گلدستۂ اردو ادب
667 subscribers
216 photos
23 videos
24 files
551 links
اُردو محض ایک زبان نہیں بلکہ یہ زبان ایک مخصوص ثقافت کی ترجمان ہے آئیے اپنی اسی گم گشتہ ثقافت کی بازیابی کے لیے اردو زبان کو تحفظ فراہم کریں
Download Telegram
اپنی حالت کا خود احساس نہیں ہے مجھ کو
میں نے اوروں سے سنا ہے کہ پریشان ہوں میں...!
انصاف کے خورشید کو ڈھلنے نہیں دیں گے
سکہ کبھی الحاد کا چلنے نہیں دیں گے

مٹ جائیں گے اسلام کی تعظیم پر لیکن
اسلام کا قانون بدلنے نہیں دیں گے
#کشکول-اردو-چینل سے ماخوذ
مسئلہ سنگسار(رجم کرنے) کے حوالے سے مفتی محمود صاحب رحمہ اللہ کا ایک خوبصورت واقعہ


قلب کے عارضہ کے پیش نظر مفتی محمود صاحب ؒ سی ایم ایچ (ہسپتال) راولپنڈی میں زیرِ علاج تهے۔ سعودیہ عرب سے رابطہ عالم اسلامی کے مذہبی رہنما ڈاکٹر دوالبی صاحب ملنے کے لیے تشریف لائے۔ اس دوران ڈاکٹر دوالبی صاحب نے مفتی محمودؒ سے کسی زانی یا زانیہ کو رجم (سنگ ساری) کے بارے میں بات کی اور کہا کہ” میری تجویز ہے اور دنیا بهر کے علمائے کرام اور علمی اداروں نے میری تجویز سے نہ صرف اتفاق کیا ہے بلکہ تحسین بهی کی ہے“ وہ میری تجویز یہ ہے کہ:

”میں چاہتا ہوں کہ جب (شادی شدہ) زانی اور زانیہ پر زنا کا ثبوت ہوجائے تو چاہیئے کہ انہیں بندوق کی گولی مار دی جائے۔اس لیے کہ مسلہ رجم سے ”مقصود“ تو مجرموں کو سرعام قتل کرنا ہے۔اور یہ مقصد گولی مارنے سے بهی حاصل ہوجاتا ہے۔اور اس کا یہ فائدہ ہوگا کہ رجم کے خلاف یورپی ممالک کا پروپیگنڈے کا توڑ بهی ہوجائے گا۔“ اس مسلہ پر آپ کی رائے معلوم کرنے آیا ہوں۔

حضرت مفتی محمودؒ نے جواب میں فرمایا:

ڈاکٹر صاحب آپ کو اور آپ کی تائید کرنے والوں کو مغالطہ یہاں سے ہوا ہے کہ آپ سمجھتے ہیں کہ رجم (سنگ ساری ) کا مقصود مجرموں کو قتل کرنا ہے۔حالانکہ رجم سے مجرموں کی زندگی بچانا ہے۔وہ اس طرح کہ آپ جانتے ہیں کہ سنگ ساری(پهتر مارنے) کی ابتداء ہی وہ چار گواہ خود کریں گے“جنہوں نے گواہی دی ہے۔اور اس گواہی کی اساس پر مجرم کو سنگ سار کیا جارہا ہے۔”اگر“ سنگ ساری کا بهیانک منظر دیکھ کر کسی ایک گواہ نے بهی دوران سنگ باری اپنی گواہی سے رجوع کیا تو فوراً موقعہ پر موجود قاضی سنگ ساری سے روک دے گا۔اور مجرم کی جان بچ جائے گی۔نیز اگر مجرم کے اقرار پر سنگ ساری کا حکم جاری ہوا ہے تو جس مرحلہ پر مجرم نے اپنے اقرار (جرم) سے رجوع کا اعلان کیا۔ِ؟ تو اسی وقت قاضی صاحب سنگ ساری موقوف کردے گا۔اور گولی مارنے سے یہ حکمتیں فوت ہوجائیں گی۔اب رہی یورپ کی بات۔۔۔ تو یورپ والوں کو شرعی احکامات کے فلسفے کی کیا خبر۔؟

