ایک دفعہ ایک (مسلمان) صاحب نے ایک مربی سے مناظرہ کے دوران پوچھا کہ مرزا پنجاب کے شہر قادیان میں پیدا ہوئے اس لیے وہ پنجابی ہوئے لیکن ان پر آنے والی وحی پنجابی کے بجائے مختلف زبانوں میں آتی ہے جبکہ ہر نبی پر وحی اس کی مادری زبان میں آئی۔ پہلے تو وہ مربی ایک لمحے کےلیے خاموش ہو گیا پھر اچانک کہتا ہے کہ دراصل مرزا صاحب انٹرنیشنل نبی تھے۔
منقول
منقول
*اعتکاف والوں کی خدمت میں*
رمضان المبارک کے عشرہ اعتکاف میں عام مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اعتکاف کی نیت سے مسجدوں میں قیام اختیار کرتی ہے، گزشتہ چند سالوں سے وطن عزیز میں معمر افراد کے ساتھ ساتھ جوانوں اور نوجوانوں میں اس طرف رجحان بڑھا ہے، الحمدللہ یہ بہت حوصلہ افزا صورتحال ہے، کئی مساجد میں ائمہ حضرات اور انتظامیہ نے اعتکاف میں بیٹھنے والوں کیلئے دینی تعلیم و تربیت کی نشستیں طے کی ہوتی ہیں تاکہ اعتکاف والوں کے انفرادی اور اجتماعی اعمال کے حوالے سے تربیت ہو سکے، بعض مساجد میں اس کا اہتمام نہیں ہوتا، وہاں اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، اعتکاف میں بیٹھنے والوں کیلئے آدھے پونے گھنٹے کا ایک ایسا تعلیمی حلقہ بھی ہونا چاہیے، جس میں انہیں درج ذیل تین امور سکھائے جائیں:
*اول*: نماز!۔۔۔۔۔۔نماز دین کا ستون ہے اور رب کے سامنے اظہار بندگی کا سب سے اہم وسیلہ ہے لیکن کئی لوگوں کی نماز درست نہیں ہوتی، حقیقت یہ ہے کہ جس کی نماز ٹھیک نہیں ہو گی، اس کا کچھ بھی ٹھیک نہیں ہو گا ،اس لئے اعتکاف والوں کو مسنون طریقے سے نماز سکھانے کا اہتمام کیا جائے، نماز کے ارکان و افعال اور ان میں پڑھی جانے والی تسبیحات و مناجات کے سننے سنانے اور سیکھنے سکھانے کا باہمی مذاکرہ ہو اور اس کی عملی مشق و تربیت ہو تاکہ جن کی نماز میں غلطیاں ہیں، وہ صحیح طریقہ نماز سیکھ سکیں
*دوم*: قرآن کریم کی کم ازکم آخری پندرہ سورتیں اور خاص فضیلت والی چند آیات، مثلا، آیت الکرسی، سورۃ بقرہ کی آخری آیات وغیرہ درست تلفظ کے ساتھ اعتکاف والوں کو یاد کرائی جائیں کہ جس دل میں اللہ کے کلام کا نور ہوگا، وحشت سے دور ہوگا اور معمور ہوگا
*سوم*: مسنون دعائیں سکھانے کا بھی اہتمام کیا جائے، اوقات کی دعائیں، مکانات کی دعائیں اور معمولات کی دعائیں۔۔۔۔۔ یہ دعائیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے امت کیلئے تحفہ اور آفتوں اور فتنوں سے بچنے کا حصار ھیں۔۔۔۔۔!
یہ تین اہم دینی امور مکتب میں سیکھنے سکھانے کے ہیں، چونکہ معاشرے میں ہمارے مکتب کا نظام کمزور ہوگیا ہے، اس لیے ان تین کی طرف عشرہ اعتکاف میں خاص توجہ دی جائے، تاکہ جن افراد نے ان مبارک ساعتوں کےلیے اللہ کے گھر کو اپنایا ہے، وہاں سے فیضیاب ہوکر جائیں۔
تحریر:ابن الحسن عباسی
رمضان المبارک کے عشرہ اعتکاف میں عام مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اعتکاف کی نیت سے مسجدوں میں قیام اختیار کرتی ہے، گزشتہ چند سالوں سے وطن عزیز میں معمر افراد کے ساتھ ساتھ جوانوں اور نوجوانوں میں اس طرف رجحان بڑھا ہے، الحمدللہ یہ بہت حوصلہ افزا صورتحال ہے، کئی مساجد میں ائمہ حضرات اور انتظامیہ نے اعتکاف میں بیٹھنے والوں کیلئے دینی تعلیم و تربیت کی نشستیں طے کی ہوتی ہیں تاکہ اعتکاف والوں کے انفرادی اور اجتماعی اعمال کے حوالے سے تربیت ہو سکے، بعض مساجد میں اس کا اہتمام نہیں ہوتا، وہاں اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، اعتکاف میں بیٹھنے والوں کیلئے آدھے پونے گھنٹے کا ایک ایسا تعلیمی حلقہ بھی ہونا چاہیے، جس میں انہیں درج ذیل تین امور سکھائے جائیں:
*اول*: نماز!۔۔۔۔۔۔نماز دین کا ستون ہے اور رب کے سامنے اظہار بندگی کا سب سے اہم وسیلہ ہے لیکن کئی لوگوں کی نماز درست نہیں ہوتی، حقیقت یہ ہے کہ جس کی نماز ٹھیک نہیں ہو گی، اس کا کچھ بھی ٹھیک نہیں ہو گا ،اس لئے اعتکاف والوں کو مسنون طریقے سے نماز سکھانے کا اہتمام کیا جائے، نماز کے ارکان و افعال اور ان میں پڑھی جانے والی تسبیحات و مناجات کے سننے سنانے اور سیکھنے سکھانے کا باہمی مذاکرہ ہو اور اس کی عملی مشق و تربیت ہو تاکہ جن کی نماز میں غلطیاں ہیں، وہ صحیح طریقہ نماز سیکھ سکیں
*دوم*: قرآن کریم کی کم ازکم آخری پندرہ سورتیں اور خاص فضیلت والی چند آیات، مثلا، آیت الکرسی، سورۃ بقرہ کی آخری آیات وغیرہ درست تلفظ کے ساتھ اعتکاف والوں کو یاد کرائی جائیں کہ جس دل میں اللہ کے کلام کا نور ہوگا، وحشت سے دور ہوگا اور معمور ہوگا
*سوم*: مسنون دعائیں سکھانے کا بھی اہتمام کیا جائے، اوقات کی دعائیں، مکانات کی دعائیں اور معمولات کی دعائیں۔۔۔۔۔ یہ دعائیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے امت کیلئے تحفہ اور آفتوں اور فتنوں سے بچنے کا حصار ھیں۔۔۔۔۔!
