🌴🌴گلشن ادب🌴🌴
981 subscribers
9 photos
104 links
✍️✍️ اردو ادب کا ایک نہایت ہی شاندار سرچشمہ جس میں آپ کو ملیں گے ادبی، تحقیقی، تنقیدی اور معلوماتی مضامین.....

✍️✍️ اور ساتھ ہی ساتھ اردو ادب کی عظیم ہستیوں کے حالات کا بالاستعاب مطالعہ کرنے کا بہترین موقع......
Download Telegram
🌹منٹو کی افسانہ نگاری🌹


#تنقیدی_سلسلہ #منٹو


حصہ دہم


یہی وہ پس منظر ہے جو اس بات کا جواز فراہم کرتا ہے کہ منٹو کے افسانوں میں طوائف کا ذکر یا اس کے پیشے کی تفصیلات، چکلے کی فضا اور جنس کی سرگرمیاں بہ ظاہر محور دکھائی دیتی ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اس صورت حال کے وسیلے سے فرد کے طرز وجود کے کچھ اور عقدے حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ممتاز شیریں اور وارث علوی نے اپنے اپنے انداز میں اسی باعث ’ہتک‘ کے مرکزی کردار سوگندی کے اندر، عورت، فرد اور عدم تحفظ پر مبنی دوسرے عناصر کو جنس اور پیشہ وری سے کہیں زیادہ اہمیت دی ہے۔ ممتاز شیریں نے سوگندی کے اندر ممتا کی جھلک تلاش کی ہے اور لکھا ہے کہ ’’جب سوگندی کے اندر پریم کرنے اور پریم کیے جانے کا جذبہ بہت شدت اختیار کرلیتا تھا تو اس کے جی میں آتا تھاکہ وہ اپنے پاس پڑے ہوئے آدمی کو تھپتھپانا شروع کردے اور لوریاں دے کر اپنی گود میں سلا لے۔ ‘‘ وارث علوی نے بھی منٹو کے اس نوع کے افسانوں کو جنس اور طوائف کے پیشے سے بلند ہوکر دیکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن افسانوں کو آج تک محض جنس کے حوالے سے پڑھا گیا، ان میں بھی جنس کو عموماً ثانوی حیثیت حاصل ہے۔ ہتک کے علاوہ بھی طوائف پر لکھتے اور افسانوں کا تجزیہ کرتے ہوئے انہوں نے یہ دکھایاہے کہ ان میں عورت کی ممتا، بے بسی، تنہائی اور انسانیت سے متعلق دوسرے مسائل، جنس سے کہیں زیادہ نمایاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ:

طوائفوں پر اس کی جتنی کہانیاں ہیں ہم انھیں جنسی کہانیاں نہیں کہہ سکتے۔ حالاں کہ جنس طوائف کی زندگی اور کردار کا حاوی جزو اور اس کا پیشہ ہے، لیکن ان افسانوں کے مرکز میں یا تو مامتا کا جذبہ ہے یا بے بسی اور تنہائی کا احساس یا وہ اس کی انسانیت اور نسائیت کو نمایاں کرتاہے۔ یہی چیز منٹو کی ہرطوائف کو دوسری سے الگ کرتی ہے۔ کیوں کہ گوپیشے، رہن سہن اور لیپاپوتی کے سبب تمام کسبیاں ایک جیسی نظرآتی ہیں لیکن ان کے اندر کی عورت دوسری سے مختلف ہے۔ اس لیے طوائف کا ہرکردار منفرد بن جاتاہے۔
🌹منٹو کی افسانہ نگاری🌹


#تنقیدی_سلسلہ #منٹو

حصہ یازدہم

طوائف کردار کی انفرادیت کی اس بحث کو وارث علوی آگے بڑھاتے ہیں، ہتک کی سوگندی کا تجزیہ کرتے ہیں اور اس کو رومانیت اور جنسیت کی لذت کوشی سے پوری طرح لاتعلق بتاتے ہوئے ذیل کے بعض ایسے نکات کو نمایاں کرتے جو سوگندی کے کردار پر اردو میں موجود وافر تبصروں میں بھی ہمیں برائے نام ہی ملتے ہیں۔ وہ اس کردار کو ان کی خارجی حرکات و سکنات پر انحصار کرنے کے بجائے داخلی طورپر کچھ اس طرح دریافت کرنے کی کوشش کرتے ہیں :

سوگندی کی کھولی میں منٹو ایک فرد کی بھائیں بھائیں کرتی تنہائی کا ایسا اجاڑ منظر دیکھتا ہے کہ اس کے سامنے اپنی ذات، ذات کی پاسداریاں اور شبہات سب ہیچ نظر آنے لگتے ہیں۔ وہ جاننا چاہتا ہے کہ اس کی حقیقت کیا ہے؟ اندر سے وہ کیسی ہے؟ کتنی تنہا، کتنی خالی ہے؟ اس کی جذباتی بے سروسامانی کا کیا عالم ہے، اور انسانی سماج میں ہی نہیں پورے نظامِ کائنات میں اس کے بے معنی دکھ اور کرب کے معنی کیا ہیں ؟

سعادت حسن منٹو کے مختلف افسانوں اور ان سے پیدا ہونے والے فکری اور فنی مسائل کی تفہیم و تعبیر کی جو داغ بیل ممتازشیریں نے نصف صدی پہلے ڈالی تھی اس کو امتدادِوقت کے ساتھ پوری طرح قابلِ قبول ہونے کا موقع گزشتہ دودہائیوں میں مل پایا۔ منٹو کے بعض کرداروں کے رشتے انہوں نے پہلی بار لیڈی میکبتھ، سلومی، پنڈوا، ڈی لیلا اور زلیخا کے کرداروں اور تعبیرات سے جوڑے، ایشرسنگھ کی مماثلت ہمنگوے کے فطری انسان میں تلاش کی، اور اس طرح منٹو کے حوالے سے انہوں نے اردو فکشن کی شعریات کی تشکیل میں کشادگی کا ثبوت دیا اور اردو فکشن کے نمائندہ کرداروں کے دائرۂ کار کو عالمی ادب کے شاہکاروں سے ملا دیا۔ تاہم انہوں نے منٹو کے یہاں جس انسان کی پیش کش کی تلاش کی اسے بقول ان کے، فطری یا جبلی انسان کے تصور سے آگے بڑھ کر ایک نامکمل انسان سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ منٹو کے شروع کے افسانوں میں قنوطیت نمایاں ہے جب کہ بقول ان کے بعد کی کہانیوں میں رجائی عناصر کی افراط ہے۔ اس سلسلے میں ممتاز شیریں بعض دریافتوں کو کبھی غیر اہم قرار نہیں دیا جا سکتا اور اردو کی عملی اور اطلاقی تنقید کے بڑھتے ہوئے رجحان کے باعث ممتاز شیریں کی منٹو تنقید کو زمانی تقدم کا نمونہ اور نکتہ آفرینیوں کے سبب الگ سنگ میل قرار دیا جاسکتا ہے۔ تا ہم اس بات کو نشان زد کرنا لازمی ہے کہ نظری بحث و تمحیص اور سماجی اور نفسیاتی نوعیت کی معلومات کی فراوانی اکثر ان کی تحریروں کو تجریدی فضا میں لے جاتی ہے، فنی تجزیہ کم کم ہی ملتا ہے، جبھی تو مظفر علی سید نے ممتاز شیریں کے بارے میں لکھا تھا کہ ’’گویا مجسم تخلیق کی نسبت مجرد خیالات سے نقاد کی رغبت زیادہ ہے۔ ‘‘
🌹منٹو کی افسانہ نگاری🌹


