"مولانا نثار احمد صاحب قاسمی رح کا مختصر تعارف"
از قلم: مولانا ضیاء الحق عرف حاجی بابو
مولانا نثار احمد صاحب قاسمی رح کی ولادت ٦ دسمبر ١٩٤٩ء میں گلہریا نزد کُسونا/سانتھا تحصیل منہداول ضلع سنت کبیر نگر/بستی میں ہوئی۔ نام: نثار احمد بن محمد صالح بن حکم دار ہے۔ مولانا کے دادا حکم دار صاحب علاقہ کے زمیندار اور ایک ذی حیثیت شخص تھے ۔ پرائمری کی تعلیم مدرسہ اسلامیہ گلہریا میں ہوئی ، استاذ منشی محمد شائق صاحب تھے ۔ ١٩٦٠ء کے قریب پرائمری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مدرسہ مصباح العلوم برگدوا میں حافظ سعادت حسین صاحب کے یہاں حفظ کا آغاز کیا ،بارہ تیرہ پارہ پڑھنے کے بعد چیچک کی وجہ سے بینائی متاثر ہوگئی ،جس کی وجہ سے گھر کے لوگوں کی رائے ہوئی کہ حفظ کی تعلیم ترک کردی جائے۔ چنانچہ حفظ چھوڑ کر وہیں مولانا اور ان کے بڑے بھائی نے مولانا شفیع اﷲ صاحب سے فارسی شروع کی ، اور اس کے بعد انھیں سے عربی اول پڑھ کر ١٩٦٣ء میں مدرسہ نور العلوم بہرائچ چلے گئے، جہاں عربی دوم میں داخلہ لیا۔ وہاں عربی دوم سے لے کر عربی ششم تعلیم حاصل کی، یہاں کے اساتذہ میں مولانا سلامت ﷲ صاحب (صدر المدرسین) اور مولانا حبیب احمد صاحب اعمیٰ وغیرہ ہیں۔ رفقاء درس میں مولانا حیات اﷲ صاحب( سابق صدر جمعیة علماء یوپی) اور مولانامجیب ﷲ صاحب گونڈوی مدظلہ ( استاذ دارالعلوم دیوبند ) وغیرہ ہیں ۔
شوال ١٣٩٠ھ( دسمبر ١٩٧٠) میں دارالعلوم دیوبند میں موقوف علیہ میں داخلہ لیا ، دو سال رہ کر اپنی علمی تشنگی کی سیرابی کا خوب سامان کیا، دارالعلوم کے ذہین اور ممتاز طلباء میں سے تھے ، مولانا وحید الزماں صاحب کیرانوی رح سے خاص استفادہ کیا ۔ شعبان ١٣٩٢ھ (ستمبر ١٩٧٢)میں دورۂ حدیث سے فراغت حاصل کی۔ دورہ کے ساتھیوں میں مذکورہ بالا دو حضرات کے علاوہ مولانا بدر الحسن صاحب دربھنگوی، مولانا عبد الرب صاحب اعظمی ( موجودہ صدر جمعیة علماء یوپی) مولانا عبد الخالق صاحب سنبھلی ( نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند ) وغیرہ ہیں ۔
دارالعلوم سے فراغت کے بعد شوال ١٣٩٢ھ سے اب تک مسلسل بغیر کسی انقطاع کے تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ امسال شوال ١٤٤٢ھ میں اس پر پورے پچاس سال یعنی نصف صدی مکمل ہوگئی، جس پر مولانا کو ایوارڈ دیا جانا چاہئے۔ فراغت کے بعد آٹھ سال تک دارالعلوم میل کھیڑلا راجستھان میں تدریسی خدمات انجام دیں ۔ اس کے بعد سے اب تک بحیثیت رئیس الاساتذہ دارالعلوم الاسلامیہ بستی میں پورے زور وشور کے ساتھ آپ کے علوم ومعارف کا فیضان جاری وساری ہے، یہاں جلالین شریف تیس سال سے زائد عرصہ سے پڑھارہے ہیں ، کہتے ہیں کہ بچپن کاحفظ قرآن جو بینائی کی وجہ سے ترک کرنا پڑا تھا اس کی برکت سے تقریباً یاد ہوگیا۔ اس عرصہ میں نہ جانے کتنے مس خام آپ کی نگاہِ کیمیا اثر کے فیض سے کندن بن چکے ہوں گے ۔
مولانا مصلح الدین صاحب، مولانا مفتی محمد افضل صاحب (اساتذۂ دارالعلوم دیوبند) اور مولانا محمد اسجد صاحب قاسمی ندوی وغیرہ آپ کے تلامذہ میں سے ہیں ۔
مولانا کا اصلاحی تعلق مولانا مسیح ﷲ خاں صاحب ، مولانا قاری سید صدیق احمد صاحب باندوی اور مولانا سید اسعد صاحب مدنی کے خلیفہ مولانا عبدالرحیم صاحب سے رہا ہے ، آخرالذکر سے آپ کو اجازت وخلافت بھی حاصل ہے ۔
مجھے تقریباً ٢٠ سال سے مولانا موصوف سے شرفِ نیاز اور ان کی بے انتہا شفقتیں حاصل ہیں، ایک دو بار از راہ کرم مولانا میرے گھر بھی تشریف لائے ،اور میں تو متعدد بار ان کے یہاں حاضر ہوا ، جب بھی حاضر ہوا بے انتہا اعزاز واکرام کے ساتھ ساتھ کبھی بھی ایسا نہ ہوا کہ بغیر جود وکرم اور بخشش وعطایا کے واپسی ہوئی ہو۔ جب کبھی مولانا سے کسی تحریر کی فرمائش کی فوراً لکھ کر دیدی۔ مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی کے مجموعۂ مکاتیب ''حدیث دوستاں '' خود نوشت '' حکایت ہستی '' اور سفر نامہ حج '' بطواف کعبہ رفتم '' پر مولانا کی تحریریں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں جو ادبِ عالیہ کا شاہکار ہیں ۔اس کے علاوہ مولانا کے متعدد خطوط بھی ماہنامہ ضیاء الاسلام میں شائع ہوئے ہیں جو ادب و انشاء کا ایک نمونہ ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کی شاعری بھی انتہائی زوردار ہے ، معلوم نہیں اس کی حفاظت کا وغیرہ کا کوئی نظم کیا گیا ہے یا نہیں؟ ورنہ ہمارے علماء کے باقیات علم کا انجام عموماً کچھ اچھا نہیں ہوا ہے۔ ایک مرتبہ مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی دارالعلوم بستی گئے تھے تو مولانا نے برجستہ سات اشعار کی ایک نظم کہی تھی جس کا ایک شعر مجھے یاد ہے، ہوسکتا ہے کہ پوری نظم مولانا کی کسی ڈائری میں محفوظ ہو، وہ شعر یہ ہے:
گفتگو اعجاز ہے، علم وعمل اعجاز ہے
صاحبِ اعجاز، واعجاز ہی اعجاز ہے
از قلم: مولانا ضیاء الحق عرف حاجی بابو
مولانا نثار احمد صاحب قاسمی رح کی ولادت ٦ دسمبر ١٩٤٩ء میں گلہریا نزد کُسونا/سانتھا تحصیل منہداول ضلع سنت کبیر نگر/بستی میں ہوئی۔ نام: نثار احمد بن محمد صالح بن حکم دار ہے۔ مولانا کے دادا حکم دار صاحب علاقہ کے زمیندار اور ایک ذی حیثیت شخص تھے ۔ پرائمری کی تعلیم مدرسہ اسلامیہ گلہریا میں ہوئی ، استاذ منشی محمد شائق صاحب تھے ۔ ١٩٦٠ء کے قریب پرائمری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مدرسہ مصباح العلوم برگدوا میں حافظ سعادت حسین صاحب کے یہاں حفظ کا آغاز کیا ،بارہ تیرہ پارہ پڑھنے کے بعد چیچک کی وجہ سے بینائی متاثر ہوگئی ،جس کی وجہ سے گھر کے لوگوں کی رائے ہوئی کہ حفظ کی تعلیم ترک کردی جائے۔ چنانچہ حفظ چھوڑ کر وہیں مولانا اور ان کے بڑے بھائی نے مولانا شفیع اﷲ صاحب سے فارسی شروع کی ، اور اس کے بعد انھیں سے عربی اول پڑھ کر ١٩٦٣ء میں مدرسہ نور العلوم بہرائچ چلے گئے، جہاں عربی دوم میں داخلہ لیا۔ وہاں عربی دوم سے لے کر عربی ششم تعلیم حاصل کی، یہاں کے اساتذہ میں مولانا سلامت ﷲ صاحب (صدر المدرسین) اور مولانا حبیب احمد صاحب اعمیٰ وغیرہ ہیں۔ رفقاء درس میں مولانا حیات اﷲ صاحب( سابق صدر جمعیة علماء یوپی) اور مولانامجیب ﷲ صاحب گونڈوی مدظلہ ( استاذ دارالعلوم دیوبند ) وغیرہ ہیں ۔
شوال ١٣٩٠ھ( دسمبر ١٩٧٠) میں دارالعلوم دیوبند میں موقوف علیہ میں داخلہ لیا ، دو سال رہ کر اپنی علمی تشنگی کی سیرابی کا خوب سامان کیا، دارالعلوم کے ذہین اور ممتاز طلباء میں سے تھے ، مولانا وحید الزماں صاحب کیرانوی رح سے خاص استفادہ کیا ۔ شعبان ١٣٩٢ھ (ستمبر ١٩٧٢)میں دورۂ حدیث سے فراغت حاصل کی۔ دورہ کے ساتھیوں میں مذکورہ بالا دو حضرات کے علاوہ مولانا بدر الحسن صاحب دربھنگوی، مولانا عبد الرب صاحب اعظمی ( موجودہ صدر جمعیة علماء یوپی) مولانا عبد الخالق صاحب سنبھلی ( نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند ) وغیرہ ہیں ۔
دارالعلوم سے فراغت کے بعد شوال ١٣٩٢ھ سے اب تک مسلسل بغیر کسی انقطاع کے تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ امسال شوال ١٤٤٢ھ میں اس پر پورے پچاس سال یعنی نصف صدی مکمل ہوگئی، جس پر مولانا کو ایوارڈ دیا جانا چاہئے۔ فراغت کے بعد آٹھ سال تک دارالعلوم میل کھیڑلا راجستھان میں تدریسی خدمات انجام دیں ۔ اس کے بعد سے اب تک بحیثیت رئیس الاساتذہ دارالعلوم الاسلامیہ بستی میں پورے زور وشور کے ساتھ آپ کے علوم ومعارف کا فیضان جاری وساری ہے، یہاں جلالین شریف تیس سال سے زائد عرصہ سے پڑھارہے ہیں ، کہتے ہیں کہ بچپن کاحفظ قرآن جو بینائی کی وجہ سے ترک کرنا پڑا تھا اس کی برکت سے تقریباً یاد ہوگیا۔ اس عرصہ میں نہ جانے کتنے مس خام آپ کی نگاہِ کیمیا اثر کے فیض سے کندن بن چکے ہوں گے ۔
مولانا مصلح الدین صاحب، مولانا مفتی محمد افضل صاحب (اساتذۂ دارالعلوم دیوبند) اور مولانا محمد اسجد صاحب قاسمی ندوی وغیرہ آپ کے تلامذہ میں سے ہیں ۔
مولانا کا اصلاحی تعلق مولانا مسیح ﷲ خاں صاحب ، مولانا قاری سید صدیق احمد صاحب باندوی اور مولانا سید اسعد صاحب مدنی کے خلیفہ مولانا عبدالرحیم صاحب سے رہا ہے ، آخرالذکر سے آپ کو اجازت وخلافت بھی حاصل ہے ۔
مجھے تقریباً ٢٠ سال سے مولانا موصوف سے شرفِ نیاز اور ان کی بے انتہا شفقتیں حاصل ہیں، ایک دو بار از راہ کرم مولانا میرے گھر بھی تشریف لائے ،اور میں تو متعدد بار ان کے یہاں حاضر ہوا ، جب بھی حاضر ہوا بے انتہا اعزاز واکرام کے ساتھ ساتھ کبھی بھی ایسا نہ ہوا کہ بغیر جود وکرم اور بخشش وعطایا کے واپسی ہوئی ہو۔ جب کبھی مولانا سے کسی تحریر کی فرمائش کی فوراً لکھ کر دیدی۔ مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی کے مجموعۂ مکاتیب ''حدیث دوستاں '' خود نوشت '' حکایت ہستی '' اور سفر نامہ حج '' بطواف کعبہ رفتم '' پر مولانا کی تحریریں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں جو ادبِ عالیہ کا شاہکار ہیں ۔اس کے علاوہ مولانا کے متعدد خطوط بھی ماہنامہ ضیاء الاسلام میں شائع ہوئے ہیں جو ادب و انشاء کا ایک نمونہ ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کی شاعری بھی انتہائی زوردار ہے ، معلوم نہیں اس کی حفاظت کا وغیرہ کا کوئی نظم کیا گیا ہے یا نہیں؟ ورنہ ہمارے علماء کے باقیات علم کا انجام عموماً کچھ اچھا نہیں ہوا ہے۔ ایک مرتبہ مولانا اعجاز احمد صاحب اعظمی دارالعلوم بستی گئے تھے تو مولانا نے برجستہ سات اشعار کی ایک نظم کہی تھی جس کا ایک شعر مجھے یاد ہے، ہوسکتا ہے کہ پوری نظم مولانا کی کسی ڈائری میں محفوظ ہو، وہ شعر یہ ہے:
گفتگو اعجاز ہے، علم وعمل اعجاز ہے
صاحبِ اعجاز، واعجاز ہی اعجاز ہے
🌴🌷شیخ الهند🌷🌴
*اقصیٰ کے آنسو، قسط: (20)* *فلسطین کا قضیہ (حصہ اول)* *القدس کے خلاف یہود کی دل گداز داستاں،* *تاریخی حوالوں کی روشنی میں عبرت آمیز حقائق:* *سو سال پہلے:* *"اگر میں اس کانفرنس میں طے شدہ امور کا خلاصہ چند لفظوں میں بتانا چاہتا ہوں تو میں کہوں گا کہ"…
*اقصیٰ کے آنسو، قسط: (21)*
*فلسطین کا قضیہ (حصہ دوم)*
*مسئلہ فلسطین، ماضی، حال، مستقبل کے حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے، جس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔*
*رودادِ جور وجفا:*
برطانیہ نے برصغیر، مشرقی وسطٰی اور بعض افریقی ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم، غضب اور جفاکاری کا جو برتاؤ کیا وہ نہایت ہولناک ہے، مگر فلسطین میں اس کا کردار اور بھی زیادہ گھناؤنا اور قابل نفرتیں ہیں، افسوس کہ ہماری آج کی نسل ان تمام ظلم اور زیادتیوں سے ناواقف ہے جو اس بدخصلت قوم نے ہمارے ساتھ روا رکھیں، اس وجہ سے انگریز ہماری سلطنتیں چھیننے اور ہماری مال و دولت سے اپنا گھر بھرنے کے باوجود مطمئن ہے کہ کوئی ہاتھ ان کے گریبان تک پہنچے گا نہ کسی کی نظرِ انتقام ان کی طرف اٹھے گی۔
جنگِ عظیم اول کے دوران برطانیہ کو سلطنت عثمانیہ کے خلاف عرب ممالک کی مدد درکار تھی، اس غرض سے اس نے حاکمِ مکہ شریف حسین سے گفت و شنید کی، اس غدار حکمران کے ساتھ اس کا معاہدہ ہوا کہ عرب ممالک برطانوی حکومت کے ساتھ اس صورت میں تعاون کر سکتے ہیں کہ جنگ کے اختتام پر ان کی آزادی و خودمختاری کے اعلان کا وعدہ کیا جائے، انگریز کی عیاری دیکھئے کہ ایک طرف وہ یہودیوں سے جزیرة العرب میں صیہونی ریاست کے تشکیل کے عوض دولت اینٹھ رہا تھا اور دوسری طرف عرب ممالک سے آزادی اور خودمختاری کے وعدے کرکے ان سے تعاون حاصل کر رہا تھا، جنگ جیتنے کے کچھ عرصے بعد اس نے عرب ممالک کو خود مختاری دے کر ان کی سرحدوں کا تعین کردیا، مگر فلسطین کی سرزمین پر چونکہ اسے ایک صیہونی ریاست کا قیام منظور تھا، اس لئے اس سوال کو موضوع اختلاف بناکر کھڑا کر دیا گیا کہ آیا فلسطین کو بھی ان علاقوں میں شمار کرنا چاہیے یا نہیں جن کو خود مختاری دی جانی تھی، حالانکہ یہ بات سرے سے اختلاف کا باعث ہی نہیں تھی کہ فلسطین بھی عرب کے حدود میں شامل اور آزادی کا مستحق ہے۔
*یہودیوں کی نقل مکانی:*
انگریز نے صرف اس وعدہ خلافی اور دغابازی پر بس نہیں کی، بلکہ اپنی نگرانی میں صیہونی مقاصد کی تکمیل کا عمل زور و شور سے جاری رکھا، اس کے لئے اس نے دو باتوں پر زور دیا۔
① ۔۔۔ ایک تو یہ کہ اسرائیل کو آبادی اور وسائل کے لحاظ سے مضبوط کیا جائے، یہودی چونکہ فلسطین میں نہایت قلیل تعداد میں تھے، اس لئے غیر محسوس طور پر منصوبہ شروع کیا گیا کہ فلسطینی مسلمانوں کے مکانات اور جائدادیں خریدی جائیں اور دنیا بھر سے یہودیوں کو لا کر یہاں بسایا جائے، اس غرض کے لئے یہودیوں کی تنظیمیں اور سرمایا دار یہودی سرگرم ہوگئے اور فلسطینی مسلمانوں کی جائدادیں خریدنے کے لئے پانی کی طرح پیسہ بہایا گیا، مقامی علمائے کرام نے اس کی سختی سے مخالفت کی اور مسلم عوام کو منع کیا کہ یہودیوں کے ہاتھ مکانات اور زمینیں ہرگز فروخت نہ کریں، اس غرض کے لئے انہوں نے ساری سربر آوردہ علمائے کرام مفتیان حضرات سے فتاویٰ بھی طلب کئے، ان سب حضرات نے اس امر کو ناجائز وحرام بتلایا۔
اس سلسلے کا ایک فتویٰ بر صغیر کی مشہور علمی و روحانی شخصیت حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تهانوی قدس سرہ سے بھی لیا گیا۔ (اندازہ لگائیے عالم اسلام میں علمائے دیوبند کا کیا مقام تھا) آپ نے عدم جواز کا فتوی دیا۔ ( دیکھئے امداد الفتاوىٰ ج: 3، ص: 59) اس وقت کچھ تو عوام کی غفلت تھی، کچھ مسلمانوں کا غربت و افلاس اور کچھ یہودی کی عیاری ومکاری کہ علمائے کرام کے سختی سے منع کرنے کے باوجود مقامی آبادی سے زمینیں خرید خرید کر یہود اپنے پاؤں جماتے گئے اور دھیرے دھیرے انبیاء کرام علیہم السلام کی اس مقدس سرزمین میں روس، یورپ اور افریقہ سے آئے ہوئے یہودی آباد ہوتے گئے، برطانوی کمشنر کی زیر نگرانی چھپ چھپاتے یہ عمل جاری رہا اور نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ فلسطین کی آبادی کا تناسب دھیرے دھیرے کم ہونے لگا، وہی یہودی جو 1914ء میں یہاں کی آبادی کا 9 فیصد تھے، 1921ء میں 11 فیصد ہوگئے، 1931ء میں ان کی آبادی بڑھ کر 17 فیصد تک پہنچ گئی اور 1948ء میں جب مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل کے قیام کا اعلان ہوا تو تیزی سے بڑھتے ہوئے یہودیوں کی تعداد 5۔ 13فیصد تک جا پہونچی تھی، ایک جائزے کے مطابق 1880ء اور 1940 کے درمیان پانچ لاکھ یہودی باہر سے آکر مقبوضہ فلسطین میں آباد ہوئے۔
*نقشے بولتے ہیں:*
اسرائیل کے قیام کے اعلان کے بعد تو غضب ہی ہوگیا، ہر قسم کا تکلف بالائے طاق رکھتے ہوئے دھڑادھڑ فلسطین کی طرف نقل مکانی شروع کی، جنگ عظیم دوم میں جرمنی کے رہنما ہٹلر کی طرف سے یہودیوں کے قتلِ عام کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور اس بہانے دنیا کی ہمدردی حاصل کرکے بد فطرت اور سازشی یہودیوں کے لئے الگ وطن کی آواز اٹھائی گئی، ماضی کے پس منظر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا میں مختلف قوم کے ہاتھوں اپنے کرتوتوں کی بنا پر مار کھا کھا کر بکھرے ہوئے یہودیوں کو کس طرح باہر سے لالا کر فلسطین میں آباد کیا گیا، اب چونکہ یہودی بستیاں کثیر تعداد میں آباد ہوگئی تھیں، اس لئے یہودیوں نے زمینیں
*فلسطین کا قضیہ (حصہ دوم)*
*مسئلہ فلسطین، ماضی، حال، مستقبل کے حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے، جس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔*
*رودادِ جور وجفا:*
برطانیہ نے برصغیر، مشرقی وسطٰی اور بعض افریقی ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم، غضب اور جفاکاری کا جو برتاؤ کیا وہ نہایت ہولناک ہے، مگر فلسطین میں اس کا کردار اور بھی زیادہ گھناؤنا اور قابل نفرتیں ہیں، افسوس کہ ہماری آج کی نسل ان تمام ظلم اور زیادتیوں سے ناواقف ہے جو اس بدخصلت قوم نے ہمارے ساتھ روا رکھیں، اس وجہ سے انگریز ہماری سلطنتیں چھیننے اور ہماری مال و دولت سے اپنا گھر بھرنے کے باوجود مطمئن ہے کہ کوئی ہاتھ ان کے گریبان تک پہنچے گا نہ کسی کی نظرِ انتقام ان کی طرف اٹھے گی۔
جنگِ عظیم اول کے دوران برطانیہ کو سلطنت عثمانیہ کے خلاف عرب ممالک کی مدد درکار تھی، اس غرض سے اس نے حاکمِ مکہ شریف حسین سے گفت و شنید کی، اس غدار حکمران کے ساتھ اس کا معاہدہ ہوا کہ عرب ممالک برطانوی حکومت کے ساتھ اس صورت میں تعاون کر سکتے ہیں کہ جنگ کے اختتام پر ان کی آزادی و خودمختاری کے اعلان کا وعدہ کیا جائے، انگریز کی عیاری دیکھئے کہ ایک طرف وہ یہودیوں سے جزیرة العرب میں صیہونی ریاست کے تشکیل کے عوض دولت اینٹھ رہا تھا اور دوسری طرف عرب ممالک سے آزادی اور خودمختاری کے وعدے کرکے ان سے تعاون حاصل کر رہا تھا، جنگ جیتنے کے کچھ عرصے بعد اس نے عرب ممالک کو خود مختاری دے کر ان کی سرحدوں کا تعین کردیا، مگر فلسطین کی سرزمین پر چونکہ اسے ایک صیہونی ریاست کا قیام منظور تھا، اس لئے اس سوال کو موضوع اختلاف بناکر کھڑا کر دیا گیا کہ آیا فلسطین کو بھی ان علاقوں میں شمار کرنا چاہیے یا نہیں جن کو خود مختاری دی جانی تھی، حالانکہ یہ بات سرے سے اختلاف کا باعث ہی نہیں تھی کہ فلسطین بھی عرب کے حدود میں شامل اور آزادی کا مستحق ہے۔
*یہودیوں کی نقل مکانی:*
انگریز نے صرف اس وعدہ خلافی اور دغابازی پر بس نہیں کی، بلکہ اپنی نگرانی میں صیہونی مقاصد کی تکمیل کا عمل زور و شور سے جاری رکھا، اس کے لئے اس نے دو باتوں پر زور دیا۔
