🌹🌹نظیر اکبر آبادی🌹🌹
#شخصیات #نظیر
حصہ دوم
نظیر کی آزاد زندگی میں شاعری کو نئی راہوں پر جانے کا خوب موقع ملا۔ پابندیوں کی کمی، معیار کی قید سے آزادی، زبان کی لطافتوں کے جھگڑے سے نجات حاصل ہونے کی وجہ سے نظیر کو اپنی شاعری کی دنیا وسیع کرنے کا موقع بھی مل سکا۔ اور انہوں نے غزل سے ہٹ کر نظموں پر اپنی ساری توجہ صرف کردی۔ غزلوں میں تغزل کی کیفیت بہت ہے۔
ڈاکٹر رام بابو سکسینہ مصنف تاریخ ادب اردو کا یہ کہنا ہے کہ لکھنو کا قدیم طرز چھوکہ بھی نہ گیا ہے شاید نظیر کی غزلوں کے اشعار کے پڑھنے کے بعد زیادہ صحیح نہ ثابت ہو جن میں خارجیت اور رعایت لفظی ہے۔ کلیات نظیر کی کچھ نظمیں ایسی معلوم ہوتی ہیں جو پیشہ ور دوستوں کی فرمائش پر کہی گئی ہیں۔ اور کچھ وہ ہیں جو ممکن ہے لالہ بلاس رام کے لڑکے یعنی اپنے شاگرد کو خوش کرنے کے لئے جانوروں اور چڑیوں کے بارے میں لکھی گئیں۔لیکن انہیں میں بعض نظمیں ایسی بھی دیکھی جا سکتی ہیں جن میں تصوف کا کوئی مسئلہ اشاروں کنایوں میں بیان ہوا ہے۔
نظموں کا ذخیرہ بھی کافی ہے جو جوانی اور جوانی کی سر مستیوں کا ذکر کرتی ہیں۔ اگرچہ لہجہ اور انداز بیان کہیں غیر معتدل ضرور ہوگیا ہے لیکن موضوع کے اعتبار سے ایسا نہیں ہے کہ بہت زیادہ ناگوار ہو۔ پھر ان نظموں کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔ افلاس کی زندگی کو فطرت کی رعنائیوں کے ساتھ دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ زندگی کی تکلیفوں کی تصویر کھینچی گئی ہے۔ چاہے وہ غریبی اور بڑھاپے کی وجہ سے ہو یا عشق یا کسی اور سبب سے لیکن جن نظموں کی وجہ سے نذیر کا نام زندہ رہا وہ انکی واضحانہ اور ناصحانہ نظمیں ہیں جن میں کہیں تمثیل کی مدد سے اور کہیں صاف صاف لفظوں میں زندگی کی بے ثباتی اور موت کا یقین دلانے کی کوشش کی گئی ہے۔
#شخصیات #نظیر
حصہ دوم
نظیر کی آزاد زندگی میں شاعری کو نئی راہوں پر جانے کا خوب موقع ملا۔ پابندیوں کی کمی، معیار کی قید سے آزادی، زبان کی لطافتوں کے جھگڑے سے نجات حاصل ہونے کی وجہ سے نظیر کو اپنی شاعری کی دنیا وسیع کرنے کا موقع بھی مل سکا۔ اور انہوں نے غزل سے ہٹ کر نظموں پر اپنی ساری توجہ صرف کردی۔ غزلوں میں تغزل کی کیفیت بہت ہے۔
ڈاکٹر رام بابو سکسینہ مصنف تاریخ ادب اردو کا یہ کہنا ہے کہ لکھنو کا قدیم طرز چھوکہ بھی نہ گیا ہے شاید نظیر کی غزلوں کے اشعار کے پڑھنے کے بعد زیادہ صحیح نہ ثابت ہو جن میں خارجیت اور رعایت لفظی ہے۔ کلیات نظیر کی کچھ نظمیں ایسی معلوم ہوتی ہیں جو پیشہ ور دوستوں کی فرمائش پر کہی گئی ہیں۔ اور کچھ وہ ہیں جو ممکن ہے لالہ بلاس رام کے لڑکے یعنی اپنے شاگرد کو خوش کرنے کے لئے جانوروں اور چڑیوں کے بارے میں لکھی گئیں۔لیکن انہیں میں بعض نظمیں ایسی بھی دیکھی جا سکتی ہیں جن میں تصوف کا کوئی مسئلہ اشاروں کنایوں میں بیان ہوا ہے۔
نظموں کا ذخیرہ بھی کافی ہے جو جوانی اور جوانی کی سر مستیوں کا ذکر کرتی ہیں۔ اگرچہ لہجہ اور انداز بیان کہیں غیر معتدل ضرور ہوگیا ہے لیکن موضوع کے اعتبار سے ایسا نہیں ہے کہ بہت زیادہ ناگوار ہو۔ پھر ان نظموں کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔ افلاس کی زندگی کو فطرت کی رعنائیوں کے ساتھ دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ زندگی کی تکلیفوں کی تصویر کھینچی گئی ہے۔ چاہے وہ غریبی اور بڑھاپے کی وجہ سے ہو یا عشق یا کسی اور سبب سے لیکن جن نظموں کی وجہ سے نذیر کا نام زندہ رہا وہ انکی واضحانہ اور ناصحانہ نظمیں ہیں جن میں کہیں تمثیل کی مدد سے اور کہیں صاف صاف لفظوں میں زندگی کی بے ثباتی اور موت کا یقین دلانے کی کوشش کی گئی ہے۔
🌹🌹نظیر اکبر آبادی🌹🌹
#شخصیات #نظیر
حصہ سوم
جوانی میں جتنی رندی اور سرمستی کا منظر پیش کیا بڑھاپے میں اسی کا ردعمل معلوم ہوتا ہے۔مذہبی نظموں میں جہاں اسلام کے بعض رہنماؤں کا ذکر ہے وہاں گرونانک بھی آتے ہیں اور ان کی کلیات کا اچھا خاصہ حصہ ہندو مذہب کی روایات اور تہواروں کے رنگین اور دلکش بیان کے لئے وقف ہے۔
جیسا کہ ابھی بیان ہوا کہ ان کا تعلق کسی مرکز سے نہ تھا اس لیے وہ عوام کے قریب آیے۔ اسی لئے ان کو وہ زبان بھی اختیار کرنی پڑی جو عوام کے لیے قابل فہم ہو۔ اپنے انداز بیان کے لحاظ سے نظیر اکبر آبادی کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ انہوں نے نظم کی زبان موضوع کے اعتبار سے بنائی ہے۔ چناچہ نظیر کی کلیات کا مطالعہ کرنے والا مختلف قسم کی زبانوں کے حلقے دیکھے گا جو موضوع کی مناسبت سے اس کے گرد کھینچے گئے ہیں۔ نظیر کے یہاں جو شاعرانہ واقعات اور بیان کی صداقت ملتی ہے اس میں اگر خیال کی گہرائی اور تاثیر کے تیز نشتر نہیں لیکن پھر بھی وہ ہمیں یہ ماننے پر مجبور کرتی ہے کہ ہم نظیر کو ایسا شاعر مانے جس نے اپنی نظم کا مواد روزانہ کی زندگی سے حاصل کیا۔ اور اسے اپنے رنگ میں پیش کیا۔ یہی سبب ہے کہ ان کے یہاں مقامی رنگ کافی ملتا ہے۔ وہ کسی وقت خالص مثالی چیزیں نہیں پیش کرتے بلکہ اپنے گرد و پیش کے مناظر اور واقعات کو ایک پرخلوص سادگی کے ساتھ سامنے لاتے ہیں۔ ان کی زندگی اور شاعری میں ایک طرح کی ہم آہنگی ہے جو نظم لکھنے والوں کے لیے ضروری ہے۔ نظیر کے بارے میں نقادوں نے مختلف قسم کی رائے قائم کی۔ کسی نے انہیں شاعر ہی نہیں مانا، کسی نے انہیں انیس وغیرہ سے بڑا شاعر سمجھا ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ شاعر تھے مگر صف اول کے نہیں۔ ڈاکٹر سکسینہ نے مختصر لفظوں میں لکھا ہے کہ”نظیر میں سودا کا زور، میر کی بلند پروازی، انشاء کی ظرافت اور غالب کا تصوف نظر آتا ہے۔
#شخصیات #نظیر
حصہ سوم
جوانی میں جتنی رندی اور سرمستی کا منظر پیش کیا بڑھاپے میں اسی کا ردعمل معلوم ہوتا ہے۔مذہبی نظموں میں جہاں اسلام کے بعض رہنماؤں کا ذکر ہے وہاں گرونانک بھی آتے ہیں اور ان کی کلیات کا اچھا خاصہ حصہ ہندو مذہب کی روایات اور تہواروں کے رنگین اور دلکش بیان کے لئے وقف ہے۔
جیسا کہ ابھی بیان ہوا کہ ان کا تعلق کسی مرکز سے نہ تھا اس لیے وہ عوام کے قریب آیے۔ اسی لئے ان کو وہ زبان بھی اختیار کرنی پڑی جو عوام کے لیے قابل فہم ہو۔ اپنے انداز بیان کے لحاظ سے نظیر اکبر آبادی کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ انہوں نے نظم کی زبان موضوع کے اعتبار سے بنائی ہے۔ چناچہ نظیر کی کلیات کا مطالعہ کرنے والا مختلف قسم کی زبانوں کے حلقے دیکھے گا جو موضوع کی مناسبت سے اس کے گرد کھینچے گئے ہیں۔ نظیر کے یہاں جو شاعرانہ واقعات اور بیان کی صداقت ملتی ہے اس میں اگر خیال کی گہرائی اور تاثیر کے تیز نشتر نہیں لیکن پھر بھی وہ ہمیں یہ ماننے پر مجبور کرتی ہے کہ ہم نظیر کو ایسا شاعر مانے جس نے اپنی نظم کا مواد روزانہ کی زندگی سے حاصل کیا۔ اور اسے اپنے رنگ میں پیش کیا۔ یہی سبب ہے کہ ان کے یہاں مقامی رنگ کافی ملتا ہے۔ وہ کسی وقت خالص مثالی چیزیں نہیں پیش کرتے بلکہ اپنے گرد و پیش کے مناظر اور واقعات کو ایک پرخلوص سادگی کے ساتھ سامنے لاتے ہیں۔ ان کی زندگی اور شاعری میں ایک طرح کی ہم آہنگی ہے جو نظم لکھنے والوں کے لیے ضروری ہے۔ نظیر کے بارے میں نقادوں نے مختلف قسم کی رائے قائم کی۔ کسی نے انہیں شاعر ہی نہیں مانا، کسی نے انہیں انیس وغیرہ سے بڑا شاعر سمجھا ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ شاعر تھے مگر صف اول کے نہیں۔ ڈاکٹر سکسینہ نے مختصر لفظوں میں لکھا ہے کہ”نظیر میں سودا کا زور، میر کی بلند پروازی، انشاء کی ظرافت اور غالب کا تصوف نظر آتا ہے۔
🌹🌹اردو تنقید کا ارتقاء🌹🌹
#تنقیدی_سلسلہ #تاریخ_ادب
حصہ اول
کسی بھی ادب میں تنقید کی ارتقاء کا مطالعہ اس لئے مشکل ہو جاتا ہے کہ تخلیق اور تنقید کا آپس میں گہرا رشتہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تنقید کی ایک شکل تخلیق کے اندر بھی چھپی ہوتی ہے۔ اور ہر ادب کی ابتدا میں اس کے نقوش مل جاتے ہیں۔ اسی لیے تنقید کے متعلق یہ رائے قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ اس کا پہلا بانی کون تھا۔ تنقید کو تذکرہ نگاری میں تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کیونکہ تذکرے میں شاعری کی تاریخ پیش کی گئی ہے اور جہاں تک اصول تنقید کے ارتقا کا سوال ہے ان تذکروں سے مدد ملتی ہے۔اردو شعراء سے متعلق پہلا تذکرہ میر کا ‘نکات الشعراء‘ ہے۔ یہ تذکرہ ١٧٥٢ء میں مرتب ہوا۔ اس کے بعد بھی بہت سے تذکرے لکھے گئے تذکرے میں کسی مخصوص تنقیدی نقطہ نظر کو رہنما نہیں بنایا جاتا ہے، اسی لیے ان تذکروں میں کسی تنقیدی اصول کو تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن ان تذکروں کی مدد سے اردو شاعری کے ارتقاء کو سمجھا جاسکتا ہے۔ ان میں جن شعرا کا تذکرہ ہے ان کی شاعری کی خوبیوں اور خامیوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
بنیادی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ تنقید کی ابتدا تذکرے سے ہوئی۔ ان تذکروں سے نہ صرف شعراء کے حالات زندگی کا پتہ چلتا ہے بلکہ انکے کلام کی خوبیوں اور خامیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ یعنی یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ تذکرے میں شاعری کے ظاہری فنی مسائل سے بحث کی جاتی ہے۔ تذکرہ نگاری کے اپنے حدود ہیں ان میں جو تنقیدی جھلک ملتی ہے وہ اس وقت کے اہم ادبی شعور کا عکس ہیں۔
اردو تنقید کا منظرنامہ ١٨٥٧ء سے تبدیل ہوتا ہے جس طرح دوسرے اصناف میں تبدیلی ہوئی اسی طرح تنقید میں بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ حالی اور آزاد جو کہ جدید نظم کے بانی بھی ہیں انہوں نے نئے خیالات سے اردو شاعری کو آشنا کیا۔ آزاد نے‘آب حیات‘ لکھ کر اردو تنقید کی ابتدا کی۔ لیکن اردو تنقید کی با ضابطہ ابتدا حالی کی ‘مقدمہ شعر و شاعری’ سے ہوتی ہے۔آزاد نے ‘آب حیات’ میں اردو شعراء اور ان کی شاعری کا عہد بہ عہد تذکرہ کیا ہے لیکن ان کے پیش نظر ان کا اپنا پسند اور نا پسند بھی تھا۔ جن شعراء کو وہ پسند کرتے تھے ان کی بے جا تعریف کی ہے اور جو انہیں نا پسند تھے ان کی خامیوں کو نمایاں کیا ہے۔ اور یہ تنقیدی اصول کے خلاف ہے۔ لیکن اب حیات کی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ آزاد نے پہلی بار زبان کا ایک نیا نظریہ بھی پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ "اردو برج بھاشا سے نکلی ہے” بعد کے نقادوں نے ‘آب حیات‘ سے بہت استفادہ کیا ہے اور جیسے جیسے تنقیدی شعور پختہ ہو رہے تھے اس کی نشاندہی بھی کرنے لگے۔