حضرت مفتی محمودؒ کا یہ جواب سن کر ڈاکٹر دوالبی صاحب اپنی نشست سے اٹهے اور حضرت مفتی صاحب کو گلے ملے اور آپ کا بوسہ لیا اور عرض کیا کہ:

یہ راز اور حکمت کی بات آج مجھ پر منکشف ہوئی کہ رجم (سنگ ساری) کا مقصد مجرم کی جان لینا نہیں بلکہ بچانا ہے۔لہذا میں اپنی تجویز آج واپس لیتا ہوں۔
( بحوالہ : تذکارِمحمودؒ)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ



احباب گرامی!

آپ حضرات کی آراء جاننے کے لئے ایک رابطہ بوٹ تشکیل دیا گیا ہے ...

جس کے ذریعہ آپ بآسانی ذمہ داروں تک اپنی بات پہنچا سکتے ہیں ...


رابطہ کا لنک یہ ہے ...


t.me/GRabataBot
فن جو معیار تک نہیں پہنچا
اپنے شہکار تک نہیں پہنچا

پگڑی پیروں میں کیسے میں رکھتا
ہاتھ دستار تک نہیں پہنچا

کوئی انعام کوئی بھی تمغہ
سچے حق دار تک نہیں پہنچا

ایسا ہر شخص ہے مسیحا اب
جو کبھی دار تک نہیں پہنچا

ہر خدا جنتوں میں ہے محدود
کوئی سنسار تک نہیں پہنچا

چارہ گر سب کے پاس جاتا تھا
صرف بیمار تک نہیں پہنچا

دوست بن کر دغا نہ دے جو وہ
اپنے کردار تک نہیں پہنچا

مجھ کو القاب کیوں ملیں لوگو
میں تو دربار تک نہیں پہنچا

ایسا جھگڑا بتا دو مجھ کو جو
گھر میں دیوار تک نہیں پہنچا

کس نے بیچا نہیں سخن اپنا
کون بازار تک نہیں پہنچا

کلام : اجے سحاب
امتحان مں سوال آیا کہ"چیلنج "کسے کہتے
ہیں؟
پٹھان نے پورا پیپر خالی چھوڑ دیا اورآخری صفحے پرلکھا
"اپنےباپ کی اولاد ھے تو پاس کرکے دکھا😂😂😂
چینل کا نام: گلدستۂ اردو ادب

چینل کوائف: اردو ادبی مواد بشکل نظم و نثر

درجہ بندی: اردو ادب

لنک برائے شمولیت:
t.me/guldastaeurduadab

اندراج کے وقت صارفین کی تعداد: 258

اندراج کی تاریخ اور وقت:
March 28, 2018 at 08:01PM

--------------------------------
اگر یہ چینل غیر شرعی، غیر قانونی یا لنک غیر فعال ہے تو ڈائریکٹری رپورٹ بوٹ کے ذریعہ اطلاع کریں۔
@InvalidReportBot