#تنقیدی_سلسلہ #منٹو

حصہ دوازدہم


وارث علوی کا معاملہ ممتاز شیریں کے اثرپذیری پر بھی مبنی ہے اور انھوں نے ان کی تنقید میں پائی جانے والی افراط و تفریط کو متوازن کرنے کی منصوبہ بند کوشش بھی کی ہے۔ منٹوفہمی سے وارث علوی کی دلچسپی کوئی نئی نہیں۔ انہوں نے ’بابوگوپی ناتھ‘، ’ہتک‘، ’توبہ ٹیک سنگھ‘ اور ’بو‘ وغیرہ پر متفرق تجزیاتی مضامین پہلے بھی لکھے تھے، مگر جب اس موضوع پر ان کی مبسوط کتاب ’منٹوایک مطالعہ‘ شائع ہوئی تو اندازہ ہواکہ انہوں نے اپنے بعض پرانے نتائج پر نظرثانی بھی کی اور غیرواضح تصورات کو منطقی انداز میں پیش کرنے کی طرف بھی توجہ مبذول کی ہے۔ انہوں نے منٹوکی سب سے بڑی دین یہ بتائی کہ اس نے افسانے کو نظم کے مغربی تصور کی طرح سڈول اور ہیئتی طورپر ضروری اور ناگزیر بنانے پر زور دیا۔ وارث علوی کی کتاب میں مباحث کی تقسیم سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اپنی کتاب کی منصوبہ بندی میں انہوں نے ممتاز شیریں سے بیش از بیش استفادہ کیا ہے۔ ذیلی عنوانات اور مباحث کا معاملہ ہو، نفسیات سے واقفیت ہو یا اردو افسانے کے مغربی سرچشموں کی بات، وارث علوی کی منٹو تنقید، ممتاز شیریں سے متاثر ضرور ہے مگر اسے ان سے آگے کا قدم قرار دیا جانا چاہیے۔ تاہم اپنی عام تنقیدی تحریروں کے اسلوب اور لب و لہجہ کے برخلاف انہوں نے منٹو تنقید میں الفاظ کا اسراف بے نہیں کیا ہے، حشو و زوائد سے احتراز کیا اور اعلیٰ درجے کی سنجیدہ تنقیدی یا منطقی زبان و اسلوب کو پوری کتاب میں برقرار رکھا ہے۔ کہنے کو تو وہ آج بھی یہی کہتے ہیں کہ ’’ایسی ناقدانہ تحریریں تخلیقی تجربے کا لطف رکھتی ہیں یا ایسی تنقیدوں کی زبان بہت حساس، تخلیقی اور ایمیجسٹ ہوتی ہے—-‘‘ تاہم منٹو کی تفہیم و تعبیر میں انہوں نے تاثراتی یا تخلیقی انداز یا اسلوب سے دور کا ہی سروکار رکھاہے—- یہ الگ بات ہے کہ بقول شخصے ’’ہراعلیٰ تنقیدی کارنامہ ایک منزل پر پہنچ کر ایک تخلیقی تجربے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ ‘‘
🌹🌹حسن عسکری🌹🌹


#تنقیدی_سلسلہ #حسن_عسکری


حصہ اول


اگر نظری اور عملی تنقید میں حسن عسکری کو حالی کے بعد اردو کا سب سے بڑا اہم نقاد کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ تنقید میں ان کی رائے سے اختلافات چاہے جتنے بھی ہوں لیکن وہ تنقیدی شعور اور تنقیدی بصیرت کی جن بلندیوں کو پہنچے وہ کم ناقدین کو نصیب ہے۔ اردو میں تجزیاتی تنقید ان کی بدولت ہے ورنہ تنقید کا عام طور پر طریقہ کار یہ رہا ہے کہ ہر ادیب و شاعر کی پانچ دس خصوصیات کو چن کر ان کا مقام متعین کیا جائے۔ ترقی پسند ناقدین نے سب سے پہلے اس روش سے انحراف کیا۔ ترقی پسند تحریک کے ابتدائی زمانے میں میراجی نے مشرق و مغر ب کے مختلف شعراء پر تنقیدی مضامین کا سلسلہ شروع کیا۔ اس سے اردو ادب میں نفسیاتی تنقید کی بنیاد پڑ ی ایک معاصر کی حیثیت سے عسکری بھی نفسیاتی تنقید سے متاثر ہوئے اور اس طرح اردو ادب کے قائدین کو عالمی ادب سے روشناس کرانے میں میراجی اور حسن عسکری کا حصہ سب سے زیادہ ہے بلکہ کیفیت و کمیت کے لحاظ سے عسکری ، میراجی پر بھاری ہیں۔

موضوعات کی رنگارنگی ، مطالعے کی وسعت اور گہرائی ، پاکستانی ادب کا نعرہ ، فوٹو گرافی سے لگائو، اسلامی ادب کی تحریک اور میر سے فراق تک پہنچا ہوا عشق حسن عسکری کو جاننے کے لئے افکار ہی کی یہ دولت کافی نہیں۔ بلکہ ناقدین میں ممتاز ، شیریں ، جمیل جالبی ، سلیم احمد، انتظار حسین اور مظفر علی سید تک عسکری سے متاثر ہیں۔ ان کے نظریات اور اسلوب میں چونکا دینے والی کیفیت ملتی ہے۔
🌹🌹حسن عسکری🌹🌹


#تنقیدی_سلسلہ #حسن_عسکری


حصہ دوم




عسکری اپنی ذات میں انجمن تھے اور ایک ایسا ادارہ جس کے تمام شعبے بیک وقت اور مستقل طور پر کارکردگی کے اعلیٰ ترین نقطے پر ہوں وہ نابغہ روزگار تھے اور ان کا ذہن مزاج ، ادراک، وجدان، فہم غرض مکمل شخصیت ایسے خمیر سے تشکیل دی گئی تھی جو خالقِ حقیقی بہت کم فنکاروں کو ودیعت کرتا ہے۔

عسکری نے اپنی عملی زندگی کا آغاز ایک معلم کی حیثیت سے کیا آپ انگریزی ادب کے طالب علم اورپھر اُستاد رہے انگلو عربک کالج دہلی ، اور اسلامیہ کالج لاہور ، اسلامیہ کالج کراچی میں تدریس کے فرائض سرانجام دیے۔ فرانسیسی زبان و ادب پر عبور تھا۔ عسکری کے بعض مضامین کے ترجمے فرانسیسی اور انگریزی زبان میں شائع ہوئے ان کو فرانسیسی اور انگریزی ادیبوں نے اس حد تک قابل ِ تو سمجھا کہ ادبی رسائل میں ان پر مباحث کا آغاز ہو گیا۔ وہ ایک ایسے استاد تھے کہ جس طالب علم نے اس کا ایک لیکچر بھی سنا وہ ان کی شاگردی پرفخر کرتا تھا عسکری، میر ، فراق ، حالی ، جرات ، جیمز جوائس، ایذرا پائونڈ، ایلیٹ اور فرائڈ سے متاثر تھے۔ اور عمر کے آخری حصے میں مولانا اشرف علی تھانوی کے عقیدت مند ہو گئے تھے۔