#تنقیدی_سلسلہ #تاریخ_ادب
حصہ اول
کسی بھی ادب میں تنقید کی ارتقاء کا مطالعہ اس لئے مشکل ہو جاتا ہے کہ تخلیق اور تنقید کا آپس میں گہرا رشتہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تنقید کی ایک شکل تخلیق کے اندر بھی چھپی ہوتی ہے۔ اور ہر ادب کی ابتدا میں اس کے نقوش مل جاتے ہیں۔ اسی لیے تنقید کے متعلق یہ رائے قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ اس کا پہلا بانی کون تھا۔ تنقید کو تذکرہ نگاری میں تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کیونکہ تذکرے میں شاعری کی تاریخ پیش کی گئی ہے اور جہاں تک اصول تنقید کے ارتقا کا سوال ہے ان تذکروں سے مدد ملتی ہے۔اردو شعراء سے متعلق پہلا تذکرہ میر کا ‘نکات الشعراء‘ ہے۔ یہ تذکرہ ١٧٥٢ء میں مرتب ہوا۔ اس کے بعد بھی بہت سے تذکرے لکھے گئے تذکرے میں کسی مخصوص تنقیدی نقطہ نظر کو رہنما نہیں بنایا جاتا ہے، اسی لیے ان تذکروں میں کسی تنقیدی اصول کو تلاش نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن ان تذکروں کی مدد سے اردو شاعری کے ارتقاء کو سمجھا جاسکتا ہے۔ ان میں جن شعرا کا تذکرہ ہے ان کی شاعری کی خوبیوں اور خامیوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
بنیادی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ تنقید کی ابتدا تذکرے سے ہوئی۔ ان تذکروں سے نہ صرف شعراء کے حالات زندگی کا پتہ چلتا ہے بلکہ انکے کلام کی خوبیوں اور خامیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ یعنی یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ تذکرے میں شاعری کے ظاہری فنی مسائل سے بحث کی جاتی ہے۔ تذکرہ نگاری کے اپنے حدود ہیں ان میں جو تنقیدی جھلک ملتی ہے وہ اس وقت کے اہم ادبی شعور کا عکس ہیں۔
اردو تنقید کا منظرنامہ ١٨٥٧ء سے تبدیل ہوتا ہے جس طرح دوسرے اصناف میں تبدیلی ہوئی اسی طرح تنقید میں بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ حالی اور آزاد جو کہ جدید نظم کے بانی بھی ہیں انہوں نے نئے خیالات سے اردو شاعری کو آشنا کیا۔ آزاد نے‘آب حیات‘ لکھ کر اردو تنقید کی ابتدا کی۔ لیکن اردو تنقید کی با ضابطہ ابتدا حالی کی ‘مقدمہ شعر و شاعری’ سے ہوتی ہے۔آزاد نے ‘آب حیات’ میں اردو شعراء اور ان کی شاعری کا عہد بہ عہد تذکرہ کیا ہے لیکن ان کے پیش نظر ان کا اپنا پسند اور نا پسند بھی تھا۔ جن شعراء کو وہ پسند کرتے تھے ان کی بے جا تعریف کی ہے اور جو انہیں نا پسند تھے ان کی خامیوں کو نمایاں کیا ہے۔ اور یہ تنقیدی اصول کے خلاف ہے۔ لیکن اب حیات کی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ آزاد نے پہلی بار زبان کا ایک نیا نظریہ بھی پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ "اردو برج بھاشا سے نکلی ہے” بعد کے نقادوں نے ‘آب حیات‘ سے بہت استفادہ کیا ہے اور جیسے جیسے تنقیدی شعور پختہ ہو رہے تھے اس کی نشاندہی بھی کرنے لگے۔
🌹🌹اردو تنقید کا ارتقاء🌹🌹
#تنقیدی_سلسلہ #تاریخ_ادب
حصہ دوم
آزاد اور حالی دونوں ادب میں تبدیلی لانا چاہتے تھے حالی خاص طور سے شاعری کے اصلاحی اور افادی پہلو پر زور دیتے ہیں اس لحاظ سے حالی کا نقطہ نظر مختلف ہو جاتا ہے اور وہ شاعری میں سماجی شعور کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ”مقدمہ شعر و شاعری” نہ صرف حالی کی بلکہ اردو کی مکمل تنقیدی کتاب ہے۔ اس میں حالی نے شعر کہنے کے اصول و ضوابط طے کیے اور یہ کہا کہ شعر کے لیے سادگی، اصلیت اور جوش ضروری ہیں۔ اسی طرح شعراء کے لیے بھی انہوں نے تین چیزوں کو ضروری قرار دیا۔ وہ یہ ہیں تخیل، مطالعہ کائنات، اور تفحص الفاظ۔
محمد حسین آزاد، حالی اور شبلی نعمانی، یہ تینوں نقاد، عملی تنقید کی طرف متوجہ ہوئے۔ انہوں نے مختلف شعراء کے کلام کا تجزیہ کیا۔ عملی تنقید کے ذریعے کئی اصناف کے حدود اور امکانات کی چھان بین بھی ان نقادوں نے بڑی خوبی سے کی ہے۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو تنقید کی ابتدا انیسویں صدی کے آخری اور بیسویں صدی کے ابتدائی حصے میں ہوئی۔ یہی زمانہ ہندوستان کی دوسری زبانوں میں بھی تنقید کی ابتدا کا ہے حالی نے جس طرح سے تنقیدی شعور کا ثبوت پیش کیا ہے وہ انہیں اپنے عہد کے دوسرے نقادوں سے الگ کر دیتا ہے۔ اور یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ حالی نے تنقید کی نئی راہ نکالی۔ سماجی نقطہ نظر سے بھی حالی نے اظہار خیال کیا ہے۔ جمالیاتی پہلوؤں کو شبلی کے یہاں تلاش کر سکتے ہیں یہی وہ دور ہے جب شعر و ادب کے سماجی پہلوؤں اور جمالیاتی پہلوؤں پر توجہ دی گئی۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے نقاد بعد میں نظر آتے ہیں جن میں امداد امام اثر، سلیم پانی پتی، مہدی افادی، سلمان انصاری، رشید احمد صدیقی، عبدالحق، عظمت اللہ خان اور دوسرے نقادوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تاریخی رحجان کی جھلک عبدالحق، سلمان ندوی اور عبدالسلام ندوی کے یہاں ملتی ہے۔ جمالیاتی اور تاثراتی انداز مہدی افادی، عبدالرحمن بجنوری، اور سجاد انصاری کے یہاں دکھائی دیتی ہے۔ نفسیاتی پہلو عبدالماجد دریا بادی، عظمۃ اللہ اور ڈاکٹر زور کی بعض تنقیدوں میں نظر آتے ہیں۔
#تنقیدی_سلسلہ #تاریخ_ادب
حصہ دوم
آزاد اور حالی دونوں ادب میں تبدیلی لانا چاہتے تھے حالی خاص طور سے شاعری کے اصلاحی اور افادی پہلو پر زور دیتے ہیں اس لحاظ سے حالی کا نقطہ نظر مختلف ہو جاتا ہے اور وہ شاعری میں سماجی شعور کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ”مقدمہ شعر و شاعری” نہ صرف حالی کی بلکہ اردو کی مکمل تنقیدی کتاب ہے۔ اس میں حالی نے شعر کہنے کے اصول و ضوابط طے کیے اور یہ کہا کہ شعر کے لیے سادگی، اصلیت اور جوش ضروری ہیں۔ اسی طرح شعراء کے لیے بھی انہوں نے تین چیزوں کو ضروری قرار دیا۔ وہ یہ ہیں تخیل، مطالعہ کائنات، اور تفحص الفاظ۔
محمد حسین آزاد، حالی اور شبلی نعمانی، یہ تینوں نقاد، عملی تنقید کی طرف متوجہ ہوئے۔ انہوں نے مختلف شعراء کے کلام کا تجزیہ کیا۔ عملی تنقید کے ذریعے کئی اصناف کے حدود اور امکانات کی چھان بین بھی ان نقادوں نے بڑی خوبی سے کی ہے۔ اس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو تنقید کی ابتدا انیسویں صدی کے آخری اور بیسویں صدی کے ابتدائی حصے میں ہوئی۔ یہی زمانہ ہندوستان کی دوسری زبانوں میں بھی تنقید کی ابتدا کا ہے حالی نے جس طرح سے تنقیدی شعور کا ثبوت پیش کیا ہے وہ انہیں اپنے عہد کے دوسرے نقادوں سے الگ کر دیتا ہے۔ اور یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ حالی نے تنقید کی نئی راہ نکالی۔ سماجی نقطہ نظر سے بھی حالی نے اظہار خیال کیا ہے۔ جمالیاتی پہلوؤں کو شبلی کے یہاں تلاش کر سکتے ہیں یہی وہ دور ہے جب شعر و ادب کے سماجی پہلوؤں اور جمالیاتی پہلوؤں پر توجہ دی گئی۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے نقاد بعد میں نظر آتے ہیں جن میں امداد امام اثر، سلیم پانی پتی، مہدی افادی، سلمان انصاری، رشید احمد صدیقی، عبدالحق، عظمت اللہ خان اور دوسرے نقادوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تاریخی رحجان کی جھلک عبدالحق، سلمان ندوی اور عبدالسلام ندوی کے یہاں ملتی ہے۔ جمالیاتی اور تاثراتی انداز مہدی افادی، عبدالرحمن بجنوری، اور سجاد انصاری کے یہاں دکھائی دیتی ہے۔ نفسیاتی پہلو عبدالماجد دریا بادی، عظمۃ اللہ اور ڈاکٹر زور کی بعض تنقیدوں میں نظر آتے ہیں۔
🌹🌹اردو تنقید کا ارتقاء🌹🌹
#تنقیدی_سلسلہ #تاریخ_ادب
حصہ سوم
١٩٣٦ء کے بعد جب ترقی پسند تحریک زوروں پر تھی مارکسی تنقید نے اپنا قدم جمایا جسے ترقی پسند تنقید بھی کہا جاتا ہے اس عہد میں اردو تنقید نے ایک نئی راہ تلاش کی اور مارکسی نظریے کو پیش کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے کا پہلا مضمون اختر حسین رائے پوری کا ‘ادب اور زندگی‘ تھا۔ جو ١٩٣٥ء میں لکھا گیا۔ اس سے ادب اور زندگی کے سماجی اور فکری رشتے کا پتہ چلتا ہے۔ مارکسی تنقید کی طرف یہ پہلا شعوری قدم تھا۔ اس کے بعد سجاد ظہیر، احمد علی، ڈاکٹر عبد العلیم، احتشام حسین وغیرہ نے مارکسی تنقید کو آگے بڑھایا اور یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ تنقید محض تاثراتی نہیں بلکہ نظریاتی بھی ہونی چاہیے۔ اس دور میں بہت سے نقاد سامنے آئے اور انہوں نے اپنے اپنے طور پر مارکسی تنقید کو پیش کرنے کی کوشش کی جن میں ممتاز حسین، اعجاز حسین، عبادت بریلوی، سردار جعفری، ظہیر کاشمیری، خلیل الرحمن اعظمی، محمد حسن اور قمر رئیس وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔اس عہد میں بعض ایسے نقاد بھی سامنے آئے جن کا تعلق ترقی پسند تنقید سے نہیں تھا ان میں رشید احمد صدیقی، وقار عظیم، اختر اورینوی، خواجہ احمد فاروقی، کلیم الدین احمد، نور محمد حسن عسکری وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں جنہوں نے ترقی پسند تنقید سے الگ راستہ اپنایا اور نفسیاتی تنقید و جمالیاتی تنقید پر توجہ دی۔
ترقی پسند تنقید کے بعد جدیدیت کا دور آتا ہے جو ١٩٦٠ء کے بعد کا زمانہ ہے اس میں ترقی پسند تحریک کے خلاف ایک نیا رحجان سامنے آیا جسے جدیدیت کا نام دیا گیا۔ اس دور میں سب سے بڑا نام شمس الرحمن فاروقی کا ھے اس کے بعد باقر مہدی، وہاب اشرفی وغیرہ کے نام آتے ہیں۔ اس کے بعد ایک اور عہد مابعد جدید دور کہلاتا ہے جس میں ہم ابھی سانس لے رہے ہیں۔ مابعد جدیدیت کی شروعات گوپی چند نارنگ نے کی اور اس کے بعد ما بعد جدید تنقید کی پوری ایک نسل سامنے آجاتی ہے جن میں شمیم حنفی، عتیق اللہ، ابوالکلام قاسمی، اور شافع قدوائی وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔
#تنقیدی_سلسلہ #تاریخ_ادب
حصہ سوم
