حضرت اسرافیل اور حضرت عزرائیل علیہم السلام کے نام کا تذکرہ تو قرآن کریم میں موجود نہیں لیکن اُن کی ذمہ داری کو قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے۔ نیز احادیث اور تاریخی کتابوں میں کثرت سے اِن دونوں فرشتوں کا ذکر موجود ہے۔ جہنم کے داروغہ حضرت مالک کا ذکر سورۃ الزخرف، آیت77 میں ہے:
’’اور وہ (دوزخ کے فرشتہ سے) پکار کر کہیں گے کہ اے مالک! تمہارا پروردگار ہمارا کام ہی تمام کر دے، وہ کہے گا کہ تمہیں اسی حال میں رہنا ہے۔‘‘
جنت کے خازن کا تذکرہ متعدد احادیث میں مذکور ہے۔ بعض احادیث میں ان کا نام رضوان بھی مذکور ہے۔
قبر میں سوال کرنے والے فرشتوں کو منکر نکیر کہا جاتا ہے۔
حضرت ہاروت اور حضرت ماروت علیہم السلام کا تذکرہ قرآن کریم میں موجود ہے:
’’(یہ بنی اسرائیل) اُس چیز کے پیچھے لگ گئے جو شہر بابل میں ہاروت اور ماروت نامی دو فرشتوں پر نازل کی گئی تھی۔‘‘(البقرہ 102)
فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے مختلف ذمہ داریاں دے رکھی ہیں۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے احکام انبیائے کرام ؑ کے پاس لے کر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اللہ تعالیٰ فرشتوں میں سے بھی اپنا پیغام پہنچانے والا منتخب کرتا ہے اور انسانوں میں سے بھی۔‘‘ (الحج75)
حضرت جبرئیل علیہ السلام کو تمام فرشتوں کا سردار بھی کہا جاتا ہے۔
حضرت میکائیل علیہ السلام بارش برسانے اور لوگوں کی روزی و روٹی کے انتظام پر مامور ہیں۔(شعب الایمان) حضرت میکائیل علیہ السلام کی ماتحتی میں بے شمار فرشتے اس ذمہ داری کو انجام دیتے ہیں۔
حضرت اسرافیل علیہ السلام قیامت کے دن صور پھونکیں گے۔
حضرت عزرائیل علیہ السلام روح قبض کرنے پر مامور ہیں۔ حضرت عزرائیل علیہ السلام کی ماتحتی میں بے شمار فرشتے لوگوں کی جان نکالنے پر مامور ہیں۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’کہہ دو کہ تمہیں موت کا وہ فرشتہ (ملک الموت) پورا پورا وصول کرلے گا جو تم پر مقرر کیا گیا ہے، پھر تمہیں واپس تمہارے پروردگار کے پاس لے جایا جائے گا۔" (السجدہ 11)
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے جنت اور جہنم کی دربانی پر بے شمار فرشتے متعین فرمائے ہیں چنانچہ قرآن کریم میں ہے کہ جنتی لوگ جب جنت کے دروازے پر پہنچیں گے تو جنت کے محافظ اُن کا استقبال کرتے ہوئے فرمائیں گے:
’’سلام ہو آپ پر، آپ لوگ بہت اچھے رہے، اب اس جنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے کے لیے آ جائیے۔‘‘ (الزمر 73)
اسی طرح فرمانِ الٰہی ہے:
’’یہ دوزخ کے کارندے کوئی اور نہیں، فرشتے مقرر کیے ہیں۔‘‘ (المدثر 31)
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی حفاظت پر بھی فرشتوں کو متعین کررکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ہر شخص کے آگے اور پیچھے وہ نگراں (فرشتے) مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے باری باری اس کی حفاظت کرتے ہیں۔‘‘ (الرعد 11)
بعض فرشتے انسان کے اچھے اور برے اعمال لکھتے رہتے ہیں جن کو کراماً کاتبین کہتے ہیں۔ اِن فرشتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’حالانکہ تم پر کچھ نگراں (فرشتے) مقرر ہیں، وہ معزز لکھنے والے جو تمہارے سارے کاموں کو جانتے ہیں۔‘‘ (الانفطار12-10)
نیز فرمانِ الٰہی ہے:
’’اُس وقت بھی جب (اعمال کو) لکھنے والے 2 فرشتے لکھ رہے ہوتے ہیں، ایک دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب بیٹھا ہوتا ہے، انسان کوئی لفظ زبان سے نکال نہیں پاتا، مگر اُس پر ایک نگران متعین ہوتا ہے، ہر وقت لکھنے کے لیے تیار۔‘‘ (قٓ 17و 18)
کچھ فرشتے عرش الٰہی کو اٹھائے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وہ (فرشتے) جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں، اور جو اُس کے گرد موجود ہیں، وہ سب اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں۔‘‘ (المؤمن 7)
اسی طرح فرمانِ الٰہی ہے:
’’فرشتے اُس کے کنارے پر ہوں گے اور تمہارے پروردگار کے عرش کو اُس دن 8 فرشتے اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے۔‘‘ (الحاقہ 17)
فرشتوں کی ایک جماعت درود و سلام کو نبی اکرم تک پہنچانے پر مقرر ہے۔
کچھ فرشتے دنیا میں گھومتے رہتے ہیں اور جہاں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہو، وعظ و نصیحت ہوتی ہو، قرآن کریم یا دینی علوم پڑھے یا پڑھائے جاتے ہوں ایسی مجلسوں میں وہ حاضر ہوتے ہیں تاکہ جتنے لوگ اس مجلس میں اور اس نیک کام میں شریک ہیں اُن کی شرکت کی اللہ تعالیٰ کے سامنے گواہی دیں۔ دنیا میں جو فرشتے کام کرتے ہیں اُن کی صبح وشام میں تبدیلی بھی ہوتی ہے۔
نماز فجر کے وقت رات والے فرشتے آسمانوں پر چلے جاتے ہیں اور دن میں کام کرنے والے آجاتے ہیں اور عصر کی نماز کے بعد دن والے فرشتے چلے جاتے ہیں، رات میں کام کرنے والے فرشتے آجاتے ہیں۔ فرشتوں کی ایک جماعت ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس میں بھی مشغول رہتی ہے۔ جس طرح دنیا میں بیت اللہ کا طواف کیا جاتا ہے، اسی طرح آسمانوں پر اللہ کا گھر ہے جس کو’’بیت المعمور‘‘ کہا جاتا ہے، اُس کا فرشتوں کی ایک جماعت ہر وقت طواف کرتی رہتی ہے۔ کتب حدیث میں وضاحت موجود ہے۔
https://t.me/islamwitheman
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
’’اور وہ (دوزخ کے فرشتہ سے) پکار کر کہیں گے کہ اے مالک! تمہارا پروردگار ہمارا کام ہی تمام کر دے، وہ کہے گا کہ تمہیں اسی حال میں رہنا ہے۔‘‘
جنت کے خازن کا تذکرہ متعدد احادیث میں مذکور ہے۔ بعض احادیث میں ان کا نام رضوان بھی مذکور ہے۔
قبر میں سوال کرنے والے فرشتوں کو منکر نکیر کہا جاتا ہے۔
حضرت ہاروت اور حضرت ماروت علیہم السلام کا تذکرہ قرآن کریم میں موجود ہے:
’’(یہ بنی اسرائیل) اُس چیز کے پیچھے لگ گئے جو شہر بابل میں ہاروت اور ماروت نامی دو فرشتوں پر نازل کی گئی تھی۔‘‘(البقرہ 102)
فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے مختلف ذمہ داریاں دے رکھی ہیں۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے احکام انبیائے کرام ؑ کے پاس لے کر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اللہ تعالیٰ فرشتوں میں سے بھی اپنا پیغام پہنچانے والا منتخب کرتا ہے اور انسانوں میں سے بھی۔‘‘ (الحج75)
حضرت جبرئیل علیہ السلام کو تمام فرشتوں کا سردار بھی کہا جاتا ہے۔
حضرت میکائیل علیہ السلام بارش برسانے اور لوگوں کی روزی و روٹی کے انتظام پر مامور ہیں۔(شعب الایمان) حضرت میکائیل علیہ السلام کی ماتحتی میں بے شمار فرشتے اس ذمہ داری کو انجام دیتے ہیں۔
حضرت اسرافیل علیہ السلام قیامت کے دن صور پھونکیں گے۔
حضرت عزرائیل علیہ السلام روح قبض کرنے پر مامور ہیں۔ حضرت عزرائیل علیہ السلام کی ماتحتی میں بے شمار فرشتے لوگوں کی جان نکالنے پر مامور ہیں۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’کہہ دو کہ تمہیں موت کا وہ فرشتہ (ملک الموت) پورا پورا وصول کرلے گا جو تم پر مقرر کیا گیا ہے، پھر تمہیں واپس تمہارے پروردگار کے پاس لے جایا جائے گا۔" (السجدہ 11)
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے جنت اور جہنم کی دربانی پر بے شمار فرشتے متعین فرمائے ہیں چنانچہ قرآن کریم میں ہے کہ جنتی لوگ جب جنت کے دروازے پر پہنچیں گے تو جنت کے محافظ اُن کا استقبال کرتے ہوئے فرمائیں گے:
’’سلام ہو آپ پر، آپ لوگ بہت اچھے رہے، اب اس جنت میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے کے لیے آ جائیے۔‘‘ (الزمر 73)
اسی طرح فرمانِ الٰہی ہے:
’’یہ دوزخ کے کارندے کوئی اور نہیں، فرشتے مقرر کیے ہیں۔‘‘ (المدثر 31)
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی حفاظت پر بھی فرشتوں کو متعین کررکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ہر شخص کے آگے اور پیچھے وہ نگراں (فرشتے) مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے باری باری اس کی حفاظت کرتے ہیں۔‘‘ (الرعد 11)
بعض فرشتے انسان کے اچھے اور برے اعمال لکھتے رہتے ہیں جن کو کراماً کاتبین کہتے ہیں۔ اِن فرشتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’حالانکہ تم پر کچھ نگراں (فرشتے) مقرر ہیں، وہ معزز لکھنے والے جو تمہارے سارے کاموں کو جانتے ہیں۔‘‘ (الانفطار12-10)
نیز فرمانِ الٰہی ہے:
’’اُس وقت بھی جب (اعمال کو) لکھنے والے 2 فرشتے لکھ رہے ہوتے ہیں، ایک دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب بیٹھا ہوتا ہے، انسان کوئی لفظ زبان سے نکال نہیں پاتا، مگر اُس پر ایک نگران متعین ہوتا ہے، ہر وقت لکھنے کے لیے تیار۔‘‘ (قٓ 17و 18)
کچھ فرشتے عرش الٰہی کو اٹھائے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’وہ (فرشتے) جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں، اور جو اُس کے گرد موجود ہیں، وہ سب اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں۔‘‘ (المؤمن 7)
اسی طرح فرمانِ الٰہی ہے:
’’فرشتے اُس کے کنارے پر ہوں گے اور تمہارے پروردگار کے عرش کو اُس دن 8 فرشتے اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے۔‘‘ (الحاقہ 17)
فرشتوں کی ایک جماعت درود و سلام کو نبی اکرم تک پہنچانے پر مقرر ہے۔
کچھ فرشتے دنیا میں گھومتے رہتے ہیں اور جہاں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہو، وعظ و نصیحت ہوتی ہو، قرآن کریم یا دینی علوم پڑھے یا پڑھائے جاتے ہوں ایسی مجلسوں میں وہ حاضر ہوتے ہیں تاکہ جتنے لوگ اس مجلس میں اور اس نیک کام میں شریک ہیں اُن کی شرکت کی اللہ تعالیٰ کے سامنے گواہی دیں۔ دنیا میں جو فرشتے کام کرتے ہیں اُن کی صبح وشام میں تبدیلی بھی ہوتی ہے۔
نماز فجر کے وقت رات والے فرشتے آسمانوں پر چلے جاتے ہیں اور دن میں کام کرنے والے آجاتے ہیں اور عصر کی نماز کے بعد دن والے فرشتے چلے جاتے ہیں، رات میں کام کرنے والے فرشتے آجاتے ہیں۔ فرشتوں کی ایک جماعت ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تقدیس میں بھی مشغول رہتی ہے۔ جس طرح دنیا میں بیت اللہ کا طواف کیا جاتا ہے، اسی طرح آسمانوں پر اللہ کا گھر ہے جس کو’’بیت المعمور‘‘ کہا جاتا ہے، اُس کا فرشتوں کی ایک جماعت ہر وقت طواف کرتی رہتی ہے۔ کتب حدیث میں وضاحت موجود ہے۔
https://t.me/islamwitheman
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
اصلاحی کہانیاں اور سبق آموز احادیث و واقعات...
ایڈمن سے رابطہ کیلئے:
@syedsajjadhamdani
ایڈمن سے رابطہ کیلئے:
@syedsajjadhamdani
🔷 جہنم کا داروغہ مالک 🔷
قرآن مجید میں جہنم کے عذاب کی شدت کو ایک مقام پر اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ اہل جہنم دوزخ کے داروغہ کو پکار کر کہیں گے کہ اے مالک! کچھ ایسا ہو جائے کہ تمھارا رب ہمارا خاتمہ کر دے۔ (الزخرف77:43)
یہ سوال اہل جہنم کی اس انتہائی مایوسی کا بیان ہے جس میں وہ عذاب کی شدت سے گھبرا کر اور کوئی راہ نجات نہ پاکر موت کی فرمائش کریں گے۔ وہ بھی رد کر دی جائے گی۔
داروغہ جہنم کے نام کے حوالے سے ایک رائے یہ ہے کہ مالک فرشتے کا نام نہیں، اس کا لقب ہے۔ یہ بات ٹھیک محسوس ہوتی ہے۔ فرشتوں کے نام ایسے نہیں ہوتے۔ اس لقب کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کریم و رحیم ہستی اہل جہنم کے حال سے بالکل لاتعلق ہو جائے گی اور داروغہ جہنم کو ان کے معاملات کا مالک بنا دیا جائے گا۔ اہل جہنم کو ان فرشتوں کے حوالے کر دیا جائے گا جو انتہائی تند خو اور سخت مزاج ہیں۔ یہ فرشتے ان پر ہر قسم کے عذاب کی انتہا کو نافذ کر دیں گے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سخت سزا کس جرم کی ہے؟ مالک کا لقب ہی اس سوال کا جواب ہے۔
یہ عذاب ان لوگوں کو دیا جائے گا جو اِس دنیا میں خدائے رحمان و کریم کو تنہا اپنا مالک و مولیٰ بنانے پر راضی نہیں ہوئے۔ انھیں خدائے کریم کے ساتھ ہمیشہ کسی دوسرے مالک، مولیٰ، آقا، ان داتا اور حامی و ناصر کی ضرورت محسوس ہوتی رہی۔ ان کی نذر، نیاز، سجدہ، دعا، محبت، شوق کا مرکز و محور خدا کے سوا کوئی اور رہا۔ ایسے مجرموں کا انجام یہی ہے کہ اصل مالک روزِ قیامت ان کو جہنم کے داروغہ مالک کے حوالے کر دے جو ان کی زندگی کو سراپا جہنم بنا کر رکھ دے گا۔
آج لوگوں کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ سب کو چھوڑ کر رب رحمان سے لو لگا لیں۔ تنہا اسی پر ایمان لائیں، اسی کی مانیں، اسی پر توکل کریں، اسی سے امید رکھیں، اسی سے وفا کریں اور تن تنہا اسی کو اپنا مالک سمجھیں۔ جو لوگ آج یہ کریں گے کل ان کا بدلہ جنت کی ابدی بادشاہی ہے۔
https://t.me/islamwitheman
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
قرآن مجید میں جہنم کے عذاب کی شدت کو ایک مقام پر اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ اہل جہنم دوزخ کے داروغہ کو پکار کر کہیں گے کہ اے مالک! کچھ ایسا ہو جائے کہ تمھارا رب ہمارا خاتمہ کر دے۔ (الزخرف77:43)
یہ سوال اہل جہنم کی اس انتہائی مایوسی کا بیان ہے جس میں وہ عذاب کی شدت سے گھبرا کر اور کوئی راہ نجات نہ پاکر موت کی فرمائش کریں گے۔ وہ بھی رد کر دی جائے گی۔
داروغہ جہنم کے نام کے حوالے سے ایک رائے یہ ہے کہ مالک فرشتے کا نام نہیں، اس کا لقب ہے۔ یہ بات ٹھیک محسوس ہوتی ہے۔ فرشتوں کے نام ایسے نہیں ہوتے۔ اس لقب کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کریم و رحیم ہستی اہل جہنم کے حال سے بالکل لاتعلق ہو جائے گی اور داروغہ جہنم کو ان کے معاملات کا مالک بنا دیا جائے گا۔ اہل جہنم کو ان فرشتوں کے حوالے کر دیا جائے گا جو انتہائی تند خو اور سخت مزاج ہیں۔ یہ فرشتے ان پر ہر قسم کے عذاب کی انتہا کو نافذ کر دیں گے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سخت سزا کس جرم کی ہے؟ مالک کا لقب ہی اس سوال کا جواب ہے۔
یہ عذاب ان لوگوں کو دیا جائے گا جو اِس دنیا میں خدائے رحمان و کریم کو تنہا اپنا مالک و مولیٰ بنانے پر راضی نہیں ہوئے۔ انھیں خدائے کریم کے ساتھ ہمیشہ کسی دوسرے مالک، مولیٰ، آقا، ان داتا اور حامی و ناصر کی ضرورت محسوس ہوتی رہی۔ ان کی نذر، نیاز، سجدہ، دعا، محبت، شوق کا مرکز و محور خدا کے سوا کوئی اور رہا۔ ایسے مجرموں کا انجام یہی ہے کہ اصل مالک روزِ قیامت ان کو جہنم کے داروغہ مالک کے حوالے کر دے جو ان کی زندگی کو سراپا جہنم بنا کر رکھ دے گا۔
آج لوگوں کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ سب کو چھوڑ کر رب رحمان سے لو لگا لیں۔ تنہا اسی پر ایمان لائیں، اسی کی مانیں، اسی پر توکل کریں، اسی سے امید رکھیں، اسی سے وفا کریں اور تن تنہا اسی کو اپنا مالک سمجھیں۔ جو لوگ آج یہ کریں گے کل ان کا بدلہ جنت کی ابدی بادشاہی ہے۔
https://t.me/islamwitheman
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
اصلاحی کہانیاں اور سبق آموز احادیث و واقعات...