عسکری نے ہمیں بہت سے مغربی ناموں سے آشنا کرایا اور اس کانتیجہ ہے کہ آج مغربی مفکرین ذہنی رفیقوں کی طرح ہمارے ساتھ چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ حالی سے لے کر کلیم الدین احمد تک اس معاملے میں حسن عسکری کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ انھوں نے مغربی ادب اور ادیبوں سے اس طرح آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرباتیں کیں کہ وہ بالکل برابری کی سطح پر ان سے ہمکلام نظر آتے ہیں۔ حسن کے تنقیدی مجموعوں میں ”انسان اور آدمی“، ”ستارہ یا بادبان“ ”جھلکیاں “ ”وقت کی راگنی“اور اس کے علاوہ ”جدیدیت یا مغربی گمراہوں کی تاریخ“ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تخلیقی حیثیت سے افسانوں کے دو مجموعے شامل ہیں۔ موضوعات کی رنگا رنگی تو ہر کتاب میں موجود ہے لیکن ”ستارہ یا بادبان“ تنقیدی حیثیت سے اہمیت کی حامل ہے۔ اس کا نام فرانسیسی شاعر کے نظم سے نکالا گیا ہے۔ اور اس کتاب کے ذریعے عسکری نے مصوری پر بھی بات کی ہے۔ انھیں شاعری مصوری اور موسیقی پر دسترس حاصل ہے اور انھیں پورے فنون ِ لطیفہ سے دلچسپی تھی۔ ”وقت کی راگنی“ کے ذریعے موسیقی پر دسترس کا لوہا منوایا اور ان کے پہلے افسانے سے لےکر آخری مضمون تک ہر تحریر میں ایک اخلاقی سماجی اور روحانی صداقت موجود ہے۔
🌹🌹حسن عسکری🌹🌹


#تنقیدی_سلسلہ #حسن_عسکری


حصہ سوم



”ستارہ یا بادبان“ کے تنقیدی مضامین کا جائزہ لیاجائے تو عسکری ایک سچے نقاد کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں وہ کسی قسم کا تعصب نہیں رکھتے سچی بات بے دھڑک کہتے ہیں شائد اس لئے وہ ہمیشہ متنازعہ نقادرہے ۔وہ کسی شاعر یا ادیب کا جائزہ مروجہ اصولوں کے تحت نہیں کرتے بلکہ وہ بت شکن ہیں ان کے نزدیک جب تک چیزوں کے بارے میں ہمارا طرز ِ احساس نہیں بدلے گا اُس وقت تک نئی صداقتیں سامنے نہیں آ سکتیں ۔ ادبی جمود کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ناقدین کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں کہ ناقدین تخلیق کاروں کو اس گمراہی میں مبتلا کر رہے ہیں کہ ہمارا ادب خوب ترقی کر رہا ہے۔ ہمارے شاعروں نے مغربی ادب کی طرح پھولوں اور چڑیوں پر جو کچھ لکھا وہ بالکل غلط ہے۔ مغربی ادب اپنی تہذیبی روایات اور ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح اردو ادب کو بھی مشرقی روایات تہذیب اور ضروریات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

حسن عسکری کا خیا ل ہے کہ ناقدین لکھنے والوں کی بے جا تعریفیں کرتے ہیں اور فنکار یہ سمجھتا ہے کہ وہ صحیح سمت سفر کر رہا ہے۔ اور اس کی تخلیقی کاوشیں اپنے عہد روایات اور تہذیب کی ذمہ داری پوری کر رہی ہے۔ ادبی جمود کی ایک اور وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے ادیبوں میں اتفاق نہیں ان میں لکھنے کی صلاحیت تو ہے مگر ہم سفری کا احساس نہیں بڑا سے بڑا شاعر بھی محض اپنے بل بوتے پر کسی زبان کو نئی زندگی نہیں دے سکتا جب تک لاشعوری طور پر اُسے دوسروں کی رفاقت حاصل نہ ہو حسن عسکری کو دلچسپ اور جاذب جملے لکھنے میں مہارت تھی اور وہ اس بات سے خوب آگاہ ہیں کہ ادب کوئی من و سلویٰ نہیں جو آسمان سے زمین پر آتا ہے بلکہ ہمارے جذبات و احساسات کا نمائندہ ہوتا ہے اور یوں ادب پر صدیوں کے ان گنت تجربات ہوتے ہیں اچھا لکھنے کے لئے اچھا پڑھنا اور دوسرے ادیبوں کی رفاقت کا احساس بھی ضروری ہے۔
🌹مرزا محمد رفیع سودا کی قصیدہ نگاری🌹


#تنقیدی_سلسلہ #مرزا_سودا

حصہ اول




مرزا محمد رفیع سودا کو اردو قصیدہ نگاری میں وہی مقام حاصل ہے جو غزل میں میر اور غالب کو حاصل ہے۔ اردو میں قصیدہ نگاری کا آغاز دکن سے ہوتا ہے۔دکن اردو زبان و ادب کا پہلا بڑا مرکز تھا جہاں تمام اصنافِ سخن کو پروان چڑھنے کا بھرپور موقع ملا۔قطب شاہی، عادل شاہی وغیرہ شاہی ریاستوں میں متعدد شعراء نے قابل ذکر قصائد تصنیف کیے ہیں۔نصرتی دکن کا ایک بڑا قصیدہ نگار ہو گزرا ہے جس نے دکن میں قصیدہ کو بام عروج بخشا۔بعد میں ولی دکنی نے بھی اس صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی لیکن اصل بات یہ ہے کہ اردو قصیدہ کو صحیح معنوں میں جس شاعر نے اعتبار بخشا اور اسے فارسی قصیدہ نگاری کے برابر لاکھڑا کیا، وہ مرزا محمد رفیع سودا ہیں۔

سودا 1712ء میں پیدا ہوئے اور 1781ء میں لکھنؤ میں انتقال کیا۔ شیخ چاند کی تحقیق کے مطابق سودا کے قصائد کی تعداد 55 ہے جبکہ عتیق احمد صدیقی نے اپنی کتاب”قصائد سودا” میں 58 قصائد کی نشاندہی کی ہے جن میں مذہبی اور غیر مذہبی تمام قسم کے قصائد شامل ہیں۔مذہبی قصائد کی تعداد 22 ہے اور ان میں جن مذہبی شخصیات کو موضوع بنایا گیا ہے ان میں پیغمبر اسلام جناب محمد رسول اللہﷺ کے علاوہ اور بھی کئی شخصیات شامل ہیں جو ذیل میں درج کی جاتی ہیں۔

(١) قصیدہ در نعت سید المرسلین خاتم النبین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم (دو قصائد)
(٢) قصیدہ در منقبت علی بن ابو طالب (سات قصائد)
(٣) قصیدہ در مدح جناب فاطمہ الزہرا
(٤) قصیدہ در مدح امام حسن
(٥) قصیدہ در مدح امام حسین
(٦) قصیدہ در منقبت امام زین العابدین
(٧) قصیدہ در منقبت امام محمد باقر
(٨) قصیدہ در منقبت جعفر صادق
(٩) قصیدہ در منقبت حضرات امام کاظمین
(١٠) قصیدہ در مدح ابوالحسن علی رضا ابن موسی (دو قصائد)
(١١) قصیدہ در مدح امام تقی
(١٢) قصیدہ در مدح امام نقی
(١٣) قصیدہ در مدح امام حسن العسکری
(١٤) قصیدہ در مدح امام مہدی (دو قصائد)
🌹مرزا محمد رفیع سودا کی قصیدہ نگاری🌹