یہ تین اہم دینی امور مکتب میں سیکھنے سکھانے کے ہیں، چونکہ معاشرے میں ہمارے مکتب کا نظام کمزور ہوگیا ہے، اس لیے ان تین کی طرف عشرہ اعتکاف میں خاص توجہ دی جائے، تاکہ جن افراد نے ان مبارک ساعتوں کےلیے اللہ کے گھر کو اپنایا ہے، وہاں سے فیضیاب ہوکر جائیں۔
تحریر:ابن الحسن عباسی
ماہنامہ_النخیل_شوال_1440ھ_بک_مارک.pdf
3.9 MB
علمِ دین ویب سائٹ اور مکتبہ جبریل کا تعارف، مقاصد، اہداف، درپیش مسائل اور ای بک ریڈر کے تعارف پر مشتمل مضمون، ملاحظہ ہو ماہنامہ النخیل شوال 1440 ھ کے شمارے میں
اردو اسلامی ،تحقیقی و ادبی رسائل میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا ماہنامہ النخیل کا تیسرا شمارہ منظر عام پر آگیا ۔۔۔گراں قدر مضامین اور افادیت سے بھر پور تحریریں ۔۔۔ایک نظر ضرور دیکھیں ۔۔۔ہندو پاک کے ممتاز اہل علم کی نگارشات ۔۔۔۔ فقہ کی مشہورِ زمانہ کتاب *المحیط البرہانی* کا جامع تعارف۔۔۔۔۔نصاب تعلیم کے حوالے سے معروف ادیب غلام جیلانی برق کی ایک دلکش نایاب تحریر۔۔۔۔فقہ حنفی کا تاریخی ارتقاء: مولانا محمد انوار خان قاسمی بستوی کا شاندار مضمون ۔۔۔۔معروف ڈیجیٹل لائبریری مکتبہ جبریل کا تعارف، مقاصد، اہداف ، اس سے استفادہ کا طریقہ کار۔۔۔اور بہت کچھ۔۔۔۔
https://drive.google.com/file/d/1YBboH0bOJCR6JxikV0m87a-xrL-5qfPg/view?usp=drivesdk
اردو اسلامی ،تحقیقی و ادبی رسائل میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا ماہنامہ النخیل کا تیسرا شمارہ منظر عام پر آگیا ۔۔۔گراں قدر مضامین اور افادیت سے بھر پور تحریریں ۔۔۔ایک نظر ضرور دیکھیں ۔۔۔ہندو پاک کے ممتاز اہل علم کی نگارشات ۔۔۔۔ فقہ کی مشہورِ زمانہ کتاب *المحیط البرہانی* کا جامع تعارف۔۔۔۔۔نصاب تعلیم کے حوالے سے معروف ادیب غلام جیلانی برق کی ایک دلکش نایاب تحریر۔۔۔۔فقہ حنفی کا تاریخی ارتقاء: مولانا محمد انوار خان قاسمی بستوی کا شاندار مضمون ۔۔۔۔معروف ڈیجیٹل لائبریری مکتبہ جبریل کا تعارف، مقاصد، اہداف ، اس سے استفادہ کا طریقہ کار۔۔۔اور بہت کچھ۔۔۔۔
https://drive.google.com/file/d/1YBboH0bOJCR6JxikV0m87a-xrL-5qfPg/view?usp=drivesdk
ماہنامہ النخیل ذیقعدہ 1440 بک مارک.pdf
3.6 MB
اردو اسلامی ،تحقیقی و ادبی رسائل میں بکثرت پڑھا جانے والا ماہنامہ النخیل کا تازہ شمارہ منظر عام پر آگیا ۔۔۔گراں قدر مضامین اور افادیت سے بھر پور تحریریں ۔۔۔ایک نظر ضرور دیکھیں ۔۔۔ اہل علم اور شائقینِ مطالعہ کے لیے *النخیل کا مطالعہ نمبر* ۔۔۔۔ہندو پاک کے ممتاز اہل علم کی نگارشات ۔۔۔۔ مولانا ابن الحسن عباسی کے قلم سے شاندار مضمون *آپ تدریس کیسے کریں؟* ۔۔۔۔ فقہ کی مشہورِ زمانہ کتاب *الاشباہ والنظائر* کا جامع تعارف۔۔۔ *مذہبی القابات اور ہماری بے اعتدالیاں* ایک عمدہ تحریر۔۔۔۔ *معاشرتی مسائل میں وقف و تکافل کا کردار* ۔۔۔۔کینسر کے علاج کا ایک حیرت انگیز آزمودہ نسخہ، حمایت علی شاعر کی شاعری اور مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری کی سخن پروری ،لطائف وظرائف۔۔۔اور بہت کچھ۔۔۔۔
ڈاؤن لوڈ لنک
https://drive.google.com/file/d/1-24IjRUSO7DfGnX4s0N3e65cuOoy8CIG/view?usp=drivesdk
ڈاؤن لوڈ لنک
https://drive.google.com/file/d/1-24IjRUSO7DfGnX4s0N3e65cuOoy8CIG/view?usp=drivesdk
مرزا قادیانی کی 2 متضاد باتیں جو کفر پر مبنی ہے اور اس کے جھوٹا ہونے کی واضح ثبوت ہے ۔۔
1۔۔پہلے کہتا ہے اس سے بکمال وضاحت ثابت ہوا کہ عیسی علیہ السلام آ نہیں سکتا۔
2۔۔۔دوسرے میں خود عیسی کا دعوی کر لیا۔۔
1۔۔پہلے کہتا ہے اس سے بکمال وضاحت ثابت ہوا کہ عیسی علیہ السلام آ نہیں سکتا۔
2۔۔۔دوسرے میں خود عیسی کا دعوی کر لیا۔۔
شاعر ختم نبوت سید امین گیلانی رح اپنی جیل کا واقعہ بیان کرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ :
ایک دن جیل کا سپاہی آیا اور مجھ سے کہا کہ آپ کو دفتر میں سپرنٹنڈنٹ صاحب بلا رہے ہیں۔ میں دفتر میں پہنچا تو دیکھا کہ میری والدہ صاحبہ، ان کے ساتھ میری اہلیہ اور بیٹے سلمان گیلانی ، جس کی عمر اس وقت سوا ڈیڑھ سال تھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ والدہ محترمہ مجھے دیکھتے ہی اٹھیں اور سینے سے لگایا، ماتھا چومنے لگیں۔ حال احوال پوچھا، ان کی آواز گلوگیر تھی۔ سپرنٹنڈنٹ نے محسوس کر لیا کہ وہ رو رہی ہیں۔ میرا بھی جی بھر آیا، آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ یہ دیکھ کر سپرنٹنڈنٹ نے کہا :اماں جی ! آپ رو رہی ہیں، بیٹے سے کہیں (ایک فارم بڑھاتے ہوئے) کہ اس پر دستخط کر دے تو اسے ساتھ لے جائیں، ابھی معافی ہو جائے گی۔ میں ابھی خود کو سنبھال رہا تھا کہ اسے جواب دے سکوں۔ والدہ صاحبہ تڑپ کر بولیں، کیسے دستخط، کہاں کی معافی، میں ایسے دس بیٹے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر قربان کر دوں۔ میرا رونا شفقت مادری ہے۔ یہ سن کر سپرنٹنڈنٹ شرمندہ ہو گیا اور میرا سینہ ٹھنڈا ہوگیا۔
(تحریک ختم ﷺ نبوت ۵۳۲/۵۳۳ از مولانا اللہ وسایاصاحب)
#ختم_نبوت ﷺ_زندہ_باد
ایک دن جیل کا سپاہی آیا اور مجھ سے کہا کہ آپ کو دفتر میں سپرنٹنڈنٹ صاحب بلا رہے ہیں۔ میں دفتر میں پہنچا تو دیکھا کہ میری والدہ صاحبہ، ان کے ساتھ میری اہلیہ اور بیٹے سلمان گیلانی ، جس کی عمر اس وقت سوا ڈیڑھ سال تھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ والدہ محترمہ مجھے دیکھتے ہی اٹھیں اور سینے سے لگایا، ماتھا چومنے لگیں۔ حال احوال پوچھا، ان کی آواز گلوگیر تھی۔ سپرنٹنڈنٹ نے محسوس کر لیا کہ وہ رو رہی ہیں۔ میرا بھی جی بھر آیا، آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ یہ دیکھ کر سپرنٹنڈنٹ نے کہا :اماں جی ! آپ رو رہی ہیں، بیٹے سے کہیں (ایک فارم بڑھاتے ہوئے) کہ اس پر دستخط کر دے تو اسے ساتھ لے جائیں، ابھی معافی ہو جائے گی۔ میں ابھی خود کو سنبھال رہا تھا کہ اسے جواب دے سکوں۔ والدہ صاحبہ تڑپ کر بولیں، کیسے دستخط، کہاں کی معافی، میں ایسے دس بیٹے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر قربان کر دوں۔ میرا رونا شفقت مادری ہے۔ یہ سن کر سپرنٹنڈنٹ شرمندہ ہو گیا اور میرا سینہ ٹھنڈا ہوگیا۔
(تحریک ختم ﷺ نبوت ۵۳۲/۵۳۳ از مولانا اللہ وسایاصاحب)
#ختم_نبوت ﷺ_زندہ_باد
*عقیدتوں کا سفر*
ماہ ذی قعد کے آخر اور ذی الحجہ کی آمد آمد پر سوئے حرم جانے والے تیزگام قافلے گردش میں آنے لگتے ہیں ، ان ایام میں حجاز سے آنے والی سحر کی گل گشت ہواوں کی خوشبو کچھ زیادہ ہی دل کے آنگن کو مہکار دیتی ہے، شاید اس لئے کہ راہ عشق و جنون کے مسافروں کے بے تاب نالوں کی گونج بھی ان لہروں میں شامل ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔۔جب " لبیک اللھم لبیک ۔۔۔۔۔۔" کی والہانہ صداوں سے حرم ، منی ، عرفات مزدلفہ اور وادی بطحا کے بام و در گونج اٹھتے ہیں ، *حرم* ۔۔۔۔۔۔۔رب ذوالجلال کی کبریائی کا مظہر، جہاں سکندری و قلندری کی مصنوعی روشیں فنا ہوکر شاہ و گدا، فقیر و امیر اور محمود و ایاز ایک ہی صف اور یکساں لباس میں کھڑے ، رب کے حضور گڑگڑاتے اور دنیوی آفتاب ذروں کا روپ دھارتے دکھائے دیتے ہیں۔۔۔جہاں *بیت اللہ* واقع ہے ، ہستی کے صنم خانوں میں وہ پہلا گھر خدا کا، جس کا ایک ایک بقعہ، تجلی گاہ جلال و جمال اور جس کا نظارہ دل پر دیوانگی وارفتگی کا ایک عالم بے خود طاری کردیتا ہے، جہاں نفس کے داغ ہرے اور شیطانی چرکوں کے زخم تازہ ہوجاتے ہیں، جذبہ بندگی چھلک پڑتا ہے، فریاد شکستگی، آہ وفغاں میں ڈھلتی ہے ، ہچکیاں بندھتی ہیں، اشکوں کا سیلاب امڈتا ہے اور خطاوں کا انبار، معصیتوں کا غبار بہتا چلا جاتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ عقیدتوں کے اس سفر کی ہر منزل ایک تاریخ ہے، *منی*۔۔۔۔۔۔۔۔اہل وفا کی لافانی یادگار *عرفات* ۔۔۔۔۔۔۔۔اہل عشق کا دشت جنون، *مزدلفہ* ۔۔۔۔۔۔۔صحرائے راز و نیاز اور *وادی بطحا* کی فضائیں انفاس قدسیہ کی امین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
حج کا سفر وحدت ملی کا بھولا ہوا سبق بھی یاد دلاتا ہے کہ چودہ سو سال پہلے اس بے آب و گیا وادی نے انسانیت کو جینے کا قرینہ سکھانے والی جو تہذیب عطا کی ، وہ کسی ایک خطہ یا ایک فرد کے ساتھ خاص نہیں بلکہ اس کے ماننے والے ایک ہی ذات کی کبریائی کے قائل ، ایک ہی کتاب اور ایک ہی نبی کی درس گاہ سے تعلیم پانے والی ایسی ملت ہے جو بتان رنگ و خون توڑنے کے بعد وجود میں آئی ، جس میں جڑنے کے بعد نہ تورانی باقی رہتا ہے، نہ ایرانی، نہ افغانی! یہ وحدت جب تک برقرار رہی ، ہماری تاریخ معجزے دکھاتی رہی ، اس کی سنگ راہ سے چشمے پھوٹتے، اس کے آگے کہسار دبتے، فاصلے سمٹتے، دریا جمتے ، طوفان رکتے، چٹان ریزہ ریزہ ہوتے اور وقت کی جابر آندھی ٹکرا کر از خود تحلیل ہوتی رہی ۔۔۔ سندھ میں قید ایک خاتون کے خط پر ہزاروں میل کے فاصلے سے محمد بن قاسم راجاوں کی خبر لینے پہنچا اور عمودیہ کے قید خانہ سے ایک عورت کے " وامعتصماہ " پکارنے پر خلیفہ معتصم بے چین ہوا اور اس وقت تک رہا ، جب تک عمودیہ فتح کر کے، گرفتار مسلمانوں کو آزادی نہیں دلائی
