#سال نو (نظم)
یہ کس نے فون پہ دی سال نو کی تہنیت مجھ کو
تمنا رقص کرتی ہے تخیل گنگناتا ہے
تصور اک نئے احساس کی جنت میں لے آیا
نگاہوں میں کوئی رنگین چہرہ مسکراتا ہے
جبیں کی چھوٹ پڑتی ہے فلک کے ماہ پاروں پر
ضیا پھیلی ہوئی ہے سارا عالم جگمگاتا ہے
شفق کے نور سے روشن ہیں محرابیں فضاؤں کی
ثریا کی جبیں زہرہ کا عارض تمتماتا ہے
پرانے سال کی ٹھٹھری ہوئی پرچھائیاں سمٹیں
نئے دن کا نیا سورج افق پر اٹھتا آتا ہے
زمیں نے پھر نئے سر سے نیا رخت سفر باندھا
خوشی میں ہر قدم پر آفتاب آنکھیں بچھاتا ہے
ہزاروں خواہشیں انگڑائیاں لیتی ہیں سینے میں
جہان آرزو کا ذرہ ذرہ گنگناتا ہے
امیدیں ڈال کر آنکھوں میں آنکھیں مسکراتی ہیں
زمانہ جنبش مژگاں سے افسانے سناتا ہے
مسرت کے جواں ملاح کشتی لے کے نکلے ہیں
غموں کے ناخداؤں کا سفینہ ڈگمگاتا ہے
خوشی مجھ کو بھی ہے لیکن میں یہ محسوس کرتا ہوں
مسرت کے اس آئینے میں غم بھی جھلملاتا ہے
ہمارے دور محکومی کی مدت گھٹتی جاتی ہے
غلامی کے زمانے میں اضافہ ہوتا جاتا ہے
یہی انداز گر باقی ہیں اپنی سست گامی کے
نہ جانے اور کتنے سال آئیں گے غلامی کے
علی سردار جعفری
@Rekhta
یہ کس نے فون پہ دی سال نو کی تہنیت مجھ کو
تمنا رقص کرتی ہے تخیل گنگناتا ہے
تصور اک نئے احساس کی جنت میں لے آیا
نگاہوں میں کوئی رنگین چہرہ مسکراتا ہے
جبیں کی چھوٹ پڑتی ہے فلک کے ماہ پاروں پر
ضیا پھیلی ہوئی ہے سارا عالم جگمگاتا ہے
شفق کے نور سے روشن ہیں محرابیں فضاؤں کی
ثریا کی جبیں زہرہ کا عارض تمتماتا ہے
پرانے سال کی ٹھٹھری ہوئی پرچھائیاں سمٹیں
نئے دن کا نیا سورج افق پر اٹھتا آتا ہے
زمیں نے پھر نئے سر سے نیا رخت سفر باندھا
خوشی میں ہر قدم پر آفتاب آنکھیں بچھاتا ہے
ہزاروں خواہشیں انگڑائیاں لیتی ہیں سینے میں
جہان آرزو کا ذرہ ذرہ گنگناتا ہے
امیدیں ڈال کر آنکھوں میں آنکھیں مسکراتی ہیں
زمانہ جنبش مژگاں سے افسانے سناتا ہے
مسرت کے جواں ملاح کشتی لے کے نکلے ہیں
غموں کے ناخداؤں کا سفینہ ڈگمگاتا ہے
خوشی مجھ کو بھی ہے لیکن میں یہ محسوس کرتا ہوں
مسرت کے اس آئینے میں غم بھی جھلملاتا ہے
ہمارے دور محکومی کی مدت گھٹتی جاتی ہے
غلامی کے زمانے میں اضافہ ہوتا جاتا ہے
یہی انداز گر باقی ہیں اپنی سست گامی کے
نہ جانے اور کتنے سال آئیں گے غلامی کے
علی سردار جعفری
@Rekhta
The renowned Urdu Shayar #AnwarJalalpuri has passed away. Our condolences and prayers are with his family and friends. #RIP
@Rekhta
@Rekhta
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
ज़माना बड़े शौक़ से सुन रहा था
हमीं सो गए दास्ताँ कहते कहते
#SaqibLakhnavi #BirthAnniversary
@Rekhta
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
ज़माना बड़े शौक़ से सुन रहा था
हमीं सो गए दास्ताँ कहते कहते
#SaqibLakhnavi #BirthAnniversary
@Rekhta
Rekhta
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے ज़माना बड़े शौक़ से सुन रहा था हमीं सो गए दास्ताँ कहते कहते #SaqibLakhnavi #BirthAnniversary @Rekhta
ثاقب لکھنوی (تعارف)
نام میرزا ذاکر حسین قزلباش ، تخلص ثاقب۔ ۲؍جنوری۱۸۶۹ء کو اکبر آباد میں پیدا ہوئے۔ میرزا کی ولادت کو تقریباً چھ ماہ کا عرصہ گزرا تھا کہ ان کے والد نامساعد حالات کی بنا پر اکبرآباد چھوڑ کر مستقل طور پر لکھنؤ میں سکونت اختیار کرلی۔میرزا کی ابتدائی تعلیم قدیم اسلوب پر ہوئی۔ انگریزی تعلیم کے لیے آگرہ بھیجے گئے جہاں تقریباً چار سال قیام رہا۔ وہیں میر مومن حسین صفی کی صحبت میں ان کی شاعرانہ اہلیت بروئے کار آئی۔ پہلے تجارت شروع کی، مگر ناکام رہے۔ ۱۹۰۸ء میں کلکتہ میں ایران کے سفیر کے پرائیوٹ سکریٹری مقرر ہوئے۔ ۱۹۰۸ء ہی میں ریاست محمود آباد میں میر منشی کے عہدے پر مامور ہوئے ۔ ۲۴؍نومبر ۱۹۴۶ء کو لکھنؤ میں انتقال کرگئے۔ایک دیوان ان کی یادگار ہے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:251
