سیرت النبیﷺ
2.48K subscribers
12 photos
151 links
اسلامی و تاریخی اور سبق آموز احادیث، واقعات،حکایات پڑھنے کیلیَے یہ چینل جوائن کریں"فرقہ واریت سے بالاتر ہوکر.." مستند اسلامی واقعات , تاریخِ اسلامی سے واقفیت , علمی و ادبی اور تربیتی و اصلاحی پوسٹ کے حصول کے لئے یہ چینل تمام احباب ضرور جوائن کریں۔
Download Telegram
اغلاط العوام 15/12/2018

مسلمانوں میں آڑی مانگ نکالنے کا رواج گمراہ قوموں کی تقلید سے ہوا ہے ٬ لھذا اس کو ترک کرنا واجب ہے٬ مانگ سیدھی نکالنی چاھیۓ٬ کیوں کہ حدیث شریف سے حضور ﷺ کا سیدھی مانگ نکالنا ثابت ہے٬ اور جن امور میں رسول کریم ﷺ نےمرد اور عورت کے احکام میں فرق نہیں فرمایا اُن میں مرد اور عورت دونوں برابر ہیں٬


📚( المسائل المہمہ ج 5 ص 251)

منجانب: مدرسہ اِشاعت القرآن مسجد نظامیہ رحمت آباد مالیگاؤں
🍂🌿🍂🌿🌿🍂🌿🍂


#مسجد_نبوی_شریف_میں_جمعہ_کا_خطبہ


🔸 خطیب: فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ
🔹 تاریخ: 07 -ربیع الثانی 1440 هــ
🔸 عنوان: "دشمن انسان: نفس امارہ، دنیا داری اور شیطان"


💠 امام محترم نے فرمایا:

اللہ تعالی نے دنیاوی اور اخروی زندگی میں مسلمانوں کیلیے وعدے جبکہ کافروں کیلیے وعیدیں بتلائی ہیں اور یہ حرف بہ حرف پوری ہوں گی۔

دنیا میں مصیبتوں کے ذریعے آزمائش قانونِ الہی ہے اس سے کھرے اور کھوٹے میں فرق معلوم ہوتا ہے۔

🌹 انسان کے دشمنوں میں انسانی نفس، شیطان اور خالص دنیا داری شامل ہیں، اگر ہم ان کے متعلق اللہ تعالی کی تعلیمات کو مد نظر رکھیں تو ان کے منفی اثرات سے بچ سکتے ہیں، جس کیلیے سب سے پہلے ان تعلیمات کا شرعی علم ہونا از بس ضروری ہے، اس کے ساتھ اللہ تعالی سے دعائیں بھی کریں۔

🌱 شیطان انسان کو گمراہ کرنے کیلیے سات طریقے اپناتا ہے، اس سے بچاؤ کیلیے اللہ کی پناہ جیسا کوئی اکسیر نہیں۔

🌷 دنیا کے شر سے بچنے کیلیے حلال و حرام میں تمیز رکھیں اور حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد بھی پابندی سے ادا کریں.

🌹 آخر میں انہوں نے کہا کہ: عقلمند وہی ہے جو دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی تیاری کر لے۔

🌹 آخر میں سب مسلمانوں کیلیے جامع دعائیں فرمائیں۔

💐الله ان دعاؤں کو ہمارے حق میں بھی قبول فرمائے. آمین.


════ ¤❁✿❁¤ ════
اغلاط العوام 16/12/2018

آج کل فیشن کے طور پر بڑے بڑے ناخن رکھنے کا رواج بڑھتا جارہا ہے٬ جبکہ شریعتِ مقدسہ نے ناخن کاٹنے کو امورِ فطرت میں شمار کیا ہے٬ اور اس کے لۓ دن بھی مقرر کۓ ہیں٬ یعنی ھفتہ میں ایک بار کاٹنا مستحب٬ پندرہ دنوں کے بعد جائز٬ اور چالیس دن سے زیادہ تاخیر کرنا مکروہ ہے٬ جس کی وجہ سے انسان گناہ میں مبتلا ہوجاتا ہے٬ اس لۓ فیشن کے طور پر لمبے ناخن رکھنا مکروہ ہے٬


📚( المسائل المہمہ ج 5 ص 259)

منجانب: مدرسہ اِشاعت القرآن مسجد نظامیہ رحمت آباد مالیگاؤں
شیطان اولادِ آدم کو گمراہ کرنے کیلیے سات انداز اپناتا ہے:


[1] سب سے پہلے شیطان -اللہ کی پناہ- کفر کی دعوت دیتا ہے ، اگر انسان پہلے داؤ پر ہی اس کی دعوت قبول کر لے تو شیطان کا ہدف پورا ہو جاتا ہے اور شیطان اسے اپنی رذیل جماعت میں شامل کر لیتا ہے.

