شاعری کورس
292 subscribers
39 photos
43 videos
20 files
93 links
اس چینل میں شاعری اور نثر نگاری سیکھنے کے تعلق سے جو ویڈیو/آڈیو/تحریر، دوسرے حضرات کی ملتی رہتی ہیں وہ شیئر کی جاتی ہیں۔ نقد اصلاح کے لئے @IslaheSukhan گروپ جوائن کریں ۔
Download Telegram
مفت شاعری کورس 😍❤️
داخلہ جاری ہے۔🏃

کورس کے اسباق اور وڈیو لیکچر وہی ہیں لیکن کورس کے طریقے تین ہیں۔ پہلے طریقے سے سیکھنے کی فیس چار ہزار ہے دوسرے طریقے کی فیس دو ہزار ہے تیسرے طریقے کی فیس ایک ہزار ہے اور آپ یہ ایک ہزار والا کورس بالکل مفت بھی کر سکتے ہیں کورس میں مفت شامل ہونے کا طریقہ جاننے کے لیے پوری پوسٹ غور سے پڑھیے گا۔

پہلا طریقہ پرسنل کورس

خصوصیات
♦️ ہر طالب علم کو واٹس ایپ پر ون ٹو ون اسباق بھیجے جاتے ہیں اور اس کی انفرادی صلاحیت کا اندازہ لگا کر چلایا جاتا ہے۔
نہایت آسان تحریری اسباق
اسباق کو مزید واضح کرنے کے لیے ویڈیو لیکچرز
♦️اسباق سے متعلق ہر قسم کے سوال کا تسلی بخش جواب دیا جاتا ہے۔
مشقیں خود چیک کرتا ہوں۔
عملی طور پر نظمیں، غزلیں، رباعیاں لکھوائی جائیں گی۔
♦️کورس کے اختتام پر سند جاری کی جاتی ہے۔
ان شاءاللہ اسباق حل کرنے والا ہر شخص وزن میں لکھے گا۔

دورانیہ: ایک ماہ

آغاز🎓: جب آپ کورس شروع کرنا چاہیں، آخر میں دیے گئے ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں فیس بھیج کر اطلاع دیں اسی دن سے آغاز کر لیں گے اور پندرہ بیس دنوں میں آپ وزن میں شعر کہنا شروع کر دیں گے۔ ان شاءاللہ

✍️ پرسنل کورس کی فیس: چار ہزار روپے/ انڈین روپے میں دو ہزار
۔ ۔ ۔

#گروپ_کورس کی معلومات
جو دوست پرسنل کی فیس ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے انہیں یہی کورس واٹس ایپ گروپ میں کرایا جاتا ہے۔
دورانیہ: ایک ماہ
آغاز: 5 مئی
فیس: دو ہزار پاکستانی/ انڈین روپے میں ایک ہزار

یاد رہے یہ کورس صرف معلوماتی کورس نہیں ہے بلکہ آپ اس کورس میں سچ مچ شعر کہنا سیکھ جائیں گے۔ ہم چھوٹے ارکان کی مشق سے شروع کریں گے پھر بڑے ارکان کی مشق، آدھا مصرع بنانا، پورا مصرع بنانا اور پورا شعر کہنا سیکھیں گے چھٹے سبق میں آپ ان شاءاللہ وزن میں غزل لکھ کر دکھائیں گے۔
۔ ۔

تیسرا طریقہ
دورانیہ ایک ماہ
آغاز 5 مئی
بعض دوستوں کو اسباق تک رسائی درکار ہوتی ہے اس کے بعد وہ اپنے طور پر سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں یہ کورس ان کے لیے ہے واٹس ایپ گروپ میں پرسنل کورس والے اسباق اور وڈیو لیکچرز کے لنک شیئر کیجے جاتے ہیں سبق حل کرنے کا طریقہ بتایا جاتا ہے لیکن اس میں مشقیں چیک نہیں کی جاتیں۔ اس کورس کی فیس ایک ہزار ہے اور آپ یہ کورس بالکل مفت بھی کر سکتے ہیں۔ اس کورس میں مفت شامل ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اس پوسٹ کے کمنٹ میں لکھیں "مجھے اس کورس میں شامل ہونا ہے" اور پھر اس پوسٹ کو اپنی وال پر شیئر کر کے سکرین شاٹ مجھے واٹس ایپ کر دیں آپ کو شامل کر لیا جائے گا۔
(براہِ مہربانی واٹس ایپ پر غیر ضروری میسج سے گریز کریں)
۔ ۔ ۔

ان شاءاللہ فارسی کورس کے تیسرے بیج کا آغاز ہو رہا ہے۔
فارسی کورس کی مکمل تفصیلات ملاحظہ فرمائیں۔
https://www.facebook.com/groups/430837250896056/permalink/1133479403965167/?mibextid=Nif5oz
۔ ۔

نوٹ: ✍️ جو دوست اپنے کلام پر اصلاح لینا چاہیں ماہانہ چار ہزار روپے فیس ادا کر کے اپنے تازہ کلام پر اصلاح لے سکتے ہیں۔ انڈین روپے میں دو ہزار ماہانہ
۔ ۔

ایزی پیسہ اکاؤنٹ نمبر: 03136793260
اکاؤنٹ ٹائٹل: شہزاد احمد
واٹس ایپ: 00923136793260
یہاں کلک کرنے سے بھی آپ میرے واٹس اپ پر پہنچ جائیں گے۔
wa.me/923136793260
۔ ۔ ۔
آپ یوٹیوب پر "شہزاد احمد شاذ" لکھ کر میرا چینل سرچ کر سکتے ہیں۔

کتاب "شعر کیسے بنتا ہے" کی فہرستِ مضامین اور دیگر تفصیلات اس لنک پر۔
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2968293550073590&id=100006789222290
۔ ۔

جن دوستوں نے شاعری کورس کیا ہے وہ کورس کے بارے میں کیا کہتے ہیں یہاں ملاحظہ فرمائیں۔
https://m.facebook.com/groups/430837250896056/permalink/581949475784832/?mibextid=Nif5oz
۔ ۔

افسانہ نگاری کورس میں شمولیت کے خواہشمند احباب اس گروپ میں تشریف لے جائیں۔
https://www.facebook.com/groups/2349898048637785/?ref=share
۔ ۔
براہِ مہربانی پوسٹ شیئر کریں ممکن ہے آپ کے دوستوں میں سے کسی کے کام آئے۔
شہزاد احمد شاذ
شاذ آن لائن شعر و ادب اکیڈمی
https://www.facebook.com/100063512449195/posts/pfbid02Q6pgGxxKW9jbm2ohxyJVwzbbyXVvA5wF1toFXWN93rGYQ1FvGe1Hzfu3QuBkKbJql/?mibextid=CDWPTG
پہلا سبق(شاعری کورس)
ہجائے بلند اور ہجائے کوتاہ کی پہچان