مرکزی فہرست میں واپس جانے کے لیے یہاں 👇 کلک کریں۔
https://t.me/tgcUrdu/62
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ
وہ گاؤں کی گلیوں میں پِیپَل پرانا
وہ باغوں میں پیڑوں پے ٹائر کے جھولے
وہ بارش کی بوندوں میں چھت پر نہانا
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ
وہ اِملی کے پیڑوں پے پتھر چلانا
جو پتھر کسی کو لگے بھاگ جانا
چھپا کر کے سب کی نظر سے ہمیشہ
وہ ماں کے دوپٹے سے سکے چرانا
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ
وہ سائیکل کے پہئے کی گاڑی بنانا
بڑے فخر سے دوسروں کو سکھانا
وہ ماں کی محبت وہ والد کی شفقت
وہ ماتھے پے کاجل کا ٹیکا لگانا
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ
وہ کاغذ کی چڑیا بنا کر اڑانا
وہ پڑھنے کے ڈر سے کتابیں چھپانا
وہ نرکل کی قلموں سے تختی پے لکھنا
وہ گھر سے سبق یاد کرکے نہ جانا
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ
وہ گرمی کی چھٹی مزے سے بِتانا
وہ نانی کا قصہ کہانی سنانا
وہ گاؤں کے میلے میں گڑ کی جلیبی
وہ سرکس میں خوش ہوکے تالی بجانا
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ
وہ انگلی چھپا کر پہیلی بجھانا
وہ پیچھے سے ”ہو“ کر کے سب کو ڈرانا
وہ کاغذ کے ٹکڑوں پے چور اور سپاہی
وہ شادی میں اڑتا ہوا شامیانہ
بہت یاد آتا ہے گزرا زمانہ
مگر یادِ بچپن کہیں سو گئی ہے
کہ خوابوں کی جیسے سحر ہو گئی ہے
یہ نفرت کی آندھی عداوت کے شعلے
یہ سیاست دلوں میں زہر بو گئی ہے
زباں بند رکھنے کا آیا زمانہ
لبوں پے نہ آئے امن کا ترانہ
کہ جب مل کے رہتے تھے ہندو مسلماں
نہیں آئے گا اب وہ موسم سہانا
ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺍﺷﮑﻮﮞ ﮐﺎ ﮔﮩﺮ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ
ﺗﺐ ﮐﮩﯿﮟ ﮐﻌﺒﮯ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﺩﺭ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ,
ـ
ﺩﮬﻮﭖ ﮐﺘﻨﯽ ﮨﯽ ﮐﮍﯼ ﮨﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﺮﻭﺍﮦ ﻧﮩﯿﮟ
ﺑﺎﭖ ﮐﺎ ﺳﺮ ﭘﮧ ﮨﻮ ﺳﺎﯾﮧ ﺗﻮ ﺷﺠﺮ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ,

ﺟﺲ ﮐﮯ ﺁﻧﮕﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ
ﮨﻮ ﺍﮔﺮ ﺗﺎﺝ ﻣﺤﻞ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮐﮭﻨﮉﺭ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ,

ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﭼﯿﺰ ﮨﮯ ﻣﻤﺘﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﻧﮩﯿﮟ
ﻣﯿﺮﺍ ﮨﺮ ﻋﯿﺐ ﻣﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﮨﻨﺮ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ,

ﭘﺎﺅﮞ ﭘﮭﯿﻼﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺴﮯ ﻣﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ
ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﺗﻮﮨﯿﻦ ﺳﮯ ﮈﺭ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ,

ﺭﻭﮎ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ ﺑﻼﺅﮞ ﮐﻮ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻭﭘﺮ
" ﻣﺎﮞ ﮐﺎ ﺁﻧﭽﻞ ﻣﺠﮭﮯ ﺟﺒﺮﯾﻞ ﮐﺎ ﭘﺮ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ,

*کیا ہم آخرت پر یقین رکھتے ہیں؟*


یقینا یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب کوئی بھی مسلم نفی میں نہیں دے سکتا ...

لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارا عمل آخرت کا انکاری ہوتا ہے، اور ہم گناہ اس دلیری سے کرتے ہیں کہ گویا ہمیں کبھی آخرت کا سامنا کرنا ہی نہیں.

تو میرے بھائی یہ قول و فعل میں اتنا تضاد کیوں؟

کس چیز نے تجھ سے آخرت کی ہولناکیوں کو اوجھل کر دیا؟
کس چیز نے پل صراط کے پُر خطر راستے کو تیری آنکھوں اور ذہن و دماغ سے محو کردیا؟

یا تیرا اپنا نفس اتنا جری ہوگیا کہ گناہ کرتے وقت اسے آخرت اور اللہ کے غضب کا احساس تک نہیں ہوتا؟

بتا آخر یہ قول و عمل میں تضاد کیوں؟

وہ مسلمان کب آئیں یا کب بنیں گے جن کا کردار ہی اسلامی ہوگا اور وہ اسلام کے سانچہ میں ڈھلے ہوں گے؟