[2] لیکن اگر انسان اس کی بات نہ مانے تو پھر اسے بدعت کی دعوت دیتا ہے ، اگر انسان سنت نبوی اور کتاب و سنت پر کار بند رہتے ہوئے بدعات سے بچ جائے .

[3] تو شیطان اسے کبیرہ گناہوں کی دعوت دیتا ہے اور اس کیلیے کبیرہ گناہ خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے، پھر اسے توبہ نہیں کرنے دیتا ، اس پر انسان کبیرہ گناہوں کا دلدادہ بن جاتا ہے اور وہ مکمل طور پر گناہوں کی جکڑ میں آ کر ہلاک ہو جاتا ہے.

[4] اگر انسان کبیرہ گناہوں کی دعوت بھی قبول نہ کرے تو شیطان صغیرہ گناہوں کی دعوت دیتے ہوئے صغیرہ گناہوں کو معمولی بنا کر پیش کرتا ہے؛ چنانچہ انسان کے صغیرہ گناہوں پر اصرار اور تکرار کے باعث صغیرہ بھی کبیرہ کے برابر ہو جاتے ہیں اور انسان ہلاک ہو جاتا ہے؛ کیونکہ انسان ان گناہوں سے توبہ نہیں کرتا۔

[5] انسان اگر صغیرہ گناہوں سے بھی بچ جائے تو شیطان مباح چیزوں میں مگن رکھ کر دیگر نیکیوں سے دور رکھتا ہے، اسے مباح چیزوں میں اتنا مشغول کر دیتا ہے کہ آخرت اور نیکیوں کیلیے جد و جہد کا وقت ہی نہیں ملتا.

[6] اگر اس داؤ سے بھی انسان بچ نکلے تو انسان سے افضل کام چھڑوا کر غیر افضل کام کرواتا ہے تا کہ انسان کے اخروی اجر و ثواب میں کمی واقع ہو؛ کیونکہ نیکیوں کا ثواب یکساں نہیں ہوتا.

[7] اگر انسان اس مکاری سے بھی بچنے میں کامیاب ہو جائے تو شیطان اپنا لاؤ لشکر تکلیف دینے کیلیے مومن کے پیچھے لگا دیتا ہے ، جو کہ مومن کو انواع و اقسام کی تکلیفیں پہنچاتے ہیں۔

شیطان سے بچنے کا طريقہ:

🌱 انسان ہمیشہ شیطان کے شر سے تحفظ اور نجات کیلیے اللہ تعالی کی پناہ مانگے، دائمی طور پر اللہ تعالی کا ذکر کرے، نماز با جماعت کا اہتمام کرے؛ یہ اعمال شیطان سے تحفظ کیلیے قلعہ، جائے پناہ اور حرزِ جان کا مقام رکھتے ہیں، اسی طرح اللہ تعالی پر توکل اور شیطان کے خلاف دائمی جد و جہد، اسی طرح ظلم سے اجتناب بھی باعث نجات اعمال ہیں۔

🌹 فرمانِ باری تعالی ہے: { وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ} پھر اگر کسی وقت تمہیں کوئی شیطانی وسوسہ آنے لگے تو اللہ کی پناہ مانگو۔ وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ [فصلت: 36]
اغلاط العوام 17/12/2018

بعض لوگوں کی عادت یہ ہوتی ھیکہ جب ان کے سامنے گرم گرم کھانا لایا جاتا ہے تو وہ اس پر پھونک مار مار کر جلدی کھانے کی کوشش کرتے ہیں٬ ان کا یہ عمل خلافِ ادب ہے٬ ذرا صبر کرنا چاھیۓ٬ تاکہ کھانا زیادہ گرم نہ رہے٬ اور سھولت سے کھایا جاسکے٬ کیوں کہ آپ ﷺ نے کھانے کو ٹھنڈا کرکے کھانے کا حکم فرمایا ہے٬

📚( المسائل المہمہ ج 5 ص 264)

منجانب: مدرسہ اِشاعت القرآن مسجد نظامیہ رحمت آباد مالیگاؤں
اغلاط العوام 18/12/2018

کبھی کوئی مرغی٬ بکری یا گاۓ بیمار ہوتی ہے تو ان کے مالک یہ سوچ کر کہ اگر اس کو یوں ہی چھوڑ دیا جاتا ہے تو وہ مرجاۓ گی اور کسی کے منہ میں بھی نہ جاسکے گی٬ اِس لۓ اس کو ذبح کردیتے ہیں٬ اِس سلسلے میں یہ بات یاد رکھنی چاھیۓ کہ اس طرح کے جانور کو ذبح کرتے وقت اگر اتنا خون بہا جو صحت مند مرغی ٬ بکری یا گاۓ کا بہتا ہے یا بوقتِ ذبح اس نے حرکت کی تو وہ حلال ہے٬ اور اگر اتنا خون نہیں بہا یا اس نے کوئی حرکت نہیں کی تو اس کا کھانا جائز نہیں ہے٬