① ۔۔۔ ایک تو یہ کہ اسرائیل کو آبادی اور وسائل کے لحاظ سے مضبوط کیا جائے، یہودی چونکہ فلسطین میں نہایت قلیل تعداد میں تھے، اس لئے غیر محسوس طور پر منصوبہ شروع کیا گیا کہ فلسطینی مسلمانوں کے مکانات اور جائدادیں خریدی جائیں اور دنیا بھر سے یہودیوں کو لا کر یہاں بسایا جائے، اس غرض کے لئے یہودیوں کی تنظیمیں اور سرمایا دار یہودی سرگرم ہوگئے اور فلسطینی مسلمانوں کی جائدادیں خریدنے کے لئے پانی کی طرح پیسہ بہایا گیا، مقامی علمائے کرام نے اس کی سختی سے مخالفت کی اور مسلم عوام کو منع کیا کہ یہودیوں کے ہاتھ مکانات اور زمینیں ہرگز فروخت نہ کریں، اس غرض کے لئے انہوں نے ساری سربر آوردہ علمائے کرام مفتیان حضرات سے فتاویٰ بھی طلب کئے، ان سب حضرات نے اس امر کو ناجائز وحرام بتلایا۔
اس سلسلے کا ایک فتویٰ بر صغیر کی مشہور علمی و روحانی شخصیت حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تهانوی قدس سرہ سے بھی لیا گیا۔ (اندازہ لگائیے عالم اسلام میں علمائے دیوبند کا کیا مقام تھا) آپ نے عدم جواز کا فتوی دیا۔ ( دیکھئے امداد الفتاوىٰ ج: 3، ص: 59) اس وقت کچھ تو عوام کی غفلت تھی، کچھ مسلمانوں کا غربت و افلاس اور کچھ یہودی کی عیاری ومکاری کہ علمائے کرام کے سختی سے منع کرنے کے باوجود مقامی آبادی سے زمینیں خرید خرید کر یہود اپنے پاؤں جماتے گئے اور دھیرے دھیرے انبیاء کرام علیہم السلام کی اس مقدس سرزمین میں روس، یورپ اور افریقہ سے آئے ہوئے یہودی آباد ہوتے گئے، برطانوی کمشنر کی زیر نگرانی چھپ چھپاتے یہ عمل جاری رہا اور نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ فلسطین کی آبادی کا تناسب دھیرے دھیرے کم ہونے لگا، وہی یہودی جو 1914ء میں یہاں کی آبادی کا 9 فیصد تھے، 1921ء میں 11 فیصد ہوگئے، 1931ء میں ان کی آبادی بڑھ کر 17 فیصد تک پہنچ گئی اور 1948ء میں جب مقبوضہ فلسطین میں اسرائیل کے قیام کا اعلان ہوا تو تیزی سے بڑھتے ہوئے یہودیوں کی تعداد 5۔ 13فیصد تک جا پہونچی تھی، ایک جائزے کے مطابق 1880ء اور 1940 کے درمیان پانچ لاکھ یہودی باہر سے آکر مقبوضہ فلسطین میں آباد ہوئے۔
*نقشے بولتے ہیں:*
اسرائیل کے قیام کے اعلان کے بعد تو غضب ہی ہوگیا، ہر قسم کا تکلف بالائے طاق رکھتے ہوئے دھڑادھڑ فلسطین کی طرف نقل مکانی شروع کی، جنگ عظیم دوم میں جرمنی کے رہنما ہٹلر کی طرف سے یہودیوں کے قتلِ عام کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور اس بہانے دنیا کی ہمدردی حاصل کرکے بد فطرت اور سازشی یہودیوں کے لئے الگ وطن کی آواز اٹھائی گئی، ماضی کے پس منظر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا میں مختلف قوم کے ہاتھوں اپنے کرتوتوں کی بنا پر مار کھا کھا کر بکھرے ہوئے یہودیوں کو کس طرح باہر سے لالا کر فلسطین میں آباد کیا گیا، اب چونکہ یہودی بستیاں کثیر تعداد میں آباد ہوگئی تھیں، اس لئے یہودیوں نے زمینیں
🌴🌷شیخ الهند🌷🌴
*اقصیٰ کے آنسو، قسط: (20)* *فلسطین کا قضیہ (حصہ اول)* *القدس کے خلاف یہود کی دل گداز داستاں،* *تاریخی حوالوں کی روشنی میں عبرت آمیز حقائق:* *سو سال پہلے:* *"اگر میں اس کانفرنس میں طے شدہ امور کا خلاصہ چند لفظوں میں بتانا چاہتا ہوں تو میں کہوں گا کہ"…
خریدنے کے بجائے دہشت گردی شروع کر دی اور قتل و غارت گری اور فلسطینیوں میں خوف و ہراس پھیلانے کا ایسا سلسلہ شروع کیا گیا کہ یکم اپریل 1948ء اور 15 مئی 1948ء کے درمیان یعنی صرف ڈیرھ ماہ میں چار لاکھ مسلمان اور عیسائی کو اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑی اور آج دو پڑوسی ملکوں کے مہاجر کیمپوں میں پناہ گزین ہیں، دنیا میں ظلم و نا انصافی کی بڑی بڑی مثالیں موجود ہیں، لیکن جدید دنیا میں جبکہ ذرائع مواصلات کی تیز رفتاری کی بدولت کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں رہتی، اتنے بڑے ظلم، اتنی بڑی تاریخی بددیانتی اور دنیا کی آنکھ میں دھول جھونکنے کی مثال پوری تاریخ عالم میں نہیں ملے گی، ذرا اندازہ تو لگائیں کہ صدیوں سے آباد فلسطینی تو گھر بار سے محروم ہوکر مہاجر کیمپوں میں پناہ لیں، جہاں ان کی زندگی صیہونی کے رحم وکرم پر ہے اور بدکردار قسم کے یہودی بےکسوں کے گھروں پر داد عیش دیں، آپ اس حقیقت کو بخوبی جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے اکثریتی علاقے کس طرح ایک دوسرے سے جدا اور مسلمان کس طرح بکھرے ہوئے ہیں، جبکہ یہودی القدس سمیت دیگر اہم شہروں پر قابض ہو کر اپنی آبادی کو مربوط شکل میں بڑھاتے اور نئی بستیاں تعمیر کرتے جاتے ہیں۔
*صلح پسند پڑوسی:*
② ۔۔۔ صیہونی ریاست کے استحکام کے لئے دوسرا امر جس کا اہتمام کیا گیا، یہ تھا کہ اسرائیل کو تو ہر قسم کا اسلحہ اور ٹیکنالوجی دے کر اسے مضبوط سے مضبوط تر کیا جائے، چنانچہ آج وہ منی سپر پاور مانا جاتا ہے، لیکن اس کے پڑوس میں واقع مسلم ممالک کو عسکری اعتبار سے اس کے مد مقابل آنے کے قابل نہ ہونے دیا جائے، بلکہ کوشش کی جائے کہ ہمسایہ ممالک میں ایسی حکومتیں برسر اقتدار ہوں جو صیہونی عزائم کے راہ میں حائل نہ ہوسکیں، اگر کوئی ایسا کرنے کی جرأت کرے تو اسے جارحیت کے ذریعے اس قابل نہ چھوڑا جائے، عرب ممالک سے اسلامی غیرت اور شوق جہاد کے خاتمے کے لئے ان میں بڑے منظم طریقے سے قوم پرستی کے جراثیم پیدا کئے گئے، چنانچہ اب اسرائیل پانچ اسلامی ریاستوں کے بیچ میں کھڑا ہوا ہے، لیکن اسے اپنے صلح پسند پڑوسیوں سے کوئی خطرہ نہیں رہے، بے بس فلسطینی مسلمان تو وہ یکا تنہا اپنی آزادی کے لئے جہاد کررہے ہیں، کوئی عرب ملک ان بے سہاروں کی پشت پناہی کے لیے تیار نہیں، دوسری طرف اسرائیل کے پشت پر مغرب کی بڑی طاقتیں موجود ہیں، جو فلسطینیوں کے کچلنے میں پوری طرح اس کی ہمنوا اور حمایتی ہے۔
*دلیل طاقت کی محتاج ہے:*
صورتحال روز بروز گھمبیر ہوتی جارہی ہے، کچھ لوگ اس کا حل مذاکرات کو قرار دیتے ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذاکرات میں تو دلیل سے بات کی جاتی ہے، مگر متشدد یہودی دلیل کی زبان مانتے تو آج اگ و خون کا یہ کھیل ارض فلسطین میں جاری ہی کیوں ہوتا؟ اگر محض دلیل کی طاقت سے حقدار کو اس کا حق مل جاتا تو دنیا میں اسلحہ ایجاد ہی نہ ہوا ہوتا، لوگ زبان سے کہہ سن کر اپنا حق وصول کر لیتے، حقیقت یہ ہے کہ دلیل جتنی بھی سچی اور کھری ہو، اس کے منوانے کے لیے طاقت ضروی ہے، انصاف کا حصول اور حقوق کا تحفظ، طاقت کا مرہون منت ہے، ورنہ امن میں پولیس اور زمانہ جنگ میں فوج کی ضرورت بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے، لہذا مذاکرات بھی اسی وقت کامیاب ہوسکتے ہیں جب فریقین برابر کے سطح کے ہوں اور ہر فریق کو مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں دوسرے فریق کے زوردار رد عمل کا خطرہ ہو، اگر مذاکرات کے میز پر بیٹھ کر دلائل کی پٹاری کھولنے سے قبل مطلوبہ طاقت مہیا نہ کی جائے تو میزیں سجتی رہیں گی، لیکن حقوق کی پامالی اور مظلوم و کمزور قوموں کو روندنے کچلنے کا عمل رک نہ سکے گا۔
*اے خدائے واحد پر ایمان لانے والے سادہ لوح مسلمانو! بد بخت یہودیوں نے انبیائے کرام کے حقوق کا احترام نہیں کیا تو تمہیں تمہارا حق کس طرح دے دیں گے؟ ان سے مذاکرات کے میز پر سامنا کرنا اس وقت تک بیکار ہے جب تک جنگ کے میدان میں انہیں نیچا دکھانے کے قابل نہ ہوجاؤ۔*
*بوسیدہ ٹاٹ:*
حقیقت یہ ہے کہ یہودی چونکہ موت سے بہت زیادہ ڈرتے ہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں سورہ بقرہ اور سورہ جمعہ میں بیان کیا گیا ہے، اس لیے وہ مسلمانوں کے جذبۂ جہاد اور شوق شہادت سے سخت خوف زدہ رہتے ہیں، چنانچہ ان کی کوشش ہے کہ مجاہدین سے میدان جنگ میں پنجہ آزمائی مول لینے کی بجائے انہیں مذاکرات کے جال میں الجھایا جائے، ورنہ کون نہیں جانتا کہ ان کے دلائل پونچھا لگانے کے ٹاٹ سے زیادہ بوسیدہ ہیں، مثلاً ان کا سب سے بڑا دعویٰ یہ ہے کہ فلسطین کے قدیم ترین اصل باشندوں کی اولاد ہیں، ان کے آباء و اجداد نے ہزاروں سال پہلے یہاں یہودی ریاست قائم کی تھی اور بیسویں صدی میں اسی یہودی ریاست کا قیام عمل میں آیا ہے، لیکن اسے کیا کریں کہ مغربی مصنفین سمیت تمام تاریخی مآخذ اس بات پر متفق ہیں کہ فلسطین میں بسنے والے عربوں کی اکثریت کے آباء و اجداد اسلامی فتح کے ساتھ فلسطین میں نہیں آئے تھے، بلکہ وہ بنیادی طور پر سامی الاصل ہیں جو تین ہزار سال قبل مسیح سے فلسطین میں آباد تھے، نیز
*صلح پسند پڑوسی:*
② ۔۔۔ صیہونی ریاست کے استحکام کے لئے دوسرا امر جس کا اہتمام کیا گیا، یہ تھا کہ اسرائیل کو تو ہر قسم کا اسلحہ اور ٹیکنالوجی دے کر اسے مضبوط سے مضبوط تر کیا جائے، چنانچہ آج وہ منی سپر پاور مانا جاتا ہے، لیکن اس کے پڑوس میں واقع مسلم ممالک کو عسکری اعتبار سے اس کے مد مقابل آنے کے قابل نہ ہونے دیا جائے، بلکہ کوشش کی جائے کہ ہمسایہ ممالک میں ایسی حکومتیں برسر اقتدار ہوں جو صیہونی عزائم کے راہ میں حائل نہ ہوسکیں، اگر کوئی ایسا کرنے کی جرأت کرے تو اسے جارحیت کے ذریعے اس قابل نہ چھوڑا جائے، عرب ممالک سے اسلامی غیرت اور شوق جہاد کے خاتمے کے لئے ان میں بڑے منظم طریقے سے قوم پرستی کے جراثیم پیدا کئے گئے، چنانچہ اب اسرائیل پانچ اسلامی ریاستوں کے بیچ میں کھڑا ہوا ہے، لیکن اسے اپنے صلح پسند پڑوسیوں سے کوئی خطرہ نہیں رہے، بے بس فلسطینی مسلمان تو وہ یکا تنہا اپنی آزادی کے لئے جہاد کررہے ہیں، کوئی عرب ملک ان بے سہاروں کی پشت پناہی کے لیے تیار نہیں، دوسری طرف اسرائیل کے پشت پر مغرب کی بڑی طاقتیں موجود ہیں، جو فلسطینیوں کے کچلنے میں پوری طرح اس کی ہمنوا اور حمایتی ہے۔
*دلیل طاقت کی محتاج ہے:*
صورتحال روز بروز گھمبیر ہوتی جارہی ہے، کچھ لوگ اس کا حل مذاکرات کو قرار دیتے ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذاکرات میں تو دلیل سے بات کی جاتی ہے، مگر متشدد یہودی دلیل کی زبان مانتے تو آج اگ و خون کا یہ کھیل ارض فلسطین میں جاری ہی کیوں ہوتا؟ اگر محض دلیل کی طاقت سے حقدار کو اس کا حق مل جاتا تو دنیا میں اسلحہ ایجاد ہی نہ ہوا ہوتا، لوگ زبان سے کہہ سن کر اپنا حق وصول کر لیتے، حقیقت یہ ہے کہ دلیل جتنی بھی سچی اور کھری ہو، اس کے منوانے کے لیے طاقت ضروی ہے، انصاف کا حصول اور حقوق کا تحفظ، طاقت کا مرہون منت ہے، ورنہ امن میں پولیس اور زمانہ جنگ میں فوج کی ضرورت بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے، لہذا مذاکرات بھی اسی وقت کامیاب ہوسکتے ہیں جب فریقین برابر کے سطح کے ہوں اور ہر فریق کو مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں دوسرے فریق کے زوردار رد عمل کا خطرہ ہو، اگر مذاکرات کے میز پر بیٹھ کر دلائل کی پٹاری کھولنے سے قبل مطلوبہ طاقت مہیا نہ کی جائے تو میزیں سجتی رہیں گی، لیکن حقوق کی پامالی اور مظلوم و کمزور قوموں کو روندنے کچلنے کا عمل رک نہ سکے گا۔
*اے خدائے واحد پر ایمان لانے والے سادہ لوح مسلمانو! بد بخت یہودیوں نے انبیائے کرام کے حقوق کا احترام نہیں کیا تو تمہیں تمہارا حق کس طرح دے دیں گے؟ ان سے مذاکرات کے میز پر سامنا کرنا اس وقت تک بیکار ہے جب تک جنگ کے میدان میں انہیں نیچا دکھانے کے قابل نہ ہوجاؤ۔*
*بوسیدہ ٹاٹ:*
حقیقت یہ ہے کہ یہودی چونکہ موت سے بہت زیادہ ڈرتے ہیں، جیسا کہ قرآن مجید میں سورہ بقرہ اور سورہ جمعہ میں بیان کیا گیا ہے، اس لیے وہ مسلمانوں کے جذبۂ جہاد اور شوق شہادت سے سخت خوف زدہ رہتے ہیں، چنانچہ ان کی کوشش ہے کہ مجاہدین سے میدان جنگ میں پنجہ آزمائی مول لینے کی بجائے انہیں مذاکرات کے جال میں الجھایا جائے، ورنہ کون نہیں جانتا کہ ان کے دلائل پونچھا لگانے کے ٹاٹ سے زیادہ بوسیدہ ہیں، مثلاً ان کا سب سے بڑا دعویٰ یہ ہے کہ فلسطین کے قدیم ترین اصل باشندوں کی اولاد ہیں، ان کے آباء و اجداد نے ہزاروں سال پہلے یہاں یہودی ریاست قائم کی تھی اور بیسویں صدی میں اسی یہودی ریاست کا قیام عمل میں آیا ہے، لیکن اسے کیا کریں کہ مغربی مصنفین سمیت تمام تاریخی مآخذ اس بات پر متفق ہیں کہ فلسطین میں بسنے والے عربوں کی اکثریت کے آباء و اجداد اسلامی فتح کے ساتھ فلسطین میں نہیں آئے تھے، بلکہ وہ بنیادی طور پر سامی الاصل ہیں جو تین ہزار سال قبل مسیح سے فلسطین میں آباد تھے، نیز
🌴🌷شیخ الهند🌷🌴
*اقصیٰ کے آنسو، قسط: (20)* *فلسطین کا قضیہ (حصہ اول)* *القدس کے خلاف یہود کی دل گداز داستاں،* *تاریخی حوالوں کی روشنی میں عبرت آمیز حقائق:* *سو سال پہلے:* *"اگر میں اس کانفرنس میں طے شدہ امور کا خلاصہ چند لفظوں میں بتانا چاہتا ہوں تو میں کہوں گا کہ"…
مؤرخین اس بات پر بھی متفق ہیں کہ قدیم عبرانی جن کی اولاد اور وارث ہونے کا آج کے یہودی دعوی کرتے ہیں، وہ تو عراق سے ہجرت کرکے یہاں آئے تھے، وہ یہاں کے اصل باشندے تھے ہی نہیں، پھر دلچسپ بات یہ ہے کہ یہودی جب جلاوطن ہوکر دنیا میں بکھرے تو بہت سے غلام بنالیے گئے تھے، جن کا نسب محفوظ نہیں رہا اور وہ دوغلی نسل کے ہیں، نیز لاتعداد غیر سامی باشندے اپنا مذہب تبدیل کرکے یہودی ہوگئے تھے اور اس دور کے بہت سے یہودی غیر سامی الاصول قبیلوں کی نسل سے ہیں، جب کہ فلسطین کے عرب مسلمان ہزارہا سال سے وہیں بس رہے ہیں اور خالص نسب کی بنا پر یہاں کے قدیم باشندوں کی اصل نسل سے ہیں۔
اگر فرض کرلیا جائے کہ یہودی واقعی فلسطین کے قدیم ترین حکمرانوں کی اولاد ہیں تو بھی أرض فلسطین پر ان کا دعویٰ ملکیت نہایت کمزور ہے، دو ہزار برس پہلے کسی خطۂ ارض کے منتشر حصوں پر باہر سے آکر قبضہ کرلینا آج یہودیوں کو یہاں کا مالک نہیں بنا دیتا، اگر ایسا ہو تو تمام استعماری ممالک اپنے زیر قبضہ ممالک پر جو جنگ عظیم دوم کے بعد آزاد ہوگئے حق ملکیت جتا سکتے ہیں، نیز اس اعتبار سے اسپین پر مسلمانوں کا، امریکا پر ریڈ انڈین اور آسٹریلیا پر ریب اور جینز کا حق بنتا ہے، کیا یہودیوں کی حمایت کرنے والے یہ ممالک اپنے ملکوں پر دوسروں کا اس طرح کا حق تسلیم کرنے پر تیار ہیں؟
*چیل کا گھونسلا:*
غرض یھودیوں کے دلائل وزن سے اسی طرح خالی ہیں جیسے چیل کا گھونسلا گوشت سے، لیکن وہ اور ان کے بدنیت اور جانبدار سرپرست پھر بھی فلسطینی مسلمانوں سے اسلحہ رکھوا کر ان کے ہاتھ میں مذاکرات کے نوٹس بنانے والا قلم تھمانا چاہتے ہیں، کیونکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ جنت کے شیدائی مسلمان اس وقت تک ان کے ناک میں دم کیے رکھیں گے جب تک انہیں شہادت کے راستے سے ہٹا کر بات چیت کی بھول بھلیوں میں گم نہیں کر دیا جاتا، نئے عالمی نطام میں جب سے برطانیہ کی جگہ امریکہ نے لی ہے، یہودیوں نے اسے مکمل طور پر اپنے قبضے میں لے رکھا ہے اور وہ اس یہودی غنڈے کے اشارے پر بانس سے بنے شتونگڑے کی طرح گھومتا اور قلابازیاں کھاتا ہے، ان سب کی فلسطینی مجاہدین سے جان نکلتی ہے، لہذا انہوں نے سیاسی گروپوں کو آگے کرکے یاسر عرفات جیسے موم کے لیڈر گھڑ لیے ہیں اور دنیا کو مذاکرات کا جھانسہ دے کر عظیم تر اسرائیل کی طرف پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں، فلسطین کے جہادی قائدین تو قید وبند کی مصیبتیں اٹھاتے ہیں، یا دہشت گرد حملوں میں شہید ہو جاتے ہیں، لیکن یاسر عرفات جیسے یہودی بیوی رکھنے والے "مرد آہن" ہیڈ کواٹر پر میزائل حملوں کے باوجود "بال بال" بچ نکلتے ہیں اور تاحیات فلسطینی مسلمانوں کی نمایٔندگی کرنے کااعزاز حاصل کر نے، بلکہ ریکارڈ قائم کرنے کی امید باندھے ہوئے ہیں۔
*فیصلہ کن معرکہ:*
ہوسکتا ہے کہ کوئی نادان ان کی عیاری و ہوشیاری کی داستانیں سن کر ان کی شیطانی کارروائیوں سے مرعوب ہو کر یہ سمجھتا ہو کہ یہودی ذلت اور خواری کی مہر سے نجات پا چکے ہیں اور ارض فلسطین میں ان کی ریاست کا قیام ان کی کامیابیوں اور کامرانیوں کا سنگ میل ہے، لیکن جو شخص قرآن و سنت کا عبوری مطالعہ بھی کرتا ہو، اسے اس بات میں ذرا شک نہیں کہ مقبوضہ فلسطین میں یہودیوں کا اجتماع درحقیقت ان کی آخری اور ابدی شکست، بلکہ روئے زمین سے ناپیدگی کا نقطۂ آغاز ہے۔
حدیث شریف کی پیش گوئی کے مطابق ارضِ فلسطین کی طرف دنیا بھر کے یہودیوں کا رجوع اور ان کا یہاں سمٹ آنا دراصل اس آخری اور فیصلہ کن معرکے کا پیش خیمہ ہے، جو اس خطے میں اہلِ ایمان اور خدا ورسول کی گستاخ اور مردود یہودی قوم کے درمیان لڑا جائے گا، اس معرکے میں سرزمینِ انبیاء کا ہر پتھر اور درخت مسلمان مجاھدین کو پکارے گا کہ:
*اے اللہ کے بندے! ادھر آ، یہاں میرے پیچھے یہودی چھپا بیٹھا ہے، اس کی تمام شیطنت اور دجل سمیت اسے اس کے آخری ٹھکانے جہنم کے آخری سرے تک پہنچا دے۔*
بمطابق فرمان صادق امین، نبی رسول کریم ﷺ صرف "غرقد" نامی درخت یہودیوں کی نشاندھی نہ کرے گا، چنانچہ آج اسرائیلی دارالحکومت اور دیگر شہروں میں صیہونی حکومت نے غرقد کے لاتعداد درخت جابجا لگوائے ہیں، لیکن اس بات کی طرف ان کا دھیان نہیں گیا کہ جب ان کی ہزاروں سال کی نافرمانی اور گستاخی کی سزا قریب آ لگے گی تو غرقد کے درخت کب تک انہیں پناہ دیں گے؟؟؟
*آخری انجام کی تمہید:*
*مسلمانوں کو یہودیوں کے بے پناہ ظلم و ستم اور جور و جفا سے خائف ہونے کی بجائے شریعت کی کامل اتباع اور جہاد فی سبیل اللہ پر پختہ اور مضبوط ہوجانا چاہیے، مقبوضہ فلسطین کی طرف دنیا بھر سے یہودیوں کی نقل مکانی دراصل ان کے آخری انجام کی تمہید ہے، جب ان کی اکثریت یہاں سمٹ آئے اور ان کی حرکات حد سے تجاوز کر جائیں گی اور ان کا فتنہ گر و فتنہ پرور رہنما "دجال" ان کو ساتھ لے کر مسلمانوں کے خلاف اٹھے گا تو حضرت عیسیٰ علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام اور حضرت مھدی کی قیادت میں مجاہدین کا لشکر ان کی سرکوبی کے لیے