خدا را اپنے آپ پر نفسانی خواہشات کے پیچھے بے دریغ بھاگ کر ظلم نہ کریں

کچھ تو اللہ کا خوف اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا خوف کھائیں

اللہ پاک آپ تمام کا حامی و ناصر ہو
رُتوں کا لمس شجر میں رہںے تو اچھا ہے
مٹھاس بن کے ثمر میں رہے تو اچھا ہے۔

کہاں سے دل کے علاقے میں آ گئی دنیا
یہ سر کا درد ہے سر میں رہے تو اچھا ہے۔

نہ تیرے دل میں کسی اور کا خیال آئے
نہ کوئی مری نظر میں ریے تو اچھا ہے

مرا قیام ہے گھر میں مسافروں جیسا
یہ گھر بھی راہ گزر میں رہے تو اچھا ہے۔

دہ خود پسند ہےخود کو بگاڑ ذالے گا
کسی کےدست ہنر میں رہے تو اچھا ہے۔

میں سن رہی ہوں قیامت کی آہٹوں کو شبین
حیات پھر بھی سفر میں رہے تو اچھا ہے۔
(ایک دلچسپ مشاہدہ)

مہنگے مشاعرے . قیمتی نعت خوانی اور اونچے لفافے اس بات کا زندہ ثبوت ہیں کہ قوم میں ترنم و تبسم کی مانگ بہت ہے. جس قوم میں تحقیق. تشریح. تنقید.اور تجدید ختم ہوجاتی ہے اس قوم کے افراد تفریح زیادہ کرتے ہیں اور تعلیم میں تفوق و برتری اپنانے کے بجائے تبسم پر فدا رہتے ہیں اور ترنم پر رقص کرتے ہیں.
جس زمانے میں یورپ اور امریکہ والے جدید ٹکنالوجی پر ریسرچ کر رہے تھے اس زمانے میں لکھنو کے نواب اس بات پر مقابلہ آرائی کر رہے تھے کہ کباب تیتر کا زیادہ لذیذ ہوتا ہے یا بٹیر کا.بعد میں ان نواب صاحبان ہی کا کبا ب بن گیا.
Forwarded from Surgical Strike
نکاح حلالہ یا صرف "حلالہ"
یاسر ندیم الواجدی
بی جے پی حکومت کے انتخابی منشور میں یکساں سول کوڈ شامل رہا ہے، جس کا مقصد ملک میں منوسمرتی کے قانون کو نافذ کرکے برہمن واد کو فروغ دینا ہے۔ یکساں سول کوڈ کو دستور ہند کے باقی رہتے ہوے متعارف کرانا آسان نہیں ہے، اس لیے بی جے پی نے نیا راستہ اختیار کیا ہے، جس کے مطابق مسلم خاتون کو مظلوم قرار دیا جائے اور آہستہ آہستہ وہ تمام عائلی قوانین عدالتی راستے سے ختم کردیے جائیں جو مسلم خاندان کی شناخت ہیں۔ طلاق ثلاثہ، تعدد ازواج اور میراث کے مسائل بار بار میڈیا میں اور پھر منظم طریقے سے عدالت لے جائے جارہے ہیں۔ ایک تازہ مسئلہ نکاح حلالہ کا ہے۔ ملک کے موقر اخبارات کے مطابق عدالت عالیہ نے حکومت سے "نکاح حلالہ" کے بارے میں اس کا موقف معلوم کیا ہے تاکہ عدالت کی پانچ رکنی بنچ اس پر سماعت کرسکے۔

