شاعری کورس
292 subscribers
39 photos
43 videos
20 files
93 links
اس چینل میں شاعری اور نثر نگاری سیکھنے کے تعلق سے جو ویڈیو/آڈیو/تحریر، دوسرے حضرات کی ملتی رہتی ہیں وہ شیئر کی جاتی ہیں۔ نقد اصلاح کے لئے @IslaheSukhan گروپ جوائن کریں ۔
Download Telegram
Media is too big
VIEW IN TELEGRAM
شتر گربہ کے بارے میں
آسان علم قافیہ👇
لفظ "زندگی" کی تحقیق:

سوال:

کیا "زندگی" کو تیرگی چاشنی دوستی شاعری روشنی عاجزی دشمنی اجنبی بندگی تابندگی وغیرہ کا قافیہ کرنا درست ہے؟

مختصر جواب:

"زندگی" کے قوافی میں تیرگی ، بندگی اور تابندگی لانا درست ہے اور چاشنی ، دوستی ، شاعری ، روشنی ، عاجزی ، دشمنی اور اجنبی کو "زندگی" کا قافیہ کرنا درست نہیں۔


تفصیلی جواب:

فارسی زبان کا مصدر ہے: "زیستن" (جینا) جیسے "رفتن" (جانا) بھی ایک مصدر ہے۔

اس کا مضارع کا صیغہ ہے: "زِیَد" (جیے)

پھر اس سے امر کا صیغہ "زِی" (جی) بنا۔ جیسے "کُن" (کر) امر کا صیغہ ہے۔

پھر "باشندہ" ، "تابندہ" ، "پرندہ" وغیرہ کی طرح اس کے آخر میں بھی "ندہ" بڑھایا تو اسمِ فاعل کا صیغہ "زندہ" (جینے والا) بن گیا۔

پھر "زندہ" کے آخر میں "ی" کا اضافہ کیا گیا تو "زندہی" بنا جو کہ "آزردگی" ، "شرمندگی" وغیرہ کی طرح "ہ" کے "گ" سے بدلنے کی وجہ سے "زندگی" کی صورت اختیار کرگیا۔

اب اگر "زندگی" اور "شرمندگی" میں غور کرتے ہیں تو "ندگی" دونوں کا ایک ہے ، اور روی "ز" اور "م" الگ الگ ہیں ، اس لیے ان دونوں کو ایک دوسرے کا قافیہ کرنا علم قافیہ کی رو سے غلط ہے ، تاہم انتہائی پیچیدہ امر ہونے کے باعث اس میں لچک رکھنا ضروری ہے ، ہر کوئی یہ جاننے اور سمجھنے سے قاصر ہے کہ "زندگی" میں اصل حرف صرف "ز" ہے اور "ندگی" زائد ہے ، بندے کا ذاتی خیال یہ ہے کہ ہمیں "زندہ" کو اصل حروف پر مشتمل ایک لفظ سمجھتے ہوئے "ہ" کو حرف روی سمجھنا چاہیے ، یوں "زندگی" میں حرف روی "گ" شمار ہوگا جو کہ اصل میں "ہ" تھا۔

لہٰذا "زندگی" کے قوافی میں تمام الفاظ کو لانا درست ہونا چاہیے جن کے آخر میں "گی" آرہا ہو ، جیسے: تابندگی ، بندگی ، شرمندگی ، آزردگی ، شستگی ، شائستگی ، درندگی۔

طالبِ دعا:
محمد اسامہ سَرسَری
اشکال:
"سفرِ مدینہ" میں ف کو تسکینِ اوسط کے تحت ساکن کیوں نہیں کرسکتے؟

جواب:
تین متحرک کے درمیانے کو ساکن کرنے والے قاعدے کا تعلق بحر کے ساتھ ہے نہ کہ مصرع کے ساتھ۔
مثال کے طور پر؛
مصرع یہ ہے: کوئی امید بر نہیں آتی
اور بحر یہ ہے: فاعلاتن مفاعلن فعِلن
اب دیکھیے ، آخری رکن "فعِلن" میں پہلے تینوں حروف متحرک ہیں ، ان کے درمیانے کو ساکن کرکے اسے فعْلن (22) کرنا درست ہے ، چنانچہ درج بالا مصرع میں "آتی" اسی تسکین اوسط کے مطابق ہے ، یہ تسکین درست ہے ، مگر مصرع کے کسی لفظ یا مرکب میں تسکین اوسط والا قاعدہ جاری نہیں کیا جاسکتا ، الا یہ کہ کسی لفظ میں یہ تسکین مستعمل ہوجائے ، جیسے "برکت" میں ب ، ر اور ک تینوں متحرک تھے ، مگر یہ "ر" کے سکون کے ساتھ مستعمل ہوگیا ہے ، لیکن اس پر قیاس کرکے "غلَطی" یا "طَلَبہ" کو فعْلن (22) باندھنا طلبہ کی غلطی ہے۔ :)
طالبِ دعا:
محمد اسامہ سَرسَری
نہ نا نہیں سے فعولن فاعلن:
===============
آج واٹس ایپ پر جدید عروض کا پرائیوٹ کورس کرنے والے ایک دوست نے بڑا اچھا سوال کیا کہ "نہ نا نہیں" تو سمجھ میں آگئے اور ان کے ذریعے وزن بھی سمجھ میں آگیا ، لیکن سب جگہ چونکہ فعولن فاعلن سے ہی وزن بتایا جاتا ہے تو "نہ نا نہیں" کو فعولن فاعلن میں کیسے منتقل کریں؟
جواب میں بندے نے یہ لسٹ تیار کرکے دی ہے ، جسے افادۂ عام کی نیت سے یہاں بھی پیش کر رہا ہوں۔