اگر فرض کرلیا جائے کہ یہودی واقعی فلسطین کے قدیم ترین حکمرانوں کی اولاد ہیں تو بھی أرض فلسطین پر ان کا دعویٰ ملکیت نہایت کمزور ہے، دو ہزار برس پہلے کسی خطۂ ارض کے منتشر حصوں پر باہر سے آکر قبضہ کرلینا آج یہودیوں کو یہاں کا مالک نہیں بنا دیتا، اگر ایسا ہو تو تمام استعماری ممالک اپنے زیر قبضہ ممالک پر جو جنگ عظیم دوم کے بعد آزاد ہوگئے حق ملکیت جتا سکتے ہیں، نیز اس اعتبار سے اسپین پر مسلمانوں کا، امریکا پر ریڈ انڈین اور آسٹریلیا پر ریب اور جینز کا حق بنتا ہے، کیا یہودیوں کی حمایت کرنے والے یہ ممالک اپنے ملکوں پر دوسروں کا اس طرح کا حق تسلیم کرنے پر تیار ہیں؟
*چیل کا گھونسلا:*
غرض یھودیوں کے دلائل وزن سے اسی طرح خالی ہیں جیسے چیل کا گھونسلا گوشت سے، لیکن وہ اور ان کے بدنیت اور جانبدار سرپرست پھر بھی فلسطینی مسلمانوں سے اسلحہ رکھوا کر ان کے ہاتھ میں مذاکرات کے نوٹس بنانے والا قلم تھمانا چاہتے ہیں، کیونکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ جنت کے شیدائی مسلمان اس وقت تک ان کے ناک میں دم کیے رکھیں گے جب تک انہیں شہادت کے راستے سے ہٹا کر بات چیت کی بھول بھلیوں میں گم نہیں کر دیا جاتا، نئے عالمی نطام میں جب سے برطانیہ کی جگہ امریکہ نے لی ہے، یہودیوں نے اسے مکمل طور پر اپنے قبضے میں لے رکھا ہے اور وہ اس یہودی غنڈے کے اشارے پر بانس سے بنے شتونگڑے کی طرح گھومتا اور قلابازیاں کھاتا ہے، ان سب کی فلسطینی مجاہدین سے جان نکلتی ہے، لہذا انہوں نے سیاسی گروپوں کو آگے کرکے یاسر عرفات جیسے موم کے لیڈر گھڑ لیے ہیں اور دنیا کو مذاکرات کا جھانسہ دے کر عظیم تر اسرائیل کی طرف پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں، فلسطین کے جہادی قائدین تو قید وبند کی مصیبتیں اٹھاتے ہیں، یا دہشت گرد حملوں میں شہید ہو جاتے ہیں، لیکن یاسر عرفات جیسے یہودی بیوی رکھنے والے "مرد آہن" ہیڈ کواٹر پر میزائل حملوں کے باوجود "بال بال" بچ نکلتے ہیں اور تاحیات فلسطینی مسلمانوں کی نمایٔندگی کرنے کااعزاز حاصل کر نے، بلکہ ریکارڈ قائم کرنے کی امید باندھے ہوئے ہیں۔
*فیصلہ کن معرکہ:*
ہوسکتا ہے کہ کوئی نادان ان کی عیاری و ہوشیاری کی داستانیں سن کر ان کی شیطانی کارروائیوں سے مرعوب ہو کر یہ سمجھتا ہو کہ یہودی ذلت اور خواری کی مہر سے نجات پا چکے ہیں اور ارض فلسطین میں ان کی ریاست کا قیام ان کی کامیابیوں اور کامرانیوں کا سنگ میل ہے، لیکن جو شخص قرآن و سنت کا عبوری مطالعہ بھی کرتا ہو، اسے اس بات میں ذرا شک نہیں کہ مقبوضہ فلسطین میں یہودیوں کا اجتماع درحقیقت ان کی آخری اور ابدی شکست، بلکہ روئے زمین سے ناپیدگی کا نقطۂ آغاز ہے۔
حدیث شریف کی پیش گوئی کے مطابق ارضِ فلسطین کی طرف دنیا بھر کے یہودیوں کا رجوع اور ان کا یہاں سمٹ آنا دراصل اس آخری اور فیصلہ کن معرکے کا پیش خیمہ ہے، جو اس خطے میں اہلِ ایمان اور خدا ورسول کی گستاخ اور مردود یہودی قوم کے درمیان لڑا جائے گا، اس معرکے میں سرزمینِ انبیاء کا ہر پتھر اور درخت مسلمان مجاھدین کو پکارے گا کہ:
*اے اللہ کے بندے! ادھر آ، یہاں میرے پیچھے یہودی چھپا بیٹھا ہے، اس کی تمام شیطنت اور دجل سمیت اسے اس کے آخری ٹھکانے جہنم کے آخری سرے تک پہنچا دے۔*
بمطابق فرمان صادق امین، نبی رسول کریم ﷺ صرف "غرقد" نامی درخت یہودیوں کی نشاندھی نہ کرے گا، چنانچہ آج اسرائیلی دارالحکومت اور دیگر شہروں میں صیہونی حکومت نے غرقد کے لاتعداد درخت جابجا لگوائے ہیں، لیکن اس بات کی طرف ان کا دھیان نہیں گیا کہ جب ان کی ہزاروں سال کی نافرمانی اور گستاخی کی سزا قریب آ لگے گی تو غرقد کے درخت کب تک انہیں پناہ دیں گے؟؟؟
*آخری انجام کی تمہید:*
*مسلمانوں کو یہودیوں کے بے پناہ ظلم و ستم اور جور و جفا سے خائف ہونے کی بجائے شریعت کی کامل اتباع اور جہاد فی سبیل اللہ پر پختہ اور مضبوط ہوجانا چاہیے، مقبوضہ فلسطین کی طرف دنیا بھر سے یہودیوں کی نقل مکانی دراصل ان کے آخری انجام کی تمہید ہے، جب ان کی اکثریت یہاں سمٹ آئے اور ان کی حرکات حد سے تجاوز کر جائیں گی اور ان کا فتنہ گر و فتنہ پرور رہنما "دجال" ان کو ساتھ لے کر مسلمانوں کے خلاف اٹھے گا تو حضرت عیسیٰ علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام اور حضرت مھدی کی قیادت میں مجاہدین کا لشکر ان کی سرکوبی کے لیے
🌴🌷شیخ الهند🌷🌴
*اقصیٰ کے آنسو، قسط: (20)* *فلسطین کا قضیہ (حصہ اول)* *القدس کے خلاف یہود کی دل گداز داستاں،* *تاریخی حوالوں کی روشنی میں عبرت آمیز حقائق:* *سو سال پہلے:* *"اگر میں اس کانفرنس میں طے شدہ امور کا خلاصہ چند لفظوں میں بتانا چاہتا ہوں تو میں کہوں گا کہ"…
دمشق سے فلسطین کی طرف بڑھے گا، تب دجال فرار ہوگا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کا پیچھا کریں گے اور حدیث شریف کے مطابق مقامِ ''لد" میں اسے جالیں گے، یہاں پر انسانیت کا یہ مردود ترین فرد ان کے ہاتھ موت کے گھاٹ اترے گا۔*
(صحیح مسلم باب ذکر الدجال:ج٢ص١٠٤،ترمذى شريف،باب ما جاء فى فتنة الدجال:ج٢ص٤٧)
*پھر اس کی مردود قوم بھی مجاہدین کے ہاتھوں ہمیشہ کے لیے فنا کے گھاٹ اتر جائے گی، "لد" نامی مقام آج اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب کے قریب ہے، کمزور ایمان وعمل والے مسلمان دجال کے فتنے میں بہہ جائیں گے، اللہ سے مضبوط تعلق رکھنے والے اور اس کی خاطر جان دینے کا جذبہ رکھنے والے ثابت قدم رہیں گے اور حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے لشکر میں شامل ہو کر مغفرت اور جنت کے مستحق ہوں گے۔ اے اہل ایمان! اپنے اعمال کی جانچ کرو اور اس وقت کی تیاری رکھو جب تمہیں خیر و شر میں سے کسی ایک کی خاطر جان دینے کا سامنا کرنا پڑے گا۔*
==================> جاری ہے ۔۔۔
''ماخوذ از: اقصیٰ کے آنسو''
مصنف: مفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب
ناقل: محمد احمد صارم
(صحیح مسلم باب ذکر الدجال:ج٢ص١٠٤،ترمذى شريف،باب ما جاء فى فتنة الدجال:ج٢ص٤٧)
*پھر اس کی مردود قوم بھی مجاہدین کے ہاتھوں ہمیشہ کے لیے فنا کے گھاٹ اتر جائے گی، "لد" نامی مقام آج اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب کے قریب ہے، کمزور ایمان وعمل والے مسلمان دجال کے فتنے میں بہہ جائیں گے، اللہ سے مضبوط تعلق رکھنے والے اور اس کی خاطر جان دینے کا جذبہ رکھنے والے ثابت قدم رہیں گے اور حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے لشکر میں شامل ہو کر مغفرت اور جنت کے مستحق ہوں گے۔ اے اہل ایمان! اپنے اعمال کی جانچ کرو اور اس وقت کی تیاری رکھو جب تمہیں خیر و شر میں سے کسی ایک کی خاطر جان دینے کا سامنا کرنا پڑے گا۔*
==================> جاری ہے ۔۔۔
''ماخوذ از: اقصیٰ کے آنسو''
مصنف: مفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب
ناقل: محمد احمد صارم
🌴🌷شیخ الهند🌷🌴
*اقصیٰ کے آنسو، قسط: (21)* *فلسطین کا قضیہ (حصہ دوم)* *مسئلہ فلسطین، ماضی، حال، مستقبل کے حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے، جس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔* *رودادِ جور وجفا:* برطانیہ نے برصغیر، مشرقی وسطٰی اور بعض افریقی ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم، غضب اور…
*اقصیٰ کے آنسو، قسط: (22)*
*القدس سے بابل تک:*
سقوط کابل، قندهار اور بغداد کے موقع پر بہت سے افراد کے متعلق اطلاع ملی کہ وه پهوٹ پهوٹ کر روئے، لیکن ہمیں اگر پتہ چل جائے کہ سقوط بغداد کے بعد کس ملک یا علاقے کے سقوط کا منصوبہ دشمنان اسلام نے تیار کر رکها ہے تو شاید ہمارے آنسوں ختم ہو جائیں۔
یہ 6جون1967ء کا دن تها جب اسرائیلی فوجیں "القدس" شہر میں گهس گئیں اور بیت المقدس پر قبضہ کر لیا، اس دن اسرائیلی افواج کے سربراہ نے اپنے جن مذموم عزائم کا اظہار کیا وه انتہائی قابل تشویش تهے، موشے دایان جو صہیونی تحریک کے چوٹی کے رہنماؤں میں شمار کیا جاتا ہے اور جو پس پرده ره کر کام کرنے والے صہیونی دماغوں کا ترجمان اور ان کے منصوبوں کے نفاذ کا ذمہ دار سمجها جاتا تها، یہ اس دن اسرائیلی بری افواج کا سربراه تها، اس کی ایک عادت یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہ کوئی بهی منصوبہ مکمل ہونے پر پیچهے مڑکر اس کی مبارکبادیاں لینے کے بجائے کسی نئے منصوبے کی طرف توجہ مرکوز کر لیتا تها، چنانچہ اس نے "یروشلم آپریشن" کامیابی سے مکمل ہونے کی اطلاع پا کر کہا:
*"ہم نے یروشلم پر قبضہ کر لیا ہے، اب ہم یثرب اور بابل کی طرف بڑهنے والے ہیں "*
جس وقت موشے دایان تل ابیب سے یہ بیان جاری کر رہا تها اس وقت عراقی مسلمانوں کو دیوانیہ، ناصریہ، عمارہ اور دہوک سے نقل مکانی کرکے مقبوضہ فلسطین جانے والے یہودیوں کے الفاظ یاد آئے، انہوں نے اپنا سامان باندهتے ہوئے علی الاعلان کہا تها: "وه دن دور نہیں جب ہم عراق واپس آئیں گے اور اپنی جائدادیں واپس لیں گے"۔ عراقی مسلمان حیران تهے کہ یہ کم بخت اتنے عرصے تک ہمارے پڑوس میں کتنے آرام سے رہنے کے بعد جاتے وقت ہمیں ہی دھمکی دے رہے ہیں، انہیں یہ خبر نہ تھی کہ یہود مردود ان کے احسانات کا ہرگز کوئی لحاظ نہ کریں گے کہ محسن کشی اور بدعہدی ان کی سرشت میں داخل ہے اور اتنے عرصے تک عراقی مسلمانوں نے ان کے ساتھ جو حسن سلوک کیا تو اس دوران بھی آستین کے سانپ کی طرح ان کو ڈسنے میں لگے رہے تھے۔
سقوطِ بغداد کی موجودہ کہانی مارچ میں امریکی حملوں سے نہیں، بلکہ 4جون 1903ءکو شروع ہوتی ہے، یہ وہ دن تھا جب نئے عثمانی وزیراعظم عزت پاشا کو تھیویڈ اور ہرنزل نامی یہودی رہنما کا ایک خط موصول ہوا، یہ شخص یہودیوں کے موجودہ صیہونی نظام اور بین القوامی تحریک کا بانی سمجھا جاتا ہے، جس طرح پیٹر نامی عیسائی پادری صلیبی جنگوں کا محرک تھا، اسی طرح یہ شخص اس صیہونی تحریک کا بانی ہے جس نے آج عالم اسلام بلکہ کرۂ ارض کے اکثر حصوں میں فتنہ و فساد کی آگ لگارکھی ہے، یہ ہنگری کے دارالحکومت میں 2مئ 1860ء کو پیدا ہوا اور اپنے مرنے کے دن 3جولائ 1904ء تک یہودیوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرتا رہا، بنیادی طور پر یہ صحافی اور تمثیل نگار تھا، لیکن اس نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر یہودیت کے لئے اپنےآپ کو ایسا وقف کیا کہ آج ہر یہودی اسے اپنا محسن سمجھتا ہے۔
اس نے 1896ء میں پہلا پمفلٹ شائع کیا جس کا نام (DAR JUDEAS TEET) تھا، اس کے ذریعے اس نے دنیا بھر میں دربدر پڑے ہوئے ذلیل و خوار یہودیوں میں حصول وطن کی آگ لگا دی، اس نے دنیا بھر کے یہودی دماغوں کو جمع کیا اور ان کے سالانہ اجلاس منعقد کروائے، ان میں سے پہلے ہی اجلاس میں جو سوئزر لینڈ کے شہر باسل میں 1897ء میں ہوا، اس نے اعلان کیا کہ دنیا آئیندہ 50 سال کے اندر کرۂ ارض پر ایک یہودی ریاست کو اپنی آنکھوں سے دیکھے گی۔ اس میں اپنی تنظیم کا نام *انجمن محبین صیہون* رکھا تھا، جس کا بنیادی مقصد ارض فلسطین میں ایک یہودی ریاست کا قیام تھا، صیہون بیت المقدس کے قریب ایک پہاڑی کا نام ہے جس کو یہود مقدس سمجھتے ہیں، ابتدا میں اس تحریک کے مقاصد کو نہایت سختی کے ساتھ خفیہ رکھا گیا تھا اور اس مقصد کے لیے ممبروں سے مخصوص طریقے سے حلف لیا گیا، بعد میں طے پایا کہ تحریک کے اصل مقاصد عیاں کردیئے جائیں، البتہ ان کی تکمیل کے لیے جو ذیلی تنظیمیں بنائی گئیں، انہیں دنیا کی نظروں سے پوشیدہ رکھنے کے لیے سخت اقدامات کیے گئے۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی عثمانی وزیر عزت پاشا کو موصول ہونے والے خط کی، اس خط میں تھیوور ہرتوٹزل نے ترک حکمرانوں سے درخواست کی تھی کہ یہودیوں کو عراق میں نو آبادیاں قائم کرنے کی اجازت دی جائے، عزت پاشا حیران ہوئے کہ یہ بیٹھے بٹھائے یہودیوں کو کیا سوجھی؟ انہیں عراق میں ہر طرح کے حقوق حاصل ہیں، پھر الگ سے آبادیاں قائم کرنے کی کیا ضرورت؟ خود بغداد میں یہودیوں نے بہت سی زمینیں خرید رکھی تھی، خصوصاً بغداد کے مشرق میں مضافاتی بستی ’’کرادہ‘‘ میں تو بیشتر زمینیں انہیں کی تھیں، عثمانی وزیر نے یہ درخواست واپس کردی (۱) لیکن آج جب یہود نواز جنرل گارنر بغداد پہنچ چکا ہے، بغداد کی بستیوں کو یہودی نو آبادیاں بننے سے کوئی روکنے والا نہیں۔
*القدس سے بابل تک:*
سقوط کابل، قندهار اور بغداد کے موقع پر بہت سے افراد کے متعلق اطلاع ملی کہ وه پهوٹ پهوٹ کر روئے، لیکن ہمیں اگر پتہ چل جائے کہ سقوط بغداد کے بعد کس ملک یا علاقے کے سقوط کا منصوبہ دشمنان اسلام نے تیار کر رکها ہے تو شاید ہمارے آنسوں ختم ہو جائیں۔
یہ 6جون1967ء کا دن تها جب اسرائیلی فوجیں "القدس" شہر میں گهس گئیں اور بیت المقدس پر قبضہ کر لیا، اس دن اسرائیلی افواج کے سربراہ نے اپنے جن مذموم عزائم کا اظہار کیا وه انتہائی قابل تشویش تهے، موشے دایان جو صہیونی تحریک کے چوٹی کے رہنماؤں میں شمار کیا جاتا ہے اور جو پس پرده ره کر کام کرنے والے صہیونی دماغوں کا ترجمان اور ان کے منصوبوں کے نفاذ کا ذمہ دار سمجها جاتا تها، یہ اس دن اسرائیلی بری افواج کا سربراه تها، اس کی ایک عادت یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہ کوئی بهی منصوبہ مکمل ہونے پر پیچهے مڑکر اس کی مبارکبادیاں لینے کے بجائے کسی نئے منصوبے کی طرف توجہ مرکوز کر لیتا تها، چنانچہ اس نے "یروشلم آپریشن" کامیابی سے مکمل ہونے کی اطلاع پا کر کہا:
*"ہم نے یروشلم پر قبضہ کر لیا ہے، اب ہم یثرب اور بابل کی طرف بڑهنے والے ہیں "*
جس وقت موشے دایان تل ابیب سے یہ بیان جاری کر رہا تها اس وقت عراقی مسلمانوں کو دیوانیہ، ناصریہ، عمارہ اور دہوک سے نقل مکانی کرکے مقبوضہ فلسطین جانے والے یہودیوں کے الفاظ یاد آئے، انہوں نے اپنا سامان باندهتے ہوئے علی الاعلان کہا تها: "وه دن دور نہیں جب ہم عراق واپس آئیں گے اور اپنی جائدادیں واپس لیں گے"۔ عراقی مسلمان حیران تهے کہ یہ کم بخت اتنے عرصے تک ہمارے پڑوس میں کتنے آرام سے رہنے کے بعد جاتے وقت ہمیں ہی دھمکی دے رہے ہیں، انہیں یہ خبر نہ تھی کہ یہود مردود ان کے احسانات کا ہرگز کوئی لحاظ نہ کریں گے کہ محسن کشی اور بدعہدی ان کی سرشت میں داخل ہے اور اتنے عرصے تک عراقی مسلمانوں نے ان کے ساتھ جو حسن سلوک کیا تو اس دوران بھی آستین کے سانپ کی طرح ان کو ڈسنے میں لگے رہے تھے۔
سقوطِ بغداد کی موجودہ کہانی مارچ میں امریکی حملوں سے نہیں، بلکہ 4جون 1903ءکو شروع ہوتی ہے، یہ وہ دن تھا جب نئے عثمانی وزیراعظم عزت پاشا کو تھیویڈ اور ہرنزل نامی یہودی رہنما کا ایک خط موصول ہوا، یہ شخص یہودیوں کے موجودہ صیہونی نظام اور بین القوامی تحریک کا بانی سمجھا جاتا ہے، جس طرح پیٹر نامی عیسائی پادری صلیبی جنگوں کا محرک تھا، اسی طرح یہ شخص اس صیہونی تحریک کا بانی ہے جس نے آج عالم اسلام بلکہ کرۂ ارض کے اکثر حصوں میں فتنہ و فساد کی آگ لگارکھی ہے، یہ ہنگری کے دارالحکومت میں 2مئ 1860ء کو پیدا ہوا اور اپنے مرنے کے دن 3جولائ 1904ء تک یہودیوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرتا رہا، بنیادی طور پر یہ صحافی اور تمثیل نگار تھا، لیکن اس نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر یہودیت کے لئے اپنےآپ کو ایسا وقف کیا کہ آج ہر یہودی اسے اپنا محسن سمجھتا ہے۔
اس نے 1896ء میں پہلا پمفلٹ شائع کیا جس کا نام (DAR JUDEAS TEET) تھا، اس کے ذریعے اس نے دنیا بھر میں دربدر پڑے ہوئے ذلیل و خوار یہودیوں میں حصول وطن کی آگ لگا دی، اس نے دنیا بھر کے یہودی دماغوں کو جمع کیا اور ان کے سالانہ اجلاس منعقد کروائے، ان میں سے پہلے ہی اجلاس میں جو سوئزر لینڈ کے شہر باسل میں 1897ء میں ہوا، اس نے اعلان کیا کہ دنیا آئیندہ 50 سال کے اندر کرۂ ارض پر ایک یہودی ریاست کو اپنی آنکھوں سے دیکھے گی۔ اس میں اپنی تنظیم کا نام *انجمن محبین صیہون* رکھا تھا، جس کا بنیادی مقصد ارض فلسطین میں ایک یہودی ریاست کا قیام تھا، صیہون بیت المقدس کے قریب ایک پہاڑی کا نام ہے جس کو یہود مقدس سمجھتے ہیں، ابتدا میں اس تحریک کے مقاصد کو نہایت سختی کے ساتھ خفیہ رکھا گیا تھا اور اس مقصد کے لیے ممبروں سے مخصوص طریقے سے حلف لیا گیا، بعد میں طے پایا کہ تحریک کے اصل مقاصد عیاں کردیئے جائیں، البتہ ان کی تکمیل کے لیے جو ذیلی تنظیمیں بنائی گئیں، انہیں دنیا کی نظروں سے پوشیدہ رکھنے کے لیے سخت اقدامات کیے گئے۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی عثمانی وزیر عزت پاشا کو موصول ہونے والے خط کی، اس خط میں تھیوور ہرتوٹزل نے ترک حکمرانوں سے درخواست کی تھی کہ یہودیوں کو عراق میں نو آبادیاں قائم کرنے کی اجازت دی جائے، عزت پاشا حیران ہوئے کہ یہ بیٹھے بٹھائے یہودیوں کو کیا سوجھی؟ انہیں عراق میں ہر طرح کے حقوق حاصل ہیں، پھر الگ سے آبادیاں قائم کرنے کی کیا ضرورت؟ خود بغداد میں یہودیوں نے بہت سی زمینیں خرید رکھی تھی، خصوصاً بغداد کے مشرق میں مضافاتی بستی ’’کرادہ‘‘ میں تو بیشتر زمینیں انہیں کی تھیں، عثمانی وزیر نے یہ درخواست واپس کردی (۱) لیکن آج جب یہود نواز جنرل گارنر بغداد پہنچ چکا ہے، بغداد کی بستیوں کو یہودی نو آبادیاں بننے سے کوئی روکنے والا نہیں۔
🌴🌷شیخ الهند🌷🌴
*اقصیٰ کے آنسو، قسط: (21)* *فلسطین کا قضیہ (حصہ دوم)* *مسئلہ فلسطین، ماضی، حال، مستقبل کے حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے، جس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔* *رودادِ جور وجفا:* برطانیہ نے برصغیر، مشرقی وسطٰی اور بعض افریقی ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم، غضب اور…
