🌴🌴گلشن ادب🌴🌴
985 subscribers
9 photos
104 links
✍️✍️ اردو ادب کا ایک نہایت ہی شاندار سرچشمہ جس میں آپ کو ملیں گے ادبی، تحقیقی، تنقیدی اور معلوماتی مضامین.....

✍️✍️ اور ساتھ ہی ساتھ اردو ادب کی عظیم ہستیوں کے حالات کا بالاستعاب مطالعہ کرنے کا بہترین موقع......
Download Telegram
#بہاریں_لوٹ_آئیں


#عفت_سحر_پاشا

#ناول


قسط نمبر 7


صرف سونے کے لئے نہیں، پیار محبت کی باتیں کرنے کے لئے بھی بنائی ہے".

اب وہ اس قدر فضول بات کا کیا جواب دیتی. ایک دم چپ ہوگئی.

"تو کیا خیال ہے پھر"؟ وہ شوخ ہوا تو اس نے تحمل سے جواب دیا.

"دیکھیں مجھے ایسی باتیں نہیں آتیں".

"میں ہوں نہ، سب سکھ دونگا". وہ پھر اسی انداز میں بولا.

"کبھی آؤ دیکھو میرے بیڈ روم میں ہر طرف تمہاری انلارجمنٹ لگی ہوئی ہیں. ہنستی مسکراتی باتیں کرتی، تم منگنی والے دن بہت اچھی لگ رہیں تھیں".

وہ اضطراری انداز میں انگہشت شہادت کا ناخن چبا رہی تھی.

"میرے سرکل میں لڑکیوں کی کوئی کمی نہیں مگر تمہاری پاکیزگی اور سادگی نے مجھے مہبوت کر دیا".

وہ تعریف کر رہا تھا تزین کا دماغ جھنجھنا کر رہ گیا.

"دیکھیں مجھے نیند آرہی ہے".

"تو کیا میں وہاں آجاؤں". وہ بہت شرارت سے بولا تو تزین کا جی چاہا فون اسکے سر میں دار مارے.

"عبید! پلیز مجھے ایسی باتیں پسند نہیں،" اس نے بمشکل خود کو "واہیات " لفظ کہنے سے روکا.

"لڑکا اور لڑکی جو اپس میں منگیتر بھی ہوں وہ ایسی ہی باتیں کرتے ہیں". وہ جیسے اسکی شرم سے محظوظ ہوا.

"اسی لئے تو مجھے یہ رابطے پسند نہیں ہیں عبید". وہ تیز لہجے میں بولی.

"کس دنیا میں رہ رہی ہو تم"؟ وہ اسکی باتوں سے محظوظ ہو رہا تھا اس لئے سیرس نہیں ہو رہا تھا.

"بہت اچھی دنیا ہے میری عبید میں بہت خوش ہوں اس دنیا میں". وہ ٹھرے لہجے میں بولی.

"بہت بورنگ ہو تم"

"میں ایسی ہی ہوں". وہ سخت لہجے میں بولی.

"مگر مجھ تک پہنچنے کے لئے تمہیں بدلنا پڑے گا تزین". وہ یکلخت سنجیدہ ہوا.

"تبدیلی تو ہر ایک کی زندگی میں آتی ہے مگر ابھی مجھے میری زندگی جی لینے دیں، جب وقت آجاتے گا بدل جاؤں گی.

تزین نے اسی انداز میں کہا تو کچھ توقف کے بعد عبید نے الله حافظ کہ کر فون رکھ دیا.

تزین اپنی جگہ الجھ گئی.

"تمہاری کزن خود کو سمجھتی کیا ہے، عبید بھائی کو تو ایسے چٹکیوں میں اڑاتی ہے جسی وہ اس کے سامنے کچھ ہیں ہی نہیں."

مشی اس پر یوں بولی جیسے سارا قصور اس کا ہو. اعیان نے حیران ہوکر اسکو دیکھا.

"کیا ہوا ہے".؟

"میں تو پچھتائی یہ منگنی کروا کر". اس نے اپنی خوبصورت ناک کو سکیڑا، اعیان نے اسکو دلچسپی سے دیکھا.

"تم نے کیا کیا ہے، یہ تو قسمت کا لکھا ہے، اور ویسے بھی ثانیہ خاص طور پر اسکی امی تزین کو بہت پسند کرتی ہیں اور بعد میں یہ بھی پتا

چلا تھا کے عبید بھی اسکی تصویر دیکھتے ہی راضی ہوگیا تھا.".

"وہ یار! سامنا تو میں نے ہی کروایا دونو پارٹیز کا". وہ چڑی .

"ہاں تو اب کیا ہوگیا ہے"؟ اعیان نے اپنی مسکراہٹ دبائی.

"اب ہوا یہ کہ سینکڑوں مردوں میں کام کرنے والی تمہاری کزن کو فون پر بات کرنے یا ملنے پر کیا اعترض ہے"؟ وہ طنز سے بولی تو اعیان سنجیدہ

ہوگیا.

"تم سے کس نے کہا یہ سب"؟

"ثانیہ نے اور عبید بھائی نے بھی وہ باقاعدہ ناراض ہو رہے تھے مجھ سے". وہ اپنے سیاہ بالوں کو لپیٹ کر پونی میں قید کرنے لگی.

"تم پر کیوں ناراض ہو رہے تھے"؟ یہ تو انکا آپس کا معامله ہے چاہے انکی منگیتر انکے ساتھ باہر جاتے جاتے. بات کرے نہ کرے انکا سر درد ہے وہ حق رکھتی ہے". اعیان نے ناگواری سے کہا.

"تزین بھی تو سہی نہیں کر رہی نہ".

"غلط والی بھی اس میں کوئی بات نہیں. ویسے بھی مجھے اسکو اپروچ اچھی لگی. واقع شادی کے بعد ایک دوسرے کو جاننے سمجھنے کا اپنا ہی مزہ ہوتا ہوگا.

پہلے یہ کام کر لینے سے تو بعد میں یہ روٹین ورک ہی لگتا ہوگا". اعیان نے آرام سے کہا.

"تم متاثر نہیں ہوگے اس سے تو کون ہوگا". وہ ہمیشہ کی طرح چڑ کر بولی.

"سچ مشی! اندر سے شاید میں تمہیں ایسا ہی دیکھنا چاہتا ہوں، مجھ سے شرماتی، کتراتی میری ہزار منتوں کے بعد مجھ سے ملنے پر راضی ہوتی." وہ پر سوچ

انداز میں بولا تو مشی کو اس موضوع پر غصّہ آنے لگا.

"خدا کے لئے اعیان اب اپنی کزن والا قدامت پسندی کا لبادہ مت اوڑھ لینا، یہ شرمانا کترانا صرف کہانیوں میں اچھا لگتا ہے." اب تو پی ٹی وی کی ہیرون نے بھی یہ

کام چھوڑ دیا، ہر شام تمہارے ساتھ باہر نہ جاؤں تو میرا دم نہ گھٹ جاتے".


Https://t.me/gulshaneadab

Https://t.me/buttgeem
🌴🌴گلشن ادب🌴🌴 pinned «🌹🌹شخصیات کا تعارف🌹🌹 اس چینل میں اب تک ان شخصیات کا تعارف اور ان کے مختصر حالات زندگی بھے جا چکے ہیں۔۔۔ کسی بھی شخصیت کے بارے میں پڑھنے کے لئے اس کے نام پر کلک کریں۔۔۔ 1مرزا سلامت دبییر 2مرزا اسداللہ خان غالب 3غلام ہمدانی مصحفی 4حسن عسکری 5خواجہ…»
🌷مقصدیت🌷

دہلی میں ایک مسلم نوجوان تھا۔ وہ غریب گھر میں پیدا ہوا۔ اس کی باقاعدہ تعلیم بھی نہ ہو سکی۔ تاہم وہ تندرست اور باصلاحیت تھا۔ جب وہ بڑا ہوا تو اس کو محسوس ہوا کہ ماحول میں اس کے لئے کوئی باعزت کام نہیں ہے۔ آخر کار وہ داداگیری کی راہ پر لگ گیا۔ جھگڑا فساد اور لوٹ مار اس کا پیشہ بن گیا۔ لوگ اس کو دادا کہنے لگے۔
چند سالوں کے بعد ایک شخص کو اس سے ہمدردی ہوئی۔ اس نے اپنے پاس سے کچھ رقم بطور قرض دے کر اس کو دکانداری کرا دی۔ جب وہ دوکان میں بیٹھا اور اس کو نفع ملنے لگا تو اس کی تمام دلچسپیاں دکان کی طرف مائل ہوگئیں۔ اس نے داداگیری چھوڑ دی اور پوری طرح دکان کے کام میں مصروف ہوگیا۔
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کا معاملہ بھی ایسا ہی کچھ ہو رہا ہے۔ انہوں نے مقصدیت کھو دی ہے۔ جدید دنیا میں وہ ایک بے مقصد گروہ بن کر رہ گئے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس آج منفی باتوں کے سوا اور کچھ نہیں۔ وہ شکایت اور احتجاج کا مجسمہ بن گئے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر وہ لڑنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ ان کی ہر نشست مجلس شکایت ہوتی ہے، اور ان کا ہر جلسہ یوم احتجاج۔
اس صورتحال کا واحد حل یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایک بامقصد گروہ بنایا جائے۔ اور یہ مقصد صرف ایک ہی ہو سکتا ہے اور وہ دعوت ہے۔ مسلمانوں کے اندر اگر داعیانہ مقصد پیدا کردیا جائے تو ان کی تمام کمزوریاں اپنے آپ دور ہو جائیں گی۔
وہ اپنے کرنے کا ایک اعلیٰ اور مثبت کام پالیں گے۔ ان کی بے مقصدیت اپنے آپ مقصدیت میں تبدیل ہوجائے گی۔ اس کے بعد ان کے اندر کردار بھی آئے گا اور صبر و برداشت بھی۔ وہ دوسروں سے نفرت کرنے کے بجائے محبت کرنے لگیں گے۔ اس کے بعد ان کو وہ نظر حاصل ہو جائے گی جو تاریکی میں روشنی کا پہلو دیکھ لیتی ہے۔ جو کھونے میں پانے کا راز دریافت کر لیتی ہے۔
مقصدیت ہر قسم کی اصلاح کی جڑ ہے۔ بے مقصد آدمی کا دماغ شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے۔ آدمی کو بامقصد بنا دیجئے اور اس کے بعد اپنے آپ اس کی ہر چیز درست ہو جائے گی


