بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم
الجواب حامداًو مصلّیاً
سودی بینک میں ملازمت سے متعلق تفصیل یہ ہے کہ:
(۱لف): اگر ملازم کا تعلق براہ راست سودی لین دین یا سودی لکھت پڑھت وغیرہ سے نہ ہوجیسےچوکیدار،ڈرائیور،نئے نوٹ چھاپنا،اسکی کاپی دینا،پرانے نوٹ تبدیل کرنا ،حکومت کےجائز ٹیکس وصول کرنا،صفائی اور چائے بنانےوالاوغیر ہ ہو تواس ملازمت کی گنجائش ہے ، اوراس پر ملنے والی تنخواہ بھی حلال ہے۔
(ب):اور اگر ملازم کا تعلق براہِ راست سودی لین دین یا سودی لکھت پڑھت وغیرہ سے ہو مثلا ً جیسے مینیجر،کیشئر ،اکاؤٹنٹ، سودی قرضہ فراہم کرنا،اصل سودی بینکنگ سسٹم کی کمپیوٹر پروگرامنگ کرنے والاوغیرہ تویہ ملازمت ناجائز ہے ،اور اس پر ملنے والی تنخواہ بھی ناجائز ہے۔
اور جہاں تک غیر سودی بینکوں کا میں ملازمت کا معاملہ ہے تو اس میں اصولی جواب یہ ہے کہ جن بینکوں کے طریقہ ہائے تمویل اور دیگر مالی معاملات کی نگرانی اور ان کی اصولِ شرعی کے مطابق عملی تطبیق کسی مستند عالمِ دین کی نگرانی میں ہورہی ہو اور بینک ان کی ہدایات کو اپنے اوپر لازم سمجھتا ہو اور ان پر پوری طرح عمل کرتا ہو اور عالمِ دین بھی ان تمام باتوں پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوں اور آپ کو ان علماء کے علم و تقویٰ پر اعتماد بھی ہو تو آپ ان غیر سودی بینکوں کے ساتھ مالی معاملات اور ملازمت کر سکتے ہیں۔
====================
القران الکریم:
{وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ}
====================
احکام القرآن (3/79):
ثم السبب القریب ایضاً علی قسمین:سبب محرک وباعث علی المعصیة بحیث لولاہ لما اقدم الفاعل عین ھذہ المعصیة۔۔۔۔۔۔وسبب لیس کذلک ولکنه یعین لمرید المعصیة ویوصله الی ما یھواہ۔۔۔۔۔ فالقسم الاول حرام بنص القرآن،والثانی ان کان بحیث یعمل به من دون احداث صنعة منه یلتحق به یکرہ تحریما،وان کان یحتاج الی عمل وصنعة یکرہ تنزیها
====================
احكام القرآن( 3/78)
وحاصل ما قلناه كله :ان الاعانة علي المعصية لا تتحقق الا بنية الاعانة حقيقة او حكما ،بان يصرح بقصدالمعصية سواءقصدها اولا ،اوكان المحل مخصوصا بالمعصية لا يستعمل الا فيها
====================
واللہ تعالی اعلم بالصواب
محمد عاصم عصمہ اللہ تعالی
الجواب حامداًو مصلّیاً
سودی بینک میں ملازمت سے متعلق تفصیل یہ ہے کہ:
(۱لف): اگر ملازم کا تعلق براہ راست سودی لین دین یا سودی لکھت پڑھت وغیرہ سے نہ ہوجیسےچوکیدار،ڈرائیور،نئے نوٹ چھاپنا،اسکی کاپی دینا،پرانے نوٹ تبدیل کرنا ،حکومت کےجائز ٹیکس وصول کرنا،صفائی اور چائے بنانےوالاوغیر ہ ہو تواس ملازمت کی گنجائش ہے ، اوراس پر ملنے والی تنخواہ بھی حلال ہے۔
(ب):اور اگر ملازم کا تعلق براہِ راست سودی لین دین یا سودی لکھت پڑھت وغیرہ سے ہو مثلا ً جیسے مینیجر،کیشئر ،اکاؤٹنٹ، سودی قرضہ فراہم کرنا،اصل سودی بینکنگ سسٹم کی کمپیوٹر پروگرامنگ کرنے والاوغیرہ تویہ ملازمت ناجائز ہے ،اور اس پر ملنے والی تنخواہ بھی ناجائز ہے۔
اور جہاں تک غیر سودی بینکوں کا میں ملازمت کا معاملہ ہے تو اس میں اصولی جواب یہ ہے کہ جن بینکوں کے طریقہ ہائے تمویل اور دیگر مالی معاملات کی نگرانی اور ان کی اصولِ شرعی کے مطابق عملی تطبیق کسی مستند عالمِ دین کی نگرانی میں ہورہی ہو اور بینک ان کی ہدایات کو اپنے اوپر لازم سمجھتا ہو اور ان پر پوری طرح عمل کرتا ہو اور عالمِ دین بھی ان تمام باتوں پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوں اور آپ کو ان علماء کے علم و تقویٰ پر اعتماد بھی ہو تو آپ ان غیر سودی بینکوں کے ساتھ مالی معاملات اور ملازمت کر سکتے ہیں۔
====================
القران الکریم:
{وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ}
====================
احکام القرآن (3/79):
ثم السبب القریب ایضاً علی قسمین:سبب محرک وباعث علی المعصیة بحیث لولاہ لما اقدم الفاعل عین ھذہ المعصیة۔۔۔۔۔۔وسبب لیس کذلک ولکنه یعین لمرید المعصیة ویوصله الی ما یھواہ۔۔۔۔۔ فالقسم الاول حرام بنص القرآن،والثانی ان کان بحیث یعمل به من دون احداث صنعة منه یلتحق به یکرہ تحریما،وان کان یحتاج الی عمل وصنعة یکرہ تنزیها
====================
احكام القرآن( 3/78)
وحاصل ما قلناه كله :ان الاعانة علي المعصية لا تتحقق الا بنية الاعانة حقيقة او حكما ،بان يصرح بقصدالمعصية سواءقصدها اولا ،اوكان المحل مخصوصا بالمعصية لا يستعمل الا فيها
====================
واللہ تعالی اعلم بالصواب
محمد عاصم عصمہ اللہ تعالی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامدًا ومصلّياً
اگر آپ کی مراد یہ ہے کہ بلڈر جو فلیٹس بناکردے گااس کا بنانے سے پہلے فروخت کرنا کیسا ہے تویہ صورت استصناع کی ہے، لہٰذا اسٹرکچر تیار ہونے سے پہلے بھی یہ معاملہ کرنا جائز ہے، بشرطیکہ معاملہ کرتے وقت تمام اوصاف بیان کردیے جائیں ، تاکہ بعد میں کوئی نزاع اور جھگڑا نہ ہو، مثلًا کمروں کی تعداد کیا ہوگی، مٹیریل کیسا ہوگا، منزل کونسی ہوگی، اور محل ِ وقوع کیا ہوگاوغیرہ۔
البتہ واضح رہے کہ جب تک فلیٹ خریدنے والا اپنے فلیٹ پر باقاعدہ قبضہ نہ کرلے اُس وقت تک اُس کے لئے اس فلیٹ کو آگے بیچنا جائز نہیں ہے، کیونکہ قبضہ کرنے سے پہلے یہ فلیٹ صانع یعنی بنانے والےبلڈر کی ملکیت ہے، لہٰذا اگر خریدار قبضہ کرنے سے پہلے کسی اور کو فروخت کرے گا تو ایک غیر مملوک چیز کو فروخت کرنا لازم آئے گا جوکہ شرعًا ناجائز ہے۔
=========
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (5 / 223)
(قوله هو لغة طلب الصنعة) أي أن يطلب من الصانع العمل ففي القاموس: الصناعة: ككتابة حرفة الصانع وعمله الصنعة اهـ فالصنعة عمل الصانع في صناعته أي حرفته، وأما شرعا: فهو طلب العمل منه في شيء خاص على وجه مخصوص يعلم مما يأتي، وفي البدائع من شروطه: بيان جنس المصنوع، ونوعه وقدره وصفته، وأن يكون مما فيه تعامل
=========
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (5 / 224)
للصانع أن يبيع المصنوع قبل أن يراه المستصنع لأن العقد غير لازم اهـ ولما في البدائع. وأما صفته: فهي أنه عقد غير لازم قبل العمل من الجانبين بلا خلاف حتى كان لكل واحد منهما خيار الامتناع من العمل كالبيع بالخيار للمتبايعين، فإن لكل منهما الفسخ، وأما بعد الفراغ من العمل قبل أن يراه المستصنع فكذلك حتى كان للصانع أن يبيعه ممن شاء، وأما إذا أحضره الصانع على الصفة المشروطة سقط خياره وللمستصنع الخيار هذا جواب ظاهر الرواية وروي عنه ثبوته لهما وعن الثاني عدمه لهما والصحيح الأول اه
=========
واللہ سبحانہٗ أعلم بالصواب
محمدعاصم عصمہ اللہ تعالی
الجواب حامدًا ومصلّياً
اگر آپ کی مراد یہ ہے کہ بلڈر جو فلیٹس بناکردے گااس کا بنانے سے پہلے فروخت کرنا کیسا ہے تویہ صورت استصناع کی ہے، لہٰذا اسٹرکچر تیار ہونے سے پہلے بھی یہ معاملہ کرنا جائز ہے، بشرطیکہ معاملہ کرتے وقت تمام اوصاف بیان کردیے جائیں ، تاکہ بعد میں کوئی نزاع اور جھگڑا نہ ہو، مثلًا کمروں کی تعداد کیا ہوگی، مٹیریل کیسا ہوگا، منزل کونسی ہوگی، اور محل ِ وقوع کیا ہوگاوغیرہ۔
البتہ واضح رہے کہ جب تک فلیٹ خریدنے والا اپنے فلیٹ پر باقاعدہ قبضہ نہ کرلے اُس وقت تک اُس کے لئے اس فلیٹ کو آگے بیچنا جائز نہیں ہے، کیونکہ قبضہ کرنے سے پہلے یہ فلیٹ صانع یعنی بنانے والےبلڈر کی ملکیت ہے، لہٰذا اگر خریدار قبضہ کرنے سے پہلے کسی اور کو فروخت کرے گا تو ایک غیر مملوک چیز کو فروخت کرنا لازم آئے گا جوکہ شرعًا ناجائز ہے۔
=========
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (5 / 223)
(قوله هو لغة طلب الصنعة) أي أن يطلب من الصانع العمل ففي القاموس: الصناعة: ككتابة حرفة الصانع وعمله الصنعة اهـ فالصنعة عمل الصانع في صناعته أي حرفته، وأما شرعا: فهو طلب العمل منه في شيء خاص على وجه مخصوص يعلم مما يأتي، وفي البدائع من شروطه: بيان جنس المصنوع، ونوعه وقدره وصفته، وأن يكون مما فيه تعامل
=========
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (5 / 224)
للصانع أن يبيع المصنوع قبل أن يراه المستصنع لأن العقد غير لازم اهـ ولما في البدائع. وأما صفته: فهي أنه عقد غير لازم قبل العمل من الجانبين بلا خلاف حتى كان لكل واحد منهما خيار الامتناع من العمل كالبيع بالخيار للمتبايعين، فإن لكل منهما الفسخ، وأما بعد الفراغ من العمل قبل أن يراه المستصنع فكذلك حتى كان للصانع أن يبيعه ممن شاء، وأما إذا أحضره الصانع على الصفة المشروطة سقط خياره وللمستصنع الخيار هذا جواب ظاهر الرواية وروي عنه ثبوته لهما وعن الثاني عدمه لهما والصحيح الأول اه
=========
واللہ سبحانہٗ أعلم بالصواب
محمدعاصم عصمہ اللہ تعالی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامدا و مصلیا
اذان کے بعد کی دعا یہ ہے:
اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ
یا
اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَه إِنَّكَ لاَ تُخْلِفُ الْمِيعَادَ
اور اس دعا میں ’’والدرجة الرفيعة ‘‘ یا ’’وارزقنا شفاعته‘‘کاکوئی ثبوت اوراصل نہیں ہے۔ البتہ ’’إنك لا تخلف الميعاد‘‘ کا اضافہ مضبوط سند سے ثابت ہے۔
============
صحيح البخاري- (/1260)
عن جابر بن عبد الله أن رسول الله ? قال من قال حين يسمع النداء اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة آت محمدا الوسيلة والفضيلة وابعثه مقاما محمودا الذي وعدته حلت له شفاعتي يوم القيامة
============
السنن الكبرى للبيهقي (1/ 410)
عن جابر بن عبد الله قال قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- :« من قال حين يسمع النداء : اللهم إنى أسألك بحق هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة آت محمدا الوسيلة والفضيلة ، وابعثه المقام المحمود الذى وعدته إنك لا تخلف الميعاد إلا حلت له شفاعتى ».
============
العرف الشذي للكشميري (1/ 241)
وأما زيادة < والدرجة الرفيعة > فليس لها أصل ، وزيادة إنك لا تخلف الميعاد > ثابتة في السنن الكبرى بسند قوي ، وأما زيادة < وارزقنا شفاعته > فلا أصل لها
============
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2/ 561)
وأما زيادة: " والدرجة الرفيعة " المشتهرة على الألسنة فقال السخاوي: ولم أره في شيء من الروايات
============
واللہ تعالی اعلم بالصواب
محمد عاصم عصمہ اللہ تعالی
الجواب حامدا و مصلیا
اذان کے بعد کی دعا یہ ہے:
اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ
یا
اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَه إِنَّكَ لاَ تُخْلِفُ الْمِيعَادَ
اور اس دعا میں ’’والدرجة الرفيعة ‘‘ یا ’’وارزقنا شفاعته‘‘کاکوئی ثبوت اوراصل نہیں ہے۔ البتہ ’’إنك لا تخلف الميعاد‘‘ کا اضافہ مضبوط سند سے ثابت ہے۔
============
صحيح البخاري- (/1260)
عن جابر بن عبد الله أن رسول الله ? قال من قال حين يسمع النداء اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة آت محمدا الوسيلة والفضيلة وابعثه مقاما محمودا الذي وعدته حلت له شفاعتي يوم القيامة
============
السنن الكبرى للبيهقي (1/ 410)
عن جابر بن عبد الله قال قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- :« من قال حين يسمع النداء : اللهم إنى أسألك بحق هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة آت محمدا الوسيلة والفضيلة ، وابعثه المقام المحمود الذى وعدته إنك لا تخلف الميعاد إلا حلت له شفاعتى ».
============
العرف الشذي للكشميري (1/ 241)
وأما زيادة < والدرجة الرفيعة > فليس لها أصل ، وزيادة إنك لا تخلف الميعاد > ثابتة في السنن الكبرى بسند قوي ، وأما زيادة < وارزقنا شفاعته > فلا أصل لها
============
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2/ 561)
وأما زيادة: " والدرجة الرفيعة " المشتهرة على الألسنة فقال السخاوي: ولم أره في شيء من الروايات
============
واللہ تعالی اعلم بالصواب
محمد عاصم عصمہ اللہ تعالی
الجواب حامداومصلیا
اگر دس روز مکمل ہو نے کے بعد خون بند ہوا ہے ، تو اسی وقت ہمبستری جائز ہے مگر مستحب یہ ہے کہ غسل کے بعد کر ے
اور اگر دس دن سے پہلے پاک ہوگئی تو ہمبستری کے جائز ہونے کے لئے دوشرطوں میں سے ایک کا وجود ضروری ہے.
1 عورت غسل کرلے.
2 یا خون بند ہو نے کے بعد اتنا وقت گذر جائے کہ اس کے ذمہ نماز کی قضاء فرض ہو جائے
جب تک ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہیں پائے جائے گی ، ہمبستری حلال نہ ہوگی ۔
نماز کی قضاء تب فرض ہو تی ہے کہ خون بند ہونیکے بعد نماز کا وقت ختم ہو نے سے پہلے پھرتی سے غسل کر کے تکبیر تحریمہ کہہ سکے پس اگر عصر سے کچھ قبل خون بند ہو ا مگر غسل کر کے تکبیر تحریمہ کہنے کے برابر وقت نہ تھا تو غروب سے پہلے وطی حلال نہیں اس لئے کہ اس سے قبل اس کے ذمہ کوئی نمازفرض نہیں ۔
(فإن انقطع دمها لعشرة أيام جاز وطؤها قبل الغسل) لأن الحيض لا مزيد له على العشرة إلا أنه لا يستحب قبل الغسل للنهي في القراءة بالتشديد هداية.