📚( المسائل المہمہ ج 5 ص 265)

منجانب: مدرسہ اِشاعت القرآن مسجد نظامیہ رحمت آباد مالیگاؤں
اغلاط العوام 19/12/2018

بعض لوگ یہ کہتے ھیکہ اسٹیل کے برتن میں کھانا پینا مکروہ ہے کیوں کہ وہ لوہا ہے٬ ان کی یہ بات صحیح نہیں ہے ٬ کیوں کہ حضراتِ فقھاء کرام نے تانبے اور پیتل کے برتنوں میں کھانے کو مکروہ لکھا ہے٬ اس کی علت یہ بیان فرمائی کہ اس کا زنگ کھانے میں شامل ہوجاتا ہے جو صحت کے لۓ مضر ہے٬ لیکن قلعی کرنے کے بعد ان کا استعمال بھی جائز ہے٬ رہے اسٹیل کے برتن تو ان میں یہ علت نہیں پائی جاتی٬ اس لۓ ان کا استعمال بلا کراھت درست ہے٬

📚( المسائل المہمہ ج 5 ص 268)

منجانب: مدرسہ اِشاعت القرآن مسجد نظامیہ رحمت آباد مالیگاؤں
⁠⁠⁠🍂🌿🍂🌿🌿🍂🌿🍂



🌺أيام بيض كے روزے🌺


💠 ایام بیض(روشن راتوں والے دن) كہتے ہیں اسلامی مہینوں (يعنی چاند كی) 13 ، 14 اور 15 تاریخیں.
یعنی جن راتوں میں چاند تقریبا پورا ہوتا ہے اور ساری رات جگمگاتا ہے، ان كے دن.

💡 ابن ملحان قیسی (عبدالملک بن قتادہ) اپنے والد ( قتادہ بن ملحان (رضی اللہ عنہ)) سے بیان کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم سے فرمایا کرتے تھے کہ ہم ایام بیض یعنی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کے روزے رکھا کریں، اور فرماتے كہ یہ پورے سال روزے ركھنے جیسا ہے.
(سنن ابی داؤد: 2449)

🔷 نوٹ: ہر مہینے تین روزے ركھنے كی فضیلت كے سلسلے میں بہت سی احادیث مروی ہیں.
🔶 مہینے كے یہ تین دن آپ اپنی سہولت سے بھی منتخب كر سكتے ہیں، (جیسا كہ مومنوں کی ماں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا كی حدیث (صحیح مسلم : 1160) سے معلوم ہوتا ہے۔)

🔦 لیكن افضل یہ ہے كہ یہ تین دن ایام بیض ہوں جیسا كہ یہاں مذكور حدیث اور دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔

💐 اللہ سبحانہ وتعالٰی ہم کو عمل کرنے کی توفیق دے آمین.


#تذکیر (یاددہانی)

•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
اغلاط العوام 20/12/2018

بعض لوگ سڑکوں پر لگی ہوئی سبیل یا مسجد میں رکھے ہوۓ کولر وغیرہ کا پانی کھڑے ہوکر پیتے ہیں٬ اُن کا یہ عمل مکروہ تنزیہی ہے٬ کیوں کہ پانی بیٹھ کر پینا چاھیۓ٬ ہاں اگر ازدحام اور بھیڑ کی وجہ سے بیٹھنے کی جگہ نہ ہو یا کیچڑ کی وجہ سے کپڑے خراب ہونے کا اندیشہ ہو یا اِسی قسم کا اور کوئی عذر ہو تو کھڑے ہوکر پینا بلا کراھت جائز ہوگا٬

📚( المسائل المہمہ ج 5 ص 269)

منجانب: مدرسہ اِشاعت القرآن مسجد نظامیہ رحمت آباد مالیگاؤں
🌹انتخاب حدیث🌹

انتخاب حدیث کے اس چینل میں نوے سے زیادہ موضوعات پر سینکڑوں احادیث کا انتخاب دستیاب ہے.

جوائن کریں & شیئر کریں 👈👇👇👇👇
@Urdu_Hadith
اغلاط العوام 21/12/2018

بسا اوقات آدمی اپنی بساط وطاقت سے زیادہ مہمان کے لۓ ضیافت میں تکلف کرتا ہے٬ شرعا اس کا یہ عمل درست نہیں ہے٬ بلکہ جو کچھ موجود ہو اور بآسانی دستیاب ہوجاۓ وھی مہمان کے سامنے حاضر کردے٬ جیسا کہ حضرت سلمان فارسیؓ فرماتے ہیں ٬٬ نھانا رسول ﷲ ﷺ ان نتکلف للضیف ٬٬ آپ ﷺ نے ھمیں مہمان کی خاطر کھانے میں تکلف کرنے سے منع فرمایا ہے٬ اور ویسے بھی شریعت ھر چیز میں سادگی و بےتکلفی کو پسند کرتی ہے٬