🌷مولانا وحید الدین خاں🌷


https://t.me/gulshaneadab
🌷محنت کے ذریعہ🌷



باپسی سدھوا (Bapsi Sidhwa) ایک پارسی خاتون ہیں۔ وہ پاکستان (لاہور) کی رہنے والی ہیں۔ آج کل وہ ٹیکساس (امریکہ) کی یونیورسٹی آف ہاوسٹن میں استاد ہیں۔ انگریزی زبان میں ان کی لکھی ہوئی کتابیں (ناولیں) انٹرنیشنل سطح کے پبلشنگ اداروں میں چھپتی ہیں۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ باپسی سدھوا کی رسمی تعلیم بالکل نہیں ہوئی۔ وہ اپنے وطن لاہور کے ایک اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کر رہی تھیں کہ ان کو پولیو کی بیماری ہوگئی۔ ان کے والدین نے ان کے لیے باضابطہ تعلیم کو ناممکن سمجھ کر ان کو اسکول سے اٹھا لیا۔ اس کے بعد وہ ٹیوٹر کے ذریعے اپنے گھر پر پڑھنے لگیں۔ مگر ٹیوٹر کا سلسلہ بھی بہت زیادہ دن تک باقی نہیں رہا۔
اب باپسی سدھوا کا شوق ان کا رہنما تھا۔ وہ خود سے پڑھنے لگیں۔ وہ ہر وقت انگریزی کتابیں پڑھتی رہتیں۔ اپنے الفاظ میں، وہ کبھی سیر نہ ہونے والی قاری (voracious reader) بن گئیں۔ آخر انہوں نے اپنی محنت سے یہ درجہ حاصل کر لیا کہ وہ انگریزی میں مضامین لکھنے لگیں۔ مگر دو سال تک یہ حال تھا کہ انہیں اپنے بھیجے ہوئے مضمون کے جواب میں صرف انکاری تحریریں (rejection slips) ملتی تھیں۔ ان کی پہلی کتاب کا مسودہ آٹھ سال تک ان کی الماری میں پڑا ہوا گردآلود ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ ان پر مایوسی کے دورے پڑنے لگے۔
آخرکار حالات بدلے۔ ان کے مضامین باہر کے میگزینوں میں چھپنے لگے۔ اب وہ عالمی سطح پر پڑھی جانے والی انگریزی رائٹر بن چکی ہیں۔ رسمی ڈگری نہ ہونے کے باوجود وہ امریکا کی ایک یونیورسٹی میں تخلیقی تحریر (creative writing) کا مضمون پڑھا رہی ہیں۔ (ٹائمز آف انڈیا 25 فروری 1990)
حقیقت یہ ہے کہ تمام علوم محنت کی درسگاہ میں پڑھائے جاتے ہیں۔ تمام ترقیاں محنت کی قیمت دے کر حاصل ہوتی ہیں۔ اور محنت وہ چیز ہے جو ہر آدمی کو حاصل رہتی ہے۔ حتی کہ اس آدمی کو بھی جس کو بیماری نے معذور بنا دیا ہو، جو کالج اور یونیورسٹی کی ڈگری لینے میں ناکام ثابت ہوا ہو۔
محنت ایک ایسا سرمایہ ہے جو کبھی کسی کے لئے ختم نہیں ہوتا۔


مولانا وحید الدین خاں باپسی سدھوا (Bapsi Sidhwa) ایک پارسی خاتون ہیں۔ وہ پاکستان (لاہور) کی رہنے والی ہیں۔ آج کل وہ ٹیکساس (امریکہ) کی یونیورسٹی آف ہاوسٹن میں استاد ہیں۔ انگریزی زبان میں ان کی لکھی ہوئی کتابیں (ناولیں) انٹرنیشنل سطح کے پبلشنگ اداروں میں چھپتی ہیں۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ باپسی سدھوا کی رسمی تعلیم بالکل نہیں ہوئی۔ وہ اپنے وطن لاہور کے ایک اسکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کر رہی تھیں کہ ان کو پولیو کی بیماری ہوگئی۔ ان کے والدین نے ان کے لیے باضابطہ تعلیم کو ناممکن سمجھ کر ان کو اسکول سے اٹھا لیا۔ اس کے بعد وہ ٹیوٹر کے ذریعے اپنے گھر پر پڑھنے لگیں۔ مگر ٹیوٹر کا سلسلہ بھی بہت زیادہ دن تک باقی نہیں رہا۔
اب باپسی سدھوا کا شوق ان کا رہنما تھا۔ وہ خود سے پڑھنے لگیں۔ وہ ہر وقت انگریزی کتابیں پڑھتی رہتیں۔ اپنے الفاظ میں، وہ کبھی سیر نہ ہونے والی قاری (voracious reader) بن گئیں۔ آخر انہوں نے اپنی محنت سے یہ درجہ حاصل کر لیا کہ وہ انگریزی میں مضامین لکھنے لگیں۔ مگر دو سال تک یہ حال تھا کہ انہیں اپنے بھیجے ہوئے مضمون کے جواب میں صرف انکاری تحریریں (rejection slips) ملتی تھیں۔ ان کی پہلی کتاب کا مسودہ آٹھ سال تک ان کی الماری میں پڑا ہوا گردآلود ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ ان پر مایوسی کے دورے پڑنے لگے۔
آخرکار حالات بدلے۔ ان کے مضامین باہر کے میگزینوں میں چھپنے لگے۔ اب وہ عالمی سطح پر پڑھی جانے والی انگریزی رائٹر بن چکی ہیں۔ رسمی ڈگری نہ ہونے کے باوجود وہ امریکا کی ایک یونیورسٹی میں تخلیقی تحریر (creative writing) کا مضمون پڑھا رہی ہیں۔ (ٹائمز آف انڈیا 25 فروری 1990)
حقیقت یہ ہے کہ تمام علوم محنت کی درسگاہ میں پڑھائے جاتے ہیں۔ تمام ترقیاں محنت کی قیمت دے کر حاصل ہوتی ہیں۔ اور محنت وہ چیز ہے جو ہر آدمی کو حاصل رہتی ہے۔ حتی کہ اس آدمی کو بھی جس کو بیماری نے معذور بنا دیا ہو، جو کالج اور یونیورسٹی کی ڈگری لینے میں ناکام ثابت ہوا ہو۔
محنت ایک ایسا سرمایہ ہے جو کبھی کسی کے لئے ختم نہیں ہوتا۔


🌷مولانا وحید الدین خاں🌷



https://t.me/gulshaneadab
اردو زبان کی اصلاح کی تحریکات کا مختصر جائزہ


#حافظ_نعمان_احمد_خان

#قسط_نمبر_1

جب کوئی زبان اپنی نشوونما کی ابتدائی منازل عبور کر کے اس حد بلوغت تک پہنچ جاتی ہے کہ اسے تخلیقی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکے تو ارباب ذوق خالقین ادب اس زبان کے خد و خال اور حسن و جمال، معیار لسان، فصاحت اور بلاغت کو مزید نکھارنے اور سنوارنے کے لیے ارادی اور غیرارادی، اجتماعی اور بسا اوقات انفرادی سطح پر زبان و بیان کی اصلاح کا آغاز کرتے ہیں۔

اس اصلاح کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ بعض الفاظ اور تراکیب کو تخلیقی مقاصد کے لیے ناکارہ قرار دے کر ترک کر دیا جاتا ہے۔ ایسے الفاظ کو اصطلاح میں متروک الفاظ کہتے ہیں۔ الفاظ کا متروک قرار پانا ایک طویل امر ہے۔ آغاز میں جو الفاظ شعراء اور ادباء ترک کرتے ہیں عوام انہیں استعمال کرتے رہتے ہیں البتہ ایک مدت کے بعد معاشرہ خود بخود ان الفاظ سے غیرمانوس ہوتا چلا جاتا ہے۔

اسی طرح اس اصلاح کے ذریعہ بعض رجحانات کا قلع قمع کیا جاتا ہے۔ یہ رجحانات عموماً معاشرہ پر منفی رنگ میں اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں۔ مثلاً اردو میں اصلاح زبان کی تحریک کا سبب ایہام گوئی کو قرار دیا جاتا ہے۔ ایہام عربی زبان کا لفظ ہے یعنی وہم میں ڈالنا۔ اصطلاح میں ایہام گوئی سے مراد یہ ہے کہ شعر میں ایسا لفظ لایا جائے جس کے دو معنے ہوں، ایک معنی اس مقام کے قریب ہوں اور دوسرے بعید لیکن شاعر معنی بعید مراد لے۔ مومن کا یہ شعر ایہام گوئی کی عمدہ مثال ہے: ؎

شب جو مسجد میں جا پھنسے مومن
رات کاٹی خدا خدا کر کے

غرض اسی طرح بعض الفاظ و تراکیب اور رجحانات کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھال کر اپنانے یا رد کر دینے کا نام اصلاح زبان ہے۔ اردو زبان سے منسلک ادباء کو جب یہ احساس ہوا کہ اب یہ زبان اس حد بلوغت تک پہنچ گئی ہے کہ اسے اعلیٰ تخلیقی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے تو اس وقت ان کے پیش نظر تین اسالیب تھے: (1) غزل کا دکنی اسلوب (2) نستعلیق فارسی کا طرز (3) دہلی کے گلی کوچوں کی زبان۔ زبان کو فصاحت عطا کرنے کے لیے فارسی کا نستعلیق طرز یقیناً فطری انتخاب تھا۔ ایہام گوئی سے اکتائے اس وقت کے اردو شعراء نے آخر رد عمل کے طور پر زبان میں فصاحت پیدا کرنے کے لیے فارسی طرز کا انتخاب ہی کیوں کیا؟ ڈاکٹر جمیل جالبی اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں:

اس تحریک کے شعراء نے احساس، جذبہ اور خیال کو اپنی شاعری میں ایک ایسی شکل دی کہ نئے شعراء نے اس روایت کو اپنا کر اسے مکمل کر دیا۔ ردعمل کی تحریک نے تخلیقی سطح پر فارسی اثرات کو عام بول چال کی زبان میں جذب کر کے ایک ایسی صورت دے دی جس سے اردو زبان کے خدوخال متعین ہوگئے۔ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اردو نے شعوری طور پر ہندی زبان کے اثرات اور الفاظ کو خارج کیا، یہ بھول جاتے ہیں کہ جب ایک زبان بولی کی سطح سے ادبی سطح پر آتی ہے تو وہ اس غالب زبان سے دل کھول کر استفادہ کرتی ہے جس کی جگہ وہ لینے والی ہے۔ چوسر کے زمانہ میں انگریزی زبان کے ساتھ بھی یہی عمل ہوا تھا اور اس نے بھی غالب فرانسیسی زبان سے نہ صرف دل کھول کر استفادہ کیا تھا بلکہ اس کی روح کو، اس کے اسالیب و اصناف کو پورے طور پر اپنایا تھا۔ اس دور میں یہی صورت فارسی زبان و ادب کی تھی۔ برصغیر کی کوئی زبان اتنی ترقی یافتہ نہیں تھی کہ ایک نئی ابھرتی ہوئی زبان اس سے استفادہ کر سکے۔

(تاریخ ادب اردو جلد دوم ، مصنفہ ڈاکٹر جمیل جالبی، مجلس ترقی ادب، لاہور1982ء 354ص)
اردو زبان کی اصلاح کی تحریکات کا مختصر جائزہ