#تنقیدی_سلسلہ #مرزا_سودا

حصہ دوم




ان مذکورہ قصائد کے علاوہ بقیہ قصائد میں 23 قصائد بادشاہوں، نوابوں اور امرا کی شان میں تحریر کیے ہیں۔جن شخصیات کو موضوع بنایا گیا ہے وہ یوں ہیں۔


(١) قصیدہ در مدح محمد شاہ عالم بہادر شاہ غازی
(٢) قصیدہ در مدح عزیز الدین محمد عالمگیر ثانی بادشاہ غازی (دو قصائد)
(٣) گر مداح بسنت خان محمد شاہی (دو قصائد)
(٤) قصیدہ در مدح نواب سیف الدولہ (تین قصائد)
(٥) قصیدہ در مدح غازی الدین خان بہادر عمادالملک (دو قصائد)
(٦) قصیدہ در مدح نواب عماد الملک آصف جاہ
(٧) قصیدہ در مدح نواب شجاع الدولہ (سات قصائد)
(٨) قصیدہ در مدح حکیم میر محمد کاظم
(٩) قصیدہ در مدح آصف الدولہ (چھ قصائد)
(١٠) قصیدہ در مدح نواب سر فراز الدولہ (دو قصائد)
(١١) در مدح نواب ممتاز الدولہ


ان کے علاوہ دس ہجویات بھی سودا کے کارناموں میں شامل ہیں۔ جن میں چند قابل ذکر ہیں، ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔

(١) قصیدہ در ہجو اسپ مسمیٰ بہ تضحیک روزگار
(٢) قصیدہ شہر آشوب
(٣) قصیدہ در ہجو مولوی ساجد
(٤) قصیدہ در ہجو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی
(٥) قصیدہ در ہجو شیخ بریلی وغیرہ
🌹مرزا محمد رفیع سودا کی قصیدہ نگاری🌹


#تنقیدی_سلسلہ #مرزا_سودا

حصہ سوم



سودا کے قصائد کے موضوعات میں بڑا تنوع ہے۔ اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو سودا ہی شمالی ہند میں باقاعدہ طور پر قصیدہ کا بنیاد گزار ہے۔بقول ڈاکٹر سلام سندھلوی”اس میں کوئی شک نہیں کہ شمالی ہند میں سودا سے قبل حاتم اور فغاں نے قصیدے کہے ہیں مگر ان کی صرف تاریخی اہمیت ہوسکتی ہے، ان کی ادبی حیثیت میں شک ہے۔ سودا نے پہلی بار فارسی کی طرز پر قصیدے کہے ہیں اور فارسی قصیدہ گو شعراء سے اس میدان میں ٹکر بھی لی ہے اور اگر آزاد کے بیان پر اعتبار کیا جائے تو وہ اس میدان میں فارسی کے نامور شہسواروں کے ساتھ عنان در عنان ہی گئے بلکہ اکثر میدانوں میں آگے بھی نکل گئے ہیں۔”اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہاں موازنہ درکار نہیں مگر یہ ضرور ہوا کہ اردو قصیدہ میں سودا نے اس صنف سخن کو فنی خصوصیات سے مالا مال کیا ہے۔ وہ کون سی خصوصیات اور فنی خوبیاں ہیں جو سودا کے قصائد میں نہیں ہیں۔

اجزائے ترکیبی کے حوالے سے بھی انہوں نے تشبیب، گریز، مدح، اور حسن طلب وغیرہ میں اپنی بے پناہ فنی مہارت کا ثبوت دیا ہے۔سودا نے تشبیب میں متنوع موضوعات کو برتا ہے اور اتنا تنوع شاعر صرف سودا کے قصیدوں میں ہی ملتا ہے۔ موسم بہار کی منظرکشی، عاشقانہ و رندانہ جذبات، دنیا کی بے ثباتی،صوفیانہ اور حکیمانہ مضامین، شکایت زمانہ، تاریخی واقعات وغیرہ موضوعات ان کے قصیدوں کی تشبیب کا حصہ ہیں۔ سودا کا تشبیب کا حصہ نہایت ہی دلکش اور پر زور ہوتا ہے۔ کیونکہ شاعر کا بنیادی مقصد اپنے ممدوح کو متاثر کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ ہمہ تن گوش ہو کر قصیدہ نگار کی جانب متوجہ ہوکر اس کی شایان شان داد دے۔ یہی وجہ ہے کہ سودا کے تشبیب کے اشعار نہایت ہی زوردار و مبالغہ آمیز ہوتے ہیں۔ شاید اسی لیے سودا کے تشبیب میں بہاریہ اور نشاطیہ مضامین اپنی مثال آپ ہوتے ہیں۔
🌹مرزا محمد رفیع سودا کی قصیدہ نگاری🌹


#تنقیدی_سلسلہ #مرزا_سودا

حصہ چہارم


یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سودا کو فطری طور پر علوی تخیل، جودت طبع اور فکر رسا کا ملکہ حاصل ہے۔ اس لیے انہوں نے پرزور اور پرشکوہ نیز قوت متخیلہ پر مبنی تشبیب کے اشعار پیش کئے ہیں۔ مثلاً

ہوا جب کفر ثابت، ہے وہ تمغائہ مسلمانی
نو ٹوٹی شیخ سے زنار تسبیح سلیمان


منکر خدا سے کیوں نہ حکیموں کی ہو زبان
جب شہرہ سے مرے ملا ہو اس قدر جہاں


آٹھ گیا بہمن ودے کا چمنستان سے عمل
تیغ اردی نے کیا ملک خراسان مستاصل


قصیدہ میں سودا کے فنی کمالات اور فنکارانہ ہنرمندی کے جوہر مدح میں ہی کھلتے ہیں۔ سودا کا کمال یہ ہے کہ وہ ممدوح کی شخصیت کے عین مطابق ہی زبان وضع کرتے ہیں۔ اس میں شاعر ممدوح کے جاہ و جلال، شوکت و حشمت، عظمت و بزرگی، بہادری و شجاعت، عدل و انصاف، جہانگیری وجہاں بانی اور مخلوق پروری کی تعریف کرتا ہے۔اگر ممدوح کوئی مذہبی شخصیت ہے تو اسکا علم و حلم، تقوی و پرہیزگاری، عفودرگزر، زہد و تقوی، عبادت و ریاضت وغیرہ کی بھی تعریف وتوصیف کرتا ہے۔یہی نہیں بلکہ وہ (سودا)ممدوح کی تلوار، فوج، ہاتھی، گھوڑے اور دیگر جنگی سازوسامان کی بھی تعریف کرتا ہے اور مبالغہ سے بھی کام لیتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ عمدہ الفاظ و محاورات، بھاری پر کم القاب و آداب، تشبیہات و استعارات نیز تراکیب کا بھی تانا بانا تیار کرتا ہے۔ اس حوالے سے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