📚( المسائل المہمہ ج 5 ص 271)

منجانب: مدرسہ اِشاعت القرآن مسجد نظامیہ رحمت آباد مالیگاؤں
اغلاط العوام 22/12/2018

کھانے کے بعد میزبان کے گھر دیر تک بیٹھے رھنا جائز نہیں ہے٬ اس سے میزبان کو تکلیف ہوتی ہے٬ اور وہ اخلاق ومروت کی وجہ سے جانے کے لۓ کہنے سے حجاب محسوس کرتا ہے٬ ہاں اگر کسی اھم کام کے لۓ دیر تک بیٹھنے کی ضرورت ہو یا میزبان کے ساتھ ایسا خصوصی تعلق ہو کہ اس کی ایذا وتکلیف کا باعث نہ ہو تو دیر تک بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہے٬

📚( المسائل المہمہ ج 5 ص 272)

منجانب: مدرسہ اِشاعت القرآن مسجد نظامیہ رحمت آباد مالیگاؤں
🤷‍♂ کامِیاب شَوہر بَننے کی 10 تجاوِیز ________!!


- شریکِ حیات کے لیے زیبائِش اِختِیار کیجئے:

اپنی شریکِ حیات کے لیے خُوبصُورت لِباس زیبِ تَن کیجئے، خُوشبُو لگائیے۔ آپ آخری بار اپنی بِیوی کے لیے کَب بَنے سَنورے تھے؟ جیسے مَرد چاہتے ہیں کہ اُن کی بِیویاں اُن کے لیے زیبائِش اِختیار کریں اسی طرح خواتِین بھی یہ خواہش رکھتی ہیں کہ اُن کے شوہر بھی اُن کے لیے زیبائِش اختیار کریں۔ یاد رکھیئے کہ رَسُولُ اللّٰه صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ گھر لوٹتے وقت مِسواک استعمال کرتے اور ہمیشہ اچھی خُوشبو پسند فرماتے۔


- شریکِ حیات کےلئے خوبصورت نام کا چُناؤ:

اپنی شریکِ حیات کے لیے خُوبصُورت نام کا اِستعمال کیجئے۔ نَبِئ كَرِيم صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ اپنی ازواج کو ایسے ناموں سے پُکارتے جو اُنہیں بے حد پسند تھے۔ اپنی شریکِ حیات کو مَحبُوب ترِین نام سے پُکارئیے، اور ایسے ناموں سے اِجتِناب کیجئے جن سے اُن کے جذبات کو ٹهیس پہنچے۔


- خُوبِیوں کی قَدر کیجئے:

اپنی شریکِ حیات سے مَکهی جیسا برتاؤ مَت کیجئے۔ اپنی روز مرّہ زندگی میں ھم مَکهی کے بارے میں سوچتے بھی نہیں، یہاں تک کہ وہ ہمیں تَنگ کرے۔ اسی طرح بعض اوقات عَورت تمام دن اچھا کام کر کے بھی شوہر کی توجہ حاصل نہیں کر پاتی، یہاں تک کہ اُس کی کوئی غَلَطِی شوہر کا دھیان کھینچ لیتی ہے۔ ایسا برتاؤ مَت کیجئے، یہ غَلَط ہے۔ اُس کی خُوبِیوں کی قَدر کیجئے اور انہی خُوبِیوں پر توجہ مَرکُوز کیجئے۔


- غَلَطِیوں سے صَرفِ نَظَر کیجئے:

اگر آپ اپنی شریکِ حیات سے کوئی غلطی سَر زَد ہوتے دیکھیں تو دَرگُزَر کیجئے۔ یہی طریقہ نَبِئ كَرِيم صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ نے اپنایا کہ جب آپ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ نے ازواجِ مُطہرات سے کچھ غیر مَوزُوں ہوتے دیکھا تو آپ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ نے خاموشی اِختِیار کی۔ اس اَسلُوب میں بہت کم مسلمان مَرد ہی مہارت رکھتے ہیں۔


- شریکِ حیات کو دیکھ کر مُسکُرائیے:

جب بھی اپنی شریکِ حیات کو دیکھیں تو دیکھ کر مُسکُرا دیجئے اور اکثر گَلے لگائیے۔ مُسکُرانا صَدقہ ہے اور آپ کی شریکِ حیات اُمَّتِ مُسلِمَہ سے الگ نہیں ہے۔ تصور کیجیے کہ آپ کی شریکِ حیات آپ کو ہمیشہ مُسکُراتے ہوۓ دیکھے تو آپ کی زندگی کیسی گزرے گی؟ اُن احادِيثِ نَبوِي صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ کو یاد کیجیے کہ جب رَسُولُ اللّٰه صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ نماز کے لیے جانے سے پہلے اپنی زوجہ کو بَوسہ دیتے جبکہ آپ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ روزہ کی حالت میں ہوتے۔