کشمیر نے نوے ہزار شہیدوں کی قربانی دی ، فلسطین کے چالیس لاکھ بے گھر ہوئے، افغانستان نے سولہ لاکھ شہداء کا نذرانہ پیش کیا اور احمد آباد نے دو ہزار خواتین اور معصوم بچوں کو جلتے الاوں میں زندہ جلائے جانے کا غم دیکھا ،۔۔۔۔۔ لیکن اجڑتے افغانستان، لٹتے کشمیر، پٹتے فلسطین اور جلتے احمد آباد کے زخم سہلانے کے لئے نہ کوئی محمد بن قاسم آیا ، نہ کوئی معتصم بے تاب ہوا
پس اے عقیدتوں کے مسافر! ۔۔۔۔۔۔۔۔جب آپ مدینہ منورہ پہنچیں، سید الانبیاء کے آستانہ کی رعنائی وزیبائی، واردات قلب کو ایک جہان تازہ عطا کردے ، گنبد خضرا کی سنہری جالیوں کی محبوبی و دلکشی، دامن دل کھینچ لے تو آنسوؤں کی برسات میں آقائے نامدار کے حضور، چشم ترکا سلام کہنے کے بعد امت کے آزردہ غلاموں کا یہ پیام دینا کہ ۔۔۔۔۔۔۔
حضور! دہر میں آسودگی نہیں ملتی
تلاش جس کی ہے ، وہ زندگی نہیں ملتی
ہزاروں لالہ و گل ہیں ، ریاض ہستی میں
وفا کی جس میں ہو بو ، وہ کلی نہیں ملتی
مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں
جو چیز اس میں ہے ،جنت میں بھی نہیں ملتی
جھلکتی ہے، تری امت کی آبرو اس میں
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں
(آپ طرابلس کی جگہ عالم اسلام کی آج کی کسی شہادت گاہ کا نام لے سکتے ہیں )
ابن الحسن عباسی
ماہ ذی قعد کے آخر اور ذی الحجہ کی آمد آمد پر سوئے حرم جانے والے تیزگام قافلے گردش میں آنے لگتے ہیں ، ان ایام میں حجاز سے آنے والی سحر کی گل گشت ہواوں کی خوشبو کچھ زیادہ ہی دل کے آنگن کو مہکار دیتی ہے، شاید اس لئے کہ راہ عشق و جنون کے مسافروں کے بے تاب نالوں کی گونج بھی ان لہروں میں شامل ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔۔جب " لبیک اللھم لبیک ۔۔۔۔۔۔" کی والہانہ صداوں سے حرم ، منی ، عرفات مزدلفہ اور وادی بطحا کے بام و در گونج اٹھتے ہیں ، *حرم* ۔۔۔۔۔۔۔رب ذوالجلال کی کبریائی کا مظہر، جہاں سکندری و قلندری کی مصنوعی روشیں فنا ہوکر شاہ و گدا، فقیر و امیر اور محمود و ایاز ایک ہی صف اور یکساں لباس میں کھڑے ، رب کے حضور گڑگڑاتے اور دنیوی آفتاب ذروں کا روپ دھارتے دکھائے دیتے ہیں۔۔۔جہاں *بیت اللہ* واقع ہے ، ہستی کے صنم خانوں میں وہ پہلا گھر خدا کا، جس کا ایک ایک بقعہ، تجلی گاہ جلال و جمال اور جس کا نظارہ دل پر دیوانگی وارفتگی کا ایک عالم بے خود طاری کردیتا ہے، جہاں نفس کے داغ ہرے اور شیطانی چرکوں کے زخم تازہ ہوجاتے ہیں، جذبہ بندگی چھلک پڑتا ہے، فریاد شکستگی، آہ وفغاں میں ڈھلتی ہے ، ہچکیاں بندھتی ہیں، اشکوں کا سیلاب امڈتا ہے اور خطاوں کا انبار، معصیتوں کا غبار بہتا چلا جاتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ عقیدتوں کے اس سفر کی ہر منزل ایک تاریخ ہے، *منی*۔۔۔۔۔۔۔۔اہل وفا کی لافانی یادگار *عرفات* ۔۔۔۔۔۔۔۔اہل عشق کا دشت جنون، *مزدلفہ* ۔۔۔۔۔۔۔صحرائے راز و نیاز اور *وادی بطحا* کی فضائیں انفاس قدسیہ کی امین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
حج کا سفر وحدت ملی کا بھولا ہوا سبق بھی یاد دلاتا ہے کہ چودہ سو سال پہلے اس بے آب و گیا وادی نے انسانیت کو جینے کا قرینہ سکھانے والی جو تہذیب عطا کی ، وہ کسی ایک خطہ یا ایک فرد کے ساتھ خاص نہیں بلکہ اس کے ماننے والے ایک ہی ذات کی کبریائی کے قائل ، ایک ہی کتاب اور ایک ہی نبی کی درس گاہ سے تعلیم پانے والی ایسی ملت ہے جو بتان رنگ و خون توڑنے کے بعد وجود میں آئی ، جس میں جڑنے کے بعد نہ تورانی باقی رہتا ہے، نہ ایرانی، نہ افغانی! یہ وحدت جب تک برقرار رہی ، ہماری تاریخ معجزے دکھاتی رہی ، اس کی سنگ راہ سے چشمے پھوٹتے، اس کے آگے کہسار دبتے، فاصلے سمٹتے، دریا جمتے ، طوفان رکتے، چٹان ریزہ ریزہ ہوتے اور وقت کی جابر آندھی ٹکرا کر از خود تحلیل ہوتی رہی ۔۔۔ سندھ میں قید ایک خاتون کے خط پر ہزاروں میل کے فاصلے سے محمد بن قاسم راجاوں کی خبر لینے پہنچا اور عمودیہ کے قید خانہ سے ایک عورت کے " وامعتصماہ " پکارنے پر خلیفہ معتصم بے چین ہوا اور اس وقت تک رہا ، جب تک عمودیہ فتح کر کے، گرفتار مسلمانوں کو آزادی نہیں دلائی