دید تیرا، بدوئی حق سے، نگہ کا ہے خلل
ایک سے دو نظر آتے ہیں بچشم احوال


تیری قدرت بہ جہاں، قدرت حق کی خاطر
خلق کے وہم غلط کار میں ٹھہرے ہے مثل


علم تیرا نہیں ہے، علم خدا سے باہر
ہی عمل بھی وہی تیرا جو خدا کا ہے عمل
🌹مرزا محمد رفیع سودا کی قصیدہ نگاری🌹


#تنقیدی_سلسلہ #مرزا_سودا

حصہ پنجم




حسن طلب میں بھی سودا نے بے پناہ فنکاری کا ثبوت دیا ہے اور ممدوح کو اس قدر متاثر کیا ہے کے ممدوح کو شاعر کا دامن موتیوں اور جواہر سے بھرتے ہی بنتی ہے۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ وہ بات سے بات پیدا کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔


کرے ہے عرض یہ سودا جناب اقدس میں
زمانہ چاہے تھا مجھ کو رکھے بہ حال تباہ


تجھ آستان پر ولے اب مدد طالع کے
ہوا ہے آن کے حاضر یہ بندۂ درگاہ



بس اب جہاں میں کوئی خوش نصیب ہے مجھ سا
امید جس کی بر آئی ہو اتنی خاطر خواہ


کیا میں فرض کہ آنے سے زیر بال ہما
جنہیں حصول ہو جمشید کی سی شوکت و جاہ


سودا کے ہجویہ قصائد میں در ہجواسپ (تضہیک روزگار) و شہرآشوب بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ قصائد سودا کے دور کے معاشی اور اقتصادی نیز سیاسی صورتحال کے مرثیہ ہیں۔ مسلسل زوال پذیر اور دگرگوں ہوتی ہوئی مغلیہ سلطنت کو ایک گھوڑے کی نہ توانائی اور لاغر پن کے حوالے سے واضح کیا ہے۔


ناطاقتی کو اسکی کہاں تک کروں بیان
فاقوں کا اس کے اب میں کہاں تک کروں شمار


مانند نقش نعل زمین سے بجز فنا
ہر گز نہ اٹھ سکے وہ اگر بیٹھے ایک بار
🌹مرزا محمد رفیع سودا کی قصیدہ نگاری🌹


#تنقیدی_سلسلہ #مرزا_سودا


حصہ ششم

ان کے علاوہ سودا نے شخصی ہجویات بھی لکھی ہیں لیکن ان ہجویہ قصائد میں اس کے عقائد و نظریات کے حوالے سے ذاتی بغض وعناد بلکہ خبث باطنی کا پتہ چلتا ہے۔ حالا‌نکہ یہ ضرور ہے کہ وہ اچھے خاصے دنیا دار آدمی تھے۔اس لئے اس طرح کے شخص سے اس طرح کے ہجویہ قصائد لکھنا کوئی بعید نہیں۔ایک قصیدہ جو کے ایک مولوی ساجد کی ہجو میں لکھا گیا ہے بقول ام ہانی اشرف ”رکاکت اور ابتذال سے مملو ہے یقین نہیں آتا سودا جیسا پڑھا لکھا آدمی اس قدر فحش نگاری پر اتر آئے گا۔ ایک ایک شعر سے کراہت ٹپکتی ہے اور ہر شعر کسی سڑی ہوئی ذہنیت کا غماز ہے۔”لیکن مجموعی طور پر سودا کے قصائد معیار کا اعلیٰ نمونہ ہیں اور یہ معیار صرف سودہ کا ہی حصہ ہیں۔

بقول ڈاکٹر عتیق احمد صدیقی ”اگر یہ پوچھا جائے کہ اٹھارھویں صدی کی اردو شاعری کو کس نے سب سے زیادہ متاثر کیا، سرمایۂ شاعری میں کس نے سب سے زیادہ اضافہ کیا، زبان و بیان کے سب سے زیادہ تجربہ کس نے کیے، مسلماں رویشۃ سے سب سے زیادہ انحراف کس نے کیا اور کس نے سب سے زیادہ ادبی اختراعات کیے تو بلا تامل مرزا محمد رفیع سودا کا نام لیا جا سکتا ہے۔جس نے اردو شاعری کے مزاج کو شگفتگی اور زندہ دلی عطا کی، جس نے جملہ اصناف سخن کو ایک ہمہمہ کے ساتھ برتا، جس نے غزل کو قصیدہ کا شکوہ عطا کیا، جس نے مروجہ مرثیہ گوئی پر لے دے کر کے مرثیے کو ادبی ڈگر کی راہ پر ڈالا، جس نے زبان اردو کو پاک صاف کرنے میں اولیت کا شرف حاصل کیا، جس میں فارسی قصیدوں کے مقابلہ پر قصیدے لکھے اور جس نے ادبی معرکوں میں خود بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور معاصرین وا متقدمین کے کلام پر تنقید کرکے آئندہ کے لیے راہ ہموار کی، وہ سودا ہیں۔۔
🌹تخلیق کار کو پابند نہیں کرنا چاہیے🌹


#ادبی_سلسلہ #تخلیق_کار


حصہ اول


مجھے اکثر یہ محسوس ہوتا ہے کہ نفرت، تعصب، عدم برداشت، اور ایسے ہی دوسرے قابلِ مذمّت رویے ایک ساتھ جمع ہو کر فیس بک پر اپنا قبضہ جما چکے ہیں۔ یہ حال صرف ادبی معاملات ہی کا نہیں، سیاسی معاملات کا بھی ہے۔ اس وقت ایک واحد لفظ جو اس معاشرے کی مکمل اور واضح تشریح کر سکتا ہے وہ ہے ” تفریق” ہم تفریق میں پڑ چکے ہیں۔ سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہمارا کسی بھی تخلیق یا تخلیق کار کو دیکھنے کا معیار کیا رہ گیا ہے ؟


ایک وقت ہوتا تھا جب کسی تخلیق کار سے محبت کرنے والے، اس کے سیاسی و مذہبی نظریات و عقائد کو کبھی بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے ۔ خواہ وہ ان سے مختلف ہی کیوں نہ ہوں، اور یہ رویہ، ظاہر ہے ایک نہایت مستحسن ادب انگیز رویہ ہوتا تھا، اور یہ رویہ صرف فنونَ لطیفہ کے بارے نہیں، سیاسی نظریات تک کے بارے ہوتا تھا ۔ کچھ پیارے لوگ ابھی بھی اسی رویے کے ساتھ کتاب بینی، فلم بینی، موسیقی، یا دیگر فنونِ لطیفہ کا لطف اٹھاتے ہیں۔ لیکن یہ لوگ اب خود کو غیر محفوظ تصور کرنا شروع ہو گئے ہیں۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عدم برداشت کے رویے نے اس بہت پیارے کلچر کو ہی تباہ کر دیا ہے جو کسی شاعر کی شاعری پڑھتے وقت، یا کسی سنگیت کار کا گانا سنتے وقت ، اس کا سیاسی و مذہبی حسب نسب نہیں پوچھا کرتا تھا. آج کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ شاعر کو سیاسی نہیں ہونا چاہیے، سنگیت کار کو ، اداکار کو، لیکھت کو ، صرف محبت یا رومانی یا ہلکے پھلکے سماجی موضوعات کو ہی اپنا محور جاننا چاہیے۔ میں بصد احترام گذارش کرنا چاہوں گا کہ یہ خیال رکھنا در حقیقیت فاشزم کی ایک شکل ہے. اگر تخلیق کار کو پابند کر دیا جائے کہ تم ایسا ہی لکھو جو ہمیں پسند ہو ، اسی سُر کو شدھ کرو جو ہمیں سمجھ آتا یے تو معاشرے میں ارتقاء کا عمل ہی رک جائے گا ، اور یہ عمل رکا ہوا آپ دیکھ بھی سکتے ہیں, آج ہم لوگوں کی اکثریت وہی پڑھنا اور سننا پسند کرتی ہے جو ہم سننا اور پڑھنا چاہتے ہیں ! اور ایک ایسا جمود اس معاشرے کو لاحق ہو چکا ہے جہاں صورتِ حال مزید خراب ہو رہی ہے۔
🌹تخلیق کار کو پابند نہیں کرنا چاہیے🌹