- شُکریہ ادا کیجئے:

وہ تمام کام جو آپ کی شریکِ حیات آپ کے لیے کرتی ہیں اُن سب کے لیے اُن کا شُکریہ ادا کیجئے۔ بار بار شُکریہ ادا کیجئے، مِثال کے طور پر گھر پر رات کا کھانا۔ وہ آپ کے لیے کھانا بناتی ہے، گھر صاف کرتی ہے، اور درجنوں دوسرے کام۔ اور بعض اوقات واحد ”تَعرِیف“ جس کی وہ مُستَحِق قرار پاتی ہے وہ یہ کہ ”آج سالَن میں نَمَک کَم تها“ خُدارا... ایسا مَت کیجئے۔ اُس کے احسان مَند رہیئے۔


- شریکِ حیات کو خُوش رکهیئے:

اپنی شریکِ حیات سے کہیئے کہ وہ ایسی 10 باتوں سے متعلق آگاہ کرے جو آپ نے اُس کے لیے کِیں اور وہ چیزیں اُس کی خُوشی کا باعث بَنیں۔ پھر آپ ان چیزوں کو اپنی شریکِ حیات کے لیے دُہرائیے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ جاننا مشکل ہو کہ کیا چیز اُسے خُوشی دے سکتی ہے۔ آپ اس بارے میں خود سے قیاس مَت کیجیے، براہِ راست اپنی شریکِ حیات سے معلوم کیجیے اور ایسے لمحوں کو اپنی زندگی میں بار بار دُہراتے رہیئے۔


- آرام کا خیال رکهیئے:

اپنی شریکِ حیات کی خواہِشات کو کَم مَت جانِيئے۔ اُسے آرام پہنچائیے۔ بعض اوقات شوہر اپنی بِیویوں کی خواہِشات کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ھیں۔ ایسا مَت کیجئے۔ نَبِئ كَرِيم صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ نے اس واقعے میں ہمارے لیے مثال قائم کر دی کہ ”اُمُّ الْمُؤمِنِين سَيَّده صفیہ رَضِي اَللّٰهُ تَعٰالىٰ عَنهُا رَو رہی تِهیں، اُنہوں نے اس کی وجہ یہ بیان کی کہ آپ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ نے اُنہیں ایک سُست رفتار اُونٹ پر سوار کروا دِیا تھا۔ آپ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ نے اُن کے آنسُو پونچے، اُن کو تَسَلی دِی، اور اُنہیں (نیا) اُونٹ لاکر دِیا۔“


- مزاح کیجئے:

اپنی شریکِ حیات سے مزاح کیجئے اور اس کا دِل بہلائیے۔ دیکهيئے کہ کیسے رَسُولُ اللّٰه صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ اُمُّ الْمُؤمِنِين سَیَّده عَائِشَہ صِدِّیقَہ رَضِي اَللّٰهُ تَعٰالىٰ عَنہَا کے ساتھ صحرا میں دوڑ لگاتے تھے؟ آپ نے اس طرح کی کوئی بات اپنی بِیوی کے ساتھ آخری مرتبہ کَب کی..؟
اغلاط العوام 23/12/2018

بعض اردو عربی اخباروں کے ہاکرس (گھوم پھر کر اخبار بیچنے والے) صبح سویرے اپنے گاہکوں کے گھروں میں اخباروں کو پھینکتے ہوۓ جاتے ہیں٬ جبکہ ان اخباروں میں قرآنی آیات اور احادیثِ مبارکہ بھی لکھی ہوتی ہیں٬ گرچہ یہ بات مُسلّم ھیکہ اخبارات کا وہ حکم نہیں ہے جو قرآن کریم ٬ احادیث اور متبرک کلمات پر مشتمل کتابوں کا ہے٬ تاھم اخبارات میں بھی اسماء الہیہ اور قرآنی آیات کے تراجم اور احادیث ہوتی ہیں٬اس لۓ حتی الامکان ایسی صورت اختیار کرنی چاھیۓ کہ اسماء الہیہ کی بے ادبی نہ ہو٬ اور اس کی ایک صورت یہ بھی ھیکہ متعلق شخص کے مشورے سے ایک جگہ متعین کرلی جاۓ جہاں ہاکرس ان اخباروں کو رکھ کر چلے جایا کرے اور بعد میں وہ حسبِ سھولت اٹھا لیا کریں٬

📚( المسائل المہمہ ج 5 ص 276)

منجانب: مدرسہ اِشاعت القرآن مسجد نظامیہ رحمت آباد مالیگاؤں
اغلاط العوام 24/12/2018