صہیونی تحریک القدس سے ہو کر بابل تک پہنچ چکی ہے، دجلہ تک قبضے کے بعد ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کی مشرقی سرحدوں کی تکمیل ہو چکی ہے اور اب یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ استعمار کا گنجا اژدھا کس طرف رخ کرے گا؟ صہیونی تحریک اپنی چال کامیابی سے چلتی جارہی ہے اور مسلمان دم سادھے اس دن کے منتظر ہیں جب یہ توبہ کرنا چاہیں گے مگران کے الفاظ ان کے منہ سے ادا نہ ہو سکیں گے، یہ اپنی کوتاہیوں کے لیے مارے مارے پھریں گے، مگر ان کو کوئی راستہ سجھائی نہیں دے گا۔
*اے اہل اسلام! کب تک اپنے دشمنوں کو پنپنے کا موقع دو گے؟ کب تک ذلیل وخوار یہودی تم سے علاقے کے بعد علاقے چھینتے چلے جائیں گے؟ بابل تک یہودی جا چکے ہیں، کیا تمہارے جیتے جی یثرب (مدینۃ الرسول ﷺ) تک رسائی حاصل کر لیں گے؟*
__________________________________
۱۔ پندرہ سال قبل عراق پر جنرل گارنر کی قیادت میں حملہ کیا گیاْ۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
''ماخوذ از: اقصیٰ کے آنسو''
مصنف: مفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب
ناقل: محمد احمد صارم
*اے اہل اسلام! کب تک اپنے دشمنوں کو پنپنے کا موقع دو گے؟ کب تک ذلیل وخوار یہودی تم سے علاقے کے بعد علاقے چھینتے چلے جائیں گے؟ بابل تک یہودی جا چکے ہیں، کیا تمہارے جیتے جی یثرب (مدینۃ الرسول ﷺ) تک رسائی حاصل کر لیں گے؟*
__________________________________
۱۔ پندرہ سال قبل عراق پر جنرل گارنر کی قیادت میں حملہ کیا گیاْ۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
''ماخوذ از: اقصیٰ کے آنسو''
مصنف: مفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب
ناقل: محمد احمد صارم
🌴🌷شیخ الهند🌷🌴
*اقصیٰ کے آنسو، قسط: (22)* *القدس سے بابل تک:* سقوط کابل، قندهار اور بغداد کے موقع پر بہت سے افراد کے متعلق اطلاع ملی کہ وه پهوٹ پهوٹ کر روئے، لیکن ہمیں اگر پتہ چل جائے کہ سقوط بغداد کے بعد کس ملک یا علاقے کے سقوط کا منصوبہ دشمنان اسلام نے تیار کر رکها ہے…
*اقصیٰ کے آنسو، قسط: (23)*
*اسرائیل کا مطلب کیا؟*
ہامان یہودیوں کا مشہور تاریخ دان، فلسفی، ماہر مستقبلیات ہے، اعلیٰ پائے کا منصوبہ ساز گزرا ہے، اس کا پورا نام الفریڈ تھائر ہامان تھا، ان کا شمار یہودیت کے لئے فکری سطح پر کارہائے نمایاں انجام دینے والے ممتاز دانشوروں میں ہوتا ہے، یہودیت کے دنیا بھر میں بکھرے ہوئے افراد نے پچھلی دو صدیوں میں ایک جسم کی طرح مل کر کام کیا ہے، با لکل ایسے جیسے مسلمانوں کو ان کے پاک نبی ﷺ نے حکم دیا تھا، یعنی جس طرح دماغ بہتر سوچ پیش کرتا ہے، دل اس پر پوری ہمّت و قو ت سے فیصلہ کرتا ہے اور جسم کے اعصاب و اعضاء اس پر پوری تندہی سے عمل کرتے ہیں تو انسان مطلب تک جلد اور بسہولت بلکہ بالیقین پہنچ جاتا ہے۔
اسی طرح اگر کسی قوم (امّت مسلمہ کا ہر فرد ایک مجتمع قوم کا فرد ہے) کے کچھ صاحب تدبیر اور صاحب رائے لوگ اس کا دماغ بن جائیں اور اس کو خیر وشر سمجھاتے رہیں، مستقبل کے لئے بہترین منصوبہ بندی کرکے دیتے رہیں، کچھ لوگ اس کا دل بن جائیں اور ان کو درکار وسائل فراہم کرنے کے لئے پوری ہمّت اور قوت کے ساتھ محنت کریں اور اس کی معاشی وعسکری ”استعداد“ کو مضبوط سے مضبوط بنائیں اور کچھ لوگ اس کے جاندار اور طاقتور اعضاء بن کر ان وسائل کو طے شدہ مقاصد پر صرف کرکے بہترین نتائج حاصل کرنے کے لئے خود کو کھپا دیں تو اس کائنات کو تکوینی قوانین کا پابند بنا کر پیدا کرنے والے خدا کا فیصلہ ہے کہ اس قوم کے دن پھر سکتے ہیں۔
لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں منصوبہ بندی کا یہ عالم ہے کہ ہمارے اہل علم دنیا کی تین اہم علمی اور عالمی زبانوں (انگريزی، عربی اور معیاری اردو ) کی تعلیم کے لئے آج (2003ء) وہ نظام قائم نہیں کر پاۓ جو 1903ء میں کرلینا چاہیے تھا اور سب کچھ جانے دیجیے، ہمارے بعض روشن خیال حضرات آج ان کاموں کی طرف توجہ فرما رہے ہیں جو انہیں 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد کر لینے چاہیے تھے، جبکہ مغرب (جس کے دل و دماغ اور اعصاب واعضاء یہودی ہیں) 2000ء میں ان منصوبوں پر عمل کررہا تھا جو اس نے 1901ء میں سوچے تھے اور اپنی تجربہ گاہوں میں ان منصوبوں پر تجربے کررہا ہے جو اسے 2100ء میں پورے کرنے ہیں اور اس کے دماغ ان امور پر سوچ بچار کرکے محتاط اندازے قائم کررہے ہیں جو 2100ء کے بعد پیش آسکتے ہیں۔
ہاں تو بات ہورہی تھی کیپٹن الفریڈ تھائر کی جو ہامان کے نام سے گزشتہ سے پوستہ صدی میں یہودیوں کے عالمی سطح پر سوچنے والے دماغ کی ایک اہم رگ تھا، اس نے یہودی ریاست کی تشکیل کے لیے یہودیوں کو ”روڈ میپ“ کا ابتدائی خاکہ بنا کر دیتے وقت کہا تھا:
*”جس کی حکمرانی مشرقی یورپ پر ہو، اس کی حکمرانی ہارٹ لینڈ پر ہوتی ہے اور جس کی حکمرانی ہارٹ لینڈ پر ہو، اس کی حکمرانی ''ورلڈ آئی لینڈ'' یعنی یوروشیا (یورپ وایشیا) اور افریقہ پر ہوتی ہے اور جس کی حکمرانی ورلڈ آئی لینڈ پر ہو، اس کی حکمرانی ساری دنیا پر ہوتی ہے۔“*
ہامان کی بات کو ایک اور یہودی مفکر ہالفرڈ میکنڈر نے آگے بڑھایا، اس کا زمانہ 1896ء سے 1947ء تک کا ہے، یعنی اس کی موت کے اگلے سال اسرائیل کرہ ارض پر ایک صہیونی ریاست کے طور پر وجود میں آگیا تھا، اس نے کہا:
*”ہارٹ لینڈ'' کرہ ارض کا وہ علاقہ ہے جو جغرافیائی اعتبار سے ساری دنیا پر حاوی ہے، لہذا اسے سیاسی اعتبارسے بھی سب خطوں پر فوقیت حاصل ہے، اس لیے کہ عالمی سیاست آخرکار خشکی اور سمندر پر تسلط رکھنے والی قوموں کے درمیان عظیم کشمکش پر آکر مرتکز ہوجاۓ گی اور ہارٹ لینڈ اس دنیا کاوہ خطہ ہے جو بحری قوتوں سے محفوظ علاقہ ہے، کیونکہ یہ ایک طرف سے سلسلہ کوہ ہمالیہ، دوسری طرف دریاۓ والگا، تیسری طرف دریاۓ یانگ سی اور چوتھی طرف سے بحرِ قطب شمالی سے گھرا ہوا ہے۔“*
ہالفرڈ میکنڈر نے 25جنوری 1904ء کو جبکہ دنیا جنگِ عظیم اول کی طرف بڑھ رہی تھی، اپنے یہ خیالات رائل جیوگرافک سوسائٹی لندن میں پڑھے جانے والے ایک مقالے میں پیش کیے، اس کا عنوان تھا "دی جیو گرافیکل پوائنٹ آف ہسٹری" یہ تھے تو مبہم، لیکن ان میں "ہارٹ لینڈ" پر بالا دستی سے ساری دنیا کو تسخیر کرلینے کی قوت حاصل ہوجانے کا جو نظریہ تھا وہ اُس کی اصل جان تھا، لہذا ایک اور یہودی دانشور نکولس اسپائیک مین نے آگے بڑھ کر اس ابہام کو دور کیا اور ان نظریات میں جزوی ترمیم کرتے ہوئے میکنڈر کے متعین کردہ "ہارٹ لینڈ" کی حدود کے ملحق حصّے کو دنیا کا اہم ترین علاقہ قرار دیتے ہوئے "رم لینڈ" کا نظریہ پیش کیا اور اس کے لیے "تھرٹی فورٹی" کی اصطلاح وضع کی گئی، یعنی "روئے زمین کا وہ حصہ جو 130, 40 درجہ عرض البلد کے درمیان ہے۔ "اس نے یہودیوں کے لیے ایک مختصر لائحہ عمل وضع کیا:
*" جو رم لینڈ پر قابض ہو گا اور وہ یوروشیا اور افریقہ پر قابض ہو گا اور جو ان دونوں پر تسلط حاصل کرلے گا وہ بلا شرکتِ غیرے ساری دنیا پر حکمرانی کرے گا۔"*
ایک یہودی دانشور آرنلڈ ڈائی نے بات کو طول کر یوں بیان کیا:
*اسرائیل کا مطلب کیا؟*
ہامان یہودیوں کا مشہور تاریخ دان، فلسفی، ماہر مستقبلیات ہے، اعلیٰ پائے کا منصوبہ ساز گزرا ہے، اس کا پورا نام الفریڈ تھائر ہامان تھا، ان کا شمار یہودیت کے لئے فکری سطح پر کارہائے نمایاں انجام دینے والے ممتاز دانشوروں میں ہوتا ہے، یہودیت کے دنیا بھر میں بکھرے ہوئے افراد نے پچھلی دو صدیوں میں ایک جسم کی طرح مل کر کام کیا ہے، با لکل ایسے جیسے مسلمانوں کو ان کے پاک نبی ﷺ نے حکم دیا تھا، یعنی جس طرح دماغ بہتر سوچ پیش کرتا ہے، دل اس پر پوری ہمّت و قو ت سے فیصلہ کرتا ہے اور جسم کے اعصاب و اعضاء اس پر پوری تندہی سے عمل کرتے ہیں تو انسان مطلب تک جلد اور بسہولت بلکہ بالیقین پہنچ جاتا ہے۔
اسی طرح اگر کسی قوم (امّت مسلمہ کا ہر فرد ایک مجتمع قوم کا فرد ہے) کے کچھ صاحب تدبیر اور صاحب رائے لوگ اس کا دماغ بن جائیں اور اس کو خیر وشر سمجھاتے رہیں، مستقبل کے لئے بہترین منصوبہ بندی کرکے دیتے رہیں، کچھ لوگ اس کا دل بن جائیں اور ان کو درکار وسائل فراہم کرنے کے لئے پوری ہمّت اور قوت کے ساتھ محنت کریں اور اس کی معاشی وعسکری ”استعداد“ کو مضبوط سے مضبوط بنائیں اور کچھ لوگ اس کے جاندار اور طاقتور اعضاء بن کر ان وسائل کو طے شدہ مقاصد پر صرف کرکے بہترین نتائج حاصل کرنے کے لئے خود کو کھپا دیں تو اس کائنات کو تکوینی قوانین کا پابند بنا کر پیدا کرنے والے خدا کا فیصلہ ہے کہ اس قوم کے دن پھر سکتے ہیں۔
لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں منصوبہ بندی کا یہ عالم ہے کہ ہمارے اہل علم دنیا کی تین اہم علمی اور عالمی زبانوں (انگريزی، عربی اور معیاری اردو ) کی تعلیم کے لئے آج (2003ء) وہ نظام قائم نہیں کر پاۓ جو 1903ء میں کرلینا چاہیے تھا اور سب کچھ جانے دیجیے، ہمارے بعض روشن خیال حضرات آج ان کاموں کی طرف توجہ فرما رہے ہیں جو انہیں 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد کر لینے چاہیے تھے، جبکہ مغرب (جس کے دل و دماغ اور اعصاب واعضاء یہودی ہیں) 2000ء میں ان منصوبوں پر عمل کررہا تھا جو اس نے 1901ء میں سوچے تھے اور اپنی تجربہ گاہوں میں ان منصوبوں پر تجربے کررہا ہے جو اسے 2100ء میں پورے کرنے ہیں اور اس کے دماغ ان امور پر سوچ بچار کرکے محتاط اندازے قائم کررہے ہیں جو 2100ء کے بعد پیش آسکتے ہیں۔
ہاں تو بات ہورہی تھی کیپٹن الفریڈ تھائر کی جو ہامان کے نام سے گزشتہ سے پوستہ صدی میں یہودیوں کے عالمی سطح پر سوچنے والے دماغ کی ایک اہم رگ تھا، اس نے یہودی ریاست کی تشکیل کے لیے یہودیوں کو ”روڈ میپ“ کا ابتدائی خاکہ بنا کر دیتے وقت کہا تھا:
*”جس کی حکمرانی مشرقی یورپ پر ہو، اس کی حکمرانی ہارٹ لینڈ پر ہوتی ہے اور جس کی حکمرانی ہارٹ لینڈ پر ہو، اس کی حکمرانی ''ورلڈ آئی لینڈ'' یعنی یوروشیا (یورپ وایشیا) اور افریقہ پر ہوتی ہے اور جس کی حکمرانی ورلڈ آئی لینڈ پر ہو، اس کی حکمرانی ساری دنیا پر ہوتی ہے۔“*
ہامان کی بات کو ایک اور یہودی مفکر ہالفرڈ میکنڈر نے آگے بڑھایا، اس کا زمانہ 1896ء سے 1947ء تک کا ہے، یعنی اس کی موت کے اگلے سال اسرائیل کرہ ارض پر ایک صہیونی ریاست کے طور پر وجود میں آگیا تھا، اس نے کہا:
*”ہارٹ لینڈ'' کرہ ارض کا وہ علاقہ ہے جو جغرافیائی اعتبار سے ساری دنیا پر حاوی ہے، لہذا اسے سیاسی اعتبارسے بھی سب خطوں پر فوقیت حاصل ہے، اس لیے کہ عالمی سیاست آخرکار خشکی اور سمندر پر تسلط رکھنے والی قوموں کے درمیان عظیم کشمکش پر آکر مرتکز ہوجاۓ گی اور ہارٹ لینڈ اس دنیا کاوہ خطہ ہے جو بحری قوتوں سے محفوظ علاقہ ہے، کیونکہ یہ ایک طرف سے سلسلہ کوہ ہمالیہ، دوسری طرف دریاۓ والگا، تیسری طرف دریاۓ یانگ سی اور چوتھی طرف سے بحرِ قطب شمالی سے گھرا ہوا ہے۔“*
ہالفرڈ میکنڈر نے 25جنوری 1904ء کو جبکہ دنیا جنگِ عظیم اول کی طرف بڑھ رہی تھی، اپنے یہ خیالات رائل جیوگرافک سوسائٹی لندن میں پڑھے جانے والے ایک مقالے میں پیش کیے، اس کا عنوان تھا "دی جیو گرافیکل پوائنٹ آف ہسٹری" یہ تھے تو مبہم، لیکن ان میں "ہارٹ لینڈ" پر بالا دستی سے ساری دنیا کو تسخیر کرلینے کی قوت حاصل ہوجانے کا جو نظریہ تھا وہ اُس کی اصل جان تھا، لہذا ایک اور یہودی دانشور نکولس اسپائیک مین نے آگے بڑھ کر اس ابہام کو دور کیا اور ان نظریات میں جزوی ترمیم کرتے ہوئے میکنڈر کے متعین کردہ "ہارٹ لینڈ" کی حدود کے ملحق حصّے کو دنیا کا اہم ترین علاقہ قرار دیتے ہوئے "رم لینڈ" کا نظریہ پیش کیا اور اس کے لیے "تھرٹی فورٹی" کی اصطلاح وضع کی گئی، یعنی "روئے زمین کا وہ حصہ جو 130, 40 درجہ عرض البلد کے درمیان ہے۔ "اس نے یہودیوں کے لیے ایک مختصر لائحہ عمل وضع کیا:
*" جو رم لینڈ پر قابض ہو گا اور وہ یوروشیا اور افریقہ پر قابض ہو گا اور جو ان دونوں پر تسلط حاصل کرلے گا وہ بلا شرکتِ غیرے ساری دنیا پر حکمرانی کرے گا۔"*
ایک یہودی دانشور آرنلڈ ڈائی نے بات کو طول کر یوں بیان کیا:
🌴🌷شیخ الهند🌷🌴
*اقصیٰ کے آنسو، قسط: (22)* *القدس سے بابل تک:* سقوط کابل، قندهار اور بغداد کے موقع پر بہت سے افراد کے متعلق اطلاع ملی کہ وه پهوٹ پهوٹ کر روئے، لیکن ہمیں اگر پتہ چل جائے کہ سقوط بغداد کے بعد کس ملک یا علاقے کے سقوط کا منصوبہ دشمنان اسلام نے تیار کر رکها ہے…
*"انسانی معاملات کے مرکز کشش کا نقطۂ اتحاد امریکہ اور یورپ کے مشرق اور ہندوستان وچین کے مغرب کے بیچوں بیچ جگہ ہے جو بابل کے نواح میں جزیرہ نمائے عرب و افریقہ کے اس پار عہد قدیم کا مقام نقل وحمل ہے۔*
"یہ کم و بیش وہی بات تھی جو عالمی اسرائیلی ریاست کے اولیں خاکہ میں کہی گئی تھی، لہٰذا یہودی بڑوں نے اس پر اتفاق کرلیا کہ دنیا کے سب سے بڑے جزیرے یوروشیا (یورپ وایشیا) اور افریقہ کے مرکز پر تسلط کا حصول کسی قوت کو ساری دنیا میں ناقابل تسخیر بنا دے گا، چنانچہ ان یہودی دانشوروں کی طرف سے یہ خیالات پیش کئے جانے کے بعد چند دہائیاں نہ گزری تھی کہ مئی 1948ء ایک گرم رات میں یہودی ایک صیہونی ریاست کے قیام کا جشن منا رہے تھے، نہیں کہا جا سکتا کہ یہ خیالات اسرائیل کے قیام کا اعلان تھے یا اسرائیل کا قیام ان نظریات کی عملی تعبیر تھا۔
بہرحال! حقیقت یہ ہے کہ ہوا وہی جو ان لوگوں نے کہا تھا اور اب تک چونکہ ان کے طویل میعاد پر مشتمل منصوبے کامیابی سے مکمل ہوتے چلے آئے ہیں، اس لئے اگر کوئی اسرائیل کا مطلب اور اس کی حقیقت جاننا چاہتا ہے اسے انہی یہودی دانشوروں کے نظریات کا کھوج لگانا پڑے گا اور ان پر تہہ در تہہ پڑی ہوئی پرتوں کو ہٹا کر باریک بینی سے یہودیت، اس کی نفسیات، طریق کار اور مستقبل قریب و بعید میں ان کے مقاصد کا مطالعہ کرنا پڑے گا تو آئیے! کچھ وقت یہودیت کے صنم خانے میں گزراتے ہیں۔
قیام اسرائیل کے بعد ابراہام اسحاق کک نامی یہودی کو اسرائیل کا "رِبی اعظم" منتخب کیا گیا، یہ شخص بیک وقت حِبر (عالم) بھی تھا اور راہب (روحانی پیشوا) بھی، اسے یہود کے ظاہری و باطنی علوم کا اپنے وقت کا سب سے بڑا ماہر اور بزرگ ترین روحانی پیشوا مانا جاتا تھا، اس نے اسرائیل کے تصور کو ان الفاظ میں واضح کیا:
*" ارضِ اسرائیل کے تصور کو محض اپنی قومی وحدت قائم کرنے کا ذریعہ سمجھنا ایک بانجھ خیال ہے، ایسے خیالات اس قابل نہیں کہ انہیں ارض اسرائیل کے تقدس سے نسبت دی جائے، ارض مقدس کو واپس ہونے کی امید یہودیت کی وہ بلافصل ماخذ ومنبع ہے جس سے اس کی انفرادیت برقرار ہے، نجات کی امید وہ طاقت ہے جو یہودیت کو انتظار میں باقی رکھتی ہے، ارض اسرائیل کی یہودیت ہی درحقیقت اصل نجات ہے-"*
"ارضِ اسرائیل کی یہودیت" اور "حقیقی نجات" کی اصطلاحات کو آپ نہ سمجھ سکیں گے جب تک ان کے پس منظر سے آگاہ نہ ہوں، دراصل جب یہودیوں کو اللہ تعالیٰ نے ان کی بداعمالیوں کی سزا دی اور وقفے وقفے سے بخت نصر اور ٹائٹس نے یروشلم کو تباہ، ہزاروں یہودیوں کو قتل اور ہزاروں کو جلا وطن کردیا تو کئی سال تک ذلیل وخوار رہنے کے بعد ان کو آخری مرتبہ معافی اور ہٹ دھرمی میں سے ایک چیز کا انتخاب کا اختیار ملا اور یہ آخری موقع تھا جب وہ اپنے گناہوں سے تائب ہو کر رب تعالی کو راضی کر سکتے تھے، یہ موقع سیدنا حضرت عیسٰی مسیح اللہ کی اطاعت اور ان کے ہاتھ پر توبہ کا تھا، ان سے کہا گیا تھا کہ اگر وہ گناہوں سے الگ ہو کر توبہ واستغفار کرلیں تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کر لے گا، ان کے مصائب ختم کر دے گا اور ان کی بحالی کے لئے ایسا نبی بھیجے گا جو ان کا مسیح اور نجات دہندہ ہوگا، اس کی اطاعت کی برکتوں سے وہ مصیبتوں کے بھنور سے نکل جائیں گے، اس وقت سے ان کے نیک لوگ مسیح کی آمد کا انتظار کر رہے تھے، لیکن ان کی اکثریت کو گناہوں کی ایسی لت پڑگئی تھی کہ ان سے صبر نہ ہوتا تھا، وہ لذت انگیز گناہ بھی نہ چھوڑنا چاہتے تھے اور ساتھ میں اس ذلت اور خواری سے بھی جان چھڑانا چاہتے تھے جو ان پر مسلط تھی اور جس کا خاتمہ صہیون کے پہاڑ کے گرد قائم ہونے والی یروشلم کی سلطنت مل جانے سے ہو سکتا تھا، دوسرے لفظوں میں وہ جنت گم گشتہ کے طالب تھے، لیکن جہنمی حرکات کو چھوڑنے پر تیار نہ تھے، رفتہ رفتہ گناہوں سے شغف کے ساتھ مسیح کا انتظار اور کھوئی ہوئی بادشاہت کی واپسی کا سودا ان کے سر میں ایسے سما گیا کہ وہ ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہوتے چلے گئے۔
ان کے نام نہاد علمائے سوء اور جعلی پیر (احبار و رہبان) نے رحمٰن کو راضی کرنے کے ساتھ ساتھ شیطان کو خوش کرنے کی اس احمقانہ کوشش کو دینی رنگ دینے کے لیے اصلی "تصور مسیح" کو مسخ کرکے ایک جعلی اور من گھڑت تصور مسیح پیش کیا اور چونکہ اس جعلی تصور کی مقبولیت تورات اور زبور میں تحریف کیے بغیر ممکن نہ تھی، لہٰذا ان مقدس کتابوں میں قطع و برید شروع کردی، لذت پرستی کے اس دور میں جو مشرکانہ اور فاسدانہ خیالات ایجاد کیے گئے تھے اور جنہیں شکم پرست مذہبی پیشواؤں کی محنت سے اللّٰہ کے دین کے متوازی ایک دین کی شکل میں ڈھالا جا چکا تھا، وہ یہودیت کا جزء لازم بنا لیے گئے، اس کے مقابلے میں حقیقی اور انبیائی دین، فاسد، باطل اور جعلی قرار پایا، اس موقع پر بنی اسرائیل کے علمائے سوء نے انبیاء بنی اسرائیل کے ساتھ وہ سلوک کیا جو آج کل کے دنیا پرست مولوی اور رسوم پرست عوام، علماء حق کے ساتھ کرتے ہیں، ان جھوٹے روحانی پیشواؤں نے
"یہ کم و بیش وہی بات تھی جو عالمی اسرائیلی ریاست کے اولیں خاکہ میں کہی گئی تھی، لہٰذا یہودی بڑوں نے اس پر اتفاق کرلیا کہ دنیا کے سب سے بڑے جزیرے یوروشیا (یورپ وایشیا) اور افریقہ کے مرکز پر تسلط کا حصول کسی قوت کو ساری دنیا میں ناقابل تسخیر بنا دے گا، چنانچہ ان یہودی دانشوروں کی طرف سے یہ خیالات پیش کئے جانے کے بعد چند دہائیاں نہ گزری تھی کہ مئی 1948ء ایک گرم رات میں یہودی ایک صیہونی ریاست کے قیام کا جشن منا رہے تھے، نہیں کہا جا سکتا کہ یہ خیالات اسرائیل کے قیام کا اعلان تھے یا اسرائیل کا قیام ان نظریات کی عملی تعبیر تھا۔
