🌹 اللہ کا فضل 🌹
عرب میں ایک عورت تھی، جس کا نام اُم جعفر ہوا کرتا تھا اور جو انتہائی سخی تھی۔
وہ عورت لوگوں میں ایسے تقسیم کرتی تھی کہ بائیں کو دائیں ہاتھ کا پتا نہ چلے۔ کچھ دنوں سے وہ ایک راستے سے گزرنے لگی تھی جس راستے پر دو اندھے بیٹھے ہوتے۔ یہ دونوں صدائیں لگاتے۔
ایک کی صدا ہوتی: "الٰہی مجھے اپنے فضل و کرم سے روزی عطا کر۔"
جبکہ دوسرا اندھا کہتا: "یارب مجھے ام جعفر کا بچا ہوا عطا کر۔"
عزیز قارئین کرام! ام جعفر ان دونوں کی صدائیں سنتی اور دونوں کو خیرات کرتی۔ جو شخص الله کا فضل طلب کر رہا تھا، اسے دو درہم دیتی، جبکہ ام جعفر کے فضل کے طلبگار کو ایک بھنی ہوئی مرغی عطا کرتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جسے مرغی ملتی، وہ اپنی مرغی دوسرے اندھے کو دو درہم میں بیچ دیتا۔
کئی دنوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ایک دن ام جعفر اس اندھے کے پاس آئی جو ام جعفر کا فضل طلب کرتا تھا اور اس سے سوال کرتا تھا اور اس سے سوال کیا:
"کیا تمہیں سو دینار ملے ہیں۔؟"
اندھا حیران ہو گیا اور کہا: "نہیں! مجھے صرف ایک بھنی ہوئی مرغی ملتی تھی جو میں دو درہم میں بیچ دیتا تھا۔"
ام جعفر نے کہا:
"جو الله کا فضل طلب کر رہا تھا، میں اسے دو درہم دیتی اور تمہیں بھنی ہوئی مرغی میں دس دینار ڈال کر دیتی رہی۔"
اندھے نے اپنا سر پیٹنا شروع کر دیا۔ وہ چیخنے اور چلانے لگا:
"ہائے میری کمبختی، کاش میں ایسا نہ کرتا۔ میں مارا گیا۔۔۔"
ام جعفر نے کہا:
"یقینا اللہ کا فضل طلب کرنے والا کامیاب ہے اور انسانوں کے فضل کا طلبگار محروم ہے۔
🌹 پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لئے شیئر ضرور کریں۔
http://t.me/islamwitheman/2431
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
عرب میں ایک عورت تھی، جس کا نام اُم جعفر ہوا کرتا تھا اور جو انتہائی سخی تھی۔
وہ عورت لوگوں میں ایسے تقسیم کرتی تھی کہ بائیں کو دائیں ہاتھ کا پتا نہ چلے۔ کچھ دنوں سے وہ ایک راستے سے گزرنے لگی تھی جس راستے پر دو اندھے بیٹھے ہوتے۔ یہ دونوں صدائیں لگاتے۔
ایک کی صدا ہوتی: "الٰہی مجھے اپنے فضل و کرم سے روزی عطا کر۔"
جبکہ دوسرا اندھا کہتا: "یارب مجھے ام جعفر کا بچا ہوا عطا کر۔"
عزیز قارئین کرام! ام جعفر ان دونوں کی صدائیں سنتی اور دونوں کو خیرات کرتی۔ جو شخص الله کا فضل طلب کر رہا تھا، اسے دو درہم دیتی، جبکہ ام جعفر کے فضل کے طلبگار کو ایک بھنی ہوئی مرغی عطا کرتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جسے مرغی ملتی، وہ اپنی مرغی دوسرے اندھے کو دو درہم میں بیچ دیتا۔
کئی دنوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ایک دن ام جعفر اس اندھے کے پاس آئی جو ام جعفر کا فضل طلب کرتا تھا اور اس سے سوال کرتا تھا اور اس سے سوال کیا:
"کیا تمہیں سو دینار ملے ہیں۔؟"
اندھا حیران ہو گیا اور کہا: "نہیں! مجھے صرف ایک بھنی ہوئی مرغی ملتی تھی جو میں دو درہم میں بیچ دیتا تھا۔"
ام جعفر نے کہا:
"جو الله کا فضل طلب کر رہا تھا، میں اسے دو درہم دیتی اور تمہیں بھنی ہوئی مرغی میں دس دینار ڈال کر دیتی رہی۔"
اندھے نے اپنا سر پیٹنا شروع کر دیا۔ وہ چیخنے اور چلانے لگا:
"ہائے میری کمبختی، کاش میں ایسا نہ کرتا۔ میں مارا گیا۔۔۔"
ام جعفر نے کہا:
"یقینا اللہ کا فضل طلب کرنے والا کامیاب ہے اور انسانوں کے فضل کا طلبگار محروم ہے۔
🌹 پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لئے شیئر ضرور کریں۔
http://t.me/islamwitheman/2431
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
🌷 مہمان کا رزق 🌷
ایک گاؤں میں ایک صاحب کی اپنی بیوی کے ساتھ کچھ اَن بن ہو گئی۔ ابھی جھگڑا ختم نہیں ہوا تھا کہ اسی اثناء میں ان کا مہمان آ گیا۔
خاوند نے اس مہمان کو بیٹھک میں بٹھا دیا اور بیوی سے کہا کہ فلاں رشتہ دار مہمان آیا ہے اس کے لیے کھانا بناؤ۔
…
ایک گاؤں میں ایک صاحب کی اپنی بیوی کے ساتھ کچھ اَن بن ہو گئی۔ ابھی جھگڑا ختم نہیں ہوا تھا کہ اسی اثناء میں ان کا مہمان آ گیا۔
خاوند نے اس مہمان کو بیٹھک میں بٹھا دیا اور بیوی سے کہا کہ فلاں رشتہ دار مہمان آیا ہے اس کے لیے کھانا بناؤ۔
…
🌸 بھنگی اور ملکہ 🌸
بادشاہ کے محل میں صفائی کرتے جب ایک بھنگی کی نظر ملکہ پہ پڑی تو وہ پہلی نظر میں اس پہ فدا ہو گیا۔ لیکن اپنی حیثیت اور ملکہ کی حیثیت میں فرق دیکھا تو سر جھکائے وہاں سے چلا گیا۔ پر دل تھا جو ایک ملاقات کی حسرت میں تڑپتا رہا۔ عشق کی بیماری نے جسمانی بیماری کا روپ دھار لیا اور وہ بستر پہ پڑ گیا۔
بھنگی کی بیوی بھی اس ساری حالت سے واقف تھی۔ بھنگی کی خراب حالت کی بنا پر اسکی بیوی اسکی جگہ کام پہ لگ گئی۔
کئی دن تک جب بھنگی ملکہ کو وہاں نظر نہ آیا تو اس نے اسکی بیوی سے دریافت کیا۔ بھنگی کی بیوی یہ سوچ کر گھبرا گئی کہ ملکہ کو اصل بات بتا دی تو نہ جانے کیا حال ہو ہمارا۔ لیکن ملکہ نے اسکی گھبراہٹ جانچ کر اسے اعتماد میں لیا اور حقیقت پوچھی۔ بھنگی کی بیوی نے وہ ساری صورتحال ملکہ کے گوش گزار کر دی۔ تب ملکہ نے اسے کہا کہ اس سے ملاقات کا یہی ایک رستہ ہے، تم اپنے شوہر سے جا کے کہہ دو کل وہ شہر سے باہر کسی رستے پہ بیٹھ جائے اور بس اللہ اللہ کرتا رہے، نہ تو کسی سے بات کرے اور نہ ہی کسی کا دیا کوئی تحفہ قبول کرے۔ ایسا کرنے سے جب اسکے چرچے بادشاہ تک پہنچیں گے تو ملاقات کے رستے بھی کھل جائیں گے۔
ملکہ کا پیغام سنتے ہی بھنگی کی جان میں جان آئی اور وہ گداؤں کا بھیس بدل کر ایک رستے پہ جا کے بیٹھ گیا اور اللہ اللہ کا ورد شروع کردیا۔ آنے جانے والے اس متاثر ہوتے اور نذرانے ساتھ لاتے۔ لیکن وہ نہ سر اٹھا کے کسی کو دیکھتا نہ ہی کسی چیز کو ہاتھ لگاتا۔
کرتے کرتے خبر بادشاہ تک پہنچی اور اس نے وزیر کو بھیجا کہ دریافت کرو کہ کون ہے وہ اور اسکی سچائی کس حد تک ہے۔
وزیر نے واپس جا کر بادشاہ سے اسکی بہت تعریف کی، بادشاہ فیض پانے کی غرض سے خود چل کر اسکے پاس گیا۔
جب ہر طرف اسکے چرچے ہونے لگے تو ملکہ نے بادشاہ سے اس نیک انسان کی زیارت کی خواہش ظاہر کی۔ بادشاہ نے اجازت دی۔ اسی اثناؑ میں جب بھنگی کو اس بات کا احساس ہوا کہ اب تک وہ دل سے نہیں صرف ایک دنیاوی مقصد کے تحت ہی اللہ پاک کے نام کی تسبیح کر رہا تھا۔ وہ جھوٹا ہے لیکن پھر بھی اللہ کی رحمت اس پر اس قدر ہے کہ لوگ اسکے سامنے جھک رہے ہیں۔ کیا بادشاہ اور کیا عام آدمی، سب ہی اسے عزت دے رہے ہیں۔ یہ کرامات تو صرف زبان سے وہ پاک نام لینے کی ہیں۔ اگر سچے دل سے اس نام کی تسبیح کی جائے تو اور کتنی رحمتوں کا نزول اس پہ ہوگا۔
جب ملکہ اسکے پاس پہنچی تو اس نے سر اٹھا کے اسکی طرف نہ دیکھا اور وہ مطمئن ہوئی کہ کوئی آج اس کی وجہ سے اللہ کے قریب ہو گیا۔ وہ روتی ہوئی واپس اپنے محل چلی گئی۔
🔘 بے شک اس پاک ذات کا ذکر اپنے آپ میں ایک رحمت ہے۔...
🌹 پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لئے شیئر ضرور کریں۔
https://t.me/islamwitheman/2325
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
بادشاہ کے محل میں صفائی کرتے جب ایک بھنگی کی نظر ملکہ پہ پڑی تو وہ پہلی نظر میں اس پہ فدا ہو گیا۔ لیکن اپنی حیثیت اور ملکہ کی حیثیت میں فرق دیکھا تو سر جھکائے وہاں سے چلا گیا۔ پر دل تھا جو ایک ملاقات کی حسرت میں تڑپتا رہا۔ عشق کی بیماری نے جسمانی بیماری کا روپ دھار لیا اور وہ بستر پہ پڑ گیا۔
بھنگی کی بیوی بھی اس ساری حالت سے واقف تھی۔ بھنگی کی خراب حالت کی بنا پر اسکی بیوی اسکی جگہ کام پہ لگ گئی۔
کئی دن تک جب بھنگی ملکہ کو وہاں نظر نہ آیا تو اس نے اسکی بیوی سے دریافت کیا۔ بھنگی کی بیوی یہ سوچ کر گھبرا گئی کہ ملکہ کو اصل بات بتا دی تو نہ جانے کیا حال ہو ہمارا۔ لیکن ملکہ نے اسکی گھبراہٹ جانچ کر اسے اعتماد میں لیا اور حقیقت پوچھی۔ بھنگی کی بیوی نے وہ ساری صورتحال ملکہ کے گوش گزار کر دی۔ تب ملکہ نے اسے کہا کہ اس سے ملاقات کا یہی ایک رستہ ہے، تم اپنے شوہر سے جا کے کہہ دو کل وہ شہر سے باہر کسی رستے پہ بیٹھ جائے اور بس اللہ اللہ کرتا رہے، نہ تو کسی سے بات کرے اور نہ ہی کسی کا دیا کوئی تحفہ قبول کرے۔ ایسا کرنے سے جب اسکے چرچے بادشاہ تک پہنچیں گے تو ملاقات کے رستے بھی کھل جائیں گے۔
ملکہ کا پیغام سنتے ہی بھنگی کی جان میں جان آئی اور وہ گداؤں کا بھیس بدل کر ایک رستے پہ جا کے بیٹھ گیا اور اللہ اللہ کا ورد شروع کردیا۔ آنے جانے والے اس متاثر ہوتے اور نذرانے ساتھ لاتے۔ لیکن وہ نہ سر اٹھا کے کسی کو دیکھتا نہ ہی کسی چیز کو ہاتھ لگاتا۔
کرتے کرتے خبر بادشاہ تک پہنچی اور اس نے وزیر کو بھیجا کہ دریافت کرو کہ کون ہے وہ اور اسکی سچائی کس حد تک ہے۔
وزیر نے واپس جا کر بادشاہ سے اسکی بہت تعریف کی، بادشاہ فیض پانے کی غرض سے خود چل کر اسکے پاس گیا۔
جب ہر طرف اسکے چرچے ہونے لگے تو ملکہ نے بادشاہ سے اس نیک انسان کی زیارت کی خواہش ظاہر کی۔ بادشاہ نے اجازت دی۔ اسی اثناؑ میں جب بھنگی کو اس بات کا احساس ہوا کہ اب تک وہ دل سے نہیں صرف ایک دنیاوی مقصد کے تحت ہی اللہ پاک کے نام کی تسبیح کر رہا تھا۔ وہ جھوٹا ہے لیکن پھر بھی اللہ کی رحمت اس پر اس قدر ہے کہ لوگ اسکے سامنے جھک رہے ہیں۔ کیا بادشاہ اور کیا عام آدمی، سب ہی اسے عزت دے رہے ہیں۔ یہ کرامات تو صرف زبان سے وہ پاک نام لینے کی ہیں۔ اگر سچے دل سے اس نام کی تسبیح کی جائے تو اور کتنی رحمتوں کا نزول اس پہ ہوگا۔
جب ملکہ اسکے پاس پہنچی تو اس نے سر اٹھا کے اسکی طرف نہ دیکھا اور وہ مطمئن ہوئی کہ کوئی آج اس کی وجہ سے اللہ کے قریب ہو گیا۔ وہ روتی ہوئی واپس اپنے محل چلی گئی۔
🔘 بے شک اس پاک ذات کا ذکر اپنے آپ میں ایک رحمت ہے۔...
🌹 پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لئے شیئر ضرور کریں۔
https://t.me/islamwitheman/2325
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
🌺 خالص خدا کے لیے 🌺
ایک شخص نے اپنی مسجد کے پیش امام سے کہا: مولانا میں کل سے مسجد نہیں آؤں گا؟
پیش امام صاحب نے پوچھا: کیا میں سبب جان سکتا ہوں؟
اس نے جواب دیا: ہاں کیوں نہیں! در اصل وجہ یہ ہے کہ جب بھی میں مسجد آتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ کوئی فون پہ بات…
ایک شخص نے اپنی مسجد کے پیش امام سے کہا: مولانا میں کل سے مسجد نہیں آؤں گا؟
پیش امام صاحب نے پوچھا: کیا میں سبب جان سکتا ہوں؟
اس نے جواب دیا: ہاں کیوں نہیں! در اصل وجہ یہ ہے کہ جب بھی میں مسجد آتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ کوئی فون پہ بات…
🔷 مہمان کے لیے ڈنڈا 🔷
کہتے ہیں کہ کسی دُور اُفتادہ دیہات میں ایک معزز مہمان آیا۔ بڑی آؤ بھگت ہوئی۔ گاؤں کا گاؤں اُس کے سامنے بچھا جارہا تھا۔ کھانے کا وقت آیا تو انواع و اقسام کی نعمتیں اُس کے سامنے دسترخوان پر لا کر چُن دی گئیں۔ ساتھ ہی ایک بڑی سی سینی میں ایک لمبا سا اور موٹا سا ڈنڈا بھی لا کر رکھ دیا گیا۔ مہمان نعمتیں دیکھ کر تو خوش ہوا مگر ڈنڈا دیکھ کر ڈر گیا۔ سہمے ہوئے لہجے میں پوچھا: ’’آپ لوگ یہ ڈنڈا کس لیے لائے ہیں؟‘‘
میزبانوں نے کہا: ’’بس یہ ہماری روایت ہے۔ بزرگوں کے زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ مہمان آتا ہے تو اُس کے آگے کھانے کے ساتھ ساتھ ڈنڈا بھی رکھ دیتے ہیں۔‘‘
مہمان کی تسلی نہ ہوئی۔ اُسے خوف ہوا کہ کہیں یہ تمام ضیافت کے بعد ڈنڈے سے ضیافت نہ کی جاتی ہو۔ اُس نے پھر تفتیش کی:
’’پھر بھی، اس کا کچھ تو مقصد ہو گا۔ کچھ تو استعمال ہوگا۔ آخر صرف مہمان کے آگے ہی ڈنڈا کیوں رکھا جاتا ہے۔؟‘‘
میزبانوں میں سے ایک نے کہا: ’’اے معزز مہمان! ہمیں نہ مقصد معلوم ہے، نہ استعمال۔ بس یہ بزرگوں سے چلی آنے والی ایک رسم ہے۔ آپ بے خطر کھانا کھائیے۔‘‘
مہمان نے دل میں سوچا: ’’بےخطر کیسے کھاؤں؟ خطرہ تو سامنے ہی رکھا ہوا ہے۔‘‘
پھر اس نے اعلان کردیا: ’’جب تک آپ لوگ یہ نہیں بتائیں گے کہ آپ کے یہاں بزرگوں کے زمانے سے مہمان کے دسترخوان پر ڈنڈا کیوں رکھا جاتا ہے، کیڑے کو پتھر میں رزق پہنچانے والے کی قسم! میں آپ کا ایک لقمہ بھی نہیں کھاؤں گا۔‘‘
اب تو پورے گاؤں میں کھلبلی مچ گئی کہ مہمان نے کھانے سے انکار کردیا ہے۔ گاؤں کے ایک بزرگ بلائے گئے۔ انہوں نے سارا ماجرا سنا اور دسترخوان پر رکھا ہوا ڈنڈا دیکھا تو برس پڑے:
’’ارے کم بختو! تم نے اتنا بڑا ڈنڈا لاکر رکھ دیا؟ اِسے کم کرو۔ ہمارے بزرگ مہمان کے سامنے اتنا بڑا ڈنڈا نہیں رکھتے تھے۔‘‘
ڈنڈا فی الفور آری سے کاٹ کر دو تین فٹ کم کردیا گیا۔ مگر مہمان پھر بھی مطمئن نہیں ہوا۔ اسے اپنے سوال کا جواب درکار تھا۔
اب ایک نسبتاً زیادہ بزرگ بلائے گئے۔ انہوں نے بھی سارا ماجرا سنا۔ انہوں نے بھی ڈنڈا ناپ کر دیکھا۔ اور انہوں نے بھی اعتراض کیا:
’’ڈنڈا اب بھی بڑا ہے۔ ہمارے بزرگ تو مہمانوں کے آگے ایک چھوٹی سی پتلی سی ڈنڈی رکھا کرتے تھے۔‘‘
مذکورہ بزرگ کے کہنے پر باقی ماندہ ڈنڈا کاٹ کر اور چھیل کر ایک چھوٹی سی ڈنڈی بنا دیا گیا۔
گو کہ اب ڈنڈے کا سائز اور جسامت خطرے سے باہر ہوگئی تھی، مگر مہمان کا تجسس برقرار رہا۔ اب تک آنے والے بزرگوں نے صرف سائز اور خطرات ہی کم کیے تھے۔ اس کا استعمال اور اس کا مقصد کوئی نہ بتا سکا تھا۔
مہمان اب بھی کھانا زہر مار کرنے پر تیار نہ ہوا۔ اب ڈھونڈ ڈھانڈ کر گاؤں کا ایک ایسا بزرگ ڈھونڈ کر ڈولی کرکے لایا گیا جس کے سر کے بال ہی نہیں بھنویں تک سفید ہوچکی تھیں۔ محتاط سے محتاط اندازے کے مطابق بھی بزرگ کی عمر ۹۹ سال سے کم نہ ہوگی۔ سجھائی بھی کم دیتا تھا۔ جب انھیں ڈنڈے کی شکل و صورت اور اس کا سائز تفصیل سے بتایا گیا تو وہ بھڑک کر اپنی لاٹھی ڈھونڈنے لگے۔ چیخ کر بولے: ’’ارے عقل کے اندھو! ہمارے بزرگ مہمان کے سامنے ایک چھوٹی سی پیالی میں ایک ننھا منا سا تنکا رکھا کرتے تھے، تاکہ اگر مہمان کے دانتوں کی ریخوں میں گوشت کا کوئی ریزہ پھنس جائے تو وہ خلال کرکے اسے نکال باہر کرے۔‘‘
🔘 سبق: زندگی کے کسی بھی شعبے میں کوئی نئی بات، کوئی بدعت، شروع تو خلال کے تنکے ہی سے ہوتی ہے، مگر پھر اس کے پیروکار اسے بڑھا کر لمبا سا اور موٹا سا ڈنڈا بنا دیتے ہیں اور اس پر بھی مطمئن نہیں ہوتے۔
✍ احمد حاطب صدیقی صاحب کی تحریر۔
https://t.me/islamwitheman/1940
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
کہتے ہیں کہ کسی دُور اُفتادہ دیہات میں ایک معزز مہمان آیا۔ بڑی آؤ بھگت ہوئی۔ گاؤں کا گاؤں اُس کے سامنے بچھا جارہا تھا۔ کھانے کا وقت آیا تو انواع و اقسام کی نعمتیں اُس کے سامنے دسترخوان پر لا کر چُن دی گئیں۔ ساتھ ہی ایک بڑی سی سینی میں ایک لمبا سا اور موٹا سا ڈنڈا بھی لا کر رکھ دیا گیا۔ مہمان نعمتیں دیکھ کر تو خوش ہوا مگر ڈنڈا دیکھ کر ڈر گیا۔ سہمے ہوئے لہجے میں پوچھا: ’’آپ لوگ یہ ڈنڈا کس لیے لائے ہیں؟‘‘
میزبانوں نے کہا: ’’بس یہ ہماری روایت ہے۔ بزرگوں کے زمانے سے چلی آ رہی ہے۔ مہمان آتا ہے تو اُس کے آگے کھانے کے ساتھ ساتھ ڈنڈا بھی رکھ دیتے ہیں۔‘‘
مہمان کی تسلی نہ ہوئی۔ اُسے خوف ہوا کہ کہیں یہ تمام ضیافت کے بعد ڈنڈے سے ضیافت نہ کی جاتی ہو۔ اُس نے پھر تفتیش کی:
’’پھر بھی، اس کا کچھ تو مقصد ہو گا۔ کچھ تو استعمال ہوگا۔ آخر صرف مہمان کے آگے ہی ڈنڈا کیوں رکھا جاتا ہے۔؟‘‘
میزبانوں میں سے ایک نے کہا: ’’اے معزز مہمان! ہمیں نہ مقصد معلوم ہے، نہ استعمال۔ بس یہ بزرگوں سے چلی آنے والی ایک رسم ہے۔ آپ بے خطر کھانا کھائیے۔‘‘
مہمان نے دل میں سوچا: ’’بےخطر کیسے کھاؤں؟ خطرہ تو سامنے ہی رکھا ہوا ہے۔‘‘
پھر اس نے اعلان کردیا: ’’جب تک آپ لوگ یہ نہیں بتائیں گے کہ آپ کے یہاں بزرگوں کے زمانے سے مہمان کے دسترخوان پر ڈنڈا کیوں رکھا جاتا ہے، کیڑے کو پتھر میں رزق پہنچانے والے کی قسم! میں آپ کا ایک لقمہ بھی نہیں کھاؤں گا۔‘‘
اب تو پورے گاؤں میں کھلبلی مچ گئی کہ مہمان نے کھانے سے انکار کردیا ہے۔ گاؤں کے ایک بزرگ بلائے گئے۔ انہوں نے سارا ماجرا سنا اور دسترخوان پر رکھا ہوا ڈنڈا دیکھا تو برس پڑے:
’’ارے کم بختو! تم نے اتنا بڑا ڈنڈا لاکر رکھ دیا؟ اِسے کم کرو۔ ہمارے بزرگ مہمان کے سامنے اتنا بڑا ڈنڈا نہیں رکھتے تھے۔‘‘