کشمیر نے نوے ہزار شہیدوں کی قربانی دی ، فلسطین کے چالیس لاکھ بے گھر ہوئے، افغانستان نے سولہ لاکھ شہداء کا نذرانہ پیش کیا اور احمد آباد نے دو ہزار خواتین اور معصوم بچوں کو جلتے الاوں میں زندہ جلائے جانے کا غم دیکھا ،۔۔۔۔۔ لیکن اجڑتے افغانستان، لٹتے کشمیر، پٹتے فلسطین اور جلتے احمد آباد کے زخم سہلانے کے لئے نہ کوئی محمد بن قاسم آیا ، نہ کوئی معتصم بے تاب ہوا
پس اے عقیدتوں کے مسافر! ۔۔۔۔۔۔۔۔جب آپ مدینہ منورہ پہنچیں، سید الانبیاء کے آستانہ کی رعنائی وزیبائی، واردات قلب کو ایک جہان تازہ عطا کردے ، گنبد خضرا کی سنہری جالیوں کی محبوبی و دلکشی، دامن دل کھینچ لے تو آنسوؤں کی برسات میں آقائے نامدار کے حضور، چشم ترکا سلام کہنے کے بعد امت کے آزردہ غلاموں کا یہ پیام دینا کہ ۔۔۔۔۔۔۔
حضور! دہر میں آسودگی نہیں ملتی
تلاش جس کی ہے ، وہ زندگی نہیں ملتی
ہزاروں لالہ و گل ہیں ، ریاض ہستی میں
وفا کی جس میں ہو بو ، وہ کلی نہیں ملتی
مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں
جو چیز اس میں ہے ،جنت میں بھی نہیں ملتی
جھلکتی ہے، تری امت کی آبرو اس میں
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں
(آپ طرابلس کی جگہ عالم اسلام کی آج کی کسی شہادت گاہ کا نام لے سکتے ہیں )
ابن الحسن عباسی
خاتم النبیین
قادیانی موقف اور اسکا رد
بیان : متکلم اسلام شیخ طریقت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب دامت برکاتہم العالیہ
امیر مرکزیہ عالمی اتحاد اہل السنۃ والجماعۃ
قادیانی موقف اور اسکا رد
بیان : متکلم اسلام شیخ طریقت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب دامت برکاتہم العالیہ
امیر مرکزیہ عالمی اتحاد اہل السنۃ والجماعۃ
سیدنا عیسی علیہ السلام کا نزول
بیان : متکلم اسلام شیخ طریقت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب دامت برکاتہم العالیہ
امیر مرکزیہ عالمی اتحاد اہل السنۃ والجماعۃ
بیان : متکلم اسلام شیخ طریقت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب دامت برکاتہم العالیہ
امیر مرکزیہ عالمی اتحاد اہل السنۃ والجماعۃ
قادیانیوں کے خلاف پہلا فتویٰ
مرزا غلام احمد قادیانی نے اب پرپرزے نکالے۔ جماعت سازی کے لئے۱۳۰۱ھ مطابق ۱۸۸۴ء میں لدھیانہ آیا تو مولانا محمد لدھیانویؒ، مولانا عبداﷲ لدھیانویؒ اور مولانا محمد اسمٰعیل لدھیانویؒ نے فتویٰ دیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی مجدّد نہیں بلکہ زندیق اور ملحد ہے۔
(فتاویٰ قادریہ ص۳)
اﷲ رب العزت کا کرم تو دیکھئے! سب سے پہلے دیوبند مکتبہ فکر کے علمائے کرام کی جماعت کو مرزا غلام احمد قادیانی پر کفر کا فتو یٰ دینے کی توفیق ہوئی۔ یہ مولانا محمد لدھیانویؒ معروف احرار رہنما مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ کے دادا تھے۔ ان حضرات کا فتویٰ مرزا قادیانی کے کفر کو الم نشرح کرنے کے لئے کھڑے پانی میں پتھر پھینکنے کے مترادف ہوا۔ اس کی لہریں اٹھیں۔ حالات نے انگڑائی لی پھر:
لوگ ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا
یہ اس زمانہ کی بات ہے جب مولانا محمد حسین بٹالوی وغیرہ مرزا قادیانی کی کتب پر مثبت رائے کا اظہار کررہے تھے۔ ۱۸۹۰ء میں انہوں نے بھی مرزا قادیانی کے خلاف فتویٰ دیا۔ مرزا قادیانی نے انگریز کے ایما پر رسائل و کتب شائع کیں۔ ہندوستان کے علمائے کرام حسب ضرورت اس کی تردید میں کوشاں رہے۔
مرزا غلام احمد قادیانی نے اب پرپرزے نکالے۔ جماعت سازی کے لئے۱۳۰۱ھ مطابق ۱۸۸۴ء میں لدھیانہ آیا تو مولانا محمد لدھیانویؒ، مولانا عبداﷲ لدھیانویؒ اور مولانا محمد اسمٰعیل لدھیانویؒ نے فتویٰ دیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی مجدّد نہیں بلکہ زندیق اور ملحد ہے۔
(فتاویٰ قادریہ ص۳)
اﷲ رب العزت کا کرم تو دیکھئے! سب سے پہلے دیوبند مکتبہ فکر کے علمائے کرام کی جماعت کو مرزا غلام احمد قادیانی پر کفر کا فتو یٰ دینے کی توفیق ہوئی۔ یہ مولانا محمد لدھیانویؒ معروف احرار رہنما مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ کے دادا تھے۔ ان حضرات کا فتویٰ مرزا قادیانی کے کفر کو الم نشرح کرنے کے لئے کھڑے پانی میں پتھر پھینکنے کے مترادف ہوا۔ اس کی لہریں اٹھیں۔ حالات نے انگڑائی لی پھر:
لوگ ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا
یہ اس زمانہ کی بات ہے جب مولانا محمد حسین بٹالوی وغیرہ مرزا قادیانی کی کتب پر مثبت رائے کا اظہار کررہے تھے۔ ۱۸۹۰ء میں انہوں نے بھی مرزا قادیانی کے خلاف فتویٰ دیا۔ مرزا قادیانی نے انگریز کے ایما پر رسائل و کتب شائع کیں۔ ہندوستان کے علمائے کرام حسب ضرورت اس کی تردید میں کوشاں رہے۔
قادیانیوں کے خلاف پہلا باضابطہ فتویٰ علمائے دیوبند نے دیا تھا
انتہائی قابلِ فخر
قارئین کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ باضابطہ فتویٰ مرتب کرکے متحدہ ہندوستان کے تمام سرکردہ جید علمائے کرام سے فتویٰ لینے کی سعادت بھی اﷲ تعالیٰ نے دیوبند کو نصیب فرمائی۔ دارالعلوم دیوبند کے مدرس مولانا محمد سہولؒ نے ۱۲؍ صفر ۱۳۳۱ھ کو فتویٰ مرتب کیا کہ:
۱… مرزا غلام احمد قادیانی مرتد، زندیق، ملحد اور کافر ہے۔
۲… یہ کہ اس کے ماننے والوں سے اسلامی معاملہ کرنا شرعاً ہرگز درست نہیں۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ مرزائیوں کو سلام نہ کریں۔ ان سے رشتہ ناتہ نہ کریں۔ ان کا ذبیحہ نہ کھائیں۔ جس طرح یہود، ہنود، نصاریٰ سے اہل اسلام مذہباً علیحدہ رہتے ہیں۔ اسی طرح مرزائیوں سے بھی علیحدہ رہیں۔ جس طرح بول و براز، سانپ اور بچھو سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ اس سے زیادہ مرزائیوں سے پرہیز کرنا شرعاً ضروری اور لازمی ہے۔
۳… مرزائیوں کے پیچھے نماز پڑھنا ایسے ہے۔ جیسے یہود و نصاریٰ اور ہندو کے پیچھے نماز پڑھنا۔
۴… مرزائی مسلمانوں کی مساجد میں نہیں آسکتے۔ مرزائیوں کو مسلمانوں کی مساجد میں عبادت کی اجازت دینا ایسے ہے۔ جیسے ہندوؤں کو مسجد میں پوجا پاٹ کی اجازت دینا۔
۵… مرزا غلام احمد قادیانی، قادیان (مشرقی پنجاب ہندوستان) کا رہائشی تھا۔ اس لئے اس کے پیروکاروں کو ’’قادیانی‘‘ یا ’’فرقہ غلامیہ‘‘ بلکہ جماعت شیطانیہ ابلیسیہ کہا جائے۔
اس فتویٰ پر دستخط کرنے والوں میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ، حضرت مولانا مفتی محمد حسنؒ، حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ، حضرت مولانا سید مرتضیٰ حسن چاند پوریؒ، مولانا عبدالسمیع، حضرت مفتی عزیزالرحمن دیوبندیؒ، حضرت مولانا محمد ابراہیم بلیاویؒ، حضرت مولانا اعزاز علی دیوبندیؒ، حضرت مولانا حبیب الرحمن ایسے دیگر اکابر علمائے کرام شامل تھے جن کا تعلق دیوبند، سہارنپور، دہلی، کلکتہ، ڈھاکہ، پشاور، رام پور، راولپنڈی، ہزارہ، مراد آباد، وزیر آباد، ملتان اور میانوالی وغیرہ سے تھا۔ آپ اس سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ کتنا وقیع اور جاندار فتویٰ تھا۔ آج سو سال کے بعد جبکہ قادیانیت کا کفر عیاں و عریاں ہے۔ بایں ہمہ اس فتویٰ میں ذرہ برابر زیادتی کرنا ممکن نہیں۔ ان اکابر نے سوچ سمجھ کر اتنا جاندار فتویٰ مرتب کیا۔ اس میں تمام جزئیات کو شامل کرکے اتنا جامع بنادیا کہ ایک صدی گزرنے کے باوجود اس کی آب و تاب و جامعیت جوں کی توں باقی ہے۔
اس کے بعد ۱۳۳۲ھ میں دارالعلوم دیوبند سے ایک فتویٰ جاری ہوا جس میں قادیانیوں سے رشتہ ناتہ کو حرام قرار دیا گیا تھا۔ یہ فتویٰ حضرت مولانا مفتی عزیزا لرحمن صاحب کا مرتب کردہ ہے۔ اس پر دیوبند سے حضرت مولانا سید اصغر حسینؒ، حضرت مولانا رسول خانؒ، حضرت مولانا محمد ادریس کاندہلویؒ، حضرت مولانا گل محمد خانؒ، سہارنپور سے مظاہرالعلوم کے مہتمم حضرت مولانا عنایت الٰہیؒ، حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ، حضرت مولانا عبدالرحمن کامل پوریؒ، حضرت مولانا عبداللطیفؒ، حضرت مولانا بدر عالم میرٹھیؒ، تھانہ بھون سے حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ، رائے پور سے حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوریؒ، حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ، دہلی سے حضرت مولانا مفتی کفایت اﷲ دہلویؒ، غرض کلکتہ، بنارس، لکھنؤ، آگرہ، مرادآباد، لاہور، امرتسر، لدھیانہ، پشاور، راولپنڈی، ملتان، ہوشیارپور، گورداسپور، جہلم، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، حیدرآباد دکن، بھوپال، رام پور، وغیرہ سے سینکڑوں علمائے کرام کے دستخط ہیں۔ اس فتویٰ کا نام ’’فتویٰ تکفیر قادیان‘‘ ہے۔ یہ کتب خانہ اعزازیہ دیوبند سے شائع ہوا۔
انتہائی قابلِ فخر