#حافظ_نعمان_احمد_خان

#قسط_نمبر_2

سب سے پہلے ایہام گوئی کو ترک کر کے ذہنی اور قلبی کیفیات کو مجاز اور حقیقت کے روپ میں ادا کر کے صحت مند رویوں کی پرورش کرنے کا سہرا حضرت مرزا مظہر جان جاناں کے سر جاتا ہے کہ جنہوں نے نہ صرف یہ کہ اس تحریک کی بنیاد رکھی بلکہ اپنے شاگردوں کو بھی اس بات پر اکسایا کہ وہ اس صحت مند اسلوب کی پیروی کریں۔ آپ نے طرز سخن کو سنوارنے کے لیے فارسی زبان کے کم و بیش پانچ سو شعراء کے ایسے کلام کا انتخاب کیا جس میں قلبی کیفیات اور عشقیہ جذبات کا اظہار حقیقت بیانی اور سادہ گوئی کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر انور سدید میرزا مظہر جان جاناں کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
اصلاح زبان کی تحریک میں میرزا مظہر جان جاناں کو اولیت حاصل ہے۔ انہوں نے فارسی اور اردو زبان کو ایک ہی تار سے بننے کی کوشش کی اور اصلاح زبان کو مذہبی اور سیاسی فریضہ سمجھ کر انجام دیا۔
(اردو ادب کی تحریکیں، مصنفہ ڈاکٹر انور سدید، انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، اشاعت ششم، 2007ء، ص203)
میرزا جان جاناں کی خدمات کا اعتراف اپنی جگہ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ آج آپ کا بہت تھوڑا کلام دستیاب ہے کہ جو گنتی کے چند اردو اشعار پر مبنی ہے۔ ترک ایہام میں جس مرد میدان کو درحقیقت رفعت اور سربلندی حاصل ہوئی وہ شیخ ظہور الدین حاتم ہیں۔ حاتم اپنے دور کے مقبول اساتذہ میں گردانے جاتے تھے۔ شاگردوں کی طویل فہرست میں مرزا رفیع سودا جیسے عظیم المرتبت قادر الکلام شاعر کا نام بھی شامل ہے۔ زمانہ کی رو میں ابتداء ً آپ نے بھی ایہام پر ہی طبع آزمائی کی لیکن بعدازاں اس کام سے ایسے بد دل ہوئے کہ آج صاف گوئی کی اصطلاح کے موجد کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ؎
ان دنوں سب کو ہوا ہے صاف گوئی کا تلاش
نام کو چرچا نہیں حاتم کہیں ایہام کا
ڈاکٹر سلیم اختر ،حاتم کے عہد کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
حاتم کو معاصرین کے مقابلہ میں کہیں پہلے، اصلاح زبان کی ضرورت اور اہمیت اور ایہام کے نقصانات کا احساس ہو گیا تھا۔ 1140ھ سے قبل پہلا دیوان اور 1160ھ میں دوسرا دیوان مکمل کیا۔ 57سال کی پختہ عمر میں بہت کہہ چکنے کے بعد انہوں نے اردو شاعری کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا واحد کام کیا جس کی نظیر صرف غالب کے ہاں ملتی ہے یعنی اپنے کلام میں سے کمزور اشعار خارج کر کے منتخب اشعار پر مبنی انتخاب مرتب کیا۔ بقول ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار: حاتم نے 1168ھ (عہد عزیزالدین عالمگیر ثانی) میں دیوان زادہ کی ترتیب کا بیڑا اٹھایا۔ دیوان قدیم سے غزلیات کا انتخاب کیا۔ زبان و بیان میں بہت سی تبدیلیاں کیں اور مذاق جدید کی غزلیات کو اس میں شامل کر کے نومرتبہ مجموعہ کا نام دیوان زادہ رکھا۔
خود شاہ حاتم نے بھی دیوان زادہ کا دیباچہ لکھ کر ان رجحانات اور تغیرات کے بارہ میں اپنا نقطہ نظر واضح کر دیا ہے۔ تنقیدی، تحقیقی، لسانی اعتبار سے یہ نثری دیباچہ بھی حاتم کی تصنیفات میں بہت اہم ہے۔ دیوان زادہ کی تدوین 1169ھ میں مکمل ہوئی۔ حاتم نے خود بھی ایہام ترک کیا اور شاگردوں کو بھی باز رکھا۔ یوں معاصر شاعرانہ رویہ میں تبدیلی لانے کا باعث بنے۔
(اردو زبان کی مختصر ترین تاریخ، مصنفہ ڈاکٹر سلیم اختر، سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور، 2008ء، ص 153)
چھوڑ آئے ہم وہ گلیاں


رؤف کلاسرا


اس دفعہ جہلم تک کا سفر درپیش تھا۔ 

میری نئی کتاب ''گمنام گائوں کا آخری مزار‘‘ چھپ گئی تھی۔ گگن شاہد اور امر شاہد نے شرط رکھی تھی کہ کتاب آپ کو جہلم بک کارنر پر پیش کریں گے‘ ورنہ کتاب نہیں ملے گی۔ 

جہلم کئی حوالوں سے پہچانا جاتا ہے۔ ہزاروں سال قدیم شہر کی اپنی تاریخ ہے۔ اس شہر اور خطے کے بہادر لوگوں نے کئی جنگیں لڑی ہیں۔ افغانستان اور اٹک کی سرحد پر واقع ہونے کی وجہ سے ہر حملہ آور یہاں سے گزرا اور ان مقامی پوٹھوہاریوں کو ان سے جنگ لڑنا پڑی۔ سب سے بڑی جنگ تو پوٹھوہار کے ہیرو راجہ پورس نے سکندر کی فوج کے خلاف لڑی تھی۔ پوٹھوہاریوں کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ جو جنگ ایرانی لڑنے سے ڈر گئے تھے وہ ان پوٹھوہاریوں نے سکندر کی فوج کے خلاف لڑی۔ مان لیتے ہیں پورس ہار گیا تھا لیکن وہ ایرانی سردار دارا کی طرح میدان سے بھاگ نہیں گیا تھا۔ وہی دارا جس کا بعد میں سر قلم کرکے ایرانیوں نے سکندر کو پیش کیا اور جان بخشی کرائی۔

اس لیے جب راجہ پورس نے سکندر کی فوج کے خلاف پوٹھوہار میں جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا تو سکندر کیلئے یہ بات حیران کن تھی کیونکہ اس کا خیال تھا‘ اگر ایرانی بھاگ گئے‘ تو یہ پوٹھوہاری کب ٹھہر سکیں گے؟ وہ سمجھا‘ پوٹھوہاری بھی راجہ پورس کا سر اسے پیش کرکے جان بخشی کرائیں گے‘ لیکن پوٹھوہاری جنگجوئوں نے جنگ ہارنے کے باوجود سکندر کا دل جیت لیا اور سکندر نے راجہ پورس کو اپنے ساتھ بٹھا لیا۔

جنہوں نے مطالعہ پاکستان لکھا‘ انہوں نے راجہ پورس کو مذاق بنا کر رکھ دیا اور پورس کے ہاتھی کا محاورہ ایجاد کرکے تذلیل کی۔ پاکستانی آج تک یہی سمجھتے ہیں پورس راجہ ہندو تھا جبکہ سکندر مسلمان لہٰذا سب ہمدردیاں سکندر کے ساتھ ہیں۔ پورس آج بھی ہمارا ہیرو نہیں ہے جو بیرونی حملہ آورں کے خلاف لڑا اور ایرانیوں کی طرح میدان سے بھاگ نہیں گیا۔ 

یہی بات جہلم کے ڈپٹی کمشنر نے کہی جو اتفاقاً بک کارنر پر اپنے بچوں ساتھ آئے ہوئے تھے۔ بتانے لگے: جہلم کا چارج لے کر پہلا یہی پتہ کرایا کہ یہاں کتابوں کی اچھی دکان ہے تو سب نے بک کارنر کا نام لیا۔ انہوں نے بچوں کو کہا: چلو وہاں سے کتابیں خریدتے ہیں۔ عموما ڈپٹی کمشنر کو رکھ رکھائو اور عوام سے فاصلہ رکھنے کا سبق دیا جاتا ہے لیکن ان صاحب کی شخصیت کو مختلف پایا۔ جو ڈپٹی کمشنر اتوار کے روز کتابوں کی دکان ڈھونڈ رہا ہو‘ وہ ظاہر ہے کچھ مختلف ہی ہوگا۔

خیر گگن شاہد اور امر شاہد کتابوں کی اشاعت کو اگلے لیول تک لے گئے ہیں۔ اب تو بھارت کے ادیبوں کی بھی خواہش ہے کہ وہ جہلم سے کتابیں چھپوائیں۔ بھارت کے بڑے فلم ساز، شاعر اور ادیب گلزار نے بھی اپنی کتابیں جہلم کے ان بھائیوں کے اشاعت گھر سے چھپوائی ہیں۔ ابھی ہندوستان کے بڑے ادیب شمس الرحمن فاروقی کا شہرہ آفاق ناول ''کئی چاند سر تھے سر آسمان‘‘ بھی چھاپا ہے اور کمال چھاپا ہے۔ گگن شاہد بتانے لگے: اس مسودے میں ڈیڑھ ہزار پروف کی غلطیاں نکالی ہیں جو پہلی اشاعت میں تھیں۔ ابھی ہندوستان کے ایک اور خوبصورت لکھاری اشعر نجمی کے رسالے 'اثبات‘ کے دو شاندار نمبرز چھاپ رہے ہیں‘ جو افسانوں اور شاعری کے حوالے سے ہیں۔ 

لیکن گلزار صاحب نے جو عزت جہلم کو دی ہے‘ وہ بہت کم لوگوں کو پتہ ہے۔ 

گلزار یہیں دینہ‘ جہلم میں پیدا ہوئے اور ہجرت کرکے ہندوستان گئے تھے۔ وہ جسمانی طور پر رہتے تو ہندوستان میں ہیں لیکن دل اور روح ان کی دینہ میں رہتی ہے۔ وہ اب بھی گگن شاہد سے فرمائش کرتے ہیں کہ دینہ میں ایک مخصوص گڑ بنتا تھا‘ جسے وہ بچپن میں کھاتے تھے‘ وہ اگر کہیں سے مل سکتا ہو تو ہندوستان بھجوا دیں۔ گلزار کی تحریروں اور شاعری میں جو اداسی اور ناسٹلجیا آپ کو ملتا ہے اس کا سلسہ دینہ سے جڑا ہوا ہے۔ مشہور فلم 'ماچس‘ کا گانا ''چھوڑ آئے ہم وہ گلیاں‘‘ دینہ کی یاد میں لکھا گیا ہے۔ 

پاکستان اور بھارت کی آزادی کے بعد جو ہجرت ہوئی اس نے بہت سے المیوں کو جنم دیا۔ جو ہماری طرف آئے ان کی اپنی درد بھری کہانیاں تھیں جو یہاں سے بھارت گئے وہ اپنے ساتھ اپنے دکھ اور درد لے کر گئے۔ اس درد کا اندازہ اس وقت ہوا جب 2004 میں ایک وفد کے ساتھ بھارت گیا تو وہاں بھارتی پارلیمنٹ کی لائبریری کے دورے کے دوران لائبریرین سپرا صاحب نے پوچھا: آپ میں سے کوئی ملتان سے ہو جو سرائیکی زبان بول سکتا ہو۔ سب نے میری طرف اشارہ کیا‘ تو وہ دوڑ کر میرے گلے لگ گئے۔ کہنے لگے: کچھ بھی ہو جائے آپ شام میرے گھر میری بوڑھی ماں سے ضرور مل کر جائیں‘ جو ڈیرہ اسماعیل خان کے قریبی علاقوں سے ہجرت کرکے دلی آن بسی تھیں‘ میری ماں کی آخری خواہش ہے کوئی پاکستان سے کبھی آئے جس کے ساتھ وہ بیٹھ کر ڈیرے وال زبان میں باتیں کریں۔ میرے لیے بڑا عجیب مرحلہ تھا۔ جس بندے سے میں کبھی ملا نہیں تھا وہ اصرار کررہا تھا۔ سب دوست دیکھ رہے تھے۔ 