ڈنڈا فی الفور آری سے کاٹ کر دو تین فٹ کم کردیا گیا۔ مگر مہمان پھر بھی مطمئن نہیں ہوا۔ اسے اپنے سوال کا جواب درکار تھا۔
اب ایک نسبتاً زیادہ بزرگ بلائے گئے۔ انہوں نے بھی سارا ماجرا سنا۔ انہوں نے بھی ڈنڈا ناپ کر دیکھا۔ اور انہوں نے بھی اعتراض کیا:
’’ڈنڈا اب بھی بڑا ہے۔ ہمارے بزرگ تو مہمانوں کے آگے ایک چھوٹی سی پتلی سی ڈنڈی رکھا کرتے تھے۔‘‘
مذکورہ بزرگ کے کہنے پر باقی ماندہ ڈنڈا کاٹ کر اور چھیل کر ایک چھوٹی سی ڈنڈی بنا دیا گیا۔
گو کہ اب ڈنڈے کا سائز اور جسامت خطرے سے باہر ہوگئی تھی، مگر مہمان کا تجسس برقرار رہا۔ اب تک آنے والے بزرگوں نے صرف سائز اور خطرات ہی کم کیے تھے۔ اس کا استعمال اور اس کا مقصد کوئی نہ بتا سکا تھا۔
مہمان اب بھی کھانا زہر مار کرنے پر تیار نہ ہوا۔ اب ڈھونڈ ڈھانڈ کر گاؤں کا ایک ایسا بزرگ ڈھونڈ کر ڈولی کرکے لایا گیا جس کے سر کے بال ہی نہیں بھنویں تک سفید ہوچکی تھیں۔ محتاط سے محتاط اندازے کے مطابق بھی بزرگ کی عمر ۹۹ سال سے کم نہ ہوگی۔ سجھائی بھی کم دیتا تھا۔ جب انھیں ڈنڈے کی شکل و صورت اور اس کا سائز تفصیل سے بتایا گیا تو وہ بھڑک کر اپنی لاٹھی ڈھونڈنے لگے۔ چیخ کر بولے: ’’ارے عقل کے اندھو! ہمارے بزرگ مہمان کے سامنے ایک چھوٹی سی پیالی میں ایک ننھا منا سا تنکا رکھا کرتے تھے، تاکہ اگر مہمان کے دانتوں کی ریخوں میں گوشت کا کوئی ریزہ پھنس جائے تو وہ خلال کرکے اسے نکال باہر کرے۔‘‘
🔘 سبق: زندگی کے کسی بھی شعبے میں کوئی نئی بات، کوئی بدعت، شروع تو خلال کے تنکے ہی سے ہوتی ہے، مگر پھر اس کے پیروکار اسے بڑھا کر لمبا سا اور موٹا سا ڈنڈا بنا دیتے ہیں اور اس پر بھی مطمئن نہیں ہوتے۔
✍ احمد حاطب صدیقی صاحب کی تحریر۔
https://t.me/islamwitheman/1940
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
🌹 عقیدت و محبت 🌹
کسی گاؤں میں ایک بڑھیا رہتی تھی، شدید سردی کا موسم تھا. ایک رات شدید طوفانی بارش اور اس پر شدید سردی اور رات کی تاریکی۔ بڑهیا نے باہر کسی پرندے کی کراہتی آواز سنی۔ لالٹین کی روشنی میں باہر دیکها تو ایک بڑا سا پرندہ قریب المرگ بے سدھ پڑا…
کسی گاؤں میں ایک بڑھیا رہتی تھی، شدید سردی کا موسم تھا. ایک رات شدید طوفانی بارش اور اس پر شدید سردی اور رات کی تاریکی۔ بڑهیا نے باہر کسی پرندے کی کراہتی آواز سنی۔ لالٹین کی روشنی میں باہر دیکها تو ایک بڑا سا پرندہ قریب المرگ بے سدھ پڑا…
🔷 منفی سوچ 🔷
’’زندگی بدلنا چاہتے ہو تو سب سے پہلے سوچ کو بدلنا ہوگا!‘‘
لاطینی کہاوت ہے کہ سوچ انسانی زندگی کے اہم ترین عوامل میں سے ہے۔ آپ ویسے ہی ہیں جیسی آپ کی سوچ ہے۔ لہٰذا، سوچ کے طریقہ کار کو سمجھنا اور اسے قابو میں رکھنے کا فن سیکھنا بہت ضروری ہے۔ کامیابی کے ماہرین آج سوچ کی اہمیت سے واقف ہیں، اس لیے اس وقت خود نموئی (پرسنل ڈیویلپمنٹ) کے موضوع پر جتنا کام ہورہا ہے، اس میں سب سے زیادہ تحقیق سوچ پر کی جارہی ہے۔
منفی سوچ کیوں پیدا ہوتی ہے
سوچ دو طرح کی ہوتی ہے۔ مثبت سوچ اور منفی سوچ۔ ہم یہاں منفی سوچ کی بات کریں گے۔ سوچ منفی اس لیے ہوتی ہے کہ آدمی کو سوچنا نہیں آتا۔ اگر سوچنا آجائے تو مثبت اور منفی سوچ کا انتخاب مل جاتا ہے۔ عام طور پر، ہمارے پاس ایک ہی انتخاب (آپشن) ہوتا ہے، اوروہ منفی سوچ ہے۔ اس وجہ سے ہم ہمیشہ منفی سوچتے رہتے ہیں۔
منفی سوچ کی ایک بہت بڑی وجہ ابتدائی زندگی کے واقعات و سانحات بھی ہیں۔ بعض حادثات ایسے ہوتے ہیں جن کے نتائج منفی ہوتے ہیں اور وہ فرد کی شخصیت پر گہرے منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یہ اثرات آگے چل کر منفی سوچ کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہیں سے انسان شعوری یا لاشعوری طور پر منفی سوچنا شروع کردیتا ہے۔ پھر پندرہ بیس سال منفی سوچتے ہوئے منفی سوچ کا ماہر بن جاتا ہے۔ اکثریت کے ساتھ ایسا ہے۔ چنانچہ منفی سوچنا آسان تر ہوجاتا ہے، جبکہ مثبت سوچ اختیار کرنا مشکل تر ہوتا ہے۔
اپنی زندگی کے پہلے بارہ پندرہ سال جس ماحول میں آدمی پرورش پاتا ہے، یعنی اس کا گھر بار بھی آدمی کے سوچ کا خاص انداز (Thought Pattern) تشکیل کرتا ہے۔ یہ اندازِ خیال آدمی کی عمر کے ساتھ ساتھ پختہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک گھر کے تمام افراد کی سوچ میں عموماً مماثلت پائی جاتی ہے۔
فطرتاً سوچ مثبت ہوتی ہے اور نہ منفی
پیدائشی طور پر سوچ نہ مثبت ہوتی ہے اور نہ منفی۔ جیسا کہ حدیث شریف میں بیان فرمایا گیا، ہر انسان فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کا ماحول (والدین، اساتذہ، رشتے دار وغیرہ) اس کی فطری سوچ کو گہنا دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا انسان پر خاص کرم ہے کہ اس نے انسان کی جبلت میں سیکھنا رکھا ہے۔ ہم کسی چیز کو پہلی بار سوچتے ہیں تو وہ کچھ اور طرح کی لگتی ہے، پھر سوچتے ہیں تو کسی اور طرح کی ہوتی ہے۔ جب ایک شے کو بار بار سو چا جاتاہے تو اس کی ایک واضح صورت بن جاتی ہے۔ پھر اس کے متعلق سوچنا آسان ہوجاتا ہے اور پہلے سے بہتر بھی۔
پہلی سوچ کسی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ کوئی واقعہ ہوسکتا ہے، کوئی حادثہ ہوسکتا ہے۔ اس واقعے یا حادثے کے متعلق جو بھی سوچ بنتی ہے، آدمی اسی طرح سوچنا شروع کردیتا ہے۔ یہی سوچ کا انداز ہے۔ بعض اوقات کوئی بولتا ہے تو ہم اس کی آواز سن کر ویسا ہی سوچنا شروع کردیتے ہیں۔ البتہ بار بار کا سوچنا سوچ کے عمل کو آسان کردیتا ہے، تاہم شرط یہ ہے کہ یہ سوچنا۔۔۔ شعوری ہو۔
منفی سوچ کا تازیانہ
عام طور پر ہمیں پتا ہی نہیں لگتا کہ کسی موضوع پر ہم غیر محسوس طور پر منفی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ٹی وی پر کسی شخصیت کے بارے میں کوئی غلط رائے پیش کی گئی۔ اب وہ رائے خواہ کتنی ہی غلط ہو، ہم اسے حقیقت تسلیم کرتے ہیں اور پھر ہر محفل، ہر موقع پر جب بھی اس شخصیت کے بارے میں کوئی ذکر چھیڑا گیا، ہم اسی غلط رائے کی بنیاد پر بحث شروع کردیتے ہیں۔ ہم Judgmental ہوجاتے ہیں۔
ہمارے اندر منفی سوچ کے راستے بنے ہوئے ہیں اور ہم انھیں کبھی روکنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ہم اپنی منفی سوچ کو مثبت بنانے کی خواہش کرتے ہیں اور نہ کوشش،اور پھر یہی سوچ ہماری زندگی کے تمام معاملات پر اثر انداز ہونا شروع ہوجاتی ہے۔
📚 اونچی اڑان۔ مصنف؛ قاسم علی شاہ۔
http://t.me/islamwitheman/2448
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
’’زندگی بدلنا چاہتے ہو تو سب سے پہلے سوچ کو بدلنا ہوگا!‘‘
لاطینی کہاوت ہے کہ سوچ انسانی زندگی کے اہم ترین عوامل میں سے ہے۔ آپ ویسے ہی ہیں جیسی آپ کی سوچ ہے۔ لہٰذا، سوچ کے طریقہ کار کو سمجھنا اور اسے قابو میں رکھنے کا فن سیکھنا بہت ضروری ہے۔ کامیابی کے ماہرین آج سوچ کی اہمیت سے واقف ہیں، اس لیے اس وقت خود نموئی (پرسنل ڈیویلپمنٹ) کے موضوع پر جتنا کام ہورہا ہے، اس میں سب سے زیادہ تحقیق سوچ پر کی جارہی ہے۔
منفی سوچ کیوں پیدا ہوتی ہے
سوچ دو طرح کی ہوتی ہے۔ مثبت سوچ اور منفی سوچ۔ ہم یہاں منفی سوچ کی بات کریں گے۔ سوچ منفی اس لیے ہوتی ہے کہ آدمی کو سوچنا نہیں آتا۔ اگر سوچنا آجائے تو مثبت اور منفی سوچ کا انتخاب مل جاتا ہے۔ عام طور پر، ہمارے پاس ایک ہی انتخاب (آپشن) ہوتا ہے، اوروہ منفی سوچ ہے۔ اس وجہ سے ہم ہمیشہ منفی سوچتے رہتے ہیں۔
منفی سوچ کی ایک بہت بڑی وجہ ابتدائی زندگی کے واقعات و سانحات بھی ہیں۔ بعض حادثات ایسے ہوتے ہیں جن کے نتائج منفی ہوتے ہیں اور وہ فرد کی شخصیت پر گہرے منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یہ اثرات آگے چل کر منفی سوچ کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہیں سے انسان شعوری یا لاشعوری طور پر منفی سوچنا شروع کردیتا ہے۔ پھر پندرہ بیس سال منفی سوچتے ہوئے منفی سوچ کا ماہر بن جاتا ہے۔ اکثریت کے ساتھ ایسا ہے۔ چنانچہ منفی سوچنا آسان تر ہوجاتا ہے، جبکہ مثبت سوچ اختیار کرنا مشکل تر ہوتا ہے۔
اپنی زندگی کے پہلے بارہ پندرہ سال جس ماحول میں آدمی پرورش پاتا ہے، یعنی اس کا گھر بار بھی آدمی کے سوچ کا خاص انداز (Thought Pattern) تشکیل کرتا ہے۔ یہ اندازِ خیال آدمی کی عمر کے ساتھ ساتھ پختہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک گھر کے تمام افراد کی سوچ میں عموماً مماثلت پائی جاتی ہے۔
فطرتاً سوچ مثبت ہوتی ہے اور نہ منفی
پیدائشی طور پر سوچ نہ مثبت ہوتی ہے اور نہ منفی۔ جیسا کہ حدیث شریف میں بیان فرمایا گیا، ہر انسان فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کا ماحول (والدین، اساتذہ، رشتے دار وغیرہ) اس کی فطری سوچ کو گہنا دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا انسان پر خاص کرم ہے کہ اس نے انسان کی جبلت میں سیکھنا رکھا ہے۔ ہم کسی چیز کو پہلی بار سوچتے ہیں تو وہ کچھ اور طرح کی لگتی ہے، پھر سوچتے ہیں تو کسی اور طرح کی ہوتی ہے۔ جب ایک شے کو بار بار سو چا جاتاہے تو اس کی ایک واضح صورت بن جاتی ہے۔ پھر اس کے متعلق سوچنا آسان ہوجاتا ہے اور پہلے سے بہتر بھی۔
پہلی سوچ کسی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ کوئی واقعہ ہوسکتا ہے، کوئی حادثہ ہوسکتا ہے۔ اس واقعے یا حادثے کے متعلق جو بھی سوچ بنتی ہے، آدمی اسی طرح سوچنا شروع کردیتا ہے۔ یہی سوچ کا انداز ہے۔ بعض اوقات کوئی بولتا ہے تو ہم اس کی آواز سن کر ویسا ہی سوچنا شروع کردیتے ہیں۔ البتہ بار بار کا سوچنا سوچ کے عمل کو آسان کردیتا ہے، تاہم شرط یہ ہے کہ یہ سوچنا۔۔۔ شعوری ہو۔
منفی سوچ کا تازیانہ
عام طور پر ہمیں پتا ہی نہیں لگتا کہ کسی موضوع پر ہم غیر محسوس طور پر منفی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ٹی وی پر کسی شخصیت کے بارے میں کوئی غلط رائے پیش کی گئی۔ اب وہ رائے خواہ کتنی ہی غلط ہو، ہم اسے حقیقت تسلیم کرتے ہیں اور پھر ہر محفل، ہر موقع پر جب بھی اس شخصیت کے بارے میں کوئی ذکر چھیڑا گیا، ہم اسی غلط رائے کی بنیاد پر بحث شروع کردیتے ہیں۔ ہم Judgmental ہوجاتے ہیں۔
ہمارے اندر منفی سوچ کے راستے بنے ہوئے ہیں اور ہم انھیں کبھی روکنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ہم اپنی منفی سوچ کو مثبت بنانے کی خواہش کرتے ہیں اور نہ کوشش،اور پھر یہی سوچ ہماری زندگی کے تمام معاملات پر اثر انداز ہونا شروع ہوجاتی ہے۔
📚 اونچی اڑان۔ مصنف؛ قاسم علی شاہ۔
http://t.me/islamwitheman/2448
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
🔷 سات ٹوکریاں 🔷
ہماری زندگی کے سات حصے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ زندگی کی سات ٹوکریاں ہیں اور اپنے وقت کو ان ساتوں ٹوکریوں میں رکھنا ضروری ہے۔ کسی ایک ٹوکری کو بھی نظر انداز کردیا گیا تو زندگی متوازن نہیں ہے۔ جب زندگی متوازن نہیں ہو گی تو پریشانیاں جنم لیں گی۔…
ہماری زندگی کے سات حصے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ زندگی کی سات ٹوکریاں ہیں اور اپنے وقت کو ان ساتوں ٹوکریوں میں رکھنا ضروری ہے۔ کسی ایک ٹوکری کو بھی نظر انداز کردیا گیا تو زندگی متوازن نہیں ہے۔ جب زندگی متوازن نہیں ہو گی تو پریشانیاں جنم لیں گی۔…
🤔 گھاٹے کا سودا 🤔
میں نے کسی جگہ امریکہ کے ایک ریٹائر سرکاری افسر کے بارے میں ایک واقعہ پڑھا ۔۔۔۔۔
اس افسر کو وائٹ ہاؤس سے فون آیا کہ فلاں دن صدر آپ سے ملنا چاہتے ہیں‘ اس افسر نے فوراً معذرت کر لی۔
فون کرنے والے نے وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا۔۔۔۔۔ ’’میں اس دن اپنی پوتی کے ساتھ چڑیا گھر جا رہا ہوں‘‘
یہ جواب سن کر فون کرنے والے نے ترش لہجے میں کہا۔۔
’’آپ چڑیا گھر کو صدر پر فوقیت دے رہے ہیں۔‘‘
ریٹائر افسر نے نرمی سے جواب دیا۔۔۔۔۔
’’نہیں میں اپنی پوتی کی خوشی کو صدر پر فوقیت دے رہا ہوں۔۔۔
‘‘ فون کرنے والے نے وضاحت چاہی تو ریٹائر افسر نے کہا۔۔۔۔۔۔
’’مجھے یقین ہے میں جوں ہی وائٹ ہاؤس سے باہر نکلوں گا تو صدر میرا نام اور میری شکل تک بھول جائے گا۔۔۔۔
جبکہ میری پوتی اس سیر کو پوری زندگی یاد رکھے گی۔
۔۔۔۔۔میں گھاٹے کا سودا کیوں کروں۔۔۔۔۔
میں یہ وقت اس پوتی کو کیوں نہ دوں جو اس دن‘ اس وقت میری شکل اور میرے نام کو پوری زندگی یاد رکھے گی‘ جو مجھ سے محبت کرتی ہے‘ جو اس دن کیلئے گھڑیاں گن رہی ہے۔۔۔۔۔۔
‘‘ میں نے جب یہ واقعہ پڑھا تو میں نے کرسی کے ساتھ ٹیک لگائی اور آنکھیں بند کرکے دیر تک سوچتا رہا ٗ ہم میں سے 99 فیصد لوگ زندگی بھر گھاٹے کا سودا کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔
ہم لوگ ہمیشہ ان لوگوں کو اپنی زندگی کے قیمتی ترین لمحات دے دیتے ہیں جن کی نظر میں ہماری کوئی اوقات ٗ ہماری کوئی اہمیت نہیں ہوتی‘ جن کیلئے ہم ہوں یا نہ ہوں کوئی فرق نہیں پڑتا ‘جو ہماری غیر موجودگی میں ہمارے جیسے کسی دوسرے شخص سے کام چلا لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے سوچا ہم اپنے سنگدل باس کو ہمیشہ اپنی اس بیوی پر فوقیت دیتے ہیں جو ہمارے لئے دروازہ کھولنے ٗہمیں گرم کھانا کھلانے کے لئے دو ٗ دو بجے تک جاگتی رہتی ہے۔۔۔۔۔۔
ہم اپنے بے وفا پیشے کو اپنے ان بچوں پر فوقیت دیتے ہیں جو مہینہ مہینہ ہمارے لمس ٗ ہماری شفقت اور ہماری آواز کو ترستے ہیں ٗ جو ہمیں صرف البموں اور تصویروں میں دیکھتے ہیں ٗ جو ہمیں یاد کرتے کرتے بڑے ہوجاتے ہیں اور جو ہمارا انتظار کر تے کرتے جوان ہو جاتے ہیں لیکن انہیں ہمارا قرب نصیب نہیں ہوتا‘ ہم انہیں ان کا جائز وقت نہیں دیتے۔۔۔۔۔
میں نے سوچا!!!
ہم سب گھاٹے کے سوداگر ہیں۔
http://t.me/islamwitheman/2453
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
میں نے کسی جگہ امریکہ کے ایک ریٹائر سرکاری افسر کے بارے میں ایک واقعہ پڑھا ۔۔۔۔۔
اس افسر کو وائٹ ہاؤس سے فون آیا کہ فلاں دن صدر آپ سے ملنا چاہتے ہیں‘ اس افسر نے فوراً معذرت کر لی۔
فون کرنے والے نے وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا۔۔۔۔۔ ’’میں اس دن اپنی پوتی کے ساتھ چڑیا گھر جا رہا ہوں‘‘
یہ جواب سن کر فون کرنے والے نے ترش لہجے میں کہا۔۔
’’آپ چڑیا گھر کو صدر پر فوقیت دے رہے ہیں۔‘‘
ریٹائر افسر نے نرمی سے جواب دیا۔۔۔۔۔
’’نہیں میں اپنی پوتی کی خوشی کو صدر پر فوقیت دے رہا ہوں۔۔۔
‘‘ فون کرنے والے نے وضاحت چاہی تو ریٹائر افسر نے کہا۔۔۔۔۔۔
’’مجھے یقین ہے میں جوں ہی وائٹ ہاؤس سے باہر نکلوں گا تو صدر میرا نام اور میری شکل تک بھول جائے گا۔۔۔۔
جبکہ میری پوتی اس سیر کو پوری زندگی یاد رکھے گی۔
۔۔۔۔۔میں گھاٹے کا سودا کیوں کروں۔۔۔۔۔
میں یہ وقت اس پوتی کو کیوں نہ دوں جو اس دن‘ اس وقت میری شکل اور میرے نام کو پوری زندگی یاد رکھے گی‘ جو مجھ سے محبت کرتی ہے‘ جو اس دن کیلئے گھڑیاں گن رہی ہے۔۔۔۔۔۔
‘‘ میں نے جب یہ واقعہ پڑھا تو میں نے کرسی کے ساتھ ٹیک لگائی اور آنکھیں بند کرکے دیر تک سوچتا رہا ٗ ہم میں سے 99 فیصد لوگ زندگی بھر گھاٹے کا سودا کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔
ہم لوگ ہمیشہ ان لوگوں کو اپنی زندگی کے قیمتی ترین لمحات دے دیتے ہیں جن کی نظر میں ہماری کوئی اوقات ٗ ہماری کوئی اہمیت نہیں ہوتی‘ جن کیلئے ہم ہوں یا نہ ہوں کوئی فرق نہیں پڑتا ‘جو ہماری غیر موجودگی میں ہمارے جیسے کسی دوسرے شخص سے کام چلا لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے سوچا ہم اپنے سنگدل باس کو ہمیشہ اپنی اس بیوی پر فوقیت دیتے ہیں جو ہمارے لئے دروازہ کھولنے ٗہمیں گرم کھانا کھلانے کے لئے دو ٗ دو بجے تک جاگتی رہتی ہے۔۔۔۔۔۔
ہم اپنے بے وفا پیشے کو اپنے ان بچوں پر فوقیت دیتے ہیں جو مہینہ مہینہ ہمارے لمس ٗ ہماری شفقت اور ہماری آواز کو ترستے ہیں ٗ جو ہمیں صرف البموں اور تصویروں میں دیکھتے ہیں ٗ جو ہمیں یاد کرتے کرتے بڑے ہوجاتے ہیں اور جو ہمارا انتظار کر تے کرتے جوان ہو جاتے ہیں لیکن انہیں ہمارا قرب نصیب نہیں ہوتا‘ ہم انہیں ان کا جائز وقت نہیں دیتے۔۔۔۔۔
میں نے سوچا!!!