قارئین کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ باضابطہ فتویٰ مرتب کرکے متحدہ ہندوستان کے تمام سرکردہ جید علمائے کرام سے فتویٰ لینے کی سعادت بھی اﷲ تعالیٰ نے دیوبند کو نصیب فرمائی۔ دارالعلوم دیوبند کے مدرس مولانا محمد سہولؒ نے ۱۲؍ صفر ۱۳۳۱ھ کو فتویٰ مرتب کیا کہ:
۱… مرزا غلام احمد قادیانی مرتد، زندیق، ملحد اور کافر ہے۔
۲… یہ کہ اس کے ماننے والوں سے اسلامی معاملہ کرنا شرعاً ہرگز درست نہیں۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ مرزائیوں کو سلام نہ کریں۔ ان سے رشتہ ناتہ نہ کریں۔ ان کا ذبیحہ نہ کھائیں۔ جس طرح یہود، ہنود، نصاریٰ سے اہل اسلام مذہباً علیحدہ رہتے ہیں۔ اسی طرح مرزائیوں سے بھی علیحدہ رہیں۔ جس طرح بول و براز، سانپ اور بچھو سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ اس سے زیادہ مرزائیوں سے پرہیز کرنا شرعاً ضروری اور لازمی ہے۔
۳… مرزائیوں کے پیچھے نماز پڑھنا ایسے ہے۔ جیسے یہود و نصاریٰ اور ہندو کے پیچھے نماز پڑھنا۔
۴… مرزائی مسلمانوں کی مساجد میں نہیں آسکتے۔ مرزائیوں کو مسلمانوں کی مساجد میں عبادت کی اجازت دینا ایسے ہے۔ جیسے ہندوؤں کو مسجد میں پوجا پاٹ کی اجازت دینا۔
۵… مرزا غلام احمد قادیانی، قادیان (مشرقی پنجاب ہندوستان) کا رہائشی تھا۔ اس لئے اس کے پیروکاروں کو ’’قادیانی‘‘ یا ’’فرقہ غلامیہ‘‘ بلکہ جماعت شیطانیہ ابلیسیہ کہا جائے۔
اس فتویٰ پر دستخط کرنے والوں میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ، حضرت مولانا مفتی محمد حسنؒ، حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ، حضرت مولانا سید مرتضیٰ حسن چاند پوریؒ، مولانا عبدالسمیع، حضرت مفتی عزیزالرحمن دیوبندیؒ، حضرت مولانا محمد ابراہیم بلیاویؒ، حضرت مولانا اعزاز علی دیوبندیؒ، حضرت مولانا حبیب الرحمن ایسے دیگر اکابر علمائے کرام شامل تھے جن کا تعلق دیوبند، سہارنپور، دہلی، کلکتہ، ڈھاکہ، پشاور، رام پور، راولپنڈی، ہزارہ، مراد آباد، وزیر آباد، ملتان اور میانوالی وغیرہ سے تھا۔ آپ اس سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ کتنا وقیع اور جاندار فتویٰ تھا۔ آج سو سال کے بعد جبکہ قادیانیت کا کفر عیاں و عریاں ہے۔ بایں ہمہ اس فتویٰ میں ذرہ برابر زیادتی کرنا ممکن نہیں۔ ان اکابر نے سوچ سمجھ کر اتنا جاندار فتویٰ مرتب کیا۔ اس میں تمام جزئیات کو شامل کرکے اتنا جامع بنادیا کہ ایک صدی گزرنے کے باوجود اس کی آب و تاب و جامعیت جوں کی توں باقی ہے۔
اس کے بعد ۱۳۳۲ھ میں دارالعلوم دیوبند سے ایک فتویٰ جاری ہوا جس میں قادیانیوں سے رشتہ ناتہ کو حرام قرار دیا گیا تھا۔ یہ فتویٰ حضرت مولانا مفتی عزیزا لرحمن صاحب کا مرتب کردہ ہے۔ اس پر دیوبند سے حضرت مولانا سید اصغر حسینؒ، حضرت مولانا رسول خانؒ، حضرت مولانا محمد ادریس کاندہلویؒ، حضرت مولانا گل محمد خانؒ، سہارنپور سے مظاہرالعلوم کے مہتمم حضرت مولانا عنایت الٰہیؒ، حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ، حضرت مولانا عبدالرحمن کامل پوریؒ، حضرت مولانا عبداللطیفؒ، حضرت مولانا بدر عالم میرٹھیؒ، تھانہ بھون سے حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ، رائے پور سے حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوریؒ، حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ، دہلی سے حضرت مولانا مفتی کفایت اﷲ دہلویؒ، غرض کلکتہ، بنارس، لکھنؤ، آگرہ، مرادآباد، لاہور، امرتسر، لدھیانہ، پشاور، راولپنڈی، ملتان، ہوشیارپور، گورداسپور، جہلم، سیالکوٹ، گوجرانوالہ، حیدرآباد دکن، بھوپال، رام پور، وغیرہ سے سینکڑوں علمائے کرام کے دستخط ہیں۔ اس فتویٰ کا نام ’’فتویٰ تکفیر قادیان‘‘ ہے۔ یہ کتب خانہ اعزازیہ دیوبند سے شائع ہوا۔
Forwarded from محمـد حبیب الرحمن قاسمی
سید عطاءاللہ شاہ بخاری رح نے ایک دفعہ اپنے خطاب میں مرزا غلام قادیانی کے بارے میں کہا اگر " میں اُس وقت ہوتا تو اُسے قتل کر دیتا" شاہ جی پر کیس ہو گیا، شاہ جی کی پیشی ہوئی تو جج نے پُوچھا کہ شاہ جی آپ نے ایسے سخت الفاظ کیوں کہے؟؟؟
تو شاہ جی نے ایک جُملہ کہا خدا کی قسم پُوری عدالت میں لرزہ طاری ہو گیا۔ شاہ جی نے کہا میرے ان الفاظ پر تُمہیں کوئی شک ہے، تو تُم نبوت کا دعویٰ کر کے دیکھو شام سے پہلے تیری گردن نہ اُڑا دوں تو مجھے عطاءاللہ شاہ بخاری نہ کہنا!!!