اس شام جب میں ان کے گھر گیا اور ان کی ماں سے ملا اور ہم دونوں نے سرائیکی میں گفتگو شروع کی تو سپرا صاحب سارا
وقت خاموش رہے۔ ان کی آنکھوں سے آنسو بہتے رہے۔ میں حیران ہوا اور پوچھا: آپ تو یہیں دلی پیدا ہوئے ہوں گے۔ وہ بولے: جی دلی پیدا ہوا لیکن ماں سے اتنا کچھ سنا ہے‘ لگتا ہے میری روح بھی وہیں ڈیرہ اسماعیل خان کے اس گائوں میں رہتی ہے۔

پندرہ برس گزر گئے لیکن سپرا صاحب کی آنکھوں سے مسلسل برستے آنسو ابھی تک نہیں بھولے۔ اس دن مجھے احساس ہوا کہ دونوں ملکوں کی آزادی کی اصل قمیت ان لوگوں نے چکائی ہے جو بھارت سے اپنے گھر چھوڑ کر ہمارے ہاں آئے یا ہمارے ہاں سے بھارت گئے۔ ان لوگوں نے اپنا سب کچھ کھویا۔ اپنے گھر چھوڑے، وطن چھوڑا اور اجنبی منزلوں کو نکل کھڑے ہوئے۔ 

یہی کچھ گلزار کے ساتھ ہوا۔ دینہ چھوڑا تو پندرہ سولہ برس سال عمر تھی۔ ایک نوجوان لڑکے کو اپنا گائوں اور وطن چھوڑنا پڑا تو پھر عمر بھر ان کے ذہن اور روح سے نہ نکل سکا۔ گلزار دینہ نہیں آنا چاہتے تھے۔ جب وہ پاکستان آئے تو میزبان اصرار کرکے دینہ لے گئے جس پر وہ بہت دل برداشتہ ہوئے کیونکہ یہ وہ دینہ نہیں تھا جو وہ برسوں پہلے چھوڑ گئے تھے‘ جو ان کی روح میں رہتا تھا۔ گزرے برسوں میں وہ کھیت کھلیان، ندی نالے، گلیاں سب کچھ بدل گئے تھے۔ جس دینہ کی تلاش میں وہ جہلم آئے تھے وہ کب کا مرچکا تھا۔ فلم 'ماچس‘ کا مذکورہ گیت دینہ کی گلیوں، چوکھٹوں، کھیتوں‘ ندی نالوں اور کسی انجان حسینہ کے رومانس کی یاد میں لکھا گیا تھا۔ 

چھوڑ آئے ہیں ہم وہ گلیاں / جہاں تیرے پیروں کے/ کنول کھلا کرتے تھے/ ہنسے تو دو گالوں میں / بھنور پڑا کرتے تھے / تری کمر کے بل پر / ندی مڑا کرتی تھی/ ہنسی تری سن سن کے / فصل پکا کرتی تھی/ جہاں تری ایڑی سے / دھوپ اڑا کرتی تھی/ سنا ہے اس چوکھٹ پر / اب شام رہا کرتی ہے / دل درد کا ٹکڑا ہے / پتھر کی کلی سی ہے / اک اندھا کنواں ہے یا / ایک بند گلی سی ہے / ایک چھوٹا سا لمحہ ہے/ جو ختم نہیں ہوتا/ میں لاکھ جلاتا ہوں / بھسم نہیں ہوتا
اردو زبان کی اصلاح کی تحریکات کا مختصر جائزہ

#حافظ_نعمان_احمد_خان

#قسط_نمبر_3


ناسخ کے دور میں اصلاح زبان کا پس منظر


ایہام گوئی کے نقصانات اپنی جگہ مگر اس رجحان کے باعث الفاظ کے نئے مفاہیم پیدا کرنے اور لفظوں کو اچھی طرح ٹٹولنے کا عمل ضرور پروان چڑھا۔ مزید یہ کہ اس دلچسپ صنعت کے باعث لوگوں میں فارسی کے بالمقابل اردو شاعری کا ذوق فروغ پانے لگا۔ دہلی میں اصلاح زبان کی ہونے والی تمام تحریکیں درحقیقت دکن کے اس اسلوب کے خلاف رد عمل کے طور پر تھیں کہ جو ولیؔ کے ذریعہ دہلی آیا تھا۔
جب دہلی کے حالات دگرگوں ہوئے تو میر، سودا، میر اثر اور میر حسن جیسے نامی گرامی ماہرین فن دہلی کو خیرآباد کہہ کر لکھنؤ چلے آئے۔ یہ شعراء کا وہ گروہ ہے جو مزاجاً دہلی کا تھا اور مجبوراً لکھنؤ میں آباد ہوا۔ یہ تمام مستند شعراء تھے لیکن لکھنؤ میں سرکاری سرپرستی سے ہمیشہ محروم رہے۔ پھر لکھنؤ میں اودھ کی زبان کا لہجہ شامل تھاجبکہ دہلی میں میرٹھی اور مقامی زبانوں کا اثر تھا۔ان تمام باتوں کا اثر یہ ہوا کہ لکھنؤ کے شعراء میں دہلویت کے خلاف ایک تحریک نے جنم لیا اور ناسخ اس تحریک کے مرکزی کردار ٹھہرے۔ اسی طرح اس زمانہ میں ایک نئی طرز سخن ریختی نے بھی راہ پالی تھی۔ ریختی لکھنؤ کے مصنوعی معاشرہ کی مقبول لیکن غزل کی مبتذل صنف سخن تھی کہ جس میں عورتوں کی زبان میں محاورے، اشارے کنائے اور بیشتر جنس کے متعلق فحش اشعار کہے جاتے تھے۔ گو کہ ناسخ خود بھی اس صنف میں مشاق تھے لیکن بعد ازاں آپ ان شعراء میں شامل ہوئے کہ جنہو ں نے اس صنف سے بے اعتنائی اختیار کی۔ ڈاکٹر انور سدید ریختی کے ذیل میں کہتے ہیں:
(اردو ادب کی مختصر تاریخ، مصنفہ ڈاکٹر انور سدید، عزیز بکڈپو، لاہور، طبع پنجم، 2006ء، ص 184)
اصلاح زبان میں ناسخ کا کردار
اس جیسے بیشمار الفاظ ایسے ہیں جو مصحفی، انشاء، میر حسن و دیگر کے وقت میں کسی اور صورت میں رائج تھے۔ مگر ناسخ نے ان کو تبدیل کر ڈالا۔ ناسخ سے قبل شعراء کے کلام میں ضرورت اور وزن کے خیال سے الفاظ کو تبدیل کرنا روا رکھا جاتا رہا مخفف کو مشدد اور مشدد کو مخفف استعمال کیا جاتا رہا۔ لفظ ثقیل اور غیر ثقیل دونوں کا استعمال قائم رہا۔ متروک الفاظ کا استعمال حتی کہ خود متروک قرار دیئے گئے الفاظ تک کو شعراء ضرورت پڑنے پر استعمال کرتے رہے۔ ابواللیث صدیقی کہتے ہیں:
غرض ان اصحاب (ناسخ کے پیش رو۔ ناقل) نے نہ کوئی اصول وضع کئے اور نہ اس کی پابندی کی ان کے برخلاف ناسخ نے فصاحت کے تین معیار متعین کر دیئے۔ تنافر نہ ہو، غرابت نہ ہو، تعقید نہ ہو۔ اس عام اصول کے بعد ناسخ نے یہ لازمی قرار دیا کہ لغات صحت کے ساتھ استعمال کئے جائیں، غیر زبان کے حروف دبنے نہ پائیں۔ ہندی زبان کے حروف دب سکتے ہیں مگر کم، قافیہ کے اصول سارے برتے جائیں، بندش چست ہو، حشو و زوائد کا دخل نہ ہو، ذم اور ابتذال کا پہلو شعر میں نہ نکلے۔
(لکھنؤ کا دبستان شاعری، مصنفہ ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی، اردو اکیڈمی، کراچی، طبع ثانی، 1967ء، ص246)
اردو زبان کی اصلاح کی تحریکات کا مختصر جائزہ