١٩٣٦ء کے بعد جب ترقی پسند تحریک زوروں پر تھی مارکسی تنقید نے اپنا قدم جمایا جسے ترقی پسند تنقید بھی کہا جاتا ہے اس عہد میں اردو تنقید نے ایک نئی راہ تلاش کی اور مارکسی نظریے کو پیش کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے کا پہلا مضمون اختر حسین رائے پوری کا ‘ادب اور زندگی‘ تھا۔ جو ١٩٣٥ء میں لکھا گیا۔ اس سے ادب اور زندگی کے سماجی اور فکری رشتے کا پتہ چلتا ہے۔ مارکسی تنقید کی طرف یہ پہلا شعوری قدم تھا۔ اس کے بعد سجاد ظہیر، احمد علی، ڈاکٹر عبد العلیم، احتشام حسین وغیرہ نے مارکسی تنقید کو آگے بڑھایا اور یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ تنقید محض تاثراتی نہیں بلکہ نظریاتی بھی ہونی چاہیے۔ اس دور میں بہت سے نقاد سامنے آئے اور انہوں نے اپنے اپنے طور پر مارکسی تنقید کو پیش کرنے کی کوشش کی جن میں ممتاز حسین، اعجاز حسین، عبادت بریلوی، سردار جعفری، ظہیر کاشمیری، خلیل الرحمن اعظمی، محمد حسن اور قمر رئیس وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔اس عہد میں بعض ایسے نقاد بھی سامنے آئے جن کا تعلق ترقی پسند تنقید سے نہیں تھا ان میں رشید احمد صدیقی، وقار عظیم، اختر اورینوی، خواجہ احمد فاروقی، کلیم الدین احمد، نور محمد حسن عسکری وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں جنہوں نے ترقی پسند تنقید سے الگ راستہ اپنایا اور نفسیاتی تنقید و جمالیاتی تنقید پر توجہ دی۔
ترقی پسند تنقید کے بعد جدیدیت کا دور آتا ہے جو ١٩٦٠ء کے بعد کا زمانہ ہے اس میں ترقی پسند تحریک کے خلاف ایک نیا رحجان سامنے آیا جسے جدیدیت کا نام دیا گیا۔ اس دور میں سب سے بڑا نام شمس الرحمن فاروقی کا ھے اس کے بعد باقر مہدی، وہاب اشرفی وغیرہ کے نام آتے ہیں۔ اس کے بعد ایک اور عہد مابعد جدید دور کہلاتا ہے جس میں ہم ابھی سانس لے رہے ہیں۔ مابعد جدیدیت کی شروعات گوپی چند نارنگ نے کی اور اس کے بعد ما بعد جدید تنقید کی پوری ایک نسل سامنے آجاتی ہے جن میں شمیم حنفی، عتیق اللہ، ابوالکلام قاسمی، اور شافع قدوائی وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔
🌹🌹غالب کی مشکل پسندی🌹🌹
#تنقیدی_سلسلہ #غالب
حصہ اول
غالب کی مشکل پسندی کو نفسیات کے نقطہء نظر سے دیکھا جائے تو انسانی ذہن بہت سے پیچیدہ مسائل کی آماجگاہ نظر آتا ہے۔ ان کا تجزیہ کرنا اور مسائل کا حل تلاش کرنا ایک عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ اس لیے عام آدمی کے تجزیوں کو اہمیت نہیں دی جاتی، لیکن جب یہی بات ہمیں کسی شاعر کی شاعری‘ مصور کے فن پارے‘ یا کسی ادیب کی تحریر میں نظر آتی ہے تو ہم حیران رہ جاتے ہیں اور ہمیں لگتا ہے کہ اس نے ہمارے دل کی بات کہہ دی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی ذہن تک رسائی بہت مشکل ہے۔ مگر نفسیات کو سمجھنا اور اس سے فن پارہ تشکیل دے دینا خالصتا“ فن کی معراج ہے۔ اردو دان حضرات بجا طور پر “ غالب “ کو اردو غزل کا سب سے بڑا شاعر تسلیم کرتے ہیں۔ غالب نفسیاتی لحاظ سے مشکل پسند شاعر تھے۔ ان کی غزلیں ان کی اپنی نفسیاتی زندگی کی تصویریں ہیں شاید اسی نفسیاتی پیچیدگی نے ان میں مشکل پسندی کوٹ کوٹ کر بھر دی۔ شعر کا مضمون ہو یا الفاظ کی تراکیب‘ اسلوب بیان ہو یا بحروں کا چناؤ غالب نے نہایت آسانی سے مشکل پسندی کو برتا۔ غالب کے کلام کا جائزہ ہمیں بتاتا ہے کہ الفت ذات اور محبوب کی چاہ نے ان کے شعروں میں مشکل پسندی کے خد و خال ابھارے۔ اور وہ اپنی علمیت کا احساس دلاتے چلے گئے۔ ابتدائے شاعری ہی میں شعور اور لا شعور میں پیدا ہونے والے سوالات سے شعر کی تخلیق‘ فارسی تراکیب کا استعمال‘ غالب اپنی علمیت کا سکہ جماتے نظر آتے ہیں
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
بسکہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
#تنقیدی_سلسلہ #غالب
حصہ اول
غالب کی مشکل پسندی کو نفسیات کے نقطہء نظر سے دیکھا جائے تو انسانی ذہن بہت سے پیچیدہ مسائل کی آماجگاہ نظر آتا ہے۔ ان کا تجزیہ کرنا اور مسائل کا حل تلاش کرنا ایک عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ اس لیے عام آدمی کے تجزیوں کو اہمیت نہیں دی جاتی، لیکن جب یہی بات ہمیں کسی شاعر کی شاعری‘ مصور کے فن پارے‘ یا کسی ادیب کی تحریر میں نظر آتی ہے تو ہم حیران رہ جاتے ہیں اور ہمیں لگتا ہے کہ اس نے ہمارے دل کی بات کہہ دی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی ذہن تک رسائی بہت مشکل ہے۔ مگر نفسیات کو سمجھنا اور اس سے فن پارہ تشکیل دے دینا خالصتا“ فن کی معراج ہے۔ اردو دان حضرات بجا طور پر “ غالب “ کو اردو غزل کا سب سے بڑا شاعر تسلیم کرتے ہیں۔ غالب نفسیاتی لحاظ سے مشکل پسند شاعر تھے۔ ان کی غزلیں ان کی اپنی نفسیاتی زندگی کی تصویریں ہیں شاید اسی نفسیاتی پیچیدگی نے ان میں مشکل پسندی کوٹ کوٹ کر بھر دی۔ شعر کا مضمون ہو یا الفاظ کی تراکیب‘ اسلوب بیان ہو یا بحروں کا چناؤ غالب نے نہایت آسانی سے مشکل پسندی کو برتا۔ غالب کے کلام کا جائزہ ہمیں بتاتا ہے کہ الفت ذات اور محبوب کی چاہ نے ان کے شعروں میں مشکل پسندی کے خد و خال ابھارے۔ اور وہ اپنی علمیت کا احساس دلاتے چلے گئے۔ ابتدائے شاعری ہی میں شعور اور لا شعور میں پیدا ہونے والے سوالات سے شعر کی تخلیق‘ فارسی تراکیب کا استعمال‘ غالب اپنی علمیت کا سکہ جماتے نظر آتے ہیں
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
بسکہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
🌹🌹غالب کی مشکل پسندی🌹🌹
#تنقیدی_سلسلہ #غالب
حصہ دوم
ان کی ابتدئ شاعری میں بیدل کا رنگ نظر آتا ہے۔ مگر جب وہ عرفی اور نظیری سے ہوتے ہوئے میر کی شاعری سے متاثر ہوئے تو سادگی اور سہل پسندی کی انتہا پر پہنچ گئے۔ کبھی وہ کہتے تھے کہ ان کا اصل کلام فارسی کلام ہے مگر جب اردو کلام میں ان کا نام ہر جگہ گونجنے لگا تو غالب کو فارسی کی مشکل پسندی سے میر کی سہل نگاری کی طرف سفر کرنا پڑا مگر رمز کا مارا دل مشکل پسندی کو ترک کر نہ سکا۔ ایک تنقید نگار کا کہنا ہے کہ غالب کی شاعری کا ارتقا بہت تیزی سے ہوا۔ وہ بہت سے شاعروں سے متاثر ہوئے مگر میر کی طرف سب سے آخر میں آئے۔ غالب کی شاعری کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ان کی شاعری کو جس دور میں بھی تنقید کی نظر سے دیکھا گیا وہ ہر معیار پر پورا اترا۔ ادبی تحریکوں نے اپنی کسوٹیوں پر پرکھا جدید تخلیقی تصورات بھی بہت نمایاں رہے مگر کوئے ان کی شہرت کو داغ نہ لگا سکا۔ اردو ادب کی تاریخ میں ان کی اہمیت مسلم ہے۔ غالب کے ادبی دشمن بھی ان کی عظمت اور علمیت کے معترف رہے اپنے عصر سے دور حاضر تک ان کی شہرت بڑھتی رہی کبھی کم نہ ہوئی۔ آگرہ میں 27 دسمبر 1797ء میں اسد اللہ پیدا ہوئے۔ 13 سال کی عمر میں شادی ہوئی خاندانی عظمت اور نسلی برتری کا احساس غالب رہا۔ آمدنی کا کوئی خاص ذریعہ نہ تھا پھر بھی آن بان سے رہے۔ مے نوشی اور جوئے کے شوقین تھے گرفتار بھی ہوئے مغل دربار سے بھی وابستہ رہے۔ گھریلو زندگی ہمیشہ کبھی نہ سلجھنے اور نہ سلجھانے کا معمہ بنی رہی۔ جس کا اظہار ان کے لطائف اور شاعری میں بھی ہوتا ہے۔ مفلوک الحال‘مقروض‘ خود پسند ‘ حسن پرست‘ نفسیاتی مسائل کو موضوع سخن بنانا‘ محرومیوں کے ساتھ ساتھ زندہ دلی کی تصویر پیش کرنا اس عظیم شاعر کے مقام کو متعین کرتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے کہ جہاں ہر شاعر پہنچنے کا آرزو مند ہے مگر یہ مقام غالب کے علاوہ کسی کو نہ مل سکا۔ ان کی شاعری میں جہاں سادگی اور موضوعات کا تنوع نظر اتا ہے وہیں خیال کی بلندی اور تراکیب کا اچھوتا پن بھی نمایاں ہے۔ ان کی مشکل پسندی میں بھی ایک سہل پرستی ہے جو ہر دور کے انسان کی زندگی کے تصورات کو منعکس کرتی ہے تبھی ہر دور کا قاری ان کا گرویدہ ہے اردو ادب کا یہ عظیم شاعر 15 فروری 1869ء کو دار فانی سے کوچ کر گیا۔
درد منت کش دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا
کتنے شیریں ہیں ترے لب کہ ترا رقیب گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالب غزل سرا نہ ہوا
#تنقیدی_سلسلہ #غالب
حصہ دوم
ان کی ابتدئ شاعری میں بیدل کا رنگ نظر آتا ہے۔ مگر جب وہ عرفی اور نظیری سے ہوتے ہوئے میر کی شاعری سے متاثر ہوئے تو سادگی اور سہل پسندی کی انتہا پر پہنچ گئے۔ کبھی وہ کہتے تھے کہ ان کا اصل کلام فارسی کلام ہے مگر جب اردو کلام میں ان کا نام ہر جگہ گونجنے لگا تو غالب کو فارسی کی مشکل پسندی سے میر کی سہل نگاری کی طرف سفر کرنا پڑا مگر رمز کا مارا دل مشکل پسندی کو ترک کر نہ سکا۔ ایک تنقید نگار کا کہنا ہے کہ غالب کی شاعری کا ارتقا بہت تیزی سے ہوا۔ وہ بہت سے شاعروں سے متاثر ہوئے مگر میر کی طرف سب سے آخر میں آئے۔ غالب کی شاعری کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ان کی شاعری کو جس دور میں بھی تنقید کی نظر سے دیکھا گیا وہ ہر معیار پر پورا اترا۔ ادبی تحریکوں نے اپنی کسوٹیوں پر پرکھا جدید تخلیقی تصورات بھی بہت نمایاں رہے مگر کوئے ان کی شہرت کو داغ نہ لگا سکا۔ اردو ادب کی تاریخ میں ان کی اہمیت مسلم ہے۔ غالب کے ادبی دشمن بھی ان کی عظمت اور علمیت کے معترف رہے اپنے عصر سے دور حاضر تک ان کی شہرت بڑھتی رہی کبھی کم نہ ہوئی۔ آگرہ میں 27 دسمبر 1797ء میں اسد اللہ پیدا ہوئے۔ 13 سال کی عمر میں شادی ہوئی خاندانی عظمت اور نسلی برتری کا احساس غالب رہا۔ آمدنی کا کوئی خاص ذریعہ نہ تھا پھر بھی آن بان سے رہے۔ مے نوشی اور جوئے کے شوقین تھے گرفتار بھی ہوئے مغل دربار سے بھی وابستہ رہے۔ گھریلو زندگی ہمیشہ کبھی نہ سلجھنے اور نہ سلجھانے کا معمہ بنی رہی۔ جس کا اظہار ان کے لطائف اور شاعری میں بھی ہوتا ہے۔ مفلوک الحال‘مقروض‘ خود پسند ‘ حسن پرست‘ نفسیاتی مسائل کو موضوع سخن بنانا‘ محرومیوں کے ساتھ ساتھ زندہ دلی کی تصویر پیش کرنا اس عظیم شاعر کے مقام کو متعین کرتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے کہ جہاں ہر شاعر پہنچنے کا آرزو مند ہے مگر یہ مقام غالب کے علاوہ کسی کو نہ مل سکا۔ ان کی شاعری میں جہاں سادگی اور موضوعات کا تنوع نظر اتا ہے وہیں خیال کی بلندی اور تراکیب کا اچھوتا پن بھی نمایاں ہے۔ ان کی مشکل پسندی میں بھی ایک سہل پرستی ہے جو ہر دور کے انسان کی زندگی کے تصورات کو منعکس کرتی ہے تبھی ہر دور کا قاری ان کا گرویدہ ہے اردو ادب کا یہ عظیم شاعر 15 فروری 1869ء کو دار فانی سے کوچ کر گیا۔
درد منت کش دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا
کتنے شیریں ہیں ترے لب کہ ترا رقیب گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالب غزل سرا نہ ہوا
🌹🌹فسانہ مبتلا🌹🌹
#تنقیدی_سلسلہ #تبصرہ_بر_کتب
فسانہ مبتلا مولوی ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کا مشہور و معروف معاشرتی اصلاحی ناول ہے جو 1885ء میں شائع ہوا۔ اس میں ناول میں ایک پرانا جاگیر دار طبقہ دکھایا گیا ہے جس کی مضبوط علامت غیرت بیگم کے روپ میں ابھرتی ہے اور مبتلا جو اس طبقے کی نمائندگی اپنے عیاش رویے سے کرتا ہے اور ہریالی جو معاشرے کے رذیل طبقے (طوائف کے طبقے ) سے تعلق رکھتی ہے۔ مگر سلیقے میں غیرت بیگم سے بہتر ہے۔