الف سے ے تک حروف، حروفِ تہجی کہلاتے ہیں۔ انھیں حروف کے ہجے کر کے الفاظ بنائے جاتے ہیں۔ جیسے
ب الف با
ج الف جا
بن گیا باجا۔
اس لفظ کو پڑھیں اور غور کریں تو اسے پڑھتے ہوئے منہ سے دو آوازیں نکلتی ہیں۔ یعنی با اور جا، دو آوازیں برآمد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں دو ہجے ہیں۔ پہلی آواز یا پہلا ہجا دو حرفوں (ب اور الف) سے مل کر بنا ہے تو اسے دو حرفی ہجا یا "ہجائے بلند" کہیں گے۔ اسی طرح "باجا" کا دوسرا ہجا بھی دو حرفوں (ج اور الف) سے بنا ہے سو یہ بھی دو حرفی ہجا یا ہجائے بلند کہلائے گا۔ گویا لفظ باجا میں دو ہجائے بلند ہیں۔

لفظ "نور" کو پڑھتے ہوئے دو آوازیں برآمد ہوتی ہیں۔ یعنی نو ۔۔۔ر
ن و= نُو
ر ساکن
بن گیا نور
اس لفظ میں پہلا ہجا دو حرفوں (ن اور و) سے بنا ہے اسے دو حرفی ہجا یا ہجائے بلند کہیں گے۔ جب کہ "نور" کا دوسرا ہجا ایک حرف (ر) پر مشتمل ہے۔ تو اسے ایک حرفی ہجا یا ہجائے کوتاہ کہیں گے۔

انحراف
روایتی طور پر ہجائے کوتاہ کو 1 سے اور ہجائے بلند کو 2 سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ یعنی "باجا" میں دونوں ہجے بلند ہیں تو اس کا وزن علامتوں میں 22 سے ظاہر کیا جاتا ہے اور "نور" میں پہلا ہجا، بلند اور دوسرا کوتاہ ہے تو اسے علامتوں میں 12 سے ظاہر کیا جاتا ہے۔
لیکن ہم علامت کے لیے ہندسوں کی بجائے اردو کے حروف استعمال کریں گے "ہجائے کوتاہ" ایک حرفی ہجّا ہوتا ہے تو اسے لفظ "ایک" کے پہلے حرف "ا" سے اور "ہجائے بلند" دو حرفی ہجا ہے تو اسے لفظ "دو" کے پہلے حرف "د" سے ظاہر کریں گے۔ (اس طرح موبائل اور کمپیوٹر پر لفظوں اور مصرعوں کو علامات میں ظاہر کرنا آسان ہو جائے گا)
باجا = د د
نور = د ا

غلط فہمی سے بچیں
ابتدائی جماعتوں کے بچے ہجے کرتے ہوئے سنیں تو وہ ہجے کرتے ہوئے بعض اوقات غلطی کرتے ہیں جیسے لفظ "اسم" میں پہلا ہجا دو حرفوں (ا اور س) سے بنا ہے اور دوسرا ہجا ایک حرف (م) پر مشتمل ہے لیکن چونکہ دیکھنے میں الف اکیلا نظر آ رہا ہے تو بچے اسے ایک حرفی ہجا اور سم میں دو حرف ملے ہوئے ہیں تو اسے دو حرفی ہجا سمجھ لیتے ہیں جس سے "اسم" کا تلفظ اِسَم ظاہر ہوتا ہے جب کہ اس کا درست تلفظ اِسْم ہے۔ اسی طرح ایسے الفاظ جن میں دو سے زیادہ ہجے ہوتے ہیں وہاں بھی ایسی غلطی سرزد ہوتی ہے۔ لیکن ہم بچے نہیں ہیں اور نہ ہم لکھے ہوئے الفاظ سامنے رکھ کر جوڑ توڑ کریں گے بلکہ ایک آسان طریقے سے ہجے معلوم کریں۔

آسان طریقہ
لفظ کو درست تلفظ کے ساتھ پڑھتے ہوئے لفظ سے برآمد ہونے والی آوازوں پر غور کریں۔ ایک لفظ جتنی آوازوں پر مشتمل ہو گا اس لفظ کے اتنے ہی ہجے شمار ہوں گے۔ برآمد ہونے والی آوازوں میں سے دو حرفی آوازوں کو ہجائے بلند اور ایک حرفی آواز کو ہجائے کوتاہ کہیں گے۔
مثال کے طور پر لفظ "گفتگو" بولتے ہوئے تین آوازیں برآمد ہوتی ہیں یعنی "گُف۔ت۔گو" ان میں سے پہلی اور تیسری آواز دو حرفی ہے اور درمیان والی ایک حرفی ہے۔ گویا اس میں ایک ہجائے کوتاہ اور دو ہجائے بلند ہیں۔ علامت کے طور پر اسے "د ا د" سے ظاہر کریں گے اور علمِ اوزان میں اس کا وزن فاعلن ہے۔
اسی طرح
الفاظ👇۔ ۔آوازیں👇۔ ۔ علامتی اظہار👇
جستجو = جُس۔ ت ۔جو = د ا د
سامنا = سا ۔م ۔نا = د ا د
ٹوکری = ٹو۔ ک۔ ری = د ا د
فاعلن = فا ۔ع۔ لن = د ا د
یعنی گفتگو جستجو سامنا ٹوکری یہ سب الفاظ ہم وزن ہیں۔ اور ان کا وزن فاعلن ہے۔
اس طرح مصرعوں یا لفظوں کو آوازوں کے لحاظ سے توڑنے اور انھیں علامتوں میں ظاہر کرنے کو تقطیع کرنا کہتے ہیں۔ یعنی اوپر ہم نے لفظوں کی تقطیع کی ہے۔