#حافظ_نعمان_احمد_خان

#قسط_نمبر_4

اصلاح زبان میں ناسخ کا کردار


اصلاح زبان کی کوششوں میں ناسخ کو غیر معمولی مقام حاصل ہے اور اپنے اس کارنامہ کے باعث ناسخ کا نام اردو ادب میں ہمیشہ باقی رہے گا۔ لکھنؤ کا دبستان شاعری میں ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نے صاحب جلوہ خضر کے حوالہ سے ایک طویل فہرست ایسے الفاظ کی شائع کی ہے کہ جو ناسخ کی اصلاح کی بدولت آج اردو زبان میں رائج ہے۔ مثلاً:
لفظ وقت سودا۔ میر، تبدیلی وقت ناسخ، پھرے ہے، پھرتا ہے، رنگ جھمکے ہے، رنگ جھلکتا ہے، آگو، آگے، کرے ہے، کرتا ہے، راہ گھیروں، راہ روکوں، کسو، کسی، بدلہ کرنا، بدلہ لینا، ان نے، اس نے، جگ، دنیا، ٹُک، ذرا
اس جیسے بیشمار الفاظ ایسے ہیں جو مصحفی، انشاء، میر حسن و دیگر کے وقت میں کسی اور صورت میں رائج تھے۔ مگر ناسخ نے ان کو تبدیل کر ڈالا۔ ناسخ سے قبل شعراء کے کلام میں ضرورت اور وزن کے خیال سے الفاظ کو تبدیل کرنا روا رکھا جاتا رہا مخفف کو مشدد اور مشدد کو مخفف استعمال کیا جاتا رہا۔ لفظ ثقیل اور غیر ثقیل دونوں کا استعمال قائم رہا۔ متروک الفاظ کا استعمال حتی کہ خود متروک قرار دیئے گئے الفاظ تک کو شعراء ضرورت پڑنے پر استعمال کرتے رہے۔ ابواللیث صدیقی کہتے ہیں:
غرض ان اصحاب (ناسخ کے پیش رو۔ ناقل) نے نہ کوئی اصول وضع کئے اور نہ اس کی پابندی کی ان کے برخلاف ناسخ نے فصاحت کے تین معیار متعین کر دیئے۔ تنافر نہ ہو، غرابت نہ ہو، تعقید نہ ہو۔ اس عام اصول کے بعد ناسخ نے یہ لازمی قرار دیا کہ لغات صحت کے ساتھ استعمال کئے جائیں، غیر زبان کے حروف دبنے نہ پائیں۔ ہندی زبان کے حروف دب سکتے ہیں مگر کم، قافیہ کے اصول سارے برتے جائیں، بندش چست ہو، حشو و زوائد کا دخل نہ ہو، ذم اور ابتذال کا پہلو شعر میں نہ نکلے۔
اصلاح زبان کی کوششوں کے ذیل میں آج ہم ناسخ کی سعی کا درست رنگ میں ادراک حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ اس بارہ میں ناسخ کی کوئی کتاب موجود نہیں اور نہ ہی ناسخ نے حاتم کی طرح کسی دیوان کے دیباچہ یا مقدمہ ہی میں اپنی ان شعوری کوششوں کا ذکر کیا ہے۔ اصلاح زبان کے باب میں ناسخ کے کردار کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ ناسخ آسمان لکھنؤ پر بدر منیر کی سی حیثیت رکھتے تھے کہ جس کے اردگرد باصلاحیت شاگردوں کا جھرمٹ لگا رہتا تھا۔ پس آپ کی اصلاحات کے اثرات نہایت سرعت کے ساتھ رونما ہوئے۔ پھر دہلی کی قدیم روایات کے بالمقابل اہل لکھنؤ اپنی تخلیقی کاوشوں اور فکر و فن کی سرگرمیوں میں کسی صورت دبنے کو تیار نہ تھے۔ چنانچہ ناسخ جیسا زرخیر دماغ سرزمین لکھنؤ کے لیے کسی بھی طرح نعمت سے کم نہ تھا۔ ڈاکٹر انور سدید ناسخ کے ان کارناموں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ناسخ نے اردو کی صرف اور نحو کو درست کیا۔ روزمرہ اور محاورات کی چھان پھٹک کی اور اس کے قاعدے مقرر کئے۔ تمام مستعمل الفاظ کی تذکیر و تأنیث کے اصول تراشے، افعال اور مصادر میں اہم تبدیلیاں کیں۔ عروض و قافیہ کے لحاظ سے وزن اور شعر کی درستگی پر زور دیا۔ ناسخ کے یہ سب اصول حکم اور ضابطہ کی حیثیت رکھتے تھے اور ان سے انحراف کی اجازت نہیں تھی۔ چنانچہ لکھنؤ میں ناسخ کی زبان کسوٹی بن گئی۔ ناسخ نے ریختہ کو اردو زبان کا نام دیا اور محاورہ دہلی کے مقابلہ میں محاورہ لکھنؤ وضع کیا۔ پہلے غزل کو بھی ریختہ کہا جاتا تھا لیکن ناسخ نے صنف غزل کے لیے ریختہ کو متروک قرار دے دیا۔
ناسخ کی اصلاحی تحریک کا ایک اخلاقی پہلو بھی ہے۔ قدما کے ہاں ہجو میں فحش نگاری اور بدزبانی کا رجحان عام تھا اس قبیح روش نے آہستہ آہستہ غزل میں بھی راہ پالی۔ ناسخ نے فحش الفاظ کو غزل میں ممنوع قرار دیا۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ شعراء غزل کے ایک اہم موضوع، عشق سے شعوری انحراف برتنے لگے اور یوں زندگی کے دوسرے موضوعات کو بھی غزل میں راہ مل گئی۔ ناسخ کی ضابطہ پسندی کو بالعموم قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ تاہم غزل کے موضوعات کو وسعت دینے کا اقدام ایسا ہے جس کی تحسین ضروری ہے۔
(اردو ادب کی تحریکیں، ڈاکٹر انور سدید، انجمن ترقی اردو پاکستان، اشاعت ششم،2007ء، ص 214)
بہرحال ناسخ کی اصلاحی سرگرمیوں کی وجہ خواہ کچھ بھی رہی ہو لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس باب میں ناسخ کے کردار کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں تک زبان میں متروکات کے عمل کا تعلق ہے تو جس طرح نشوونما کی ایک خاص سیڑھی پر یہ عمل شروع ہوتا ہے اسی طرح جب زبان پیچیدہ تخلیقی مضامین و مفاہیم کو ادا کرنے کی بھرپور صلاحیت پیدا کر لیتی ہے تو پھر یہ عمل بالآخر رک جانا چاہئے کیونکہ زندہ زبان کو قواعد کے نام پر پابندسلاسل کر دینا کسی صورت بھی انصاف پسندی نہیں کہلا سکتی۔ پس اس مرحلہ پر پہنچ کر الفاظ کو متروک کرنے کا سبب اس کے علاوہ کچھ نہیں رہتا کہ بعض الفاظ عوام کو ثقیل محسوس ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور ادب کے مطالعہ سے دوری زبان میں موجود خوبصورت اور شیریں الفاظ سے اجنبیت پیدا کر دیتی ہے
#بہاریں_لوٹ_آئیں

#عفت_سحر_پاشا

#ناول

قسط نمبر 8


"دم آسان کرنے کے اور بھی طریقے ہیں، امور خانہ داری میں دلچسپی لو، اب تانی کو ہی دیکھ لو جاب تو کرتی ہے ساتھ میں بہت اچھی کوکنگ بھی آتی ہے اسے."

وہ عادتا بولا تو مشی کے اندر بھونچال سا اٹھا.

"ہر بات میں اسکی مثال مت دیا کرو،" وہ اس قدر سختی سے بولی کے اعیان ایک دم چپ ہوگیا.

"میں مشعل ہوں، مشعل سکندر، اور میرے پاپا جو تمہارے سسر بننے والی ہیں وہ ٹاپ کے بزنس میں ہیں. میں تزین رضا ہوں، نہ کبھی بنوں گی".

"میں تمہیں تزین رضا بننے کو نہیں کہ رہا مگر کسی کی اچھی باتیں تو اڈاپٹ کی جا سکتی ہیں نہ"؟

اسکے انداز نے اعیان کو مدا فعانہ انداز اپنانے پر مجبور کر دیا.

"تو تم کیا سمجھتے ہو مجھ میں اچھی باتیں نہیں ہیں". اس نے اعیان کی آنکھوں میں جھانکتے هوئے استہزائیہ انداز میں کہا. اس سے پہلے بھی اعیان نے محسوس کیا

کے وہ تزین سے حسد کرتی ہے یا اسکا ذکر بھی کرنا برداشت نہیں کرتی.

مگر آج کی تلخی تو کچھ اور ہی بیان کر رہی تھی.

"کیا بچوں جیسا رویہ ہے تمہارا، تم تانی کے بارے میں کس انداز میں بات کرتی ہو، کیا تمہارا اس سے کوئی رشتہ نہیں"؟

اعیان نے سرزنش والی انداز میں کہا تو وہ ناگواری سے بولی.

"وہ صرف تمہاری کزن ہے اور بس....."

"میرے رشتے تمہارے لئے بھی قابل احترم ہونے چاہییں". وہ بہت دکھ سے بولا.

"بس کرو اعیان حد ہوتی ہے کسی بات کی وہ کون سا میری اصل نند ہے جو تم اتنے ٹچی ہو رہے ہو. مشعل کو غصّہ آنے لگا.

"وہ میری کزن ہے اور بہت بہترین دوست بھی، زندگی میں اس نے مجھے ہمیشہ ٹھیک وقت پر اچھا مشورہ دیا ہے اور اسکی میری

زندگی میں بہت اہمیت ہے اور یہ بات میں تمہیں بھی بتا رہا ہوں". اعیان نے اٹل لہجے میں کہا. پہلے تو وہ تیز نگاہوں سے اسکو گھورتی

رہی اور پھر چبھتے هوئے لہجے میں بولا.

"واہ! یہ اچھی شرم و حیا ہے، منگیتر سے بات کرنے میں شرم آڑے آجاتی ہے، اور تم....... تم کیا اسکے محرم نہیں ہو"؟

اعیان کو اسکے بچگانہ پن پر غصّہ تو بہت آیا مگر اس وقت غصّہ کرنے کا مطلب تھا بات کو بڑھانا اور اس وقت وہ یہ نہیں چاہتا تھا.

"اور اگر وہ عبید سے بات کرنے میں شرم محسوس کرتی ہے تو انکے درمیان رشتہ ہی ایسا ہے. میں نے کبھی اس سے رومانٹک باتیں کرنے

کی کوشش نہیں کی. اگر وہ بھی نہ کرے تو دیکھو وہ کیسے اس سے بات نہیں کرتی. رشتوں کا احترم انکی قدر بڑھاتا ہے مشی". وہ بہت تحمل

سے بول تو مشی کو بھی اپنا لہجہ دھیما کرنا پڑا.

"ہر بار لڑائی ہر بار تلخی، ابھی کتنے دن هوئے ہیں ہماری منگنی کو اور ہم نے ابھی سے میں بیوی کی طرح لڑنا شروع کر دیا ہے." وہ خفگی سے

بولی تو اعیان بھی .مسکرا دیا.

"ابھی سے سارے جھگڑے کر لئے تو بعد میں کیا کریں گے"؟

"پیار، محبت اور بس". وہ شوخی سے بولی تو وہ سر پر ہاتھ پھیر کر رہ گیا.

...........................................

"آج تم ڈنر میرے ساتھ کر رہی ہو". اس نے دھونس بھرے لہجے میںکہا تو وہ زچ ہوگئی.

"آپ بات کو سمجھتے کیوں نہیں، یہ سب مجھے پسند نہیں ہے".

"آج بتا ہی دو پھر، تمہیں کون پسند ہے"؟ اس نے اتنی سنجیدگی سے کہا کہ تزین کا دماغ ہل کر رہ گیا.

"کیا مطلب ہے آپکا"؟

"مطلب صاف ظاہر ہے، میں تمہارا منگیتر ہوں اور تمہیں مجھ سے بات کرنا مجھ سے ملنا پسند نہیں اور اگر بات کر بھی لو تو مارے باندھے کرتی ہو.

فون بند کرنے کے بہانے ڈھونڈھتی ہو تو میں اسکا اور کیا مطلب لوں"؟. وہ تلخی سے بولا.
#بہاریں_لوٹ_آئیں

#عفت_سحر_پاشا

#ناول

قسط نمبر 9


" بہت خوب".،،،، وہ تلخی سے بولی. " اور اسکا مطلب آپ نے یہ لے لیا کہ میں کسی اور کو پسند کرتی ہوں".

"ہر زی شعور انسان یہی مطلب لے گے". وہ طنز سے بولا.

" مائنڈ یو، مجھے اگر کوئی اور پسند ہوتا تو میں آپ سے رشتہ ہی نہ کرواتی اور میں کوممتٹمنٹ نبھانے والی لڑکی ہوں. لیکن جس بات کو میرا ذھن

قبول نہیں کرتا اسکو کوئی مجھے کرنے ک لئے مجبور نہیں کر سکتا". وہ ٹھرے هوئے انداز میں بولی.

"تو پھر یہ کیا ڈرامے بازی لگا رکھی ہے تم نے، کیا تم سے دو گہری بات کرنے کا حق بھی نہیں رکھتا". وہ ناراضی سے بولا.

اسکا مطلب آپ یہ بھی تو لگا سکتے ہیں کہ میں یہ سب شادی کے بعد چاہتی ہوں. تزین برجستہ بولی.

"شادی کے بعد اور بہت سلسلے ہیں جان، باتوں کا ٹائم کس کو ملے گا"؟ اسنے جس انداز میں بات کی تزین کو تو لگ آگ گی.

اور یہی بےباکی تزین کو پسند نہیں ہے.

"شادی سے بعد جو باتیں رومانس ہوتی ہیں شادی سے پہلے وہ گھٹیا لگتی ہیں، اورکیا آپکو نہیں لگتا نکاح کا بندھن تعلق کو کتنا پاکیزہ بنا دیتا ہے".

"کیا"؟ دوسری طرف عبید کو جھٹکا لگا،" میں تم سے گھٹیا باتیں کرتا ہوں"؟

"میں نے یہ نہیں"......

"شٹ اپ".... وہ دھاڑ کر بولا.

"دیکھیں میں ایک عام سی بات کر رہی تھی اپنی اور آپکی نہیں".. تزین نے تیزی سے کہا تو وہ غصّے سے بولے.

"میں تمہارے سارے مطلب سمجھ چکا ہوں".

"بات کو ٹھنڈے دل سے سوچیں گے تو میری بات حق پر لگے گی." تزین نے اسی نرمی سے کہا جو اسکی شخصیت کا خاصا تھی مگر

عبید نے بات دل پر لگا لی.