ہم سب گھاٹے کے سوداگر ہیں۔
http://t.me/islamwitheman/2453
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
🌷 عقل کی مانو 🌷
ڈاکو کے بیٹے نے ضد کرنا شروع کر دی کہ اسے بھی ڈاکہ ڈالنے کے لئے ساتھ جانا ہے، مگر باپ یہی کہتا رہا کہ تو ابھی اس قابل نہیں ہوا۔ بالآخر بیٹے کی ضد کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے اور اس شرط پر ساتھ لے جانے کے لئے رضامند ہو گیا کہ پہلے ٹریننگ مکمل…
ڈاکو کے بیٹے نے ضد کرنا شروع کر دی کہ اسے بھی ڈاکہ ڈالنے کے لئے ساتھ جانا ہے، مگر باپ یہی کہتا رہا کہ تو ابھی اس قابل نہیں ہوا۔ بالآخر بیٹے کی ضد کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے اور اس شرط پر ساتھ لے جانے کے لئے رضامند ہو گیا کہ پہلے ٹریننگ مکمل…
🌸 جنت میں صاحب اولاد ہونا 🌸
آيا جنت میں بھی صاحب اولاد ہو سکتے ہیں؟
معصومين علیہم السلام سے جو روایات وارد ہوئی ہیں ان کا ماحصل یہ ہے کہ جنت میں جو بھی شادی انجام پائیگی اس کے نتیجہ میں کوئی اولاد نہیں ہوگی۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ محمد بن عبدالله حمیری نے تین سو آٹھ ہجری میں خط کے ذریعہ حضرت امام زمانہ عج کے تیسرے نائب خاص حسين بن روح... کے توسط سے حضرت عج سے پوچها:
جب انسان جنت میں حورالعین (يا اپنی دنیا والی خوبصورت زوجہ ، اگر جنت میں بھی دونوں ساتھ ساتھ ہوں) شادی کرے تو کیا وہ لوگ صاحب اولاد ہونگے یا نہیں۔؟
حضرت نے جواب میں فرمایا:
جنت میں کوئی عورت حاملہ نہیں ہوگی اور دنیا والی زوجہ یا حورالعین سے ہمبستري کے باعث کوئی بچہ پیدا نہیں ہوگا جنت میں حیض و نفاس نہیں ہے اور بچہ داری والی مشکلات کا وجود نہیں ہے- جیسا کہ خداوندعالم نے قران كريم میں فرمایا ہے: اور اس جنت میں جو دل چاہے اور آنکھیں چاہیں کہ اس سے لذت اٹھائیں وہ موجود ہے۔
🍁 پس جنت میں مؤمن کا جب بھی دل چاہے گا کہ اس کا بچہ ہو ، تو خداوند عالم بغیر حمل کے اس کے لئے بچہ خلق کرے گا لیکن جس طرح ذہن میں ہے اس طرح کی ولادت نہیں ، بلكہ بچہ خلق کرنا حضرت آدم علیہ السلام کی طرح ہے، کہ مخلوقات کی عبرت کے لئے، بغیر کسی حمل اور کسی ولادت کے خلق ہوئے-
📚 آرامش ابدی بهشت و نعمت های آن, عليرضا زکی زاده رنانی
الّلهُــمَّ عَجِّــلْ لِوَلِیِّکَــــ الْفَــرَج
❌تبدیلی ممنوع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
👈 مزید پوسٹس۔۔۔
🔵 آٹھ سوال اور انکے جواب
https://t.me/islamwitheman/399
🌹 بہشت کے درجات
https://t.me/islamwitheman/1988
🌹 جنت کے دروازے اور داخلہ
https://t.me/islamwitheman/1990
🌸 جنت مشکلات میں گھری پے
https://t.me/islamwitheman/1994
🌹 جنت میں اسباب داخلہ
https://t.me/islamwitheman/1995
🌷 بہشت و دوزخ میں قیام
https://t.me/islamwitheman/1996
🌸 جنت میں صاحب اولاد ہونا
https://t.me/islamwitheman/2469
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
آيا جنت میں بھی صاحب اولاد ہو سکتے ہیں؟
معصومين علیہم السلام سے جو روایات وارد ہوئی ہیں ان کا ماحصل یہ ہے کہ جنت میں جو بھی شادی انجام پائیگی اس کے نتیجہ میں کوئی اولاد نہیں ہوگی۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ محمد بن عبدالله حمیری نے تین سو آٹھ ہجری میں خط کے ذریعہ حضرت امام زمانہ عج کے تیسرے نائب خاص حسين بن روح... کے توسط سے حضرت عج سے پوچها:
جب انسان جنت میں حورالعین (يا اپنی دنیا والی خوبصورت زوجہ ، اگر جنت میں بھی دونوں ساتھ ساتھ ہوں) شادی کرے تو کیا وہ لوگ صاحب اولاد ہونگے یا نہیں۔؟
حضرت نے جواب میں فرمایا:
جنت میں کوئی عورت حاملہ نہیں ہوگی اور دنیا والی زوجہ یا حورالعین سے ہمبستري کے باعث کوئی بچہ پیدا نہیں ہوگا جنت میں حیض و نفاس نہیں ہے اور بچہ داری والی مشکلات کا وجود نہیں ہے- جیسا کہ خداوندعالم نے قران كريم میں فرمایا ہے: اور اس جنت میں جو دل چاہے اور آنکھیں چاہیں کہ اس سے لذت اٹھائیں وہ موجود ہے۔
🍁 پس جنت میں مؤمن کا جب بھی دل چاہے گا کہ اس کا بچہ ہو ، تو خداوند عالم بغیر حمل کے اس کے لئے بچہ خلق کرے گا لیکن جس طرح ذہن میں ہے اس طرح کی ولادت نہیں ، بلكہ بچہ خلق کرنا حضرت آدم علیہ السلام کی طرح ہے، کہ مخلوقات کی عبرت کے لئے، بغیر کسی حمل اور کسی ولادت کے خلق ہوئے-
📚 آرامش ابدی بهشت و نعمت های آن, عليرضا زکی زاده رنانی
الّلهُــمَّ عَجِّــلْ لِوَلِیِّکَــــ الْفَــرَج
❌تبدیلی ممنوع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
👈 مزید پوسٹس۔۔۔
🔵 آٹھ سوال اور انکے جواب
https://t.me/islamwitheman/399
🌹 بہشت کے درجات
https://t.me/islamwitheman/1988
🌹 جنت کے دروازے اور داخلہ
https://t.me/islamwitheman/1990
🌸 جنت مشکلات میں گھری پے
https://t.me/islamwitheman/1994
🌹 جنت میں اسباب داخلہ
https://t.me/islamwitheman/1995
🌷 بہشت و دوزخ میں قیام
https://t.me/islamwitheman/1996
🌸 جنت میں صاحب اولاد ہونا
https://t.me/islamwitheman/2469
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
🔷 آٹھ سوال اور انکے جواب 🔷
سوال1: جنّت کہاں ہے؟
جواب: جنت ساتوں آسمانوں کے اوپر ساتوں آسمانوں سے جدا ہے، کیونکہ ساتوں آسمان قیامت کے وقت فنا اور ختم ہونے والے ہیں، جبکہ جنت کو فنا نہیں ہے، وہ ہمیشہ رہے گی، جنت کی چهت عرش رحمٰن ہے.
سوال2: جہنم کہاں ہے؟…
سوال1: جنّت کہاں ہے؟
جواب: جنت ساتوں آسمانوں کے اوپر ساتوں آسمانوں سے جدا ہے، کیونکہ ساتوں آسمان قیامت کے وقت فنا اور ختم ہونے والے ہیں، جبکہ جنت کو فنا نہیں ہے، وہ ہمیشہ رہے گی، جنت کی چهت عرش رحمٰن ہے.
سوال2: جہنم کہاں ہے؟…
🌷 خاموش خدمت 🌷
ایک دن میں اپنے امی ابو کے ساتھ کراچی کے ایک ریسٹورنٹ میں کهانا کهانے گیا۔
وہاں دو ٹیبل چھوڑ کے ایک اُدھیڑ عمر بوڑھے میاں اور اُن کی بوڑھی محبوبہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔
اِسی دوران ایک نہایت ہی ڈیسنٹ اور خوش شکل بھائی صاحب ہوٹل میں داخل ہوئے اور واش بیسن پر ہاتھ دھو کر کچھ فاصلے پر اُن کے برابر والی ٹیبل پر بیٹھ گئے۔
چونکہ ہم نے اپنے کھانے کا آرڈر پہلے ہی دے دیا تھا تو اِس لیے ہم کهانے کا انتظار کر رہے تھے کہ اچانک اُس صاحب کے موبائل فون کی بیل بجی۔ جس کے بعد وہ قدرے اونچی آواز میں موبائل پر کسی سے بات کرنے لگے، اُن کے بات کرنے کے انداز سے لگ رہا تھا کہ اُن کو اللہ نے کوئی بہت بڑی خوشی سے نوازا تھا۔
اور پھر موبائل پر بات ختم کرنے کے بعد وہ وہاں پر موجود سب لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے بلند آواز میں بولے، "خواتین و حضرات! آج میں بہت خوش ہوں کہ اللہ نے مجھے بیٹا عطا کیا ہے اور اِس خوشی میں، میں آپ سب کو مٹن کڑاہی کھلاؤں گا۔۔۔!" میں اپنی جگہ سے اٹها اور آگے جا کر انہیں مبارک باد دی اور کہا کہ "بھائی! ہم نے تو اپنے کھانے کا آرڈر پہلے ہی دے دیا ہے، یہ سنتے ہی اُنہوں نے کہا "اچها، چلو کوئی بات نہیں اِس خوشی میں آپکے کھانے کا بل میں ادا کروں گا۔۔۔!" اور پھر انہوں نے وہاں پر موجود باقی سب لوگوں بشمول اُن بوڑھے میاں جی اور اُن کی بوڑھیا کیلئے مٹن کڑھائی کا آرڈر کیا اور سب کا بل ادا کر کے اپنا کھانا کھا کے خوشی خوشی چلے گئے۔
چند دنوں کے بعد میں اپنے دوستوں کے ہمراه ایک سینما گیا تو کیا دیکھا کہ وہی صاحب وہاں پر ایک پانچ سال کے بچے کے ہمراہ ٹکٹ کے لیے لائن میں کھڑے تھے، میں اپنے دوستوں سے نظر بچا کر اُن کے پاس پہنچا، جونہی انہوں نے مجھے دیکھا، دیکھتے ہی مجھے پہچان گئے اور مسکرانے لگے۔
بہرحال سلام دعا کے بعد میں نے طنزیہ کہا کہ "ماشا الله! آپکا بیٹا تو چند ہی دنوں میں اتنا بڑا ہو گیا ہے۔۔۔!"
میری بات سن کر انہوں نے کہا، "بھائی! چھوڑو اِس بات کو، یہ بڑی عجیب کہانی ہے، پھر کسی دن ملو گے تو بتاؤں گا۔۔!"
جب انہوں نے یہ کہا تو میرا تجسس اور بھی بڑھ گیا اور میں نے اصرار کیا کہ "وه مجهے یہ عجیب کہانی ابھی بتائیں۔۔!"، آخر میرے بہت اصرار پر انہوں نے جو بات بتائی اُس کے بعد میں اپنے آپ کو بہت چھوٹا سمجھنے لگا اور ان کا مقام میری نظروں میں قدرے بلند ہوگیا۔۔۔!!
دوستو! انہوں نے بتایا کہ "اس دن جب میں ریسٹورنٹ میں داخل تو ہاتھ دھونے کیلئے واش بیسن کی طرف گیا، اور وہاں ہاتھ دھوتے وقت میں نے اُن بوڑهے میاں اور بڑی اماں جی کی باتیں سن لی تھیں، بڑی اماں کہہ رہی تھی "آج میرا مٹن کڑاہی کھانے کو دل کر رہا ہے۔۔!"، تو اُس پر بوڑھے میاں نے بہت افسردہ لہجے میں کہا کہ "میرے پاس پورے مہینے کے لئے صرف دو ہزار روپے ہیں، اگر کڑاہی کهائیں گے تو پورے مہینے گزارہ کیسے ہوگا۔۔؟، ایسا کرتے ہیں آج دال روٹی کھا لیتے ہیں، کڑاہی پھر کسی دن کھا لیں گے۔۔!"
اُن صاحب نے کہا کہ "اسی وجہ سے میں نے اپنے موبائل کی خود ہی بیل بجا کر وہ بیٹے کی پیدائش کا ڈرامہ کیا تھا، تاکہ میں اپنی فرضی خوشی کے بہانے اُن کی دلی "خاموش خدمت" کر سکوں۔۔!"
میں نے کہا "تو بھائی! آپ صرف انہی بزرگوں کے پیسے دے دیتے، آپ نے خوامخواہ باقی سب لوگوں کو کھانا بھی کھلایا اور اُن کا بل بھی ادا کیا۔۔؟"
تو انہوں نے جواب دیا "ایسا کر کے میں ان بزرگوں کی عزتِ نفس مجروح نہیں کرنا چاہتا تھا...
🌹 پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لئے شیئر ضرور کریں۔
https://t.me/islamwitheman/2464
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
ایک دن میں اپنے امی ابو کے ساتھ کراچی کے ایک ریسٹورنٹ میں کهانا کهانے گیا۔
وہاں دو ٹیبل چھوڑ کے ایک اُدھیڑ عمر بوڑھے میاں اور اُن کی بوڑھی محبوبہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔
اِسی دوران ایک نہایت ہی ڈیسنٹ اور خوش شکل بھائی صاحب ہوٹل میں داخل ہوئے اور واش بیسن پر ہاتھ دھو کر کچھ فاصلے پر اُن کے برابر والی ٹیبل پر بیٹھ گئے۔
چونکہ ہم نے اپنے کھانے کا آرڈر پہلے ہی دے دیا تھا تو اِس لیے ہم کهانے کا انتظار کر رہے تھے کہ اچانک اُس صاحب کے موبائل فون کی بیل بجی۔ جس کے بعد وہ قدرے اونچی آواز میں موبائل پر کسی سے بات کرنے لگے، اُن کے بات کرنے کے انداز سے لگ رہا تھا کہ اُن کو اللہ نے کوئی بہت بڑی خوشی سے نوازا تھا۔
اور پھر موبائل پر بات ختم کرنے کے بعد وہ وہاں پر موجود سب لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے بلند آواز میں بولے، "خواتین و حضرات! آج میں بہت خوش ہوں کہ اللہ نے مجھے بیٹا عطا کیا ہے اور اِس خوشی میں، میں آپ سب کو مٹن کڑاہی کھلاؤں گا۔۔۔!" میں اپنی جگہ سے اٹها اور آگے جا کر انہیں مبارک باد دی اور کہا کہ "بھائی! ہم نے تو اپنے کھانے کا آرڈر پہلے ہی دے دیا ہے، یہ سنتے ہی اُنہوں نے کہا "اچها، چلو کوئی بات نہیں اِس خوشی میں آپکے کھانے کا بل میں ادا کروں گا۔۔۔!" اور پھر انہوں نے وہاں پر موجود باقی سب لوگوں بشمول اُن بوڑھے میاں جی اور اُن کی بوڑھیا کیلئے مٹن کڑھائی کا آرڈر کیا اور سب کا بل ادا کر کے اپنا کھانا کھا کے خوشی خوشی چلے گئے۔
چند دنوں کے بعد میں اپنے دوستوں کے ہمراه ایک سینما گیا تو کیا دیکھا کہ وہی صاحب وہاں پر ایک پانچ سال کے بچے کے ہمراہ ٹکٹ کے لیے لائن میں کھڑے تھے، میں اپنے دوستوں سے نظر بچا کر اُن کے پاس پہنچا، جونہی انہوں نے مجھے دیکھا، دیکھتے ہی مجھے پہچان گئے اور مسکرانے لگے۔
بہرحال سلام دعا کے بعد میں نے طنزیہ کہا کہ "ماشا الله! آپکا بیٹا تو چند ہی دنوں میں اتنا بڑا ہو گیا ہے۔۔۔!"
میری بات سن کر انہوں نے کہا، "بھائی! چھوڑو اِس بات کو، یہ بڑی عجیب کہانی ہے، پھر کسی دن ملو گے تو بتاؤں گا۔۔!"
جب انہوں نے یہ کہا تو میرا تجسس اور بھی بڑھ گیا اور میں نے اصرار کیا کہ "وه مجهے یہ عجیب کہانی ابھی بتائیں۔۔!"، آخر میرے بہت اصرار پر انہوں نے جو بات بتائی اُس کے بعد میں اپنے آپ کو بہت چھوٹا سمجھنے لگا اور ان کا مقام میری نظروں میں قدرے بلند ہوگیا۔۔۔!!
دوستو! انہوں نے بتایا کہ "اس دن جب میں ریسٹورنٹ میں داخل تو ہاتھ دھونے کیلئے واش بیسن کی طرف گیا، اور وہاں ہاتھ دھوتے وقت میں نے اُن بوڑهے میاں اور بڑی اماں جی کی باتیں سن لی تھیں، بڑی اماں کہہ رہی تھی "آج میرا مٹن کڑاہی کھانے کو دل کر رہا ہے۔۔!"، تو اُس پر بوڑھے میاں نے بہت افسردہ لہجے میں کہا کہ "میرے پاس پورے مہینے کے لئے صرف دو ہزار روپے ہیں، اگر کڑاہی کهائیں گے تو پورے مہینے گزارہ کیسے ہوگا۔۔؟، ایسا کرتے ہیں آج دال روٹی کھا لیتے ہیں، کڑاہی پھر کسی دن کھا لیں گے۔۔!"
اُن صاحب نے کہا کہ "اسی وجہ سے میں نے اپنے موبائل کی خود ہی بیل بجا کر وہ بیٹے کی پیدائش کا ڈرامہ کیا تھا، تاکہ میں اپنی فرضی خوشی کے بہانے اُن کی دلی "خاموش خدمت" کر سکوں۔۔!"
میں نے کہا "تو بھائی! آپ صرف انہی بزرگوں کے پیسے دے دیتے، آپ نے خوامخواہ باقی سب لوگوں کو کھانا بھی کھلایا اور اُن کا بل بھی ادا کیا۔۔؟"
تو انہوں نے جواب دیا "ایسا کر کے میں ان بزرگوں کی عزتِ نفس مجروح نہیں کرنا چاہتا تھا...