( اللباب في شرح الكتاب 1/ 44)
وفي تفسيرروح البيان:ولا تقربوهن بالجماع حتى يطهرن من الحيض أو ينقطع دمهن فذهب أبوحنيفة رحمہ اللہ تعالی إلى أن له أن يقربها إذا كانت أيامها عشرة بعد انقطاع الدم وإن لم تغتسل وفي أقل الحيض لايقربها حتى تغتسل أو يمضى عليها وقت صلاة فإذا تطهرن أى اغتسلن فإن التطهر هو الاغتسال فأتوهن من حيث أمركم اللہ أى من المأتى الذي حلله لكم وهو القبل إن اللہ يحب التوابين من الذنوب ويحب المتطهرين المتنزهين عن الفواحش والأقذار كمجامعة الحائض والإتيان في غير المأتى.
( روح البيان 1/ 347)
وقال أبوحنيفة رحمہ اللہ تعالی معنى قراءة التخفيف حتى يطهرن من الحيض وتنقطع دمهن فيجوز على هذه القراءة القربان بعد الانقطاع قبل الغسل ومعنى قراءة التشديد الاغتسال فعلى هذه القراءة لا يجوز ذلك فيحمل أبوحنيفة قراءة التخفيف على ما إذا انقطع دمها بعد عشرة أيام وقراءة التشديد على ما دون العشرة
(التفسير المظهري 1/ 278)
(وإذا انقطع دم الحيض لأقل من عشرة أيام) ولو لتمام عادتها (لم يجز) أي لم يحل (وطؤها حتى تغتسل) أو تتيمم بشرطه، وإن لم تصل به الأصح، جوهرة لقوله وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَأو لقوله فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ
( اللباب في شرح الكتاب 1/ 44)
عملاً بقراءة التشديد في قوله وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِالبقرة: ٢٢٢ فقد قرأ «شعبة، وحمزة، والكسائي، وخلف العاشر» «يطهرن» بفتح الطاء، والهاء، مع التشديد فيهما، مضارع «تطهر» أي اغتسلن، والأصل «يتطهرون» فأدغمت التاء في الطاء.
وقرأ الباقون «يطهرن» بسكون الطاء، وضم الهاء مخففة، مضارع «طهر» يقال طهرت المرأة إذا شفيت من الحيض.( أي انقطع حيضها) (القراءات وأثرها في علوم العربية 1/ 38)
واللہ اعلم بالصواب
محمد عثمان غفرلہ
16 /11 /2017 یوم الخميس
اگر دس روز مکمل ہو نے کے بعد خون بند ہوا ہے ، تو اسی وقت ہمبستری جائز ہے مگر مستحب یہ ہے کہ غسل کے بعد کر ے
اور اگر دس دن سے پہلے پاک ہوگئی تو ہمبستری کے جائز ہونے کے لئے دوشرطوں میں سے ایک کا وجود ضروری ہے.
1 عورت غسل کرلے.
2 یا خون بند ہو نے کے بعد اتنا وقت گذر جائے کہ اس کے ذمہ نماز کی قضاء فرض ہو جائے
جب تک ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہیں پائے جائے گی ، ہمبستری حلال نہ ہوگی ۔
نماز کی قضاء تب فرض ہو تی ہے کہ خون بند ہونیکے بعد نماز کا وقت ختم ہو نے سے پہلے پھرتی سے غسل کر کے تکبیر تحریمہ کہہ سکے پس اگر عصر سے کچھ قبل خون بند ہو ا مگر غسل کر کے تکبیر تحریمہ کہنے کے برابر وقت نہ تھا تو غروب سے پہلے وطی حلال نہیں اس لئے کہ اس سے قبل اس کے ذمہ کوئی نمازفرض نہیں ۔
(فإن انقطع دمها لعشرة أيام جاز وطؤها قبل الغسل) لأن الحيض لا مزيد له على العشرة إلا أنه لا يستحب قبل الغسل للنهي في القراءة بالتشديد هداية.
( اللباب في شرح الكتاب 1/ 44)
وفي تفسيرروح البيان:ولا تقربوهن بالجماع حتى يطهرن من الحيض أو ينقطع دمهن فذهب أبوحنيفة رحمہ اللہ تعالی إلى أن له أن يقربها إذا كانت أيامها عشرة بعد انقطاع الدم وإن لم تغتسل وفي أقل الحيض لايقربها حتى تغتسل أو يمضى عليها وقت صلاة فإذا تطهرن أى اغتسلن فإن التطهر هو الاغتسال فأتوهن من حيث أمركم اللہ أى من المأتى الذي حلله لكم وهو القبل إن اللہ يحب التوابين من الذنوب ويحب المتطهرين المتنزهين عن الفواحش والأقذار كمجامعة الحائض والإتيان في غير المأتى.
( روح البيان 1/ 347)
وقال أبوحنيفة رحمہ اللہ تعالی معنى قراءة التخفيف حتى يطهرن من الحيض وتنقطع دمهن فيجوز على هذه القراءة القربان بعد الانقطاع قبل الغسل ومعنى قراءة التشديد الاغتسال فعلى هذه القراءة لا يجوز ذلك فيحمل أبوحنيفة قراءة التخفيف على ما إذا انقطع دمها بعد عشرة أيام وقراءة التشديد على ما دون العشرة
(التفسير المظهري 1/ 278)
(وإذا انقطع دم الحيض لأقل من عشرة أيام) ولو لتمام عادتها (لم يجز) أي لم يحل (وطؤها حتى تغتسل) أو تتيمم بشرطه، وإن لم تصل به الأصح، جوهرة لقوله وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَأو لقوله فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ
( اللباب في شرح الكتاب 1/ 44)
عملاً بقراءة التشديد في قوله وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِالبقرة: ٢٢٢ فقد قرأ «شعبة، وحمزة، والكسائي، وخلف العاشر» «يطهرن» بفتح الطاء، والهاء، مع التشديد فيهما، مضارع «تطهر» أي اغتسلن، والأصل «يتطهرون» فأدغمت التاء في الطاء.
وقرأ الباقون «يطهرن» بسكون الطاء، وضم الهاء مخففة، مضارع «طهر» يقال طهرت المرأة إذا شفيت من الحيض.( أي انقطع حيضها) (القراءات وأثرها في علوم العربية 1/ 38)
واللہ اعلم بالصواب
محمد عثمان غفرلہ
16 /11 /2017 یوم الخميس
الجواب حامداومصلیا
فی نفسہٖ عورت کا خوشبو لگانا جائز ہے؛ لیکن حدیث شریف میں عورت کے لئے ایسی خوشبو لگانے کی اجازت ہے، جس کی مہک کم ہو اور اُس میں رنگ غالب ہو؛ لہٰذا عورت کے لئے بھڑک دار خوشبو لگانا، اور ایسی خوشبو لگاکر گھر سے باہر نکلنا جائز نہیں احادیث میں سجتے وعیدیں آئی ہیں، ایسی عورت کو حدیث میں بدکار کہا گیا ہے،العیاذ باللہ۔
لیکن ایسی خوشبو لگانے سے غسل واجب نہیں ہوتا
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: طیب الرجال ما ظہر ریحہ وخفي لونہ، وطیب النساء ما ظہر لونہ وخفي ریحہ۔ (الشمائل المحمدیۃ / باب تعطر رسول اللّٰہ ا ص: ۹۰ رقم: ۲۱۹ المکتبۃ الإسلامیۃ داکا بنغلادیش، سنن النسائي، کتاب الزینۃ / الفصل بین طیب الرجال وطیب النساء ۲؍۲۳۹)
عن أبي موسیٰ رضي اللّٰہ عنہ: أیما امرأۃ استعطرت ثم خرجت فیوجد ریحہا فہی زانیۃ۔ وکل عین زان۔ (سنن الدارمی، کتاب الاستئذان / باب في النہي عن الطیب إذا خرجت ۲؍۲۷۹، کتاب اللباس والزینۃ / فصل الطیب للمرأۃ رقم: ۴۰۵ دار الحدیث القاہرۃ)
فقط واللہ اعلم بالصواب
محمد عثمان غفرلہ
فی نفسہٖ عورت کا خوشبو لگانا جائز ہے؛ لیکن حدیث شریف میں عورت کے لئے ایسی خوشبو لگانے کی اجازت ہے، جس کی مہک کم ہو اور اُس میں رنگ غالب ہو؛ لہٰذا عورت کے لئے بھڑک دار خوشبو لگانا، اور ایسی خوشبو لگاکر گھر سے باہر نکلنا جائز نہیں احادیث میں سجتے وعیدیں آئی ہیں، ایسی عورت کو حدیث میں بدکار کہا گیا ہے،العیاذ باللہ۔
لیکن ایسی خوشبو لگانے سے غسل واجب نہیں ہوتا
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: طیب الرجال ما ظہر ریحہ وخفي لونہ، وطیب النساء ما ظہر لونہ وخفي ریحہ۔ (الشمائل المحمدیۃ / باب تعطر رسول اللّٰہ ا ص: ۹۰ رقم: ۲۱۹ المکتبۃ الإسلامیۃ داکا بنغلادیش، سنن النسائي، کتاب الزینۃ / الفصل بین طیب الرجال وطیب النساء ۲؍۲۳۹)
عن أبي موسیٰ رضي اللّٰہ عنہ: أیما امرأۃ استعطرت ثم خرجت فیوجد ریحہا فہی زانیۃ۔ وکل عین زان۔ (سنن الدارمی، کتاب الاستئذان / باب في النہي عن الطیب إذا خرجت ۲؍۲۷۹، کتاب اللباس والزینۃ / فصل الطیب للمرأۃ رقم: ۴۰۵ دار الحدیث القاہرۃ)
فقط واللہ اعلم بالصواب
محمد عثمان غفرلہ
*مسافر کی نماز مقیم کے پیچھی*
سوال:-اگرمسافر مقیم امام کے پیچھے نماز قصر پڑھے تواس کی نیت کس طرح کرے؟
*الجواب حامداًومصلیاً*
اگرمسافر کسی مقیم کے پیچھے نماز پڑھے،توقصرجائز نہیں اتمام ضروری ہے لہٰذا اتمام ہی کی نیت کرے۔
فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم
حررہٗ العبد محمود گنگوہی عفااللہ عنہٗ معین مفتی مدرسہ مظاہرعلوم سہارنپور ۱۹؍ ۶؍ ۵۶ھ
الجواب صحیح :سعید احمد غفرلہٗ
صحیح : عبداللطیف مدرسہ مظاہرعلوم ۲۱؍۲؍ ۵۶ھ
*✍🏻محمد مصروف مظاہری*
سوال:-اگرمسافر مقیم امام کے پیچھے نماز قصر پڑھے تواس کی نیت کس طرح کرے؟
*الجواب حامداًومصلیاً*
اگرمسافر کسی مقیم کے پیچھے نماز پڑھے،توقصرجائز نہیں اتمام ضروری ہے لہٰذا اتمام ہی کی نیت کرے۔
فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم
حررہٗ العبد محمود گنگوہی عفااللہ عنہٗ معین مفتی مدرسہ مظاہرعلوم سہارنپور ۱۹؍ ۶؍ ۵۶ھ
الجواب صحیح :سعید احمد غفرلہٗ
صحیح : عبداللطیف مدرسہ مظاہرعلوم ۲۱؍۲؍ ۵۶ھ
*✍🏻محمد مصروف مظاہری*
*سودی قرض لینا کب جائز ہے ؟*
*الجواب حامداً ومصلیاً*
ابن نجیم نے اس بارے میں لکھا ہے کہ حاجت مندوں کے لئے سودی قرض لینے کی گنجائش ہے
لیکن یہ مسئلہ کہ کس حاجت کو شرعی حاجت شمار کیا جائے گا ؟ فقہاء کی صراحتوں سے اصولی طور پر اس سلسلہ میں یہ بات منقح ہوتی ہے کہ :
۱۔ عام حالات میں محض معیار زندگی کی بلندی خوب سے خوب تر کی تلاش کے پیش نظر سودی قرض لینا جائز نہیں ۔
۲۔ ضرورت یعنی ایسے حالات میں جب کہ کھانے کپڑے ، علاج وغیرہ کی بنیادی ضرورت کی فراہمی کے لئے سودی قرض کے سوا کوئی چارہ نہ رہے اور فاقہ مستی کی نوبت ہو تو سودی قرض لینا جائز ہے ۔
۳۔ حاجت کے تحت بھی یعنی جب سودی قرض نہ لینے کی شکل میں شدید مشقت یا ضرر کا اندیشہ ہو تو بھی سودی قرض لینے کی گنجائش ہے ، جیسے غیر شادی شدہ لڑکیوں کی شادی کے لئے اس پر مجبور ہو ۔مشقت کی ایسی صورتوں میں جو اجتماعی بن گئی ہوں، حکم نسبتاً زیادہ خفیف ہے۔
اشخاص و افراد کے لئے سودی قرض کب حاجت بن جاتا ہے اور کب نہیں؟ اس کا اندازہ ان کے شخصی حالات، ان کے علاقے اور خاندان کے معیارِ زندگی سے کیا جائے گا
*تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو راقم الحروف کا مقالہ "بینک انٹرسٹ، سودی قرض اور ہندوستان کی شرعی حیثیت۔ جدید فقہی مسائل حصہ دوم ۷۶ - ۲۷۳۔*
*✍🏻محمد مصروف مظاہری*
*الجواب حامداً ومصلیاً*
ابن نجیم نے اس بارے میں لکھا ہے کہ حاجت مندوں کے لئے سودی قرض لینے کی گنجائش ہے
لیکن یہ مسئلہ کہ کس حاجت کو شرعی حاجت شمار کیا جائے گا ؟ فقہاء کی صراحتوں سے اصولی طور پر اس سلسلہ میں یہ بات منقح ہوتی ہے کہ :
۱۔ عام حالات میں محض معیار زندگی کی بلندی خوب سے خوب تر کی تلاش کے پیش نظر سودی قرض لینا جائز نہیں ۔
۲۔ ضرورت یعنی ایسے حالات میں جب کہ کھانے کپڑے ، علاج وغیرہ کی بنیادی ضرورت کی فراہمی کے لئے سودی قرض کے سوا کوئی چارہ نہ رہے اور فاقہ مستی کی نوبت ہو تو سودی قرض لینا جائز ہے ۔
۳۔ حاجت کے تحت بھی یعنی جب سودی قرض نہ لینے کی شکل میں شدید مشقت یا ضرر کا اندیشہ ہو تو بھی سودی قرض لینے کی گنجائش ہے ، جیسے غیر شادی شدہ لڑکیوں کی شادی کے لئے اس پر مجبور ہو ۔مشقت کی ایسی صورتوں میں جو اجتماعی بن گئی ہوں، حکم نسبتاً زیادہ خفیف ہے۔
اشخاص و افراد کے لئے سودی قرض کب حاجت بن جاتا ہے اور کب نہیں؟ اس کا اندازہ ان کے شخصی حالات، ان کے علاقے اور خاندان کے معیارِ زندگی سے کیا جائے گا
*تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو راقم الحروف کا مقالہ "بینک انٹرسٹ، سودی قرض اور ہندوستان کی شرعی حیثیت۔ جدید فقہی مسائل حصہ دوم ۷۶ - ۲۷۳۔*
*✍🏻محمد مصروف مظاہری*
کلما کی قسم سے بچائو کی شکل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت:زید نے کچھ عرصہ پہلے ایک قسم کھائی تھی اسکی قسم یہ ہے کے=( میں کلما کی قسم کھاتا ہوں اب کبھی فلاں کام نہیں کروں گا اگر آئندہ میں نے کبھی بھی یہ کام کیا تو جب بھی میں کسی عورت سے نکاح کروں تو اسے طلاق۔) ا اسکے بعد بھی اسنے نادانی میں آ کر وہ کام کیا تو کیا اس پر قسم ہو گئی اور اگر قسم ہو گئی تو اسکے نکاح کی کیا صورت ہو گی اسکے گھر والوں نے اسکا ایک جگہ رشتہ بھی کر دیا ہے کیا وہ وہاں نکاح کر سکتا ہے اس جگہ نکاح کرنے کی کوئی صورت ہو گی برائے مہربانی آپ اس سوال کا جواب جلدی دیں
حیان بیگ قاسمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