"یہ اکیسویں صدی ہے بی بی، تم جیسے لوگ تو موھنجوڈرو اور ہڑپا میں پاتے گے". وہ جل کر تلخی سے بولا.

" اپنے کزن سے پوچھو جو مشی کے ساتھ سارا دن اڑتا پھرتا ہے، اسکو تم اخلاقیات نہیں سکھاتی"؟

"وہ انکا معاملہ ہے، دونوں جیسے چاھتے ہیں اپنے رشتے کو اسی طرح نبھاتے ہیں". تزین نے اعیان اور مشعل کے بارے میں بات کرنے

سے گریز کیا.

"بہرحال آج میں تمہارے ساتھ لنچ کرنا چاہتا ہوں اور بس". اس نے اٹل لہجے میں کہا تھا.

"ٹھیک ہے رات آٹھ بجے میرے گھر آجانا کھانا کھائیں گے". چند لمحوں کے توقف کے بعد وہ بولی تو عبید دانت پیس کر رہ گیا.

"میں تمہارے گھر والوں کے ساتھ نہیں تمہارے ساتھ ڈنر ہوں".

"اور میں آپکے ساتھ اپنے گھر والوں کی موجودگی میں ڈنر کرنا چاہتی ہوں".

"تم اچھا نہیں کر رہیں تزین، نہ اپنے ساتھ اور نہ ہی میرے ساتھ". اس نے دھمکی والے انداز میں کہا.

"میں ابھی اپنے والدین کے گھر ہوں اور یہان کا یہی اصول ہے".

"تم میری منگیتر ہو". اس نے جیسے اسکو یاد کروایا.

"منگیتر ہوں بیوی نہیں،" اس نے بھی تیز لہجے میں کہا تو عبید نے مزید کوئی بات سنے کہے بغیر فون کاٹ دیا.

یہ عبید کی آخری فون کال تھی.

.....................................................................

وہ کافی دیر سے مشل کی والدہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا مگر مشل صاحبہ دن کے ساڑھے گیارہ بجے بھی نہیں اٹھی تھیں. اسکی والدہ نے

تو اسکو کھلے دل اور سوچ کے ساتھ اجازت دی تھی کہ وہ اسکو جاکر جگا سکتا ہے، مگر اعیان کی تربیت اس انداز سے نہیں ہوئی تھی.

وہ جانتا تھا کہ مشل اور اسکی تربیت اور بہت الگ انداز سے ہوئی ہے. لیکن اسکو مشعل پہلی نظر میں اچھی لگی تھی تو اس نے منگنی کروانے

میں ایک منٹ کی دیر نہیں لگائی لیکن اب تین مہینے ہو چکے تھے مگر وہ ابھی تک اسکے طور طریقے نہ اپنا سکا تھا.

آج ملازمہ چوتھی پر تھی اس لئے مشعل کی امی کو خود جا کر اسکے لئے کولڈ ڈرنک کا گلاس لانا پڑا. اور اب وہ پچھلے پندرہ منٹ سے

ملازموں کی ہڈ حرامی اور احسان فراموشی کے قصّے سنا رہیں تھیں.

" انکو جتنا بھی دے دو اتنا کم ہے، اب دیکھو صبح مشعل کے ابو ناشتہ کر کے گئے ہیں سارے برتن دھونے والے ہیں اور فاطمه سے چھٹی کر لی.

جب تک ہڈی ڈالتے رہو ٹھیک ہے سب کچھ اپنا حق سمجھ کر وصول کرتے ہیں اور پھر بھی کرنی اپنی مرضی ہے. اب مزے سے اپنے گھر بیٹھی ہوگی.

دوپہر کی ہانڈی اب کون چڑھاتے گا". وہ مسلسل اپنی کام والی کو کوس رہیں تھیں.

"کیا"؟ اعیان کو جیسے سننے میں غلطی ہوئی اسکو جھٹکا سا لگا.

"کیا کھانا بھی ووہی پکاتی ہے"؟

"ہاں! ووہی پکاتی ہے، پہلے خانساما رکھا ہوا تھا. وہ بھی ایسے حیلے بہانے کرتا تھا تو بھاگ گیا اب دو ہفتے سے اسی سے کام چلا رہے ہیں.

یہ سب سن کر اعیان کی طبیعت عجیب سی ہونے لگی.

اسکی امی بھاری وجود کی تھیں اور جوڑوں کے درد کی وجہ سے کوئی کام نہیں کر سکتی تھیں. کپڑے دھونے اور صفائی کے لئے انہوں نے بھی کام

والی رکھی ہوئی تھی مگر کچن کی ذمہ داری کبھی ملازم کو نہیں دی تھی. اور پچھلے سال سے ذمہ داری نعیمہ کی تھی جس نے ابھی بی اے کے پپیرز

دے تھے.
#بہاریں_لوٹ_آئیں

#عفت_سحر_پاشا

#ناول

قسط نمبر 10


بقول میری امی کے،

جو عورت خود ہانڈی نہیں بنا سکتی وہ کیا عورت ہوئی"؟

"تو آنٹی آپ خود کھانا بنایا کریں، گھر کی عورت کے ہاتھ کے بنے کھانے کی تو خوشبو ہی الگ ہوتی ہے". اس سے رہا نہ گیا.

"نہیں! ان جھنجھٹوں میں پڑے اور ہر وقت پیاز لہسن بنا رہے". وہ اکتا کر بولیں. انکو ہر وقت خوشبوں میں بسا رہنے کی عادت تھی.

اعیان نے گہری سانس بھری،' اعیان تیرا پتا نہیں کیا ہوا"؟ ساس کے خیالات ایسے ہیں تو بیوی کے کیسے ہوں گے؟

"خیر مالی کی بیوی کو میں نے بلویۂ ہے، برتن وہ دھو دے گی اور لنچ اور ڈنر ہوٹل سے ہو جاتے گا". وہ مسلے کا حل بتا رہیں تھیں.

اسی وقت مشعل چلی آئی.

"تم صبح صبح...." وہ حیران ہوکر بولی.

"محترمہ! باہر دن چڑھا ہوا ہے، اور آپکی صبح ہی شروع نہیں ہو رہی. اعیان نے طنز کیا تو وہ ہنستے هوئے اسکے ساتھ ہی صوفے میں دھنس گئی.

اعیان نے ایک نظر اسکی امی کو دیکھا جو لاتعلق سی چنیل سرچنگ میں مصروف تھیں. اعیان نے کندھے اچکا کر مشعل کو دیکھا.

"ڈرائنگ روم میں چلتے ہیں تمہیں وہ پینٹنگ دکھانی ہے جو ڈیڈ نے بہت مہنگے داموں خریدی ہے". مشعل اٹھ کر کھڑی ہوگئی تو اعیان کو بھی

مجبورا اسکی تقلید کرنا پڑی.

"ماما! چاۓ تو بھجوا دیں" تو وہ تلخی سے بولیں.

"فاطمه نہیں آئی آج".

"نہیں! پھر چھٹی کر لی اس نے فارغ کریں اسکو، ذلیل عورت." وہ ایک دم غصّے میں آگئی. پھر چلتے چلتے اعیان کو بتانے لگی.

"انکو ہڈی ڈالتے رہو تو بھی یہی سب کرتے ہیں". اعیان نے سنجیدگی سے پوچھا.

"ہڈی ڈالنے سے تمہارا کیا مطلب ہے"؟

"اپنے نئے کپڑے جوتے دے دینا وغیرہ وغیرہ، ثواب کا ثواب اور کم بھی ہو جاتا ہے". وہ آرام سے بولی تھی.

"ہنہہ! ثواب......" اعیان نے تاسف سے سر ہلایا.

"ہڈی ڈالنے کو تم ثواب سے یہ ثواب کو ہڈی ڈالنے سے تشبیہ دے رہی ہو"؟

وہ تلخی سے بول تو مشعل ٹھٹکی.

"کیا مطلب"؟

"دے دلا کر "ہڈی ڈالنا" کہ کر کون سا ثواب کما لیا تم نے"؟ وہ تمسخرانہ انداز میں بولا تو وہ سر جھٹک گئی.

"تو نہ سہی"

"بات کرتے وقت دھیان رکھا کرو، انسان اور جانور میں فرق ہوتا ہے".

"تم کیا صبح صبح مجھے لیکچر دینے لگ گئے ہو". اس نے تیز لہجے میں کہا تو وہ بھی خفگی بھرے لہجے میں بولا.

"تم ہی نے موڈ خراب کیا ہے ورنہ میں تو گڈ نیوز لے کر آیا تھا".

"اچھا تو وہ "گڈ نیوز" کیا ہے"؟ مشعل شوخی سے بولی تو اسو بھی مجبورا اپنا موڈ بدلنا پڑا.

اسی دوران وہ دونوں پینٹنگ کے سامنے کھڑے تھے.

اعیان نے ستائشی نظروں سے پینٹنگ کو دیکھا.

"بہت خوبصورت".....

"کون"؟ مشعل اٹھلا کر بولی تو وہ مسکرا دیا.

"پینٹنگ"

بدذوق ..... مشعل نے ناک چڑھائی.

"خوشخبری نہیں پوچھو گی"؟ اعیان نے یاد دلایا.

"بتا بھی دو اب".

"میری پوسٹنگ آرڈرز آگئے ہیں". وہ سسپنس بھرے انداز بولا تو مشعل نے طنز کیا.

Https://t.me/gulshaneadab

Https://t.me/buttgeem
#بہاریں_لوٹ_آئیں

#عفت_سحر_پاشا

#ناول

قسط نمبر 11


"کہاں.....چیچو کی ملیاں"؟

"بے وقوف کنٹری سائیڈ". وہ مسکرا کر کہنے لگا تو وہ چلا دی.

"ما ئی گڈ نیس وہ چلا کر بولی اور فرط جذبات لپٹ گئی.

"اوه ائی لوو یو اعیان". وہ اسکے سینے سے سر لگاتے کھڑی تھی اور اعیان اس قدر بے باکی پر متحیر سا کھڑا رہا.

"مجھے پتا تھا تمہاری پوسٹنگ بہت اچھی جگہ ہوگی اور سی ایس ایس پاسس کرنا کوئی بچوں کا کھیل تو نہیں ہے". وہ سر اٹھا کر اسکو

دیکھنے لگی تو وہ الجھن بھری نظروں سے اسکو دیکھ رہا تھا.

""کیا ہوا" وہ شرارت سے پوچھنے لگا. تو اس نے اسکو خود سے ہٹانے کی کوشش کی.

"یہ ٹھیک نہیں ہے".

"ایک تو تم نہ"... وہ بے زر سی بولی. " تم تو اچھے سے خوش بھی ہونے نہیں دیتے".

"اور بھی بہت اچھے طریقے ہوتے ہیں خوش ہونے کے جاؤ ذرا حسیں ہاتھوں سے اچھی سی چاۓ بنا کر لاؤ، دیکھو میں کتنا خوش ہوں گا."

اعیان اسکو شانوں سے تھام کر دوکرتے ہوے کہ رہا تھا تو وہ جیسے مذاق اڑانے لگی.

"ووہی مڈل کلاس مردوں والی سوچ، پتا نہیں تم لوگ عورت کو کچن میں کام کرتا دیکھ کر ہی خوش کیوں ہوتے ہو"؟

اسکی بات اعیان کو اچھی نہیں لگی تھی.