#ادبی_سلسلہ #تخلیق_کار

حصہ دوم



ہمیں اپنے تخلیق کاروں کو پابند نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اگر کوئی تخلیق کار اپنے عہد یا اپنے سماج ہی کا سیاسی شعور نہیں رکھتا تو وہ ادبِ عالیہ سے کسی صورت مس نہیں کرتا۔ اور اگر وہ اپنی ایک رائے رکھتا ہے، جیسا کہ سب رکھتے ہیں اور وہ اس رائے میں غلط بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ کوئی بھی ہو سکتا ہے تو میرا نہیں خیال کہ وہ کسی جرم کا مرتکب ہو رہا ہے، یا نفرت کا سزاوار ہے ۔ کوئی ضروری نہیں کہ میرا پڑھنے والا بھی اسی سیاسی و فکری نخلستان کا راہی ہو جہاں میرے خیال کے چشمے پھوٹتے ہیں، وہ کسی اور زمان کا شناور بھی ہو سکتا ہے اور کسی ایسے باغ کا بھی جس کا مجھے بھی پتا نہ ہو ۔


سو ہمیں اپنے رویوں میں کچھ نرمی لانی چاہیے، بات سننی چاہئیے، نہیں پسند آ رہی تو اس بات سے کنارہ کیا جا سکتا ہے، لیکن محض اس بات پر کہ کوئی تخلیق کار آپ کے ممدوح کا مداح نہیں ہے یا اس پر نکتہ چیں ہے تو یہ بات ہرگز زیب نہیں دیتی کہ اسے کسی بھی طرح گالی، تہمت، یا الزام تراشی کے لائق جان لینا چاہئیے، اس کا فن ، محض اس کے آپ سے مختلف نظریہء فکر رکھنے سے یکسر باطل نہیں ہو جائے گا۔
کیونکہ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئیے کہ ہماری گفتگو اور مکالمہ ہی اس بات کی پہچان رکھتا ہے کہ ہم خود کون ہیں ۔
🌹مترجم دو زبانوں کے بیچ پل کی مانند ہوتا ہے🌹


#ادبی_سلسلہ #ترجمہ_نویسی



✍️✍️سرفراز سخی✍️✍️


حصہ اول




زبانوں سے بے غرض محبت کرنے والوں کے ترانے، اس وقت تک گنگنائے جائیں گے، جب تک یہ جہانِ آب و گِل تحرک میں ہے۔ یہ ان ہی کی مرہونِ منت ہے کہ ہم ایک دوسرے کی زبانوں کی ادبی اور غیر ادبی تحاریر کو نہ صرف اپنی زبان میں پڑھ رہے ہیں۔ بَل کہ ایک دوسرے کی اختراع شُدہ اصنافِ سخن و نثر پر رقم طراز بھی ہیں۔ اور اسی بنا پر ہم ایک دوسرے کے سیاسی و سماجی، تہذیبی و ثقافتی، فکری و ادبی اور تکنیکی و سائنسی پہلوؤں سے آگاہ بھی ہیں۔


ترجمہ نویسی فقط دو زبانوں پر دسترس کا نام نہیں یہ ایک فن ہے، جو کہ نہ صرف اپنی زبان، بَل کہ دوسری زبان کے بھی ادب کے مطالعۂِ استغراقی کا حاصل ہے۔ کیوں کہ ترجمہ نویس نے فقط جملہ ہی نہیں، بل کہ اس میں سمائے خیال کی پاس داری کرتے ہوئے اپنی زبان میں پیش کرنا ہوتا ہے۔ تا کہ چاہے فقروں کے الفاظ کی صوت و صورت بدل جائے، مگر خیال کی اصل ہیئت ذرا متاثر نہ ہو۔

یہی ایک مترجم کی خوبی اور اسی خوبی میں مسکراتی ہوئی اس کی کامیابی ہے۔ اور اسی کامیابی کے ساتھ ڈاکٹر بدر قریشی صاحب نے بے حد متانت و سنجیدگی سے اس سائنسی کتاب آئن اسٹائن کی کائنات کا سائنسی اصطلاحات اور زبان کی نزاکتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے، ترجمہ کر کے بے غرض لیکن با مقصد قاری کے سامنے لا رکھا ہے۔


ترجمہ نویسی کے وقت کورے پنوں پر لفظوں کے شہر آباد کرتے ہوئے، جو سکون اور خوشی ڈاکٹر صاحب کے چہرے پر رہی ہوگی، وہ سُکون اور خوشی اس کتاب کے مسودے سے طباعت، طباعت سے اشاعت، اشاعت سے آ تقریبِ رونمائی تک، میں کئی بار ان کے چہرے پر نہ صرف دیکھ بل کہ ان سے ملاقاتوں کے وقت دوارنِ گفتگو محسوس بھی کر چُکا ہوں۔
🌹مترجم دو زبانوں کے بیچ پل کی مانند ہوتا ہے🌹


#ادبی_سلسلہ #ترجمہ_نویسی


✍️ ✍️سرفراز سخی✍️ ✍️


حصہ دوم



البرٹ آئن اسٹائن نے جو کہا ان باتوں کو لے کر، نائیجل کال ڈر کو ایسی کیا سوجھی کہ ان باتوں کو سہل کرتے ہوئے، ایک کتاب رقم کر ڈالی اور کتاب کو آئن اسٹائن کی کائنات کا نام دے، اسے یہ انمول مان بخشا اور ہمیں آئن اسٹائن سے مزید قریب سے قریب تر کر دیا! سوال بے حد مختصر ہے اور اس کا جواب، یہ کتاب۔


اور اسی طرح اس کتاب کو پڑھ کر ڈاکٹر بدر قریشی صاحب کے جی میں کیا سمایا، جو اس کتاب کو سندھی پیراہن پہنا ڈالا! پھر وہی بات، سوال مختصر اور جواب یہ کتاب۔

ڈاکٹر صاحب ایک طرف شاہ، رومی شیرازی، حافظ، غالب، اقبال، خلیل جبران، فیثا غورث، ابن الہثیم اور سقراط سے مدوت و عقیدت کا رشتہ استوار کیے ہیں، تو دوسری طرف کیپلر، گیلی لیو، نیوٹن، ڈالٹن، رتھ فورڈ اور آئن اسٹائن کو اپنے دل میں بسائے ہوئے ہیں، یعنی جہاں وہ ادب اور فلسفے تک رسائی رکھتے ہیں، وہیں انہیں سائنس کا علم بھی ہے۔