بعض تعلیمی ادارے تجارتی کمپنیاں اور کتب فروش حضرات سال کے آغاز میں اسلامی کیلینڈر شائع کرتے ہیں اور ان کیلنڈروں پر جَلی حرفوں میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ قرآنی آیات کو بھی چھپواتے ہیں٬ جو نہ صرف جائز بلکہ تبلیغ دین کا بڑا ذریعہ بھی ہے٬ مگر ان کیلنڈروں کا حال سب جانتے ہیں کہ جب ان کا استعمال باقی نہیں رھتا تو وہ کوڑے کرکٹ٬ نالیوں اور گندگیوں میں پڑے نظر آتے ہیں٬ یا پھر چولہوں میں جلا دۓ جاتے ہیں٬ جبکہ یہ صورتِ حال یقینا احترامِ قرآن کریم کے خلاف اور موجب وبال ہے٬ اس کی اصلاح اور روک تھام کی فکر بہت ضروری ہے٬ اس لۓ بہتر یہی ھیکہ کیلنڈروں پر قرآنی آیات نہ چھپوائی جائیں٬ لیکن اگر چھپوائی گئیں تو ان کے احترام کا پورا پورا خیال رکھا جاۓ٬

📚( المسائل المہمہ ج 5 ص 277)

منجانب: مدرسہ اِشاعت القرآن مسجد نظامیہ رحمت آباد مالیگاؤں__
اغلاط العوام 25/12/2018

بعض لوگ اپنے بچوں کے نام فرشتوں کے نام پر رکھتے ہیں٬ جیسے جبرئیل ٬ عزرائیل ٬ میکائیل اور اسرافیل وغیرہ جبکہ آپ ﷺ نے فرشتوں کے نام پر اپنے بچوں کے نام رکھنے سے منع فرمایا ہے٬ چنانچہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے ٬٬ سمّوا بأسماء الأنبیاء ولا تسمّوا بأسماء الملائکۃ ٬٬ کہ تم اپنے بچوں کے نام انبیاء کے نام پر رکھو فرشتوں کے نام پر مت رکھو٬ لھذا اس طرح کے نام رکھنے سے پرھیز کیا جاۓ٬

( المسائل المہمہ ج 5 ص 282)

منجانب: مدرسہ اِشاعت القرآن مسجد نظامیہ رحمت آباد مالیگاؤں
اغلاط العوام 26/12/2018

بعض لوگ کسی بچے کے مسلسل بیمار رھنے پر اس کا نام تبدیل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں یہ محض توھم پرستی ہے٬ کیوں کہ بیماری وصحت کا تعلق ناموں کے ساتھ نہیں بلکہ قضا وقدر سے ہے٬ البتہ اتنی بات ضرور ھیکہ اپنے بچوں کے نام انبیاء علیھم السلام صحابہ کرام اور صحابیات کے ناموں پر رکھیں٬ اس لۓ کہ کل قیامت کے دن انہی ناموں سے پکارا جائیگا٬ اور اگر ایسا نام رکھا گیا جس کا معنی ومطلب درست نہیں ہے تو اسے تبدیل کردے٬ جیسا کہ آپ ﷺ نے ایک خاتون جس کا نام عاصیہ تھا بدل کر جمیلہ رکھا٬ عاصیہ کے معنی نافرمانی کرنے والی اور جمیلہ کے معنی ہیں خوبصورت٬

📚( المسائل المہمہ ج 5 ص 284)

منجانب: مدرسہ اِشاعت القرآن مسجد نظامیہ رحمت آباد مالیگاؤں
💑 خُوشگوار ”شَادِى شُده“ زِندگى كا مُؤثِّر و مُجَرَّب نُسخہ _!!

👈 خَواتِين كيلِئے ناياب تحرِير _!!

💖 بِیوی کا عاشِق:


کسی جگہ ایک بُوڑهی مگر سَمجهدار عورت رہتی تھی جس کا خاوَند اُس سے بہت زياده پیار کرتا تھا۔ دونوں میں مَحَبَّت اس قدر شَدِید تھی کہ اُس کا خاوند اُس کیلئے مَحَبَّت بَهری شاعِری کرتا تھا۔ عُمر جتنی زیاده ہو رہی تھی، باہِمی مَحَبَّت اور خُوشی اُتنی ہی زیادہ بڑھ رہی تھی۔ جب اس عورت سے اُس کی دائِمی مَحَبَّت اور خُوشِیوں بَهری زندگی کا راز پوچھا گیا کہ آیا وہ بہت ماہِر کهانا پکانے والی ہے؟ یا وہ بہت ہی حَسِین و جَمِیل ہے؟ یا وہ بہت زیادہ بَچّے پیدا کرنے والی عورت رہی ہے؟ یا اس مَحَبَّت کا کوئی اور راز ہے؟