اُردو زبان میں محض بات بات پہ لفظ کلما کی قسم کھانے سے قسم منعقد نہیں ہوتی، کیونکہ یہ غیر اﷲ کی قسم ہے، جس کا شریعت میں اعتبار نہیں ہے،
لہذا اس کی بات کا پہلا جزء اسی قبیل سے ہونے کی وجہ سے اس قسم کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔
البتہ جب اس نے یہ کہدیا کہ اگر آئندہ میں نے کبھی بھی یہ کام کیا تو جب بھی میں کسی عورت سے نکاح کروں تو اسے طلاق،،
تو اس سے اب البتہ کلما کی قسم منعقد ہوگئی۔جب بھی وہ خود سے کسی عورت سے نکاح کرے گا تو اس کی بیوی پہ طلاق ہوجائے گی ۔ یعنی اب اس کے لئے از خود کسی عورت سے شادی کرنا مشکل ہے ۔
نکاح کی صورت یہ ہے کہ وہ خود سے ایجاب و قبول نہ کرے۔بلکہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی واقف کار شخص دو شرعی گواہان کی موجودگی میں اس کا نکاح بحیثیت فضولی کسی عورت سےکرادے۔لڑکی یا اس کا ولی قبول کرلے۔فضولی لڑکا سے کہے کہ زبان سے کچھ بولے بغیر چپ چاپ مہر دین اداکردو ۔اگر لڑکا کل مہر دین یا اس کا کچھ حصہ لڑکی کو دیدے اور پہر لڑکی سے قریب ہوجائے تو اس کا نکاح صحیح ہے۔اب کلما کی قسم کا کوئی اثر اس نکاح پہ نہیں پڑے گا۔
قسم کھانے والا یہ لڑکا وہ ممنوعہ کام کرنے سے پہلے ازخود بھی نکاح کرسکتا ہے۔کیونکہ کلما کی یہ قسم ممنوعہ کام ایک مرتبہ کرلینے کے بعد منعقد ہوئی ہے۔اس سے پہلے یہ قسم منعقد نہیں ہے۔
إذا قال کل امرأۃ أتزوجہا طالق فزوجہ فضولی فأجاز بالفعل بأن ساق المہر و نحوہ لا تطلق۔( فتح القدیر، کتاب الطلاق، باب الأیمان فی الطلاق، کوئٹہ ۳/۴۴۶، زکریا ۴/۱۰۶)
وینبغی أن یجیئ إلی عالم و یقول لہ: ما حلف و احتیاجہ إلی نکاح الفضولي فیزوجہ العالم امرأۃ و یجیز بالفعل فلا یحنث۔ (البحر الرائق کوئٹہ ۴/۷، زکریا دیوبند ۴/۱۰-۱۱)
حلف لا یتزوج فزوجہ فضولی، فأجاز بالقول حنث و بالفعل (تحتہ فی الشامیۃ) کبعث المہر أو بعضہ لا یحنث بہ یفتی۔ (الدر المختار مع الشامی، کراچی ۳/۸۴۶، زکریا ۵/۶۷۲، خانیہ زکریا ۲/۲۳، و علی ہامش الہندیۃ زکریا ۲/۳۴)
حلف لا یتزوج فزوجہ فضولی فأجاز بالقول حنث و بالفعل و منہ الکتابۃ خلافا لابن سماعۃ لا یحنث بہ یفتی۔ (در مختار، کتاب الأیمان، باب الیمین فی الضرب والقتل، کراچی ۳/۸۴۶، زکریا ۵/۶۷۲، قاضیخان زکریا جدید ۲/۲۳، و علی ہامش الہندیۃ زکریا ۲/۳۴، البحر الرائق زکریا ۴/۶۲۰، کوئٹہ ۴/۳۷، فتح القدیر، دار الفکر بیروت ۴/۱۱۹،)
(مستفاد: فتاوی محمودیہ قدیم ۱۱/۱۷۵، جدید ڈابھیل ۱۳/۷۸،۹۰، ۹۱، امداد المفتیین ۶۳۹ تا ۶۴۰)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت:زید نے کچھ عرصہ پہلے ایک قسم کھائی تھی اسکی قسم یہ ہے کے=( میں کلما کی قسم کھاتا ہوں اب کبھی فلاں کام نہیں کروں گا اگر آئندہ میں نے کبھی بھی یہ کام کیا تو جب بھی میں کسی عورت سے نکاح کروں تو اسے طلاق۔) ا اسکے بعد بھی اسنے نادانی میں آ کر وہ کام کیا تو کیا اس پر قسم ہو گئی اور اگر قسم ہو گئی تو اسکے نکاح کی کیا صورت ہو گی اسکے گھر والوں نے اسکا ایک جگہ رشتہ بھی کر دیا ہے کیا وہ وہاں نکاح کر سکتا ہے اس جگہ نکاح کرنے کی کوئی صورت ہو گی برائے مہربانی آپ اس سوال کا جواب جلدی دیں
حیان بیگ قاسمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
اُردو زبان میں محض بات بات پہ لفظ کلما کی قسم کھانے سے قسم منعقد نہیں ہوتی، کیونکہ یہ غیر اﷲ کی قسم ہے، جس کا شریعت میں اعتبار نہیں ہے،
لہذا اس کی بات کا پہلا جزء اسی قبیل سے ہونے کی وجہ سے اس قسم کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔
البتہ جب اس نے یہ کہدیا کہ اگر آئندہ میں نے کبھی بھی یہ کام کیا تو جب بھی میں کسی عورت سے نکاح کروں تو اسے طلاق،،
تو اس سے اب البتہ کلما کی قسم منعقد ہوگئی۔جب بھی وہ خود سے کسی عورت سے نکاح کرے گا تو اس کی بیوی پہ طلاق ہوجائے گی ۔ یعنی اب اس کے لئے از خود کسی عورت سے شادی کرنا مشکل ہے ۔
نکاح کی صورت یہ ہے کہ وہ خود سے ایجاب و قبول نہ کرے۔بلکہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی واقف کار شخص دو شرعی گواہان کی موجودگی میں اس کا نکاح بحیثیت فضولی کسی عورت سےکرادے۔لڑکی یا اس کا ولی قبول کرلے۔فضولی لڑکا سے کہے کہ زبان سے کچھ بولے بغیر چپ چاپ مہر دین اداکردو ۔اگر لڑکا کل مہر دین یا اس کا کچھ حصہ لڑکی کو دیدے اور پہر لڑکی سے قریب ہوجائے تو اس کا نکاح صحیح ہے۔اب کلما کی قسم کا کوئی اثر اس نکاح پہ نہیں پڑے گا۔
قسم کھانے والا یہ لڑکا وہ ممنوعہ کام کرنے سے پہلے ازخود بھی نکاح کرسکتا ہے۔کیونکہ کلما کی یہ قسم ممنوعہ کام ایک مرتبہ کرلینے کے بعد منعقد ہوئی ہے۔اس سے پہلے یہ قسم منعقد نہیں ہے۔
إذا قال کل امرأۃ أتزوجہا طالق فزوجہ فضولی فأجاز بالفعل بأن ساق المہر و نحوہ لا تطلق۔( فتح القدیر، کتاب الطلاق، باب الأیمان فی الطلاق، کوئٹہ ۳/۴۴۶، زکریا ۴/۱۰۶)
وینبغی أن یجیئ إلی عالم و یقول لہ: ما حلف و احتیاجہ إلی نکاح الفضولي فیزوجہ العالم امرأۃ و یجیز بالفعل فلا یحنث۔ (البحر الرائق کوئٹہ ۴/۷، زکریا دیوبند ۴/۱۰-۱۱)
حلف لا یتزوج فزوجہ فضولی، فأجاز بالقول حنث و بالفعل (تحتہ فی الشامیۃ) کبعث المہر أو بعضہ لا یحنث بہ یفتی۔ (الدر المختار مع الشامی، کراچی ۳/۸۴۶، زکریا ۵/۶۷۲، خانیہ زکریا ۲/۲۳، و علی ہامش الہندیۃ زکریا ۲/۳۴)
حلف لا یتزوج فزوجہ فضولی فأجاز بالقول حنث و بالفعل و منہ الکتابۃ خلافا لابن سماعۃ لا یحنث بہ یفتی۔ (در مختار، کتاب الأیمان، باب الیمین فی الضرب والقتل، کراچی ۳/۸۴۶، زکریا ۵/۶۷۲، قاضیخان زکریا جدید ۲/۲۳، و علی ہامش الہندیۃ زکریا ۲/۳۴، البحر الرائق زکریا ۴/۶۲۰، کوئٹہ ۴/۳۷، فتح القدیر، دار الفکر بیروت ۴/۱۱۹،)
(مستفاد: فتاوی محمودیہ قدیم ۱۱/۱۷۵، جدید ڈابھیل ۱۳/۷۸،۹۰، ۹۱، امداد المفتیین ۶۳۹ تا ۶۴۰)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
*نیوتہ کا شرعی حکم کیا ہے؟*
*سوال* :حضرات یہ بتائیں کی نیوتہ (نیندرہ) کا شرعی حکم کیا ہے؟ کیا یہ لینا اور دینا قطعا حرم ہے؟
*الجواب حامداً ومصلیاً*
:شادی کی تقریب میں صاحبِ تقریب کوبطورِتحفہ یاہدیہ کوئی چیزیزنقدرقم دیناجس میں،نام ونموداورواپس لینےکی نیت نہ ہوجائزہےگناہ نہیں،لیکن آج کل شادی بیاہ کےموقعہ پرتقریبات میں نیوتہ کےنام سےجورسم جاری ہےاس میں متعددمفاسدپائےجاتےہیں جس کی وجہ سےفقہاءنےاسے منع کیاہے۔
ان میں کچھ مفاسدذکرکئےجاتےہیں؛۔
اس رقم کاباقاعدہ حساب رکھاجاتاہےاوردینےوالےکےہاں تقریب ہونےکی صورت میں دی ہوئی رقم کے برابربلکہ اس سےزیادہ دینےکااہتمام کیاجاتاہے،اس لحاظ سےاس رقم کوتحفہ یاہبہ نہیں کہہ سکتے،بلکہ یہ قرض ہے، اس کےقرض ہونےکی صورت میں متعددمفاسدپائےجاتےہیں۔
(الف)......بلاضرورت قرض لياجاتاہے،
(ب) ......قرض کواستطاعت کےوقت فوراًاداکرناچاہئے،لیکن اس میں دینےوالےکےہاں تقریب ہونے کاانتظارکیاجاتاہے،توبعض اوقات لینےوالےکی موت کی صورت میں یہ قرض ادائیگی کےبغیررہ جاتاہے۔
(ج) ......یہ مشروط ہوتاہے،کیونکہ جب واپس اداکیاجاتاہےتولی گئی رقم سےزائدہی واپس کیاجاتا ہے، اور اگرکم یابرابرواپس کیاجائےتواس کوبراسمجھاجاتاہے،اوریہ واضح ہوکہ لی گئی رقم سےزائددینےکی صورت میں یہ"کل قرض جرّنفعاًفهورباً"کےتحت داخل ہوکرسودہوگااورسودکالینادیناناجائزاورحرام ہے۔
(د) ......یہ رقم معاشرےاوررواج کےجبرسےلی دی جاتی ہے،اس لئےکہ اس رسم پرعمل نہ کرنےکی صورت میں طعن وتشنیع کانشانہ بنایاجاتاہے،یاکم ازکم گری ہوئی نظروں سےدیکھاجاتاہے،اوراس طرح سےکسی کی دلی خوشی کےبغیرکسی کامال حاصل کرناشرعاًجائزنہیں۔
(ھ) ......اس میں ریااورنمود ہوتی ہےجوشرعاًممنوع ہے۔
دیکھاجائےتویہ رسم عقلاًبھی درست نہیں کیونکہ شادی ،بیاہ خوشی کےمواقع ہیں،اوران خوشی کےمواقع میں صاحبِ تقریب اظہارِ مسرت کےطورپردعوت کااہتمام کرتاہے،اب اس دعوت کاعوض وصول کرناعقلِ سلیم کے نزدیک بھی باعثِ عارہے،حضرت مفتی اعظم مفتی محمدشفیع صاحب قدس سرہ العزیز تفسیر معارف القرآن میں"وَما آتَيْتُمْ مِنْ رِباً لِيَرْبُوَا فِي أَمْوالِ النَّاسِ"کی تفسیرمیں اس رسم کےبارےمیں تحریرفرماتےہیں کہ؛
"اس آیت سےایک بری رسم کی اصلاح کی گئی جوعام خاندانوں اوراہل قرابت میں چلتی ہےوہ یہ کہ عام طور پر کنبےرشتےکےلوگ جوکچھ دوسرےکودیتےہیں،اس پرنظرہوتی ہےکہ وہ بھی ہماے وقت پرکچھ اداکرے گا، خصوصاً نکاح، شادی وغیرہ کی تقریبات میں جوکچھ دیاجاتاہے،اس کی یہی حیثیت ہوتی ہےجس کوعرف میں نیوتہ کہتےہیں،اس آیت میں ہدایت کی گئی ہےکہ اہل قرابت کاجوحق پہلی آیت میں اداکرنےکاحکم دیاگیاہے،ان کویہ حق اس طرح دیا جائےکہ نہ ان پراحسان جتائےاور نہ کسی بدلہ پرنظررکھےاور جس نےبدل کی نیت سےدیااس کامال دوسرے عزیز رشتہ دارکےمال میں شامل ہونےکےبعدکچھ زیادتی لےکرآئےگاتواللہ تعالیٰ کےنزدیک اس کاکچھ درجہ اورثواب نہیں،قرآن کریم نےاس زیادتی کورباسےتعبیرکرکےاس کی قباحت کی طرف اشارہ کردیاہےکہ یہ صورت سود کی سی ہوگئی۔
(معارف القرآن ج6/750)
ان تفصیلات کی روشنی سےیہ واضح ہوگیاکہ شرعاًمذکورہ(نیوتہ کے)لین دین کی رسم ان مفاسد کےہوتے ہوئےناجائزہے،لہذاتمام مسلمانوں کوچاہئےکہ اس طرح کی رسمِ بدسےاجتناب کریں،اوراگراس نیوتہ کی مد میں کسی کےذمےکوئی قرض باقی ہوتواسے فوراًاداکریں،یاصاحبِ حق سےمعاف کرائیں،اورکسی دوسرے کےذمےلیناباقی ہوتوچاہیں تووہ وصول کرلیں،یااپنی خوشدلی سےمعاف کرکےمعاملہ پاک وصاف کردیں
(التبویب 549/39)
البتہ یہ ساری تفصیل اس وقت ہےجبکہ وہ مفاسدپائےجائیں جن کاذکرکیاگیاہے،لیکن اگرکوئی شخص اللہ تعالیٰ کی رضاکیلئے،صلہ رحمی کاحق اداکرنےکےلئے،تعاون کی نیت سے،واقعۃًاپنی دلی خوشی سےہدیہ دے،اورواپس لینےکاکوئی ارادہ نہ ہو توشرعاًاس میں کوئی حرج نہیں،وہ جائزہےبلکہ باعثِ اجروثواب ہے۔
(التبویب 1448/26 *دار الإفتاء دار العلوم کراچی* )
*سوال* :حضرات یہ بتائیں کی نیوتہ (نیندرہ) کا شرعی حکم کیا ہے؟ کیا یہ لینا اور دینا قطعا حرم ہے؟
*الجواب حامداً ومصلیاً*
:شادی کی تقریب میں صاحبِ تقریب کوبطورِتحفہ یاہدیہ کوئی چیزیزنقدرقم دیناجس میں،نام ونموداورواپس لینےکی نیت نہ ہوجائزہےگناہ نہیں،لیکن آج کل شادی بیاہ کےموقعہ پرتقریبات میں نیوتہ کےنام سےجورسم جاری ہےاس میں متعددمفاسدپائےجاتےہیں جس کی وجہ سےفقہاءنےاسے منع کیاہے۔
ان میں کچھ مفاسدذکرکئےجاتےہیں؛۔
اس رقم کاباقاعدہ حساب رکھاجاتاہےاوردینےوالےکےہاں تقریب ہونےکی صورت میں دی ہوئی رقم کے برابربلکہ اس سےزیادہ دینےکااہتمام کیاجاتاہے،اس لحاظ سےاس رقم کوتحفہ یاہبہ نہیں کہہ سکتے،بلکہ یہ قرض ہے، اس کےقرض ہونےکی صورت میں متعددمفاسدپائےجاتےہیں۔
(الف)......بلاضرورت قرض لياجاتاہے،
(ب) ......قرض کواستطاعت کےوقت فوراًاداکرناچاہئے،لیکن اس میں دینےوالےکےہاں تقریب ہونے کاانتظارکیاجاتاہے،توبعض اوقات لینےوالےکی موت کی صورت میں یہ قرض ادائیگی کےبغیررہ جاتاہے۔
(ج) ......یہ مشروط ہوتاہے،کیونکہ جب واپس اداکیاجاتاہےتولی گئی رقم سےزائدہی واپس کیاجاتا ہے، اور اگرکم یابرابرواپس کیاجائےتواس کوبراسمجھاجاتاہے،اوریہ واضح ہوکہ لی گئی رقم سےزائددینےکی صورت میں یہ"کل قرض جرّنفعاًفهورباً"کےتحت داخل ہوکرسودہوگااورسودکالینادیناناجائزاورحرام ہے۔
(د) ......یہ رقم معاشرےاوررواج کےجبرسےلی دی جاتی ہے،اس لئےکہ اس رسم پرعمل نہ کرنےکی صورت میں طعن وتشنیع کانشانہ بنایاجاتاہے،یاکم ازکم گری ہوئی نظروں سےدیکھاجاتاہے،اوراس طرح سےکسی کی دلی خوشی کےبغیرکسی کامال حاصل کرناشرعاًجائزنہیں۔
(ھ) ......اس میں ریااورنمود ہوتی ہےجوشرعاًممنوع ہے۔