عین ممکن ہے کہ یہاں اک سوال آپ لوگوں کے ذہن میں ابھرے کہ ادب اور فلسفے جیسے موضاعات کو چھوڑ سائنس ہی کی کتاب کا آخر کیوں ترجمہ کیا؟ اس بات سے واقف ہوتے ہوئے بھی کہ ہمارے یہاں سائنس جیسے ثقیل و گَراں موضوع کے لیے قاری کی تعداد نہایت کم بے، اس کے با وجود وہ ایسی کیا چیز تھی جو ان کے لیے تقویت و ہمت کا باعث بنی، کہ جس کے بنا پر ترجمے کے واسطے انہوں نے نائیجل کال ڈر کی اس سائنسی کاوش کا انتخاب کیا؟


اس بات کے جواب سے قبل میں چاہوں گا کہ ہم لفظ سائنس کی معنی کو تھوڑا سمجھ لیں اور یہ جان لیں کہ یہ کس زبان سے ماخوذ ہے۔ سائنس کو سندھی اور اردو میں علم کہتے ہیں، اور علم کا مطلب ہوتا ہے جاننا یا آگہی حاصل کرنا۔ اپنے ارد گرد کے ماحول کا مشاہدہ کرنا، مختلف قدرتی اشیاء کے بارے میں سوچنا ہی سائنس ہے۔ اور انگریزی میں سائنس کا لفظ لاطینی کے “سیئینشا” scientia اور اس سے قبل یونانی کے “اسکیزیئن” skhizein سے آیا ہے۔ جس کے معنی الگ کرنا، چاک کرنا کے ہیں۔
🌹مترجم دو زبانوں کے بیچ پل کی مانند ہوتا ہے🌹


#ادبی_سلسلہ #ترجمہ_نویسی



✍️ ✍️ سرفراز سخی✍️ ✍️


حصہ سوم




تو سوال کا جواب یہ ہے کہ سائنس کو ڈاکٹر صاحب فلسفیانہ رُو سے آکسیجن مانتے ہیں، جو انسان کو ایک بڑی مقدار میں بے مول میسر ہے۔ اور آکسیجن کی حقیقت اس کی اہمیت و افادیت عالمِ بٙشٙریت میں کیا معنیٰ رکھتی ہے اس سے ہر بشر مکمل طور پر مُطلع ہے۔ سادہ سے لفظوں میں کہ مشاہدہ کاری کے بغیر زندگی خام خیالی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ اور خام خیالی وہم ہے، اور وہم دماغ کی وہ باطنی قوت ہے جو فاسد خیالات پیدا کرتی ہے۔ جو کہ دیمک کی مانند اندر ہی اندر ہمارے تخلیقی انسان کو چاٹ جاتے ہیں۔ جس کے بعد ہمارے سامنے فقط ایک خالی جسم رہ جاتا ہے، جس کے لیے بینجمن فرینکلن نے کہا کہ:


Some people die at age 25, and aren’t buried until they are 75.


ڈاکٹر بدر قریشی صاحب کی بحیثیت ایک مترجم یہ پہلی کاوش ہے، جو کہ ان کی محنت، جستجو اور لگن کا نتیجہ ہے، احمد مہندی صاحب نے کہا کہ:


رونقِ بزم کی خاطر جو جیا کرتے ہیں
وہ لہو اپنا چراغوں کو دیا کرتے ہیں


گو کہ ڈاکٹر صاحب نہ ہی کوئی سائنس دان ہیں، اور نہ ہی کوئی منجھے ہوئے لکھاری، اس کے با وجود محفل کی آب وتاب کے لیے جو انہوں نے اپنا لہو، اپنی مصروفیات کے باعث ترجمہ نگاری کے دوران، گزرتے پہروں کو بے طمع دیا، بلا شبہ اس اکتساب کے لیے انہیں جتنی داد دی جائے وہ کم ہو گی۔ نائیجل کال ڈر کی یہ کتاب جسے ڈاکٹر بدر قریشی صاحب نے انگریزی سے براہِ راست سندھی زبان میں ترجمہ کیا ہے، ابھی تک اردو اور پاکستان کی دیگر زبانوں میں ترجمہ نہ ہو پائی ہے، میں ڈاکٹر صاحب کی اس بہرہ مندی پر انہیں عمیقِ قلب سے مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اور امید کرتا ہوں کہ وہ اسی طرح قرطاس و قلم سے رشتہ قائم رکھیں گے۔
🌹منٹو کی منٹویت کا مزہ لیجئیے🌹

#تنقیدی_سلسلہ #تبصرہ_بر_فلم


حصہ اول





’’جب میں نے منٹو کو پڑھنا شروع کیا تو ان کے بے شمار افسانے اور مضامین کھنگال ڈالے اور ان کی روح کو سمجھتے سمجھتے مجھ میں منٹویت آ گئی۔ منٹو جیسے پیچیدہ پراجیکٹ پر مجھے چھ سال ریسرچ کرنا پڑی۔ اس مقصد کے لیے میں لاہور بھی گئی اور منٹو صاحب کی بیٹیوں سے ملی۔ لکشمی مینشن سمیت ان سبھی گلیاروں اور چو راہوں کا چکر بھی لگایا جہاں منٹو صاحب کے شب و روز بسر ہوتے تھے یوں میں نے اس سکرپٹ پر تین برس تک کام کیا۔


“میں بر ملا اعتراف کرتی ہوں کہ منٹو کی تین سو کہانیاں، بے شمار مضامین اور اور ان کی زندگی کے ان گَنِت واقعات کو میں محض دو گھنٹوں میں پیش نہیں کر سکتی مگرمیں نے منٹو کو اپنی نظریے سے دکھانے کے لیے کوشش کی ہے۔ میری خواہش تھی کہ میں اس فلم کو لاہور میں شوٹ کروں مگر جب سے ہندوستان میں پاکستانی فن کاروں کے کام کرنے پر پابندی لگی گئی تو مجھے مجبوراً لاہور کو ہندوستان میں ہی تلاش کرنا پڑا۔ لیکن مجھے بہت خوشی ہے کہ اس پراجیکٹ کے دوران میرے کئی پاکستانی دوستوں نے تحقیق کے حوالے سے مجھے بے پناہ مدد فراہم کی۔”

نندتا داس نے اپنی تازہ ترین فلم منٹو کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ ہم اس سے قبل اس کہنہ مشق ہدایت کارہ کی فلم فراق بھی دیکھ چکے ہیں کہ کیسے انہوں نے گجرات کے مسلم کش فسادات کی حساسیت کو اجاگر کیا؟ جب کہ بہ طور ایک سنجیدہ پرفارمر وہ اپنی جان دار ادا کاری سے 1947 ارتھ، عکس، ہری بھری، واٹر، پتا اور رام چند پاکستانی میں اپنے فن کا لوہا بھی منوا چکی ہیں۔