🌹 پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لئے شیئر ضرور کریں۔
https://t.me/islamwitheman/2464
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
🌹 اللہ کا فضل 🌹
عرب میں ایک عورت تھی، جس کا نام اُم جعفر ہوا کرتا تھا اور جو انتہائی سخی تھی۔
وہ عورت لوگوں میں ایسے تقسیم کرتی تھی کہ بائیں کو دائیں ہاتھ کا پتا نہ چلے۔ کچھ دنوں سے وہ ایک راستے سے گزرنے لگی تھی جس راستے پر دو اندھے بیٹھے ہوتے۔ یہ دونوں…
عرب میں ایک عورت تھی، جس کا نام اُم جعفر ہوا کرتا تھا اور جو انتہائی سخی تھی۔
وہ عورت لوگوں میں ایسے تقسیم کرتی تھی کہ بائیں کو دائیں ہاتھ کا پتا نہ چلے۔ کچھ دنوں سے وہ ایک راستے سے گزرنے لگی تھی جس راستے پر دو اندھے بیٹھے ہوتے۔ یہ دونوں…
🌺 والدین کی ضرورت 🌺
ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ كا ﭘﻨﮑﭽﺮ ﻟﮕﻮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﯿﮟ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮨﻔﺘﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺟﺎؤﮞ ﺗﻮ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ۔ ﺩﯾﺮ ﺗﻮ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﮩﺎﮞ ﭘﭽﮭﻠﮯ ﺗﯿﻦ ﮨﻔﺘﮯ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﮔﺰﺍﺭ ﮨﯽ ﻟﻮﮞ ﺗﻮ ﮔﺮﻣﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﭼﮭﭩﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺑﺎﺭ ﭼﻼ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ۔ ﺍﺳﯽ ﺳﻮﭺ ﺑﭽﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﮈ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻨﺪﺭﮦ ﺳﻮﻟﮧ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﻮﺟﻮﺍﮞ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﺘﻮﺟﮧ ﭘﺎﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﻋﺠﯿﺐ ﺳﻮﺍﻟﯿﮧ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻧﺐ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ، ﺟﯿﺴﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮦ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﻟﯿﮑﻦ ﺭﺵ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﭘﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺟﺐ ﭘﻨﮑﭽﺮ ﻟﮓ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﮐﻮ ہزار ﺭﻭﭘﮯ ﮐﺎ ﻧﻮﭦ ﺩﯾﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ سو ﺭﻭﭘﮯ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﺑﺎﻗﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﺮ ﺩﯾﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﮐﺮ ﺟﻮﻧﮩﯽ ﻭﺍﭘﺲ ﺷﮩﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﮍﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻟﮍﮐﺎ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁ ﮐﺮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ:
"ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺟﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻣﺰﺩﻭﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ، ﺁﺝ ﺩﯾﮩﺎﮌﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﯽ ﺁﭖ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮐﺎ ﮐﺮﺍﯾﮧ 100 ﺭﻭﭘﮯ ﺩﮮ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ۔؟"
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﭼﭩﺘﯽ ﺳﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮈﺍﻟﯽ، ﺳﺎﺩﮦ ﺳﺎ ﻟﺒﺎﺱ، ﻣﺎﺗﮭﮯ ﭘﺮ ﺗﯿﻞ ﺳﮯ ﭼﭙﮑﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺎﻝ، ﭘﺎؤں ﻣﯿﮟ ﺳﯿﻤﻨﭧ ﺑﮭﺮﺍ ﺟﻮﺗﺎ، ﻣﺠﮭﮯ ﻭﮦ ﺳﭽﺎ ﻟﮕﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ سو ﺭﻭﭘﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﺎتھ ﭘﺮ ﺭﮐھ ﺩﺋﯿﮯ، ﻭﮦ ﺷﮑﺮﯾﮧ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭼﻠﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﮐﯿﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺁﯾﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ، "ﺳﻨﻮ، ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺩﯾﮩﺎﮌﯼ ﮐﺘﻨﯽ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﮯ؟"
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﺎﻗﯽ ﮐﮯ آٹھ سو ﺭﻭﭘﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ
ﺑﮍﮬﺎ ﺩﯾﮯ۔ ﻭﮦ ﮨﭽﮑﭽﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﭩﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ؛
"ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺟﺎﻥ! ﻣﯿﺮﺍ ﮔﮭﺮ ﻣﻨﮉﮬﺎﻟﯽ ﺷﺮﯾﻒ ﮨﮯ، ﻣﯿﮟ دو تین گھنٹے میں ﭘﯿﺪﻝ ﺑﮭﯽ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﮐﻞ ﺳﮯ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﯽ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﭨﮭﯿﮏ ﻧﮩﯿﮟ، ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﺩﯾﮩﺎﮌﯼ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﯽ، ﺳﻮﭼﺎ ﺁﺝ ﺟﻠﺪﯼ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﮐﺮ ﻟﻮﮞ ﮔﺎ۔"
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ:
"اﭼﮭﺎ ﯾﮧ ﭘﯿﺴﮯ ﻟﮯ ﻟﻮ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻭﺍﺋﯽ ﻟﮯ ﺟﺎﻧﺎ۔"
ﻭﮦ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ:
"ﺩﻭﺍﺋﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﮐﻞ ﮨﯽ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺁﺝ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺭﮨﻮﮞ ﮔﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ، ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺩﻭﺍﺋﯽ ﺳﮯ ﮐﮩﺎﮞ ﭨﮭﯿﮏ ہوﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺑﺎﺑﻮﺟﯽ۔۔۔"
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ؛ "ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔؟"
ﺍﺗﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺲ ﺑﮭﯽ ﺁ ﮔﺌﯽ، ﻭﮦ ﺑﺲ ﮐﯽ ﭼﮭﺖ ﭘﺮ ﻟﭙﮏ ﮐﺮ ﭼﮍﮪ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﺑﻮﻻ؛
"ﮔﻠﻮ"
ﮔﻠﻮ ﮐﯽ ﺑﺲ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺩﻭﺭ ﮨﻮﺗﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﮔﻠﻮ ﮐﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﯿﮯ ﮨﻮﺋﮯ آٹھ سو ﺭﻭﭘﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﮨﺘﮭﯿﻠﯽ ﭘﺮ ﭘﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺋﯽ ﺳﭩﺮﯾﭧ ﮐﮯ ﺭﺵ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ کو یکدﻡ ﺑﮩﺖ ﺍﮐﯿﻼ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻣﻮﭨﺮﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﮐﺎ ﺭﺥ ﺭﯾﻠﻮﮮ ﺍﺳﭩﯿﺸﻦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﻮﮌ ﻟﯿﺎ۔ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﮐﻮ ﺍﺳﭩﯿﻨﮉ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﺍ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭨﻮﮐﻦ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭨﮑﭧ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ سات سو ﺭﻭﭘﮯ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻧﯿﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﭨﮑﭧ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﮯ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﻨﭻ ﭘﺮ ﺑﯿﭩھ ﮔﯿﺎ۔ ﮐﺐ ﮔﺎﮌﯼ ﺁﺋﯽ، ﮐﯿﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﺍ ﮐﭽﮫ ﺧﺒﺮ ﻧﮩﯿﮟ، ﺧﺎﻧﯿﻮﺍﻝ ﺍﺳﭩﯿﺸﻦ ﭘﺮ ﺍﺗﺮ ﮐﮯ ﭘﮭﺎﭨﮏ ﺳﮯ ﮐﺒﯿﺮﻭﺍﻻ ﮐﯽ ﻭﯾﻦ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﺍ، ﺁﺧﺮﯼ ﺑﭽﮯ ﮨﻮﺋﮯ سو ﺭﻭﭘﮯ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺟﺐ ﺷﺎﻡ ﮈﮬﻠﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺳﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺻﺤﻦ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯽ ﭘﺮ ﺍﻣﯽ ﺟﺎﻥ ﺳﺮ ﭘﺮ ﮐﭙﮍﺍ ﺑﺎﻧﺪﮬﮯ ﻧﯿﻢ ﺩﺍﺭﺯ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﮍﺍ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺩﻭﺍﺋﯽ ﮐﺎ ﭼﻤﭻ ﺑﮭﺮ ﮐﺮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﭘﻼ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﺍﻣﯽ ﺟﺎﻥ ﺍﭨھ ﮐﺮ ﮐﮭﮍﯼ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻧﭽﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯿﮟ ﻣﯿﺮﺍ ﭘﺘﺮ ﺧﯿﺮ ﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﺁ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ! ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮﮞ۔
میں آﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮭﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﻭﮌ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﺟﺎ ﻟﮕﺎ۔ ﺑﺲ ﮐﮯ ﮔﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﮮ "ﮔﻠُﻮ" ﮐﺎ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﭼﮩﺮﮦ یکدم ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ آٹھ سو ﺭﻭﭘﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﯿﮯ ﺗﮭﮯ۔
🔘 والدین کی جان اپنے بچوں میں ہوتی ہے۔ اس بات کا خیال رکھا کریں۔ والدین کا کوئی نعم البدل نہیں، اگر آپ انہیں کچھ نہیں دے سکتے تو خیر ھے لیکن انہیں اپنی زندگی میں سے وہ قیمتی وقت ضرور دیں جن سے انہیں احساس ہو کہ وہ آپ کے لئے انتہائی اہم ہیں۔
ماں باپ کو آپکے پیسوں کی نہیں، آپکی بھیجی دواؤں کی نہیں، آپ کی ضرورت ہوتی ہے۔
خوش رہیں ۔۔۔ سلامت رہیں۔
🌹 پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لئے شیئر ضرور کریں۔
http://t.me/islamwitheman/2437
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ كا ﭘﻨﮑﭽﺮ ﻟﮕﻮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﯿﮟ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮨﻔﺘﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺟﺎؤﮞ ﺗﻮ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ۔ ﺩﯾﺮ ﺗﻮ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﮩﺎﮞ ﭘﭽﮭﻠﮯ ﺗﯿﻦ ﮨﻔﺘﮯ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﮔﺰﺍﺭ ﮨﯽ ﻟﻮﮞ ﺗﻮ ﮔﺮﻣﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﭼﮭﭩﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺑﺎﺭ ﭼﻼ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ۔ ﺍﺳﯽ ﺳﻮﭺ ﺑﭽﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﮈ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﻨﺪﺭﮦ ﺳﻮﻟﮧ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﻮﺟﻮﺍﮞ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﺘﻮﺟﮧ ﭘﺎﯾﺎ۔ ﻭﮦ ﻋﺠﯿﺐ ﺳﻮﺍﻟﯿﮧ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻧﺐ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ، ﺟﯿﺴﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮦ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﻟﯿﮑﻦ ﺭﺵ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﭘﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺟﺐ ﭘﻨﮑﭽﺮ ﻟﮓ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﮐﻮ ہزار ﺭﻭﭘﮯ ﮐﺎ ﻧﻮﭦ ﺩﯾﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ سو ﺭﻭﭘﮯ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﺑﺎﻗﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﺮ ﺩﯾﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﮐﺮ ﺟﻮﻧﮩﯽ ﻭﺍﭘﺲ ﺷﮩﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﮍﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻟﮍﮐﺎ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺁ ﮐﺮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ:
"ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺟﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻣﺰﺩﻭﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ، ﺁﺝ ﺩﯾﮩﺎﮌﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﯽ ﺁﭖ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮐﺎ ﮐﺮﺍﯾﮧ 100 ﺭﻭﭘﮯ ﺩﮮ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ۔؟"
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﭼﭩﺘﯽ ﺳﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮈﺍﻟﯽ، ﺳﺎﺩﮦ ﺳﺎ ﻟﺒﺎﺱ، ﻣﺎﺗﮭﮯ ﭘﺮ ﺗﯿﻞ ﺳﮯ ﭼﭙﮑﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺎﻝ، ﭘﺎؤں ﻣﯿﮟ ﺳﯿﻤﻨﭧ ﺑﮭﺮﺍ ﺟﻮﺗﺎ، ﻣﺠﮭﮯ ﻭﮦ ﺳﭽﺎ ﻟﮕﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ سو ﺭﻭﭘﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﺎتھ ﭘﺮ ﺭﮐھ ﺩﺋﯿﮯ، ﻭﮦ ﺷﮑﺮﯾﮧ ﺍﺩﺍ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭼﻠﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﮐﯿﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺁﯾﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ، "ﺳﻨﻮ، ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺩﯾﮩﺎﮌﯼ ﮐﺘﻨﯽ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﮯ؟"
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﺎﻗﯽ ﮐﮯ آٹھ سو ﺭﻭﭘﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ
ﺑﮍﮬﺎ ﺩﯾﮯ۔ ﻭﮦ ﮨﭽﮑﭽﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﭩﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ؛
"ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺟﺎﻥ! ﻣﯿﺮﺍ ﮔﮭﺮ ﻣﻨﮉﮬﺎﻟﯽ ﺷﺮﯾﻒ ﮨﮯ، ﻣﯿﮟ دو تین گھنٹے میں ﭘﯿﺪﻝ ﺑﮭﯽ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﮐﻞ ﺳﮯ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﯽ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﭨﮭﯿﮏ ﻧﮩﯿﮟ، ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﺩﯾﮩﺎﮌﯼ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﯽ، ﺳﻮﭼﺎ ﺁﺝ ﺟﻠﺪﯼ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﮐﺮ ﻟﻮﮞ ﮔﺎ۔"
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ:
"اﭼﮭﺎ ﯾﮧ ﭘﯿﺴﮯ ﻟﮯ ﻟﻮ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻭﺍﺋﯽ ﻟﮯ ﺟﺎﻧﺎ۔"
ﻭﮦ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ:
"ﺩﻭﺍﺋﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﮐﻞ ﮨﯽ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺁﺝ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺭﮨﻮﮞ ﮔﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ، ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺩﻭﺍﺋﯽ ﺳﮯ ﮐﮩﺎﮞ ﭨﮭﯿﮏ ہوﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺑﺎﺑﻮﺟﯽ۔۔۔"
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ؛ "ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﻧﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔؟"
ﺍﺗﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺲ ﺑﮭﯽ ﺁ ﮔﺌﯽ، ﻭﮦ ﺑﺲ ﮐﯽ ﭼﮭﺖ ﭘﺮ ﻟﭙﮏ ﮐﺮ ﭼﮍﮪ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﺑﻮﻻ؛
"ﮔﻠﻮ"
ﮔﻠﻮ ﮐﯽ ﺑﺲ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺩﻭﺭ ﮨﻮﺗﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﮔﻠﻮ ﮐﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﯿﮯ ﮨﻮﺋﮯ آٹھ سو ﺭﻭﭘﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﮨﺘﮭﯿﻠﯽ ﭘﺮ ﭘﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺋﯽ ﺳﭩﺮﯾﭧ ﮐﮯ ﺭﺵ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺩ کو یکدﻡ ﺑﮩﺖ ﺍﮐﯿﻼ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻣﻮﭨﺮﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﮐﺎ ﺭﺥ ﺭﯾﻠﻮﮮ ﺍﺳﭩﯿﺸﻦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﻮﮌ ﻟﯿﺎ۔ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﮐﻮ ﺍﺳﭩﯿﻨﮉ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﺍ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭨﻮﮐﻦ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭨﮑﭧ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ سات سو ﺭﻭﭘﮯ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻧﯿﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﭨﮑﭧ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮔﺎﮌﯼ ﮐﮯ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﻨﭻ ﭘﺮ ﺑﯿﭩھ ﮔﯿﺎ۔ ﮐﺐ ﮔﺎﮌﯼ ﺁﺋﯽ، ﮐﯿﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﺍ ﮐﭽﮫ ﺧﺒﺮ ﻧﮩﯿﮟ، ﺧﺎﻧﯿﻮﺍﻝ ﺍﺳﭩﯿﺸﻦ ﭘﺮ ﺍﺗﺮ ﮐﮯ ﭘﮭﺎﭨﮏ ﺳﮯ ﮐﺒﯿﺮﻭﺍﻻ ﮐﯽ ﻭﯾﻦ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮﺍ، ﺁﺧﺮﯼ ﺑﭽﮯ ﮨﻮﺋﮯ سو ﺭﻭﭘﮯ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺟﺐ ﺷﺎﻡ ﮈﮬﻠﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺳﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺻﺤﻦ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯽ ﭘﺮ ﺍﻣﯽ ﺟﺎﻥ ﺳﺮ ﭘﺮ ﮐﭙﮍﺍ ﺑﺎﻧﺪﮬﮯ ﻧﯿﻢ ﺩﺍﺭﺯ ﺗﮭﯿﮟ۔ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﮍﺍ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺩﻭﺍﺋﯽ ﮐﺎ ﭼﻤﭻ ﺑﮭﺮ ﮐﺮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﭘﻼ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﺍﻣﯽ ﺟﺎﻥ ﺍﭨھ ﮐﺮ ﮐﮭﮍﯼ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻧﭽﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯿﮟ ﻣﯿﺮﺍ ﭘﺘﺮ ﺧﯿﺮ ﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﺁ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ! ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮﮞ۔
میں آﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮭﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﻭﮌ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﺟﺎ ﻟﮕﺎ۔ ﺑﺲ ﮐﮯ ﮔﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﮮ "ﮔﻠُﻮ" ﮐﺎ ﻣﺴﮑﺮﺍﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﭼﮩﺮﮦ یکدم ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ آٹھ سو ﺭﻭﭘﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﯿﮯ ﺗﮭﮯ۔
🔘 والدین کی جان اپنے بچوں میں ہوتی ہے۔ اس بات کا خیال رکھا کریں۔ والدین کا کوئی نعم البدل نہیں، اگر آپ انہیں کچھ نہیں دے سکتے تو خیر ھے لیکن انہیں اپنی زندگی میں سے وہ قیمتی وقت ضرور دیں جن سے انہیں احساس ہو کہ وہ آپ کے لئے انتہائی اہم ہیں۔
ماں باپ کو آپکے پیسوں کی نہیں، آپکی بھیجی دواؤں کی نہیں، آپ کی ضرورت ہوتی ہے۔
خوش رہیں ۔۔۔ سلامت رہیں۔
🌹 پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لئے شیئر ضرور کریں۔
http://t.me/islamwitheman/2437
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
🌺 بیمار ماں کی خدمت 🌺
محمد عبداللہ نامی تیس سالہ نوجوان اپنی ماں کو لیڈی ڈاکٹر کے پاس چیک اپ کے لئے لایا۔ لڑکے کی ماں چیک اپ کے لئے بیٹھنے کی بجائے اٹھ اٹھ کر جاتی ادھر ادھر اور بھاگنا چاہتی تھی۔ وہ بار بار اپنی چادر اتار پھنکتی لیکن اس کا بیٹا پیار کے ساتھ…
محمد عبداللہ نامی تیس سالہ نوجوان اپنی ماں کو لیڈی ڈاکٹر کے پاس چیک اپ کے لئے لایا۔ لڑکے کی ماں چیک اپ کے لئے بیٹھنے کی بجائے اٹھ اٹھ کر جاتی ادھر ادھر اور بھاگنا چاہتی تھی۔ وہ بار بار اپنی چادر اتار پھنکتی لیکن اس کا بیٹا پیار کے ساتھ…
🌼 پرکھنے میں جلدبازی نہ کرو 🌼
ایک آدمی کے چار بیٹے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ اُس کے بیٹے یہ سبق سیکھ لیں کہ کسی کو پرکھنے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کریں۔ لہٰذا اس بات کو سمجھانے کیلئے اُس نے اپنے بیٹوں کو ایک سفر پر روانہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور دور درازعلاقے میں ناشپاتی کا ایک درخت دیکھنے کیلئے بھیجا۔
ایک وقت میں ایک بیٹے کو سفر پر بھیجا کہ جاؤ اور اُس درخت کو دیکھ کر آؤ۔ باری باری سب کا سفر شروع ہوا۔
پہلا بیٹا سردی کے موسم میں گیا،
دوسرا بہار میں،
تیسرا گرمی کے موسم میں،
اور سب سے چھوٹا بیٹا خزاں کے موسم میں گیا۔
جب سب بیٹے اپنا اپنا سفر ختم کر کے واپس لوٹ آئے تو اُس آدمی نے اپنے چاروں بیٹوں کو ایک ساتھ طلب کیا اور سب سے اُن کے سفر کی الگ الگ تفصیل کے بارے میں پوچھا۔
پہلا بیٹا جو جاڑے کے موسم میں اُس درخت کو دیکھنے گیا تھا، نے کہا کہ وہ درخت بہت بدصورت، جُھکا ہوا اورٹیڑھا سا تھا۔
دوسرے بیٹے نے کہا نہیں وہ درخت تو بہت ہرا بھرا تھا۔ہرے ہرے پتوں سے بھرا ہوا۔
تیسرے بیٹے نے اُن دونوں سے اختلاف کیا کہ وہ درخت تو پھولوں سے بھرا ہوا تھا اور اُس کی مہک دور دور تک آ رہی تھی اور یہ کہ اُس سے حسین منظر اُس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
سب سے چھوٹے بیٹے نے اپنے سب بڑے بھائیوں سے اختلاف ظاہر کیا کہ وہ ناشپاتی کا درخت تو پھل سے لدا ہوا تھا اور اُس پھل کے بوجھ سے درخت زمین سے لگا زندگی سے بھر پور نظر آ رہا تھا۔
یہ سب سُننے کے بعد اُس آدمی نے مسکرا کر اپنے چاروں بیٹوں کی جانب دیکھا اور کہا؛ "تم چاروں میں سے کوئی بھی غلط نہیں کہہ رہا۔ سب اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔"
بیٹے باپ کا جواب سُن کر بہت حیران ہوئے کہ ایسا کس طرح ممکن ہے۔ باپ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا؛ "تم کسی بھی درخت کو یا شخص کو صرف ایک موسم یا حالت میں دیکھ کر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر سکتے۔
کسی بھی فرد کو جانچنے کیلئے تھوڑا وقت ضروری ہوتا ہے۔ انسان کبھی کسی کیفیت میں ہوتا ہے کبھی کسی کیفیت میں۔ اگر درخت کو تم نے جاڑے کے موسم میں بے رونق دیکھا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اُس پر کبھی پھل نہیں آئے گا۔ اسی طرح اگر کسی شخص کو تم لوگ غصے کی حالت میں دیکھ رہے ہو تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ بُرا ہی ہو گا۔ کبھی بھی جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ کیا کرو، جب تک اچھی طرح کسی کو جانچ نہ لو۔۔۔"
🌹 پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لئے شیئر ضرور کریں۔
http://t.me/islamwitheman/2370
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
ایک آدمی کے چار بیٹے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ اُس کے بیٹے یہ سبق سیکھ لیں کہ کسی کو پرکھنے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کریں۔ لہٰذا اس بات کو سمجھانے کیلئے اُس نے اپنے بیٹوں کو ایک سفر پر روانہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور دور درازعلاقے میں ناشپاتی کا ایک درخت دیکھنے کیلئے بھیجا۔
ایک وقت میں ایک بیٹے کو سفر پر بھیجا کہ جاؤ اور اُس درخت کو دیکھ کر آؤ۔ باری باری سب کا سفر شروع ہوا۔
پہلا بیٹا سردی کے موسم میں گیا،
دوسرا بہار میں،
تیسرا گرمی کے موسم میں،
اور سب سے چھوٹا بیٹا خزاں کے موسم میں گیا۔
جب سب بیٹے اپنا اپنا سفر ختم کر کے واپس لوٹ آئے تو اُس آدمی نے اپنے چاروں بیٹوں کو ایک ساتھ طلب کیا اور سب سے اُن کے سفر کی الگ الگ تفصیل کے بارے میں پوچھا۔
پہلا بیٹا جو جاڑے کے موسم میں اُس درخت کو دیکھنے گیا تھا، نے کہا کہ وہ درخت بہت بدصورت، جُھکا ہوا اورٹیڑھا سا تھا۔
دوسرے بیٹے نے کہا نہیں وہ درخت تو بہت ہرا بھرا تھا۔ہرے ہرے پتوں سے بھرا ہوا۔
تیسرے بیٹے نے اُن دونوں سے اختلاف کیا کہ وہ درخت تو پھولوں سے بھرا ہوا تھا اور اُس کی مہک دور دور تک آ رہی تھی اور یہ کہ اُس سے حسین منظر اُس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
سب سے چھوٹے بیٹے نے اپنے سب بڑے بھائیوں سے اختلاف ظاہر کیا کہ وہ ناشپاتی کا درخت تو پھل سے لدا ہوا تھا اور اُس پھل کے بوجھ سے درخت زمین سے لگا زندگی سے بھر پور نظر آ رہا تھا۔
یہ سب سُننے کے بعد اُس آدمی نے مسکرا کر اپنے چاروں بیٹوں کی جانب دیکھا اور کہا؛ "تم چاروں میں سے کوئی بھی غلط نہیں کہہ رہا۔ سب اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔"
بیٹے باپ کا جواب سُن کر بہت حیران ہوئے کہ ایسا کس طرح ممکن ہے۔ باپ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا؛ "تم کسی بھی درخت کو یا شخص کو صرف ایک موسم یا حالت میں دیکھ کر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر سکتے۔
کسی بھی فرد کو جانچنے کیلئے تھوڑا وقت ضروری ہوتا ہے۔ انسان کبھی کسی کیفیت میں ہوتا ہے کبھی کسی کیفیت میں۔ اگر درخت کو تم نے جاڑے کے موسم میں بے رونق دیکھا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اُس پر کبھی پھل نہیں آئے گا۔ اسی طرح اگر کسی شخص کو تم لوگ غصے کی حالت میں دیکھ رہے ہو تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ بُرا ہی ہو گا۔ کبھی بھی جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ کیا کرو، جب تک اچھی طرح کسی کو جانچ نہ لو۔۔۔"
🌹 پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لئے شیئر ضرور کریں۔
http://t.me/islamwitheman/2370
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
🌸 حسن ظن، مثبت سوچ 🌸
ایک معلمہ کہتی ہیں؛ میں نے طالبات کی ایک ٹیم کو سال کے آخر میں ایک پروگرام میں انکی ماؤں کے سامنے ایک نظم پیش کرنے کیلیے ٹرینڈ کیا۔ تیاری اور ریہرسل کے مختلف مراحل کے بعد بالآخر پروگرام کا دن آ گیا۔
نظم شروع ہوئی.