اس طرح مولوی نذیر احمد نے اپنے عہد کے نچلے متوسط طبقے کی پیشکش کے ساتھ ان کی اصلاح چاہی۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ خود بھی اسی طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور معاشرے میں موجود طبقۂ اشرافیہ انھیں متاثر کرتا تھا۔ چنانچہ وہ نچلے اور بالائی طبقے کے درمیانی فرق کو لاشعوری طور پر ختم کرنا چاہتے تھے اور مولانا صلاح الدین احمد کے الفاظ میں :
” وہ نچلے درمیانے طبقے کو ابھار کر اور اسراف اور تضیحِ وقت و زر سے بچا کر ایسے مقام پر پہنچا دینا چاہتے تھے ۔ جو اس وقت تک اونچے طبقے ہی کی پہنچ میں تھا۔ “
#تنقیدی_سلسلہ #تبصرہ_بر_کتب
فسانہ مبتلا مولوی ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کا مشہور و معروف معاشرتی اصلاحی ناول ہے جو 1885ء میں شائع ہوا۔ اس میں ناول میں ایک پرانا جاگیر دار طبقہ دکھایا گیا ہے جس کی مضبوط علامت غیرت بیگم کے روپ میں ابھرتی ہے اور مبتلا جو اس طبقے کی نمائندگی اپنے عیاش رویے سے کرتا ہے اور ہریالی جو معاشرے کے رذیل طبقے (طوائف کے طبقے ) سے تعلق رکھتی ہے۔ مگر سلیقے میں غیرت بیگم سے بہتر ہے۔
اس طرح مولوی نذیر احمد نے اپنے عہد کے نچلے متوسط طبقے کی پیشکش کے ساتھ ان کی اصلاح چاہی۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ خود بھی اسی طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور معاشرے میں موجود طبقۂ اشرافیہ انھیں متاثر کرتا تھا۔ چنانچہ وہ نچلے اور بالائی طبقے کے درمیانی فرق کو لاشعوری طور پر ختم کرنا چاہتے تھے اور مولانا صلاح الدین احمد کے الفاظ میں :
” وہ نچلے درمیانے طبقے کو ابھار کر اور اسراف اور تضیحِ وقت و زر سے بچا کر ایسے مقام پر پہنچا دینا چاہتے تھے ۔ جو اس وقت تک اونچے طبقے ہی کی پہنچ میں تھا۔ “
🌹🌹ڈپٹی نذیر احمد🌹🌹
#شخصیات #ڈپٹی_نذیر
شمس العلماء خان بہادر حافظ ڈپٹی مولوی نذیر احمد،
ریاست حیدرآباد سے انہیں غیور جنگ کا خطاب دیا گیا تھا جسے انہوں نے قبول نہیں کیا
پیدائش: 1836ء یا 6 دسمبر 1831ء وفات: 3 مئی 1912ء ضلع بجنور کی تحصیل نگینہ کے ایک گاؤں ریہر میں پیدا ہوئے۔ ایک مشہور بزرگ شاہ عبدالغفور اعظم پوری کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے، لیکن آپ کے والد مولوی سعادت علی غریب آدمی تھے اور یو پی کے ضلع بجنور کے رہنے والے تھے۔
شروع کی تعلیم والد صاحب سے حاصل کی۔ چودہ برس کے ہوئے تو دلی آ گئے اور یہاں اورنگ آبادی مسجد کے مدرسے میں داخل ہو گئے۔ مولوی عبدالخالق ان کے استاد تھے۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ مسلمانوں کی حالت اچھی نہ تھی۔ دہلی کے آس پاس برائے نام مغل بادشاہت قائم تھی۔ دینی مدرسوں کے طالب علم محلوں کے گھروں سے روٹیاں لا کر پیٹ بھرتے تھے اور تعلیم حاصل کرتے تھے۔ نذ یر احمد کو بھی یہی کچھ کرنا پڑتا تھا، بلکہ ان کے لیے تو ایک پریشانی یہ تھی کہ وہ جس گھر سے روٹی لاتے تھے اس میں ایک ایسی لڑکی رہتی تھی جو پہلے ان سے ہانڈی کے لیے مصالحہ یعنی مرچیں، دھنیا اور پیاز تیاز وغیرہ پسواتی تھی اور پھر روٹی دیتی تھی اور اگر کام کرتے ہوئے سستی کرتے تھے تو ان کی انگلیوں پر سل کا بٹہ مارتی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس لڑکی سے ان کی شادی ہوئی۔
کچھ عرصہ بعد دلی کالج میں داخل ہوئے جہاں انہوں نے عربی، فلسفہ اور ریاضی کی تعلیم حاصل کی ۔
مولوی نذیر احمد نے اپنی زندگی کا آغاز ایک مدرس کی حیثیت سے کیا لیکن خداداد ذہانت اور انتھک کوششوں سے جلد ہی ترقی کر کے ڈپٹی انسپکٹر مدارس مقرر ہوئے۔ مولوی صاحب نے انگریزی میں بھی خاصی استعداد پیدا کر لی اور انڈین پینل کوڈ کا ترجمہ (تعزیرات ہند) کے نام سے کیا جو سرکاری حلقوں میں بہت مقبول ہوا اور آج تک استعمال ہوتا ہے۔ اس کے صلے میں آپ کو تحصیلدار مقرر کیا گیا۔ پھر ڈپٹی کلکٹر ہو گئے۔ نظام دکن نے ان کی شہرت سن کر ان کی خدمات ریاست میں منتقل کرا لیں جہاں انہیں آٹھ سو روپے ماہوار پر افسر بند و بست مقرر کیا گیا۔
ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد مولوی صاحب نے اپنی زندگی تصنیف و تالف میں گزاری۔ اس علمی و ادبی میدان میں بھی حکومت نے انہیں 1897ء شمس العلماء کا خطاب دیا اور 1902ء میں ایڈنبرا یونیورسٹی نے ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔ 1910ء میں پنجاب یونیورسٹی نے ڈی۔ او۔ ایل کی ڈگری عطا کی۔ آپ کا انتقال 3 مئی 1912ء میں ہوا۔ آپ اردو کے پہلے ناول نگار تسلیم کیے جائے ہیں۔
#شخصیات #ڈپٹی_نذیر
شمس العلماء خان بہادر حافظ ڈپٹی مولوی نذیر احمد،
ریاست حیدرآباد سے انہیں غیور جنگ کا خطاب دیا گیا تھا جسے انہوں نے قبول نہیں کیا
پیدائش: 1836ء یا 6 دسمبر 1831ء وفات: 3 مئی 1912ء ضلع بجنور کی تحصیل نگینہ کے ایک گاؤں ریہر میں پیدا ہوئے۔ ایک مشہور بزرگ شاہ عبدالغفور اعظم پوری کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے، لیکن آپ کے والد مولوی سعادت علی غریب آدمی تھے اور یو پی کے ضلع بجنور کے رہنے والے تھے۔
شروع کی تعلیم والد صاحب سے حاصل کی۔ چودہ برس کے ہوئے تو دلی آ گئے اور یہاں اورنگ آبادی مسجد کے مدرسے میں داخل ہو گئے۔ مولوی عبدالخالق ان کے استاد تھے۔
یہ وہ زمانہ تھا کہ مسلمانوں کی حالت اچھی نہ تھی۔ دہلی کے آس پاس برائے نام مغل بادشاہت قائم تھی۔ دینی مدرسوں کے طالب علم محلوں کے گھروں سے روٹیاں لا کر پیٹ بھرتے تھے اور تعلیم حاصل کرتے تھے۔ نذ یر احمد کو بھی یہی کچھ کرنا پڑتا تھا، بلکہ ان کے لیے تو ایک پریشانی یہ تھی کہ وہ جس گھر سے روٹی لاتے تھے اس میں ایک ایسی لڑکی رہتی تھی جو پہلے ان سے ہانڈی کے لیے مصالحہ یعنی مرچیں، دھنیا اور پیاز تیاز وغیرہ پسواتی تھی اور پھر روٹی دیتی تھی اور اگر کام کرتے ہوئے سستی کرتے تھے تو ان کی انگلیوں پر سل کا بٹہ مارتی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس لڑکی سے ان کی شادی ہوئی۔
کچھ عرصہ بعد دلی کالج میں داخل ہوئے جہاں انہوں نے عربی، فلسفہ اور ریاضی کی تعلیم حاصل کی ۔
مولوی نذیر احمد نے اپنی زندگی کا آغاز ایک مدرس کی حیثیت سے کیا لیکن خداداد ذہانت اور انتھک کوششوں سے جلد ہی ترقی کر کے ڈپٹی انسپکٹر مدارس مقرر ہوئے۔ مولوی صاحب نے انگریزی میں بھی خاصی استعداد پیدا کر لی اور انڈین پینل کوڈ کا ترجمہ (تعزیرات ہند) کے نام سے کیا جو سرکاری حلقوں میں بہت مقبول ہوا اور آج تک استعمال ہوتا ہے۔ اس کے صلے میں آپ کو تحصیلدار مقرر کیا گیا۔ پھر ڈپٹی کلکٹر ہو گئے۔ نظام دکن نے ان کی شہرت سن کر ان کی خدمات ریاست میں منتقل کرا لیں جہاں انہیں آٹھ سو روپے ماہوار پر افسر بند و بست مقرر کیا گیا۔
ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد مولوی صاحب نے اپنی زندگی تصنیف و تالف میں گزاری۔ اس علمی و ادبی میدان میں بھی حکومت نے انہیں 1897ء شمس العلماء کا خطاب دیا اور 1902ء میں ایڈنبرا یونیورسٹی نے ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔ 1910ء میں پنجاب یونیورسٹی نے ڈی۔ او۔ ایل کی ڈگری عطا کی۔ آپ کا انتقال 3 مئی 1912ء میں ہوا۔ آپ اردو کے پہلے ناول نگار تسلیم کیے جائے ہیں۔
🌹🌹سید سجاد حیدر یلدرم🌹🌹
#شخصیات #سجاد_حیدر
سجاد حیدر یلدرم 1880ء میں بنارس میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید جلال الدین سرکاری ملازم تھے۔ یلدرم نے ایم۔ اے۔ او کالج علی گڑھ سے 1901ء میں بی اے کیا۔ کالج کے زمانے میں اچھے مقرر بھی تھے اور شاعری کا شستہ مذاق بھی رکھتے تھے۔
یلدرم کو ترکی زبان اور ترکوں سے بڑی محبت تھی۔ جب بغداد کے برطانوی قونصل خانہ میں ترکی ترجمان کی ضرورت ہوئی تو آپ وہاں چلے گئے۔ اب یلدرم کو ترکی ادبیات کے مطالعہ کا موقع ملا چنانچہ انہوں نے بہت سی ترکی کہانیوں کو اردو میں منتقل کیا اور اس طرح اردو نثر میں ایک نئے اسلوب کا اضافہ کیا۔ کچھ عرصہ بعد یلدرم بغداد سے تبدیل ہو کر قسطنطنیہ کے برطانوی سفارت خانے میں چلے گئے پہلی جنگ عظیم چھڑنے سے پہلے وہ امیر کابل کے نائب سیاسی ایجنٹ ہو کر ہندوستان واپس چلے آئے۔ یوپی میں کچھ عرصہ ملازمت کی۔ 1920ء میں علی گڑھ یونیورسٹی کے رجسٹرار مقرر ہوئے ڈپٹی کلکٹر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔
1943ء میں لکھنؤ میں وفات پائی اور قبرستان عیش باغ میں دفن ہوئے۔ مشہور ادیب اور ناول نگار قراۃ العین حیدر آپ کی صاحبزادی ہیں۔
سجاد حیدر یلدرم کے افسانوں اور انشائیوں کا مجموعہ خیالستان اردو ادب میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ یوں تو انہوں نے شاعری بھی کی، مضمون بھی لکھے لیکن ان کا نام ایک رومانوی افسانہ نگار کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رہے گا۔ وہ اردو کے پہلے افسانہ نگار تسلیم کیے جائے ہیں۔
اردو افسانے کی باقاعدہ ابتدا کا سہرا یلدرم کے سر ہے۔ ”خیالستان “ یلدرم کی رومانیت اور تخیل کا بہترین عکس ہے۔ خیالستان میں انشائیے، انشائے لطیف اور مختصر افسانے شامل ہیں۔ گویا صنف نثر کی تین اصناف کے مجموعہ کا نام ”خیالستان “ ہے ان شہ پاروں میں کچھ ترکی ادب سے اخذ و ترجمہ ہیں اور بعض طبع زاد ہیں۔ ان میں سجاد حیدر یلدرم کا رومانی انداز فکرو بیان جادو جگا رہا ہے۔ یلدرم کا شمار ارد و کے ابتدائی افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے اُن کے انداز تحریر اور رومانوی انداز نے اپنی آنے والے ادبیوں کی کئی نسلوں کو متاثر کیا
رام بابو سکسینہ لکھتے ہیں:
سید سجاد حیدر نثر افسانہ نما خوب لکھتے ہیں۔ عبارت بہت دلفریب اور ا س میں ایک خاص طرح کی نشتریت ہوتی ہے۔
بقول قاضی عبد الغفار:
سجاد اردو زبان میں ایک نئے اور ترقی پسند اور بہت ہی دلنواز اسلوبِ بیان کے موجد تھے اور اس لیے وہ خراجِ تحسین کے حقدار ہیں۔
#شخصیات #سجاد_حیدر
سجاد حیدر یلدرم 1880ء میں بنارس میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید جلال الدین سرکاری ملازم تھے۔ یلدرم نے ایم۔ اے۔ او کالج علی گڑھ سے 1901ء میں بی اے کیا۔ کالج کے زمانے میں اچھے مقرر بھی تھے اور شاعری کا شستہ مذاق بھی رکھتے تھے۔