ایڈمن سے رابطہ کیلئے:
@syedsajjadhamdani
ایڈمن سے رابطہ کیلئے:
@syedsajjadhamdani
🔷 حسد (تفصیلا) 🔷
حسد یعنی دوسروں کو دی گئی نعمتوں کے ختم ہونے کی آرزو کرنا یہ ایک بہت ہی بری صفت ہے۔ حسد کا لفظ اور اس کے مشتقات قرآن کریم میں چار بار استعمال ہوئے ہیں اور بہت سی حدیث بیان ہوئی ہیں جس میں حسد کی مذمت کی گئی ہے اور اسے گناہ کہا گیا ہے۔ حدیث رفع کے مطابق، اگر حسد کا ظاہری اثر نہ ہو تو گناہ نہیں اور اس کی سزا نہیں ملے گی۔
■ مبت
امام صادق(ع)
"بَيْنَما مُوسَى بْنُ عِمْرانَ يُناجِى رَبَّهُ وَ يُكَلِّمُهُ اذْ رَأى رَجُلًا تَحْتَ ظِلِّ عَرْشِ اللَّهِ، فَقالَ: يا رَبِّ مَنْ هذا الَّذى قَدْ أظَلَّهُ عَرْشُكَ؟ فَقالَ: يا مُوسى، هذا مِمَّنْ لَمْ يَحْسُدِ النّاسَ عَلى ما آتاهُمُ اللَّهُ مُنْ فَضْلِهِ"
موسی بن عمران مناجات اور خدا سے گفتگو میں مشغول تھے کہ ایک مرد کوعرش خدا کے سائے میں دیکھا، عرض کی: الہی! یہ کون ہے جو تیرے عرش کے سائے میں ہے؟ خطاب ہوا: اے موسی! یہ وہ ہے کہ جب میں نے لوگوں کو نعمتیں عطا کیں تو اس نے حسد نہیں کیا۔
(بحار الانوار، ج٧٠، ص٢٤٥۔)
■ لفظی اور اصطلاحی معنی
حسد کا معنی یعنی دوسروں کو عطا کردہ نعمتوں کے ختم ہونے کی آرزو کرنا۔ بعض مفسرین نے حسد کا یوں معنی کیا ہے کہ جیسے کہ ایک چیز کو دوسری چیز کے اوپر رکھ کر اتنا رگڑا جائے کی خراش آ جائے۔[1] بعض علماء لغت نے حسد کے اصلی لفظ کو حسدل سے لیا ہے جس کا معنی کھٹمل بنتا ہے۔ جس طرح کھٹمل انسان کو بدن کو زخمی کرکے اس کا خون چوستا ہے اسی طرح حسد بھی حسد کرنے والے شخص سے یہی کام کرتا ہے۔ [2] فی الواقع حسد ایسے شخص کا انتہائی عمل سمجھا جاتا ہے جو دوسروں کی خوشبختی نہیں دیکھ سکتا۔ [3] حسد کی تعریف، حسود شخص چاہتا ہے کہ نعمتیں صرف اپنے لئے ہوں اور دوسرے ان نعمتوں سے محروم ہوں۔[4]لیکن اسی کی جامع تعریف یہ ہو گی کہ، حسود شخص دوسروں کی نعمتوں کو ختم کرنے کی آرزو کرتا ہے اگرچہ اس کام میں اس کو جتنی ہی کوشش کیوں نہ کرنی پڑھے۔[5] اگرچہ اہل علم نے حسد کے لئے مراتب ذکر کیے ہیں۔ [6] لیکن یہی تعریف حسد کے مراتب کی طرف اشارہ کرنے کے لئے کافی ہے۔ معنی کے لحاظ سے رشک اور حسد ایک دوسرے کے قریب ہیں، لیکن فرق یہ ہے کہ رشک میں انسان دوسروں کی نعمتوں کے ختم ہونے کی آرزو نہیں کرتا، بلکہ صرف یہ چاہتا ہے کہ کاش یہ نعمتیں اس کے پاس بھی ہوتیں، اس لئے رشک کو ایک پسندیدہ صفت کہا گیا ہے۔
■ قرآن میں
حسد اور اس کے مشتقات قرآن میں چار آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ [7] سورہ بقرہ کی آیت ١٠٩ میں آیا ہے اہل کتاب [8] کے دل میں جو حسد ہے، وہ چاہتے ہیں کہ مومنین بھی اس کفر کو اختیار کریں۔ اور سورہ نساء کی آیت ٥٤ میں حسادت کے بارے میں بحث کی گئی ہے۔ آیات کی سیاق اور مفسرین کی تفسیر سےپتہ چلتا ہے کہ یہ آیت، [9]حضرت پیغمبر(ص) کے زمانے کے بعض یہودیوں کے بارے میں ہے کہ جو اسلام کی شوکت اور اس کے زیادہ چاہنے والوں سے حسد کرتے تھے۔ بعض آیات میں حسد کا لفظ یا اس کے مشتقات استعمال نہیں ہوئے لیکن اس کے معنی سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حسد کے بارے میں ہیں۔[10] مثال کے طور پر، سورہ نساء کی آیت ٣٢ میں مومنوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جو کچھ خدا نے انکو دیا ہے اس پر راضی رہیں اور جو دوسروں کو دیا ہے اس کی حسرت نہ کھائیں۔ اس کا نتیجہ یہی ہے کہ اگر کوئی ایسا نہ کرے، تو اس کا مطلب ہے اس میں حسد پیدا ہو رہا ہے۔ [11] کسی کی خوشی سے غمگین ہونا اور کسی کی بدبختی پر خوش ہونا، کہ جیسا سورہ آل عمران کی آیت ١٢٠ بھی اسی بارے میں ہے، اس کا معنی بھی حسد کا ہی ہے۔ [12] سورہ یوسف کی آیت ٨ میں حضرت یعقوب کی حضرت یوسف کے ساتھ بے انتہا محبت کی وجہ سے یوسف(ع) کے بھائیوں کی آپ سے شدید نفرت کو بیان کیا گیا ہے اورقرآن کی اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک شیطانی رفتار ہے۔[13] قرآن میں بعض وقت بغی کا لفظ بھی حسد کے معنی میں آیا ہے۔ [14] سیوطی کے بقول [15] بغی تمیمی کے لحجہ کے مطابق حسد کے معنی میں ہے۔ فخر رازی[16] نے بعض قرآنی آیات کو ذکر کیا ہے کہ جس سے ظاہر ہوتا ہے ان میں حسد کے بارے میں بحث ہوئی ہے۔
■ احادیث میں
امام صادق(ع)
"إنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الإْيمانَ كَما تَأْكُلُ النّارُ الْحَطَبَ"
حسد ایمان کوایسے کھاتا ہے، جیسے آگ لکڑی کو۔ (کافی،ج٢،ص٣٠٦)
حسد سے دور رہنے اور اس کی نشانیوں کے بارے میں بہت حدیث نقل ہوئی ہیں۔ مشہور حدیث میں، حسد کو آگ سے تشبیح دی گئی ہے کہ جیسے لکڑی آگ کو کھا جاتی ہے اسی طرح سے حسد آدمی کی نیکیوں کو تباہ کر دیتا ہے۔[17] حدیث نبوی میں آیا ہے کہ حسد ایک ایسی صفت ہے کہ کوئی بھی اس سے محفوظ نہیں ہے۔ [18] امام صادق(ع) کی حدیث کے مطابق [19] حسد ایک ایسی صفت ہے کہ حتی پیغمبر یا ان سے نیچے درجہ رکھنے والے افراد بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں، مگر وہ افراد جو مومن ہیں وہ حسد کو اپنے عمل میں داخل نہیں دیتے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے، حسد وہ پہلا گناہ ہے کہ آسمانوں پر ابلیس اور زمین پر قابیل اس کا مرتکب ہوا ہے۔ [20]
حسد یعنی دوسروں کو دی گئی نعمتوں کے ختم ہونے کی آرزو کرنا یہ ایک بہت ہی بری صفت ہے۔ حسد کا لفظ اور اس کے مشتقات قرآن کریم میں چار بار استعمال ہوئے ہیں اور بہت سی حدیث بیان ہوئی ہیں جس میں حسد کی مذمت کی گئی ہے اور اسے گناہ کہا گیا ہے۔ حدیث رفع کے مطابق، اگر حسد کا ظاہری اثر نہ ہو تو گناہ نہیں اور اس کی سزا نہیں ملے گی۔
■ مبت
امام صادق(ع)
"بَيْنَما مُوسَى بْنُ عِمْرانَ يُناجِى رَبَّهُ وَ يُكَلِّمُهُ اذْ رَأى رَجُلًا تَحْتَ ظِلِّ عَرْشِ اللَّهِ، فَقالَ: يا رَبِّ مَنْ هذا الَّذى قَدْ أظَلَّهُ عَرْشُكَ؟ فَقالَ: يا مُوسى، هذا مِمَّنْ لَمْ يَحْسُدِ النّاسَ عَلى ما آتاهُمُ اللَّهُ مُنْ فَضْلِهِ"
موسی بن عمران مناجات اور خدا سے گفتگو میں مشغول تھے کہ ایک مرد کوعرش خدا کے سائے میں دیکھا، عرض کی: الہی! یہ کون ہے جو تیرے عرش کے سائے میں ہے؟ خطاب ہوا: اے موسی! یہ وہ ہے کہ جب میں نے لوگوں کو نعمتیں عطا کیں تو اس نے حسد نہیں کیا۔
(بحار الانوار، ج٧٠، ص٢٤٥۔)
■ لفظی اور اصطلاحی معنی
حسد کا معنی یعنی دوسروں کو عطا کردہ نعمتوں کے ختم ہونے کی آرزو کرنا۔ بعض مفسرین نے حسد کا یوں معنی کیا ہے کہ جیسے کہ ایک چیز کو دوسری چیز کے اوپر رکھ کر اتنا رگڑا جائے کی خراش آ جائے۔[1] بعض علماء لغت نے حسد کے اصلی لفظ کو حسدل سے لیا ہے جس کا معنی کھٹمل بنتا ہے۔ جس طرح کھٹمل انسان کو بدن کو زخمی کرکے اس کا خون چوستا ہے اسی طرح حسد بھی حسد کرنے والے شخص سے یہی کام کرتا ہے۔ [2] فی الواقع حسد ایسے شخص کا انتہائی عمل سمجھا جاتا ہے جو دوسروں کی خوشبختی نہیں دیکھ سکتا۔ [3] حسد کی تعریف، حسود شخص چاہتا ہے کہ نعمتیں صرف اپنے لئے ہوں اور دوسرے ان نعمتوں سے محروم ہوں۔[4]لیکن اسی کی جامع تعریف یہ ہو گی کہ، حسود شخص دوسروں کی نعمتوں کو ختم کرنے کی آرزو کرتا ہے اگرچہ اس کام میں اس کو جتنی ہی کوشش کیوں نہ کرنی پڑھے۔[5] اگرچہ اہل علم نے حسد کے لئے مراتب ذکر کیے ہیں۔ [6] لیکن یہی تعریف حسد کے مراتب کی طرف اشارہ کرنے کے لئے کافی ہے۔ معنی کے لحاظ سے رشک اور حسد ایک دوسرے کے قریب ہیں، لیکن فرق یہ ہے کہ رشک میں انسان دوسروں کی نعمتوں کے ختم ہونے کی آرزو نہیں کرتا، بلکہ صرف یہ چاہتا ہے کہ کاش یہ نعمتیں اس کے پاس بھی ہوتیں، اس لئے رشک کو ایک پسندیدہ صفت کہا گیا ہے۔
■ قرآن میں
حسد اور اس کے مشتقات قرآن میں چار آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ [7] سورہ بقرہ کی آیت ١٠٩ میں آیا ہے اہل کتاب [8] کے دل میں جو حسد ہے، وہ چاہتے ہیں کہ مومنین بھی اس کفر کو اختیار کریں۔ اور سورہ نساء کی آیت ٥٤ میں حسادت کے بارے میں بحث کی گئی ہے۔ آیات کی سیاق اور مفسرین کی تفسیر سےپتہ چلتا ہے کہ یہ آیت، [9]حضرت پیغمبر(ص) کے زمانے کے بعض یہودیوں کے بارے میں ہے کہ جو اسلام کی شوکت اور اس کے زیادہ چاہنے والوں سے حسد کرتے تھے۔ بعض آیات میں حسد کا لفظ یا اس کے مشتقات استعمال نہیں ہوئے لیکن اس کے معنی سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حسد کے بارے میں ہیں۔[10] مثال کے طور پر، سورہ نساء کی آیت ٣٢ میں مومنوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جو کچھ خدا نے انکو دیا ہے اس پر راضی رہیں اور جو دوسروں کو دیا ہے اس کی حسرت نہ کھائیں۔ اس کا نتیجہ یہی ہے کہ اگر کوئی ایسا نہ کرے، تو اس کا مطلب ہے اس میں حسد پیدا ہو رہا ہے۔ [11] کسی کی خوشی سے غمگین ہونا اور کسی کی بدبختی پر خوش ہونا، کہ جیسا سورہ آل عمران کی آیت ١٢٠ بھی اسی بارے میں ہے، اس کا معنی بھی حسد کا ہی ہے۔ [12] سورہ یوسف کی آیت ٨ میں حضرت یعقوب کی حضرت یوسف کے ساتھ بے انتہا محبت کی وجہ سے یوسف(ع) کے بھائیوں کی آپ سے شدید نفرت کو بیان کیا گیا ہے اورقرآن کی اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک شیطانی رفتار ہے۔[13] قرآن میں بعض وقت بغی کا لفظ بھی حسد کے معنی میں آیا ہے۔ [14] سیوطی کے بقول [15] بغی تمیمی کے لحجہ کے مطابق حسد کے معنی میں ہے۔ فخر رازی[16] نے بعض قرآنی آیات کو ذکر کیا ہے کہ جس سے ظاہر ہوتا ہے ان میں حسد کے بارے میں بحث ہوئی ہے۔
■ احادیث میں
امام صادق(ع)
"إنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الإْيمانَ كَما تَأْكُلُ النّارُ الْحَطَبَ"
حسد ایمان کوایسے کھاتا ہے، جیسے آگ لکڑی کو۔ (کافی،ج٢،ص٣٠٦)
حسد سے دور رہنے اور اس کی نشانیوں کے بارے میں بہت حدیث نقل ہوئی ہیں۔ مشہور حدیث میں، حسد کو آگ سے تشبیح دی گئی ہے کہ جیسے لکڑی آگ کو کھا جاتی ہے اسی طرح سے حسد آدمی کی نیکیوں کو تباہ کر دیتا ہے۔[17] حدیث نبوی میں آیا ہے کہ حسد ایک ایسی صفت ہے کہ کوئی بھی اس سے محفوظ نہیں ہے۔ [18] امام صادق(ع) کی حدیث کے مطابق [19] حسد ایک ایسی صفت ہے کہ حتی پیغمبر یا ان سے نیچے درجہ رکھنے والے افراد بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں، مگر وہ افراد جو مومن ہیں وہ حسد کو اپنے عمل میں داخل نہیں دیتے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے، حسد وہ پہلا گناہ ہے کہ آسمانوں پر ابلیس اور زمین پر قابیل اس کا مرتکب ہوا ہے۔ [20]
■ مومنوں سے حسد کا حکم اٹھایا گیا ہے
حدیث رفع میں ذکر ہوا ہے کہ خدا نے مومنوں کے حق میں لطف کیا ہے اور وہ یہ کہ ان کے اس گناہ سے درگذر فرمایا ہے۔ اس حدیث کی شرح میں، کہا گیا ہے کہ یہاں حسد سے مراد ایسا حسد جو کہ دل میں موجود ہے جو اعمال میں ظاہر نہ ہوا ہو اس کی سزا نہیں ہے۔
■ رشک اور حسد کے درمیان فرق
امام صادق(ع)
"إنَّ الْمُؤْمِنَ يَغْبِطُ وَ لا يَحْسُدُ، وَ الْمُنافِقُ يَحْسُدُ وَ لا يَغْبِطُ"
مومن رشک کھاتا ہے، حسد نہیں کرتا، لیکن منافق رشک نہیں کرتا بلکہ حسد کرتا ہے۔ (کافی،ج٢ص:٣٠٧)
رشک اور حسد کے معنی میں یہ فرق ہے کہ۔ [21]انسان رشک میں دوسروں کی نعمتوں کے زائل ہونے کی آرزو نہیں کرتا، بلکہ صرف یہ چاہتا ہے کہ کاش وہ بھی ان نعمات سے بہرہ مند ہوتا۔ [22] رشک حسد کے مقابلے میں ایک اچھی صفت ہے، [23] جیسے کہ روایت میں رشک کو صراحت کے ساتھ مومنین کی صفت کہا گیا ہے جب کہ حسد کو منافق کی خصلت کہا ہے۔ [24] غزالی کہتا ہے کہ بعض جگہ پر یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں [25] اور نمونے کے طور پر اس نے ایک حدیث ذکر کی ہے۔ [26]
■ بری نظر کا حسد سے رابطہ
بری نظر کا حسد کے ساتھ بہت گہرا رابطہ ہے۔ بعض روایات میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ [27] مفسران کے نزدیک سورہ فلق کی آیت٥ اسی بارے میں ہے کہ جس میں حسود کی حسادت کو ذکر کیا گیا ہے۔[28]
■ غزالی کی نگاہ میں حسد
غزالی [29] کی نگاہ میں حسد ٧ چیزوں میں ہے: دشمنی اور کینہ رکھنا، اپنے اوپراترانا، غروراور تکبر، دوسروں کے مال پر متعجب ہونا، اپنے مال کے ضائع ہونے کا ڈر، حکمیت اور شہرت کا شوق، نفس کی خباثت۔[30] اس میں ایک نکتے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے: کہ حسد کا ریشہ در اصل دل کے اندر ہے اس لئے اسے قلب کی صفت کہا گیا ہے۔ یہ دلی صفت بعض اوقات جب انسان کی زبان یا رفتار میں ظاہر ہوتی ہے تب انسان ایک برے گناہ میں مرتکب ہوتا ہے اس وقت اسے چاہیے کہ اپنے گناہ کی معافی مانگے (یجب الاستحلال منھا) لیکن بعض اوقات حسد صرف دل کے اندر ہی رہتا ہے، اس صورت میں انسان فقط اپنے اور خدا کے درمیان گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔
حسد سے محفوظ رہنے کا طریقہ
علم اخلاق کے دانشوروں نے غزالی کی پیروی کرتے ہوئے،[31] حسد کی بیماری کے علاج کے لئے دو علمی طریقے ذکر کئے ہیں۔ [32] ابن عربی[33] نے حسد کو ایک ذاتی اور دلی صفت کہا ہے اور اس کے ختم ہونے کو ممکن کہا ہے۔ [34] امام صادق(ع) کی روایت، کہ جس میں حسد کو انسان کے خون اور گوشت میں رچا ہوا کہا گیا ہے،[35] اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک ذاتی اور فطری صفت ہے۔ عرفانی نکتہ نگاہ نگاہ سے قیامت کے دن انسان سے دس مرحلوں میں سے آٹھویں مرحلے پر حسد کے بارے میں سوال کیا جائے گا اور اگر حسد نہ کیا ہو گا تو نویں مرحلے کی طرف جا سکے گا اور عرش الہی کے نزدیک ہو جائے گا۔ [36]
📚 حوالہ جات
رجوع کنید به ثعلبى؛ ابوالفتوح رازى، ذیل بقره: ۱۰۹
جوع کنید به ازهرى؛ ابنمنظور؛ زبیدى، ذیل واژه
ارسطو، ص ۷۱
جرجانى، ص ۹۲
یحییبن عدى، ص ۱۹؛ راغب اصفہانى، ذیل واژه
رجوع کریں غزالى، ۱۴۱۷، ج ۳، ص ۲۰۴؛ فیض کاشانى، ج ۵، ص ۳۳۴؛ نراقى، ج ۲، ص ۲۰۴ـ۲۰۵
رجوع کریں بقره: ۱۰۹؛ نساء: ۵۴؛ فتح: ۱۵؛ فلق: ۵
که مفسران منظور از آنان را یہودیان میدانند، رجوع کریں، ابوالفتوح رازى؛ فخررازى، ذیل آیہ
رجوع کریں طبرى؛ طوسى؛ ابوالفتوح رازى؛ فخر رازى، ذیل آیہ
براى اطلاع از پارهاى از این آیات رجوع کریں غزالى، ۱۴۱۷، ج ۳، ص ۲۰۲؛ فخررازى، ذیل بقره: ۱۰۹
فخررازى، ذیل آیہ؛ نیز رجوع کریں زحیلى، ذیل آیہ
فخر رازى، ذیل بقره: ۱۰۹
ہمانجا
جوع کریں دامغانى، ص ۱۶۶؛ تفلیسى، ص ۴۸
سیوطی، ج ۲، ص ۱۲۱
همانجا
ابنماجہ، ج ۲، ص ۱۴۰۸؛ ابوداوود، ج ۴، ص ۲۷۶
ماوردى، ص ۲۶۶
کلینى، ج ۸، ص ۱۰۸
ماوردى، ص ۲۶۱
غزالى، ۱۴۱۷، ج ۳، ص ۲۰۲ـ۲۰۳
نراقى، ج ۲، ص ۲۰۲ـ ۲۰۳
رجوع کریں ماوردى، ص ۲۶۲
راغب اصفہانى، ہمانجا؛ مجلسى، ج ۷۰، ص ۲۵۰
غزالی، ۱۴۱۷، ج ۳، ص ۲۰۲
رجوع کریں ۱۳۶۴ش، ج ۱، ص ۱۲۷؛ نیز رجوع کریں فخررازى، ہمانجا
براى نمونه رجوع کنید به مجلسى، همانجا
براى نمونه رجوع کنید به طبرى؛ طوسى؛ فخررازى، ذیل آیه
غزالی، ۱۴۱۷، ج ۳، ص ۲۰۴ـ۲۰۶
رجوع کریں مجلسى، ج ۷۰، ص ۲۴۰؛ نراقى، ج ۲، ص ۲۰۵ـ۲۰۸؛ امامخمینى، ص ۱۰۷
غزالی، ۱۴۱۷، ج ۳، ص ۲۰۸ـ ۲۱۲
رجوع کنید به فیض کاشانى، ج ۵، ص ۳۴۲ـ ۳۴۸؛ نراقى، ج ۲، ص ۲۱۲ـ۲۱۵
ابن عربی، سفر ۲، ص ۳۴۴
نیز رجوع کنید به گوهرین، ج ۴، ص ۲۱۳
رجوع کنید به مجلسى، ج ۷۰، ص ۲۵۳
رجوع کنید به ابنعربى، سفر۴، ص ۴۳۹ـ۴۴۰
https://t.me/islamwitheman
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
حدیث رفع میں ذکر ہوا ہے کہ خدا نے مومنوں کے حق میں لطف کیا ہے اور وہ یہ کہ ان کے اس گناہ سے درگذر فرمایا ہے۔ اس حدیث کی شرح میں، کہا گیا ہے کہ یہاں حسد سے مراد ایسا حسد جو کہ دل میں موجود ہے جو اعمال میں ظاہر نہ ہوا ہو اس کی سزا نہیں ہے۔
■ رشک اور حسد کے درمیان فرق
امام صادق(ع)
"إنَّ الْمُؤْمِنَ يَغْبِطُ وَ لا يَحْسُدُ، وَ الْمُنافِقُ يَحْسُدُ وَ لا يَغْبِطُ"
مومن رشک کھاتا ہے، حسد نہیں کرتا، لیکن منافق رشک نہیں کرتا بلکہ حسد کرتا ہے۔ (کافی،ج٢ص:٣٠٧)
رشک اور حسد کے معنی میں یہ فرق ہے کہ۔ [21]انسان رشک میں دوسروں کی نعمتوں کے زائل ہونے کی آرزو نہیں کرتا، بلکہ صرف یہ چاہتا ہے کہ کاش وہ بھی ان نعمات سے بہرہ مند ہوتا۔ [22] رشک حسد کے مقابلے میں ایک اچھی صفت ہے، [23] جیسے کہ روایت میں رشک کو صراحت کے ساتھ مومنین کی صفت کہا گیا ہے جب کہ حسد کو منافق کی خصلت کہا ہے۔ [24] غزالی کہتا ہے کہ بعض جگہ پر یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ استعمال ہوتے ہیں [25] اور نمونے کے طور پر اس نے ایک حدیث ذکر کی ہے۔ [26]
■ بری نظر کا حسد سے رابطہ
بری نظر کا حسد کے ساتھ بہت گہرا رابطہ ہے۔ بعض روایات میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ [27] مفسران کے نزدیک سورہ فلق کی آیت٥ اسی بارے میں ہے کہ جس میں حسود کی حسادت کو ذکر کیا گیا ہے۔[28]
■ غزالی کی نگاہ میں حسد
غزالی [29] کی نگاہ میں حسد ٧ چیزوں میں ہے: دشمنی اور کینہ رکھنا، اپنے اوپراترانا، غروراور تکبر، دوسروں کے مال پر متعجب ہونا، اپنے مال کے ضائع ہونے کا ڈر، حکمیت اور شہرت کا شوق، نفس کی خباثت۔[30] اس میں ایک نکتے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے: کہ حسد کا ریشہ در اصل دل کے اندر ہے اس لئے اسے قلب کی صفت کہا گیا ہے۔ یہ دلی صفت بعض اوقات جب انسان کی زبان یا رفتار میں ظاہر ہوتی ہے تب انسان ایک برے گناہ میں مرتکب ہوتا ہے اس وقت اسے چاہیے کہ اپنے گناہ کی معافی مانگے (یجب الاستحلال منھا) لیکن بعض اوقات حسد صرف دل کے اندر ہی رہتا ہے، اس صورت میں انسان فقط اپنے اور خدا کے درمیان گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔
حسد سے محفوظ رہنے کا طریقہ
علم اخلاق کے دانشوروں نے غزالی کی پیروی کرتے ہوئے،[31] حسد کی بیماری کے علاج کے لئے دو علمی طریقے ذکر کئے ہیں۔ [32] ابن عربی[33] نے حسد کو ایک ذاتی اور دلی صفت کہا ہے اور اس کے ختم ہونے کو ممکن کہا ہے۔ [34] امام صادق(ع) کی روایت، کہ جس میں حسد کو انسان کے خون اور گوشت میں رچا ہوا کہا گیا ہے،[35] اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک ذاتی اور فطری صفت ہے۔ عرفانی نکتہ نگاہ نگاہ سے قیامت کے دن انسان سے دس مرحلوں میں سے آٹھویں مرحلے پر حسد کے بارے میں سوال کیا جائے گا اور اگر حسد نہ کیا ہو گا تو نویں مرحلے کی طرف جا سکے گا اور عرش الہی کے نزدیک ہو جائے گا۔ [36]
📚 حوالہ جات
رجوع کنید به ثعلبى؛ ابوالفتوح رازى، ذیل بقره: ۱۰۹
جوع کنید به ازهرى؛ ابنمنظور؛ زبیدى، ذیل واژه
ارسطو، ص ۷۱
جرجانى، ص ۹۲
یحییبن عدى، ص ۱۹؛ راغب اصفہانى، ذیل واژه
رجوع کریں غزالى، ۱۴۱۷، ج ۳، ص ۲۰۴؛ فیض کاشانى، ج ۵، ص ۳۳۴؛ نراقى، ج ۲، ص ۲۰۴ـ۲۰۵
رجوع کریں بقره: ۱۰۹؛ نساء: ۵۴؛ فتح: ۱۵؛ فلق: ۵
که مفسران منظور از آنان را یہودیان میدانند، رجوع کریں، ابوالفتوح رازى؛ فخررازى، ذیل آیہ
رجوع کریں طبرى؛ طوسى؛ ابوالفتوح رازى؛ فخر رازى، ذیل آیہ
براى اطلاع از پارهاى از این آیات رجوع کریں غزالى، ۱۴۱۷، ج ۳، ص ۲۰۲؛ فخررازى، ذیل بقره: ۱۰۹
فخررازى، ذیل آیہ؛ نیز رجوع کریں زحیلى، ذیل آیہ
فخر رازى، ذیل بقره: ۱۰۹
ہمانجا
جوع کریں دامغانى، ص ۱۶۶؛ تفلیسى، ص ۴۸
سیوطی، ج ۲، ص ۱۲۱
همانجا
ابنماجہ، ج ۲، ص ۱۴۰۸؛ ابوداوود، ج ۴، ص ۲۷۶
ماوردى، ص ۲۶۶
کلینى، ج ۸، ص ۱۰۸
ماوردى، ص ۲۶۱
غزالى، ۱۴۱۷، ج ۳، ص ۲۰۲ـ۲۰۳
نراقى، ج ۲، ص ۲۰۲ـ ۲۰۳
رجوع کریں ماوردى، ص ۲۶۲
راغب اصفہانى، ہمانجا؛ مجلسى، ج ۷۰، ص ۲۵۰
غزالی، ۱۴۱۷، ج ۳، ص ۲۰۲
رجوع کریں ۱۳۶۴ش، ج ۱، ص ۱۲۷؛ نیز رجوع کریں فخررازى، ہمانجا
براى نمونه رجوع کنید به مجلسى، همانجا
براى نمونه رجوع کنید به طبرى؛ طوسى؛ فخررازى، ذیل آیه
غزالی، ۱۴۱۷، ج ۳، ص ۲۰۴ـ۲۰۶
رجوع کریں مجلسى، ج ۷۰، ص ۲۴۰؛ نراقى، ج ۲، ص ۲۰۵ـ۲۰۸؛ امامخمینى، ص ۱۰۷
غزالی، ۱۴۱۷، ج ۳، ص ۲۰۸ـ ۲۱۲
رجوع کنید به فیض کاشانى، ج ۵، ص ۳۴۲ـ ۳۴۸؛ نراقى، ج ۲، ص ۲۱۲ـ۲۱۵
ابن عربی، سفر ۲، ص ۳۴۴
نیز رجوع کنید به گوهرین، ج ۴، ص ۲۱۳
رجوع کنید به مجلسى، ج ۷۰، ص ۲۵۳
رجوع کنید به ابنعربى، سفر۴، ص ۴۳۹ـ۴۴۰
https://t.me/islamwitheman
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
اصلاحی کہانیاں اور سبق آموز احادیث و واقعات...