تین حرفی الفاظ
تین حرفی الفاظ میں دو ہجے ہوتے ہیں ایک بلند اور ایک کوتاہ۔
تین حرفی الفاظ کی دو قسمیں ہیں۔
پہلی قسم
ایسے الفاظ جن میں پہلا ہجا، ہجائے کوتاہ اور دوسرا ہجائے بلند ہو جیسے وفا، حیا، صفا، گھڑی، کبھی، ابھی، مجھے، اسے، چلو، رکو، کرو
ان الفاظ کا وزن فَعُو ہے۔
مجھے = مُ۔جھے = اد
فعو = ف۔عو = اد
دوسری قسم
تین حرفی الفاظ کی دوسری قسم ایسے الفاظ جن میں پہلا ہجا، ہجائے بلند ہو اور دوسرا ہجا، ہجائے کوتاہ ہو۔ جیسے یار، غار، آر، پار، پان، آج، بیر، خیر، سیر، چیل، جیل، دین، نور، طور، دیکھ
ان الفاظ کا وزن فاع ہے۔
پان = پا۔ن= دا
فاع = فا۔ع = دا

چار حرفی الفاظ
پہلی قسم
ایسے الفاظ جنہیں پڑھتے ہوئے دو آوازیں برآمد ہوں اور وہ دونوں آوازیں دو حرفی ہوں گی۔ یعنی دونوں ہجائے بلند ہوں گے۔ جیسے دلبر، چاہت، باجا، روٹی، چھوٹا، گاڑی، آنگن، گلشن، بولو، دیکھو۔
ان الفاظ کا وزن فِعْلُن(ع ساکن) ہے۔
گلشن = گل۔شن= دد
فعلن = فع۔لُن = دد
دوسری قسم
جنھیں پڑھتے ہوئے تین آوازیں برآمد ہوں ان میں سے پہلی اور تیسری ہجائے کوتاہ ہو گی اور درمیان والی ہجائے بلند ۔
لفظ "گمان" کو پڑھتے ہوئے آوازوں پر غور کریں تو اس سے تین آوازیں برآمد ہو رہی ہیں۔ "گُ، ما، ن" ان میں پہلی اور تیسری آواز ایک حرفی ہے اور درمیان والی آواز دو حرفی ہے۔ گویا اس میں دو ہجائے کوتاہ اور ایک ہجائے بلند ہے۔ علامتوں میں اسے "ادا" لکھ کر ظاہر کریں گے۔ مزید الفاظ سوار، خمار، نماز، شعور، تمیز وغیرہ۔ مذکور الفاظ کا وزن فعول ہے کیونکہ فعول بھی ادا ہے۔
تمیز = ت می ز = ا د ا
فعول = ف عو ل = ا د ا
نوٹ: نون غنہ اور دو چشمی ھ وزن میں شمار نہیں ہوتے۔(تفصیل آئندہ)
نوٹ: شد والا حرف دو بار گنا جاتا ہے۔
نوٹ: الف مدہ(آ) دو الف کے برابر ہوتا ہے۔ جن میں پہلا الف متحرک اور دوسرا ساکن ہوتا ہے۔
آ = اَا = د
نوٹ: ہجا یا ایک حرفی ہو گا یا دو حرفی۔ تین حرفی ہجا نہیں ہوتا تین حروف پر مشتمل لفظ میں کم از کم دو ہجے ہوں گے۔ سبق کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے یوٹیوب پر شہزاد احمد کھرل لکھ کر میرا ویڈیو لیکچر سرچ کریں۔

سوال: فعو، فاع، فعلن، فاعلن، فعولن وغیرہ کیا ہیں؟
جواب: یہ ارکان محض فرضی الفاظ ہیں اور وزن بتانے کے لئے ہیں۔ جیسے کوئی آپ سے یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ لفظ محبت جو ہے یہ عقیدت کے وزن پر ہے اور کوئی دوسرا شخص یوں بھی کہہ سکتا ہے کہ لفظ محبت، سفارش کے وزن پر ہے۔ لیکن ماہرین علم عروض نے طے کر دیا ہے کہ آپ یوں کہیں کہ لفظ محبت "فعولن" کے وزن پر ہے حالانکہ محبت، عقیدت، سفارش اور فعولن سب کا وزن ایک ہے یعنی "ادد"
لیکن جب ہم شاعری کی زبان میں بتائیں گے تو ہم کہیں گے کہ محبت، ضرورت یا برابر وغیرہ کا وزن فعولن ہے۔ اور جب ہم کسی سے کہیں گے کہ فعولن کے وزن پر الفاظ بناؤ تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہمیں "ادد" کے وزن پر الفاظ مطلوب ہیں اور بس۔
تحریر: شہزاد احمد شاذ کھرل
۔ ۔
مشق

(الف)
اس سبق میں جتنی مثالیں دی گئی ہیں وہ تمام الفاظ باآواز بلند پڑھیں اور لفظوں سے برآمد ہونے والی آوازوں کی تعداد اور نوعیت پر غور کر کے تصدیق کریں کیا مثالیں اپنی اپنی جگہ پر درست دی گئی ہیں؟
پھر ان اوزان پر دس دس الفاظ لکھیں۔
فعو، فاع، فعلن، فعول

جو الفاظ آپ لکھ کر پیش کریں گے انہیں پہلے لغت میں دیکھ لیں کہ ان کا درست تلفظ کرتے ہوئے اسی طرح کی آوازیں برآمد ہوتی ہیں جس وزن کے تحت آپ مثال پیش کر رہے ہیں یا لغت میں تلفظ مختلف ہے؟۔
جیسے لفظ "وصل" کا درست تلفظ وَصْل ہےیعنی "وص۔ل" = فاع=دا ہے۔
لیکن بعض لوگ اسے وَصَل "و۔صل = اد" پڑھتے ہیں تو وہ اسے فعو کی مثالوں میں لکھ دیں گے اس لیے درست تلفظ کے لیے لغت ضرور دیکھیں۔

(ب)
ان الفاظ کے ساتھ دس الفاظ اپنی طرف سے ملا لیں اور ان کی تقطیع کریں۔(لغت سے درست تلفظ دیکھ کر)
قمر، ظلم، سطوت، شبنم، کرم، حاجت، آخر، رحم، بیچ، غلط
۔ ۔
پہلے سبق سے متعلق ویڈیو لیکچر
https://youtu.be/BE7fRB_9Iq4
۔ ۔ ۔
یہ واٹس ایپ مفت شاعری کورس کا پہلا سبق ہے آپ اس کورس میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو اس لنک پر کلک کر کے مکمل پوسٹ پڑھیں وہاں آپ کو واٹس ایپ گروپ کا لنک مل جائے گا۔👇
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=pfbid035FCE1dyeR2CMSXvpR5YSjA2aQmnBHH7hdkAvUneNTrL79z4WqwnrvM59taKHhWrhl&id=100006789222290&mibextid=Nif5oz
👆اس لنک پر مفت فارسی کورس کا لنک بھی موجود ہے۔
یہ پوسٹ دوستوں کے ساتھ شیئر کریں۔ شکریہ
شاذ آن لائن شعر و ادب اکیڈمی
Audio
👆
🔹گلوبل اردو کا 28/واں مشاعرہ_🔹
🗓16/جولائی تا 20/جولائی

🕰️ہندوستانی وقت کے مطابق (9:00) بجے شب__!