یلدرم کو ترکی زبان اور ترکوں سے بڑی محبت تھی۔ جب بغداد کے برطانوی قونصل خانہ میں ترکی ترجمان کی ضرورت ہوئی تو آپ وہاں چلے گئے۔ اب یلدرم کو ترکی ادبیات کے مطالعہ کا موقع ملا چنانچہ انہوں نے بہت سی ترکی کہانیوں کو اردو میں منتقل کیا اور اس طرح اردو نثر میں ایک نئے اسلوب کا اضافہ کیا۔ کچھ عرصہ بعد یلدرم بغداد سے تبدیل ہو کر قسطنطنیہ کے برطانوی سفارت خانے میں چلے گئے پہلی جنگ عظیم چھڑنے سے پہلے وہ امیر کابل کے نائب سیاسی ایجنٹ ہو کر ہندوستان واپس چلے آئے۔ یوپی میں کچھ عرصہ ملازمت کی۔ 1920ء میں علی گڑھ یونیورسٹی کے رجسٹرار مقرر ہوئے ڈپٹی کلکٹر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔
1943ء میں لکھنؤ میں وفات پائی اور قبرستان عیش باغ میں دفن ہوئے۔ مشہور ادیب اور ناول نگار قراۃ العین حیدر آپ کی صاحبزادی ہیں۔
سجاد حیدر یلدرم کے افسانوں اور انشائیوں کا مجموعہ خیالستان اردو ادب میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ یوں تو انہوں نے شاعری بھی کی، مضمون بھی لکھے لیکن ان کا نام ایک رومانوی افسانہ نگار کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رہے گا۔ وہ اردو کے پہلے افسانہ نگار تسلیم کیے جائے ہیں۔
اردو افسانے کی باقاعدہ ابتدا کا سہرا یلدرم کے سر ہے۔ ”خیالستان “ یلدرم کی رومانیت اور تخیل کا بہترین عکس ہے۔ خیالستان میں انشائیے، انشائے لطیف اور مختصر افسانے شامل ہیں۔ گویا صنف نثر کی تین اصناف کے مجموعہ کا نام ”خیالستان “ ہے ان شہ پاروں میں کچھ ترکی ادب سے اخذ و ترجمہ ہیں اور بعض طبع زاد ہیں۔ ان میں سجاد حیدر یلدرم کا رومانی انداز فکرو بیان جادو جگا رہا ہے۔ یلدرم کا شمار ارد و کے ابتدائی افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے اُن کے انداز تحریر اور رومانوی انداز نے اپنی آنے والے ادبیوں کی کئی نسلوں کو متاثر کیا
رام بابو سکسینہ لکھتے ہیں:
سید سجاد حیدر نثر افسانہ نما خوب لکھتے ہیں۔ عبارت بہت دلفریب اور ا س میں ایک خاص طرح کی نشتریت ہوتی ہے۔
بقول قاضی عبد الغفار:
سجاد اردو زبان میں ایک نئے اور ترقی پسند اور بہت ہی دلنواز اسلوبِ بیان کے موجد تھے اور اس لیے وہ خراجِ تحسین کے حقدار ہیں۔
🌹🌹🌹غبن🌹🌹🌹
#تنقیدی_سلسلہ #تبصرہ_بر_کتب
✍️ ✍️ منشی پریم چند✍️ ✍️
ناول اپنے اندر معاشرے میں موجود رشوت ستانی، عصمت فروشی، ظلم اور پولیس کی جانب سے زیادتی بھی دکھاتا ہے۔ یہ ناول متوسط طبقے کی دنیا کے ارد گرد گھومتا ہے۔ ناول کا مرکزی کردار ایک نوجوان رماناتھ ہے جسے دوستوں کے ساتھ عیاشی کرنا پسند ہے، گھریلو حالات تنگ ہونے کے باوجود وہ امیر دوستوں کی صحبت میں دن گزارتا ہے۔ وہ ناول کی مرکزی زنانہ کردار جالپا سے شادی کرتا ہے، جس کے بعد وہ اپنی بیوی کو حسن کی دیوی سمجھتا ہے اور ہر طریقے سے اس کی خواہشات پوری کرنے کا تہیہ کرتا ہے۔ جالپا شروع میں خود غرضی کا کردار ادا کرتی ہے اور رماناتھ کی کم آمدنی کا علم ہونے کے باوجود بھی عیاشی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھتی ہے۔۔ قرض سے تنگ آ کر رماناتھ سرکاری کھاتے میں غبن کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے خود پریشان رہ کر بھی اپنی بیوی کو سکھی رکھتا ہے لیکن ایک دن بیوی کے سامنے اپنی پول کھلنے کے بعد وہاں سے بھاگ نکلتا ہے اور یہیں سے ناول کا اختتامی مرحلہ شروع ہوتا ہے۔
ناول کے آخر تک پہنچتے پہنچتے جالپا ایک مثالی کردار کی حامل خاتون بن جاتی ہے۔ اس میں وہ تمام خوبیاں آ چکی ہیں جو ایک بیوی میں ہونی چاہیں۔
اپنے تمام تر زیورات کو فروخت کر کے وہ ایک ایک پیسہ چُکا دیتی ہے لیکن رماناتھ اس سب سے بے خبر کلکتہ میں بے بسی کی زندگی گزار رہا ہے۔ حالات کا مقابلہ نہ کرنا اور سچ نہ کہ پانے کی کمزوری رماناتھ کا آخری دم تک پیچھا نہیں چھوڑتی ہے اور وہ اس حد تک گر جاتا ہے کہ ایک مقدمہ میں جھوٹی گواہی بھی دے دیتا ہے۔ شوہر کی محبت اور اپنی کوتاہیوں کا کفارہ کرنے کی غرض سے جالپا کلکتہ کا سفر کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے اور کئی ترکیبوں اور کوششوں کے ساتھ بالآخر اپنے شوہر کو بچا لیتی ہے۔
اس ناول کے ایک سرسری جائزے میں اگرچہ کہ یہ لگ سکتا ہے ایک مسلمان خاتون زہرہ کو طوائف کے طور پر دکھا کر پریم چند نے مذہبی نفرت کا پرچار کیا ہے، لیکن آخر میں اسی طوائفہ کو ایک شخص کی جان بچاتے ہوئے خود کی جان قربان کر کے مثال بنا دیا ہے، جو در حقیقت مصنف کی تخلیقی نوعیت کا مظہر ہے۔
رتن اور وکیل کا ناول میں حصہ ایک الگ رجحان کو ظاہر کرتا ہے کہ دولت انسان کو دلی سکون نہیں دے سکتی۔
دیبی دین کا کردار بے آسرا لوگوں کے دکھ درد کو سمجھنے اور مشکل میں ان کے کام آنے کا ایک پیغام لیے ہوئے نظر آتا ہے۔
#تنقیدی_سلسلہ #تبصرہ_بر_کتب
✍️ ✍️ منشی پریم چند✍️ ✍️
ناول اپنے اندر معاشرے میں موجود رشوت ستانی، عصمت فروشی، ظلم اور پولیس کی جانب سے زیادتی بھی دکھاتا ہے۔ یہ ناول متوسط طبقے کی دنیا کے ارد گرد گھومتا ہے۔ ناول کا مرکزی کردار ایک نوجوان رماناتھ ہے جسے دوستوں کے ساتھ عیاشی کرنا پسند ہے، گھریلو حالات تنگ ہونے کے باوجود وہ امیر دوستوں کی صحبت میں دن گزارتا ہے۔ وہ ناول کی مرکزی زنانہ کردار جالپا سے شادی کرتا ہے، جس کے بعد وہ اپنی بیوی کو حسن کی دیوی سمجھتا ہے اور ہر طریقے سے اس کی خواہشات پوری کرنے کا تہیہ کرتا ہے۔ جالپا شروع میں خود غرضی کا کردار ادا کرتی ہے اور رماناتھ کی کم آمدنی کا علم ہونے کے باوجود بھی عیاشی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھتی ہے۔۔ قرض سے تنگ آ کر رماناتھ سرکاری کھاتے میں غبن کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے خود پریشان رہ کر بھی اپنی بیوی کو سکھی رکھتا ہے لیکن ایک دن بیوی کے سامنے اپنی پول کھلنے کے بعد وہاں سے بھاگ نکلتا ہے اور یہیں سے ناول کا اختتامی مرحلہ شروع ہوتا ہے۔
ناول کے آخر تک پہنچتے پہنچتے جالپا ایک مثالی کردار کی حامل خاتون بن جاتی ہے۔ اس میں وہ تمام خوبیاں آ چکی ہیں جو ایک بیوی میں ہونی چاہیں۔
اپنے تمام تر زیورات کو فروخت کر کے وہ ایک ایک پیسہ چُکا دیتی ہے لیکن رماناتھ اس سب سے بے خبر کلکتہ میں بے بسی کی زندگی گزار رہا ہے۔ حالات کا مقابلہ نہ کرنا اور سچ نہ کہ پانے کی کمزوری رماناتھ کا آخری دم تک پیچھا نہیں چھوڑتی ہے اور وہ اس حد تک گر جاتا ہے کہ ایک مقدمہ میں جھوٹی گواہی بھی دے دیتا ہے۔ شوہر کی محبت اور اپنی کوتاہیوں کا کفارہ کرنے کی غرض سے جالپا کلکتہ کا سفر کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے اور کئی ترکیبوں اور کوششوں کے ساتھ بالآخر اپنے شوہر کو بچا لیتی ہے۔
اس ناول کے ایک سرسری جائزے میں اگرچہ کہ یہ لگ سکتا ہے ایک مسلمان خاتون زہرہ کو طوائف کے طور پر دکھا کر پریم چند نے مذہبی نفرت کا پرچار کیا ہے، لیکن آخر میں اسی طوائفہ کو ایک شخص کی جان بچاتے ہوئے خود کی جان قربان کر کے مثال بنا دیا ہے، جو در حقیقت مصنف کی تخلیقی نوعیت کا مظہر ہے۔
رتن اور وکیل کا ناول میں حصہ ایک الگ رجحان کو ظاہر کرتا ہے کہ دولت انسان کو دلی سکون نہیں دے سکتی۔
دیبی دین کا کردار بے آسرا لوگوں کے دکھ درد کو سمجھنے اور مشکل میں ان کے کام آنے کا ایک پیغام لیے ہوئے نظر آتا ہے۔
🌹🌹🌹آنگن🌹🌹🌹
#تنقیدی_سلسلہ #تبصرہ_بر_کتب
✍️ ✍️ خدیجہ مستور✍️ ✍️
حصہ اول
خدیجہ مستور کا ناول ’’آنگن‘‘ ان دنوں ایک ٹی وی چینل پر نشر ہونے کی وجہ سے خاصا مقبولیت پا رہا ہے۔ابھی تک نشر ہونے والی ایک قسط کہانی کو اس کی اصل حالت میں پیش کرتی دکھائی دیتی ہے مگر ہمارے ہاں کمرشل ازم کے تقاضے عموماََ کم ہی اسے پورا کرتے ہیں۔
خدیجہ مستور ناول نگاری میں ایک معتبر حوالہ ہیں۔ اپنے والد کے انتقال کے بعد نامصائب حالات میں زندگی کا مقابلہ کیا اس ناول کی پیشکش میں وہ ایسے ہی نسوانی کردار کو پیش کرتی ہیں جو حوصلہ بلند رکھے۔ یہ ناول ۱۹۲۶ء میں تحریر ہوا۔
جیسا کہ ناول کے عنوان ’’آنگن‘‘ سے ظاہر ہے کہ ’’ آنگن‘‘ ’’انگیا‘‘ گھر کی کھلی فضا میں بیٹھنے کو آنگن یا انگیا، جو پہلے خاندانوں کی روایت کا حصہ ہوا کرتی تھیں۔ جہاں گھرانے مل بیٹھا کرتے تھے۔ خوش حالی اور نا آسودہ حالات کو مل کر سہا کرتے۔ کہانی تحریک ِ پاکستان کی جدوجہد سے شروع ہو کر پاکستان کی صورت میں ملنے والے انعام پر ختم ہوتی ہے۔
کہانی کی ہیروئن یا مرکزی کردار عالیہ کے ابا انگریزوں کے جبری ملازم اور انگریزوں کے سخت مخالف تھے۔ عالیہ کی بہن تہمینہ اپنے پھوپھی زاد بھائی صفدر سے محبت کرتی ہے مگر ان کی اماں تہمینہ کی شادی محض اس لیے کرنا نہیں چاہتیں کیوں کہ صفدر کی ماں نے خاندان کی مرضی کے خلاف ملازم سے شادی کی ہوتی ہے اور صفدر غریب۔ تہمینہ کی اماں اس سے نفرت کرتی ہیں۔ ابا اور اماں کے درمیاں کشمکش اسی بنا پر رہتی ہے۔ دوسری طرف اماں اپنے بھائی کے بل پر جو انگریز خاتون سے شادی کر کے اور انگریزوں کی حمایت کر کے ننگ مسلمان ہوئے اور اس دور میں وقتی فائدہ اٹھایا۔
تہمینہ نے آنگن میں مہندی کا پودا اگایا ہوتا ہے۔ آرزؤں اور امنگوں کا پودا، جسے صفدر کی محبت سے پروان چڑھاتی رہی مگر اماں کے صفدر کو نکالے جانے کے بعد اس امنگوں کے پودے کو نوچ پھینکتی ہے۔ اماں جب تہمینہ کی شادی تایا زاد بھائی جمیل بھیا سے طے کر دیتی ہیں تو بغاوت نہ کرتے ہوئے خود کو موت سے ہم کنار کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔
#تنقیدی_سلسلہ #تبصرہ_بر_کتب
✍️ ✍️ خدیجہ مستور✍️ ✍️
حصہ اول
خدیجہ مستور کا ناول ’’آنگن‘‘ ان دنوں ایک ٹی وی چینل پر نشر ہونے کی وجہ سے خاصا مقبولیت پا رہا ہے۔ابھی تک نشر ہونے والی ایک قسط کہانی کو اس کی اصل حالت میں پیش کرتی دکھائی دیتی ہے مگر ہمارے ہاں کمرشل ازم کے تقاضے عموماََ کم ہی اسے پورا کرتے ہیں۔
خدیجہ مستور ناول نگاری میں ایک معتبر حوالہ ہیں۔ اپنے والد کے انتقال کے بعد نامصائب حالات میں زندگی کا مقابلہ کیا اس ناول کی پیشکش میں وہ ایسے ہی نسوانی کردار کو پیش کرتی ہیں جو حوصلہ بلند رکھے۔ یہ ناول ۱۹۲۶ء میں تحریر ہوا۔
جیسا کہ ناول کے عنوان ’’آنگن‘‘ سے ظاہر ہے کہ ’’ آنگن‘‘ ’’انگیا‘‘ گھر کی کھلی فضا میں بیٹھنے کو آنگن یا انگیا، جو پہلے خاندانوں کی روایت کا حصہ ہوا کرتی تھیں۔ جہاں گھرانے مل بیٹھا کرتے تھے۔ خوش حالی اور نا آسودہ حالات کو مل کر سہا کرتے۔ کہانی تحریک ِ پاکستان کی جدوجہد سے شروع ہو کر پاکستان کی صورت میں ملنے والے انعام پر ختم ہوتی ہے۔