ایڈمن سے رابطہ کیلئے:
@syedsajjadhamdani
ایڈمن سے رابطہ کیلئے:
@syedsajjadhamdani
🔷 ذہین فلسفی 🔷
کہتے ہیں کہ کسی جگہ پر بادشاہ نے تین افراد کو سزائے موت دی، بادشاہ کے حکم کی تعمیل میں ان تینوں کو پھانسی گھاٹ پر لے جایا گیا جہاں ایک بہت بڑا لکڑی کا تختہ تھا جس کے ساتھ پتھروں سے بنا ایک مینار اور مینار پر ایک بہت بڑا بھاری پتھر مضبوط رسے سے بندھا ہوا ایک چرخے پر جھول رہا تھا، رسے کو ایک طرف سے کھینچ کر جب چھوڑا جاتا تھا تو دوسری طرف بندھا ہوا پتھرا زور سے نیچے گرتا اور نیچے آنے والی کسی بھی چیز کو کچل کر رکھ دیتا تھا، چنانچہ ان تینوں کو اس موت کے تختے کے ساتھ کھڑا کیا گیا، ان میں سے ایک
■ایک عالم
■ ایک وکیل
■ اور ایک فلسفی تھا.
سب سے پہلے عالم کو اس تختہ پر عین پتھر گرنے کے مقام پر لٹایا گیا اور اس کی آخری خواہش پوچھی گئی تو عالم کہنے لگا میرا خدا پر پختہ یقین ہے وہی موت دے گا اور زندگی بخشے گا، بس اس کے سوا کچھ نہیں کہنا.
اس کے بعد رسے کو جیسے ہی کھولا تو پتھر پوری قوت سے نیچے آیا اور عالم کے سر کے اوپر آکر رک گیا، یہ دیکھ کر سب حیران رہ گئے اور عالم کے پختہ یقین کی وجہ سے اس کی جان بچ گئی اور رسہ واپس کھینچ لیا گیا.
اس کے بعد وکیل کی باری تھی اس کو بھی تختہ دار پر لٹا کر جب آخری خواہش پوچھی گئی تو وہ کہنے لگا میں حق اور سچ کا وکیل ہوں اور جیت ہمیشہ انصاف کی ہوتی ہے. یہاں بھی انصاف ہوگا.
اس کے بعد رسے کو دوبارہ کھولا گیا پھر پتھر پوری قوت سے نیچے آیا اور اس بار بھی وکیل کے سر پر پہنچ کر رک گیا۔
پھانسی دینے والے حیران رہ گئے اور وکیل کی جان بھی بچ گئی.
اس کے بعد فلسفی کی باری تھی اسے جب تختے پر لٹا کر آخری خواہش کا پوچھا گیا تو وہ کہنے لگا عالم کو تو نہ ہی خدا نے بچایا ہے اور نہ ہی وکیل کو اس کے انصاف نے، دراصل میں نے غور سے دیکھا ہے کہ رسے پر ایک جگہ گانٹھ ہے جو چرخی کے اوپر گھومنے میں رکاوٹ کی وجہ بنتی ہے جس سے رسہ پورا کھلتا نہیں اور پتھر پورا نیچے نہیں گرتا۔
فلسفی کی بات سن کر سب نے رسے کو بغور دیکھا تو وہاں واقعی گانٹھ تھی انہوں نے جب وہ گانٹھ کھول کر رسہ آزاد کیا تو پتھر پوری قوت سے نیچے گرا اور فلسفی کا ذہین سر کچل کر رکھ دیا.
🔘 حکایت کا نتیجہ..
بعض اوقات بہت کچھ جانتے ہوئے بھی منہ بند رکھنا حکمت میں شمار ہوتا ہے۔
(قدیم عربی حکایت کا اردو ترجمہ)
🌹 اگر پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لیے شیئر ضرور کریں۔
https://t.me/islamwitheman
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
کہتے ہیں کہ کسی جگہ پر بادشاہ نے تین افراد کو سزائے موت دی، بادشاہ کے حکم کی تعمیل میں ان تینوں کو پھانسی گھاٹ پر لے جایا گیا جہاں ایک بہت بڑا لکڑی کا تختہ تھا جس کے ساتھ پتھروں سے بنا ایک مینار اور مینار پر ایک بہت بڑا بھاری پتھر مضبوط رسے سے بندھا ہوا ایک چرخے پر جھول رہا تھا، رسے کو ایک طرف سے کھینچ کر جب چھوڑا جاتا تھا تو دوسری طرف بندھا ہوا پتھرا زور سے نیچے گرتا اور نیچے آنے والی کسی بھی چیز کو کچل کر رکھ دیتا تھا، چنانچہ ان تینوں کو اس موت کے تختے کے ساتھ کھڑا کیا گیا، ان میں سے ایک
■ایک عالم
■ ایک وکیل
■ اور ایک فلسفی تھا.
سب سے پہلے عالم کو اس تختہ پر عین پتھر گرنے کے مقام پر لٹایا گیا اور اس کی آخری خواہش پوچھی گئی تو عالم کہنے لگا میرا خدا پر پختہ یقین ہے وہی موت دے گا اور زندگی بخشے گا، بس اس کے سوا کچھ نہیں کہنا.
اس کے بعد رسے کو جیسے ہی کھولا تو پتھر پوری قوت سے نیچے آیا اور عالم کے سر کے اوپر آکر رک گیا، یہ دیکھ کر سب حیران رہ گئے اور عالم کے پختہ یقین کی وجہ سے اس کی جان بچ گئی اور رسہ واپس کھینچ لیا گیا.
اس کے بعد وکیل کی باری تھی اس کو بھی تختہ دار پر لٹا کر جب آخری خواہش پوچھی گئی تو وہ کہنے لگا میں حق اور سچ کا وکیل ہوں اور جیت ہمیشہ انصاف کی ہوتی ہے. یہاں بھی انصاف ہوگا.
اس کے بعد رسے کو دوبارہ کھولا گیا پھر پتھر پوری قوت سے نیچے آیا اور اس بار بھی وکیل کے سر پر پہنچ کر رک گیا۔
پھانسی دینے والے حیران رہ گئے اور وکیل کی جان بھی بچ گئی.
اس کے بعد فلسفی کی باری تھی اسے جب تختے پر لٹا کر آخری خواہش کا پوچھا گیا تو وہ کہنے لگا عالم کو تو نہ ہی خدا نے بچایا ہے اور نہ ہی وکیل کو اس کے انصاف نے، دراصل میں نے غور سے دیکھا ہے کہ رسے پر ایک جگہ گانٹھ ہے جو چرخی کے اوپر گھومنے میں رکاوٹ کی وجہ بنتی ہے جس سے رسہ پورا کھلتا نہیں اور پتھر پورا نیچے نہیں گرتا۔
فلسفی کی بات سن کر سب نے رسے کو بغور دیکھا تو وہاں واقعی گانٹھ تھی انہوں نے جب وہ گانٹھ کھول کر رسہ آزاد کیا تو پتھر پوری قوت سے نیچے گرا اور فلسفی کا ذہین سر کچل کر رکھ دیا.
🔘 حکایت کا نتیجہ..
بعض اوقات بہت کچھ جانتے ہوئے بھی منہ بند رکھنا حکمت میں شمار ہوتا ہے۔
(قدیم عربی حکایت کا اردو ترجمہ)
🌹 اگر پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لیے شیئر ضرور کریں۔
https://t.me/islamwitheman
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
اصلاحی کہانیاں اور سبق آموز احادیث و واقعات...
ایڈمن سے رابطہ کیلئے:
@syedsajjadhamdani
ایڈمن سے رابطہ کیلئے:
@syedsajjadhamdani
🌸 اللہ کی خاطر 🌸
دمشق کے ادیب شیخ علی طنطاوی نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ دمشق میں ایک بہت بڑی مسجد ہے کہ جو "مسجد جامع توبہ" کے نام سے مشہور ہے-
اس مسجد کا نام "مسجد توبہ" رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ وہاں پہلے فحشاء و منکرات کا مرکز تها۔
ساتویں ہجری میں ایک مسلمان بادشاه نے اس کو خرید کر وہاں ایک مسجد تعمیر کرائی-
"ایک طالبعلم کہ جو بہت زیادہ غریب اور عزت نفس میں مشہور تها وہ اسی مسجد کے ایک کمرے میں ساکن تها- دو روز گزر چکے تھے کہ اس نے کچھ نہیں کھایا تھا اور اس کے پاس کھانے کے لئے کوئی چیز نہیں تهی اور نہ ہی کھانا خریدنے کیلئے کوئی پیسہ اس کے پاس تھا۔
تیسرے روز بهوک کی شدت سے اس نے احساس کیا کہ وہ مرنے کے قریب ہے۔ سوچنے لگا کہ اب میں اضطراری حالت میں ہوں کہ شرعاً حتٰی مردار یا ضرورت کے مطابق چوری جائز ہے.
[شیخ طنطاوی کہتے ہیں: یہ سچا واقعہ ہے میں صرف حکایت بیان کرونگا نہ حکم نہ ہی فیصلہ]
یہ مسجد ایک قدیمی محلہ میں واقع ہے اور وہاں تمام مکانات قدیمی طرز پر اس طرح بنے ہوئے ہیں کہ ایک دوسرے کی چھتیں آپس میں ملی ہوئی ہیں اور چهتوں سے ہی سارے محلہ میں جایا جاسکتا ہے-
یہ جوان مسجد کی چھت پرگیا اور وہاں سے محلہ کے گھروں کی طرف چل دیا پہلے گھر میں پہنچا تو دیکھا وہاں کچھ خواتین ہیں تو سر جهکا کے وہاں سے چلا گیا-
بعد والے گهر پہنچا تو دیکها گهر خالی ہے لیکن اس گهر سے کھانے کی خوشبو آرہی ہے- بهوک کی شدت میں جب کھانے کی خوشبو اس کے دماغ میں پہنچی تو اس کو اپنی طرف کھینچ لیا. یہ مکان ایک منزل تها- چھت سے بالکونی اور پهر وہاں سے صحن میں کود گیا.
فورًا باورچی خانے میں پہنچا- دیگچی کا ڈهکن اٹھایا تو اس میں بهرے ہوئے بینگن کا سالن تها-
ایک بینگن اٹهایا بهوک کی شدت سے سالن کے گرم ہونے کی بهی پرواہ نہیں کی- بینگن کو دانتوں سے کاٹا اور جیسے ہی نگلنا چاہا تو اسی وقت عقل اپنی جگہ واپس آگئی اور اس کا ایمان جاگ گیا-
اپنے آپ سے کہنے لگا:
خدا کی پناہ!
میں طالبعلم ہوں، لوگوں کے گهر میں گهسوں اور چوری کروں؟؟
اپنے اس فعل پر شرم آگئی۔ پشیمان ہوا اور استغفار کیا اور پهر بینگن کو واپس دیگچی میں رکھ دیا۔
اور جیسے آیا تها ویسے ہی سراسیمہ واپس لوٹ گیا- اور مسجد میں داخل ہوکر شیخ کے حلقہ درس میں حاضر ہوا- درحالیکہ بهوک کی شدت سے سمجھ نہیں پارہا تھا کہ شیخ کیا درس دے رہے ہیں؟
جب شیخ درس سے فارغ ہوئے اور لوگ بهی متفرق ہوگئے، تو ایک خاتون مکمل حجاب میں وہاں آئی۔
شیخ سے کچھ گفتگو کی لیکن وہ طالبعلم ان دونوں کی گفتگو نہیں سمجھ سکا۔
شیخ نے اپنے اطراف میں نگاہ کی تو اس طالبعلم کے علاوہ کسی کو وہاں نہ پایا پهر اس کو آواز دی اور کہا: تم شادی شدہ ہو؟
طالبعلم نے کہا: نہیں!
شیخ نے کہا: تم شادی نہیں کرنا چاہتے؟
طالبعلم خاموش رہ گیا۔
شیخ نے پھر کہا: مجھے بتاؤ تم شادی کرنا چاہتے ہو یا نہیں؟
اس جوان نے جواب دیا: خدا کی قسم میرے پاس ایک لقمہ روٹی کے لئے پیسے نہیں ہیں. میں کس طرح شادی کروں؟
شیح نے کہا: یہ خاتون آئی ہے اس نے مجھے بتایا ہے کہ اس کا شوہر وفات پاگیا ہے اور اس شہر میں بیکس ہے اور اس کا دنیا میں سوائے ایک ضعیف چچا کے کوئی عزیز و رشتہ دار نہیں ہے.
اپنے چچا کو یہ اپنے ساتھ لیکر آئی ہے اور وہ اس وقت اس مسجد کے ایک گوشہ میں بیٹھا ہوا ہے اور اس خاتون کو اس کے شوہر سے گهر اور مال ارث میں ملا ہے.
اب یہ آئی ہے اور ایسے مرد سے شادی کرنا چاہتی ہے جو شرعاً اس کا شوہر اور اس کا سرپرست ہو تاکہ تنہائی اور بدطینت انسانوں سے محفوظ رہے۔
کیا تم اس سے شادی کرو گے؟
طالبعلم نے کہا: ہاں
اور پھر اس خاتون سے پوچھا: کہ تم اس کو اپنے شوہر کے طور پر قبول کرتی ہو؟
اس نے بھی مثبت جواب دیا.
شیخ نے اس خاتون کے چچا اور گواہوں کو بلا کر ان دونوں کا عقد پڑھ دیا اور اس طالبعلم کے بجائے خود اس خاتون کا مہر ادا کیا- اور پهر اس خاتون سے کہا: اپنے شوہر کا ہاتھ تھام لو۔
اس نے ہاتھ تهام لیا اور اپنے گهر کی طرف اپنے شوہر کی رہنمائی کی۔ جب گهر میں داخل ہوئی تو اپنے چہرے سے نقاب ہٹا دیا.
وہ جوان اپنی زوجہ کے حسن و جمال سے مبہوت ہوگیا! اور جب اس گهر کی طرف متوجہ ہوا تو دیکھا کہ وہی گھر ہے جس میں وہ داخل ہوا تها ۔۔۔ زوجہ نے شوہر سے پوچها کہ تمہیں کچھ کهانے کیلئے لے آؤں؟
کہا: ہاں
اس نے دیگچی کا ڈهکن اٹهایا اور بینگن کو دیکها اور بولی: عجیب ہے گھر میں کون آیا تھا اور اس نے بینگن کو دانتوں سے کاٹا ہے..؟! وہ جوان رونے لگا اور اپنا قصہ اس کو سنا دیا.
زوجہ نے کہا: یہ تمہاری امانتداری اور تقوٰی کا نتیجہ ہے تم نے حرام بینگن کهانے سے اجتناب کیا تو الله نے سارا گھر اور گھر کی مالکہ کو حلال طریقے سے تمہیں دیدیا..!
🔘 جو کوئی الله کی خاطر کسی گناہ کو ترک کرے اور تقوی اختیار کرے تو الله اس کے مقابل میں بہتر چیز اس کو عطا کرتا ہے!!!
https://t.me/islamwitheman
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
دمشق کے ادیب شیخ علی طنطاوی نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ دمشق میں ایک بہت بڑی مسجد ہے کہ جو "مسجد جامع توبہ" کے نام سے مشہور ہے-
اس مسجد کا نام "مسجد توبہ" رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ وہاں پہلے فحشاء و منکرات کا مرکز تها۔
ساتویں ہجری میں ایک مسلمان بادشاه نے اس کو خرید کر وہاں ایک مسجد تعمیر کرائی-
"ایک طالبعلم کہ جو بہت زیادہ غریب اور عزت نفس میں مشہور تها وہ اسی مسجد کے ایک کمرے میں ساکن تها- دو روز گزر چکے تھے کہ اس نے کچھ نہیں کھایا تھا اور اس کے پاس کھانے کے لئے کوئی چیز نہیں تهی اور نہ ہی کھانا خریدنے کیلئے کوئی پیسہ اس کے پاس تھا۔
تیسرے روز بهوک کی شدت سے اس نے احساس کیا کہ وہ مرنے کے قریب ہے۔ سوچنے لگا کہ اب میں اضطراری حالت میں ہوں کہ شرعاً حتٰی مردار یا ضرورت کے مطابق چوری جائز ہے.
[شیخ طنطاوی کہتے ہیں: یہ سچا واقعہ ہے میں صرف حکایت بیان کرونگا نہ حکم نہ ہی فیصلہ]
یہ مسجد ایک قدیمی محلہ میں واقع ہے اور وہاں تمام مکانات قدیمی طرز پر اس طرح بنے ہوئے ہیں کہ ایک دوسرے کی چھتیں آپس میں ملی ہوئی ہیں اور چهتوں سے ہی سارے محلہ میں جایا جاسکتا ہے-
یہ جوان مسجد کی چھت پرگیا اور وہاں سے محلہ کے گھروں کی طرف چل دیا پہلے گھر میں پہنچا تو دیکھا وہاں کچھ خواتین ہیں تو سر جهکا کے وہاں سے چلا گیا-
بعد والے گهر پہنچا تو دیکها گهر خالی ہے لیکن اس گهر سے کھانے کی خوشبو آرہی ہے- بهوک کی شدت میں جب کھانے کی خوشبو اس کے دماغ میں پہنچی تو اس کو اپنی طرف کھینچ لیا. یہ مکان ایک منزل تها- چھت سے بالکونی اور پهر وہاں سے صحن میں کود گیا.
فورًا باورچی خانے میں پہنچا- دیگچی کا ڈهکن اٹھایا تو اس میں بهرے ہوئے بینگن کا سالن تها-
ایک بینگن اٹهایا بهوک کی شدت سے سالن کے گرم ہونے کی بهی پرواہ نہیں کی- بینگن کو دانتوں سے کاٹا اور جیسے ہی نگلنا چاہا تو اسی وقت عقل اپنی جگہ واپس آگئی اور اس کا ایمان جاگ گیا-
اپنے آپ سے کہنے لگا:
خدا کی پناہ!
میں طالبعلم ہوں، لوگوں کے گهر میں گهسوں اور چوری کروں؟؟
اپنے اس فعل پر شرم آگئی۔ پشیمان ہوا اور استغفار کیا اور پهر بینگن کو واپس دیگچی میں رکھ دیا۔
اور جیسے آیا تها ویسے ہی سراسیمہ واپس لوٹ گیا- اور مسجد میں داخل ہوکر شیخ کے حلقہ درس میں حاضر ہوا- درحالیکہ بهوک کی شدت سے سمجھ نہیں پارہا تھا کہ شیخ کیا درس دے رہے ہیں؟
جب شیخ درس سے فارغ ہوئے اور لوگ بهی متفرق ہوگئے، تو ایک خاتون مکمل حجاب میں وہاں آئی۔
شیخ سے کچھ گفتگو کی لیکن وہ طالبعلم ان دونوں کی گفتگو نہیں سمجھ سکا۔
شیخ نے اپنے اطراف میں نگاہ کی تو اس طالبعلم کے علاوہ کسی کو وہاں نہ پایا پهر اس کو آواز دی اور کہا: تم شادی شدہ ہو؟
طالبعلم نے کہا: نہیں!
شیخ نے کہا: تم شادی نہیں کرنا چاہتے؟
طالبعلم خاموش رہ گیا۔
شیخ نے پھر کہا: مجھے بتاؤ تم شادی کرنا چاہتے ہو یا نہیں؟
اس جوان نے جواب دیا: خدا کی قسم میرے پاس ایک لقمہ روٹی کے لئے پیسے نہیں ہیں. میں کس طرح شادی کروں؟
شیح نے کہا: یہ خاتون آئی ہے اس نے مجھے بتایا ہے کہ اس کا شوہر وفات پاگیا ہے اور اس شہر میں بیکس ہے اور اس کا دنیا میں سوائے ایک ضعیف چچا کے کوئی عزیز و رشتہ دار نہیں ہے.
اپنے چچا کو یہ اپنے ساتھ لیکر آئی ہے اور وہ اس وقت اس مسجد کے ایک گوشہ میں بیٹھا ہوا ہے اور اس خاتون کو اس کے شوہر سے گهر اور مال ارث میں ملا ہے.
اب یہ آئی ہے اور ایسے مرد سے شادی کرنا چاہتی ہے جو شرعاً اس کا شوہر اور اس کا سرپرست ہو تاکہ تنہائی اور بدطینت انسانوں سے محفوظ رہے۔
کیا تم اس سے شادی کرو گے؟
طالبعلم نے کہا: ہاں
اور پھر اس خاتون سے پوچھا: کہ تم اس کو اپنے شوہر کے طور پر قبول کرتی ہو؟
اس نے بھی مثبت جواب دیا.
شیخ نے اس خاتون کے چچا اور گواہوں کو بلا کر ان دونوں کا عقد پڑھ دیا اور اس طالبعلم کے بجائے خود اس خاتون کا مہر ادا کیا- اور پهر اس خاتون سے کہا: اپنے شوہر کا ہاتھ تھام لو۔
اس نے ہاتھ تهام لیا اور اپنے گهر کی طرف اپنے شوہر کی رہنمائی کی۔ جب گهر میں داخل ہوئی تو اپنے چہرے سے نقاب ہٹا دیا.
وہ جوان اپنی زوجہ کے حسن و جمال سے مبہوت ہوگیا! اور جب اس گهر کی طرف متوجہ ہوا تو دیکھا کہ وہی گھر ہے جس میں وہ داخل ہوا تها ۔۔۔ زوجہ نے شوہر سے پوچها کہ تمہیں کچھ کهانے کیلئے لے آؤں؟
کہا: ہاں
اس نے دیگچی کا ڈهکن اٹهایا اور بینگن کو دیکها اور بولی: عجیب ہے گھر میں کون آیا تھا اور اس نے بینگن کو دانتوں سے کاٹا ہے..؟! وہ جوان رونے لگا اور اپنا قصہ اس کو سنا دیا.
زوجہ نے کہا: یہ تمہاری امانتداری اور تقوٰی کا نتیجہ ہے تم نے حرام بینگن کهانے سے اجتناب کیا تو الله نے سارا گھر اور گھر کی مالکہ کو حلال طریقے سے تمہیں دیدیا..!
🔘 جو کوئی الله کی خاطر کسی گناہ کو ترک کرے اور تقوی اختیار کرے تو الله اس کے مقابل میں بہتر چیز اس کو عطا کرتا ہے!!!
https://t.me/islamwitheman
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
اصلاحی کہانیاں اور سبق آموز احادیث و واقعات...