🖊️📕🖊️📕🖊️📕🖊️📕🖊️
السلام علیکم و رحمۃ الله

گلوبل اردو کی جانب سے منعقد ہونے والے مشاعرہ میں آپ سبھی شعرا و شاعرات کا والہانہ استقبال ہے۔

👇👇👇

مصرع طرح
"کیوں بھائیں بھلا اب مجھے گل دان وغیرہ"

قافیہ ۔ گلدان
ردیف ۔ وغیرہ

ارکان ۔ مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن


👇👇👇👇👇👇👇👇👇👇👇

🍥نظام الاوقات🍥
متفرقات و یکجا اشعار:- 16/جولائی شب 9 بجے سے 20/جولائی شب 9 بجے تک ــ

نوٹ: مشاعرہ گلوبل اردو کے فیس بک پیج پر منعقد ہوگا،
حتی الامکان معیاری اشعار کہنے کی کوشش کریں ، جلد بازی سے اجتناب کریں ، سات سے آٹھ اشعار پر مشتمل اپنا یکجا کلام ارسال کرنے سے قبل اپنے کسی استاذ سے ضرور دکھا لیں

🔶__منجانب___🔶

سرپرست اعلیٰ ۔ تاج الشعرا حضرت مولانا سلمان فریدی صدیقی مصباحی (مسقط، عمان) صاحب اطال اللہ عمرہ

سرپرست بزم: محترم مفتی محمد صادق مصباحی صاحب

زیر قیادت ۔ محترم محمد شاہد علی مصباحی صاحب اطال اللہ عمرہ

زیر صدارت ۔ عالی جناب محترم محمد جسیم مرکزی صاحب

_معاونین مشاعرہ__

محترم سیف امجدی صاحب

محترم اسامہ شیخ صاحب

محترم عاقب ارقم بریلوی صاحب

تزئین کار: محترم محمد امجد رضا شمسی صاحب

ویب ایڈیٹر: جناب سلمان فارسی مصباحی صاحب
جناب اشرف صاحب قبلہ

معاون ایڈیٹر:
عالی جناب توقیر احمد مصباحی صاحب
www.globalurdu.org

✦✿✦ منجانب: گلوبل اردو✦✿✦
شاعری میں استادِ فن کے آگے زانوئے تلمذ کی اہمیت و معنویت

نقطۂ نظر احمد کمال حشمی
سچ کہہ دوں اے "سخنور" گر تو برا نہ مانے

ایک زمانہ تھا جب کسی استاد کی شاگردی اختیار کئے بغیر شعر کہنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ مبتدی شعراء بڑی منت سماجت کر کے کسی مستند شاعر کی شاگردی کا شرف حاصل کرتے تھے۔ زبان و فن کی باریکیاں سیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ استاد کو دکھائے بغیر ایک شعر بھی کسی محفل میں پڑھنے کی جرأت نہیں کرتے تھے۔ مگر آج معاملہ برعکس ہے۔ آج کل کسی استاد کی شاگردی اختیار کرنا معیوب سمجھا جانے لگا ہے۔ بیشتر شعراء موزونئ طبیعت کی بنا پر شعر کہتے ہیں۔ کچھ شعراء استاد سے منسلک ہیں بھی تو اس کا برملا اعتراف کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں۔

اردو میں کچھ بحریں ایسی ہیں جو لَے اور آہنگ کے اعتبار سے ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔ موزونئ طبیعت کی بنا پر شعر کہنے والے شعراء ان بحروں میں ہمیشہ غچہ کھاتے ہیں۔ اولیٰ مصرع ایک بحر میں ہوتا ہے تو ثانی مصرع دوسری بحر میں۔ مگر انہیں اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا ہے۔ فیس بک اور وہاٹس ایپ گروپس کی رسمی اور منافقانہ داد پا کر خود کو مستند شاعر سمجھنے کی خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی ازراہ خلوص، سقم کی طرف اشارہ کرتا ہے تو اسے دشمن اور حاسد سمجھ لیا جاتا ہے۔

میرا مشاہدہ یہ ہے کہ آج کل کے تقریباً اسّی فیصد شعراء تقطیع نہیں جانتے ہیں۔ مگر موزونئ طبیعت کی بنا پر کی گئی شاعری پر مشتمل ایک سے زیادہ شعری مجموعے شائع کر چکے ہوتے ہیں۔ مگر ایک بات ذہن نشین کرنے کی ہے کہ کسی خیال کو کسی مخصوص وزن پر فٹ کر دینا شاعری نہیں ہوتا۔ اچھی شاعری کے لئے اشعار کا فنی اور لسانی اسقام سے پاک ہونا بھی ضروری ہے۔ میں کچھ ایسے شاعروں کو جانتا ہوں جو تقطیع کی اچھی واقفیت رکھتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں ناموزوں اشعار نہیں ملتے ہیں مگر ایطا، شترگربہ، تعقید جیسی فنی خامیاں اور لسانی کوتاہیاں اکثر نظر آتی ہیں۔

اس لئے ضروری ہے کہ شعراء کسی استاد فن کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کریں اور فن کے رموز و اوقاف سیکھ کر اپنی شاعری میں نکھار پیدا کریں۔
قدیم زمانے میں استادی اور شاگردی کی ایک طویل روایت ملتی ہے۔ کسی استاد کا شاگرد ہونا باعثِ شرم ہرگز نہیں ہے۔ کسی مستند اور معتبر شاعر کی شاگردی اختیار کر کے ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کرنا چاہئے کہ میں فلاں کا شاگرد ہوں۔

کسی کی شاگردی اختیار نہ کرنے کی غلط روایت نے فی البدیہہ شاعری کی بدعت کو فروغ دیا ہے۔ کسی موقع کی مناسبت سے کوئی فی البدیہہ شعر کہنا کمالِ فن ہے مگر فی البدیہہ غزلیں کہنا زوالِ فن۔ اچھی شاعری سوچ سمجھ کر، ٹھہر کر، غور و فکر کر کے ایک ایک شعر کہنے کا تقاضہ کرتی ہے۔ فی البدیہہ غزلوں میں اشعار تو ہوتے ہیں شاعری نہیں ہوتی۔
کچھ شعراء فیس بک کے فی البدیہہ مشاعروں میں بڑی پابندی سے حصہ لیتے ہیں۔ دو تین گھنٹوں میں آٹھ دس اشعار کہہ کر یکجا کلام کی صورت میں فوراً پوسٹ کر دیتے ہیں۔ انہیں استاد کو کلام تو دکھانا ہوتا نہیں ہے۔ اپنے لکھے کو حرف آخر سمجھ کر بڑے طمطراق سے اپنی وال پر بھی لگاتے ہیں اور مختلف گروپس میں شیئر بھی کر دیتے ہیں۔ پھر فیس بک پر داد و تحسین کا سلسلہ چل پڑتا ہے۔