کہانی کی ہیروئن یا مرکزی کردار عالیہ کے ابا انگریزوں کے جبری ملازم اور انگریزوں کے سخت مخالف تھے۔ عالیہ کی بہن تہمینہ اپنے پھوپھی زاد بھائی صفدر سے محبت کرتی ہے مگر ان کی اماں تہمینہ کی شادی محض اس لیے کرنا نہیں چاہتیں کیوں کہ صفدر کی ماں نے خاندان کی مرضی کے خلاف ملازم سے شادی کی ہوتی ہے اور صفدر غریب۔ تہمینہ کی اماں اس سے نفرت کرتی ہیں۔ ابا اور اماں کے درمیاں کشمکش اسی بنا پر رہتی ہے۔ دوسری طرف اماں اپنے بھائی کے بل پر جو انگریز خاتون سے شادی کر کے اور انگریزوں کی حمایت کر کے ننگ مسلمان ہوئے اور اس دور میں وقتی فائدہ اٹھایا۔
تہمینہ نے آنگن میں مہندی کا پودا اگایا ہوتا ہے۔ آرزؤں اور امنگوں کا پودا، جسے صفدر کی محبت سے پروان چڑھاتی رہی مگر اماں کے صفدر کو نکالے جانے کے بعد اس امنگوں کے پودے کو نوچ پھینکتی ہے۔ اماں جب تہمینہ کی شادی تایا زاد بھائی جمیل بھیا سے طے کر دیتی ہیں تو بغاوت نہ کرتے ہوئے خود کو موت سے ہم کنار کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔
🌹🌹🌹آنگن🌹🌹🌹
#تنقیدی_سلسلہ #تبصرہ_بر_کتب
✍️ ✍️ خدیجہ مستور✍️ ✍️
حصہ دوم
عالیہ تہمینہ کی موت کے بعد اپنی عمر سے ۱۰ سال بڑی ہو جاتی ہے۔ ادھر تحریک پاکستان اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والی ہے اور ابا میاں کے دفتر میں انگریز سرکار کا دورہ ہے۔ ابا میاں انگریز کے خلاف ہونے کے باوجود گھر میں اماں سے اہتمام کروانے پر مجبور۔ اماں اپنے شوہر کو انگریزوں کے حمایتی ہونے کا الزام دیتی ہیں۔ جب انگریز افسر دفتر میں معائنہ کے دوران ابا میاں کو گالی دیتا ہے تو ابا میں برداشت نہ کرتے ہوئے افسر کے سر پر رول مار کر سر پھاڑ دینے پر اقدام قتل کی فرد جرم عائد ہونے پر گرفتار ہو جاتے ہیں اور یوں عالیہ باپ جس سے بے انتہا محبت کرتی ہے تنہا ہو جاتی ہے اس موقع پر انگریزوں کے وفادار اور نام نہاد بھائی بھی کام نہیں آتے۔ ان حالات میں عالیہ کو اپنی اماں کے ساتھ تایا کے گھر کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ نئی صعوبتوں کا سفر۔ صفدر بھائی آخری اطلاع ملنے تک مسلم لیگ میں شامل۔
ابا کے پابند سلاسل ہونے پر اپنا آنگن چھوڑ کر تایا کے گھر روانہ ہو جاتی ہے۔ تایا سے عالیہ کی محبت نا صرف فطری ہے بلکہ تایا جان نے اپنے کتابوں کی الماری کی چابی عالیہ کو تھما رکھی ہے۔ تایا جان کانگریس کے سرگرم کارکن ہیں۔ نہرو اور گاندھی کے حمایتی۔ ایک ہی گھرانے میں دو مختلف جماعت کے افراد۔ ایک علیحدہ وطن کے خواہش مند دوسرے ہندوستان کی آزادی کے متوالے۔ اس گھر میں عالیہ کی ملاقات اپنے منجھلے چچا ساجد کی بیٹی چھمی سے ہوتی ہے۔ چھمی ان پڑھ ہے۔ بد زبان، نہایت تیز طرار اور مسلم لیگ کی حمایتی۔ اپنے تایا سے سیاسی مخالفت پر اکثر بد تمیزی سے پیش آتی ہے۔ ناول نگارہ چھمی کے روپ میں ایک ایسی لڑکی کا کردار سامنے لاتی ہیں جو اپنے باپ کی آئے دن شادیوں کے شوق سے کس طرح متاثر ہوتی ہے۔ دوسری جانب جمیل بھیا کا دل پھینک کردار ہے جو عالیہ کے اس گھر میں نہ آنے سے پہلے تک چھمی میں دلچسپی کی نظر رکھتے ہیں مگر عالیہ کے آجانے پر عالیہ کی جانب بڑھتے ہیں۔چھمی کا محلے میں مسلم لیگ کے جلوسوں میں شرکت اور آزادی کے نعرے آج اس نسل میں بھی ان دیکھے مناظر کو پھیر دیتے ہیں جو انھوں نے اپنے بزرگوں کی زبانی سن رکھے ہیں۔
#تنقیدی_سلسلہ #تبصرہ_بر_کتب
✍️ ✍️ خدیجہ مستور✍️ ✍️
حصہ دوم
عالیہ تہمینہ کی موت کے بعد اپنی عمر سے ۱۰ سال بڑی ہو جاتی ہے۔ ادھر تحریک پاکستان اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والی ہے اور ابا میاں کے دفتر میں انگریز سرکار کا دورہ ہے۔ ابا میاں انگریز کے خلاف ہونے کے باوجود گھر میں اماں سے اہتمام کروانے پر مجبور۔ اماں اپنے شوہر کو انگریزوں کے حمایتی ہونے کا الزام دیتی ہیں۔ جب انگریز افسر دفتر میں معائنہ کے دوران ابا میاں کو گالی دیتا ہے تو ابا میں برداشت نہ کرتے ہوئے افسر کے سر پر رول مار کر سر پھاڑ دینے پر اقدام قتل کی فرد جرم عائد ہونے پر گرفتار ہو جاتے ہیں اور یوں عالیہ باپ جس سے بے انتہا محبت کرتی ہے تنہا ہو جاتی ہے اس موقع پر انگریزوں کے وفادار اور نام نہاد بھائی بھی کام نہیں آتے۔ ان حالات میں عالیہ کو اپنی اماں کے ساتھ تایا کے گھر کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ نئی صعوبتوں کا سفر۔ صفدر بھائی آخری اطلاع ملنے تک مسلم لیگ میں شامل۔
ابا کے پابند سلاسل ہونے پر اپنا آنگن چھوڑ کر تایا کے گھر روانہ ہو جاتی ہے۔ تایا سے عالیہ کی محبت نا صرف فطری ہے بلکہ تایا جان نے اپنے کتابوں کی الماری کی چابی عالیہ کو تھما رکھی ہے۔ تایا جان کانگریس کے سرگرم کارکن ہیں۔ نہرو اور گاندھی کے حمایتی۔ ایک ہی گھرانے میں دو مختلف جماعت کے افراد۔ ایک علیحدہ وطن کے خواہش مند دوسرے ہندوستان کی آزادی کے متوالے۔ اس گھر میں عالیہ کی ملاقات اپنے منجھلے چچا ساجد کی بیٹی چھمی سے ہوتی ہے۔ چھمی ان پڑھ ہے۔ بد زبان، نہایت تیز طرار اور مسلم لیگ کی حمایتی۔ اپنے تایا سے سیاسی مخالفت پر اکثر بد تمیزی سے پیش آتی ہے۔ ناول نگارہ چھمی کے روپ میں ایک ایسی لڑکی کا کردار سامنے لاتی ہیں جو اپنے باپ کی آئے دن شادیوں کے شوق سے کس طرح متاثر ہوتی ہے۔ دوسری جانب جمیل بھیا کا دل پھینک کردار ہے جو عالیہ کے اس گھر میں نہ آنے سے پہلے تک چھمی میں دلچسپی کی نظر رکھتے ہیں مگر عالیہ کے آجانے پر عالیہ کی جانب بڑھتے ہیں۔چھمی کا محلے میں مسلم لیگ کے جلوسوں میں شرکت اور آزادی کے نعرے آج اس نسل میں بھی ان دیکھے مناظر کو پھیر دیتے ہیں جو انھوں نے اپنے بزرگوں کی زبانی سن رکھے ہیں۔
🌹🌹🌹آنگن🌹🌹🌹
#تنقیدی_سلسلہ #تبصرہ_بر_کتب
✍️ ✍️ خدیجہ مستور✍️ ✍️
حصہ سوم
جمیل بھیا کے رویئے سے دل برداشتہ ہو کر چھمی ایک دیہاتی سے شادی کر کے رخصت ہو جاتی ہے اور عالیہ کے ابا کو انگریز کو زخمی کرنے کے جرم میں سزائے موت۔ عالیہ پر یہ خبر کسی موت سے کم نہیں گزرتی۔ وہ رات عالیہ اپنے اس آنگن کو دیکھتی ہے جو کس قدر خوشحال تھا مگر سب آندھیوں نے لوٹ ڈالا۔
اب عالیہ کی زندگی کا محور حصول تعلیم تھا۔ اسے زندگی کے نشیب زدہ حالات میں رومان پروہ زندگی سے نفرت ہو چکی تھی۔ اس لیے وہ جمیل بھیا کی محبت سے انکار ہی کرتی رہی۔ عالیہ کی پھوپھی نجمہ اس دور کی ان لڑکیوں میں سے ہیں جو انگریزی کی تعلیم حاصل کر کے انگریز سامراج سے وفاداری نبھانے میں مصروف ِ عمل رہیں اور اپنوں کی ہتک میں خوشی محسوس کرنا ان کی تعلیم کی اولین ترجیح۔
کہانی تقسیم ہندوستان کے آخری مراحل میں داخل ہو جاتی ہے۔ عالیہ اپنی والدہ کے ساتھ الاٹمنٹ میں ملنے والی کوٹھی میں رہائش اختیار کرتی ہے اور مہاجرین کے کیمپوں میں تدریس کے عمل میں داخل ہو جاتی ہے۔ یہاں ایک ڈاکٹر جو مالی طور پر مستحکم ہوتا ہے عالیہ کو شادی کی پیش کش کرتا ہے مگر عالیہ اسے بھی ٹھکرا دیتی ہے۔ وہاں ہندوستاں میں بڑے چچا کسی ہندو کے ہاتھوں شہید ہو جاتے ہیں اور چھمی طلاق لے کر واپس لوٹ آتی ہے جسے جمیل بھیا اس کی بیٹی کے ساتھ اپنا لیتے ہیں۔ ادھر پاکستان میں صفدر بھائی اچانک انجانے میں بری حالت میں جان بچاتے ہوئے عالیہ کی کوٹھی میں پہنچتے ہیں، جو اب تک بوڑھے ہو چکے ہوتے ہیں عالیہ سے شادی کے خواہش مند ہوتے ہیں اس تسلی کے ساتھ کہ وہ اسے ایک آسودہ زندگی کی نوید دیتے ہیں مگر عالیہ اپنی بہن تہمینہ کی صفدر بھائی سے جڑی یادوں کے سبب منع کر دیتی ہے اور اماں پھر سے صفدر بھائی کی مخالف بن کر کھڑی ہو جاتی ہیں۔ وہ صفدر بھائی کو خدا حافظ کہہ کر لوٹ جاتی ہے۔
#تنقیدی_سلسلہ #تبصرہ_بر_کتب
✍️ ✍️ خدیجہ مستور✍️ ✍️
حصہ سوم
جمیل بھیا کے رویئے سے دل برداشتہ ہو کر چھمی ایک دیہاتی سے شادی کر کے رخصت ہو جاتی ہے اور عالیہ کے ابا کو انگریز کو زخمی کرنے کے جرم میں سزائے موت۔ عالیہ پر یہ خبر کسی موت سے کم نہیں گزرتی۔ وہ رات عالیہ اپنے اس آنگن کو دیکھتی ہے جو کس قدر خوشحال تھا مگر سب آندھیوں نے لوٹ ڈالا۔
اب عالیہ کی زندگی کا محور حصول تعلیم تھا۔ اسے زندگی کے نشیب زدہ حالات میں رومان پروہ زندگی سے نفرت ہو چکی تھی۔ اس لیے وہ جمیل بھیا کی محبت سے انکار ہی کرتی رہی۔ عالیہ کی پھوپھی نجمہ اس دور کی ان لڑکیوں میں سے ہیں جو انگریزی کی تعلیم حاصل کر کے انگریز سامراج سے وفاداری نبھانے میں مصروف ِ عمل رہیں اور اپنوں کی ہتک میں خوشی محسوس کرنا ان کی تعلیم کی اولین ترجیح۔
کہانی تقسیم ہندوستان کے آخری مراحل میں داخل ہو جاتی ہے۔ عالیہ اپنی والدہ کے ساتھ الاٹمنٹ میں ملنے والی کوٹھی میں رہائش اختیار کرتی ہے اور مہاجرین کے کیمپوں میں تدریس کے عمل میں داخل ہو جاتی ہے۔ یہاں ایک ڈاکٹر جو مالی طور پر مستحکم ہوتا ہے عالیہ کو شادی کی پیش کش کرتا ہے مگر عالیہ اسے بھی ٹھکرا دیتی ہے۔ وہاں ہندوستاں میں بڑے چچا کسی ہندو کے ہاتھوں شہید ہو جاتے ہیں اور چھمی طلاق لے کر واپس لوٹ آتی ہے جسے جمیل بھیا اس کی بیٹی کے ساتھ اپنا لیتے ہیں۔ ادھر پاکستان میں صفدر بھائی اچانک انجانے میں بری حالت میں جان بچاتے ہوئے عالیہ کی کوٹھی میں پہنچتے ہیں، جو اب تک بوڑھے ہو چکے ہوتے ہیں عالیہ سے شادی کے خواہش مند ہوتے ہیں اس تسلی کے ساتھ کہ وہ اسے ایک آسودہ زندگی کی نوید دیتے ہیں مگر عالیہ اپنی بہن تہمینہ کی صفدر بھائی سے جڑی یادوں کے سبب منع کر دیتی ہے اور اماں پھر سے صفدر بھائی کی مخالف بن کر کھڑی ہو جاتی ہیں۔ وہ صفدر بھائی کو خدا حافظ کہہ کر لوٹ جاتی ہے۔
🌹🌹🌹آنگن🌹🌹🌹
#تنقیدی_سلسلہ #تبصرہ_بر_کتب
✍️ ✍️ خدیجہ مستور✍️ ✍️
حصہ چہارم
ناول نگارہ کہانی کا اختتام کچھ ان جملوں پر کرتی ہیں:۔
’’ اور عالیہ سینے پر ہاتھ باندھ کر بے سدھ پڑی ہوتی ہے۔ اسے لگتا ہے کہ چھمی اس کے سینے پر سے دھم دھم کر کے گزرتی ہے اور کہتی ہے کہ دیکھا عالیہ بجیا میں نے تمھیں ہرا دیا۔ اس نے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر باندھ لیے۔‘‘
ناول کا موضوع آنگن استعارہ ہے بابل کا انگنا، جو عالیہ اور تہمینہ دونوں کے نصیب میں نہ تھا، جسے لڑکیاں اپنے سسرال رخصت ہو کر اس آنگن کی یادیں ساتھ لے جاتی ہیں۔
آنگن گھر کا صحن جو سب خانداں والوں کی اکائی اور وحدت کو ظاہر کرتا ہے۔ عالیہ کو یہ بھی نصیب نہ ہو سکا۔ قیام پاکستان کے بعد اس نے ہجرت کی صورت میں تنہائی کاٹی اور ہجرت کا کرب۔
آنگن مشرقی روایات میں ایسے گھر کی تعمیر سے لیا جاتا ہے جس میں خوشبودار پیڑ پودے اگائے جاتے ہیں۔ جھولا، ساون کا مہینہ سب ہی ان مٹ یادوں کی نشانی بنتا ہے مگر موجودہ نسل ان سب کو کیا جانے! آج تو آنگن کی جگہ لان ہیں اور مصنوعی زندگی کا استعارہ!