مگر انکی اس خوبصورت…
ایک معلمہ کہتی ہیں؛ میں نے طالبات کی ایک ٹیم کو سال کے آخر میں ایک پروگرام میں انکی ماؤں کے سامنے ایک نظم پیش کرنے کیلیے ٹرینڈ کیا۔ تیاری اور ریہرسل کے مختلف مراحل کے بعد بالآخر پروگرام کا دن آ گیا۔
نظم شروع ہوئی.
مگر انکی اس خوبصورت…
🔶 مچھروں سے نجات 🔶
مچھروں کو آپ سے دور رکھنے والی چند خوشبوئیں۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ مچھر دنیا کا سب سے خطرناک جاندار ہے؟ اور یہ دعویٰ عالمی ادارہ صحت کا ہے۔
جس کی وجہ یہ ہے کہ مچھروں کی بدولت ملیریا، ڈینگی اور دیگر امراض پھیلتے ہیں۔
اب مچھر آپ کی جانب کیوں لپکتے ہیں اس کی وجوہات جاننا چاہتے ہیں تو یہ پڑھیے۔
موسم گرما کو مچھروں کا سیزن قرار دیا جاتا ہے مگر اچھی بات یہ ہے کہ آپ ان کیڑوں کو آسانی سے خود سے دور رکھ سکتے ہیں۔
جی ہاں چند چیزوں سے مچھروں کو خود سے دور رکھنا ممکن ہوتا ہے۔
🔷 لہسن
لہسن کی بو مچھروں کو ہمیشہ دور رکھنے میں مدد دیتی ہے، درحقیقت اس کے لیے لہسن ہاتھ یا جیب میں رکھنے کی بھی ضرورت نہیں، اس کے چند ٹکڑے کھالینے بھی خون چوسنے والے ان کیڑوں کو آپ سے دور رکھنے کے لیے کافی ہیں۔
🔷 تلسی
تلسی کا پودا اگانا بہت آسان ہوتا ہے اور یہ مچھروں کو گھر سے دور بھی رکھتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس پودے کو گھر میں لگانا مچھروں کو دور رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے جس کی وجہ اس کی تیز مہک ہے۔
🔷 پودینہ
پودینے کے پتوں کی مہک مچھروں کے لیے قابل برداشت نہیں ہوتی اور اس کے تیل کے چند قطرے استعمال کرکے آپ مچھروں کو خود سے ہمیشہ دور رکھ سکتے ہیں۔
🔷 لیمن گراس
جی ہاں لیمن گراس کی مہک بھی مچھروں کو دور رکھتی ہے اور اس کا تیل اس مقصد کے لیے دنیا بھر میں استعمال کیا جاتا ہے۔
🔷 نیم
نیم کا تیل مچھروں سے بچانے کا آسان ترین ذریعہ ہے، بس اس تیل کو لباس سے باہر حصے پر لگالیں اور بس، مچھر آپ سے دور رہیں گے...
🌹 پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لئے شیئر ضرور کریں۔
https://t.me/islamwitheman
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
مچھروں کو آپ سے دور رکھنے والی چند خوشبوئیں۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ مچھر دنیا کا سب سے خطرناک جاندار ہے؟ اور یہ دعویٰ عالمی ادارہ صحت کا ہے۔
جس کی وجہ یہ ہے کہ مچھروں کی بدولت ملیریا، ڈینگی اور دیگر امراض پھیلتے ہیں۔
اب مچھر آپ کی جانب کیوں لپکتے ہیں اس کی وجوہات جاننا چاہتے ہیں تو یہ پڑھیے۔
موسم گرما کو مچھروں کا سیزن قرار دیا جاتا ہے مگر اچھی بات یہ ہے کہ آپ ان کیڑوں کو آسانی سے خود سے دور رکھ سکتے ہیں۔
جی ہاں چند چیزوں سے مچھروں کو خود سے دور رکھنا ممکن ہوتا ہے۔
🔷 لہسن
لہسن کی بو مچھروں کو ہمیشہ دور رکھنے میں مدد دیتی ہے، درحقیقت اس کے لیے لہسن ہاتھ یا جیب میں رکھنے کی بھی ضرورت نہیں، اس کے چند ٹکڑے کھالینے بھی خون چوسنے والے ان کیڑوں کو آپ سے دور رکھنے کے لیے کافی ہیں۔
🔷 تلسی
تلسی کا پودا اگانا بہت آسان ہوتا ہے اور یہ مچھروں کو گھر سے دور بھی رکھتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس پودے کو گھر میں لگانا مچھروں کو دور رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے جس کی وجہ اس کی تیز مہک ہے۔
🔷 پودینہ
پودینے کے پتوں کی مہک مچھروں کے لیے قابل برداشت نہیں ہوتی اور اس کے تیل کے چند قطرے استعمال کرکے آپ مچھروں کو خود سے ہمیشہ دور رکھ سکتے ہیں۔
🔷 لیمن گراس
جی ہاں لیمن گراس کی مہک بھی مچھروں کو دور رکھتی ہے اور اس کا تیل اس مقصد کے لیے دنیا بھر میں استعمال کیا جاتا ہے۔
🔷 نیم
نیم کا تیل مچھروں سے بچانے کا آسان ترین ذریعہ ہے، بس اس تیل کو لباس سے باہر حصے پر لگالیں اور بس، مچھر آپ سے دور رہیں گے...
🌹 پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لئے شیئر ضرور کریں۔
https://t.me/islamwitheman
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
اصلاحی کہانیاں اور سبق آموز احادیث و واقعات...
ایڈمن سے رابطہ کیلئے:
@syedsajjadhamdani
ایڈمن سے رابطہ کیلئے:
@syedsajjadhamdani
🌻 گروپ میں شرکت 🌻
ایک شخص جو اپنے دوستوں کے ساتھ باقاعدگی سے گروپ میں شریک ہوتا تھا، اچانک کسی اطلاع کے بغیر اس نے حصہ لینا چھوڑ دیا۔
کچھ ہفتوں کے بعد ایک انتہائی سرد رات میں اس گروپ کے رہنما نے اس سے ملنے کا فیصلہ کیا اور اس کے گھر گیا۔وہاں اسنےاس شخص کو گھر میں تن تنہا ایک چمنی کے سامنے بیٹھا ہوا پایا۔ جہاں ایک روشن اور آرام دہ آگ جل گئی تھی۔ اس شخص نے مہمان کا استقبال کیا۔ دونوں افراد خاموشی سے چمنی کے آس پاس رقص کرتے شعلوں کو دیکھتے رہے ۔کچھ منٹ کے بعد مہمان نے ایک لفظ کہے بغیر جلتے انگاروں میں سے ایک کا انتخاب کیا جو سب سے زیادہ چمک رہا تھا۔ اس کو چمٹے کے ساتھ سائیڈ میں الگ رکھ دیا۔ پھر وہ پھر بیٹھ گیا۔ میزبان ہر چیز پر دھیان دے رہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں تنہا انگارے کا شعلہ تھمنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر میں جو پہلے روشن اور گرم تھا کوئلے کے کالے اور مردہ ٹکڑے کے سوا کچھ نہیں رہ گیا تھا۔
سلام کے بعد سے بہت ہی کم الفاظ بولے گئے تھے۔ روانگی سے پہلے مہمان نے بیکار کوئلہ اٹھایا اور اسے دوبارہ آگ کے بیچ رکھ دیا۔ فوری طور پر اس کے چاروں طرف جلتے ہوئے کوئلوں کی روشنی اور حرارت نے اسے دوبارہ زندہ کر دیا۔
جب مہمان روانگی کے لئے دروازے پر پہنچا تو میزبان نے کہا: آپ کی آمد کا شکریہ اور آپ کے خوبصورت سبق کے لئے۔ میں جلد ہی گروپ میں واپس آؤں گا۔
🔘 گروپ کیوں بجھ گیا .....؟ بہت آسان: کیونکہ آنے والا ہر ممبر باقی سے آگ اور حرارت لیتا ہے۔ یہ گروپ کے ممبروں کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ شعلے کا ایک حصہ ہیں اور ہم سب ایک دوسرے کی آگ کو جلانے کے لئے ذمہ دار ہیں اور ہمیں اپنے درمیان اتحاد کو قائم رکھنا چاہئے تاکہ آگ واقعی مضبوط، موثر اور دیرپا ہو۔
گروپ بھی ایک فیملی کی طرح ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کبھی کبھی ہم کچھ پیغامات سے ناخوش اور ناراض ہوتے ہیں۔ جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ اس تعلق کو قائم رکھنا چاہیے۔ ہم یہاں ایک دوسرے کی خیریت سے آگاہ رہنے کے لئے، خیالات کا تبادلہ کرنے یا محض یہ جاننے کے لئے ہیں کہ ہم تنہا نہیں ہیں۔
دوسروں سے حرارت لیں اور اپنی حرارت سے دوسروں کو مستفید کریں۔
https://t.me/islamwitheman
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
ایک شخص جو اپنے دوستوں کے ساتھ باقاعدگی سے گروپ میں شریک ہوتا تھا، اچانک کسی اطلاع کے بغیر اس نے حصہ لینا چھوڑ دیا۔
کچھ ہفتوں کے بعد ایک انتہائی سرد رات میں اس گروپ کے رہنما نے اس سے ملنے کا فیصلہ کیا اور اس کے گھر گیا۔وہاں اسنےاس شخص کو گھر میں تن تنہا ایک چمنی کے سامنے بیٹھا ہوا پایا۔ جہاں ایک روشن اور آرام دہ آگ جل گئی تھی۔ اس شخص نے مہمان کا استقبال کیا۔ دونوں افراد خاموشی سے چمنی کے آس پاس رقص کرتے شعلوں کو دیکھتے رہے ۔کچھ منٹ کے بعد مہمان نے ایک لفظ کہے بغیر جلتے انگاروں میں سے ایک کا انتخاب کیا جو سب سے زیادہ چمک رہا تھا۔ اس کو چمٹے کے ساتھ سائیڈ میں الگ رکھ دیا۔ پھر وہ پھر بیٹھ گیا۔ میزبان ہر چیز پر دھیان دے رہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں تنہا انگارے کا شعلہ تھمنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر میں جو پہلے روشن اور گرم تھا کوئلے کے کالے اور مردہ ٹکڑے کے سوا کچھ نہیں رہ گیا تھا۔
سلام کے بعد سے بہت ہی کم الفاظ بولے گئے تھے۔ روانگی سے پہلے مہمان نے بیکار کوئلہ اٹھایا اور اسے دوبارہ آگ کے بیچ رکھ دیا۔ فوری طور پر اس کے چاروں طرف جلتے ہوئے کوئلوں کی روشنی اور حرارت نے اسے دوبارہ زندہ کر دیا۔
جب مہمان روانگی کے لئے دروازے پر پہنچا تو میزبان نے کہا: آپ کی آمد کا شکریہ اور آپ کے خوبصورت سبق کے لئے۔ میں جلد ہی گروپ میں واپس آؤں گا۔
🔘 گروپ کیوں بجھ گیا .....؟ بہت آسان: کیونکہ آنے والا ہر ممبر باقی سے آگ اور حرارت لیتا ہے۔ یہ گروپ کے ممبروں کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ شعلے کا ایک حصہ ہیں اور ہم سب ایک دوسرے کی آگ کو جلانے کے لئے ذمہ دار ہیں اور ہمیں اپنے درمیان اتحاد کو قائم رکھنا چاہئے تاکہ آگ واقعی مضبوط، موثر اور دیرپا ہو۔
گروپ بھی ایک فیملی کی طرح ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کبھی کبھی ہم کچھ پیغامات سے ناخوش اور ناراض ہوتے ہیں۔ جو بات اہم ہے وہ یہ ہے کہ اس تعلق کو قائم رکھنا چاہیے۔ ہم یہاں ایک دوسرے کی خیریت سے آگاہ رہنے کے لئے، خیالات کا تبادلہ کرنے یا محض یہ جاننے کے لئے ہیں کہ ہم تنہا نہیں ہیں۔
دوسروں سے حرارت لیں اور اپنی حرارت سے دوسروں کو مستفید کریں۔
https://t.me/islamwitheman
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
اصلاحی کہانیاں اور سبق آموز احادیث و واقعات...
ایڈمن سے رابطہ کیلئے:
@syedsajjadhamdani
ایڈمن سے رابطہ کیلئے:
@syedsajjadhamdani
🌸 ہماری تخلیق اور مقصد 🌸
میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ جنسی ملاپ کے بعد کسی بھی Male (نر) کے تقریباً دو سو سے چار سو ملین کے قریب Sperms خارج ہوتے ہیں۔
اِن میں سے تقریباً آدھے تو نکلتے ہی دم توڑ جاتے ہیں۔ اور باقی کے تقریباً 2 سو ملین صحت مند Sperms کی Ovum (بیضہ دانی) کی طرف زندگی حاصل کرنے کی ریس شروع ہو جاتی ہے۔
بظاہر کچھ انچ کی اِس نظر آنے والی ریس میں جہاں 2 سو ملین صحت مند Sperms نے حصہ لیا تھا، کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد محض 300 یا 500 ہی ایسے رہ جاتے ہیں جو ریس کو جاری رکھ پاتے ہیں، باقی سب اِس اعصاب شکن ریس کے راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں۔
ریس کے آخری راؤنڈ میں اُن 300 یا 500 میں سے بھی صرف ایک مضبوط ترین اور Fertilized Sperm ہی ایسا ہوتا ہے جو Ovum یعنی بیضہ دانی میں داخل ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے،
اور وہ ہیں آپ ......، جی ہاں آپ۔....۔!!
عزیز دوستو!
کیا آپ نے کبھی غور فرمایا ہے۔۔۔
کہ جب آپ اُس زندگی حاصل کرنے والی ریس کا حصہ تھے
تب نہ تو آپ کے ہاتھ تھے، نہ پاؤں، نہ آنکھیں تھیں اور نہ ہی جسم، اور سب سے بڑی بات بغیر کسی کی مدد اور سہارے کے پھر بھی آپ اُن دو چار سو ملین میں سے وہ ریس جیت گئے تھے۔
اور اب جبکہ آپ کے پاس خوبصورت زندگی کی صورت میں اُس ریس کی جیت کا Certificate موجود ہے،
تو اب آپ کیسے کسی میدان میں ہار مان سکتے ہو؟
ماشاء اللہ اب آپ ایک صحتمند جسم کے مالک ہو،
آپکے سامنے ایک مقصد ہے،
اُس مقصد کے پیچھے کچھ خواب ہیں۔
اُن خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے آپکو زندگی کی آخری سانس تک ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے...
🌹 پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لیے ضرور شیئر کریں۔
http://t.me/islamwitheman
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ جنسی ملاپ کے بعد کسی بھی Male (نر) کے تقریباً دو سو سے چار سو ملین کے قریب Sperms خارج ہوتے ہیں۔
اِن میں سے تقریباً آدھے تو نکلتے ہی دم توڑ جاتے ہیں۔ اور باقی کے تقریباً 2 سو ملین صحت مند Sperms کی Ovum (بیضہ دانی) کی طرف زندگی حاصل کرنے کی ریس شروع ہو جاتی ہے۔
بظاہر کچھ انچ کی اِس نظر آنے والی ریس میں جہاں 2 سو ملین صحت مند Sperms نے حصہ لیا تھا، کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد محض 300 یا 500 ہی ایسے رہ جاتے ہیں جو ریس کو جاری رکھ پاتے ہیں، باقی سب اِس اعصاب شکن ریس کے راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں۔
ریس کے آخری راؤنڈ میں اُن 300 یا 500 میں سے بھی صرف ایک مضبوط ترین اور Fertilized Sperm ہی ایسا ہوتا ہے جو Ovum یعنی بیضہ دانی میں داخل ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے،
اور وہ ہیں آپ ......، جی ہاں آپ۔....۔!!
عزیز دوستو!
کیا آپ نے کبھی غور فرمایا ہے۔۔۔
کہ جب آپ اُس زندگی حاصل کرنے والی ریس کا حصہ تھے
تب نہ تو آپ کے ہاتھ تھے، نہ پاؤں، نہ آنکھیں تھیں اور نہ ہی جسم، اور سب سے بڑی بات بغیر کسی کی مدد اور سہارے کے پھر بھی آپ اُن دو چار سو ملین میں سے وہ ریس جیت گئے تھے۔
اور اب جبکہ آپ کے پاس خوبصورت زندگی کی صورت میں اُس ریس کی جیت کا Certificate موجود ہے،
تو اب آپ کیسے کسی میدان میں ہار مان سکتے ہو؟
ماشاء اللہ اب آپ ایک صحتمند جسم کے مالک ہو،
آپکے سامنے ایک مقصد ہے،
اُس مقصد کے پیچھے کچھ خواب ہیں۔
اُن خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے آپکو زندگی کی آخری سانس تک ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے...
🌹 پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لیے ضرور شیئر کریں۔
http://t.me/islamwitheman
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
اصلاحی کہانیاں اور سبق آموز احادیث و واقعات...
ایڈمن سے رابطہ کیلئے:
@syedsajjadhamdani
ایڈمن سے رابطہ کیلئے:
@syedsajjadhamdani
🌳 اندر کا باپ 🌳
کیا آپکو معلوم ہے کہ "باپ" سانسیں لیتے ہوئے بھی مر جاتے ہیں۔
جیسے جیسے اولاد کا اختیار بڑھتا اور والد کا اختیار گھٹتا جاتا ہے ویسے ویسے ہی "باپ" مرنا شروع ہوجاتا ہے۔
جب بچہ طاقتور جوان ہونے لگتا ہے تو باپ کا ہاتھ بعض اوقات اس خوف سے بھی اٹھنے سے رک جاتا ہے کہ کہیں بیٹے نے بھی پلٹ کر جواب دے دیا تو اس قیامت کو میں کیسے سہوں گا؟
جب بچے اپنے فیصلے خود لینے لگیں اور فیصلے لینے کے بعد باپ کو آگاہ کر کے "حجت" پوری کی جانے لگے تو "بوڑھا شخص" تو زندہ رہتا ہے پر اسکے اندر کا "باپ" مرنا شروع ہوجاتا ہے۔
باپ اس وقت تک زندہ ہے جب تک اس اولاد پر اسکا حق قائم ہے۔
جس اولاد سے اس نے اتنی محبت کی کہ اپنے دل پر پتھر رکھ کر اسے تھپڑ بھی مارا، اولاد کے آنسو بھلے کلیجہ چیر رہے ہوں پر پھر بھی اسلئے ڈانٹا کہ کہیں ناسمجھ اولاد خود کو بڑی تکلیف میں مبتلا نہ کر بیٹھے۔
ماں کی محبت تو یہ ہے کہ پیاس لگی (پیار آیا) تو پانی پی لیا پر باپ کی محبت یہ ہے کہ پیاس لگی تو خود کو اور اتنا زیادہ تھکایا کہ پیاس لگتے لگتے اپنی موت آپ مر گئی۔
باپ کی محبت اولاد سے ماسوائے اسکے اور کچھ نہیں مانگتی کہ "باپ" کو زندہ رکھا جاۓ، پھر چاہے وہ چارپائی پر پڑا کوئی بہت ہی بیمار اور کمزور انسان ہی کیوں نہ ہو،
اگر اسکے اندر کا "باپ" زندہ ہے تو یقین جانیئے اسے زندگی میں اور کسی شے کی خواہش اور ضرورت نہیں ہے،
اگر آپ کے والد صاحب سلامت ہیں تو خدارا انکے "اندر کا باپ" زندہ رکھئیے،
یہ اس "بوڑھے شخص" کا آپ پر حق اور آپ پر قرض ہے۔ جسے آپ نے فرض سمجھ کر ادا کرنا ہے..
حدیث شریف ھے۔۔۔
1= والد کی رضا اللہ تعالٰی کی رضا، والد کی ناراضگی آللہ تعالٰی کی ناراضگی ھے۔
2= والد کی دعا اولاد کے لئے وہ رد نہیں ھوتی۔
3= جس نے زندگی میں اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو پایا مگر جنت میں نہ جا سکا اس کے لئے ویل (خرابی) ھے۔
اس لئے والدین کی خدمت پل بھر کے لئے جنت لے جاتی ھے۔ والد خوش ھوا۔ والد کی چھوٹی سے چھوٹی دعا یارب العالمین میری اولاد کو دونوں جہان میں کامیاب فرما۔ آمین۔
باپ کی دعا رد نہیں ھوتی۔ ھمیں چاہیے کہ انہیں خوش رکھیں اس میں یہ شرط نہیں سو یا پچاس یا سال مہینہ یا گھنٹہ خدمت کرنی ھے بس راضی کرنا کافی ھے اور ناراضگی سے بچنا ھے۔
زندہ ھیں توان سے دعا لو۔ نہیں تو دعا دو۔
اللہ تعالٰی ھمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین۔
http://t.me/islamwitheman/2472
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
کیا آپکو معلوم ہے کہ "باپ" سانسیں لیتے ہوئے بھی مر جاتے ہیں۔
جیسے جیسے اولاد کا اختیار بڑھتا اور والد کا اختیار گھٹتا جاتا ہے ویسے ویسے ہی "باپ" مرنا شروع ہوجاتا ہے۔
جب بچہ طاقتور جوان ہونے لگتا ہے تو باپ کا ہاتھ بعض اوقات اس خوف سے بھی اٹھنے سے رک جاتا ہے کہ کہیں بیٹے نے بھی پلٹ کر جواب دے دیا تو اس قیامت کو میں کیسے سہوں گا؟
جب بچے اپنے فیصلے خود لینے لگیں اور فیصلے لینے کے بعد باپ کو آگاہ کر کے "حجت" پوری کی جانے لگے تو "بوڑھا شخص" تو زندہ رہتا ہے پر اسکے اندر کا "باپ" مرنا شروع ہوجاتا ہے۔
باپ اس وقت تک زندہ ہے جب تک اس اولاد پر اسکا حق قائم ہے۔
جس اولاد سے اس نے اتنی محبت کی کہ اپنے دل پر پتھر رکھ کر اسے تھپڑ بھی مارا، اولاد کے آنسو بھلے کلیجہ چیر رہے ہوں پر پھر بھی اسلئے ڈانٹا کہ کہیں ناسمجھ اولاد خود کو بڑی تکلیف میں مبتلا نہ کر بیٹھے۔
ماں کی محبت تو یہ ہے کہ پیاس لگی (پیار آیا) تو پانی پی لیا پر باپ کی محبت یہ ہے کہ پیاس لگی تو خود کو اور اتنا زیادہ تھکایا کہ پیاس لگتے لگتے اپنی موت آپ مر گئی۔
باپ کی محبت اولاد سے ماسوائے اسکے اور کچھ نہیں مانگتی کہ "باپ" کو زندہ رکھا جاۓ، پھر چاہے وہ چارپائی پر پڑا کوئی بہت ہی بیمار اور کمزور انسان ہی کیوں نہ ہو،
اگر اسکے اندر کا "باپ" زندہ ہے تو یقین جانیئے اسے زندگی میں اور کسی شے کی خواہش اور ضرورت نہیں ہے،
اگر آپ کے والد صاحب سلامت ہیں تو خدارا انکے "اندر کا باپ" زندہ رکھئیے،
یہ اس "بوڑھے شخص" کا آپ پر حق اور آپ پر قرض ہے۔ جسے آپ نے فرض سمجھ کر ادا کرنا ہے..