فلم کی کہانی اپنے وقت کے بلند پایہ ادیب سعادت حسن منٹو کے درمیان گھومتی ہے جو اپنے زمانے کے سماجی معروض کا بے باک نقاد رہا جس نے کھل کر سماجی تضادات کو بیان کیا اور اردو افسانے میں حقیقت نگاری کی داغ بیل ڈالی۔ منٹو کا کمال یہ تھا کہ جو لوگ اسے جی بھر کر فحاشی کا علم بردار کہہ کر کوستے رہتے، وہی اس کی کہانیاں بھی مزے مزے لے لے کر پڑھا کرتے تھے۔

منٹو ایک انقلاب پسند ادیب تھا جس نے سماج کو ویسے ہی دکھایا جیسا کہ اس سماج کا اصل چہرہ تھا۔ منٹو جنسی مریض ہر گز نہیں تھا بَل کہ وہ تو ان جنسی بھوک کے شکار افراد کا علاج کرنا چاہتا تھا۔ مجموعی طور پرعورت کے جسمانی استحصال سے لے کر تقسیم سے جنم لینے والے انتشار کو منٹو نے اپنے شاہ کار افسانوں کے ذریعے معنویت سے بھر دیا۔
🌹منٹو کی منٹویت کا مزہ لیجئیے🌹


#تنقیدی_سلسلہ #تبصرہ_بر_فلم


حصہ دوم





فلم کی کہانی 1940 کی دھائی کے بمبئی سے شروع ہوتی ہے جہاں منٹو نہ صرف افسانہ نگاری کے میدان میں خود کو منوا چکا ہے بَل کہ اس کے بو لی وڈ میں بھی گہرے مراسم ہیں۔ سپر اسٹار اشوک کمار سے لے کر جد و جہد کرتا فن کار شیام بھی اس کی دوستی کا دم بھرتا تھا۔ جب کہ اس دور کی متنازع مگر نامور افسانہ نگار عصمت چغتائی کے ساتھ بھی اس کی دوستانہ چشمک چلتی رہتی تھی۔ جب کہ ترقی پسند مصنفین کے ساتھ بھی منٹو اکثر اختلاف کرتا دکھائی دیتا ہے کہ ہم طوائف کو شجرِ ممنوع کیوں سمجھتے ہیں؟


میں اس لیے طوائف پر لکھتا ہوں کیوں کہ وہ بھی سماج کا حصہ ہیں۔ وہاں لوگ جاتے ہیں تو کیوں جاتے ہیں اب نماز تو پڑھنے نہیں جاتے ناں۔ اگر کوٹھے پر جانے کی اجازت ہے تو ان پر لکھنے کی کیوں نہیں؟ فلم کا وہ منظر بھی قابل دید ہے جب بمبئی فلمی صنعت کے مایہ ناز ہدایت کار کے آصف، منٹو کو اپنی نئی فلموں کے سکرپٹ پڑھنے کو دیتا تو منٹو ایک جملے میں اس کو بکواس کہہ کر کے آصف کو خوب ستایا کرتا۔


زندگی مزے سے گزر رہی تھی کہ منٹو کو تقسیم کا جبر سہنا پڑ گیا۔ بمبئی بھی ہندو مسلم فسادات کی زد میں آ گیا۔ منٹو کو اشوک کمار دلاسا دے کر بہلانے کی کوشش کرتا کہ فکر نہ کرو یہ پاگل پن ختم ہوجائے گا۔ مگر اصل جھٹکا منٹو کو تب لگا جب انہی فساد کی حدت سے متاثر ہو کر اس کا جگری یار شیام بھی اسے مارنے کی دھمکی دے ڈالتا ہے۔


یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب منٹو لاہور جاتے ہوئے اداسی سے کہتا ہے کہ میں بمبئی کا عمر بھر مقروض رہنا چاہتا ہوں۔ میں بھی کبھی چلتا پھرتا بمبئی تھا۔ فلم کے اس حصے میں اس دور کے بمبئی کی عمدگی سے عکاسی گئی ہے۔ اب دوسرا دور لاہور میں شروع ہوتا ہے جہاں منٹو سکونت تو اختیار کر لیتا ہے مگر تقسیم کے نتیجے میں ہونے والے آلام و مصائب اسے جھنجوڑ کر رکھ دیتے ہیں اور اس کے ذہن میں فیض کی نظم گردش کرتی ہے کہ یہ وہ صبح تو نہیں۔


اسے کام تو مل جاتا ہے مگر اس کی حقیقی مگر تلخی سے بَھر پُور تحریریں اربابِ اختیار کو نا راض کرنے کا سبب بن جاتی ہیں اور یوں اس پر معاشی تنگ دستی کے بادل چھا جاتے ہیں۔ ایسے میں اپنی بیوی صفیہ سے منٹو کا مکالمہ بھی یاد گار ہے کہ فکر نہ کرو تم بھوکی نہیں رہو گی میں کچھ نہ کچھ لکھتا ہی رہوں گا، اس پر صفیہ جل کر کہتی ہے اسی بات کا تو ڈر ہے کہ آپ لکھتے رہیں گے۔
🌹منٹو کی منٹویت کا مزہ لیجئیے🌹


#تنقیدی_سلسلہ #تبصرہ_بر_فلم



حصہ سوم




دونوں میاں بیوی میں جہاں محبت اور احترام کا گہرا رشتہ موجود ہوتا ہے وہاں اکلوتے بیٹے عارف کی موت اور معاشی مسائل اندر ہی اندر منٹو کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں اس کا متنازع افسانہ ٹھنڈا گوشت سامنے آتا ہے جو اس کے لیے زیادہ ہی گرم ثابت ہوتا ہے اور فحاشی کو فروغ دینے کی پاداش منٹو پر مقدمہ دائر ہو جاتا ہے۔ اس کورٹ روم سیکوئنس کو نہایت ہی مہارت کے ساتھ فلم بند کیا گیا ہے۔ جہاں منٹو پر تنقید کے نَشتر برسائے جا رہے ہوتے ہیں وہاں ایک بار وکیل کی عدم دست یابی پر اسے خود بھی اپنی پیروی کرنا پڑ جاتی ہے۔ منٹو پُر زور الفاظ میں کہتا ہے کہ میرے افسانے میں ایشر سنگھ نے حیوانیت سے بھرا ہوا فعل انجام دیا مگر کلونت کور کے سامنے اس کی نگاہوں میں احساس گناہ بھی تو دیکھیے۔


اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس حیوان میں بھی انسایت جاگ اٹھی تھی اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ منٹو ابھی انسانیت سے مایوس نہیں ہوا۔ اور اس بات کو سمجھیے کہ نیم کڑوا تو ہوتا ہے مگر خون تو صاف کرتا ہے۔ مقدمے کا دل چسپ پہلو تب سامنا آتا ہے جب فیض احمد فیض بھی اپنا بیان درج کراتے ہیں کہ منٹو کا یہ افسانہ فحاشی کے زمرے میں تو نہیں آتا مگر یہ ادب کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔


یوں منٹو ٹوٹ سا جاتا ہے۔ اسے تین ماہ قید اور تین سو روپے جرمانے ادا کرنے کی سزا سنا دی جاتی ہے۔ اس بے بسی کے دور میں اس کی ملاقات اپنے پرانے دوست شیام سے ہوتی ہے جو اب ایک سٹار بن جاتا ہے اور اسے اچانک ایک فنکشن کے سلسلے میں لاہور میں ملتا ہے۔