#تنقیدی_سلسلہ #تبصرہ_بر_کتب
✍️ ✍️ خدیجہ مستور✍️ ✍️
حصہ چہارم
ناول نگارہ کہانی کا اختتام کچھ ان جملوں پر کرتی ہیں:۔
’’ اور عالیہ سینے پر ہاتھ باندھ کر بے سدھ پڑی ہوتی ہے۔ اسے لگتا ہے کہ چھمی اس کے سینے پر سے دھم دھم کر کے گزرتی ہے اور کہتی ہے کہ دیکھا عالیہ بجیا میں نے تمھیں ہرا دیا۔ اس نے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر باندھ لیے۔‘‘
ناول کا موضوع آنگن استعارہ ہے بابل کا انگنا، جو عالیہ اور تہمینہ دونوں کے نصیب میں نہ تھا، جسے لڑکیاں اپنے سسرال رخصت ہو کر اس آنگن کی یادیں ساتھ لے جاتی ہیں۔
آنگن گھر کا صحن جو سب خانداں والوں کی اکائی اور وحدت کو ظاہر کرتا ہے۔ عالیہ کو یہ بھی نصیب نہ ہو سکا۔ قیام پاکستان کے بعد اس نے ہجرت کی صورت میں تنہائی کاٹی اور ہجرت کا کرب۔
آنگن مشرقی روایات میں ایسے گھر کی تعمیر سے لیا جاتا ہے جس میں خوشبودار پیڑ پودے اگائے جاتے ہیں۔ جھولا، ساون کا مہینہ سب ہی ان مٹ یادوں کی نشانی بنتا ہے مگر موجودہ نسل ان سب کو کیا جانے! آج تو آنگن کی جگہ لان ہیں اور مصنوعی زندگی کا استعارہ!
🌹🌹سر سید احمد خان🌹🌹
#شخصیات #سر_سید
حصہ اول
سرسید احمد خاں ایک مختلف الحیثیات شخص تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں سیاسی، تعلیمی، ادبی، تحقیقی اورمذہبی غرض ہر قسم کے علمی اور قومی مشاغل میں حصہ لیا۔ انہوں نے نہ صرف علمی میدان میں اپنا گہرا نقش بٹھایا بلکہ ہر جگہ دیرپا اثرات چھوڑے۔
جہاں تک اردو زبان و ادب کا سوال ہے تو وہ اردو کے اولین معماروں میں تھے۔ تعلمی معاملات میں ان کے خاص نظریات نے علی گڑھ تحریک کی صورت اخیات کی اور دینیات میں بھی انہوں نے فکر وتصور کے نئے راستے دریافت کئے۔ غرض علم و عمل کے تقریباً ہر شعبے میں ان کی عظیم شخصیت نے مستقل یادگار چھوڑی ہیں۔
سرسید کے کارناموں کی فہرست لمبی ہے۔ اردو زبان وادب سے ان کی دلچسپی سب سے زیادہ رہی ہے۔ انہوں نے نہ صرف اردو زبان کی حفاظت کی بلکہ اسے غیر معمولی ترقی دے کر اردو ادب کے نشو و نما و ارتقاء میں نمایاں حصہ لیا۔ انہوں نے اردو نثر کو اجتماعی مقاصد سے روشاس کرایا اور اسے عام فہم ، آسان اور سلیس بناکر عام اجتماعی زندگی کا ترجمان بنایا۔ ان سے پہلے نثر میں عام طور پر مضمون و معنی کو ثانوی اور طرز بیان کو اولین اہمیت دی جاتی تھی۔ مگر انہوں نے مضمون کو اولیت عطا کی۔ تکلف اور تصنع ، بوجھل الفاظ اور عبارات آرائی کے خلاف ریزوں سے مالا مال کردیا۔
#شخصیات #سر_سید
حصہ اول
سرسید احمد خاں ایک مختلف الحیثیات شخص تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں سیاسی، تعلیمی، ادبی، تحقیقی اورمذہبی غرض ہر قسم کے علمی اور قومی مشاغل میں حصہ لیا۔ انہوں نے نہ صرف علمی میدان میں اپنا گہرا نقش بٹھایا بلکہ ہر جگہ دیرپا اثرات چھوڑے۔
جہاں تک اردو زبان و ادب کا سوال ہے تو وہ اردو کے اولین معماروں میں تھے۔ تعلمی معاملات میں ان کے خاص نظریات نے علی گڑھ تحریک کی صورت اخیات کی اور دینیات میں بھی انہوں نے فکر وتصور کے نئے راستے دریافت کئے۔ غرض علم و عمل کے تقریباً ہر شعبے میں ان کی عظیم شخصیت نے مستقل یادگار چھوڑی ہیں۔
سرسید کے کارناموں کی فہرست لمبی ہے۔ اردو زبان وادب سے ان کی دلچسپی سب سے زیادہ رہی ہے۔ انہوں نے نہ صرف اردو زبان کی حفاظت کی بلکہ اسے غیر معمولی ترقی دے کر اردو ادب کے نشو و نما و ارتقاء میں نمایاں حصہ لیا۔ انہوں نے اردو نثر کو اجتماعی مقاصد سے روشاس کرایا اور اسے عام فہم ، آسان اور سلیس بناکر عام اجتماعی زندگی کا ترجمان بنایا۔ ان سے پہلے نثر میں عام طور پر مضمون و معنی کو ثانوی اور طرز بیان کو اولین اہمیت دی جاتی تھی۔ مگر انہوں نے مضمون کو اولیت عطا کی۔ تکلف اور تصنع ، بوجھل الفاظ اور عبارات آرائی کے خلاف ریزوں سے مالا مال کردیا۔
🌹🌹سر سید احمد خان🌹🌹
#شخصیات #سر_سید
حصہ دوم
سرسید احمد خاں کی تصانیف کو تاریخی ترتیب کی روشنی میں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہایت اثر پذیر شخص تھے۔ وہ جس ماحول میں رہے اس کا اثر قبول کیا۔ ان کے رجحانات اور مذاق تصنیف کی پیہم تبدیلیاں یہ بھی ثابت کرتی ہیں کہ ان میں جلد جلد بدلی جانے کی بے حد صلاحیت تھی۔ ان کی تصانیف مضامین اور اسلوب بیان دونوں ارتقا اور تغیر کا عجیب و غریب نقشہ پیش کرتی ہیں۔ ان کی زندگی کا ابتدائی اور خاندانی روایات میں ڈوبا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ اس کے بعد جب انہوں نے ملازمت شروع کر دی تو پرانی ڈگر سے ہٹ کر وہ مستقرین یوروپ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرنے لگے۔ لیکن پہلی جنگ آزادی جسے غدر کا نام دیا گیا کے بعد ان کا ذہن زندگی کے جدید تر ااور عجیب تر مسائل سے دوچار ہوجاتاہے۔ ان کی زندگی میں مغربی خیالات و رحجانات کو فروغ اس وقت ملتا ہے۔ جب وہ انگلستان کا سفر کرتے ہیں۔ انگلستان کے سفر کے بعد جو رنگ ان پر چڑھتا ہے وہ اخیر وقت تک ان کے ساتھ رہتا ہے۔ اور یہی رنگ انہیں اس صدی کے دوسرے ارباب فکر کے مقابلہ میں خاص امتیاز بخشتا ہے۔ ایک ایسا امتیاز جو زندگی کے نئے رنگ یعنی جدید نظریہ حیات کے پہلے بڑے نمائندہ و شارح تھے۔ دوسرے بہت سے لوگوں نے نہ صرف ان سے اثر قبول کیا بلکہ ان کی پیروی کی۔
#شخصیات #سر_سید
حصہ دوم
سرسید احمد خاں کی تصانیف کو تاریخی ترتیب کی روشنی میں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہایت اثر پذیر شخص تھے۔ وہ جس ماحول میں رہے اس کا اثر قبول کیا۔ ان کے رجحانات اور مذاق تصنیف کی پیہم تبدیلیاں یہ بھی ثابت کرتی ہیں کہ ان میں جلد جلد بدلی جانے کی بے حد صلاحیت تھی۔ ان کی تصانیف مضامین اور اسلوب بیان دونوں ارتقا اور تغیر کا عجیب و غریب نقشہ پیش کرتی ہیں۔ ان کی زندگی کا ابتدائی اور خاندانی روایات میں ڈوبا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ اس کے بعد جب انہوں نے ملازمت شروع کر دی تو پرانی ڈگر سے ہٹ کر وہ مستقرین یوروپ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرنے لگے۔ لیکن پہلی جنگ آزادی جسے غدر کا نام دیا گیا کے بعد ان کا ذہن زندگی کے جدید تر ااور عجیب تر مسائل سے دوچار ہوجاتاہے۔ ان کی زندگی میں مغربی خیالات و رحجانات کو فروغ اس وقت ملتا ہے۔ جب وہ انگلستان کا سفر کرتے ہیں۔ انگلستان کے سفر کے بعد جو رنگ ان پر چڑھتا ہے وہ اخیر وقت تک ان کے ساتھ رہتا ہے۔ اور یہی رنگ انہیں اس صدی کے دوسرے ارباب فکر کے مقابلہ میں خاص امتیاز بخشتا ہے۔ ایک ایسا امتیاز جو زندگی کے نئے رنگ یعنی جدید نظریہ حیات کے پہلے بڑے نمائندہ و شارح تھے۔ دوسرے بہت سے لوگوں نے نہ صرف ان سے اثر قبول کیا بلکہ ان کی پیروی کی۔
🌹🌹سر سید احمد خان🌹🌹
#شخصیات #سر_سید
حصہ سوم
پہلی جنگ آزادی (غدر) سے پہلے ان کے اندر دو رجحانات نظر آتے ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ پرانے رنگ میں ڈوبے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور دوسرا یہ کہ انگریزوں سے میل جول کی بناپر ان کے اندر مغربی طرز زندگی اور جدید خیالات کا کچھ نہ کچھ اثر دکھائی دیتا ہے۔ ریاضی، تاریخ اور تصوف کے علاوہ ان کی تصنیفی زندگی کے دور اول میں ان کی تحریروں میں مناظرہ و تقابل مذہب کا رجحان غالب ہے۔ اس دور میں ان کا نقطۂ نظر علمی اور دینی تھا۔ اس کے علاوہ اس دور میں وہ آثار قدیمہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس دور کی خاص خاص تصانیف ’’جام جم‘‘ (فارسی) ۱۸۳۹ء، ’’انتخاب الاخوین‘‘ ،’’جلاء القلوب بذکر المحبوب‘‘ ، ’’تحفۃ حسن‘‘، ’’آثار الصنادید‘‘، ’’فوائد الافکار‘‘، ’’کلمۃ الحق‘‘ ، ’’راہ سنت و رد بدعت‘‘، ’’ضیقہ‘‘ ، ’’کیمیائے سعادت‘‘، ’’تاریخ ضلع بجنور‘‘ اورآئین اکبر کی تصحیح‘‘وغیرہ ہیں۔
پہلی جنگ آزادی کے بعد ان کا تبادلہ بجنور سے مراد آباد ہو گیا۔ اس دور میں وہ مسلمانوں کو غدر میں شرکت کے الزام سے بچانے کی کوشش میں لگ گئے۔ اس الزام سے بچانے کے لئے انہوں نے کئی کتابیں لکھیں جن میں ’’تاریخ سرکش بجنور‘‘، ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ اور ’’رسالہ لائل محمڈنز آف انڈیا‘‘ وغیرہ اہم ہیں۔ اس دور میں انہوں نے ’’تاریخ فیرزو شاہی‘‘ ’’تبین الکلام‘‘ ، ’’سائنسٹی فک سوسائٹی اخبار‘‘ (جو بعد میں ’’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘‘ ہوگیا) اور ’’رسالہ احکام طعام اہل کتاب‘‘ وغیرہ بھی لکھیں۔
#شخصیات #سر_سید
حصہ سوم