دیکھاجائےتویہ رسم عقلاًبھی درست نہیں کیونکہ شادی ،بیاہ خوشی کےمواقع ہیں،اوران خوشی کےمواقع میں صاحبِ تقریب اظہارِ مسرت کےطورپردعوت کااہتمام کرتاہے،اب اس دعوت کاعوض وصول کرناعقلِ سلیم کے نزدیک بھی باعثِ عارہے،حضرت مفتی اعظم مفتی محمدشفیع صاحب قدس سرہ العزیز تفسیر معارف القرآن میں"وَما آتَيْتُمْ مِنْ رِباً لِيَرْبُوَا فِي أَمْوالِ النَّاسِ"کی تفسیرمیں اس رسم کےبارےمیں تحریرفرماتےہیں کہ؛
"اس آیت سےایک بری رسم کی اصلاح کی گئی جوعام خاندانوں اوراہل قرابت میں چلتی ہےوہ یہ کہ عام طور پر کنبےرشتےکےلوگ جوکچھ دوسرےکودیتےہیں،اس پرنظرہوتی ہےکہ وہ بھی ہماے وقت پرکچھ اداکرے گا، خصوصاً نکاح، شادی وغیرہ کی تقریبات میں جوکچھ دیاجاتاہے،اس کی یہی حیثیت ہوتی ہےجس کوعرف میں نیوتہ کہتےہیں،اس آیت میں ہدایت کی گئی ہےکہ اہل قرابت کاجوحق پہلی آیت میں اداکرنےکاحکم دیاگیاہے،ان کویہ حق اس طرح دیا جائےکہ نہ ان پراحسان جتائےاور نہ کسی بدلہ پرنظررکھےاور جس نےبدل کی نیت سےدیااس کامال دوسرے عزیز رشتہ دارکےمال میں شامل ہونےکےبعدکچھ زیادتی لےکرآئےگاتواللہ تعالیٰ کےنزدیک اس کاکچھ درجہ اورثواب نہیں،قرآن کریم نےاس زیادتی کورباسےتعبیرکرکےاس کی قباحت کی طرف اشارہ کردیاہےکہ یہ صورت سود کی سی ہوگئی۔
(معارف القرآن ج6/750)
ان تفصیلات کی روشنی سےیہ واضح ہوگیاکہ شرعاًمذکورہ(نیوتہ کے)لین دین کی رسم ان مفاسد کےہوتے ہوئےناجائزہے،لہذاتمام مسلمانوں کوچاہئےکہ اس طرح کی رسمِ بدسےاجتناب کریں،اوراگراس نیوتہ کی مد میں کسی کےذمےکوئی قرض باقی ہوتواسے فوراًاداکریں،یاصاحبِ حق سےمعاف کرائیں،اورکسی دوسرے کےذمےلیناباقی ہوتوچاہیں تووہ وصول کرلیں،یااپنی خوشدلی سےمعاف کرکےمعاملہ پاک وصاف کردیں
(التبویب 549/39)
البتہ یہ ساری تفصیل اس وقت ہےجبکہ وہ مفاسدپائےجائیں جن کاذکرکیاگیاہے،لیکن اگرکوئی شخص اللہ تعالیٰ کی رضاکیلئے،صلہ رحمی کاحق اداکرنےکےلئے،تعاون کی نیت سے،واقعۃًاپنی دلی خوشی سےہدیہ دے،اورواپس لینےکاکوئی ارادہ نہ ہو توشرعاًاس میں کوئی حرج نہیں،وہ جائزہےبلکہ باعثِ اجروثواب ہے۔
(التبویب 1448/26 *دار الإفتاء دار العلوم کراچی* )
*میت کے گھر سے ہرجمعرات یاچالیس روز تک کھانابھیجنا*
سؤال
کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جب کوئی آدمی مرجاتا ہے تو اس کے ورثاء چالیس دن تک مسجد میں کھانا بھیجتے ہیں کیامؤذن وخادم کیلئے یہ کھانا کھانا جائز ہے؟ اسی طرح جمعرات کو بھی بھیجتے ہیں تفصیل سے بیان فرمائیں۔
*الجواب بعون الملک الوھاب*
اہل میت کا میت کیلئے ایصال ثواب کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ دنوں کی تعیین کئے بغیر کوئی کارخیر کرکے (مثلاً کھانا کھلانا فقراء مساکین کو یا ان کو صدقہ وخیرات دینا)اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے کہ اس عمل کا ثواب میت کی روح کوپہنچا دیا جائے۔ اپنی طرف سے چالیس دن اور ہر جمعرات کی تعیین کو ثواب اور اس میں کھانا پکا کرمؤذن وخادم کو ہی بھیجنا لازم سمجھتے ہوئے اس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں لہٰذا یہ بدعت ہے اس سے اجتناب ضروری ہے اور مؤذن وخادم کو ایسے کھانے سے اجتناب کرنا چاہیئے۔
لمافی القرآن الکریم( الحشر:۷): وَمَا آتٰكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا۔
( الأحزاب:۲۱):لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُوْلِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُو اللهَ الخ
وفی صحیح البخاری(۱۰۸۰/۲):
حدثنا اٰدم بن ابی ایاس…… قال عبداﷲ بن مسعود ان احسن الحدیث کتاب اﷲ واحسن الھدی ھدی محمد ﷺوشرالامور محدثاتھا وان ماتوعدون لاٰت وما انتم بمعجزین۔
وفی المصنف لابن ابی شیبۃ(۲۴۰/۷):
حدثنا وکیع عن مالک بن مغول عن طلحۃ قال: قدم جریر علی عمرؓ فقال: ھل یناح قبلکم علی المیت قال لا قال فھل تجتمع النساء عندکم علی المیت ویطعم الطعام؟ قال: نعم قال تلک النیاحۃ۔
وفی سنن ابن ماجۃ(صـ۱۱۶):
حدثنا محمد بن یحی … عن جریر بن عبداﷲ قال کنا نری الاجتماع الی اھل المیت وصنعۃ الطعام من النیاحۃ۔
وفی الحاشیۃ واما صنعۃ الطعام من اھل المیت اذا کان للفقراء فلا بأس بہ لان النبیﷺ قبل دعوۃ المرأۃ التی مات زوجھا کمافی سنن ابی داؤد واما اذا کان للاغنیاء والاضیاف فممنوع ومکروہ … ای نعدوزرہ کوزر النوح۔
وفی الشامیۃ (۲۴۰/۲):
وقال ایضا: ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من اھل البیت لانہ شرع فی السرور لافی الشرور وھی بدعۃ مستقبحۃ وروی الامام احمد وابن ماجۃ باسناد صحیح عن جریر بن عبداﷲ قال ’’کنا نعد الاجتماع الی اھل المیت وصنعھم الطعام من النیاحۃ‘‘۔ وفی البزازیۃ: ویکرہ اتخاذ الطعام فی الیوم الاول وفیہ نظر والثالث وبعد الاسبوع ونقل الطعام الی القبر فی المواسم، واتخاذ الدعوۃ لقراء ۃ القراٰن وجمع الصلحاء والقراء للختم او لقراء ۃ سورۃ الانعام او الاخلاص… وقال: وھذہ الافعال کلھا للسمعۃ والریاء فیحترز عنھا لانھم لایریدون بھا وجہ اﷲ تعالیٰ۔
وفی مالا بدمنہ (صـ۱۶۱):
جناب قاضی محمد ثناء اﷲ صاحب قدس سرہ وصیت کردہ است: وبعد مردن من رسوم دنیوی مثل دھم وبستم وچھلم وششماہی وبرسینی ہیچ نکند کہ رسول اﷲﷺ زیادہ ازسہ روز ماتم کردن جائز نداشۃ اند۔
واللہ اعلم بالصواب
*✍🏻محمد مصروف مظاہری*
سؤال
کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ جب کوئی آدمی مرجاتا ہے تو اس کے ورثاء چالیس دن تک مسجد میں کھانا بھیجتے ہیں کیامؤذن وخادم کیلئے یہ کھانا کھانا جائز ہے؟ اسی طرح جمعرات کو بھی بھیجتے ہیں تفصیل سے بیان فرمائیں۔
*الجواب بعون الملک الوھاب*
اہل میت کا میت کیلئے ایصال ثواب کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ دنوں کی تعیین کئے بغیر کوئی کارخیر کرکے (مثلاً کھانا کھلانا فقراء مساکین کو یا ان کو صدقہ وخیرات دینا)اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے کہ اس عمل کا ثواب میت کی روح کوپہنچا دیا جائے۔ اپنی طرف سے چالیس دن اور ہر جمعرات کی تعیین کو ثواب اور اس میں کھانا پکا کرمؤذن وخادم کو ہی بھیجنا لازم سمجھتے ہوئے اس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں لہٰذا یہ بدعت ہے اس سے اجتناب ضروری ہے اور مؤذن وخادم کو ایسے کھانے سے اجتناب کرنا چاہیئے۔
لمافی القرآن الکریم( الحشر:۷): وَمَا آتٰكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا۔
( الأحزاب:۲۱):لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُوْلِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُو اللهَ الخ
وفی صحیح البخاری(۱۰۸۰/۲):
حدثنا اٰدم بن ابی ایاس…… قال عبداﷲ بن مسعود ان احسن الحدیث کتاب اﷲ واحسن الھدی ھدی محمد ﷺوشرالامور محدثاتھا وان ماتوعدون لاٰت وما انتم بمعجزین۔
وفی المصنف لابن ابی شیبۃ(۲۴۰/۷):
حدثنا وکیع عن مالک بن مغول عن طلحۃ قال: قدم جریر علی عمرؓ فقال: ھل یناح قبلکم علی المیت قال لا قال فھل تجتمع النساء عندکم علی المیت ویطعم الطعام؟ قال: نعم قال تلک النیاحۃ۔
وفی سنن ابن ماجۃ(صـ۱۱۶):
حدثنا محمد بن یحی … عن جریر بن عبداﷲ قال کنا نری الاجتماع الی اھل المیت وصنعۃ الطعام من النیاحۃ۔
وفی الحاشیۃ واما صنعۃ الطعام من اھل المیت اذا کان للفقراء فلا بأس بہ لان النبیﷺ قبل دعوۃ المرأۃ التی مات زوجھا کمافی سنن ابی داؤد واما اذا کان للاغنیاء والاضیاف فممنوع ومکروہ … ای نعدوزرہ کوزر النوح۔
وفی الشامیۃ (۲۴۰/۲):
وقال ایضا: ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من اھل البیت لانہ شرع فی السرور لافی الشرور وھی بدعۃ مستقبحۃ وروی الامام احمد وابن ماجۃ باسناد صحیح عن جریر بن عبداﷲ قال ’’کنا نعد الاجتماع الی اھل المیت وصنعھم الطعام من النیاحۃ‘‘۔ وفی البزازیۃ: ویکرہ اتخاذ الطعام فی الیوم الاول وفیہ نظر والثالث وبعد الاسبوع ونقل الطعام الی القبر فی المواسم، واتخاذ الدعوۃ لقراء ۃ القراٰن وجمع الصلحاء والقراء للختم او لقراء ۃ سورۃ الانعام او الاخلاص… وقال: وھذہ الافعال کلھا للسمعۃ والریاء فیحترز عنھا لانھم لایریدون بھا وجہ اﷲ تعالیٰ۔
وفی مالا بدمنہ (صـ۱۶۱):
جناب قاضی محمد ثناء اﷲ صاحب قدس سرہ وصیت کردہ است: وبعد مردن من رسوم دنیوی مثل دھم وبستم وچھلم وششماہی وبرسینی ہیچ نکند کہ رسول اﷲﷺ زیادہ ازسہ روز ماتم کردن جائز نداشۃ اند۔
واللہ اعلم بالصواب
*✍🏻محمد مصروف مظاہری*
سوال :- کیا یہ بات صحیح ہے؟ کے
قیامت کی ایک نشانی یہ ھے کہ لوگ خود اپنے ہاتھوں سے قرآن کو لکھ کر مٹائیں گے.آپ کسی کو قرآنی آیات لکھ کر سینڈ مت کرو کیونکہ قرآنی آیات ڈیلیٹ ھو جاتی ھیں. یہ میسج سب کو سینڈ کرو.خدا آپکو اس کا اجر دے گا.یہ میسج اتنا سینڈ کرو جتنا تم قرآن سے پیار کرتے ہو
برائے مہربانی وضاحت فرمائے
سائل شبیر احمد
الجواب حامدا و مصلیا
وعظ و نصیحت کیلئے قرآنی آیات،احادیث مبارکہ اور اصلاحی پیغامات(Messages) فیس بک اس واٹس گروپس میں بھیجنا بذات خود جائز ہیں،لیکن اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ ایسے(Messages) خاص طور پر احادیث مبارکہ تحقیق کئے بغیر آگے نہ بھیجے جائیں، نیزقرآن مجید کی آیت کو اس کے رسم الخط میں لکھا جائے،کسی دوسرے رسم الخط (مثلا رومن الفاظ ) میں لکھ کر بھیجنا جائز نہیں،البتہ ترجمہ لکھ کر بھیجا جا سکتا ہے۔ اور ان آیات اور احادیث کی تشریح اپنی طرف سے نہ لکھی جائے
ایسے پیغامات کو پڑھنے کے بعد یا نصیحت حاصل کرنے کے بعد موبائل سے ختم (Delete)کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ قرآن کواٹھالینے والےمضامین پرمشتمل احادیث کامصداق نہیں ہےبلکہ حدیث شریف میں قرآن کاسینوں سے اٹھانا مراد ہے، البتہ اگرطبیعت پربوجھ نہ ہوتوانہیں پڑھنےکےبعدختم کرناچاہئے،پڑھنےسےپہلےختم کرنے میں چونکہ صورۃ ًاعراض پایا جاتا ہے،اس لئے پڑھنے سے پہلے ختم نہ کرنا چاہےاوریہ حکم اس وقت ہےجب بھیجے جانے والے مضمون کے بارے میں علم ہو کہ یہ صحیح اور مستند بات ہے،اوراگر اس کا صحیح اور مستند ہونا مشکوک ہوتو پڑھے بغیربھی ختم (Delete) کیا جا سکتا ہے۔(مأخذہ فتوی دارالعلوم کراچی بتغیر :۱۴۴۹/۸)
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (2 / 196)
لا يبقى من الإسلام أي شعائره إلا اسمه أي ما يصح إطلاق اسم الإسلام عليه كلفظة الصلاة والزكاة والحج ولا يبقى من القرآن أي من علومه وآدابه إلا رسمه أي أثره الظاهر من قراءة لفظه وكتابة خطه بطريق الرسم والعادة لا على جهة تحصيل العلم والعبادة
شعب الإيمان - البيهقي –( 2 / 355)
عن بن مسعود أنه قال اقرؤوا القرآن قبل أن يرفع فإنه لا تقوم الساعة حتى
يرفع قالوا هذه المصاحف ترفع فكيف بما في صدور الناس قال يعدا عليه ليلا فيرفع من صدورهم فيصبحون فيقولون كأنا لم نعلم شيئا ثم يفيضون في الشعر
شعب الإيمان - البيهقي – (3 / 318)
عن علي بن أبي طالب، رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يوشك أن يأتي على الناس زمان لا يبقى من الإسلام إلا اسمه، ولا يبقى من القرآن إلا رسمه، مساجدهم عامرة وهي خراب من الهدى، علماؤهم شر من تحت أديم السماء من عندهم تخرج الفتنة وفيهم تعود "
واللہ تعالی اعلم بالصواب
محمدعثمان غفرلہ
دارالافتاء جامعہ رشیدیہ میانوالی پاکستان
مجلس شوری
08 دسمبر 2016
قیامت کی ایک نشانی یہ ھے کہ لوگ خود اپنے ہاتھوں سے قرآن کو لکھ کر مٹائیں گے.آپ کسی کو قرآنی آیات لکھ کر سینڈ مت کرو کیونکہ قرآنی آیات ڈیلیٹ ھو جاتی ھیں. یہ میسج سب کو سینڈ کرو.خدا آپکو اس کا اجر دے گا.یہ میسج اتنا سینڈ کرو جتنا تم قرآن سے پیار کرتے ہو
برائے مہربانی وضاحت فرمائے
سائل شبیر احمد
الجواب حامدا و مصلیا