ایڈمن سے رابطہ کیلئے:
@syedsajjadhamdani
ایڈمن سے رابطہ کیلئے:
@syedsajjadhamdani
👈 حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے حالات زندگی جاننے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں۔
🌹 ولادت باسعادت امام محمد تقیؑ
https://t.me/islamwitheman/2987
🌹 حضرت امام محمد تقیؑ
https://t.me/islamwitheman/2989
🌹 امام جوادؑ کی تبلیغی روش
https://t.me/islamwitheman/2990
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
🌹 ولادت باسعادت امام محمد تقیؑ
https://t.me/islamwitheman/2987
🌹 حضرت امام محمد تقیؑ
https://t.me/islamwitheman/2989
🌹 امام جوادؑ کی تبلیغی روش
https://t.me/islamwitheman/2990
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
🔷 خراٹوں کا علاج 🔷
خراٹوں سے نجات کے لیے دواؤں کے ساتھ آپ کو اپنے انداز کو تبدیل کرنا ضروری ہے۔ یہاں کچھ ایسے ہی آسان طریقے بتائے جا رہے ہیں جن کو آزما کر آپ خراٹوں کی پریشانی سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔
1۔ سونے کا انداز تبدیل کریں:
جب آپ سیدھا سوتے ہیں تو اس دوران آپ کی زبان اور دوسرے غدود گلے کی طرف چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے سانس کی آواز کے ساتھ اور آوازیں بھی ملنے لگ جاتی ہیں۔ اس کا آسان حل کروٹ پر سونا ہے۔ کیونکہ اس سے سانس لینے میں اور ہوا کے اندر جانے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہوتی جس کی وجہ سے خراٹے بھی کم ہو جاتے ہیں۔
2۔ اپنی ناک کو صاف رکھیں:
اپنے ناک کو صاف رکھنا خراٹوں سے نجات کا ایک سادہ حل ہے، ناک میں جمع ہونے والا کچرہ سانس کی گزرگاہ میں رکاوٹ بنتا ہے جس کے نتیجے میں منہ سے سانس لینا پڑتا ہے جو خراٹوں کا باعث بنتا ہے۔ ہوسکتا ہے کمرے کی خشک ہوا ناک سے سانس لینے میں مشکلات بڑھائے تو بھاپ کے ذریعے اسے کھول کر خراٹوں سے بچا جاسکتا ہے۔ یہ طریقہ اس وقت مددگار ثابت ہوتا ہے جب خراٹے کسی الرجی یا نزلہ زکام کے باعث ہوں۔
3۔ بستر کو صاف رکھیں:
کمرے میں موجود گرد و غبار ناک میں گھس کر انفیکشن پیدا کرتی ہے اور اسی طرح تکیہ اور بستر پر موجود جراثیم گلے کے انفیکشن کا سبب بنتے ہیں خاص ان لوگوں کو زیادہ اس مسئلہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کے کمرے میں پالتو جانوروں کی آمدو رفت ہوتی ہو کیونکہ اس کے جسم میں اور بالوں میں ایسے بیکٹیریا ہوتے ہیں جو کہ الرجی اور دوسری بیماریوں کا سبب بنتے ہیں اس لئے اپنے کمرے، بستر اور تکیہ کی صفائی رکھیں۔
4۔ وزن کم کریں:
ایک تحقیق کے مطابق خراٹوں کے شکار افراد اگر اپنا جسمانی وزن 10 فیصد تک کم کرلیں تو ان کے منہ اور ناک کے مسائل بھی ختم ہوجاتے ہیں۔
5۔ پودینہ کا تیل یا امرت دھارا:
پودینے کا تیل یا اس کا ماﺅتھ واش اور امرت دھارا ایسی چیزیں ہیں جو خراٹوں سے بچانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں، پودینے کے تیل کو اپنے ناک کے ارگرد مل لیں تاکہ سانس کی گزرگاہ کھل جائے، جبکہ پودینے کا ماﺅتھ واش گلے کے ٹشوز کی خرابیوں کے خلاف مددگار ثابت ہوتا ہے۔
6۔ دیسی گھی:
رات کو سونے کے قبل چند قطرے گھی ناک میں ڈال لیں مرض دور ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ گھی کے چند قطرے ناف میں لگانے سے بھی مرض دور ہو جاتا ہے۔
7۔ زیتون کا تیل:
زیتون کا تیل خراٹوں سے نجات کے علاوہ تالو کے پٹھوں کو مضبوط بھی کرتا ہے۔ ناک میں چند قطرے زیتون کے تیل کے ڈال دیں تو کافی فائدہ ہوتا ہے۔ زیتون کے تیل کے دو قطرے تالو میں لگانے سے مرض دور ہو جائے گا۔ اگر زیتون کے ایک پاؤ تیل میں ایک چھٹانک کلونجی جلا کر چھان لین تو یہ روغن ناک میں رات کو دو دو قطرے ڈالنے سے نظام تنفس کی الرجی اور انفیکشن دور ہوکر خراٹے بالکل درست ہوتے ہیں۔
8۔ نمکین پانی کے غرارے:
خراٹے لینے کی عام وجہ ناک کا بند ہونا ہے اور یہ علامات اکثر سردیوں میں دیکھنے میں آتی ہے اس کی دوسری بڑی وجہ ناک کی بڑھی ہوئی ہڈیاں، ناک میں انفیکشن اور سوجن ہو سکتی ہے جس کے نتیجہ میں خراٹے آتے ہیں۔ اس سے نجات کیلئے نمکین پانی کے غرارے اور ناک میں نمکین پانی کا سپرے کیا جائے تو بیماری سے نجات مل سکتی ہے۔ ایک چوتھائی کپ پانی میں نمک ڈال کر ڈاپر کی مدد سے ناک میں سپرے کرنے سے افاقہ ہوتا ہے۔ سونے سے قبل یہ عمل روزانہ کریں 5 دن کے اندر اندر مرض دور ہو جائے گا۔
9۔ یوکلپٹس آئل۔
یوکلپٹس کا تیل بلغم کو ختم کرنے اور سانس کی رکاوٹ کو دور کرنے میں ایک اہم دوا تصور کیا جاتا ہے جو قدرتی طور پر ناک کی سوزش کو بھی ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کا بہترین طریقہ علاج اس کی بھاپ لینا ہے۔ یوکلپٹس آئل کے 2 سے 4 قطرے گرم پانی میں ڈال کر بھاپ لیں۔
10۔ پودینے کی چائے: پودینے کا تیل خراٹوں کیلئے مفید علاج تو ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ پودینے کی چائے بھی پھپھڑوں کی چپچپاہٹ دور کرتی ہے اور اس میں شامل مینتھال سانس کی نالی کی سوزش کو ختم کرتا ہے جبکہ پودینے میں وٹامن، معدنیات اور منٹ بھی شامل ہیں۔ رات کو سونے سے قبل 8 سے 10پتے پودینے کے لے کر انہیں ابال کراستعمال کریں۔
🌹 اگر پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لیے شیئر ضرور کریں۔
📚 یہ معلومات مختلف ہیلتھ آرٹیکلز سے لی گئی ہیں۔
https://t.me/islamwitheman
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
خراٹوں سے نجات کے لیے دواؤں کے ساتھ آپ کو اپنے انداز کو تبدیل کرنا ضروری ہے۔ یہاں کچھ ایسے ہی آسان طریقے بتائے جا رہے ہیں جن کو آزما کر آپ خراٹوں کی پریشانی سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔
1۔ سونے کا انداز تبدیل کریں:
جب آپ سیدھا سوتے ہیں تو اس دوران آپ کی زبان اور دوسرے غدود گلے کی طرف چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے سانس کی آواز کے ساتھ اور آوازیں بھی ملنے لگ جاتی ہیں۔ اس کا آسان حل کروٹ پر سونا ہے۔ کیونکہ اس سے سانس لینے میں اور ہوا کے اندر جانے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہوتی جس کی وجہ سے خراٹے بھی کم ہو جاتے ہیں۔
2۔ اپنی ناک کو صاف رکھیں:
اپنے ناک کو صاف رکھنا خراٹوں سے نجات کا ایک سادہ حل ہے، ناک میں جمع ہونے والا کچرہ سانس کی گزرگاہ میں رکاوٹ بنتا ہے جس کے نتیجے میں منہ سے سانس لینا پڑتا ہے جو خراٹوں کا باعث بنتا ہے۔ ہوسکتا ہے کمرے کی خشک ہوا ناک سے سانس لینے میں مشکلات بڑھائے تو بھاپ کے ذریعے اسے کھول کر خراٹوں سے بچا جاسکتا ہے۔ یہ طریقہ اس وقت مددگار ثابت ہوتا ہے جب خراٹے کسی الرجی یا نزلہ زکام کے باعث ہوں۔
3۔ بستر کو صاف رکھیں:
کمرے میں موجود گرد و غبار ناک میں گھس کر انفیکشن پیدا کرتی ہے اور اسی طرح تکیہ اور بستر پر موجود جراثیم گلے کے انفیکشن کا سبب بنتے ہیں خاص ان لوگوں کو زیادہ اس مسئلہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کے کمرے میں پالتو جانوروں کی آمدو رفت ہوتی ہو کیونکہ اس کے جسم میں اور بالوں میں ایسے بیکٹیریا ہوتے ہیں جو کہ الرجی اور دوسری بیماریوں کا سبب بنتے ہیں اس لئے اپنے کمرے، بستر اور تکیہ کی صفائی رکھیں۔
4۔ وزن کم کریں:
ایک تحقیق کے مطابق خراٹوں کے شکار افراد اگر اپنا جسمانی وزن 10 فیصد تک کم کرلیں تو ان کے منہ اور ناک کے مسائل بھی ختم ہوجاتے ہیں۔
5۔ پودینہ کا تیل یا امرت دھارا:
پودینے کا تیل یا اس کا ماﺅتھ واش اور امرت دھارا ایسی چیزیں ہیں جو خراٹوں سے بچانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں، پودینے کے تیل کو اپنے ناک کے ارگرد مل لیں تاکہ سانس کی گزرگاہ کھل جائے، جبکہ پودینے کا ماﺅتھ واش گلے کے ٹشوز کی خرابیوں کے خلاف مددگار ثابت ہوتا ہے۔
6۔ دیسی گھی:
رات کو سونے کے قبل چند قطرے گھی ناک میں ڈال لیں مرض دور ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ گھی کے چند قطرے ناف میں لگانے سے بھی مرض دور ہو جاتا ہے۔
7۔ زیتون کا تیل:
زیتون کا تیل خراٹوں سے نجات کے علاوہ تالو کے پٹھوں کو مضبوط بھی کرتا ہے۔ ناک میں چند قطرے زیتون کے تیل کے ڈال دیں تو کافی فائدہ ہوتا ہے۔ زیتون کے تیل کے دو قطرے تالو میں لگانے سے مرض دور ہو جائے گا۔ اگر زیتون کے ایک پاؤ تیل میں ایک چھٹانک کلونجی جلا کر چھان لین تو یہ روغن ناک میں رات کو دو دو قطرے ڈالنے سے نظام تنفس کی الرجی اور انفیکشن دور ہوکر خراٹے بالکل درست ہوتے ہیں۔
8۔ نمکین پانی کے غرارے:
خراٹے لینے کی عام وجہ ناک کا بند ہونا ہے اور یہ علامات اکثر سردیوں میں دیکھنے میں آتی ہے اس کی دوسری بڑی وجہ ناک کی بڑھی ہوئی ہڈیاں، ناک میں انفیکشن اور سوجن ہو سکتی ہے جس کے نتیجہ میں خراٹے آتے ہیں۔ اس سے نجات کیلئے نمکین پانی کے غرارے اور ناک میں نمکین پانی کا سپرے کیا جائے تو بیماری سے نجات مل سکتی ہے۔ ایک چوتھائی کپ پانی میں نمک ڈال کر ڈاپر کی مدد سے ناک میں سپرے کرنے سے افاقہ ہوتا ہے۔ سونے سے قبل یہ عمل روزانہ کریں 5 دن کے اندر اندر مرض دور ہو جائے گا۔
9۔ یوکلپٹس آئل۔
یوکلپٹس کا تیل بلغم کو ختم کرنے اور سانس کی رکاوٹ کو دور کرنے میں ایک اہم دوا تصور کیا جاتا ہے جو قدرتی طور پر ناک کی سوزش کو بھی ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کا بہترین طریقہ علاج اس کی بھاپ لینا ہے۔ یوکلپٹس آئل کے 2 سے 4 قطرے گرم پانی میں ڈال کر بھاپ لیں۔
10۔ پودینے کی چائے: پودینے کا تیل خراٹوں کیلئے مفید علاج تو ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ پودینے کی چائے بھی پھپھڑوں کی چپچپاہٹ دور کرتی ہے اور اس میں شامل مینتھال سانس کی نالی کی سوزش کو ختم کرتا ہے جبکہ پودینے میں وٹامن، معدنیات اور منٹ بھی شامل ہیں۔ رات کو سونے سے قبل 8 سے 10پتے پودینے کے لے کر انہیں ابال کراستعمال کریں۔
🌹 اگر پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لیے شیئر ضرور کریں۔
📚 یہ معلومات مختلف ہیلتھ آرٹیکلز سے لی گئی ہیں۔
https://t.me/islamwitheman
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
اصلاحی کہانیاں اور سبق آموز احادیث و واقعات...
ایڈمن سے رابطہ کیلئے:
@syedsajjadhamdani
ایڈمن سے رابطہ کیلئے:
@syedsajjadhamdani
🔷 چار حکایات 🔷
■ حکایت اول
ایک دکاندار سے پوچھا گیا:
کس طرح اس چھوٹی اور بند گلی میں اپنی روزی روٹی کما لیتے ہو؟
دکاندار نے جواب دیا:
میں جس سوراخ میں بھی چھپ جاؤں موت کا فرشتہ مجھے ڈھونڈ نکالے گا تو یہ کس طرح ممکن ہے رزق والا فرشتہ مجھے نہ ڈھونڈ سکے۔
■ حکایت دوم
ایک نیک اخلاق و کردار کا حامل لیکن غریب لڑکا کسی کے گھر اس کی بیٹی کا رشتہ لینے گیا۔
بیٹی کا باپ بولا:
تم غریب ہو اور میری بیٹی غربت اور تکالیف
کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی، اس لئے میں تمہیں اپنی بیٹی کا رشتہ نہیں دے سکتا۔
پھر ایک بد اخلاق و بدکردار لڑکا اسی لڑکی کا رشتہ لینے گیا تو اس کا باپ رشتہ دینے کیلئے راضی ہوگیا اور اس کے بد اخلاق ہونے کے بارے میں یہ کہا اللّٰہ اس کو ہدایت دے گا انشاءاللہ۔
تو اس کی بیٹی نے کہا: بابا جان کیا جو اللّٰہ ہدایت دے سکتا ہے وہ رزق نہیں دے سکتا ؟؟؟
یا ان دونوں خداؤں میں کوئ فرق ہے؟
■ حکایت سوم
حاتم طائی سے پوچھا گیا: تجھ سے زیادہ بھی کوئی سخی ہے؟
کہا: ہاں ہے۔ وہ مرد جس کی دو بھیڑیں تھیں ایک کو ایک رات میرے لئے ذبح کیا تو میں نے اسکے جگر کے لذیذ ہونے کی تعریف کی تو دوسرے دن صبح اس نے میرے لئے دوسری بھیڑ کو بھی ذبح کیا اور میرے لئے کباب بنائے۔
پوچھا گیا: تو نے اس کے ساتھ کیا کیا؟
کہا: کہ میں نے اسکو پانچ سو بھیڑیں دیں۔
تو کہا: کہ پھر آپ اس سے زیادہ سخی ہوئے؟
تو حاتم نے کہا: نہیں اس کے پاس جو کچھ تھا اس نے مجھے دیا جبکہ میں نے اپنے مال میں سے تھوڑا سا مال اس کو دیا۔
■ حکایت چہارم
ایک عارف سے پوچھا گیا: اللّٰہ کو کیسے پایا؟
تو اس نے کہا: اللّٰہ طاقت رکھتا ہے وہ میری کلائی کو پکڑے لیکن وہ ہمیشہ میرا ہاتھ پکڑ کے مجھے سیدھی راہ دکھا دیتا ہے۔
🌹 پیغام اچھا لگے تو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے۔
https://t.me/islamwitheman
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
■ حکایت اول
ایک دکاندار سے پوچھا گیا:
کس طرح اس چھوٹی اور بند گلی میں اپنی روزی روٹی کما لیتے ہو؟
دکاندار نے جواب دیا:
میں جس سوراخ میں بھی چھپ جاؤں موت کا فرشتہ مجھے ڈھونڈ نکالے گا تو یہ کس طرح ممکن ہے رزق والا فرشتہ مجھے نہ ڈھونڈ سکے۔
■ حکایت دوم
ایک نیک اخلاق و کردار کا حامل لیکن غریب لڑکا کسی کے گھر اس کی بیٹی کا رشتہ لینے گیا۔
بیٹی کا باپ بولا:
تم غریب ہو اور میری بیٹی غربت اور تکالیف
کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی، اس لئے میں تمہیں اپنی بیٹی کا رشتہ نہیں دے سکتا۔
پھر ایک بد اخلاق و بدکردار لڑکا اسی لڑکی کا رشتہ لینے گیا تو اس کا باپ رشتہ دینے کیلئے راضی ہوگیا اور اس کے بد اخلاق ہونے کے بارے میں یہ کہا اللّٰہ اس کو ہدایت دے گا انشاءاللہ۔
تو اس کی بیٹی نے کہا: بابا جان کیا جو اللّٰہ ہدایت دے سکتا ہے وہ رزق نہیں دے سکتا ؟؟؟
یا ان دونوں خداؤں میں کوئ فرق ہے؟
■ حکایت سوم
حاتم طائی سے پوچھا گیا: تجھ سے زیادہ بھی کوئی سخی ہے؟
کہا: ہاں ہے۔ وہ مرد جس کی دو بھیڑیں تھیں ایک کو ایک رات میرے لئے ذبح کیا تو میں نے اسکے جگر کے لذیذ ہونے کی تعریف کی تو دوسرے دن صبح اس نے میرے لئے دوسری بھیڑ کو بھی ذبح کیا اور میرے لئے کباب بنائے۔
پوچھا گیا: تو نے اس کے ساتھ کیا کیا؟
کہا: کہ میں نے اسکو پانچ سو بھیڑیں دیں۔
تو کہا: کہ پھر آپ اس سے زیادہ سخی ہوئے؟
تو حاتم نے کہا: نہیں اس کے پاس جو کچھ تھا اس نے مجھے دیا جبکہ میں نے اپنے مال میں سے تھوڑا سا مال اس کو دیا۔
■ حکایت چہارم
ایک عارف سے پوچھا گیا: اللّٰہ کو کیسے پایا؟
تو اس نے کہا: اللّٰہ طاقت رکھتا ہے وہ میری کلائی کو پکڑے لیکن وہ ہمیشہ میرا ہاتھ پکڑ کے مجھے سیدھی راہ دکھا دیتا ہے۔
🌹 پیغام اچھا لگے تو دوسروں تک پہنچائیے تاکہ اللہ کسی کی زندگی کو آپ کے ذریعے بدل دے۔
https://t.me/islamwitheman
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
اصلاحی کہانیاں اور سبق آموز احادیث و واقعات...
ایڈمن سے رابطہ کیلئے:
@syedsajjadhamdani
ایڈمن سے رابطہ کیلئے:
@syedsajjadhamdani
🌷 انویسٹمنٹ 🌷
ایک بچہ دس روپے لے کر پلاؤ والے کے پاس آیا، رہڑی پر ٹھہرے ہوئے لڑکے نے چاول دینے سے انکار کر دیا۔
میں کہنے ہی والا تھا کہ بچے کو چاول دے دو باقی پیسے میں دوں گا کہ اتنے میں پلاؤ والا خود آ گیا اور بچے سے دس روپے لے کر اسے بہت پیار سے شاپر میں چاول ڈال کر دیئے۔
میں نے سوال پوچھا: "مہنگائی کے اس دور میں دس روپے کے چاول؟"
کہنے لگے: "بچوں کیلئے کیسی مہنگائی؟ بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں۔ میرے پاس پانچ روپے لے کر بھی آتے ہیں اور میں ان بچوں کو بھی انکار نہیں کرتا جبکہ پانچ روپے تو صرف شاپر اور سلاد کے بھی نہیں لیکن ہر جگہ منافع نہیں دیکھا جاتا۔ میں چھوٹی چھوٹی چکن کی بوٹیاں بھی دیگ میں ڈالتا ہوں اور وہ ان بچوں کیلئے ہی ہوتی ہیں جو پانچ یا دس روپے لے کر آتے ہیں۔ وہ چاول کے ساتھ یہ چھوٹی سی بوٹی دیکھ کر جب مسکراتے ہیں تو مجھے لگتا ہے میری نمازیں اب قبول ہوئی ہیں۔ آج کے دور میں امیروں کے بچے پانچ دس روپے لے کر نہیں آتے یہ غریب بچے ہوتے ہیں۔"
یہ میرے سوال کا جواب کم اور انسانیت کا درس زیادہ تھا۔ یہ محبت کا خالص جذبہ، یہ بچوں سے محبت، یہ غریبوں کا احساس۔۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ اس چاول والے کے چہرے پر مسکراہٹ کیوں بسیرا کرتی ہے۔ اسے دیکھ کر روحانیت کا احساس کیوں ہوتا ہے۔ ہر جگہ منافع نہیں دیکھا جاتا کیوں کہ ہر انویسٹمنٹ اگر دنیاوی فائدے کیلئے کرتے رہیں گے تو آخرت میں ہمارے پلے کیا ہوگا؟ یہاں کچھ ایسی انویسٹمنٹ ضرور کیجیے جس کا منافع وہاں ملے گا جہاں کوئی کسی کا نہیں...
🌹 اگر پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لیے شیئر ضرور کریں۔
https://t.me/islamwitheman
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
ایک بچہ دس روپے لے کر پلاؤ والے کے پاس آیا، رہڑی پر ٹھہرے ہوئے لڑکے نے چاول دینے سے انکار کر دیا۔
میں کہنے ہی والا تھا کہ بچے کو چاول دے دو باقی پیسے میں دوں گا کہ اتنے میں پلاؤ والا خود آ گیا اور بچے سے دس روپے لے کر اسے بہت پیار سے شاپر میں چاول ڈال کر دیئے۔
میں نے سوال پوچھا: "مہنگائی کے اس دور میں دس روپے کے چاول؟"
کہنے لگے: "بچوں کیلئے کیسی مہنگائی؟ بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں۔ میرے پاس پانچ روپے لے کر بھی آتے ہیں اور میں ان بچوں کو بھی انکار نہیں کرتا جبکہ پانچ روپے تو صرف شاپر اور سلاد کے بھی نہیں لیکن ہر جگہ منافع نہیں دیکھا جاتا۔ میں چھوٹی چھوٹی چکن کی بوٹیاں بھی دیگ میں ڈالتا ہوں اور وہ ان بچوں کیلئے ہی ہوتی ہیں جو پانچ یا دس روپے لے کر آتے ہیں۔ وہ چاول کے ساتھ یہ چھوٹی سی بوٹی دیکھ کر جب مسکراتے ہیں تو مجھے لگتا ہے میری نمازیں اب قبول ہوئی ہیں۔ آج کے دور میں امیروں کے بچے پانچ دس روپے لے کر نہیں آتے یہ غریب بچے ہوتے ہیں۔"
یہ میرے سوال کا جواب کم اور انسانیت کا درس زیادہ تھا۔ یہ محبت کا خالص جذبہ، یہ بچوں سے محبت، یہ غریبوں کا احساس۔۔ مجھے سمجھ آ گئی کہ اس چاول والے کے چہرے پر مسکراہٹ کیوں بسیرا کرتی ہے۔ اسے دیکھ کر روحانیت کا احساس کیوں ہوتا ہے۔ ہر جگہ منافع نہیں دیکھا جاتا کیوں کہ ہر انویسٹمنٹ اگر دنیاوی فائدے کیلئے کرتے رہیں گے تو آخرت میں ہمارے پلے کیا ہوگا؟ یہاں کچھ ایسی انویسٹمنٹ ضرور کیجیے جس کا منافع وہاں ملے گا جہاں کوئی کسی کا نہیں...