حدیث شریف ھے۔۔۔
1= والد کی رضا اللہ تعالٰی کی رضا، والد کی ناراضگی آللہ تعالٰی کی ناراضگی ھے۔
2= والد کی دعا اولاد کے لئے وہ رد نہیں ھوتی۔
3= جس نے زندگی میں اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو پایا مگر جنت میں نہ جا سکا اس کے لئے ویل (خرابی) ھے۔
اس لئے والدین کی خدمت پل بھر کے لئے جنت لے جاتی ھے۔ والد خوش ھوا۔ والد کی چھوٹی سے چھوٹی دعا یارب العالمین میری اولاد کو دونوں جہان میں کامیاب فرما۔ آمین۔
باپ کی دعا رد نہیں ھوتی۔ ھمیں چاہیے کہ انہیں خوش رکھیں اس میں یہ شرط نہیں سو یا پچاس یا سال مہینہ یا گھنٹہ خدمت کرنی ھے بس راضی کرنا کافی ھے اور ناراضگی سے بچنا ھے۔
زندہ ھیں توان سے دعا لو۔ نہیں تو دعا دو۔
اللہ تعالٰی ھمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین۔
http://t.me/islamwitheman/2472
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
🌺 والدین کی ضرورت 🌺
ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ كا ﭘﻨﮑﭽﺮ ﻟﮕﻮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﯿﮟ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮨﻔﺘﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺟﺎؤﮞ ﺗﻮ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ۔ ﺩﯾﺮ ﺗﻮ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﮩﺎﮞ ﭘﭽﮭﻠﮯ ﺗﯿﻦ ﮨﻔﺘﮯ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﮔﺰﺍﺭ ﮨﯽ ﻟﻮﮞ ﺗﻮ ﮔﺮﻣﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﭼﮭﭩﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺑﺎﺭ ﭼﻼ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ۔…
ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ كا ﭘﻨﮑﭽﺮ ﻟﮕﻮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﯿﮟ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮨﻔﺘﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺟﺎؤﮞ ﺗﻮ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ۔ ﺩﯾﺮ ﺗﻮ ﻭﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﮩﺎﮞ ﭘﭽﮭﻠﮯ ﺗﯿﻦ ﮨﻔﺘﮯ ﮔﺰﺭ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﮔﺰﺍﺭ ﮨﯽ ﻟﻮﮞ ﺗﻮ ﮔﺮﻣﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﭼﮭﭩﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺑﺎﺭ ﭼﻼ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﺎ۔…
🌹 فتوؤں کا دشمن کون ہے؟ 🌹
اس کا جواب سادہ سا ہے وہی دشمن ہے جس کو فتوؤں سے نقصان پہنچتا ہے۔ آئیں تین فتوے عرض کرتا ہوں جو عالم اسلام میں بڑی تبدیلیوں کا سبب بنے۔
1= میرزا شیرازی کا فتوی:
جس طرح برصغیر پر قبضہ کرنے کے لیے انگریز نے ایسٹ انڈیا کمپنی کا بھیس اپنایا اسی طرح ایران پر قبضے کے لیے تمباکو کی تجارت کا بہانہ کیا۔ جب اس سازش کی خبر اس زمانے کے مرجع تقلید میرزا شیرازی کو ہوئی تو انہوں نے ایک جملہ تحریر فرمایا۔
"آج کے بعد تمباکو کا ہر طرح کا استعمال امام زمان ع سے جنگ کے مترادف ہے۔"
بس پھر کیا تھا اس قدر عوام اپنے مرجع کے حکم کی پیرو تھی کہ نوبت بہ اینجا رسید کہ حتی ایران کے بادشاہ کی بیوی نے خادموں کو حکم دے دیا کہ آج بادشاہ کا حقہ آمادہ نہ کیا جاۓ۔ حب بادشاہ نے خادموں سے سوال کیا کہ حقہ آمادہ کیوں نہیں تو جواب ملا آپ کی بیگم نے حکم دیا ہے۔ جب بیگم سے سوال کیا تو جواب ملا جس فقیہ کے فتوی سے میں آپ پر حلال ہوں اسی فقیہ کے حکم سے تمباکو حرام ہے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ استعماری طاقتیں ایران پر قبضہ نہ کر سکیں۔
آپ موازنہ فرمائیں کہ ہمیں برصغیر سے انگریز سے آزادی کےلئے کتنی قربانیاں دینی پڑیں اور یہاں ایک فقیہ کی ایک سطر نے کیا کام کر دیا اسے کہتے ہیں عالم کے قلم کی سیاہی شہید کے خون سے برتر ہے۔
2= خمینی بت شکن کا فتوی:
10 فروری1979 کی شام تھی شاہ ایران فرار کر چکا تھا اور مارشل لاء لگ چکا تھا حکم یہ تھا کہ جو گھر سے باہر آۓ گا گولیوں سے بھون دیا جاۓ گا۔ ادھر خمینی باطل شکن نے فتوی دیا
آج گھر میں رہنا حرام ہے۔
آقای طالقانی نے فون کرکے سوال کیا کہ آقا ہو سکتا ہے فتوی پر نظرثانی کر لیں۔ کتنے لوگوں کا خون بہہ جائے گا؟ جواب ملا "اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا ہوں"۔ آقا طالقانی کہتے ہیں میں سمجھ گیا کہ یہ امام زمان ع کا حکم ہے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا کے اندر کرہ ارضی پر مولا علی علیہ السلام کے بعد پہلی علی ولی اللہ کے عاشقان اور عالم بہ علوم اہلبیت ع کی حکومت قائم ہوئی۔
3= آیت اللہ سیستانی کا فتوی:
امریکہ و اسرائیل کی پشت پناہی میں داعش عراق اور شام کے بڑے حصے پر قبضہ کر چکی تھی۔ سامرہ، کاظمین، نجف، کربلا اور حضرت زینب س کا روضہ خطرے میں تھا۔ عراق اور شام کی آرمی بے بس ہو چکی تھی۔ اتنے میں آیت اللہ سیستانی نے فتوی دیا جو دفاع کے لیے نکل سکتا ہے اس پر نکلنا واجب ہے۔
بس پھر کیا تھا عوامی رضا کار فوج تشکیل پائی۔
نتیجہ کیا نکلا داعش کے ناپاک وجود سے یہ پاک سرزمین پاک ہو گئی۔
مومنین کرام آپ سمجھ گئے ہیں کہ آج جو فتوؤں کے خلاف اتنی شد و مد سے آوازیں بلند ہو رہی ہیں ان کے پیچھے کون سی طاقتیں ہیں؟
خدارا ان کو پہچانیں یہ عزاداری، ولایت، حرمت سادات وغیرہ کے مقدس ناموں کو استعمال کر رہے ہیں۔
ہر ماتمی، عزادار، بانی مجلس، عاشق اہلبیت ع، زائر امام حسین علیہ السلام کا فریضہ بنتا ہے کہ ان کالی بھیڑوں کو اپنی صفوں سے دور کرکے دین کے دشمنوں کے مقابلے میں اپنی وحدت کو محفوظ رکھیں۔
✍️ عمران حیدر از قم المقدس
🌹 پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لیے ضرور شیئر کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
👈 مزید پوسٹس دیکھنے کے لئے مطلوبہ پوسٹ کے لنک پر کلک کریں۔۔۔۔
🔵 تقلید کی ضرورت
https://t.me/islamwitheman/357
🔵 تقلید کیوں واجب ہے؟
https://t.me/islamwitheman/358
🔵 شرائط تقلید
https://t.me/islamwitheman/359
🔷 یہ مجتہد کہاں سے آ گئے؟
http://t.me/islamwitheman/1139
🔷 مرجع کی عظمت و مقام
https://t.me/islamwitheman/1936
🔷 کس نے کہا تقلید کرو؟
https://t.me/islamwitheman/2390
🔷 جس سے پوچھو وہی مفتی
http://t.me/islamwitheman/2425
🔷 غیر مقلد بچہ
https://t.me/islamwitheman/2433
🔷 مجتہد۔۔۔؟
https://t.me/islamwitheman/2434
🌹 فتوؤں کا دشمن کون ہے؟
https://t.me/islamwitheman/2479
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
اس کا جواب سادہ سا ہے وہی دشمن ہے جس کو فتوؤں سے نقصان پہنچتا ہے۔ آئیں تین فتوے عرض کرتا ہوں جو عالم اسلام میں بڑی تبدیلیوں کا سبب بنے۔
1= میرزا شیرازی کا فتوی:
جس طرح برصغیر پر قبضہ کرنے کے لیے انگریز نے ایسٹ انڈیا کمپنی کا بھیس اپنایا اسی طرح ایران پر قبضے کے لیے تمباکو کی تجارت کا بہانہ کیا۔ جب اس سازش کی خبر اس زمانے کے مرجع تقلید میرزا شیرازی کو ہوئی تو انہوں نے ایک جملہ تحریر فرمایا۔
"آج کے بعد تمباکو کا ہر طرح کا استعمال امام زمان ع سے جنگ کے مترادف ہے۔"
بس پھر کیا تھا اس قدر عوام اپنے مرجع کے حکم کی پیرو تھی کہ نوبت بہ اینجا رسید کہ حتی ایران کے بادشاہ کی بیوی نے خادموں کو حکم دے دیا کہ آج بادشاہ کا حقہ آمادہ نہ کیا جاۓ۔ حب بادشاہ نے خادموں سے سوال کیا کہ حقہ آمادہ کیوں نہیں تو جواب ملا آپ کی بیگم نے حکم دیا ہے۔ جب بیگم سے سوال کیا تو جواب ملا جس فقیہ کے فتوی سے میں آپ پر حلال ہوں اسی فقیہ کے حکم سے تمباکو حرام ہے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ استعماری طاقتیں ایران پر قبضہ نہ کر سکیں۔
آپ موازنہ فرمائیں کہ ہمیں برصغیر سے انگریز سے آزادی کےلئے کتنی قربانیاں دینی پڑیں اور یہاں ایک فقیہ کی ایک سطر نے کیا کام کر دیا اسے کہتے ہیں عالم کے قلم کی سیاہی شہید کے خون سے برتر ہے۔
2= خمینی بت شکن کا فتوی:
10 فروری1979 کی شام تھی شاہ ایران فرار کر چکا تھا اور مارشل لاء لگ چکا تھا حکم یہ تھا کہ جو گھر سے باہر آۓ گا گولیوں سے بھون دیا جاۓ گا۔ ادھر خمینی باطل شکن نے فتوی دیا
آج گھر میں رہنا حرام ہے۔
آقای طالقانی نے فون کرکے سوال کیا کہ آقا ہو سکتا ہے فتوی پر نظرثانی کر لیں۔ کتنے لوگوں کا خون بہہ جائے گا؟ جواب ملا "اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا ہوں"۔ آقا طالقانی کہتے ہیں میں سمجھ گیا کہ یہ امام زمان ع کا حکم ہے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا کے اندر کرہ ارضی پر مولا علی علیہ السلام کے بعد پہلی علی ولی اللہ کے عاشقان اور عالم بہ علوم اہلبیت ع کی حکومت قائم ہوئی۔
3= آیت اللہ سیستانی کا فتوی:
امریکہ و اسرائیل کی پشت پناہی میں داعش عراق اور شام کے بڑے حصے پر قبضہ کر چکی تھی۔ سامرہ، کاظمین، نجف، کربلا اور حضرت زینب س کا روضہ خطرے میں تھا۔ عراق اور شام کی آرمی بے بس ہو چکی تھی۔ اتنے میں آیت اللہ سیستانی نے فتوی دیا جو دفاع کے لیے نکل سکتا ہے اس پر نکلنا واجب ہے۔
بس پھر کیا تھا عوامی رضا کار فوج تشکیل پائی۔
نتیجہ کیا نکلا داعش کے ناپاک وجود سے یہ پاک سرزمین پاک ہو گئی۔
مومنین کرام آپ سمجھ گئے ہیں کہ آج جو فتوؤں کے خلاف اتنی شد و مد سے آوازیں بلند ہو رہی ہیں ان کے پیچھے کون سی طاقتیں ہیں؟
خدارا ان کو پہچانیں یہ عزاداری، ولایت، حرمت سادات وغیرہ کے مقدس ناموں کو استعمال کر رہے ہیں۔
ہر ماتمی، عزادار، بانی مجلس، عاشق اہلبیت ع، زائر امام حسین علیہ السلام کا فریضہ بنتا ہے کہ ان کالی بھیڑوں کو اپنی صفوں سے دور کرکے دین کے دشمنوں کے مقابلے میں اپنی وحدت کو محفوظ رکھیں۔
✍️ عمران حیدر از قم المقدس
🌹 پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لیے ضرور شیئر کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
👈 مزید پوسٹس دیکھنے کے لئے مطلوبہ پوسٹ کے لنک پر کلک کریں۔۔۔۔
🔵 تقلید کی ضرورت
https://t.me/islamwitheman/357
🔵 تقلید کیوں واجب ہے؟
https://t.me/islamwitheman/358
🔵 شرائط تقلید
https://t.me/islamwitheman/359
🔷 یہ مجتہد کہاں سے آ گئے؟
http://t.me/islamwitheman/1139
🔷 مرجع کی عظمت و مقام
https://t.me/islamwitheman/1936
🔷 کس نے کہا تقلید کرو؟
https://t.me/islamwitheman/2390
🔷 جس سے پوچھو وہی مفتی
http://t.me/islamwitheman/2425
🔷 غیر مقلد بچہ
https://t.me/islamwitheman/2433
🔷 مجتہد۔۔۔؟
https://t.me/islamwitheman/2434
🌹 فتوؤں کا دشمن کون ہے؟
https://t.me/islamwitheman/2479
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
🔷 تقلید کی ضرورت 🔷
عقلًا اور شرعًا جو شخص آيات اور روايات سے حكم شرعى كا استنباط نہيں كر سكتا اسے ’’تقليدِ فقہى‘‘ كرنا ضرورى ہے.
جو شخص خود تقليد كے مرحلہ ميں ہو اور بعض ايسى روايات پيش كرے جو اس كے خيال ميں قابلِ بحث ہيں، اس كى مثال اس مريض كى سى ہے جسے…
عقلًا اور شرعًا جو شخص آيات اور روايات سے حكم شرعى كا استنباط نہيں كر سكتا اسے ’’تقليدِ فقہى‘‘ كرنا ضرورى ہے.
جو شخص خود تقليد كے مرحلہ ميں ہو اور بعض ايسى روايات پيش كرے جو اس كے خيال ميں قابلِ بحث ہيں، اس كى مثال اس مريض كى سى ہے جسے…
☺️ پریشان نہ ہوں 😔
کچھ لوگ اپنی تعلیم 22 سال کی عمر میں مکمل کر لیتے ہیں۔ مگر ان کو پانچ پانچ سال تک کوئی اچھی نوکری نہیں ملتی۔
کچھ لوگ 25 سال کی عمر میں کسی کپمنی کے CEO بن جاتے ہیں اور 50 سال کی عمر میں ہمیں پتہ چلتا ہے انکا انتقال ہو گیا ہے۔
جبکہ کچھ لوگ 50 سال کی عمر میں CEO بنتے ہیں اور نوے سال تک حیات رہتے ہیں۔
بہترین روزگار ہونے کے باوجود کچھ لوگ ابھی تک غیر شادی شدہ ہیں اور کچھ لوگ بغیر روزگار کے بھی شادی کر چکے ہیں اور روزگار والوں سے زیادہ خوش ہیں۔
اوبامہ 55 سال کی عمر میں ریٹائر ہو گیا جبکہ ٹرمپ 70 سال کی عمر میں شروعات کرتا ہے۔۔۔
کچھ لیجنڈ امتحان میں فیل ہونے پر بھی مسکرا دیتے ہیں اور کچھ لوگ 1 نمبر کم آنے پر بھی رو دیتے ہیں۔۔۔۔
کسی کو بغیر کوشش کے بھی بہت کچھ مل گیا اور کچھ ساری زندگی بس ایڑیاں ہی رگڑتے رہے۔۔
اس دنیا میں ہر شخص اپنے Time zone کی بنیاد پر کام کر رہا ہے۔ ظاہری طور پر ہمیں ایسا لگتا ہے کچھ لوگ ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں اور شاید ایسا بھی لگتا ہو کچھ ہم سے ابھی تک پیچھے ہیں لیکن ہر شخص اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہے اپنے اپنے وقت کے مطابق۔ ان سے حسد مت کیجئے۔ اپنے اپنے Time zone میں رہیں۔۔
انتظار کیجئے اور اطمینان رکھیئے۔
نہ ہی آپ کو دیر ہوئی ہے اور نہ ہی جلدی۔
اللہ رب العزت جو کائنات کا سب سے عظیم الشان ہے اس نے ہم سب کو اپنے حساب سے ڈیزائن کیا ہے وہ جانتا ہے کون کتنا بوجھ اٹھا سکتا . کس کو کس وقت کیا دینا ہے. اپنے آپ کو رب کی رضا کے ساتھ باندھ دیجئے اور یقین رکھیئے کہ اللہ کی طرف سے آسمان سے ہمارے لیے جو فیصلہ اتارا جاتا ہے وہ ہی بہترین ہے۔۔۔
💞 خوش رہیں سلامت رہیں 💞
🌹 پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لیے ضرور شیئر کریں۔
http://t.me/islamwitheman/2467
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
کچھ لوگ اپنی تعلیم 22 سال کی عمر میں مکمل کر لیتے ہیں۔ مگر ان کو پانچ پانچ سال تک کوئی اچھی نوکری نہیں ملتی۔
کچھ لوگ 25 سال کی عمر میں کسی کپمنی کے CEO بن جاتے ہیں اور 50 سال کی عمر میں ہمیں پتہ چلتا ہے انکا انتقال ہو گیا ہے۔
جبکہ کچھ لوگ 50 سال کی عمر میں CEO بنتے ہیں اور نوے سال تک حیات رہتے ہیں۔
بہترین روزگار ہونے کے باوجود کچھ لوگ ابھی تک غیر شادی شدہ ہیں اور کچھ لوگ بغیر روزگار کے بھی شادی کر چکے ہیں اور روزگار والوں سے زیادہ خوش ہیں۔
اوبامہ 55 سال کی عمر میں ریٹائر ہو گیا جبکہ ٹرمپ 70 سال کی عمر میں شروعات کرتا ہے۔۔۔
کچھ لیجنڈ امتحان میں فیل ہونے پر بھی مسکرا دیتے ہیں اور کچھ لوگ 1 نمبر کم آنے پر بھی رو دیتے ہیں۔۔۔۔
کسی کو بغیر کوشش کے بھی بہت کچھ مل گیا اور کچھ ساری زندگی بس ایڑیاں ہی رگڑتے رہے۔۔
اس دنیا میں ہر شخص اپنے Time zone کی بنیاد پر کام کر رہا ہے۔ ظاہری طور پر ہمیں ایسا لگتا ہے کچھ لوگ ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں اور شاید ایسا بھی لگتا ہو کچھ ہم سے ابھی تک پیچھے ہیں لیکن ہر شخص اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہے اپنے اپنے وقت کے مطابق۔ ان سے حسد مت کیجئے۔ اپنے اپنے Time zone میں رہیں۔۔
انتظار کیجئے اور اطمینان رکھیئے۔
نہ ہی آپ کو دیر ہوئی ہے اور نہ ہی جلدی۔
اللہ رب العزت جو کائنات کا سب سے عظیم الشان ہے اس نے ہم سب کو اپنے حساب سے ڈیزائن کیا ہے وہ جانتا ہے کون کتنا بوجھ اٹھا سکتا . کس کو کس وقت کیا دینا ہے. اپنے آپ کو رب کی رضا کے ساتھ باندھ دیجئے اور یقین رکھیئے کہ اللہ کی طرف سے آسمان سے ہمارے لیے جو فیصلہ اتارا جاتا ہے وہ ہی بہترین ہے۔۔۔
💞 خوش رہیں سلامت رہیں 💞
🌹 پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لیے ضرور شیئر کریں۔
http://t.me/islamwitheman/2467
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
🔷 منفی سوچ 🔷
’’زندگی بدلنا چاہتے ہو تو سب سے پہلے سوچ کو بدلنا ہوگا!‘‘
لاطینی کہاوت ہے کہ سوچ انسانی زندگی کے اہم ترین عوامل میں سے ہے۔ آپ ویسے ہی ہیں جیسی آپ کی سوچ ہے۔ لہٰذا، سوچ کے طریقہ کار کو سمجھنا اور اسے قابو میں رکھنے کا فن سیکھنا بہت ضروری ہے۔…
’’زندگی بدلنا چاہتے ہو تو سب سے پہلے سوچ کو بدلنا ہوگا!‘‘
لاطینی کہاوت ہے کہ سوچ انسانی زندگی کے اہم ترین عوامل میں سے ہے۔ آپ ویسے ہی ہیں جیسی آپ کی سوچ ہے۔ لہٰذا، سوچ کے طریقہ کار کو سمجھنا اور اسے قابو میں رکھنے کا فن سیکھنا بہت ضروری ہے۔…
🌷 نیک دل بادشاہ 🌷
ﺍﯾﮏ ﻣﻠﮏ ﮐﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺑﮩﺖ ﺭﺣﻢ ﺩﻝ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﮏ ﺗﮭﺎ- ﺭﻋﺎﯾﺎ ﮐﮯ ﺣﻖ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﺭﻋﺎﯾﺎ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍُﺳﮯﺧﻮﺏ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﺩﯾﺘﯽ ﺗﮭﯽ-
ﺍﺳﯽ ﻣﻠﮏ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺭ ﺩﺭﺍﺯ ﮔﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮐﺴﺎﻥ ﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺟﺲ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﯿﮏ ﺩﻝ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﺯﯾﺎﺭﺕ ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﺤﻔﮧ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ-
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺳﮯ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﻣَﯿﮟ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ ﻣﻠﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣَﯿﮟ ﺍسے ﮐﻮﺋﯽ ﺗﺤﻔﮧ ﺑﮭﯽﺩﻭﮞ- ﺗﻢ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﺩﻭ ﮐﮧ ﻣَﯿﮟ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﯿﺎ ﺗﺤﻔﮧ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺟﺎﺅﮞ۔ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺳﻮﭼﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺗﻮ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﮨﻮ ﮔﯽ، ﮨﻢ ﺍﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﺗﺤﻔﮧ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﮨﺎﮞ ﻣﯿﺮﺍ ﺍﯾﮏ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﮩﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﭼﺸﻤﮯ ﮐﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﺑﮩﺖ ﻣﯿﭩﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭨﮭﻨﮉﺍ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﻮﺭﮮ ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺣﺘﯽٰ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﺎ۔ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﯾﮧ ﭘﺎﻧﯽ ﻟﮯ ﺟﺎﺅ-
ﮐﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺗﺠﻮﯾﺰ ﭘﺴﻨﺪ ﺁ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﺸﻤﮯ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺩﻭ ﮔﮭﮍﮮ ﺑﮭﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﺪﮬﮯ ﭘﺮ ﻻﺩ ﮐﺮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺳﮯ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮﮔﯿﺎ-
ﮐﺌﯽ ﮨﻔﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﻔﺮ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﺴﺎﻥ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﻣﺤﻞ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﭼﺎﮨﯽ- ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻣﻠﻨﮯ ﭘﺮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ ﺗﺤﻔﮧ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍُﺳﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﺎﺅﮞ ﮐﮯ ﭼﺸﻤﮯ ﮐﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﺎ ﻣﯿﭩﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭨﮭﻨﮉﺍ ﭘﺎﻧﯽ ﺁﭖ ﮐﻮ ﭘﻮﺭﮮ ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ۔
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﺍﺷﺎﺭﮮ ﭘﺮ ﻭﺯﯾﺮ ﻧﮯ ﮔﮭﮍﮮ ﮐﺎ ﮈﮬﮑﻦ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﮐﺌﯽ ﮨﻔﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﻔﺮ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﺪﺑﻮ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ- ﻭﺯﯾﺮ ﻧﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﺎ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺁﻭﺍﺯ ﺑﻠﻨﺪ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺍﺱ ﺗﺤﻔﮯ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﺰﺍﻧﭽﯽ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﮍﻭﮞﮐﻮ ﺳﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﮭﺮ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ- ﮐﺴﺎﻥ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﺍ-
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﻭﺯﯾﺮ ﮐﻮ ﺑﻼ ﮐﺮ ﭼﭙﮑﮯ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﮔﺮﺍ ﺩﯾﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺭﺳﺘﮯ ﺳﮯ ﮔﺰﺍﺭﻧﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭼﺸﻤﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﺎﮐﮧﺍﺱ کو ﻋﻠﻢ ﮨﻮ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﭼﺸﻤﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮑﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﺘﻨﺎ ﭨﮭﻨﮉﺍ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﺣﺖ ﺑﺨﺶ ﮨﮯ-
چنانچہ ﺟﺐ ﮐﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺍﻧﻌﺎﻣﺎﺕ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻥ ﭼﺸﻤﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺳﮯ ﮔﺰﺍﺭﺍ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺗﺤﻔﮧ ﮐﺘﻨﺎ ﺣﻘﯿﺮ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺍﺳﮑﮯ ﺣﻘﯿﺮ ﺗﺤﻔﮯ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﺳﮯﺍﻧﻌﺎﻡ ﺳﮯ ﻧﻮﺍﺯﺍ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﻋﻘﯿﺪﺕ ﺍﻭﺭ ﺑﮍﮪ ﮔﺌﯽ-
🔘 ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻋﺒﺎﺩﺍﺕ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﺣﺎﻝ ﮨﮯ- ﮨﻢ ﺟﻮ ﭨﻮﭨﯽ ﭘﮭﻮﭨﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﻢ ﺍﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﯽ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﮐﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ- ﺍﻥ ﻋﺒﺎﺩﺍﺕ ﮐﯽ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﻭﮦ ﻣﺎﻟﮏ ﺍلملک ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﺍﻥ ﻋﺒﺎﺩﺍﺕ ﮐﻮ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺑﯿﺶﺑﮩﺎ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﻮﺍﺯﺗﺎ ﮨﮯ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﺍﺳﮯ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻋﺒﺎﺩﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﺧﺎﻟﻖِ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﮐﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﮐﺮﻭﮌﻭﮞ ﻓﺮﺷﺘﮯ ﮨﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﯿﮟ...