"ہمارے ہاں عورت اپنے مرد کے لئے کچن میں کام کر کے خوش ہوتی ہے اور یہ بات تم بھی سمجھ لو".

"لیکن میں تو ان میں سے نہیں ہوں" وہ آرام سے بولی.

"ان میں رچنے بسنے تو جا رہی ہوں نا"؟ اس نے ان باور کروانے کی کوشش کی تو اسکی آنکھیں چمکیں.

"کبھی نہیں! اور ویسے بھی تمہاری پوسٹنگ تو کنٹری سائیڈ ہو رہی ہے تو ہم کبھی اس ملک کبھی اس ملک تو بس کھانا پینا اور مزے کریں گے".

"یہ کھانا پینا آتے گا کہاں سے"؟

"ہوٹل سے اور کہاں سے" اسکی توقع کے مطابق اس نے اپنی ماں والا ہی جواب

دیا."مگر میں یہ پسند کروں گا کہ میری بیوی اپنے ہاتھ سے میرے لیے کھانا بناتے." اعیان نے نرمی سے کہا تو وہ جواباً ہٹ دھرمی سے بولی.

"مگر میں چاہوں گی کہ میرا شوہر مجھ پر ایسی پابندیاں نہ لگاتے." میں اپنے والدین کی لاڈلی ہوں تو اپنے شوہر کی بھی لاڈلی ہوں گی".

"یہ کیا بات ہوئی تمہیں مجھ سے اتنا پیار بھی نہیں ہے". اعیان کو اپنے گھر کا ماحول یاد آیا تو اس نے پیار سے مشعل کو سمجھنے کی کوشش کی.

"ہے نہ! بہت پیار ہے، کہو تو ابھی عملی مظاہرہ کر کے دکھاؤں"؟ وہ شوخی سے بولتی ہوئی نزدیک ہوئی.

اعیان نے اسکو پیچھے دھکیلا تو وہ اسکا سرخ چہرہ دیکھ کر بھی ڈھٹائی سے ہنسی.

"تم تو لڑکیوں کو بھی مات کرتے ہو".

"مگر تم میں لڑکیوں والی کوئی بات نہیں ہے". وہ غصّے سے بولا.

"لڑکے تو بہانے ڈھونڈھتے ہیں ےسے اور تم....."

"شٹ اپ مشی". وہ غصّے سے بولا.

اس آزادی کا مظاہرہ اس نے آج دیکھا تھا، اور اسکو حقیقت میں بہت دکھ ہو رہا تھا. اور اسکو تزین کا خود کو سینت سینت کر رکھنا یاد آرہا تھا.

"کیا مسلۂ ہے اعیان جب بھی میں اچھے موڈ میں ہوتی ہوں تم جھگڑا شروع کر دیتے ہو،" مشعل کو بھی غصّہ آنے لگا. اسکا خیال تھا اسکے اس

عمل کے بعد اعیان مزید کوئی پیش قدمی کرے گا مگر اس نے جس طرح اسکی طبیعت صاف کی تھی اس نے مشعل کو غصّہ دلایا.

"اپنا یہ اچھا موڈ شادی کے بعد دکھانا". وہ تزن کر کے بولا.

"بلکل وہی باتیں وہی انداز". وہ طنز کر کے بولی.

"لگتا ہے تزین کی صحبت میں زیادہ رہنے لگ گئے ہو تم"


Https://t.me/gulshaneadab

Https://t.me/buttgeem
#بہاریں_لوٹ_آئیں

#عفت_سحر_پاشا

#ناول

قسط نمبر 12


"تزین کا ذکر یہاں سے کہاں سے آگیا". وہ ناگواری سے دیکھتے ہوے بولا.

وہ کس قدر حسین تھی مگر اسکی بے باکی نے اعیان کی طبیعت مکدر کر دی تھی.

"ہاہ ذکر"... مشعل نے مصنوئی حیرت سے قہقہہ لگایا.

"ذکر کیا؟....... تزین پوری کی پوری ماجود ہے ہم دونوں کے درمیان".

اعیان کو اسکے لہجے کی تلخی بہت بری طرح چبھی.

"یہ تمہارا دماغی خلل ہے اور بس....."

"اچھا..... مشعل نے تمسخرانہ انداز میں کہا، اچھا کہو کے تم اپنی پوسٹینگ کی خبر سب سے پہلے مجھے بتانے آتے ہو؟ اسکا انداز چلنجنگ تھا.

وہ ٹھٹھکا واقع اس نے یہ خبر سب سے پہلے تزین کو سنائی تھی.

"تمہارا دماغ خراب ہے مشی اور کچھ نہیں". اعیان بولا.

"ہاں! میرا دماغ خراب ہے اور تزین کی نیت". وہ دھاڑ کر بولی.

"کیا مطلب ہے تمہارا......" وہ بھی غرا کر بولا.

"ٹھیک کہ رہی ہوں، مکمل قابو میں کر رکھا ہے اس نے تمہیں، ٹیب ہی تو میرا ہونے سے ڈرتے ہو. آپا بنی ہوئی ہے تمہاری مگر اندر کوئی اور ہی

چکر ہے".

اتنی پڑھی لکھی اور ماڈرن لڑکی کی اس قدر گھٹیا گفتگو نے اعیان کو جھلسا کر رکھ دیا. اسکو یہ تو پتا تھا یہ وہ تزین سے جلتی ہے مگر اسکے

لئے اتنا برا سوچتی ہے اسکا اندازہ نہیں تھا.

"بکواس بند کرو مشعل". اسکا خون کھول اٹھا.

"بکواس نہیں حقیقت ہے، وہ عبید کو لفٹ نہیں دیتی اور تم مجھے". وہ زہر خند ہو رہی تھی.

" تم سٹوپڈ ! وہ اگی بڑھا اور اسکے منہ پر تھپڑ لگا دیا مشعل اس ک لئے تیار نہ تھی. ہر بار لڑائی ہر بار صلح.

مگر اس بار شاید کچھ زیادہ ہی ہوگیا.

"میں دوبارہ تمہاری شکل بی دیکھنا نہیں چاہوں گا".

وہ آگ برستے لہجے میں ٹھوکریں مارتا چلا گیا، اور مشعل وہیں کھڑی چلاتی رہی.

یہ واحد بات تھی جو اس نے تزین کو نہیں بتائی تھی.

وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مشعل اس حد تک جاتے گی، اور شاید ٹیب ا اس نے تزین کا رشتہ عبید سے کروایا تھا.

اور اگر عبید اور اسکا رشتہ نہ بھی ہوتا تو تزین میں بہت ساری خوبیاں ہونے کے باوجود اس نے تزین سے کبھی شادی کا نہیں سوچا تھا.

وہ اس سے ڈیڑھ سال بڑی تھی.

امی نے بات کی تو تھی اعیان سے تزین کے متعلق وہ ہاں کر بھی دیتا اگر اسکی مشعل سے کمٹمنٹ نہ ہوتی.

مگر مشعل....

اسے سوچ کر ہی کراہیت ہو رہی تھی،کس قدر گھٹیا ذھن اور سوچ کی مالک.

اور ویسا من صرف شکل پر رہ گیا. امی نے خود مجھے تزین کا پوچھا تھا اور میں.... اسے خود پر افسوس ہوا کہ اس نے ہیرے کو چھوڑ

کر جلتے کوئلے کو حتہ میں لے لیا..... اسکی سوچ نے پلٹا کھایا.

.......................................................................

میں بات کروں عبید سے؟

وہ اس سے پوچھ رہا تھا.

"تم کیا بات کرو گے"؟ تزین نے سنجیدگی سے پوچھا.

"یہی کہ وہ تمہیں تنگ کرنا بند کرے اور ہمارے گھرانوں میں یوں آزادانہ ملنا جلنا پسند نہیں کیا جاتا".

اعیان نے کہا تو وہ مسکرائی.


Https://t.me/gulshaneadab

Https://t.me/buttgeem
#بہاریں_لوٹ_آئیں

#عفت_سحر_پاشا

#ناول

قسط نمبر 13


"وہ مجھے تمہاری اور مشعل کی مثالیں دیتا ہے، تم اسے کیا سمجھاؤ گے"؟

"کیوں! وہ ہماری مثال کیوں دیتا ہے"؟ اعیان کو غصّہ آیا.

"بس بات ختم کرو، پتا نہیں مجھے ہر بات تم سے شیۂیر کرنے کی بیماری کیوں ہے"؟ تزین جیسے پچھتائی تھی.

"میں اس نے نہ صرف بات کروں گا میں ملوں گا بھی". اعیان نے اٹل لہجے میں کہا تو وہ جو عبید کے تیور جانتی تھی ایک دم بولی.

"نہیں! تم کچھ نہیں کہو گے، وہ فی الحال خاموش ہے اتنا ہی بہتر ہے میرے لیے."

"تو کل وہ کوئی اور فرمائش لے کر آجاے گا تو".

"تب کی تب دیکھی جاتے گی".

"ماموں جان نے اسے اتنی کھلی چھوٹ کیوں دے رکھی ہے"؟ وہ بے چین ہوکر بولا.

اسے مشعل کے بےباق انداز یاد آے.

عبید تو پھر ایک مرد تھا اسکی آزادی کی کیا حد ہوگی.

"انکے خیال میں اتنا اچھا رشتہ ہاتھ سے نکلنا نہیں چاہیے.

"ہزاروں اچھی رشتے پڑے ہیں دنیا میں انکو یہی ملا ہے". وہ بولا تو تزین مسکراتی نظروں سے اسکو دیکھنے لگی.

"ان ہزاروں میں پہلا کون ہے"؟ اس نے مذاق سے بولا تو بے اختیار بول پڑا.

"میں......"

تزین کی نگاہ سکت رہ گئی.

"وہ مذک میں بھی ایسی بات نہیں کہ سکتا تھا.

"شٹ اپ....."

"اوکے ..... میں شٹ اپ ہو جاتا ہوں". وہ تابیداری سے بولا.

"اور تم عبید سے بھی نی ملو گے، میں ابو سے کہنے کی کوشش کروں گی خام خواہ رشتہ خراب ہو رہا ہے".

تزین نے کہا تو اس نے سر ہلا دیا.

مگر اسی شام وہ عبید کے آفس میں تھا.

"کہیے جناب! آپکو ہم سے کیا کام پڑ گیا". وہ جانچتی نظروں سے اعیان کو دیکھتے ہوے بولا.

"تزین سے رشتہ داری کے حوالے سے اسکو جس خیر سگالی سے ملنا چاہیے تھا اسکا بہت فقدان تھا،

"میں تزین کے بارے میں بات کرنے آیا ہوں". وہ دوستانہ مسکراہٹ ہونٹوں پر سجاتے هوئے کہا.

وہ بڑے ٹیبل پر آگے کو جھکا.

"کیا مطلب ہے تمہارا"؟

اعیان کھنکارا

"میں آپکو صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تزین اس ٹائپ کی لڑکی نہیں ہے جیسا آپ اسکو سمجھ رہے ہیں".

اس نے اپنی طرف سے بہت سلیقے سے بات کی مگر سامنے والا بھرا بیٹھا ہے اسکا علم اسکے فرشتوں کو بھی نہیں تھا.

"میں بہت اچھی طرح سمجھ گیا ہوں، اسکی اور تمہاری ٹائپ بھی." وہ زور سے بولا تو اعیان بھی الرٹ ہوگیا.