🌹 اگر پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لیے شیئر ضرور کریں۔
https://t.me/islamwitheman
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
اصلاحی کہانیاں اور سبق آموز احادیث و واقعات...
ایڈمن سے رابطہ کیلئے:
@syedsajjadhamdani
ایڈمن سے رابطہ کیلئے:
@syedsajjadhamdani
🌹 ریت اور پتھر 🌹
ایک دفعہ دو بہت گہرے دوست صحرا میں سفر کر رھے تھے ۔۔۔ راستے میں باتیں کرتے کرتے دونوں میں بحث ھوگئی اور بات اتنی بڑھی کہ ایک دوست نے دوسرے دوست کے منہ پہ تھپڑ دے مارا..
تھپڑ کھانے والا دوست بہت دکھی ھوا مگر کچھ بولے بغیر اس نے ریت پر لکھا.. "آج میرے سب سے اچھے اور گہرے دوست نے میرے منہ پہ تھپڑ مارا.."
چلتے چلتے ان کو ایک جھیل نظر آئی ۔۔۔ دونوں نے نہانے کا ارادہ کیا ۔۔۔ اچانک جس دوست کو تھپڑ پڑا تھا وہ جھیل کے بیچ دلدلی حصہ میں پھنس گیا مگر جس دوست نے تھپڑ مارا تھا اس نے اسے بچا لیا..
تب بچنے والے دوست نے پتھر پہ لکھا.. "آج میرے سب سے اچھے اور گہرے دوست نے میری زندگی بچا لی.."
یہ دیکھ کر جس دوست نے تھپڑ مارا تھا اور بعد میں جان بچائی، اس نے پوچھا.. "جب میں نے تم کو دکھ دیا تو تم نے ریت پر لکھا تھا اور جب جان بچائی تو تم نے پتھر پہ لکھا.. کیوں..؟"
پہلے دوست نے جواب دیا..
"جب کوئی آپ کو دکھی کرے یا تکلیف دے تو ھمیشہ اس کی وہ بات ریت پر لکھو تاکہ "درگذر کی ھوا" اسے مٹا دے لیکن جب بھی کوئی آپ کے ساتھ بھلائی کرے تو ھمیشہ اس کی اچھائی پتھر پہ نقش کرو تاکہ کوئی بھی اسے مٹا نہ سکے...
🌹 اگر پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لیے شیئر ضرور کریں۔
https://t.me/islamwitheman
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
ایک دفعہ دو بہت گہرے دوست صحرا میں سفر کر رھے تھے ۔۔۔ راستے میں باتیں کرتے کرتے دونوں میں بحث ھوگئی اور بات اتنی بڑھی کہ ایک دوست نے دوسرے دوست کے منہ پہ تھپڑ دے مارا..
تھپڑ کھانے والا دوست بہت دکھی ھوا مگر کچھ بولے بغیر اس نے ریت پر لکھا.. "آج میرے سب سے اچھے اور گہرے دوست نے میرے منہ پہ تھپڑ مارا.."
چلتے چلتے ان کو ایک جھیل نظر آئی ۔۔۔ دونوں نے نہانے کا ارادہ کیا ۔۔۔ اچانک جس دوست کو تھپڑ پڑا تھا وہ جھیل کے بیچ دلدلی حصہ میں پھنس گیا مگر جس دوست نے تھپڑ مارا تھا اس نے اسے بچا لیا..
تب بچنے والے دوست نے پتھر پہ لکھا.. "آج میرے سب سے اچھے اور گہرے دوست نے میری زندگی بچا لی.."
یہ دیکھ کر جس دوست نے تھپڑ مارا تھا اور بعد میں جان بچائی، اس نے پوچھا.. "جب میں نے تم کو دکھ دیا تو تم نے ریت پر لکھا تھا اور جب جان بچائی تو تم نے پتھر پہ لکھا.. کیوں..؟"
پہلے دوست نے جواب دیا..
"جب کوئی آپ کو دکھی کرے یا تکلیف دے تو ھمیشہ اس کی وہ بات ریت پر لکھو تاکہ "درگذر کی ھوا" اسے مٹا دے لیکن جب بھی کوئی آپ کے ساتھ بھلائی کرے تو ھمیشہ اس کی اچھائی پتھر پہ نقش کرو تاکہ کوئی بھی اسے مٹا نہ سکے...
🌹 اگر پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لیے شیئر ضرور کریں۔
https://t.me/islamwitheman
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
اصلاحی کہانیاں اور سبق آموز احادیث و واقعات...
ایڈمن سے رابطہ کیلئے:
@syedsajjadhamdani
ایڈمن سے رابطہ کیلئے:
@syedsajjadhamdani
🌹 عمل ام داؤد 🌹
عمل اُمّ داؤد مستحب عبادتوں میں سے ایک ہے جسے ماہ رجب کے ایام البیض میں انجام دینے کی تاکید کی گئی ہے۔
■ تفصیلی مضمون
ام داؤد عبداللہ بن ابراہیم کی بیٹی اور حسن مُثَنّیٰ کی زوجہ ہیں۔[1] اپنے بیٹے داؤد کی نسبت سے "ام داؤد" کے نام سے مشہور ہوئیں۔[2] آپ امام صادقؑ کی مادر رضاعی بھی ہیں۔[3]
شیخ صدوق کی کتاب فضائل الاشہر الثلاثہ [تین مہینوں (رجب، شعبان اور رمضان) کے فضائل] اور سید بن طاووس کی کتاب اِقبال الاَعمال میں عمل ام داؤد کا واقعہ نقل ہوا ہے جس کا خلاصہ یوں ہے:
ام داؤد کے بیٹے داؤد کو عباسی خلیفہ منصور دوانیقی کے حکم پر گرفتار کر کے عراق لے جایا گیا جس کے بعد مدتوں ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی۔ ام داؤد اپنے بیٹے کی رہائی کیلئے کافی دعائیں مانگتی ہیں اور مختلف لوگوں سے اس حوالے سے مدد لیتی ہیں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ایک دن ام داؤد امام صادقؑ کی خدمت میں پہنچتی ہیں، اس موقع پر امام صادقؑ ام داؤد سے ان کے بیٹے کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ ام داؤد مذکورہ واقعے کو امام کی خدمت میں بیان کرتی ہیں۔ امام صادقؑ ام داؤد کو رجب کے ایام بیض میں "عمل ام داؤد" بجا لانے کا حکم دیتے ہیں۔[4]
ام داؤد کہتی ہیں، اس عمل کے چند دنوں بعد ان کا بیٹا داؤد گھر لوٹ آیا بعد میں معلوم ہوا کہ وہ 15 رجب کے دن ہی رہا ہو گیا تھا۔[5]
■ کیفیت
سب سے پہلے ماہ رجب کے ایام البیض یعنی 13، 14 اور 15 تاریخ کو روزہ رکھا جائے؛
پندرھویں تاریخ کو غسل کرے اس کے بعد ایک ایسی جگہ جہاں بیٹھ کر نماز ظہر و عصر کو خضوع اور خشوع کے ساتھ بجا لائے جہاں نہ کوئی چیز انسان کی توجہ ہٹا سکے اور نہ کوئی شخص اس سے گفتگو کر سکے؛
نماز کے بعد قبلہ رخ ہو کر درج ذیل سورتوں کی تلاوت کرے:
100 مرتبہ سورہ حمد
100 مرتبہ سورہ اخلاص
10 مرتبہ آیۃ الکرسی
سورہ انعام، سورہ بنی اسرائیل، سورہ کہف، سورہ لقمان، سورہ یس، سورہ صافات، سورہ سجدہ، سورہ شوری، سورہ دخان، سورہ فتح، سورہ واقعہ، سورہ ملک، سورہ قلم، سورہ انشقاق اور اس کے بعد قرآن کے آخر تک تمام سورتوں کی ایک ایک بار تلاوت کرے؛
اور آخر میں دعائے استفتاح یا دعائے ام داؤد پڑھی جائے؛[6]
■ فضیلت
امام صادقؑ سے منقول وہ حدیث جس میں ام داؤد کو اس عمل کی تعلیم دی گئی، میں اس عمل کی اہمیت کے بارے میں آیا ہے: خدا آسمان کے دروازے اس شخص کے لئے کھول دیتا ہے، فرشتے اس کی حاجتوں کی قبولی کی بشارت دیتے ہیں اور اس کا ثواب بہشت سے کم نہیں ہے۔[7]
شیخ طوسی، سید بن طاووس اور علامہ مجلسی جیسے مشہور شیعہ علماء فرماتے ہیں: دعائے ام داؤد مشکلات کی برطرفی، حاجت روائی اور ظلم و ستم کے خاتمے کے لئے نہایت مؤثر ہے۔[8]
موجودہ دور میں ماہ رجب کے ایام بیض میں اعتکاف کے لئے جانے والے افراد عمل ام داؤد کو انجام دیتے ہیں۔
■ سند اور مآخذ
جس حدیث میں عمل ام داؤد کا تذکرہ آیا ہے یہ حدیث مختلف شیعہ حدیثی مآخذ میں موجود ہے۔ اس سلسلے میں سب سے قدیمی کتاب شیخ صدوق کی کتاب فضائل الاَشہُر الثَّلاثہ ہے۔ البتہ اس کتاب میں صرف اس عمل کی سند اور واقعہ بیان ہوا ہے۔[9]
اس کے علاوہ شیخ طوسی کی کتاب مصباح المتہجد اور سید بن طاؤس کی کتاب اِقبال الاعمال میں بھی اس عمل کا تذکرہ آیا ہے۔[10]
کتاب بَلَدالامین، مصباح کفعمی،[11] بِحارالانوار[12] مفاتیح الجنان[13] من جملہ ان مآخذ میں سے ہیں جن میں اس عمل کو مذکورہ کتابوں سے نقل کیا ہے۔[14]
📚 حوالہ جات
1۔ امین، اعیانالشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۳، ص۴۷۶.
2۔ امین، اعیانالشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۳، ص۴۷۶.
3۔ امین، اعیانالشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۶، ص۳۶۸.
4۔ رجوع کریں: صدوق، فضائل الاشہر الثلاثہ، ۱۳۹۶ق، ص۳۳و۳۴؛ سید بن طاووس، اقبالالاعمال، ۱۳۷۶ش، ج۳، ص۲۴۱و۲۴۲۔
5۔ بہ صدوق، فضائل الاشہر الثلاثہ، ۱۳۹۶ق، ص۳۳و۳۴؛ سید بن طاووس، اقبالالاعمال، ۱۳۷۶ش، ج۳، ص۲۵۰و۲۵۱۔
6۔ شیخ طوسی،مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۸۰۷؛ کفعمی، المصباح، ۱۴۰۵ق، ص۵۳۰و۵۳۱؛ کفعمی، البلد الامین، ۱۴۱۸ق، ص۱۸۰.
7۔ صدوق، فضائل الاشہر الثلاثہ، ۱۳۹۶ق، ص۳۴.
8۔ اکبری و ربیعنتاج، «کاوشی در دعای امداوود»، ص۸۲.
9۔ اکبری و ربیعنتاج، «کاوشی در دعای امداوود»، ص۸۸.
10۔ مراجعہ کریں: شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۸۰۷-۸۱۲؛ سید بن طاووس، اقبال الاعمال، ۱۳۷۶ش، ج۳، ص۲۴۲-۲۴۸.
11۔ دیکھئے: کفعمی، المصباح، ۱۴۰۵ق، ص۵۳۰-۵۳۵؛ کفعمی، البلد الامین، ۱۴۱۸ق، ۱۸۰-۱۸۳۔
12۔ دیکھئے: مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۹۵، ص۴۰۰-۴۰۳۔
13۔ قمی، عباس، مفاتیحالجنان، ذیل اعمال امداوود۔
14۔ اکبری و ربیعنتاج، «کاوشی در دعای امداوود»، ص۹۰و۹۱۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
👈 مزید پوسٹس۔۔۔
🔷️ ایام البیض
https://t.me/islamwitheman/2996
🔷 13 رجب رات و دن کے اعمال
https://t.me/islamwitheman/2997
🔷 عمل ام داؤد
https://t.me/islamwitheman/4049
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
عمل اُمّ داؤد مستحب عبادتوں میں سے ایک ہے جسے ماہ رجب کے ایام البیض میں انجام دینے کی تاکید کی گئی ہے۔
■ تفصیلی مضمون
ام داؤد عبداللہ بن ابراہیم کی بیٹی اور حسن مُثَنّیٰ کی زوجہ ہیں۔[1] اپنے بیٹے داؤد کی نسبت سے "ام داؤد" کے نام سے مشہور ہوئیں۔[2] آپ امام صادقؑ کی مادر رضاعی بھی ہیں۔[3]
شیخ صدوق کی کتاب فضائل الاشہر الثلاثہ [تین مہینوں (رجب، شعبان اور رمضان) کے فضائل] اور سید بن طاووس کی کتاب اِقبال الاَعمال میں عمل ام داؤد کا واقعہ نقل ہوا ہے جس کا خلاصہ یوں ہے:
ام داؤد کے بیٹے داؤد کو عباسی خلیفہ منصور دوانیقی کے حکم پر گرفتار کر کے عراق لے جایا گیا جس کے بعد مدتوں ان کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی۔ ام داؤد اپنے بیٹے کی رہائی کیلئے کافی دعائیں مانگتی ہیں اور مختلف لوگوں سے اس حوالے سے مدد لیتی ہیں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ایک دن ام داؤد امام صادقؑ کی خدمت میں پہنچتی ہیں، اس موقع پر امام صادقؑ ام داؤد سے ان کے بیٹے کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ ام داؤد مذکورہ واقعے کو امام کی خدمت میں بیان کرتی ہیں۔ امام صادقؑ ام داؤد کو رجب کے ایام بیض میں "عمل ام داؤد" بجا لانے کا حکم دیتے ہیں۔[4]
ام داؤد کہتی ہیں، اس عمل کے چند دنوں بعد ان کا بیٹا داؤد گھر لوٹ آیا بعد میں معلوم ہوا کہ وہ 15 رجب کے دن ہی رہا ہو گیا تھا۔[5]
■ کیفیت
سب سے پہلے ماہ رجب کے ایام البیض یعنی 13، 14 اور 15 تاریخ کو روزہ رکھا جائے؛
پندرھویں تاریخ کو غسل کرے اس کے بعد ایک ایسی جگہ جہاں بیٹھ کر نماز ظہر و عصر کو خضوع اور خشوع کے ساتھ بجا لائے جہاں نہ کوئی چیز انسان کی توجہ ہٹا سکے اور نہ کوئی شخص اس سے گفتگو کر سکے؛
نماز کے بعد قبلہ رخ ہو کر درج ذیل سورتوں کی تلاوت کرے:
100 مرتبہ سورہ حمد
100 مرتبہ سورہ اخلاص
10 مرتبہ آیۃ الکرسی
سورہ انعام، سورہ بنی اسرائیل، سورہ کہف، سورہ لقمان، سورہ یس، سورہ صافات، سورہ سجدہ، سورہ شوری، سورہ دخان، سورہ فتح، سورہ واقعہ، سورہ ملک، سورہ قلم، سورہ انشقاق اور اس کے بعد قرآن کے آخر تک تمام سورتوں کی ایک ایک بار تلاوت کرے؛
اور آخر میں دعائے استفتاح یا دعائے ام داؤد پڑھی جائے؛[6]
■ فضیلت
امام صادقؑ سے منقول وہ حدیث جس میں ام داؤد کو اس عمل کی تعلیم دی گئی، میں اس عمل کی اہمیت کے بارے میں آیا ہے: خدا آسمان کے دروازے اس شخص کے لئے کھول دیتا ہے، فرشتے اس کی حاجتوں کی قبولی کی بشارت دیتے ہیں اور اس کا ثواب بہشت سے کم نہیں ہے۔[7]
شیخ طوسی، سید بن طاووس اور علامہ مجلسی جیسے مشہور شیعہ علماء فرماتے ہیں: دعائے ام داؤد مشکلات کی برطرفی، حاجت روائی اور ظلم و ستم کے خاتمے کے لئے نہایت مؤثر ہے۔[8]
موجودہ دور میں ماہ رجب کے ایام بیض میں اعتکاف کے لئے جانے والے افراد عمل ام داؤد کو انجام دیتے ہیں۔
■ سند اور مآخذ
جس حدیث میں عمل ام داؤد کا تذکرہ آیا ہے یہ حدیث مختلف شیعہ حدیثی مآخذ میں موجود ہے۔ اس سلسلے میں سب سے قدیمی کتاب شیخ صدوق کی کتاب فضائل الاَشہُر الثَّلاثہ ہے۔ البتہ اس کتاب میں صرف اس عمل کی سند اور واقعہ بیان ہوا ہے۔[9]
اس کے علاوہ شیخ طوسی کی کتاب مصباح المتہجد اور سید بن طاؤس کی کتاب اِقبال الاعمال میں بھی اس عمل کا تذکرہ آیا ہے۔[10]
کتاب بَلَدالامین، مصباح کفعمی،[11] بِحارالانوار[12] مفاتیح الجنان[13] من جملہ ان مآخذ میں سے ہیں جن میں اس عمل کو مذکورہ کتابوں سے نقل کیا ہے۔[14]
📚 حوالہ جات
1۔ امین، اعیانالشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۳، ص۴۷۶.
2۔ امین، اعیانالشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۳، ص۴۷۶.
3۔ امین، اعیانالشیعہ، ۱۴۰۶ق، ج۶، ص۳۶۸.
4۔ رجوع کریں: صدوق، فضائل الاشہر الثلاثہ، ۱۳۹۶ق، ص۳۳و۳۴؛ سید بن طاووس، اقبالالاعمال، ۱۳۷۶ش، ج۳، ص۲۴۱و۲۴۲۔
5۔ بہ صدوق، فضائل الاشہر الثلاثہ، ۱۳۹۶ق، ص۳۳و۳۴؛ سید بن طاووس، اقبالالاعمال، ۱۳۷۶ش، ج۳، ص۲۵۰و۲۵۱۔
6۔ شیخ طوسی،مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۸۰۷؛ کفعمی، المصباح، ۱۴۰۵ق، ص۵۳۰و۵۳۱؛ کفعمی، البلد الامین، ۱۴۱۸ق، ص۱۸۰.
7۔ صدوق، فضائل الاشہر الثلاثہ، ۱۳۹۶ق، ص۳۴.
8۔ اکبری و ربیعنتاج، «کاوشی در دعای امداوود»، ص۸۲.
9۔ اکبری و ربیعنتاج، «کاوشی در دعای امداوود»، ص۸۸.
10۔ مراجعہ کریں: شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۸۰۷-۸۱۲؛ سید بن طاووس، اقبال الاعمال، ۱۳۷۶ش، ج۳، ص۲۴۲-۲۴۸.