تبھی سے سوشل میڈیا پر یہ بحث شروع ہوگئی کہ حلالہ کی شرعی حیثیت کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس بحث کو ختم کرنے کے لیے ہمیں حلالہ اور نکاح حلالہ کے فرق کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ حلالہ کا ذکر قرآن مجید میں اس انداز سے آیا ہے کہ: اگر شوہر نے عورت کو تیسری طلاق دے دی، تو عورت اپنے سابقہ شوہر کے لیے حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے شخص سے نکاح کرلے"۔ امت کا سواد اعظم اس بات پر متفق ہے کہ دوسرا نکاح حلالہ کے مقصد سے نہ ہو، اسی لیے اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص پر جو حلالہ کرتا ہے اور جس کے لیے کیا جارہا ہے لعنت فرمائی ہے۔ حلالہ کے مقصد سے نکاح کرنے کو ہی نکاح حلالہ کہا جاتا ہے، جب کہ اس شرط یا نیت کے بغیر اگر کوئی شخص اس عورت سے نکاح کرے اور پھر یہ نکاح بھی ختم ہوجائے تو پہلے شخص کے لیے جائز ہوگا کہ وہ اس عورت سے نکاح کرلے، اس کو حلالہ کہا جاتا ہے۔ لہذا نیت حلالہ کے ساتھ نکاح، نکاح حلالہ ہے اور بغیر نیت حلالہ کے نکاح سے صرف حلالہ ہوتا ہے۔ جو لوگ اس تعلق سے متردد ہوں انھیں حاکم کی اس روایت پر غور کرنا چاہیے کہ : "ایک شخص حضرت ابن عمر کے پاس آیا اور پوچھا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاق دے دی، اس کے ایک بھائی نے کسی سابقہ ایگریمنٹ کے بغیر، اس،عورت سے نکاح کرلیا محض اس نیت سے کہ وہ عورت کو اس کے سابقہ شوہر کے لیے حلال کردے گا تو کیا یہ درست ہے۔ ابن عمر نے ارشاد فرمایا کہ: ہرگز نہیں! نکاح تو صرف رغبت کے ساتھ ہوتا ہے، ہم ایسے نکاح کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں زنا ہی مانتے تھے"۔

یہی وجہ ہے کہ امام مالک اور امام احمد کے نزدیک حلالہ کی شرط کے ساتھ نکاح کرنے سے نکاح منعقد نہیں ہوگا، امام ابو یوسف کے نزدیک بھی ایسا نکاح باطل ہے جب کہ امام محمد کے نزدیک مکروہ تحریمی ہے۔ فقہاء کے درمیان یہ اختلاف حلالہ کے تعلق سے نہیں ہے بلکہ "نکاح حلالہ" کے تعلق سے ہے۔

ہمارے ملک کی فقہی اکیڈمیاں اس تعلق سے اگر غور کریں اور امام ابو یوسف کے قول پر فتوی دیں تو نکاح حلالہ کے جو چند واقعات ہوتے ہیں ان پر روک لگ سکتی ہے۔ غالبا آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سیکریٹری حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے اپنے بیان کے ذریعہ اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ نکاح حلالہ کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے۔

نیز یہ بھی واضح رہے کہ ملکی قانون اور عدالتیں لفظوں کی اسیر ہیں، سپریم کورٹ نے حکومت سے نکاح حلالہ کے بارے میں موقف معلوم کیا ہے، حلالہ کے بارے میں نہیں۔ اگر بورڈ کے ارباب حل وعقد مناسب سمجھیں تو کورٹ میں یہ ایفی ڈیوٹ بھی داخل کریں کہ نکاح حلالہ کا شریعت میں کوئی تصور نہیں ہے، بلکہ یہ چیز باعث لعنت ہے اور اسلامی قانون میں موجب تعزیر رہی ہے ، اس اقدام سے امید ہے کہ میڈیا کو جو بحث کا موضوع ملا ہوا ہے وہ اس کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔

علاوہ ازیں کیا ہماری کوئی تنظیم ایسی نہیں ہے جو دفاع سے نکل کر اقدام کے بارے میں غور کرے، کیوں ابھی تک کسی نے نیوگا کے غیر دستوری اور صنفی مساوات وعدل کے خلاف ہونے پر عدالت عالیہ میں ایک عدد پی آئی ایل داخل نہیں کی ہے؟ کیوں ابھی تک عدالت عالیہ کو مانگلکتا (جس کے تحت عورت کو درخت یا کتے سے شادی کرنا پڑتی ہے) کے تعلق سے متوجہ نہیں کیا گیا ہے؟ ہمیں مصروف ہونے کے بجائے اب مصروف کرنے پر توجہ دینی چاہیے، تبھی برہمن واد کا غرور خاک میں مل سکتا ہے۔
غــــــــــزل
محبت سے نظریں ملا کر تو دیکھو
ادھر اک دفعہ مسکرا کر تو دیکھو
زمانے کی رسموں کو میں توڑ دوں گا
کسی روز مجھ کو بلا کر تو دیکھو
لہوکی جگہ تیری چاہت ملےگی
میرے دل پہ خنجر چلا کر تو دیکھو
ساقی مجھ کو اپنی وفا پر یقین ہے
کسی موڑ پر آزماکرتو دیکھو
تیری چوکھٹ سے سر اٹھاؤ ں تو بے وفا کہنا

تیرے سوا کسی اور کو چاہوں تو بے وفا کہنا

میری وفا پہ شک ہے تجھےتو جا خنجر اٹھا

شوق سے مر نہ جاؤ ں تو بے وفا کہنا .
*میرا جسم میری مرضی*

نوجوان کے مسلسل گھورنے سے قباحت سی محسوس ہوئی تو ساتھ والی سیٹ پہ بیٹھی ہوئی بزرگ عورت سے مخاطب ہوکر بولی؛
*"یہ بے حیا مرد مُجھے پچھلے آدھے گھنٹے سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر مسلسل گھورے جا رہا ہے“*
بوڑھی اماں نے ایک لمبی سانس لی اور بڑے اطمینان سے بولی؛
*”بیٹا یہ وہی دیکھ رہا ہے جو دکھانے کے لئے تُم نے اتنا چُست لباس پہن رکھا ہے. "*

موصوفہ ایک بار پھر تلملا اُٹھی اور گرج دار آواز میں کہنے لگی؛
*"میرا جسم میری مرضی"*
بُزرگ عورت حماقت پر مبنی اس جملے کو سُن کر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور کہنے لگیں؛
" اگر تُمہارا جسم تُمہاری مرضی ہے تو اُس نے کونسا آنکھیں بینک سے قرضے میں لے رکھی ہیں!
*اُسکی آنکھیں اُسکی مرضی. "*
ڈھلنے لگی تھی رات کہ تم یاد آگئے
پھر یوں ہوا کہ رات بہت دیر تک رہی
تُجھے تکنا، تُجھے سُننا، ترا ہنسنا، مچل جانا

ہمارے غم کے آنگن میں فقط دوچار خُوشیاں ہیں
" تکبر"
شہرت کا ھو,دولت کاھو, طاقت کا ھو، علم کا ھو, حسن کا ہو۔حسب ونسب کاھو,حتی کہ تقوی کا ہی کیوں نہ ھو، انسان کو رسواکرکے ہی چھوڑتا ھے.
@like

تند مے اور ایسے کمسِن کے لیے
ساقیا! ہلکی سی لا اِن کے لیے

جب سے بلبل تُو نے دو تنکے لیے
ٹوٹتی ہیں بجلیاں ان کے لیے

ہے جوانی خود جوانی کا سنگھار
سادگی گہنا ہے اس سِن کے لیے

ساری دنیا کے ہیں وہ میرے سوا
میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے

وصل کا دن اور اتنا مختصر
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے

باغباں! کلیاں ہوں ہلکے رنگ کی
بھیجنی ہیں ایک کمسِن کے لیے

کون ویرانے میں دیکھے گا بہار
پھول جنگل میں کھلے کن کے لیے

سب حسیں ہیں زاہدوں کو نا پسند
اب کوئی حور آئے گی اِن کے لئے

صبح کا سونا جو ہاتھ آتا امیرؔ
بھیجتے تحفہ موذِّن کے لیے

(امیر مینائی)