وعظ و نصیحت کیلئے قرآنی آیات،احادیث مبارکہ اور اصلاحی پیغامات(Messages) فیس بک اس واٹس گروپس میں بھیجنا بذات خود جائز ہیں،لیکن اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ ایسے(Messages) خاص طور پر احادیث مبارکہ تحقیق کئے بغیر آگے نہ بھیجے جائیں، نیزقرآن مجید کی آیت کو اس کے رسم الخط میں لکھا جائے،کسی دوسرے رسم الخط (مثلا رومن الفاظ ) میں لکھ کر بھیجنا جائز نہیں،البتہ ترجمہ لکھ کر بھیجا جا سکتا ہے۔ اور ان آیات اور احادیث کی تشریح اپنی طرف سے نہ لکھی جائے
ایسے پیغامات کو پڑھنے کے بعد یا نصیحت حاصل کرنے کے بعد موبائل سے ختم (Delete)کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ قرآن کواٹھالینے والےمضامین پرمشتمل احادیث کامصداق نہیں ہےبلکہ حدیث شریف میں قرآن کاسینوں سے اٹھانا مراد ہے، البتہ اگرطبیعت پربوجھ نہ ہوتوانہیں پڑھنےکےبعدختم کرناچاہئے،پڑھنےسےپہلےختم کرنے میں چونکہ صورۃ ًاعراض پایا جاتا ہے،اس لئے پڑھنے سے پہلے ختم نہ کرنا چاہےاوریہ حکم اس وقت ہےجب بھیجے جانے والے مضمون کے بارے میں علم ہو کہ یہ صحیح اور مستند بات ہے،اوراگر اس کا صحیح اور مستند ہونا مشکوک ہوتو پڑھے بغیربھی ختم (Delete) کیا جا سکتا ہے۔(مأخذہ فتوی دارالعلوم کراچی بتغیر :۱۴۴۹/۸)
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (2 / 196)
لا يبقى من الإسلام أي شعائره إلا اسمه أي ما يصح إطلاق اسم الإسلام عليه كلفظة الصلاة والزكاة والحج ولا يبقى من القرآن أي من علومه وآدابه إلا رسمه أي أثره الظاهر من قراءة لفظه وكتابة خطه بطريق الرسم والعادة لا على جهة تحصيل العلم والعبادة
شعب الإيمان - البيهقي –( 2 / 355)
عن بن مسعود أنه قال اقرؤوا القرآن قبل أن يرفع فإنه لا تقوم الساعة حتى
يرفع قالوا هذه المصاحف ترفع فكيف بما في صدور الناس قال يعدا عليه ليلا فيرفع من صدورهم فيصبحون فيقولون كأنا لم نعلم شيئا ثم يفيضون في الشعر
شعب الإيمان - البيهقي – (3 / 318)
عن علي بن أبي طالب، رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يوشك أن يأتي على الناس زمان لا يبقى من الإسلام إلا اسمه، ولا يبقى من القرآن إلا رسمه، مساجدهم عامرة وهي خراب من الهدى، علماؤهم شر من تحت أديم السماء من عندهم تخرج الفتنة وفيهم تعود "
واللہ تعالی اعلم بالصواب
محمدعثمان غفرلہ
دارالافتاء جامعہ رشیدیہ میانوالی پاکستان
مجلس شوری
08 دسمبر 2016
متفرقات - دیگر
Pakistan
سوال # 64780
کیا ہر کھانے کے بعد میٹھا کھانا سنت ہے؟کیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کھانے کے بعد میٹھاکھاتے تھے اور وہ میٹھے میں کیا کیا کھاتے تھے ؟ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دن میں دودھ کتنی دفعہ اور کس کس وقت پیتے تھے؟
Published on: Jul 20, 2016
جواب # 64780
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 935-935/M=9/1437
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کھانے کے بعد میٹھا کھانا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے، اِسی طرح کھانا میٹھے سے شروع کرنے کے سلسلے میں بھی کوئی صراحت نہیں ہے البتہ فقہاء نے یہ صراحت کی ہے کہ: ”نمکین سے کھانے کی ابتداء اور انتہاء مسنون ہے“۔ اِسی وجہ سے اطباء بھی اِس سلسلے میں مختلف آراء رکھتے ہیں، بعض میٹھے اور بعض نمکین کے شروع اور آخر میں کھانے کے قائل ہیں اور البتہ حدیث سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو میٹھا پسند تھا اور میٹھے میں اُس وقت اکثرو بیشتر کھجور ہی دستیاب ہوتی تھی بلکہ اکثر غریب لوگوں کا کھانا یہی کھجور اور پانی ہوتا تھا، مختلف قسم کے کھانے پھر اُس کے ساتھ میٹھے کی نوبت بہت ہی کم آتی تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کبھی پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہی نہیں، حضرت عائشہ خود فرماتی ہیں کہ تین تین چاند ہوتے تھے، گھر میں چولہا بھی جلایا نہیں جاتا تھا، آپ پیٹ پر پتھر باندھ لیتے تھے، کبھی صرف دودھ ہی تناول فرما لیا کرتے تھے، دن میں دو مرتبہ کھجور کھانے اور دودھ پینے کا موقعہ شاید کبھی آپ کو نہیں ملا، چہ جائیکہ روزانہ دودھ پینے کا اور ایک مرتبہ یا دو مرتبہ پینے کا کو ئی وقت متعین نہیں ہوتا، جب بھی تھوڑا بہت دودھ مل جاتا، آپ پی لیا کرتے تھے، اِسی طرح جو بھی کھانے میں مل جاتا، تناول فرما لیا کرتے تھے، بہت زیادہ تکلف اور کھانے میں اہتمام نہیں فرماتے تھے، اور آپ کا یہ سب فقرو فاقہ اختیاری تھا ورنہ حق تعالی نے تو آپ سے یہ فرمایا تھا کہ: اگر آپ چاہیں، تو پہاڑوں کو سونا بنا دیا جائے“۔ جواب میں آپ نے عرض کیا: میں تو یہ چاہتا ہوں کہ ایک روز کھانا ملے تاکہ شکر اداء کروں، ایک روز بھوکا رہوں تاکہ صبر کرسکوں: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: یحب الحلواء والعسل․ مشکوة ۳۶، عن عائشة قالت: کان یأتي علینا الشہر ما نوقد فیہ نارًا، إنما ہو التمر والماء․ مشکوة ۳۶۵، ومن السنة أن یبدأ بالملح ویختم بالملح․ الہندیة ۵/۳۳۷، زکریا۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: عرض علي ربي لیجعل لي بطحاء مکة ذہباً، فقلت: لا یارب، ولکن أشبع یوماً وأجوع یوماً، فإذا جعت یوماً، تضرعت إلیک وذکر تک، وإذا شبعت، حمدتک وشکرتک․ مشکوة ۴۲۲․
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
Pakistan
سوال # 64780
کیا ہر کھانے کے بعد میٹھا کھانا سنت ہے؟کیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کھانے کے بعد میٹھاکھاتے تھے اور وہ میٹھے میں کیا کیا کھاتے تھے ؟ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دن میں دودھ کتنی دفعہ اور کس کس وقت پیتے تھے؟
Published on: Jul 20, 2016
جواب # 64780
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 935-935/M=9/1437
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کھانے کے بعد میٹھا کھانا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے، اِسی طرح کھانا میٹھے سے شروع کرنے کے سلسلے میں بھی کوئی صراحت نہیں ہے البتہ فقہاء نے یہ صراحت کی ہے کہ: ”نمکین سے کھانے کی ابتداء اور انتہاء مسنون ہے“۔ اِسی وجہ سے اطباء بھی اِس سلسلے میں مختلف آراء رکھتے ہیں، بعض میٹھے اور بعض نمکین کے شروع اور آخر میں کھانے کے قائل ہیں اور البتہ حدیث سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو میٹھا پسند تھا اور میٹھے میں اُس وقت اکثرو بیشتر کھجور ہی دستیاب ہوتی تھی بلکہ اکثر غریب لوگوں کا کھانا یہی کھجور اور پانی ہوتا تھا، مختلف قسم کے کھانے پھر اُس کے ساتھ میٹھے کی نوبت بہت ہی کم آتی تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کبھی پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہی نہیں، حضرت عائشہ خود فرماتی ہیں کہ تین تین چاند ہوتے تھے، گھر میں چولہا بھی جلایا نہیں جاتا تھا، آپ پیٹ پر پتھر باندھ لیتے تھے، کبھی صرف دودھ ہی تناول فرما لیا کرتے تھے، دن میں دو مرتبہ کھجور کھانے اور دودھ پینے کا موقعہ شاید کبھی آپ کو نہیں ملا، چہ جائیکہ روزانہ دودھ پینے کا اور ایک مرتبہ یا دو مرتبہ پینے کا کو ئی وقت متعین نہیں ہوتا، جب بھی تھوڑا بہت دودھ مل جاتا، آپ پی لیا کرتے تھے، اِسی طرح جو بھی کھانے میں مل جاتا، تناول فرما لیا کرتے تھے، بہت زیادہ تکلف اور کھانے میں اہتمام نہیں فرماتے تھے، اور آپ کا یہ سب فقرو فاقہ اختیاری تھا ورنہ حق تعالی نے تو آپ سے یہ فرمایا تھا کہ: اگر آپ چاہیں، تو پہاڑوں کو سونا بنا دیا جائے“۔ جواب میں آپ نے عرض کیا: میں تو یہ چاہتا ہوں کہ ایک روز کھانا ملے تاکہ شکر اداء کروں، ایک روز بھوکا رہوں تاکہ صبر کرسکوں: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: یحب الحلواء والعسل․ مشکوة ۳۶، عن عائشة قالت: کان یأتي علینا الشہر ما نوقد فیہ نارًا، إنما ہو التمر والماء․ مشکوة ۳۶۵، ومن السنة أن یبدأ بالملح ویختم بالملح․ الہندیة ۵/۳۳۷، زکریا۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: عرض علي ربي لیجعل لي بطحاء مکة ذہباً، فقلت: لا یارب، ولکن أشبع یوماً وأجوع یوماً، فإذا جعت یوماً، تضرعت إلیک وذکر تک، وإذا شبعت، حمدتک وشکرتک․ مشکوة ۴۲۲․
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
کھانے کے بعد میٹھا کھانا مسنون ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔السلام علیکم
کها نے کے بعد میٹھا کهانا سنت ہونے کی جو بات عوام میں مشہور ہے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
راشد جمال معروفی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
شہد اور میٹھی چیز نوش فرمانا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند فرماتے تھے ۔آپ شوق ورغبت سے اسے نوش فرماتے تھے۔
: عن عائشۃ رضی اللہ تعالی عنہا قالت : ’’ کان رسول اللہ ﷺ یحب الحلوٰی والعسل ‘‘۔ (صحیح البخاری : ۲/۸۱۷ ، کتاب الأطعمۃ ، باب الحلوٰی والعسل)
وفی ’’ فتح الباری ‘‘ : ووقع فی کتاب ’’ فقہ اللغۃ للثعالبی ‘‘ : أن حلوی النبی التی کان یحبہا ہی المجیع بالجیم وزن عظیم ، وہو تمر یعجن بلبن ، وفیہ رد علی من زعم أن المراد أنہ کان یشرب کل یوم قدح عسل یمزج بالماء ط وأما الحلوی المصنوعۃ فما کان یعرفہا ، وقیل : المراد بالحلوی الفالوذج لا المعقودۃ علی الفار ۔ (۹/۶۸۹؍۶۹۰، کتاب الأطعمۃ)
یوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں مہینوں چولہا نہیں جلتا تھا ۔دو وقت لگاتار کبھی آپ کو روٹی دستیاب نہ ہوئی۔جب جو میسر آتا نوش فرمالیتے ۔۔۔۔۔لیکن ایک موقع سےکھانے کے بعد میٹھی چیز نوش فرمانا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔حضرت عکراش بن ذویب رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا تناول فرمایا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا کے آخر میں کھجور نوش فرمایا ۔
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کھانا کے آخر میں میٹھی چیز کھانا مسنون ہے۔بعض روایتوں میں آخر میں نمک استعمال کرنے کی بات بھی مروی ہے ۔ممکن ہے کبھی یہ استعمال فرماتے ہوں اور کبھی وہ۔
بَاب مَا جَاءَ فِي التَّسْمِيَةِ فِي الطَّعَامِ
1848 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سَوِيَّةَ أَبُو الْهُذَيْلِ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عِكْرَاشٍ عَنْ أَبِيهِ عِكْرَاشِ بْنِ ذُؤَيْبٍ قَالَ بَعَثَنِي بَنُو مُرَّةَ بْنِ عُبَيْدٍ بِصَدَقَاتِ أَمْوَالِهِمْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدِمْتُ عَلَيْهِ الْمَدِينَةَ فَوَجَدْتُهُ جَالِسًا بَيْنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ قَالَ ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي فَانْطَلَقَ بِي إِلَى بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ فَقَالَ هَلْ مِنْ طَعَامٍ فَأُتِينَا بِجَفْنَةٍ كَثِيرَةِ الثَّرِيدِ وَالْوَذْرِ وَأَقْبَلْنَا نَأْكُلُ مِنْهَا فَخَبَطْتُ بِيَدِي مِنْ نَوَاحِيهَا وَأَكَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ فَقَبَضَ بِيَدِهِ الْيُسْرَى عَلَى يَدِي الْيُمْنَى ثُمَّ قَالَ يَا عِكْرَاشُ كُلْ مِنْ مَوْضِعٍ وَاحِدٍ فَإِنَّهُ طَعَامٌ وَاحِدٌ ثُمَّ أُتِينَا بِطَبَقٍ فِيهِ أَلْوَانُ الرُّطَبِ أَوْ مِنْ أَلْوَانِ الرُّطَبِ عُبَيْدُ اللَّهِ شَكَّ قَالَ فَجَعَلْتُ آكُلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ وَجَالَتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الطَّبَقِ وَقَالَ يَا عِكْرَاشُ كُلْ مِنْ حَيْثُ شِئْتَ فَإِنَّهُ غَيْرُ لَوْنٍ وَاحِدٍ ثُمَّ أُتِينَا بِمَاءٍ فَغَسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ وَمَسَحَ بِبَلَلِ كَفَّيْهِ وَجْهَهُ وَذِرَاعَيْهِ وَرَأْسَهُ وَقَالَ يَا عِكْرَاشُ هَذَا الْوُضُوءُ مِمَّا غَيَّرَتْ النَّارُ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْعَلَاءِ بْنِ الْفَضْلِ وَقَدْ تَفَرَّدَ الْعَلَاءُ بِهَذَا الْحَدِيثِ وَلَا نَعْرِفُ لِعِكْرَاشٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ
سنن الترمذي. كتاب الأطعمة
3274 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي السَّوِيَّةِ حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عِكْرَاشٍ عَنْ أَبِيهِ عِكْرَاشِ بْنِ ذُؤَيْبٍ قَالَ أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجَفْنَةٍ [ص: 1090] كَثِيرَةِ الثَّرِيدِ وَالْوَدَكِ فَأَقْبَلْنَا نَأْكُلُ مِنْهَا فَخَبَطْتُ يَدِي فِي نَوَاحِيهَا فَقَالَ يَا عِكْرَاشُ كُلْ مِنْ مَوْضِعٍ وَاحِدٍ فَإِنَّهُ طَعَامٌ وَاحِدٌ ثُمَّ أُتِينَا بِطَبَقٍ فِيهِ أَلْوَانٌ مِنْ الرُّطَبِ فَجَالَتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الطَّبَقِ وَقَالَ يَا عِكْرَاشُ كُلْ مِنْ حَيْثُ شِئْتَ فَإِنَّهُ غَيْرُ لَوْنٍ وَاحِدٍ
سنن إبن ماجة
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔السلام علیکم
کها نے کے بعد میٹھا کهانا سنت ہونے کی جو بات عوام میں مشہور ہے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
راشد جمال معروفی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
شہد اور میٹھی چیز نوش فرمانا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند فرماتے تھے ۔آپ شوق ورغبت سے اسے نوش فرماتے تھے۔
: عن عائشۃ رضی اللہ تعالی عنہا قالت : ’’ کان رسول اللہ ﷺ یحب الحلوٰی والعسل ‘‘۔ (صحیح البخاری : ۲/۸۱۷ ، کتاب الأطعمۃ ، باب الحلوٰی والعسل)
وفی ’’ فتح الباری ‘‘ : ووقع فی کتاب ’’ فقہ اللغۃ للثعالبی ‘‘ : أن حلوی النبی التی کان یحبہا ہی المجیع بالجیم وزن عظیم ، وہو تمر یعجن بلبن ، وفیہ رد علی من زعم أن المراد أنہ کان یشرب کل یوم قدح عسل یمزج بالماء ط وأما الحلوی المصنوعۃ فما کان یعرفہا ، وقیل : المراد بالحلوی الفالوذج لا المعقودۃ علی الفار ۔ (۹/۶۸۹؍۶۹۰، کتاب الأطعمۃ)
یوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں مہینوں چولہا نہیں جلتا تھا ۔دو وقت لگاتار کبھی آپ کو روٹی دستیاب نہ ہوئی۔جب جو میسر آتا نوش فرمالیتے ۔۔۔۔۔لیکن ایک موقع سےکھانے کے بعد میٹھی چیز نوش فرمانا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔حضرت عکراش بن ذویب رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا تناول فرمایا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا کے آخر میں کھجور نوش فرمایا ۔
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کھانا کے آخر میں میٹھی چیز کھانا مسنون ہے۔بعض روایتوں میں آخر میں نمک استعمال کرنے کی بات بھی مروی ہے ۔ممکن ہے کبھی یہ استعمال فرماتے ہوں اور کبھی وہ۔
بَاب مَا جَاءَ فِي التَّسْمِيَةِ فِي الطَّعَامِ
1848 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سَوِيَّةَ أَبُو الْهُذَيْلِ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عِكْرَاشٍ عَنْ أَبِيهِ عِكْرَاشِ بْنِ ذُؤَيْبٍ قَالَ بَعَثَنِي بَنُو مُرَّةَ بْنِ عُبَيْدٍ بِصَدَقَاتِ أَمْوَالِهِمْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدِمْتُ عَلَيْهِ الْمَدِينَةَ فَوَجَدْتُهُ جَالِسًا بَيْنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ قَالَ ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي فَانْطَلَقَ بِي إِلَى بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ فَقَالَ هَلْ مِنْ طَعَامٍ فَأُتِينَا بِجَفْنَةٍ كَثِيرَةِ الثَّرِيدِ وَالْوَذْرِ وَأَقْبَلْنَا نَأْكُلُ مِنْهَا فَخَبَطْتُ بِيَدِي مِنْ نَوَاحِيهَا وَأَكَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ فَقَبَضَ بِيَدِهِ الْيُسْرَى عَلَى يَدِي الْيُمْنَى ثُمَّ قَالَ يَا عِكْرَاشُ كُلْ مِنْ مَوْضِعٍ وَاحِدٍ فَإِنَّهُ طَعَامٌ وَاحِدٌ ثُمَّ أُتِينَا بِطَبَقٍ فِيهِ أَلْوَانُ الرُّطَبِ أَوْ مِنْ أَلْوَانِ الرُّطَبِ عُبَيْدُ اللَّهِ شَكَّ قَالَ فَجَعَلْتُ آكُلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ وَجَالَتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الطَّبَقِ وَقَالَ يَا عِكْرَاشُ كُلْ مِنْ حَيْثُ شِئْتَ فَإِنَّهُ غَيْرُ لَوْنٍ وَاحِدٍ ثُمَّ أُتِينَا بِمَاءٍ فَغَسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ وَمَسَحَ بِبَلَلِ كَفَّيْهِ وَجْهَهُ وَذِرَاعَيْهِ وَرَأْسَهُ وَقَالَ يَا عِكْرَاشُ هَذَا الْوُضُوءُ مِمَّا غَيَّرَتْ النَّارُ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْعَلَاءِ بْنِ الْفَضْلِ وَقَدْ تَفَرَّدَ الْعَلَاءُ بِهَذَا الْحَدِيثِ وَلَا نَعْرِفُ لِعِكْرَاشٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ
سنن الترمذي. كتاب الأطعمة
3274 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي السَّوِيَّةِ حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عِكْرَاشٍ عَنْ أَبِيهِ عِكْرَاشِ بْنِ ذُؤَيْبٍ قَالَ أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجَفْنَةٍ [ص: 1090] كَثِيرَةِ الثَّرِيدِ وَالْوَدَكِ فَأَقْبَلْنَا نَأْكُلُ مِنْهَا فَخَبَطْتُ يَدِي فِي نَوَاحِيهَا فَقَالَ يَا عِكْرَاشُ كُلْ مِنْ مَوْضِعٍ وَاحِدٍ فَإِنَّهُ طَعَامٌ وَاحِدٌ ثُمَّ أُتِينَا بِطَبَقٍ فِيهِ أَلْوَانٌ مِنْ الرُّطَبِ فَجَالَتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الطَّبَقِ وَقَالَ يَا عِكْرَاشُ كُلْ مِنْ حَيْثُ شِئْتَ فَإِنَّهُ غَيْرُ لَوْنٍ وَاحِدٍ
سنن إبن ماجة
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
*اجنیو موٹو کا حکم*
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.
*سوال*
میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اجینوموٹو جو بہت ساری کهانوں میں استعمال کیا جاتا ہے اسکا شرعی حکم کیا ہے ؟؟؟؟ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس میں خنزیر کے اجزاء کی آمیزش ہوتی ہے کیا یہ بات درست ہے ؟؟؟؟
مفصل و مدلل جواب عنایت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں.؟؟؟
الجواب وبہ التوفیق
سوال میں جن اجینو موٹو کے نام سے جس چیز کے متعلق پوچھا گیا ہے جبتک اسکے بارے میں یہ تحقیق نہ ہو کہ اس میں کوئی ناجائز چیز ڈالی گئی ہے اور وہ اپنی حالت پر برقرار ہے اس کی ماہیت تبدیل نہیں ہوئی ہے اس وقت تک کسی بھی چیز کو شرعا حرام نہیں کہا جاسکتا البتہ اگر کوئی شخص دل مطمئن نہ ہونے کی وجہ سے اسے نہ کھائے تو اسے اختیار ہے اور یہ اس کا ذاتی فعل ہوگا۔
(کتاب النوازل114/16)
ان النجاستہ لما استحالت وتبدلت اوصافہا ومعانیہا خرجت عن کونہ نجاستہ. لانہا اسم لذات موصوفتہ فتنعدم بانعدام الوصف وصارت کالخمر اذا تخللت (بدائع الصنائع 243/1.الفقہ الاسلامی وادلتہ 100/1)
واللہ اعلم بالصواب
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.
*سوال*
میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اجینوموٹو جو بہت ساری کهانوں میں استعمال کیا جاتا ہے اسکا شرعی حکم کیا ہے ؟؟؟؟ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس میں خنزیر کے اجزاء کی آمیزش ہوتی ہے کیا یہ بات درست ہے ؟؟؟؟
مفصل و مدلل جواب عنایت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں.؟؟؟
الجواب وبہ التوفیق
سوال میں جن اجینو موٹو کے نام سے جس چیز کے متعلق پوچھا گیا ہے جبتک اسکے بارے میں یہ تحقیق نہ ہو کہ اس میں کوئی ناجائز چیز ڈالی گئی ہے اور وہ اپنی حالت پر برقرار ہے اس کی ماہیت تبدیل نہیں ہوئی ہے اس وقت تک کسی بھی چیز کو شرعا حرام نہیں کہا جاسکتا البتہ اگر کوئی شخص دل مطمئن نہ ہونے کی وجہ سے اسے نہ کھائے تو اسے اختیار ہے اور یہ اس کا ذاتی فعل ہوگا۔
(کتاب النوازل114/16)
ان النجاستہ لما استحالت وتبدلت اوصافہا ومعانیہا خرجت عن کونہ نجاستہ. لانہا اسم لذات موصوفتہ فتنعدم بانعدام الوصف وصارت کالخمر اذا تخللت (بدائع الصنائع 243/1.الفقہ الاسلامی وادلتہ 100/1)
واللہ اعلم بالصواب
*مرد کا کفن*
مرد کے کفن کے مسنون کپڑے تین ہیں:
(۱) ازار: سر سے پاؤں تک
(۲) لفافہ: اس کو چادر بھی کہتے ہیں یہ ازار سے ایک ڈیڑھ ہاتھ لمبا ہوتا ہے
(۳) قمیص: یعنی کرتا بغیر آستین اور بغیر کلی کے گلے سے پیروں تک۔
ویسن فی الکفن لہ إزار وقمیص ولفافۃ۔ (درمختار)
قولہ: إزار الخ وہو من القرن إلی القدم والقمیص من أصل العنق إلی القدمین بلا دخریص وکمین واللفافۃ تزید علی ما فوق القرن والقدم۔
(شامی زکریا ۳؍۹۵، بیروت ۳؍۸۹-۹۰، ہدایہ مع الفتح ۲؍۱۱۳-۱۱۵)
_______________________________
*مرد کو کفنانے کا طریقہ*
کفنانے کا طریقہ یہ ہے کہ:
چارپائی پر پہلے لفافہ بچھائیں پھر ازار اس کے بعد کرتا۔ پھر مردے کو اس پر لے جاکر پہلے کرتا پہنادیں پھر ازار لپیٹ دیں، اس طرح کہ پہلے بائیں طرف لپیٹا جائے پھر دائیں طرف (تاکہ داہنی طرف اوپر رہے)
پھر چادر لپیٹیں، پہلے بائیں طرف پھر دائیں طرف پھر کسی پٹی وغیرہ سے پیروں اور سر اور کمر کے پاس سے کفن کو باندھ دیں؛ تاکہ راستہ میں کھل نہ جائے۔
تبسط اللفافۃ أولاً ثم یبسط الإزار علیہا ویقمص ویوضع علی الإزار ویلف یسارہ ثم یمینہ ثم اللفافۃ کذلک لیکون - إلی قولہ - ویعقد الکفن إن خیف انتشارہ الأیمن علی الأیسر۔
(درمختار مع الشامي زکریا ۳؍۹۸، بیروت ۳؍۹۳، طحطاوی ۳۱۶، بدائع ۲؍۴۰، عالمگیری ۱؍۱۶۱، ہدایہ مع الفتح ۲؍۱۱۷)
________________________
*عورت کا کفن*
عورت کے کفن کے مسنون کپڑے پانچ ہیں:
(۱) ازار
(۲) لفافہ
(۳) قمیص بغیر آستین اور کلی کے
(۴) سینہ بند پستانوں سے رانوں تک
(۵) خمار (سربند) تین ہاتھ لمبا،
*خلاصہ یہ کہ تین کپڑے تو وہی ہے جو مرد کے ہیں اور دو کپڑے (سینہ بند اور سربند) زائد ہیں۔*
ولہا درع أی قمیص وإزار وخمار ولفافۃ وخرقۃ تربط بہا ثدیاہا وبطنہا۔ (درمختار) وفی الشامی: خمار: ما تغطی بہ المرأۃ رأسہا۔ قال الشیخ اسماعیل: ومقدارہ حالۃ الموت ثلا ثۃ أذرع۔ قولہ: (وخرقۃ) والأولی أن تکون من الثدیین إلی الفخذین۔
(شامی زکریا ۳؍۹۶-۹۷، بیروت ۳؍۹۱، طحطاوی أشرفي ۵۷۸، ہندیۃ ۱؍۱۶۰، الجوہرۃ النیرۃ ۱؍۱۵۲، بہشتی زیور قدیم ۲؍۷۸)
*عورت کو کفنانے کا طریقہ*
عورت کو کفنانے کا طریقہ یہ ہے کہ:
پہلے چادر (لفافہ) بچھائیں اس کے بعد سینہ بند رکھیں، اس
کے اوپر ازار پھر قمیص۔
پھر میت کو کفن پر لے جاکر پہلے کرتا پہنائیں، اور سرکے بالوں کے دو حصے کرکے کرتے کے اوپر سینے پر ڈال دیں ایک حصہ داہنی طرف ایک حصہ بائیں طرف۔ اس کے بعد سربند کو سر اور بالوں پر ڈال دیں اس کو نہ باندھیں نہ لپیٹیں، پھر ازار لپیٹ دیں پہلے بائیں طرف پھر داہنی طرف۔ بعد ازاںسینہ بند باندھیں، پھر چادر لپیٹیں پہلے بائیں طرف پھر دائیں طرف، اس کے بعد پیر سر اور کمر کے پاس سے کفن کو پیٹوں سے باندھ دیں؛ تاکہ ہوا وغیرہ سے راستہ میں کھل نہ جائے۔
وأما المرأۃ فتبسط لہا اللفافۃ والإزار علی نحو ما بینّا للرجل، ثم توضع علی الإزار وتلبس الدرع ویجعل شعرہا ضفیرتین علی صدرہا فوق الدرع، ثم یجعل الخمار فوق ذلک، ثم یعطف الإزار واللفافۃ کما بینا فی الرجل ثم الخرقۃ بعد ذلک تربط فوق الأکفان فوق الثدیین۔ (ہندیہ ۱؍۱۶۱)