11۔ دیکھئے: کفعمی، المصباح، ۱۴۰۵ق، ص۵۳۰-۵۳۵؛ کفعمی، البلد الامین، ۱۴۱۸ق، ۱۸۰-۱۸۳۔
12۔ دیکھئے: مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۹۵، ص۴۰۰-۴۰۳۔
13۔ قمی، عباس، مفاتیحالجنان، ذیل اعمال امداوود۔
14۔ اکبری و ربیعنتاج، «کاوشی در دعای امداوود»، ص۹۰و۹۱۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
👈 مزید پوسٹس۔۔۔
🔷️ ایام البیض
https://t.me/islamwitheman/2996
🔷 13 رجب رات و دن کے اعمال
https://t.me/islamwitheman/2997
🔷 عمل ام داؤد
https://t.me/islamwitheman/4049
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
🔷 ایام البیض 🔷
تیرھویں، چودھویں اور پندرهویں رجب کو "ایام البیض" کہا جاتا ہے، زر بن حبيش کہتا ہے ابن معسود سے ایام البیض کے بارے سوال کیا کہ "ايّامالبيض" کے نام کا سبب کیا ہے اور اس بارے آپ نے کیا سنا ہے؟
ابنمسعود کہتا ہے نبىّ اكرمؐ سے سنا ہے آپؐ نے فرمایا:…
تیرھویں، چودھویں اور پندرهویں رجب کو "ایام البیض" کہا جاتا ہے، زر بن حبيش کہتا ہے ابن معسود سے ایام البیض کے بارے سوال کیا کہ "ايّامالبيض" کے نام کا سبب کیا ہے اور اس بارے آپ نے کیا سنا ہے؟
ابنمسعود کہتا ہے نبىّ اكرمؐ سے سنا ہے آپؐ نے فرمایا:…
🔷 ویلنٹائن ڈے کی حقیقت 🔷
مغربی تہذیب نے بہت سے بیہودہ رسوم و رواج کو جنم دیا۔ اور بدتہذیبی اور بدکرداری کے نئے نئے طریقوں کو ایجاد کیا۔ جس کی لپیٹ میں اس وقت پوری دنیا ہے اور بطور خاص مسلم معاشرہ اس کی فتنہ سامانیوں کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ مختلف عنوانات سے دنوں کو منانے اور اس میں رنگ رلیاں رچانے کے کلچر کو فروغ دینا شروع کیا اور اس کی آڑ میں بہت سی خرافات روایات اور بد اخلاقی و بے حیائی کو پھیلانے لگے۔ چنانچہ ان ہی میں ایک 14 فروری کی تاریخ ہے جس کو ’’یوم عاشقاں‘‘ یا ’’یوم ِ محبت ‘‘ کے نام سے منایا جاتا ہے اور تمام حدوں کو پامال کیا جاتا ہے۔ بے حیائی اور بے شرمی کا مظاہرہ ہوتا ہے اور تہذیب و شرافت کے خلاف کاموں کو انجام دیا جاتا ہے۔ اور ناجائز طور پر اظہار محبت کے لئے اس دن کاخاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ چند سال قبل یہ لعنت اس درجہ ہمارے معاشرہ میں عام نہیں تھی لیکن اب رفتہ رفتہ نوجوان طبقہ اس کا غیر معمولی اہتمام کرنے لگا ہے، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلباء وطالبات میں دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے اور گویا کہ یہ دن ان کے لئے دیگر تمام دنوں سے زیادہ اہمیت کا حامل بن گیا کیونکہ اس دن وہ اپنی آرزو کی تکمیل اور اپنے جذبات کا اظہار کر سکتے ہیں اور غیر شرعی و غیر اخلاقی طور پر محبت کا راگ الاپ سکتے ہیں۔ جبکہ شرعی اور اخلاقی نیز معاشرتی اعتبار سے اس کی بہت ساری خرابیاں اور مفاسد ہیں لیکن ان تمام کو بالائے طاق رکھ کر جوش جنوں اور دیوانگی میں اس دن کو منانے کی فکروں میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔
آئیے اس کی حقیقت اور تاریخ کو جانتے ہیں تاکہ اس لعنت سے مسلم نوجوانوں کو بچایاجا سکے۔
ویلنٹائن ڈے کی حقیقت
ویلنٹائن ڈے کے بارے میں بہت سے اقوال ہیں، اس کی ابتداء کے لئے کئی ایک واقعات کو منسوب کیا جاتا ہے۔ جن میں ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ سترھویں صدی عیسوی میں روم میں ویلنٹائن نام کا ایک پادری ایک راہبہ کی محبت میں مبتلا ہوگیا، چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لئے نکاح ممنوع تھا، اس لئے ایک دن ویلنٹائن نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لئے اسے بتایا کہ اسے خواب میں یہ بتایا گیا کہ 14 فروری کا دن ایسا ہے کہ اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ جسمانی تعلقات بھی قائم کر لیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا۔ راہبہ نے اس پر یقین کرلیا اور دونوں سب کچھ کر گزرے۔ کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اڑانے پر ان کا حشر وہی ہوا جو عموما ہوا کرتا ہے یعنی ان دونوں کو قتل کر دیا گیا۔ کچھ عرصے بعد چند لوگوں نے انھیں محبت کا شہید جان کر عقیدت کا اظہار کیا اور ان کی یاد میں یہ دن منانا شروع کردیا۔ ( ویلنٹائن ڈے :7)
بعض کے نزدیک یہ وہ دن ہے جب سینٹ ویلنٹائن نے روزہ رکھا تھا اور لوگوں نے اسے محبت کا دیوتا مان کر یہ دن اسی کے نام کر دیا۔ کئی شرکیہ عقائد کے حامل لوگ اسے یونانی کیوپڈ (محبت کے دیوتا) اور وینس (حسن کی دیوی) سے موسوم کرتے ہیں۔ یہ لوگ کیوپڈ کو ویلنٹائن ڈے کا مرکزی کردار کہتے ہیں جو اپنی محبت کے زہر بھجے تیر نوجوان دلوں پر چلا کر انہیں گھائل کرتا تھا۔ تاریخی شواہد کے مطابق ویلنٹائن کے آغاز کے آثار قدیم رومن تہذیب کے عروج کے زمانے سے چلے آرہے ہیں۔ (پادریوں کے کرتوت:285)
اور بعض نے انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کے حوالہ سے یہ بھی لکھا ہے کہ سینٹ ویلنٹائن ڈے کو آج کل جس طرح عاشقوں کے تہوار کے طور پر منایا جا رہا ہے یا ویلنٹائن کارڈ بھیجنے کی جو نئی روایت چل پڑی ہے اس کا سینٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق یا تو رومیوں کے دیوتا لوپرکالیا کے حوالہ سے پندرہ فروری کو منائے جانے والے تہوار بار آوری یا پرندوں کے ایام اختلاط سے ہے۔ (ویلنٹائن ڈے، تاریخ، حقائق اور اسلام کی نظر میں: 40)
واقعہ بہر حال جو بھی ہو اور جس مقصد کے لئے بھی اس کا آغاز کیا گیا ہو لیکن آج اس رسم ِ بد نے ایک طوفان بے حیائی برپا کر دیا ہے۔ عفت و عصمت کی عظمت اور رشتہ نکاح کے تقدس کو پامال کر دیا۔ اور نوجوان لڑکو ں اور لڑکیوں میں آزادی اور بے باکی کو پیدا کیا۔ معاشرہ کو پراگندہ کرنے اور حیا و اخلاق کی تعلیمات اور جنسی بے راہ روی کو فروغ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ برسرعام اظہار محبت کے نت نئے طریقوں کے ذریعہ شرم و حیا، ادب و شرافت کو ختم کر ڈالا۔ اس کی وجہ سے جو نہایت شرمناک واقعات رونما ہو رہے ہیں اور تعلیم گاہوں اور جامعات میں جس قسم کی بے حیائی بڑھتی جا رہی ہے اس کے لئے بعض قلم کاروں نے مستقل کتابیں لکھیں ہیں (اوپر حوالے میں جن کتابوں کے نام ہم نے پیش کئے ان کا مطالعہ بھی کافی ہے) تاکہ اس بے ہودگی سے نوجوان نسل کو روکا جا سکے۔
https://t.me/islamwitheman/4051
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
مغربی تہذیب نے بہت سے بیہودہ رسوم و رواج کو جنم دیا۔ اور بدتہذیبی اور بدکرداری کے نئے نئے طریقوں کو ایجاد کیا۔ جس کی لپیٹ میں اس وقت پوری دنیا ہے اور بطور خاص مسلم معاشرہ اس کی فتنہ سامانیوں کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ مختلف عنوانات سے دنوں کو منانے اور اس میں رنگ رلیاں رچانے کے کلچر کو فروغ دینا شروع کیا اور اس کی آڑ میں بہت سی خرافات روایات اور بد اخلاقی و بے حیائی کو پھیلانے لگے۔ چنانچہ ان ہی میں ایک 14 فروری کی تاریخ ہے جس کو ’’یوم عاشقاں‘‘ یا ’’یوم ِ محبت ‘‘ کے نام سے منایا جاتا ہے اور تمام حدوں کو پامال کیا جاتا ہے۔ بے حیائی اور بے شرمی کا مظاہرہ ہوتا ہے اور تہذیب و شرافت کے خلاف کاموں کو انجام دیا جاتا ہے۔ اور ناجائز طور پر اظہار محبت کے لئے اس دن کاخاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ چند سال قبل یہ لعنت اس درجہ ہمارے معاشرہ میں عام نہیں تھی لیکن اب رفتہ رفتہ نوجوان طبقہ اس کا غیر معمولی اہتمام کرنے لگا ہے، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم طلباء وطالبات میں دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے اور گویا کہ یہ دن ان کے لئے دیگر تمام دنوں سے زیادہ اہمیت کا حامل بن گیا کیونکہ اس دن وہ اپنی آرزو کی تکمیل اور اپنے جذبات کا اظہار کر سکتے ہیں اور غیر شرعی و غیر اخلاقی طور پر محبت کا راگ الاپ سکتے ہیں۔ جبکہ شرعی اور اخلاقی نیز معاشرتی اعتبار سے اس کی بہت ساری خرابیاں اور مفاسد ہیں لیکن ان تمام کو بالائے طاق رکھ کر جوش جنوں اور دیوانگی میں اس دن کو منانے کی فکروں میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔
آئیے اس کی حقیقت اور تاریخ کو جانتے ہیں تاکہ اس لعنت سے مسلم نوجوانوں کو بچایاجا سکے۔
ویلنٹائن ڈے کی حقیقت
ویلنٹائن ڈے کے بارے میں بہت سے اقوال ہیں، اس کی ابتداء کے لئے کئی ایک واقعات کو منسوب کیا جاتا ہے۔ جن میں ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ سترھویں صدی عیسوی میں روم میں ویلنٹائن نام کا ایک پادری ایک راہبہ کی محبت میں مبتلا ہوگیا، چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لئے نکاح ممنوع تھا، اس لئے ایک دن ویلنٹائن نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لئے اسے بتایا کہ اسے خواب میں یہ بتایا گیا کہ 14 فروری کا دن ایسا ہے کہ اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ جسمانی تعلقات بھی قائم کر لیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا۔ راہبہ نے اس پر یقین کرلیا اور دونوں سب کچھ کر گزرے۔ کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اڑانے پر ان کا حشر وہی ہوا جو عموما ہوا کرتا ہے یعنی ان دونوں کو قتل کر دیا گیا۔ کچھ عرصے بعد چند لوگوں نے انھیں محبت کا شہید جان کر عقیدت کا اظہار کیا اور ان کی یاد میں یہ دن منانا شروع کردیا۔ ( ویلنٹائن ڈے :7)
بعض کے نزدیک یہ وہ دن ہے جب سینٹ ویلنٹائن نے روزہ رکھا تھا اور لوگوں نے اسے محبت کا دیوتا مان کر یہ دن اسی کے نام کر دیا۔ کئی شرکیہ عقائد کے حامل لوگ اسے یونانی کیوپڈ (محبت کے دیوتا) اور وینس (حسن کی دیوی) سے موسوم کرتے ہیں۔ یہ لوگ کیوپڈ کو ویلنٹائن ڈے کا مرکزی کردار کہتے ہیں جو اپنی محبت کے زہر بھجے تیر نوجوان دلوں پر چلا کر انہیں گھائل کرتا تھا۔ تاریخی شواہد کے مطابق ویلنٹائن کے آغاز کے آثار قدیم رومن تہذیب کے عروج کے زمانے سے چلے آرہے ہیں۔ (پادریوں کے کرتوت:285)
اور بعض نے انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کے حوالہ سے یہ بھی لکھا ہے کہ سینٹ ویلنٹائن ڈے کو آج کل جس طرح عاشقوں کے تہوار کے طور پر منایا جا رہا ہے یا ویلنٹائن کارڈ بھیجنے کی جو نئی روایت چل پڑی ہے اس کا سینٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق یا تو رومیوں کے دیوتا لوپرکالیا کے حوالہ سے پندرہ فروری کو منائے جانے والے تہوار بار آوری یا پرندوں کے ایام اختلاط سے ہے۔ (ویلنٹائن ڈے، تاریخ، حقائق اور اسلام کی نظر میں: 40)
واقعہ بہر حال جو بھی ہو اور جس مقصد کے لئے بھی اس کا آغاز کیا گیا ہو لیکن آج اس رسم ِ بد نے ایک طوفان بے حیائی برپا کر دیا ہے۔ عفت و عصمت کی عظمت اور رشتہ نکاح کے تقدس کو پامال کر دیا۔ اور نوجوان لڑکو ں اور لڑکیوں میں آزادی اور بے باکی کو پیدا کیا۔ معاشرہ کو پراگندہ کرنے اور حیا و اخلاق کی تعلیمات اور جنسی بے راہ روی کو فروغ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ برسرعام اظہار محبت کے نت نئے طریقوں کے ذریعہ شرم و حیا، ادب و شرافت کو ختم کر ڈالا۔ اس کی وجہ سے جو نہایت شرمناک واقعات رونما ہو رہے ہیں اور تعلیم گاہوں اور جامعات میں جس قسم کی بے حیائی بڑھتی جا رہی ہے اس کے لئے بعض قلم کاروں نے مستقل کتابیں لکھیں ہیں (اوپر حوالے میں جن کتابوں کے نام ہم نے پیش کئے ان کا مطالعہ بھی کافی ہے) تاکہ اس بے ہودگی سے نوجوان نسل کو روکا جا سکے۔
https://t.me/islamwitheman/4051
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
🔷 ویلنٹائن ڈے کی تباہ کاریاں 🔷
ویلنٹائن ڈے نے پاکیزہ معاشرہ کو بڑی بیدردی کے ساتھ بدامن اور داغدار کیا ہے۔ اخلاقی قدروں کو تہس نہس کیا ہے، اور رشتوں، تعلقات، احترام، انسانیت تمام چیزوں کو پامال کیا ہے۔ لال گلاب اور سر خ رنگ اس کی خاص علامت ہے، پھول کی تقسیم اور اس موقع پر ویلنٹائن کارڈ کا تبادلہ بھی اظہارِ محبت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ بڑے پیمانے پر اس کی تجارت ہوتی ہے اور ہوس پرست اس کو منہ بولے دام میں خریدتے ہیں۔ منچلوں کے لئے ایک مستقل تفریح کا سامان بن گیا ہے۔
ویلنٹائن کی جھوٹی محبت کا انجام کیا ہوتا ہے مختصر جملوں میں کہ۔۔۔
٭عشق کا بھوت نفرت میں بدل گیا، محبت کی شادمی کا دردناک انجام،
٭خاوند کے ہاتھوں محبوبہ کا قتل۔
٭عشق کی خاطر بہن نے بھائی کا قتل کر دیا۔٭محبوبہ محبوب سمیت حوالات میں بند۔
٭محبت کی ناکامی پر دو بھائیوں نے خود کشی کرلی۔
٭محبت کی ناکامی میں نوجوان ٹرین کے آگے گود گیا، جسم کے دوٹکڑے۔
٭ناکام عاشق نے لڑکی کو والدین چچا اور ایک بچی سمیت قتل کرڈالا۔
یہ وہ اخباری سرخیاں ہیں جو نام نہاد محبت کی بنا پر معاشرتی المیہ بنی آئے روز اخبارات کی زینت بنتی جارہی ہیں۔ ( ویلنٹائن ڈے، تاریخ، حقائق اور اسلام کی نظر میں :119)
آخری بات
یہ وہ تلخ حقائق اور ویلنٹائن ڈے کی تباہ کاریوں کی ایک مختصر روداد ہے، جس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ ویلنٹائن ڈے کے عنوان سے پوری دنیا میں کیا تباہی مچائی جاتی ہے اور کس طرح ایمان و اخلاق سے کھیلا جاتا ہے، معاشرے کو بے حیا بنانے اور نوجوانوں میں بے غیرتی اور بے حیائی کو فروغ دینے میں اس دن کی کیا تباہیاں ہیں، اس حقیقت سے کسی عقل مند اور سلیم المزاج انسان کو انکار نہیں ہو سکتا کہ اس وقت پوری دنیا میں بے حیائی کو پھیلانے اور بدکاری کو عام کرنے کی منصوبہ بند کوششیں ہو رہی ہیں، نوجوانوں کو بے راہرو کرنے اور بالخصوص مسلم نوجوانوں سے جذبہ ایمانی کو کھرچنے اور حیا و اخلاق کے جوہر سے محروم کر دینے کے یہ دن اور اس طرح کے بہت سے حربے اسلام دشمن طاقتیں استعمال کر رہی ہیں۔
امت مسلمہ کے نوجوانوں کو ان تمام لغویات اور واہیات قسم کی چیزوں سے بچنا ضروری ہے، اور معاشرے کو پاکیزہ بنانے اور اخلاق و کردار کو پروان چڑھانے کے لئے اس طرح کی بے حیائی کو فروغ دینے والے دنوں کا بائیکاٹ کرنا ضروری ہے، اور اس کے بالمقابل اسلام کی حیا کی پاکیزہ تعلیمات کو عام کرنے سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں کے ماحول میں بالخصوص اور نوجوان اپنے افراد و احباب اور دوستوں میں بڑے اہتمام کے ساتھ اس دن کی حقیقت اور تباہ کاری سے آگاہ کریں اور ان تمام چیزوں سے اپنے آپ کو بچائیں جو کسی بھی اعتبار سے معاشرے میں بے حیائی کے پھیلنے کا ذریعہ بنے اور دنیا والوں کو اسلام کی بلند ترین تعلیمات کا خوبصورت نمونہ پیش کرنے والے بنیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
👈 مزید پوسٹس۔۔۔
🔷 ویلنٹائن ڈے اور مسلمان
https://t.me/islamwitheman/165
🔷 ویلنٹائن ڈے کی حقیقت
https://t.me/islamwitheman/4052
🔷 ویلنٹائن ڈے کی تباہ کاریاں
https://t.me/islamwitheman/4053
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
ویلنٹائن ڈے نے پاکیزہ معاشرہ کو بڑی بیدردی کے ساتھ بدامن اور داغدار کیا ہے۔ اخلاقی قدروں کو تہس نہس کیا ہے، اور رشتوں، تعلقات، احترام، انسانیت تمام چیزوں کو پامال کیا ہے۔ لال گلاب اور سر خ رنگ اس کی خاص علامت ہے، پھول کی تقسیم اور اس موقع پر ویلنٹائن کارڈ کا تبادلہ بھی اظہارِ محبت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ بڑے پیمانے پر اس کی تجارت ہوتی ہے اور ہوس پرست اس کو منہ بولے دام میں خریدتے ہیں۔ منچلوں کے لئے ایک مستقل تفریح کا سامان بن گیا ہے۔
ویلنٹائن کی جھوٹی محبت کا انجام کیا ہوتا ہے مختصر جملوں میں کہ۔۔۔
٭عشق کا بھوت نفرت میں بدل گیا، محبت کی شادمی کا دردناک انجام،
٭خاوند کے ہاتھوں محبوبہ کا قتل۔
٭عشق کی خاطر بہن نے بھائی کا قتل کر دیا۔٭محبوبہ محبوب سمیت حوالات میں بند۔
٭محبت کی ناکامی پر دو بھائیوں نے خود کشی کرلی۔
٭محبت کی ناکامی میں نوجوان ٹرین کے آگے گود گیا، جسم کے دوٹکڑے۔
٭ناکام عاشق نے لڑکی کو والدین چچا اور ایک بچی سمیت قتل کرڈالا۔
یہ وہ اخباری سرخیاں ہیں جو نام نہاد محبت کی بنا پر معاشرتی المیہ بنی آئے روز اخبارات کی زینت بنتی جارہی ہیں۔ ( ویلنٹائن ڈے، تاریخ، حقائق اور اسلام کی نظر میں :119)
آخری بات
یہ وہ تلخ حقائق اور ویلنٹائن ڈے کی تباہ کاریوں کی ایک مختصر روداد ہے، جس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ ویلنٹائن ڈے کے عنوان سے پوری دنیا میں کیا تباہی مچائی جاتی ہے اور کس طرح ایمان و اخلاق سے کھیلا جاتا ہے، معاشرے کو بے حیا بنانے اور نوجوانوں میں بے غیرتی اور بے حیائی کو فروغ دینے میں اس دن کی کیا تباہیاں ہیں، اس حقیقت سے کسی عقل مند اور سلیم المزاج انسان کو انکار نہیں ہو سکتا کہ اس وقت پوری دنیا میں بے حیائی کو پھیلانے اور بدکاری کو عام کرنے کی منصوبہ بند کوششیں ہو رہی ہیں، نوجوانوں کو بے راہرو کرنے اور بالخصوص مسلم نوجوانوں سے جذبہ ایمانی کو کھرچنے اور حیا و اخلاق کے جوہر سے محروم کر دینے کے یہ دن اور اس طرح کے بہت سے حربے اسلام دشمن طاقتیں استعمال کر رہی ہیں۔
امت مسلمہ کے نوجوانوں کو ان تمام لغویات اور واہیات قسم کی چیزوں سے بچنا ضروری ہے، اور معاشرے کو پاکیزہ بنانے اور اخلاق و کردار کو پروان چڑھانے کے لئے اس طرح کی بے حیائی کو فروغ دینے والے دنوں کا بائیکاٹ کرنا ضروری ہے، اور اس کے بالمقابل اسلام کی حیا کی پاکیزہ تعلیمات کو عام کرنے سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں کے ماحول میں بالخصوص اور نوجوان اپنے افراد و احباب اور دوستوں میں بڑے اہتمام کے ساتھ اس دن کی حقیقت اور تباہ کاری سے آگاہ کریں اور ان تمام چیزوں سے اپنے آپ کو بچائیں جو کسی بھی اعتبار سے معاشرے میں بے حیائی کے پھیلنے کا ذریعہ بنے اور دنیا والوں کو اسلام کی بلند ترین تعلیمات کا خوبصورت نمونہ پیش کرنے والے بنیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
👈 مزید پوسٹس۔۔۔
🔷 ویلنٹائن ڈے اور مسلمان
https://t.me/islamwitheman/165
🔷 ویلنٹائن ڈے کی حقیقت
https://t.me/islamwitheman/4052
🔷 ویلنٹائن ڈے کی تباہ کاریاں
https://t.me/islamwitheman/4053
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
🔷 ویلینٹائن ڈےاورمسلمان 🔷
14 فروری سے پہلے اس پوسٹ کو شئر کریں تاکہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والا ہر مسلمان آپ کے ذریعے اس گناہ سے بچ جائے.......
ویلینٹائن کیا ہے...؟؟؟
ایک یہودی ملعون جس کا نام "ویلینٹائن" تھا نے شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کے بیچ زنا کو…
14 فروری سے پہلے اس پوسٹ کو شئر کریں تاکہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والا ہر مسلمان آپ کے ذریعے اس گناہ سے بچ جائے.......