یہ سبھی جانتے ہیں کہ فیس بک فرینڈز ''من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو '' کے اصول پر کاربند ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود فیس بک کی داد سے خوش ہو کر شعراء اپنے اشعار پر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں استاد کی ضرورت کون محسوس کرے گا؟
اس لئے اگر آپ سنجیدہ اور بامقصد شاعری کرنا چاہتے ہیں تو کسی استاد سے مشورۂ سخن ضرور کریں کیونکہ بغیر گرو کے مکمل گیان نہیں ملتا۔
تحریر میں رموز اوقاف کی اہمیت و ضرورت


از: فاروق اعظم عاجز کھگڑیاوی‏، شعبہ انگریزی، دارالعلوم دیوبند

انسان جب آپس میں گفتگو کرتاہے، تو اس کے مختلف اسلوب و انداز ہوتے ہیں، بات کبھی مثبت ہوتی ہے، تو کبھی منفی، کوئی لمحہ غم کا ہوتاہے، تو کوئی خوشی کا، لہجہ کبھی سخت ہوتا ہے، تو کبھی نرم، کوئی بات اسے تعجب میں ڈالتی ہے، تو کبھی اسے خوف کا سامنا کرنا پڑتا ہے. غرض کہ روز مرہ میں نرمی، سختی، خوشی، غم، تعجب، استفہام، خوف، غصہ. اس طرح کے نشیب و فراز اور اتار چڑھاؤ پائے جاتے ہیں اور یہی حال قلم کابھی ہے، اس لیے کہ قلم بھی انسان کی خاموش زبان ہے اور زبان کے زریعے سے نکلنے والے دلی احساسات وجذبات کا ترجمان بھی۔
انسان جہاں اپنی گفتگو کوموٴثر بنانے کے لیے اس کے آداب کی مکمل رعایت کرتاہے، وہیں اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ زبان کے ساتھ اپنے قلم سے نکلی ہوئی تحریر میں بھی اسے ملحوظ رکھے، اس لیے کہ ایک قلم کار اپنی تحریر کے ذریعے دنیا کو عظیم پیغام دیتاہے اور اپنے طبقے کو ترقیات کے بامِ عروج پر دیکھنے کا خواہاں ہوتا ہے اور یہ اس وقت تک ناممکن ہے، جب تک کہ آلہ کو آلہ کے اصول کے مطابق نہ چلایا جائے، یعنی قلم بھی ایک آلہ ہے، بل کہ ابلاغ کا ایک موٴثر ذریعہ ہے اور اس کے بھی کچھ اصول و ضوابط ہیں جن کی رعایت ناگزیر ہے. یہی وجہ ہے کہ ہر نبی اپنے زمانہ کا سب سے بڑا فصیح وبلیغ ہوا کرتا تھا جس کی شہادت قرآن میں صراحتاً موجود ہے۔
قلم کے مسافر کے لیے جس طرح دیگر اصول وضوابط کی ہم رکابی ضروری ہے، اسی طرح اپنی تحریر میں ”رموز اوقاف“ کا توشہ بھی ناگزیر ہے اور نہ صرف رموز اوقاف کی محض معلومات بل کہ ان کا برمحل استعمال مقصود ہے۔
آج ایک طبقہ تو شاید ”رموز اوقاف“ کے رموز سے واقف ہی نہیں اور اگر ہے بھی، تو ان کی رعایت ”آٹے میں نمک“ کے برابر ہے. ہاں ادبی تحریروں میں تو ان کی رعایت کی جاتی ہے، لیکن رموز اوقاف کا تعلق محض ادبی تحریروں ہی سے نہیں ہے بل کہ مطلق اس کا تعلق کسی زبان کے تحریری مواد سے ہے۔
اسی جذبے کے پیش نظر رموز اوقاف سے متعلق مختلف کتابوں۔ بطور خاص بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کی معروف کتاب ”قواعد اردو“ کو سامنے رکھ کر چند باتیں سپرد قرطاس کی جاتی ہیں۔
تحریروں میں استعمال ہونے والی علامات اور اس کے نام:
(۱) سکتہ (،) (۲) وقفہ (؛)
(۳) رابطہ (:) (۴) تفصلیہ (:-)
(۵) ختمہ (۔/․) (۶) سوالیہ (؟/?)
(۷) مجائیہ،ندائیہ (!) (۸) قوسین (( )/())
(۹) خط (ـــــــ) (۱۰) واوین (” “)
سکتہ(،)
ان چھوٹے چھوٹے جملوں کے درمیان اس کا استعمال ہوتا ہے جن سے مل کر ایک بڑا جملہ بنتا ہے اورایک بات مکمل ہوجاتی ہے۔ جیسے:-
استاذ محترم آئے، درس گاہ میں داخل ہوئے، کرسی پر بیٹھے اور سبق پڑھایا۔
مختلف اسما کو جوڑنے کے لیے بطور حرف عطف کے بھی استعمال ہوتا ہے، خواہ وہ معطوف معطوف علیہ ہوں۔ جیسے:-
حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی ایک ہی شمع کے چار پروانے تھے۔
یا اسم مصدر ہوں۔ جیسے:-
لڑنا، جھگڑنا اور گالی دینا بری بات ہے۔
یا ایک موصوف کی کئی صفتیں ہیں، تو متعدد صفات کے درمیان اس علامت کو لائیں گے۔ جیسے:
عادل ذہین، محنتی، با ادب اور خوش خلق طالب علم ہے۔
اسی طرح کئی منادیٰ ہوں، تو ان کے درمیان میں بھی اسے لایا جاتا ہے۔ جیسے:-
میرے بھائیو!، بزرگو! اور دوستو!
ایسے ہی شرط وجزا اور صلہ وموصول کے درمیان اس کا استعمال ہوتا ہے۔ جیسے:-
جب حق آیا، تو باطل خود بخود چھٹ گیا۔ انسان وہ ہے ، جس کے اندر انسانیت ہو۔
اسی طرح اسے مستثنیٰ مستثنیٰ منہ کے درمیان بھی لایا جاتا ہے۔ جیسے:-
آج کا دور، ترقیاتی دور کہلاتا ہے، لیکن سکون مفقود ہے۔ انگریز ہندوستان سے تو گئے، مگر دو ٹکڑے کرکے۔
درس گاہ پابندی سے آؤ، پر موبائل نہ لاؤ۔
مبتدا اور خبر کے درمیان میں جب موصوف اور صفت کا اشتباہ ہونے لگے، تو اس وقت سکتہ کا لانا ضروری ہے۔مثلاً: اردو زبان میں سیرت کی سب سے شاہ کار کتاب، سیرت النبی ﷺ ہے۔
ہندوستان کے اسلامی مصنّفین میں ایک نمایاں نام، مولانا مناظراحسن گیلانی کا بھی ہے۔
وقفہ(؛)
اس کا استعمال جملوں کے بڑے بڑے اجزا کے درمیان ہوتا ہے، جہاں سکتہ کے (،) بالمقابل زیادہ ٹھہراؤ کی گنجائش ہو۔جیسے:
”سرخیاں بنانے کے طریقے؛ سرخیوں کی قسموں؛ ان کے لیے مطلوبہ صلاحیتوں؛ اخبار کی زینت کاری وغیرہ کے مسائل کو اس طرح بیان کیا ہے کہ قاری کو کسی خشکی کا احساس نہیں ہوتا۔“
اسی طرح جملوں میں ”ورنہ“، ”اس لیے“، ”لہٰذا“، ”اگرچہ“، ”لیکن“ وغیرہ جیسے ربط دینے والے الفاظ سے پہلے وقفہ کی علامت ہوگی۔ جیسے:
مشک کی تعریف کرنا خود اپنی قیمت کو بڑھانا ہے؛ ورنہ مشک تعریف وتوصیف سے اعلیٰ اور کہیں برتر وبالا ہوتا ہے۔
مستقل مزاجی سے تھوڑا کام بھی بہتر ہے اس کام سے جو مستقل مزاجی سے نہ ہو؛ اس لیے کسی بھی فن میں کمال پیدا کرنے کے لیے استقلال ضروری ہے۔
رباعی کی بحر
تحریر: شہزاد احمد شاذ
رباعی کے بارے میں بات کرتے ہوئے عام طور پر عنوان باندھا جاتا ہے؛- "رباعی کے چوبیس اوزان"
پھر موضوع پر بات شروع کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ "رباعی کے مخصوص چوبیس اوزان ہیں۔ رباعی کے چار مصرعوں میں سے کوئی مصرع اگر ان چوبیس اوزان سے باہر ہو گا تو وہ رباعی نہیں کہلائے گی۔"