بہرحال! حقیقت یہ ہے کہ ہوا وہی جو ان لوگوں نے کہا تھا اور اب تک چونکہ ان کے طویل میعاد پر مشتمل منصوبے کامیابی سے مکمل ہوتے چلے آئے ہیں، اس لئے اگر کوئی اسرائیل کا مطلب اور اس کی حقیقت جاننا چاہتا ہے اسے انہی یہودی دانشوروں کے نظریات کا کھوج لگانا پڑے گا اور ان پر تہہ در تہہ پڑی ہوئی پرتوں کو ہٹا کر باریک بینی سے یہودیت، اس کی نفسیات، طریق کار اور مستقبل قریب و بعید میں ان کے مقاصد کا مطالعہ کرنا پڑے گا تو آئیے! کچھ وقت یہودیت کے صنم خانے میں گزراتے ہیں۔
قیام اسرائیل کے بعد ابراہام اسحاق کک نامی یہودی کو اسرائیل کا "رِبی اعظم" منتخب کیا گیا، یہ شخص بیک وقت حِبر (عالم) بھی تھا اور راہب (روحانی پیشوا) بھی، اسے یہود کے ظاہری و باطنی علوم کا اپنے وقت کا سب سے بڑا ماہر اور بزرگ ترین روحانی پیشوا مانا جاتا تھا، اس نے اسرائیل کے تصور کو ان الفاظ میں واضح کیا:
*" ارضِ اسرائیل کے تصور کو محض اپنی قومی وحدت قائم کرنے کا ذریعہ سمجھنا ایک بانجھ خیال ہے، ایسے خیالات اس قابل نہیں کہ انہیں ارض اسرائیل کے تقدس سے نسبت دی جائے، ارض مقدس کو واپس ہونے کی امید یہودیت کی وہ بلافصل ماخذ ومنبع ہے جس سے اس کی انفرادیت برقرار ہے، نجات کی امید وہ طاقت ہے جو یہودیت کو انتظار میں باقی رکھتی ہے، ارض اسرائیل کی یہودیت ہی درحقیقت اصل نجات ہے-"*
"ارضِ اسرائیل کی یہودیت" اور "حقیقی نجات" کی اصطلاحات کو آپ نہ سمجھ سکیں گے جب تک ان کے پس منظر سے آگاہ نہ ہوں، دراصل جب یہودیوں کو اللہ تعالیٰ نے ان کی بداعمالیوں کی سزا دی اور وقفے وقفے سے بخت نصر اور ٹائٹس نے یروشلم کو تباہ، ہزاروں یہودیوں کو قتل اور ہزاروں کو جلا وطن کردیا تو کئی سال تک ذلیل وخوار رہنے کے بعد ان کو آخری مرتبہ معافی اور ہٹ دھرمی میں سے ایک چیز کا انتخاب کا اختیار ملا اور یہ آخری موقع تھا جب وہ اپنے گناہوں سے تائب ہو کر رب تعالی کو راضی کر سکتے تھے، یہ موقع سیدنا حضرت عیسٰی مسیح اللہ کی اطاعت اور ان کے ہاتھ پر توبہ کا تھا، ان سے کہا گیا تھا کہ اگر وہ گناہوں سے الگ ہو کر توبہ واستغفار کرلیں تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کر لے گا، ان کے مصائب ختم کر دے گا اور ان کی بحالی کے لئے ایسا نبی بھیجے گا جو ان کا مسیح اور نجات دہندہ ہوگا، اس کی اطاعت کی برکتوں سے وہ مصیبتوں کے بھنور سے نکل جائیں گے، اس وقت سے ان کے نیک لوگ مسیح کی آمد کا انتظار کر رہے تھے، لیکن ان کی اکثریت کو گناہوں کی ایسی لت پڑگئی تھی کہ ان سے صبر نہ ہوتا تھا، وہ لذت انگیز گناہ بھی نہ چھوڑنا چاہتے تھے اور ساتھ میں اس ذلت اور خواری سے بھی جان چھڑانا چاہتے تھے جو ان پر مسلط تھی اور جس کا خاتمہ صہیون کے پہاڑ کے گرد قائم ہونے والی یروشلم کی سلطنت مل جانے سے ہو سکتا تھا، دوسرے لفظوں میں وہ جنت گم گشتہ کے طالب تھے، لیکن جہنمی حرکات کو چھوڑنے پر تیار نہ تھے، رفتہ رفتہ گناہوں سے شغف کے ساتھ مسیح کا انتظار اور کھوئی ہوئی بادشاہت کی واپسی کا سودا ان کے سر میں ایسے سما گیا کہ وہ ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہوتے چلے گئے۔
ان کے نام نہاد علمائے سوء اور جعلی پیر (احبار و رہبان) نے رحمٰن کو راضی کرنے کے ساتھ ساتھ شیطان کو خوش کرنے کی اس احمقانہ کوشش کو دینی رنگ دینے کے لیے اصلی "تصور مسیح" کو مسخ کرکے ایک جعلی اور من گھڑت تصور مسیح پیش کیا اور چونکہ اس جعلی تصور کی مقبولیت تورات اور زبور میں تحریف کیے بغیر ممکن نہ تھی، لہٰذا ان مقدس کتابوں میں قطع و برید شروع کردی، لذت پرستی کے اس دور میں جو مشرکانہ اور فاسدانہ خیالات ایجاد کیے گئے تھے اور جنہیں شکم پرست مذہبی پیشواؤں کی محنت سے اللّٰہ کے دین کے متوازی ایک دین کی شکل میں ڈھالا جا چکا تھا، وہ یہودیت کا جزء لازم بنا لیے گئے، اس کے مقابلے میں حقیقی اور انبیائی دین، فاسد، باطل اور جعلی قرار پایا، اس موقع پر بنی اسرائیل کے علمائے سوء نے انبیاء بنی اسرائیل کے ساتھ وہ سلوک کیا جو آج کل کے دنیا پرست مولوی اور رسوم پرست عوام، علماء حق کے ساتھ کرتے ہیں، ان جھوٹے روحانی پیشواؤں نے
🌴🌷شیخ الهند🌷🌴
*اقصیٰ کے آنسو، قسط: (22)* *القدس سے بابل تک:* سقوط کابل، قندهار اور بغداد کے موقع پر بہت سے افراد کے متعلق اطلاع ملی کہ وه پهوٹ پهوٹ کر روئے، لیکن ہمیں اگر پتہ چل جائے کہ سقوط بغداد کے بعد کس ملک یا علاقے کے سقوط کا منصوبہ دشمنان اسلام نے تیار کر رکها ہے…
ان حرکات سے منع کرنے پر انبیاء کرام اور منصف مزاج حق گو لوگوں کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہ کیا، رفتہ رفتہ ایک ایسا دین وجود میں آ گیا جو حق و باطل کا ملغوبہ اور صحیح و فاسد کا معجون مرکب تھا، اس میں تصور مسیح کی بنیاد ان امور پر تھی:
① ۔۔۔ اللّٰہ تعالٰی یہودیوں کی مصیبتوں کے خاتمے اور ان کی سر بلندی کے لئے مسیح بھیجے گا۔
② ۔۔۔ یہ مسیح ان کے موجودہ دین کی توثیق کرے گا۔
③ ۔۔۔ جو اس موجودہ (فاسد، باطلانہ اور مشرکانہ) دین کی توثیق نہ کرے اور کسی اور دین (حقیقی الٰہی مذہب) کی طرف بلائے، وہ جھوٹا مسیح (دجّال) ہے اور قابل گردن زدنی ہے۔
چنانچہ اس خودساختہ تصور مسیح کے تحت اصل مسیح معاذاللّہ جھوٹے اور یہودیوں کے دشمن اور ان کا خاتمہ یہودیت کی خدمت قرار پایا، سچے مسیح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے تک یہودی علماء اور رِبَییّن نے اس باطل تصور کو یہود میں اس قدر راسخ کردیا تھا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی آمد سے قبل ان کی دعوت کے لئے میدان ہموار کرنے کی خاطر خصوصی محنت کرنی پڑی۔ "اِنَّ اللّٰهَ يُبَشّرُکَ بِیَحییٰ مُصَدِّقابِکَلمَۃ مِّنَ اللّٰهِ" مگر اس کے باوجود یہود وہ جرم کر کے رہے جس نے انہیں اس آخری امتحان میں بری طرح ناکام کردیا اور جس کے بعد یہود کا رشتہ اللّٰہ تعالٰی، انبیاء اور آسمانی کتابوں سے ہمیشہ کے لئے ختم ہوکر رہ گیا، یعنی حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی تکذیب اور آخر کار ان کو صلیب دیئے جانے کی کوشش۔ اب وہ خوب جانتے ہیں کہ اس ہولناک جرم کے بعد اللّٰہ تعالٰی، اس کے مقرب فرشتوں اور نیک وسعید بندوں کے ہاں آسمانوں اور زمینوں میں ان کی کوئی گنجائش نہیں رہی، وہ یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ خدا کے نہیں رہے نہ خدا ان کا رہا، وہ پورے کے پورے صرف اور صرف ابلیس کے ہیں اور ابلیس پر نازل ہونے والی لعنت و پھٹکار ان کے لیے ہے، وہ یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اب ان کے لئے کوئی مسیح آئے گا نہ وہ سچے مسیح جیسے کسی نجات دہندہ کے قابل ہیں، اب جو مسیح آئے گا وہ ان کے لئے سراپا قہر وغضب ہوگا اور اس کے مقابلے کے لئے چونکہ عرش سے فرش تک یہود کے لیے کوئی مددگار نہیں، اس لیے انہوں نے شیطان کو، اس کی مخفی قوتوں کو اور اس کے سب سے بڑے نمائیندے دجّال کو اپنے لئے آخری امید بنا لیا ہے، ان کے خیال میں ان کی تمام امیدوں کا مرکز، یروشلم کی سلطنت اور صہیون کے مقدس پہاڑ کی طرف واپسی کا ذریعہ صرف اور صرف دجّال اکبر ہے، اس کی حکومت "یہودیت" کی حکومت ہو گی، اس کی بادشاہت اسرائیل کی "حقیقی نجات" کا دن ہے، مسیح دجّال کا خروج کب ہو گا؟ اس کے ظاہر ہونے کی راہ کس طرح ہموار ہو گی؟ یہ بھی سن لیجیے!
مسجد اقصیٰ کو ڈھا کر اس کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی سازش کے تمام پہلوؤں کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لینے والا اسرائیلی ماہر ژیدی اراں کہتا ہے:
"زیر زمین" (اس سے فری میسن تحریک مراد ہے، راقم) کے سربراہوں نے اندازہ لگایا ہے، اس "کریہہ عمل" (مسجد اقصیٰ) کو بم سے اڑادینا دنیا کے کروڑوں مسلمانوں کو جہاد کے لیے کھڑا کردے گا، جو بالآخر پوری انسانیت کو معرکۃ المعارک میں جھونک دے گا، اس معرکۃ المعارک کو انہوں نے یاجوج وماجوج کی جنگ سے تعبیر کیا ہے، جس کے کائناتی، روحانی اثرات مرتب ہوں گے، آگ کی اس مطلوب آزمائش سے اسرائیل کا فاتح برآمد ہونا زمین پر مسیح کی آمد کی راہ ہموار کرے گا۔
حاصل یہ کہ موجودہ اسرائیل محض ایک ریاست نہیں، نہ ہی صرف یہ یہودیت وصیہونیت کی پناہ گاہ ہے، بلکہ یہ یہودیت کے ترتیب دیئے ہوئے عالمی طاغوتی نظام (نیو ورلڈ آرڈر) اور دجالی ریاست کا پایہ تخت ہے جو اپنے صدیوں کے خفیہ عزائم کے تحت مسجد اقصیٰ اور گنبد صخرہ کو گرا کر دجال کی آمد اور عظیم تر اسرائیلی ریاست کے قیام کی پہلی اینٹ رکھنے کےلئے تشکیل دیا گیا ہے۔
یہود کے عقائد کے مطابق جب ان کا مسیحا یعنی المسیح الدجال آئے گا تو اس کی عالمی سلطنت کا دارالحکومت یروشلم (القدس شہر) اور صدارتی مقام ہیکل سلیمانی ہوگا، اس وقت دنیا میں دو ہی حکومتیں ہیں جو کسی نظریے کے تحت قائم ہوئی ہیں اور جن کی پارلیمنٹ کی پیشانی پر ان کا مقصد ومنشور درج ہے. ایک پاکستان جس کی پارلیمنٹ پر کلمہ طیبہ تحریر ہے اور جس کا بچہ بچہ پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ" کا ایمان افروز نعرہ ورد زبان کرنا اپنی سعادت سمجھتا ہے، دوسرے اسرائیل کے پارلیمان کا موٹو یہ ہے:
*" اے إسرائيل! تیری سلطنت کی سرحدیں نیل سے فرات تک ہیں" اور جس کا مقصد "اسرائیل کا مطلب کیا؟ دجال کی حکومت بنا"* ہے۔
دونوں حکومتیں زبردست قربانیوں اور جدوجہد کے بعد قائم ہوئی ہیں اور دونوں کا مطمح نظر یہ رہا ہے کہ اسلامی ریاست یا یہودی ریاست کا مثالی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرکے اپنا پیغام کرۂ ارض تک پہنچائیں، اب غضب انگیز بات دیکھئے کہ دجال کے پیروکاروں نے تو کبھی محمد عربی ﷺ کے غلاموں کی ریاست کو تسلیم نہیں کیا ہے، وہ اپنے موقف پر پوری شدت سے قائم ہیں، لیكن
① ۔۔۔ اللّٰہ تعالٰی یہودیوں کی مصیبتوں کے خاتمے اور ان کی سر بلندی کے لئے مسیح بھیجے گا۔
② ۔۔۔ یہ مسیح ان کے موجودہ دین کی توثیق کرے گا۔
③ ۔۔۔ جو اس موجودہ (فاسد، باطلانہ اور مشرکانہ) دین کی توثیق نہ کرے اور کسی اور دین (حقیقی الٰہی مذہب) کی طرف بلائے، وہ جھوٹا مسیح (دجّال) ہے اور قابل گردن زدنی ہے۔
چنانچہ اس خودساختہ تصور مسیح کے تحت اصل مسیح معاذاللّہ جھوٹے اور یہودیوں کے دشمن اور ان کا خاتمہ یہودیت کی خدمت قرار پایا، سچے مسیح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے تک یہودی علماء اور رِبَییّن نے اس باطل تصور کو یہود میں اس قدر راسخ کردیا تھا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کی آمد سے قبل ان کی دعوت کے لئے میدان ہموار کرنے کی خاطر خصوصی محنت کرنی پڑی۔ "اِنَّ اللّٰهَ يُبَشّرُکَ بِیَحییٰ مُصَدِّقابِکَلمَۃ مِّنَ اللّٰهِ" مگر اس کے باوجود یہود وہ جرم کر کے رہے جس نے انہیں اس آخری امتحان میں بری طرح ناکام کردیا اور جس کے بعد یہود کا رشتہ اللّٰہ تعالٰی، انبیاء اور آسمانی کتابوں سے ہمیشہ کے لئے ختم ہوکر رہ گیا، یعنی حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی تکذیب اور آخر کار ان کو صلیب دیئے جانے کی کوشش۔ اب وہ خوب جانتے ہیں کہ اس ہولناک جرم کے بعد اللّٰہ تعالٰی، اس کے مقرب فرشتوں اور نیک وسعید بندوں کے ہاں آسمانوں اور زمینوں میں ان کی کوئی گنجائش نہیں رہی، وہ یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ خدا کے نہیں رہے نہ خدا ان کا رہا، وہ پورے کے پورے صرف اور صرف ابلیس کے ہیں اور ابلیس پر نازل ہونے والی لعنت و پھٹکار ان کے لیے ہے، وہ یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اب ان کے لئے کوئی مسیح آئے گا نہ وہ سچے مسیح جیسے کسی نجات دہندہ کے قابل ہیں، اب جو مسیح آئے گا وہ ان کے لئے سراپا قہر وغضب ہوگا اور اس کے مقابلے کے لئے چونکہ عرش سے فرش تک یہود کے لیے کوئی مددگار نہیں، اس لیے انہوں نے شیطان کو، اس کی مخفی قوتوں کو اور اس کے سب سے بڑے نمائیندے دجّال کو اپنے لئے آخری امید بنا لیا ہے، ان کے خیال میں ان کی تمام امیدوں کا مرکز، یروشلم کی سلطنت اور صہیون کے مقدس پہاڑ کی طرف واپسی کا ذریعہ صرف اور صرف دجّال اکبر ہے، اس کی حکومت "یہودیت" کی حکومت ہو گی، اس کی بادشاہت اسرائیل کی "حقیقی نجات" کا دن ہے، مسیح دجّال کا خروج کب ہو گا؟ اس کے ظاہر ہونے کی راہ کس طرح ہموار ہو گی؟ یہ بھی سن لیجیے!
مسجد اقصیٰ کو ڈھا کر اس کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی سازش کے تمام پہلوؤں کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لینے والا اسرائیلی ماہر ژیدی اراں کہتا ہے:
"زیر زمین" (اس سے فری میسن تحریک مراد ہے، راقم) کے سربراہوں نے اندازہ لگایا ہے، اس "کریہہ عمل" (مسجد اقصیٰ) کو بم سے اڑادینا دنیا کے کروڑوں مسلمانوں کو جہاد کے لیے کھڑا کردے گا، جو بالآخر پوری انسانیت کو معرکۃ المعارک میں جھونک دے گا، اس معرکۃ المعارک کو انہوں نے یاجوج وماجوج کی جنگ سے تعبیر کیا ہے، جس کے کائناتی، روحانی اثرات مرتب ہوں گے، آگ کی اس مطلوب آزمائش سے اسرائیل کا فاتح برآمد ہونا زمین پر مسیح کی آمد کی راہ ہموار کرے گا۔
حاصل یہ کہ موجودہ اسرائیل محض ایک ریاست نہیں، نہ ہی صرف یہ یہودیت وصیہونیت کی پناہ گاہ ہے، بلکہ یہ یہودیت کے ترتیب دیئے ہوئے عالمی طاغوتی نظام (نیو ورلڈ آرڈر) اور دجالی ریاست کا پایہ تخت ہے جو اپنے صدیوں کے خفیہ عزائم کے تحت مسجد اقصیٰ اور گنبد صخرہ کو گرا کر دجال کی آمد اور عظیم تر اسرائیلی ریاست کے قیام کی پہلی اینٹ رکھنے کےلئے تشکیل دیا گیا ہے۔
یہود کے عقائد کے مطابق جب ان کا مسیحا یعنی المسیح الدجال آئے گا تو اس کی عالمی سلطنت کا دارالحکومت یروشلم (القدس شہر) اور صدارتی مقام ہیکل سلیمانی ہوگا، اس وقت دنیا میں دو ہی حکومتیں ہیں جو کسی نظریے کے تحت قائم ہوئی ہیں اور جن کی پارلیمنٹ کی پیشانی پر ان کا مقصد ومنشور درج ہے. ایک پاکستان جس کی پارلیمنٹ پر کلمہ طیبہ تحریر ہے اور جس کا بچہ بچہ پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ" کا ایمان افروز نعرہ ورد زبان کرنا اپنی سعادت سمجھتا ہے، دوسرے اسرائیل کے پارلیمان کا موٹو یہ ہے:
*" اے إسرائيل! تیری سلطنت کی سرحدیں نیل سے فرات تک ہیں" اور جس کا مقصد "اسرائیل کا مطلب کیا؟ دجال کی حکومت بنا"* ہے۔
دونوں حکومتیں زبردست قربانیوں اور جدوجہد کے بعد قائم ہوئی ہیں اور دونوں کا مطمح نظر یہ رہا ہے کہ اسلامی ریاست یا یہودی ریاست کا مثالی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرکے اپنا پیغام کرۂ ارض تک پہنچائیں، اب غضب انگیز بات دیکھئے کہ دجال کے پیروکاروں نے تو کبھی محمد عربی ﷺ کے غلاموں کی ریاست کو تسلیم نہیں کیا ہے، وہ اپنے موقف پر پوری شدت سے قائم ہیں، لیكن
🌴🌷شیخ الهند🌷🌴
*اقصیٰ کے آنسو، قسط: (22)* *القدس سے بابل تک:* سقوط کابل، قندهار اور بغداد کے موقع پر بہت سے افراد کے متعلق اطلاع ملی کہ وه پهوٹ پهوٹ کر روئے، لیکن ہمیں اگر پتہ چل جائے کہ سقوط بغداد کے بعد کس ملک یا علاقے کے سقوط کا منصوبہ دشمنان اسلام نے تیار کر رکها ہے…
محمدعربی ﷺ سے نسبت كو ذریعہ شفاعت ونجات ماننے والوں میں دجال اكبر كی طاغوتی سلطنت كی تكمیل سے پہلے اور اس كے دارالخلافہ كے پوری طرح قائم ہونے سے بھی قبل اپنا مقصدِ تشكیل بھلا كر طاغوت كو تسلیم كرنے كے لئے سوچ بچار اور بحث وتمحیص شروع ہوچكی ہے۔
*رب كعبہ كی قسم! فلسطینی مسلمانوں كی یہود سے معركہ آرائی محض زمین كا تنازع نہیں ہے، بلكہ یہ حق وباطل كی وہ كشمكش ہے جس كی انتہاء دجال اور حضرت مسیح وحضرت مہدی علیہماالسلام كے درمیان حق وباطل كے آخری اور فیصلہ كن معركے پر ہوگی، اب اہل ایمان سوچ لیں كہ وہ كس گروہ میں اپنا نام لكھوانا چاہتے ہیں؟*
==================> جاری ہے ۔۔۔
''ماخوذ از: اقصیٰ کے آنسو''
مصنف: مفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب
ناقل: محمد احمد صارم
*رب كعبہ كی قسم! فلسطینی مسلمانوں كی یہود سے معركہ آرائی محض زمین كا تنازع نہیں ہے، بلكہ یہ حق وباطل كی وہ كشمكش ہے جس كی انتہاء دجال اور حضرت مسیح وحضرت مہدی علیہماالسلام كے درمیان حق وباطل كے آخری اور فیصلہ كن معركے پر ہوگی، اب اہل ایمان سوچ لیں كہ وہ كس گروہ میں اپنا نام لكھوانا چاہتے ہیں؟*
==================> جاری ہے ۔۔۔
''ماخوذ از: اقصیٰ کے آنسو''
مصنف: مفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب
ناقل: محمد احمد صارم
🌴🌷شیخ الهند🌷🌴
*اقصیٰ کے آنسو، قسط: (23)* *اسرائیل کا مطلب کیا؟* ہامان یہودیوں کا مشہور تاریخ دان، فلسفی، ماہر مستقبلیات ہے، اعلیٰ پائے کا منصوبہ ساز گزرا ہے، اس کا پورا نام الفریڈ تھائر ہامان تھا، ان کا شمار یہودیت کے لئے فکری سطح پر کارہائے نمایاں انجام دینے والے ممتاز…
*اقصیٰ کے آنسو، قسط: (24)*
*بابل سے یروشلم تک:*
*حرج کی تلاش:*
اسرائیل کو تسلیم کرنے نہ کرنے کے دینی اور سیاسی پہلوؤں پر ملک کے مختلف حلقوں میں گفتگو جاری ہے، بعض مفکر اور اسکالر آیت کریمہ ”لاَ تَتَّخِذُوۡ الۡیَهُوۡدُ وَالنَّصَاريٰ اَوۡلِياَء “ کو زمانۂ نبوت کے ساتھ خاص قرار دے رہے ہیں اور بعض نے ”اولیاء“ سے حاکم کا معنیٰ کشید کرلیا ہے اور بعض جغادری سیاستداں جو خود کو مجاہدِ اول کے لقب سے خود سرفراز کرتے رہے ہیں، اس ”حرج“ کی تلاش میں تل ابیب سے ہو آئے ہیں جو اسرائیل کو تسلیم کرنے کی صورت میں پایا جا سکتا ہے، اس بحث کے اختتام پر جب تمام طبقے اپنی اپنی توانائیاں صرف کر کے نڈھال ہو چکے ہوں گے تو زیر زمین ہونے والے فیصلے کا برسر زمین اعلان کر دیا جائےگا، چوں کہ ہم دین کا اتنا گہرا علم نہیں رکھتے کہ دینی اعتبار سے اس مسٔلہ پر لب کشائی کرسکیں، نہ ہی اس درجے کا سیاسی شعور ہمیں حاصل ہے کہ ایسے اہم اور بین الاقوامی مسئلے پر کسی گفتگو میں حصّہ لے سکیں، اس لئے ان دونوں پہلوؤں سے کچھ کہنے کے بجاۓ ہم اس مسئلے کو یہودیت کے نکتۂ نظر سے دیکھتے ہیں، کیوں کہ اس موضوع کے ٹوٹے پھوٹے مطالعے میں ہم بہت سا خون جگر جلا چکے ہیں۔