ویلینٹائن کیا ہے...؟؟؟
ایک یہودی ملعون جس کا نام "ویلینٹائن" تھا نے شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کے بیچ زنا کو…
🔷 ویلنٹائن ڈے شغل یا فساد 🔷
مسلمان دیگر مغربی تہواروں کی طرح ویلنٹائن کو بھی مذہبی تہوار سمجھ کر نہیں مناتے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان ویلنٹائن ڈے آخر مناتے کیوں ہیں۔؟
اس کا سادہ جواب ہے کہ ’’پتہ نہیں، بس مناتے ہیں۔‘‘ مسلمان خاص طور پر پاکستانی قوم ’’کوّا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا‘‘ کے مصداق جدھر میڈیا لگا دے، بھیڑ بکریوں کی طرح منہ اٹھائے ادھر کو چل دیتی ہے۔
پاکستان میں کسی شہری سے پوچھ لیں، اسے اس تہوار کا پس منظر معلوم نہیں ہوگا، فقط اتنا جانتا ہے کہ آج اظہار محبت کا دن ہے اور سرخ رنگ کے پھولوں اور تحائف کا تبادلہ اس تہوار کی خاص علامت ہیں۔
جہاں تک ہماری یادداشت کام کرتی ہے، پاکستان میں نجی میڈیا کے ظہور سے پہلے یہ قوم ویلنٹائن ڈے سے لاعلم تھی، میڈیا کی مہربانی سے یہ قوم ماشاء اللہ ’’تعلیم یافتہ‘‘ ہو گئی ہے۔ بھارت اور پاکستان تہذیب اور ثقافت کے اعتبار سے عجیب الجھن کا شکار ہیں کیونکہ مغربی ثقافت نے برصغیر کے باشندوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ بھارت ویمن ویلفیئر اینڈ ڈویلپمنٹ کی صدر معراج خان نے گورنر آندھرا پردیش کو ایک میمورنڈم پیش کیا جس میں درخواست کی کہ وہ حکومت اور بالخصوص محکمہ پولیس کو ویلنٹائن ڈے پر غیر تہذیبی اور غیر اخلاقی تقریبات اور حرکات کو روکنے کے سلسلے میں بندوبست کرے۔ بھارت جیسے سیکولر ملک میں جس کے بالی ووڈ نے پاکستان میں بھی آگ لگا رکھی ہے‘ بے حیائی کی روک تھام کے بندوبست کی درخواست اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت کے لوگ بھی اپنی تہذیب کو دفن ہونے سے بچانا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان دنیا میں کہیں آباد ہوں اپنی نوجوان نسلوں کو بے راہ روی سے دور رکھنے کی سعی کر تے ہیں۔
بحث یہ نہیں کہ ویلنٹائن ڈے منانا حرام ہے یا ناجائز، مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی اپنی بھی کوئی تہذیب و ثقافت ہے یا نہیں؟ ویلنٹائن ڈے کی مسرتوں میں شامل ہونے کے لئے نوجوان محبت کرنے والے اور والیاں تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ موبائل فون، ایس ایم ایس اور انٹرنیٹ نے یہ تلاش آسان اور سستی بنا دی ہے۔ محبت کا پیغام عام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ عوام خوشیوں سے محروم ہوتے جا رہے ہیں لہٰذا ویلنٹائن ڈے جیسے تہوار محرومیوں میں شفا کا کام دیتے ہیں۔ پہلے زمانوں میں اظہار محبت نہیں ہوتا تھا مگر محبت تھی، زمانہ جدید میں اظہار محبت ہے مگر محبت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ پال ویلنٹائن ایک رومن پادری اور اس کی محبوبہ کو غیر اخلاقی و غیر قانونی فعل پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، جب سے اب تک ان کی یاد میں پھول چڑھائے جاتے ہیں۔ پادری کی کہانی تو ماضی ہوگئی البتہ اس تہوار کو محبت کی علامت قرار دے دیا گیا۔
ویلنٹائن ڈے کو اگر صرف اظہار محبت تک محدود رکھا جائے تو اس کے اظہار کی سب سے زیادہ ضرورت بیوی کو ہے۔ مشرقی شوہر اپنی بیوی سے اظہار محبت میں بخیل پایا گیا ہے۔ بیوی کو دنیاکی تمام آسائشیں مہیا کر دو مگر جب تک شوہر زبان سے اس کی تعریف نہ کرے، اسے سکون نہیں ملتا، اس کے باوجود پاکستانی شوہر دنیا کا بہترین شوہر مشہور ہے۔ میاں بیوی میں اظہار محبت اللہ تعالیٰ کو پسند ہے مگر ویلنٹائن کی وبا سے غیر شادی شدہ طبقہ زیادہ متاثر ہوا ہے۔ پاکستان کے شرفاء ویلنٹائن ڈے منانے کے پس پشت نوجوان نسل کی غیر اخلاقی حرکات سے پریشان ہیں۔ ویلنٹائن ڈے کی علامت سرخ رنگ ہے، لہو کا رنگ بھی سرخ ہے۔ سانحات نے پاکستان میں صف ماتم بچھا رکھی ہے، لہو میں نہائی یہ ویلنٹائن اظہار محبت ہے یا محبت کا شغل۔۔۔؟
2017ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شوکت صدیقی نے عوامی سطح پر ویلنٹائن ڈے کی تقریبات کو مسلم ثقافت کے منافی قرار دیتے ہوئے پابندی عائد کر دی تھی۔ کیونکہ پاکستانی معاشرے میں ویلنٹائن ڈے کو گزشتہ چند برسوں کے دوران کافی مقبولیت حاصل ہوئی ہے جو مغربی ثقافتی یلغار کی ایک بدترین مثال ہے۔ اس کی وجہ سے معاشرے میں بے حیائی و فحاشی خطرناک حد تک بڑھنا شروع ہو چکی ہے۔ اس لئے عدالت نے ویلنٹائن ڈے کی تقریبات کی کوریج پر پابندی عائد کر دی تھی۔ لیکن کہیں چوری چھپے اور کہیں کھل کھلا کر یہ تہوار منانے کا سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔
خداوند متعال ہمیں عقل سلیم عطا فرمائے اور بیہودہ رسوم و خرافات سے محفوظ رکھے۔ آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
👈 مزید پوسٹس۔۔۔
🔷 ویلنٹائن ڈے اور مسلمان
https://t.me/islamwitheman/165
🔷 ویلنٹائن ڈے کی حقیقت
https://t.me/islamwitheman/4052
🔷 ویلنٹائن ڈے کی تباہ کاریاں
https://t.me/islamwitheman/4053
🔷 ویلنٹائن ڈے شغل یا فساد
https://t.me/islamwitheman/4054
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
مسلمان دیگر مغربی تہواروں کی طرح ویلنٹائن کو بھی مذہبی تہوار سمجھ کر نہیں مناتے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان ویلنٹائن ڈے آخر مناتے کیوں ہیں۔؟
اس کا سادہ جواب ہے کہ ’’پتہ نہیں، بس مناتے ہیں۔‘‘ مسلمان خاص طور پر پاکستانی قوم ’’کوّا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا‘‘ کے مصداق جدھر میڈیا لگا دے، بھیڑ بکریوں کی طرح منہ اٹھائے ادھر کو چل دیتی ہے۔
پاکستان میں کسی شہری سے پوچھ لیں، اسے اس تہوار کا پس منظر معلوم نہیں ہوگا، فقط اتنا جانتا ہے کہ آج اظہار محبت کا دن ہے اور سرخ رنگ کے پھولوں اور تحائف کا تبادلہ اس تہوار کی خاص علامت ہیں۔
جہاں تک ہماری یادداشت کام کرتی ہے، پاکستان میں نجی میڈیا کے ظہور سے پہلے یہ قوم ویلنٹائن ڈے سے لاعلم تھی، میڈیا کی مہربانی سے یہ قوم ماشاء اللہ ’’تعلیم یافتہ‘‘ ہو گئی ہے۔ بھارت اور پاکستان تہذیب اور ثقافت کے اعتبار سے عجیب الجھن کا شکار ہیں کیونکہ مغربی ثقافت نے برصغیر کے باشندوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ بھارت ویمن ویلفیئر اینڈ ڈویلپمنٹ کی صدر معراج خان نے گورنر آندھرا پردیش کو ایک میمورنڈم پیش کیا جس میں درخواست کی کہ وہ حکومت اور بالخصوص محکمہ پولیس کو ویلنٹائن ڈے پر غیر تہذیبی اور غیر اخلاقی تقریبات اور حرکات کو روکنے کے سلسلے میں بندوبست کرے۔ بھارت جیسے سیکولر ملک میں جس کے بالی ووڈ نے پاکستان میں بھی آگ لگا رکھی ہے‘ بے حیائی کی روک تھام کے بندوبست کی درخواست اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت کے لوگ بھی اپنی تہذیب کو دفن ہونے سے بچانا چاہتے ہیں جبکہ مسلمان دنیا میں کہیں آباد ہوں اپنی نوجوان نسلوں کو بے راہ روی سے دور رکھنے کی سعی کر تے ہیں۔
بحث یہ نہیں کہ ویلنٹائن ڈے منانا حرام ہے یا ناجائز، مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی اپنی بھی کوئی تہذیب و ثقافت ہے یا نہیں؟ ویلنٹائن ڈے کی مسرتوں میں شامل ہونے کے لئے نوجوان محبت کرنے والے اور والیاں تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ موبائل فون، ایس ایم ایس اور انٹرنیٹ نے یہ تلاش آسان اور سستی بنا دی ہے۔ محبت کا پیغام عام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ عوام خوشیوں سے محروم ہوتے جا رہے ہیں لہٰذا ویلنٹائن ڈے جیسے تہوار محرومیوں میں شفا کا کام دیتے ہیں۔ پہلے زمانوں میں اظہار محبت نہیں ہوتا تھا مگر محبت تھی، زمانہ جدید میں اظہار محبت ہے مگر محبت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ پال ویلنٹائن ایک رومن پادری اور اس کی محبوبہ کو غیر اخلاقی و غیر قانونی فعل پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، جب سے اب تک ان کی یاد میں پھول چڑھائے جاتے ہیں۔ پادری کی کہانی تو ماضی ہوگئی البتہ اس تہوار کو محبت کی علامت قرار دے دیا گیا۔
ویلنٹائن ڈے کو اگر صرف اظہار محبت تک محدود رکھا جائے تو اس کے اظہار کی سب سے زیادہ ضرورت بیوی کو ہے۔ مشرقی شوہر اپنی بیوی سے اظہار محبت میں بخیل پایا گیا ہے۔ بیوی کو دنیاکی تمام آسائشیں مہیا کر دو مگر جب تک شوہر زبان سے اس کی تعریف نہ کرے، اسے سکون نہیں ملتا، اس کے باوجود پاکستانی شوہر دنیا کا بہترین شوہر مشہور ہے۔ میاں بیوی میں اظہار محبت اللہ تعالیٰ کو پسند ہے مگر ویلنٹائن کی وبا سے غیر شادی شدہ طبقہ زیادہ متاثر ہوا ہے۔ پاکستان کے شرفاء ویلنٹائن ڈے منانے کے پس پشت نوجوان نسل کی غیر اخلاقی حرکات سے پریشان ہیں۔ ویلنٹائن ڈے کی علامت سرخ رنگ ہے، لہو کا رنگ بھی سرخ ہے۔ سانحات نے پاکستان میں صف ماتم بچھا رکھی ہے، لہو میں نہائی یہ ویلنٹائن اظہار محبت ہے یا محبت کا شغل۔۔۔؟
2017ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شوکت صدیقی نے عوامی سطح پر ویلنٹائن ڈے کی تقریبات کو مسلم ثقافت کے منافی قرار دیتے ہوئے پابندی عائد کر دی تھی۔ کیونکہ پاکستانی معاشرے میں ویلنٹائن ڈے کو گزشتہ چند برسوں کے دوران کافی مقبولیت حاصل ہوئی ہے جو مغربی ثقافتی یلغار کی ایک بدترین مثال ہے۔ اس کی وجہ سے معاشرے میں بے حیائی و فحاشی خطرناک حد تک بڑھنا شروع ہو چکی ہے۔ اس لئے عدالت نے ویلنٹائن ڈے کی تقریبات کی کوریج پر پابندی عائد کر دی تھی۔ لیکن کہیں چوری چھپے اور کہیں کھل کھلا کر یہ تہوار منانے کا سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔
خداوند متعال ہمیں عقل سلیم عطا فرمائے اور بیہودہ رسوم و خرافات سے محفوظ رکھے۔ آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
👈 مزید پوسٹس۔۔۔
🔷 ویلنٹائن ڈے اور مسلمان
https://t.me/islamwitheman/165
🔷 ویلنٹائن ڈے کی حقیقت
https://t.me/islamwitheman/4052
🔷 ویلنٹائن ڈے کی تباہ کاریاں
https://t.me/islamwitheman/4053
🔷 ویلنٹائن ڈے شغل یا فساد
https://t.me/islamwitheman/4054
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
🔷 ویلینٹائن ڈےاورمسلمان 🔷
14 فروری سے پہلے اس پوسٹ کو شئر کریں تاکہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والا ہر مسلمان آپ کے ذریعے اس گناہ سے بچ جائے.......
ویلینٹائن کیا ہے...؟؟؟
ایک یہودی ملعون جس کا نام "ویلینٹائن" تھا نے شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کے بیچ زنا کو…
14 فروری سے پہلے اس پوسٹ کو شئر کریں تاکہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والا ہر مسلمان آپ کے ذریعے اس گناہ سے بچ جائے.......
ویلینٹائن کیا ہے...؟؟؟
ایک یہودی ملعون جس کا نام "ویلینٹائن" تھا نے شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کے بیچ زنا کو…
🔷 یوم حیا بمقابلہ ویلنٹائن ڈے 🔷
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آج ویلنٹائن ڈے اور ”یوم حیا“ ایک ساتھ منائے جا رہے ہیں۔
ایک طبقہ سرخ پھولوں کا تبادلہ کرے گا تو وہیں پر ملک میں ایک بڑا طبقہ ’’یوم حیا" کے عنوان سے حجاب، شرم و حیا اور اسلامی اقدار کو پروان چڑھانے کے لئے مختلف تقریبات منعقد کرے گا۔
ویلنٹائن ڈے کیلئے نوجوان نسل کی تیاریاں عروج پر ہیں، محبت کے اظہار کے لیے تحائف، پھولوں، کیک اور کارڈز کی خریداری زوروں پر ہے جبکہ سوشل میڈیا پر بھی اسی دن کے چرچے ہیں۔ ذیل میں ہم ویلنٹائن ڈے کے آغاز اور پاکستان میں اس دن کے یومِ حیا کے طور پر منائے جانے کے حوالے سے روشنی ڈالیں گے۔
ویلینٹائن ڈے اصلاً رومیوں کا تہوار ہے جس کی ابتدا تقریباً 1700 سال قبل ہوئی تھی۔ اہلِ روم میں 14 فروری ’یونودیوی‘ کی وجہ سے مقدس مانا جاتا تھا جسے ’عورت اور شادی بیاہ کی دیوی ‘سمجھا جاتا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ویلنٹائن نامی‘ ایک پادری نےخفیہ طریقے سے شادیوں کا اہتمام کیا۔ جب شہنشاہ کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے ویلنٹائن کو قید کردیا، آج اسی نسبت سے ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے۔
ایک دوسری روایت کے مطابق ویلنٹائن ڈے کا آغاز ’’رومن سینٹ ویلنٹائن‘‘ کی مناسبت سے ہوا جسے ’’محبت کا دیوتا‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اسے مذہب تبدیل نہ کرنے کے جرم میں پہلے قید میں رکھا گیا، پھر سولی پر چڑھا دیا گیا، قید کے دوران ویلنٹائن کو جیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئی، سولی پر چڑھائے جانے سے پہلے اس نے جیلر کی بیٹی کے نام ایک الوداعی محبت نامہ چھوڑا جس پر دستخط سے پہلے لکھا تھا ’’تمہارا ویلنٹائن‘‘۔ اسی کی یاد میں لوگوں نے 14 فروری کو یومِ تجدید ِمحبت منانا شروع کر دیا۔
مغرب میں مدتوں سے 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے لیکن گزشتہ کچھ سالوں کے دوران پاکستان میں بھی اس دن کی اہمیت دو چند ہوگئی ہے۔ بالخصوص سوشل میڈیا کے باعث اس مغربی تہوار سے مشرق کا ہر نوجوان واقف ہو چکا ہے۔
پاکستان میں جب ویلنٹائن ڈے کی روایت عروج پر پہنچی تو مذہبی رجحان رکھنے والوں نے اسے یوم حیا کے طور پر منانا شروع کر دیا۔ اس روایت کو شروع کرنے کا سہرا اسلامی جمعیت طلبہ کے سر ہے، پاکستان میں پہلی مرتبہ ’’یوم حیا‘‘ منانے کا فیصلہ 9 فروری 2009ء کو پنجاب یونیورسٹی لاہور میں کیا گیا۔ ویلنٹائن کے مقابلے میں اس روز کو ’’یوم حیا‘‘ کا نام اسلامی جمعیت طلبہ جامعہ پنجاب کے ناظم قیصر شریف نے دیا، انہوں نے 9 فروری کو اعلان کیا کہ پنجاب یونیورسٹی میں 14 فروری 2009ء کو ویلنٹائن کی بجائے ’’یوم حیا‘‘ منایا جائے گا۔ اگلے سال جب قیصر شریف اسلامی جمعیت طلبہ پنجاب کے ناظم بنے تو انہوں نے ’’یوم حیا‘‘ کو 14 فروری 2010ء کے روز پورے صوبے میں جوش و خروش سے منانے کا فیصلہ کیا اور پھر 2011ء میں پورے پاکستان میں ٰ’’یوم حیا‘‘ منایا گیا۔ اسی طرح کہا جا سکتا ہے کہ ’’یوم حیا ‘‘ کے بانی قیصر شریف ہیں۔
اپنے آپ کو لبرل، سیکولر اور آزاد خیال سمجھنے والے لوگ آج ”یوم محبت“ منائیں گے تو مذہبی سوچ کے حامل افراد اسے ”یوم حیا“ کے طور منائیں گے۔
فیصلہ تو دل نے کرنا ہے کہ کس صف میں شامل ہونا ہے۔ بے حیائی کا پرچار کرنا ہے یا عقل و دانش سے کام لیتے ہوئے حیا و پاکدامنی کا پرچار کرنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
👈 مزید پوسٹس۔۔۔
🔷 ویلنٹائن ڈے اور مسلمان
https://t.me/islamwitheman/165
🔷 ویلنٹائن ڈے کی حقیقت
https://t.me/islamwitheman/4052
🔷 ویلنٹائن ڈے کی تباہ کاریاں
https://t.me/islamwitheman/4053
🔷 ویلنٹائن ڈے شغل یا فساد
https://t.me/islamwitheman/4054
🔷 یوم حیا بمقابلہ ویلنٹائن ڈے
https://t.me/islamwitheman/4055
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آج ویلنٹائن ڈے اور ”یوم حیا“ ایک ساتھ منائے جا رہے ہیں۔
ایک طبقہ سرخ پھولوں کا تبادلہ کرے گا تو وہیں پر ملک میں ایک بڑا طبقہ ’’یوم حیا" کے عنوان سے حجاب، شرم و حیا اور اسلامی اقدار کو پروان چڑھانے کے لئے مختلف تقریبات منعقد کرے گا۔
ویلنٹائن ڈے کیلئے نوجوان نسل کی تیاریاں عروج پر ہیں، محبت کے اظہار کے لیے تحائف، پھولوں، کیک اور کارڈز کی خریداری زوروں پر ہے جبکہ سوشل میڈیا پر بھی اسی دن کے چرچے ہیں۔ ذیل میں ہم ویلنٹائن ڈے کے آغاز اور پاکستان میں اس دن کے یومِ حیا کے طور پر منائے جانے کے حوالے سے روشنی ڈالیں گے۔
ویلینٹائن ڈے اصلاً رومیوں کا تہوار ہے جس کی ابتدا تقریباً 1700 سال قبل ہوئی تھی۔ اہلِ روم میں 14 فروری ’یونودیوی‘ کی وجہ سے مقدس مانا جاتا تھا جسے ’عورت اور شادی بیاہ کی دیوی ‘سمجھا جاتا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ویلنٹائن نامی‘ ایک پادری نےخفیہ طریقے سے شادیوں کا اہتمام کیا۔ جب شہنشاہ کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے ویلنٹائن کو قید کردیا، آج اسی نسبت سے ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے۔
ایک دوسری روایت کے مطابق ویلنٹائن ڈے کا آغاز ’’رومن سینٹ ویلنٹائن‘‘ کی مناسبت سے ہوا جسے ’’محبت کا دیوتا‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اسے مذہب تبدیل نہ کرنے کے جرم میں پہلے قید میں رکھا گیا، پھر سولی پر چڑھا دیا گیا، قید کے دوران ویلنٹائن کو جیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئی، سولی پر چڑھائے جانے سے پہلے اس نے جیلر کی بیٹی کے نام ایک الوداعی محبت نامہ چھوڑا جس پر دستخط سے پہلے لکھا تھا ’’تمہارا ویلنٹائن‘‘۔ اسی کی یاد میں لوگوں نے 14 فروری کو یومِ تجدید ِمحبت منانا شروع کر دیا۔
مغرب میں مدتوں سے 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے لیکن گزشتہ کچھ سالوں کے دوران پاکستان میں بھی اس دن کی اہمیت دو چند ہوگئی ہے۔ بالخصوص سوشل میڈیا کے باعث اس مغربی تہوار سے مشرق کا ہر نوجوان واقف ہو چکا ہے۔
پاکستان میں جب ویلنٹائن ڈے کی روایت عروج پر پہنچی تو مذہبی رجحان رکھنے والوں نے اسے یوم حیا کے طور پر منانا شروع کر دیا۔ اس روایت کو شروع کرنے کا سہرا اسلامی جمعیت طلبہ کے سر ہے، پاکستان میں پہلی مرتبہ ’’یوم حیا‘‘ منانے کا فیصلہ 9 فروری 2009ء کو پنجاب یونیورسٹی لاہور میں کیا گیا۔ ویلنٹائن کے مقابلے میں اس روز کو ’’یوم حیا‘‘ کا نام اسلامی جمعیت طلبہ جامعہ پنجاب کے ناظم قیصر شریف نے دیا، انہوں نے 9 فروری کو اعلان کیا کہ پنجاب یونیورسٹی میں 14 فروری 2009ء کو ویلنٹائن کی بجائے ’’یوم حیا‘‘ منایا جائے گا۔ اگلے سال جب قیصر شریف اسلامی جمعیت طلبہ پنجاب کے ناظم بنے تو انہوں نے ’’یوم حیا‘‘ کو 14 فروری 2010ء کے روز پورے صوبے میں جوش و خروش سے منانے کا فیصلہ کیا اور پھر 2011ء میں پورے پاکستان میں ٰ’’یوم حیا‘‘ منایا گیا۔ اسی طرح کہا جا سکتا ہے کہ ’’یوم حیا ‘‘ کے بانی قیصر شریف ہیں۔
اپنے آپ کو لبرل، سیکولر اور آزاد خیال سمجھنے والے لوگ آج ”یوم محبت“ منائیں گے تو مذہبی سوچ کے حامل افراد اسے ”یوم حیا“ کے طور منائیں گے۔
فیصلہ تو دل نے کرنا ہے کہ کس صف میں شامل ہونا ہے۔ بے حیائی کا پرچار کرنا ہے یا عقل و دانش سے کام لیتے ہوئے حیا و پاکدامنی کا پرچار کرنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
👈 مزید پوسٹس۔۔۔
🔷 ویلنٹائن ڈے اور مسلمان
https://t.me/islamwitheman/165
🔷 ویلنٹائن ڈے کی حقیقت
https://t.me/islamwitheman/4052
🔷 ویلنٹائن ڈے کی تباہ کاریاں
https://t.me/islamwitheman/4053
🔷 ویلنٹائن ڈے شغل یا فساد
https://t.me/islamwitheman/4054
🔷 یوم حیا بمقابلہ ویلنٹائن ڈے
https://t.me/islamwitheman/4055
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
🔷 ویلینٹائن ڈےاورمسلمان 🔷
14 فروری سے پہلے اس پوسٹ کو شئر کریں تاکہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والا ہر مسلمان آپ کے ذریعے اس گناہ سے بچ جائے.......
ویلینٹائن کیا ہے...؟؟؟
ایک یہودی ملعون جس کا نام "ویلینٹائن" تھا نے شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کے بیچ زنا کو…
14 فروری سے پہلے اس پوسٹ کو شئر کریں تاکہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والا ہر مسلمان آپ کے ذریعے اس گناہ سے بچ جائے.......
ویلینٹائن کیا ہے...؟؟؟
ایک یہودی ملعون جس کا نام "ویلینٹائن" تھا نے شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکی کے بیچ زنا کو…
👈 پوسٹس دیکھنے کے لئے مطلوبہ پوسٹ کے لنک پر کلک کریں۔۔۔
🌹 ولادت باسعادت حضرت علیؑ
t.me/islamwitheman/3009
🌹 فضائل مولود کعبہ حضرت علیؑ
t.me/islamwitheman/3010
🌹 بمناسبت یوم ولادت امام علیؑ
t.me/islamwitheman/3011
🌹 حضرت علیؑ کا مقام و مرتبہ
t.me/islamwitheman/3012
🌹 امت کا بہترین فرد
t.me/islamwitheman/3013
🌹 یعسوب الدین مولا علیؑ
t.me/islamwitheman/3014
🌹 حضرت علیؑ کی جسمانی قوت
https://t.me/islamwitheman/3015
🌹 حضرت علیؑ سے سات سوال
https://t.me/islamwitheman/3016
🔷 وصیت مولا علیؑ موت کے متعلق
https://t.me/islamwitheman/3017
🌹 حضرت امام علی علیہ السلام
https://t.me/islamwitheman/3027
🌹 شھادت حضرت علی علیہ السلام
http://t.me/islamwitheman/3500
🌹 صدیق اکبر
https://t.me/islamwitheman/4059
🌹 حدیث فضیلتِ محبتِ علیؑ
https://t.me/islamwitheman/4061
🌹 بغضِ علیؑ کا انجام
https://t.me/islamwitheman/4062
🌹 محبت و بغضِ آلِ محمدؐ
https://t.me/islamwitheman/4063
🌹 لفظ مولا پر زبردست تحقیق
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2301334780196043&id=100009586292189
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
🌹 ولادت باسعادت حضرت علیؑ
t.me/islamwitheman/3009
🌹 فضائل مولود کعبہ حضرت علیؑ
t.me/islamwitheman/3010
🌹 بمناسبت یوم ولادت امام علیؑ
t.me/islamwitheman/3011
🌹 حضرت علیؑ کا مقام و مرتبہ
t.me/islamwitheman/3012
🌹 امت کا بہترین فرد
t.me/islamwitheman/3013
🌹 یعسوب الدین مولا علیؑ
t.me/islamwitheman/3014
🌹 حضرت علیؑ کی جسمانی قوت
https://t.me/islamwitheman/3015
🌹 حضرت علیؑ سے سات سوال
https://t.me/islamwitheman/3016
🔷 وصیت مولا علیؑ موت کے متعلق
https://t.me/islamwitheman/3017
🌹 حضرت امام علی علیہ السلام
https://t.me/islamwitheman/3027
🌹 شھادت حضرت علی علیہ السلام
http://t.me/islamwitheman/3500
🌹 صدیق اکبر
https://t.me/islamwitheman/4059
🌹 حدیث فضیلتِ محبتِ علیؑ
https://t.me/islamwitheman/4061
🌹 بغضِ علیؑ کا انجام
https://t.me/islamwitheman/4062
🌹 محبت و بغضِ آلِ محمدؐ
https://t.me/islamwitheman/4063
🌹 لفظ مولا پر زبردست تحقیق
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2301334780196043&id=100009586292189
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
🌹 صدیق اکبر 🌹
احادیثِ نبویہ کی روشنی میں "صدیقِ اکبر" اور فاروقِ "اعظم" کون ہے۔۔۔؟؟ ملاحظہ فرمائیں۔۔۔!