🌹 پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لئے شیئر ضرور کریں۔
http://t.me/islamwitheman/2418
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
ﺍﯾﮏ ﻣﻠﮏ ﮐﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺑﮩﺖ ﺭﺣﻢ ﺩﻝ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﮏ ﺗﮭﺎ- ﺭﻋﺎﯾﺎ ﮐﮯ ﺣﻖ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﺭﻋﺎﯾﺎ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍُﺳﮯﺧﻮﺏ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﺩﯾﺘﯽ ﺗﮭﯽ-
ﺍﺳﯽ ﻣﻠﮏ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺭ ﺩﺭﺍﺯ ﮔﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮐﺴﺎﻥ ﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺟﺲ ﮐﯽ ﯾﮧ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﯿﮏ ﺩﻝ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﺯﯾﺎﺭﺕ ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﺤﻔﮧ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ-
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺳﮯ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﻣَﯿﮟ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ ﻣﻠﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣَﯿﮟ ﺍسے ﮐﻮﺋﯽ ﺗﺤﻔﮧ ﺑﮭﯽﺩﻭﮞ- ﺗﻢ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﺩﻭ ﮐﮧ ﻣَﯿﮟ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﯿﺎ ﺗﺤﻔﮧ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺟﺎﺅﮞ۔ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺳﻮﭼﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺗﻮ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﮨﻮ ﮔﯽ، ﮨﻢ ﺍﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﺗﺤﻔﮧ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﮨﺎﮞ ﻣﯿﺮﺍ ﺍﯾﮏ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﮩﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﭼﺸﻤﮯ ﮐﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﺑﮩﺖ ﻣﯿﭩﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭨﮭﻨﮉﺍ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﻮﺭﮮ ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺣﺘﯽٰ ﮐﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﮔﺎ۔ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﯾﮧ ﭘﺎﻧﯽ ﻟﮯ ﺟﺎﺅ-
ﮐﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺗﺠﻮﯾﺰ ﭘﺴﻨﺪ ﺁ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﺸﻤﮯ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺩﻭ ﮔﮭﮍﮮ ﺑﮭﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﺪﮬﮯ ﭘﺮ ﻻﺩ ﮐﺮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺳﮯ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮﮔﯿﺎ-
ﮐﺌﯽ ﮨﻔﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﻔﺮ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮐﺴﺎﻥ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﻣﺤﻞ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﭼﺎﮨﯽ- ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻣﻠﻨﮯ ﭘﺮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ ﺗﺤﻔﮧ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍُﺳﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﺎﺅﮞ ﮐﮯ ﭼﺸﻤﮯ ﮐﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﺎ ﻣﯿﭩﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭨﮭﻨﮉﺍ ﭘﺎﻧﯽ ﺁﭖ ﮐﻮ ﭘﻮﺭﮮ ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ۔
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﺍﺷﺎﺭﮮ ﭘﺮ ﻭﺯﯾﺮ ﻧﮯ ﮔﮭﮍﮮ ﮐﺎ ﮈﮬﮑﻦ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﮐﺌﯽ ﮨﻔﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﻔﺮ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﺪﺑﻮ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ- ﻭﺯﯾﺮ ﻧﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﺎ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺁﻭﺍﺯ ﺑﻠﻨﺪ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺍﺱ ﺗﺤﻔﮯ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﺰﺍﻧﭽﯽ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﮍﻭﮞﮐﻮ ﺳﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﮭﺮ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ- ﮐﺴﺎﻥ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﺍ-
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﻭﺯﯾﺮ ﮐﻮ ﺑﻼ ﮐﺮ ﭼﭙﮑﮯ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﮔﺮﺍ ﺩﯾﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺭﺳﺘﮯ ﺳﮯ ﮔﺰﺍﺭﻧﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭼﺸﻤﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﺎﮐﮧﺍﺱ کو ﻋﻠﻢ ﮨﻮ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﭼﺸﻤﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮑﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﺘﻨﺎ ﭨﮭﻨﮉﺍ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﺣﺖ ﺑﺨﺶ ﮨﮯ-
چنانچہ ﺟﺐ ﮐﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺍﻧﻌﺎﻣﺎﺕ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻥ ﭼﺸﻤﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺳﮯ ﮔﺰﺍﺭﺍ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺗﺤﻔﮧ ﮐﺘﻨﺎ ﺣﻘﯿﺮ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺍﺳﮑﮯ ﺣﻘﯿﺮ ﺗﺤﻔﮯ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﺳﮯﺍﻧﻌﺎﻡ ﺳﮯ ﻧﻮﺍﺯﺍ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﻋﻘﯿﺪﺕ ﺍﻭﺭ ﺑﮍﮪ ﮔﺌﯽ-
🔘 ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻋﺒﺎﺩﺍﺕ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﺣﺎﻝ ﮨﮯ- ﮨﻢ ﺟﻮ ﭨﻮﭨﯽ ﭘﮭﻮﭨﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﻢ ﺍﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﯽ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﮐﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ- ﺍﻥ ﻋﺒﺎﺩﺍﺕ ﮐﯽ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﻭﮦ ﻣﺎﻟﮏ ﺍلملک ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﺍﻥ ﻋﺒﺎﺩﺍﺕ ﮐﻮ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺑﯿﺶﺑﮩﺎ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﻮﺍﺯﺗﺎ ﮨﮯ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﺍﺳﮯ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻋﺒﺎﺩﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﺧﺎﻟﻖِ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﮐﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﮐﺮﻭﮌﻭﮞ ﻓﺮﺷﺘﮯ ﮨﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﯿﮟ...
🌹 پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لئے شیئر ضرور کریں۔
http://t.me/islamwitheman/2418
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
🔷 بعض لوگ کیوں نماز نہیں پڑهتے؟ 🔷
ایک دوست نے اپنے نماز پڑهنے کی یہ وجہ بیان کی:
بہت آسانی سے میں نمازی بن گیا-
ایک دن میں کلاس میں بیٹها ہوا تها اور میری کلاس کا مضمون علوم دينی تها- جب استاد کلاس میں تشریف لائے تو انہوں نے شاگردوں سے سؤال کیا:
آپ کی…
ایک دوست نے اپنے نماز پڑهنے کی یہ وجہ بیان کی:
بہت آسانی سے میں نمازی بن گیا-
ایک دن میں کلاس میں بیٹها ہوا تها اور میری کلاس کا مضمون علوم دينی تها- جب استاد کلاس میں تشریف لائے تو انہوں نے شاگردوں سے سؤال کیا:
آپ کی…
🌸 صدقہ بلاؤں کو ٹال دیتا ہے 🌸
ایک نوجوان نے کسی تنگدست بوڑھے کی مدد کی تھی۔ گردش زمانہ سے یہ نوجوان کسی سنگین جرم میں گرفتار ہوا اور اس کو قتل کی سزا سنائی گئی، سپاہی اس کو لے کر قتل گاہ کی طرف روانہ ہوئے تو تماشہ دیکھنے کے لئے سارا شہر امنڈ آیا۔ ان میں وہ بوڑھا بھی تھا جس کی مدد اس نوجوان نے کی تھی۔
بوڑھے نے اپنے محسن کو اس حال میں دیکھا تو اس کا دل زخمی ہوا اور وہ زور زور سے رو کر دھائی دینے لگا۔۔۔
”ہائے لوگو! ہمارا نیک دل بادشاہ آج وفات پا گیا، افسوس آج دنیا تاریک ہو گئی۔"
سپاہیوں اور لوگوں نے جب یہ خبر سنی تو مارے پریشانی کے نوجوان کو وہی چھوڑ کر محل کی طرف بھاگے۔ بوڑھے نے فوراً اس نوجوان کی زنجیریں کھولیں اس کو بھگا کر خود وہاں بیٹھ گیا۔
سپاہی محل میں پہنچے تو بادشاہ وہیں موجود تھا، کھسیانے سے ہو کر وہ وہاں سے کھسک لئے۔ قتل گاہ میں آئے تو دیکھا سامنے بوڑھا بیٹھا ہے، جبکہ نوجوان نو دو گیارہ ہو گیا تھا۔
سپاہی ساری صورتحال سمجھ گئے۔ بوڑھے کو گرفتار کر کے بادشاہ کے پاس لے گئے اور سارا ماجرا سنا دیا۔ بادشاہ نے جو اپنے مرنے کی جھوٹی خبر سنی تو غضبناک ہو کر تخت سے اٹھ کھڑا ہوا اور گرج کر بولا:
"اے بوڑھے تیری اتنی ہمت کیسے ہوئی کہ تو نے میری موت کی جھوٹی خبر لوگوں میں پہنچا دی، آخر میں نے تیرا بگاڑا ہی کیا تھا؟"
بوڑھے نے نرم لہجے میں کہا؛ عالیجاہ! میرے ایک جھوٹ بولنے پہ آپ پر کوئی آنچ نہیں آئی۔ لیکن میرے محسن نوجوان کی جان بچ گئی، جس کو بے گناہ قتل کیا جا رہا تھا۔ جس وقت میں بھوکوں مر رہا تھا، تب اسی نوجوان کے دیئے ہوئے صدقے سے میں نے اپنے لئے اور اپنے خاندان کے لئے غذا کا بندوبست کیا تھا۔ آج اس کو بیگناہ مصیبت میں دیکھ کر مجھ سے رہا نہیں گیا، مجھ میں موجود انسانیت اور جوانمردی نے سر اٹھایا کہ میں اس کی جان بچاؤں، اسی مدد کی خاطر میں نے یہ حیلہ اپنایا۔"
بادشاہ نے جب یہ سنا تو اس نے اس نوجوان کی تعریف کی اور اس مقدمے کی از سر نو تحقیقات کا حکم دیا۔ خوش ہو کر اس بوڑھے فقیر کو انعام و اکرام دیا۔ اس نوجوان سے جب کوئی پوچھتا کہ تیری جان کیسے بچی؟ وہ جواب دیتا؛
"ایک حقیر سی رقم میرے کام آئی، جو اس سائل کو ضرورت کے وقت میں نے دی تھی۔"
🌹 پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لئے شیئر ضرور کریں۔
https://t.me/islamwitheman/2308
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
ایک نوجوان نے کسی تنگدست بوڑھے کی مدد کی تھی۔ گردش زمانہ سے یہ نوجوان کسی سنگین جرم میں گرفتار ہوا اور اس کو قتل کی سزا سنائی گئی، سپاہی اس کو لے کر قتل گاہ کی طرف روانہ ہوئے تو تماشہ دیکھنے کے لئے سارا شہر امنڈ آیا۔ ان میں وہ بوڑھا بھی تھا جس کی مدد اس نوجوان نے کی تھی۔
بوڑھے نے اپنے محسن کو اس حال میں دیکھا تو اس کا دل زخمی ہوا اور وہ زور زور سے رو کر دھائی دینے لگا۔۔۔
”ہائے لوگو! ہمارا نیک دل بادشاہ آج وفات پا گیا، افسوس آج دنیا تاریک ہو گئی۔"
سپاہیوں اور لوگوں نے جب یہ خبر سنی تو مارے پریشانی کے نوجوان کو وہی چھوڑ کر محل کی طرف بھاگے۔ بوڑھے نے فوراً اس نوجوان کی زنجیریں کھولیں اس کو بھگا کر خود وہاں بیٹھ گیا۔
سپاہی محل میں پہنچے تو بادشاہ وہیں موجود تھا، کھسیانے سے ہو کر وہ وہاں سے کھسک لئے۔ قتل گاہ میں آئے تو دیکھا سامنے بوڑھا بیٹھا ہے، جبکہ نوجوان نو دو گیارہ ہو گیا تھا۔
سپاہی ساری صورتحال سمجھ گئے۔ بوڑھے کو گرفتار کر کے بادشاہ کے پاس لے گئے اور سارا ماجرا سنا دیا۔ بادشاہ نے جو اپنے مرنے کی جھوٹی خبر سنی تو غضبناک ہو کر تخت سے اٹھ کھڑا ہوا اور گرج کر بولا:
"اے بوڑھے تیری اتنی ہمت کیسے ہوئی کہ تو نے میری موت کی جھوٹی خبر لوگوں میں پہنچا دی، آخر میں نے تیرا بگاڑا ہی کیا تھا؟"
بوڑھے نے نرم لہجے میں کہا؛ عالیجاہ! میرے ایک جھوٹ بولنے پہ آپ پر کوئی آنچ نہیں آئی۔ لیکن میرے محسن نوجوان کی جان بچ گئی، جس کو بے گناہ قتل کیا جا رہا تھا۔ جس وقت میں بھوکوں مر رہا تھا، تب اسی نوجوان کے دیئے ہوئے صدقے سے میں نے اپنے لئے اور اپنے خاندان کے لئے غذا کا بندوبست کیا تھا۔ آج اس کو بیگناہ مصیبت میں دیکھ کر مجھ سے رہا نہیں گیا، مجھ میں موجود انسانیت اور جوانمردی نے سر اٹھایا کہ میں اس کی جان بچاؤں، اسی مدد کی خاطر میں نے یہ حیلہ اپنایا۔"
بادشاہ نے جب یہ سنا تو اس نے اس نوجوان کی تعریف کی اور اس مقدمے کی از سر نو تحقیقات کا حکم دیا۔ خوش ہو کر اس بوڑھے فقیر کو انعام و اکرام دیا۔ اس نوجوان سے جب کوئی پوچھتا کہ تیری جان کیسے بچی؟ وہ جواب دیتا؛
"ایک حقیر سی رقم میرے کام آئی، جو اس سائل کو ضرورت کے وقت میں نے دی تھی۔"
🌹 پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لئے شیئر ضرور کریں۔
https://t.me/islamwitheman/2308
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
🌺 صدقہ کی پانچ اقسام 🌺
مولا علی علیہ السلام سے روایت ہے صدقہ کی پانچ اقسام ہوتی ہیں۔
1⃣ ایک درھم ثواب دس گنا
صحیح الجسم مومن کو صدقہ دینا۔
2⃣ ایک درھم ثواب ستر گنا
محتاج مومن کو صدقہ دینا۔
3⃣ ایک درھم ثواب سات سو گنا
محتاج رشتے دار کو صدقہ دینا۔
4⃣…
مولا علی علیہ السلام سے روایت ہے صدقہ کی پانچ اقسام ہوتی ہیں۔
1⃣ ایک درھم ثواب دس گنا
صحیح الجسم مومن کو صدقہ دینا۔
2⃣ ایک درھم ثواب ستر گنا
محتاج مومن کو صدقہ دینا۔
3⃣ ایک درھم ثواب سات سو گنا
محتاج رشتے دار کو صدقہ دینا۔
4⃣…
🔷 مثبت سوچ کیسے پیدا ھوتی ھے؟ 🔷
میاں کمرے میں ہیں۔
سامنے بچے کھیل رہے ہیں خاتون گھر میں پوچھا لگا رہی ہیں۔
کہ کچن میں دودھ جلنے کی بو آتی ہے۔
خاتون دوڑ کر کچن کی طرف جاتی ہے۔
اسی لمحے مین گیٹ پر کوئی بیل بجاتا ہے۔
میاں مین گیٹ کی طرف جانے کیلئے نکلتے ہیں اور
سامنے رکھی پوچھے کی بالٹی سے انہیں ٹھوکر لگتی ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
■ دو ردعمل ممکن ہیں۔
🔷 مثبت رد عمل:
خاتون جلدی سے آکر پوچھتی ہے: ’’آپ کو چوٹ تو نہیں لگی، میں جلدی میں بالٹی راستے سے ہٹانی بھول گئی؟‘‘
میاں نے کہا: ’’نہیں، آپ کی غلطی نہیں ہے۔ مجھے ہی دیکھ کر چلنا چاہئے تھا۔ میں نے ہی جلد بازی میں دھیان نہیں دیا۔‘‘
🔶 منفی رد عمل:
میاں نے چیخ کر کہا: ’’یہ کوئی بالٹی رکھنے کی جگہ ہے۔ تمہیں کوئی عقل نہیں؟‘‘
بیگم بھی چیخ کر کہتی ہے: ’’یہاں کچن بھی دیکھوں، پوچھا بھی لگاؤں، بچے بھی سنبھالوں وغیرہ وغیرہ۔‘‘ اور جھگڑا شروع ہو جاتا ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دونوں جگہ بچے مشاہدہ کر رہے ہیں۔
ایک جگہ وہ مسکرا دیں گے، دوسری جگہ وہ سہم جائیں گے۔
ایک جگہ انہوں نے سیکھا غلطی مان لو تاکہ دوہرائی نہ جائے۔
دوسری جگہ بچوں نے سیکھا اگرغلطی ہوگئی تو ہماری شامت آجانی ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
🔘 ایسے چھوٹے بڑے واقعات ہمارے گھروں میں اور ہماری روزمرہ کی زندگی میں روزانہ ہی رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم انہیں مثبت انداز میں ہینڈل کریں یا منفی انداز میں۔ ہمارا مثبت رویہ خوشگوار ماحول اور امن و سکون فراہم کرتا ہے جبکہ ہمارا منفی رویہ جھگڑا برپا کر کے ماحول کی خرابی اور امن و سکون کو غارت کرنے کا باعث بنتا ہے اور ہماری زندگی کو پریشان کن بناتا ہے۔ ہم اپنی سوچ اور رویے سے اپنے ماحول کو خوشگوار یا بدبودار بناتے ہیں۔ ہم اپنے امن و سکون کے خود خالق ہیں۔
’’اپنی غلطی کو مان لینا یا دوسروں کی غلطی سے درگزر کرنا‘‘، دونوں ہی مثبت رویہ اور مومن کی صفات ہیں۔
جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے۔۔۔
’’۔ ۔ ۔ جو غصہ کو پی لیتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرتے ہیں ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔‘‘ (134) سورة آل۔
لہٰذا ہمیں دین کی ان باتوں کو سیکھنا، سمجھنا اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے تب ہی ہم مثبت سوچ اور مثبت رویے کے ساتھ اپنے ماحول کو خوشگوار اور اپنی زندگی کو آسان بنا سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے۔ آمین۔
اصول: مثبت سوچ خوشگوار ماحول، پرسکون زندگی۔
🌹 پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لیے ضرور شیئر کریں۔
http://t.me/islamwitheman/2467
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
میاں کمرے میں ہیں۔