اگرچہ یہ حقیقت ہے۔ لیکن اس اسلوب سے نئے شاعر کے ذہن میں پہلا خیال یہی آتا ہے کہ شاید رباعی کہنے کے لیے ان چوبیس اوزان کا یاد کرنا ضروری ہے۔ حالانکہ رباعی کہنے کے لئے ایک وزن کا علم ہونا بھی کافی ہے۔ میں نے جب پہلی بار رباعی سے متعلق تفصیلات پڑھی تھیں تو میرے ذہن میں بھی یہی خیال آیا تھا اور میں نے دل ہی دل میں کہا تھا کہ میرے جیسا سہل پسند شخص تو کبھی رباعی نہیں کہے گا۔
میرا خیال ہے رباعی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ رباعی کی ایک بحر بتائی جاتی اور پھر اس میں موجود احتمالات کا تذکرہ کیا جاتا کہ فلاں رکن کو یوں بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی کہ کسی بحر میں احتمالات کا موجود ہونا اس کے مشکل ہونے کی دلیل نہیں ہے بلکہ آسان ہونے کی دلیل ہے۔ کسی بحر پر مشق کرتے ہوئے کلام میں زیادہ اوزان کے جمع کرنے کا جواز، شاعر کو خیال پیش کرنے میں آسانی فراہم کرتا ہے۔

بہرحال اصل بات کی طرف آتے ہیں۔ عروضی مباحث سے قطع نظر ہم رباعی کے اوزان کو "فعلن" کی بنیاد پر سمجھتے ہیں اور عروضی اصطلاحات سے گریز کرتے ہوئے محض تین سطروں میں بحر میں موجود گنجائشیں بھی سمجھتے ہیں۔ اگر آپ اسے ذہن نشین کر لیں تو بڑی آسانی سے رباعی کہہ سکیں گے اور آپ کا کوئی مصرع رباعی کے اوزان سے(جنھیں رباعی کے چوبیس اوزان کہا جاتا ہے۔) باہر بھی نہیں جائے گا۔
رباعی کی بحر ہے:-
فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن

یعنی پانچ بار فعلن۔
ان میں سے پہلے اور چوتھے فعلن میں کسی قسم کا تصرف نہیں کیا جا سکتا۔

(1) دوسرے اور پانچویں فعلن کو فَعِلن کر سکتے ہیں۔ یعنی دد سے ااد
(2) تیسرے فعلن کو فعلُنُ یا فعول کر سکتے ہیں۔ یعنی دد سے داا یا پھر ادا
(3) کسی بھی مصرعے کے آخر میں ایک حرف ساکن کا اضافہ کر سکتے ہیں۔

نوٹ: عروض میں فعلُنُ کوئی رکن نہیں ہے۔ یہ رکن میر کی ہندی بحر کی آسان تفہیم کے لیے وضع کیا تھا جو یہاں بھی کام آ گیا۔

مندرجہ بالا بحر اور اس میں موجود اختیارات کو یاد رکھنا مشکل تو نہیں لیکن پھر بھی حسب روایت ایک رباعی بھی لکھ دی ہے۔
اوزان رباعی کے سمجھ، مت ہو ملول
بالفرض جو بحر پانچ فعلن ہو قبول
جائز ہے کہ دوم اور پنجم فَعِلن
اور سوم کو تُو فعلُنُ کر لے یا فعول

مندرجہ بالا تین اختیارات کو مختلف طریقوں سے برتیں تو جو اوزان حاصل ہوتے ہیں ان کی تعداد چوبیس بنتی ہے۔ آپ مذکورہ بالا تین اختیارات میں سے جس کو چاہیں استعمال کریں جس کو چاہیں استعمال نہ کریں آپ کے مصرعے چوبیس اوزان سے باہر نہیں جائیں گے۔