■ حدیث نمبر 1
حضوراکرم رسولِ معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
"وهٰذا (علی ابن ابی طالب علیہماالسلام) هوالصّدّيق الأكبر و فاروقُ هذه الأمّة"
ترجمہ:
اور یہ علی ابن ابی طالب علیہما السلام اس امت کے "صدیق اکبر" اور 'فاروق' ہیں۔۔
حوالہ جات کتبِ اھلسنت:
1- مجمع الزوائد جلد 2 صفحہ 102 ۔
2- المعجم الكبير جلد 6 صفحہ 269 ۔
3- الاستيعاب جلد 4 حدیث 1744 ۔
4- كنزالعمّال جلد11 صفحہ 616 ۔
5- فيض القدير جلد 4 صفحہ 472 ۔
6- تاريخ مدينه دمشق جلد 42 صفحہ41 ۔
7- أسد الغابة جلد 5 صفحہ287 ۔
8- ميزان الإعتدال جلد 2 صفحہ 3 ۔
9- الإصابة جلد 7 صفحہ 294 ۔
10- لسان الميزان 2 صفحہ 414 ۔
11- السيرة الحلبية جلد 2 صفحہ 94 ۔
12- ينابيع المودة جلد 1 صفحہ 24 ۔
■ حدیث نمبر 2
حضور اکرم رسولِ معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مولائے عالمین امیرالمومنین امام علی ابن ابی طالب علیہما الصلوٰة والسلام سے ارشاد فرمایا:
"یاعلیؑ أنت الصّدّيق الأكبر و أنت الفاروق الّذي يفرّق بين الحقّ و الباطل... "
ترجمہ:
"یاعلی علیہ السلام آپ ہی "صدیق اکبر" ہیں،
اور لوگوں (مومن ومنافق) میں فرق کرنے والے 'فاروق' ہیں۔ یعنی وہ آپؑ ہی ہیں جو حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ..."
حوالہ جات کتبِ اھلسنت:
1- ذخائرالعقبي صفحہ 56 ۔
2- المواقف قاضي ايجي صفحہ 409 ۔
3- الرياض النضرة محب الدين طبري جلد 3 صفحہ 96 ۔
4- الاربعين المنتقي احمد بن اسماعيل طالقاني :
حدیث 28 باب 21 ۔
5- مسند شمس الاخبار قرشي جلد 1 صفحہ 94 ۔
6- فرائد السمطين شيخ الاسلام حموئي :
جلد 1 صفحہ 140 حدیث 102و 103 ۔
7- شرح نهج البلاغه ابن ابي الحديد ۔
جلد 13 صفحہ 228 خطبه 238 ۔
8- نزهة المجالس صفوري جلد 2 صفحہ 205 ۔
■ حدیث نمبر 3
فرمانِ مولائے عالمین امیرالمومنین امام علی ابن ابی طالب علیہما السلام:
"أنا عبد الله و اخو رسوله و انا "الصديق الاكبر" لا يقولها بعدي الا كذاب مفتر لقد صليت قبل الناس سبع السنين"
ترجمہ:
آپ علیہ السلام نے فرمایا:
"میں اللہ تعالیٰ کابندہ ہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھائی ہوں، اور میں ہی '"صدیق اکبر"' ہوں، میرے سوا جو بھی خود کو صدیق اکبر کہے وہ انتہائی کذاب (جھوٹا) ہے،
میں نے ہر ایک سے سات سال قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ہے۔"
حوالہ جات کتب اھلسنت:
1- المستدرك علي الصحيحين :
جلد 3 صفحہ121 حدیث 4584 ۔
2- السنن الكبري جلد 5 صفحہ 107 حدیث 8395 ۔
3- خصائص امير المومنين عليه السلام صفحہ 25 ، ح7 ۔
4- سنن ابن ماجه جلد 1 صفحہ 44 ح 120 ۔
5- المصنّف جلد 12 صفحہ 65 ح 12133 ۔
6- السنّة صفحہ 584 ح 1324 ۔
7- معرفة الصحابة جلد 1 صفحہ 301 ۔
8- تاريخ الامم و الملوك جلد 2 صفحہ 310 ۔
9- الكامل في التاريخ جلد 1 صفحہ 484 ۔
10- الرياض النضرة جلد 3 صفحہ 96 و 100 و 111 ۔
11- فرائد السمطين جلد 1 صفحہ 248 ح 192 ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
👈 مزید پوسٹس۔۔۔
🌹 ولادت باسعادت حضرت علیؑ
https://t.me/islamwitheman/3009
🌹 فضائل مولود کعبہ حضرت علیؑ
https://t.me/islamwitheman/3010
🌹 بمناسبت یوم ولادت امام علیؑ
https://t.me/islamwitheman/3011
🌹 حضرت علیؑ کا مقام و مرتبہ
https://t.me/islamwitheman/3012
🌹 امت کا بہترین فرد
https://t.me/islamwitheman/3013
🌹 یعسوب الدین مولا علیؑ
https://t.me/islamwitheman/3014
🌹 حضرت علیؑ کی جسمانی قوت
https://t.me/islamwitheman/3015
🌹 حضرت علیؑ سے سات سوال
https://t.me/islamwitheman/3016
🔷 وصیت مولا علیؑ موت کے متعلق
https://t.me/islamwitheman/3017
🌹 حضرت امام علی علیہ السلام
https://t.me/islamwitheman/3027
🌹 شھادت حضرت علی علیہ السلام
http://t.me/islamwitheman/3500
🌹 صدیق اکبر
https://t.me/islamwitheman/4059
🌹 لفظ مولا پر زبردست تحقیق
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2301334780196043&id=100009586292189
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
احادیثِ نبویہ کی روشنی میں "صدیقِ اکبر" اور فاروقِ "اعظم" کون ہے۔۔۔؟؟ ملاحظہ فرمائیں۔۔۔!
■ حدیث نمبر 1
حضوراکرم رسولِ معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
"وهٰذا (علی ابن ابی طالب علیہماالسلام) هوالصّدّيق الأكبر و فاروقُ هذه الأمّة"
ترجمہ:
اور یہ علی ابن ابی طالب علیہما السلام اس امت کے "صدیق اکبر" اور 'فاروق' ہیں۔۔
حوالہ جات کتبِ اھلسنت:
1- مجمع الزوائد جلد 2 صفحہ 102 ۔
2- المعجم الكبير جلد 6 صفحہ 269 ۔
3- الاستيعاب جلد 4 حدیث 1744 ۔
4- كنزالعمّال جلد11 صفحہ 616 ۔
5- فيض القدير جلد 4 صفحہ 472 ۔
6- تاريخ مدينه دمشق جلد 42 صفحہ41 ۔
7- أسد الغابة جلد 5 صفحہ287 ۔
8- ميزان الإعتدال جلد 2 صفحہ 3 ۔
9- الإصابة جلد 7 صفحہ 294 ۔
10- لسان الميزان 2 صفحہ 414 ۔
11- السيرة الحلبية جلد 2 صفحہ 94 ۔
12- ينابيع المودة جلد 1 صفحہ 24 ۔
■ حدیث نمبر 2
حضور اکرم رسولِ معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مولائے عالمین امیرالمومنین امام علی ابن ابی طالب علیہما الصلوٰة والسلام سے ارشاد فرمایا:
"یاعلیؑ أنت الصّدّيق الأكبر و أنت الفاروق الّذي يفرّق بين الحقّ و الباطل... "
ترجمہ:
"یاعلی علیہ السلام آپ ہی "صدیق اکبر" ہیں،
اور لوگوں (مومن ومنافق) میں فرق کرنے والے 'فاروق' ہیں۔ یعنی وہ آپؑ ہی ہیں جو حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ..."
حوالہ جات کتبِ اھلسنت:
1- ذخائرالعقبي صفحہ 56 ۔
2- المواقف قاضي ايجي صفحہ 409 ۔
3- الرياض النضرة محب الدين طبري جلد 3 صفحہ 96 ۔
4- الاربعين المنتقي احمد بن اسماعيل طالقاني :
حدیث 28 باب 21 ۔
5- مسند شمس الاخبار قرشي جلد 1 صفحہ 94 ۔
6- فرائد السمطين شيخ الاسلام حموئي :
جلد 1 صفحہ 140 حدیث 102و 103 ۔
7- شرح نهج البلاغه ابن ابي الحديد ۔
جلد 13 صفحہ 228 خطبه 238 ۔
8- نزهة المجالس صفوري جلد 2 صفحہ 205 ۔
■ حدیث نمبر 3
فرمانِ مولائے عالمین امیرالمومنین امام علی ابن ابی طالب علیہما السلام:
"أنا عبد الله و اخو رسوله و انا "الصديق الاكبر" لا يقولها بعدي الا كذاب مفتر لقد صليت قبل الناس سبع السنين"
ترجمہ:
آپ علیہ السلام نے فرمایا:
"میں اللہ تعالیٰ کابندہ ہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھائی ہوں، اور میں ہی '"صدیق اکبر"' ہوں، میرے سوا جو بھی خود کو صدیق اکبر کہے وہ انتہائی کذاب (جھوٹا) ہے،
میں نے ہر ایک سے سات سال قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ہے۔"
حوالہ جات کتب اھلسنت:
1- المستدرك علي الصحيحين :
جلد 3 صفحہ121 حدیث 4584 ۔
2- السنن الكبري جلد 5 صفحہ 107 حدیث 8395 ۔
3- خصائص امير المومنين عليه السلام صفحہ 25 ، ح7 ۔
4- سنن ابن ماجه جلد 1 صفحہ 44 ح 120 ۔
5- المصنّف جلد 12 صفحہ 65 ح 12133 ۔
6- السنّة صفحہ 584 ح 1324 ۔
7- معرفة الصحابة جلد 1 صفحہ 301 ۔
8- تاريخ الامم و الملوك جلد 2 صفحہ 310 ۔
9- الكامل في التاريخ جلد 1 صفحہ 484 ۔
10- الرياض النضرة جلد 3 صفحہ 96 و 100 و 111 ۔
11- فرائد السمطين جلد 1 صفحہ 248 ح 192 ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
👈 مزید پوسٹس۔۔۔
🌹 ولادت باسعادت حضرت علیؑ
https://t.me/islamwitheman/3009
🌹 فضائل مولود کعبہ حضرت علیؑ
https://t.me/islamwitheman/3010
🌹 بمناسبت یوم ولادت امام علیؑ
https://t.me/islamwitheman/3011
🌹 حضرت علیؑ کا مقام و مرتبہ
https://t.me/islamwitheman/3012
🌹 امت کا بہترین فرد
https://t.me/islamwitheman/3013
🌹 یعسوب الدین مولا علیؑ
https://t.me/islamwitheman/3014
🌹 حضرت علیؑ کی جسمانی قوت
https://t.me/islamwitheman/3015
🌹 حضرت علیؑ سے سات سوال
https://t.me/islamwitheman/3016
🔷 وصیت مولا علیؑ موت کے متعلق
https://t.me/islamwitheman/3017
🌹 حضرت امام علی علیہ السلام
https://t.me/islamwitheman/3027
🌹 شھادت حضرت علی علیہ السلام
http://t.me/islamwitheman/3500
🌹 صدیق اکبر
https://t.me/islamwitheman/4059
🌹 لفظ مولا پر زبردست تحقیق
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2301334780196043&id=100009586292189
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
🌹 ولادت باسعادت حضرت علیؑ 🌹
13 رجب المرجب ولادت باسعادت مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کے موقع پر تمام عالم اسلام اور بالخصوص امام زمانہ عج کی خدمت میں ہدیہ تبریک و تہنیت پیش کرتے ہیں.
■ ﺍﻣﯿﺮﺍﻟﻤﺆﻣﻨﯿﻦ ﺍﻣﺎﻡ ﻋﻠﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺑﺮﻭﺯ ﺟﻤﻌﮧ 13 ﺭﺟﺐ ﺍﻟﻤﺮﺟﺐ ﺳﻨﮧ…
13 رجب المرجب ولادت باسعادت مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کے موقع پر تمام عالم اسلام اور بالخصوص امام زمانہ عج کی خدمت میں ہدیہ تبریک و تہنیت پیش کرتے ہیں.
■ ﺍﻣﯿﺮﺍﻟﻤﺆﻣﻨﯿﻦ ﺍﻣﺎﻡ ﻋﻠﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺑﺮﻭﺯ ﺟﻤﻌﮧ 13 ﺭﺟﺐ ﺍﻟﻤﺮﺟﺐ ﺳﻨﮧ…
🌹 حدیث فضیلتِ محبتِ علیؑ 🌹
یہ حدیث شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے فضائل الشیعہ میں ذکر کی ہے اور یہ کتاب فضائل الشیعہ کی پہلی حدیث ہے۔ اصل عبارت درج ذیل ہے۔۔۔
1 ۔ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحُسَيْنِ الْمُؤَدِّبُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ عَلِيٍّ الْأَصْفَهَانِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْلَمَ الطُّوسِيِّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ سَأَلْنَا النَّبِيَّ ص عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع فَغَضِبَ ص ثُمَّ قَالَ مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَذْكُرُونَ مَنْ مَنْزِلَتُهُ مِنَ اللَّهِ كَمَنْزِلَتِي أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً أَحَبَّنِي وَ مَنْ أَحَبَّنِي فَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ مَنْ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَافَأَهُ الْجَنَّةَ أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً لَا يَخْرُجُ مِنَ الدُّنْيَا حَتَّى يَشْرَبَ مِنَ الْكَوْثَرِ وَ يَأْكُلَ مِنْ طُوبَى وَ يَرَى مَكَانَهُ فِي الْجَنَّةِ أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً قُبِلَ صَلَاتُهُ وَ صِيَامُهُ وَ قِيَامُهُ وَ اسْتَجَابَ لَهُ دُعَاهُ أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً اسْتَغْفَرَتْ لَهُ الْمَلَائِكَةُ وَ فُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ الثَّمَانِيَةُ يَدْخُلُهَا مِنْ أَيِّ بَابٍ شَاءَ بِغَيْرِ حِسَابٍ أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً أَعْطَاهُ اللَّهُ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ وَ حَاسَبَهُ حِسَابَ الْأَنْبِيَاءِ أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً هَوَّنَ اللَّهُ عَلَيْهِ سَكَرَاتِ الْمَوْتِ وَ جَعَلَ قَبْرَهُ رَوْضَةً مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً أَعْطَاهُ اللَّهُ بِكُلِّ عِرْقٍ فِي بَدَنِهِ حَوْرَاءَ وَ شُفِّعَ فِي ثَمَانِينَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ وَ لَهُ بِكُلِّ شَعْرَةٍ فِي بَدَنِهِ حَوْرَاءُ وَ مَدِينَةٌ فِي الْجَنَّةِ أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً بَعَثَ اللَّهُ إِلَيْهِ مَلَكَ الْمَوْتِ كَمَا يَبْعَثُ إِلَى الْأَنْبِيَاءِ وَ دَفَعَ اللَّهُ عَنْهُ هَوْلَ مُنْكَرٍ وَ نَكِيرٍ وَ بَيَّضَ وَجْهَهُ وَ كَانَ مَعَ حَمْزَةَ سَيِّدِ الشُّهَدَاءِ أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً [لَا يَخْرُجُ مِنَ الدُّنْيَا حَتَّى يَشْرَبَ مِنَ الْكَوْثَرِ وَ يَأْكُلَ مِنْ طُوبَى] أَثْبَتَ اللَّهُ فِي قَلْبِهِ الْحِكْمَةَ وَ أَجْرَى عَلَى لِسَانِهِ الصَّوَابَ وَ فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ أَبْوَابَ الرَّحْمَةِ أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً سُمِّيَ فِي السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ أَسِيرَ اللَّهِ أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً نَادَاهُ مَلَكٌ مِنْ تَحْتِ الْعَرْشِ يَا عَبْدَ اللَّهِ اسْتَأْنِفِ الْعَمَلَ فَقَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ الذُّنُوبَ كُلَّهَا أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ وَجْهُهُ كَالْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً وُضِعَ عَلَى رَأْسِهِ تَاجُ الْمُلْكِ وَ أُلْبِسَ حُلَّةَ الْكَرَامَةِ أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً جَازَ عَلَى الصِّرَاطِ كَالْبَرْقِ الْخَاطِفِ أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً كُتِبَ لَهُ بَرَاءَةٌ مِنَ النَّارِ وَ جَوَازٌ عَلَى الصِّرَاطِ وَ أَمَانٌ مِنَ الْعَذَابِ وَ لَمْ يُنْشَرْ لَهُ دِيوَانٌ وَ لَمْ يُنْصَبْ لَهُ مِيزَانٌ وَ قِيلَ لَهُ ادْخُلِ الْجَنَّةَ بِلَا حِسَابٍ أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً صَافَحَتْهُ الْمَلَائِكَةُ وَ زَارَتْهُ الْأَنْبِيَاءُ وَ قَضَى اللَّهُ لَهُ كُلَّ حَاجَةٍ أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ آلَ مُحَمَّدٍ أَمِنَ مِنَ الْحِسَابِ وَ الْمِيزَانِ وَ الصِّرَاطِ أَلَا وَ مَنْ مَاتَ عَلَى حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ فَأَنَا كَفِيلُهُ بِالْجَنَّةِ مَعَ الْأَنْبِيَاءِ أَلَا وَ مَنْ مَاتَ عَلَى بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ لَمْ يَشَمَّ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ قَالَ أَبُو رَجَاءٍ كَانَ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ يَفْتَخِرُ بِهَذَا وَ يَقُولُ هُوَ الْأَمَلُ [الْأَصْلُ]
✍ بشکریہ تحریر ناصر عباس جعفری قم المقدس
📚 فضائل الشیعہ، شیخ صدوق رحمت اللہ علیہ، حدیث نمبر1۔
https://t.me/islamwitheman
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
یہ حدیث شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے فضائل الشیعہ میں ذکر کی ہے اور یہ کتاب فضائل الشیعہ کی پہلی حدیث ہے۔ اصل عبارت درج ذیل ہے۔۔۔
1 ۔ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحُسَيْنِ الْمُؤَدِّبُ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ عَلِيٍّ الْأَصْفَهَانِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْلَمَ الطُّوسِيِّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ سَأَلْنَا النَّبِيَّ ص عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع فَغَضِبَ ص ثُمَّ قَالَ مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَذْكُرُونَ مَنْ مَنْزِلَتُهُ مِنَ اللَّهِ كَمَنْزِلَتِي أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً أَحَبَّنِي وَ مَنْ أَحَبَّنِي فَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَ مَنْ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَافَأَهُ الْجَنَّةَ أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً لَا يَخْرُجُ مِنَ الدُّنْيَا حَتَّى يَشْرَبَ مِنَ الْكَوْثَرِ وَ يَأْكُلَ مِنْ طُوبَى وَ يَرَى مَكَانَهُ فِي الْجَنَّةِ أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً قُبِلَ صَلَاتُهُ وَ صِيَامُهُ وَ قِيَامُهُ وَ اسْتَجَابَ لَهُ دُعَاهُ أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً اسْتَغْفَرَتْ لَهُ الْمَلَائِكَةُ وَ فُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ الثَّمَانِيَةُ يَدْخُلُهَا مِنْ أَيِّ بَابٍ شَاءَ بِغَيْرِ حِسَابٍ أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً أَعْطَاهُ اللَّهُ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ وَ حَاسَبَهُ حِسَابَ الْأَنْبِيَاءِ أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً هَوَّنَ اللَّهُ عَلَيْهِ سَكَرَاتِ الْمَوْتِ وَ جَعَلَ قَبْرَهُ رَوْضَةً مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً أَعْطَاهُ اللَّهُ بِكُلِّ عِرْقٍ فِي بَدَنِهِ حَوْرَاءَ وَ شُفِّعَ فِي ثَمَانِينَ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ وَ لَهُ بِكُلِّ شَعْرَةٍ فِي بَدَنِهِ حَوْرَاءُ وَ مَدِينَةٌ فِي الْجَنَّةِ أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً بَعَثَ اللَّهُ إِلَيْهِ مَلَكَ الْمَوْتِ كَمَا يَبْعَثُ إِلَى الْأَنْبِيَاءِ وَ دَفَعَ اللَّهُ عَنْهُ هَوْلَ مُنْكَرٍ وَ نَكِيرٍ وَ بَيَّضَ وَجْهَهُ وَ كَانَ مَعَ حَمْزَةَ سَيِّدِ الشُّهَدَاءِ أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً [لَا يَخْرُجُ مِنَ الدُّنْيَا حَتَّى يَشْرَبَ مِنَ الْكَوْثَرِ وَ يَأْكُلَ مِنْ طُوبَى] أَثْبَتَ اللَّهُ فِي قَلْبِهِ الْحِكْمَةَ وَ أَجْرَى عَلَى لِسَانِهِ الصَّوَابَ وَ فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ أَبْوَابَ الرَّحْمَةِ أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً سُمِّيَ فِي السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ أَسِيرَ اللَّهِ أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً نَادَاهُ مَلَكٌ مِنْ تَحْتِ الْعَرْشِ يَا عَبْدَ اللَّهِ اسْتَأْنِفِ الْعَمَلَ فَقَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ الذُّنُوبَ كُلَّهَا أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ وَجْهُهُ كَالْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً وُضِعَ عَلَى رَأْسِهِ تَاجُ الْمُلْكِ وَ أُلْبِسَ حُلَّةَ الْكَرَامَةِ أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً جَازَ عَلَى الصِّرَاطِ كَالْبَرْقِ الْخَاطِفِ أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً كُتِبَ لَهُ بَرَاءَةٌ مِنَ النَّارِ وَ جَوَازٌ عَلَى الصِّرَاطِ وَ أَمَانٌ مِنَ الْعَذَابِ وَ لَمْ يُنْشَرْ لَهُ دِيوَانٌ وَ لَمْ يُنْصَبْ لَهُ مِيزَانٌ وَ قِيلَ لَهُ ادْخُلِ الْجَنَّةَ بِلَا حِسَابٍ أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً صَافَحَتْهُ الْمَلَائِكَةُ وَ زَارَتْهُ الْأَنْبِيَاءُ وَ قَضَى اللَّهُ لَهُ كُلَّ حَاجَةٍ أَلَا وَ مَنْ أَحَبَّ آلَ مُحَمَّدٍ أَمِنَ مِنَ الْحِسَابِ وَ الْمِيزَانِ وَ الصِّرَاطِ أَلَا وَ مَنْ مَاتَ عَلَى حُبِّ آلِ مُحَمَّدٍ فَأَنَا كَفِيلُهُ بِالْجَنَّةِ مَعَ الْأَنْبِيَاءِ أَلَا وَ مَنْ مَاتَ عَلَى بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ لَمْ يَشَمَّ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ قَالَ أَبُو رَجَاءٍ كَانَ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ يَفْتَخِرُ بِهَذَا وَ يَقُولُ هُوَ الْأَمَلُ [الْأَصْلُ]
✍ بشکریہ تحریر ناصر عباس جعفری قم المقدس
📚 فضائل الشیعہ، شیخ صدوق رحمت اللہ علیہ، حدیث نمبر1۔
https://t.me/islamwitheman
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
اصلاحی کہانیاں اور سبق آموز احادیث و واقعات...
ایڈمن سے رابطہ کیلئے:
@syedsajjadhamdani
ایڈمن سے رابطہ کیلئے:
@syedsajjadhamdani