@Rekhta
نام میرزا ذاکر حسین قزلباش ، تخلص ثاقب۔ ۲؍جنوری۱۸۶۹ء کو اکبر آباد میں پیدا ہوئے۔ میرزا کی ولادت کو تقریباً چھ ماہ کا عرصہ گزرا تھا کہ ان کے والد نامساعد حالات کی بنا پر اکبرآباد چھوڑ کر مستقل طور پر لکھنؤ میں سکونت اختیار کرلی۔میرزا کی ابتدائی تعلیم قدیم اسلوب پر ہوئی۔ انگریزی تعلیم کے لیے آگرہ بھیجے گئے جہاں تقریباً چار سال قیام رہا۔ وہیں میر مومن حسین صفی کی صحبت میں ان کی شاعرانہ اہلیت بروئے کار آئی۔ پہلے تجارت شروع کی، مگر ناکام رہے۔ ۱۹۰۸ء میں کلکتہ میں ایران کے سفیر کے پرائیوٹ سکریٹری مقرر ہوئے۔ ۱۹۰۸ء ہی میں ریاست محمود آباد میں میر منشی کے عہدے پر مامور ہوئے ۔ ۲۴؍نومبر ۱۹۴۶ء کو لکھنؤ میں انتقال کرگئے۔ایک دیوان ان کی یادگار ہے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:251
@Rekhta
کب ٹھہرے گا درد اے دل، کب رات بسر ہو گی
سنتے تھے وہ آئیں گے، سنتے تھے سحر ہو گی
کب جان لہو ہو گی، کب اشک گہر ہو گا
کس دن تری شنوائی اے دیدہ تر ہو گی
کب مہکے گی فصلِ گل، کب بہکے گا میخانہ
کب صبحِ سخن ہو گی، کب شامِ نظر ہو گی
واعظ ہے نہ زاہد ہے، ناصح ہے نہ قاتل ہے
اب شہر میں یاروں کی کس طرح بسر ہو گی
کب تک ابھی رہ دیکھیں اے قامتِ جانانہ
کب حشر معیّن ہے تجھ کو تو خبر ہو گی
فیض احمد فیضؔ
@Rekhta
سنتے تھے وہ آئیں گے، سنتے تھے سحر ہو گی
کب جان لہو ہو گی، کب اشک گہر ہو گا
کس دن تری شنوائی اے دیدہ تر ہو گی
کب مہکے گی فصلِ گل، کب بہکے گا میخانہ
کب صبحِ سخن ہو گی، کب شامِ نظر ہو گی
واعظ ہے نہ زاہد ہے، ناصح ہے نہ قاتل ہے
اب شہر میں یاروں کی کس طرح بسر ہو گی
کب تک ابھی رہ دیکھیں اے قامتِ جانانہ
کب حشر معیّن ہے تجھ کو تو خبر ہو گی
فیض احمد فیضؔ
@Rekhta
کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں، کب ہات میں تیرا ہات نہیں
صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں
مشکل ہے اگر حالات وہاں، دل بیچ آئیں جاں دے آئیں
دل والو کوچہء جاناں میںکیا ایسے بھی حالات نہیں
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان توآنی جانی ہے ، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
میدانِ وفا دربار نہیں یاں نام و نسب کی پوچھ کہاں
عاشق تو کسی کا نام نہیں، کچھ عشق کسی کی ذات نہیں
گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گرجیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں
فیض احمد فیضؔ
@Rekhta
صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں
مشکل ہے اگر حالات وہاں، دل بیچ آئیں جاں دے آئیں
دل والو کوچہء جاناں میںکیا ایسے بھی حالات نہیں
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان توآنی جانی ہے ، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
میدانِ وفا دربار نہیں یاں نام و نسب کی پوچھ کہاں
عاشق تو کسی کا نام نہیں، کچھ عشق کسی کی ذات نہیں
گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گرجیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں
فیض احمد فیضؔ
@Rekhta
دوستی عام ہے لیکن اے دوست
دوست ملتا ہے بڑی مشکل سے
दोस्ती आम है लेकिन ऐ दोस्त
दोस्त मिलता है बड़ी मुश्किल से
#HafeezHoshiarpuri #BirthAnniversary
حفیظؔ ہوشیارپوری (یوم پیدائش)
@Rekhta
دوست ملتا ہے بڑی مشکل سے
दोस्ती आम है लेकिन ऐ दोस्त
दोस्त मिलता है बड़ी मुश्किल से
#HafeezHoshiarpuri #BirthAnniversary
حفیظؔ ہوشیارپوری (یوم پیدائش)
@Rekhta