تو عورت نے یُوں جواب دِیا کہ...
خُوشِیوں بَهری زندگی کے اَسباب اَللّٰه سُبحٰانَهُ وَتَعٰالىٰ کی ذات کے بعد خُود عَورت کے اپنے ہاتهوں میں ہیں۔ اگر عورت چاہے تو وہ اپنے گهر کو جَنَّت کی چهاؤں بناسکتی ہے، اور اگر یہی عورت چاہے تو اپنے گهر کو جَہَنَّم کی دہکتی ہُوئی آگ سے بھی بَهر سکتی ہے۔ مَت سوچِیئے کہ مال و دولت خوشیوں کا ایک سبب ہے۔ تاریخ کتنی مال دار عورتوں کی کہانیوں سے بھری پڑی ہے جن کے خاوند اُن کو اُن کے مال و مَتاع سمیت چَهوڑ کر کِناره کَش ہو گئے۔ اور نہ ہی بہت زیادہ بَچّے پیدا کرنے والی عورت ہونا کوئی خُوبی ہے۔ کئی عورتوں نے دَرجَن بَهر بچے پیدا کِئے مگر نہ خاوند اُن کے مَشکُور ہُوئے اور نہ ہی وہ اپنے خاوندوں سے کوئی خُصُوصِی اِلتِفات و مَحَبَّت پا سکِیں، بلکہ طَلاق تک نَوبتیں جا پہنچِیں۔ اچهے کهانے پکانا بھی کوئی خُوبی نہیں، سارا دن کِچن میں رہ کر، مزے مزے کے کھانے پَکا کر بھی عورتیں خاوند کے غَلَط مُعامَلہ کی شِکایَت کرتی نظر آتی ہیں، اور خاوند کی نظروں میں اپنی کوئی عِزَّت نہیں بنا پاتِیں۔

تو پھر آپ ہی بتا دیں اس پُر سَعادَت اور خُوشِیوں بَهری زندگی کا کیا راز ہے؟ اور آپ اپنے اور خاوند کے درمیان پیش آنے والے مَسائِل و مُشاکِل سے کِس طرح نِپٹا کرتی تھیں؟

اُس نے جواب دِیا:
جس وقت میرا خاوند غُصّے میں آتا تھا اور بِلاشُبہ میرا خاوند بہت ہی غُصِیلا آدمی تھا، میں اُن لمحات میں (نہایت ہی اِحتِرام کے ساتھ) مُکَمَّل خاموشی اِختِیار کر لِیا کرتی تھی۔ یہاں ایک بات واضح کر دُوں کہ اِحتِرام کے ساتھ خاموشی کا یہ مطلب ہے کہ آنکھوں سے حِقارَت و نَفرَت نہ جَهلَک رہی ہو، اور نہ ہی مَذاق و سخریہ پَن دکھائی دے رہا ہو۔ آدمی بہت عَقلمَند ہوتا ہے، ایسی صورتِ حال اور ایسے معاملے کو فوراً بهانپ لِیا کرتا ہے۔

اچھا تو آپ ایسی صورتِ حال میں کمرے سے باہِر کیوں نہیں چلی جایا کرتی تھیں؟

اُس نے کہا:
خَبَردار! ایسی حرکت مَت کرنا، اس سے تو ایسا لگے گا تم اُس سے فَرار چاہتی ہو اور اُس کا نُقطۂ نَظَر نہیں جاننا چاہتی. خاموشی تو ضُرُوری ہے ہی، اس کے ساتھ ساتھ خاوند جو کچھ کہے اُسے نہ صرف یہ کہ سُننا بلکہ اُس کے کہے سے اِتِّفاق کرنا بھی اُتنا ہی اَشد ضُرُوری ہے۔ میرا خاوند جب اپنی باتیں پُوری کر لیتا تو میں کمرے سے باہِر چلی جایا کرتی تھی، کیونکہ اس ساری چِیخ و پُکار اور شَور شَرابے والی گُفتگُو کے بعد میں سمجھتی تھی کہ اُسے آرام کی ضرورت ہوتی تھی۔ کمرے سے باہر نکل کر میں اپنے روزمرّہ کے گھریلو کام کاج میں مَشغُول ہو جاتی تھی؛ بچوں کے کام کرتی، کھانا پکانے اور کپڑے دھونے میں وقت گزارتی، اور اپنے دِماغ کو اُس جَنگ سے دُور بَهگانے کی کوشش کرتی جو میرے خاوند نے میرے ساتھ کی تھی۔

تو آپ اس ماحول میں کیا کرتی تھیں؟ کئی دنوں کیلئے لا تَعَلُّقِی اِختِیار کر لینا اور خاوند سے ہفتہ دَس دن کیلئے بَول چال چَهوڑ دینا وغیرہ؟