نا = فع = 2
نہ نا = فعو = 1 2
نا نہ = فاع = 2 1
نانا = فعلن = 22
نہ نہ نا = فعِلن = 11 2
نہ نا نہ = فعول = 121
نہ نا نا = فعولن = 1 2 2
نا نہ نا = فاعلن = 212
نا نا نہ = مفعول = 2 2 1
نانانا = مفعولن = 222
نہ نہ نانا = فعِلاتن = 11 22
نا نہ نہ نا = مفتعلن = 2112
نہ نا نہ نا = مفاعلن = 1 2 1 2
نا نہ نا نہ = فاعلان = 2 1 2 1
نہ نا نا نہ = مفاعیل = 1 22 1
نہ نا نا نا = مفاعیلن = 1 2 2 2
نا نہ نا نا = فاعلاتن = 2 1 22
نا نا نہ نا = مستفعلن = 22 1 2
نا نا نا نہ = مفعولات = 222 1
نہ نہ نا نہ نا = متفاعلن = 11 2 1 2
نہ نا نہ نہ نا = مفاعلتن = 1 2 11 2
===============
طالبِ دعا:
محمد اسامہ سَرسَری
شاعری ، نظم اور نثر میں فرق:
✒️ اگر کلام میں وزن ہو تو اسے کلامِ موزوں کہتے ہیں۔
✒️ اور اگر بات میں وزن ہو تو اسے شاعری کہتے ہیں.
✒️ شاعری اگر کلام موزوں کے ذریعے ہو تو اسے نظم کی کسی صنف (شعر/ غزل/ پابند نظم/ آزاد نظم وغیرہ) میں شمار ہیں۔
✒️ اور اگر کلامِ موزوں کے ذریعے نہ ہو تو وہ نثر کی کسی صنف (مضمون/ کہانی / انشائیہ / نثری شاعری وغیرہ) میں شمار کی جاتی ہے۔
📢 البتہ کلام منظوم اگر شاعری سے محروم ہو تو اسے کلامِ مظلوم کہنا چاہیے۔ 🙂
طالبِ دعا:
محمد اسامہ سَرسَری
صرف 31 الفاظ یاد کرکے پوری فارسی گنتی سیکھیں۔
لنک:
https://youtu.be/2qLWZ-ePJ0g
چوبیس مشہور بحریں ۔
کاپی پیسٹ

چھوٹے تھے تو ہمیں یہ اصول معلوم نہیں تھا کہ الف پر ختم ہونیوالے مذکر کو مؤنث بنانا ہوتو اسکی آخری "الف" کو چھوٹی "ی" میں بدل دیتے ہیں

لیکن اسکے باوجود ہم مرغا مرغی، بکرا بکری، گدھا گدھی یا گھوڑا گھوڑی کے معاملے میں کوئی غلطی نہیں کرتے تھے۔
البتہ جب چڑا چڑی اور کُتا کُتی تک بات پہنچتی تو استاد کا غضبناک چہرہ دیکھنا پڑتا اور تذکیروثانیت کے وہ معصوم سے اصول جو ہم نے لاشعوری طور پر اپنا رکھے تھے، دُھوان بن کر اُڑ جاتے۔ اِس بات کا منطقی جواب کوئی نہیں دیتا تھا کہ چڑی کو چڑیا اور کُتّی کو کُتّیا کہنا کیوں ضروری ہے۔

ذرا اور بڑے ہوئے تو معلوم ہوا کہ تذکیروثانیت کی دنیا تو پوری اندھیرنگری ہے۔ وہاں نر اور مادہ کے اصولوں کی کھُلی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں۔

مثلاً کوّا، اُلو، ہُد ہُد، خرگوش، لنگور، گِدھ، کچھوا اور مچھّر کے بارے میں پتہ چلا کہ اِن بے چاروں کی مؤنث شکل تو موجود ہی نہیں ہے۔

دِل میں بار بار خیال آتا کہ مسٹر خرگوش کے گھر میں کوئی مسِز خرگوش بھی تو ہو گی۔ لنگور کی بیوی، گِدھ کی ماں، کچھوے کہ بہن۔ کیا یہ سب ہستیاں وجود ہی نہیں رکھتیں؟ اور اگر ہیں تو اُن کیلئے الگ سے الفاظ کیوں موجود نہیں۔

اِس بےانصافی اور زیادتی پر ایک بار بہت گِڑگڑا کر اپنے اُستاد سے سوال کیا تو وہ غصے سے لال ہوکر بولے، "بے انصافی تو دونوں طرف سے ہے۔ مچھلی کے شوہر کا نام سنا ہے

کبھی؟

وہ بھی تو وجود رکھتا ہے۔"
ہم لاجواب ہوگئے اوراُستاد جی نے پوری فہرست گِنوا دی

"فاختہ، مینا، چیل، مُرغابی، ابابیل، مکھی، چھپکلی۔۔۔" استاد جی نے الٹا ہمیں سوال داغ دیا بتاؤ: کیا اِن سب کے باپ بھائی وجود نہیں رکھتے؟
اور آج تک اس سوال کا جواب ڈھونڈ رہے ہیں...

کوئی اہل علم مدد فرمائیں...
#مسکراہٹیں