ ونیم و حناء وبہ یفتی ،فی الشامی معللاً بالضرورۃ ص ۱۵۹ ۔ ۲ ؎ ۔فقط
و اللہ تعالی اعلم وعلمہ اتم وا حکم۔
فتاوی مرغوب الفتاوی دوم
مرغوب الرّحمٰن القاسمِی غُفرلہ
ٹول گیٹ سے گزرنے پر کرایہ لینے کا حکم

سوال

toll gate کا اجارہ جائزہے یا نہیں؟

جواب

اگر حکومت ٹول گیٹ یا ٹول پلازہ سے گزرنے پر کرایہ / ٹیکس مقرر کرتی ہے اور وہاں سے گزرنے پر کرایہ وصول کیا جاتا ہے تو بقدرِ ضرورت حکومت کا یہ کرایہ وصول کرنا جائز ہے۔

اگر آپ کی مراد ٹول گیٹ کے اجارے سے حکومت اور ٹھیکیدار کے درمیان ہونے والا معاہدہ ہے، تو معاہدے کی تفصیل وشرائط بتاکر جواب معلوم کرسکتے ہیں۔ فقط واللہ اعلم

ماخذ :دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن
فتوی نمبر :143908200998
تاریخ اجراء :16-05-2018
مرغوب الرّحمٰن القاسمِی غُفرلہ
کیا دجال انسان ہے؟

سوال

(۱) دجال کے تعلق سے ہمارے اکابر میں سے کسی کی کوئی مستند کتاب ہے؟ وہ کون سی ہے؟
(۲) کیا دجال انسان ہے؟
(۳) وہ پیدا کب ہوگا؟
(۴) وہ کہاں پر آئے گا؟
(۵) میں نے سنا ہے کہ برمودہ ٹرینگل سمندر میں وہ موجود ہے، کیا یہ صحیح ہے؟ جزاک اللہ

جواب

بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1415-1390/N=1/1439
(۱): آپ دجال کے متعلق تحفة القاری شرح صحیح بخاری (موٴلفہ: حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری شیخ الحدیث وصدر المدرسین دار العلوم دیوبند)اور تحفة الالمعی شرح ترمذی (موٴلفہ: حضرت موصوف مد ظلہ العالی)سے دجال سے متعلق حادیث کا ترجمہ اور تشریح کا مطالعہ کریں،نیز علامات قیامت اور نزول مسیح(موٴلفہ: حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ ،ص ۱۴۵تا ۱۶۱) کا بھی مطالعہ کریں۔
(۲): جی ہاں! دجال انسان ہی ہوگا۔
(۳): دجال قیامت کے قریب حضرت عیسی علی نبینا وعلیہ الصلاة والسلام کے نزول سے کچھ پہلے آئے گا۔
(۴): دجال کا خروج اصفہان کے ایک مقام: یہودیہ میں ہوگا اور وہ چند روز میں پوری دنیا کی سیر کرلے گا؛ البتہ مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور بیت المقدس میں نہیں داخل ہوسکے گا جیسا کہ احادیث میں آیا ہے۔
(۵): مجھے اس کی صحیح تحقیق نہیں،اور جب وقت آئے گا تو احادیث شریفہ (علی صاحبھا ألف ألف صلاة وتحیة) کی روشنی میں اس کا معاملہ روز روشن کی طرح ظاہر وباہر ہوجائے گا، قبل از وقت ان سب چیزوں کے پیچھے پڑنے کی ضرورت نہیں؛ البتہ فتنہ دجال سے حفاظت کے لیے جو دعائیں اور اعمال ہیں، ان کا خاص اہتمام کرنا چاہیے، مثلاً اعمال صالحہ اور تقوی کے ذریعے ایمان کو خوب مضبوط اور پختہ کرنے کی کوشش، ہر جمعہ کو پابندی سے سورہ کہف کی تلاوت اور درج ذیل دعا کا بکثرت ورد:
 اَللّٰھُمَّ إِنَّا نَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ جَھَنَّمَ وَأَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَأَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ وَأَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

ماخذ :دار الافتاء دار العلوم دیوبند
فتوی نمبر :154296
تاریخ اجراء :Oct 2, 2017
مرغوب الرّحمٰن القاسمِی غُفرلہ
🔹[ *کتاب النذور*] 🔹

*محلے کی مسجد میں پیسہ*
*دینے کی نذرمان کر دوسری*
*مسجد میں دیناکیسا ہے؟*
==================
*سوال(٤٣٢):* سلام مسنون ! میں نے نذر مانی تھی کہ اگر میں اپنی نوکری کی انٹریو میں پاس ہوگیاتو میں اپنے محلے کی مسجد میں پچیس ہزار روپۓدونگا اب الحمد للہ مجھے کامیابی مل گئ ہے لیکن ا س محلہ سے میں دوسری جگہ شفٹ ہو گیا ہوں تو کیا دوسری مسجد میں وہ پیسہ دے سکتاہوں ؟ شریعت کے بارے میں رہبری کریں مہربانی ہوگی ۔
*(المستفتی :عبدالرزاق*
*حیدر آباد)*
______________
*باسمہ سبحانہ تعالیٰ*
*الجواب وباللہ التوفیق ومنہ الصدق والصواب* : مسجد کی تعیین لازم نہیں، آپ کو اختیار ہے چاہے روپۓ محلہ کی مسجد میں دیدیں یا کسی دوسری مسجد میں دیدیں، البتہ محلے کی مسجد میں دیدینا بہتر ہے۔( مستفاد محمودیہ:۱۴/ ۷۴، ڈابھیل واحسن الفتاوی: ۵/ ۴۸۰، کراچی )
قال الشامی تحت قولہ (فإنہ لا یجوز تعجیلہ الخ) وکذا یظہر منہ أنہ لا یتعین فیہ المکان والدرہم والفقیر۔(شامی:٤٢٦/٣، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم و مالایفسد،طبع زکریا دیوبند)
وإن کان مقیدا بمکان بأن قال للہ تعالیٰ علی أن أصلی رکعتین فی موضع کذا، أو أتصدق علی فقراء بلد کذا، یجوز أداؤہ فی غیر ذٰلک المکان عند أبی حنیفۃ و صاحبیہ لأن المقصود من النذر ہو التقرب إلی اللہ عز وجل ولیس لذات المکان دخل فی القربۃ۔ (الفقہ الاسلامی و أدلتہ،: ٤٨٤/٣، ہدی انٹرنیشنل دیوبند)
*فقط وﷲتعالیٰ أعلم* _________________
*کتبہ :احقر*
*محمد عمران غفرلہ*
*دارالإفتاءوالإرشاد*
*زیراھتمام جامع مسجد*
*وائٹ فیلڈ بنگلور*
*22/12/1441*
*مطابق*
*13/8/2020*
*جمعرات*
*Wap:9454007434*
*Call:8788747386*
*E-mail ID:*
*imranqasmi1501@*
*gmail.com*
*You Tube channel:*
*ISLAMIC SOLUTION*
*MSG*