پہلی جنگ آزادی (غدر) سے پہلے ان کے اندر دو رجحانات نظر آتے ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ پرانے رنگ میں ڈوبے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور دوسرا یہ کہ انگریزوں سے میل جول کی بناپر ان کے اندر مغربی طرز زندگی اور جدید خیالات کا کچھ نہ کچھ اثر دکھائی دیتا ہے۔ ریاضی، تاریخ اور تصوف کے علاوہ ان کی تصنیفی زندگی کے دور اول میں ان کی تحریروں میں مناظرہ و تقابل مذہب کا رجحان غالب ہے۔ اس دور میں ان کا نقطۂ نظر علمی اور دینی تھا۔ اس کے علاوہ اس دور میں وہ آثار قدیمہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس دور کی خاص خاص تصانیف ’’جام جم‘‘ (فارسی) ۱۸۳۹ء، ’’انتخاب الاخوین‘‘ ،’’جلاء القلوب بذکر المحبوب‘‘ ، ’’تحفۃ حسن‘‘، ’’آثار الصنادید‘‘، ’’فوائد الافکار‘‘، ’’کلمۃ الحق‘‘ ، ’’راہ سنت و رد بدعت‘‘، ’’ضیقہ‘‘ ، ’’کیمیائے سعادت‘‘، ’’تاریخ ضلع بجنور‘‘ اورآئین اکبر کی تصحیح‘‘وغیرہ ہیں۔
پہلی جنگ آزادی کے بعد ان کا تبادلہ بجنور سے مراد آباد ہو گیا۔ اس دور میں وہ مسلمانوں کو غدر میں شرکت کے الزام سے بچانے کی کوشش میں لگ گئے۔ اس الزام سے بچانے کے لئے انہوں نے کئی کتابیں لکھیں جن میں ’’تاریخ سرکش بجنور‘‘، ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ اور ’’رسالہ لائل محمڈنز آف انڈیا‘‘ وغیرہ اہم ہیں۔ اس دور میں انہوں نے ’’تاریخ فیرزو شاہی‘‘ ’’تبین الکلام‘‘ ، ’’سائنسٹی فک سوسائٹی اخبار‘‘ (جو بعد میں ’’علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ‘‘ ہوگیا) اور ’’رسالہ احکام طعام اہل کتاب‘‘ وغیرہ بھی لکھیں۔
🌹🌹سر سید احمد خان🌹🌹
#شخصیات #سر_سید
حصہ چہارم
تیسرے دور میں ان کے مصلحانہ خیالات میں بڑی شدت پیدا ہوگئی تھی۔ اب وہ اپنے اظہار خیال میں نڈر اور بے خوف ہوگئے تھے اور پبلک کی مخالفت کو کچھ اہمیت نہیں دیتے تھے۔ ان کے ذہن پر جدید انداز فکر نے غلبہ پالیا تھا۔ انگریزوں کی صحبت و رفاقت نے جو رنگ ان پر چڑھایا تھا وہ تیز تر اور شوخ ہوگیا تھا۔ اس رجحانات کو ان کی اس دور کی تصانیف میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس دور کی اہم تصانیف اس طرح ہیں۔ ’’سفرنامہ لندن‘‘، ’’خطبات احمدیہ‘‘ ، ’’تہذیب الاخلاق‘‘ ڈاکٹر ہنٹر کی کتاب پر ریویو‘‘ وغیرہ۔
اس طرح سرسید کے فکر وعمل کے دو ہی اہم میدان تھے ایک مذہب دوسرا سیاست لیکن ان کی ادبی حیثیت بھی ہر لحاظ سے مسلم ہے۔
ان کے نزدیک علم و ادب صرف تفریحی مشغلہ نہ تھا بلکہ ان کے لیے یہ چند مخصوص خیالات و عقائد کے اظہار کا وسیلہ تھا۔ وہ ادب کو مقاصد زندگی کا آلۂ کار سمجھتے تھے۔
سرسید احمد کا محبوب مشغلہ تصنیف و تالیف اور مطالعہ تھا پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ شعر وادب کی ترقی کے لیے کوشش نہ کرتے۔ اردو نثر نظم کی خامیوں سے وہ پوری طرح واقف تھے۔ اردو زبان وادب کے فروغ کے لیے انہوں نے اہل قلم کو بہت سے مفید مشورے بھی دیئے۔ نورالحسن نقوی لکھتے ہیں :
’’وہ ادب کی معصومیت و افادیت کے علمبردار تھے۔ وہ قصے کہانیاں جو محض وقت گزاری کا ذریعہ ہوں اور وہ شاعری جس کا مقصد صرف لطف اندوزی ہو ان کے لیے قابل تفریح تھے۔ وہ سلادینے والے نہیں ، بیدار کرنے والے شعر وادب کے قائل تھے۔ ‘‘
اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ سرسید احمد خاں کے کارناموں میں ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ ان کا ادبی سرمایہ خالص ادبی معیار سے قابل ذکر ادب میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ ان کی انشا پردازی، طرز بیان، ان کی نثر اور ان کی مقالہ نگاری، غرض ان کاکل سرمایہ تحریر اردو زبان وادب کا قیمتی سرمایہ ہے۔
#شخصیات #سر_سید
حصہ چہارم
تیسرے دور میں ان کے مصلحانہ خیالات میں بڑی شدت پیدا ہوگئی تھی۔ اب وہ اپنے اظہار خیال میں نڈر اور بے خوف ہوگئے تھے اور پبلک کی مخالفت کو کچھ اہمیت نہیں دیتے تھے۔ ان کے ذہن پر جدید انداز فکر نے غلبہ پالیا تھا۔ انگریزوں کی صحبت و رفاقت نے جو رنگ ان پر چڑھایا تھا وہ تیز تر اور شوخ ہوگیا تھا۔ اس رجحانات کو ان کی اس دور کی تصانیف میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ اس دور کی اہم تصانیف اس طرح ہیں۔ ’’سفرنامہ لندن‘‘، ’’خطبات احمدیہ‘‘ ، ’’تہذیب الاخلاق‘‘ ڈاکٹر ہنٹر کی کتاب پر ریویو‘‘ وغیرہ۔
اس طرح سرسید کے فکر وعمل کے دو ہی اہم میدان تھے ایک مذہب دوسرا سیاست لیکن ان کی ادبی حیثیت بھی ہر لحاظ سے مسلم ہے۔
ان کے نزدیک علم و ادب صرف تفریحی مشغلہ نہ تھا بلکہ ان کے لیے یہ چند مخصوص خیالات و عقائد کے اظہار کا وسیلہ تھا۔ وہ ادب کو مقاصد زندگی کا آلۂ کار سمجھتے تھے۔
سرسید احمد کا محبوب مشغلہ تصنیف و تالیف اور مطالعہ تھا پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ شعر وادب کی ترقی کے لیے کوشش نہ کرتے۔ اردو نثر نظم کی خامیوں سے وہ پوری طرح واقف تھے۔ اردو زبان وادب کے فروغ کے لیے انہوں نے اہل قلم کو بہت سے مفید مشورے بھی دیئے۔ نورالحسن نقوی لکھتے ہیں :
’’وہ ادب کی معصومیت و افادیت کے علمبردار تھے۔ وہ قصے کہانیاں جو محض وقت گزاری کا ذریعہ ہوں اور وہ شاعری جس کا مقصد صرف لطف اندوزی ہو ان کے لیے قابل تفریح تھے۔ وہ سلادینے والے نہیں ، بیدار کرنے والے شعر وادب کے قائل تھے۔ ‘‘
اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ سرسید احمد خاں کے کارناموں میں ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ ان کا ادبی سرمایہ خالص ادبی معیار سے قابل ذکر ادب میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ ان کی انشا پردازی، طرز بیان، ان کی نثر اور ان کی مقالہ نگاری، غرض ان کاکل سرمایہ تحریر اردو زبان وادب کا قیمتی سرمایہ ہے۔
🌹🌹🌹اردو کی عصری صدائیں🌹🌹🌹
#تنقیدی_سلسلہ #تبصرہ_بر_کتب
✍️ ✍️غلام نبی کمار ✍️ ✍️
حصہ اول
اردو دنیا میں نئی نسل کے جو جواں فکر قلم کار اپنی خدمات کے ذریعے روشناس ہورہے ہیں۔ ان میں غلام نبی کمار ایک اہم نام ہے۔ جو درحقیقت ایک ہوش مند، درد آشنا اور حساس قلم کار کی حیثیت سے اردو ادب میں نادر و نایاب مواد کے ساتھ متعارف ہورہے ہیں اور اپنی تحقیقی و تنقیدی کتاب’’اردو کی عصری صدائیں ‘‘کے منظر عام پر آنے سے وہ اہلِ تحقیق و تنقید کی نگاہوں میں اپنی خاص جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
غلام نبی کمار بلاشبہ ایک تازہ کار قلم کار ہیں جو اپنی ادبی کاوش سے تحقیق و تنقید کی راہیں ایک وسیع و ہمہ گیر موضوعِ سخن کااحساس کرا رہے ہیں۔ انھیں علم و ادب کی شائستگی اور اس کے لچک پن کا بھی احساس ہے۔ ان کے مختلف موقر رسائل و جرائد میں بے لاگ مضامین و تبصرے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اس طرح ادب کی لوث خدمت کرکے وہ اپنا نام پیدا کر رہے ہیں۔ غلام نبی کمارکے مقالات اور تحقیقی مضامین میں بلاشبہ جغرافیائی، تاریخی، لسانی و ادبی پس منظر یکسانیت کے ساتھ استعداد حاصل کر رہے ہیں۔ جس میں تحقیقی اظہار و احساس نئے پن کے ساتھ نظرآتا ہے۔ اس نوجوان نقاد سے اردو زبان کی بہت سی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ یہ بات باعثِ فخر ہے کہ غلام نبی کمار اپنے تعلیمی سفر کے ساتھ ساتھ اپنا ادبی سفر بھی قابلِ رشک و حیرات انگیز انداز میں بڑی تیز گامی کے ساتھ طے کر رہا ہے۔ انھوں نے ابتدائی مرحلے سے ہی اپنے تخلیقی اور تحقیقی ادبی فضا کو منفرد انداز میں اپنے حلقۂ احباب میں متعارف کرایا۔ ان کی طبیعت میں نہایت نرمی اور بزلہ سنجی پائی جاتی ہے۔
#تنقیدی_سلسلہ #تبصرہ_بر_کتب
✍️ ✍️غلام نبی کمار ✍️ ✍️
حصہ اول
اردو دنیا میں نئی نسل کے جو جواں فکر قلم کار اپنی خدمات کے ذریعے روشناس ہورہے ہیں۔ ان میں غلام نبی کمار ایک اہم نام ہے۔ جو درحقیقت ایک ہوش مند، درد آشنا اور حساس قلم کار کی حیثیت سے اردو ادب میں نادر و نایاب مواد کے ساتھ متعارف ہورہے ہیں اور اپنی تحقیقی و تنقیدی کتاب’’اردو کی عصری صدائیں ‘‘کے منظر عام پر آنے سے وہ اہلِ تحقیق و تنقید کی نگاہوں میں اپنی خاص جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
غلام نبی کمار بلاشبہ ایک تازہ کار قلم کار ہیں جو اپنی ادبی کاوش سے تحقیق و تنقید کی راہیں ایک وسیع و ہمہ گیر موضوعِ سخن کااحساس کرا رہے ہیں۔ انھیں علم و ادب کی شائستگی اور اس کے لچک پن کا بھی احساس ہے۔ ان کے مختلف موقر رسائل و جرائد میں بے لاگ مضامین و تبصرے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اس طرح ادب کی لوث خدمت کرکے وہ اپنا نام پیدا کر رہے ہیں۔ غلام نبی کمارکے مقالات اور تحقیقی مضامین میں بلاشبہ جغرافیائی، تاریخی، لسانی و ادبی پس منظر یکسانیت کے ساتھ استعداد حاصل کر رہے ہیں۔ جس میں تحقیقی اظہار و احساس نئے پن کے ساتھ نظرآتا ہے۔ اس نوجوان نقاد سے اردو زبان کی بہت سی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔ یہ بات باعثِ فخر ہے کہ غلام نبی کمار اپنے تعلیمی سفر کے ساتھ ساتھ اپنا ادبی سفر بھی قابلِ رشک و حیرات انگیز انداز میں بڑی تیز گامی کے ساتھ طے کر رہا ہے۔ انھوں نے ابتدائی مرحلے سے ہی اپنے تخلیقی اور تحقیقی ادبی فضا کو منفرد انداز میں اپنے حلقۂ احباب میں متعارف کرایا۔ ان کی طبیعت میں نہایت نرمی اور بزلہ سنجی پائی جاتی ہے۔