تورات کی سورۃ یسعیاہ کے دوسرے رکوع میں کہا گیا ہے:
*”آخری دنوں میں ایسا ہوگا کہ یہودا کی عمارت کا پہاڑ تمام پہاڑوں پر مستحکم کیا جائےگا اور تمام پہاڑیوں سے زیادہ بلند کیا جائے گا اور ہر قوم کے لوگ موج کی طرح اس کی جانب چلیں گے اور بہت سے ملکوں کے لوگ آئیں گے اور آپس میں کہیں گے: آؤ! ہم یہودا کے پہاڑ پر چڑھ کر یعقوب کے خدا کے گھر جائیں، تب وہ ہمیں اپنا راستہ دکھلائے گا اور ہم اس کے راستے پر چلیں گے، کیونکہ یہودا کا انتظام صہیون سے اور اس کا کام یروشلم سے نکلے گا، وہ قوموں کا فیصلہ کرے گا اور قوموں کے جھگڑوں کا فیصلہ کرے گا۔*
*مسیح ربّانی اور مسیح دجّال:*
یہ پیش گوئی ایک حقیقت ہے جو قیامت سے پہلے پوری ہوکر رہے گی، لیکن یہودیوں کی فطرت کی طرح چونکہ ان کی عقل بھی مسخ ہو چکی ہے، لہذا وہ اس کا غلط مطلب لے کر اسے غلط مصداق پر منطبق کرتے ہیں، یہ پیش گوئی دراصل اللہ کے سچے مسیح جناب عیسیٰ بن مریم علیٰ نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کے لیے تھی اور سچے خدا کے آخری سچے نبی جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے اس کی تصدیق کی ہے۔
کتب حدیث میں ’’اشراط الساعۃ‘‘ یعنی علامات قیامت کے تحت بہت سی احادیث میں اس کی تفصیل ہے، آخر زمانہ میں جب زمین مسلمانوں پر تنگ ہو جائے گی، مسلمان کفر کی چیرہ دستیوں سے تنگ آ کر جہاد کے لیے یکسو اور پُر عزم ہو جائیں گے اور کسی مخلص اور با صلاحیت قائد کی طلب اور کھوج میں ہوں گے۔ (آج کل سارے عالمِ اسلام کی کیفیت کو ذہن میں رکھیے) تو اللہ تعالیٰ سادات گھرانے کے ایک فرد کو ان کا قائد بنا کر بھیجے گا، جس کی روحانی اور اصلاحی تربیت مختصر عرصے میں مکمل کردی جائے گی، ان کا نام محمد بن عبد اللہ اور لقب مہدی ہو گا، وہ مسلمان مجاہدین (خوشخبری ہو ان نیک بختوں کے لیے جو دین اور جہاد پر استقامت کے ساتھ جمے رہیں گے) کی قیادت فرما رہے ہوں گے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام دمشق کے مشرق میں سفید مینار کے قریب نازل ہوں گے، وہ حضرت مہدی کی اقتدا میں نماز پڑھیں گے، تا کہ عیسائیوں کو بھی پتاچل جائے کہ وہ شریعتِ محمدیہ کے پیروکار کے طور پر آئے ہیں، پھر آپ مسلمان مجاہدین کے ساتھ مل کر دجّال سے جہاد کے لیے دمشق سے تل ایبب روانہ ہوں گے، جہاں ’’ لُد ‘‘ نامی مقام پر (یہاں آج کل تل ابیب کابین الاقوامی ائیرپورٹ ہے) اسے قتل کردیں گے، اس کے بعد طاغوت کی حامی ریاست کے مرکز اسرائیل میں دنیا بھر سے جمع ہوجانے والے یہودیوں کو ان کی ان سازشوں کی اجتماعی سزا ملے گی، اگر کوئی یہودی کسی پتھر یا درخت کے پیچھے چھپے گا (میدان سے بهاگ کر چهپنا ان کم بختوں کی پرانی عادت ہے) تو وه درخت یا پتهر بهی مسلمان مجاهد کو آواز دےگا: اے الله کے ولی! الله کا دشمن میرے پیچهے چهپا ہے، آکر اس کا کام تمام کردے، سوائے غرقد کے درخت کے کہ وه یهودیوں کا درخت ہے۔
اسرائیل کی حکومت نے چند سال پہلے کثیر تعداد میں غرقد کے درخت کی شجر کاری کی ہے، راقم کو عرصہ تک تلاش رہی کہ یہ کون سا درخت ہے؟ اس کی شکل کیا ہے؟ بالآخر الله نے اس میں کامیابی عطا فرمائی، آپ متعلقہ تصویر کو دیکهیے فی الوقع اس درخت کے پتے اور پهل ایسے کریہہ المنظر ہیں کہ الله کے نافرمان اور شیطان کے پجاری یهودیوں کے حصہ میں ایسا ہی درخت آنا چاہیے، فلسطین کی سرزمین میں زیتون جیسا مبارک درخت بکثرت اگتا ہے، لیکن یهودیوں کی آخری پناه گاه جو درخت قرار پایا ہے اس کے پهل کو عوام "خایۂ ابلیس" کہتے ہیں، اہل علم فارسی لغات میں "خایہ" کے معنی دیکھ سکتے ہیں اور وہاں نہ دیکھ پائیں تو تصویر کو دیکھ کر اس لفظ کے معنی کا اندازه لگانا کچھ اتنا مشکل بهی نہیں۔
*بابل سے یروشلم تک:*
*حرج کی تلاش:*
اسرائیل کو تسلیم کرنے نہ کرنے کے دینی اور سیاسی پہلوؤں پر ملک کے مختلف حلقوں میں گفتگو جاری ہے، بعض مفکر اور اسکالر آیت کریمہ ”لاَ تَتَّخِذُوۡ الۡیَهُوۡدُ وَالنَّصَاريٰ اَوۡلِياَء “ کو زمانۂ نبوت کے ساتھ خاص قرار دے رہے ہیں اور بعض نے ”اولیاء“ سے حاکم کا معنیٰ کشید کرلیا ہے اور بعض جغادری سیاستداں جو خود کو مجاہدِ اول کے لقب سے خود سرفراز کرتے رہے ہیں، اس ”حرج“ کی تلاش میں تل ابیب سے ہو آئے ہیں جو اسرائیل کو تسلیم کرنے کی صورت میں پایا جا سکتا ہے، اس بحث کے اختتام پر جب تمام طبقے اپنی اپنی توانائیاں صرف کر کے نڈھال ہو چکے ہوں گے تو زیر زمین ہونے والے فیصلے کا برسر زمین اعلان کر دیا جائےگا، چوں کہ ہم دین کا اتنا گہرا علم نہیں رکھتے کہ دینی اعتبار سے اس مسٔلہ پر لب کشائی کرسکیں، نہ ہی اس درجے کا سیاسی شعور ہمیں حاصل ہے کہ ایسے اہم اور بین الاقوامی مسئلے پر کسی گفتگو میں حصّہ لے سکیں، اس لئے ان دونوں پہلوؤں سے کچھ کہنے کے بجاۓ ہم اس مسئلے کو یہودیت کے نکتۂ نظر سے دیکھتے ہیں، کیوں کہ اس موضوع کے ٹوٹے پھوٹے مطالعے میں ہم بہت سا خون جگر جلا چکے ہیں۔
تورات کی سورۃ یسعیاہ کے دوسرے رکوع میں کہا گیا ہے:
*”آخری دنوں میں ایسا ہوگا کہ یہودا کی عمارت کا پہاڑ تمام پہاڑوں پر مستحکم کیا جائےگا اور تمام پہاڑیوں سے زیادہ بلند کیا جائے گا اور ہر قوم کے لوگ موج کی طرح اس کی جانب چلیں گے اور بہت سے ملکوں کے لوگ آئیں گے اور آپس میں کہیں گے: آؤ! ہم یہودا کے پہاڑ پر چڑھ کر یعقوب کے خدا کے گھر جائیں، تب وہ ہمیں اپنا راستہ دکھلائے گا اور ہم اس کے راستے پر چلیں گے، کیونکہ یہودا کا انتظام صہیون سے اور اس کا کام یروشلم سے نکلے گا، وہ قوموں کا فیصلہ کرے گا اور قوموں کے جھگڑوں کا فیصلہ کرے گا۔*
*مسیح ربّانی اور مسیح دجّال:*
یہ پیش گوئی ایک حقیقت ہے جو قیامت سے پہلے پوری ہوکر رہے گی، لیکن یہودیوں کی فطرت کی طرح چونکہ ان کی عقل بھی مسخ ہو چکی ہے، لہذا وہ اس کا غلط مطلب لے کر اسے غلط مصداق پر منطبق کرتے ہیں، یہ پیش گوئی دراصل اللہ کے سچے مسیح جناب عیسیٰ بن مریم علیٰ نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کے لیے تھی اور سچے خدا کے آخری سچے نبی جناب محمد رسول اللہ ﷺ نے اس کی تصدیق کی ہے۔
کتب حدیث میں ’’اشراط الساعۃ‘‘ یعنی علامات قیامت کے تحت بہت سی احادیث میں اس کی تفصیل ہے، آخر زمانہ میں جب زمین مسلمانوں پر تنگ ہو جائے گی، مسلمان کفر کی چیرہ دستیوں سے تنگ آ کر جہاد کے لیے یکسو اور پُر عزم ہو جائیں گے اور کسی مخلص اور با صلاحیت قائد کی طلب اور کھوج میں ہوں گے۔ (آج کل سارے عالمِ اسلام کی کیفیت کو ذہن میں رکھیے) تو اللہ تعالیٰ سادات گھرانے کے ایک فرد کو ان کا قائد بنا کر بھیجے گا، جس کی روحانی اور اصلاحی تربیت مختصر عرصے میں مکمل کردی جائے گی، ان کا نام محمد بن عبد اللہ اور لقب مہدی ہو گا، وہ مسلمان مجاہدین (خوشخبری ہو ان نیک بختوں کے لیے جو دین اور جہاد پر استقامت کے ساتھ جمے رہیں گے) کی قیادت فرما رہے ہوں گے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام دمشق کے مشرق میں سفید مینار کے قریب نازل ہوں گے، وہ حضرت مہدی کی اقتدا میں نماز پڑھیں گے، تا کہ عیسائیوں کو بھی پتاچل جائے کہ وہ شریعتِ محمدیہ کے پیروکار کے طور پر آئے ہیں، پھر آپ مسلمان مجاہدین کے ساتھ مل کر دجّال سے جہاد کے لیے دمشق سے تل ایبب روانہ ہوں گے، جہاں ’’ لُد ‘‘ نامی مقام پر (یہاں آج کل تل ابیب کابین الاقوامی ائیرپورٹ ہے) اسے قتل کردیں گے، اس کے بعد طاغوت کی حامی ریاست کے مرکز اسرائیل میں دنیا بھر سے جمع ہوجانے والے یہودیوں کو ان کی ان سازشوں کی اجتماعی سزا ملے گی، اگر کوئی یہودی کسی پتھر یا درخت کے پیچھے چھپے گا (میدان سے بهاگ کر چهپنا ان کم بختوں کی پرانی عادت ہے) تو وه درخت یا پتهر بهی مسلمان مجاهد کو آواز دےگا: اے الله کے ولی! الله کا دشمن میرے پیچهے چهپا ہے، آکر اس کا کام تمام کردے، سوائے غرقد کے درخت کے کہ وه یهودیوں کا درخت ہے۔
اسرائیل کی حکومت نے چند سال پہلے کثیر تعداد میں غرقد کے درخت کی شجر کاری کی ہے، راقم کو عرصہ تک تلاش رہی کہ یہ کون سا درخت ہے؟ اس کی شکل کیا ہے؟ بالآخر الله نے اس میں کامیابی عطا فرمائی، آپ متعلقہ تصویر کو دیکهیے فی الوقع اس درخت کے پتے اور پهل ایسے کریہہ المنظر ہیں کہ الله کے نافرمان اور شیطان کے پجاری یهودیوں کے حصہ میں ایسا ہی درخت آنا چاہیے، فلسطین کی سرزمین میں زیتون جیسا مبارک درخت بکثرت اگتا ہے، لیکن یهودیوں کی آخری پناه گاه جو درخت قرار پایا ہے اس کے پهل کو عوام "خایۂ ابلیس" کہتے ہیں، اہل علم فارسی لغات میں "خایہ" کے معنی دیکھ سکتے ہیں اور وہاں نہ دیکھ پائیں تو تصویر کو دیکھ کر اس لفظ کے معنی کا اندازه لگانا کچھ اتنا مشکل بهی نہیں۔
🌴🌷شیخ الهند🌷🌴
*اقصیٰ کے آنسو، قسط: (23)* *اسرائیل کا مطلب کیا؟* ہامان یہودیوں کا مشہور تاریخ دان، فلسفی، ماہر مستقبلیات ہے، اعلیٰ پائے کا منصوبہ ساز گزرا ہے، اس کا پورا نام الفریڈ تھائر ہامان تھا، ان کا شمار یہودیت کے لئے فکری سطح پر کارہائے نمایاں انجام دینے والے ممتاز…
*خرابی کی جڑ:*
بات اسرائیل کے تسلیم ہونے سے شروع ہوئی تهی اور اس کے ہولناک انجام تک آ پہنچی، بعض قارئین کو یہ طوالت موضوع سے انحراف معلوم ہوگی، لیکن اس انحراف میں اس سوال کا جواب پوشیده ہے کہ ہمیں دنیا میں خرابی کی جڑ اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہیے یا نہیں؟ کسی کو اب بهی یہ جواب سمجھ میں نہ آئے تو اس سے کوئی شکوه نہ ہونا چاہیے کہ یہود کے مکر وفریب کے جالے ہمارے علم ودانش کے علمبرداروں کے ﺫہنوں پر بهی تنے ہوئے ہیں، لہذا اس پر کسی جذباتی تبصرے کی بجائے ہم خیر خواہانہ طور پر بات کو دوباره وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے چهوٹی تهی۔
توراۃ کی درج بالاپیش گوئی سچے مسیح جناب عیسیٰ بن مریم علیه السلام کے لیے تهی، لیکن یهودی ان کی دنیا میں آمد سے پہلے الله رب العزت کی جانب سے بهیجے گئے مسیح صادق کے بجائے روئے زمین پر ابلیسی قوتوں کے سب سے بڑے نمائندے مسیح الدجال سے اپنی امیدیں وابستہ کر بیٹهے تهے اور وه ایسے کسی مسیح کو ماننے کے لیے تیار نہ تهے، جو ان کے خود ساختہ مذہبی روایات اور من گهڑت یهودیت کے خلاف کسی چیز کی دعوت دیتا ہو، وه صرف ایسے مسیح کو ماننے پر آمادہ ہیں جو ہر قیمت پر ان کی بادشاہت ان کو واپس دلائے، دنیامیں ان کا کھویا ہوا مقام ان کو لوٹا دے اور اس سب کے ساتھ ان کی موجودہ بداعمالیوں اور بد کرداریوں کی اصلاح کے بجائے انہیں اسی حالت میں تسلیم کرکے ان کی عالمی حکومت کی توثیق تائید کردے۔
ظاہر ہے کہ ایسا صرف وہی کرسکتا ہے جو اس روئے زمین پر برپا ہونے والے فتنوں میں سے سب سے بڑا اور گندا فتنہ ہوگا اور جس کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے حضور خاتم النبین ﷺ نے امت کو دعا سکھائی ہے، تدابیر بتائی ہیں اور جسے کانے دجال کے نام سے جانا جاتا ہے۔
*یہودی ساختہ فرقہ:*
تورات میں تحریف کرنے کے بعد یہود کے نام نہاد عالموں اور جھوٹے پیروں کے پاس اپنے عوام کی دل بستگی کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہیں بچا تھا کہ وہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں کی گئی تورات کی پیشگوئیوں کو مسیح دجال پر منطبق کریں اور اللہ اور اس کے فرشتوں کی مدد سے یروشلم اور اس میں موجود صہیون کے مقدس پہاڑ کو دوبارہ حاصل کرنے اور حضرت مسیح علیہ السلام کے ذریعے قائم ہونے والے نظامِ عدل میں ان کے مددگار بننے کی بجائے مسیح دجال کی شیطانی حکومت کے پایہ تخت کے لیے یروشلم کو مفسدانہ کارروائیوں کے ذریعے حاصل کریں، اس کے مقامِ صدارت کے لیے ہیکل سلیمانی کو تعمیر کریں اور اس مُجسمِ فساد کی آمد سے قبل اس کے لیے فضا ہموار کریں۔
یہاں پہنچ کر ہمیں ان تین فرقوں میں سے دوسرے کا ذکر کردینا چاہیے جو واضح طور پر بلکہ ناقابلِ تردید شواہد کی روشنی میں یہودیوں کے ساختہ پرداختہ اور ان کے آلہ کار ہیں، یہودیوں نے اپنی دانست میں سیدنا عیسیٰ مسیح علیہ السلام کو سولی دے دی تھی، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ صحیح سالم بحفاظت آسمانوں پر اٹھا لیے گئے تھے اور قیامت کے قریب دوبارہ تشریف لاکر یہود کو ان کی گستاخیوں اور بدسلوکیوں کی سزا دیں گے، اس وقت ان پر ایمان نہ لانے والے تمام یہودی ان کے ہاتھوں مارے جائیں گے، تمام عیسائی مسلمان ہوجائیں گے اور مجاہد مسلمان ان کے جھنڈے تلے جمع ہوکر دجال اور اس کے یہودی لشکر سے جہاد کریں گے۔
یہود کو چونکہ یہ پیشگوئی بہت زیادہ چبھتی ہے، لہٰذا وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آسمانوں پر موجودگی اور دوبارہ زمین پر آمد کا سختی سے انکار کرتے ہیں، مسلمانوں میں جذبہ جہاد کے فروغ سے بہت زیادہ گھبراتے ہیں اور اپنے آلہ کاروں کے ذریعے مسلمانوں میں بھی اس نظریہ کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ نہیں اور جہاد دہشت گردی ہے، اس خدا کی قسم! جس نے اپنے بندے مسیح علیہ السلام کو عزت کے ساتھ آسمانوں پر مہمان بنا رکھا ہے، جو شخص یا فرقہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کا انکار کرے یا کسی اور کو مسیح موعود مانے یا نظریہ جہاد کی مخالفت کرے وہ قادیانی ہو یا کوئی اور، اس کی ڈور فری میسن تحریک کے ان ابلیسی دماغوں کے ہاتھ میں ہے جو اپنے آخری انجام سے ڈرتے ہیں، لیکن اپنی شیطانی حرکتوں سے ساری دنیا کے نظام خصوصاً امت مسلمہ کے عقائد و اعمال میں خلل ڈالنا چاہتے ہیں اور خدا اور اس کی رحمت سے مایوسی کے سبب شیطان کی جماعت میں داخل ہوچکے ہیں۔
*عبوری ریاست اور باضابطہ حکومت:*
بات چل پڑتی ہے تو کہیں سے کہیں نکل جاتی ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمانوں پر اٹھائے جانے کے بعد یہود نے انہیں سولی دینے کا جشن منایا نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر رومی بادشاہ ٹائٹس کو مسلط کردیا، اس نے ہیکل سلیمانی کو ڈھا دیا، یہودیوں کا قتل عام کیا اور ان کو بیت المقدس سے نکال کر دربدر کردیا، یہ واقعہ سن 70 بعد رفعِ مسیح کا ہے، اس وقت سے 1948ء میں قیامِ اسرائیل تک 1900 سال سے کچھ اوپر گزرے ہیں، یعنی تقریباً دو ہزار برس، ان انیس یا بیس صدیوں میں یہود دنیا بھر میں ذلت وخواری کا نمونہ بن کر رہے اور اس بات کی کوشش کرتے
بات اسرائیل کے تسلیم ہونے سے شروع ہوئی تهی اور اس کے ہولناک انجام تک آ پہنچی، بعض قارئین کو یہ طوالت موضوع سے انحراف معلوم ہوگی، لیکن اس انحراف میں اس سوال کا جواب پوشیده ہے کہ ہمیں دنیا میں خرابی کی جڑ اسرائیل کو تسلیم کرنا چاہیے یا نہیں؟ کسی کو اب بهی یہ جواب سمجھ میں نہ آئے تو اس سے کوئی شکوه نہ ہونا چاہیے کہ یہود کے مکر وفریب کے جالے ہمارے علم ودانش کے علمبرداروں کے ﺫہنوں پر بهی تنے ہوئے ہیں، لہذا اس پر کسی جذباتی تبصرے کی بجائے ہم خیر خواہانہ طور پر بات کو دوباره وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے چهوٹی تهی۔
توراۃ کی درج بالاپیش گوئی سچے مسیح جناب عیسیٰ بن مریم علیه السلام کے لیے تهی، لیکن یهودی ان کی دنیا میں آمد سے پہلے الله رب العزت کی جانب سے بهیجے گئے مسیح صادق کے بجائے روئے زمین پر ابلیسی قوتوں کے سب سے بڑے نمائندے مسیح الدجال سے اپنی امیدیں وابستہ کر بیٹهے تهے اور وه ایسے کسی مسیح کو ماننے کے لیے تیار نہ تهے، جو ان کے خود ساختہ مذہبی روایات اور من گهڑت یهودیت کے خلاف کسی چیز کی دعوت دیتا ہو، وه صرف ایسے مسیح کو ماننے پر آمادہ ہیں جو ہر قیمت پر ان کی بادشاہت ان کو واپس دلائے، دنیامیں ان کا کھویا ہوا مقام ان کو لوٹا دے اور اس سب کے ساتھ ان کی موجودہ بداعمالیوں اور بد کرداریوں کی اصلاح کے بجائے انہیں اسی حالت میں تسلیم کرکے ان کی عالمی حکومت کی توثیق تائید کردے۔
ظاہر ہے کہ ایسا صرف وہی کرسکتا ہے جو اس روئے زمین پر برپا ہونے والے فتنوں میں سے سب سے بڑا اور گندا فتنہ ہوگا اور جس کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے حضور خاتم النبین ﷺ نے امت کو دعا سکھائی ہے، تدابیر بتائی ہیں اور جسے کانے دجال کے نام سے جانا جاتا ہے۔
*یہودی ساختہ فرقہ:*
تورات میں تحریف کرنے کے بعد یہود کے نام نہاد عالموں اور جھوٹے پیروں کے پاس اپنے عوام کی دل بستگی کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار باقی نہیں بچا تھا کہ وہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں کی گئی تورات کی پیشگوئیوں کو مسیح دجال پر منطبق کریں اور اللہ اور اس کے فرشتوں کی مدد سے یروشلم اور اس میں موجود صہیون کے مقدس پہاڑ کو دوبارہ حاصل کرنے اور حضرت مسیح علیہ السلام کے ذریعے قائم ہونے والے نظامِ عدل میں ان کے مددگار بننے کی بجائے مسیح دجال کی شیطانی حکومت کے پایہ تخت کے لیے یروشلم کو مفسدانہ کارروائیوں کے ذریعے حاصل کریں، اس کے مقامِ صدارت کے لیے ہیکل سلیمانی کو تعمیر کریں اور اس مُجسمِ فساد کی آمد سے قبل اس کے لیے فضا ہموار کریں۔
یہاں پہنچ کر ہمیں ان تین فرقوں میں سے دوسرے کا ذکر کردینا چاہیے جو واضح طور پر بلکہ ناقابلِ تردید شواہد کی روشنی میں یہودیوں کے ساختہ پرداختہ اور ان کے آلہ کار ہیں، یہودیوں نے اپنی دانست میں سیدنا عیسیٰ مسیح علیہ السلام کو سولی دے دی تھی، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ صحیح سالم بحفاظت آسمانوں پر اٹھا لیے گئے تھے اور قیامت کے قریب دوبارہ تشریف لاکر یہود کو ان کی گستاخیوں اور بدسلوکیوں کی سزا دیں گے، اس وقت ان پر ایمان نہ لانے والے تمام یہودی ان کے ہاتھوں مارے جائیں گے، تمام عیسائی مسلمان ہوجائیں گے اور مجاہد مسلمان ان کے جھنڈے تلے جمع ہوکر دجال اور اس کے یہودی لشکر سے جہاد کریں گے۔