اُس نے کہا:
نہیں! ہَرگِز نہیں، بول چال چَهوڑ دینے کی عادت اِنتِہائی گَهٹِیا فعل اور خاوند کے ساتھ تعلقات کو بِگاڑنے کیلئے دَو رُخِی تَلوار کی مانِند ہے۔ اگر تم اپنے خاوند سے بولنا چَهوڑ دیتی ہو تو ہو سکتا ہے شروع شروع میں اُس کیلئے یہ بہت ہی تکلِیف دَه عمل ہو۔ شروع میں وہ تم سے بولنا چاہے گا اور بولنے کی کوشش بھی کرے گا، لیکن جس طرح دن گزرتے جائیں گے وہ اِس کا عادی ہوتا چلا جائے گا۔ تم ایک ہفتہ کیلئے بولنا چَهوڑو گی تو اُس میں تم سے دَو ہفتوں تک نہ بولنے کی اِستِعداد آ جائے گی، اور ہو سکتا ہے کہ تُمہارے بَغیر بهی رہنا سِیکھ لے۔ خاوند کو ایسی عادت ڈال دو کہ وه تُمہارے بَغیر اپنا دَم گُهٹتا ہُوا محسوس کرے؛ گویا تم اُس کیلئے آکسِیجن کی مانِند ہو، اور تم وہ پانی ہو جس کو پِی کر وہ زِنده رہ رہا ہے۔ اگر ہَوا بننا ہے تو ٹَهنڈی اور لَطِیف ہَوا بَنو، نہ کہ گَرد آلُود اور تَیز آندِهی۔

اُس کے بعد آپ کیا کِیا کرتی تھیں؟

اُس عورت نے کہا:
میں دو گهنٹوں یا اس سے کچھ زیادہ دير کے بعد جُوس کا ایک گِلاس یا پھر گَرم چائے کا ایک کَپ بنا کر اُس کے پاس جاتی، اور اُسے نہایت ہی سَلِیقے سے کہتی، ”لِیجِئے، چائے پِیجِئے!“
مجھے یَقِین ہوتا تھا کہ وہ اس لمحے اس چائے یا جُوس کا مُتَمَنِّی ہوتا تھا۔ میرا یہ عَمَل اور اپنے خاوند کے ساتھ گُفتگُو اس طرح ہوتی تھی کہ گویا ہمارے درمیان کوئی غُصّے یا لڑائی والی بات ہُوئی ہی نہیں۔ جبکہ اب میرا خاوند ہی مجھ سے بار بار پُوچهتا تھا کہ کیا میں اُس سے ناراض تو نہیں؟ جبکہ میرا ہر بار اُس سے یہی جواب ہوتا تھا کہ نہیں میں تو ہَرگِز ناراض نہیں ہُوں۔ اس کے بعد وہ ہمیشہ اپنے دُرُشت رَوَیّے کی مَعذِرَت کرتا تھا اور مجھ سے گهنٹوں پیار بَهری باتیں کرتا تھا۔

تو کیا آپ اُس کی ان پیار بَهری باتوں پر یَقِین کر لیتی تھیں؟

ہاں! بِالکُل، میں اُن باتوں پر بِالکُل یَقِین کرتی تھی۔ میں جاہِل نہیں ہُوں! کیا تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ میں اپنے خاوند کی اُن باتوں پر تو یَقِین کر لُوں جو وہ مجھ سے غُصّے میں کہہ ڈالتا تھا، اور اُن باتوں پر یَقِین نہ کروں جو وہ مجھ سے پُر سُکُون حالت میں کرتا تھا؟

تو پھر آپ کی ”عِزَّت“ اور ”عِزَّتِ نَفس“ کہاں گئی؟

کاہے کی ”عِزَّت“ اور کون سی ”عِزَّتِ نَفس؟“ کیا ”عِزَّت“ اسی کا نام ہے کہ تم غُصّے میں آئے ہُوئے ایک شخص کی تَلخ و تُرش باتوں پر تو یَقِین کر کے اُسے اپنی ”عِزَّتِ نَفس“ کا مَسئلہ بنا لو، مگر اُس کی اُن باتوں کو کوئی اَہمِیَّت نہ دو، جو وہ تمہیں پیار بَهرے اور پُر سُکُون ماحول میں کہہ رہا ہے؟ میں فوراً ہی غُصّے کی حالت میں دِی ہُوئی گالِیوں اور تَلخ و تُرش باتوں کو بُهلا کر اُن کی مَحَبَّت بَهری اور مُفِید باتوں کو غَور سے سُنتِی تهی۔

جِی ہاں! خُوشگوار اور مَحَبَّت بَهری زندگی کا راز عورت کی عَقل ميں مَوجُود تو ہے، مگر یہ راز اُس کی زَبان سے بَندها ہُوا ہے۔
اغلاط العوام 27/12/2018

کبھی گھروں میں چوہے بہت زیادہ ہوجاتے ہیں٬ اور گھروں میں موجود غلّہ جات اور دیگر اسباب وسامان کو کافی نقصان پہنچاتے ہیں٬ تو ایسی صورت میں ان کو زھر دیکر مارنا ٬ یا ویسے ھی ماردینا دونوں صورتیں درست ہے٬

📚( المسائل المہمہ ج 5 ص 301)

منجانب: مدرسہ اِشاعت القرآن مسجد نظامیہ رحمت آباد مالیگاؤں