وفی الشامی: تربط الخرقۃ علی
الثدیین فوق الاکفان یحتمل أن یراد بہ تحت اللفافۃ وفوق الإزار والقمیص وہو
(شامی زکریا ۳؍۹۹، بیروت ۳؍۹۳، تاترخانیۃ زکریا ۳؍۲۹، کبیری ۵۸۱)
=======================
واللہ اعلم بالصواب
محمد مصروف مظاہری
مرد کے کفن کے مسنون کپڑے تین ہیں:
(۱) ازار: سر سے پاؤں تک
(۲) لفافہ: اس کو چادر بھی کہتے ہیں یہ ازار سے ایک ڈیڑھ ہاتھ لمبا ہوتا ہے
(۳) قمیص: یعنی کرتا بغیر آستین اور بغیر کلی کے گلے سے پیروں تک۔
ویسن فی الکفن لہ إزار وقمیص ولفافۃ۔ (درمختار)
قولہ: إزار الخ وہو من القرن إلی القدم والقمیص من أصل العنق إلی القدمین بلا دخریص وکمین واللفافۃ تزید علی ما فوق القرن والقدم۔
(شامی زکریا ۳؍۹۵، بیروت ۳؍۸۹-۹۰، ہدایہ مع الفتح ۲؍۱۱۳-۱۱۵)
_______________________________
*مرد کو کفنانے کا طریقہ*
کفنانے کا طریقہ یہ ہے کہ:
چارپائی پر پہلے لفافہ بچھائیں پھر ازار اس کے بعد کرتا۔ پھر مردے کو اس پر لے جاکر پہلے کرتا پہنادیں پھر ازار لپیٹ دیں، اس طرح کہ پہلے بائیں طرف لپیٹا جائے پھر دائیں طرف (تاکہ داہنی طرف اوپر رہے)
پھر چادر لپیٹیں، پہلے بائیں طرف پھر دائیں طرف پھر کسی پٹی وغیرہ سے پیروں اور سر اور کمر کے پاس سے کفن کو باندھ دیں؛ تاکہ راستہ میں کھل نہ جائے۔
تبسط اللفافۃ أولاً ثم یبسط الإزار علیہا ویقمص ویوضع علی الإزار ویلف یسارہ ثم یمینہ ثم اللفافۃ کذلک لیکون - إلی قولہ - ویعقد الکفن إن خیف انتشارہ الأیمن علی الأیسر۔
(درمختار مع الشامي زکریا ۳؍۹۸، بیروت ۳؍۹۳، طحطاوی ۳۱۶، بدائع ۲؍۴۰، عالمگیری ۱؍۱۶۱، ہدایہ مع الفتح ۲؍۱۱۷)
________________________
*عورت کا کفن*
عورت کے کفن کے مسنون کپڑے پانچ ہیں:
(۱) ازار
(۲) لفافہ
(۳) قمیص بغیر آستین اور کلی کے
(۴) سینہ بند پستانوں سے رانوں تک
(۵) خمار (سربند) تین ہاتھ لمبا،
*خلاصہ یہ کہ تین کپڑے تو وہی ہے جو مرد کے ہیں اور دو کپڑے (سینہ بند اور سربند) زائد ہیں۔*
ولہا درع أی قمیص وإزار وخمار ولفافۃ وخرقۃ تربط بہا ثدیاہا وبطنہا۔ (درمختار) وفی الشامی: خمار: ما تغطی بہ المرأۃ رأسہا۔ قال الشیخ اسماعیل: ومقدارہ حالۃ الموت ثلا ثۃ أذرع۔ قولہ: (وخرقۃ) والأولی أن تکون من الثدیین إلی الفخذین۔
(شامی زکریا ۳؍۹۶-۹۷، بیروت ۳؍۹۱، طحطاوی أشرفي ۵۷۸، ہندیۃ ۱؍۱۶۰، الجوہرۃ النیرۃ ۱؍۱۵۲، بہشتی زیور قدیم ۲؍۷۸)
*عورت کو کفنانے کا طریقہ*
عورت کو کفنانے کا طریقہ یہ ہے کہ:
پہلے چادر (لفافہ) بچھائیں اس کے بعد سینہ بند رکھیں، اس
کے اوپر ازار پھر قمیص۔
پھر میت کو کفن پر لے جاکر پہلے کرتا پہنائیں، اور سرکے بالوں کے دو حصے کرکے کرتے کے اوپر سینے پر ڈال دیں ایک حصہ داہنی طرف ایک حصہ بائیں طرف۔ اس کے بعد سربند کو سر اور بالوں پر ڈال دیں اس کو نہ باندھیں نہ لپیٹیں، پھر ازار لپیٹ دیں پہلے بائیں طرف پھر داہنی طرف۔ بعد ازاںسینہ بند باندھیں، پھر چادر لپیٹیں پہلے بائیں طرف پھر دائیں طرف، اس کے بعد پیر سر اور کمر کے پاس سے کفن کو پیٹوں سے باندھ دیں؛ تاکہ ہوا وغیرہ سے راستہ میں کھل نہ جائے۔
وأما المرأۃ فتبسط لہا اللفافۃ والإزار علی نحو ما بینّا للرجل، ثم توضع علی الإزار وتلبس الدرع ویجعل شعرہا ضفیرتین علی صدرہا فوق الدرع، ثم یجعل الخمار فوق ذلک، ثم یعطف الإزار واللفافۃ کما بینا فی الرجل ثم الخرقۃ بعد ذلک تربط فوق الأکفان فوق الثدیین۔ (ہندیہ ۱؍۱۶۱)
وفی الشامی: تربط الخرقۃ علی
الثدیین فوق الاکفان یحتمل أن یراد بہ تحت اللفافۃ وفوق الإزار والقمیص وہو
(شامی زکریا ۳؍۹۹، بیروت ۳؍۹۳، تاترخانیۃ زکریا ۳؍۲۹، کبیری ۵۸۱)
=======================
واللہ اعلم بالصواب
محمد مصروف مظاہری
*غسل دینے کا طریقہ*
جس تختہ پر غسل دیا جائے پہلے اس کو تین یا پانچ یا سات مرتبہ لوبان وغیرہ کی دھونی دے لیں، پھر اس پر میت کو قبلہ کی طرف رخ کرکے یا جیسے بھی آسان ہو لٹایا جائے۔
اس کے بعد میت کے بدن کے کپڑے چاک کرلیں اور ایک تہبند اس کے ستر پر ڈال کر بدن کے کپڑے اتار لیں، یہ تہبند موٹے کپڑے کا ناف سے لے کر پنڈلی تک ہوناچاہئے؛ تاکہ بھیگنے کے بعد ستر نظر نہ آئے۔
پھر بائیں ہاتھ میں دستانے پہن کر میت کو استنجاء کرائیں۔
اس کے بعد وضو کرائیں اور وضو میں نہ کلی کرائیں نہ ناک میں پانی ڈالا جائے اور نہ گٹوں تک ہاتھ دھوئے جائیں؛ ہاں البتہ کوئی کپڑا یا روئی وغیرہ انگلی پر لپیٹ کر تر کرکے ہونٹوں دانتوں اور مسوڑھوں پر پھیر دیں۔
پھر اسی طرح ناک کے سوراخوں کو بھی صاف کردیں (خاص کر اگر میت جنبی یا حائضہ ہو تو منہ اور ناک پر انگلی پھیرنے کا زیادہ اہتمام کیا جائے)
اس کے بعد ناک، منہ اور کانوں کے سوراخوں میں روئی رکھ دیں؛ تاکہ وضو وغسل کراتے ہوئے پانی اندر نہ جائے۔
وضو کرانے کے بعد ڈاڑھی وسر کے بالوں کو صابن وغیرہ سے خوب اچھی طرح دھودیں۔
پھر مردے کو بائیں کروٹ پر لٹاکر بیری کے پتوں میں پکا ہوا یا سادہ نیم گرم پانی دائیں کروٹ پر خوب اچھی طرح تین مرتبہ نیچے سے اوپر تک بہادیں کہ پانی بائیں کروٹ کے نیچے پہنچ جائے۔
پھر دائیں کروٹ پر لٹاکر اسی طرح بائیں کروٹ پر سر سے پیر تک تین مرتبہ پانی ڈالا
جائے کہ پانی دائیں کروٹ تک پہنچ جاے، نیز پانی ڈالتے ہوئے بدن کو بھی آہستہ آہستہ ملا جائے، اگر میسر ہو تو صابن بھی استعمال کریں۔
اس کے بعد میت کو ذرا بٹھانے کے قریب کردیں اور پیٹ کو اوپر سے نیچے کی طرف آہستہ آہستہ ملیں اور دبائیں اگر کچھ نجاست نکلے تو صرف اس کو پونچھ کر دھو ڈالیں، وضو وغسل لوٹانے کی ضرورت نہیں۔
اس کے بعد اس کو بائیں کروٹ پر لٹاکر کافور ملا ہوا پانی سر سے پیر تک تین دفعہ ڈالیں۔ پھر سارے بدن کو تولیہ
وغیرہ سے پونچھ دیا جائے۔
ویصب علیہ ماء مغلی بسدر أو
حرض إن تیسر، وإلا فماء خالص - إلی قولہ - وینشف فی ثوب۔
(الدر المختار مع الشامی زکریا ۳؍ ۸۷ تا ۸۹، بیروت ۳؍۸۲ تا ۸۴، طحطاوی ۳۱۰-۳۱۱، فتح القدیر ۲؍۱۰۵-۱۰۹، ہندیہ ۱؍۱۵۸، بہشتی
زیور ۲؍۵۲)
______________________
*میت پر ایک مرتبہ پانی ڈالنا واجب ہے*
مذکورہ طریقہ مسنون ہے اگر کوئی اس طرح نہ نہلائے؛ بلکہ سارے بدن پر صرف ایک مرتبہ پانی بہادے تب بھی واجب غسل ہوجائے گا۔
ویصب علیہ الماء عند کل اضطجاع ثلاث مرات لما مر، وإن زاد علیہا أو نقص جاز إذا الواجب مرۃ۔ (درمختار زکریا ۳؍۸۹، بیروت ۳؍۸۴، بدائع ۲؍۲۴، فتح القدیر ۲؍۱۰۶، بہشتی زیور ۲؍۵۳، ہندیہ ۱۵۸)
_______________________
*استنجاء دستانے پہن کر کرائیں*
میت کو استنجاء دستانے پہن کر کرانا ضروری ہے؛ کیوںکہ جس جگہ کو زندگی میں ہاتھ لگانا اور دیکھنا جائز نہیں، مرنے کے بعد بھی اس جگہ کو بلا دستانے پہنے ہاتھ لگانا اور دیکھنا جائز نہیں۔
وصورۃ استنجائہٖ أن یلف الغاسل علی یدہ خرقۃ ویغسل السوء ۃ لأن مس العورۃ حرام کالنظر إلیہا۔
(الجوہرۃ النیرۃ ۱؍۱۴۸، صغیری ۲۸۶، طحطاوی ۳۱۰، فتح القدیر ۲؍۱۰۷، شامی زکریا ۳؍۸۶، بیروت ۳؍۸۱، ہندیہ ۱؍۱۵۸، البحر الرائق زکریا ۲؍۳۰۱)
======================
واللہ اعلم بالصواب
✍🏻محمد مصروف مظاہری
جس تختہ پر غسل دیا جائے پہلے اس کو تین یا پانچ یا سات مرتبہ لوبان وغیرہ کی دھونی دے لیں، پھر اس پر میت کو قبلہ کی طرف رخ کرکے یا جیسے بھی آسان ہو لٹایا جائے۔
اس کے بعد میت کے بدن کے کپڑے چاک کرلیں اور ایک تہبند اس کے ستر پر ڈال کر بدن کے کپڑے اتار لیں، یہ تہبند موٹے کپڑے کا ناف سے لے کر پنڈلی تک ہوناچاہئے؛ تاکہ بھیگنے کے بعد ستر نظر نہ آئے۔
پھر بائیں ہاتھ میں دستانے پہن کر میت کو استنجاء کرائیں۔
اس کے بعد وضو کرائیں اور وضو میں نہ کلی کرائیں نہ ناک میں پانی ڈالا جائے اور نہ گٹوں تک ہاتھ دھوئے جائیں؛ ہاں البتہ کوئی کپڑا یا روئی وغیرہ انگلی پر لپیٹ کر تر کرکے ہونٹوں دانتوں اور مسوڑھوں پر پھیر دیں۔
پھر اسی طرح ناک کے سوراخوں کو بھی صاف کردیں (خاص کر اگر میت جنبی یا حائضہ ہو تو منہ اور ناک پر انگلی پھیرنے کا زیادہ اہتمام کیا جائے)
اس کے بعد ناک، منہ اور کانوں کے سوراخوں میں روئی رکھ دیں؛ تاکہ وضو وغسل کراتے ہوئے پانی اندر نہ جائے۔
وضو کرانے کے بعد ڈاڑھی وسر کے بالوں کو صابن وغیرہ سے خوب اچھی طرح دھودیں۔
پھر مردے کو بائیں کروٹ پر لٹاکر بیری کے پتوں میں پکا ہوا یا سادہ نیم گرم پانی دائیں کروٹ پر خوب اچھی طرح تین مرتبہ نیچے سے اوپر تک بہادیں کہ پانی بائیں کروٹ کے نیچے پہنچ جائے۔
پھر دائیں کروٹ پر لٹاکر اسی طرح بائیں کروٹ پر سر سے پیر تک تین مرتبہ پانی ڈالا
جائے کہ پانی دائیں کروٹ تک پہنچ جاے، نیز پانی ڈالتے ہوئے بدن کو بھی آہستہ آہستہ ملا جائے، اگر میسر ہو تو صابن بھی استعمال کریں۔
اس کے بعد میت کو ذرا بٹھانے کے قریب کردیں اور پیٹ کو اوپر سے نیچے کی طرف آہستہ آہستہ ملیں اور دبائیں اگر کچھ نجاست نکلے تو صرف اس کو پونچھ کر دھو ڈالیں، وضو وغسل لوٹانے کی ضرورت نہیں۔
اس کے بعد اس کو بائیں کروٹ پر لٹاکر کافور ملا ہوا پانی سر سے پیر تک تین دفعہ ڈالیں۔ پھر سارے بدن کو تولیہ
وغیرہ سے پونچھ دیا جائے۔
ویصب علیہ ماء مغلی بسدر أو
حرض إن تیسر، وإلا فماء خالص - إلی قولہ - وینشف فی ثوب۔
(الدر المختار مع الشامی زکریا ۳؍ ۸۷ تا ۸۹، بیروت ۳؍۸۲ تا ۸۴، طحطاوی ۳۱۰-۳۱۱، فتح القدیر ۲؍۱۰۵-۱۰۹، ہندیہ ۱؍۱۵۸، بہشتی
زیور ۲؍۵۲)
______________________
*میت پر ایک مرتبہ پانی ڈالنا واجب ہے*
مذکورہ طریقہ مسنون ہے اگر کوئی اس طرح نہ نہلائے؛ بلکہ سارے بدن پر صرف ایک مرتبہ پانی بہادے تب بھی واجب غسل ہوجائے گا۔
ویصب علیہ الماء عند کل اضطجاع ثلاث مرات لما مر، وإن زاد علیہا أو نقص جاز إذا الواجب مرۃ۔ (درمختار زکریا ۳؍۸۹، بیروت ۳؍۸۴، بدائع ۲؍۲۴، فتح القدیر ۲؍۱۰۶، بہشتی زیور ۲؍۵۳، ہندیہ ۱۵۸)
_______________________
*استنجاء دستانے پہن کر کرائیں*
میت کو استنجاء دستانے پہن کر کرانا ضروری ہے؛ کیوںکہ جس جگہ کو زندگی میں ہاتھ لگانا اور دیکھنا جائز نہیں، مرنے کے بعد بھی اس جگہ کو بلا دستانے پہنے ہاتھ لگانا اور دیکھنا جائز نہیں۔
وصورۃ استنجائہٖ أن یلف الغاسل علی یدہ خرقۃ ویغسل السوء ۃ لأن مس العورۃ حرام کالنظر إلیہا۔
(الجوہرۃ النیرۃ ۱؍۱۴۸، صغیری ۲۸۶، طحطاوی ۳۱۰، فتح القدیر ۲؍۱۰۷، شامی زکریا ۳؍۸۶، بیروت ۳؍۸۱، ہندیہ ۱؍۱۵۸، البحر الرائق زکریا ۲؍۳۰۱)
======================
واللہ اعلم بالصواب
✍🏻محمد مصروف مظاہری
میں اپنے اہل خانہ کے نام کا معنی معلوم کرنا چاہتاہوں جو کہ درج ذیل ہیں: طارق علی (مذکر)،خورشید خاتون (موٴنث)، محمد عادل (مذکر)، کہکشاں (موٴنث)، محمد عاصم (مذکر)، محمد شارق (مذکر)، مبین (موٴنث)، صبیحہ (موٴنث)، ثنا (موٴنث)، محمد طلحہ (مذکر)۔
Published on: Jul 16, 2008 جواب # 5998
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 877=945/ د
طارق رات کوآنے والا صبح کا ستارہ
خورشید سورج، آفتاب
عادل انصاف کرنے والا، منصف
کہکشاں بہت چھوٹے چھوٹے ستاروں کی دھار جو اندھیری راتمیں سڑک کی مانند آسمان پر دور تک گئی ہو۔
عاصم محفوظ، نگاہ رکھنے والا، باعصمت
شارق آفتاب بوقت صبح
مبین ظاہر، صاف، کھلا ہوا، صریح
صبیحہ خوبصورت
ثناء تعریف، ستائش، مدح
طلحہ جلیل القدر صحابی کا نام
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
Published on: Jul 16, 2008 جواب # 5998
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 877=945/ د
طارق رات کوآنے والا صبح کا ستارہ
خورشید سورج، آفتاب
عادل انصاف کرنے والا، منصف
کہکشاں بہت چھوٹے چھوٹے ستاروں کی دھار جو اندھیری راتمیں سڑک کی مانند آسمان پر دور تک گئی ہو۔
عاصم محفوظ، نگاہ رکھنے والا، باعصمت
شارق آفتاب بوقت صبح
مبین ظاہر، صاف، کھلا ہوا، صریح
صبیحہ خوبصورت
ثناء تعریف، ستائش، مدح
طلحہ جلیل القدر صحابی کا نام