رباعی کی ایک اور بحر
کیا آپ نے "بحر ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف" میں مشق کر رکھی ہے؟ نام کو چھوڑیں بحر کے افاعیل پر غور کریں افاعیل ہیں "مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن" اگر اس بحر پر ابھی تک کچھ نہیں لکھا تو اس شعر کو پڑھتے ہوئے ردھم کو سمجھ سکتے ہیں۔
وہ دشمنِ جاں جان سے پیارا بھی کبھی تھا
اب کس سے کہیں؟ کوئی ہمارا بھی کبھی تھا
(احمد فراز)
اب اگر "مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن" کے آخر سے لُن کو ہٹا دیں یعنی بحر سے ایک ہجا کم کر دیں تو باقی رہ جانے والا وزن رباعی کے ایک وزن کے بالکل برابر ہے۔
مفعول مفاعیل مفاعیل فعو
فعلن فَعِلن فعلُنُ فعلن فَعِلن

احمد فراز کے مذکورہ بالا شعر میں اگر ہم "بھی" کو نکال دیں اور "تھا" کو اس کی جگہ لے آئیں تو یوں ایک ہجا کم ہونے سے شعر رباعی کے وزن میں آ جائے گا۔
وہ دشمنِ جاں جان سے پیارا تھا کبھی
اب کس سے کہیں؟ کوئی ہمارا تھا کبھی

آپ اسی وزن کو رباعی کی بحر مان کر ہزاروں رباعیاں اسی ایک وزن میں کہہ سکتے ہیں۔ میری ایک رباعی ملاحظہ فرمائیں۔
کہنی ہے رباعی، سو پریشان ہے تُو
مشکل تو نہیں، کیوں تُو جلاتا ہے لہو
اک وزن رباعی کا مگر یاد رہے
مفعول مفاعیل مفاعیل فعو

اور اگر اسی بحر کو سامنے رکھتے ہوئے اس میں موجود گنجائش کو استعمال کرنا چاہیں تو اسے سمجھنے کے لیے بحر اور اس کا علامتی اظہار ملاحظہ فرمائیں۔
مفعول مفاعیل مفاعیل فعو
د۔۔۔د۔ا،۔ا۔د۔۔د۔۔ا،۔ا۔د۔د۔۔ا،۔ا۔د
اب بحر کے علامتی وزن پر غور کریں تو تین جگہ دو دو ہجائے کوتاہ جمع ہو رہے ہیں یعنی "اا" دو ہجائے کوتاہ کے مجموعے کو سببِ ثقیل اور ایک ہجائے بلند کو سببِ خفیف کہتے ہیں۔

پہلا اختیار
بحر میں موجود پہلے، دوسرے، تیسرے میں سے کسی ایک، یا کوئی سے دو، یا تینوں سببِ ثقیل کو سبب خفیف سے بدل سکتے ہیں یعنی کسی بھی "اا" کو "د" سے۔
دوسرا اختیار
درمیان والے سببِ ثقیل میں اس سے پہلا سببِ خفیف شامل کر کے فعول بنا سکتے ہیں یعنی داا سے ادا۔ اس صورت میں بحر کا علامتی اظہار یوں ہو گا۔
د۔د۔ا،۔۔ا۔د۔ا۔۔د۔ا۔د۔د۔۔ا،۔ا۔د
مفعول مفاعلن مفاعیل فعو
یعنی اس اختیار کے استعمال سے دوسرا رکن مفاعیل سے مفاعلن بن جائے گا۔

تیسرا اختیار
کسی بھی مصرعے کے آخر میں ایک حرف ساکن کا اضافہ کر سکتے ہیں۔
مذکورہ بالا دو بحروں میں سے کسی ایک کو ذہن نشین کر لیں اور اس میں موجود اختیارات کو دو تین بار پڑھ کر اچھی طرح سمجھ لیں۔ اس کے علاوہ یوٹیوب پر "رباعی شہزاد احمد کھرل" لکھ کر وڈیو لیکچر تلاش کر سکتے ہیں جس میں رباعی کے اوزان کو انگلیوں کے پوروں پر پرکھنے کا بھائی ارشد عزیز صاحب کا وضع کردہ طریقہ سمجھایا گیا ہے۔

رباعی سے متعلق مزید کچھ باتیں
رباعی ربع سے ہے جس کا معنی چار ہے۔ رباعی میں چار مصرعے ہوتے ہیں۔ اور ان چار مصرعوں میں ایک مکمل مضمون ہوتا ہے۔ رباعی میں موضوع کی کوئی قید نہیں۔ تقریباً ہر موضوع پر رباعی کہی گئی ہے۔ کسی بھی موضوع پر مشق کی جا سکتی ہے۔
رباعی کے پہلے، دوسرے اور چوتھے مصرعے میں قافیے کی پابندی کی جائے گی اور اگر ردیف کا انتخاب کیا گیا ہے تو ظاہر ہے ردیف بھی لائی جائے گی۔ تیسرے مصرعے سے متعلق شاعر کو اختیار ہے کہ اس میں بھی قافیہ ردیف لانا چاہے تو لا سکتا ہے۔
رباعی کے چار مصرعوں میں ایک ہی مضمون ہونا چاہیے۔ اور مضمون پیش کرتے ہوئے پہلے دو مصرعوں میں تمہیدی حصہ لانا چاہیے اور تیسرے اور چوتھے مصرعے میں مضمون پوری طرح کھل جائے۔ ظاہر ہے کہ اگر پہلے مصرعوں میں مضمون کھل جائے گا تو آخری مصرعے بے لطف ہو جائیں گے اور غیر ضروری محسوس ہوں گے۔

رباعی اور قطعہ میں فرق
چار مصرعوں کے قطعے بھی کہے جاتے ہیں۔ انہیں رباعی سے الگ کس طرح پہچان سکتے ہیں اس کے لیے چند باتیں ذہن نشین کر لیں۔
سب سے پہلا اور بنیادی فرق اوزان کا ہے۔ رباعی مذکورہ بالا خاص اوزان میں کہی جاتی ہے جب کہ قطعہ کسی بھی وزن میں کہا جا سکتا ہے۔
رباعی میں چار مصرعے(دو اشعار) ہوتے ہیں قطعے میں کم سے کم دو اشعار ہوتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ کی کوئی قید نہیں۔
رباعی میں پہلے، دوسرے اور چوتھے مصرعے کا مقفیٰ ہونا ضروری ہے جب کہ قطعے میں پہلے مصرعے کا مقفیٰ ہونا ضروری نہیں۔