یہود کو چونکہ یہ پیشگوئی بہت زیادہ چبھتی ہے، لہٰذا وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آسمانوں پر موجودگی اور دوبارہ زمین پر آمد کا سختی سے انکار کرتے ہیں، مسلمانوں میں جذبہ جہاد کے فروغ سے بہت زیادہ گھبراتے ہیں اور اپنے آلہ کاروں کے ذریعے مسلمانوں میں بھی اس نظریہ کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ نہیں اور جہاد دہشت گردی ہے، اس خدا کی قسم! جس نے اپنے بندے مسیح علیہ السلام کو عزت کے ساتھ آسمانوں پر مہمان بنا رکھا ہے، جو شخص یا فرقہ حیات عیسیٰ علیہ السلام کا انکار کرے یا کسی اور کو مسیح موعود مانے یا نظریہ جہاد کی مخالفت کرے وہ قادیانی ہو یا کوئی اور، اس کی ڈور فری میسن تحریک کے ان ابلیسی دماغوں کے ہاتھ میں ہے جو اپنے آخری انجام سے ڈرتے ہیں، لیکن اپنی شیطانی حرکتوں سے ساری دنیا کے نظام خصوصاً امت مسلمہ کے عقائد و اعمال میں خلل ڈالنا چاہتے ہیں اور خدا اور اس کی رحمت سے مایوسی کے سبب شیطان کی جماعت میں داخل ہوچکے ہیں۔
*عبوری ریاست اور باضابطہ حکومت:*
بات چل پڑتی ہے تو کہیں سے کہیں نکل جاتی ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمانوں پر اٹھائے جانے کے بعد یہود نے انہیں سولی دینے کا جشن منایا نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر رومی بادشاہ ٹائٹس کو مسلط کردیا، اس نے ہیکل سلیمانی کو ڈھا دیا، یہودیوں کا قتل عام کیا اور ان کو بیت المقدس سے نکال کر دربدر کردیا، یہ واقعہ سن 70 بعد رفعِ مسیح کا ہے، اس وقت سے 1948ء میں قیامِ اسرائیل تک 1900 سال سے کچھ اوپر گزرے ہیں، یعنی تقریباً دو ہزار برس، ان انیس یا بیس صدیوں میں یہود دنیا بھر میں ذلت وخواری کا نمونہ بن کر رہے اور اس بات کی کوشش کرتے
🌴🌷شیخ الهند🌷🌴
*اقصیٰ کے آنسو، قسط: (23)* *اسرائیل کا مطلب کیا؟* ہامان یہودیوں کا مشہور تاریخ دان، فلسفی، ماہر مستقبلیات ہے، اعلیٰ پائے کا منصوبہ ساز گزرا ہے، اس کا پورا نام الفریڈ تھائر ہامان تھا، ان کا شمار یہودیت کے لئے فکری سطح پر کارہائے نمایاں انجام دینے والے ممتاز…
رہے کہ توبہ کیے بغیر انہیں دوبارہ پہلی سی فضیلت اور باعزت زندگی مل جائے، آخر کار 1700 سال کے بعد ایک کٹر فری میسن جارج واشنگٹن کے ہاتھوں روئے زمین پر ان کی پہلی عبوری ریاست بحرِ اٹلانٹک کے اس پار قائم ہوگئی جسے دنیا ریاستہائے متحدہ امریکا کے نام سے جانتی ہے، لیکن یہودی اسے "نیا بابل" کہتے ہیں، یہ حکومت قیامِ اسرائیل اور دجّال کی باضابطہ حکومت سے قبل ایک عبوری یہودی ریاست کے طور پر قائم کی گئی تھی، جس کا مقصدِ وجود ارض فلسطین سے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ، فلسطین پر قبضہ، مسجد اقصیٰ کا انہدام اور گنبد صخرہ کو ڈھا کر اس کے نیچے موجود مقدس چٹان پر ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور پھر عظیم تر اسرائیل کا قیام ہے، چونکہ امت مسلمہ کے علاوہ کوئی طاقت یہود کی راہ میں حائل نہیں اور چونکہ اس دور میں عالم اسلام میں سب سے زیادہ بیدار مغز ذہین اور با صلاحیت مسلمان برِصغیر میں پائے جاتے ہیں اور چونکہ جہاد اور انفاق فی سبیل اللہ کے مبارک جذبات سے صرف پاکستان کے مسلمان عملا آشنا ہیں، اس لئے کوئی اور ملک اسرائیل کو تسلیم کرے یا نہ کرے، امریکا کو مسلمانان عالم کے دل و دماغ اور واحد ایٹمی طاقت ہونے کے ناطے اس کے دست و بازو ہونے کی حیثیت رکھنے والے پاکستانی مسلمانوں سے اس دجالی مملکت کو تسلیم کروانے کی ضرورت ہے، جس کے عوام شرار الناس ہیں اور جس کا ہونے والا لیڈر شرار خلق اللہ ہوگا۔
*مسجد اقصی کے سوگوار مینار اور ستم رسیدہ دیواریں اپنے پاکستانی بیٹوں سے پوچھتی ہیں:*
*کیا میری حرمت اور عزت بابری مسجد سے کم ہے کہ تم مجھ پر غاصبانہ قبضہ کرنے والوں کی سیاسی اور سفارتی حیثیت تسلیم کرکے ان لوگوں کو اپنے ہاں باعزت حیثیت دوگے اور جو اللہ اور اس کے مقدس پیغمبروں کی نظر میں مردود اور دھتکارے ہوئے ہیں، کیا ایسا کرنے کے بعد خدا سے تمھارے عہد کا کچھ حصہ باقی رہ جائے گا؟ کیا شیطان کے پیروکاروں کے راستے سے رکاوٹ ختم کرنے کے بعد رحمان سے تمھارا اتنا تعلق رہ جائے گا کہ تم مشکل وقت میں اس کی مدد طلب کر سکو؟ کیا تم اس ظلم کے انتقام کو بھول جاؤگے جو یہود نے بابل جلا وطنی سے یروشلم واپسی تک میرے محافظ بیٹوں پر کیا؟ مسجد اقصیٰ یہ سب کچھ پکارتے ہوئے روتی ہے، لیکن افسوس کہ اس کا جواب دینے والی قوم ابھی تک سوتی ہے۔*
==================> جاری ہے ۔۔۔
''ماخوذ از: اقصیٰ کے آنسو''
مصنف: مفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب
ناقل: محمد احمد صارم
*مسجد اقصی کے سوگوار مینار اور ستم رسیدہ دیواریں اپنے پاکستانی بیٹوں سے پوچھتی ہیں:*
*کیا میری حرمت اور عزت بابری مسجد سے کم ہے کہ تم مجھ پر غاصبانہ قبضہ کرنے والوں کی سیاسی اور سفارتی حیثیت تسلیم کرکے ان لوگوں کو اپنے ہاں باعزت حیثیت دوگے اور جو اللہ اور اس کے مقدس پیغمبروں کی نظر میں مردود اور دھتکارے ہوئے ہیں، کیا ایسا کرنے کے بعد خدا سے تمھارے عہد کا کچھ حصہ باقی رہ جائے گا؟ کیا شیطان کے پیروکاروں کے راستے سے رکاوٹ ختم کرنے کے بعد رحمان سے تمھارا اتنا تعلق رہ جائے گا کہ تم مشکل وقت میں اس کی مدد طلب کر سکو؟ کیا تم اس ظلم کے انتقام کو بھول جاؤگے جو یہود نے بابل جلا وطنی سے یروشلم واپسی تک میرے محافظ بیٹوں پر کیا؟ مسجد اقصیٰ یہ سب کچھ پکارتے ہوئے روتی ہے، لیکن افسوس کہ اس کا جواب دینے والی قوم ابھی تک سوتی ہے۔*
==================> جاری ہے ۔۔۔
''ماخوذ از: اقصیٰ کے آنسو''
مصنف: مفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب
ناقل: محمد احمد صارم
🌴🌷شیخ الهند🌷🌴
*اقصیٰ کے آنسو، قسط: (24)* *بابل سے یروشلم تک:* *حرج کی تلاش:* اسرائیل کو تسلیم کرنے نہ کرنے کے دینی اور سیاسی پہلوؤں پر ملک کے مختلف حلقوں میں گفتگو جاری ہے، بعض مفکر اور اسکالر آیت کریمہ ”لاَ تَتَّخِذُوۡ الۡیَهُوۡدُ وَالنَّصَاريٰ اَوۡلِياَء “ کو زمانۂ…
*اقصیٰ کے آنسو، قسط: (25)*
*دو ڈاکٹروں کی کہانی:*
*ریاستِ اسرائیل کے قیام کے لئے یہودیوں نے کس طرح جدوجہد کی؟ اسلامی تحریکوں کے رہنماﺅں اور کارکنان کے لئے سبق آموز تحریر:*
قومیں افراد سے مل کر بنتی ہیں اور افراد اگر چاہیں تو اپنی جدوجہد اور عزم سے ناممکن کو ممکن بناسکتے ہیں، اس کلیے کی ایک بھرپور مثال ڈاکٹر تھیوڈور ہرٹزل اور ڈاکٹر ویزمین ( waiz mann) ہے، ہرٹزل ایک یہودی اخبار نویس اور ویزمین ایک یہودی سائنسداں تھا۔
ڈاکٹر تھیوڈور ہرٹزل کو تحریک صہیونیت کا بانی اور ڈاکٹر ویزمین کو اس کا فکری رہنما کہا جاتا ہے اور کوئی شک نہیں کہ ان دونوں ڈاکٹروں نے صہیونیت کے لیے وہ کارنامے انجام دیئے جن میں اسلامی تحریکوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کے لیے کئ کارآمد سبق پوشیدہ ہیں۔
ڈاکٹر ہرٹزل مشرقی یورپ کا باشندہ تھا اور انیسویں صدی کے آخر میں مشرقی یورپ کے خاص طور پر قومی وطن بنانے کے فکر میں تھے، یہ یہودی دراصل ان خانماں برباد یہود کی اولاد تھے جو اسپین سے اسلامی سلطنت کے سقوط کے بعد نکالے گئے تھے، اسپین میں دنیا بھر کے اسلامی سلطنتوں کی طرح غیر مسلموں کے ساتھ انتہائی ہمدردانہ اور فیاضانہ سلوک کیا جاتا تھا، اسلام میں مسلمانوں کو جو اخلاقی تعلیم دی تھی اس کا نتیجہ تھا کہ وہ فاتح اور مطلق العنان حکمراں بن کر بھی ظلم کی کمینگی سے دور رہتے تھے۔
اسپین میں مسلم حکومت کا دور حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور کے بعد یہود کی تاریخ کا سنہری دور کہلاتا ہے، جس میں انہیں ہرطرح کی آزادی اور حقوق حاصل تھے، لیکن مسلمانوں کے ہاتھ سے اسپین نکل جانے کے بعد عیسائیوں کی حکومت یہود کے لیے عذاب بن کر آئی، عیسائی فاتحین بادشاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا نے ان سے تمام دولت چھین کر انہیں گھر بار سے جلا وطن کردیا اور وہاں سے ذلت و خواری کے عالم میں روانہ ہوکر قسطنطنیہ کی اسلامی سلطنت میں آ بسے، یہاں کے مسلمانوں نے اپنی روایتی فراخ دلی اور وسعتِ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سے کوئی تعرض نہیں کیا اور انہوں نے اطمینان سے اپنی نئی زندگی کا آغاز کیا، اب ان میں انسانیت اور شرافت ہوتی تو مسلمانوں کا یہ حسن سلوک کبھی نہ بھولتے، لیکن یہود کے ہاں مشہور ہے کہ عام لوگ دغا بازی، احسان فراموشی اور بے ایمانی اپنے بائیں ہاتھ سے، جبکہ یہود یہ حرکتیں اپنے دائیں ہاتھ سے کرتے ہیں۔
چنانچہ انہوں نے یہاں آباد ہوتے ہی اپنے داہنے ہاتھ سے کام لینا شروع کردیا، مسلمانوں کی دی ہوئی سہولتوں اور رعایتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے اپنے کاروبار کو خوب فروغ دیا، سودی قرضوں کے ذریعے امراء اور شرفاء تک رسائی حاصل کی اور انیسویں صدی کے آخر میں جب دنیا پر جنگ کے بادل منڈلانے لگے تو انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا، مذکورہ بالا دونوں ڈاکٹر اس دور کی پیداوار تھے۔
ان کی کوشش تھی کہ کسی طرح یہودیوں کو متحد کرکے انہیں "قومی ریاست" کے تصور میں رنگ بھرنے کے لیے آمادہ کیا جائے، چنانچہ ڈاکٹر ہرٹزل نے "ریاست یہود" کے نام سے ایک رسالہ شائع کرکے خود مختار اسرائیلی ریاست کا تصور پیش کیا، جس نے دنیا بھر میں دربدر بکھرے ہوئے خوار و رسوا یہودیوں میں جوش و جذبے کی ایسی لہر دوڑا دی جیسے کہ بند گٹر کھلنے سے گندا پانی غلیظ جھاگ اڑانے لگے، اس شخص نے اپنی بقیہ زندگی اسی مقصد کے لیے وقف کردیا اور اس نے یہود کے سامنے یہ نظریہ پیش کیا کہ کوئی بھی یہودی جو مذہبی اعتبار سے کیسا ہی بے راہ رو اور بد عمل کیوں نہ ہو، مگر اسے سیاسی طور سے یہود کی فلاح و بہبود کے لیے بہر حال کام کرنا چاہیے، چنانچہ اس دن سے دنیا "صہیونیت" کی اصطلاح سے آگاہ ہوئی اور یہودیت، مذہبی اعمال اور "صہیونیت" سیاسی تحریک کا نام قرار پایا۔
تحریک صہیونیت کا ابتدائی محرک یہ ڈاکٹر اپنے رسوائے زمانہ خواب آنکھوں میں لیے 1904ء میں مرگیا، لیکن مرنے سے پہلے اس نے دو ایسے کام کردیے جس سے پیچھے آنے والوں کا کام آسان ہوگیا، موت سے قبل یہ شخص 1898ء میں"یہودی بینک" اور 1901ء میں"یہودی بیت المال" (یہودی فنڈ) قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا، بینک کا مقصد یہ تھا کہ یہودیوں کی منتشر بجٹ فالتو پڑی رہنے کی بجائے ایک جگہ جمع ہوکر سرمایہ کاری میں لگےاور اس سرمائے سے حکومتوں، اداروں اور اہم افراد کو قرضے جاری کر کے بوقت ضرورت ان سے اپنے کام نکلوائے جائیں، اس بنک کا منظور شدہ سرمایہ 30 لاکھ پاؤنڈ تھا اور 4 لاکھ کی رقم اعلان ہوتے ہی فورا جمع کردی گئی، یہود کے قومی فنڈ کی غرض اسرائیلی ریاست کے لیے کی جانے والی کوششوں کے لیے درکار سرمایہ چندہ کے ذریعے فراہم کرنا تھا، شقاوت کی حد تک کنجوس اور بخیل کہلانے والے یہودی اس کام میں بھی پیچھے نا رہے، ( افسوس! کہ مسلمانوں کی یہود میں اور یہود کی صفات مسلمانوں میں آتی جارہی ہیں)
چندہ جمع کرنے والی کمیٹیاں دنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیل گئیں، ڈاکٹر ہرٹزل نے یہود کے بڑوں کو جمع کر کے یہ منشور منظور کرایاکہ
*دو ڈاکٹروں کی کہانی:*
*ریاستِ اسرائیل کے قیام کے لئے یہودیوں نے کس طرح جدوجہد کی؟ اسلامی تحریکوں کے رہنماﺅں اور کارکنان کے لئے سبق آموز تحریر:*
قومیں افراد سے مل کر بنتی ہیں اور افراد اگر چاہیں تو اپنی جدوجہد اور عزم سے ناممکن کو ممکن بناسکتے ہیں، اس کلیے کی ایک بھرپور مثال ڈاکٹر تھیوڈور ہرٹزل اور ڈاکٹر ویزمین ( waiz mann) ہے، ہرٹزل ایک یہودی اخبار نویس اور ویزمین ایک یہودی سائنسداں تھا۔
ڈاکٹر تھیوڈور ہرٹزل کو تحریک صہیونیت کا بانی اور ڈاکٹر ویزمین کو اس کا فکری رہنما کہا جاتا ہے اور کوئی شک نہیں کہ ان دونوں ڈاکٹروں نے صہیونیت کے لیے وہ کارنامے انجام دیئے جن میں اسلامی تحریکوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کے لیے کئ کارآمد سبق پوشیدہ ہیں۔
ڈاکٹر ہرٹزل مشرقی یورپ کا باشندہ تھا اور انیسویں صدی کے آخر میں مشرقی یورپ کے خاص طور پر قومی وطن بنانے کے فکر میں تھے، یہ یہودی دراصل ان خانماں برباد یہود کی اولاد تھے جو اسپین سے اسلامی سلطنت کے سقوط کے بعد نکالے گئے تھے، اسپین میں دنیا بھر کے اسلامی سلطنتوں کی طرح غیر مسلموں کے ساتھ انتہائی ہمدردانہ اور فیاضانہ سلوک کیا جاتا تھا، اسلام میں مسلمانوں کو جو اخلاقی تعلیم دی تھی اس کا نتیجہ تھا کہ وہ فاتح اور مطلق العنان حکمراں بن کر بھی ظلم کی کمینگی سے دور رہتے تھے۔
اسپین میں مسلم حکومت کا دور حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور کے بعد یہود کی تاریخ کا سنہری دور کہلاتا ہے، جس میں انہیں ہرطرح کی آزادی اور حقوق حاصل تھے، لیکن مسلمانوں کے ہاتھ سے اسپین نکل جانے کے بعد عیسائیوں کی حکومت یہود کے لیے عذاب بن کر آئی، عیسائی فاتحین بادشاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا نے ان سے تمام دولت چھین کر انہیں گھر بار سے جلا وطن کردیا اور وہاں سے ذلت و خواری کے عالم میں روانہ ہوکر قسطنطنیہ کی اسلامی سلطنت میں آ بسے، یہاں کے مسلمانوں نے اپنی روایتی فراخ دلی اور وسعتِ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سے کوئی تعرض نہیں کیا اور انہوں نے اطمینان سے اپنی نئی زندگی کا آغاز کیا، اب ان میں انسانیت اور شرافت ہوتی تو مسلمانوں کا یہ حسن سلوک کبھی نہ بھولتے، لیکن یہود کے ہاں مشہور ہے کہ عام لوگ دغا بازی، احسان فراموشی اور بے ایمانی اپنے بائیں ہاتھ سے، جبکہ یہود یہ حرکتیں اپنے دائیں ہاتھ سے کرتے ہیں۔
چنانچہ انہوں نے یہاں آباد ہوتے ہی اپنے داہنے ہاتھ سے کام لینا شروع کردیا، مسلمانوں کی دی ہوئی سہولتوں اور رعایتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے اپنے کاروبار کو خوب فروغ دیا، سودی قرضوں کے ذریعے امراء اور شرفاء تک رسائی حاصل کی اور انیسویں صدی کے آخر میں جب دنیا پر جنگ کے بادل منڈلانے لگے تو انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا، مذکورہ بالا دونوں ڈاکٹر اس دور کی پیداوار تھے۔
ان کی کوشش تھی کہ کسی طرح یہودیوں کو متحد کرکے انہیں "قومی ریاست" کے تصور میں رنگ بھرنے کے لیے آمادہ کیا جائے، چنانچہ ڈاکٹر ہرٹزل نے "ریاست یہود" کے نام سے ایک رسالہ شائع کرکے خود مختار اسرائیلی ریاست کا تصور پیش کیا، جس نے دنیا بھر میں دربدر بکھرے ہوئے خوار و رسوا یہودیوں میں جوش و جذبے کی ایسی لہر دوڑا دی جیسے کہ بند گٹر کھلنے سے گندا پانی غلیظ جھاگ اڑانے لگے، اس شخص نے اپنی بقیہ زندگی اسی مقصد کے لیے وقف کردیا اور اس نے یہود کے سامنے یہ نظریہ پیش کیا کہ کوئی بھی یہودی جو مذہبی اعتبار سے کیسا ہی بے راہ رو اور بد عمل کیوں نہ ہو، مگر اسے سیاسی طور سے یہود کی فلاح و بہبود کے لیے بہر حال کام کرنا چاہیے، چنانچہ اس دن سے دنیا "صہیونیت" کی اصطلاح سے آگاہ ہوئی اور یہودیت، مذہبی اعمال اور "صہیونیت" سیاسی تحریک کا نام قرار پایا۔
تحریک صہیونیت کا ابتدائی محرک یہ ڈاکٹر اپنے رسوائے زمانہ خواب آنکھوں میں لیے 1904ء میں مرگیا، لیکن مرنے سے پہلے اس نے دو ایسے کام کردیے جس سے پیچھے آنے والوں کا کام آسان ہوگیا، موت سے قبل یہ شخص 1898ء میں"یہودی بینک" اور 1901ء میں"یہودی بیت المال" (یہودی فنڈ) قائم کرنے میں کامیاب ہوگیا، بینک کا مقصد یہ تھا کہ یہودیوں کی منتشر بجٹ فالتو پڑی رہنے کی بجائے ایک جگہ جمع ہوکر سرمایہ کاری میں لگےاور اس سرمائے سے حکومتوں، اداروں اور اہم افراد کو قرضے جاری کر کے بوقت ضرورت ان سے اپنے کام نکلوائے جائیں، اس بنک کا منظور شدہ سرمایہ 30 لاکھ پاؤنڈ تھا اور 4 لاکھ کی رقم اعلان ہوتے ہی فورا جمع کردی گئی، یہود کے قومی فنڈ کی غرض اسرائیلی ریاست کے لیے کی جانے والی کوششوں کے لیے درکار سرمایہ چندہ کے ذریعے فراہم کرنا تھا، شقاوت کی حد تک کنجوس اور بخیل کہلانے والے یہودی اس کام میں بھی پیچھے نا رہے، ( افسوس! کہ مسلمانوں کی یہود میں اور یہود کی صفات مسلمانوں میں آتی جارہی ہیں)
چندہ جمع کرنے والی کمیٹیاں دنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیل گئیں، ڈاکٹر ہرٹزل نے یہود کے بڑوں کو جمع کر کے یہ منشور منظور کرایاکہ
🌴🌷شیخ الهند🌷🌴
*اقصیٰ کے آنسو، قسط: (24)* *بابل سے یروشلم تک:* *حرج کی تلاش:* اسرائیل کو تسلیم کرنے نہ کرنے کے دینی اور سیاسی پہلوؤں پر ملک کے مختلف حلقوں میں گفتگو جاری ہے، بعض مفکر اور اسکالر آیت کریمہ ”لاَ تَتَّخِذُوۡ الۡیَهُوۡدُ وَالنَّصَاريٰ اَوۡلِياَء “ کو زمانۂ…
دنیا کے ہر یہودی کے لیے ضروری ہے کہ ہر ماہ اپنے مال کا ایک متعین حصہ اسرائیل کے لیے بطور چندہ ادا کرے، وہ اس چندہ کی ادائیگی میں ایک لمحہ کی تاخیر نہیں کرسکتا اور نہ اس میں ایک پیسہ کی کمی کر سکتا ہے، اس کے کر سکنے کاکام صرف یہ ہے کہ اس پر جتنا چندہ عائد ہے، اس پر رضاکارانہ طور پر اضافہ کرے، یہ چیز بھی اس کے بس سے باہر ہے کہ ایک ماہ جتنا چندہ وہ دے چکا ہے کسی ماہ اس میں کمی کرے، یہ شرح جسے دنیا کا ہر یہودی ادا کرتا ہے، اس کی ماہانہ آمدنی کا فیصدی حصہ ہوتی ہے جس کی ادائیگی اس کے لیے مشکل بھی نہیں بنتی اور نہ اس کی طاقت سے زیادہ ہوتی ہے، فنڈ جمع کرنے کے اس جچے تلے طریقے نے صہیونیوں کا ایک ایسا پائیدار بجٹ بنا دیا ہے جس پر بدلتے ہوئے حالات اور بحرانوں کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔
آج روئے زمین پر جگہ جگہ پھیلی یہود کی تمام ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے نفع کا مخصوص فیصدی حصہ اسرائیل کے لیے وقف کیے ہوئے ہیں، جب کہ مشکل سے ہزاروں میں ایک مسلمان سرمایہ کار ہوگا جس نے اپنی آمدنی کا فیصدی حصہ اسلامی تحریکوں اور اداروں کے لیے رکھ چھوڑا ہو، مسلمان تاجر تو اس بات کا منتظر ہوتے ہیں کہ کوئی ان کے دروازے پر آکر اپنی خودی کو ذبح کرے، اشاعتِ دین کے اعلیٰ مصرف کی توہین کرے، تب یہ اس کو اپنے احسان سے زیر بار کریں گے، فیصدی حصے کے علاوہ بھی یہودیوں نے اپنے خفیہ خزانوں کے منہ کھول دیئے۔
لارڈ رچرڈ جیسے متمول یہودیوں نے "مال کماؤ یہودیت کی خاطر، اسے کھپاؤ مسیحیت کی خاطر" کے فلسفے پر عمل شروع کیا، صرف ایک یہودی بیرن دی ہرش نے اپنی جیب سے اس زمانے میں 90 لاکھ پونڈ کا عطیہ دیا اور یوں دنیا بھر سے آنے والے یہودی سرمایہ کے ذریعہ سے ارضِ مقدس میں زمینوں کی خریداری اور ان میں یہودی نو آبادیوں کی تعمیر نہایت مستحکم انداز میں شروع کردی گئی، حتٰی کہ جنگِ عظیم سے پہلے ارضِ فلسطین میں یہود صرف دو لاکھ ایکڑ کے مالک تھے، مگر 1936ء میں ان کے قبضہ میں ایک کروڑ 4 لاکھ 30 ہزار ایکڑ زمین آچکی تھی، زمین خریدنے کے ساتھ یہودی نو آبادیاں قائم کر کے ان میں بیرونی یہودیوں کو تیزی کے ساتھ لا لا کر بسایا جانے لگا۔
سب سے پہلے 1909ء میں حیفہ کے قریب پہلی نو آبادی کی بنیاد رکھی گئی، 1914ء تک اس میں صرف 182 خاندان تھے، مگر 1941ء میں یہ نو آبادی ایک شہر کی شکل اختیار کر گئی تھی، جس میں 1 لاکھ 25 ہزار مالدار یہودی آباد ہو چکے تھے، یہ نو آبادی "تل ابیب" تھی جو آج کل اسرائیل کا دار الحکومت ہے، اس لفظ کا لوگ صحیح تلفظ نہیں کرتے اور معنیٰ تو بہت کم لوگ جانتے ہیں، عربی زبان کے اس لفظ کا صحیح تلفظ " تَل اَبِیْبْ " ہے اور اس کا معنیٰ ہے: "بہار کی پہاڑی" تل کے معنیٰ چھوٹی پہاڑی اور ابیب قبطی سال کا گیارہواں مہینہ ہے جو بہار میں آتا ہے۔
ڈاکٹر ہرٹزل جب مرا تو اگر چہ اس کا کام ادھورا تھا، لیکن اس نے اتنی بنیاد فراہم کردی تھی جس پر چل کر یہود اسرائیلی ریاست قائم کر سکتے تھے، چنانچہ ڈاکٹر ویزمین نے اس کے مشن کو وہیں سے آگے بڑھایا جہاں سے وہ چھوڑ کر گیا تھا، بیسویں صدی کے آغاز میں یہ ڈاکٹر مانچسٹر یونیورسٹی میں کیمسٹری ( فنِ کیمیا) کا استاد تھا، اس کو دو تین ایسے مواقع مل گئے جن سے فائدہ اٹھا کر یہ اپنے شیطانی منصوبوں میں کامیاب ہوتا گیا۔
پہلا واقعہ یہ ہوا کہ جنگِ عظیم کے موقع پر برطانیہ کے پاس بھک سے اڑ جانے والے مادے کا فقدان تھا، اس مادے کا ایک جز ( ACETONE) اس وقت صرف جرمنی کے پاس تھا اور جرمنی کی یہ برتری برطانوی افواج کے لئے نہایت ضرر رساں تھی، اس کا توڑ بے حد ضروری تھا، ڈاکٹر ویزمین نے اس کٹھن وقت میں اپنے شاگردوں کی ٹیم کے ساتھ دن رات جان توڑ کام کیا اور مصنوعی طور پر یہ اجزاء تیار کرکے برطانیہ کی پریشانی کو بڑی حد تک دور کردیا، برطانوی حکومت نے اس کا معاوضہ ادا کرنا چاہا تو اس یہودی سائنسدان نے "حب الوطنی" کا ثبوت دیتے ہوئے کچھ لینے سے انکار کردیا، انگریز یوں تو عقلمند تھے مگر یہ نہ سمجھے کہ وہ "حب الوطنی" کے لفظ میں کون سا وطن مراد ہے؟
دوسرا موقع جس نے مذکورہ ڈاکٹر کا کام آسان کردیا، یہ ہوا کہ مانچسٹر یونیورسٹی اتفاق سے مشہور برطانوی مدبر آرتھر جیمس بالفور کے حلقہ انتخاب میں آئی تھی، ڈاکٹر مذکور نے بالفور سے ہر ممکن تعاون کیا اور اس پر کیے گئے احسان کے بدلہ میں کچھ لینے کی بجائے اس موقع کو بھی محفوظ رکھا، وہ اپنی ان خدمات کو مناسب موقع پر کیش کروانا چاہتا تھا، انہیں دنوں ایک تیسری بات یہ ہوئی کہ یہودی برطانیہ کے وزیر نو آبادیات کے طور پر مسٹر ایڈون مانیٹگ کو منتخب کروانے میں کامیاب ہوگئے، یہ شخص یہودی النسل تھا اور اس نے ڈاکٹر ویزمین اور اس کے ساتھیوں کا کام آسان کردیا کہ اب ضرورت صرف کامیاب سفارتکاری کی رہ گئی تھی، جسے انہوں نے جنگ عظیم دوم کے دوران بھرپور طریقے سے استعمال کیا اور ہزاروں سال بعد یہود کو ایک وطن دلانے میں کامیاب ہوگئے۔
آج روئے زمین پر جگہ جگہ پھیلی یہود کی تمام ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے نفع کا مخصوص فیصدی حصہ اسرائیل کے لیے وقف کیے ہوئے ہیں، جب کہ مشکل سے ہزاروں میں ایک مسلمان سرمایہ کار ہوگا جس نے اپنی آمدنی کا فیصدی حصہ اسلامی تحریکوں اور اداروں کے لیے رکھ چھوڑا ہو، مسلمان تاجر تو اس بات کا منتظر ہوتے ہیں کہ کوئی ان کے دروازے پر آکر اپنی خودی کو ذبح کرے، اشاعتِ دین کے اعلیٰ مصرف کی توہین کرے، تب یہ اس کو اپنے احسان سے زیر بار کریں گے، فیصدی حصے کے علاوہ بھی یہودیوں نے اپنے خفیہ خزانوں کے منہ کھول دیئے۔
لارڈ رچرڈ جیسے متمول یہودیوں نے "مال کماؤ یہودیت کی خاطر، اسے کھپاؤ مسیحیت کی خاطر" کے فلسفے پر عمل شروع کیا، صرف ایک یہودی بیرن دی ہرش نے اپنی جیب سے اس زمانے میں 90 لاکھ پونڈ کا عطیہ دیا اور یوں دنیا بھر سے آنے والے یہودی سرمایہ کے ذریعہ سے ارضِ مقدس میں زمینوں کی خریداری اور ان میں یہودی نو آبادیوں کی تعمیر نہایت مستحکم انداز میں شروع کردی گئی، حتٰی کہ جنگِ عظیم سے پہلے ارضِ فلسطین میں یہود صرف دو لاکھ ایکڑ کے مالک تھے، مگر 1936ء میں ان کے قبضہ میں ایک کروڑ 4 لاکھ 30 ہزار ایکڑ زمین آچکی تھی، زمین خریدنے کے ساتھ یہودی نو آبادیاں قائم کر کے ان میں بیرونی یہودیوں کو تیزی کے ساتھ لا لا کر بسایا جانے لگا۔
سب سے پہلے 1909ء میں حیفہ کے قریب پہلی نو آبادی کی بنیاد رکھی گئی، 1914ء تک اس میں صرف 182 خاندان تھے، مگر 1941ء میں یہ نو آبادی ایک شہر کی شکل اختیار کر گئی تھی، جس میں 1 لاکھ 25 ہزار مالدار یہودی آباد ہو چکے تھے، یہ نو آبادی "تل ابیب" تھی جو آج کل اسرائیل کا دار الحکومت ہے، اس لفظ کا لوگ صحیح تلفظ نہیں کرتے اور معنیٰ تو بہت کم لوگ جانتے ہیں، عربی زبان کے اس لفظ کا صحیح تلفظ " تَل اَبِیْبْ " ہے اور اس کا معنیٰ ہے: "بہار کی پہاڑی" تل کے معنیٰ چھوٹی پہاڑی اور ابیب قبطی سال کا گیارہواں مہینہ ہے جو بہار میں آتا ہے۔
ڈاکٹر ہرٹزل جب مرا تو اگر چہ اس کا کام ادھورا تھا، لیکن اس نے اتنی بنیاد فراہم کردی تھی جس پر چل کر یہود اسرائیلی ریاست قائم کر سکتے تھے، چنانچہ ڈاکٹر ویزمین نے اس کے مشن کو وہیں سے آگے بڑھایا جہاں سے وہ چھوڑ کر گیا تھا، بیسویں صدی کے آغاز میں یہ ڈاکٹر مانچسٹر یونیورسٹی میں کیمسٹری ( فنِ کیمیا) کا استاد تھا، اس کو دو تین ایسے مواقع مل گئے جن سے فائدہ اٹھا کر یہ اپنے شیطانی منصوبوں میں کامیاب ہوتا گیا۔
پہلا واقعہ یہ ہوا کہ جنگِ عظیم کے موقع پر برطانیہ کے پاس بھک سے اڑ جانے والے مادے کا فقدان تھا، اس مادے کا ایک جز ( ACETONE) اس وقت صرف جرمنی کے پاس تھا اور جرمنی کی یہ برتری برطانوی افواج کے لئے نہایت ضرر رساں تھی، اس کا توڑ بے حد ضروری تھا، ڈاکٹر ویزمین نے اس کٹھن وقت میں اپنے شاگردوں کی ٹیم کے ساتھ دن رات جان توڑ کام کیا اور مصنوعی طور پر یہ اجزاء تیار کرکے برطانیہ کی پریشانی کو بڑی حد تک دور کردیا، برطانوی حکومت نے اس کا معاوضہ ادا کرنا چاہا تو اس یہودی سائنسدان نے "حب الوطنی" کا ثبوت دیتے ہوئے کچھ لینے سے انکار کردیا، انگریز یوں تو عقلمند تھے مگر یہ نہ سمجھے کہ وہ "حب الوطنی" کے لفظ میں کون سا وطن مراد ہے؟
دوسرا موقع جس نے مذکورہ ڈاکٹر کا کام آسان کردیا، یہ ہوا کہ مانچسٹر یونیورسٹی اتفاق سے مشہور برطانوی مدبر آرتھر جیمس بالفور کے حلقہ انتخاب میں آئی تھی، ڈاکٹر مذکور نے بالفور سے ہر ممکن تعاون کیا اور اس پر کیے گئے احسان کے بدلہ میں کچھ لینے کی بجائے اس موقع کو بھی محفوظ رکھا، وہ اپنی ان خدمات کو مناسب موقع پر کیش کروانا چاہتا تھا، انہیں دنوں ایک تیسری بات یہ ہوئی کہ یہودی برطانیہ کے وزیر نو آبادیات کے طور پر مسٹر ایڈون مانیٹگ کو منتخب کروانے میں کامیاب ہوگئے، یہ شخص یہودی النسل تھا اور اس نے ڈاکٹر ویزمین اور اس کے ساتھیوں کا کام آسان کردیا کہ اب ضرورت صرف کامیاب سفارتکاری کی رہ گئی تھی، جسے انہوں نے جنگ عظیم دوم کے دوران بھرپور طریقے سے استعمال کیا اور ہزاروں سال بعد یہود کو ایک وطن دلانے میں کامیاب ہوگئے۔
🌴🌷شیخ الهند🌷🌴
*اقصیٰ کے آنسو، قسط: (24)* *بابل سے یروشلم تک:* *حرج کی تلاش:* اسرائیل کو تسلیم کرنے نہ کرنے کے دینی اور سیاسی پہلوؤں پر ملک کے مختلف حلقوں میں گفتگو جاری ہے، بعض مفکر اور اسکالر آیت کریمہ ”لاَ تَتَّخِذُوۡ الۡیَهُوۡدُ وَالنَّصَاريٰ اَوۡلِياَء “ کو زمانۂ…
ہوا یوں کہ پہلی جنگ عظیم میں ابتداءً یہودیوں نے جرمنی سے سودا کرنا چاہا تھا، کیونکہ جرمنی میں اس وقت یہودیوں کا اتنا ہی زور تھا جتنا آج امریکا میں ہے، انہوں نے قیصر ولیم سے یہ وعدہ لینے کی کوشش کی کہ وہ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنوا دے گا، لیکن جس وجہ سے یہودی اس پر یہ اعتماد نہیں کرسکتے تھے کہ وہ ایسا کرے گا، وہ یہ تھی کہ ترکی کی حکومت اس وقت جنگ میں جرمنی کی حلیف تھی، یہودیوں کو یقین نہیں آتا تھا کہ قیصر ولیم ہم سے یہ وعدہ پورا کرسکے گا، اس موقع پر ڈاکٹر ویزمین آگے بڑھا اور اپنی خدمات کا حوالہ دینے کے ساتھ اس نے انگلستان کی حکومت کو یہ یقین دلایا کہ جنگ میں تمام یہودیوں کا سرمایہ اور تمام دنیا کے یہودیوں کا دماغ اور ان کی ساری قوت و قابلیت انگلستان اور فرانس کے ساتھ کام آسکتی ہے، اگر آپ ہم کو یہ یقین دلادیں کہ آپ فتحیاب ہوکر فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنادیں گے۔
برطانیہ کو جنگ کے اخراجات کے لیے خطیر رقم درکار تھی اور یہاں یہودی اس کو بغیر گنے امداد کی پیشکش کررہے تھے، آخرکار ڈاکٹر مذکور نے 1917ء میں انگریزی حکومت سے وہ مشہور پروانہ حاصل کرلیا جو "اعلان بالفور" کے نام سے مشہور ہے، اس میں برطانیہ کی طرف سے جنگ کے اختتام پر یہودیوں کے لیے فلسطین میں ایک مملکت کا وعدہ کیا گیا تھا، یہ انگریزوں کی بد دیانتی کا شاہکار ہے کہ ایک طرف وہ عربوں کو یقین دلارہے تھے کہ ہم عربوں کی ایک خود مختار ریاست بنائیں گے اور اس غرض کے لیے انہوں نے شریف حسین کو تحریری وعدہ دیا تھا اور اسی وعدہ کی بنیاد پر عربوں نے ترکوں سے بغاوت کرکے فلسطین، عراق اور شام پر انگلستان کا قبضہ کروا دیا تھا، دوسری طرف وہی انگریز یہودیوں کو باقاعدہ یہ تحریر دے رہے تھے کہ ہم فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنائیں گے۔
یہ اتنی بڑی بےایمانی تھی کہ جب تک انگریز قوم دنیا میں موجود ہے وہ اپنی تاریخ کی پیشانی سے کلنک کے اس ٹیکے کو نہیں مٹاسکے گی، ڈاکٹر ویزمین کو اس کی خدمات کے صلے میں اسرائیلی ریاست کی پہلی کونسل کا صدر منتخب کیا گیا اور یہودی آج تک اسے اپنا محسن سمجھتے ہیں، ان دونوں ڈاکٹروں کی کہانی موجودہ حالات کو سمجھنے میں کافی مدد دیتی ہے۔
آج کل امریکا آزادی عراق کی مہم سے فارغ ہوتے ہی "مشرقِ وسطیٰ کے روڈ میپ" کی تشکیل میں جُت گیا ہے اور "تاحیات مجاہد" یاسر عرفات کا نائب تلاش کرکے فلسطینی مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، دنیا کے سادہ لوح مسلمانوں کی اکثریت اس گورکھ دھندے کی حقیقت نہیں سمجھ رہی اور نہ کوئی حجرہ نشین مولوی، دانشورانِ وقت کو یہ پیچیدہ حقیقت سمجھا سکتا ہے، البتہ چند باتیں ایسی ہیں جن پر اصحابِ فکر غور کریں تو وہ اصل منصوبے کے خدّوخال سمجھ سکتے ہیں۔
① ۔۔۔ اسرائیل کی پارلیمنٹ کی پیشانی پر یہ الفاظ کندہ ہیں: "اے اسرائیل! تیری سرحدیں نیل سے فرات تک ہیں۔" اس طرح اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جو دوسرے پر قبضے کا علی الاعلان ارادہ اور عزم رکھتا ہے، لیکن شور اس بات کا مچاتا ہے کہ اسے پڑوسی ممالک سے خطرہ ہے۔
② ۔۔۔ 6جون 1967ء کو اسرائیل نے بیت المقدس کے قدیم حصے پر قبضہ کیا تو اسرائیل کا صدرِ ریاست، وزیراعظم اور دوسرے وزراء جن کے پیش پیش اسرائیل کا سب سے بڑا یہودی مذہبی پیشوا تھا، جلد از جلد دیوارِ براق (دیوارِ گریہ) پہنچے اور اعلان کیا: "اب یثرب (مدینہ منورہ مراد ہے) جانے کا راستہ کھل گیا ہے۔"
③ ۔۔۔ پہلا اسرائیلی وزیرِاعظم کھلم کھلا کہتا تھا: "یروشلم کے بغیر اسرائیل کا کوئی مطلب نہیں اور ہیکل کے بغیر یروشلم کا کوئی مطلب نہیں۔"
ان تمام باتوں کا مطلب یہ ہے کہ دنیا عنقریب "مشرقِ وسطیٰ کے روڈ میپ" کے عقب میں سے خونریز معرکوں کو ابھرتا دیکھے گی، برطانیہ کے رہنے والے 21 سالہ مسلم نوجوان آصف محمد حنیف نے (یہ پہلا غیر فلسطینی نوجوان ہے جس نے تل ابیب کے ایک شراب خانے میں فدائی بمبار حملہ کرکے وفا و ایثار کی تاریخ میں تابناک باب کا اضافہ کیا ہے) یہود اور ان کے سرپرستوں کی صفوں میں کھلبلی مچادی ہے اور مسلمان نوجوانوں کو اپنے لہو سے پیغام دے دیا ہے کہ یہود جو کچھ بھی کرلیں، فدائی حملے ان کی تمام تر عیاری و مکاری کو روند ڈالنے کے لیے کافی ہیں۔
*اے نوجوانانِ مسلم! یہ دنیا تو آہستہ آہستہ کرکے ہم سے چھینی جارہی ہے، کیا اس چھینی ہوئی چیز کے پیچھے پڑ کر آخرت سے بھی محروم رہو گے؟؟؟ آصف محمد کے جسم کے خوبصورت چیتھڑے مسلمان نوجوانوں کو اقصیٰ کے حوالے سے ان کا فرض اور مشن یاد دلارہے ہیں، کاش! غیر فلسطینی نوجوان اس کام کی تکمیل کے لیے تیار ہو جائیں جس کا آغاز اس خوش نصیب نوجوان نے اپنے لہو کے چھینٹوں سے کیا ہے۔*
==================> جاری ہے ۔۔۔
''ماخوذ از: اقصیٰ کے آنسو''
مصنف: مفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب
ناقل: محمد احمد صارم
برطانیہ کو جنگ کے اخراجات کے لیے خطیر رقم درکار تھی اور یہاں یہودی اس کو بغیر گنے امداد کی پیشکش کررہے تھے، آخرکار ڈاکٹر مذکور نے 1917ء میں انگریزی حکومت سے وہ مشہور پروانہ حاصل کرلیا جو "اعلان بالفور" کے نام سے مشہور ہے، اس میں برطانیہ کی طرف سے جنگ کے اختتام پر یہودیوں کے لیے فلسطین میں ایک مملکت کا وعدہ کیا گیا تھا، یہ انگریزوں کی بد دیانتی کا شاہکار ہے کہ ایک طرف وہ عربوں کو یقین دلارہے تھے کہ ہم عربوں کی ایک خود مختار ریاست بنائیں گے اور اس غرض کے لیے انہوں نے شریف حسین کو تحریری وعدہ دیا تھا اور اسی وعدہ کی بنیاد پر عربوں نے ترکوں سے بغاوت کرکے فلسطین، عراق اور شام پر انگلستان کا قبضہ کروا دیا تھا، دوسری طرف وہی انگریز یہودیوں کو باقاعدہ یہ تحریر دے رہے تھے کہ ہم فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنائیں گے۔
یہ اتنی بڑی بےایمانی تھی کہ جب تک انگریز قوم دنیا میں موجود ہے وہ اپنی تاریخ کی پیشانی سے کلنک کے اس ٹیکے کو نہیں مٹاسکے گی، ڈاکٹر ویزمین کو اس کی خدمات کے صلے میں اسرائیلی ریاست کی پہلی کونسل کا صدر منتخب کیا گیا اور یہودی آج تک اسے اپنا محسن سمجھتے ہیں، ان دونوں ڈاکٹروں کی کہانی موجودہ حالات کو سمجھنے میں کافی مدد دیتی ہے۔
آج کل امریکا آزادی عراق کی مہم سے فارغ ہوتے ہی "مشرقِ وسطیٰ کے روڈ میپ" کی تشکیل میں جُت گیا ہے اور "تاحیات مجاہد" یاسر عرفات کا نائب تلاش کرکے فلسطینی مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، دنیا کے سادہ لوح مسلمانوں کی اکثریت اس گورکھ دھندے کی حقیقت نہیں سمجھ رہی اور نہ کوئی حجرہ نشین مولوی، دانشورانِ وقت کو یہ پیچیدہ حقیقت سمجھا سکتا ہے، البتہ چند باتیں ایسی ہیں جن پر اصحابِ فکر غور کریں تو وہ اصل منصوبے کے خدّوخال سمجھ سکتے ہیں۔
① ۔۔۔ اسرائیل کی پارلیمنٹ کی پیشانی پر یہ الفاظ کندہ ہیں: "اے اسرائیل! تیری سرحدیں نیل سے فرات تک ہیں۔" اس طرح اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جو دوسرے پر قبضے کا علی الاعلان ارادہ اور عزم رکھتا ہے، لیکن شور اس بات کا مچاتا ہے کہ اسے پڑوسی ممالک سے خطرہ ہے۔
② ۔۔۔ 6جون 1967ء کو اسرائیل نے بیت المقدس کے قدیم حصے پر قبضہ کیا تو اسرائیل کا صدرِ ریاست، وزیراعظم اور دوسرے وزراء جن کے پیش پیش اسرائیل کا سب سے بڑا یہودی مذہبی پیشوا تھا، جلد از جلد دیوارِ براق (دیوارِ گریہ) پہنچے اور اعلان کیا: "اب یثرب (مدینہ منورہ مراد ہے) جانے کا راستہ کھل گیا ہے۔"
③ ۔۔۔ پہلا اسرائیلی وزیرِاعظم کھلم کھلا کہتا تھا: "یروشلم کے بغیر اسرائیل کا کوئی مطلب نہیں اور ہیکل کے بغیر یروشلم کا کوئی مطلب نہیں۔"
ان تمام باتوں کا مطلب یہ ہے کہ دنیا عنقریب "مشرقِ وسطیٰ کے روڈ میپ" کے عقب میں سے خونریز معرکوں کو ابھرتا دیکھے گی، برطانیہ کے رہنے والے 21 سالہ مسلم نوجوان آصف محمد حنیف نے (یہ پہلا غیر فلسطینی نوجوان ہے جس نے تل ابیب کے ایک شراب خانے میں فدائی بمبار حملہ کرکے وفا و ایثار کی تاریخ میں تابناک باب کا اضافہ کیا ہے) یہود اور ان کے سرپرستوں کی صفوں میں کھلبلی مچادی ہے اور مسلمان نوجوانوں کو اپنے لہو سے پیغام دے دیا ہے کہ یہود جو کچھ بھی کرلیں، فدائی حملے ان کی تمام تر عیاری و مکاری کو روند ڈالنے کے لیے کافی ہیں۔
*اے نوجوانانِ مسلم! یہ دنیا تو آہستہ آہستہ کرکے ہم سے چھینی جارہی ہے، کیا اس چھینی ہوئی چیز کے پیچھے پڑ کر آخرت سے بھی محروم رہو گے؟؟؟ آصف محمد کے جسم کے خوبصورت چیتھڑے مسلمان نوجوانوں کو اقصیٰ کے حوالے سے ان کا فرض اور مشن یاد دلارہے ہیں، کاش! غیر فلسطینی نوجوان اس کام کی تکمیل کے لیے تیار ہو جائیں جس کا آغاز اس خوش نصیب نوجوان نے اپنے لہو کے چھینٹوں سے کیا ہے۔*
==================> جاری ہے ۔۔۔
''ماخوذ از: اقصیٰ کے آنسو''
مصنف: مفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب
ناقل: محمد احمد صارم