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
*باسمہ سبحانہ وتعالی*
*الجواب حامداً ومصلیاً*
جس مریض کو یورین بیگ لگا ہوا ہو، وہ عموما ًشرعی معذور کے حکم میں ہوتا ہے، کیونکہ نالی لگی ہوئی ہونے کی وجہ سے مثانہ سے قطرہ قطرہ پیشاب نکلتا رہتا ہے۔اور اس کو اتنا وقت نہیں ملتا کہ نماز کے وقت میں سے اس کو فرائض ادا کرنے کی بھی مہلت مل سکے۔
چنانچہ
مذکورہ شخص کے لیے وضو کر کے اس تھیلی سمیت نماز ادا کرنا اور قرآن پاک کی تلاوت کرنا درست ہے۔
البتہ اس تھیلی سمیت مسجد جانے سے احتراز کیا جائے، کیونکہ اس تھیلی کی وجہ سے مسجد ناپاک ہونے کا خدشہ بھی موجود ہے،
اور دوسرے نمازیوں کو اس سے کراہت کا بھی اندیشہ ہے۔
اور اگر اس بات کی تسلی ہو کہ
اس تھیلی سے نجاست بالکل بھی باہر نکل کر مسجد کو ناپاک نہیں کرے گی،
اور مذکورہ شخص اس تھیلی کو کپڑوں میں چھپا کر رکھے،
اور خوشبو وغیرہ کا استعمال کرلے کہ بالکل بھی بدبو نہ آئے
تو مسجد میں جانے کی گنجائش ہے۔
لیکن نہ جانا اولی اور احتیاط کا تقاضا ہے۔
فقط، واللہ تعالی أعلم بالصواب
✍🏻....... کتبه: *محمد راشد ڈَسکوی عفا اللہ عنہ*
*الجواب حامداً ومصلیاً*
جس مریض کو یورین بیگ لگا ہوا ہو، وہ عموما ًشرعی معذور کے حکم میں ہوتا ہے، کیونکہ نالی لگی ہوئی ہونے کی وجہ سے مثانہ سے قطرہ قطرہ پیشاب نکلتا رہتا ہے۔اور اس کو اتنا وقت نہیں ملتا کہ نماز کے وقت میں سے اس کو فرائض ادا کرنے کی بھی مہلت مل سکے۔
چنانچہ
مذکورہ شخص کے لیے وضو کر کے اس تھیلی سمیت نماز ادا کرنا اور قرآن پاک کی تلاوت کرنا درست ہے۔
البتہ اس تھیلی سمیت مسجد جانے سے احتراز کیا جائے، کیونکہ اس تھیلی کی وجہ سے مسجد ناپاک ہونے کا خدشہ بھی موجود ہے،
اور دوسرے نمازیوں کو اس سے کراہت کا بھی اندیشہ ہے۔
اور اگر اس بات کی تسلی ہو کہ
اس تھیلی سے نجاست بالکل بھی باہر نکل کر مسجد کو ناپاک نہیں کرے گی،
اور مذکورہ شخص اس تھیلی کو کپڑوں میں چھپا کر رکھے،
اور خوشبو وغیرہ کا استعمال کرلے کہ بالکل بھی بدبو نہ آئے
تو مسجد میں جانے کی گنجائش ہے۔
لیکن نہ جانا اولی اور احتیاط کا تقاضا ہے۔
فقط، واللہ تعالی أعلم بالصواب
✍🏻....... کتبه: *محمد راشد ڈَسکوی عفا اللہ عنہ*
India
Question: 30662
کیا موبائل فون سے حدیث یا قرآن کی آیات بھیجنا جائز ہے؟(۲۲) کیا علامات یا نمبر جیسے 11 , . ' ; // وغیرہ کا استعمال کرکے قرآن لکھا جاسکتاہے؟اس طرح کی وہ عربی زبان مثلاًالف کی جگہ 1/یا لام کی جگہ 1/ وغیرہ ۔ براہ کرم، اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔
Feb 24,2011
Answer: 30662
فتوی(م):417=417-3/1432
(۱) تفریح طبع اور لہو ولعب کے طریقے پر ممنوع ہے، بے ادبی اور توہین کی صورت میں بھی ناجائز ہے، بلاضرورت جب کہ توہین نہ ہو بھی اچھا نہیں، احتیاط مناسب ہے۔
(۲) درست نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
_____________________________
*موبائل فون سے قرآنی آیات کو مٹانے کاحکم*
کیافرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگرموبائل میں قرآن پاک کی آیت یاحدیث مبارکہ میں سے کوئی حدیث وغیرہ آجائے تواس کو ڈلیٹ کرناکیساہے؟جب کہ یہودونصاریٰ کاکہناہے کہ یہ ہماری ایک سازش ہے کہ مسلمان اس طرح اپنے ہاتھوں سے قرآن مٹائیں گے، قرآن وحدیث سے مع حوالہ جات جواب عنایت فرمائیں۔
الجواب باسم الملک الوہاب
موبائل فون سے قرآن آیات اوراحادیث کوڈیلیٹ کرنا جائز ہے ۔
''ولوکان فیہ اسم اللہ تعالی اواسم النبی ۖ یجوز محوہ لیلف فیہ شیء کذا فی القنیة ولومحالوحا کتب فیہ القرآن واستعملہ فی امرالدنیا یجوز وقدوردالنہی عن محواسم اللہ تعالیٰ بالبزاق کذا فی الغرائب ومحوبعض الکتابة بالریق یجوز''…
(الہندیة:٣٢٢/٥)
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
_____________________________
*آیات قرآنیہ و احادیث نبویہ کے S.M.Sڈلیٹ کرنا*
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: عرض یہ ہے کہ آج کل موبائل میں S.M.Sکے ذریعہ قرآنی آیات و احادیث شریفہ بھیجی جاتی ہیں، لوگ ان کو پڑھ کر ڈلیٹ کردیتے ہیں، کیا یہ ڈلیٹ کرنااس کو مٹانے کے حکم میں ہوگا؟ جس کے متعلق احادیث نبویہ میں بیان کیاگیا ہے؟
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق
موبائیل پر جو ایس ایم ایس (SMS) قرآنی آیات اور احادیث شریفہ کے بھیجے جاتے ہیں، ان کو ڈلیٹ کرنا قرآن و احادیث مٹانے کے مانند نہیں ہے ؛ کیونکہ موبائل کی حیثیت ایک آئینہ کی سی ہے، جس میں عکس ظاہر ہوتا ہے، اورکسی چیز کے عکس کو مٹادینے سے اصل کو مٹادینا لازم نہیں آتا۔
ولومحا لوحا کتب فیہ القرآن واستعملہ في أمر الدنیا یجوز۔ (ہندیۃ، کتاب الکراہیۃ، الباب الخامس، جدید زکریا دیوبند۵/۳۷۳، قدیم ۵/۳۲۲)
إن المرئي في المرآۃ مثالہ لاہو۔ (شامي، کتاب النکاح، فصل في المحرمات، زکریا ۴/۱۱۰)
أن المرئي في المراء ۃ مثالہ لاہو۔ (حاشیۃ چلپي، کتاب النکاح، فصل في المحرمات، مکتبہ امدایۃ ملتان ۲/۱۰۷، زکریا ۲/۴۷۳، فتح القدیر، کتاب النکاح، فروع النظر من وراء الزجاج إلی الفرج محرم،زکریا۳/۲۱۵، دار الفکر۳/۲۲۴، کوئٹہ۳/۱۳۱)
محالوحاً یکتب فیہ القرآن واستعملہ في أمر الدنیا یجوز۔
(البحرالرائق، کتاب الطہارۃ، باب الحیض فروع، زکریا ۱/۳۵۱، کوئٹہ۱/۲۰۲)
فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اللہ عنہ
۱۲؍ محرم الحرام ۱۴۳۳ھ
(فتویٰ نمبر: الف۳۹ ؍۱۰۵۸۶) الجواب صحیح:
احقر محمد سلمان منصورپوری غفر لہ
۱۲؍ ۱؍ ۱۴۳۳ھ
______________________________
India
Question: 55059
(۱) آج کل موبائل اور لیپ ٹاپ میں قرآن کی آیات یا سورة لوگ پڑھنے کی نیت سے رکھتے ہیں ، وہ اپنے دوستوں کو ثواب کی نیت سے شیئر بھی کرتے ہیں، موبائل یا لپ ٹاپ میں وائرس آنے پر یاموبائل میں جگہ نہ ہونے پر سارا ڈاٹا ڈلٹ(مٹا) کرنا پڑتاہے ، ایسی صورت میں شرعی حکم کیا ہے؟ طرح طرح کی افواہ چل رہی ہے کہ یہ فعل ایمان سے خارج کرسکتاہے۔ (۲) ایسے موبائل بیت الخلاء میں بھی لے جاتے ہیں ، اس کے بارے میں بھی خلاصہ کریں۔ بڑی مہربانی ہوگی۔
Sep 13,2014
Answer: 55059
Fatwa ID: 37-37/Sn=11/1435-U
(۱) موبائل یا لیپ ٹاپ میں محفوظ کردہ آیاتِ قرآنیہ کو وائرس آنے یا کسی دوسری ضرورت سے ڈلیٹ کرنا شرعاً جائز ہے، اس کی وجہ سے ایمان سے نکلنے کی بات قطعاً غلط ہے، اس طرح کے افواہوں پر دھیان نہ دینا چاہیے،
یستفاد ما في رد المحتار علی الدر المختار: ولو کان فیہ اسم اللہ أو اسم النبي صلی اللہ علیہ وسلم یجوز محوہ لیلفّ فیہ شیٴ (۹/۵۵۵، ط: زکریا)
(۲) اگر آیاتِ کریمہ اسکرین پر ظاہر نہیں ہیں تو بیت الخلاء میں لے جانے کی گنجائش ہے، مستفاد از: فلو نقش اسمہ تعالی أو اسم نبیّہ صلی اللہ علیہ وسلم استحب أن یجعل الفص في کمّہ إذا دخل الخلاء (رد المحتار: ۹/۵۱۹ زکریا)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
Question: 30662
کیا موبائل فون سے حدیث یا قرآن کی آیات بھیجنا جائز ہے؟(۲۲) کیا علامات یا نمبر جیسے 11 , . ' ; // وغیرہ کا استعمال کرکے قرآن لکھا جاسکتاہے؟اس طرح کی وہ عربی زبان مثلاًالف کی جگہ 1/یا لام کی جگہ 1/ وغیرہ ۔ براہ کرم، اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔
Feb 24,2011
Answer: 30662
فتوی(م):417=417-3/1432
(۱) تفریح طبع اور لہو ولعب کے طریقے پر ممنوع ہے، بے ادبی اور توہین کی صورت میں بھی ناجائز ہے، بلاضرورت جب کہ توہین نہ ہو بھی اچھا نہیں، احتیاط مناسب ہے۔
(۲) درست نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
_____________________________
*موبائل فون سے قرآنی آیات کو مٹانے کاحکم*
کیافرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگرموبائل میں قرآن پاک کی آیت یاحدیث مبارکہ میں سے کوئی حدیث وغیرہ آجائے تواس کو ڈلیٹ کرناکیساہے؟جب کہ یہودونصاریٰ کاکہناہے کہ یہ ہماری ایک سازش ہے کہ مسلمان اس طرح اپنے ہاتھوں سے قرآن مٹائیں گے، قرآن وحدیث سے مع حوالہ جات جواب عنایت فرمائیں۔
الجواب باسم الملک الوہاب
موبائل فون سے قرآن آیات اوراحادیث کوڈیلیٹ کرنا جائز ہے ۔
''ولوکان فیہ اسم اللہ تعالی اواسم النبی ۖ یجوز محوہ لیلف فیہ شیء کذا فی القنیة ولومحالوحا کتب فیہ القرآن واستعملہ فی امرالدنیا یجوز وقدوردالنہی عن محواسم اللہ تعالیٰ بالبزاق کذا فی الغرائب ومحوبعض الکتابة بالریق یجوز''…
(الہندیة:٣٢٢/٥)
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
_____________________________
*آیات قرآنیہ و احادیث نبویہ کے S.M.Sڈلیٹ کرنا*
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: عرض یہ ہے کہ آج کل موبائل میں S.M.Sکے ذریعہ قرآنی آیات و احادیث شریفہ بھیجی جاتی ہیں، لوگ ان کو پڑھ کر ڈلیٹ کردیتے ہیں، کیا یہ ڈلیٹ کرنااس کو مٹانے کے حکم میں ہوگا؟ جس کے متعلق احادیث نبویہ میں بیان کیاگیا ہے؟
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق
موبائیل پر جو ایس ایم ایس (SMS) قرآنی آیات اور احادیث شریفہ کے بھیجے جاتے ہیں، ان کو ڈلیٹ کرنا قرآن و احادیث مٹانے کے مانند نہیں ہے ؛ کیونکہ موبائل کی حیثیت ایک آئینہ کی سی ہے، جس میں عکس ظاہر ہوتا ہے، اورکسی چیز کے عکس کو مٹادینے سے اصل کو مٹادینا لازم نہیں آتا۔
ولومحا لوحا کتب فیہ القرآن واستعملہ في أمر الدنیا یجوز۔ (ہندیۃ، کتاب الکراہیۃ، الباب الخامس، جدید زکریا دیوبند۵/۳۷۳، قدیم ۵/۳۲۲)
إن المرئي في المرآۃ مثالہ لاہو۔ (شامي، کتاب النکاح، فصل في المحرمات، زکریا ۴/۱۱۰)
أن المرئي في المراء ۃ مثالہ لاہو۔ (حاشیۃ چلپي، کتاب النکاح، فصل في المحرمات، مکتبہ امدایۃ ملتان ۲/۱۰۷، زکریا ۲/۴۷۳، فتح القدیر، کتاب النکاح، فروع النظر من وراء الزجاج إلی الفرج محرم،زکریا۳/۲۱۵، دار الفکر۳/۲۲۴، کوئٹہ۳/۱۳۱)
محالوحاً یکتب فیہ القرآن واستعملہ في أمر الدنیا یجوز۔
(البحرالرائق، کتاب الطہارۃ، باب الحیض فروع، زکریا ۱/۳۵۱، کوئٹہ۱/۲۰۲)
فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اللہ عنہ
۱۲؍ محرم الحرام ۱۴۳۳ھ
(فتویٰ نمبر: الف۳۹ ؍۱۰۵۸۶) الجواب صحیح:
احقر محمد سلمان منصورپوری غفر لہ
۱۲؍ ۱؍ ۱۴۳۳ھ
______________________________
India
Question: 55059
(۱) آج کل موبائل اور لیپ ٹاپ میں قرآن کی آیات یا سورة لوگ پڑھنے کی نیت سے رکھتے ہیں ، وہ اپنے دوستوں کو ثواب کی نیت سے شیئر بھی کرتے ہیں، موبائل یا لپ ٹاپ میں وائرس آنے پر یاموبائل میں جگہ نہ ہونے پر سارا ڈاٹا ڈلٹ(مٹا) کرنا پڑتاہے ، ایسی صورت میں شرعی حکم کیا ہے؟ طرح طرح کی افواہ چل رہی ہے کہ یہ فعل ایمان سے خارج کرسکتاہے۔ (۲) ایسے موبائل بیت الخلاء میں بھی لے جاتے ہیں ، اس کے بارے میں بھی خلاصہ کریں۔ بڑی مہربانی ہوگی۔
Sep 13,2014
Answer: 55059
Fatwa ID: 37-37/Sn=11/1435-U
(۱) موبائل یا لیپ ٹاپ میں محفوظ کردہ آیاتِ قرآنیہ کو وائرس آنے یا کسی دوسری ضرورت سے ڈلیٹ کرنا شرعاً جائز ہے، اس کی وجہ سے ایمان سے نکلنے کی بات قطعاً غلط ہے، اس طرح کے افواہوں پر دھیان نہ دینا چاہیے،
یستفاد ما في رد المحتار علی الدر المختار: ولو کان فیہ اسم اللہ أو اسم النبي صلی اللہ علیہ وسلم یجوز محوہ لیلفّ فیہ شیٴ (۹/۵۵۵، ط: زکریا)
(۲) اگر آیاتِ کریمہ اسکرین پر ظاہر نہیں ہیں تو بیت الخلاء میں لے جانے کی گنجائش ہے، مستفاد از: فلو نقش اسمہ تعالی أو اسم نبیّہ صلی اللہ علیہ وسلم استحب أن یجعل الفص في کمّہ إذا دخل الخلاء (رد المحتار: ۹/۵۱۹ زکریا)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
Forwarded from 📘مصدقہ فتاوی pdf📘
موبائل سے آیت ڈلیٹ کرنا-1.pdf
563.8 KB