سامنے بچے کھیل رہے ہیں خاتون گھر میں پوچھا لگا رہی ہیں۔
کہ کچن میں دودھ جلنے کی بو آتی ہے۔
خاتون دوڑ کر کچن کی طرف جاتی ہے۔
اسی لمحے مین گیٹ پر کوئی بیل بجاتا ہے۔
میاں مین گیٹ کی طرف جانے کیلئے نکلتے ہیں اور
سامنے رکھی پوچھے کی بالٹی سے انہیں ٹھوکر لگتی ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
■ دو ردعمل ممکن ہیں۔
🔷 مثبت رد عمل:
خاتون جلدی سے آکر پوچھتی ہے: ’’آپ کو چوٹ تو نہیں لگی، میں جلدی میں بالٹی راستے سے ہٹانی بھول گئی؟‘‘
میاں نے کہا: ’’نہیں، آپ کی غلطی نہیں ہے۔ مجھے ہی دیکھ کر چلنا چاہئے تھا۔ میں نے ہی جلد بازی میں دھیان نہیں دیا۔‘‘
🔶 منفی رد عمل:
میاں نے چیخ کر کہا: ’’یہ کوئی بالٹی رکھنے کی جگہ ہے۔ تمہیں کوئی عقل نہیں؟‘‘
بیگم بھی چیخ کر کہتی ہے: ’’یہاں کچن بھی دیکھوں، پوچھا بھی لگاؤں، بچے بھی سنبھالوں وغیرہ وغیرہ۔‘‘ اور جھگڑا شروع ہو جاتا ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دونوں جگہ بچے مشاہدہ کر رہے ہیں۔
ایک جگہ وہ مسکرا دیں گے، دوسری جگہ وہ سہم جائیں گے۔
ایک جگہ انہوں نے سیکھا غلطی مان لو تاکہ دوہرائی نہ جائے۔
دوسری جگہ بچوں نے سیکھا اگرغلطی ہوگئی تو ہماری شامت آجانی ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
🔘 ایسے چھوٹے بڑے واقعات ہمارے گھروں میں اور ہماری روزمرہ کی زندگی میں روزانہ ہی رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم انہیں مثبت انداز میں ہینڈل کریں یا منفی انداز میں۔ ہمارا مثبت رویہ خوشگوار ماحول اور امن و سکون فراہم کرتا ہے جبکہ ہمارا منفی رویہ جھگڑا برپا کر کے ماحول کی خرابی اور امن و سکون کو غارت کرنے کا باعث بنتا ہے اور ہماری زندگی کو پریشان کن بناتا ہے۔ ہم اپنی سوچ اور رویے سے اپنے ماحول کو خوشگوار یا بدبودار بناتے ہیں۔ ہم اپنے امن و سکون کے خود خالق ہیں۔
’’اپنی غلطی کو مان لینا یا دوسروں کی غلطی سے درگزر کرنا‘‘، دونوں ہی مثبت رویہ اور مومن کی صفات ہیں۔
جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے مومن بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے۔۔۔
’’۔ ۔ ۔ جو غصہ کو پی لیتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرتے ہیں ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔‘‘ (134) سورة آل۔
لہٰذا ہمیں دین کی ان باتوں کو سیکھنا، سمجھنا اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے تب ہی ہم مثبت سوچ اور مثبت رویے کے ساتھ اپنے ماحول کو خوشگوار اور اپنی زندگی کو آسان بنا سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے۔ آمین۔
اصول: مثبت سوچ خوشگوار ماحول، پرسکون زندگی۔
🌹 پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لیے ضرور شیئر کریں۔
http://t.me/islamwitheman/2467
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
🔷 منفی سوچ 🔷
’’زندگی بدلنا چاہتے ہو تو سب سے پہلے سوچ کو بدلنا ہوگا!‘‘
لاطینی کہاوت ہے کہ سوچ انسانی زندگی کے اہم ترین عوامل میں سے ہے۔ آپ ویسے ہی ہیں جیسی آپ کی سوچ ہے۔ لہٰذا، سوچ کے طریقہ کار کو سمجھنا اور اسے قابو میں رکھنے کا فن سیکھنا بہت ضروری ہے۔…
’’زندگی بدلنا چاہتے ہو تو سب سے پہلے سوچ کو بدلنا ہوگا!‘‘
لاطینی کہاوت ہے کہ سوچ انسانی زندگی کے اہم ترین عوامل میں سے ہے۔ آپ ویسے ہی ہیں جیسی آپ کی سوچ ہے۔ لہٰذا، سوچ کے طریقہ کار کو سمجھنا اور اسے قابو میں رکھنے کا فن سیکھنا بہت ضروری ہے۔…
🌹 داستان حیات 🌹
افریقہ کے گھنے جنگلات میں ایک آدمی جارہاتھا۔ اچانک اس نے ایک آواز سنی۔ آہستہ آہستہ یہ آواز بڑھتی اور واضح ہوتی جا رہی تھی۔ اس آدمی نے پیچھے کی طرف مڑکر دیکھا۔ اچانک کیا دیکھتا ہے کہ ایک بڑا شیر تیزی سے اس کی طرف دوڑتا ہوا آرہا ہے۔
اس آدمی نے بھی تیز تیز چلنا شروع کیا۔ جب شیر بہت ہی قریب آیا اور آدمی کو جان کے لالے پڑ گئے سو اس نے ایک پرانے کنویں میں چلانگ لگائی۔ درمیان میں ڈول کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور کنویں کے اندر ادھر ادھر جھول رہا تھا۔ خوف اور دوڑ کی وجہ سے سانس پھول رہی تھی۔
جب تھوڑا سا سکون ملا۔ خوف جاتا رہا اور شیر کی غرغراہٹ بھی ختم ہو گئی۔اچانک اس نے سانپ کی آواز سن لی اور محسوس کیا کہ ایک لمبا اور موٹا سانپ ہے جو کنویں کے اندر سے اس کی طرف لہراتا ہوا بڑھ رہا تھا۔
بیچارا اسی فکر میں تھا کہ کس طرح تین دشمنوں سے چھٹکارا پائے۔ مگر قدرت نے ابھی تک اس کے خوف و الم میں مزید اضافہ کرنا تھا۔ کیا دیکھتا ہے کہ دو چوہے سفید اور کالا، رسی کو کاٹنے کے لئے رسی کے اوپر کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
خوف کے مارے آدمی بڑی قوت کے ساتھ رسی کو ہلانے لگا تاکہ چوہے آخری سہارا اس سے نہ چھین لیں۔ وہ بہت اضطراب میں بڑی تیزی کے ساتھ رسی کو ہلا رہا تھا، ساتھ ساتھ ادھر ادھر دیواروں کے ساتھ ٹکر بھی کھا رہا تھا۔
اسی دوران اس کا بازو دیوار میں نرم و ملائم چیز کے ساتھ لگ گیا۔ جب اس طرف سر گھما کر دیکھا تو اس کے جسم میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ کیونکہ وہ شہد تھا۔ یہ اس شہدکی مکھی کا بنا ہوا شہد تھا جو وہ پہاڑوں میں، درختوں اور غاروں میں بناتی ہے۔ تو اس آدمی نے سارے دشمنوں سے بے فکر ہو کر بڑے مزے سے اسے کھانا شروع کردیا۔
اس مٹھاس میں وہ اتنا غرق ہو گیا کہ اوپر سے شیر، نیچے سے سانپ اور درمیان میں رسی پر چوہوں کو بھول ہی گیا۔
اچانک یہ آدمی نیند سے بیدار ہوا اور یہ ماحول اس کی نظروں سے غائب ہوگیا۔
اس نے فیصلہ کیا کہ اس خواب کی تعبیر کسی عالم سے پوچھ لوں گا۔
ایک عالم کے پاس تعبیر پوچھنے کی لئے آیا اور اسے پوری کہانی سنائی۔ عالم نے تبسم کرتے ہوئے پوچھا کیا تمہیں اس کی تعبیر معلوم نہیں!!
یہ جو شیر آپ کے پیچھے آرہاتھا یہ ملک الموت ہے۔ کنواں تیری قبر ہے، سانپ تیرا عمل ہے، رسی تیری عمر ہے۔ اور سفید اور کالا چوہا دن رات ہیں جو تمہاری عمر کو کاٹتے رہتے ہیں۔
آدمی نے پوچھا مولانا! وہ شہد کیا چیز تھی جسے میں بے خوفی میں کھا رہا تھا؟
عالم نے کہا وہ دنیا ہے جس نے دشمنوں کے گھیرے میں تمہیں ان کے وار سے غافل کر دیا۔
🔘 بس یہی دنیا کا خلاصہ ہے۔ اگر سمجھنے والے سمجھیں۔
🌹 پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لیے ضرور شیئر کریں۔
https://t.me/islamwitheman/2265
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
افریقہ کے گھنے جنگلات میں ایک آدمی جارہاتھا۔ اچانک اس نے ایک آواز سنی۔ آہستہ آہستہ یہ آواز بڑھتی اور واضح ہوتی جا رہی تھی۔ اس آدمی نے پیچھے کی طرف مڑکر دیکھا۔ اچانک کیا دیکھتا ہے کہ ایک بڑا شیر تیزی سے اس کی طرف دوڑتا ہوا آرہا ہے۔
اس آدمی نے بھی تیز تیز چلنا شروع کیا۔ جب شیر بہت ہی قریب آیا اور آدمی کو جان کے لالے پڑ گئے سو اس نے ایک پرانے کنویں میں چلانگ لگائی۔ درمیان میں ڈول کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور کنویں کے اندر ادھر ادھر جھول رہا تھا۔ خوف اور دوڑ کی وجہ سے سانس پھول رہی تھی۔
جب تھوڑا سا سکون ملا۔ خوف جاتا رہا اور شیر کی غرغراہٹ بھی ختم ہو گئی۔اچانک اس نے سانپ کی آواز سن لی اور محسوس کیا کہ ایک لمبا اور موٹا سانپ ہے جو کنویں کے اندر سے اس کی طرف لہراتا ہوا بڑھ رہا تھا۔
بیچارا اسی فکر میں تھا کہ کس طرح تین دشمنوں سے چھٹکارا پائے۔ مگر قدرت نے ابھی تک اس کے خوف و الم میں مزید اضافہ کرنا تھا۔ کیا دیکھتا ہے کہ دو چوہے سفید اور کالا، رسی کو کاٹنے کے لئے رسی کے اوپر کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
خوف کے مارے آدمی بڑی قوت کے ساتھ رسی کو ہلانے لگا تاکہ چوہے آخری سہارا اس سے نہ چھین لیں۔ وہ بہت اضطراب میں بڑی تیزی کے ساتھ رسی کو ہلا رہا تھا، ساتھ ساتھ ادھر ادھر دیواروں کے ساتھ ٹکر بھی کھا رہا تھا۔
اسی دوران اس کا بازو دیوار میں نرم و ملائم چیز کے ساتھ لگ گیا۔ جب اس طرف سر گھما کر دیکھا تو اس کے جسم میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ کیونکہ وہ شہد تھا۔ یہ اس شہدکی مکھی کا بنا ہوا شہد تھا جو وہ پہاڑوں میں، درختوں اور غاروں میں بناتی ہے۔ تو اس آدمی نے سارے دشمنوں سے بے فکر ہو کر بڑے مزے سے اسے کھانا شروع کردیا۔
اس مٹھاس میں وہ اتنا غرق ہو گیا کہ اوپر سے شیر، نیچے سے سانپ اور درمیان میں رسی پر چوہوں کو بھول ہی گیا۔
اچانک یہ آدمی نیند سے بیدار ہوا اور یہ ماحول اس کی نظروں سے غائب ہوگیا۔
اس نے فیصلہ کیا کہ اس خواب کی تعبیر کسی عالم سے پوچھ لوں گا۔
ایک عالم کے پاس تعبیر پوچھنے کی لئے آیا اور اسے پوری کہانی سنائی۔ عالم نے تبسم کرتے ہوئے پوچھا کیا تمہیں اس کی تعبیر معلوم نہیں!!
یہ جو شیر آپ کے پیچھے آرہاتھا یہ ملک الموت ہے۔ کنواں تیری قبر ہے، سانپ تیرا عمل ہے، رسی تیری عمر ہے۔ اور سفید اور کالا چوہا دن رات ہیں جو تمہاری عمر کو کاٹتے رہتے ہیں۔
آدمی نے پوچھا مولانا! وہ شہد کیا چیز تھی جسے میں بے خوفی میں کھا رہا تھا؟
عالم نے کہا وہ دنیا ہے جس نے دشمنوں کے گھیرے میں تمہیں ان کے وار سے غافل کر دیا۔
🔘 بس یہی دنیا کا خلاصہ ہے۔ اگر سمجھنے والے سمجھیں۔
🌹 پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لیے ضرور شیئر کریں۔
https://t.me/islamwitheman/2265
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
🔷 گوبر کا کیڑا 🔷
ﺟﻮ ﻟﻮﮒ ﺩﯾﮩﺎﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺩﯾﮩﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ (حشرات الارض) ﮐﯿﮍﺍ ﭘﺎﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﮔﻮﺑﺮ ﮐﺎ ﮐﯿﮍﺍ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺳﮯ ﮔﺎﺋﮯ، ﺑﮭﯿﻨﺲ ﮐﮯ ﮔﻮﺑﺮ ﮐﯽ ﺑﻮ ﺑﮩﺖ ﭘﺴﻨﺪ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ. ﻭﮦ ﺻﺒﺢ ﺍﭨﮫ ﮐﺮ ﮔﻮﺑﺮ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﻣﯿﮟ ﻧﮑﻞ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﺟﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﮔﻮﺑﺮ…
ﺟﻮ ﻟﻮﮒ ﺩﯾﮩﺎﺗﻮﮞ ﮐﮯ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺩﯾﮩﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ (حشرات الارض) ﮐﯿﮍﺍ ﭘﺎﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﺴﮯ ﮔﻮﺑﺮ ﮐﺎ ﮐﯿﮍﺍ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺳﮯ ﮔﺎﺋﮯ، ﺑﮭﯿﻨﺲ ﮐﮯ ﮔﻮﺑﺮ ﮐﯽ ﺑﻮ ﺑﮩﺖ ﭘﺴﻨﺪ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ. ﻭﮦ ﺻﺒﺢ ﺍﭨﮫ ﮐﺮ ﮔﻮﺑﺮ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﻣﯿﮟ ﻧﮑﻞ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﺟﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﮔﻮﺑﺮ…
🔷 منہ بولے بھائی بہن 🔷
کچھ لوگوں کو میرا مضمون اچھا لگے گا اور ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کو میرے مضمون سے بہت سا اختلاف بھی ہو۔۔۔
لیکن یہ بات برحق ہے کہ بھائی ہمارا صرف وہ ہی ہے جسے اللہ پاک نے بنایا ہے ۔۔۔ موبائل پہ یا انٹرنیٹ کی دنیا میں یا پھر آپکی حقیقی زندگی میں بننے والے بھائی آپکے بھائی کبھی نہیں ہو سکتے۔۔!! کیونکہ جن کے ساتھ اللہ پاک نے ہمارا رشتہ بھائی کا نہیں بنایا وہ ہمارے لیے نامحرم ہیں اور نامحرم رہیں گے۔۔۔
جنہیں اللہ پاک نے ہمارا بھائی بنایا ہے انکے ساتھ ہمارا نکاح نہیں ہو سکتا۔۔۔ لیکن جنہیں ہم بھائی بنائیں وہ ہمارے ساتھ نکاح بھی کر سکتے ہیں۔!! تو یہ بات بالکل ٹھیک ہے کیونکہ آج کل دیکھنے میں آیا ہے کہ جو بھائی بنتے ہیں وہ جب اپنی منہ بولی بہن کو جان جاتے ہیں تو وہ انھیں پرپوز بھی کر دیتے ہیں کیونکہ مخالف جنس میں ایک کشش ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے مخالف جنس ایک دوسرے کی طرف بہت جلد مائل ہو جاتی ہے۔۔۔
آپ کے دل میں سوال ہو گا کہ سب انگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتیں؟؟ کچھ لڑکے واقعی بھائی بنتے ہیں تو بھائی بننے کا حق بھی ادا کرتے ہیں؟؟
جی آپ کا خیال بالکل درست ہے میں بھی ایسے کئی بھائیوں کو جانتی ہوں جو واقعی بھائی ہونے کا حق ادا کرتے ہیں۔۔!! مگر پھر بھی وہ ہمارے بھائی نہیں۔۔۔!! وہ بھائی جنہیں اللہ پاک نے ہمارا بھائی بنایا ہے۔۔۔۔!!!
ہمارے سمجھنے سے ہمارے جاننے سے ہماری نیت سے بھی ہمیں انھیں بھائی مانیں تب بھی وہ اللہ کی نظر میں ہمارے بھائی نہیں ہونگیں اور شریعت بھی ہمیں ان سے پردے کا حکم دیتی ہے۔۔۔
کیا شریعت ہمارے ان بھائیوں سے جنہیں اللہ پاک نے ہمارا بھائی بنایا ہے سے پردے کا حکم دیتی ہے؟؟ کیا ان پر نامحرم کا حکم لاگو کرتی ہے؟؟ نہیں نا؟؟
فیسبک پہ غیر شرعی بہنیں بنا کر ان کے حال چال پوچھنا دراصل شیطان کا ایک ہتھکنڈا ہے تاکہ وہ آپ کو دھوکا دے کر گناہ میں مبتلا کئے رکھے-
اگر کس کو بہنیں بنانے کا بہت شوق ہے تو اپنی سگی بہنوں کو وہی توجہ اور پیار دیں جو کہ آپ فیسبک کی بہنوں کو دینا چاہتے ہیں-
تو پھر کیا کہتے ہیں آپ؟؟؟ میری بات ٹھیک ہے نا کہ۔۔۔
"بھائی صرف وہ ہی ہوتے ہیں جنہیں اللہ پاک نے ہمارا بھائی بنایا ہے- اور بہنیں بھی صرف وہی ہوتی ہیں جنہیں اللہ نے ہماری بہن بنایا ہے۔ اس لیے اس قسم کے رشتے بنا کر آزادانہ گپ شپ اور میل ملاپ سے پرہیز کریں۔ اللہ ہمیں ہر قسم کی برائی اور فتنے سے محفوظ رکھے۔
سوچیے گا ضرور۔
🌹 پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لیے ضرور شیئر کریں۔
https://t.me/islamwitheman
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
کچھ لوگوں کو میرا مضمون اچھا لگے گا اور ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کو میرے مضمون سے بہت سا اختلاف بھی ہو۔۔۔
لیکن یہ بات برحق ہے کہ بھائی ہمارا صرف وہ ہی ہے جسے اللہ پاک نے بنایا ہے ۔۔۔ موبائل پہ یا انٹرنیٹ کی دنیا میں یا پھر آپکی حقیقی زندگی میں بننے والے بھائی آپکے بھائی کبھی نہیں ہو سکتے۔۔!! کیونکہ جن کے ساتھ اللہ پاک نے ہمارا رشتہ بھائی کا نہیں بنایا وہ ہمارے لیے نامحرم ہیں اور نامحرم رہیں گے۔۔۔
جنہیں اللہ پاک نے ہمارا بھائی بنایا ہے انکے ساتھ ہمارا نکاح نہیں ہو سکتا۔۔۔ لیکن جنہیں ہم بھائی بنائیں وہ ہمارے ساتھ نکاح بھی کر سکتے ہیں۔!! تو یہ بات بالکل ٹھیک ہے کیونکہ آج کل دیکھنے میں آیا ہے کہ جو بھائی بنتے ہیں وہ جب اپنی منہ بولی بہن کو جان جاتے ہیں تو وہ انھیں پرپوز بھی کر دیتے ہیں کیونکہ مخالف جنس میں ایک کشش ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے مخالف جنس ایک دوسرے کی طرف بہت جلد مائل ہو جاتی ہے۔۔۔
آپ کے دل میں سوال ہو گا کہ سب انگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتیں؟؟ کچھ لڑکے واقعی بھائی بنتے ہیں تو بھائی بننے کا حق بھی ادا کرتے ہیں؟؟
جی آپ کا خیال بالکل درست ہے میں بھی ایسے کئی بھائیوں کو جانتی ہوں جو واقعی بھائی ہونے کا حق ادا کرتے ہیں۔۔!! مگر پھر بھی وہ ہمارے بھائی نہیں۔۔۔!! وہ بھائی جنہیں اللہ پاک نے ہمارا بھائی بنایا ہے۔۔۔۔!!!
ہمارے سمجھنے سے ہمارے جاننے سے ہماری نیت سے بھی ہمیں انھیں بھائی مانیں تب بھی وہ اللہ کی نظر میں ہمارے بھائی نہیں ہونگیں اور شریعت بھی ہمیں ان سے پردے کا حکم دیتی ہے۔۔۔
کیا شریعت ہمارے ان بھائیوں سے جنہیں اللہ پاک نے ہمارا بھائی بنایا ہے سے پردے کا حکم دیتی ہے؟؟ کیا ان پر نامحرم کا حکم لاگو کرتی ہے؟؟ نہیں نا؟؟
فیسبک پہ غیر شرعی بہنیں بنا کر ان کے حال چال پوچھنا دراصل شیطان کا ایک ہتھکنڈا ہے تاکہ وہ آپ کو دھوکا دے کر گناہ میں مبتلا کئے رکھے-
اگر کس کو بہنیں بنانے کا بہت شوق ہے تو اپنی سگی بہنوں کو وہی توجہ اور پیار دیں جو کہ آپ فیسبک کی بہنوں کو دینا چاہتے ہیں-
تو پھر کیا کہتے ہیں آپ؟؟؟ میری بات ٹھیک ہے نا کہ۔۔۔
"بھائی صرف وہ ہی ہوتے ہیں جنہیں اللہ پاک نے ہمارا بھائی بنایا ہے- اور بہنیں بھی صرف وہی ہوتی ہیں جنہیں اللہ نے ہماری بہن بنایا ہے۔ اس لیے اس قسم کے رشتے بنا کر آزادانہ گپ شپ اور میل ملاپ سے پرہیز کریں۔ اللہ ہمیں ہر قسم کی برائی اور فتنے سے محفوظ رکھے۔
سوچیے گا ضرور۔
🌹 پوسٹ اچھی لگے تو دوسروں کی بھلائی کے لیے ضرور شیئر کریں۔
https://t.me/islamwitheman
⭕ ISLAM WITH EMAN ⭕
Telegram
ISLAM WITH EMAN
اصلاحی کہانیاں اور سبق آموز احادیث و واقعات...
ایڈمن سے رابطہ کیلئے:
@syedsajjadhamdani
ایڈمن سے رابطہ کیلئے:
@syedsajjadhamdani