تو شاہ جی نے ایک جُملہ کہا خدا کی قسم پُوری عدالت میں لرزہ طاری ہو گیا۔ شاہ جی نے کہا میرے ان الفاظ پر تُمہیں کوئی شک ہے، تو تُم نبوت کا دعویٰ کر کے دیکھو شام سے پہلے تیری گردن نہ اُڑا دوں تو مجھے عطاءاللہ شاہ بخاری نہ کہنا!!!
*کُتّا بھی توہین رسالت برداشت نہ کر سکا*
👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻
*ایک بار ضرور پڑھیۓ گا ایمان تازہ ھو جاٸیگا*
*شارح بخاری حضرت امام حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے ایک کتے کا ذکر کیا ہے, جس نے رسول اللہ ﷺ کے دشمن کو کاٹ کھایا.*
"ایک دن عیسائیوں کے بڑے پادریوں کی ایک جماعت منگولوں کی ایک تقریب میں شرکت کے لیے روانہ ہوئی. جو ایک منگول شہزادے کی عیسائیت قبول کرنے پر منعقد کی گئی تھی، اس تقریب میں ایک عیسائی مبلغ نے رسول اللہ ﷺ کو گالی بکی، قریب ہی ایک شکاری کتا بندھا ہوا تھا. جو اس کی طرف سے گالی بکنے پر چھلانگیں مارنے لگا. اور زوردار جھٹکا دے کر رسی نکالی. اور اس بدبخت پر ٹوٹ پڑا. اور اس کو کاٹ لیا. لوگوں نے آگے بڑھ کر اس کتے کو قابو کیا. اور پیچھے ہٹا یا، تقریب میں موجود بعض لوگوں نے کہا کہ یہ محمد (ﷺ) کے خلاف تمہاری گفتگو کی وجہ سے ہوا ہے، اس گستاخ نے کہا. بالکل نہیں،
بلکہ یہ خوددار کتا ہے. جب اس نے بات چیت کے دوران مجھے دیکھا کہ میں بار بار ہاتھ اٹھا رہا ہوں. اس نے سمجھا کہ میں اس کو مارنے کے لیے ہاتھ اٹھا رہاہوں. تو اس نے مجھ پر حملہ کر دیا، یہ کہہ کر اس بد بخت نے ہمارے محبوب ﷺ کو پھر گالی بکی. اس بار کتے نے رسی کاٹ دی. اور سیدھا اس ملعون پرچھلانگ لگا کر اس کی منحوس گردن کو دبوچ لیا. اور وہ فورا ہلاک ہو گیا،
اس واقعے کو دیکھ کر 40000 (چالیس ہزار) منگولوں نے اسلام قبول کیا"
*۔(الدرر الکامنہ 3/ 203)*
اور امام الذھبی نے اس قصے کو صحیح اسناد کے ساتھ " معجم الشیوخ صفحہ 387 میں نقل کیا ہے ، اس واقعے کے عینی شاہد جمال الدین نے کہا ہے کہ
"اللہ کی قسم کتے نے میری آنکھوں کے سامنے اس ملعون گستاخ کوکاٹا اور اس کی گردن کو دبوچا جس سے وہ ہلاک ہو گیا"❤❤❤
👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻👇🏻
*ایک بار ضرور پڑھیۓ گا ایمان تازہ ھو جاٸیگا*
*شارح بخاری حضرت امام حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے ایک کتے کا ذکر کیا ہے, جس نے رسول اللہ ﷺ کے دشمن کو کاٹ کھایا.*
"ایک دن عیسائیوں کے بڑے پادریوں کی ایک جماعت منگولوں کی ایک تقریب میں شرکت کے لیے روانہ ہوئی. جو ایک منگول شہزادے کی عیسائیت قبول کرنے پر منعقد کی گئی تھی، اس تقریب میں ایک عیسائی مبلغ نے رسول اللہ ﷺ کو گالی بکی، قریب ہی ایک شکاری کتا بندھا ہوا تھا. جو اس کی طرف سے گالی بکنے پر چھلانگیں مارنے لگا. اور زوردار جھٹکا دے کر رسی نکالی. اور اس بدبخت پر ٹوٹ پڑا. اور اس کو کاٹ لیا. لوگوں نے آگے بڑھ کر اس کتے کو قابو کیا. اور پیچھے ہٹا یا، تقریب میں موجود بعض لوگوں نے کہا کہ یہ محمد (ﷺ) کے خلاف تمہاری گفتگو کی وجہ سے ہوا ہے، اس گستاخ نے کہا. بالکل نہیں،
بلکہ یہ خوددار کتا ہے. جب اس نے بات چیت کے دوران مجھے دیکھا کہ میں بار بار ہاتھ اٹھا رہا ہوں. اس نے سمجھا کہ میں اس کو مارنے کے لیے ہاتھ اٹھا رہاہوں. تو اس نے مجھ پر حملہ کر دیا، یہ کہہ کر اس بد بخت نے ہمارے محبوب ﷺ کو پھر گالی بکی. اس بار کتے نے رسی کاٹ دی. اور سیدھا اس ملعون پرچھلانگ لگا کر اس کی منحوس گردن کو دبوچ لیا. اور وہ فورا ہلاک ہو گیا،
اس واقعے کو دیکھ کر 40000 (چالیس ہزار) منگولوں نے اسلام قبول کیا"
*۔(الدرر الکامنہ 3/ 203)*
اور امام الذھبی نے اس قصے کو صحیح اسناد کے ساتھ " معجم الشیوخ صفحہ 387 میں نقل کیا ہے ، اس واقعے کے عینی شاہد جمال الدین نے کہا ہے کہ
"اللہ کی قسم کتے نے میری آنکھوں کے سامنے اس ملعون گستاخ کوکاٹا اور اس کی گردن کو دبوچا جس سے وہ ہلاک ہو گیا"❤❤❤