اب آپ رباعی کہنے کے لیے تیار ہیں۔ سب سے پہلے ایک موضوع کا انتخاب کریں۔ اس موضوع پر کیا کہنا چاہتے ہیں اس مضمون کو ذہن میں ترتیب دیں۔ پورے مضمون کا نچوڑ ایک مصرعے میں لکھیں۔ یہ رباعی کا چوتھا مصرع ہو گا اسی مصرعے کی بنیاد پر قافیے اور ردیف کا انتخاب کریں اور رباعی مکمل کریں۔

شہزاد احمد شاذ #فیس_بک_سے_کاپی
#لئے یا #لیے ؟
شروع سے ہی ادیبوں کے درمیان یہ بحث چلتی آرہی ہے کہ "لیے"، "دیے"، "گئے" وغیرہ الفاظ کا املا ہمزہ کے ساتھ مناسب ہے یا بغیر ہمزہ کے؟
ہمارے کورس میں بھی ایک یہ سوال زیر بحث آیا تو ماہر لسانیات ڈاکٹر شوکت سبزواری کی کتاب ’اردو املا‘ میں اس کا تسلی بخش جواب مل گیا جو کچھ یوں تھا کہ ’’اگر پہلے حرف کے نیچے کسرہ یعنی زیر ہے تو ہمزہ کے بجائے ’’ی‘‘ استعمال ہوگی، جیسے لیے، دیے، کیے، چاہیے، کیجیے، دیجیے وغیرہ……
اور ’ی‘ سے پہلے حرف پر فتح یعنی زبر ہے تو ہمزہ کا استعمال ہوگا جیسے گئے اور نئے وغیرہ۔ یہاں ’گ‘ اور ’ن‘ پر زبر ہے اس لیے ’یے‘ کے بجائے ’’ئے‘‘ یعنی ہمزہ آئے گا۔ کتنا آسان سا فارمولا ہے نا؟

مذکورہ بالا تشریح اور تصحیح میں کوئی غلطی یا کمی کوتاہی نظر آئے تو اصلاح کرسکتے ہیں۔

والسلام

#اردوزبان
منقول

#پیش_کش
#آصف_جمیل_امجدی
کیا یہ ہم قافیہ ہیں؟

آپ کسی عربی جاننے والے کے پاس چلے جائیں یا قرآن کے کسی ماہر قاری سے پوچھ لیں وہ آپ کو ث، س اور ص کے مخارج اور آوازوں میں فرق سمجھا دے گا اسی طرح
ت اور ط
ز، ذ، ظ اور ض
ک اور ق
وغیرہ حروف کی آوازوں میں فرق ہے اس فرق کو عربی اہل زبان بغیر کسی تکلف کے ملحوظ رکھ سکتے ہیں۔ اس لیے عربی عروض میں ث، س اور ص ہم قافیہ نہیں ہیں اسی طرح ت اور ط بھی۔

لیکن اردو والے عام بول چال میں ان حروف کی آوازوں میں فرق نہیں کرتے اس لیے اردو میں پاس اور خاص ہم قافیہ ہیں اسی طرح غلط اور معزرت بھی۔ یہ میرے دو مطلعوں کے قافیے ہیں۔

یارا تری نظر میں گر اخلاص کچھ نہیں
پھر تیرے واسطے تو مرے پاس کچھ نہیں

کیسے غلط کہوں اسے چاہے غلط کرے
اس کی خطا بھی ہو تو یہ دل معذرت کرے

یہ دو مطلعے میں نے مختلف اوقات میں فیس بک پر شیئر کیے تو دوستوں کی طرف سے قافیوں سے متعلق سوالات پوچھے گئے۔ مختصر جواب ہو گیا دلچسپی رکھنے والے دوست مزید تفصیلات دیکھ لیں۔

چونکہ علم عروض عربی سے کاپی پیسٹ کیا گیا ہے اور پھر عربی اور اردو کے مزاج کے اختلاف کو سمجھتے ہوئے علم عروض میں جو ضروری ترامیم کی جانی چاہیے تھیں وہ بھی نہیں کی گئیں اس لیے کچھ معاملات ابھی تک ابہام کا شکار ہیں جن میں سے ایک مذکور حروف کے ہم قافیہ ہونے کا ہے۔ آج بھی بعض دوست عربی کی پیروی میں ایسے الفاظ کو ہم قافیہ ماننے پر تیار نہیں ہیں۔

پہلی بات تو یہ کہ ہم آواز الفاظ کو ہم قافیہ کہتے ہیں نہ کہ ہم شکل الفاظ کو۔ یہ حروف ہم شکل نہ ہونے کے باوجود ہم آواز ہیں اس لیے ہم قافیہ ہیں۔ اور انہیں "صوتی قافیہ" جیسی اصطلاح سے پکارنے کی ضرورت بھی نہیں ہے قافیے ہم آواز الفاظ ہی ہوتے ہیں صوتی اور صوری کی تقسیم غیر ضروری ہے۔

اور پھر اگر آپ انہیں ہم شکل بھی کرنا چاہتے ہیں تو آپ انہیں رومن اردو میں لکھ لیں پاس اور خاص دونوں کے آخر میں "ایس" آئے گا یا ہندی رسم الخط یا گرمکھی (بھارت میں پنجابی کا رسم الخط) میں لکھ لیں تو دونوں لفظوں کے آخر میں ایک ہی حرف آئے گا جسے "سَسّا" کہتے ہیں۔ شاید کسی بھی رسم الخط میں ایک آواز کو ظاہر کرنے کے لیے ایک سے زیادہ حروف نہ ہوں۔(اردو میں ایک آواز کے اظہار کے لیے تین تین حروف کیا کر رہے ہیں؟ یہ الگ بحث ہے۔)

اب اس کے برعکس ایک مثال دیکھیں۔
ایسے حروف جو عربی میں نہیں ہیں انھیں اہلِ عرب عربی میں موجود کسی دوسرے ملتے جلتے حرف کے حکم میں مان لیتے ہیں شاید اسی قاعدے کی پیروی میں ہاتھ اور ساتھ کو بات اور رات وغیرہ کا ہم قافیہ مانا جاتا ہے حالانکہ اردو میں ت اور تھ الگ الگ حروف ہیں دونوں کی آوازیں بھی مختلف ہیں اور شکلیں بھی۔

حاصلِ کلام یہ کہ ہم قافیہ ہونے کی ایک ہی شرط ہے اور وہ ہے "ہم آواز ہونا۔"

اسی طرح عربی عروض کی اندھی تقلید سے ایک معاملہ حروف اصلی اور حروف زوائد کا ہے جس پر گفتگو پھر کبھی ان شاءاللہ
شہزاد احمد شاذ