"اسکے حیلے بہانے تو میں کئی دن سے سن رہا ہوں، آج تم نہ اتے تو میں سمجھتا کہ مشی جھوٹ بول رہی ہے، لیکن تمہارے یہاں آجانے

سے یہ تو پتا چل گیا کہ تمہارے ہوتے هوئے اسکو کسی منگیتر کی ضرورت نہیں ہے".

"یہ کیا بکواس ہے"؟

اعیان کا خون اسکی کنپٹیوں کو توکریں مارنے لگا.

"اچھا گیم کھل رہے ہو تم دونونوں، دولت کے لئے منگنی کروائی ہے اور عشق و عاشقی کے لئے تم دونو ایک دوسرے کے لیے واہ...."

مشعل جانے کس طرح اسکے کان بھرتی رہی ہے.

"شٹ اپ...."

اعیان بے قابو ہونے لگا.

"یو شٹ اپ..... عبید پھنکارا اور اسکو کمرے سے باہر نکل جانے کو کہا تو اعیان پھنکارا

"پچھتاؤ گے تم ایک دن یہ بات یاد رکھنا".

عبید نے ایک بار ہر دروازے کی طرف اشارہ کیا.

وہ آفس سے باہر نکلا تو لٹا پٹا سا تھا.


Https://t.me/gulshaneadab

Https://t.me/buttgeem
🌹🌹فہرست نمبر (ایک)🌹🌹

🌴 تمام فہرستیں لکھاریوں کے ناموں کے حساب سے ہوں گی۔۔۔ یعنی جس جس لکھاری کی کتابیں یہاں ہوں گی ان کے مصنفین کے ناموں سے آپ با آسانی تلاش کر سکتے ہیں۔۔۔🌴


✍️✍️ 1: ڈاکٹر عبادت بریلوی

✍️✍️ 2: شمس الرحمن فاروقی

✍️✍️ 3: مالک رام (غالب شناس)

✍️✍️ 4: مولانا الطاف حسین حالی

✍️✍️ 5: ڈاکٹر فرمان فتح پوری

✍️✍️ 6: نیاز فتح پوری

✍️✍️ 7: ڈاکٹر وزیر آغا

✍️✍️ 8: امرتا پریتم

✍️✍️ 9: رضا علی عابدی

✍️✍️ 10: انیس ناگی

✍️✍️ 11: مشرف عالم ذوقی

✍️✍️ 12: بانو قدسیہ

✍️✍️ 13: امجد جاوید

✍️✍️ 14: امجد بیگ

✍️✍️ 15: ڈاکٹر یونس بٹ (مزاح نگار)

✍️✍️ 16: احمد ندیم قاسمی

✍️✍️ 17: اشتیاق احمد

✍️✍️ 18: ابن انشاء (شاعر و مزاح نگار)

✍️✍️ 19: گلِ نو خیز اختر

✍️✍️ 20: طاہر جاوید مغل


رابطہ برائے ایڈمن:

@Mudassarbutt
Forwarded from ~ Mirza Asad Ullah Khan (Galib) (🌿محمد مدثر بٹ🌿)
🥀🥀🌷دیوان غالب🌷🥀🥀



🌷🌷غزل🌷🌷


41 سے 60 تک

✍️✍️ 41 بہارِ رنگِ خونِ دل ہے ساماں اشک باری کا

✍️✍️ 42 عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا

✍️✍️ 43 بس کہ فعّالِ ما یرید ہے آج

✍️✍️ 44 پھر ہوا وقت کہ ہو بال کُشا موجِ شراب

✍️✍️ 45 آمدِ خط سے ہوا ہے سرد جو بازارِ دوست

✍️✍️ 46 گلشن میں بند وبست بہ رنگِ دگر ہے آج

✍️✍️ 47 نفس نہ انجمنِ آرزو سے باہر کھینچ

✍️✍️ 48 حسن غمزے کی کشاش سے چھٹا میرے بعد

✍️✍️ 49 بلا سے ہیں جو یہ پیشِ نظر در و دیوار

✍️✍️ 50 گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر

✍️✍️ 51 کیوں جل گیا نہ، تابِ رخِ یار دیکھ کر

✍️✍️ 52 لرزتا ہے مرا دل زحمتِ مہرِ درخشاں پر

✍️✍️ 53 ہے بس کہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور

✍️✍️ 54 فسونِ یک دلی ہے لذّتِ بیداد دشمن پر

✍️✍️ 55 لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور

✍️✍️ 56 حریفِ مطلبِ مشکل نہیں فسونِ نیاز

✍️✍️ 57 بے گانۂ وفا ہے ہوائے چمن ہنوز

✍️✍️ 58 نہ گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز

✍️✍️ 59 کب فقیروں کو رسائی بُتِ مے خوار کے پاس

✍️✍️ 60 رُخِ نگار سے ہے سوزِ جاودانیِ شمع


Https://t.me/MirzaGalibPoetry

Https://t.me/buttgeem
🌹🌹فہرست نمبر (دو)🌹🌹

🌴 تمام فہرستیں لکھاریوں کے ناموں کے حساب سے ہوں گی۔۔۔ یعنی جس جس لکھاری کی کتابیں یہاں ہوں گی ان کے مصنفین کے ناموں سے آپ با آسانی تلاش کر سکتے ہیں۔۔۔🌴


✍️✍️ 21: مستنصر حسین تارڑ

✍️✍️ 22: علی سفیان آفاقی

✍️✍️ 23: اکرم الہ آبادی

✍️✍️ 24: اقبال کاظمی

✍️✍️ 25: شعراء کے کلیات

✍️✍️ 26: شوکت تھانوی

✍️✍️ 27: شمیم نوید

✍️✍️ 28: سید ضمیر جعفری

✍️✍️ 29: انتظار حسین

✍️✍️ 30: کرشن چندر

✍️✍️ 31: بابا محمد یحیی خان

✍️✍️ 32: عمیرہ احمد

✍️✍️ 33: انوار علیگی

✍️✍️ 34: شمس الرحمن فاروقی (حصہ دوم)

✍️✍️ 35: ملک صفدر حیات

✍️✍️ 36: کاشف زبیر

✍️✍️ 37: مولانا عبدالکلام آزاد

✍️✍️ 38: قاسم علی شاہ

✍️✍️ 39: ممتاز مفتی

✍️✍️ 40: شمارہ فکر و تحقیق (منتخب مضامین)


رابطہ برائے ایڈمن:

@Mudassarbutt
#بہاریں_لوٹ_آئیں

#عفت_سحر_پاشا

#ناول

قسط نمبر 14


ان دنوں سری دنیا اس سے ناراض تھی دونوں منگنیاں ختم ہونے کا ذمہ دار اسکو سمجھ رہے تھے سب.

اس نے نظروں دلیلیں دیں مگر کوئی اسکی بات سننے کو تیار نہیں تھا.

اور ابو جی.

وہ تو جو کرتے وہ کم تھا. وہ تو پہلے ہی مشعل کے گھرانے کو پسند نہیں کرتے تھے، دل سے تو وہ شاید منگنی ختم ہونے پر خوش ہی ہوں

مگر تزین کے معاملے میں وہ اسکو ہ خطاکار سمجھ رہے تھے.

ماموں جان نے اسکی گھر آنے پر پابندی لگا دی تھی، اور تزین اسکا فون اٹینڈ نہیں کر رہی تھی.

امی بار بار روتیں.

میرا تو میکا ہی ختم ہوگیا، ایک ہی بھی تھا میرا اسکے گھر کا دروازہ بھی بند ہو رہا ہے مجھ پر.

"میری لاڈلی بھتیجی اس نے اپنی بیوقوفی سے اس پر بھی داغ لگیا دیا". اعیان کو انکے الفاظ پر تھا تو اعترض مگر اس وقت وہ یہ

سب باتیں سن لینے کے علاوہ کوئی چارا نہیں تھا.

"ابو نے امی کو تسلی دی ہے کہ وہ بھائی جان کو منا لیں گے". نعیمہ نے اسکو رازداری سے بتایا تو وہ متجسس ہوا.

"وہ کیسے"؟

"آپکی اور تزین آپا کی شادی کر کے".

وہ بے نیازی سے بولی تو اعیان کو لگا چھت اسکے سر پر آگری ہو.

"دماغ تو ٹھیک ہے تمہارا. یوں ہی بکواس کے جا رہی ہو". وہ یوں اچھلا جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو. نعیمہ نے منہ بنایا.

"میں نے خود سنا ہے، امی ماموں جی کی وجہ سے بہت پریشان ہیں، کیوں کہ ماموں جان ساری بات کا ذمہ دار قرار دے کر امی

سے ناراض ہو چکی ہیں. سو ابو نے انکو منانے کے لئے حل دیا ہے." آخر میں وہ بہت زور دے کر .بولی تھی.

"میں بھی اس رشتے سے سختی سے انکار کرتا ہوں". وہ یوں دانت پیس کر بولا جیسے تزین رضا سے کوئی پرانی دشمنی ہو.

نعیمہ تو حیرت کے مارے مرنے والی ہوگئی.

"میں نے تو سوچا تھا آپ خوشی کے مارے اچھل پڑیں گے". اس بات پر وہ اور بھڑک گیا.

"ایسی کون سی میری سو کروڑ کی لاٹری نکل آئی ہے، جاؤ سب کو بتا دو میں یہ شادی نہیں "کروں گا".

"لو بھلا مجھے کیاپڑی ہے مفت میں جوتے کھانے کی، جا کر خود کریں بغاوت کا اعلان". نعیمہ بڑبڑاتے ہوے وہاں سے اٹھ گئی.

"تزین رضا".....

اسکو سوچتے ہی غصّہ آنے لگا. وہ اسکی بہترین دوست تھی. پرسوں آنے والے فون سے پہلے تک وہ واقع اسکو اپنی اچھی دوست سمجھتا تھا.

عبید کی طرف سے بات ختم ہونے اور ماموں کی طرف سے قطع تعلق کا اعلان کرنے کے بعد یہ اسکی پہلی فون کال تھی. ورنہ اس سے پہلے

تزین رضا نے نہ کوئی رابطہ کیا نہ کوئی اسکی کال اٹینڈ کی.

"اسلام و .علیکم.... کسی ہو تم....."؟ اس نے بہت خوش دلی سے سلام کیا تھا.

"بہت خوش ہوں میری زندگی میں چار چاند ٹانک دے ہیں تم نے...." اسکی تلخی بھری باتوں نے اعیان کو چونکا دیا.

"میں خود بھی تم سے اس بارے میں بات کرنا چاہتا تھا تانی مگر تم نے میری کال ہی اتٹنڈ نہیں کی". وہ بہت آرام سے بولا تو تزین پھٹ پڑی.

"ہاں کیوں کہ میں تم سے کوئی واسطہ نہیں رکھنا چاہتی".

"تانی...." وہ تزین کے جواب پر ششدر ہوگیا.

وہ تو سوچے بیٹھا تھا کہ ہونے اور عبید جیسے انسان سے جان چھوٹ جانے کے بعد وہ اسکی ممنون ہوگی. مگر یہ وہ کیا کہ رہی تھی.

"میں نے تمہیں عبید سے ملنے کو، پھر بھی تم نے اپنی من مانی کی. تم ہوتے کون ہو میرے گارجین بننے والے. میرے بڑے ماجود تھے اس معمالے

کو حل کرنے کے لئے تمہیں کیا تکلیف تھی کہ اس چکر میں آنے کی"؟


Https://t.me/gulshaneadab

Https://t.me/buttgeem